(حديث مرفوع) حدثنا ابو احمد محمد بن عبد الله بن الزبير ، حدثنا سفيان ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن ابي ربيعة ، عن زيد بن علي ، عن ابيه ، عن عبيد الله بن ابي رافع ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة، فقال:" هذا الموقف، وعرفة كلها موقف"، وافاض حين غابت الشمس، ثم اردف اسامة، فجعل يعنق على بعيره، والناس يضربون يمينا وشمالا، يلتفت إليهم، ويقول:" السكينة ايها الناس"، ثم اتى جمعا فصلى بهم الصلاتين: المغرب والعشاء، ثم بات حتى اصبح، ثم اتى قزح، فوقف على قزح، فقال:" هذا الموقف، وجمع كلها موقف"، ثم سار حتى اتى محسرا، فوقف عليه، فقرع ناقته، فخبت حتى جاز الوادي، ثم حبسها، ثم اردف الفضل، وسار حتى اتى الجمرة فرماها، ثم اتى المنحر، فقال:" هذا المنحر، ومنى كلها منحر"، قال: واستفتته جارية شابة من خثعم، فقالت: إن ابي شيخ كبير قد افند، وقد ادركته فريضة الله في الحج، فهل يجزئ عنه ان اؤدي عنه؟ قال:" نعم، فادي عن ابيك"، قال: وقد لوى عنق الفضل، فقال له العباس: يا رسول الله، لم لويت عنق ابن عمك؟ قال:" رايت شابا وشابة فلم آمن الشيطان عليهما"، قال: ثم جاءه رجل، فقال: يا رسول الله، حلقت قبل ان انحر؟ قال:" انحر ولا حرج"، ثم اتاه آخر، فقال: يا رسول الله، إني افضت قبل ان احلق؟ قال:" احلق، او قصر ولا حرج"، ثم اتى البيت فطاف به، ثم اتى زمزم، فقال:" يا بني عبد المطلب، سقايتكم، ولولا ان يغلبكم الناس عليها لنزعت بها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ"، وَأَفَاضَ حِينَ غَابَتْ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَرْدَفَ أُسَامَةَ، فَجَعَلَ يُعْنِقُ عَلَى بَعِيرِهِ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، ثُمَّ أَتَى جَمْعًا فَصَلَّى بِهِمْ الصَّلَاتَيْنِ: الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، ثُمَّ بَاتَ حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ أَتَى قُزَحَ، فَوَقَفَ عَلَى قُزَحَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ"، ثُمَّ سَارَ حَتَّى أَتَى مُحَسِّرًا، فَوَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَرَعَ نَاقَتَهُ، فَخَبَّتْ حَتَّى جَازَ الْوَادِيَ، ثُمَّ حَبَسَهَا، ثُمَّ أَرْدَفَ الْفَضْلَ، وَسَارَ حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا، ثُمَّ أَتَى الْمَنْحَرَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَنْحَرُ، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ"، قَالَ: وَاسْتَفْتَتْهُ جَارِيَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ قَدْ أَفْنَدَ، وَقَدْ أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ، فَهَلْ يُجْزِئُ عَنْهُ أَنْ أُؤَدِّيَ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ، فَأَدِّي عَنْ أَبِيكِ"، قَالَ: وَقَدْ لَوَى عُنُقَ الْفَضْلِ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ:" رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنْ الشَّيْطَانَ عَلَيْهِمَا"، قَالَ: ثُمَّ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ؟ قَالَ:" انْحَرْ وَلَا حَرَجَ"، ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ؟ قَالَ:" احْلِقْ، أَوْ قَصِّرْ وَلَا حَرَجَ"، ثُمَّ أَتَى الْبَيْتَ فَطَافَ بِهِ، ثُمَّ أَتَى زَمْزَمَ، فَقَالَ:" يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، سِقَايَتَكُمْ، وَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمْ النَّاسُ عَلَيْهَا لَنَزَعْتُ بِهَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا: کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اپنے پیچھے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو۔ پھر آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور رات بھر وہیں رہے صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے، وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے، اتنی دیر میں بنوخثعم کی ایک نوجوان عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں وہ تقریباً ختم ہو چکے ہیں لیکن ان پر حج بھی فرض ہے کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کر سکتی ہو“، یہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی گردن موڑ دی (کیونکہ وہ اس عورت کو دیکھنے لگے تھے)۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی گردن کس حکمت کی بنا پر موڑی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ دونوں نوجوان ہیں، مجھے ان کے بارے شیطان سے امن نہ ہوا اس لئے دونوں کا رخ پھیر دیا“، بہرحال تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں نے قربانی کرنے سے پہلے بال کٹوا لیے، اب کیا کروں؟ فرمایا: ”اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں“، ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے حلق سے پہلے طواف زیارت کر لیا، فرمایا: ”کوئی بات نہیں اب حلق یا قصر کرلو۔“ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت کے لئے حرم شریف پہنچے، طواف کیا، زمزم پیا اور فرمایا: ”بنو عبدالمطلب! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہو اگر لوگ تم پر غالب نہ آ جاتے تو میں بھی اس میں سے ڈول کھینچ کھینچ کر نکالتا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا بھی کافی ہے اور بچی کا پیشاب جس چیز پر لگ جائے اسے دھویا جائے گا“، قتادہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک ہے جب انہوں نے کھانا پینا شروع نہ کیا ہو اور جب وہ کھانا پینا شروع کر دیں تو دونوں کا پیشاب جس چیز کو لگ جائے اسے دھونا ہی پڑے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن احمد، قال: حدثني احمد بن عبدة البصري ، حدثنا المغيرة بن عبد الرحمن بن الحارث المخزومي ، حدثني ابي عبد الرحمن بن الحارث ، عن زيد بن علي بن حسين بن علي ، عن ابيه علي بن حسين ، عن عبيد الله بن ابي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم وقف بعرفة وهو مردف اسامة بن زيد، فقال:" هذا الموقف، وكل عرفة موقف"، ثم دفع يسير العنق، وجعل الناس يضربون يمينا وشمالا، وهو يلتفت، ويقول:" السكينة ايها الناس، السكينة ايها الناس"، حتى جاء المزدلفة وجمع بين الصلاتين، ثم وقف بالمزدلفة، فوقف على قزح، واردف الفضل بن عباس، وقال:" هذا الموقف، وكل المزدلفة موقف"، ثم دفع وجعل يسير العنق، والناس يضربون يمينا وشمالا، وهو يلتفت، ويقول:" السكينة، السكينة ايها الناس"، حتى جاء محسرا، فقرع راحلته، فخبت حتى خرج، ثم عاد لسيره الاول، حتى رمى الجمرة، ثم جاء المنحر، فقال:" هذا المنحر، وكل منى منحر"، ثم جاءته امراة شابة من خثعم، فقالت: إن ابي شيخ كبير، وقد افند، وادركته فريضة الله في الحج، ولا يستطيع اداءها، فيجزئ عنه ان اؤديها عنه؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم"، وجعل يصرف وجه الفضل بن العباس عنها، ثم اتاه رجل، فقال: إني رميت الجمرة، وافضت، ولبست ولم احلق؟ قال:" فلا حرج، فاحلق"، ثم اتاه رجل آخر، فقال: إني رميت، وحلقت، ولبست ولم انحر؟ فقال:" لا حرج، فانحر"، ثم افاض رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدعا بسجل من ماء زمزم، فشرب منه وتوضا، ثم قال:" انزعوا يا بني عبد المطلب، فلولا ان تغلبوا عليها لنزعت"، قال العباس: يا رسول الله، إني رايتك تصرف وجه ابن اخيك؟ قال:" إني رايت غلاما شابا، وجارية شابة، فخشيت عليهما الشيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد، قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ بِعَرَفَةَ وَهُوَ مُرْدِفٌ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَكُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ"، ثُمَّ دَفَعَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، وَجَعَلَ النَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، وَهُوَ يَلْتَفِتُ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، حَتَّى جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ وَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ، ثُمَّ وَقَفَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَوَقَفَ عَلَى قُزَحَ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ، وَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ"، ثُمَّ دَفَعَ وَجَعَلَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، وَهُوَ يَلْتَفِتُ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، حَتَّى جَاءَ مُحَسِّرًا، فَقَرَعَ رَاحِلَتَهُ، فَخَبَّتْ حَتَّى خَرَجَ، ثُمَّ عَادَ لِسَيْرِهِ الْأَوَّلِ، حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ، ثُمَّ جَاءَ الْمَنْحَرَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَنْحَرُ، وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ"، ثُمَّ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ، وَقَدْ أَفْنَدَ، وَأَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ، وَلَا يَسْتَطِيعُ أَدَاءَهَا، فَيُجْزِئُ عَنْهُ أَنْ أُؤَدِّيَهَا عَنْهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ"، وَجَعَلَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ عَنْهَا، ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنِّي رَمَيْتُ الْجَمْرَةَ، وَأَفَضْتُ، وَلَبِسْتُ وَلَمْ أَحْلِقْ؟ قَالَ:" فَلَا حَرَجَ، فَاحْلِقْ"، ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: إِنِّي رَمَيْتُ، وَحَلَقْتُ، وَلَبِسْتُ وَلَمْ أَنْحَرْ؟ فَقَالَ:" لَا حَرَجَ، فَانْحَرْ"، ثُمَّ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا بِسَجْلٍ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، فَشَرِبَ مِنْهُ وَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَالَ:" انْزِعُوا يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَوْلَا أَنْ تُغْلَبُوا عَلَيْهَا لَنَزَعْتُ"، قَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَأَيْتُكَ تَصْرِفُ وَجْهَ ابْنِ أَخِيكَ؟ قَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ غُلَامًا شَابًّا، وَجَارِيَةً شَابَّةً، فَخَشِيتُ عَلَيْهِمَا الشَّيْطَانَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اپنے پیچھے سیدنا اسامہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو، پھر آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور رات بھر وہیں رہے صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے، اتنی دیر میں بنوخثعم کی ایک نوجوان عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ تقریباً ختم ہو چکے ہیں لیکن ان پر حج بھی فرض ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کرسکتی ہو“، یہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی گردن موڑ دی (کیونکہ وہ اس عورت کو دیکھنے لگے تھے)۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، طواف زیارت کر لیا، کپڑے پہن لئے لیکن حلق نہیں کروا سکا اب کیا کروں؟ فرمایا: ”اب حلق کرلو، کوئی حرج نہیں“، ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، حلق کروا لیا، کپڑے پہن لئے؟ فرمایا: ”کوئی بات نہیں، اب قربانی کرلو۔“ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت کے لئے حرم شریف پہنچے، طواف کیا، زمزم پیا اور فرمایا: ”بنو عبدالمطلب! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہو، اگر لوگ تم پر غالب نہ آ جاتے تو میں بھی اس میں سے ڈول کھینچ کھینچ کر نکالتا۔“ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اپنے بھتیجے کی گردن کس حکمت کی بناء پر موڑی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ دونوں نوجوان ہیں، مجھے ان کے بارے شیطان سے امن نہ ہوا اس لئے دونوں کا رخ پھیر دیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا إسرائيل ، حدثنا ابو إسحاق ، عن الحارث ، عن علي ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا عوذ مريضا، قال:" اذهب الباس رب الناس، اشف انت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَوَّذَ مَرِيضًا، قَالَ:" أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تو یہ دعا کرتے کہ اے لوگوں کے رب! اس پریشانی اور تکلیف کو دور فرما، اسے شفاء عطاء فرما کیونکہ تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے علاوہ کہیں سے شفاء نہیں مل سکتی، ایسی شفاء جو بیماری کا نام ونشان بھی نہ چھوڑے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، لضعف الحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا إسرائيل ، حدثنا ابو إسحاق ، عن الحارث ، عن علي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو كنت مؤمرا احدا دون مشورة المؤمنين، لامرت ابن ام عبد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ كُنْتُ مُؤَمِّرًا أَحَدًا دُونَ مَشُورَةِ الْمُؤْمِنِينَ، لَأَمَّرْتُ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کو امیر بناتا تو ابن ام عبد یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بناتا۔“
عمرو بن سلیم کی والدہ کہتی ہیں کہ ہم میدان منیٰ میں تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دن کھانے پینے کے ہیں اس لئے ان دنوں میں کوئی شخص روزہ نہ رکھے اور اپنی سواری پر جو کہ اونٹ تھا بیٹھ کر لوگوں میں یہ اعلان کرتے رہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، والظاهر أنه سقط فى هذا الموضع عبدالله بن أبى سلمة بين يزيد بن عبدالله وبين عمرو بن سليم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جو شخص جھوٹا خواب بیان کرتا ہے اسے قیامت کے دن جَو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سحری کے وقت ایک مخصوص گھڑی ہوتی تھی جس میں، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہوتے تو سبحان اللہ کہہ دیتے یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ مجھے اندر آنے کی اجازت ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو یوں ہی اجازت دے دیتے (اور سبحان اللہ کہنے کی ضرورت نہ رہتی)۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا إسماعيل بن عبيد بن ابي كريمة الحراني ، حدثنا محمد بن سلمة ، عن ابي عبد الرحيم ، عن زيد بن ابي انيسة ، عن الزهري ، عن علي بن حسين ، عن ابيه ، قال: سمعت عليا ، يقول: اتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا نائم وفاطمة، وذلك من السحر، حتى قام على الباب، فقال:" الا تصلون؟"، فقلت مجيبا له: يا رسول الله، إنما نفوسنا بيد الله، فإذا شاء ان يبعثنا بعثنا، قال: فرجع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يرجع إلى الكلام، فسمعته حين ولى يقول وضرب بيده على فخذه:" وكان الإنسان اكثر شيء جدلا سورة الكهف آية 54".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي كَرِيمَةَ الْحَرَّانِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحِيمِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا ، يَقُولُ: أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا نَائِمٌ وَفَاطِمَةُ، وَذَلِكَ مِنَ السَّحَرِ، حَتَّى قَامَ عَلَى الْبَابِ، فَقَالَ:" أَلَا تُصَلُّونَ؟"، فَقُلْتُ مُجِيبًا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا نُفُوسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنا، قَالَ: فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَى الْكَلَامِ، فَسَمِعْتُهُ حِينَ وَلَّى يَقُولُ وَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِهِ:" وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلا سورة الكهف آية 54".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے، میں اور فاطمہ رضی اللہ عنہا دونوں سو رہے تھے، صبح کا وقت تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ تم لوگ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے جواب دیتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری روحیں اللہ کے قبضے میں ہیں جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مجھے کوئی جواب نہ دیا اور واپس چلے گئے، میں نے کان لگا کر سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران پر اپنا ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ انسان بہت زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا إسرائيل ، حدثنا سماك ، عن حنش ، عن علي رضي الله عنه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فانتهينا إلى قوم قد بنوا زبية للاسد، فبينا هم كذلك يتدافعون، إذ سقط رجل، فتعلق بآخر، ثم تعلق رجل بآخر، حتى صاروا فيها اربعة، فجرحهم الاسد، فانتدب له رجل بحربة فقتله، وماتوا من جراحتهم كلهم، فقاموا اولياء الاول إلى اولياء الآخر، فاخرجوا السلاح ليقتتلوا، فاتاهم علي رضي الله عنه على تفيئة ذلك، فقال: تريدون ان تقاتلوا ورسول الله صلى الله عليه وسلم حي؟ إني اقضي بينكم قضاء، إن رضيتم فهو القضاء، وإلا حجز بعضكم عن بعض، حتى تاتوا النبي صلى الله عليه وسلم فيكون هو الذي يقضي بينكم، فمن عدا بعد ذلك، فلا حق له، اجمعوا من قبائل الذين حفروا البئر ربع الدية، وثلث الدية، ونصف الدية، والدية كاملة، فللاول الربع، لانه هلك من فوقه، وللثاني ثلث الدية، وللثالث نصف الدية، فابوا ان يرضوا، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم، وهو عند مقام إبراهيم، فقصوا عليه القصة، فقال:" انا اقضي بينكم"، واحتبى، فقال رجل من القوم: إن عليا قضى فينا، فقصوا عليه القصة، فاجازه رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى قَوْمٍ قَدْ بَنَوْا زُبْيَةً لِلْأَسَدِ، فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ يَتَدَافَعُونَ، إِذْ سَقَطَ رَجُلٌ، فَتَعَلَّقَ بِآخَرَ، ثُمَّ تَعَلَّقَ رَجُلٌ بِآخَرَ، حَتَّى صَارُوا فِيهَا أَرْبَعَةً، فَجَرَحَهُمْ الْأَسَدُ، فَانْتَدَبَ لَهُ رَجُلٌ بِحَرْبَةٍ فَقَتَلَهُ، وَمَاتُوا مِنْ جِرَاحَتِهِمْ كُلُّهُمْ، فَقَامُوا أَوْلِيَاءُ الْأَوَّلِ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْآخِرِ، فَأَخْرَجُوا السِّلَاحَ لِيَقْتَتِلُوا، فَأَتَاهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى تَفِيئَةِ ذَلِكَ، فَقَالَ: تُرِيدُونَ أَنْ تَقَاتَلُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ؟ إِنِّي أَقْضِي بَيْنَكُمْ قَضَاءً، إِنْ رَضِيتُمْ فَهُوَ الْقَضَاءُ، وَإِلَّا حَجَزَ بَعْضُكُمْ عَنْ بَعْضٍ، حَتَّى تَأْتُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَكُونَ هُوَ الَّذِي يَقْضِي بَيْنَكُمْ، فَمَنْ عَدَا بَعْدَ ذَلِكَ، فَلَا حَقَّ لَهُ، اجْمَعُوا مِنْ قَبَائِلِ الَّذِينَ حَفَرُوا الْبِئْرَ رُبُعَ الدِّيَةِ، وَثُلُثَ الدِّيَةِ، وَنِصْفَ الدِّيَةِ، وَالدِّيَةَ كَامِلَةً، فَلِلْأَوَّلِ الرُّبُعُ، لِأَنَّهُ هَلَكَ مَنْ فَوْقَهُ، وَلِلثَّانِي ثُلُثُ الدِّيَةِ، وَلِلثَّالِثِ نِصْفُ الدِّيَةِ، فَأَبَوْا أَنْ يَرْضَوْا، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ عِنْدَ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَصُّوا عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ:" أَنَا أَقْضِي بَيْنَكُمْ"، وَاحْتَبَى، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: إِنَّ عَلِيًّا قَضَى فِينَا، فَقَصُّوا عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَأَجَازَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا، میں ایک ایسی قوم کے پاس پہنچا جنہوں نے شیر کو شکار کرنے کے لئے ایک گڑھا کھود کر اسے ڈھانپ رکھا تھا (شیر آیا اور اس میں گر پڑا) ابھی وہ یہ کام کر رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی اس گڑھے میں گر پڑا، اس کے پیچھے دوسرا، تیسرا حتی کہ چار آدمی گر پڑے، اس گڑھے میں موجود شیر نے ان سب کو زخمی کر دیا، یہ دیکھ کر ایک آدمی نے جلدی سے نیزہ پکڑا اور شیر کو دے مارا، شیر ہلاک ہو گیا اور وہ چاروں آدمی بھی اپنے اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے چل بسے۔ مقتولین کے اولیاء اسلحہ نکال کر جنگ کے لئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے، اتنی دیر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ آ پہنچے اور کہنے لگے کہ ابھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں تم ان کی حیات میں باہمی قتل و قتال کرو گے؟ میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں، اگر تم اس پر راضی ہو گئے تو سمجھو کہ فیصلہ ہو گیا اور اگر تم سمجھتے ہو کہ اس سے تمہاری تشفی نہیں ہوئی تو تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اس کا فیصلہ کروا لینا، وہ تمہارے درمیان اس کا فیصلہ کر دیں گے، اس کے بعد جو حد سے تجاوز کرے گا وہ حق پر نہیں ہو گا۔ فیصلہ یہ ہے کہ ان قبیلوں کے لوگوں نے اس گڑھے کی کھدائی میں حصہ لیا ہے ان سے چوتھائی دیت، تہائی دیت، نصف دیت اور کامل دیت لے کر جمع کرو اور جو شخص پہلے گر کر گڑھے میں شیر کے ہاتھوں زخمی ہوا، اس کے ورثاء کو چوتھائی دیت دے دو، دوسرے کو تہائی اور تیسرے کو نصف دیت دے دو، ان لوگوں نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا (کیونکہ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا) چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم کے پاس تھے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا قصہ سنایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں“، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوٹ مار کر بیٹھ گئے، اتنی دیر میں ایک آدمی کہنے لگا، یا رسول اللہ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان یہ فیصلہ فرمایا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو نافذ کر دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف حنش، وهو ابن المعتمر
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، قال: كتب إلي قتيبة بن سعيد : كتبت إليك بخطي، وختمت الكتاب بخاتمي، يذكر ان الليث بن سعد حدثهم، عن عقيل ، عن الزهري ، عن علي بن الحسين ، ان الحسين بن علي حدثه، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم طرقه وفاطمة رضي الله عنها، فقال:" الا تصلون؟"، فقلت: يا رسول الله، إنما انفسنا بيد الله، فإذا شاء ان يبعثنا بعثنا، وانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قلت له ذلك، ثم سمعته وهو مدبر يضرب فخذه، ويقول:" وكان الإنسان اكثر شيء جدلا سورة الكهف آية 54".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ : كَتَبْتُ إِلَيْكَ بِخَطِّي، وَخَتَمْتُ الْكِتَابَ بِخَاتَمِي، يَذْكُرُ أَنَّ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ:" أَلَا تُصَلُّون؟"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، وَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قُلْتُ لَهُ ذَلِكَ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ فَخِذَهُ، وَيَقُولُ:" وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلا سورة الكهف آية 54".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت ہمارے یہاں تشریف لائے اور کہنے لگے کہ تم لوگ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے جواب دیتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری روحیں اللہ کے قبضے میں ہیں، جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مجھے کوئی جواب نہ دیا اور واپس چلے گئے، میں نے کان لگا کر سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران پر اپنا ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ انسان بہت زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ”جو شخص مجھ سے محبت کرے، ان دونوں سے محبت کرے اور ان کے ماں باپ سے محبت کرے، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجے میں ہو گا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پھوپھی اور خالہ کی موجودگی میں اس کی بھتیجی یا بھانجی سے نکاح نہ کیا جائے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبن لهيعة
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، وابو سعيد مولى بني هاشم، قالا: حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا عبد الله بن هبيرة ، عن عبد الله بن زرير ، انه قال: دخلت على علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال حسن: يوم الاضحى، فقرب إلينا خزيرة، فقلت: اصلحك الله، لو قربت إلينا من هذا البط، يعني: الوز، فإن الله عز وجل قد اكثر الخير، فقال: يا ابن زرير، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يحل للخليفة من مال الله إلا قصعتان: قصعة ياكلها هو واهله، وقصعة يضعها بين يدي الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، وَأَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هاشم، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هُبَيْرَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زُرَيْرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ حَسَنٌ: يَوْمَ الْأَضْحَى، فَقَرَّبَ إِلَيْنَا خَزِيرَةً، فَقُلْتُ: أَصْلَحَكَ اللَّهُ، لَوْ قَرَّبْتَ إِلَيْنَا مِنْ هَذَا الْبَطِّ، يَعْنِي: الْوَزَّ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَكْثَرَ الْخَيْرَ، فَقَالَ: يَا ابْنَ زُرَيْرٍ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَحِلُّ لِلْخَلِيفَةِ مِنْ مَالِ اللَّهِ إِلَّا قَصْعَتَانِ: قَصْعَةٌ يَأْكُلُهَا هُوَ وَأَهْلُهُ، وَقَصْعَةٌ يَضَعُهَا بَيْنَ يَدَيْ النَّاسِ".
عبداللہ بن زریر کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہمارے سامنے خزیرہ (سالن مع گوشت و روٹی) پیش کیا، میں نے بےتکلفی سے عرض کیا کہ اللہ آپ کا بھلا کرے، اگر آپ یہ بطخ ہمارے سامنے پیش کرتے تو کیا ہو جاتا، اب تو اللہ نے مال غنیمت کی بھی فراوانی فرما رکھی ہے؟ فرمایا: ابن زریر! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خلیفہ کے لئے اللہ کے مال میں سے صرف دو پیالے ہی حلال ہیں ایک وہ پیالہ جس میں سے وہ خود اور اس کے اہل خانہ کھا سکیں اور دوسرا پیالہ وہ جسے وہ لوگوں کے سامنے پیش کر دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا مطرف ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يوتر في اول الليل، وفي وسطه، وفي آخره، ثم ثبت له الوتر في آخره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُوتِرُ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، وَفِي وَسَطِهِ، وَفِي آخِرِهِ، ثُمَّ ثَبَتَ لَهُ الْوَتْرُ فِي آخِرِهِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھایا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جن لوگوں کو کوڑھ کی بیماری ہو، انہیں مت دیکھتے رہا کرو اور جب ان سے بات کیا کرو تو اپنے اور ان کے درمیان ایک نیزے کے برابر فاصلہ رکھا کرو۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”علی! وضو! اچھی طرح کیا کرو اگرچہ تمہیں شاق ہی کیوں نہ گزرے (مثلاً سردی کے موسم میں) صدقہ مت کھایا کرو گدھوں کو گھوڑوں پر مت کدواؤ اور نجومیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا مت رکھو۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف هارون بن مسلم، وعلي بن الحسين والد محمد بن على الباقر لم يدرك جده على ابن أبى طالب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، عن الاعمش ، عن عبد الملك بن ميسرة ، عن النزال بن سبرة ، قال: اتي علي رضي الله عنه بكوز من ماء وهو في الرحبة،" فاخذ كفا من ماء فمضمض، واستنشق، ومسح وجهه، وذراعيه، وراسه، ثم شرب وهو قائم، ثم قال: هذا وضوء من لم يحدث، هكذا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ ، قَالَ: أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِكُوزٍ مِنْ مَاءٍ وَهُوَ فِي الرَّحْبَةِ،" فَأَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَمَضْمَضَ، وَاسْتَنْشَقَ، وَمَسَحَ وَجْهَهُ، وَذِرَاعَيْهِ، وَرَأْسَهُ، ثُمَّ شَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِثْ، هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ".
نزل بن سبرہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کوزے میں پانی لایا گیا وہ مسجد کے صحن میں تھے، انہوں نے چلو بھر کر پانی لیا اور اس سے کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، چہرے کا مسح کیا، بازوؤں اور سر پر پانی کا گیلا ہاتھ پھیرا، پھر کھڑے کھڑے وہ پانی پی لیا اور فرمایا کہ جو آدمی بےوضو نہ ہو بلکہ پہلے سے اس کا وضو موجود ہو، یہ اس شخص کا وضو ہے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، عن الاعمش ، عن حبيب ، عن ثعلبة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كذب علي متعمدا، فليتبوا مقعده من النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ ثَعْلَبَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کسی جھوٹی بات کی نسبت کرے، اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ تیار کر لینا چاہیے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، حبيب مدلس، وقد عنعن، والحديث متواتر، خ: 106، ومسلم فى المقدمة : 1
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا المغيرة ، عن ام موسى ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان آخر كلام رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الصلاة الصلاة، اتقوا الله فيما ملكت ايمانكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ ، عَنْ أُمِّ مُوسَى ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ آخِرُ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، اتَّقُوا اللَّهَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت آخری کلام یہ تھا کہ نماز کی پابندی کرنا اور اپنے غلاموں باندیوں کے بارے اللہ سے ڈرتے رہنا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا معمر ، انبانا الزهري ، عن ابي عبيد مولى عبد الرحمن بن عوف، قال: ثم شهدت علي بن ابي طالب رضي الله عنه بعد ذلك يوم عيد، بدا بالصلاة قبل الخطبة، وصلى بلا اذان ولا إقامة، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم" ينهى ان يمسك احد من نسكه شيئا فوق ثلاثة ايام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، أَنْبَأَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: ثُمَّ شَهِدْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَوْمَ عِيدٍ، بَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، وَصَلَّى بِلَا أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ينْهَى أَنْ يُمْسِكَ أَحَدٌ مِنْ نُسُكِهِ شَيْئًا فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ".
ابوعبید کہتے ہیں کہ . . . . ایک مرتبہ عید کے دن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی، اس میں اذان یا اقامت کچھ بھی نہ کہی اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت اپنے پاس رکھنے سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو دنیا اور آخرت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا تھا لیکن اسے طلاق شمار نہیں کیا تھا اور نہ ہی انہیں طلاق کا اختیار دیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف محمد بن عبيدالله بن أبى رافع
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن ابي حسان ، عن عبيدة ، عن علي رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال يوم الاحزاب:" ملا الله بيوتهم وقبورهم نارا كما شغلونا عن الصلاة حتى آبت الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ:" مَلَأَ اللَّهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا كَمَا شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى آبَتْ الشَّمْسُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان مشرکین کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن حسن ، وعبد الله ابني محمد بن علي، عن ابيهما ، وكان حسن ارضاهما في انفسنا، ان عليا قال لابن عباس رضي الله عنه: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن نكاح المتعة، وعن لحوم الحمر الاهلية زمن خيبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ حَسَنِ ، وَعَبْدِ اللَّهِ ابني محمد بن علي، عَنْ أَبِيهِمَا ، وَكَانَ حَسَنٌ أَرْضَاهُمَا فِي أَنْفُسِنَا، أَنَّ عَلِيًّا قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ زَمَنَ خَيْبَرَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے زمانے میں ہی نکاح متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت فرما دی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عبد الكريم ، عن مجاهد ، عن ابن ابي ليلى ، عن علي رضي الله عنه، قال: امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اقسم بدنه اقوم عليها، وان اقسم جلودها وجلالها، وامرني ان لا اعطي الجازر منها شيئا، وقال:" نحن نعطيه من عندنا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُقَسِّمَ بُدْنَهُ أَقُومُ عَلَيْهَا، وَأَنْ أُقَسِّمَ جُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَأَمَرَنِي أَنْ لَا أُعْطِيَ الْجَازِرَ مِنْهَا شَيْئًا، وَقَالَ:" نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ قربانی کے موقع پر آپ کے ساتھ موجود رہوں اور یہ کہ ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دوں اور گوشت بھی تقسیم کر دوں اور یہ بھی حکم دیا کہ قصاب کو ان میں سے کوئی چیز مزدوری کے طور پر نہ دوں اور فرمایا کہ اسے ہم اپنے پاس سے مزدوری دیتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن زيد بن اثيع رجل من همدان، سالنا عليا رضي الله عنه: باي شيء بعثت؟ يعني: يوم بعثه النبي صلى الله عليه وسلم مع ابي بكر رضي الله عنه في الحجة، قال: بعثت باربع:" لا يدخل الجنة إلا نفس مؤمنة، ولا يطوف بالبيت عريان، ومن كان بينه وبين النبي صلى الله عليه وسلم عهد، فعهده إلى مدته، ولا يحج المشركون والمسلمون بعد عامهم هذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أُثَيْعٍ رَجُلٍ مِنْ هَمْدَانَ، سَأَلْنَا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: بِأَيِّ شَيْءٍ بُعِثْتَ؟ يَعْنِي: يَوْمَ بَعَثَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الْحَجَّةِ، قَالَ: بُعِثْتُ بِأَرْبَعٍ:" لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ، وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ، فَعَهْدُهُ إِلَى مُدَّتِهِ، وَلَا يَحُجُّ الْمُشْرِكُونَ وَالْمُسْلِمُونَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا".
مختلف راوی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا تھا تو آپ کو کیا پیغام دے کر بھیجا گیا تھا؟ فرمایا کہ مجھے چار پیغامات دے کر بھیجا گیا تھا، ایک تو یہ کہ جنت میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی شخص داخل نہ ہو سکے گا، دوسرا یہ کہ آئندہ بیت اللہ کا طواف برہنہ ہو کر کوئی نہ کر سکے گا، تیسرا یہ کہ جس شخص کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معاہدہ ہو، وہ مدت ختم ہونے تک برقرار رہے گا اور اس سال کے بعد مسلمانوں کے ساتھ مشرک حج نہ کرسکیں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد فيه عنعنة أبى إسحاق
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قضى محمد صلى الله عليه وسلم:" ان الدين قبل الوصية، وانتم تقرءون الوصية قبل الدين، وان اعيان بني الام يتوارثون دون بني العلات".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَضَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّ الدَّيْنَ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَأَنْتُمْ تَقْرَءُونَ الْوَصِيَّةَ قَبْلَ الدَّيْنِ، وَأَنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ میت کے قرض کی ادائیگی اجراء نفاذ وصیت سے پہلے ہو گی جبکہ قرآن میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے ہے اور یہ کہ اخیافی بھائی تو وارث ہوں گے لیکن علاتی بھائی وارث نہ ہوں گے۔ (فائدہ: ماں شریک بھائی کو اخیافی اور باپ شریک بھائی کو علاتی کہتے ہیں۔)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لضعف الحارث وهو الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا اعطيكم، وادع اهل الصفة تلوى بطونهم من الجوع"، وقال مرة:" لا اخدمكما، وادع اهل الصفة تطوى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا أُعْطِيكُمْ، وَأَدَعُ أَهْلَ الصُّفَّةِ تَلَوَّى بُطُونُهُمْ مِنَ الْجُوعِ"، وَقَالَ مَرَّةً:" لَا أُخْدِمُكُمَا، وَأَدَعُ أَهْلَ الصُّفَّةِ تَطْوَى".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں تمہیں دیتا رہوں اور اہل صفہ کو چھوڑ دوں جن کے پیٹ بھوک کی وجہ سے اندر کو دھنس چکے ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے ”مسعی“ میں صفا و مروہ کے درمیان اس حال میں سعی کرتے ہوئے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اوپر کی چادر جسم سے ہٹ کر گھٹنوں تک پہنچ گئی تھی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہوتے تو سبحان اللہ کہہ دیتے یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ مجھے اندر آنے کی اجازت ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو یوں ہی اجازت دے دیتے (اور سبحان اللہ کہنے کی ضرورت نہ رہتی)۔
(حديث موقوف) حدثنا سفيان ، عن مطرف ، عن الشعبي ، عن ابي جحيفة ، قال: سالنا عليا رضي الله عنه: هل عندكم من رسول الله صلى الله عليه وسلم شيء بعد القرآن؟ قال: لا والذي فلق الحبة، وبرا النسمة، إلا فهم يؤتيه الله عز وجل رجلا في القرآن، او ما في الصحيفة، قلت: وما في الصحيفة؟ قال:" العقل، وفكاك الاسير، ولا يقتل مسلم بكافر".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، قَالَ: سَأَلْنَا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ بَعْدَ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: لَا وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، إِلَّا فَهْمٌ يُؤْتِيهِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلًا فِي الْقُرْآنِ، أَوْ مَا فِي الصَّحِيفَةِ، قُلْتُ: وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ؟ قَالَ:" الْعَقْلُ، وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ، وَلَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ".
سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے قرآن کے علاوہ بھی آپ کو کچھ ملا ہے؟ فرمایا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور جانداروں کو تندرستی بخشی، سوائے اس سمجھ اور فہم و فراست کے جو اللہ تعالیٰ کسی شخص کو فہم قرآن کے حوالے سے عطاء فرما دے یا وہ چیز جو اس صحیفہ میں ہے اور کچھ نہیں ملا، میں نے پوچھا کہ اس صحیفے میں کیا ہے؟ فرمایا: دیت کے احکام، قیدیوں کو چھوڑنے کے مسائل اور یہ کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، قال: اخبرني حسن بن محمد بن علي ، اخبرني عبيد الله بن ابي رافع ، وقال مرة: إن عبيد الله بن ابي رافع اخبره، انه سمع عليا رضي الله عنه، يقول: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير والمقداد، فقال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ، فإن بها ظعينة معها كتاب، فخذوه منها"، فانطلقنا تعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة، فإذا نحن بالظعينة، فقلنا: اخرجي الكتاب، قالت: ما معي من كتاب، قلنا: لتخرجن الكتاب او لنقلبن الثياب، قال: فاخرجت الكتاب من عقاصها، فاخذنا الكتاب، فاتينا به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا فيه: من حاطب بن ابي بلتعة إلى ناس من المشركين بمكة، يخبرهم ببعض امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا حاطب، ما هذا؟"، قال: لا تعجل علي، إني كنت امرا ملصقا في قريش، ولم اكن من انفسها، وكان من كان معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون اهليهم بمكة، فاحببت إذ فاتني ذلك من النسب فيهم ان اتخذ فيهم يدا يحمون بها قرابتي، وما فعلت ذلك كفرا، ولا ارتدادا عن ديني، ولا رضا بالكفر بعد الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنه قد صدقكم"، فقال عمر رضي الله عنه: دعني اضرب عنق هذا المنافق، فقال:" إنه قد شهد بدرا، وما يدريك لعل الله قد اطلع على اهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم، فقد غفرت لكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ ، وَقَالَ مَرَّةً: إِنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي رَافِعٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ، فَخُذُوهُ مِنْهَا"، فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ، فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، قَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، قُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنَقْلِبَنَّ الثِّيَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتْ الْكِتَابَ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَخَذْنَا الْكِتَابَ، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ، يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا حَاطِبُ، مَا هَذَا؟"، قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ، وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا، وَكَانَ مَنْ كَانَ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ أَهْلِيهِمْ بِمَكَّةَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ كُفْرًا، وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ"، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ:" إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ قَدْ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ روانہ ہو جاؤ، جب تم روضہ خاخ میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہو گا تم اس سے وہ خط لے کر واپس آ جانا، چنانچہ ہم لوگ روانہ ہو گئے، ہمارے گھوڑے ہمارے ہاتھوں سے نکلے جاتے تھے، یہاں تک کہ ہم روضہ خاخ جا پہنچے، وہاں ہمیں واقعۃ ایک عورت ملی، ہم نے اس سے کہا کہ تیرے پاس جو خط ہے وہ نکال دے، اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہم نے اس سے کہا کہ یا تو، تو خود ہی خط نکال دے ورنہ ہم تجھے برہنہ کر دیں گے۔ مجبور ہو کر اس نے اپنے بالوں کی چوٹی میں سے ایک خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا، ہم وہ خط لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس خط کو جب کھول کر دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ وہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے کچھ مشرکین مکہ کے نام تھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فیصلے کی خبر دی گئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے معاملے میں جلدی نہ کیجئے گا، میں قریش سے تعلق نہیں رکھتا، البتہ ان میں شامل ہو گیا ہوں، آپ کے ساتھ جتنے بھی مہاجرین ہیں، ان کے مکہ مکرمہ میں رشتہ دار موجود ہیں جن سے وہ اپنے اہل خانہ کی حفاظت کروا لیتے ہیں، میں نے سوچا کہ میرا وہاں کوئی نسبی رشتہ دار تو موجود نہیں ہے، اس لئے ان پر ایک احسان کر دوں تاکہ وہ اس کے عوض میرے رشتہ داروں کی حفاظت کریں، میں نے یہ کام کافر ہو کر، یا مرتد ہو کر، یا اسلام کے بعد کفر کو پسند کرتے ہوئے نہیں کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے تم سے سچ بیان کیا“، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر فرمایا: مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ غزوہ بدر میں شریک ہو چکے ہیں اور تمہیں کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا: تم جو کچھ کرتے رہو میں تمہیں معاف کرچکا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں سے منع فرمایا ہے، اب مجھے معلوم نہیں کہ ان کی ممانعت خصوصیت کے ساتھ میرے لئے ہے یا سب کے لئے عام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ریشم اور سرخ زین پوش سے منع فرمایا ہے اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناده ضعيف، عطاء بن السائب قد اختلط هو منقطع، فإن على بن الحسين والد أبى جعفر الباقر لم يدرك جده على بن أبى طالب
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا کہ سامنے سے حضرات شیخین رضی اللہ عنہما آتے ہوئے دکھائی دیئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی! یہ دونوں حضرات انبیاء و مرسلین کے علاوہ جنت کے تمام بوڑھوں اور جوانوں کے سردار ہیں۔“
(حديث مرفوع) اخبرنا سفيان ، عن ابن ابي نجيح ، عن ابيه ، عن رجل ، سمع عليا رضي الله عنه، يقول: اردت ان اخطب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ابنته، فقلت: ما لي من شيء، فكيف؟ ثم ذكرت صلته وعائدته، فخطبتها إليه، فقال:" هل لك من شيء؟"، قلت: لا، قال:" فاين درعك الحطمية التي اعطيتك يوم كذا وكذا؟"، قال: هي عندي، قال:" فاعطنيها"، قال: فاعطيتها إياه.(حديث مرفوع) أخبرنا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَجُلٍ ، سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: أَرَدْتُ أَنْ أَخْطُبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَتَهُ، فَقُلْتُ: مَا لِي مِنْ شَيْءٍ، فَكَيْفَ؟ ثُمَّ ذَكَرْتُ صِلَتَهُ وَعَائِدَتَهُ، فَخَطَبْتُهَا إِلَيْهِ، فَقَالَ:" هَلْ لَكَ مِنْ شَيْءٍ؟"، قُلْتُ: لَا، قَالَ:" فَأَيْنَ دِرْعُكَ الْحُطَمِيَّةُ الَّتِي أَعْطَيْتُكَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا؟"، قَالَ: هِيَ عِنْدِي، قَالَ:" فَأَعْطِنيِهَا"، قال: فأَعَطْيُتها إِيَّاهُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے لئے پیغام نکاح بھیجنے کا ارادہ کیا تو دل میں سوچا کہ میرے پاس تو کچھ ہے نہیں، پھر یہ کیسے ہو گا؟ پھر مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مہربانی اور شفقت یاد آئی چنانچہ میں نے پیغام نکاح بھیج دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ ہے بھی؟ میں نے عرض کیا: نہیں! فرمایا: ”تمہاری وہ حطمیہ کی زرہ کیا ہوئی جو میں نے تمہیں فلاں دن دی تھی؟“ عرض کیا کہ وہ تو میرے پاس ہے؟ فرمایا: ”پھر وہی دے دو“، چنانچہ میں نے وہ لا کر انہی کو دے دی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الرجل الذى سمع عليا
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عبيد الله بن ابي يزيد ، عن مجاهد ، عن ابن ابي ليلى ، عن علي رضي الله عنه، ان فاطمة اتت النبي صلى الله عليه وسلم تستخدمه، فقال:" الا ادلك على ما هو خير لك من ذلك؟ تسبحين ثلاثا وثلاثين، وتكبرين ثلاثا وثلاثين، وتحمدين ثلاثا وثلاثين"، احدها اربعا وثلاثين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ فَاطِمَةَ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْتَخْدِمُهُ، فَقَالَ:" أَلَا أَدُلُّكِ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ ذَلِكَ؟ تُسَبِّحِينَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتُكَبِّرِينَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدِينَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ"، أَحَدُهَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خادم کی درخواست لے کر آئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ، ٣٣ مرتبہ اللہ اکبر اور ٣٣ مرتبہ الحمدللہ کہہ لیا کرو، ان میں سے کوئی ایک ٣٤ مرتبہ کہہ لیا کرو۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس بندہ مومن کو پسند کرتا ہے جو آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد توبہ کر لے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں اس لئے مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شخص اپنی شرمگاہ کو دھو کر وضو کر لیا کرے۔
سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، محمد بن إسحاق مدلس، وقد عنعن، وسيأتي برقم: 968، ..... عن ابن إسحاق حدثني عمي عبدالرحمن بن يسار
(حديث مرفوع) حدثنا ابو بكر بن عياش ، حدثنا مغيرة بن مقسم ، حدثنا الحارث العكلي ، عن عبد الله بن نجي ، قال: قال علي رضي الله عنه: كان لي من رسول الله صلى الله عليه وسلم مدخلان بالليل والنهار، وكنت إذا دخلت عليه وهو يصلي تنحنح، فاتيته ذات ليلة، فقال:" اتدري ما احدث الملك الليلة؟ كنت اصلي، فسمعت خشفة في الدار، فخرجت، فإذا جبريل عليه السلام، فقال: ما زلت هذه الليلة انتظرك، إن في بيتك كلبا، فلم استطع الدخول، وإنا لا ندخل بيتا فيه كلب، ولا جنب، ولا تمثال".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ مِقْسَمٍ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ الْعُكْلِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: كَانَ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَدْخَلَانِ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَكُنْتُ إِذَا دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي تَنَحْنَحَ، فَأَتَيْتُهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ:" أَتَدْرِي مَا أَحْدَثَ الْمَلَكُ اللَّيْلَةَ؟ كُنْتُ أُصَلِّي، فَسَمِعْتُ خَشْفَةً فِي الدَّارِ، فَخَرَجْتُ، فَإِذَا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: مَا زِلْتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ أَنْتَظِرُكَ، إِنَّ فِي بَيْتِكَ كَلْبًا، فَلَمْ أَسْتَطِعْ الدُّخُولَ، وَإِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ، وَلَا جُنُبٌ، وَلَا تِمْثَالٌ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں روزانہ صبح و شام دو مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونا چاہتا اور وہ نماز پڑھ رہے ہوتے تو کھانس دیا کرتے تھے، ایک مرتبہ میں رات کے وقت حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں پتہ ہے آج رات فرشتے نے کیا کیا؟ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے کسی کی آہٹ گھر میں محسوس ہوئی، میں گھبرا کر باہر نکلا تو سامنے جبرئیل علیہ السلام کھڑے تھے وہ کہنے لگے کہ میری ساری رات آپ کے انتظار میں گزر گئی، آپ کے کمرے میں کہیں سے کتا آ گیا ہے اس لئے میں اندر نہیں آ سکتا، کیونکہ ہم لوگ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کوئی کتا، کوئی جنبی یا کوئی تصویر اور مورتی ہو۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے جس کا کان آگے یا پیچھے سے کٹا ہوا ہو یا اس میں سوراخ ہو یا وہ پھٹ گیا ہو یا جسم کے دیگر اعضاء کٹے ہوئے ہوں۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف، أبوبكر بن عياش سماعه من أبى إسحاق ليس بذاك القوي، وأبو إسحاق لم يسمع هذا الحديث من شريح بن النعمان
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے، ہاں! اگر سورج صاف ستھرا دکھائی دے رہا ہو تو جائز ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت، سونے کی انگوٹھی، ریشی کپڑے اور عصفر سے رنگے ہوئے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وإسناده حسن، م: 480، 2078
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن الحكم بن عتيبة ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، قال: جاء ابو موسى إلى الحسن بن علي يعوده، فقال له علي رضي الله عنه: اعائدا جئت ام شامتا؟ قال: لا، بل عائدا، قال: فقال له علي رضي الله عنه: إن كنت جئت عائدا، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إذا عاد الرجل اخاه المسلم، مشى في خرافة الجنة حتى يجلس، فإذا جلس، غمرته الرحمة، فإن كان غدوة، صلى عليه سبعون الف ملك حتى يمسي، وإن كان مساء، صلى عليه سبعون الف ملك حتى يصبح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: جَاءَ أَبُو مُوسَى إِلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ يَعُودُهُ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَعَائِدًا جِئْتَ أَمْ شَامِتًا؟ قَالَ: لَا، بَلْ عَائِدًا، قَالَ: فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنْ كُنْتَ جِئْتَ عَائِدًا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا عَادَ الرَّجُلُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، مَشَى فِي خِرَافَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَجْلِسَ، فَإِذَا جَلَسَ، غَمَرَتْهُ الرَّحْمَةُ، فَإِن كَانَ غُدْوَةً، صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ كَانَ مَسَاءً، صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُصْبِحَ".
عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ عنہ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: عیادت کی نیت سے آئے ہو یا اس کے بیمار ہونے پر خوشی کا اظہار کرنے کے لئے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں تو عیادت کی نیت سے آیا ہوں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر واقعی عیادت کی نیت سے آئے ہو تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ جنت کے باغات میں چلتا ہے یہاں تک کہ بیٹھ جائے، اس کے بیٹھنے پر اللہ کی رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے، پھر اگر صبح کو جائے تو شام تک اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعاء مغفرت کرتے رہتے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح موقوفاً، واختلف فى وقفه ورفعه ، والوقف أصح
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا سويد بن سعيد ، في سنة ست وعشرين ومائتين، حدثنا مسلم بن خالد الزنجي ، قال ابو عبد الرحمن: قلت لسويد: ولم سمي الزنجي؟ قال: كان شديد السواد، عن عبد الرحمن بن الحارث ، عن زيد بن علي بن الحسين ، عن ابيه ، عن عبيد الله بن ابي رافع ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف بعرفة، وهو مردف اسامة بن زيد، فقال:" هذا موقف، وكل عرفة موقف"، ثم دفع، فجعل يسير العنق، والناس يضربون يمينا وشمالا، وهو يلتفت ويقول:" السكينة ايها الناس، السكينة ايها الناس"، حتى جاء المزدلفة، فجمع بين الصلاتين، ثم وقف بالمزدلفة، فاردف الفضل بن عباس، ثم وقف على قزح، فقال:" هذا الموقف، وكل المزدلفة موقف"، ثم دفع، فجعل يسير العنق، والناس يضربون يمينا وشمالا، وهو يلتفت، ويقول:" السكينة ايها الناس، السكينة ايها الناس"، فلما وقف على محسر، قرع راحلته فخبت به، حتى خرجت من الوادي، ثم سار سيرته، حتى اتى الجمرة، ثم دخل المنحر، فقال:" هذا المنحر، وكل منى منحر"، فذكر مثل حديث احمد بن عبدة، عن المغيرة بن عبد الرحمن، مثله، او نحوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، فِي سَنَةِ سِتٍّ وَعِشْرِينَ وَمِائَتَيْنِ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ ، قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: قُلْتُ لِسُوَيْدٍ: وَلِمَ سُمِّيَ الزَّنْجِيَّ؟ قَالَ: كَانَ شَدِيدَ السَّوَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبي رَافِعٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ بِعَرَفَةَ، وَهُوَ مُرْدِفٌ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَقَالَ:" هَذَا مَوْقِفٌ، وَكُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ"، ثُمَّ دَفَعَ، فَجَعَلَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، وَهُوَ يَلْتَفِتُ وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، حَتَّى جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ، فَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ، ثُمَّ وَقَفَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ، ثُمَّ وَقَفَ عَلَى قُزَحَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ"، ثُمَّ دَفَعَ، فَجَعَلَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، وَهُوَ يَلْتَفِتُ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، فَلَمَّا وَقَفَ عَلَى مُحَسِّرٍ، قَرَعَ رَاحِلَتَهُ فَخَبَّتْ بِهِ، حَتَّى خَرَجَتْ مِنَ الْوَادِي، ثُمَّ سَارَ سِيرَتَهُ، حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَنْحَرَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَنْحَرُ، وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ"، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مِثْلَهُ، أَوْ نَحْوَهُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اپنے پیچھے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو۔ پھر آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور رات بھر وہیں رہے، صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے، وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے، وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، سويد بن سعيد و مسلم بن خالد قد توبعا
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، قال: خطبنا علي رضي الله عنه، فقال: من زعم ان عندنا شيئا نقرؤه إلا كتاب الله وهذه الصحيفة، صحيفة فيها اسنان الإبل واشياء من الجراحات، فقد كذب، قال: وفيها: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" المدينة حرم ما بين عير إلى ثور، فمن احدث فيها حدثا، او آوى محدثا، فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل الله منه يوم القيامة عدلا ولا صرفا، ومن ادعى إلى غير ابيه، او تولى غير مواليه، فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا، وذمة المسلمين واحدة، يسعى بها ادناهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ عِنْدَنَا شَيْئًا نَقْرَؤُهُ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ وَهَذِهِ الصَّحِيفَةَ، صَحِيفَةٌ فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ وَأَشْيَاءُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ، فَقَدْ كَذَبَ، قَالَ: وَفِيهَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَدْلًا وَلَا صَرْفًا، وَمَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ، يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ".
ابراہیم تیمی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے پاس کتاب اللہ اور اس صحیفے جس میں اونٹوں کی عمریں اور زخموں کی کچھ تفصیلات ہیں کے علاوہ بھی کچھ اور ہے جو ہم پڑھتے ہیں تو وہ جھوٹا ہے، اس صحیفے میں یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عیر سے ثور تک مدینہ منورہ حرم ہے، جو شخص اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اللہ اس سے کوئی فرض یا نفلی عبادت قبول نہ کرے گا۔ اور جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے (کسی دوسرے شخص کو اپنا باپ کہنا شروع کر دے) یا کوئی غلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو اپنا آقا کہنا شروع کر دے، اس پر بھی اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اللہ اس کا بھی کوئی فرض یا نفل قبول نہیں کرے گا اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ایک جیسی ہے، ایک عام آدمی بھی اگر کسی کو امان دے دے تو اس کا لحاظ کیا جائے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن خيثمة ، عن سويد بن غفلة ، قال: قال علي رضي الله عنه: إذا حدثتكم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا، فلان اخر من السماء احب إلي من ان اكذب عليه، وإذا حدثتكم عن غيره، فإنما انا رجل محارب، والحرب خدعة، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" يخرج في آخر الزمان اقوام احداث الاسنان، سفهاء الاحلام، يقولون من قول خير البرية، لا يجاوز إيمانهم حناجرهم، فاينما لقيتموهم فاقتلوهم، فإن قتلهم اجر لمن قتلهم يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ، وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ غَيْرِهِ، فَإِنَّمَا أَنَا رَجُلٌ مُحَارِبٌ، وَالْحَرْبُ خَدْعَةٌ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَقْوَامٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ، لَا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: جب میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کروں تو میرے نزدیک آسمان سے گر جانا ان کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور جب کسی اور کے حوالے سے کوئی بات کروں تو میں جنگجو آدمی ہوں اور جنگ تو نام ہی تدابیر اور چال کا ہے۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے قریب ایسی اقوام نکلیں گی جن کی عمر تھوڑی ہو گی اور عقل کے اعتبار سے وہ بیوقوف ہوں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کریں گے، لیکن ایمان ان کے گلے سے آگے نہیں جائے گا، تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو، کیونکہ ان کا قتل کرنا قیامت کے دن باعث ثواب ہو گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن مسلم ، عن شتير بن شكل ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاحزاب:" شغلونا عن صلاة الوسطى، صلاة العصر، ملا الله قبورهم وبيوتهم نارا"، ثم صلاها بين العشاءين: بين المغرب والعشاء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ:" شَغَلُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى، صَلَاةِ الْعَصْرِ، مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ نَارًا"، ثُمَّ صَلَّاهَا بَيْنَ الْعِشَاءَيْنِ: بَيْنِ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز مغرب اور عشاء کے درمیان ادا فرمائی۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن منذر ابي يعلى ، عن محمد ابن الحنفية ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان رجلا مذاء، فاستحيا ان يسال النبي صلى الله عليه وسلم عن المذي، قال: فقال للمقداد: سل لي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المذي، قال: فساله، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فيه الوضوء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنِ مُنْذِرِ أَبِي يَعْلَى ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَجُلًا مَذَّاءً، فَاسْتَحْيَا أَنْ يَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَذْيِ، قَالَ: فَقَالَ لِلْمِقْدَاد: سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمَذْيِ، قَالَ: فَسَأَلَهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِيهِ الْوُضُوءُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص وضو کر لیا کرے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہمیں چھوڑ کر قریش کے دوسرے خاندانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تو میرے لئے حلال نہیں ہے کیونکہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔ (دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا امیرحمزہ آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے اور چچا بھتیجے بھی)۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم جالسا، وفي يده عود ينكت به، قال: فرفع راسه، فقال:" ما منكم من نفس إلا وقد علم منزلها من الجنة والنار"، قال: فقالوا: يا رسول الله، فلم نعمل؟ قال:" اعملوا، فكل ميسر لما خلق له، فاما من اعطى واتقى وصدق بالحسنى فسنيسره لليسرى واما من بخل واستغنى وكذب بالحسنى فسنيسره للعسرى سورة الليل آية 5 - 10".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا، وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ:" مَا مِنْكُمْ مِنْ نَفْسٍ إِلَّا وَقَدْ عُلِمَ مَنْزِلُهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ"، قَالَ: فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلِمَ نَعْمَلُ؟ قَالَ:" اعْمَلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ، فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى سورة الليل آية 5 - 10".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ خواہ جنت ہو یا جہنم اللہ کے علم میں موجود اور متعین ہے“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! پھر ہم عمل کیوں کریں؟ فرمایا: ”عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کے لئے وہی اعمال آسان کئے جائیں گے جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہو گا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی کہ جس شخص نے دیا، تقویٰ اختیار کیا اور اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم اس کے لئے آسانی کے اسباب پیدا کر دیں گے اور جو شخص بخل اختیار کرے اپنے آپ کو مستغنی ظاہر کرے اور اچھی بات کی تکذیب کرے تو ہم اس کے لئے تنگی کے اسباب پیدا کر دیں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، عن علي رضي الله عنه، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية، واستعمل عليهم رجلا من الانصار، قال: فلما خرجوا، قال: وجد عليهم في شيء، قال: فقال لهم: اليس قد امركم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تطيعوني؟ قال: قالوا: بلى، قال: فقال: اجمعوا حطبا، ثم دعا بنار فاضرمها فيه، ثم قال: عزمت عليكم لتدخلنها، قال: فهم القوم ان يدخلوها، قال: فقال لهم شاب منهم: إنما فررتم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من النار، فلا تعجلوا حتى تلقوا النبي صلى الله عليه وسلم، فإن امركم ان تدخلوها فادخلوها، قال: فرجعوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبروه، فقال لهم:" لو دخلتموها ما خرجتم منها ابدا، إنما الطاعة في المعروف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَلَمَّا خَرَجُوا، قَالَ: وَجَدَ عَلَيْهِمْ فِي شَيْءٍ، قَالَ: فَقَالَ لَهُمْ: أَلَيْسَ قَدْ أَمَرَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُطِيعُونِي؟ قَالَ: قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَقَالَ: اجْمَعُوا حَطَبًا، ثُمَّ دَعَا بِنَارٍ فَأَضْرَمَهَا فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ لَتَدْخُلُنَّهَا، قَالَ: فَهَمَّ الْقَوْمُ أَنْ يَدْخُلُوهَا، قَالَ: فَقَالَ لَهُمْ شَابٌّ مِنْهُمْ: إِنَّمَا فَرَرْتُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّارِ، فَلَا تَعْجَلُوا حَتَّى تَلْقَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ أَمَرَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوهَا فَادْخُلُوها، قَالَ: فَرَجَعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ لَهُمْ:" لَوْ دَخَلْتُمُوهَا مَا خَرَجْتُمْ مِنْهَا أَبَدًا، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ایک انصاری کو ان کا امیر مقرر کر دیا، جب وہ لوگ روانہ ہوئے تو راستے میں اس انصاری کو کسی بات پر غصہ آ گیا اور اس نے ان سے کہا کہ پھر لکڑیاں اکٹھی کرو، اس کے بعد اس نے آگ منگوا کر لکڑیوں میں آگ لگا دی اور کہا کہ میں تمہیں قسم دیتاہوں کہ اس آگ میں داخل ہو جاؤ۔ لوگ ابھی اس میں چھلانگ لگانے کی سوچ ہی رہے تھے کہ ایک نوجوان کہنے لگا کہ آگ ہی سے تو بھاگ کر تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہوئے ہو، اس میں جلد بازی مت کرو پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر پوچھ لو، اگر وہ تمہیں اس میں چھلانگ لگانے کا حکم دیں تو ضرور ایسا ہی کرو۔ چنانچہ لوگ رک گئے اور واپس آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا واقعہ بتایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس میں ایک مرتبہ داخل ہو جاتے تو پھر کبھی اس میں سے نکل نہ سکتے، یاد رکھو! اطاعت کا تعلق تو صرف نیکی کے کاموں سے ہے۔“
واقد بن عمرو کہتے ہیں کہ میں بنوسلمہ کے کسی جنازے میں شریک تھا، میں جنازے کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا، تو نافع بن جبیر مجھ سے کہنے لگے کہ بیٹھ جاؤ، میں تمہیں اس سلسلے میں ایک مضبوط بات بتاتا ہوں، مجھے مسعود بن حکم نے بتایا ہے کہ انہوں نے جامع کوفہ کے صحن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہمیں جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کا حکم دیتے تھے، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بیٹھے رہنے لگے اور ہمیں بھی بیٹھے رہنے کا حکم دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، عن سعيد بن ابي عروبة ، عن عبد الله الداناج ، عن حضين ابي ساسان الرقاشي ، قال: انه قدم ناس من اهل الكوفة على عثمان رضي الله عنه، فاخبروه بما كان من امر الوليد، اي: بشربه الخمر، فكلمه علي في ذلك، فقال: دونك ابن عمك، فاقم عليه الحد، فقال: يا حسن، قم فاجلده، قال: ما انت من هذا في شيء، ول هذا غيرك، قال: بل ضعفت ووهنت وعجزت، قم يا عبد الله بن جعفر، فجعل عبد الله يضربه، ويعد علي، حتى بلغ اربعين، ثم قال: امسك، او قال: كف،" جلد رسول الله صلى الله عليه وسلم اربعين، وابو بكر اربعين، وكملها عمر ثمانين، وكل سنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الدَّانَاجِ ، عَنْ حُضَيْنٍ أَبِي سَاسَانَ الرَّقَاشِيِّ ، قَالَ: أَنَّهُ قَدِمَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ عَلَى عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَخْبَرُوهُ بِمَا كَانَ مِنْ أَمْرِ الْوَلِيدِ، أَيْ: بِشُرْبِهِ الْخَمْرَ، فَكَلَّمَهُ عَلِيٌّ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: دُونَكَ ابْنَ عَمِّكَ، فَأَقِمْ عَلَيْهِ الْحَدَّ، فَقَالَ: يَا حَسَنُ، قُمْ فَاجْلِدْهُ، قَالَ: مَا أَنْتَ مِنْ هَذَا فِي شَيْءٍ، وَلِّ هَذَا غَيْرَكَ، قَالَ: بَلْ ضَعُفْتَ وَوَهَنْتَ وَعَجَزْتَ، قُمْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ، فَجَعَلَ عَبْدُ اللَّهِ يَضْرِبُهُ، وَيَعُدُّ عَلِيٌّ، حَتَّى بَلَغَ أَرْبَعِينَ، ثُمَّ قَالَ: أَمْسِكْ، أَوْ قَالَ: كُفَّ،" جَلَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ، وَأَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ، وَكَمَّلَهَا عُمَرُ ثَمَانِينَ، وَكُلٌّ سُنَّةٌ".
ابوساسان رقاشی کہتے ہیں کہ کوفہ سے کچھ لوگ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ولید کی شراب نوشی کے حوالے سے کچھ خبریں بتائیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان سے اس حوالے پر گفتگو کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کا چچازاد بھائی آپ کے حوالے ہے، آپ اس پر سزا جاری فرمائیے انہوں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ حسن! کھڑے ہو کر اسے کوڑے مارو، اس نے کہا کہ آپ یہ کام نہیں کر سکتے، کسی اور کو اس کا حکم دیجئے، فرمایا: اصل میں تم کمزور اور عاجز ہو گئے ہو، اس لئے عبداللہ بن جعفر! تم کھڑے ہو کر اس پر سزا جاری کرو، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کوڑے مارتے جاتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ گنتے جاتے تھے، جب چالیس کوڑے ہوئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس کرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کو چالیس کوڑے مارے تھے، سیدنا ابوبکرضی اللہ عنہ نے بھی چالیس کوڑے مارے تھے، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی مارے تھے اور دونوں ہی سنت ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا محمد بن إسحاق ، حدثني محمد بن طلحة بن يزيد بن ركانة ، عن عبيد الله الخولاني ، عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: دخل علي علي بيتي، فدعا بوضوء، فجئته بقعب ياخذ المد او قريبه، حتى وضع بين يديه، وقد بال، فقال: يا ابن عباس، الا اتوضا لك وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلت: بلى، فداك ابي وامي، قال: فوضع له إناء،" فغسل يديه، ثم مضمض، واستنشق، واستنثر، ثم اخذ بيديه فصك بهما وجهه، والقم إبهامه ما اقبل من اذنيه، قال: ثم عاد في مثل ذلك ثلاثا، ثم اخذ كفا من ماء بيده اليمنى، فافرغها على ناصيته، ثم ارسلها تسيل على وجهه، ثم غسل يده اليمنى، إلى المرفق ثلاثا، ثم يده الاخرى مثل ذلك، ثم مسح براسه واذنيه من ظهورهما، ثم اخذ بكفيه من الماء، فصك بهما على قدميه، وفيهما النعل، ثم قلبها بها، ثم على الرجل الاخرى مثل ذلك، قال: فقلت: وفي النعلين؟ قال: وفي النعلين، قلت: وفي النعلين؟ قال: وفي النعلين، قلت: وفي النعلين؟ قال: وفي النعلين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيَّ عَلِيٌّ بَيْتِي، فَدَعَا بِوَضُوءٍ، فَجِئْتُهُ بِقَعْبٍ يَأْخُذُ الْمُدَّ أَوْ قَرِيبَهُ، حَتَّى وُضِعَ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَقَدْ بَالَ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَلَا أَتَوَضَّأُ لَكَ وُضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، قَالَ: فَوُضِعَ لَهُ إِنَاءٌ،" فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ مَضْمَضَ، وَاسْتَنْشَقَ، وَاسْتَنْثَرَ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدَيْهِ فَصَكَّ بِهِمَا وَجْهَهُ، وَأَلْقَمَ إِبْهَامَهُ مَا أَقْبَلَ مِنْ أُذُنَيْهِ، قَالَ: ثُمَّ عَادَ فِي مِثْلِ ذَلِكَ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ بِيَدِهِ الْيُمْنَى، فَأَفْرَغَهَا عَلَى نَاصِيَتِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَهَا تَسِيلُ عَلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى، إِلَى الْمِرْفَقِ ثَلَاثًا، ثُمَّ يَدَهُ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ مِنْ ظُهُورِهِمَا، ثُمَّ أَخَذَ بِكَفَّيْهِ مِنَ الْمَاءِ، فَصَكَّ بِهِمَا عَلَى قَدَمَيْهِ، وَفِيهِمَا النَّعْلُ، ثُمَّ قَلَبَهَا بِهَا، ثُمَّ عَلَى الرِّجْلِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَفِي النَّعْلَيْنِ؟ قَالَ: وَفِي النَّعْلَيْنِ، قُلْتُ: وَفِي النَّعْلَيْنِ؟ قَالَ: وَفِي النَّعْلَيْنِ، قُلْتُ: وَفِي النَّعْلَيْنِ؟ قَالَ: وَفِي النَّعْلَيْنِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ میرے گھر تشریف لائے، انہوں نے وضو کے لئے پانی منگوایا، ہم ان کے پاس ایک پیالہ لائے جس میں ایک مد یا اس کے قریب پانی آتا تھا اور وہ لا کر ان کے سامنے رکھ دیا، اس وقت وہ پیشاب سے فارغ ہو چکے تھے، انہوں نے مجھ سے فرمایا: اے ابن عباس! کیا میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وضو کر کے نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ چنانچہ ان کے وضو کے لئے برتن رکھا گیا، پہلے انہوں نے دونوں ہاتھ دھوئے، کلی کی، ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کیا، پھر دونوں ہاتھوں میں پانی لے کر چہرے پر مارا اپنے انگوٹھے کا پانی کان کے سامنے والے حصے پر ڈالا تین مرتبہ اسی طرح کیا، پھر دائیں ہاتھ سے ایک چلو بھر کر پانی لیا اور اسے پیشانی پر ڈال لیا، تاکہ وہ چہرے پر بہہ جائے، پھر دائیں ہاتھ کو کہنی سمیت تین مرتبہ دھویا، بائیں ہاتھ کو بھی اسی طرح دھویا، سر اور کانوں کا مسح کیا، پھر دونوں ہاتھوں میں پانی لے کر اپنے قدموں پر ڈالا، جبکہ انہوں نے جوتی پہن رکھی تھی، پھر جوتی کو ہلایا اور دوسرے پاؤں کے ساتھ بھی اسی طرح کیا۔ میں نے عرض کیا کہ جوتی پہنے ہوئے بھی وضو ہو سکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں! ہو سکتا ہے۔ یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن محمد ، عن عبيدة ، عن علي رضي الله عنه، قال: ذكر الخوارج، فقال:" فيهم مخدج اليد، او مودن اليد، او مثدن اليد، لولا ان تبطروا، لحدثتكم بما وعد الله الذين يقتلونهم على لسان محمد"، قلت: انت سمعته من محمد؟ قال: إي ورب الكعبة، إي ورب الكعبة، إي ورب الكعبة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ذُكِرَ الْخَوَارِجُ، فَقَالَ:" فِيهِمْ مُخْدَجُ الْيَدِ، أَوْ مُودَنُ الْيَدِ، أَوْ مُثَدَّنُ الْيَدِ، لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا، لَحَدَّثْتُكُمْ بِمَا وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ"، قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ مُحَمَّدٍ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إي ورب الكعبة، إي ورب الكعبة.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ خوارج کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہو گا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاؤ تو میں تم سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے، راوی ہے کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے تین مرتبہ فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا، جب آپ مجھے کہیں بھیجتے ہیں تو میں ڈھلا ہوا سکہ بن کر جایا کروں یا وہاں کے حالات دیکھ کر فیصلہ کیا کروں کیونکہ موقع پر موجود شخص وہ دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھتا؟ فرمایا: ”بلکہ یہ بات سامنے رکھو کہ موقع پر موجود شخص وہ دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھتا (اور حالات دیکھ کر فیصلہ کیا کرو)۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، محمد بن عمر بن على بن أبى طالب - لم يدرك جده
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، حدثنا منصور ، قال: سمعت ربعيا ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تكذبوا علي، فإنه من يكذب علي، يلج النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيًّا ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَيَّ، يَلِجْ النَّارَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری طرف جھوٹی بات کی نسبت نہ کرو، کیونکہ جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، والحديث متواتر ، خ: 106، ومسلم فى المقدمة : 1
(حديث مرفوع) حدثناه حسين عن شعبة ، عن منصور ، عن ربعي بن حراش ، قال: سمعت عليا ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تكذبوا علي، فإنه من يكذب علي، يلج النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَاهُ حُسَيْنٌ عَنْ شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَيَّ، يَلِجْ النَّارَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری طرف جھوٹی بات کی نسبت نہ کرو، کیونکہ جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پہلے ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنازے کے احترام میں کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا تو ہم بھی کھڑے ہونے لگے، بعد میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو ہم بھی بیٹھنے لگے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی جنبی ہو یا تصویر یا کتا ہو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، دون ذكر الجنب، وهذا إسناد ضعيف لعلل
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن هشام ، حدثنا قتادة ، عن جري بن كليب ، عن علي رضي الله عنه، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان يضحى بعضباء القرن والاذن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ جُرَيِّ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ يُضَحَّى بِعَضْبَاءِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثني سليمان ، عن إبراهيم التيمي ، عن الحارث بن سويد ، عن علي رضي الله عنه، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم" عن الدباء، والمزفت"، قال ابو عبد الرحمن: سمعت ابي، يقول: ليس بالكوفة عن علي رضي الله عنه حديث اصح من هذا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْمُزَفَّتِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: سَمِعْت أَبِي، يَقُولُ: لَيْسَ بِالْكُوفَةِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدِيثٌ أَصَحُّ مِنْ هَذَا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء اور مزفت سے منع فرمایا ہے۔ (جن کی وضاحت پیچھے گزر چکی)۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن مجالد ، حدثني عامر ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة:" آكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، والحال، والمحلل له، ومانع الصدقة، والواشمة، والمستوشمة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ مُجَالِدٍ ، حَدَّثَنِي عَامِرٌ ، عَنْ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةً:" آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَالْحَالَّ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ، وَمَانِعَ الصَّدَقَةِ، وَالْوَاشِمَةَ، وَالْمُسْتَوْشِمَةَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے، سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی عورتوں پر۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثني يحيى ، عن الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي البختري ، عن علي رضي الله عنه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن وانا حديث السن، قال: قلت: تبعثني إلى قوم يكون بينهم احداث، ولا علم لي بالقضاء؟ قال:" إن الله سيهدي لسانك، ويثبت قلبك"، قال: فما شككت في قضاء بين اثنين بعد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنِي يَحْيَى ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ وَأَنَا حَدِيثُ السِّنِّ، قَالَ: قُلْتُ: تَبْعَثُنِي إِلَى قَوْمٍ يَكُونُ بَيْنَهُمْ أَحْدَاثٌ، وَلَا عِلْمَ لِي بِالْقَضَاءِ؟ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ سَيَهْدِي لِسَانَكَ، وَيُثَبِّتُ قَلْبَكَ"، قَالَ: فَمَا شَكَكْتُ فِي قَضَاءٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ بَعْدُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں اس وقت نوخیز تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے ایک ایسی قوم کی طرف بھیج رہے ہیں جہاں لوگوں میں آپس میں اختلافات اور جھگڑے بھی ہوں گے اور مجھے فیصلہ کرنے کا قطعاً کوئی علم نہیں ہے؟ فرمایا: ”اللہ تمہاری زبان کو صحیح راستے پر چلائے گا اور تمہارے دل کو مضبوط رکھے گا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں مجھے کوئی شک نہیں ہوا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، أبو البختري لم يسمع من على شيئا
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، حدثنا عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن سلمة ، عن علي رضي الله عنه، قال: مر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا وجع، وانا اقول: اللهم إن كان اجلي قد حضر، فارحني، وإن كان آجلا، فارفعني، وإن كان بلاء، فصبرني، قال:" ما قلت؟"، فاعدت عليه، فضربني برجله، فقال:" ما قلت؟"، قال: فاعدت عليه، فقال:" اللهم عافه، او اشفه"، قال: فما اشتكيت ذلك الوجع بعد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا وَجِعٌ، وَأَنَا أَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَجَلِي قَدْ حَضَرَ، فَأَرِحْنِي، وَإِنْ كَانَ آجِلًا، فَارْفَعْنِي، وَإِنْ كَانَ بَلَاءً، فَصَبِّرْنِي، قَالَ:" مَا قُلْتَ؟"، فَأَعَدْتُ عَلَيْهِ، فَضَرَبَنِي بِرِجْلِهِ، فَقَالَ:" مَا قُلْتَ؟"، قَالَ: فَأَعَدْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ عَافِهِ، أَوْ اشْفِهِ"، قَالَ: فَمَا اشْتَكَيْتُ ذَلِكَ الْوَجَعَ بَعْدُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے پاس سے گزر ہوا، میں اس وقت بیمار تھا اور یہ دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ! اگر میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے تو مجھے اس بیماری سے راحت عطا فرما اور مجھے اپنے پاس بلا لے، اگر اس میں دیر ہو تو مجھے اٹھا لے اور اگر یہ کوئی آزمائش ہو تو مجھے صبر عطاء فرما، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ت”م کیا کہہ رہے ہو؟“ میں نے اپنی بات پھر دہرا دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پاؤں سے ٹھوکر ماری یعنی غصہ کا اظہار کیا اور فرمایا: ”کیا کہہ رہے ہو؟“ میں نے پھر اپنی بات دہرا دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! اسے عافیت اور شفاء عطاء فرما“، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے وہ تکلیف کبھی نہیں ہوئی۔
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت عبد الله بن سلمة ، عن علي رضي الله عنه، قال: كنت شاكيا، فمر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم... فذكر معناه، إلا انه قال:" اللهم عافه، اللهم اشفه"، فما اشتكيت ذلك الوجع بعد.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ شَاكِيًا، فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" اللَّهُمَّ عَافِهِ، اللَّهُمَّ اشْفِهِ"، فَمَا اشْتَكَيْتُ ذَلِكَ الْوَجَعَ بَعْدُ.
گزشتہ روایت ایک دوسری سند سے بھی مذکور ہے جو عبارت میں گزری۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، حدثني عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن سلمة ، قال: اتيت على علي رضي الله عنه، انا ورجلان، فقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يقضي حاجته، ثم يخرج فيقرا القرآن، وياكل معنا اللحم، ولا يحجزه وربما قال: يحجبه، من القرآن شيء ليس الجنابة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ ، قَالَ: أَتَيْتُ عَلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَا وَرَجُلَانِ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْضِي حَاجَتَهُ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَيَأْكُلُ مَعَنَا اللَّحْمَ، وَلَا يَحْجِزُهُ وَرُبَّمَا قَالَ: يَحْجُبُهُ، مِنَ الْقُرْآنِ شَيْءٌ لَيْسَ الْجَنَابَةَ".
عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں ایک آدمی کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ فرمانے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے بعد وضو کئے بغیر باہر تشریف لا کر قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ گوشت بھی تناول فرما لیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنابت کے علاوہ کوئی چیز قرآن سے نہیں روکتی تھی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے بہترین عورت سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام ہیں اور بہترین عورت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، حدثنا عبد الملك ، عن ابي عبد الرحيم الكندي ، عن زاذان ابي عمر ، قال: سمعت عليا في الرحبة وهو ينشد الناس: من شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم غدير خم، وهو يقول ما قال؟ فقام ثلاثة عشر رجلا، فشهدوا انهم سمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول:" من كنت مولاه فعلي مولاه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحِيمِ الْكِنْدِيِّ ، عَنْ زَاذَانَ أَبِي عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا فِي الرَّحْبَةِ وَهُوَ يَنْشُدُ النَّاسَ: مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ، وَهُوَ يَقُولُ مَا قَالَ؟ فَقَامَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا، فَشَهِدُوا أَنَّهُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ:" مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ".
زاذان کہتے ہیں کہ میں نے صحن مسجد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر یہ پوچھتے ہوئے سنا کہ غدیر خم کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کون حاضر تھا اور کس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا تھا؟ اس پر تیرہ آدمی کھڑے ہو گئے اور ان سب نے گواہی دی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، ومتنه متواتر، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى عبدالرحيم الكندي
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، حدثنا الاعمش ، عن عدي بن ثابت ، عن زر بن حبيش ، قال: قال علي رضي الله عنه: والله إنه مما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم: انه" لا يبغضني إلا منافق، ولا يحبني إلا مؤمن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَاللَّهِ إِنَّهُ مِمَّا عَهِدَ إِلَيّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ" لَا يُبْغِضُنِي إِلَّا مُنَافِقٌ، وَلَا يُحِبُّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ بات ذکر فرمائی تھی کہ مجھ سے بغض کوئی منافق ہی کر سکتا ہے اور مجھ سے محبت کوئی مومن ہی کر سکتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اسامة ، اخبرنا زائدة ، حدثنا عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن علي رضي الله عنه، قال:" جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة في خميل، وقربة، ووسادة ادم حشوها ليف الإذخر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، أَخبرنا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" جَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ فِي خَمِيلٍ، وَقِرْبَةٍ، وَوِسَادَةِ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفُ الْإِذْخِرِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز میں روئیں دار کپڑے، ایک مشکیزہ اور چمڑے کا تکیہ دیا تھا جس میں اذخر نامی گھاس بھری ہوئی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسباط بن محمد ، حدثنا نعيم بن حكيم المدائني ، عن ابي مريم ، عن علي رضي الله عنه، قال: انطلقت انا والنبي صلى الله عليه وسلم حتى اتينا الكعبة، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجلس"، وصعد على منكبي، فذهبت لانهض به، فراى مني ضعفا، فنزل، وجلس لي نبي الله صلى الله عليه وسلم، وقال:" اصعد على منكبي"، قال: فصعدت على منكبيه، قال: فنهض بي، قال: فإنه يخيل إلي اني لو شئت لنلت افق السماء، حتى صعدت على البيت، وعليه تمثال صفر او نحاس، فجعلت ازاوله عن يمينه وعن شماله، وبين يديه ومن خلفه، حتى إذا استمكنت منه قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقذف به"، فقذفت به، فتكسر كما تتكسر القوارير، ثم نزلت، فانطلقت انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم نستبق حتى توارينا بالبيوت، خشية ان يلقانا احد من الناس.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَكِيمٍ الْمَدَائِنِيُّ ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْنَا الْكَعْبَةَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْلِسْ"، وَصَعِدَ عَلَى مَنْكِبَيَّ، فَذَهَبْتُ لِأَنْهَضَ بِهِ، فَرَأَى مِنِّي ضَعْفًا، فَنَزَلَ، وَجَلَسَ لِي نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" اصْعَدْ عَلَى مَنْكِبَيَّ"، قَالَ: فَصَعِدْتُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ، قَالَ: فَنَهَضَ بِي، قَالَ: فَإِنَّهُ يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنِّي لَوْ شِئْتُ لَنِلْتُ أُفُقَ السَّمَاءِ، حَتَّى صَعِدْتُ عَلَى الْبَيْتِ، وَعَلَيْهِ تِمْثَالُ صُفْرٍ أَوْ نُحَاسٍ، فَجَعَلْتُ أُزَاوِلُهُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ، حَتَّى إِذَا اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْذِفْ بِهِ"، فَقَذَفْتُ بِهِ، فَتَكَسَّرَ كَمَا تَتَكَسَّرُ الْقَوَارِيرُ، ثُمَّ نَزَلْتُ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَبِقُ حَتَّى تَوَارَيْنَا بِالْبُيُوتِ، خَشْيَةَ أَنْ يَلْقَانَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوا، ہم خانہ کعبہ پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ نے مجھ سے بیٹھنے کے لئے فرمایا اور خود میرے کندھوں پر چڑھ گئے، میں نے کھڑا ہونا چاہا لیکن نہ ہو سکا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھ میں کمزوری کے آثار دیکھے تو نیچے اتر آئے، خود بیٹھ گئے اور مجھ سے فرمایا: میرے کندھوں پر چڑھ جاؤ، چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہو گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے لے کر کھڑے ہو گئے۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو افق کو چھو لوں، بہرحال! میں بیت اللہ پر چڑھ گیا، وہاں پیتل تانبے کی ایک مورتی نظر آئی، میں اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے دھکیلنے لگا، جب میں اس پر قادر ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اسے نیچے پھینک دو“، چنانچہ میں نے اسے نیچے پٹخ دیا اور وہ شیشے کی طرح چکنا چور ہو گئی، پھر میں نیچے اتر آیا۔ پھر میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے تیزی سے روانہ ہو گئے یہاں تک کہ گھروں میں جا کر چھپ گئے، ہمیں یہ اندیشہ تھا کہ کہیں کوئی آدمی نہ مل جائے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لجهالة أبى مريم الثقفي و ضعف نعيم ابن حكيم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مہدی کا تعلق ہم اہل بیت سے ہو گا، اللہ اسے ایک ہی رات میں سنوار دے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، إبراهيم ابن محمد ابن الحنفية لم يوثقة غير العجلي وابن حبان، وياسين العجلي فيه نظر
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا هاشم بن البريد ، عن حسين بن ميمون ، عن عبد الله بن عبد الله قاضي الري، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، قال: سمعت امير المؤمنين عليا رضي الله عنه يقول: اجتمعت انا وفاطمة رضي الله عنها، والعباس، وزيد بن حارثة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال العباس: يا رسول الله، كبر سني، ورق عظمي، وكثرت مؤنتي، فإن رايت يا رسول الله ان تامر لي بكذا وكذا وسقا من طعام فافعل، فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نفعل"، فقالت فاطمة: يا رسول الله، إن رايت ان تامر لي كما امرت لعمك فافعل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نفعل ذلك"، ثم قال زيد بن حارثة: يا رسول الله، كنت اعطيتني ارضا كانت معيشتي منها، ثم قبضتها، فإن رايت ان تردها علي فافعل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نفعل ذاك"، قال: فقلت: انا يا رسول الله، إن رايت ان توليني هذا الحق الذي جعله الله لنا في كتابه من هذا الخمس، فاقسمه في حياتك كي لا ينازعنيه احد بعدك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نفعل ذاك"، فولانيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقسمته في حياته، ثم ولانيه ابو بكر رضي الله عنه فقسمته في حياته، ثم ولانيه عمر رضي الله عنه فقسمت في حياته، حتى كانت آخر سنة من سني عمر رضي الله عنه، فإنه اتاه مال كثير.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْبَرِيدِ ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَاضِي الرَّيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: اجْتَمَعْتُ أَنَا وَفَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، وَالْعَبَّاسُ، وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَبِرَ سِنِّي، وَرَقَّ عَظْمِي، وَكَثُرَتْ مُؤْنَتِي، فَإِنْ رَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ تَأْمُرَ لِي بِكَذَا وَكَذَا وَسْقًا مِنْ طَعَامٍ فَافْعَلْ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَفْعَلُ"، فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَأْمُرَ لِي كَمَا أَمَرْتَ لِعَمِّكَ فَافْعَلْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَفْعَلُ ذَلِكَ"، ثُمَّ قَالَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنْتَ أَعْطَيْتَنِي أَرْضًا كَانَتْ مَعِيشَتِي مِنْهَا، ثُمَّ قَبَضْتَهَا، فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَرُدَّهَا عَلَيَّ فَافْعَلْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَفْعَلُ ذاكَ"، قَالَ: فَقُلْتُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُوَلِّيَنِي هَذَا الْحَقَّ الَّذِي جَعَلَهُ اللَّهُ لَنَا فِي كِتَابِهِ مِنْ هَذَا الْخُمُسِ، فَأَقْسِمُهُ فِي حَيَاتِكَ كَيْ لَا يُنَازِعَنِيهِ أَحَدٌ بَعْدَكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَفْعَلُ ذَاكَ"، فَوَلَّانِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَسَمْتُهُ فِي حَيَاتِهِ، ثُمَّ وَلَّانِيهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَسَمْتُهُ فِي حَيَاتِهِ، ثُمَّ وَلَّانِيهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَسَمْتُ فِي حَيَاتِهِ، حَتَّى كَانَتْ آخِرُ سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ كَثِيرٌ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدنا عباس اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ! میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں، میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور میری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں، اگر آپ مجھے اتنے من غلہ اور گندم دے دیں تو میرا کام بن جائے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا دے دیں گے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر مناسب سمجھیں تو آپ نے اپنے چچا کے لئے جو حکم دیا ہے وہ ہمارے لئے بھی دے دیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا دے دیں گے، پھر سیدنا زید بن حارثہ کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ نے مجھے زمین کا ایک ٹکڑا عطا فرمایا تھا جس سے میری گزر اوقات ہو جاتی تھی، لیکن پھر آپ نے وہ زمین واپس لے لی، اگر آپ مناسب خیال فرمائیں تو وہ مجھے واپس کر دیں فرمایا: اچھا کر دیں گے۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ نے قرآن کریم میں ہمارے لئے خمس کا جو حق مقرر فرمایا ہے، اگر آپ مناسب خیال فرمائیں تو مجھے اس کا نگران بنا دیجئے تاکہ میں آپ کی حیات طیبہ میں اسے تقسیم کیا کروں اور آپ کے بعد کوئی شخص اس میں مجھ سے جھگڑا نہ کر سکے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا بنا دیں گے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا نگران بنا دیا اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اسے تقسیم کرتا رہا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے زمانے میں مجھے اس کی نگرانی پر برقرار رکھا اور میں ان کی حیات میں بھی اسے تقسیم کرتا رہا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی مجھے اس پر برقرار رکھا اور میں اسے تقسیم کرتا رہا لیکن جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا آخری سال تھا تو اس کی نگرانی مجھ سے لے لی گئی، اس وقت ان کے پاس بہت مال آیا تھا۔ (اور وہ مختلف طریقہ اختیار کرنا چاہتے تھے)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، حسين بن ميمون ليس بمعروف، قل من روى عنه، قال البخاري : هو حديث لم يتابع عليه
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا شرحبيل بن مدرك الجعفي ، عن عبد الله بن نجي الحضرمي ، عن ابيه ، قال: قال لي علي رضي الله عنه: كانت لي من رسول الله صلى الله عليه وسلم منزلة لم تكن لاحد من الخلائق، إني كنت آتيه كل سحر فاسلم عليه حتى يتنحنح، وإني جئت ذات ليلة فسلمت عليه، فقلت: السلام عليك يا نبي الله، فقال:" على رسلك يا ابا حسن حتى اخرج إليك"، فلما خرج إلي، قلت: يا نبي الله، اغضبك احد؟ قال:" لا"، قلت: فما لك لا تكلمني فيما مضى حتى كلمتني الليلة؟ قال:" إني سمعت في الحجرة حركة، فقلت: من هذا؟ فقال: انا جبريل، قلت: ادخل، قال: لا، اخرج إلي، فلما خرجت، قال: إن في بيتك شيئا لا يدخله ملك ما دام فيه، قلت: ما اعلمه يا جبريل، قال: اذهب فانظر، ففتحت البيت، فلم اجد فيه شيئا غير جرو كلب كان يلعب به الحسن، قلت: ما وجدت إلا جروا، قال: إنها ثلاث لن يلج ملك ما دام فيها ابدا واحد منها: كلب، او جنابة، او صورة روح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُدْرِكٍ الْجُعْفِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ لِي عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: كَانَتْ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلَةٌ لَمْ تَكُنْ لِأَحَدٍ مِنَ الْخَلَائِقِ، إِنِّي كُنْتُ آتِيهِ كُلَّ سَحَرٍ فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ حَتَّى يَتَنَحْنَحَ، وَإِنِّي جِئْتُ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، فَقَالَ:" عَلَى رِسْلِكَ يَا أَبَا حَسَنٍ حَتَّى أَخْرُجَ إِلَيْكَ"، فَلَمَّا خَرَجَ إِلَيَّ، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَغْضَبَكَ أَحَدٌ؟ قَالَ:" لَا"، قُلْتُ: فَمَا لَكَ لَا تُكَلِّمُنِي فِيمَا مَضَى حَتَّى كَلَّمْتَنِي اللَّيْلَةَ؟ قَالَ:" إني سَمِعْتُ فِي الْحُجْرَةِ حَرَكَةً، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَنَا جِبْرِيلُ، قُلْتُ: ادْخُلْ، قَالَ: لَا، اخْرُجْ إِلَيَّ، فَلَمَّا خَرَجْتُ، قَالَ: إِنَّ فِي بَيْتِكَ شَيْئًا لَا يَدْخُلُهُ مَلَكٌ مَا دَامَ فِيهِ، قُلْتُ: مَا أَعْلَمُهُ يَا جِبْرِيلُ، قَالَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ، فَفَتَحْتُ الْبَيْتَ، فَلَمْ أَجِدْ فِيهِ شَيْئًا غَيْرَ جَرْوِ كَلْبٍ كَانَ يَلْعَبُ بِهِ الْحَسَنُ، قُلْتُ: مَا وَجَدْتُ إِلَّا جَرْوًا، قَالَ: إِنَّهَا ثَلَاثٌ لَنْ يَلِجَ مَلَكٌ مَا دَامَ فِيهَا أَبَدًا وَاحِدٌ مِنْهَا: كَلْبٌ، أَوْ جَنَابَةٌ، أَوْ صُورَةُ رُوحٍ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا شرف مجھے ایک ایسے وقت میں حاصل ہوتا تھا جو مخلوق میں میرے علاوہ کسی کو حاصل نہ ہو سکا، میں روزانہ سحری کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور سلام کرتا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھانس کر مجھے اندر آنے کی اجازت عطا فرما دیتے۔ ایک مرتبہ میں رات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور حسب عادت سلام کرتے ہوئے کہا: «السلام عليك يا نبي الله» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوالحسن! رکو“، میں خود ہی باہر آ رہا ہوں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کیا کسی نے آپ کو غصہ دلایا ہے؟ فرمایا: ”نہیں“ میں نے پوچھا: تو پھر کل گزشتہ رات آپ نے مجھ سے کوئی بات کیوں نہیں کی؟ فرمایا:”مجھے اپنے حجرے میں کسی چیز کی آہٹ محسوس ہوئی، میں نے پوچھا: کون ہے؟ آواز آئی کہ میں جبرئیل ہوں، میں نے انہیں اندر آنے کے لئے کہا: تو وہ کہنے لگے نہیں، آپ ہی باہر تشریف لے آئیے۔ جب میں باہر آیا تو وہ کہنے لگے کہ آپ کے گھر میں ایک ایسی چیز ہے کہ وہ جب تک گھر میں رہے گی، کوئی فرشتہ بھی گھر میں داخل نہ ہو گا، میں نے کہا کہ جبرئیل! مجھے تو ایسی کسی چیز کا علم نہیں ہے، وہ کہنے لگے کہ جا کر اچھی طرح دیکھئے، میں نے گھر کھول کر دیکھا تو وہاں کتے کے ایک چھوٹے سے بچے کے علاوہ مجھے کوئی اور چیز نہیں ملی جس سے حسن کھیل رہے تھے چنانچہ میں نے آ کر ان سے یہی کہا کہ مجھے تو کتے کے ایک چھوٹے سے پلے کے علاوہ کچھ نہیں ملا، اس پر انہوں نے کہا: کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو کسی گھر میں جب تک رہیں گی، اس وقت تک رحمت کا کوئی فرشتہ وہاں داخل نہ ہو گا، کتا، جنبی آدمی یا کسی جاندار کی تصویر۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا شرحبيل بن مدرك ، عن عبد الله بن نجي ، عن ابيه ، انه سار مع علي رضي الله عنه، وكان صاحب مطهرته، فلما حاذى نينوى وهو منطلق إلى صفين، فنادى علي رضي الله عنه: اصبر ابا عبد الله، اصبر ابا عبد الله، بشط الفرات، قلت: وماذا؟ قال: دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم وعيناه تفيضان، قلت: يا نبي الله، اغضبك احد، ما شان عينيك تفيضان؟ قال:" بل قام من عندي جبريل قبل، فحدثني ان الحسين يقتل بشط الفرات"، قال: فقال:" هل لك إلى ان اشمك من تربته؟"، قال: قلت: نعم، فمد يده، فقبض قبضة من تراب، فاعطانيها، فلم املك عيني ان فاضتا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُدْرِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَارَ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ صَاحِبَ مِطْهَرَتِهِ، فَلَمَّا حَاذَى نِينَوَى وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى صِفِّينَ، فَنَادَى عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، بِشَطِّ الْفُرَاتِ، قُلْتُ: وَمَاذَا؟ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعَيْنَاهُ تَفِيضَانِ، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَغْضَبَكَ أَحَدٌ، مَا شَأْنُ عَيْنَيْكَ تَفِيضَانِ؟ قَالَ:" بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِي جِبْرِيلُ قَبْلُ، فَحَدَّثَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ"، قَالَ: فَقَالَ:" هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ أُشِمَّكَ مِنْ تُرْبَتِهِ؟"، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَمَدَّ يَدَهُ، فَقَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ، فَأَعْطَانِيهَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ أَنْ فَاضَتَا.
عبداللہ بن نجی کے والد ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہے تھے، ان کے ذمے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے وضو کی خدمت تھی، جب وہ صفین کی طرف جاتے ہوئے نینوی کے قریب پہنچے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پکار کر فرمایا: ابوعبداللہ! فرات کے کنارے پر رک جاؤ، میں نے پوچھا کہ خیریت ہے؟ فرمایا: میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہو رہی تھی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کیا کسی نے آپ کو غصہ دلایا، خیر تو ہے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں؟ فرمایا: ایسی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میرے پاس سے جبرئیل اٹھ کر گئے ہیں، وہ کہہ رہے تھے کہ حسین کو فرات کے کنارے شہید کر دیا جائے گا، پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس مٹی کی خوشبو سونگھا سکتا ہوں؟ میں نے انہیں اثبات میں جواب دیا، تو انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر ایک مٹھی بھر کر مٹی اٹھائی اور مجھے دے دی، بس اس وقت سے اپنے آنسؤوں پر مجھے قابو نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا مروان بن معاوية الفزاري ، اخبرنا الازهر بن راشد الكاهلي ، عن الخضر بن القواس ، عن ابي سخيلة ، قال: قال علي رضي الله عنه: الا اخبركم بافضل آية في كتاب الله تعالى حدثنا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما اصابكم من مصيبة فبما كسبت ايديكم ويعفو عن كثير سورة الشورى آية 30،" وسافسرها لك يا علي: ما اصابكم من مرض، او عقوبة، او بلاء في الدنيا، فبما كسبت ايديكم، والله تعالى اكرم من ان يثني عليهم العقوبة في الآخرة، وما عفا الله تعالى عنه في الدنيا، فالله تعالى احلم من ان يعود بعد عفوه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ ، أَخبرنَا الْأَزْهَرُ بْنُ رَاشِدٍ الْكَاهِلِيُّ ، عَنْ الْخَضِرِ بْنِ الْقَوَّاسِ ، عَنْ أَبِي سُخَيْلَةَ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلِ آيَةٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى حَدَّثَنَا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ سورة الشورى آية 30،" وَسَأُفَسِّرُهَا لَكَ يَا عَلِيُّ: مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مَرَضٍ، أَوْ عُقُوبَةٍ، أَوْ بَلَاءٍ فِي الدُّنْيَا، فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُثَنِّيَ عَلَيْهِمْ الْعُقُوبَةَ فِي الْآخِرَةِ، وَمَا عَفَا اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فِي الدُّنْيَا، فَاللَّهُ تَعَالَى أَحْلَمُ مِنْ أَنْ يَعُودَ بَعْدَ عَفْوِهِ".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں قرآن کریم کی وہ سب سے افضل آیت جو ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی نہ بتاؤں؟ وہ آیت یہ ہے «مااصابكم من مصيبة فبما كسبت ايديكم و يعفو عن كثير» اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ علی! میں تمہارے سامنے اس کی تفسیر بیان کرتا ہوں، اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں دنیا میں جو بیماری، تکلیف یا آزمائش پیش آتی ہے تو وہ تمہاری اپنی حرکتوں اور کرتوتوں کی وجہ سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے بہت کریم ہے کہ آخرت میں اس کی دوبارہ سزا دے اور اللہ نے دنیا میں جس چیز سے درگزر فرمایا ہو، اس کے حلم سے یہ بعید ہے کہ وہ اپنے عفو سے رجوع کر لے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، وإسرائيل ، وابي ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، قال: سالنا عليا رضي الله عنه عن تطوع النبي صلى الله عليه وسلم بالنهار؟ فقال: إنكم لا تطيقونه، قال: قلنا: اخبرنا به ناخذ منه ما اطقنا، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم" إذا صلى الفجر امهل، حتى إذا كانت الشمس من ها هنا، يعني: من قبل المشرق، مقدارها من صلاة العصر من هاهنا، من قبل المغرب، قام فصلى ركعتين، ثم يمهل حتى إذا كانت الشمس من هاهنا، يعني: من قبل المشرق، مقدارها من صلاة الظهر من هاهنا، يعني: من قبل المغرب، قام فصلى اربعا، واربعا قبل الظهر إذا زالت الشمس، وركعتين بعدها، واربعا قبل العصر، يفصل بين كل ركعتين بالتسليم على الملائكة المقربين، والنبيين، ومن تبعهم من المؤمنين والمسلمين"، وقال: قال علي رضي الله عنه: تلك ست عشرة ركعة تطوع النبي صلى الله عليه وسلم بالنهار، وقل من يداوم عليها، حدثنا وكيع، عن ابيه، قال: قال حبيب بن ابي ثابت لابي إسحاق حين حدثه: يا ابا إسحاق، يسوى حديثك هذا ملء مسجدك ذهبا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، وَإِسْرَائِيلُ ، وَأَبِي ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، قَالَ: سَأَلْنَا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ تَطَوُّعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّهَارِ؟ فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَا تُطِيقُونَهُ، قَالَ: قُلْنَا: أَخْبِرْنَا بِهِ نَأْخُذْ مِنْهُ مَا أَطَقْنَا، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا صَلَّى الْفَجْرَ أَمْهَلَ، حَتَّى إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مِنْ هَا هُنَا، يَعْنِي: مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، مِقْدَارُهَا مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ هَاهُنَا، مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ، قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يُمْهِلُ حَتَّى إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا، يَعْنِي: مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، مِقْدَارُهَا مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ مِنْ هَاهُنَا، يَعْنِي: مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ، قَامَ فَصَلَّى أَرْبَعًا، وَأَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَأَرْبَعًا قَبْلَ الْعَصْرِ، يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ، وَالنَّبِيِّينَ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ"، وقَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: تِلْكَ سِتَّ عَشْرَةَ رَكْعَةً تَطَوُّعُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّهَارِ، وَقَلَّ مَنْ يُدَاوِمُ عَلَيْهَا، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَأَبِي إِسْحَاقَ حِينَ حَدَّثَهُ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، يَسْوَى حَدِيثُكَ هَذَا مِلْءَ مَسْجِدِكَ ذَهَبًا.
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ فرمایا: تم اس طرح پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتے، ہم نے عرض کیا: آپ بتا دیجئے، ہم اپنی طاقت اور استطاعت کے بقدر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے، فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے، جب سورج مشرق سے اس مقدار میں نکل آتا جتنا عصر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھتے۔ پھر تھوڑی دیر انتظار فرماتے اور جب سورج مشرق سے اتنی مقدار میں نکل آتاجتنا کہ ظہر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر چار رکعت نماز پڑھتے، پھر سورج ڈھلنے کے بعد چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں ظہر کے بعد اور چار رکعتیں عصر سے پہلے پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں میں ملائکہ مقربین، انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی پیروی کرنے والے مسلمانوں اور مومنین کے لئے سلام کے کلمات کہتے (تشہد پڑھتے) اس اعتبار سے پورے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کی یہ سولہ رکعتیں ہوئیں، لیکن ان پر دوام کرنے والے بہت کم ہیں، یہ حدیث بیان کر کے حبیب بن ابی ثابت نے کہا کہ اے ابواسحاق! آپ کی یہ حدیث اس مسجد کے سونے سے بھرپور ہونے کے اعتبار سے برابر ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث قوي، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي رضي الله عنه، قال:" الوتر ليس بحتم مثل الصلاة، ولكنه سنة سنها رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" الْوَتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ مِثْلَ الصَّلَاةِ، وَلَكِنَّهُ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي رضي الله عنه، قال:" اوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم من اول الليل، وآخره، واوسطه، فانتهى وتره إلى السحر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ، وَآخِرِهِ، وَأَوْسَطِهِ، فَانْتَهَى وِتْرُهُ إِلَى السَّحَرِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة بن مضرب ، عن علي رضي الله عنه، قال:" لقد رايتنا يوم بدر ونحن نلوذ برسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو اقربنا إلى العدو، وكان من اشد الناس يومئذ باسا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" لَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ بَدْرٍ وَنَحْنُ نَلُوذُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَقْرَبُنَا إِلَى الْعَدُوِّ، وَكَانَ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ بَأْسًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں آ جاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری نسبت دشمن سے زیادہ قریب تھے اور اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ سخت جنگ کی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا عبد الملك بن مسلم الحنفي ، عن ابيه ، عن علي رضي الله عنه، قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنا نكون بالبادية فتخرج من احدنا الرويحة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل لا يستحيي من الحق، إذا فعل احدكم فليتوضا، ولا تاتوا النساء في اعجازهن"، وقال مرة:" في ادبارهن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُسْلِمٍ الْحَنَفِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَكُونُ بِالْبَادِيَةِ فَتَخْرُجُ مِنْ أَحَدِنَا الرُّوَيْحَةُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، إِذَا فَعَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَوَضَّأْ، وَلَا تَأْتُوا النِّسَاءَ فِي أَعْجَازِهِنَّ"، وَقَالَ مَرَّةً:" فِي أَدْبَارِهِنَّ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال پوچھا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ دیہات میں رہتے ہیں یہ بتائیے کہ اگر ہم میں سے کسی کی ہوا خارج ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتے (اس لئے میں بھی تم سے بلاتکلف کہتا ہوں کہ ایسی صورت میں) اسے وضو کر لینا چاہیے اور یاد رکھو! عورت کے ساتھ اس کی دبر میں مباشرت نہ کرنا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مسلم بن سلام، والقطعة الأخيرة : لا تأتوا النساء فى أدبارهن صحيحة بشواهدها
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق بن عيسى الطباع ، حدثني يحيى بن سليم ، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن عبيد الله بن عياض بن عمرو القاري ، قال: جاء عبد الله بن شداد فدخل على عائشة رضي الله عنها، ونحن عندها جلوس، مرجعه من العراق ليالي قتل علي رضي الله عنه، فقالت له: يا عبد الله بن شداد، هل انت صادقي عما اسالك عنه؟ تحدثني عن هؤلاء القوم الذين قتلهم علي رضي الله عنه، قال: وما لي لا اصدقك؟ قالت: فحدثني عن قصتهم، قال: فإن عليا رضي الله عنه لما كاتب معاوية، وحكم الحكمان، خرج عليه ثمانية آلاف من قراء الناس، فنزلوا بارض يقال لها: حروراء، من جانب الكوفة، وإنهم عتبوا عليه، فقالوا: انسلخت من قميص البسكه الله تعالى، واسم سماك الله تعالى به، ثم انطلقت فحكمت في دين الله، فلا حكم إلا لله تعالى، فلما ان بلغ عليا رضي الله عنه ما عتبوا عليه، وفارقوه عليه، فامر مؤذنا فاذن: ان لا يدخل على امير المؤمنين إلا رجل قد حمل القرآن، فلما ان امتلات الدار من قراء الناس، دعا بمصحف إمام عظيم، فوضعه بين يديه، فجعل يصكه بيده ويقول: ايها المصحف، حدث الناس، فناداه الناس، فقالوا: يا امير المؤمنين، ما تسال عنه إنما هو مداد في ورق، ونحن نتكلم بما روينا منه، فماذا تريد؟ قال: اصحابكم هؤلاء الذين خرجوا، بيني وبينهم كتاب الله عز وجل، يقول الله تعالى في كتابه في امراة ورجل: وإن خفتم شقاق بينهما فابعثوا حكما من اهله وحكما من اهلها إن يريدا إصلاحا يوفق الله بينهما سورة النساء آية 35، فامة محمد صلى الله عليه وسلم اعظم دما وحرمة من امراة ورجل، ونقموا علي ان كاتبت معاوية: كتب علي بن ابي طالب، وقد جاءنا سهيل بن عمرو، ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديبية، حين صالح قومه قريشا، فكتب رسول الله صلى الله عليه وسلم: بسم الله الرحمن الرحيم، فقال سهيل: لا تكتب: بسم الله الرحمن الرحيم، فقال:" كيف نكتب؟"، فقال: اكتب: باسمك اللهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فاكتب: محمد رسول الله"، فقال: لو اعلم انك رسول الله لم اخالفك، فكتب: هذا ما صالح محمد بن عبد الله قريشا، يقول الله تعالى في كتابه: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة لمن كان يرجو الله واليوم الآخر سورة الاحزاب آية 21، فبعث إليهم علي عبد الله بن عباس رضي الله عنه، فخرجت معه، حتى إذا توسطنا عسكرهم، قام ابن الكواء يخطب الناس، فقال: يا حملة القرآن، إن هذا عبد الله بن عباس رضي الله عنه، فمن لم يكن يعرفه فانا اعرفه من كتاب الله ما يعرفه به، هذا ممن نزل فيه وفي قومه: قوم خصمون سورة الزخرف آية 58، فردوه إلى صاحبه، ولا تواضعوه كتاب الله، فقام خطباؤهم، فقالوا: والله لنواضعنه كتاب الله، فإن جاء بحق نعرفه لنتبعنه، وإن جاء بباطل لنبكتنه بباطله، فواضعوا عبد الله الكتاب ثلاثة ايام، فرجع منهم اربعة آلاف كلهم تائب، فيهم ابن الكواء، حتى ادخلهم على علي الكوفة، فبعث علي رضي الله عنه إلى بقيتهم، فقال: قد كان من امرنا وامر الناس ما قد رايتم، فقفوا حيث شئتم، حتى تجتمع امة محمد صلى الله عليه وسلم، بيننا وبينكم ان لا تسفكوا دما حراما، او تقطعوا سبيلا، او تظلموا ذمة، فإنكم إن فعلتم، فقد نبذنا إليكم الحرب على سواء، إن الله لا يحب الخائنين، فقالت له عائشة رضي الله عنها: يا ابن شداد، فقد قتلهم! فقال: والله ما بعث إليهم حتى قطعوا السبيل، وسفكوا الدم، واستحلوا اهل الذمة 59، فقالت: آلله؟ قال: آلله الذي لا إله إلا هو لقد كان، قالت: فما شيء بلغني عن اهل العراق يتحدثونه؟ يقولون: ذو الثدي، وذو الثدي، قال: قد رايته، وقمت مع علي رضي الله عنه عليه في القتلى، فدعا الناس، فقال: اتعرفون هذا؟ فما اكثر من جاء يقول: قد رايته في مسجد بني فلان يصلي، ورايته في مسجد بني فلان يصلي، ولم ياتوا فيه بثبت يعرف إلا ذلك، قالت: فما قول علي رضي الله عنه حين قام عليه كما يزعم اهل العراق؟ قال: سمعته يقول: صدق الله ورسوله، قالت: هل سمعت منه انه قال غير ذلك؟ قال: اللهم لا، قالت: اجل، صدق الله ورسوله، يرحم الله عليا رضي الله عنه، إنه كان من كلامه لا يرى شيئا يعجبه إلا قال: صدق الله ورسوله، فيذهب اهل العراق يكذبون عليه، ويزيدون عليه في الحديث.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عِيَاضِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِيِّ ، قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، وَنَحْنُ عِنْدَهَا جُلُوسٌ، مَرْجِعَهُ مِنَ الْعِرَاقِ لَيَالِيَ قُتِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَتْ لَهُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ، هَلْ أَنْتَ صَادِقِي عَمَّا أَسْأَلُكَ عَنْهُ؟ تُحَدِّثُنِي عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَمَا لِي لَا أَصْدُقُكِ؟ قَالَتْ: فَحَدِّثْنِي عَنْ قِصَّتِهِمْ، قَالَ: فَإِنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ، وَحَكَمَ الْحَكَمَانِ، خَرَجَ عَلَيْهِ ثَمَانِيَةُ آلَافٍ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ، فَنَزَلُوا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا: حَرُورَاءُ، مِنْ جَانِبِ الْكُوفَةِ، وَإِنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَيْهِ، فَقَالُوا: انْسَلَخْتَ مِنْ قَمِيصٍ أَلْبَسَكَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَاسْمٍ سَمَّاكَ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ، ثُمَّ انْطَلَقْتَ فَحَكَّمْتَ فِي دِينِ اللَّهِ، فَلَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ تَعَالَى، فَلَمَّا أَنْ بَلَغَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا عَتَبُوا عَلَيْهِ، وَفَارَقُوهُ عَلَيْهِ، فَأَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ: أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَّا رَجُلٌ قَدْ حَمَلَ الْقُرْآنَ، فَلَمَّا أَنْ امْتَلَأَتْ الدَّارُ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ، دَعَا بِمُصْحَفٍ إِمَامٍ عَظِيمٍ، فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَصُكُّهُ بِيَدِهِ وَيَقُولُ: أَيُّهَا الْمُصْحَفُ، حَدِّثْ النَّاسَ، فَنَادَاهُ النَّاسُ، فَقَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا تَسْأَلُ عَنْهُ إِنَّمَا هُوَ مِدَادٌ فِي وَرَقٍ، وَنَحْنُ نَتَكَلَّمُ بِمَا رُوِينَا مِنْهُ، فَمَاذَا تُرِيدُ؟ قَالَ: أَصْحَابُكُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ خَرَجُوا، بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ كِتَابُ اللَّهِ عز وجل، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فِي امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا سورة النساء آية 35، فَأُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ دَمًا وَحُرْمَةً مِنَ امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ، وَنَقَمُوا عَلَيَّ أَنْ كَاتَبْتُ مُعَاوِيَةَ: كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَقَدْ جَاءَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ، حِينَ صَالَحَ قَوْمَهُ قُرَيْشًا، فَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، فَقَالَ سُهَيْلٌ: لَا تَكْتُبْ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، فَقَالَ:" كَيْفَ نَكْتُبُ؟"، فَقَالَ: اكْتُبْ: بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَاكْتُبْ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ"، فَقَالَ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ أُخَالِفْكَ، فَكَتَبَ: هَذَا مَا صَالَحَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قُرَيْشًا، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ سورة الأحزاب آية 21، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ عَلِيٌّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَخَرَجْتُ مَعَهُ، حَتَّى إِذَا تَوَسَّطْنَا عَسْكَرَهُمْ، قَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: يَا حَمَلَةَ الْقُرْآنِ، إِنَّ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُهُ فَأَنَا أُعَرِّفُهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا يَعْرِفُهُ بِهِ، هَذَا مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ وَفِي قَوْمِهِ: قَوْمٌ خَصِمُونَ سورة الزخرف آية 58، فَرُدُّوهُ إِلَى صَاحِبِهِ، وَلَا تُوَاضِعُوهُ كِتَابَ اللَّهِ، فَقَامَ خُطَبَاؤُهُمْ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ لَنُوَاضِعَنَّهُ كِتَابَ اللَّهِ، فَإِنْ جَاءَ بِحَقٍّ نَعْرِفُهُ لَنَتَّبِعَنَّهُ، وَإِنْ جَاءَ بِبَاطِلٍ لَنُبَكِّتَنَّهُ بِبَاطِلِهِ، فَوَاضَعُوا عَبْدَ اللَّهِ الْكِتَابَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَرَجَعَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ آلَافٍ كُلُّهُمْ تَائِبٌ، فِيهِمْ ابْنُ الْكَوَّاءِ، حَتَّى أَدْخَلَهُمْ عَلَى عَلِيٍّ الْكُوفَةَ، فَبَعَثَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى بَقِيَّتِهِمْ، فَقَالَ: قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِنَا وَأَمْرِ النَّاسِ مَا قَدْ رَأَيْتُمْ، فَقِفُوا حَيْثُ شِئْتُمْ، حَتَّى تَجْتَمِعَ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا تَسْفِكُوا دَمًا حَرَامًا، أَوْ تَقْطَعُوا سَبِيلًا، أَوْ تَظْلِمُوا ذِمَّةً، فَإِنَّكُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ، فَقَدْ نَبَذْنَا إِلَيْكُمْ الْحَرْبَ عَلَى سَوَاءٍ، إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: يَا ابْنَ شَدَّادٍ، فَقَدْ قَتَلَهُمْ! فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا بَعَثَ إِلَيْهِمْ حَتَّى قَطَعُوا السَّبِيلَ، وَسَفَكُوا الدَّمَ، وَاسْتَحَلُّوا أَهْلَ الذِّمَّةِ 59، فَقَالَتْ: آللَّهِ؟ قَالَ: آللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كَانَ، قَالَتْ: فَمَا شَيْءٌ بَلَغَنِي عَنْ أَهْلِ العراقِ يَتَحَدَّثُونَهُ؟ يَقُولُونَ: ذُو الثُّدَيِّ، وَذُو الثُّدَيِّ، قَالَ: قَدْ رَأَيْتُهُ، وَقُمْتُ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَيْهِ فِي الْقَتْلَى، فَدَعَا النَّاسَ، فَقَالَ: أَتَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَمَا أَكْثَرَ مَنْ جَاءَ يَقُولُ: قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي، وَرَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي، وَلَمْ يَأْتُوا فِيهِ بِثَبَتٍ يُعْرَفُ إِلَّا ذَلِكَ، قَالَتْ: فَمَا قَوْلُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ قَامَ عَلَيْهِ كَمَا يَزْعُمُ أَهْلُ الْعِرَاقِ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، قَالَتْ: هَلْ سَمِعْتَ مِنْهُ أَنَّهُ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ لَا، قَالَتْ: أَجَلْ، صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، يَرْحَمُ اللَّهُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِنَّهُ كَانَ مِنْ كَلَامِهِ لَا يَرَى شَيْئًا يُعْجِبُهُ إِلَّا قَالَ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَيَذْهَبُ أَهْلُ الْعِرَاقِ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَيَزِيدُونَ عَلَيْهِ فِي الْحَدِيثِ.
عبیداللہ بن عیاض کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چند روز بعد سیدنا عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ عراق سے واپس آ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت ہم لوگ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا: عبداللہ! میں تم سے جو پوچھوں گی، اس کا صحیح جواب دوگے؟ کیا تم مجھے ان لوگوں کے بارے بتا سکتے ہو جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے سچ کیوں نہیں بولوں گا، فرمایا کہ پھر مجھے ان کا قصہ سناؤ۔ سیدنا عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت شروع کی اور دونوں ثالثوں نے اپنا اپنا فیصلہ سنا دیا، تو آٹھ ہزار لوگ جنہیں قراء کہا جاتا تھا، نکل کر کوفہ کے ایک طرف حروراء نامی علاقے میں چلے گئے، وہ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہو گئے تھے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ اللہ نے آپ کو جو قمیص پہنائی تھی، آپ نے اسے اتار دیا اور اللہ نے آپ کو جو نام عطاء کیا تھا، آپ نے اسے اپنے آپ سے دور کر دیا، پھر آپ نے جا کر دین کے معاملے میں ثالث کو قبول کر لیا، حالانکہ حکم تو صرف اللہ کا ہی چلتا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ لوگ ان سے ناراض ہو کر جدا ہو گئے ہیں تو انہوں نے منادی کو یہ نداء لگانے کا حکم دیا کہ امیر المؤمنین کے پاس صرف وہی شخص آئے جس نے قرآن کریم اٹھا رکھا ہو، جب ان کا گھر قرآن پڑھنے والوں سے بھر گیا، تو انہوں نے قرآن کریم کا ایک بڑا نسخہ منگوا کر اپنے سامنے رکھا اور اسے اپنے ہاتھ سے ہلاتے ہوئے کہنے لگے، اے قرآن! لوگوں کو بتا، یہ دیکھ کر لوگ کہنے لگے، امیر المؤمنین! آپ اس نسخے سے کیا پوچھ رہے ہیں؟ یہ تو کاغذ میں روشنائی ہے، ہاں! اس کے حوالے ہم تک جو احکام پہنچے ہیں وہ ہم ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں، آپ کا اس سے مقصد کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے یہ ساتھی جو ہم سے جدا ہو کر چلے گئے ہیں، میرے اور ان کے درمیان قرآن کریم ہی فیصلہ کرے گا، اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں میاں بیوی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک ثالث مرد کی طرف سے اور ایک ثالث عورت کے اہل خانہ کی طرف سے بھیجو، اگر ان کی نیت محض اصلاح کی ہوئی، تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، میرا خیال ہے کہ ایک آدمی اور ایک عورت کی نسبت پوری امت کا خون اور حرمت زیادہ اہم ہے (اس لئے اگر میں نے اس معاملہ میں ثالثی کو قبول کیا تو کون سا گناہ کیا؟) اور انہیں اس بات پر جو غصہ ہے کہ میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خط و کتاب کی ہے (تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تو پھر مسلمان اور صحابی ہیں)، جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں تھے اور سہیل بن عمرو ہمارے پاس آیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم قریش سے صلح کی تھی، تو اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا، «بسم الله الرحمن الرحيم»، اس پر سہیل نے کہا: کہ آپ اس طرح مت لکھوائیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر کس طرح لکھوائیں؟“ اس نے کہا کہ آپ «باسمك اللهم» لکھیں۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نام «محمد رسول الله» لکھوایا تو اس نے کہا کہ اگر میں آپ کو اللہ کا پیغمبر مانتا تو کبھی آپ کی مخالفت نہ کرتا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ لکھوائے «هذا ما صالح محمد بن عبدالله قريشا» اور اللہ فرماتا ہے کہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے (میں نے تو اس نمونے کی پیروی کی ہے)۔ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے پاس سمجھانے کے لئے بھیجا، راوی کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ گیا تھا، جب ہم ان کے وسط لشکر میں پہنچے تو ابن الکواء نامی ایک شخص لوگوں کے سامنے تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے حاملین قرآن! یہ عبداللہ بن عباس آئے ہیں، جو شخص انہیں نہ جانتا ہو، میں اس کے سامنے ان کا تعارف قرآن کریم سے پیش کر دیتا ہوں، یہ وہی ہیں کہ ان کے اور ان کی قوم کے بارے میں قرآن کریم میں «قوم خصمون»، یعنی جھگڑالو قوم کا لفظ وارد ہوا ہے، اس لئے انہیں ان کے ساتھی یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس واپس بھیج دو اور کتاب اللہ کو ان کے سامنے مت بچھاؤ۔ یہ سن کر ان کے خطباء کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ بخدا! ہم تو ان کے سامنے کتاب اللہ کو پیش کریں گے، اگر یہ حق بات لے کر آئے ہیں تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور اگر یہ باطل لے کر آئے ہیں تو ہم اس باطل کو خاموش کرا دیں گے، چنانچہ تین دن تک وہ لوگ کتاب اللہ کو سامنے رکھ کر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مناظرہ کرتے رہے، جس کے نتیجے میں ان میں سے چار ہزار لوگ اپنے عقائد سے رجوع کر کے توبہ تائب ہو کر واپس آ گئے، جن میں خود ابن الکواء بھی شامل تھا، اور یہ سب کے سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کوفہ حاضر ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بقیہ افراد کی طرف قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوا دیا کہ ہمارا اور ان لوگوں کا جو معاملہ ہواوہ تم نے دیکھ لیا، اب تم جہاں چاہو ٹھرو، تا آنکہ امت مسلمہ متفق ہو جائے، ہمارے اور تمہارے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ تم ناحق کسی کا خون نہ بہاؤ، ڈاکے نہ ڈالو اور ذمیوں پر ظلم وستم نہ ڈھاؤ، اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تم پر جنگ مسلط کر دیں گے کیونکہ اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ یہ سارئ روئیداد سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ابن شداد! کیا انہوں نے پھر قتال کیا ان لوگوں سے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس وقت تک ان کے پاس اپنا کوئی لشکر نہیں بھیجا جب تک انہوں نے مذکورہ معاہدے کو ختم نہ کر دیا، انہوں نے ڈاکے ڈالے، لوگوں کا خون ناحق بہایا، اور ذمیوں پر دست درازی کو حلال سمجھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا: کیا بخدا! ایسا ہی ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! اس خدا کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، ایسا ہی ہوا ہے۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ اس بات کی کیا حقیقت ہے جو مجھے تک اہل عراق کے ذریعے پہنچی ہے کہ ”ذوالثدی“ نامی کوئی شخص تھا؟ حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے خود اس شخص کو دیکھا ہے اور مقتولین میں اس کی لاش پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا بھی ہوا ہوں، اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بلا کر پوچھا تھا، کیا تم اس شخص کو جانتے ہو؟ اکثر لوگوں نے یہی کہا کہ میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، کوئی مضبوط بات جس سے اس کی چھان ہو سکتی، وہ لوگ نہ بتا سکے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کی لاش کے پاس کھڑے تھے تو انہوں نے کیا وہی بات کہی تھی، جو اہل عراق بیان کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ نے اس کے علاوہ بھی ان کے منہ سے کوئی بات سنی؟ انہوں نے کہا: بخدا! نہیں، فرمایا: اچھا ٹھیک ہے، اللہ علی پر رحم فرمائے، یہ ان کا تکیہ کلام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں جب بھی کوئی چیز اچھی یا تعجب خیز معلوم ہوتی ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا، اور اہل عراق ان کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر بات کو پیش کر تے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية ، حدثنا ابو إسحاق ، عن شعبة ، عن الحكم ، عن ابي محمد الهذلي ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة، فقال:" ايكم ينطلق إلى المدينة فلا يدع بها وثنا إلا كسره، ولا قبرا إلا سواه، ولا صورة إلا لطخها؟"، فقال رجل: انا يا رسول الله، فانطلق، فهاب اهل المدينة، فرجع، فقال علي رضي الله عنه: انا انطلق يا رسول الله، قال:" فانطلق"، فانطلق، ثم رجع، فقال: يا رسول الله، لم ادع بها وثنا إلا كسرته، ولا قبرا إلا سويته، ولا صورة إلا لطختها، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من عاد لصنعة شيء من هذا، فقد كفر بما انزل على محمد صلى الله عليه وسلم"، ثم قال:" لا تكونن فتانا، ولا مختالا، ولا تاجرا إلا تاجر خير، فإن اولئك هم المسبوقون بالعمل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنِ أَبِي مُحَمَّدٍ الْهُذَلِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، فَقَالَ:" أَيُّكُمْ يَنْطَلِقُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلَا يَدَعُ بِهَا وَثَنًا إِلَّا كَسَرَهُ، وَلَا قَبْرًا إِلَّا سَوَّاهُ، وَلَا صُورَةً إِلَّا لَطَّخَهَا؟"، فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَانْطَلَقَ، فَهَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ، فَرَجَعَ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَا أَنْطَلِقُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" فَانْطَلِقْ"، فَانْطَلَقَ، ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَدَعْ بِهَا وَثَنًا إِلَّا كَسَرْتُهُ، وَلَا قَبْرًا إِلَّا سَوَّيْتُهُ، وَلَا صُورَةً إِلَّا لَطَّخْتُهَا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ عَادَ لِصَنْعَةِ شَيْءٍ مِنْ هَذَا، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، ثُمَّ قَالَ:" لَا تَكُونَنَّ فَتَّانًا، وَلَا مُخْتَالًا، وَلَا تَاجِرًا إِلَّا تَاجِرَ خَيْرِ، فَإِنَّ أُولَئِكَ هُمْ الْمَسْبُوقُونَ بِالْعَمَلِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک تھے، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کون شخص مدینہ منورہ جائے گا کہ وہاں جا کر کوئی بت ایسا نہ چھوڑے جسے اس نے توڑ نہ دیا ہو، کوئی قبر ایسی نہ چھوڑے جسے برابر نہ کر دیا اور کوئی تصویر ایسی نہ دیکھے جس پر گارا اور کیچڑ نہ مل دے؟“ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں یہ کام کروں گا، چنانچہ وہ آدمی روانہ ہو گیا، لیکن جب مدینہ منورہ پہنچا تو وہ اہل مدینہ سے مرعوب ہو کر واپس لوٹ آیا۔ یہ دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جاتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، چنانچہ جب وہ واپس آئے تو عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے جہاں بھی کسی نوعیت کا بت پایا اسے توڑ دیا، جو قبر بھی نظر آئی اسے برابر کر دیا اور جو تصویر بھی دکھائی دی اس پر کیچڑ ڈال دیا، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب جو شخص ان کاموں میں سے کوئی کام دوبارہ کرے گا گویا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ وحی کا انکار کرتا ہے“، نیز یہ بھی فرمایا کہ تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے یا شیخی خورے مت بننا، صرف خیر ہی کے تاجر بننا، کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن پر صرف عمل کے ذریعے ہی سبقت لے جانا ممکن ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى المورع، وقصة طمس الصورة و تسوية القبر المشرف، ستأتي بإسناد صحيح برقم :741
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن رجل من اهل البصرة، قال: ويكنونه اهل البصرة ابا مورع ، قال: واهل الكوفة يكنونه بابي محمد، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة، فذكر الحديث، ولم يقل عن علي رضي الله عنه، وقال:" ولا صورة إلا طلخها"، فقال: ما اتيتك يا رسول الله حتى لم ادع صورة إلا طلختها، وقال:" لا تكن فتانا ولا مختالا".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، قَالَ: وَيُكَنُّونَهُ أَهْلُ الْبَصْرَةِ أَبَا مُوَرِّعٍ ، قَالَ: وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يُكَنُّونَهُ بِأَبِي مُحَمَّدٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَلَمْ يَقُلْ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ:" وَلَا صُورَةً إِلَّا طَلَخَهَا"، فَقَالَ: مَا أَتَيْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَتَّى لَمْ أَدَعْ صُورَةً إِلَّا طَلَخْتُهَا، وَقَالَ:" لَا تَكُنْ فَتَّانًا وَلَا مُخْتَالًا".
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى المورع، وهو مكرر ماقبله
(حديث مرفوع) حدثنا خلف بن الوليد ، حدثنا ابو جعفر يعني الرازي عن حصين بن عبد الرحمن ، عن الشعبي ، عن الحارث ، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: لا اشك إلا انه علي رضي الله عنه، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم" آكل الربا وموكله، وشاهديه، وكاتبه، والواشمة، والمستوشمة، والمحلل، والمحلل له، ومانع الصدقة، وكان ينهى عن النوح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ يَعْنِي الرَّازِيّ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا أَشكُّ إِلَّا أَنَّهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَكَاتِبَهُ، وَالْوَاشِمَةَ، وَالْمُسْتَوْشِمَةَ، وَالْمُحَلِّلَ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ، وَمَانِعَ الصَّدَقَةِ، وَكَانَ يَنْهَى عَنِ النَّوْحِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو جعفر سيء الحفظ، والحارث الأعور ضعيف
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”علی! اگر میرے بعد کسی بھی وقت زمام حکو مت تمہارے ہاتھ میں آئے تو اہل نجران کو جزیرہ عرب سے نکال دینا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف قيس- وهو أبن الربيع الأسدي الكوفي - و أشعث بن سوار
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا تو فرمایا: ”منی سے تو غسل واجب ہے اور مذی میں صرف وضو واجب ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد الهاشمي
(حديث مرفوع) حدثنا خلف ، حدثنا خالد ، عن مطرف ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، ان رسول صلى الله عليه وسلم" نهى ان يرفع الرجل صوته بالقراءة قبل العشاء وبعدها، يغلط اصحابه وهم يصلون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَفٌ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى أَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ صَوْتَهُ بِالْقِرَاءَةِ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَبَعْدَهَا، يُغَلِّطُ أَصْحَابَهُ وَهُمْ يُصَلُّونَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص عشاء سے پہلے یا بعد میں تلاوت کرتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کرے، کیونکہ اس طرح اس کے دوسرے ساتھیوں کو نماز پڑھتے ہوئے مغالطہ ہو سکتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا خلف ، حدثنا خالد ، عن عاصم بن كليب ، عن ابي بردة بن ابي موسى ، ان عليا ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" سل الله تعالى الهدى والسداد، واذكر بالهدى هدايتك الطريق، واذكر بالسداد تسديدك السهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَفٌ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، أن علياً ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَلْ اللَّهَ تَعَالَى الْهُدَى وَالسَّدَادَ، وَاذْكُرْ بِالْهُدَى هِدَايَتَكَ الطَّرِيقَ، وَاذْكُرْ بِالسَّدَادِ تَسْدِيدَكَ السَّهْمَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ سے ہدایت اور درستگی کی درخواست کیا کرو اور ہدایت سے راستے کی ہدایت ذہن میں رکھا کرو اور درستگی کا معنی مراد لیتے وقت تیر کی درستگی اور سیدھا پن یاد رکھا کرو۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے ہیں ان میں سے ہر ایک کو سات نقباء، وزراء، نجباء دیئے گئے جب کہ مجھے خصوصیت کے ساتھ چودہ وزراء، نقباء، نجباء دیئے گئے ہیں جن میں سے سات کا تعلق صرف قریش سے ہے اور باقی سات کا تعلق دیگر مہاجرین سے ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف كثير النواء وعبدالله بن مليل
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة بن مضرب ، عن علي رضي الله عنه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فقلت: يا رسول الله، إنك تبعثني إلى قوم هم اسن مني لاقضي بينهم، قال:" اذهب، فإن الله تعالى سيثبت لسانك، ويهدي قلبك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تَبْعَثُنِي إِلَى قَوْمٍ هُمْ أَسَنُّ مِنِّي لِأَقْضِيَ بَيْنَهُمْ، قَالَ:" اذْهَبْ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَيُثَبِّتُ لِسَانَكَ، وَيَهْدِي قَلْبَكَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں اس وقت نوخیز تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے ایک ایسی قوم کی طرف بھیج رہے ہیں جہاں لوگوں میں آپس میں اختلافات اور جھگڑے بھی ہوں گے اور مجھے فیصلہ کرنے کا قطعاً کوئی علم نہیں ہے؟ فرمایا: ”اللہ تمہاری زبان کو صحیح راستے پر چلائے گا اور تمہارے دل کو مضبوط رکھے گا۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں مجھے کوئی شک نہیں ہوا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ صدقے کے کچھ اونٹ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزر رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کے پہلو سے اپنے دست مبارک سے اس کی اون پکڑی اور فرمایا کہ میں ایک عام مسلمان کی نسبت اس اون کا بھی کوئی زائد استحقاق نہیں رکھتا۔
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمرو بن غزي وعمه علباء
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا الحارث بن يزيد ، عن عبد الله بن زرير الغافقي ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نصلي، إذ انصرف ونحن قيام، ثم اقبل وراسه يقطر، فصلى لنا الصلاة، ثم قال:" إني ذكرت اني كنت جنبا حين قمت إلى الصلاة لم اغتسل، فمن وجد منكم في بطنه رزا، او كان على مثل ما كنت عليه، فلينصرف حتى يفرغ من حاجته، او غسله، ثم يعود إلى صلاته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زُرَيْرٍ الْغَافِقِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُصَلِّي، إِذْ انْصَرَفَ وَنَحْنُ قِيَامٌ، ثُمَّ أَقْبَلَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ، فَصَلَّى لَنَا الصَّلَاةَ، ثُمَّ قَالَ:" إِنِّي ذَكَرْتُ أَنِّي كُنْتُ جُنُبًا حِينَ قُمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ لَمْ أَغْتَسِلْ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ فِي بَطْنِهِ رِزًّا، أَوْ كَانَ عَلَى مِثْلِ مَا كُنْتُ عَلَيْهِ، فَلْيَنْصَرِفْ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ حَاجَتِهِ، أَوْ غُسْلِهِ، ثُمَّ يَعُودُ إِلَى صَلَاتِهِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز چھوڑ کر گھر چلے گئے اور ہم کھڑے کے کھڑے ہی رہ گئے، تھوڑی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو آپ کے سر سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازسرنو ہمیں نماز پڑھائی اور بعد فراغت فرمایا کہ جب میں نماز کے لئے کھڑا ہو گیا تب مجھے یاد آیا کہ میں تو اختیاری طور پر ناپاک ہو گیا تھا اور ابھی تک میں نے غسل نہیں کیا، اس لئے اگر تم میں سے کسی شخص کو اپنے پیٹ میں گڑبڑ محسوس ہو رہی ہو یا میری جیسی کیفیت کا وہ شکار ہو جائے تو اسے چاہیے کہ واپس لوٹ جائے اور اپنی ضرورت پوری کر کے یا غسل کر کے پھر نماز کی طرف متوجہ ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، وانظر حديث أبى هريرة الصحيح فى المسند : 2/ 338، ففيه أن انصرافه كان قبل الدخول فى الصلاة
زاذان کہتے ہیں کہ میں نے صحن مسجد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر یہ پوچھتے ہوئے سنا کہ غدیر خم کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کون حاضر تھا اور کس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا تھا؟ اس پر بارہ بدری صحابہ کھڑے ہو گئے اور ان سب نے گواہی دی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود خور، سود کھلانے والے، سودی معاملات لکھنے والے، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والے، حلالہ کروانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا إسماعيل بن مسلم العبدي ، حدثنا ابو كثير مولى الانصار، قال: كنت مع سيدي مع علي بن ابي طالب رضي الله عنه حيث قتل اهل النهروان، فكان الناس وجدوا في انفسهم من قتلهم، فقال علي رضي الله عنه: يا ايها الناس،" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد حدثنا باقوام يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، ثم لا يرجعون فيه ابدا، حتى يرجع السهم على فوقه، وإن آية ذلك ان فيهم رجلا اسود مخدج اليد، إحدى يديه كثدي المراة، لها حلمة كحلمة ثدي المراة، حوله سبع هلبات، فالتمسوه فإني اراه فيهم"، فالتمسوه، فوجدوه إلى شفير النهر تحت القتلى، فاخرجوه، فكبر علي رضي الله عنه، فقال: الله اكبر، صدق الله ورسوله، وإنه لمتقلد قوسا له عربية، فاخذها بيده، فجعل يطعن بها في مخدجته، ويقول: صدق الله ورسوله، وكبر الناس حين راوه واستبشروا، وذهب عنهم ما كانوا يجدون.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو كَثِيرٍ مَوْلَى الْأَنْصَارِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ سَيِّدِي مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَيْثُ قُتِلَ أَهْلُ النَّهْرَوَانِ، فَكَأَنَّ النَّاسَ وَجَدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ مِنْ قَتْلِهِمْ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ،" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حَدَّثَنَا بِأَقْوَامٍ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَرْجِعُونَ فِيهِ أَبَدًا، حَتَّى يَرْجِعَ السَّهْمُ عَلَى فُوقِهِ، وَإِنَّ آيَةَ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلًا أَسْوَدَ مُخْدَجَ الْيَدِ، إِحْدَى يَدَيْهِ كَثَدْيِ الْمَرْأَةِ، لَهَا حَلَمَةٌ كَحَلَمَةِ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ، حَوْلَهُ سَبْعُ هُلْبَاتٍ، فَالْتَمِسُوهُ فَإِنِّي أُرَاهُ فِيهِمْ"، فَالْتَمَسُوهُ، فَوَجَدُوهُ إِلَى شَفِيرِ النَّهَرِ تَحْتَ الْقَتْلَى، فَأَخْرَجُوهُ، فَكَبَّرَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، وَإِنَّهُ لَمُتَقَلِّدٌ قَوْسًا لَهُ عَرَبِيَّةً، فَأَخَذَهَا بِيَدِهِ، فَجَعَلَ يَطْعَنُ بِهَا فِي مُخْدَجَتِهِ، وَيَقُولُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، وَكَبَّرَ النَّاسُ حِينَ رَأَوْهُ وَاسْتَبْشَرُوا، وَذَهَبَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَجِدُونَ.
ابوکثیر کہتے ہیں کہ جس وقت میرے آقا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل نہروان سے قتال شروع کیا، اس وقت میں ان کے ساتھ تھا، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے لوگ ان سے جنگ کر کے خوش نہیں ہیں، یہ دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے ایسی قوم کا تذکرہ کیا تھا جو دین سے اس طرح نکل جائے گی جیسے تیر، کمان سے نکل جاتا ہے اور وہ لوگ دین کی طرف کبھی بھی واپس نہ آ سکیں گے یہاں تک کہ تیر کمان کی طرف واپس آ جائے۔ ان لوگوں کی نشانی یہ ہو گی کہ ان میں سیاہ رنگ کا ایک ایسا شخص ہو گا جس کا ہاتھ ناتمام ہو گا اور اس کا ایک ہاتھ عورت کی چھاتی کی طرح ہو گا اور عورت کی چھاتی میں موجود گھنڈی کی طرح اس کی بھی گھنڈی ہو گی، جس کے گرد سات بالوں کا ایک گچھا ہو گا، تم اسے ان مقتولین میں تلاش کرو، میرا خیال ہے کہ وہ ان ہی میں ہو گا۔ جب لوگوں نے اسے تلاش کیا تو وہ نہر کے کنارے مقتولین کے نیچے انہیں مل گیا، انہوں نے اسے نکالا، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا: اللہ رب العزت اور اس کے رسول نے سچ فرمایا اس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی عربی کمان لٹکا رکھی تھی، انہوں نے اسے ہاتھ میں پکڑا اور اس کے ناتمام ہاتھ میں اس کی نوک چبھونے لگے اور فرمانے لگے کہ اللہ رب العزت اور اس کے رسول نے سچ فرمایا لوگوں نے بھی جب اسے دیکھا تو وہ بہت خوش ہوئے اور ان کا غصہ یکدم کافور ہو گیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح. م: 1066، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى كثير مولى الأنصار
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" للمسلم على المسلم من المعروف ست: يسلم عليه إذا لقيه، ويشمته إذا عطس، ويعوده إذا مرض، ويجيبه إذا دعاه، ويشهده إذا توفي، ويحب له ما يحب لنفسه، وينصح له بالغيب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ مِنَ الْمَعْرُوفِ سِتٌّ: يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيَشْهَدُهُ إِذَا تُوُفِّيَ، وَيُحِبُّ لَهُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ، وَيَنْصَحُ لَهُ بِالْغَيْبِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں، جب ملاقات ہو تو سلام کرے، جب چھینکے تو جواب دے، جب بیمار ہو تو عیادت کرے، جب دعوت دے تو قبول کرے، جب فوت ہو جائے تو جنازے میں شرکت کرے اپنے لئے جو پسند کرتا ہے اس کے لئے بھی وہی پسند کرے اور اس کی غیر موجودگی میں اس کا خیر خواہ رہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا إسرائيل ، حدثنا ابو إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تقوم الساعة حتى يلتمس رجل من اصحابي كما تلتمس او تبتغى الضالة، فلا يوجد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ الْحَارِثِ ، عَنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُلْتَمَسَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِي كَمَا تُلْتَمَسُ أَوْ تُبْتَغَى الضَّالَّةُ، فَلَا يُوجَدُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی (جب تک میرے صحابہ مکمل طور پر دنیا سے رخصت نہ ہو جائیں) یہاں تک کہ میرے کسی ایک صحابی کو اس طرح تلاش کیا جائے گا جیسے کسی گمشدہ چیز کو تلاش کیا جاتا ہے لیکن کوئی ایک صحابی بھی نہ مل سکے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة بن مضرب ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر:" من استطعتم ان تاسروه من بني عبد المطلب، فإنهم خرجوا كرها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ:" مَنْ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَأْسِرُوهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُمْ خَرَجُوا كُرْهًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دن ارشاد فرمایا: ”اگر ممکن ہو تو بنوعبدالمطلب کو صرف قید کرنے پر اکتفاء کرے کیونکہ وہ بڑی مجبوری میں زبردستی نکلے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا إسرائيل ، حدثنا عبد الاعلى ، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" وتجعلون رزقكم انكم تكذبون سورة الواقعة آية 82، قال: شرككم، مطرنا بنوء كذا وكذا، بنجم كذا وكذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ سورة الواقعة آية 82، قَالَ: شِرْكُكُمْ، مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، بِنَجْمِ كَذَا وَكَذَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قرآن کریم میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ تم نے اپنا حصہ یہ بنا رکھا ہے کہ تم تکذیب کرتے ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ کہتے ہو فلاں فلاں ستارے کے طلوع و غروب سے بارش ہوئی ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن الزبير ، واسود بن عامر ، قالا: حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يوتر بتسع سور من المفصل، قال اسود: يقرا في الركعة الاولى: الهاكم التكاثر، و إنا انزلناه في ليلة القدر، و إذا زلزلت الارض، وفي الركعة الثانية: والعصر، و إذا جاء نصر الله والفتح، و إنا اعطيناك الكوثر، وفي الركعة الثالثة: قل يا ايها الكافرون، و تبت يدا ابي لهب، و قل هو الله احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، وَأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُوتِرُ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنَ الْمُفَصَّلِ، قَالَ أَسْوَدُ: يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى: أَلْهَاكُمْ التَّكَاثُرُ، و َإِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ، و َإِذَا زُلْزِلَتْ الْأَرْضُ، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ: وَالْعَصْرِ، وَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ، وَ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، وَ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ، وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی نماز میں مفصلات کی نو مختلف سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے، اسود کے بقول پہلی رکعت میں سورت تکاثر، سورت قدر اور سورت زلزال کی تلاوت فرماتے، دوسری رکعت میں سورت عصرہ، سورت نصر اور سورت کوثر جبکہ تیسری رکعت میں سورت کفرون، سورت لہب اور سورت اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، سمعت عبد الاعلى يحدث، عن ابي جميلة ، عن علي رضي الله عنه، ان امة لهم زنت، فحملت، فاتى علي النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبره، فقال:" دعها حتى تلد، او تضع، ثم اجلدها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ عَبْدَ الْأَعْلَى يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ أَمَةً لَهُمْ زَنَتْ، فَحَمَلَتْ، فَأَتَى عَلِيّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ:" دَعْهَا حَتَّى تَلِدَ، أَوْ تَضَعَ، ثُمَّ اجْلِدْهَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی کسی باندی سے بدکاری کا گناہ سرزد ہو گیا اور اس کی اس حرکت پر اس کے امید سے ہو جانے پر مہر تصدیق بھی لگ گئی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچہ پیدا ہونے تک اسے چھوڑے رکھو، بعد میں اسے کوڑے مار دینا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلى الثعلبي
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم ، وحسن ، قالا: حدثنا شيبان ، عن عاصم ، عن زر بن حبيش ، قال: استاذن ابن جرموز على علي رضي الله عنه، فقال: من هذا؟ قالوا: ابن جرموز يستاذن، قال: ائذنوا له، ليدخل قاتل الزبير النار، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن لكل نبي حواريا، وإن حواري الزبير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، وَحَسَنٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ جُرْمُوزٍ عَلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: ابْنُ جُرْمُوزٍ يَسْتَأْذِنُ، قَالَ: ائْذَنُوا لَهُ، لِيَدْخُلْ قَاتِلُ الزُّبَيْرِ النَّارَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا، وَإِنَّ حَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ".
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ ابن جرموز نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ابن جرموز اندر آنا چاہتا ہے؟ فرمایا: اسے اندر آنے دو، زبیر کا قاتل جہنم میں ہی داخل ہو گا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کا ایک خاص حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا زائدة ، عن عاصم ، عن زر بن حبيش ، قال: استاذن ابن جرموز على علي رضي الله عنه وانا عنده، فقال علي رضي الله عنه: بشر قاتل ابن صفية بالنار، ثم قال علي رضي الله عنه: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن لكل نبي حواريا، وحواري الزبير"، قال عبد الله: قال ابي: سمعت سفيان يقول: الحواري: الناصر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ جُرْمُوزٍ عَلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: بَشِّرْ قَاتِلَ ابْنِ صَفِيَّةَ بِالنَّارِ، ثُمَّ قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا، وَحَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ"، قال عبد الله: قال أبي: سَمِعْت سُفْيَانَ يَقُولُ: الْحَوَارِيُّ: النَّاصِرُ.
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ ابن جرموز نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ابن جرموز اندر آنا چاہتا ہے؟ فرمایا: اسے اندر آنے دو، زبیر کا قاتل جہنم میں ہی داخل ہو گا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کا ایک خاص حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے رفیق ”حیان“ کو مخاطب کر کے فرمایا: میں تمہیں اس کام کے لئے بھیج رہا ہوں جس کام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا، انہوں نے مجھے ہر قبر کو برابر کرنے اور ہر بت کو مٹا ڈالنے کا حکم دیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف يونس بن خباب، وأصل الحديث صحيح من حديث حيان بن حصين أبى الهياج الأسدي. وسيأتي برقم: 741
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا حماد ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن محمد بن علي رضي الله، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" ضخم الراس، عظيم العينين، هدب الاشفار، مشرب العين بحمرة، كث اللحية، ازهر اللون، إذا مشى تكفا كانما يمشي في صعد، وإذا التفت التفت جميعا، شثن الكفين والقدمين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ضَخْمَ الرَّأْسِ، عَظِيمَ الْعَيْنَيْنِ، هَدِبَ الْأَشْفَارِ، مُشْرَبَ الْعَيْنِ بِحُمْرَةٍ، كَثَّ اللِّحْيَةِ، أَزْهَرَ اللَّوْنِ، إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ كَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صُعُدٍ، وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ جَمِيعًا، شَثْنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا، آنکھیں موٹی موٹی، پلکیں لمبی لمبی، آنکھوں میں سرخی کے ڈورے، گھنی ڈاڑھی، کھلتا ہوا رنگ اور چلنے کی کیفیت ایسی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قدم جما کر چھوٹے چھوٹے تیز رفتار قدموں سے چلتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی گھاٹی پر چل رہے ہوں اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو مکمل طور پر متوجہ ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں اور دونوں پاؤں مبارک بھرے ہوئے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسود ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال:" قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ما احدث، قبل ان يمس ماء"، وربما قال إسرائيل : عن رجل ، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا أَحْدَثَ، قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ مَاءً"، وَرُبَّمَا قَالَ إِسْرَائِيلُ : عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بےوضو ہونے کے بعد اور پانی چھونے سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت کی۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا اسود ، حدثنا شريك ، عن موسى الصغير الطحان ، عن مجاهد ، قال: قال علي : خرجت فاتيت حائطا، قال: فقال: دلو وتمرة، قال: فدليت حتى ملات كفي، ثم اتيت الماء فاستعذبت، يعني: شربت، ثم" اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فاطعمته بعضه، واكلت انا بعضه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مُوسَى الصَّغِيرِ الطَّحَّانِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ : خَرَجْتُ فَأَتَيْتُ حَائِطًا، قَالَ: فَقَالَ: دلو وتمرة، قال: فَدَلَّيْتُ حَتَّى مَلَأْتُ كَفِّي، ثُمَّ أَتَيْتُ الْمَاءَ فَاسْتَعْذَبْتُ، يَعْنِي: شَرِبْتُ، ثُمَّ" أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَطْعَمْتُهُ بَعْضَهُ، وَأَكَلْتُ أَنَا بَعْضَهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بھوک کی شدت سے تنگ آ کر میں اپنے گھر سے نکلا (میں ایک عورت کے پاس سے گزرا، جس نے کچھ گارا اکٹھا کر رکھا تھا، میں سمجھ گیا کہ یہ اسے پانی سے تربتر کرنا چاہتی ہے، میں نے اس کے پاس آ کر اس سے یہ معاہدہ کیا کہ) ایک ڈول کھینچنے کے بدلے تم مجھے ایک کھجور دو گی، چنانچہ میں نے سولہ ڈول کھینچے (یہاں تک کہ میرے ہاتھ تھک گئے) پھر میں نے پانی کے پاس آ کر پانی پیا (اس کے بعد اس عورت کے پاس آ کر اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا دیا اور اس نے گن کر سولہ کھجوریں میرے ہاتھ پر رکھ دیں) میں وہ کھجوریں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (اور انہیں یہ سارا واقعہ بتایا) اور کچھ کھجوریں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلا دیں اور کچھ خود کھا لیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك، وهو ابن عبدالله القاضي
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا إسرائيل ، عن جابر ، عن محمد بن علي ، عن ابيه ، عن علي رضي الله عنه، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني نذرت ان انحر ناقتي وكيت وكيت، قال:" اما ناقتك فانحرها، واما كيت وكيت فمن الشيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ نَاقَتِي وَكَيْتَ وَكَيْتَ، قَالَ:" أَمَّا نَاقَتُكَ فَانْحَرْهَا، وَأَمَّا كَيْتَ وَكَيْتَ فَمِنْ الشَّيْطَانِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میں نے منت مانی ہے کہ میں اپنی اونٹنی کو ذبح کروں اور فلاں فلاں کام کروں؟ فرمایا: ”اپنی اونٹنی کو تو ذبح کرو اور فلاں فلاں کام شیطان کی طرف سے ہے لہٰذا اسے چھوڑ دو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف جابر، وهو أبن يزيد الجعفي
بنو اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں تشریف لائے لوگوں نے ان سے وتر کے متعلق سوالات پوچھے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اس وقت وتر ادا کر لیا کریں ابن نباح! اٹھ کر اذان دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل من بني أسد الراوي عن علي
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن سماك ، عن حنش ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال لي النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا تقدم إليك خصمان، فلا تسمع كلام الاول، حتى تسمع كلام الآخر، فسوف ترى كيف تقضي"، قال: فقال علي رضي الله عنه: فما زلت بعد ذلك قاضيا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا تَقَدَّمَ إِلَيْكَ خَصْمَانِ، فَلَا تَسْمَعْ كَلَامَ الْأَوَّلِ، حَتَّى تَسْمَعَ كَلَامَ الْآخَرِ، فَسَوْفَ تَرَى كَيْفَ تَقْضِي"، قَالَ: فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَمَا زِلْتُ بَعْدَ ذَلِكَ قَاضِيًا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات نہ سننا بلکہ دونوں کی بات سننا تم دیکھو گے کہ تم کس طرح فیصلہ کرتے ہو“، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں مسلسل عہدہ قضاء پر فائز رہا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، حنش - وإن كان فيه ضعف قد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: اے اللہ! میں آپ ہی کے نام کی برکت سے حملہ کرتا ہوں آپ ہی کے نام کی برکت سے حرکت کرتا ہوں اور آپ ہی کے نام کی برکت سے چلتا ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عمران ابن ظبيان الحنفي الكوفي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جسم مبارک کی رگ سے زائد خون نکلوایا اور مجھے حکم دیا کہ یہ کام کرنے والو کو جسے حجام کہا جاتا تھا اس کی مزدوری دے دو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي
(حديث مرفوع) حدثنا بكر بن عيسى الراسبي ، حدثنا عمر بن الفضل ، عن نعيم بن يزيد ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: امرني النبي صلى الله عليه وسلم ان آتيه بطبق يكتب فيه ما لا تضل امته من بعده، قال: فخشيت ان تفوتني نفسه، قال: قلت: إني احفظ واعي، قال:" اوصي بالصلاة، والزكاة، وما ملكت ايمانكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عِيسَى الرَّاسِبِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْفَضْلِ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ آتِيَهُ بِطَبَقٍ يَكْتُبُ فِيهِ مَا لَا تَضِلُّ أُمَّتُهُ مِنْ بَعْدِهِ، قَالَ: فَخَشِيتُ أَنْ تَفُوتَنِي نَفْسُهُ، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَحْفَظُ وَأَعِي، قَالَ:" أُوصِي بِالصَّلَاةِ، وَالزَّكَاةِ، وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک طبق لانے کا حکم دیا تاکہ آپ اس میں ایسی ہدایات لکھ دیں جن کی موجودگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت گمراہ نہ ہو سکے، مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کاغذ لینے کے لئے جاؤں اور پیچھے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پرواز کر جائے، اس لئے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ مجھے زبانی بتا دیجئے، میں اسے یاد رکھوں گا، فرمایا: ”میں نماز اور زکوٰۃ کی وصیت کرتا ہوں، نیز غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتا ہوں۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جو شخص جھوٹا خواب بیان کرتا ہے، اسے قیامت کے دن جو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب امت میں اختلافات ہوں گے، اگر تمہارے لئے سلامتی ممکن ہو تو اسی کو اختیار کرنا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جنگ کو چال قرار دیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة سعيد بن ذي حدان، ثم هو لم يدرك عليا ، وشريك سيء الحفظ. ومتن الحديث صحيح، عند أحمد والبخاري ومسلم من حديث جابر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے ہدیہ کے طور پر ایک ریشمی جوڑا آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں نے اسے زیب تن کر لیا، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر ناراضگی کے اثرات دیکھے تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح. خ: 2614، م: 2071، والمراد بقوله: بين نسائي بين الفواطم، أى فاطمة بنت النبى وفاطمة بنت الأسد، والدة علي، وفاطمة بنت حمزة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جو شخص جھوٹا خواب بیان کرتا ہے، اسے قیامت کے دن جو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی تکلیف یا مصیبت آنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ دعا سکھائی: ”اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ بڑا بردبار اور مہربان ہے، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے، وہ عرش عظیم کا رب ہے اور تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبيدة بن حميد ، حدثني ثوير بن ابي فاختة ، عن ابيه ، قال: عاد ابو موسى الاشعري، الحسن بن علي، قال: فدخل علي رضي الله عنه، فقال: اعائدا جئت يا ابا موسى ام زائرا؟ فقال: يا امير المؤمنين، لا بل عائدا، فقال علي رضي الله عنه: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ما عاد مسلم مسلما إلا صلى عليه سبعون الف ملك، من حين يصبح إلى ان يمسي، وجعل الله تعالى له خريفا في الجنة"، قال: فقلنا: يا امير المؤمنين، وما الخريف؟ قال: الساقية التي تسقي النخل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنِي ثُوَيْرُ بْنُ أَبِي فَاخِتَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: عَادَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ، قَالَ: فَدَخَلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَعَائِدًا جِئْتَ يَا أَبَا مُوسَى أَمْ زَائِرًا؟ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَا بَلْ عَائِدًا، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا عَادَ مُسْلِمٌ مُسْلِمًا إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، مِنْ حِينَ يُصْبِحُ إِلَى أَنْ يُمْسِيَ، وَجَعَلَ اللَّهُ تَعَالَى لَهُ خَرِيفًا فِي الْجَنَّةِ"، قَالَ: فَقُلْنَا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَمَا الْخَرِيفُ؟ قَالَ: السَّاقِيَةُ الَّتِي تَسْقِي النَّخْلَ.
ایک مرتبہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: عیادت کی نیت سے آئے ہو یا ملاقات کے لئے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ امیر المؤمنین! میں تو عیادت کی نیت سے آیا ہوں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو صبح سے شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے ایک خریف بنا دیتا ہے ہم نے عرض کیا کہ اے امیر المؤمنین! خریف سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا: وہ نہر جس سے باغات سیراب ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن. لكن الصحيح وقفه، وهذا إسناد ضعيف لضعف ثوير بن أبى فاختة
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثني علي بن حكيم الاودي ، اخبرنا شريك ، عن عثمان بن ابي زرعة ، عن زيد بن وهب ، قال:" قدم على علي رضي الله عنه قوم من اهل البصرة من الخوارج، فيهم رجل يقال له: الجعد بن بعجة، فقال له: اتق الله يا علي، فإنك ميت، فقال علي رضي الله عنه: بل مقتول، ضربة على هذا تخضب هذه، يعني: لحيته من راسه، عهد معهود، وقضاء مقضي، وقد خاب من افترى، وعاتبه في لباسه، فقال: ما لكم وللباسي، هو ابعد من الكبر، واجدر ان يقتدي بي المسلم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ ، أَخبرنا شَرِيكٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، قَالَ:" قَدِمَ عَلَى عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ مِنْ الْخَوَارِجِ، فِيهِمْ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: الْجَعْدُ بْنُ بَعْجَةَ، فَقَالَ لَهُ: اتَّقِ اللَّهَ يَا عَلِيُّ، فَإِنَّكَ مَيِّتٌ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: بَلْ مَقْتُولٌ، ضَرْبَةٌ عَلَى هَذَا تَخْضِبُ هَذِهِ، يَعْنِي: لِحْيَتَهُ مِنْ رَأْسِهِ، عَهْدٌ مَعْهُودٌ، وَقَضَاءٌ مَقْضِيٌّ، وَقَدْ خَابَ مَنْ افْتَرَى، وَعَاتَبَهُ فِي لِبَاسِهِ، فَقَالَ: مَا لَكُمْ وَلِلِّبَاسي، هُوَ أَبْعَدُ مِنَ الْكِبْرِ، وَأَجْدَرُ أَنْ يَقْتَدِيَ بِيَ الْمُسْلِمُ".
زید بن وہب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بصرہ کے خوارج کی ایک جماعت آئی، ان میں جعد بن بعجہ نامی ایک آدمی بھی تھا، وہ کہنے لگا کہ علی! اللہ سے ڈرو، تم نے بھی ایک دن مرنا ہے، فرمایا: نہیں، بلکہ شہید ہونا ہے وہ ایک ضرب ہو گی جو سر پر لگے گی اور اس داڑھی کو رنگین کر جائے گی، یہ ایک طے شدہ معاملہ اور فیصلہ شدہ چیز ہے اور وہ شخص نقصان میں رہے گا جو جھوٹی باتیں گھڑے گا، پھر اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لباس میں کچھ کیڑے نکالے تو فرمایا کہ تمہیں میرے لباس سے کیا غرض یہ تکبر سے دور اور اس قابل ہے کہ اس معاملے میں مسلمان میری پیروی کریں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك، وهو ابن عبدالله النخعي
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: وذكر محمد بن كعب القرظي ، عن الحارث بن عبد الله الاعور ، قال: قلت: لآتين امير المؤمنين فلاسالنه عما سمعت العشية، قال: فجئته بعد العشاء، فدخلت عليه، فذكر الحديث، قال: ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" اتاني جبريل عليه السلام، فقال: يا محمد، إن امتك مختلفة بعدك، قال: فقلت له: فاين المخرج يا جبريل؟ قال: فقال: كتاب الله تعالى، به يقصم الله كل جبار، من اعتصم به نجا، ومن تركه هلك، مرتين، قول فصل، وليس بالهزل، لا تختلقه الالسن، ولا تفنى اعاجيبه، فيه نبا ما كان قبلكم، وفصل ما بينكم، وخبر ما هو كائن بعدكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَعْوَرِ ، قَالَ: قُلْتُ: لَآتِيَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَأَسْأَلَنَّهُ عَمَّا سَمِعْتُ الْعَشِيَّةَ، قَالَ: فَجِئْتُهُ بَعْدَ الْعِشَاءِ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ أُمَّتَكَ مُخْتَلِفَةٌ بَعْدَكَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: فَأَيْنَ الْمَخْرَجُ يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: فَقَالَ: كِتَابُ اللَّهِ تَعَالَى، بِهِ يَقْصِمُ اللَّهُ كُلَّ جَبَّارٍ، مَنْ اعْتَصَمَ بِهِ نَجَا، وَمَنْ تَرَكَهُ هَلَكَ، مَرَّتَيْنِ، قَوْلٌ فَصْلٌ، وَلَيْسَ بِالْهَزْلِ، لَا تَخْتَلِقُهُ الْأَلْسُنُ، وَلَا تَفْنَى أَعَاجِيبُهُ، فِيهِ نَبَأُ مَا كَانَ قَبْلَكُمْ، وَفَصْلُ مَا بَيْنَكُمْ، وَخَبَرُ مَا هُوَ كَائِنٌ بَعْدَكُمْ".
حارث بن عبداللہ اعور کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ آج رات ضرور امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضری دوں گا اور ان سے اس چیز کے متعلق ضرور سوال کروں گا جو میں نے ان سے کل سنی ہے چنانچہ میں عشاء کے بعد ان کے یہاں پہنچا، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے پاس جبرئیل آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! آپ کی امت آپ کے بعد اختلافات میں پڑ جائے گی، میں نے پوچھا: کہ جبرئیل! اس سے بچاؤ کا راستہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: قرآن کریم، اسی کے ذریعے اللہ ہر ظالم کو تہس نہس کرے گا، جو اس سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہو جائے گا یہ بات انہوں نے دو مرتبہ کہی۔ پھر فرمایا کہ یہ قرآن ایک فیصلہ کن کلام ہے یہ کوئی ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے، زبانوں پر یہ پرانا نہیں ہوتا، اس کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے، اس میں پہلوں کی خبریں ہیں، درمیان کے فیصلے ہیں اور بعد میں پیش آنے والے حالات ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحارث الأعور، وانقطاع بين محمد بن إسحاق ومحمد بن كعب القرظي
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني حكيم بن حكيم بن عباد بن حنيف ، عن محمد بن مسلم بن عبيد الله بن شهاب ، عن علي بن حسين ، عن ابيه ، عن جده علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلى فاطمة رضي الله عنها من الليل، فايقظنا للصلاة، قال: ثم رجع إلى بيته فصلى هويا من الليل، قال: فلم يسمع لنا حسا، قال: فرجع إلينا، فايقظنا، وقال:" قوما فصليا"، قال: فجلست وانا اعرك عيني واقول: إنا والله ما نصلي إلا ما كتب لنا، إنما انفسنا بيد الله، فإذا شاء ان يبعثنا بعثنا، قال: فولى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول، ويضرب بيده على فخذه:" ما نصلي إلا ما كتب لنا، ما نصلي إلا ما كتب لنا! وكان الإنسان اكثر شيء جدلا سورة الكهف آية 54".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي حَكِيمُ بْنُ حَكِيمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مِنَ اللَّيْلِ، فَأَيْقَظَنَا لِلصَّلَاةِ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ فَصَلَّى هَوِيًّا مِنَ اللَّيْلِ، قَالَ: فَلَمْ يَسْمَعْ لَنَا حِسًّا، قَالَ: فَرَجَعَ إِلَيْنَا، فَأَيْقَظَنَا، وَقَالَ:" قُومَا فَصَلِّيَا"، قَالَ: فَجَلَسْتُ وَأَنَا أَعْرُكُ عَيْنِي وَأَقُولُ: إِنَّا وَاللَّهِ مَا نُصَلِّي إِلَّا مَا كُتِبَ لَنَا، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، قَالَ: فَوَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ، وَيَضْرِبُ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِهِ:" مَا نُصَلِّي إِلَّا مَا كُتِبَ لَنَا، مَا نُصَلِّي إِلَّا مَا كُتِبَ لَنَا! وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلا سورة الكهف آية 54".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت ہمارے یہاں تشریف لائے اور ہمیں نماز کے لئے جگا کر خود اپنے کمرے میں جا کر نماز پڑھنے لگے، کافی دیر گزرنے کے بعد جب ہماری کوئی آہٹ نہ سنائی دی تو دوبارہ آ کر ہمیں جگایا اور فرمایا: ”کھڑے ہو کر نماز پڑھو“، میں اپنی آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا اور عرض کیا ہم صرف وہی نماز پڑھ سکتے ہیں جو ہمارے لئے لکھ دی گئی ہے اور ہماری روحیں اللہ کے قبضے میں ہیں جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مجھے کوئی جواب نہ دیا اور واپس چلے گئے، میں نے کان لگا کر سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران پر اپنا ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہم صرف وہی نماز پڑھ سکتے ہیں جو ہمارے لئے لکھ دی گئی ہے انسان بہت زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا احمد بن جميل ابو يوسف ، اخبرنا يحيى بن عبد الملك بن حميد بن ابي غنية ، عن عبد الملك بن ابي سليمان ، عن سلمة بن كهيل ، عن زيد بن وهب ، قال: لما خرجت الخوارج بالنهروان قام علي رضي الله عنه في اصحابه، فقال: إن هؤلاء القوم قد سفكوا الدم الحرام، واغاروا في سرح الناس، وهم اقرب العدو إليكم، وإن تسيروا إلى عدوكم انا اخاف ان يخلفكم هؤلاء في اعقابكم، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول" تخرج خارجة من امتي، ليس صلاتكم إلى صلاتهم بشيء، ولا صيامكم إلى صيامهم بشيء، ولا قراءتكم إلى قراءتهم بشيء، يقرؤون القرآن يحسبون انه لهم وهو عليهم، لا يجاوز حناجرهم، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية"، وآية ذلك ان فيهم رجلا له عضد وليس لها ذراع، عليها مثل حلمة الثدي، عليها شعرات بيض، لو يعلم الجيش الذين يصيبونهم ما لهم على لسان نبيهم، لاتكلوا على العمل، فسيروا على اسم الله... فذكر الحديث بطوله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَمِيلٍ أَبُو يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ حُمَيْدِ بْنِ أَبِي غَنِيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَتْ الْخَوَارِجُ بِالنَّهْرَوَانِ قَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، وَهُمْ أَقْرَبُ الْعَدُوِّ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ تَسِيرُوا إِلَى عَدُوِّكُمْ أَنَا أَخَافُ أَنْ يَخْلُفَكُمْ هَؤُلَاءِ فِي أَعْقَابِكُمْ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ" تَخْرُجُ خَارِجَةٌ مِنْ أُمَّتِي، لَيْسَ صَلَاتُكُمْ إِلَى صَلَاتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ بِشَيْءٍ، يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ"، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلًا لَهُ عَضُدٌ وَلَيْسَ لَهَا ذِرَاعٌ، عَلَيْهَا مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهَا شَعَرَاتٌ بِيضٌ، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ مَا لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ، لَاتَّكَلُوا عَلَى الْعَمَلِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
زید بن وہب کہتے ہیں کہ جب نہروان میں خوارج نے خروج کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے کہ ان لوگوں نے ناحق خون بہایا ہے، لوگوں کے جانوروں کو لوٹا ہے اور یہ تمہارے سب سے قریب ترین دشمن ہیں اس لئے میری رائے یہ ہے کہ تم اپنے دشمنوں کی طرف کوچ کرو، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ لوگ عقب سے تم پر نہ آ پڑیں اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں ایک ایسا گروہ ظاہر ہو گا جس کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کوئی حیثیت نہ ہو گی، جن کے روزوں کے سامنے تمہارے روزوں کی کوئی وقعت نہ ہو گی، جن کی تلاوت کے سامنے تمہاری تلاوت کچھ نہ ہو گی، وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہوں گے کہ اس پر انہیں ثواب ملے گا حالانکہ وہ ان کے لئے باعث عقاب ہو گا، کیونکہ وہ قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے آر پار ہو جاتا ہے اور ان کی علامت یہ ہو گی کہ ان میں ایک ایسا آدمی بھی ہو گا جس کا بازو تو ہو گا لیکن کہنی نہ ہو گی، اس کے ہاتھ پر عورت کی چھاتی کی گھنڈی جیسا نشان ہو گا جس کے ارگرد سفید رنگ کے کچھ بالوں کا گچھا ہو گا اگر کسی ایسے لشکر کو جو ان پر حملہ آور ہو اس ثواب کا پتہ چل جائے جو ان کے پیغمبر کی زبانی ان سے کیا گیا ہے تو وہ صرف اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں اس لئے اللہ کا نام لے کر روانہ ہو جاؤ، اس کے بعد راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن ابيه ، عن عبد الله بن الزبير ، قال: والله إنا لمع عثمان بن عفان بالجحفة، ومعه رهط من اهل الشام فيهم حبيب بن مسلمة الفهري، إذ قال عثمان وذكر له التمتع بالعمرة إلى الحج:" إن اتم للحج والعمرة ان لا يكونا في اشهر الحج، فلو اخرتم هذه العمرة حتى تزوروا هذا البيت زورتين كان افضل، فإن الله تعالى قد وسع في الخير، وعلي بن ابي طالب رضي الله عنه في بطن الوادي يعلف بعيرا له، قال: فبلغه الذي قال عثمان، فاقبل حتى وقف على عثمان رضي الله عنه، فقال: اعمدت إلى سنة سنها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورخصة رخص الله تعالى بها للعباد في كتابه، تضيق عليهم فيها، وتنهى عنها، وقد كانت لذي الحاجة ولنائي الدار، ثم اهل بحجة وعمرة معا، فاقبل عثمان رضي الله عنه على الناس، فقال: وهل نهيت عنها؟ إني لم انه عنها، إنما كان رايا اشرت به، فمن شاء اخذ به، ومن شاء تركه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: وَاللَّهِ إِنَّا لَمَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ بِالْجُحْفَةِ، وَمَعَهُ رَهْطٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ فِيهِمْ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ الْفِهْرِيُّ، إِذْ قَالَ عُثْمَانُ وَذُكِرَ لَهُ التَّمَتُّعُ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ:" إِنَّ أَتَمَّ لِلْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ أَنْ لَا يَكُونَا فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، فَلَوْ أَخَّرْتُمْ هَذِهِ الْعُمْرَةَ حَتَّى تَزُورُوا هَذَا الْبَيْتَ زَوْرَتَيْنِ كَانَ أَفْضَلَ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ وَسَّعَ فِي الْخَيْرِ، وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي يَعْلِفُ بَعِيرًا لَهُ، قَالَ: فَبَلَغَهُ الَّذِي قَالَ عُثْمَانُ، فَأَقْبَلَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَعَمَدْتَ إِلَى سُنَّةٍ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرُخْصَةٍ رَخَّصَ اللَّهُ تَعَالَى بِهَا لِلْعِبَادِ فِي كِتَابِهِ، تُضَيِّقُ عَلَيْهِمْ فِيهَا، وَتَنْهَى عَنْهَا، وَقَدْ كَانَتْ لِذِي الْحَاجَةِ وَلِنَائِي الدَّارِ، ثُمَّ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ مَعًا، فَأَقْبَلَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: وَهَلْ نَهَيْتُ عَنْهَا؟ إِنِّي لَمْ أَنْهَ عَنْهَا، إِنَّمَا كَانَ رَأْيًا أَشَرْتُ بِهِ، فَمَنْ شَاءَ أَخَذَ بِهِ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ".
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بخدا! ہم اس وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقام جحفہ میں تھے جب کہ ان کے پاس اہل شام کا ایک وفد آیا تھا ان میں حبیب بن مسلمہ فہری بھی تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے حج تمتع کا ذکر چھڑا تو انہوں نے فرمایا: حج اور عمرہ کا اتمام یہ ہے کہ ان دونوں کو اشہر حج میں اکٹھا نہ کیا جائے اگر تم اپنے عمرہ کو مؤخر کردو اور بیت اللہ کی دو مرتبہ زیارت کرو تو یہ زیادہ افضل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں میں وسعت اور کشادگی رکھی ہے۔ اس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ بطن وادی میں اپنے اونٹ کو چارہ کھلا رہے تھے، انہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ بات معلوم ہوئی تو وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت کا اور اللہ کی اس رخصت کو جو اس نے قرآن میں اپنے بندوں کو دی ہے، لوگوں کو اس سے روک کر انہیں تنگی میں مبتلا کریں گے؟ حالانکہ ضرورت مند آدمی کے لئے اور اس شخص کے لئے جس کا گھر دور ہو، یہ حکم یعنی حج تمتع کا اب بھی باقی ہے۔ یہ کہہ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا (تاکہ لوگوں پر اس کا جواز واضح ہو جائے) اس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے آ کر ان سے پوچھا کہ کیا میں نے حج تمتع سے منع کیا ہے؟ میں نے تو اس سے منع نہیں کیا، یہ تو ایک رائے تھی جس کا میں نے مشورہ دیا تھا، جو چاہے قبول کرے اور جو چاہے چھوڑ دے۔
مسعود بن حکم انصاری کی والدہ کہتی ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں اب بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ رہی ہوں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہیں، حجۃ الوداع کے موقع پر وہ انصار کے ایک گروہ کے پاس رک رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اے لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ یہ روزے کے ایام نہیں ہیں، یہ تو کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، وسعد ، قالا: حدثنا ابي ، عن ابيه ، عن عبد الله بن شداد ، قال سعد: ابن الهاد، سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: ما سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يجمع اباه وامه لاحد غير سعد بن ابي وقاص، فإني سمعته يقول يوم احد:" ارم يا سعد، فداك ابي وامي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، وَسَعْدٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ سَعْدٌ: ابْنِ الْهَادِ، سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: مَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ لِأَحَدٍ غَيْرَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ أُحُدٍ:" ارْمِ يَا سَعْدُ، فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی کے لئے سوائے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے اپنے والدین کو جمع کرتے ہوئے نہیں سنا غزوہ احد کے دن آپ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے کہ سعد تیر پھینکو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني إبراهيم بن عبد الله بن حنين ، عن ابيه ، قال: سمعت علي بن ابي طالب رضي الله عنه، يقول: نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، لا اقول: نهاكم، عن تختم الذهب، وعن لبس القسي والمعصفر، وقراءة القرآن وانا راكع، وكساني حلة من سيراء فخرجت فيها، فقال:" يا علي، إني لم اكسكها لتلبسها"، قال: فرجعت بها إلى فاطمة رضي الله عنها، فاعطيتها ناحيتها، فاخذت بها لتطويها معي، فشققتها بثنتين، قال: فقالت: تربت يداك يا ابن ابي طالب، ماذا صنعت؟ قال: فقلت لها: نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لبسها، فالبسي واكسي نساءك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا أَقُولُ: نَهَاكُمْ، عَنْ تَخَتُّمِ الذَّهَبِ، وَعَنْ لُبْسِ الْقَسِّيِّ وَالْمُعَصْفَرِ، وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَأَنَا رَاكِعٌ، وَكَسَانِي حُلَّةً مِنْ سِيَرَاءَ فَخَرَجْتُ فِيهَا، فَقَالَ:" يَا عَلِيُّ، إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا"، قَالَ: فَرَجَعْتُ بِهَا إِلَى فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَعْطَيْتُهَا نَاحِيَتَهَا، فَأَخَذَتْ بِهَا لِتَطْوِيَهَا مَعِي، فَشَقَّقْتُهَا بِثِنْتَيْنِ، قَالَ: فَقَالَتْ: تَرِبَتْ يَدَاكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ، مَاذَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهَا: نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِهَا، فَالْبَسِي وَاكْسِي نِسَاءَكِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ”میں یہ نہیں کہتا کہ تمہیں“ سونے کی انگوٹھی، ریشم یا عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پننے اور رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع کیا ہے اور ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ریشمی جوڑا عنایت فرمایا:: میں اسے پہن کر نکلا تو فرمایا: علی! میں نے تمہیں یہ اس لئے نہیں دیا کہ تم خود اسے پہن لو، چنانچہ میں اسے لے کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس آ گیا اور اس کا ایک کنارہ ان کے ہاتھ میں پکڑایا تاکہ وہ میرے ساتھ زور لگا کر اسے کھینچیں، چنانچہ میں نے اس کے دو ٹکڑے کر دئیے، یہ دیکھ کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے، یہ آپ نے کیا کیا، میں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ لباس پہننے سے منع فرمایا ہے اس لئے اب تم اپنے لئے اس کا لباس بنا لو اور گھر کی جو عورتیں ہیں انہیں بھی دے دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وانظر الشطر الأول فى م: 2078
(حديث مرفوع) حدثنا سريج بن النعمان ، حدثنا ابو عوانة ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد عفوت لكم عن الخيل والرقيق، فهاتوا صدقة الرقة: من كل اربعين درهما درهما، وليس في تسعين ومائة شيء، فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ عَفَوْتُ لَكُمْ عَنِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَّةِ: مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا، وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑی دی ہے اس لئے چاندی کی زکوٰۃ بہرحال تمہیں ادا کرنا ہو گی، جس کا نصاب یہ ہے کہ ہر چالیس پر ایک درہم واجب ہو گا، ایک سو نوے درہم تک کچھ واجب نہ ہو گا، لیکن جب ان کی تعداد دو سو تک پہنچ جائے تو اس پر پانچ درہم واجب ہوں گے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، أبو عوانة وإن روي عن أبى إسحاق بعد تغيره، لكن قد تابعه غير واحد
(حديث مرفوع) حدثنا ابو احمد الزبيري ، حدثنا علي بن صالح ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن سلمة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا اعلمك كلمات إذا قلتهن غفر لك، مع انه مغفور لك: لا إله إلا الله الحليم الكريم، لا إله إلا الله العلي العظيم، سبحان الله رب السموات السبع، ورب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ إِذَا قُلْتَهُنَّ غُفِرَ لَكَ، مَعَ أَنَّهُ مَغْفُورٌ لَكَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ، وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں کہ جب تم انہیں زبان سے ادا کر لو تو تمہارے گناہ معاف کر دئیے جائیں حالانکہ تمہارے گناہ معاف ہو چکے، یہ کلمات کہہ لیا کرو جن کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ حلیم و کریم ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ بزرگ و برتر ہے، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، وہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا ابو احمد ، حدثنا شريك ، عن عمران بن ظبيان ، عن ابي تحيى ، قال: لما ضرب ابن ملجم عليا رضي الله عنه الضربة، قال علي : افعلوا به كما اراد رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يفعل برجل اراد قتله، فقال:" اقتلوه، ثم حرقوه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ ظَبْيَانَ ، عَنْ أَبِي تَحْيَى ، قَالَ: لَمَّا ضَرَبَ ابْنُ مُلْجِمٍ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الضَّرْبَةَ، قَالَ عَلِيٌّ : افْعَلُوا بِهِ كَمَا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَفْعَلَ بِرَجُلٍ أَرَادَ قَتْلَهُ، فَقَالَ:" اقْتُلُوهُ، ثُمَّ حَرِّقُوهُ".
ابویحییٰ کہتے ہیں کہ جب ابن ملجم نامی ایک بدنصیب اور شقی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ وہی سلوک کرو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے ساتھ کیا تھا جس نے انہیں شہید کرنے کا ارادہ کیا تھا، پھر فرمایا کہ اسے قتل کر کے اس کی لاش نذر آتش کر دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك، وهو ابن عبدالله النخعي- وعمران بن ظبيان
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن سابق ، حدثنا إبراهيم بن طهمان ، عن منصور ، عن المنهال بن عمرو ، عن نعيم بن دجاجة ، انه قال: دخل ابو مسعود عقبة بن عمرو الانصاري على علي بن ابي طالب رضي الله عنه، فقال له علي : انت الذي تقول: لا ياتي على الناس مائة سنة وعلى الارض عين تطرف؟ إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا ياتي على الناس مائة سنة وعلى الارض عين تطرف ممن هو حي اليوم"، والله إن رخاء هذه الامة بعد مائة عام.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ دِجَاجَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: دَخَلَ أَبُو مَسْعُودٍ عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو الْأَنْصَارِيُّ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ: لَا يَأْتِي عَلَى النَّاسِ مِائَةُ سَنَةٍ وَعَلَى الْأَرْضِ عَيْنٌ تَطْرِفُ؟ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَأْتِي عَلَى النَّاسِ مِائَةُ سَنَةٍ وَعَلَى الْأَرْضِ عَيْنٌ تَطْرِفُ مِمَّنْ هُوَ حَيٌّ الْيَوْمَ"، وَاللَّهِ إِنَّ رَخَاءَ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ مِائَةِ عَامٍ.
نعیم بن دجاجہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ ہی نے یہ بات فرمائی ہے کہ لوگوں پر سو سال نہیں گزریں گے کہ زمین پر کوئی آنکھ ایسی باقی نہ بچے گی جس کی پلکیں جھپکتی ہوں یعنی سب لوگ مر جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی تھی وہ یہ ہے کہ آج جو لوگ زندہ ہیں سو سال گزرنے پر ان میں سے کسی کی آنکھ ایسی نہ رہے گی جس کی پلکیں جھپکتی ہوں، یعنی قیامت مراد نہیں ہے، بخدا! اس امت کو سو سال کے بعد تو سہولیات ملیں گی۔
حكم دارالسلام: إسناده قوي، عبدالله بن سلمة قد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز میں روئیں دار کپڑے، ایک مشکیزہ اور چمڑے کا تکیہ دیا تھا جس میں اذخر نامی گھاس بھری ہوئی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا شعبة ، عن سلمة ، والمجالد ، عن الشعبي ، انهما سمعاه يحدث: ان عليا رضي الله عنه حين رجم المراة من اهل الكوفة، ضربها يوم الخميس، ورجمها يوم الجمعة، وقال:" اجلدها بكتاب الله، وارجمها بسنة نبي الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ ، وَالْمُجَالِدُ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، أَنَّهُمَا سَمِعَاهُ يُحَدِّثُ: أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ رَجَمَ الْمَرْأَةَ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، ضَرَبَهَا يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَرَجَمَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَالَ:" أَجْلِدُهَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأَرْجُمُهَا بِسُنَّةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی ایک عورت پر رجم کی سزا جاری فرمائی، جمعرات کے دن اسے کوڑے مارے اور جمعہ کے دن اسے سنگسار کر دیا اور فرمایا کہ میں نے کوڑے قرآن کریم کی وجہ سے مارے اور سنگسار سنت کی وجہ سے کیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، رجاله ثقات من طريق سلمة ، وأما مجالد فضعيف، روي له مسلم مقرونة، وأصحاب السنن. وفي خ: 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کی تکبیر ہونے کے بعد اللہ اکبر کہتے، کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاتے، قرأت مکمل ہونے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جانے لگتے تب بھی اسی طرح کرتے، رکوع سے سر اٹھا کر بھی اسی طرح کرتے، بیٹھے ہونے کی صورت میں کسی رکن کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین نہ فرماتے تھے، البتہ جب دونوں سجدے کر کے کھڑے ہوتے تو رفع یدین کر کے تکبیر کہتے۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن حفص ، اخبرنا ورقاء ، عن منصور ، عن المنهال ، عن نعيم بن دجاجة ، قال: دخل ابو مسعود على علي رضي الله عنه، فقال: انت القائل: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ياتي على الناس مائة عام وعلى الارض نفس منفوسة؟ إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا ياتي على الناس مائة عام وعلى الارض نفس منفوسة ممن هو حي اليوم"، وإن رخاء هذه الامة بعد المائة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ ، أخبرنا وَرْقَاءُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ الْمِنْهَالِ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ دِجَاجَةَ ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو مَسْعُودٍ عَلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَنْتَ الْقَائِلُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَأْتِي عَلَى النَّاسِ مِائَةُ عَامٍ وَعَلَى الْأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَةٌ؟ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَأْتِي عَلَى النَّاسِ مِائَةُ عَامٍ وَعَلَى الْأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَةٌ مِمَّنْ هُوَ حَيٌّ الْيَوْمَ"، وَإِنَّ رَخَاءَ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ الْمِائَةِ.
نعیم بن دجاجہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ ہی نے یہ بات فرمائی ہے کہ لوگوں پر سو سال نہیں گزریں گے کہ زمین پر کوئی آنکھ ایسی باقی نہ بچے گی جس کی پلکیں جھپکتی ہوں یعنی سب لوگ مر جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی تھی وہ یہ ہے کہ آج جو لوگ زندہ ہیں سو سال گزرنے پر ان میں سے کسی کی آنکھ ایسی نہ رہے گی جس کی پلکیں جھپکتی ہوں یعنی قیامت مراد نہیں ہے، بخدا! اس امت کو سو سال کے بعد تو سہولیات ملیں گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن إسحاق ، اخبرنا عبد الله ، حدثنا الحجاج بن ارطاة ، عن عطاء الخراساني ، انه حدثه عن مولى امراته ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال:" إذا كان يوم الجمعة، خرج الشياطين يربثون الناس إلى اسواقهم، ومعهم الرايات، وتقعد الملائكة على ابواب المساجد يكتبون الناس على قدر منازلهم: السابق، والمصلي، والذي يليه، حتى يخرج الإمام، فمن دنا من الإمام، فانصت، واستمع، ولم يلغ، كان له كفلان من الاجر، ومن ناى عنه، فاستمع، وانصت، ولم يلغ، كان له كفل من الاجر، ومن دنا من الإمام، فلغا، ولم ينصت، ولم يستمع، كان عليه كفلان من الوزر، ومن ناى عنه، فلغا، ولم ينصت، ولم يستمع، كان عليه كفل من الوزر، ومن قال: صه، فقد تكلم، ومن تكلم، فلا جمعة له"، ثم قال: هكذا سمعت نبيكم صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، أخبرنا عَبْدُ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ مَوْلَى امْرَأَتِهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، خَرَجَ الشَّيَاطِينُ يُرَبِّثُونَ النَّاسَ إِلَى أَسْوَاقِهِمْ، وَمَعَهُمْ الرَّايَاتُ، وَتَقْعُدُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى أَبْوَابِ الْمَسَاجِدِ يَكْتُبُونَ النَّاسَ عَلَى قَدْرِ مَنَازِلِهِمْ: السَّابِقَ، وَالْمُصَلِّيَ، وَالَّذِي يَلِيهِ، حَتَّى يَخْرُجَ الْإِمَامُ، فَمَنْ دَنَا مِنَ الْإِمَامِ، فَأَنْصَتَ، واسْتَمَعَ، وَلَمْ يَلْغُ، كَانَ لَهُ كِفْلَانِ مِنَ الْأَجْرِ، وَمَنْ نَأَى عَنْهُ، فَاسْتَمَعَ، وَأَنْصَتَ، وَلَمْ يَلْغُ، كَانَ لَهُ كِفْلٌ مِنَ الْأَجْرِ، وَمَنْ دَنَا مِنَ الْإِمَامِ، فَلَغَا، وَلَمْ يُنْصِتْ، وَلَمْ يَسْتَمِعْ، كَانَ عَلَيْهِ كِفْلَانِ مِنَ الْوِزْرِ، وَمَنْ نَأَى عَنْهُ، فَلَغَا، وَلَمْ يُنْصِتْ، وَلَمْ يَسْتَمِعْ، كَانَ عَلَيْهِ كِفْلٌ مِنَ الْوِزْرِ، وَمَنْ قَالَ: صَهٍ، فَقَدْ تَكَلَّمَ، وَمَنْ تَكَلَّمَ، فَلَا جُمُعَةَ لَهُ"، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو شیاطین اپنے اپنے ٹھکانوں سے نکل پڑتے ہیں اور لوگوں کو بازاروں میں روکنے کی کوششیں کرتے ہیں ان کے ساتھ کچھ جھنڈے بھی ہوتے ہیں دوسری طرف فرشتے مسجدوں کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کے لئے ان کے مراتب کے مطابق ثواب لکھتے ہیں، پہلے کا، دوسرے کا، اس کے بعد آنے والے کا، یہاں تک کہ امام نکل آئے، سو جو شخص امام کے قریب ہو، خاموشی سے بیٹھ کر توجہ سے اس کی بات سنے، کوئی لغو حرکت نہ کرے تو اس کے لی دہرا اجر ہے اور جو شخص امام سے دور ہو لیکن پھر بھی خاموش بیٹھ کر توجہ سے سننے میں مشغول رہے اور کوئی لغو حرکت نہ کرے تو اس کے لئے اکہرا اجر ہے اور جو شخص امام کے قریب بیٹھ کر بیکار کاموں میں لگا رہے، خاموشی سے بیٹھے اور نہ ہی توجہ سے اس کی بات سنے تو اسے اکہرا گناہ ہو گا اور جو شخص کسی کو خاموش کرانے کے لئے ”سی“ کی آواز نکالے تو اس نے بھی بات کی اور جس شخص نے بات کی اسے جمعہ کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، پھر فرمایا کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا خلف بن الوليد ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا تقوم الساعة حتى يلتمس الرجل من اصحابي كما تلتمس الضالة، فلا يوجد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُلْتَمَسَ الرَّجُلُ مِنْ أَصْحَابِي كَمَا تُلْتَمَسُ الضَّالَّةُ، فَلَا يُوجَدُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی (جب تک میرے صحابہ مکمل طور پر دنیا سے رخصت نہ ہو جائیں) یہاں تک کہ میرے کسی ایک صحابی کو اس طرح تلاش کیا جائے گا جیسے کسی گمشدہ چیز کو تلاش کیا جاتا ہے لیکن کوئی ایک صحابی بھی نہ مل سکے گا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود خور، سود کھلانے والے، سودی معاملات لکھنے والے، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والے، حلالہ کروانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عبد مکاتب یعنی وہ غلام جس سے ایک مقررہ مقدار ادا کرنے پر آقا نے آزادی کا معاہدہ کر لیا ہو، اس نے جتنی مقدار ادا کر دی ہو، اتنی مقدار میں وہ دیت کا مستحق بھی ہو جائے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن زبيد الإيامي ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن ، عن علي رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث جيشا، وامر عليهم رجلا، فاوقد نارا، فقال: ادخلوها، فاراد ناس ان يدخلوها، وقال آخرون: إنما فررنا منها، فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال للذين ارادوا ان يدخلوها:" لو دخلتموها لم تزالوا فيها إلى يوم القيامة"، وقال للآخرين قولا حسنا، وقال:" لا طاعة في معصية الله، إنما الطاعة في المعروف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ زُبَيْدٍ الْإِيَامِيِّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ جَيْشًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا، فَأَوْقَدَ نَارًا، فَقَالَ: ادْخُلُوهَا، فَأَرَادَ نَاسٌ أَنْ يَدْخُلُوهَا، وَقَالَ آخَرُونَ: إِنَّمَا فَرَرْنَا مِنْهَا، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِلَّذِينَ أَرَادُوا أَنْ يَدْخُلُوهَا:" لَوْ دَخَلْتُمُوهَا لَمْ تَزَالُوا فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"، وَقَالَ لِلْآخَرِينَ قَوْلًا حَسَنًا، وَقَالَ:" لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ایک انصاری کو ان کا امیر مقرر کر دیا، اس نے آگ جلائی اور کہا کہ اس آگ میں داخل ہو جاؤ، لوگ ابھی اس میں چھلانگ لگانے کی سوچ ہی رہے تھے کہ ایک نوجوان کہنے لگا کہ آگ ہی سے تو بھاگ کر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہوئے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا واقعہ بتایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کرنے والوں سے فرمایا کہ اگر تم اس میں ایک مرتبہ داخل ہو جاتے تو پھر کبھی اس میں سے نہ نکل نہ سکتے اور دوسروں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے، اطاعت کا تعلق تو صرف نیکی کے کاموں سے ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، سمعت الاعمش يحدث، عن عمرو بن مرة ، عن ابي البختري ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه للناس: ما ترون في فضل فضل عندنا من هذا المال؟ فقال الناس: يا امير المؤمنين، قد شغلناك عن اهلك وضيعتك وتجارتك، فهو لك، فقال لي: ما تقول انت؟ فقلت: قد اشاروا عليك، فقال: قل، فقلت: لم تجعل يقينك ظنا؟ فقال: لتخرجن مما قلت، فقلت: اجل، والله لاخرجن منه، اتذكر حين بعثك نبي الله صلى الله عليه وسلم ساعيا، فاتيت العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، فمنعك صدقته، فكان بينكما شيء، فقلت لي: انطلق معي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فوجدناه خاثرا، فرجعنا، ثم غدونا عليه فوجدناه طيب النفس، فاخبرته بالذي صنع، فقال لك:" اما علمت ان عم الرجل صنو ابيه؟"، وذكرنا له الذي رايناه من خثوره في اليوم الاول، والذي رايناه من طيب نفسه في اليوم الثاني، فقال:" إنكما اتيتماني في اليوم الاول وقد بقي عندي من الصدقة ديناران، فكان الذي رايتما من خثوري له، واتيتماني اليوم وقد وجهتهما، فذاك الذي رايتما من طيب نفسي"؟ فقال عمر رضي الله عنه: صدقت، والله لاشكرن لك الاولى والآخرة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِلنَّاسِ: مَا تَرَوْنَ فِي فَضْلٍ فَضَلَ عِنْدَنَا مِنْ هَذَا الْمَالِ؟ فَقَالَ النَّاسُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَدْ شَغَلْنَاكَ عَنْ أَهْلِكَ وَضَيْعَتِكَ وَتِجَارَتِكَ، فهو لك، فقال لِي: مَا تَقُولُ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: قَدْ أَشَارُوا عَلَيْكَ، فَقَالَ: قُلْ، فَقُلْتُ: لِمَ تَجْعَلُ يَقِينَكَ ظَنًّا؟ فَقَالَ: لَتَخْرُجَنَّ مِمَّا قُلْتَ، فَقُلْتُ: أَجَلْ، وَاللَّهِ لَأَخْرُجَنَّ مِنْهُ، أَتَذْكُرُ حِينَ بَعَثَكَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعِيًا، فَأَتَيْتَ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَمَنَعَكَ صَدَقَتَهُ، فَكَانَ بَيْنَكُمَا شَيْءٌ، فَقُلْتَ لِي: انْطَلِقْ مَعِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدْنَاهُ خَاثِرًا، فَرَجَعْنَا، ثُمَّ غَدَوْنَا عَلَيْهِ فَوَجَدْنَاهُ طَيِّبَ النَّفْسِ، فَأَخْبَرْتَهُ بِالَّذِي صَنَعَ، فَقَالَ لَكَ:" أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ؟"، وَذَكَرْنَا لَهُ الَّذِي رَأَيْنَاهُ مِنْ خُثُورِهِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ، وَالَّذِي رَأَيْنَاهُ مِنْ طِيبِ نَفْسِهِ فِي الْيَوْمِ الثَّانِي، فَقَالَ:" إِنَّكُمَا أَتَيْتُمَانِي فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَقَدْ بَقِيَ عِنْدِي مِنَ الصَّدَقَةِ دِينَارَانِ، فَكَانَ الَّذِي رَأَيْتُمَا مِنْ خُثُورِي لَهُ، وَأَتَيْتُمَانِي الْيَوْمَ وَقَدْ وَجَّهْتُهُمَا، فَذَاكَ الَّذِي رَأَيْتُمَا مِنْ طِيبِ نَفْسِي"؟ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: صَدَقْتَ، وَاللَّهِ لَأَشْكُرَنَّ لَكَ الْأُولَى وَالْآخِرَةَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا کہ ہمارے پاس یہ جو کچھ زائد مال بچ گیا ہے اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے؟ لوگوں نے کہا کہ امیر المؤمنین! آپ ہماری وجہ سے اپنے اہل خانہ، اپنے کاروبار اور تجارت سے رہ گئے ہیں، اس لئے یہ آپ رکھ رلیں، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ لوگوں نے آپ کو مشورہ دے تو دیا ہے، انہوں نے فرمایا کہ آپ بھی تو کوئی رائے دیجئے، میں نے عرض کیا کہ آپ اپنے یقین کو گمان میں کیوں تبدیل کر رہے؟ فرمایا: آپ اپنی بات کی وضاحت خود ہی کر دیں۔ میں نے کہا: بہت بہتر، میں اس کی ضرور وضاحت کروں گا، آپ کو یاد ہو گا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو صدقات و زکوٰۃ کی وصولی کے لئے بھیجا تھا، آپ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا، آپ دونوں کے درمیان کچھ اونچ نیچ ہو گئی۔ آپ نے مجھ سے کہا کہ میرے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو، ہم وہاں پہنچے تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ نشاط نہ دیکھا جو ہوتا تھا، چنانچہ ہم واپس آ گئے، اگلے دن جب ہم دوبارہ حاضر ہوئے تو اس وقت ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہشاش بشاش پایا، پھر آپ نے انہیں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بتایا، انہوں نے آپ سے فرمایا کہ کیا آپ کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ انسان کا چچا اس کے باپ کے مرتبہ میں ہوتا ہے۔ پھر ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دن کی کیفیت اور دوسرے دن کی کیفیت کے حوالے سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب آپ دونوں پہلے دن میرے پاس آئے تھے تو میرے پاس زکوٰۃ کے دو دینار بچ گئے تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ نے مجھے بوجھل طبیعت میں دیکھا اور جب آج آپ دونوں میرے پاس آئے تو میں وہ کسی کو دے چکا تھا اسی وجہ سے آپ نے مجھے ہشاش بشاش پایا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ سن کر فرمایا: آپ نے صحیح فرمایا: بخدا! میں دنیا و آخرت میں آپ کا شکر گزار رہوں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو البختري- واسمه سعيد بن فيروز- لم يدرك علياً، و أن عم الرجل صنو أبيه له شاهد صحيح من حديث أبى هريرة فى صحيح مسلم وغيره
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی تکلیف یا مصیبت آنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ دعا سکھائی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ بڑا بردبار اور مہربان ہے، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے، وہ عرش عظیم کا رب ہے اور تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن عطاء بن السائب ، عن زاذان ، عن علي رضي الله عنه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" من ترك موضع شعرة من جنابة لم يصبها ماء، فعل الله تعالى به كذا وكذا من النار"، قال علي رضي الله عنه: فمن ثم عاديت شعري.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ تَرَكَ مَوْضِعَ شَعَرَةٍ مِنْ جَنَابَةٍ لَمْ يُصِبْهَا مَاءٌ، فَعَلَ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ كَذَا وَكَذَا مِنَ النَّارِ"، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَمِنْ ثَمَّ عَادَيْتُ شَعْرِي.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص جنابت کی حالت میں غسل کرتے ہوئے ایک بال کے برابر بھی جگہ خالی چھوڑ دے جہاں پانی نہ پہنچا ہو، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ جہنم میں ایسا ایسا معاملہ کریں گے، بس اسی وقت سے میں نے اپنے بالوں کے ساتھ دشمنی پال لی۔
حكم دارالسلام: إسناده مرفوعاً ضعيف، عطاء بن السائب اختلط بأخرة، وعامة من رفع عنه هذا الحديث، فإنما رواه عنه بعد اختلاطه
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سات کپڑوں میں دفنایا گیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد عبدالله بن محمد بن عقيل به، ولمخالفة الحديث الصحيح الذى رواه البخاري: 1264، ومسلم: 941 من حديث عائشة إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفن فى ثلاثة أثواب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا عبد العزيز بن عبد الله الماجشون ، حدثنا عبد الله بن الفضل , والماجشون ، عن الاعرج ، عن عبيد الله بن رافع ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا كبر، استفتح، ثم قال:" وجهت وجهي للذي فطر السموات والارض حنيفا مسلما، وما انا من المشركين، إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين، لا شريك له، وبذلك امرت وانا من المسلمين، وقال ابو النضر : وانا اول المسلمين، اللهم لا إله إلا انت، انت ربي وانا عبدك، ظلمت نفسي، واعترفت بذنبي، فاغفر لي ذنوبي جميعا، لا يغفر الذنوب إلا انت، واهدني لاحسن الاخلاق، لا يهدي لاحسنها إلا انت، واصرف عني سيئها، لا يصرف عني سيئها إلا انت، تباركت وتعاليت، استغفرك واتوب إليك"، وكان إذا ركع، قال:" اللهم لك ركعت، وبك آمنت، ولك اسلمت، خشع لك سمعي وبصري ومخي وعظامي وعصبي"، وإذا رفع راسه من الركعة، قال:" سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد ملء السموات والارض وما بينهما، وملء ما شئت من شيء بعد"، وإذا سجد، قال:" اللهم لك سجدت، وبك آمنت، ولك اسلمت، سجد وجهي للذي خلقه فصوره فاحسن صوره، فشق سمعه وبصره، فتبارك الله احسن الخالقين"، فإذا سلم من الصلاة، قال:" اللهم اغفر لي ما قدمت وما اخرت، وما اسررت وما اعلنت، وما اسرفت، وما انت اعلم به مني، انت المقدم، وانت المؤخر، لا إله إلا انت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَاجِشُونُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ , وَالْمَاجِشُونُ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا كَبَّرَ، اسْتَفْتَحَ، ثُمَّ قَالَ:" وَجَّهْتُ وَجْهِي لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا مُسْلِمًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وقَالَ أَبُو النَّضْرِ : وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ، لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا، لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ"، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ، قَالَ:" اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعِظَامِي وَعَصَبِي"، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ، قَالَ:" سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ"، وَإِذَا سَجَدَ، قَالَ:" اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ فَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُوَرَهُ، فَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ"، فَإِذَا سَلَّمَ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر تحریمہ کہہ چکتے تو ثناء پڑھنے کے بعد فرماتے کہ میں نے اپنے چہرے کا رخ اس ذات کی طرف سب سے یکسو ہو کر اور مسلمان ہو کر پھیر لیا جس نے آسمان و زمین کو تخلیق کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں، میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت اس اللہ کے لئے وقف ہے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، الہیٰ! آپ ہی حقیقی بادشاہ ہیں، آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، آپ ہی میرے رب اور میں آپ کا عبد ہوں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف ہے اس لئے آپ میرے تمام گناہوں کو معاف فرمادیں، کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف کر ہی نہیں سکتا اور بہتر اخلاق کی طرف میری رہنمائی فرمائیے، کیونکہ بہترین اخلاق کی طرف بھی آپ ہی رہنمائی کر سکتے ہیں اور مجھے برے اخلاق سے بچائیے کیونکہ ان سے بھی آپ ہی بچا سکتے ہیں، آپ کی ذات تو بڑی بابرکت اور برتر ہے، میں آپ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا اور توبہ کرتا ہوں۔ جب رکوع میں جاتے تو یوں کہتے ہیں کہ الہیٰ! میں نے آپ کے لئے رکوع کیا، آپ پر ایمان لایا، آپ کا تابع فرمان ہوا، میرے کان اور آنکھیں، دماغ، ہڈیاں اور پٹھے سب آپ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو «سمع الله لمن حمده» اور «ربنا ولك الحمد» کہنے کے بعد فرماتے کہ تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں جو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی جگہ کو پر کر دیں اور اس کے علاوہ جس چیز کو آپ چاہیں، بھر دیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے تو یوں فرماتے کہ الہیٰ! میں نے آپ کے لئے سجدہ کیا، آپ پر ایمان لایا، آپ کا تابع فرمان ہوا، میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نے اسے پیدا کیا اور اس کی بہترین تصویر کشی کی، اس کے کان (سننے) اور آنکھ دیکھنے کے قابل بنائے، اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے جو بہترین خالق ہے۔ اور جب نماز کا سلام پھیرتے تو یوں فرماتے کہ اے اللہ! میرے اگلے پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہوں کو معاف فرما دے اور جو میں نے تجاوز کیا وہ بھی معاف فرما دے اور جن چیزوں کو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، وہ بھی معاف فرما دے، آپ ہی اول و آخر ہیں اور آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا فطر ، عن منذر ، عن ابن الحنفية ، قال: قال علي رضي الله عنه: يا رسول الله، ارايت إن ولد لي بعدك ولد، اسميه باسمك، واكنيه بكنيتك؟ قال:" نعم"، فكانت رخصة من رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنِ مُنْذِرِ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ وُلِدَ لِي بَعْدَكَ وَلَدٌ، أُسَمِّيهِ بِاسْمِكَ، وَأُكَنِّيهِ بِكُنْيَتِكَ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، فَكَانَتْ رُخْصَةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ اگر آپ کے بعد میرے یہاں کوئی لڑکا پیدا ہو تو کیا میں اس کا نام آپ کے نام پر اور اس کی کنیت آپ کی کنیت پر رکھ سکتا ہوں؟ فرمایا: ہاں! یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لئے رخصت تھی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ بات ذکر فرمائی تھی کہ تم سے بغض کوئی منافق ہی کر سکتا ہے اور تم سے محبت کوئی مومن ہی کر سکتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن سلمة ، عن حجية ، عن علي رضي الله عنه، قال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان" نستشرف العين والاذن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ ، عَنْ حُجَيَّةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ" نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ قربانی کے جانوروں کی آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں کہ کہیں ان میں کوئی عیب تو نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن مسلم البطين ، عن علي بن الحسين ، عن مروان بن الحكم ، قال:" كنا نسير مع عثمان رضي الله عنه، فإذا رجل يلبي بهما جميعا، فقال عثمان رضي الله عنه: من هذا؟ فقالوا: علي ، فقال: الم تعلم اني قد نهيت عن هذا؟ قال: بلى، ولكن لم اكن لادع قول رسول الله صلى الله عليه وسلم لقولك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ ، قَالَ:" كُنَّا نَسِيرُ مَعَ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِذَا رَجُلٌ يُلَبِّي بِهِمَا جَمِيعًا، فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: عَلِيٌّ ، فَقَالَ: أَلَمْ تَعْلَمْ أَنِّي قَدْ نَهَيْتُ عَنْ هَذَا؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنْ لَمْ أَكُنْ لِأَدَعَ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِكَ".
مروان بن حکم سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ چلے جا رہے تھے کہ ایک شخص حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ کہتے ہوئے نظر آیا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ میں نے اس کی ممانعت کا حکم جاری کر دیا ہے؟ فرمایا: کیوں نہیں لیکن آپ کی بات کے آگے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو نہیں چھوڑ سکتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن سلمة بن كهيل ، عن حجية ، قال: سال رجل عليا رضي الله عنه عن البقرة؟ فقال: عن سبعة، فقال: مكسورة القرن؟ فقال: لا يضرك، قال: العرجاء؟ قال: إذا بلغت المنسك فاذبح، امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان" نستشرف العين والاذن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ حُجَيَّةَ ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ الْبَقَرَةِ؟ فَقَالَ: عَنْ سَبْعَةٍ، فَقَالَ: مَكْسُورَةُ الْقَرْنِ؟ فَقَالَ: لَا يَضُرُّكَ، قَالَ: الْعَرْجَاءُ؟ قَالَ: إِذَا بَلَغَتْ الْمَنْسَكَ فَاذْبَحْ، أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ" نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ".
ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گائے کی قربانی کے حوالے سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا کہ ایک گائے سات آدمیوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے، اس نے پوچھا کہ اگر اس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، اس نے کہا کہ اگر وہ لنگڑی ہو؟ فرمایا: اگر قربان گاہ تک خود چل کر جا سکے تو اسے ذبح کر لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جانور کے آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا جرير بن حازم ، وابو عمرو بن العلاء ، عن ابن سيرين ، سمعاه عن عبيدة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يخرج قوم فيهم رجل مودن اليد، او مثدون اليد، او مخدج اليد"، ولولا ان تبطروا لانباتكم بما وعد الله الذين يقتلونهم على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم، قال عبيدة: قلت لعلي رضي الله عنه: انت سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: إي ورب الكعبة، إي ورب الكعبة، إي ورب الكعبة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، وَأَبُو عَمْرِو بْنِ الْعَلَاءِ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، سَمِعَاهُ عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَخْرُجُ قَوْمٌ فِيهِمْ رَجُلٌ مُودَنُ الْيَدِ، أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ، أَوْ مُخْدَجُ الْيَدِ"، وَلَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَأَنْبَأْتُكُمْ بِمَا وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبِيدَةُ: قُلْتُ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک قوم نکلے گی، ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہو گا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاؤ تو میں تم سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے تین مرتبہ فرمایا ہاں! رب کعبہ کی قسم۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن عبد الاعلى الثعلبي ، عن ابي جميلة الطهوي ، عن علي رضي الله عنه، ان خادما للنبي صلى الله عليه وسلم احدثت، فامرني النبي صلى الله عليه وسلم ان اقيم عليها الحد، فاتيتها، فوجدتها لم تجف من دمها، فاتيته، فاخبرته، فقال:" إذا جفت من دمها فاقم عليها الحد، اقيموا الحدود على ما ملكت ايمانكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ ، عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ الطُّهَوِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ خَادِمًا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْدَثَتْ، فَأَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُقِيمَ عَلَيْهَا الْحَدَّ، فَأَتَيْتُهَا، فَوَجَدْتُهَا لَمْ تَجِفَّ مِنْ دَمِهَا، فَأَتَيْتُهُ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:" إِذَا جَفَّتْ مِنْ دَمِهَا فَأَقِمْ عَلَيْهَا الْحَدَّ، أَقِيمُوا الْحُدُودَ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی باندی سے بدکاری کا گناہ سرزد ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا، میں اس کے پاس پہنچا تو ابھی اس کا خون بند نہیں ہوا تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اس کا خون رک جائے تو اس پر حد جاری کر دینا اور یاد رکھو! اپنے مملوکوں پر بھی حدود جاری کیا کرو۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن ابي إسحاق ، عن عبد خير ، عن علي رضي الله عنه، قال: كنت ارى ان باطن القدمين احق بالمسح من ظاهرهما، حتى رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" يمسح ظاهرهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ أَرَى أَنَّ بَاطِنَ الْقَدَمَيْنِ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ مِنْ ظَاهِرِهِمَا، حَتَّى رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَمْسَحُ ظَاهِرَهُمَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری رائے یہ تھی کہ «مسح على الخفين» کے لئے موزوں کا وہ حصہ زیادہ موزوں ہے جو زمین کے ساتھ لگتا ہے بہ نسبت اس حصے کے جو پاؤں کے اوپر رہتا ہے، حتی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر کے حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھ لیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بمجموع طرقه، والأعمش كان مضطرباً فى حديث أبى إسحاق، وأشار الدارقطني فى العلل إلى الاختلاف فى سند الحديث ومتنه
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو استخلفت احدا عن غير مشورة، لاستخلفت ابن ام عبد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ اسْتَخْلَفْتُ أَحَدًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ، لَاسْتَخْلَفْتُ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کو امیر بناتا تو ابن ام عبد یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بناتا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحارث بن عبدالله الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، حدثنا علي ، ان فاطمة شكت إلى النبي صلى الله عليه وسلم اثر العجين في يديها، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم سبي، فاتته تساله خادما، فلم تجده، فرجعت، قال: فاتانا وقد اخذنا مضاجعنا، قال: فذهبت لاقوم، فقال:" مكانكما"، فجاء حتى جلس حتى وجدت برد قدمه، فقال:" الا ادلكما على ما هو خير لكما من خادم؟ إذا اخذتما مضجعكما سبحتما الله ثلاثا وثلاثين، وحمدتماه ثلاثا وثلاثين، وكبرتماه اربعا وثلاثين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، أَنَّ فَاطِمَةَ شَكَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَثَرَ الْعَجِينِ فِي يَدَيْهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيٌ، فَأَتَتْهُ تَسْأَلُهُ خَادِمًا، فَلَمْ تَجِدْهُ، فَرَجَعَتْ، قَالَ: فَأَتَانَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا، قَالَ: فَذَهَبْتُ لِأَقُومَ، فَقَالَ:" مَكَانَكُمَا"، فَجَاءَ حَتَّى جَلَسَ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَهِ، فَقَالَ:" أَلَا أَدُلُّكُمَا عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ؟ إِذَا أَخَذْتُمَا مَضْجَعَكُمَا سَبَّحْتُمَا اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَحَمِدْتُمَاهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبَّرْتُمَاهُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آٹا پیس پیس کر ہاتھوں میں نشان پڑ گئے ہیں، اس دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے کچھ قیدی آئے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خادم کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے، چنانچہ وہ واپس آگئیں۔ رات کو جب ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے کھڑا ہونا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی جگہ رہو“، یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس بیٹھ گئے، حتیٰ کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک محسوس کی، اور فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمہارے لئے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر لیٹا کرو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن حبيب ، عن ابي وائل ، عن ابي الهياج الاسدي ، قال: قال لي علي : ابعثك على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ ان" لا تدع تمثالا إلا طمسته، ولا قبرا مشرفا إلا سويته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ أَبِي الْهَيَّاجِ الْأَسَدِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي عَلِيٌّ : أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَنْ" لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے رفیقابوالھیاج اسدی کو مخاطب کر کے فرمایا: میں تمہیں اس کام کے لئے بھیج رہا ہوں، جس کام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا، انہوں نے مجھے ہر قبر کو برابر کرنے اور ہر بت کو مٹا ڈالنے کا حکم دیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: جاء ثلاثة نفر إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال احدهم: يا رسول الله، كانت لي مائة دينار، فتصدقت منها بعشرة دنانير، وقال الآخر: يا رسول الله، كان لي عشرة دنانير، فتصدقت منها بدينار، وقال الآخر: كان لي دينار، فتصدقت بعشره، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كلكم في الاجر سواء، كلكم تصدق بعشر ماله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَانَتْ لِي مِائَةُ دِينَارٍ، فَتَصَدَّقْتُ مِنْهَا بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ، وَقَالَ الْآخَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَانَ لِي عَشَرَةُ دَنَانِيرَ، فَتَصَدَّقْتُ مِنْهَا بِدِينَارٍ، وَقَالَ الْآخَرُ: كَانَ لِي دِينَارٌ، فَتَصَدَّقْتُ بِعُشْرِهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُّكُمْ فِي الْأَجْرِ سَوَاءٌ، كُلُّكُمْ تَصَدَّقَ بِعُشْرِ مَالِهِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان میں سے ایک نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس سو دینار تھے جن میں سے میں نے دس دینار صدقہ کر دئیے، دوسرے نے کہا: یا رسول اللہ! میرے پاس دس دینار تھے، میں نے ان میں سے ایک دینار صدقہ کر دیا، اور تیسرے نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک دینار تھا، میں نے اس کا دسواں حصہ صدقہ کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سب کو برابر برابر اجر ملے گا، اس لئے کہ تم سب نے اپنے مال کا دسواں حصہ صدقہ کیا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحارث الأعور، وعنعنة أبى إسحاق
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن شريك ، عن سماك ، عن حنش ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا جلس إليك الخصمان، فلا تكلم حتى تسمع من الآخر، كما سمعت من الاول".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ شَرِيكٍ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا جَلَسَ إِلَيْكَ الْخَصْمَانِ، فَلَا تَكَلَّمْ حَتَّى تَسْمَعَ مِنَ الْآخَرِ، كَمَا سَمِعْتَ مِنَ الْأَوَّلِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا، بلکہ دونوں کی بات سننا۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك وحنش
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، انبانا المسعودي ، عن عثمان بن عبد الله بن هرمز ، عن نافع بن جبير بن مطعم ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" ليس بالطويل ولا بالقصير، ضخم الراس واللحية، شثن الكفين والقدمين، مشرب وجهه حمرة، طويل المسربة، ضخم الكراديس، إذا مشى تكفا تكفؤا كانما ينحط من صبب، لم ار قبله ولا بعده مثله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، أَنْبَأَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُرْمُزَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ، ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ، شَثْنُ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، مُشْرَبٌ وَجْهُهُ حُمْرَةً، طَوِيلُ الْمَسْرُبَةِ، ضَخْمُ الْكَرَادِيسِ، إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ تَكَفُّؤًا كَأَنَّمَا يَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ، لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے، سر مبارک بڑا اور داڑھی گھنی تھی، ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے تھے، چہرہ مبارک میں سرخی کی آمیزش تھی، سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی، ہڈیوں کے جوڑ بہت مضبوط تھے، چلتے وقت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کہ کسی گھاٹی سے اتر رہے ہیں، میں نے ان سے پہلے یا ان کے بعد ان جیسا کوئی نہ دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره كسابقه، وسماع وكيع من المسعودي قبل الاختلاط
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا إسرائيل ، عن ثوير بن ابي فاختة ، عن ابيه ، عن علي رضي الله عنه، قال:" اهدى كسرى لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبل منه، واهدى له قيصر، فقبل منه، واهدت له الملوك، فقبل منهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أخبرنا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ ثُوَيْرِ بْنِ أَبِي فَاخِتَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَهْدَى كِسْرَى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبِلَ مِنْهُ، وَأَهْدَى لَهُ قَيْصَرُ، فَقَبِلَ مِنْهُ، وَأَهْدَتْ لَهُ الْمُلُوكُ، فَقَبِلَ مِنْهُمْ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا، اسی طرح قیصر نے ہدیہ بھیجا تو وہ بھی قبول فرما لیا، اور دیگر بادشاہوں نے بھیجا تو وہ بھی قبول فرما لیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ثوير بن أبى فاختة، وأخذ الهدية من المشركين بقصد تأنيسهم وتأليفهم على الإسلام ثابت عنه فى غير ما حديث هي فى صحيح البخاري فى الهبة، باب قبول الهدية من المشركين، وفي صحيح مسلم 2469
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، عن الحجاج ، عن الحكم ، عن القاسم بن مخيمرة ، عن شريح بن هانئ ، قال: سالت عائشة رضي الله عنها عن المسح على الخفين، فقالت: سل عليا، فإنه اعلم بهذا مني، كان يسافر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فسالت عليا رضي الله عنه، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" للمسافر ثلاثة ايام ولياليهن، وللمقيم يوم وليلة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، عَنْ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَتْ: سَلْ عَلِيًّا، فَإِنَّهُ أَعْلَمُ بِهَذَا مِنِّي، كَانَ يُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَسَأَلْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ، وَلِلْمُقِيمِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ".
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، انہیں اس مسئلے کا زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی رہتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسافر کے لئے تین دن اور تین رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔“
حكم دارالسلام: صحيح. م: 276، الحجاج مدلس و عنعن، وقد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ میں سونا اور بائیں ہاتھ میں ریشم پکڑا اور دونوں ہاتھوں کو بلند کر کے فرمایا: ”یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔“
حكم دارالسلام: صحيح لشواهده، وقد سقط من الاسناد أبو أفلح الهمداني بين عبدالعزيز وبين عبدالله بن زرير، وسيأتي الحديث فى المسند برقم: 935 ، وفيه أبو أفلح هذا
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن هشام بن عمر ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، عن علي رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم، كان يقول في آخر وتره:" اللهم إني اعوذ برضاك من سخطك، واعوذ بمعافاتك من عقوبتك، واعوذ بك منك، لا احصي ثناء عليك، انت كما اثنيت على نفسك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أخبرنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَمْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ فِي آخِرِ وِتْرِهِ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے آخر میں یوں فرماتے تھے: «اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ.»”اے اللہ! میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں، تیری درگزر کے ذریعے تیری سزا سے اور تیری ذات کے ذریعے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری تعریف کا احاطہ نہیں کر سکتا، تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص مغرب اور عشاء کے درمیان تلاوت کرتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کرے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
(حديث قدسي) حدثنا يزيد ، اخبرنا شريك بن عبد الله ، عن ابي إسحاق ، عن علي بن ربيعة ، قال: رايت عليا رضي الله عنه اتي بدابة ليركبها، فلما وضع رجله في الركاب، قال: بسم الله، فلما استوى عليها، قال: الحمد لله، سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين، وإنا إلى ربنا لمنقلبون، ثم حمد الله ثلاثا، وكبر ثلاثا، ثم قال: سبحانك لا إله إلا انت، قد ظلمت نفسي فاغفر لي، ثم ضحك، فقلت: مم ضحكت يا امير المؤمنين؟ قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل مثل ما فعلت، ثم ضحك، فقلت: مم ضحكت يا رسول الله؟ قال:" يعجب الرب من عبده إذا قال: رب اغفر لي، ويقول: علم عبدي انه لا يغفر الذنوب غيري".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أخبرنا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُتِيَ بِدَابَّةٍ لِيَرْكَبَهَا، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الرِّكَابِ، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَيْهَا، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، ثُمَّ حَمِدَ اللَّهَ ثَلَاثًا، وَكَبَّرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي، ثُمَّ ضَحِكَ، فَقُلْتُ: مِمَّ ضَحِكْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ، ثُمَّ ضَحِكَ، فَقُلْتُ: مِمَّ ضَحِكْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" يَعْجَبُ الرَّبُّ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي، وَيَقُولُ: عَلِمَ عَبْدِي أَنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرِي".
علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے پاس سواری کے لئے ایک جانور لایا گیا، جب انہوں نے اپنا پاؤں اس کی رکاب میں رکھا تو بسم اللہ کہا، جب اس پر بیٹھ گئے تو یہ دعا پڑھی: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ»”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارا تابع فرمان بنا دیا، ہم تو اسے اپنے تابع نہیں کر سکتے تھے، اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔“ پھر تین مرتبہ الحمدللہ اور تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: «سُبْحَانَكَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي»”اے اللہ! آپ پاک ہیں، آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، پس مجھے معاف فرما دیجئے۔“ پھر مسکرا دئیے۔ میں نے پوچھا کہ امیر المؤمنین! اس موقع پر مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا جیسے میں نے کیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرائے تھے، اور میں نے بھی ان سے اس کی وجہ پوچھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”جب بندہ یہ کہتا ہے کہ پروردگار! مجھے معاف فرما دے، تو پروردگار کو خوشی ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے علاوہ اس کے گناہ کوئی معاف نہیں کر سکتا۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، شريك سيئ الحفظ، وقد توبع، وأبو إسحاق دلسه ، فحذف منه رجلين بينه وبين على بن ربيعة
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن يعلى بن عطاء ، عن عبد الله بن يسار ، ان عمرو بن حريث عاد الحسن بن علي رضي الله عنه، فقال له علي: اتعود الحسن وفي نفسك ما فيها؟ فقال له عمرو: إنك لست بربي فتصرف قلبي حيث شئت، قال علي رضي الله عنه: اما إن ذلك لا يمنعنا ان نؤدي إليك النصيحة، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ما من مسلم عاد اخاه، إلا ابتعث الله له سبعين الف ملك يصلون عليه من اي ساعات النهار كان حتى يمسي، ومن اي ساعات الليل كان حتى يصبح"، قال له عمرو: كيف تقول في المشي مع الجنازة: بين يديها او خلفها؟ فقال علي رضي الله عنه: إن فضل المشي من خلفها على بين يديها، كفضل صلاة المكتوبة في جماعة على الوحدة، قال عمرو: فإني رايت ابا بكر وعمر رضي الله عنهما يمشيان امام الجنازة، قال علي رضي الله عنه: إنهما كرها ان يحرجا الناس.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ حُرَيْثٍ عَادَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: أَتَعُودُ الْحَسَنَ وَفِي نَفْسِكَ مَا فِيهَا؟ فَقَالَ لَهُ عَمْرٌو: إِنَّكَ لَسْتَ بِرَبِّي فَتَصْرِفَ قَلْبِي حَيْثُ شِئْتَ، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَمَا إِنَّ ذَلِكَ لَا يَمْنَعُنَا أَنْ نُؤَدِّيَ إِلَيْكَ النَّصِيحَةَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا مِنْ مُسْلِمٍ عَادَ أَخَاهُ، إِلَّا ابْتَعَثَ اللَّهُ لَهُ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يُصَلُّونَ عَلَيْهِ مِنْ أَيِّ سَاعَاتِ النَّهَارِ كَانَ حَتَّى يُمْسِيَ، وَمِنْ أَيِّ سَاعَاتِ اللَّيْلِ كَانَ حَتَّى يُصْبِحَ"، قَالَ لَهُ عَمْرٌو: كَيْفَ تَقُولُ فِي الْمَشْيِ مَعَ الْجِنَازَةِ: بَيْنَ يَدَيْهَا أَوْ خَلْفَهَا؟ فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ فَضْلَ الْمَشْيِ مِنْ خَلْفِهَا عَلَى بَيْنِ يَدَيْهَا، كَفَضْلِ صَلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ فِي جَمَاعَةٍ عَلَى الْوَحْدَةِ، قَالَ عَمْرٌو: فَإِنِّي رَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَمْشِيَانِ أَمَامَ الْجِنَازَةِ، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّهُمَا كَرِهَا أَنْ يُحْرِجَا النَّاسَ.
عبداللہ بن یسار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عمرو بن حریث سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: یوں تو آپ حسن کی بیمار پرسی کے لئے آئے ہیں اور اپنے دل میں جو کچھ چھپا رکھا ہے اس کا کیا ہوگا؟ عمرو نے کہا کہ آپ میرے رب نہیں ہیں کہ جس طرح چاہیں میرے دل میں تصرف کرنا شروع کر دیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لیکن اس کے باوجود ہم تم سے نصیحت کی بات کہنے سے نہیں رکیں گے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے جاتا ہے، اللہ اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دیتا ہے جو شام تک دن کے ہر لمحے میں اس کے لئے دعا مغفرت کرتے رہتے ہیں، اور اگر شام کو گیا ہو تو صبح تک رات کی ہر گھڑی اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔“ عمرو بن حریث نے پوچھا کہ جنازے کے ساتھ چلنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، جنازے کے آگے چلنا چاہئے یا پیچھے؟ فرمایا کہ آگے چلنے پر پیچھے چلنا اسی طرح افضل ہے جیسے فرض نماز باجماعت پڑھنے کی فضیلت تنہا پڑھنے پر ہے، عمرو نے کہا کہ میں نے تو خود سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کو جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا ہے؟ فرمایا: وہ دونوں لوگوں کو اپنی وجہ سے تنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن يسار
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے ہدیہ کے طور پر ایک ریشمی جوڑا آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں اسے پہن کر باہر نکلا، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر ناراضگی کے اثرات دیکھے تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، قال: قال عبد الله بن شقيق : كان عثمان رضي الله عنه ينهى عن المتعة، وعلي رضي الله عنه يامر بها، فقال عثمان لعلي إنك كذا وكذا، ثم قال علي رضي الله عنه: لقد علمت انا قد" تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم"، فقال: اجل، ولكنا كنا خائفين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ : كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَنْهَى عَنِ الْمُتْعَةِ، وَعَلِيٌّ رضي الله عنه يأمر بها، فقال عثمان لعلي إنك كذا وكذا، ثم قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّا قَدْ" تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَقَالَ: أَجَلْ، وَلَكِنَّا كُنَّا خَائِفِينَ.
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ لوگوں کو حج تمتع سے روکتے تھے، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے جواز کا فتوی دیتے تھے، ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کچھ کہا ہوگا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ جانتے بھی ہیں کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا ہے پھر بھی اس سے روکتے ہیں؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بات تو ٹھیک ہے، لیکن ہمیں اندیشہ ہے (کہ لوگ رات کو بیویوں کے قریب جائیں اور صبح کو غسل جنابت کے پانی سے گیلے ہوں اور حج کا احرام باندھ لیں)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیر خوار بچے کے متعلق ارشاد فرمایا: ”بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا بھی کافی ہے اور بچی کا پیشاب جس چیز پر لگ جائے اسے دھویا جائے گا۔“ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک ہے جب انہوں نے کھانا پینا شروع نہ کیا ہو، اور جب وہ کھانا پینا شروع کر دیں تو دونوں کا پیشاب جس چیز کو لگ جائے اسے دھونا ہی پڑے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن ربعي بن حراش ، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:" لا يؤمن عبد حتى يؤمن باربع: حتى يشهد ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، بعثني بالحق، وحتى يؤمن بالبعث بعد الموت، وحتى يؤمن بالقدر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ: حَتَّى يَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، وَحَتَّى يُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَحَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک چار چیزوں پر ایمان نہ لے آئے، اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور یہ کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں، اس نے مجھے برحق نبی بنا کر بھیجا ہے، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لائے اور تقدیر پر ایمان رکھے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، قال: سمعت ناجية بن كعب يحدث، عن علي رضي الله عنه: انه اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن ابا طالب مات، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" اذهب فواره"، فقال: إنه مات مشركا، فقال:" اذهب فواره"، قال: فلما واريته، رجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لي:" اغتسل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ نَاجِيَةَ بْنَ كَعْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أَبَا طَالِبٍ مَاتَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اذْهَبْ فَوَارِهِ"، فَقَالَ: إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا، فَقَالَ:" اذْهَبْ فَوَارِهِ"، قَالَ: فَلَمَّا وَارَيْتُهُ، رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي:" اغْتَسِلْ".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں ابوطالب کی وفات کی خبر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر انہیں کسی گڑھے میں چھپا دو۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ وہ تو شرک کی حالت میں مرے ہیں (میں کیسے ان کو قبر میں اتاروں؟) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا کہ ”جا کر انہیں کسی گڑھے میں چھپا دو۔“ جب میں انہیں کسی گڑھے میں اتار کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا تو مجھ سے فرمایا کہ ”جا کر غسل کرو۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے دو غلاموں کو بیچنے کا حکم دیا، وہ دونوں آپس میں بھائی تھے، میں نے ان دونوں کو دو الگ الگ آدمیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا، اور آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جا کر ان دونوں کو واپس لو اور اکٹھا ایک ہی آدمی کے ہاتھ ان دونوں کو فروخت کرو۔“(تاکہ دونوں کو ایک دوسرے سے کچھ تو قرب اور انس رہے)۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، سعيد بن أبى عروبة لم يسمع من الحكم بن عتيبة شيئاً
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا زهير ، عن عبد الله يعني ابن محمد بن عقيل ، عن محمد بن علي ، انه سمع علي بن ابي طالب رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اعطيت ما لم يعط احد من الانبياء"، فقلنا: يا رسول الله، ما هو؟ قال:" نصرت بالرعب، واعطيت مفاتيح الارض، وسميت احمد، وجعل التراب لي طهورا، وجعلت امتي خير الامم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُعْطِيتُ مَا لَمْ يُعْطَ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ"، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هُوَ؟ قَالَ:" نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ، وَسُمِّيتُ أَحْمَدَ، وَجُعِلَ التُّرَابُ لِي طَهُورًا، وَجُعِلَتْ أُمَّتِي خَيْرَ الْأُمَمِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے کچھ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کیا چیزیں ہیں؟ فرمایا: ”میری مدد رعب کے ذریعے کی گئی ہے، مجھے زمین کے خزانے دئیے گئے ہیں، میرا نام احمد رکھا گیا ہے، مٹی کو میرے لئے پانی کی طرح پاک کرنے والا قرار دیا گیا ہے، اور میری امت کو بہترین امت کا خطاب دیا گیا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يوتر عند الاذان، ويصلي ركعتي الفجر عند الإقامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أخبرنا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُوتِرُ عِنْدَ الْأَذَانِ، وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ عِنْدَ الْإِقَامَةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان فجر کے قریب وتر ادا فرماتے تھے، اور اقامت کے قریب فجر کی سنتیں پڑھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا الاشجعي ، عن سفيان ، عن جابر ، عن عبد الله بن نجي ، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ذكرنا الدجال عند النبي صلى الله عليه وسلم وهو نائم، فاستيقظ محمرا لونه، فقال:" غير ذلك اخوف لي عليكم"، ذكر كلمة.(حديث مرفوع) حدثنا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْأَشْجَعِيُّ ، عَنْ سُفيان ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ذَكَرْنَا الدَّجَّالَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِمٌ، فَاسْتَيْقَظَ مُحْمَرًّا لَوْنُهُ، فَقَالَ:" غَيْرُ ذَلِكَ أَخْوَفُ لِي عَلَيْكُمْ"، ذَكَرَ كَلِمَةً.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے اور ہم قریب ہی بیٹھے دجال کا تذکرہ کر رہے تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تم پر دجال سے زیادہ ایک دوسری چیز کا خطرہ ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا شريك ، عن عثمان بن ابي زرعة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن علي بن علقمة ، عن علي رضي الله عنه، قال: اهدي لرسول الله صلى الله عليه وسلم بغل، او بغلة، فقلت: ما هذا؟ قال:" بغل، او بغلة"، قلت: ومن اي شيء هو؟ قال:" يحمل الحمار على الفرس، فيخرج بينهما هذا"، قلت: افلا نحمل فلانا على فلانة؟ قال:" لا، إنما يفعل ذلك الذين لا يعلمون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَغْلٌ، أَوْ بَغْلَةٌ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالَ:" بَغْلٌ، أَوْ بَغْلَةٌ"، قُلْتُ: وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ هُوَ؟ قَالَ:" يُحْمَلُ الْحِمَارُ عَلَى الْفَرَسِ، فَيَخْرُجُ بَيْنَهُمَا هَذَا"، قُلْتُ: أَفَلَا نَحْمِلُ فُلَانًا عَلَى فُلَانَةَ؟ قَالَ:" لَا، إِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ کے ایک خچر پیش کیا گیا، میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ فرمایا کہ ”خچر ہے مذکر یا مونث“، میں نے پوچھا کہ یہ کس نسل سے ہوتا ہے؟ فرمایا: ”گھوڑی پر گدھے کو سوار کر دیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ اس خچر کی صورت میں نکلتا ہے۔“ میں نے عرض کیا کہ پھر میں بھی فلاں گدھے کو فلاں گھوڑی پر نہ چڑھا دوں؟ فرمایا: ”نہیں، یہ وہ لوگ کرتے ہیں جو جاہل ہوں۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك وجهالة على بن علقمة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہوتے تو سبحان اللہ کہہ دیتے، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو یوں ہی اجازت دے دیتے (اور سبحان اللہ کہنے کی ضرورت نہ رہتی)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منی میں قربان گاہ پر تشریف لائے اور فرمایا: ”یہ قربان گاہ ہے، اور پورا منی ہی قربان گاہ ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن هانئ بن هانئ ، عن علي رضي الله عنه، قال: لما ولد الحسن سميته حربا، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال" اروني ابني، ما سميتموه؟"، قال: قلت: حربا، قال:" بل هو حسن"، فلما ولد الحسين سميته حربا، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" اروني ابني، ما سميتموه؟"، قال: قلت: حربا، قال:" بل هو حسين"، فلما ولد الثالث سميته حربا، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اروني ابني، ما سميتموه؟"، قلت: حربا، قال:" بل هو محسن"، ثم قال:" سميتهم باسماء ولد هارون: شبر، وشبير، ومشبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا وُلِدَ الْحَسَنُ سميته حربا، فجاء رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ" أَرُونِي ابْنِي، مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟"، قَالَ: قُلْتُ: حَرْبًا، قَالَ:" بَلْ هُوَ حَسَنٌ"، فَلَمَّا وُلِدَ الْحُسَيْنُ سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَرُونِي ابْنِي، مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟"، قَالَ: قُلْتُ: حَرْبًا، قَالَ:" بَلْ هُوَ حُسَيْنٌ"، فَلَمَّا وُلِدَ الثَّالِثُ سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَرُونِي ابْنِي، مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟"، قُلْتُ: حَرْبًا، قَالَ:" بَلْ هُوَ مُحَسِّنٌ"، ثُمَّ قَالَ:" سَمَّيْتُهُمْ بِأَسْمَاءِ وَلَدِ هَارُونَ: شَبَّرُ، وَشَبِيرُ، وَمُشَبِّرٌ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حسن کی پیدائش ہوئی تو میں نے اس کا نام حرب رکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بچے کی پیدائش کی خبر معلوم ہوئی تو تشریف لائے اور فرمایا: ”مجھے میرا بیٹا تو دکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟“ میں نے عرض کیا: حرب، فرمایا: ”نہیں، اس کا نام حسن ہے۔“ پھر جب حسین پیدا ہوئے تو میں نے ان کا نام حرب رکھ دیا، اس موقع پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”مجھے میرا بیٹا تو دکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟“ میں نے پھر عرض کیا: حرب، فرمایا: ”نہیں، اس کا نام حسین ہے۔“ تیسرے بیٹے کی پیدائش پر بھی اسی طرح ہوا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام بدل کر ”محسن“ رکھ دیا، پھر فرمایا: ”میں نے ان بچوں کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے بچوں کے نام پر رکھے ہیں، جن کے نام شبر، شبیر اور مشبر تھے۔“
حكم دارالسلام: ضعفه الشيخ الألباني فى الضعيفة : 3706، هانئ بن هانئ مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن هانئ بن هانئ ، وهبيرة بن يريم ، عن علي رضي الله عنه، قال: لما خرجنا من مكة اتبعتنا ابنة حمزة تنادي: يا عم، يا عم، قال: فتناولتها بيدها، فدفعتها إلى فاطمة رضي الله عنها، فقلت: دونك ابنة عمك، قال: فلما قدمنا المدينة اختصمنا فيها انا وجعفر وزيد بن حارثة، فقال جعفر: ابنة عمي وخالتها عندي، يعني: اسماء بنت عميس، وقال زيد: ابنة اخي، وقلت: انا اخذتها وهي ابنة عمي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما انت يا جعفر، فاشبهت خلقي وخلقي، واما انت يا علي، فمني وانا منك، واما انت يا زيد، فاخونا ومولانا، والجارية عند خالتها، فإن الخالة والدة"، قلت: يا رسول الله، الا تزوجها؟ قال:" إنها ابنة اخي من الرضاعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ ، وَهُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا خَرَجْنَا مِنْ مَكَّةَ اتَّبَعَتْنَا ابْنَةُ حَمْزَةَ تُنَادِي: يَا عَمِّ، يَا عَمِّ، قَالَ: فَتَنَاوَلْتُهَا بِيَدِهَا، فَدَفَعْتُهَا إِلَى فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقُلْتُ: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ اخْتَصَمْنَا فِيهَا أَنَا وَجَعْفَرٌ وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فقال جعفر: ابنة عمي وخالتها عندي، يعني: أسماء بنت عميس، وَقَالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أَخِي، وَقُلْتُ: أَنَا أَخَذْتُهَا وَهِيَ ابْنَةُ عَمِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا أَنْتَ يَا جَعْفَرُ، فَأَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي، وَأَمَّا أَنْتَ يَا عَلِيُّ، فَمِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا زَيْدُ، فَأَخُونَا وَمَوْلَانَا، وَالْجَارِيَةُ عِنْدَ خَالَتِهَا، فَإِنَّ الْخَالَةَ وَالِدَةٌ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تَزَوَّجُهَا؟ قَالَ:" إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم مکہ مکرمہ سے نکلنے لگے تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی چچا جان! چچاجان! پکارتی ہوئی ہمارے پیچھے لگ گئی، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا، اور ان سے کہا کہ اپنی چچا زاد بہن کو سنبھالو، جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو اس بچی کی پرورش کے سلسلے میں میرا، سیدنا جعفر اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کا جھگڑا ہو گیا۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، اور اس کی خالہ یعنی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا میرے نکاح میں ہیں، لہذا اس کی پرورش میرا حق ہے۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ میری بھتیجی ہے۔ اور میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسے میں لے کر آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”جعفر! آپ تو صورت اور سیرت میں میرے مشابہہ ہیں، علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں، اور زید! آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولی (آزاد کردہ غلام) ہیں، بچی اپنی خالہ کے پاس رہے گی کیونکہ خالہ بھی ماں کے مرتبہ میں ہوتی ہے۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس سے نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ فرمایا: ”اس لئے کہ یہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن. هانئ وهبيرة حديثهما حسن لمتابعة أحدهما للآخر
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن ابي الخليل ، عن علي رضي الله عنه، قال: سمعت رجلا يستغفر لابويه وهما مشركان، فقلت: ايستغفر الرجل لابويه وهما مشركان؟ فقال: اولم يستغفر إبراهيم لابيه؟ فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فنزلت:" ما كان للنبي والذين آمنوا ان يستغفروا للمشركين إلى قوله تبرا منه سورة التوبة آية 113 - 114"، قال:" لما مات"، فلا ادري قاله سفيان، او قاله إسرائيل، او هو في الحديث:" لما مات"؟.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا يَسْتَغْفِرُ لِأَبَوَيْهِ وَهُمَا مُشْرِكَانِ، فَقُلْتُ: أَيَسْتَغْفِرُ الرَّجُلُ لِأَبَوَيْهِ وَهُمَا مُشْرِكَانِ؟ فَقَالَ: أَوَلَمْ يَسْتَغْفِرْ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ؟ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ:" مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ إِلَى قَوْلِهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ سورة التوبة آية 113 - 114"، قَالَ:" لَمَّا مَاتَ"، فَلَا أَدْرِي قَالَهُ سُفْيَانُ، أَوْ قَالَهُ إِسْرَائِيلُ، أَوْ هُوَ فِي الْحَدِيثِ:" لَمَّا مَاتَ"؟.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک آدمی کو اپنے مشرک والدین کے لئے دعا مغفرت کرتے ہوئے سنا تو میں نے کہا کہ کیا کوئی شخص اپنے مشرک والدین کے لئے بھی دعا مغفرت کر سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کے لئے دعا مغفرت نہیں کرتے تھے؟ میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: «﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ﴾ [التوبة: 113] »”پیغمبر اور اہلِ ایمان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لئے دعا مغفرت کریں۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات رات کو نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان کے اور قبلہ کے درمیان لیٹی ہوئی ہوتی تھیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، وابو نعيم ، قالا: حدثنا فطر ، عن القاسم بن ابي بزة ، عن ابي الطفيل ، قال حجاج: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو لم يبق من الدنيا إلا يوم، لبعث الله عز وجل رجلا منا، يملؤها عدلا كما ملئت جورا"، قال ابو نعيم:" رجلا مني"، قال: وسمعته مرة يذكره، عن حبيب ، عن ابي الطفيل ، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، وَأَبُو نُعَيْمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ حَجَّاجٌ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ، لَبَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلًا مِنَّا، يَمْلَؤُهَا عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا"، قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ:" رَجُلًا مِنّي"، قَالَ: وَسَمِعْتُهُ مَرَّةً يَذْكُرُهُ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر دنیا ختم ہونے میں صرف ایک دن ہی بچ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ ہم میں سے ایک ایسے آدمی کو ضرور بھیجے گا جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے پہلے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔“(مراد سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ ہیں، جن پر اس ناکارہ کی مستقل کتاب ”اسلام میں امام مہدی رضی اللہ عنہ کا تصور“ کے نام سے بازار میں دستیاب ہے)۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثني إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن هانئ ، عن علي رضي الله عنه، قال:" الحسن اشبه الناس برسول الله صلى الله عليه وسلم ما بين الصدر إلى الراس، والحسين اشبه الناس بالنبي صلى الله عليه وسلم ما كان اسفل من ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنِي إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هَانِئٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" الْحَسَنُ أَشْبَهُ النَّاسِ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ الصَّدْرِ إِلَى الرَّأْسِ، وَالْحُسَيْنُ أَشْبَهُ النَّاسِ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سینے سے لے کر سر تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہہ ہیں، اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نچلے حصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے ہیں۔
حكم دارالسلام: ضعفه الألباني فى ضعيف سنن الترمذي : 4050
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، قال: يونس بن ابي إسحاق اخبرني، عن ابي إسحاق ، عن ابي جحيفة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اذنب في الدنيا ذنبا، فعوقب به، فالله اعدل من ان يثني عقوبته على عبده، ومن اذنب ذنبا في الدنيا، فستر الله عليه، وعفا عنه، فالله اكرم من ان يعود في شيء قد عفا عنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ: يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ أَخْبَرَنِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَذْنَبَ فِي الدُّنْيَا ذَنْبًا، فَعُوقِبَ بِهِ، فَاللَّهُ أَعْدَلُ مِنْ أَنْ يُثَنِّيَ عُقُوبَتَهُ عَلَى عَبْدِهِ، وَمَنْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فِي الدُّنْيَا، فَسَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَعَفَا عَنْهُ، فَاللَّهُ أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يَعُودَ فِي شَيْءٍ قَدْ عَفَا عَنْهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے اور اسے اس کی سزا بھی مل جائے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہت عادل ہے کہ اپنے بندے کو دوبارہ سزا دے، اور جو شخص دنیا میں کوئی گناہ کر بیٹھے اور اللہ اس کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اسے معاف فرما دے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہت کریم ہے کہ جس چیز کو وہ معاف کر چکا ہو اس کا معاملہ دوبارہ کھولے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا يحيى بن سلمة يعني ابن كهيل ، قال: سمعت ابي يحدث، عن حبة العرني ، قال: رايت عليا رضي الله عنه ضحك على المنبر لم اره ضحك ضحكا اكثر منه، حتى بدت نواجذه، ثم قال:" ذكرت قول ابي طالب، ظهر علينا ابو طالب، وانا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونحن نصلي ببطن نخلة، فقال: ماذا تصنعان يا ابن اخي؟ فدعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الإسلام، فقال: ما بالذي تصنعان باس، او بالذي تقولان باس، ولكن والله لا تعلوني استي ابدا، وضحك تعجبا لقول ابيه، ثم قال: اللهم لا اعترف ان عبدا لك من هذه الامة عبدك قبلي غير نبيك، ثلاث مرات لقد صليت قبل ان يصلي الناس سبعا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَلَمَةَ يَعْنِي ابْنَ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ضَحِكَ عَلَى الْمِنْبَرِ لَمْ أَرَهُ ضَحِكَ ضَحِكًا أَكْثَرَ مِنْهُ، حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَالَ:" ذَكَرْتُ قَوْلَ أَبِي طَالِبٍ، ظَهَرَ عَلَيْنَا أَبُو طَالِبٍ، وَأَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ نُصَلِّي بِبَطْنِ نَخْلَةَ، فَقَالَ: مَاذَا تَصْنَعَانِ يَا ابْنَ أَخِي؟ فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: مَا بِالَّذِي تَصْنَعَانِ بَأْسٌ، أَوْ بِالَّذِي تَقُولَانِ بَأْسٌ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَعْلُوَنِي اسْتِي أَبَدًا، وَضَحِكَ تَعَجُّبًا لِقَوْلِ أَبِيهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ لَا أَعْتَرِفُ أَنَّ عَبْدًا لَكَ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ عَبَدَكَ قَبْلِي غَيْرَ نَبِيِّكَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَقَدْ صَلَّيْتُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ سَبْعًا".
حبہ عرنی کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر اس طرح ہنستے ہوئے دیکھا کہ اس سے قبل انہیں اتنا ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا، یہاں تک کہ ان کے آخری دانت بھی نظر آنے لگے، پھر فرمانے لگے کہ مجھے اپنے والد ابوطالب کی ایک بات یاد آگئی، ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بطن نخلہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ ابوطالب آگئے اور کہنے لگے کہ بھتیجے! یہ تم دونوں کیا کر رہے ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی، وہ کہنے لگے کہ تم دونوں جو کر رہے ہو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے لیکن واللہ! مجھ سے اپنے کولہے اوپر نہ کئے جا سکیں گے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے والد کی اس بات پر تعجب سے ہنسی آگئی اور فرمانے لگے کہ اے اللہ! میں اس بات پر فخر نہیں کرتا کہ آپ کے نبی کے علاوہ اس امت میں آپ کے کسی بندے نے مجھ سے پہلے آپ کی عبادت کی ہو۔ یہ بات تین مرتبہ دہرا کر وہ فرمانے لگے کہ میں نے لوگوں کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز پڑھی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، يحيى بن سلمة بن كهيل متروك الحديث، وحبة العرني ضعيف أيضاً
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، قال: وجدت هذا الحديث في كتاب ابي، واكثر علمي إن شاء الله اني سمعته منه: حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا عبد الله بن لهيعة ، حدثنا عبد الله بن هبيرة ، عن عبد الله بن زرير الغافقي ، عن علي بن ابي طالب ، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فانصرف، ثم جاء وراسه يقطر ماء، فصلى بنا، ثم قال:" إني صليت بكم آنفا وانا جنب، فمن اصابه مثل الذي اصابني، او وجد رزا في بطنه، فليصنع مثل ما صنعت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي، وَأَكْثَرُ عِلْمِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَنِّي سَمِعْتُهُ مِنْهُ: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هُبَيْرَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زُرَيْرٍ الْغَافِقِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَانْصَرَفَ، ثُمَّ جَاءَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ مَاءً، فَصَلَّى بِنَا، ثُمَّ قَالَ:" إِنِّي صَلَّيْتُ بِكُمْ آنِفًا وَأَنَا جُنُبٌ، فَمَنْ أَصَابَهُ مِثْلُ الَّذِي أَصَابَنِي، أَوْ وَجَدَ رِزًّا فِي بَطْنِهِ، فَلْيَصْنَعْ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز چھوڑ کر گھر چلے گئے اور ہم کھڑے کے کھڑے ہی رہ گئے، تھوڑی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از سر نو ہمیں نماز پڑھائی، اور بعد فراغت فرمایا کہ ”جب میں نماز کے لئے کھڑا ہو گیا تب مجھے یاد آیا کہ میں تو اختیاری طور پر ناپاک ہو گیا تھا، اس لئے اگر تم میں سے کسی شخص کو اپنے پیٹ میں گڑبڑ محسوس ہو رہی ہو، یا میری جیسی کیفیت کا وہ شکار ہو جائے تو اسے چاہیے کہ میری ہی طرح کرے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة. وانظر حديث أبى هريرة الصحيح فى المسند: 2/ 338، 339، ففيه أن انصرافه كان قبل الدخول فى الصلاة
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن ابن ابي ليلى ، عن المنهال ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، قال: كان ابي يسمر مع علي، وكان علي يلبس ثياب الصيف في الشتاء، وثياب الشتاء في الصيف، فقيل له: لو سالته؟ فساله، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث إلي وانا ارمد العين يوم خيبر، فقلت: يا رسول الله، إني ارمد العين، قال: فتفل في عيني، وقال:" اللهم اذهب عنه الحر والبرد"، فما وجدت حرا ولا بردا منذ يومئذ، وقال:" لاعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله، ليس بفرار"، فتشرف لها اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فاعطانيها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ الْمِنْهَالِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: كَانَ أَبِي يَسْمُرُ مَعَ عَلِيٍّ، وَكَانَ عَلِيٌّ يَلْبَسُ ثِيَابَ الصَّيْفِ فِي الشِّتَاءِ، وَثِيَابَ الشِّتَاءِ فِي الصَّيْفِ، فَقِيلَ لَهُ: لَوْ سَأَلْتَهُ؟ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَيَّ وَأَنَا أَرْمَدُ الْعَيْنِ يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَرْمَدُ الْعَيْنِ، قَالَ: فَتَفَلَ فِي عَيْنِي، وَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ"، فَمَا وَجَدْتُ حَرًّا وَلَا بَرْدًا مُنْذُ يَوْمِئِذٍ، وَقَالَ:" لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، لَيْسَ بِفَرَّارٍ"، فَتَشَرَّفَ لَهَا أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَانِيهَا.
عبدالرحمٰن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات کے وقت مختلف امور پر بات چیت کیا کرتے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عجیب عادت تھی کہ وہ سردی کے موسم میں گرمی کے کپڑے، اور گرمی کے موسم میں سردی کے کپڑے پہن لیا کرتے تھے، کسی نے میرے والد صاحب سے کہا کہ اگر آپ اس چیز کے متعلق سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھیں تو شاید وہ جواب دے دیں؟ چنانچہ والد صاحب کے سوال کرنے پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ غزوہ خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس ایک قاصد بھیجا، مجھے آشوب چشم کی بیماری لاحق تھی، اس لئے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے تو آشوب چشم ہوا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر میری آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا اور یہ دعا کی: «اَللّٰهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ»”اے اللہ! اس کی گرمی سردی دور فرما۔“ اس دن سے آج تک مجھے کبھی گرمی اور سردی کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا، اور خود اللہ اور اس کے رسول کی نگاہوں میں محبوب ہوگا، وہ بھاگنے والا نہ ہوگا۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اس مقصد کے لئے اپنے آپ کو نمایاں کرنے لگے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جھنڈا مجھے عنایت فرما دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن أبى ليلى شيخ وكيع، وهو محمد بن عبدالرحمن بن أبى ليلى
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، قال ابو إسحاق ، عن هانئ بن هانئ ، عن علي رضي الله عنه، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء عمار، فاستاذن، فقال:" ائذنوا له، مرحبا بالطيب المطيب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ عَمَّارٌ، فَاسْتَأْذَنَ، فَقَالَ:" ائْذَنُوا لَهُ، مَرْحَبًا بِالطَّيِّبِ الْمُطَيَّبِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، اتنی دیر میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ آ کر اجازت طلب کرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”انہیں اجازت دے دو، خوش آمدید اس شخص کو جو پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کا حامل ہے۔“
(حديث موقوف) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، وغيره، عن القاسم بن مخيمرة ، عن شريح بن هانئ ، قال: سالت عائشة عن المسح على الخفين، فقالت: سل عليا رضي الله عنه، فسالته، فقال:" ثلاثة ايام ولياليهن، يعني للمسافر، ويوم وليلة للمقيم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، وَغَيْرِهِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَتْ: سَلْ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ، يَعْنِي لِلْمُسَافِرِ، وَيَوْمٌ وَلَيْلَةٌ لِلْمُقِيمِ".
شریح بن ہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ مسافر کے لئے تین دن اور تین رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا شريك ، عن مخارق ، عن طارق بن شهاب ، قال: شهدت عليا رضي الله عنه وهو يقول على المنبر: والله" ما عندنا كتاب نقرؤه عليكم إلا كتاب الله تعالى، وهذه الصحيفة، معلقة بسيفه، اخذتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيها فرائض الصدقة"، معلقة بسيف له حليته حديد، او قال: بكراته حديد.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مُخَارِقٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: وَاللَّهِ" مَا عِنْدَنَا كِتَابٌ نَقْرَؤُهُ عَلَيْكُمْ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى، وَهَذِهِ الصَّحِيفَةَ، مُعَلَّقَةً بِسَيْفِهِ، أَخَذْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهَا فَرَائِضُ الصَّدَقَةِ"، مُعَلَّقَةً بِسَيْفٍ لَهُ حِلْيَتُهُ حَدِيدٌ، أَوْ قَالَ: بَكَرَاتُهُ حَدِيدٌ.
طارق بن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ واللہ! ہمارے پاس قرآن کریم کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھتے ہوں، یا پھر یہ صحیفہ ہے جو تلوار سے لٹکا ہوا ہے، میں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا تھا، اس میں زکوٰۃ کے حصص کی تفصیل درج ہے۔ مذکورہ صحیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس تلوار سے لٹکا رہتا تھا جس کے حلقے لوہے کے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم ، حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، عن علي بن زيد ، قال: حدثنا عبد الله بن الحارث بن نوفل الهاشمي ، قال: كان ابي الحارث على امر من امر مكة في زمن عثمان، فاقبل عثمان رضي الله عنه إلى مكة، فقال عبد الله بن الحارث: فاستقبلت عثمان بالنزل بقديد، فاصطاد اهل الماء حجلا، فطبخناه بماء وملح، فجعلناه عراقا للثريد، فقدمناه إلى عثمان واصحابه، فامسكوا، فقال عثمان: صيد لم اصطده، ولم نآمر بصيده، اصطاده قوم حل فاطعموناه، فما باس؟ فقال عثمان من يقول في هذا؟ فقالوا: علي، فبعث إلى علي رضي الله عنه، فجاء، قال عبد الله بن الحارث فكاني انظر إلى علي حين جاء وهو يحت الخبط عن كفيه، فقال له عثمان: صيد لم نصطده ولم نامر بصيده، اصطاده قوم حل، فاطعموناه، فما باس؟ قال: فغضب علي ، وقال: انشد الله رجلا شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم حين اتي بقائمة حمار وحش، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنا قوم حرم، فاطعموه اهل الحل"، قال: فشهد اثنا عشر رجلا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال علي اشهد الله رجلا شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم حين اتي ببيض النعام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنا قوم حرم، اطعموه اهل الحل"، قال: فشهد دونهم من العدة من الاثني عشر، قال: فثنى عثمان وركه عن الطعام، فدخل رحله، واكل ذلك الطعام اهل الماء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانَ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيُّ ، قَالَ: كَانَ أَبِي الْحَارِثُ عَلَى أَمْرٍ مِنْ أُمُرِ مَكَّةَ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ، فَأَقْبَلَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى مَكَّةَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ: فَاسْتَقْبَلْتُ عُثْمَانَ بِالنُّزُلِ بِقُدَيْدٍ، فَاصْطَادَ أَهْلُ الْمَاءِ حَجَلًا، فَطَبَخْنَاهُ بِمَاءٍ وَمِلْحٍ، فَجَعَلْنَاهُ عُرَاقًا لِلثَّرِيدِ، فَقَدَّمْنَاهُ إِلَى عُثْمَانَ وَأَصْحَابِهِ، فَأَمْسَكُوا، فَقَالَ عُثْمَانُ: صَيْدٌ لَمْ أَصْطَدْهُ، وَلَمْ نآمُرْ بِصَيْدِهِ، اصْطَادَهُ قَوْمٌ حِلٌّ فَأَطْعَمُونَاهُ، فَمَا بَأْسٌ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ مَنْ يَقُولُ فِي هَذَا؟ فَقَالُوا: عَلِيٌّ، فَبَعَثَ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَجَاءَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى عَلِيٍّ حِينَ جَاءَ وَهُوَ يَحُتُّ الْخَبَطَ عَنْ كَفَّيْهِ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: صَيْدٌ لَمْ نَصْطَدْهُ وَلَمْ نَأْمُرْ بِصَيْدِهِ، اصْطَادَهُ قَوْمٌ حِلٌّ، فَأَطْعَمُونَاهُ، فَمَا بَأْسٌ؟ قَالَ: فَغَضِبَ عَلِيٌّ ، وَقَالَ: أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُتِيَ بِقَائِمَةِ حِمَارِ وَحْشٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّا قَوْمٌ حُرُمٌ، فَأَطْعِمُوهُ أَهْلَ الْحِلِّ"، قَالَ: فَشَهِدَ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ عَلِيٌّ أُشْهِدُ اللَّهَ رَجُلًا شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُتِيَ بِبَيْضِ النَّعَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّا قَوْمٌ حُرُمٌ، أَطْعِمُوهُ أَهْلَ الْحِلِّ"، قَالَ: فَشَهِدَ دُونَهُمْ مِنَ الْعِدَّةِ مِنَ الِاثْنَيْ عَشَرَ، قَالَ: فَثَنَى عُثْمَانُ وَرِكَهُ عَنِ الطَّعَامِ، فَدَخَلَ رَحْلَهُ، وَأَكَلَ ذَلِكَ الطَّعَامَ أَهْلُ الْمَاءِ.
عبداللہ بن الحارث کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں میرے والد حارث مکہ مکرمہ میں کسی عہدے پر فائز تھے، ایک مرتبہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو - بقول عبداللہ بن حارث کے - میں نے قدید نامی جگہ کے پڑاؤ میں ان کا استقبال کیا، اہل ماء نے ایک گھوڑا شکار کیا، ہم نے اسے پانی اور نمک ملا کر پکایا، اور اس کا گوشت ہڈیوں سے الگ کر کے اس کا ثرید تیار کیا، اس کے بعد ہم نے وہ کھانا سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے سامنے پیش کیا، لیکن ان کے ساتھیوں نے اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ نہ تو میں نے اس شکار کو پکڑ کر شکار کیا، اور نہ ہی اسے شکار کرنے کا حکم دیا، ایک غیر محرم جماعت نے اسے شکار کیا اور وہ اسے ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں، تو اس میں کیا حرج ہے؟ اسے کون ناجائز کہتا ہے؟ لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام لگا دیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے انہیں بلاوا بھیجا، عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ وہ منظر میری نگاہوں میں اب بھی محفوظ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے گرد و غبار جھاڑتے ہوئے آرہے تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے بھی یہی فرمایا کہ نہ تو ہم نے اسے شکار کیا ہے، اور نہ ہی شکار کرنے کا حکم دیا ہے، ایک غیر محرم جماعت نے اسے شکار کر کے ہمارے سامنے کھانے کے لئے پیش کر دیا تو اس میں کیا حرج ہے؟ یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کچھ تردد کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں ہر اس شخص کو قسم دے کر کہتا ہوں جو اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنگلی گدھے کے پائے لائے گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ہم محرم لوگ ہیں، یہ اہل حل کو کھلا دو۔“ کیا ایسا ہے یا نہیں؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ صحابہ رضی اللہ عنہم کھڑے ہوگئے جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شتر مرغ کے انڈے لائے گئے، اس موقع پر موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو میں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ”ہم محرم لوگ ہیں، یہ غیر محرم لوگوں کو کھلا دو؟“ اس پر بارہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کھڑے ہوگئے، یہ دیکھ کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ دستر خوان سے اٹھ کر اپنے خیمے میں چلے گئے اور وہ کھانا اہل ماء ہی نے کھا لیا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لعلي بن زيد جدعان ، وثبت جواز أكل الصيد للمحرم إذا صاده الحلال وأهداه للمحرم في صحيح البخاري: 1821
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا هدبة بن خالد ، حدثنا همام ، حدثنا علي بن زيد ، عن عبد الله بن الحارث : ان اباه ولي طعام عثمان، قال: فكاني انظر إلى الحجل حوالي الجفان، فجاء رجل، فقال: إن عليا رضي الله عنه يكره هذا، فبعث إلى علي وهو ملطخ يديه بالخبط، فقال: إنك لكثير الخلاف علينا، فقال علي : اذكر الله من شهد النبي صلى الله عليه وسلم اتي بعجز حمار وحش وهو محرم، فقال:" إنا محرمون، فاطعموه اهل الحل"، فقام رجال فشهدوا، ثم قال: اذكر الله رجلا شهد النبي صلى الله عليه وسلم اتي بخمس بيضات، بيض نعام، فقال:" إنا محرمون، فاطعموه اهل الحل"، فقام رجال فشهدوا، فقام عثمان فدخل فسطاطه، وتركوا الطعام على اهل الماء.(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ : أَنَّ أَبَاهُ وَلِيَ طَعَامَ عُثْمَانَ، قَالَ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْحَجَلِ حَوَالَيْ الْجِفَانِ، فَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَكْرَهُ هَذَا، فَبَعَثَ إِلَى عَلِيٍّ وَهُوَ مُلَطِّخٌ يَدَيْهِ بِالْخَبَطِ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَكَثِيرُ الْخِلَافِ عَلَيْنَا، فَقَالَ عَلِيٌّ : أُذَكِّرُ اللَّهَ مَنْ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِعَجُزِ حِمَارِ وَحْشٍ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَقَالَ:" إِنَّا مُحْرِمُونَ، فَأَطْعِمُوهُ أَهْلَ الْحِلِّ"، فَقَامَ رِجَالٌ فَشَهِدُوا، ثُمَّ قَالَ: أُذَكِّرُ اللَّهَ رَجُلًا شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِخَمْسِ بِيضَاتٍ، بَيْضِ نَعَامٍ، فَقَالَ:" إِنَّا مُحْرِمُونَ، فَأَطْعِمُوهُ أَهْلَ الْحِلِّ"، فَقَامَ رِجَالٌ فَشَهِدُوا، فَقَامَ عُثْمَانُ فَدَخَلَ فُسْطَاطَهُ، وَتَرَكُوا الطَّعَامَ عَلَى أَهْلِ الْمَاءِ.
عبداللہ بن الحارث کہتے ہیں کہ ان کے والد حارث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے کھانے کے ذمے دار تھے، عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ وہ منظر میری نگاہوں میں اب بھی محفوظ ہے کہ ہانڈیوں کے گرد گھوڑے کا گوشت پڑا ہوا ہے، ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اسے اچھا نہیں سمجھتے، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے انہیں بلا بھیجا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے گرد و غبار جھاڑتے ہوئے آئے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ ہم سے بہت زیادہ اختلاف کرتے ہیں، یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں ہر اس شخص کو قسم دے کر کہتا ہوں جو اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنگلی گدھے کے سرین لائے گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ہم محرم لوگ ہیں، یہ اہل حل کو کھلا دو“، کیا ایسا ہے یا نہیں؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کھڑے ہو گئے جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شتر مرغ کے پانچ انڈے لائے گئے، اس موقع پر موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو میں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ”ہم محرم لوگ ہیں، یہ غیر محرم لوگوں کو کھلا دو؟“ اس پر کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہو گئے، یہ دیکھ کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ دستر خوان سے اٹھ کر اپنے خیمے میں چلے گئے اور وہ کھانا اہل ماء ہی نے کھا لیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ کے ایک خچر پیش کیا گیا، ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر ہم بھی فلاں گدھے کو فلاں گھوڑی پر چڑھا دیں اور ایسا جانور پیدا ہو جائے تو کیسا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ کرتے ہیں جو جاہل ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم ، حدثنا ابو خيثمة ، حدثنا ابو إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي رضي الله عنه، قال:" إن الوتر ليس بحتم، ولكنه سنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن الله عز وجل وتر يحب الوتر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" إِنَّ الْوَتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ، وَلَكِنَّهُ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوَتْرَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے، لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے، اور اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو پسند فرماتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، أبو خيثمة - وإن كان سماعه من أبى إسحاق بعد الاختلاط - قد توبع
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني ابي إسحاق بن يسار ، عن مقسم ابي القاسم مولى عبد الله بن الحارث بن نوفل، عن مولاه عبد الله بن الحارث ، قال: اعتمرت مع علي بن ابي طالب رضي الله عنه في زمان عمر، او زمان عثمان رضي الله عنه، فنزل على اخته ام هانئ بنت ابي طالب، فلما فرغ من عمرته، رجع، فسكب له غسل فاغتسل، فلما فرغ من غسله، دخل عليه نفر من اهل العراق، فقالوا: يا ابا حسن، جئناك نسالك عن امر نحب ان تخبرنا عنه، قال: اظن المغيرة بن شعبة يحدثكم انه كان احدث الناس عهدا برسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالوا: اجل، عن ذلك جئنا نسالك، قال:" احدث الناس عهدا برسول الله صلى الله عليه وسلم قثم بن العباس".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبِي إِسْحَاقُ بْنُ يَسَارٍ ، عَنْ مِقْسَمٍ أَبِي الْقَاسِمِ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ مَوْلَاهُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: اعْتَمَرْتُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي زَمَانِ عُمَرَ، أَوْ زَمَانِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَنَزَلَ عَلَى أُخْتِهِ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ عُمْرَتِهِ، رَجَعَ، فَسُكِبَ لَهُ غُسْلٌ فَاغْتَسَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ، دَخَلَ عَلَيْهِ نَفَرٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَقَالُوا: يَا أَبَا حَسَنٍ، جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ أَمْرٍ نُحِبُّ أَنْ تُخْبِرَنَا عَنْهُ، قَالَ: أَظُنُّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ يُحَدِّثُكُمْ أَنَّهُ كَانَ أَحْدَثَ النَّاسِ عَهْدًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالُوا: أَجَلْ، عَنْ ذَلِكَ جِئْنَا نَسْأَلُكَ، قَالَ:" أَحْدَثُ النَّاسِ عَهْدًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُثَمُ بْنُ الْعَبَّاسِ".
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ خلافت فاروقی یا خلافت عثمانی میں مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ عمرہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، اس دوران وہ اپنی ہمشیرہ سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے یہاں اترے، جب عمرہ سے فارغ ہو گئے تو ان کے یہاں واپس آئے، ان کے غسل کے لئے پانی رکھ دیا گیا، انہوں نے غسل کیا، ابھی غسل کر کے فارغ ہوئے تھے کہ اہل عراق کا ایک وفد آگیا، وہ لوگ کہنے لگے کہ اے ابوالحسن! ہم آپ کے پاس ایک سوال لے کر آئے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں اس کے متعلق کچھ بتائیں؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے آپ لوگوں سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے قریب العہد ہیں، انہوں نے کہا: بالکل ٹھیک، ہم اسی کے متعلق آپ سے پوچھنے آئے ہیں، فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب العہد قثم بن عباس ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا جعفر بن سليمان ، حدثنا عتيبة ، عن بريد بن اصرم ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: مات رجل من اهل الصفة، وترك دينارين، او درهمين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كيتان، صلوا على صاحبكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا عُتَيْبَةُ ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَصْرَمَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: مَاتَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ، وَتَرَكَ دِينَارَيْنِ، أَوْ دِرْهَمَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيَّتَانِ، صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل صفہ میں سے ایک صاحب کا انتقال ہو گیا، انہوں نے ترکہ میں دو دینار یا دو درہم چھوڑے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جہنم کے دو انگارے ہیں جن سے داغا جائے گا، تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود پڑھ لو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عتيبة وبريد بن أصرم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر جھوٹا خواب بیان کرتا ہے، اسے قیامت کے دن جو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى).
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے میرے کانوں نے سنی، اور میرے دل دماغ نے اسے محفوظ کیا کہ ”تمام لوگ قریش کے تابع ہیں، نیک لوگ نیکوں کے تابع، اور برے لوگ بروں کے تابع ہیں۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف محمد بن جابر اليمامي
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، حدثنا رجل من بني سدوس، يقال له: جري بن كليب ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن عضباء الاذن والقرن"، قال: فسالت سعيد بن المسيب، فقال: النصف فما فوق ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَدُوسٍ، يُقَالُ لَهُ: جُرَيُّ بْنُ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ عَضْبَاءِ الْأُذُنِ وَالْقَرْنِ"، قَالَ: فَسَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، فَقَالَ: النِّصْفُ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا: وہ جانور جس کا نصف یا اس سے زیادہ کان کٹا ہوا ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا معاذ بن معاذ ، حدثنا قيس بن الربيع ، عن ابي المقدام ، عن عبد الرحمن الازرق ، عن علي رضي الله عنه، قال: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا نائم على المنامة، فاستسقى الحسن او الحسين، قال: فقام النبي صلى الله عليه وسلم إلى شاة لنا بكيء، فحلبها فدرت، فجاءه الحسن، فنحاه النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت فاطمة: يا رسول الله، كانه احبهما إليك؟ قال:" لا، ولكنه استسقى قبله"، ثم قال:" إني وإياك وهذين وهذا الراقد، في مكان واحد يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ، عَنْ أَبِي الْمِقْدَامِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَزْرَقِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا نَائِمٌ عَلَى الْمَنَامَةِ، فَاسْتَسْقَى الْحَسَنُ أَوْ الْحُسَيْنُ، قَالَ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَاةٍ لَنَا بَكِيءٍ، فَحَلَبَهَا فَدَرَّتْ، فَجَاءَهُ الْحَسَنُ، فَنَحَّاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَأَنَّهُ أَحَبُّهُمَا إِلَيْكَ؟ قَالَ:" لَا، وَلَكِنَّهُ اسْتَسْقَى قَبْلَهُ"، ثُمَّ قَالَ:" إِنِّي وَإِيَّاكِ وَهَذَيْنِ وَهَذَا الرَّاقِدَ، فِي مَكَانٍ وَاحِدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے غریب خانے پر تشریف لائے، میں سو رہا تھا، اتنی دیر میں سیدنا حسن یا سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو پیاس لگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ایک بکری کی طرف بڑھے جو بہت کم دودھ دیتی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا دودھ دوہا تو وہ بہت زیادہ نکلا، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ان کے پاس چلے گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک طرف بٹھا لیا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ! شاید آپ کو اس سے زیادہ محبت ہے؟ فرمایا: ”یہ بات نہیں ہے، اصل میں اس نے پہلے مانگا تھا۔“ پھر فرمایا کہ ”قیامت کے دن میں، تم، یہ دونوں اور یہ سونے والا ایک ہی جگہ میں ہوں گے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف قيس بن الربيع واضطرابه فى الحديث
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں اس وقت گھر سے نکلا جب چاند طلوع ہو چکا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی بڑے پیالے کا شگاف ہو،“ اور فرمایا: ”آج کی رات شب قدر ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف حديج
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا عطاء بن السائب ، عن زاذان ، ان علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" من ترك موضع شعرة من جسده من جنابة لم يصبها الماء، فعل به كذا وكذا من النار"، قال علي رضي الله عنه: فمن ثم عاديت راسي، فمن ثم عاديت راسي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ تَرَكَ مَوْضِعَ شَعَرَةٍ مِنْ جَسَدِهِ مِنْ جَنَابَةٍ لَمْ يُصِبْهَا الْمَاءُ، فُعِلَ بِهِ كَذَا وَكَذَا مِنَ النَّارِ"، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَمِنْ ثَمَّ عَادَيْتُ رَأْسِي، فَمِنْ ثَمَّ عَادَيْتُ رَأْسِي.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص جنابت کی حالت میں غسل کرتے ہوئے ایک بال کے برابر بھی جگہ خالی چھوڑ دے جہاں پانی نہ پہنچا ہو، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ جہنم میں ایسا ایسا معاملہ کریں گے۔“ بس اسی وقت سے میں نے اپنے بالوں کے ساتھ دشمنی پال لی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف مرفوعاً، عطاء بن السائب أختلط بآخرة، وعامة من رفع عنه هذا الحديث، فإنما رواه عنه بعد أختلاطه
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، عن عطاء بن السائب ، عن زاذان ، ان علي بن ابي طالب رضي الله عنه شرب قائما، فنظر إليه الناس كانهم انكروه، فقال: ما تنظرون؟" إن اشرب قائما، فقد رايت النبي صلى الله عليه وسلم يشرب قائما، وإن اشرب قاعدا، فقد رايت النبي صلى الله عليه وسلم يشرب قاعدا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ شَرِبَ قَائِمًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ النَّاسُ كَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوهُ، فَقَالَ: مَا تَنْظُرُونَ؟" إِنْ أَشْرَبْ قَائِمًا، فَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْرَبُ قَائِمًا، وَإِنْ أَشْرَبْ قَاعِدًا، فَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْرَبُ قَاعِدًا".
زاذان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا، لوگ ان کی طرف تعجب سے دیکھنے لگے، انہوں نے فرمایا: مجھے کیوں گھور گھور کر دیکھ رہے ہو؟ اگر میں نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کیا ہے، اور اگر بیٹھ کر پیا ہے تو انہیں اس طرح بھی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، وحسن بن موسى ، قالا: حدثنا حماد ، عن عبد الله يعني ابن محمد بن عقيل ، عن محمد بن علي ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" ضخم الراس، عظيم العينين، هدب الاشفار، قال حسن: الشفار، مشرب العينين بحمرة، كث اللحية، ازهر اللون، شثن الكفين والقدمين، إذا مشى كانما يمشي في صعد، قال حسن: تكفا، وإذا التفت التفت جميعا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ضَخْمَ الرَّأْسِ، عَظِيمَ الْعَيْنَيْنِ، هَدِبَ الْأَشْفَارِ، قَالَ حَسَنٌ: الشِّفَارِ، مُشْرَبَ الْعَيْنَيْنِ بِحُمْرَةٍ، كَثَّ اللِّحْيَةِ، أَزْهَرَ اللَّوْنِ، شَثْنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، إِذَا مَشَى كَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صُعُدٍ، قَالَ حَسَنٌ: تَكَفَّأَ، وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ جَمِيعًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا، آنکھیں موٹی موٹی، پلکیں لمبی لمبی، آنکھوں میں سرخی کے ڈورے، گھنی داڑھی، کھلتا ہوا رنگ اور ہاتھ پاؤں بھرے ہوئے تھے، اور چلنے کی کیفیت ایسی تھی کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی گھاٹی پر چل رہے ہوں۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو مکمل طور پر متوجہ ہوتے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا ابو عبيدة بن فضيل بن عياض ، وقال لي: هو اسمي وكنيتي، حدثنا مالك بن سعير يعني ابن الخمس ، حدثنا فرات بن احنف ، حدثنا ابي ، عن ربعي بن حراش ، ان علي بن ابي طالب رضي الله عنه قام خطيبا في الرحبة، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال ما شاء الله ان يقول، ثم" دعا بكوز من ماء فتمضمض منه، وتمسح، وشرب فضل كوزه وهو قائم، ثم قال: بلغني ان الرجل منكم يكره ان يشرب وهو قائم، وهذا وضوء من لم يحدث، ورايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل هكذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ فُضَيْلِ بْنِ عِيَاضٍ ، وَقَالَ لِي: هُوَ اسْمِي وَكُنْيَتِي، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ يَعْنِي ابْنَ الْخِمْسِ ، حَدَّثَنَا فُرَاتُ بْنُ أَحْنَفَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَامَ خَطِيبًا فِي الرَّحَبَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمّ قَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ" دَعَا بِكُوزٍ مِنْ مَاءٍ فَتَمَضْمَضَ مِنْهُ، وَتَمَسَّحَ، وَشَرِبَ فَضْلَ كُوزِهِ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ يَكْرَهُ أَنْ يَشْرَبَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَهَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِثْ، وَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ هَكَذَا".
ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ صحن کوفہ میں تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثناء بیان کی، اور جو اللہ نے چاہا سو انہوں نے کہا، اس کے بعد پانی کا ایک برتن منگوایا، اس میں سے کلی کی، کچھ پانی مسح کے طور پر اپنے جسم کے اعضاء وضو پر پھیر لیا، اور باقی ماندہ پانی کھڑے ہو کر پی لیا، اور فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں، یہ اس شخص کا وضو ہے جو بےوضو نہ ہو، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن جعفر الوركاني ، حدثنا شريك ، عن مخارق ، عن طارق ، قال: خطبنا علي رضي الله عنه، فقال:" ما عندنا شيء من الوحي، او قال: كتاب من رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا ما في كتاب الله، وهذه الصحيفة المقرونة بسيفي، وعليه سيف حليته حديد، وفيها فرائض الصدقات".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرَكَانِيُّ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مُخَارِقٍ ، عَنْ طَارِقٍ ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ:" مَا عِنْدَنَا شَيْءٌ مِنَ الْوَحْيِ، أَوْ قَالَ: كِتَابٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا مَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَهَذِهِ الصَّحِيفَةِ الْمَقْرُونَةِ بِسَيْفِي، وَعَلَيْهِ سَيْفٌ حِلْيَتُهُ حَدِيدٌ، وَفِيهَا فَرَائِضُ الصَّدَقَاتِ".
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ واللہ! ہمارے پاس قرآن کریم کے علاوہ کوئی ایسی کتاب یا وحی نہیں ہے جسے ہم پڑھتے ہوں، یا پھر یہ صحیفہ ہے جو میری تلوار سے لٹکا ہوا ہے، اس میں زکوٰۃ کے حصص کی تفصیل درج ہے۔ مذکورہ صحیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس تلوار سے لٹکا رہتا تھا جس کے حلقے لوہے کے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، اخبرنا عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، ان عليا قيل له: إن قاتل الزبير على الباب، فقال: ليدخل قاتل ابن صفية النار، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن لكل نبي حواريا، وإن الزبير حواريي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أخبرنا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، أَنَّ عَلِيًّا قِيلَ لَهُ: إِنَّ قَاتِلَ الزُّبَيْرِ عَلَى الْبَابِ، فَقَالَ: لِيَدْخُلْ قَاتِلُ ابْنِ صَفِيَّةَ النَّارَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا، وَإِنَّ الزُّبَيْرَ حَوَارِيِّي".
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ (ابن جرموز نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کون ہے؟) لوگوں نے بتایا کہ ابن جرموز اندر آنا چاہتا ہے، فرمایا: اسے اندر آنے دو، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل جہنم میں ہی داخل ہوگا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”ہر نبی کا ایک خاص حواری ہوتا ہے، اور میرا حواری زبیر ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، وإسحاق بن عيسى ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن الحجاج ، عن الحكم ، عن ميمون بن ابي شبيب ، عن علي رضي الله عنه، قال: وهب لي رسول الله صلى الله عليه وسلم غلامين اخوين، فبعت احدهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما فعل الغلامان؟"، فقلت: بعت احدهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" رده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَإِسْحَاق بْنُ عِيسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَهَبَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامَيْنِ أَخَوَيْنِ، فَبِعْتُ أَحَدَهُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا فَعَلَ الْغُلَامَانِ؟"، فَقُلْتُ: بِعْتُ أَحَدَهُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُدَّهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے دو غلام ہبہ کر دیئے، وہ دونوں آپس میں بھائی تھے، میں نے ان میں سے ایک کو فروخت کر دیا، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ ”وہ غلام کیا ہوئے؟“ میں نے عرض کیا کہ میں نے ان میں سے ایک کو فروخت کردیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے واپس لے لو۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، ميمون بن أبى شبيب لم يدرك علياً، وليس هو بذاك ، والحجاج مدلس، وقد عنعن
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سات کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد عبدالله بن محمد ابن عقيل به، ولمخالفة الحديث الصحيح الذى رواه البخاري : 1664، ومسلم: 941، من حديث عائشة: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفن فى ثلاثة أثواب......
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا محمد يعني ابن راشد ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن فضالة بن ابي فضالة الانصاري ، وكان ابو فضالة من اهل بدر، قال: خرجت مع ابي عائدا لعلي بن ابي طالب رضي الله عنه من مرض اصابه، ثقل منه، قال: فقال له ابي: ما يقيمك في منزلك هذا، لو اصابك اجلك لم يلك إلا اعراب جهينة، تحمل إلى المدينة، فإن اصابك اجلك وليك اصحابك وصلوا عليك، فقال علي رضي الله عنه: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" عهد إلي ان لا اموت حتى اؤمر، ثم تخضب هذه، يعني: لحيته، من دم هذه، يعني: هامته"، فقتل، وقتل ابو فضالة مع علي يوم صفين.(حديث مرفوع) حدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ أَبِي فَضَالَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، وَكَانَ أَبُو فَضَالَةَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي عَائِدًا لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ مَرَضٍ أَصَابَهُ، ثَقُلَ مِنْهُ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ أَبِي: مَا يُقِيمُكَ فِي مَنْزِلِكَ هَذَا، لَوْ أَصَابَكَ أَجَلُكَ لَمْ يَلِكَ إِلَّا أَعْرَابُ جُهَيْنَةَ، تُحْمَلُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَإِنْ أَصَابَكَ أَجَلُكَ وَلِيَكَ أَصْحَابُكَ وَصَلَّوْا عَلَيْكَ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" عَهِدَ إِلَيَّ أَنْ لَا أَمُوتَ حَتَّى أُؤَمَّرَ، ثُمَّ تُخْضَبَ هَذِهِ، يَعْنِي: لِحْيَتَهُ، مِنْ دَمِ هَذِهِ، يَعْنِي: هَامَتَهُ"، فَقُتِلَ، وَقُتِلَ أَبُو فَضَالَةَ مَعَ عَلِيٍّ يَوْمَ صِفِّينَ.
فضالہ - جن کے والد سیدنا ابوفضالہ انصاری رضی اللہ عنہ بدری صحابہ کرام میں سے تھے - کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لئے گیا، وہ کچھ بیمار ہو گئے تھے اور اس سے ان کی طبیعت بوجھل ہو رہی تھی، میرے والد صاحب نے ان سے کہا کہ بیماری نے آپ کا کیا حال کر رکھا ہے؟ اگر آپ کا آخری وقت آپہنچا تو آپ کے پاس جہینہ کے دیہاتیوں کے علاوہ کوئی نہیں آئے گا جو آپ کو مدینہ منورہ لے جائیں گے، اس لئے اگر آپ کا آخری وقت قریب آجائے تو آپ کے ساتھیوں کو آپ کا خیال کرنا چاہئے، اور آپ کی نماز جنازہ پڑھنی چاہئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ بات بتا رکھی ہے کہ میں اس وقت تک نہیں مروں گا جب تک کہ میں خلیفہ نہ بن جاؤں، اس کے بعد یہ داڑھی اس سر کے خون سے رنگین ہو جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں شہید ہوئے، جبکہ سیدنا ابوفضالہ رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں شریک ہو کر جنگ صفین کے موقع پر شہید ہو گئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة فضالة بن أبى فضالة
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن عبد الله بن ابي سلمة ، عن عمه الماجشون بن ابي سلمة ، عن الاعرج ، عن عبيد الله بن ابي رافع ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا استفتح الصلاة يكبر، ثم يقول:" وجهت وجهي للذي فطر السموات والارض حنيفا وما انا من المشركين، إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين، لا شريك له وبذلك امرت وانا اول المسلمين، اللهم انت الملك لا إله إلا انت، انت ربي، وانا عبدك، ظلمت نفسي، واعترفت بذنبي، فاغفر لي ذنوبي جميعا، لا يغفر الذنوب إلا انت، اهدني لاحسن الاخلاق لا يهدي لاحسنها إلا انت، اصرف عني سيئها لا يصرف عني سيئها إلا انت، لبيك وسعديك، والخير كله في يديك، والشر ليس إليك، انا بك وإليك، تباركت وتعاليت، استغفرك واتوب إليك"، وإذا ركع، قال:" اللهم لك ركعت، وبك آمنت، ولك اسلمت، خشع لك سمعي، وبصري، ومخي، وعظامي، وعصبي"، وإذا رفع راسه، قال:" سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد، ملء السموات والارض وما بينهما، وملء ما شئت من شيء بعد"، وإذا سجد، قال:" اللهم لك سجدت، وبك آمنت، ولك اسلمت، سجد وجهي للذي خلقه، وصوره فاحسن صوره، فشق سمعه وبصره، فتبارك الله احسن الخالقين"، وإذا فرغ من الصلاة وسلم، قال:" اللهم اغفر لي ما قدمت وما اخرت، وما اسررت وما اعلنت، وما اسرفت، وما انت اعلم به مني، انت المقدم وانت المؤخر، لا إله إلا انت"، حدثنا عبد الله، قال: بلغنا عن إسحاق بن راهويه، عن النضر بن شميل، انه قال في هذا الحديث:" والشر ليس إليك"، قال: لا يتقرب بالشر إليك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَمِّهِ الْمَاجِشُونِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ يُكَبِّرُ، ثُمَّ يَقُولُ:" وَجَّهْتُ وَجْهِي لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي، وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، اهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، اصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ، أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ"، وَإِذَا رَكَعَ، قَالَ:" اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَكَ سَمْعِي، وَبَصَرِي، وَمُخِّي، وَعِظَامِي، وَعَصَبِي"، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ، قَالَ:" سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ"، وَإِذَا سَجَدَ، قَالَ:" اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُوَرَهُ، فَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ"، وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ"، حدثنا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: بَلَغَنَا عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ شُمَيْلٍ، أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ:" وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ"، قَالَ: لَا يُتَقَرَّبُ بِالشَّرِّ إِلَيْكَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر تحریمہ کہہ چکتے تو ثناء پڑھنے کے بعد فرماتے: «وَجَّهْتُ وَجْهِي لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ اَللَّهُمَّ اهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ اصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ»”میں نے اپنے چہرے کا رخ اس ذات کی طرف سب سے یکسو ہو کر اور مسلمان ہو کر پھیر لیا جس نے آسمان و زمین کو تخلیق کیا، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں، میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت اس اللہ کے لئے وقف ہے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، الٰہی! آپ ہی حقیقی بادشاہ ہیں، آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، آپ ہی میرے رب اور میں آپ کا عبد ہوں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، اور مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف ہے، اس لئے آپ میرے تمام گناہوں کو معاف فرما دیں، کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف کر ہی نہیں سکتا، اور بہتر اخلاق کی طرف میری رہنمائی فرمائیے، کیونکہ بہترین اخلاق کی طرف بھی آپ ہی رہنمائی کر سکتے ہیں، اور مجھے برے اخلاق سے بچائیے کیونکہ ان سے بھی آپ ہی بچا سکتے ہیں، میں آپ کی بارگاہ میں حاضر اور آپ کا خادم ہوں، ہر قسم کی خیر آپ کے ہاتھ میں ہے، اور شر آپ کے قریب نہیں کر سکتا، میں آپ کا ہوں اور آپ ہی کی طرف لوٹ کر آؤں گا، آپ کی ذات بڑی بابرکت اور برتر ہے، میں آپ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا اور توبہ کرتا ہوں۔“ جب رکوع میں جاتے تو یوں کہتے: «اَللّٰهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ خَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعِظَامِي وَعَصَبِي»”الٰہی! میں نے آپ کے لئے رکوع کیا، آپ پر ایمان لایا، آپ کا تابع فرمان ہوا، میرے کان اور آنکھیں، دماغ، ہڈیاں اور پٹھے سب آپ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔“ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا ولک الحمد کہنے کے بعد فرماتے: «لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ»”تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں جو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی جگہ کو پر کر دیں، اور اس کے علاوہ جس چیز کو آپ چاہیں بھر دیں۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے تو یوں فرماتے: «اَللّٰهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُوَرَهُ فَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ فَتَبَارَكَ اللّٰهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ»”الٰہی! میں نے آپ کے لئے سجدہ کیا، آپ پر ایمان لایا، آپ کا تابع فرمان ہوا، میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نے اسے پیدا کیا اور اس کی بہترین تصویر کشی کی، اس کے کان اور آنکھ دیکھنے کے قابل بنائے، اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے جو بہترین خالق ہے۔“ اور جب نماز کا سلام پھیرتے تو یوں فرماتے: «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ»”اے اللہ! میرے اگلے پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہوں کو معاف فرما دے، اور جو میں نے حد سے تجاوز کیا وہ بھی معاف فرما دے، اور جن چیزوں کو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں وہ بھی معاف فرما دے، آپ ہی اول و آخر ہیں، اور آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ تین دن کے بعد اس کے گھر میں اس کی قربانی کا گوشت تھوڑا سا بھی موجود ہو۔“ فائدہ: یہ حکم بعد میں منسوخ ہو گیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن ابي العباس ، حدثنا الحسن بن يزيد الاصم ، قال: سمعت السدي إسماعيل يذكره، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، عن علي رضي الله عنه، قال: لما توفي ابو طالب اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: إن عمك الشيخ قد مات، قال:" اذهب فواره، ثم لا تحدث شيئا حتى تاتيني"، قال: فواريته ثم اتيته، قال:" اذهب فاغتسل، ثم لا تحدث شيئا حتى تاتيني"، قال: فاغتسلت ثم اتيته، قال: فدعا لي بدعوات ما يسرني ان لي بها حمر النعم وسودها، قال: وكان علي رضي الله عنه إذا غسل الميت اغتسل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَزِيدَ الْأَصَمُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ السُّدِّيَّ إِسْمَاعِيلَ يَذْكُرُهُ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو طَالِبٍ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ قَدْ مَاتَ، قَالَ:" اذْهَبْ فَوَارِهِ، ثُمَّ لَا تُحْدِثْ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي"، قَالَ: فَوَارَيْتُهُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ، قَالَ:" اذْهَبْ فَاغْتَسِلْ، ثُمَّ لَا تُحْدِثْ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي"، قَالَ: فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ، قَالَ: فَدَعَا لِي بِدَعَوَاتٍ مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا حُمْرَ النَّعَمِ وَسُودَهَا، قَالَ: وَكَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا غَسَّلَ الْمَيِّتَ اغْتَسَلَ.
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں ابوطالب کی وفات کی خبر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر انہیں کسی گڑھے میں چھپا دو، اور میرے پاس آنے سے پہلے کوئی دوسرا کام نہ کرنا۔“ چنانچہ جب میں انہیں کسی گڑھے میں اتار کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا تو مجھ سے فرمایا کہ ”جا کر غسل کرو، اور میرے پاس آنے سے پہلے کوئی دوسرا کام نہ کرنا۔“ چنانچہ میں غسل کر کے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اتنی دعائیں دیں کہ مجھے ان کے بدلے سرخ یا سیاہ اونٹ ملنے پر اتنی خوشی نہ ہوتی۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب بھی کسی میت کو غسل دیا تو خود بھی غسل کر لیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آخر زمانے میں ایک قوم ظاہر ہوگی جس کا نام روافض ہوگا، یہ لوگ اسلام کو چھوڑ دیں گے“(ان کے عقائد و اعمال اسلامی نہ ہوں گے گو کہ وہ اسلام کا نام استعمال کرتے ہوں گے)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف يحيي بن المتوكل وكثير النواء
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہوتے تو ”سبحان اللہ“ کہہ دیتے، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو یوں ہی اجازت دے دیتے (اور سبحان اللہ کہنے کی ضرورت نہ رہتی)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس بندہ مومن کو پسند کرتا ہے جو آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد توبہ کر لے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں اس لئے مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، جب میں اس سے عاجز آگیا تو میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص وضو کر لیا کرے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد فيه الحجاج بن أرطاة، وهو مدلس، وقد عنعن
(حديث مرفوع) حدثنا يونس ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، عن عاصم ، عن زر ، ان عليا رضي الله عنه قيل له: إن قاتل الزبير على الباب، فقال علي: ليدخلن قاتل ابن صفية النار، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لكل نبي حواري، وإن حواريي الزبير بن العوام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قِيلَ لَهُ: إِنَّ قَاتِلَ الزُّبَيْرِ عَلَى الْبَابِ، فَقَالَ عَلِيٌّ: لَيَدْخُلَنَّ قَاتِلُ ابْنِ صَفِيَّةَ النَّارَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيٌّ، وَإِنَّ حَوَارِيِّي الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ".
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ (ابن جرموز نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کون ہے؟) لوگوں نے بتایا کہ ابن جرموز اندر آنا چاہتا ہے؟ فرمایا: اسے اندر آنے دو، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل جہنم میں ہی داخل ہوگا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”ہر نبی کا ایک خاص حواری ہوتا ہے، اور میرا حواری زبیر ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا علي بن زيد ، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، ان عثمان بن عفان رضي الله عنه نزل قديدا، فاتي بالحجل في الجفان شائلة بارجلها، فارسل إلى علي رضي الله عنه وهو يضفز بعيرا له، فجاء والخبط يتحات من يديه، فامسك علي، وامسك الناس، فقال علي : من ها هنا من اشجع؟ هل تعلمون ان النبي صلى الله عليه وسلم جاءه اعرابي ببيضات نعام، وتتمير وحش، فقال:" اطعمهن اهلك، فإنا حرم"؟ قالوا: بلى، فتورك عثمان عن سريره، ونزل، فقال: خبثت علينا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَزَلَ قُدَيْدًا، فَأُتِيَ بِالْحَجَلِ فِي الْجِفَانِ شَائِلَةً بِأَرْجُلِهَا، فَأَرْسَلَ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَضْفِزُ بَعِيرًا لَهُ، فَجَاءَ وَالْخَبَطُ يَتَحَاتُّ مِنْ يَدَيْهِ، فَأَمْسَكَ عَلِيٌّ، وَأَمْسَكَ النَّاسُ، فَقَالَ عَلِيٌّ : مَنْ هَا هُنَا مِنْ أَشْجَعَ؟ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ بِبَيْضَاتِ نَعَامٍ، وَتَتْمِيرِ وَحْشٍ، فَقَالَ:" أَطْعِمْهُنَّ أَهْلَكَ، فَإِنَّا حُرُمٌ"؟ قَالُوا: بَلَى، فَتَوَرَّكَ عُثْمَانُ عَنْ سَرِيرِهِ، وَنَزَلَ، فَقَالَ: خَبَّثْتَ عَلَيْنَا.
عبداللہ بن الحارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو قدید نامی جگہ میں پڑاؤ کیا، ان کی خدمت میں بڑی ہانڈیوں کے اندر گھوڑے کا گوشت لایا گیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلایا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے گرد و غبار جھاڑتے ہوئے آئے لیکن انہوں نے وہ کھانا نہیں کھایا، لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ روک لئے، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قبیلہ اشجع کا کوئی آدمی یہاں موجود ہے؟ کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی آدمی نے شتر مرغ کے کچھ انڈے اور ایک وحشی جانور کا خشک کیا ہوا گوشت پیش کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اپنے گھر والوں کو کھلا دو، کیونکہ ہم محرم ہیں۔“ لوگوں نے کہا کیوں نہیں۔ یہ دیکھ کر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ دستر خوان سے اٹھ کر اپنے خیمے میں چلے گئے اور کہنے لگے کہ اب اس میں ہمارے لئے بھی ناپسندیدگی پیدا ہوگئی ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد ابن جدعان، أكل الصيد للمحرم إذا صاده الحلال وأهداه للمحرم فى صحيح البخاري : 1821
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر یا کتا ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا خالد يعني الطحان ، حدثنا مطرف ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان يرفع الرجل صوته بالقرآن قبل العتمة وبعدها، يغلط اصحابه في الصلاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي الطَّحَّانَ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ قَبْلَ الْعَتَمَةِ وَبَعْدَهَا، يُغَلِّطُ أَصْحَابَهُ فِي الصَّلَاةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص عشاء سے پہلے یا بعد میں تلاوت کرتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کرے، کیونکہ اس طرح اس کے دوسرے ساتھیوں کو نماز پڑھتے ہوئے مغالطہ ہو سکتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عبد مکاتب - یعنی وہ غلام جس سے ایک مقررہ مقدار ادا کرنے پر آقا نے آزادی کا معاہدہ کر لیا ہو - اس نے جتنی مقدار ادا کر دی ہو، اتنی مقدار میں وہ دیت کا مستحق بھی ہو جائے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، حدثنا عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن علي رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما زوجه فاطمة،" بعث معها بخميلة، ووسادة من ادم حشوها ليف، ورحيين، وسقاء، وجرتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا زَوَّجَهُ فَاطِمَةَ،" بَعَثَ مَعَهَا بِخَمِيلَةٍ، وَوِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، وَرَحَيَيْنِ، وَسِقَاءٍ، وَجَرَّتَيْنِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز میں روئیں دار کپڑے، ایک مشکیزہ اور ایک چمڑے کا تکیہ دیا تھا جس میں اذخر نامی گھاس بھری ہوئی تھی، نیز دو چکیاں اور دو مٹکے بھی دئیے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا الحجاج ، عن الحسن بن سعد ، عن ابيه ، ان يحنس وصفية كانا من سبي الخمس، فزنت صفية برجل من الخمس، فولدت غلاما فادعاه الزاني ويحنس، فاختصما إلى عثمان بن عفان، فرفعهما إلى علي بن ابي طالب، فقال علي : اقضي فيهما بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الولد للفراش، وللعاهر الحجر"، وجلدهما خمسين خمسين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أخبرنا الْحَجَّاجُ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ يُحَنَّسَ وَصَفِيَّةَ كَانَا مِنْ سَبْيِ الْخُمُسِ، فَزَنَتْ صَفِيَّةُ بِرَجُلٍ مِنَ الْخُمُسِ، فَوَلَدَتْ غُلَامًا فَادَّعَاهُ الزَّانِي وَيُحَنَّسُ، فَاخْتَصَمَا إِلَى عُثْمَانَ بن عفان، فَرَفَعَهُمَا إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ عَلِيٌّ : أَقْضِي فِيهِمَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ"، وَجَلَدَهُمَا خَمْسِينَ خَمْسِينَ.
سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یحنس اور صفیہ دونوں خمس کے قیدیوں میں سے تھے، صفیہ نے خمس کے ایک دوسرے آدمی سے بدکاری کی اور ایک بچے کو جنم دیا، اس زانی اور یحنس دونوں نے اس بچے کا دعویٰ کر دیا، اور اپنا مقدمہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے، انہوں نے ان دونوں کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان وہی فیصلہ کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، اور وہ یہ کہ بچہ بستر والے کا ہوگا، اور بدکار کے لئے پتھر ہیں، پھر انہوں نے دونوں کو پچاس پچاس کوڑے مارے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سعد ابن معبد والد الحسن وتدليس الحجاج، وللمرفوع شاهد من حديث أبى هريرة فى البخاري : 6818، ومسلم: 1458
عمرو بن سلیم کی والدہ کہتی ہیں کہ ہم میدان منی میں تھے کہ ایک آدمی کو یہ منادی کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”یہ دن کھانے پینے کے ہیں اس لئے ان دنوں میں کوئی شخص روزہ نہ رکھے۔“ میں نے اپنے خیمے کا پردہ ہٹا کر دیکھا تو وہ منادی کرنے والے سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی شخص سال گذرنے سے پہلے ہی زکوٰۃ دینا چاہے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہلے ادا کرنے کی اجازت عطا فرما دی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ اگر انسان کے جسم سے مذی کا خروج ہو تو وہ کیا کرے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کرے اور اپنی شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے ڈال لے۔“
عمرو بن سلیم کی والدہ کہتی ہیں کہ ہم میدان منیٰ میں تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے اونٹ پر بیٹھ کر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”یہ دن کھانے پینے کے ہیں، اس لئے ان دنوں میں کوئی شخص روزہ نہ رکھے۔“ چنانچہ لوگوں نے ان کی اتباع کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: ابو إسحاق انباني غير مرة، قال: سمعت عاصم بن ضمرة ، عن علي رضي الله عنه، انه قال:" من كل الليل قد اوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم: من اوله، واوسطه، وآخره، وانتهى وتره إلى آخر الليل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَبُو إِسْحَاقَ أَنْبَأَنِي غَيْرَ مَرَّةٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ:" مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنْ أَوَّلِهِ، وَأَوْسَطِهِ، وَآخِرِهِ، وَانْتَهَى وِتْرُهُ إِلَى آخِرِ اللَّيْلِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: سلمة بن كهيل انباني، قال: سمعت حجية بن عدي ، رجلا من كندة، قال: سمعت رجلا سال عليا رضي الله عنه، قال: إني اشتريت هذه البقرة للاضحى؟ قال: عن سبعة، قال: القرن؟ قال: لا يضرك، قال: العرج؟ قال: إذا بلغت المنسك، ثم قال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان نستشرف العين والاذن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ أَنْبَأَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ حُجَيَّةَ بْنَ عَدِيٍّ ، رَجُلًا مِنْ كِنْدَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا سَأَلَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنِّي اشْتَرَيْتُ هَذِهِ الْبَقَرَةَ لِلْأَضْحَى؟ قَالَ: عَنْ سَبْعَةٍ، قَالَ: الْقَرْنُ؟ قَالَ: لَا يَضُرُّكَ، قَالَ: الْعَرَجُ؟ قَالَ: إِذَا بَلَغَتْ الْمَنْسَكَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے کہا کہ میں نے یہ گائے قربانی کے لئے خریدی ہے، انہوں نے فرمایا کہ یہ سات آدمیوں کی طرف سے ہو سکتی ہے، اس نے کہا کہ اس کے سینگ نہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، اس نے کہا کہ اس کے پاؤں میں لنگڑا پن ہے؟ انہوں نے فرمایا: اگر یہ قربان گاہ تک خود چل کر جا سکتی ہے تو کوئی حرج نہیں، پھر فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ قربانی کے جانوروں کی آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں کہ کہیں ان میں کوئی عیب تو نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا حصين ، حدثني سعد بن عبيدة ، قال: تنازع ابو عبد الرحمن السلمي وحبان بن عطية، فقال ابو عبد الرحمن لحبان: قد علمت ما الذي جرا صاحبك، يعني: عليا رضي الله عنه، قال: فما هو لا ابا لك؟ قال: قول سمعته يقوله، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم والزبير وابا مرثد، وكلنا فارس، قال:" انطلقوا حتى تبلغوا روضة خاخ، فإن فيها امراة معها صحيفة من حاطب بن ابي بلتعة إلى المشركين، فاتوني بها"، فانطلقنا على افراسنا حتى ادركناها حيث قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، تسير على بعير لها، قال: وكان كتب إلى اهل مكة بمسير رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا لها: اين الكتاب الذي معك؟ قالت: ما معي كتاب، فانخنا بها بعيرها، فابتغينا في رحلها، فلم نجد فيه شيئا، فقال صاحباي: ما نرى معها كتابا، فقلت: لقد علمتما ما كذب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم حلفت: والذي احلف به لئن لم تخرجي الكتاب لاجردنك، فاهوت إلى حجزتها وهي محتجزة بكساء فاخرجت الصحيفة، فاتوا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، قد خان الله ورسوله والمؤمنين، دعني اضرب عنقه، قال:" يا حاطب، ما حملك على ما صنعت؟"، قال: يا رسول الله، والله ما بي ان لا اكون مؤمنا بالله ورسوله، ولكني اردت ان تكون لي عند القوم يد يدفع الله بها عن اهلي ومالي، ولم يكن احد من اصحابك إلا له هناك من قومه من يدفع الله تعالى به عن اهله وماله، قال" صدقت، فلا تقولوا له إلا خيرا"، فقال عمر: يا رسول الله، إنه قد خان الله ورسوله والمؤمنين، دعني اضرب عنقه، قال:" اوليس من اهل بدر؟ وما يدريك، لعل الله عز وجل اطلع عليهم فقال: اعملوا ما شئتم، فقد وجبت لكم الجنة"، فاغرورقت عينا عمر رضي الله عنه، وقال: الله تعالى ورسوله اعلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ ، حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ عُبَيْدَةَ ، قَالَ: تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ لِحِبَّانَ: قَدْ عَلِمْتُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ، يَعْنِي: عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فَمَا هُوَ لَا أَبَا لَكَ؟ قَالَ: قَوْلٌ سَمِعْتُهُ يَقُولُهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ وَأَبَا مَرْثَدٍ، وَكُلُّنَا فَارِسٌ، قَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَبْلُغُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ فِيهَا امْرَأَةً مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ، فَأْتُونِي بِهَا"، فَانْطَلَقْنَا عَلَى أَفْرَاسِنَا حَتَّى أَدْرَكْنَاهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا، قَالَ: وَكَانَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِمَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهَا: أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ؟ قَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَأَنَخْنَا بِهَا بَعِيرَهَا، فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا، فَلَمْ نَجِدْ فِيهِ شَيْئًا، فَقَالَ صَاحِبَايَ: مَا نَرَى مَعَهَا كِتَابًا، فَقُلْتُ: لَقَدْ عَلِمْتُمَا مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ حَلَفْتُ: وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ لَئِنْ لَمْ تُخْرِجِي الْكِتَابَ لَأُجَرِّدَنَّكِ، فَأَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ فَأَخْرَجَتْ الصَّحِيفَةَ، فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ:" يَا حَاطِبُ، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا بِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَلَكِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي، وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ إِلَّا لَهُ هُنَاكَ مِنْ قَوْمِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، قَالَ" صَدَقْتَ، فَلَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا"، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ:" أَوَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ؟ وَمَا يُدْرِيكَ، لَعَلَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمْ الْجَنَّةُ"، فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَا عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ: اللَّهُ تَعَالَى وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر اور سیدنا ابومرثد رضی اللہ عنہما - کہ ہم میں سے ہر ایک شہسوار تھا - کو ایک جگہ بھیجتے ہوئے فرمایا: ”تم لوگ روانہ ہو جاؤ، جب تم روضہ خاخ میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہوگا، جو حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے نام ہوگا، تم اس سے وہ خط لے کر واپس آجانا۔“ چنانچہ ہم لوگ روانہ ہو گئے، ہمارے گھوڑے ہمارے ہاتھوں سے نکلے جاتے تھے، یہاں تک کہ ہم روضہ خاخ جا پہنچے، وہاں ہمیں واقعۃ ایک عورت ملی جو اپنے اونٹ پر چلی جا رہی تھی، اس خط میں اہل مکہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی اطلاع دی گئی تھی، ہم نے اس سے کہا کہ تیرے پاس جو خط ہے وہ نکال دے، اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے، ہم نے اس کا اونٹ بٹھایا، اس کے کجاوے کی تلاشی لی لیکن کچھ نہ ملا، میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ اس کے پاس تو ہمارے خیال میں کوئی خط نہیں ہے، میں نے کہا: آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، پھر میں نے قسم کھا کر کہا کہ یا تو تو خود ہی خط نکال دے ورنہ ہم تجھے برہنہ کر دیں گے۔ مجبور ہو کر اس نے اپنے بالوں کی چوٹی میں سے ایک خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا، ہم وہ خط لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، لوگ کہنے لگے: یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے، مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ”حاطب! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں، بات یہ ہے کہ میں قریش سے تعلق نہیں رکھتا، البتہ ان میں شامل ہو گیا ہوں، آپ کے ساتھ جتنے بھی مہاجرین ہیں، ان کے مکہ مکرمہ میں رشتہ دار موجود ہیں جن سے وہ اپنے اہل خانہ کی حفاظت کروا لیتے ہیں، میں نے سوچا کہ میرا وہاں کوئی نسبی رشتہ دار تو موجود نہیں ہے، اس لئے ان پر ایک احسان کر دوں تاکہ وہ اس کے عوض میرے رشتہ داروں کی حفاظت کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے سچ بیان کیا، ان کے متعلق اچھی بات ہی کہنا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر فرمایا: یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن اڑا دوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ غزوہ بدر میں شریک ہو چکے ہیں، اور تمہیں کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا: تم جو کچھ کرتے رہو، میں تمہارے لئے جنت کو واجب کر چکا۔“ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور وہ فرمانے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”علی! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں کسی قسم کی تاخیر نہ کرو: (1) نماز جب اس کا وقت آجائے، (2) جنازہ جب وہ حاضر ہوجائے، (3) عورت جب اس کے جوڑ کا رشتہ مل جائے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سعيد بن عبدالله الجهني
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی، ریشمی کپڑے پہننے اور رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف محمد بن عبدالرحمن بن أبى ليلى وعبدالكريم، ويشبه أن يكون نهيه عن لبس الحمراء معناه النهي عن المعصفر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں - جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں تھے - شکار کا گوشت لایا گیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کھایا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف كسابقه، وثبت جواز أكل الصيد للمحرم إذا صاده الحلال وأهداه للمحرم فى صحيح البخاري : 1821
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ریشمی کپڑے، سرخ زین پوش اور عصفر سے رنگے ہوئے کپڑے پہننے اور رکوع یا سجدے کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن أبى ليلى وعبد الكريم
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہمیں قرآن کریم کی کسی سورت میں شک ہو گیا، بعض اس کی آیات کی تعداد پینتیس بتاتے تھے اور بعض چھتیس۔ جب یہ بحث بڑھی تو اس کا فیصلہ کروانے کے لئے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہاں پہنچے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرتا ہوا پایا، ہم نے اپنے آنے کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا ایک سورت کی قرأت کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو گیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ ”جس طرح تمہیں سکھایا گیا ہے، قرآن کریم کی تلاوت اسی طرح کیا کرو۔“
ابوجحیفہ - جنہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ وہب الخیر کہا کرتے تھے - سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (دوران خطبہ یہ) کہتے ہوئے سنا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ (ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: کیوں نہیں، اور میں یہ سمجھتا تھا کہ خود ان سے افضل کوئی نہیں ہے) وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور میں تمہیں بتاؤں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔
وہب سوائی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ یہ فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ میں نے کہا: امیر المؤمنین! آپ ہی ہیں، انہوں نے فرمایا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر سکینہ بولتا تھا۔
(حديث موقوف) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، اخبرنا منصور بن عبد الرحمن يعني الغداني الاشل ، عن الشعبي ، حدثني ابو جحيفة ، الذي كان علي يسميه: وهب الخير، قال: قال لي علي رضي الله عنه: يا ابا جحيفة، الا اخبرك بافضل هذه الامة بعد نبيها؟ قال: قلت: بلى، قال: ولم اكن ارى ان احدا افضل منه، قال:" افضل هذه الامة بعد نبيها ابو بكر، وبعد ابي بكر عمر رضي الله عنه، وبعدهما آخر ثالث"، ولم يسمه.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أخبرنا مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَعْنِي الْغُدَانِيَّ الْأَشَلَّ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، حَدَّثَنِي أَبُو جُحَيْفَةَ ، الَّذِي كَانَ عَلِيٌّ يُسَمِّيهِ: وَهْبَ الْخَيْرِ، قَالَ: قَالَ لي عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا أَبَا جُحَيْفَةَ، أَلَا أُخْبِرُكَ بِأَفْضَلِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: وَلَمْ أَكُنْ أَرَى أَنَّ أَحَدًا أَفْضَلُ مِنْهُ، قَالَ:" أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَبَعْدَهُمَا آخَرُ ثَالِثٌ"، وَلَمْ يُسَمِّهِ.
ابوجحیفہ - جنہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ وہب الخیر کہا کرتے تھے - سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سنا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ - ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کیوں نہیں، اور میں یہ سمجھتا تھا کہ خود ان سے افضل کوئی نہیں ہے - وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور ان کے بعد ایک تیسرا آدمی ہے، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کا نام نہیں لیا۔
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شريك ، عن ابي إسحاق ، عن ابي جحيفة ، قال: قال علي رضي الله عنه:" خير هذه الامة بعد نبيها ابو بكر، وبعد ابي بكر عمر رضي الله عنه، ولو شئت اخبرتكم بالثالث لفعلت".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَلَوْ شِئْتُ أَخْبَرْتُكُمْ بِالثَّالِثِ لَفَعَلْتُ".
ابوجحیفہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اگر میں چاہوں تو تیسرے آدمی کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، شريك سيء الحفظ، لكن للحديث طرق أخرى تقويه
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثنا منصور بن ابي مزاحم ، حدثنا خالد الزيات ، حدثني عون بن ابي جحيفة ، قال: كان ابي من شرط علي رضي الله عنه، وكان تحت المنبر، فحدثني ابي : انه صعد المنبر، يعني: عليا رضي الله عنه، فحمد الله تعالى واثنى عليه، وصلى على النبي صلى الله عليه وسلم، وقال:" خير هذه الامة بعد نبيها ابو بكر، والثاني عمر رضي الله عنه"، وقال: يجعل الله تعالى الخير حيث احب.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الزَّيَّاتُ ، حَدَّثَنِي عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ ، قَالَ: كَانَ أَبِي مِنْ شُرَطِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ تَحْتَ الْمِنْبَرِ، فَحَدَّثَنِي أَبِي : أَنَّهُ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، يَعْنِي: عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَالثَّانِي عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ"، وَقَالَ: يَجْعَلُ اللَّهُ تَعَالَى الْخَيْرَ حَيْثُ أَحَبَّ.
عون بن ابی جحیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے والد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حفاظتی گارڈز میں سے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ منبر پر رونق افروز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے کے بعد فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، دوسرے نمبر پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اللہ جہاں چاہتا ہے خیر رکھ دیتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، اخبرنا عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن علي رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما زوجه فاطمة بعث معه بخميلة ووسادة من ادم حشوها ليف، ورحيين، وسقاء، وجرتين، فقال علي لفاطمة رضي الله عنهما ذات يوم: والله لقد سنوت حتى قد اشتكيت صدري، قال: وقد جاء الله اباك بسبي، فاذهبي فاستخدميه، فقالت: وانا والله قد طحنت حتى مجلت يداي، فاتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما جاء بك اي بنية؟"، قالت: جئت لاسلم عليك، واستحيت ان تساله ورجعت، فقال: ما فعلت؟ قالت: استحييت ان اساله، فاتيناه جميعا، فقال علي رضي الله عنه: يا رسول الله، والله لقد سنوت حتى اشتكيت صدري، وقالت فاطمة رضي الله عنها: قد طحنت حتى مجلت يداي، وقد جاءك الله بسبي وسعة فاخدمنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والله لا اعطيكما وادع اهل الصفة تطوى بطونهم، لا اجد ما انفق عليهم، ولكني ابيعهم وانفق عليهم اثمانهم"، فرجعا، فاتاهما النبي صلى الله عليه وسلم وقد دخلا في قطيفتهما، إذا غطت رءوسهما تكشفت اقدامهما، وإذا غطيا اقدامهما تكشفت رءوسهما، فثارا، فقال:" مكانكما"، ثم قال:" الا اخبركما بخير مما سالتماني؟"، قالا: بلى، فقال:" كلمات علمنيهن جبريل عليه السلام، فقال: تسبحان في دبر كل صلاة عشرا، وتحمدان عشرا، وتكبران عشرا، وإذا اويتما إلى فراشكما فسبحا ثلاثا وثلاثين، واحمدا ثلاثا وثلاثين، وكبرا اربعا وثلاثين"، قال: فوالله ما تركتهن منذ علمنيهن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فقال له ابن الكواء: ولا ليلة صفين؟ فقال: قاتلكم الله يا اهل العراق، نعم، ولا ليلة صفين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أخبرنا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا زَوَّجَهُ فَاطِمَةَ بَعَثَ مَعَهُ بِخَمِيلَةٍ وَوِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، وَرَحَيَيْنِ، وَسِقَاءٍ، وَجَرَّتَيْنِ، فَقَالَ عَلِيٌّ لِفَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ذَاتَ يَوْمٍ: وَاللَّهِ لَقَدْ سَنَوْتُ حَتَّى قَدْ اشْتَكَيْتُ صَدْرِي، قَالَ: وَقَدْ جَاءَ اللَّهُ أَبَاكِ بِسَبْيٍ، فَاذْهَبِي فَاسْتَخْدِمِيهِ، فَقَالَتْ: وَأَنَا وَاللَّهِ قَدْ طَحَنْتُ حَتَّى مَجَلَتْ يَدَايَ، فَأَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا جَاءَ بِكِ أَيْ بُنَيَّةُ؟"، قَالَتْ: جِئْتُ لَأُسَلِّمَ عَلَيْكَ، وَاسْتَحْيَت أَنْ تَسْأَلَهُ وَرَجَعَتْ، فَقَالَ: مَا فَعَلْتِ؟ قَالَتْ: اسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَسْأَلَهُ، فَأَتَيْنَاهُ جَمِيعًا، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ سَنَوْتُ حَتَّى اشْتَكَيْتُ صَدْرِي، وَقَالَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: قَدْ طَحَنْتُ حَتَّى مَجَلَتْ يَدَايَ، وَقَدْ جَاءَكَ اللَّهُ بِسَبْيٍ وَسَعَةٍ فَأَخْدِمْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَاللَّهِ لَا أُعْطِيكُمَا وَأَدَعُ أَهْلَ الصُّفَّةِ تَطْوَى بُطُونُهُمْ، لَا أَجِدُ مَا أُنْفِقُ عَلَيْهِمْ، وَلَكِنِّي أَبِيعُهُمْ وَأُنْفِقُ عَلَيْهِمْ أَثْمَانَهُمْ"، فَرَجَعَا، فَأَتَاهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ دَخَلَا فِي قَطِيفَتِهِمَا، إِذَا غَطَّتْ رُءُوسَهُمَا تَكَشَّفَتْ أَقْدَامُهُمَا، وَإِذَا غَطَّيَا أَقْدَامَهُمَا تَكَشَّفَتْ رُءُوسُهُمَا، فَثَارَا، فَقَالَ:" مَكَانَكُمَا"، ثُمَّ قَالَ:" أَلَا أُخْبِرُكُمَا بِخَيْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَانِي؟"، قَالَا: بَلَى، فَقَالَ:" كَلِمَاتٌ عَلَّمَنِيهِنَّ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: تُسَبِّحَانِ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ عَشْرًا، وَتَحْمَدَانِ عَشْرًا، وَتُكَبِّرَانِ عَشْرًا، وَإِذَا أَوَيْتُمَا إِلَى فِرَاشِكُمَا فَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ"، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ عَلَّمَنِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ ابْنُ الْكَوَّاءِ: وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ؟ فَقَالَ: قَاتَلَكُمْ اللَّهُ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ، نَعَمْ، وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ان سے کیا تو ان کے ساتھ جہیز کے طور پر روئیں دار کپڑے، چمڑے کا تکیہ جس میں گھاس بھری ہوئی تھی، دو چکیاں، مشکیزہ اور دو مٹکے بھی روانہ کئے، ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اللہ کی قسم! کنوئیں سے پانی کھینچ کھینچ کر میرے تو سینے میں درد شروع ہو گیا ہے، آپ کے والد صاحب کے پاس کچھ قیدی آئے ہوئے ہیں، ان سے جا کر کسی خادم کی درخواست کیجئے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: واللہ! چکی چلا چلا کر میرے ہاتھوں میں بھی گٹے پڑ گئے ہیں۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے کی وجہ دریافت فرمائی، انہوں نے عرض کیا کہ سلام کرنے کے لئے حاضر ہوئی تھی، انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی درخواست پیش کرتے ہوئے شرم آئی اور وہ واپس لوٹ آئیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا ہوا؟ فرمایا: مجھے تو ان سے کچھ مانگتے ہوئے شرم آئی اس لئے واپس لوٹ آئی۔ اس کے بعد ہم دونوں اکٹھے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! کنوئیں سے پانی کھینچ کھینچ کر میرے سینے میں درد شروع ہو گیا ہے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں کہ چکی چلا چلا کر میرے بھی ہاتھوں میں گٹے پڑگئے ہیں، آپ کے پاس کچھ قیدی آئے ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی ایک بطور خادم کے ہمیں بھی عنایت فرما دیں۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واللہ! میں اہل صفہ کو چھوڑ کر - جن کے پیٹ چپکے پڑے ہوئے ہیں اور ان پر خرچ کرنے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے - تمہیں کوئی خادم نہیں دے سکتا، بلکہ میں انہیں بیچ کر ان کی قیمت اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔“ اس پر وہ دونوں واپس چلے آئے، رات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے، انہوں نے جو چادر اوڑھ رکھی تھی وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اگر سر ڈھکتے تھے تو پاؤں کھل جاتے تھے، اور اگر پاؤں ڈھکتے تو سر کھل جاتا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر دونوں اٹھنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا اور فرمایا کہ ”ہر نماز کے بعد دس دس مرتبہ سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کہہ لیا کرو، اور جب بستر پر آیا کرو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔ (تمہاری ساری تھکاوٹ اور بیماری دور ہوجایا کرے گی)۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان کلمات کی تعلیم دی ہے میں نے انہیں کبھی ترک نہیں کیا۔ ابن کواء کہنے لگا کہ جنگ صفین کے موقع پر بھی نہیں؟ فرمایا: اہل عراق! اللہ تم سے سمجھے، ہاں! صفین کے موقع پر بھی نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سلمة بن كهيل ، عن الشعبي ، ان عليا رضي الله عنه جلد شراحة يوم الخميس، ورجمها يوم الجمعة، وقال:" اجلدها بكتاب الله، وارجمها بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَلَدَ شَرَاحَةَ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَرَجَمَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَالَ:" أَجْلِدُهَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأَرْجُمُهَا بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے شراحہ کو جمعرات کے دن کوڑے مارے اور جمعہ کے دن اسے سنگسار کر دیا اور فرمایا: میں نے کوڑے قرآن کریم کی وجہ سے مارے اور سنگسار سنت کی وجہ سے کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وفي خ: 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن سلمة ، قال: دخلت على علي بن ابي طالب انا ورجلان: رجل من قومي، ورجل من بني اسد، احسب، فبعثهما وجها، وقال: اما إنكما علجان، فعالجا عن دينكما، ثم دخل المخرج فقضى حاجته، ثم خرج، فاخذ حفنة من ماء فتمسح بها، ثم جعل يقرا القرآن، قال: فكانه رآنا انكرنا ذلك، ثم قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يقضي حاجته، ثم يخرج فيقرا القرآن، وياكل معنا اللحم، ولم يكن يحجبه عن القرآن شيء، ليس الجنابة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَا وَرَجُلَانِ: رَجُلٌ مِنْ قَوْمِي، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، أَحْسِبُ، فَبَعَثَهُمَا وَجْهًا، وَقَالَ: أَمَا إِنَّكُمَا عِلْجَانِ، فَعَالِجَا عَنْ دِينِكُمَا، ثُمَّ دَخَلَ الْمَخْرَجَ فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ خَرَجَ، فَأَخَذَ حَفْنَةً مِنْ مَاءٍ فَتَمَسَّحَ بِهَا، ثُمَّ جَعَلَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، قَالَ: فَكَأَنَّهُ رَآنَا أَنْكَرْنَا ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْضِي حَاجَتَهُ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَيَأْكُلُ مَعَنَا اللَّحْمَ، وَلَمْ يَكُنْ يَحْجُبُهُ عَنِ الْقُرْآنِ شَيْءٌ، لَيْسَ الْجَنَابَةَ".
عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور دو دیگر آدمی جن میں سے ایک میری قوم کا آدمی تھا اور دوسرا بنو اسد میں سے تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو اپنے سامنے بھیجا اور فرمایا کہ تم دونوں ابھی نا سمجھ ہو، اس لئے دین کو سمجھنے کے لئے مشق کرو، پھر وہ بیت الخلاء تشریف لے گئے اور قضاء حاجت کر کے باہر نکلے تو ایک مٹھی بھر پانی لے کر اسے اپنے چہرے پر پھیر لیا، اور قرآن پڑھنا شروع کر دیا، جب انہوں نے دیکھا کہ ہمیں اس پر تعجب ہو رہا ہے تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی قضاء حاجت کر کے باہر نکلنے کے بعد قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیتے تھے، اور ہمارے ساتھ گوشت بھی کھا لیا کرتے تھے، آپ کو جنابت کے علاوہ کوئی چیز قرآن کریم کی تلاوت سے نہیں روک سکتی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن سلمة ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: كنت شاكيا فمر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا اقول: اللهم إن كان اجلي قد حضر فارحني، وإن كان متاخرا فارفعني، وإن كان بلاء فصبرني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كيف قلت؟"، فاعاد عليه ما قال، قال: فضربه برجله، وقال:" اللهم عافه، او اللهم اشفه"، شك شعبة، قال: فما اشتكيت وجعي ذاك بعد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ شَاكِيًا فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَجَلِي قَدْ حَضَرَ فَأَرِحْنِي، وَإِنْ كَانَ مُتَأَخِّرًا فَارْفَعْنِي، وَإِنْ كَانَ بَلَاءً فَصَبِّرْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيْفَ قُلْتَ؟"، فَأَعَادَ عَلَيْهِ مَا قَالَ، قَالَ: فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ، وَقَالَ:" اللَّهُمَّ عَافِهِ، أَوْ اللَّهُمَّ اشْفِهِ"، شَكَّ شُعْبَةُ، قَالَ: فَمَا اشْتَكَيْتُ وَجَعِي ذَاكَ بَعْدُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے پاس سے گذر ہوا، میں اس وقت بیمار تھا اور یہ دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ! اگر میری موت کا وقت قریب آگیا ہے تو مجھے اس بیماری سے راحت عطاء فرما اور مجھے اپنے پاس بلا لے، اگر اس میں دیر ہو تو مجھے اٹھا لے، اور اگر یہ کوئی آزمائش ہو تو مجھے صبر عطاء فرما۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کیا کہہ رہے ہو؟“ میں نے اپنی بات پھر دہرا دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پاؤں سے ٹھوکر ماری یعنی غصہ کا اظہار کیا اور دعا فرمائی: «”اَللّٰهُمَّ عَافِهِ أَوْ اَللّٰهُمَّ اشْفِهِ“ شَكَّ شُعْبَةُ»”اے اللہ! اسے عافیت اور شفاء عطاء فرما۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے وہ تکلیف کبھی نہیں ہوئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، عن شعبة ، عن ابي إسحاق ، سمعت عاصم بن ضمرة يحدث، عن علي رضي الله عنه، قال:" ليس الوتر بحتم كالصلاة، ولكن سنة فلا تدعوه"، قال شعبة: ووجدته مكتوبا عندي:" وقد اوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ ضَمْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" لَيْسَ الْوَتْرُ بِحَتْمٍ كَالصَّلَاةِ، وَلَكِنْ سُنَّةٌ فَلَا تَدَعُوهُ"، قَالَ شُعْبَةُ: وَوَجَدْتُهُ مَكْتُوبًا عِنْدِي:" وَقَدْ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے، لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے، اس لئے تم اسے ترک نہ کیا کرو۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے اپنی طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیا، چنانچہ میں آخر دم تک ان کی طرف سے قربانی کرتا رہوں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى الحسناء وضعف شريك
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن جابر ، عن الشعبي ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم" آكل الربا، وموكله، وشاهديه، وكاتبه، والواشمة، والمستوشمة للحسن، ومانع الصدقة، والمحل والمحلل له، وكان ينهى عن النوح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أخبرنا سُفْيَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَكَاتِبَهُ، وَالْوَاشِمَةَ، وَالْمُسْتَوْشِمَةَ لِلْحُسْنِ، وَمَانِعَ الصَّدَقَةِ، وَالْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ، وَكَانَ يَنْهَى عَنِ النَّوْحِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے، سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گودوانے والی پر لعنت فرمائی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي والحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن جابر ، عن عبد الله بن نجي ، عن علي رضي الله عنه، قال: كنت آتي رسول الله صلى الله عليه وسلم كل غداة، فإذا تنحنح دخلت، وإذا سكت لم ادخل، قال: فخرج إلي، فقال:" حدث البارحة امر، سمعت خشخشة في الدار، فإذا انا بجبريل عليه السلام، فقلت: ما منعك من دخول البيت؟ فقال: في البيت كلب، قال: فدخلت، فإذا جرو للحسن تحت كرسي لنا"، قال: فقال:" إن الملائكة لا يدخلون البيت إذا كان فيه ثلاث: كلب، او صورة، او جنب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ آتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّ غَدَاةٍ، فَإِذَا تَنَحْنَحَ دَخَلْتُ، وَإِذَا سَكَتَ لَمْ أَدْخُلْ، قَالَ: فَخَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ:" حَدَثَ الْبَارِحَةَ أَمْرٌ، سَمِعْتُ خَشْخَشَةً فِي الدَّارِ، فَإِذَا أَنَا بِجِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقُلْتُ: مَا مَنَعَكَ مِنْ دُخُولِ الْبَيْتِ؟ فَقَالَ: فِي الْبَيْتِ كَلْبٌ، قَالَ: فَدَخَلْتُ، فَإِذَا جَرْوٌ لِلْحَسَنِ تَحْتَ كُرْسِيٍّ لَنَا"، قَالَ: فَقَالَ:" إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا يَدْخُلُونَ الْبَيْتَ إِذَا كَانَ فِيهِ ثَلَاثٌ: كَلْبٌ، أَوْ صُورَةٌ، أَوْ جُنُبٌ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں روزانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونا چاہتا اور وہ نماز پڑھ رہے ہوتے تو کھانس دیا کرتے تھے، اور جب وہ خاموش رہتے تو میں گھر میں داخل نہ ہوتا۔ ایک مرتبہ میں رات کے وقت حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکل کر فرمایا کہ ”آج رات عجیب واقعہ ہوا ہے، مجھے کسی کی آہٹ گھر میں محسوس ہوئی، میں گھبرا کر باہر نکلا تو سامنے حضرت جبرئیل علیہ السلام کھڑے تھے، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ گھر کے اندر کیوں نہیں آ رہے؟ وہ کہنے لگے: آپ کے کمرے میں کہیں سے کتا آگیا ہے اس لئے میں اندر نہیں آ سکتا، اور واقعی حسن کی کرسی کے نیچے کتے کا ایک پلہ موجود تھا، اور فرمایا کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کوئی کتا، کوئی جنبی یا کوئی تصویر ہو۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کو امیر بناتا تو ابن ام عبد یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بناتا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے کثرت سے خروج مذی کا عارضہ لاحق رہتا تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر خروج منی ہو جائے تو غسل کیا کرو جس طرح جنابت کی صورت میں کیا جاتا ہے، اور اگر ایسا نہ ہو تو غسل کرنے کی ضرورت نہیں۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، جواب بن عبيد الله التيمي فيه مقال
(حديث مرفوع) حدثنا الوليد بن القاسم بن الوليد الهمداني ، حدثنا إسرائيل ، حدثنا إبراهيم يعني ابن عبد الاعلى ، عن طارق بن زياد ، قال: خرجنا مع علي إلى الخوارج فقتلهم، ثم قال: انظروا، فإن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال:" إنه سيخرج قوم يتكلمون بالحق لا يجاوز حلقهم، يخرجون من الحق كما يخرج السهم من الرمية، سيماهم ان منهم رجلا اسود مخدج اليد، في يده شعرات سود"، إن كان هو فقد قتلتم شر الناس، وإن لم يكن هو فقد قتلتم خير الناس، فبكينا، ثم قال: اطلبوا، فطلبنا فوجدنا المخدج، فخررنا سجودا، وخر علي معنا ساجدا، غير انه قال:" يتكلمون بكلمة الحق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ طَارِقِ بْنِ زِيَادٍ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ إِلَى الْخَوَارِجِ فَقَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَالَ: انْظُرُوا، فَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّهُ سَيَخْرُجُ قَوْمٌ يَتَكَلَّمُونَ بِالْحَقِّ لَا يُجَاوِزُ حَلْقَهُمْ، يَخْرُجُونَ مِنَ الْحَقِّ كَمَا يَخْرُجُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، سِيمَاهُمْ أَنَّ مِنْهُمْ رَجُلًا أَسْوَدَ مُخْدَجَ الْيَدِ، فِي يَدِهِ شَعَرَاتٌ سُودٌ"، إِنْ كَانَ هُوَ فَقَدْ قَتَلْتُمْ شَرَّ النَّاسِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ هُوَ فَقَدْ قَتَلْتُمْ خَيْرَ النَّاسِ، فَبَكَيْنَا، ثُمَّ قَالَ: اطْلُبُوا، فَطَلَبْنَا فَوَجَدْنَا الْمُخْدَجَ، فَخَرَرْنَا سُجُودًا، وَخَرَّ عَلِيٌّ مَعَنَا سَاجِدًا، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ:" يَتَكَلَّمُونَ بِكَلِمَةِ الْحَقِّ".
طارق بن زیادہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے نکلے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا اور فرمایا: دیکھو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”عنقریب ایک ایسی قوم کا خروج ہوگا جو بات تو صحیح کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گی، وہ لوگ حق سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ان کی علامت یہ ہوگی کہ ان میں ایک شخص کا ہاتھ ناتمام ہوگا، اس کے ہاتھ (ہتھیلی) میں کالے بال ہوں گے“، اب اگر ایسا ہی ہے تو تم نے ایک بدترین آدمی کے وجود سے دنیا کو پاک کر دیا، اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم نے ایک بہترین آدمی کو قتل کر دیا، یہ سن کر ہم رونے لگے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے تلاش کرو، چنانچہ ہم نے اسے تلاش کیا تو ہمیں ناقص ہاتھ والا ایک آدمی مل گیا، جسے دیکھ کر ہم سجدے میں گر پڑے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی سربسجود ہو گئے، البتہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ان کی بات صحیح تھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1066، وهذا إسناد ضعيف لجهالة طارق بن زياد الكوفي
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا إسرائيل ، عن عبد الاعلى ، عن ابي عبد الرحمن ، عن علي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وتجعلون رزقكم سورة الواقعة آية 82، يقول: شكركم، انكم تكذبون سورة الواقعة آية 82، تقولون: مطرنا بنوء كذا وكذا، بنجم كذا وكذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ سورة الواقعة آية 82، يَقُولُ: شُكْرَكُمْ، أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ سورة الواقعة آية 82، تَقُولُونَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، بِنَجْمِ كَذَا وَكَذَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قرآن کریم میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ تم نے اپنا حصہ یہ بنا رکھا ہے کہ تم تکذیب کرتے رہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ کہتے ہو: فلاں فلاں ستارے کے طلوع و غروب سے بارش ہوئی ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو إسحاق ، عن شريح بن النعمان ، قال ابو إسحاق: وكان رجل صدق، عن علي رضي الله عنه، قال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان نستشرف العين والاذن، وان لا نضحي بعوراء، ولا مقابلة، ولا مدابرة، ولا شرقاء، ولا خرقاء"، قال زهير: قلت لابي إسحاق: اذكر عضباء؟ قال: لا، قلت: ما المقابلة؟ قال: يقطع طرف الاذن، قلت: ما المدابرة؟ قال: يقطع مؤخر الاذن، قلت: ما الشرقاء؟ قال: تشق الاذن، قلت: ما الخرقاء؟ قال: تخرق اذنها السمة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: وَكَانَ رَجُلَ صِدْقٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ، وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِعَوْرَاءَ، وَلَا مُقَابَلَةٍ، وَلَا مُدَابَرَةٍ، وَلَا شَرْقَاءَ، وَلَا خَرْقَاءَ"، قَالَ زُهَيْرٌ: قُلْتُ لِأَبِي إِسْحَاقَ: أَذَكَرَ عَضْبَاءَ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: مَا الْمُقَابَلَةُ؟ قَالَ: يُقْطَعُ طَرَفُ الْأُذُنِ، قُلْتُ: مَا الْمُدَابَرَةُ؟ قَالَ: يُقْطَعُ مُؤَخَّرُ الْأُذُنِ، قُلْتُ: مَا الشَّرْقَاءُ؟ قَالَ: تُشَقُّ الْأُذُنُ، قُلْتُ: مَا الْخَرْقَاءُ؟ قَالَ: تَخْرِقُ أُذُنَهَا السِّمَةُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ”قربانی کے جانور کے کان اور آنکھ اچھی طرح دیکھ لیں، کانے جانور کی قربانی نہ کریں، مقابلہ، مدابرہ، شرقاء یا خرقاء کی قربانی نہ کریں۔“ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابواسحاق سے پوچھا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عضباء کا ذکر بھی کیا تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں! پھر میں نے پوچھا کہ مقابلہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ جانور جس کے کان کا ایک کنارہ کٹا ہوا ہو، میں نے پوچھا کہ مدابرہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ جانور جس کا کان پیچھے سے کٹا ہوا ہو، میں نے شرقاء کا معنی پوچھا، تو فرمایا: جس کا کان چیرا ہوا ہو، میں نے خرقاء کا معنی پوچھا، تو انہوں بتایا: وہ جانور جس کا کان پھٹ گیا ہو۔
حكم دارالسلام: حسن. وهذا إسناد ضعيف، زهير سمع من أبى إسحاق بعد تغيره
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کو امیر بناتا تو ابن ام عبد یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بناتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، ومعاوية بن عمرو ، قالا: حدثنا زائدة ، حدثنا عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن علي رضي الله عنه، قال:" جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة رضي الله عنها في خميل، وقربة، ووسادة من ادم حشوها ليف"، قال معاوية: إذخر، قال ابي: والخميلة: القطيفة المخملة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَا: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" جَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِي خَمِيلٍ، وَقِرْبَةٍ، وَوِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ"، قَالَ مُعَاوِيَةُ: إِذْخِرٌ، قَالَ أَبِي: وَالْخَمِيلَةُ: الْقَطِيفَةُ الْمُخَمَّلَةُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز میں روئیں دار کپڑے، ایک مشکیزہ اور ایک چمڑے کا تکیہ دیا تھا جس میں اذخر نامی گھاس بھری ہوئی تھی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سینے سے لے کر سر تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہہ ہیں، اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نچلے حصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا ابو خالد الاحمر ، عن منصور بن حيان ، عن ابي الطفيل ، قال: قلنا لعلي : اخبرنا بشيء اسره إليك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ما اسر إلي شيئا كتمه الناس، ولكن سمعته يقول:" لعن الله من ذبح لغير الله، ولعن الله من آوى محدثا، ولعن الله من لعن والديه، ولعن الله من غير تخوم الارض، يعني: المنار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: قُلْنَا لِعَلِيٍّ : أَخْبِرْنَا بِشَيْءٍ أَسَرَّهُ إِلَيْكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا أَسَرَّ إِلَيَّ شَيْئًا كَتَمَهُ النَّاسَ، وَلَكِنْ سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَيْهِ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ غَيَّرَ تُخُومَ الْأَرْضِ، يَعْنِي: الْمَنَارَ".
سیدنا ابوالطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ آپ سے بیان کی ہو؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسی کوئی خصوصی بات نہیں کی جو دوسرے لوگوں سے چھپائی ہو، البتہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے ضرور سنا ہے کہ ”اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو غیر اللہ کے نام پر کسی جانور کو ذبح کرے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو اپنے والدین پر لعنت کرے، اور اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو زمین کے بیج بدل دے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن هانئ بن هانئ ، عن علي رضي الله عنه، قال: كنت رجلا مذاء، فإذا امذيت اغتسلت، فامرت المقداد، فسال النبي صلى الله عليه وسلم، فضحك، وقال" فيه الوضوء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً، فَإِذَا أَمْذَيْتُ اغْتَسَلْتُ، فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ، فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَحِكَ، وَقَالَ" فِيهِ الْوُضُوءُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے جسم سے مذی کا اخراج بکثرت ہوتا تھا، جب ایسا ہوتا تو میں غسل کر لیتا، پھر میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حل پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنس کر فرمایا: ”اس میں صرف وضو ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا اسود يعني ابن عامر ، اخبرنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن هانئ بن هانئ ، عن علي رضي الله عنه، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم انا، وجعفر، وزيد، قال: فقال لزيد:" انت مولاي"، فحجل، قال: وقال لجعفر:" انت اشبهت خلقي وخلقي"، قال: فحجل وراء زيد، قال: وقال لي:" انت مني، وانا منك"، قال: فحجلت وراء جعفر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ يَعْنِي ابْنَ عَامِرٍ ، أخبرنا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنا، وَجَعْفَرٌ، وَزَيْدٌ، قَالَ: فَقَالَ لِزَيْدٍ:" أَنْتَ مَوْلَايَ"، فَحَجَلَ، قَالَ: وَقَالَ لِجَعْفَرٍ:" أَنْتَ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي"، قَالَ: فَحَجَلَ وَرَاءَ زَيْدٍ، قَالَ: وَقَالَ لِي:" أَنْتَ مِنِّي، وَأَنَا مِنْكَ"، قَالَ: فَحَجَلْتُ وَرَاءَ جَعْفَرٍ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں، سیدنا جعفر اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”زید! آپ ہمارے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) ہیں، جعفر! آپ تو صورت اور سیرت میں میرے مشابہہ ہیں، اور علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں۔“ اس ترتیب میں نبی صلی اللہ علیہ نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا اور میرا ذکر سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے بعد فرمایا۔
سیدنا ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ آپ سے بیان کی ہو؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسی کوئی خصوصی بات نہیں کی جو دوسرے لوگوں سے چھپائی ہو، البتہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے ضرور سنا ہے کہ ”اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو اپنے والدین پر لعنت کرے، اور اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو زمین کے بیج بدل دے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثني عبد الحميد بن ابي جعفر يعني الفراء ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن زيد بن يثيع ، عن علي رضي الله عنه، قال: قيل: يا رسول الله، من نؤمر بعدك؟ قال:" إن تؤمروا ابا بكر رضي الله عنه، تجدوه امينا، زاهدا في الدنيا، راغبا في الآخرة، وإن تؤمروا عمر رضي الله عنه تجدوه قويا امينا، لا يخاف في الله لومة لائم، وإن تؤمروا عليا رضي الله عنه، ولا اراكم فاعلين، تجدوه هاديا مهديا، ياخذ بكم الطريق المستقيم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ يَعْنِي الْفَرَّاءَ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ نُؤَمَّرُ بَعْدَكَ؟ قَالَ:" إِنْ تُؤَمِّرُوا أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، تَجِدُوهُ أَمِينًا، زَاهِدًا فِي الدُّنْيَا، رَاغِبًا فِي الْآخِرَةِ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوا عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَجِدُوهُ قَوِيًّا أَمِينًا، لَا يَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَلَا أُرَاكُمْ فَاعِلِينَ، تَجِدُوهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا، يَأْخُذُ بِكُمْ الطَّرِيقَ الْمُسْتَقِيمَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کے بعد ہم کسے اپنا امیر مقرر کریں؟ فرمایا: ”اگر ابوبکر کو امیر بناؤ گے تو انہیں امین پاؤ گے، دنیا سے بےرغبت اور آخرت کا مشتاق پاؤ گے، اگر عمر کو امیر بناؤ گے تو انہیں طاقتور اور امین پاؤ گے، وہ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے، اور اگر تم علی کو امیر بناؤ گے - لیکن میرا خیال ہے کہ تم ایسا نہیں کرو گے - تو انہیں ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ پاؤ گے، جو تمہیں صراط مستقیم پر لے کر چلیں گے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا شعبة ، عن ابي التياح ، قال: سمعت رجلا من عنزة يحدث، عن رجل من بني اسد، قال: خرج علينا علي رضي الله عنه، فقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم" امر بالوتر، ثبت وتره هذه الساعة"، يا ابن النباح اذن، او ثوب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ عَنَزَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَ بِالْوَتْرِ، ثَبَتَ وِتْرُهُ هَذِهِ السَّاعَةَ"، يَا ابْنَ النَّبَّاحِ أَذِّنْ، أَوْ ثَوِّبْ.
بنو اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں تشریف لائے، (لوگوں نے ان سے وتر کے متعلق سوالات پوچھے) انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ”اس وقت وتر ادا کر لیا کریں۔“ ابن نباح! اٹھ کر اذان دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل من بني أسد
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي التياح ، حدثني رجل من عنزة، عن رجل من بني اسد، قال: خرج علي حين ثوب المثوب لصلاة الصبح، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" امرنا نوتر، فثبت له هذه الساعة"، ثم قال: اقم يا ابن النواحة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ عَنَزَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، قَالَ: خَرَجَ عَلِيٌّ حِينَ ثَوَّبَ الْمُثَوِّبُ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَنَا نُوِتْرٍ، فَثَبَتَ لَهُ هَذِهِ السَّاعَةَ"، ثُمَّ قَالَ: أَقِمْ يَا ابْنَ النَّوَّاحَةِ.
بنو اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے، اس وقت مؤذن نماز فجر کے لئے لوگوں کو مطلع کر رہا تھا، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ”اس وقت وتر ادا کر لیا کریں۔“ ابن نواحہ! اٹھ کر اقامت کہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم ، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن كليب ، قال: سمعت ابا بردة يحدث، عن علي رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى ان يتختم في ذه او ذه: الوسطى والسبابة"، وقال جابر، يعني الجعفي: هي الوسطى لا شك فيها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بُرْدَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى أَنْ يُتَخَتَّمَ فِي ذِهِ أَوْ ذِهْ: الْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ"، وقَالَ جَابِرٌ، يَعْنِي الْجُعَفِيَّ: هِيَ الْوُسْطَى لَا شَكَّ فِيهَا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیانی شہادت والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن بحر ، حدثنا عيسى بن يونس ، حدثنا زكريا ، عن ابي إسحاق ، عن هانئ بن هانئ ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان ابو بكر رضي الله عنه يخافت بصوته إذا قرا، وكان عمر رضي الله عنه يجهر بقراءته، وكان عمار رضي الله عنه إذا قرا ياخذ من هذه السورة وهذه، فذكر ذاك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال لابي بكر رضي الله عنه:" لم تخافت؟"، قال: إني لاسمع من اناجي، وقال لعمر رضي الله عنه:" لم تجهر بقراءتك؟"، قال: افزع الشيطان، واوقظ الوسنان، وقال لعمار:" لم تاخذ من هذه السورة وهذه؟"، قال اتسمعني اخلط به ما ليس منه؟ قال:" لا"، قال: فكله طيب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُخَافِتُ بِصَوْتِهِ إِذَا قَرَأَ، وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَجْهَرُ بِقِرَاءَتِهِ، وَكَانَ عَمَّارٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا قَرَأَ يَأْخُذُ مِنْ هَذِهِ السُّورَةِ وَهَذِهِ، فَذُكِرَ ذَاكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" لِمَ تُخَافِتُ؟"، قَالَ: إِنِّي لَأُسْمِعُ مَنْ أُنَاجِي، وَقَالَ لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" لِمَ تَجْهَرُ بِقِرَاءَتِكَ؟"، قَالَ: أُفْزِعُ الشَّيْطَانَ، وَأُوقِظُ الْوَسْنَانَ، وَقَالَ لِعَمَّارٍ:" لِمَ تَأْخُذُ مِنْ هَذِهِ السُّورَةِ وَهَذِهِ؟"، قَالَ أَتَسْمَعُنِي أَخْلِطُ بِهِ مَا لَيْسَ مِنْهُ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: فَكُلُّهُ طَيِّبٌ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے تو آواز کو پست رکھتے، جبکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بلند آواز سے قرآن کریم پڑھتے تھے، اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کبھی کسی سورت سے تلاوت فرماتے اور کبھی کسی سورت سے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس کا تذکرہ ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ”آپ اپنی آواز کو پست کیوں رکھتے ہیں؟“ عرض کیا کہ میں جس سے مناجات کرتا ہوں اسی کو سناتا ہوں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بلند آواز کے ساتھ تلاوت کرنے کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے عرض کیا کہ میں شیطان کو بھگاتا ہوں اور سونے والوں کو جگاتا ہوں، سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ”آپ کبھی کسی سورت سے اور کبھی دوسری سورت سے تلاوت کیوں کرتے ہیں؟“ عرض کیا کہ کیا آپ نے مجھے کسی سورت میں دوسری سورت کو خلط ملط کرتے ہوئے سنا ہے؟ فرمایا: ”نہیں، سب ہی اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، هانئ بن هانئ مجهول، وأبو إسحاق تغير بأخرة، رواية زكريا عنه بعد تغيره
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن جعفر الوركاني ، حدثنا ابو معشر نجيح المدني مولى بني هاشم، عن نافع ، عن ابن عمر رضي الله عنه، قال: وضع عمر بن الخطاب رضي الله عنه بين المنبر والقبر، فجاء علي رضي الله عنه حتى قام بين يدي الصفوف، فقال: هو هذا، ثلاث مرات، ثم قال:" رحمة الله عليك، ما من خلق الله تعالى احب إلي من ان القاه بصحيفته بعد صحيفة النبي صلى الله عليه وسلم، من هذا المسجى عليه ثوبه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرَكَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ نَجِيحٌ الْمَدَنِيُّ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَيْنَ الْمِنْبَرِ وَالْقَبْرِ، فَجَاءَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى قَامَ بَيْنَ يَدَيْ الصُّفُوفِ، فَقَالَ: هُوَ هَذَا، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ:" رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ، مَا مِنْ خَلْقِ اللَّهِ تَعَالَى أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَلْقَاهُ بِصَحِيفَتِهِ بَعْدَ صَحِيفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ هَذَا الْمُسَجَّى عَلَيْهِ ثَوْبُهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا جنازہ منبر اور روضہ مبارکہ کے درمیان لا کر رکھ دیا گیا، اس اثناء میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور صفوں کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگے: یہ وہی ہیں (یہ جملہ انہوں نے تین مرتبہ کہا)، پھر فرمایا: اللہ کی رحمتوں کا نزول ہو آپ پر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ اعمال کے بعد اس کپڑا اوڑھے ہوئے شخص کے علاوہ اللہ کی پوری مخلوق میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرنا مجھے محبوب ہو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى معشر نجيح ، وانظر مابعده
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثنا سويد بن سعيد الهروي ، حدثنا يونس بن ابي يعفور ، عن عون بن ابي جحيفة ، عن ابيه ، قال: كنت عند عمر رضي الله عنه، وهو مسجى ثوبه، قد قضى نحبه، فجاء علي رضي الله عنه فكشف الثوب عن وجهه، ثم قال:" رحمة الله عليك يا ابا حفص، فوالله ما بقي بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم احد احب إلي من ان القى الله تعالى بصحيفته منك،.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَرَوِيُّ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي يَعْفُورٍ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَهُوَ مُسَجًّى ثَوْبِهِ، قَدْ قَضَى نَحْبَهُ، فَجَاءَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَكَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمّ قَالَ:" رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ يا أَبَا حَفْصٍ، فَوَاللَّهِ مَا بَقِيَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ تَعَالَى بِصَحِيفَتِهِ مِنْكَ،.
ابوجحیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے جنازے کے قریب ہی تھا، ان کا چہرہ کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا، اسی اثناء میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور ان کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر فرمایا: اے ابوحفص! اللہ کی رحمتوں کا نزول ہو آپ پر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ اعمال کے بعد آپ کے علاوہ اللہ کی پوری مخلوق میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرنا مجھے محبوب ہو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، سويد بن سعيد ويونس بن أبى يعفور حديثهما حسن فى المتابعات والشواهد، وانظر ما قبله
(حديث مرفوع) حدثنا عبيدة بن حميد التيمي ابو عبد الرحمن ، حدثني ركين ، عن حصين بن قبيصة ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: كنت رجلا مذاء، فجعلت اغتسل في الشتاء حتى تشقق ظهري، قال: فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، او ذكر له، قال: فقال:" لا تفعل، إذا رايت المذي فاغسل ذكرك، وتوضا وضوءك للصلاة، فإذا فضخت الماء فاغتسل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ التَّيْمِيُّ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي رُكَيْنٌ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ قَبِيصَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً، فَجَعَلْتُ أَغْتَسِلُ فِي الشِّتَاءِ حَتَّى تَشَقَّقَ ظَهْرِي، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ ذُكِرَ لَهُ، قَالَ: فَقَالَ:" لَا تَفْعَلْ، إِذَا رَأَيْتَ الْمَذْيَ فَاغْسِلْ ذَكَرَكَ، وَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ، فَإِذَا فَضَخْتَ الْمَاءَ فَاغْتَسِلْ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے جسم سے خروج مذی بکثرت ہوتا تھا، میں سردی میں بھی اس کی وجہ سے اتنا غسل کرتا تھا کہ میری کمر چھل گئی تھی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو فرمایا: ”ایسا نہ کرو، جب مذی دیکھو تو اپنی شرمگاہ کو دھو لیا کرو اور نماز جیسا وضو کر لیا کرو، اور اگر منی خارج ہو تو غسل کر لیا کرو۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا تو فرمایا: ”مذی میں صرف وضو واجب ہے، اور خروج منی کی صورت میں غسل واجب ہوتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے ایک آدمی سے کہا، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا تو فرمایا: ”مذی میں صرف وضو واجب ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح. م: 303 ، وانظر ماتقدم برقم: 823، وفيه أن الرجل الذى أمره أن يسأل النبى هو المقداد بن الأسود
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن سليمان لوين ، حدثنا حماد بن زيد ، عن عاصم ، عن زر ، عن ابي جحيفة ، قال: خطبنا علي رضي الله عنه، فقال:" الا اخبركم بخير هذه الامة بعد نبيها؟ ابو بكر الصديق رضي الله عنه، ثم قال: الا اخبركم بخير هذه الامة بعد نبيها وبعد ابي بكر رضي الله عنه؟ فقال: عمر".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ لُوَيْنٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ:" أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا؟ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ؟ فَقَالَ: عُمَرُ".
ابوجحیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے (دوران خطبہ یہ) فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور میں تمہیں بتاؤں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عائذ بن حبيب ، حدثني عامر بن السمط ، عن ابي الغريف ، قال: اتي علي رضي الله عنه بوضوء، فمضمض واستنشق ثلاثا، وغسل وجهه ثلاثا، وغسل يديه وذراعيه ثلاثا ثلاثا، ثم مسح براسه، ثم غسل رجليه، ثم قال: هكذا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضا، ثم قرا شيئا من القرآن، ثم قال:" هذا لمن ليس بجنب، فاما الجنب فلا، ولا آية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ السِّمْطِ ، عَنْ أَبِي الْغَرِيفِ ، قَالَ: أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِوَضُوءٍ، فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ يَدَيْهِ وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ، ثُمَّ قَرَأَ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ قَالَ:" هَذَا لِمَنْ لَيْسَ بِجُنُبٍ، فَأَمَّا الْجُنُبُ فَلَا، وَلَا آيَةَ".
ابوالغریف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس وضو کا پانی لایا گیا، انہوں نے تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، ہاتھوں اور کہنیوں کو تین تین مرتبہ دھویا، سر کا مسح کیا اور پاؤں کو دھو کر فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے، پھر قرآن کریم کے کچھ حصے کی تلاوت کی اور فرمایا: یہ اس شخص کے لئے ہے جو جنبی نہ ہو، جنبی کے لئے یہ حکم نہیں ہے، اور نہ ہی وہ کسی ایک آیت کی تلاوت کر سکتا ہے۔
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوران وضو سر کا مسح کیا اور اتنا پانی ڈالا کہ قریب تھا کہ اس کے قطرے ٹپکنا شروع ہو جاتے، اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن ابان بن عمران الواسطي ، حدثنا شريك ، عن مخارق ، عن طارق يعني ابن شهاب ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول:" ما عندنا كتاب نقرؤه عليكم إلا ما في القرآن، وما في هذه الصحيفة، صحيفة كانت في قراب سيف كان عليه، حليته حديد، اخذتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيها فرائض الصدقة".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ عِمْرَانَ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مُخَارِقٍ ، عَنْ طَارِقٍ يَعْنِي ابْنَ شِهَابٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" مَا عِنْدَنَا كِتَابٌ نَقْرَؤُهُ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا فِي الْقُرْآنِ، وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، صَحِيفَةٌ كَانَتْ فِي قِرَابِ سَيْفٍ كَانَ عَلَيْهِ، حِلْيَتُهُ حَدِيدٌ، أَخَذْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهَا فَرَائِضُ الصَّدَقَةِ".
طارق بن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ واللہ! ہمارے پاس قرآن کریم کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھتے ہوں، یا پھر یہ صحیفہ ہے جو تلوار سے لٹکا ہوا ہے، میں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا تھا، اس میں زکوٰۃ کے حصص کی تفصیل درج ہے۔ مذکورہ صحیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس تلوار سے لٹکا رہتا تھا جس کے حلقے لوہے کے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
(حديث مرفوع) حدثنا مروان ، حدثنا عبد الملك بن سلع الهمداني ، عن عبد خير ، قال: علمنا علي رضي الله عنه وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فصب الغلام على يديه حتى انقاهما، ثم ادخل يده في الركوة، فمضمض واستنشق، وغسل وجهه ثلاثا ثلاثا، وذراعيه إلى المرفقين ثلاثا ثلاثا، ثم ادخل يده في الركوة فغمر اسفلها بيده، ثم اخرجها فمسح بها الاخرى، ثم مسح بكفيه راسه مرة، ثم غسل رجليه إلى الكعبين ثلاثا ثلاثا، ثم اغترف هنية من ماء بكفه فشربه، ثم قال: هكذا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ سَلْعٍ الْهَمْدَانِيُّ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، قَالَ: عَلَّمَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وُضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَصَبَّ الْغُلَامُ عَلَى يَدَيْهِ حَتَّى أَنْقَاهُمَا، ثُمَّ أَدَخَلَ يَدَهُ فِي الرَّكْوَةِ، فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَذِرَاعَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ فِي الرَّكْوَةِ فَغَمَرَ أَسْفَلَهَا بِيَدِهِ، ثُمَّ أَخْرَجَهَا فَمَسَحَ بِهَا الْأُخْرَى، ثُمَّ مَسَحَ بِكَفَّيْهِ رَأْسَهُ مَرَّةً، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ اغْتَرَفَ هُنَيَّةً مِنْ مَاءٍ بِكَفِّهِ فَشَرِبَهُ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ".
عبدخیر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو سکھایا، چنانچہ سب سے پہلے ایک لڑکے نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا، انہوں نے اپنے ہاتھوں کو صاف کیا، پھر انہیں برتن میں ڈالا، کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازوؤں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، پھر دوبارہ اپنے ہاتھوں کو برتن میں ڈالا اور اپنے ہاتھ کو اس کے نیچے ڈبو دیا، پھر اسے باہر نکال کر دوسرے ہاتھ پر مل لیا اور دونوں ہتھیلیوں سے سر کا ایک مرتبہ مسح کیا، اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے، پھر ہتھیلی سے چلو بنا کر تھوڑا سا پانی لیا اور اسے پی گئے، اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو پسند کرتا ہے۔“
ابوجحیفہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر ایک اور آدمی ہے۔
ابوجحیفہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اگر میں چاہوں تو تیسرے آدمی کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔
ابوجحیفہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اگر میں چاہوں تو تیسرے آدمی کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا شعبة ، قال: الحكم اخبرني، عن ابي محمد ، عن علي رضي الله عنه، قال: بعثه النبي صلى الله عليه وسلم إلى المدينة، فامره ان" يسوي القبور".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: الْحَكَمُ أَخْبَرَنِي، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَأَمَرَهُ أَنْ" يُسَوِّيَ الْقُبُورَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ منورہ بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ تمام قبروں کو برابر کر دیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى محمد الهذلي الراوي عن علي
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا شريك ، عن سماك ، عن حنش ، عن علي رضي الله عنه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، قال: فقلت: يا رسول الله، تبعثني إلى قوم اسن مني، وانا حدث لا ابصر القضاء؟ قال: فوضع يده على صدري، وقال:" اللهم ثبت لسانه، واهد قلبه، يا علي، إذا جلس إليك الخصمان فلا تقض بينهما حتى تسمع من الآخر كما سمعت من الاول، فإنك إذا فعلت ذلك تبين لك القضاء"، قال: فما اختلف علي قضاء بعد، او ما اشكل علي قضاء بعد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَبْعَثُنِي إِلَى قَوْمٍ أَسَنَّ مِنِّي، وَأَنَا حَدِثٌ لَا أُبْصِرُ الْقَضَاءَ؟ قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى صَدْرِي، وَقَالَ:" اللَّهُمَّ ثَبِّتْ لِسَانَهُ، وَاهْدِ قَلْبَهُ، يَا عَلِيُّ، إِذَا جَلَسَ إِلَيْكَ الْخَصْمَانِ فَلَا تَقْضِ بَيْنَهُمَا حَتَّى تَسْمَعَ مِنَ الْآخَرِ كَمَا سَمِعْتَ مِنَ الْأَوَّلِ، فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ تَبَيَّنَ لَكَ الْقَضَاءُ"، قَالَ: فَمَا اخْتَلَفَ عَلَيَّ قَضَاءٌ بَعْدُ، أَوْ مَا أَشْكَلَ عَلَيَّ قَضَاءٌ بَعْدُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجنے کا ارادہ کیا، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ایسی قوم کی طرف بھیج رہے ہیں جو مجھ سے بڑی عمر کی ہے اور میں نو عمر ہوں، صحیح طرح فیصلہ نہیں کر سکتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر رکھا اور دعا کی: «اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْ لِسَانَهُ وَاهْدِ قَلْبَهُ»”اے اللہ! اس کی زبان کو ثابت قدم رکھ اور اس کے دل کو ہدایت بخش۔“ اے علی! جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا بلکہ دونوں کی بات سننا، اس طرح تمہارے لئے فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے کبھی کسی فیصلے میں اشکال پیش نہیں آیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا شريك ، عن الاعمش ، عن المنهال ، عن عباد بن عبد الله الاسدي ، عن علي رضي الله عنه، قال: لما نزلت هذه الآية: وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214، قال: جمع النبي صلى الله عليه وسلم من اهل بيته، فاجتمع ثلاثون، فاكلوا وشربوا، قال: فقال لهم:" من يضمن عني ديني ومواعيدي، ويكون معي في الجنة، ويكون خليفتي في اهلي؟"، فقال رجل، لم يسمه شريك: يا رسول الله، انت كنت بحرا، من يقوم بهذا؟! قال: ثم قال الآخر، قال: فعرض ذلك على اهل بيته، فقال علي رضي الله عنه: انا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْهَالِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسَدِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَالَ: جَمَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَاجْتَمَعَ ثَلَاثُونَ، فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا، قَالَ: فَقَالَ لَهُمْ:" مَنْ يَضْمَنُ عَنِّي دَيْنِي وَمَوَاعِيدِي، وَيَكُونُ مَعِي فِي الْجَنَّةِ، وَيَكُونُ خَلِيفَتِي فِي أَهْلِي؟"، فَقَالَ رَجُلٌ، لَمْ يُسَمِّهِ شَرِيكٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْتَ كُنْتَ بَحْرًا، مَنْ يَقُومُ بِهَذَا؟! قَالَ: ثُمَّ قَالَ الْآخَرُ، قَالَ: فَعَرَضَ ذَلِكَ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آیت ذیل کا نزول ہوا: «﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ [الشعراء: 214] » تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا، تیس آدمی اکٹھے ہوئے اور سب نے کھایا پیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”میرے قرضوں اور وعدوں کی تکمیل کی ضمانت کون دیتا ہے کہ وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا، اور میرے اہل خانہ میں میرا نائب ہوگا؟“ کسی شخص نے بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ تو سمندر تھے، آپ کی جگہ کون کھڑا ہو سکتا تھا؟ بہرحال! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سے بھی یہی کہا، بالآخر اپنے اہل بیت کے سامنے یہ دعوت پیش کی، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کام میں کروں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك بن عبدالله النخعي وعباد بن عبدالله الأسدي
(حديث مرفوع) حدثنا اسود ، حدثنا شريك ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان" يوتر عند الاذان، ويصلي الركعتين عند الإقامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُوتِرُ عِنْدَ الْأَذَانِ، وَيُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ عِنْدَ الْإِقَامَةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان فجر کے قریب وتر ادا فرماتے تھے، اور اقامت کے قریب فجر کی سنتیں پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك والحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا اسود ، حدثنا شريك ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي بالنهار ست عشرة ركعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي بِالنَّهَارِ سِتَّ عَشْرَةَ رَكْعَةً".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پورے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کی سولہ رکعتیں ہوتی تھیں۔
حكم دارالسلام: صحيح، شريك - وإن كان سيء الحفظ - قد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آنکھ شرمگاہ کا بندھن ہے (یعنی انسان جب تک جاگ رہا ہوتا ہے اسے اپنا وضو ٹوٹنے کی خبر ہو جاتی ہے اور سوتے ہوئے کچھ پتہ نہیں چلتا)، اس لئے جو شخص سو جائے اسے چاہئے کہ بیدار ہونے کے بعد وضو کر لیا کرے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتدليس بقية بن الوليد الحمصي، والوضين بن عطاء مختلف فيه. وعبدالرحمن بن عائذ حديثه عن على مرسل
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے موقع پر جب میں نے مرحب کو قتل کر لیا تو اس کا سر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لا کر پیش کر دیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے رفیق حیان کو مخاطب کر کے فرمایا: میں تمہیں اس کام کے لئے بھیج رہا ہوں جس کام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا، انہوں نے مجھے ہر قبر کو برابر کرنے اور ہر بت کو مٹا ڈالنے کا حکم دیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف يونس بن خباب، وأصل الحديث صحيح، وانظر 741
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا، تو فرمایا: ”مذی میں صرف وضو واجب ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا، تو فرمایا: ”منی میں تو غسل واجب ہے، اور مذی میں صرف وضو واجب ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد الاموي ، حدثنا ابن ابي ليلى ، عن ابن الاصبهاني ، عن جدة له وكانت سرية لعلي رضي الله عنه، قالت: قال علي رضي الله عنه:" كنت رجلا نئوما، وكنت إذا صليت المغرب وعلي ثيابي نمت ثم، قال يحيى بن سعيد: فانام قبل العشاء، فسالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فرخص لي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ ابْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ ، عَنْ جَدَّةٍ لَهُ وَكَانَتْ سُرِّيَّةً لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَتْ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" كُنْتُ رَجُلًا نَئُومًا، وَكُنْتُ إِذَا صَلَّيْتُ الْمَغْرِبَ وَعَلَيَّ ثِيَابِي نِمْتُ ثَمَّ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: فَأَنَامُ قَبْلَ الْعِشَاءِ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَرَخَّصَ لِي".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بہت نیند آتی تھی، حتی کہ جب میں مغرب کی نماز پڑھ لیتا اور کپڑے مجھ پر ہوتے تو میں وہیں سو جاتا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عشاء سے پہلے سونے کی اجازت دے دی (اس شرط کے ساتھ کہ نماز عشاء کے لئے آپ بیدار ہو جاتے تھے)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن أبى ليلى- وهو محمد بن عبدالرحمن - سيء الحفظ، وجدة ابن الأصبهاني لا تعرف
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا، تو فرمایا: ”منی میں تو غسل واجب ہے، اور مذی میں صرف وضو واجب ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہدی کا جانور بھیجا اور حکم دیا کہ ”ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دیں اور گوشت بھی تقسیم کر دیں۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد حسن. خ: 1717، م: 1317
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا شجاع بن الوليد ، قال: ذكر خلف بن حوشب ، عن ابي إسحاق ، عن عبد خير ، عن علي رضي الله عنه، قال:" سبق النبي صلى الله عليه وسلم، وصلى ابو بكر، وثلث عمر رضي الله عنه، ثم خبطتنا، او اصابتنا، فتنة، يعفو الله عمن يشاء".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ ، قَالَ: ذَكَرَ خَلَفُ بْنُ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" سَبَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ، وَثَلَّثَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثُمَّ خَبَطَتْنَا، أَوْ أَصَابَتْنَا، فِتْنَةٌ، يَعْفُو اللَّهُ عَمَّنْ يَشَاءُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے تشریف لے گئے، دوسرے نمبر پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اور تیسرے نمبر پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اس کے بعد ہمیں امتحانات نے گھیر لیا، اللہ جسے چاہے گا اسے معاف فرما دے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، أبو إسحاق تغير بأخرة، وسماع خلف منه لايعرف قبل التغير أم بعده
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان ، حدثني شريح يعني ابن عبيد ، قال: ذكر اهل الشام عند علي بن ابي طالب رضي الله عنه وهو بالعراق، فقالوا: العنهم يا امير المؤمنين، قال: لا، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" الابدال يكونون بالشام، وهم اربعون رجلا، كلما مات رجل ابدل الله مكانه رجلا، يسقى بهم الغيث، وينتصر بهم على الاعداء، ويصرف عن اهل الشام بهم العذاب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنِي شُرَيْحٌ يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدٍ ، قَالَ: ذُكِرَ أَهْلُ الشَّامِ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ بِالْعِرَاقِ، فَقَالُوا: الْعَنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: لَا، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ، وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ رَجُلًا، يُسْقَى بِهِمْ الْغَيْثُ، وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الْأَعْدَاءِ، وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِمْ الْعَذَابُ".
ابن عبید کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جس وقت عراق میں تھے، ان کے سامنے اہل شام کا تذکرہ ہوا، لوگوں نے کہا: امیر المومنین! ان کے لئے لعنت کی بد دعا کیجئے، فرمایا: نہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”ابدال شام میں ہوتے ہیں، یہ کل چالیس آدمی ہوتے ہیں، جب بھی ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ بدل کر کسی دوسرے کو مقرر فرما دیتے ہیں (اور اسی وجہ سے انہیں ابدال کہا جاتا ہے)، ان کی دعا کی برکت سے بارش برستی ہے، ان ہی کی برکت سے دشمنوں پر فتح نصیب ہوتی ہے، اور اہل شام سے ان ہی کی برکت سے عذاب کو ٹال دیا جاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، شريح ابن عبيد لم يدرك علياً، وحديث الباب باطل عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قربانی کے جانوروں کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ قصاب کو ان میں سے کوئی چیز مزدوری کے طور پر نہ دوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1717، م: 1317، سويد بن سعيد قد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن إسحاق ، اخبرنا عبد الله يعني ابن المبارك ، اخبرنا عمر بن سعيد بن ابي حسين ، عن ابن ابي مليكة ، انه سمع ابن عباس ، يقول: وضع عمر بن الخطاب رضي الله عنه على سريره، فتكنفه الناس يدعون ويصلون قبل ان يرفع، وانا فيهم، فلم يرعني إلا رجل قد اخذ بمنكبي من ورائي، فالتفت فإذا هو علي بن ابي طالب رضي الله عنه، فترحم على عمر رضي الله عنه، فقال: ما خلفت احدا احب إلي ان القى الله تعالى بمثل عمله منك، وايم الله إن كنت لاظن ليجعلنك الله مع صاحبيك، وذلك اني كنت اكثر ان اسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" فذهبت انا وابو بكر وعمر، ودخلت انا وابو بكر وعمر، وخرجت انا وابو بكر وعمر"، وإن كنت لاظن ليجعلنك الله معهما.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى سَرِيرِهِ، فَتَكَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُونَ وَيُصَلُّونَ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ، وَأَنَا فِيهِمْ، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَجُلٌ قَدْ أَخَذَ بِمَنْكِبِي مِنْ وَرَائِي، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ تَعَالَى بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ لَيَجْعَلَنَّكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ، وَذَلِكَ أَنِّي كُنْتُ أُكْثِرُ أَنْ أَسْمَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" فَذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ"، وَإِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ لَيَجْعَلَنَّكَ اللَّهُ مَعَهُمَا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے جسد خاکی کو چار پائی پر لا کر رکھا گیا تو لوگوں نے چاروں طرف سے انہیں گھیر لیا، ان کے لئے دعائیں کرنے لگے، اور جنازہ اٹھائے جانے سے قبل ہی ان کی نماز جنازہ پڑھنے لگے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک آدمی نے پیچھے سے آکر میرے کندھے پکڑ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، میں نے دیکھا تو وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لئے دعا رحمت کی اور انہیں مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ نے اپنے پیچھے کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جس کے نامہ اعمال کے ساتھ مجھے اللہ سے ملنا زیادہ پسند ہو، واللہ! مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا، کیونکہ میں کثرت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنتا تھا کہ ”میں، ابوبکر اور عمر گئے؛ میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے ہیں؛ میں، ابوبکر اور عمر نکلے۔“ اس لئے مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان دونوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہوتے تو ”سبحان اللہ“ کہہ دیتے، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو یوں ہی اجازت دے دیتے (اور سبحان اللہ کہنے کی ضرورت نہ رہتی)۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، انبانا شعيب ، عن الزهري ، اخبرني علي بن حسين ، ان حسين بن علي رضي الله عنه اخبره، ان علي بن ابي طالب رضي الله عنه اخبره، ان النبي صلى الله عليه وسلم طرقه وفاطمة رضي الله عنها ابنة النبي صلى الله عليه وسلم ليلة، فقال:" الا تصليان؟"، فقلت: يا رسول الله، إنما انفسنا بيد الله، فإذا شاء ان يبعثنا بعثنا، فانصرف حين قلت ذلك، ولم يرجع إلي شيئا، ثم سمعته وهو مول يضرب فخذه يقول وكان الإنسان اكثر شيء جدلا سورة الكهف آية 54.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ابْنَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَقَالَ:" أَلَا تُصَلِّيَانِ؟"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْتُ ذَلِكَ، وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ يَقُولُ وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلا سورة الكهف آية 54.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت ہمارے یہاں تشریف لائے اور کہنے لگے کہ ”تم لوگ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟“ میں نے جواب دیتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری روحیں اللہ کے قبضے میں ہیں، جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مجھے کوئی جواب نہ دیا اور واپس چلے گئے، میں نے کان لگا کر سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران پر اپنا ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ”انسان بہت زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ نرم ہے، نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطاء فرما دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن فى الشواهد، عبدالله بن وهب وأبو خليفة كل منهما مقبول، وله شاهد من حديث عائشة عند مسلم برقم: 2593
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص میری طرف نسبت کر کے کوئی ایسی حدیث بیان کرے جسے وہ جھوٹ سمجھتا ہے تو وہ دو میں سے ایک جھوٹا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ايوب ، وهشام ، عن محمد ، عن عبيدة ، ان عليا رضي الله عنه ذكر اهل النهروان، فقال:" فيهم رجل مودن اليد، او مثدون اليد، او مخدج اليد، لولا ان تبطروا لنباتكم ما وعد الله الذين يقتلونهم على لسان محمد صلى الله عليه وسلم"، فقلت لعلي: انت سمعته؟ قال: إي ورب الكعبة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، وَهِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ذَكَرَ أَهْلَ النَّهْرَوَانِ، فَقَالَ:" فِيهِمْ رَجُلٌ مُودَنُ الْيَدِ، أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ، أَوْ مُخْدَجُ الْيَدِ، لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَنَبَّأْتُكُمْ مَا وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَقُلْتُ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ خوارج کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہوگا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاؤ تو میں تم سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔
(حديث مرفوع) حدثنا منصور بن وردان الاسدي ، حدثنا علي بن عبد الاعلى ، عن ابيه ، عن ابي البختري ، عن علي رضي الله عنه، قال: لما نزلت هذه الآية: ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا سورة آل عمران آية 97، قالوا: يا رسول الله، افي كل عام؟ فسكت، فقالوا: افي كل عام؟ فسكت، قال: ثم قالوا: افي كل عام؟ فقال:" لا، ولو قلت: نعم، لوجبت"، فانزل الله تعالى: يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم سورة المائدة آية 101، إلى آخر الآية.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ وَرْدَانَ الْأَسَدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا سورة آل عمران آية 97، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفِي كُلِّ عَامٍ؟ فَسَكَتَ، فَقَالُوا: أَفِي كُلِّ عَامٍ؟ فَسَكَتَ، قَالَ: ثُمَّ قَالُوا: أَفِي كُلِّ عَامٍ؟ فَقَالَ:" لَا، وَلَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ"، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101، إِلَى آخِرِ الْآيَةِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آیت ذیل کا نزول ہوا: «﴿وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾ [آل عمران: 97] » تو لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، تین مرتبہ سوال اور خاموشی کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہو جاتا۔“ اور اسی مناسبت سے یہ آیت نازل ہوئی: «﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ .....﴾ [المائدة: 101] »”اے اہل ایمان! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال مت کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو وہ تمہیں ناگوار گذریں ......۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح بالشواهد، وهذا إسناد ضعيف، عبد الأعلى الثعلبي ضعيف، وفيه انقطاع أيضاً، أبو البختري لم يسمع علياً
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن الحكم ، عن القاسم بن مخيمرة ، عن شريح بن هانئ ، قال: سالت عائشة رضي الله عنها عن المسح، فقالت: ائت عليا رضي الله عنه، فهو اعلم بذلك مني، قال: فاتيت عليا رضي الله عنه فسالته عن المسح على الخفين، قال: فقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يامرنا" ان نمسح على الخفين يوما وليلة، وللمسافر ثلاثا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنِ الْمَسْحِ، فَقَالَتْ: ائْتِ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَهُوَ أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنِّي، قَالَ: فَأَتَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، قَالَ: فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا" أَنْ نَمْسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ يَوْمًا وَلَيْلَةً، وَلِلْمُسَافِرِ ثَلَاثًا".
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، انہیں اس مسئلے کا زیادہ علم ہوگا، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایک دن رات موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیتے تھے، جو مسافر کے لئے تین دن اور تین رات ہے۔
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: کیا میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص کا نام بتاؤں؟ سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا عبد الله بن عون ، حدثنا مبارك بن سعيد اخو سفيان، عن ابيه ، عن حبيب بن ابي ثابت ، عن عبد خير الهمداني ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول على المنبر:" الا اخبركم بخير هذه الامة بعد نبيها؟ قال: فذكر ابا بكر، ثم قال: الا اخبركم بالثاني؟ قال: فذكر عمر رضي الله عنه، ثم قال: لو شئت لانباتكم بالثالث، قال: وسكت، فراينا انه يعني نفسه، فقلت: انت سمعته يقول هذا؟ قال: نعم ورب الكعبة، وإلا صمتا".(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ ، حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ سَعِيدٍ أَخُو سُفْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ الْهَمْدَانِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ:" أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا؟ قَالَ: فَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالثَّانِي؟ قَالَ: فَذَكَرَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: لَوْ شِئْتُ لَأَنْبَأْتُكُمْ بِالثَّالِثِ، قَالَ: وَسَكَتَ، فَرَأَيْنَا أَنَّهُ يَعْنِي نَفْسَهُ، فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ يَقُولُ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، وَإِلَّا صُمَّتَا".
عبدخیر ہمدانی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (دوران خطبہ یہ) کہتے ہوئے سنا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور میں تمہیں بتاؤں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھر فرمایا: اگر میں چاہوں تو تمہیں تیسرے آدمی کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔ تاہم وہ خاموش رہے، ہم یہی سمجھتے ہیں کہ وہ خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ میں نے راوی سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: رب کعبہ کی قسم! ہاں، (اگر میں جھوٹ بولوں) تو یہ کان بہرے ہو جائیں۔
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے (ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو سکھایا) چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے تین مرتبہ اپنی ہتھیلیوں کو دھویا، تین مرتبہ کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، مسهر - وإن فى حديثه لين - متابع
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن مسلم بن صبيح ، عن شتير بن شكل ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاحزاب:" شغلونا عن الصلاة الوسطى صلاة العصر، ملا الله قبورهم وبيوتهم نارا"، قال: ثم صلاها بين العشاءين: بين المغرب والعشاء، وقال ابو معاوية مرة: يعني: بين المغرب والعشاء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ:" شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى صَلَاةِ الْعَصْرِ، مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ نَارًا"، قَالَ: ثُمَّ صَلَّاهَا بَيْنَ الْعِشَاءَيْنِ: بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، وقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ مَرَّةً: يَعْنِي: بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز مغرب اور عشاء کے درمیان ادا فرمائی۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن خيثمة ، عن سويد بن غفلة ، قال: قال علي رضي الله عنه: إذا حدثتكم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا، فلان اخر من السماء احب إلي من ان اكذب عليه، وإذا حدثتكم عن غيره فإنما انا رجل محارب، والحرب خدعة، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" يخرج في آخر الزمان قوم احداث الاسنان، سفهاء الاحلام، يقولون من قول خير البرية، لا يجاوز إيمانهم حناجرهم، فاينما لقيتموهم فاقتلوهم، فإن قتلهم اجر لمن قتلهم يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ، وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ غَيْرِهِ فَإِنَّمَا أَنَا رَجُلٌ مُحَارِبٌ، وَالْحَرْبُ خَدْعَةٌ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ، لَا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: جب میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کروں تو میرے نزدیک آسمان سے گر جانا ان کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، اور جب کسی اور کے حوالے سے کوئی بات کروں تو میں جنگجو آدمی ہوں اور جنگ تو نام ہی تدبیر اور چال کا ہے۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”قیامت کے قریب ایسی اقوام نکلیں گی جن کی عمریں تھوڑی ہوں گی اور عقل کے اعتبار سے وہ بیوقوف ہوں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کریں گے، لیکن ایمان ان کے گلے سے آگے نہیں جائے گا، تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو، کیونکہ ان کا قتل کرنا قیامت کے دن باعث ثواب ہوگا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے (اس لئے چاندی کی زکوٰۃ بہرحال تمہیں ادا کرنا ہوگی)، اور دو سو درہم سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، حدثنا الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن ، عن علي رضي الله عنه، قال: قلت: يا رسول الله، ما لي اراك تنوق في قريش وتدعنا؟ قال:" وعندك شيء؟"، قلت: بنت حمزة، قال:" هي بنت اخي من الرضاعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لِي أَرَاكَ تَنَوَّقُ فِي قُرَيْشٍ وَتَدَعُنَا؟ قَالَ:" وعِنْدَكَ شَيْءٌ؟"، قُلْتُ: بِنْتُ حَمْزَةَ، قَالَ:" هِيَ بِنْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں چھوڑ کر قریش کے دوسرے خاندانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی، فرمایا: ”وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔“(دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے اور چچا بھتیجے بھی)۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن سلمة ، عن ابن إسحاق ، عن ابان بن صالح ، عن عكرمة ، قال: افضت مع الحسين بن علي رضي الله عنه من المزدلفة، فلم ازل اسمعه يلبي حتى رمى جمرة العقبة، فسالته، فقال: افضت مع ابي من المزدلفة، فلم ازل اسمعه يلبي حتى رمى جمرة العقبة، فسالته فقال: افضت مع النبي صلى الله عليه وسلم من المزدلفة، فلم ازل اسمعه" يلبي حتى رمى جمرة العقبة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، قَالَ: أَفَضْتُ مَعَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ، فَلَمْ أَزَلْ أَسْمَعُهُ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: أَفَضْتُ مَعَ أَبِي مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ، فَلَمْ أَزَلْ أَسْمَعُهُ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: أَفَضْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ، فَلَمْ أَزَلْ أَسْمَعُهُ" يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ".
عکرمہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوا تو میں نے انہیں مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا، تا آنکہ انہوں نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، میں نے ان سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوا تھا تو میں نے انہیں بھی جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا، میں نے ان سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، محمد بن إسحاق صرح بالتحديث عند أبى يعلى والبيهقي
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، عن عطاء بن السائب ، عن ميسرة ، قال: رايت عليا رضي الله عنه يشرب قائما، قال: فقلت له: تشرب قائما؟! فقال:" إن اشرب قائما، فقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يشرب قائما، وإن اشرب قاعدا، فقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يشرب قاعدا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ مَيْسَرَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَشْرَبُ قَائِمًا، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: تَشْرَبُ قَائِمًا؟! فَقَالَ:" إِنْ أَشْرَبْ قَائِمًا، فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْرَبُ قَائِمًا، وَإِنْ أَشْرَبْ قَاعِدًا، فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْرَبُ قَاعِدًا".
میسرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا، میں نے ان سے کہا کہ آپ کھڑے ہو کر پانی پی رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اگر میں نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کیا ہے، اور اگر بیٹھ کر پیا ہے تو انہیں اس طرح بھی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، ابن فضيل - وإن كان روي عن عطاء بعد الاختلاط - قد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا إسحاق بن إسماعيل ، حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن ابي إسحاق ، عن عبد خير ، عن علي رضي الله عنه، قال: كنت ارى ان باطن القدمين احق بالمسح من ظاهرهما، حتى رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" يمسح ظاهرهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ أَرَى أَنَّ بَاطِنَ الْقَدَمَيْنِ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ مِنْ ظَاهِرِهِمَا، حَتَّى رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَمْسَحُ ظَاهِرَهُمَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری رائے یہ تھی کہ مسح علی الخفین کے لئے موزوں کا وہ حصہ زیادہ موزوں ہے جو زمین کے ساتھ لگتا ہے بہ نسبت اس حصے کے جو پاؤں کے اوپر رہتا ہے، حتیٰ کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اوپر کے حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میں نے اپنی رائے کو ترک کر دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، والأعمش كان مضطرباً فى حديث أبى إسحاق، وأشار الدارقطني فى العلل إلى الاختلاف فى سند الحديث ومتنه. وانظر ما بعده
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا إسحاق بن إسماعيل ، حدثنا سفيان ، عن ابي السوداء ، عن ابن عبد خير ، عن ابيه ، قال: رايت عليا رضي الله عنه توضا، فغسل ظهر قدميه، وقال: لولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" يغسل ظهور قدميه"، لظننت ان بطونهما احق بالغسل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي السَّوْدَاءِ ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَوَضَّأَ، فَغَسَلَ ظَهْرَ قَدَمَيْهِ، وَقَالَ: لَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَغْسِلُ ظُهُورَ قَدَمَيْهِ"، لَظَنَنْتُ أَنَّ بُطُونَهُمَا أَحَقُّ بِالْغَسْلِ.
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے پاؤں کے اوپر والے حصے کو دھویا اور فرمایا: اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پاؤں کا اوپر والا حصہ دھوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میری رائے یہ تھی کہ پاؤں کا نچلا حصہ دھوئے جانے کا زیادہ حق دار ہے (کیونکہ وہ زمین کے ساتھ زیادہ لگتا ہے)۔
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے (ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو سکھایا اور) فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے، اس وضو میں انہوں نے ہر عضو کو تین تین مرتبہ دھویا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا مغيرة ، عن ام موسى ، قالت: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: امر النبي صلى الله عليه وسلم ابن مسعود فصعد على شجرة، امره ان ياتيه منها بشيء، فنظر اصحابه إلى ساق عبد الله بن مسعود حين صعد الشجرة، فضحكوا من حموشة ساقيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما تضحكون؟! لرجل عبد الله اثقل في الميزان يوم القيامة من احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ ، عَنْ أُمِّ مُوسَى ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَ مَسْعُودٍ فَصَعِدَ عَلَى شَجَرَةٍ، أَمَرَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ مِنْهَا بِشَيْءٍ، فَنَظَرَ أَصْحَابُهُ إِلَى سَاقِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ حِينَ صَعِدَ الشَّجَرَةَ، فَضَحِكُوا مِنْ حُمُوشَةِ سَاقَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا تَضْحَكُونَ؟! لَرِجْلُ عَبْدِ اللَّهِ أَثْقَلُ فِي الْمِيزَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أُحُدٍ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو وہ درخت پر چڑھ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ لانے کا حکم دیا تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو درخت پر چڑھتے ہوئے دیکھا تو ان کی پنڈلی پر بھی نظر پڑی، وہ ان کی پتلی پتلی پنڈلیاں دیکھ کر ہنس پڑے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں ہنس رہے ہو؟ یقینا عبداللہ کا ایک پاؤں قیامت کے دن میزان عمل میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہوگا۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عبد الرزاق ، انبانا سفيان ، عن الاسود بن قيس ، عن رجل ، عن علي رضي الله عنه، انه قال يوم الجمل: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" لم يعهد إلينا عهدا ناخذ به في إمارة، ولكنه شيء رايناه من قبل انفسنا، ثم استخلف ابو بكر، رحمة الله على ابي بكر، فاقام واستقام، ثم استخلف عمر رحمة الله على عمر، فاقام واستقام، حتى ضرب الدين بجرانه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمَ الْجَمَلِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَمْ يَعْهَدْ إِلَيْنَا عَهْدًا نَأْخُذُ بِهِ فِي إِمَارَةِ، وَلَكِنَّهُ شَيْءٌ رَأَيْنَاهُ مِنْ قِبَلِ أَنْفُسِنَا، ثُمَّ اسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ، رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى أَبِي بَكْرٍ، فَأَقَامَ وَاسْتَقَامَ، ثُمَّ اسْتُخْلِفَ عُمَرُ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى عُمَرَ، فَأَقَامَ وَاسْتَقَامَ، حَتَّى ضَرَبَ الدِّينُ بِجِرَانِهِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل کے دن فرمایا کہ امارت کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کوئی وصیت نہیں فرمائی تھی جس پر ہم عمل کرتے، بلکہ یہ تو ایک چیز تھی جو ہم نے خود سے منتخب کر لی تھی، پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے، ان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، وہ قائم رہے اور قائم کر گئے، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے، ان پر بھی اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، وہ قائم رہے اور قائم کر گئے یہاں تک کہ دین نے اپنی گردن زمین پر ڈال دی (یعنی جم گیا اور مضبوط ہو گیا)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل الذى روى عن علي
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب بہترین شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں، اس کے بعد اللہ جہاں چاہتا ہے اپنی محبت پیدا فرما دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خالد الواسطي سماعه من عطاء بعد الاختلاط، لكن تابع عطاء حصين بن عبدالرحمن، وهو ثقة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی، ریشمی لباس یا عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پہننے اور رکوع یا سجدہ کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: جاء ثلاثة نفر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال احدهم: كانت لي مائة اوقية فانفقت منها عشرة اواق، وقال الآخر: كانت لي مائة دينار فتصدقت منها بعشرة دنانير، وقال الآخر: كانت لي عشرة دنانير فتصدقت منها بدينار، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" انتم في الاجر سواء، كل إنسان منكم تصدق بعشر ماله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: كَانَتْ لِي مِائَةُ أُوقِيَّةٍ فَأَنْفَقْتُ مِنْهَا عَشْرَةَ أَوَاقٍ، وَقَالَ الْآخَرُ: كَانَتْ لِي مِائَةُ دِينَارٍ فَتَصَدَّقْتُ مِنْهَا بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ، وَقَالَ الْآخَرُ: كَانَتْ لِي عَشَرَةُ دَنَانِيرَ فَتَصَدَّقْتُ مِنْهَا بِدِينَارٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتُمْ فِي الْأَجْرِ سَوَاءٌ، كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْكُمْ تَصَدَّقَ بِعُشْرِ مَالِهِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ تین آدمی بارگارہ رسالت میں حاضر ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا: میرے پاس سو اوقیے تھے جن میں سے دس اوقیے میں نے اللہ کے راستہ میں خرچ کر دیئے، دوسرے نے کہا: میرے پاس سو دینار تھے جن میں سے دس دینار میں نے اللہ کے راستہ میں خرچ کر دیئے، تیسرے نے کہا: میرے پاس دس دینار تھے جن میں سے ایک دینار میں نے اللہ کے راستہ میں خرچ کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سب اجر و ثواب میں برابر ہو، کیونکہ تم میں سے ہر ایک نے اپنے مال کا دسواں حصہ خرچ کیا ہے۔“
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے بعد ہم نے ایسی چیزیں ایجاد کر لی ہیں جن میں اللہ جو چاہے گا فیصلہ فرما دے گا۔
(حديث قدسي) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن ابي إسحاق ، عن علي بن ربيعة ، قال مرة: قال عبد الرازق: واكثر ذاك يقول: اخبرني من شهد عليا حين ركب، فلما وضع رجله في الركاب، قال: بسم الله، فلما استوى، قال: الحمد لله، ثم قال: سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين، وإنا إلى ربنا لمنقلبون، ثم حمد ثلاثا، وكبر ثلاثا، ثم قال: اللهم لا إله إلا انت، ظلمت نفسي فاغفر لي، إنه لا يغفر الذنوب إلا انت، ثم ضحك، قال: فقيل: ما يضحكك يا امير المؤمنين؟ قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم فعل مثل ما فعلت، وقال مثل ما قلت، ثم ضحك، فقلنا: ما يضحكك يا نبي الله؟ قال:" العبد، او قال: عجبت للعبد، إذا قال: لا إله إلا انت، ظلمت نفسي فاغفر لي، إنه لا يغفر الذنوب إلا انت، يعلم انه لا يغفر الذنوب إلا هو".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ مَرَّةً: قَالَ عَبْدُ الرَّازِقِ: وَأَكْثَرُ ذَاكَ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي مَنْ شَهِدَ عَلِيًّا حِينَ رَكِبَ، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الرِّكَابِ، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، فَلَمَّا اسْتَوَى، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، ثُمَّ حَمِدَ ثَلَاثًا، وَكَبَّرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، ثُمَّ ضَحِكَ، قَالَ: فَقِيلَ: مَا يُضْحِكُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ، وَقَالَ مِثْلَ مَا قُلْتُ، ثُمَّ ضَحِكَ، فَقُلْنَا: مَا يُضْحِكُكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ:" الْعَبْدُ، أَوْ قَالَ: عَجِبْتُ لِلْعَبْدِ، إِذَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا هُوَ".
علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے پاس سواری کے لئے ایک جانور لایا گیا، جب انہوں نے اپنا پاؤں اس کی رکاب میں رکھا تو بسم اللہ کہا، جب اس پر بیٹھ گئے تو یہ دعا پڑھی: الْحَمْدُ لِلّٰہِ، «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ»”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارا تابع فرمان بنا دیا، ہم تو اسے اپنے تابع نہیں کر سکتے تھے اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔“ پھر تین مرتبہ الحمدللہ اور تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: «اَللّٰهُمَّ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ»”اے اللہ! آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا پس مجھے معاف فرما دیجئے، کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا۔“ پھر مسکرا دیئے۔ میں نے پوچھا کہ امیر المومنین! اس موقع پر مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا جیسے میں نے کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرائے تھے، اور میں نے بھی ان سے اس کی وجہ پوچھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”جب بندہ یہ کہتا ہے کہ پروردگار! مجھے معاف فرما دے، تو مجھے خوشی ہوتی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ کے علاوہ اس کے گناہ کوئی معاف نہیں کر سکتا۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، أبو إسحاق دلسه ، فحذف منه رجلين بينه وبين على بن ربيعة
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن هانئ بن هانئ ، وهبيرة بن يريم ، عن علي ان ابنة حمزة تبعتهم تنادي: يا عم، يا عم، فتناولها علي فاخذ بيدها، وقال لفاطمة: دونك ابنة عمك فحوليها، فاختصم فيها علي، وزيد، وجعفر، فقال علي: انا اخذتها وهي ابنة عمي، وقال جعفر: ابنة عمي وخالتها تحتي، وقال زيد: ابنة اخي، فقضى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم لخالتها، وقال:" الخالة بمنزلة الام"، ثم قال لعلي:" انت مني وانا منك"، وقال لجعفر:" اشبهت خلقي وخلقي"، وقال لزيد:" انت اخونا ومولانا"، فقال له علي رضي الله عنه: يا رسول الله، الا تزوج ابنة حمزة؟ فقال:" إنها ابنة اخي من الرضاعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ ، وَهُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ ابْنَةَ حَمْزَةَ تَبِعَتْهُمْ تُنَادِي: يَا عَمُّ، يَا عَمُّ، فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَالَ لِفَاطِمَةَ: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ فَحَوِّلِيهَا، فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ، وَزَيْدٌ، وَجَعْفَرٌ، فَقَالَ عَلِيٌّ: أَنَا أَخَذْتُهَا وَهِيَ ابْنَةُ عَمِّي، وَقَالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي، وَقَالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أَخِي، فَقَضَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ:" الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ"، ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ:" أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ"، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ:" أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي"، وَقَالَ لِزَيْدٍ:" أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا"، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تَزَوَّجُ ابْنَةَ حَمْزَةَ؟ فَقَالَ:" إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم مکہ مکرمہ سے نکلنے لگے تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی چچا جان! چچا جان! پکارتی ہوئی ہمارے پیچھے لگ گئی، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا، اور ان سے کہا کہ اپنی چچا زاد بہن کو سنبھالو، (جب ہم مدینہ منورہ پہنچے) تو اس بچی کی پرورش کے سلسلے میں میرا، سیدنا جعفر اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کا جھگڑا ہو گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا تھا کہ اسے میں لے کر آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ یعنی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا میرے نکاح میں ہیں، لہٰذا اس کی پرورش میرا حق ہے، سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ میری بھتیجی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”جعفر! آپ تو صورت اور سیرت میں میرے مشابہہ ہیں، علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں، اور زید! آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) ہیں، بچی اپنی خالہ کے پاس رہے گی کیونکہ خالہ بھی ماں کے مرتبہ میں ہوتی ہے۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس سے نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ فرمایا: ”اس لئے کہ یہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن، حجاج هو ابن محمد المصيصي الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثني سويد بن سعيد ، حدثنا الصبي بن الاشعث ، عن ابي إسحاق ، عن عبد خير ، عن علي رضي الله عنه:" الا انبئكم بخير هذه الامة بعد نبيها؟ ابو بكر، والثاني عمر رضي الله عنهما، ولو شئت سميت الثالث"، قال ابو إسحاق: فتهجاها عبد خير لكي لا يمتروا فيما قال علي رضي الله عنه.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا الصُّبَيُّ بْنُ الْأَشْعَثِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا؟ أَبُو بَكْرٍ، وَالثَّانِي عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَلَوْ شِئْتُ سَمَّيْتُ الثَّالِثَ"، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: فَتَهَجَّاهَا عَبْدُ خَيْرٍ لِكَيْ لَا يَمْتَرُوا فِيمَا قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اگر میں چاہوں تو تیسرے کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، سويد بن سعيد الهروي فيه مقال، والصبي فيه ضعف يحتمل، وسويد وصبي قد توبعا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ میں سونا اور بائیں ہاتھ میں ریشم پکڑا اور فرمایا کہ ”یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔“
حكم دارالسلام: صحيح لشوا وانظر رقم: 750 ذالك منقطع وهذا متصل، أبو أفلح روي عنه اثنان ، ووثقه العجلي ، وقال الذهبي: صدوق، وقال ابن حجر: مقبول
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا ليث ، حدثنا سعيد يعني المقبري ، عن عمرو بن سليم الزرقي ، عن عاصم بن عمرو ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، انه قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا كنا بالحرة بالسقيا التي كانت لسعد بن ابي وقاص، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ائتوني بوضوء"، فلما توضا، قام فاستقبل القبلة، ثم كبر، ثم قال:" اللهم إن إبراهيم كان عبدك وخليلك دعا لاهل مكة بالبركة، وانا محمد عبدك ورسولك ادعوك لاهل المدينة ان تبارك لهم في مدهم وصاعهم، مثلي ما باركت لاهل مكة، مع البركة بركتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي الْمَقْبُرِيَّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْحَرَّةِ بِالسُّقْيَا الَّتِي كَانَتْ لِسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ائْتُونِي بِوَضُوءٍ"، فَلَمَّا تَوَضَّأَ، قَامَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، ثُمَّ كَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ عَبْدَكَ وَخَلِيلَكَ دَعَا لِأَهْلِ مَكَّةَ بِالْبَرَكَةِ، وَأَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ أَدْعُوكَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ أَنْ تُبَارِكَ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ وَصَاعِهِمْ، مِثْلَيْ مَا بَارَكْتَ لِأَهْلِ مَكَّةَ، مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے، جب ہم حرہ میں اس سیراب کی ہوئی زمین پر پہنچے جو سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی ملکیت میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لئے وضو کا پانی لاؤ۔“ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر چکے تو قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو گئے اور اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: ”اے اللہ! ابراہیم جو آپ کے بندے اور آپ کے خلیل تھے، انہوں نے اہل مکہ کے لئے برکت کی دعا کی تھی، اور میں محمد آپ کا بندہ اور آپ کا رسول ہوں، میں آپ سے اہل مدینہ کے حق میں دعا مانگتا ہوں کہ اہل مدینہ کے مد اور صاع میں اہل مکہ کی نسبت دوگنی برکت عطا فرما۔“
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا ابو عامر المزني ، حدثنا شيخ من بني تميم، قال: خطبنا علي رضي الله عنه، او قال: قال علي: ياتي على الناس زمان عضوض، يعض الموسر على ما في يديه، قال: ولم يؤمر بذلك، قال الله عز وجل: ولا تنسوا الفضل بينكم سورة البقرة آية 237 وينهد الاشرار، ويستذل الاخيار، ويبايع المضطرون، قال: وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم" عن بيع المضطرين، وعن بيع الغرر، وعن بيع الثمرة قبل ان تدرك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا أَبُو عَامِرٍ الْمُزَنِيُّ ، حَدَّثَنَا شَيْخٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَوْ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ عَضُوضٌ، يَعَضُّ الْمُوسِرُ عَلَى مَا فِي يَدَيْهِ، قَالَ: وَلَمْ يُؤْمَرْ بِذَلِكَ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ سورة البقرة آية 237 وَيَنْهَدُ الْأَشْرَارُ، وَيُسْتَذَلُّ الْأَخْيَارُ، وَيُبَايِعُ الْمُضْطَرُّونَ، قَالَ: وَقَدْ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" عَنْ بَيْع الْمُضْطَرِّينَ، وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ، وَعَنْ بَيْعِ الثَّمَرَةِ قَبْلَ أَنْ تُدْرِكَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگوں پر ایک کاٹ کھانے والا زمانہ آنے والا ہے، حتی کہ جسے مالی کشادگی دی گئی ہے وہ بھی اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا، حالانکہ اسے یہ حکم نہیں دیا گیا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ «﴿وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ﴾ [البقرة: 237] »”اپنے درمیان حاجت مندوں کو بھول نہ جانا۔“ اس زمانے میں شریروں کا مرتبہ بلند ہو جائے گا، نیک اور بہترین لوگوں کو ذلیل کیا جائے گا، اور مجبوروں کو اپنی پونجی فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، نیز اس بیع سے بھی منع فرمایا ہے جس میں کسی نوعیت کا بھی دھوکہ ہو، اور پکنے سے قبل یا قبضہ سے قبل پھلوں کی بیع سے بھی منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى عامر المزني، وجهالة الشيخ من بني تميم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”بہترین عورت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں اور بہترین عورت سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام ہیں۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی، ریشمی کپڑے پہننے، اور رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن أبى ليلى و عبد الكريم، ويشبه أن يكون نهيه عن لبس الحمراء معناه النهي عن المعصفر
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا يونس ، عن الحسن ، عن علي رضي الله عنه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" رفع القلم عن ثلاثة: عن الصغير حتى يبلغ، وعن النائم حتى يستيقظ، وعن المصاب حتى يكشف عنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَبْلُغَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الْمُصَابِ حَتَّى يُكْشَفَ عَنْهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں: (1) بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے، (2) سویا ہوا شخص جب تک بیدار نہ ہوجائے، (3) مصیبت زدہ شخص جب تک اس کی پریشانی دور نہ ہو جائے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، الحسن البصري لم يسمع من علي
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، حدثنا إسماعيل بن سالم ، عن الشعبي ، قال: اتي علي بزان محصن، فجلده يوم الخميس مائة، ثم رجمه يوم الجمعة، فقيل له: جمعت عليه حدين؟ فقال:" جلدته بكتاب الله، ورجمته بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: أُتِيَ عَلِيٌّ بِزَانٍ مُحْصَنٍ، فَجَلَدَهُ يَوْمَ الْخَمِيسِ مِائَةَ، ثُمَّ رَجَمَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقِيلَ لَهُ: جَمَعْتَ عَلَيْهِ حَدَّيْنِ؟ فَقَالَ:" جَلَدْتُهُ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَرَجَمْتُهُ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شادی شدہ بدکار کو لایا گیا، انہوں نے جمعرات کے دن اسے سو کوڑے مارے اور جمعہ کے دن اسے سنگسار کر دیا، کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اس پر دو سزائیں جمع کیوں کیں؟ انہوں نے فرمایا: میں نے کوڑے قرآن کریم کی وجہ سے مارے، اور سنگسار سنت کی وجہ سے کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وفي خ: 6812، وهو مختصر بقصة رجم المرأة دون الجل
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله : حدثني ابي ، حدثنا هشيم . ح وابو إبراهيم المعقب ، قال: حدثنا هشيم ، اخبرنا حصين ، عن الشعبي ، قال: اتي علي بمولاة لسعيد بن قيس محصنة قد فجرت، قال: فضربها مائة ثم رجمها، ثم قال:" جلدتها بكتاب الله، ورجمتها بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عبد الله : حدثني أبي ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ . ح وَأَبُو إِبْرَاهِيمَ الْمُعَقِّبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٍ ، أخبرنا حُصَيْنٌ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: أُتِيَ عَلِيٌّ بِمَوْلَاةٍ لِسَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ مُحْصَنَةٍ قَدْ فَجَرَتْ، قَالَ: فَضَرَبَهَا مِائَةً ثُمَّ رَجَمَهَا، ثُمَّ قَالَ:" جَلَدْتُهَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَرَجَمْتُهَا بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس سعید بن قیس کی ایک شادی شدہ باندی کو لایا گیا جس نے بدکاری کی تھی، انہوں نے اسے سو کوڑے مارے اور پھر اسے سنگسار کر دیا اور فرمایا: میں نے کوڑے قرآن کریم کی وجہ سے مارے، اور سنگسار سنت کی وجہ سے کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق بن يوسف ، عن شريك ، عن السدي ، عن عبد خير ، قال: رايت عليا رضي الله عنه دعا بماء ليتوضا، فتمسح به تمسحا، ومسح على ظهر قدميه، ثم قال: هذا وضوء من لم يحدث، ثم قال: لولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" مسح على ظهر قدميه"، رايت ان بطونهما احق، ثم شرب فضل وضوئه وهو قائم، ثم قال: اين الذين يزعمون انه لا ينبغي لاحد ان يشرب قائما؟!.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ شَرِيكٍ ، عَنِ السُّدِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دَعَا بِمَاءٍ لِيَتَوَضَّأَ، فَتَمَسَّحَ بِهِ تَمَسُّحًا، وَمَسَحَ عَلَى ظَهْرِ قَدَمَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِثْ، ثُمَّ قَالَ: لَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" مَسَحَ عَلَى ظَهْرِ قَدَمَيْهِ"، رَأَيْتُ أَنَّ بُطُونَهُمَا أَحَقُّ، ثُمَّ شَرِبَ فَضْلَ وَضُوئِهِ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَشْرَبَ قَائِمًا؟!.
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرنے کے لئے پانی منگوایا، پانی سے ہاتھ تر کئے اور اپنے پاؤں کے اوپر والے حصے پر انہیں پھیر لیا، اور فرمایا کہ یہ اس شخص کا وضو ہے جو بےوضو نہ ہو۔ پھر فرمایا کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسح علی الخفین میں پاؤں کے اوپر والے حصے پر مسح کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں یہی رائے دیتا کہ پاؤں کا نچلا حصہ مسح کا زیادہ مستحق ہے، پھر آپ نے وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پی لیا اور فرمایا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی صورت میں بھی کھڑے ہو کر پانی پینا جائز نہیں ہے؟
حكم دارالسلام: حديث حسن، شريك - وإن كان سيء الحفظ - قد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني علي بن حكيم ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وإسماعيل ابن بنت السدي ، قالوا: حدثنا شريك ، عن عبد الملك بن عمير ، عن نافع بن جبير بن مطعم ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، انه وصف النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: كان" عظيم الهامة، ابيض، مشربا بحمرة، عظيم اللحية، ضخم الكراديس، شثن الكفين والقدمين، طويل المسربة، كثير شعر الراس رجله، يتكفا في مشيته كانما ينحدر في صبب، لا طويل، ولا قصير، لم ار مثله لا قبله ولا بعده صلى الله عليه وسلم"، وقال علي بن حكيم في حديثه: ووصف لنا علي بن ابي طالب رضي الله عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" كان ضخم الهامة، حسن الشعر رجله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْمَاعِيلُ ابْنُ بنت السدي ، قَالَوا: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ وَصَفَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَال: كَانَ" عَظِيمَ الْهَامَةِ، أَبْيَضَ، مُشْرَبًا بِحُمْرَةٍ، عَظِيمَ اللِّحْيَةِ، ضَخْمَ الْكَرَادِيسِ، شَثْنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، طَوِيلَ الْمَسْرُبَةِ، كَثِيرَ شَعَرِ الرَّأْسِ رَجِلَهُ، يَتَكَفَّأُ فِي مِشْيَتِهِ كَأَنَّمَا يَنْحَدِرُ فِي صَبَبٍ، لَا طَوِيلٌ، وَلَا قَصِيرٌ، لَمْ أَرَ مِثْلَهُ لَا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ فِي حَدِيثِهِ: وَوَصَفَ لَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" كَانَ ضَخْمَ الْهَامَةِ، حَسَنَ الشَّعَرِ رَجِلَهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا، رنگ سرخی مائل سفید اور داڑھی گھنی تھی، ہڈیوں کے جوڑ بہت مضبوط تھے، ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے تھے، سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی، سر کے بال گھنے اور ہلکے گھنگھریالے تھے، چلتے وقت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کسی گھاٹی سے اتر رہے ہیں، بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے قد کے، میں نے ان سے پہلے یا ان کے بعد ان جیسا کوئی نہ دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني سريج بن يونس ، حدثنا يحيى بن سعيد الاموي ، عن ابن جريج ، عن صالح بن سعيد ، او سعيد، عن نافع بن جبير بن مطعم ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" لا قصير ولا طويل، عظيم الراس رجله، عظيم اللحية، مشربا حمرة، طويل المسربة، عظيم الكراديس، شثن الكفين والقدمين، إذا مشى تكفا كانما يهبط في صبب، لم ار قبله ولا بعده مثله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ سُعَيْدٍ ، أَوْ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَا قَصِيرٌ وَلَا طَوِيلٌ، عَظِيمَ الرَّأْسِ رَجِلَهُ، عَظِيمَ اللِّحْيَةِ، مُشْرَبًا حُمْرَةً، طَوِيلَ الْمَسْرُبَةِ، عَظِيمَ الْكَرَادِيسِ، شَثْنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ كَأَنَّمَا يَهْبِطُ فِي صَبَبٍ، لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے، سر مبارک بڑا، بال ہلکے گھنگھریالے اور داڑھی گھنی تھی، ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے تھے، چہرہ مبارک میں سرخی کی آمیزش تھی، سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی، ہڈیوں کے جوڑ بہت مضبوط تھے، چلتے وقت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کہ کسی گھاٹی سے اتر رہے ہیں، میں نے ان سے پہلے یا ان کے بعد ان جیسا کوئی نہ دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، ابن جريج مدلس وقد عنعنه، وصالح بن سعيد روي عنه جمع، وذكره ابن حبان فى الثقات، وقد توبعا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے، سر مبارک بڑا اور داڑھی گھنی تھی، ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے تھے، چہرہ مبارک میں سرخی کی آمیزش تھی، سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی، ہڈیوں کے جوڑ بہت مضبوط تھے، چلتے وقت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کہ کسی گھاٹی سے اتر رہے ہیں، میں نے ان سے پہلے یا ان کے بعد ان جیسا کوئی نہ دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة بن مضرب ، عن علي رضي الله عنه، قال: لما قدمنا المدينة اصبنا من ثمارها، فاجتويناها واصابنا بها وعك، وكان النبي صلى الله عليه وسلم يتخبر عن بدر، فلما بلغنا ان المشركين قد اقبلوا، سار رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بدر، وبدر بئر، فسبقنا المشركون إليها، فوجدنا فيها رجلين منهم: رجلا من قريش، ومولى لعقبة بن ابي معيط، فاما القرشي فانفلت، واما مولى عقبة فاخذناه، فجعلنا نقول له: كم القوم؟ فيقول: هم والله كثير عددهم، شديد باسهم، فجعل المسلمون إذا قال ذلك ضربوه، حتى انتهوا به إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له:" كم القوم؟"، قال: هم والله كثير عددهم، شديد باسهم، فجهد النبي صلى الله عليه وسلم ان يخبره كم هم، فابى، ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم ساله:" كم ينحرون من الجزر؟"، فقال: عشرا كل يوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" القوم الف، كل جزور لمائة وتبعها"، ثم إنه اصابنا من الليل طش من مطر، فانطلقنا تحت الشجر والحجف نستظل تحتها من المطر، وبات رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو ربه عز وجل، ويقول:" اللهم إنك إن تهلك هذه الفئة لا تعبد"، قال: فلما طلع الفجر نادى:" الصلاة عباد الله"، فجاء الناس من تحت الشجر والحجف، فصلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وحرض على القتال، ثم قال:" إن جمع قريش تحت هذه الضلع الحمراء من الجبل"، فلما دنا القوم منا وصاففناهم، إذا رجل منهم على جمل له احمر يسير في القوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا علي ناد لي حمزة، وكان اقربهم من المشركين: من صاحب الجمل الاحمر، وماذا يقول لهم؟"، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن يكن في القوم احد يامر بخير، فعسى ان يكون صاحب الجمل الاحمر"، فجاء حمزة فقال: هو عتبة بن ربيعة، وهو ينهى عن القتال، ويقول لهم: يا قوم، إني ارى قوما مستميتين لا تصلون إليهم وفيكم خير، يا قوم، اعصبوها اليوم براسي، وقولوا: جبن عتبة بن ربيعة، وقد علمتم اني لست باجبنكم، قال: فسمع ذلك ابو جهل، فقال: انت تقول هذا؟ والله لو غيرك يقول هذا لاعضضته، قد ملات رئتك جوفك رعبا، فقال عتبة: إياي تعير يا مصفر استه؟ ستعلم اليوم اينا الجبان، قال: فبرز عتبة واخوه شيبة وابنه الوليد حمية، فقالوا: من يبارز؟ فخرج فتية من الانصار ستة، فقال عتبة لا نريد هؤلاء، ولكن يبارزنا من بني عمنا، من بني عبد المطلب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قم يا علي، وقم يا حمزة، وقم يا عبيدة بن الحارث بن عبد المطلب"، فقتل الله تعالى عتبة وشيبة ابني ربيعة، والوليد بن عتبة، وجرح عبيدة، فقتلنا منهم سبعين، واسرنا سبعين، فجاء رجل من الانصار قصير بالعباس بن عبد المطلب اسيرا، فقال العباس: يا رسول الله، إن هذا والله ما اسرني، لقد اسرني رجل اجلح، من احسن الناس وجها، على فرس ابلق، ما اراه في القوم، فقال الانصاري: انا اسرته يا رسول الله، فقال:" اسكت، فقد ايدك الله تعالى بملك كريم"، فقال علي رضي الله عنه: فاسرنا واسرنا من بني عبد المطلب: العباس، وعقيلا، ونوفل بن الحارث.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ أَصَبْنَا مِنْ ثِمَارِهَا، فَاجْتَوَيْنَاهَا وَأَصَابَنَا بِهَا وَعْكٌ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَبَّرُ عَنْ بَدْرٍ، فَلَمَّا بَلَغَنَا أَنَّ الْمُشْرِكِينَ قَدْ أَقْبَلُوا، سَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَدْرٍ، وَبَدْرٌ بِئْرٌ، فَسَبَقَنَا الْمُشْرِكُونَ إِلَيْهَا، فَوَجَدْنَا فِيهَا رَجُلَيْنِ مِنْهُمْ: رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ، وَمَوْلًى لِعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، فَأَمَّا الْقُرَشِيُّ فَانْفَلَتَ، وَأَمَّا مَوْلَى عُقْبَةَ فَأَخَذْنَاهُ، فَجَعَلْنَا نَقُولُ لَهُ: كَمْ الْقَوْمُ؟ فَيَقُولُ: هُمْ وَاللَّهِ كَثِيرٌ عَدَدُهُمْ، شَدِيدٌ بَأْسُهُمْ، فَجَعَلَ الْمُسْلِمُونَ إِذْا قَالَ ذَلِكَ ضَرَبُوهُ، حَتَّى انْتَهَوْا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ:" كَمْ الْقَوْمُ؟"، قَالَ: هُمْ وَاللَّهِ كَثِيرٌ عَدَدُهُمْ، شَدِيدٌ بَأْسُهُمْ، فَجَهَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُخْبِرَهُ كَمْ هُمْ، فَأَبَى، ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ:" كَمْ يَنْحَرُونَ مِنَ الْجُزُرِ؟"، فَقَالَ: عَشْرًا كُلَّ يَوْمٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْقَوْمُ أَلْفٌ، كُلُّ جَزُورٍ لِمِائَةٍ وَتَبِعَهَا"، ثُمَّ إِنَّهُ أَصَابَنَا مِنَ اللَّيْلِ طَشٌّ مِنْ مَطَرٍ، فَانْطَلَقْنَا تَحْتَ الشَّجَرِ وَالْحَجَفِ نَسْتَظِلُّ تَحْتَهَا مِنَ الْمَطَرِ، وَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَيَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنَّكَ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْفِئَةَ لَا تُعْبَدْ"، قَالَ: فَلَمَّا طَلَعَ الْفَجْرُ نَادَى:" الصَّلَاةَ عِبَادَ اللَّهِ"، فَجَاءَ النَّاسُ مِنْ تَحْتِ الشَّجَرِ وَالْحَجَفِ، فَصَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَرَّضَ عَلَى الْقِتَالِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ جَمْعَ قُرَيْشٍ تَحْتَ هَذِهِ الضِّلَعِ الْحَمْرَاءِ مِنَ الْجَبَلِ"، فَلَمَّا دَنَا الْقَوْمُ مِنَّا وَصَافَفْنَاهُمْ، إِذَا رَجُلٌ مِنْهُمْ عَلَى جَمَلٍ لَهُ أَحْمَرَ يَسِيرُ فِي الْقَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَلِيُّ نَادِ لِي حَمْزَةَ، وَكَانَ أَقْرَبَهُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ: مَنْ صَاحِبُ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ، وَمَاذَا يَقُولُ لَهُمْ؟"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ يَكُنْ فِي الْقَوْمِ أَحَدٌ يَأْمُرُ بِخَيْرٍ، فَعَسَى أَنْ يَكُونَ صَاحِبَ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ"، فَجَاءَ حَمْزَةُ فَقَالَ: هُوَ عُتْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَهُوَ يَنْهَى عَنِ الْقِتَالِ، وَيَقُولُ لَهُمْ: يَا قَوْمُ، إِنِّي أَرَى قَوْمًا مُسْتَمِيتِينَ لَا تَصِلُونَ إِلَيْهِمْ وَفِيكُمْ خَيْرٌ، يَا قَوْمُ، اعْصِبُوهَا الْيَوْمَ بِرَأْسِي، وَقُولُوا: جَبُنَ عُتْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي لَسْتُ بِأَجْبَنِكُمْ، قَالَ: فَسَمِعَ ذَلِكَ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ: أَنْتَ تَقُولُ هَذَا؟ وَاللَّهِ لَوْ غَيْرُكَ يَقُولُ هَذَا لَأَعْضَضْتُهُ، قَدْ مَلَأَتْ رِئَتُكَ جَوْفَكَ رُعْبًا، فَقَالَ عُتْبَةُ: إِيَّايَ تُعَيِّرُ يَا مُصَفِّرَ اسْتِهِ؟ سَتَعْلَمُ الْيَوْمَ أَيُّنَا الْجَبَانُ، قَالَ: فَبَرَزَ عُتْبَةُ وَأَخُوهُ شَيْبَةُ وَابْنُهُ الْوَلِيدُ حَمِيَّةً، فَقَالُوا: مَنْ يُبَارِزُ؟ فَخَرَجَ فِتْيَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ سِتَّةٌ، فَقَالَ عُتْبَةُ لَا نُرِيدُ هَؤُلَاءِ، وَلَكِنْ يُبَارِزُنَا مِنْ بَنِي عَمِّنَا، مِنْ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُمْ يَا عَلِيُّ، وَقُمْ يَا حَمْزَةُ، وَقُمْ يَا عُبَيْدَةُ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ"، فَقَتَلَ اللَّهُ تَعَالَى عُتْبَةَ وَشَيْبَةَ ابْنَيْ رَبِيعَةَ، وَالْوَلِيدَ بْنَ عُتْبَةَ، وَجُرِحَ عُبَيْدَةُ، فَقَتَلْنَا مِنْهُمْ سَبْعِينَ، وَأَسَرْنَا سَبْعِينَ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ قَصِيرٌ بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَسِيرًا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا وَاللَّهِ مَا أَسَرَنِي، لَقَدْ أَسَرَنِي رَجُلٌ أَجْلَحُ، مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ وَجْهًا، عَلَى فَرَسٍ أَبْلَقَ، مَا أُرَاهُ فِي الْقَوْمِ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: أَنَا أَسَرْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" اسْكُتْ، فَقَدْ أَيَّدَكَ اللَّهُ تَعَالَى بِمَلَكٍ كَرِيمٍ"، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَأَسَرْنَا وَأَسَرْنَا مِنْ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: الْعَبَّاسَ، وعَقِيلًا، وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم لوگ مدینہ منورہ ہجرت کر کے آئے اور ہم نے یہاں کے پھل کھائے تو ہمیں پیٹ کی بیماری لاحق ہو گئی، جس سے بڑھتے بڑھتے ہم شدید قسم کے بخار میں مبتلا ہو گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے حالات معلوم کرتے رہتے تھے، جب ہمیں معلوم ہوا کہ مشرکین مقام بدر کی طرف بڑھ رہے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بدر کی طرف روانہ ہو گئے، جو کہ ایک کنوئیں کا نام تھا، ہم مشرکین سے پہلے وہاں پہنچ گئے، وہاں ہمیں دو آدمی ملے، ایک قریش کا اور دوسرا عقبہ بن ابی معیط کا غلام، قریشی تو ہمیں دیکھتے ہی بھاگ گیا اور عقبہ کے غلام کو ہم نے پکڑ لیا۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ ان کے لشکر کی تعداد کتنی ہے؟ اس نے کہا: واللہ! ان کی تعداد بہت زیادہ اور ان کا سامان حرب بہت مضبوط ہے، جب اس نے یہ کہا تو مسلمانوں نے اسے مارنا شروع کر دیا، اور مارتے مارتے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے مشرکین مکہ کی تعداد پوچھی، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وہی جواب دیا جو پہلے دیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ان کی صحیح تعداد معلوم کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اس نے بتانے سے انکار کر دیا، بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ”وہ لوگ روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟“ اس نے جواب دیا: روزانہ دس اونٹ ذبح کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت فرمایا: ”ان کی تعداد ایک ہزار ہے، کیونکہ ایک اونٹ کم از کم سو آدمیوں کو کفایت کر جاتا ہے۔“ رات ہوئی تو ہلکی ہلکی بارش ہونے لگی، ہم بارش سے بچنے کے لئے درختوں اور ڈھالوں کے نیچے چلے گئے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں ساری رات اپنے پروردگار سے یہ دعا کرتے رہے: «اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْفِئَةَ لَا تُعْبَدْ»”اے اللہ! اگر یہ گروہ ختم ہو گیا تو آپ کی عبادت نہیں ہو سکے گی۔“ بہرحال! طلوع فجر کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نداء کروائی کہ اللہ کے بندو! نماز تیار ہے، لوگوں نے درختوں اور سائبانوں کو چھوڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور اس کے بعد جہاد کی ترغیب دینے لگے، پھر فرمایا کہ ”قریش کا لشکر اس پہاڑ کی سرخ ڈھلوان میں ہے۔“ جب لشکر قریش ہمارے قریب آگیا اور ہم نے بھی صف بندی کر لی، تو اچانک ان میں سے ایک آدمی سرخ اونٹ پر سوار ہو کر نکلا اور اپنے لشکر میں چکر لگانے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”علی! حمزہ سے پکار کر کہو - جو کہ مشرکین مکہ کے سب سے زیادہ قریب تھے - یہ سرخ اونٹ والا کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے؟“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لشکر قریش میں کوئی آدمی بھلائی کا حکم دے سکتا ہے تو وہ یہ سرخ اونٹ پر سوار ہی ہو سکتا ہے۔“ اتنی دیر میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ آگئے اور فرمانے لگے کہ یہ عتبہ بن ربیعہ ہے جو کہ لوگوں کو جنگ سے روک رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اے میری قوم! میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو ڈھیلے پڑ چکے ہیں، اگر تم میں ذرا سی بھی صلاحیت ہو تو یہ تم تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے، اے میری قوم! آج کے دن میرے سر پر پٹی باندھ دو اور کہہ دو کہ عتبہ بن ربیعہ بزدل ہو گیا حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں بزدل نہیں ہوں۔ ابوجہل نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگا کہ یہ بات تم کہہ رہے ہو؟ واللہ! اگر یہ بات تمہارے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی تو میں اس سے کہتا کہ جا کر اپنے باپ کی شرمگاہ چوس (گالی دیتا)، تمہارے پھیپھڑوں نے تمہارے پیٹ میں رعب بھر دیا ہے، عتبہ کہنے لگا کہ او پیلے سرین والے! تو مجھے عار دلاتا ہے، آج تجھے پتہ چل جائے گا کہ ہم میں سے بزدل کون ہے؟ اس کے بعد جوش میں آکر عتبہ، اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید میدان جنگ میں نکل کر مبارز طلبی کرنے لگے، ان کے مقابلے میں چھ انصاری نوجوان نکلے، عتبہ کہنے لگا کہ ہم ان سے نہیں لڑنا چاہتے، ہمارے مقابلے میں ہمارے بنو عم نکلیں جن کا تعلق بنو عبدالمطلب سے ہو، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی، سیدنا حمزہ اور سیدنا عبیدہ بن حارث بن مطلب رضی اللہ عنہم کو اٹھنے اور مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔ اس مقابلے میں عتبہ، شیبہ اور ولید تینوں مارے گئے اور مسلمانوں میں سیدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے۔ اس طرح ہم نے ان کے ستر آدمی مارے اور ستر ہی کو قیدی بنا لیا، اسی اثناء میں ایک چھوٹے قد کا انصاری نو جوان عباس بن عبدالمطلب کو - جو بعد میں صحابی بنے - قیدی بنا کر لے آیا، عباس کہنے لگے: یا رسول اللہ! واللہ اس نے مجھے قیدی نہیں بنایا، مجھے تو اس شخص نے قید کیا ہے جس کے سر کے دونوں جانب بال نہ تھے، وہ بڑا خوبصورت چہرہ رکھتا تھا اور ایک چتکبرے گھوڑے پر سوار تھا، جو مجھے اب آپ لوگوں میں نظر نہیں آ رہا، اس پر انصاری نے کہا: یا رسول اللہ! انہیں میں نے ہی گرفتار کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خاموشی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ایک معزز فرشتے کے ذریعے اللہ نے تمہاری مدد کی ہے۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنو عبدالمطلب میں سے ہم نے عباس، عقیل اور فوفل بن حارث کو گرفتار کیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا شريك ، عن المقدام بن شريح ، عن ابيه ، قال: سالت عائشة رضي الله عنها، فقلت: اخبريني برجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم اساله عن المسح على الخفين، فقالت: ائت عليا رضي الله عنه فسله، فإنه كان يلزم النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فاتيت عليا رضي الله عنه فسالته، فقال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم" بالمسح على خفافنا إذا سافرنا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقُلْتُ: أَخْبِرِينِي بِرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَتْ: ائْتِ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَسَلْهُ، فَإِنَّهُ كَانَ يَلْزَمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" بِالْمَسْحِ عَلَى خِفَافِنَا إِذَا سَافَرْنَا".
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کسی مرد صحابی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی رہتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جب سفر پر جائیں تو اپنے موزوں پر مسح کر لیا کریں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م: 276، شريك النخعي قد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا علي بن حكيم الاودي ، انبانا شريك ، عن ابي إسحاق ، عن سعيد بن وهب ، وعن زيد بن يثيع ، قالا: نشد علي الناس في الرحبة: من سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يوم غدير خم إلا قام، قال: فقام من قبل سعيد ستة، ومن قبل زيد ستة، فشهدوا انهم سمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لعلي رضي الله عنه يوم غدير خم:" اليس الله اولى بالمؤمنين؟"، قالوا: بلى، قال:" اللهم من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ ، وَعَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ ، قَالَا: نَشَدَ عَلِيٌّ النَّاسَ فِي الرَّحَبَةِ: مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ إِلَّا قَامَ، قَالَ: فَقَامَ مِنْ قِبَلِ سَعِيدٍ سِتَّةٌ، وَمِنْ قِبَلِ زَيْدٍ سِتَّةٌ، فَشَهِدُوا أَنَّهُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ:" أَلَيْسَ اللَّهُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ؟"، قَالُوا: بَلَى، قَالَ:" اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ".
سعید بن وہب اور زید بن یثیع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو قسم دے کر فرمایا کہ جس شخص نے غدیر خم کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے حوالے سے کوئی ارشاد سنا ہو تو وہ کھڑا ہو جائے، اس پر سعید کی رائے کے مطابق بھی چھ آدمی کھڑے ہو گئے اور زید کی رائے کے مطابق بھی چھ آدمی کھڑے ہو گئے، اور ان سب نے اس بات کی گواہی دی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غدیر خم کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ”کیا اللہ کو مومنین پر کوئی حق نہیں ہے؟“ سب نے عرض کیا: کیوں نہیں! فرمایا: ”اے اللہ! جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ ہیں، اے اللہ! جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی فرما، اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی فرما۔“
گزشتہ روایت ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے، جس کے آخر میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ”جو علی کی مدد کرے تو اس کی مدد فرما، اور جو انہیں تنہا چھوڑ دے تو اسے تنہا فرما۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عمرو ذي مر، وأبو إسحاق قد تغير
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن هانئ بن هانئ ، عن علي رضي الله عنه، قال: لما ولد الحسن جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" اروني ابني، ما سميتموه؟"، قلت: سميته حربا قال:" بل هو حسن"، فلما ولد الحسين، قال:" اروني ابني، ما سميتموه؟"، قلت: سميته حربا، قال:" بل هو حسين"، فلما ولدت الثالث جاء النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اروني ابني، ما سميتموه؟"، قلت: حربا، قال:" بل هو محسن"، ثم قال:" سميتهم باسماء ولد هارون: شبر وشبير ومشبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا وُلِدَ الْحَسَنُ جاء رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَرُونِي ابْنِي، مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟"، قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا قَالَ:" بَلْ هُوَ حَسَنٌ"، فَلَمَّا وُلِدَ الْحُسَيْنُ، قَالَ:" أَرُونِي ابْنِي، مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟"، قُلْتُ: سَمَّيْتُهُ حَرْبًا، قَالَ:" بَلْ هُوَ حُسَيْنٌ"، فَلَمَّا وَلَدْتُ الثَّالِثَ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَرُونِي ابْنِي، مَا سَمَّيْتُمُوهُ؟"، قُلْتُ: حَرْبًا، قَالَ:" بَلْ هُوَ مُحَسِّنٌ"، ثُمَّ قَالَ:" سَمَّيْتُهُمْ بِأَسْمَاءِ وَلَدِ هَارُونَ: شَبَّرُ وَشَبِيرُ وَمُشَبِّرُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حسن کی پیدائش ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”مجھے میرا بیٹا تو دکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟“ میں نے عرض کیا: حرب۔ فرمایا: ”نہیں، اس کا نام حسن ہے۔“ پھر جب حسین پیدا ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”مجھے میرا بیٹا تو دکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟“ میں نے پھر عرض کیا: حرب۔ فرمایا: ”نہیں، اس کا نام حسین ہے۔“ تیسرے بیٹے کی پیدائش پر بھی اسی طرح ہوا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام بدل کر محسن رکھ دیا، پھر فرمایا: ”میں نے ان بچوں کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے بچوں کے نام پر رکھے ہیں، جن کے نام شبر، شبیر اور مشبر تھے۔“
حكم دارالسلام: ضعفه الشيخ الألباني فى الضعيفة : 3706، هانئ بن هانئ مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، سمعت القاسم بن ابي بزة يحدث، عن ابي الطفيل ، قال: سئل علي رضي الله عنه: هل خصكم رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء؟ فقال: ما خصنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء لم يعم به الناس كافة، إلا ما كان في قراب سيفي هذا، قال: فاخرج صحيفة مكتوب فيها:" لعن الله من ذبح لغير الله، ولعن الله من سرق منار الارض، ولعن الله من لعن والده، ولعن الله من آوى محدثا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ أَبِي بَزَّةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: سُئِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَلْ خَصَّكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ؟ فَقَالَ: مَا خَصَّنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ لَمْ يَعُمَّ بِهِ النَّاسَ كَافَّةً، إِلَّا مَا كَانَ فِي قِرَابِ سَيْفِي هَذَا، قَالَ: فَأَخْرَجَ صَحِيفَةً مَكْتُوبٌ فِيهَا:" لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ سَرَقَ مَنَارَ الْأَرْضِ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَهُ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا".
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ کسی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ آپ سے کی ہو؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسی کوئی خصوصی بات نہیں کی جو دوسرے لوگوں سے چھپائی ہو، البتہ میری اس تلوار کے نیام میں ایک چیز ہے، یہ کہہ کر انہوں نے اس میں سے ایک صحیفہ نکالا جس میں لکھا تھا کہ ”اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو غیر اللہ کے نام پر کسی جانور کو ذبح کرے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو اپنے والدین پر لعنت کرے، اور اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو زمین کے بیج چوری کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن يعلى بن عطاء ، قال عفان: قال: اخبرنا يعلى بن عطاء، عن عبد الله بن يسار ، عن عمرو بن حريث ، انه عاد حسنا، وعنده علي، فقال علي رضي الله عنه: يا عمرو، اتعود حسنا، وفي النفس ما فيها؟ قال: نعم، إنك لست برب قلبي فتصرفه حيث شئت، فقال: اما إن ذلك لا يمنعني ان اؤدي إليك النصيحة، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ما من مسلم يعود مسلما إلا ابتعث الله سبعين الف ملك يصلون عليه اي ساعة من النهار كانت حتى يمسي، واي ساعة من الليل كانت حتى يصبح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، قَالَ عَفَّانُ: قَالَ: أخبرنا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ ، أَنَّهُ عَادَ حَسَنًا، وَعِنْدَهُ عَلِيٌّ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يا عَمْرو، أَتَعُودُ حَسَنًا، وَفِي النَّفْسِ مَا فِيهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنَّكَ لَسْتَ بِرَبِّ قَلْبِي فَتَصْرِفَهُ حَيْثُ شِئْتَ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّ ذَلِكَ لَا يَمْنَعُنِي أَنْ أُؤَدِّيَ إِلَيْكَ النَّصِيحَةَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُودُ مُسْلِمًا إِلَّا ابْتَعَثَ اللَّهُ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يُصَلُّونَ عَلَيْهِ أَيَّ سَاعَةٍ مِنَ النَّهَارِ كَانَتْ حَتَّى يُمْسِيَ، وَأَيَّ سَاعَةٍ مِنَ اللَّيْلِ كَانَتْ حَتَّى يُصْبِحَ".
عبداللہ بن یسار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عمرو بن حریث سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: یوں تو آپ حسن کی بیمار پرسی کے لئے آئے ہیں اور اپنے دل میں جو کچھ چھپا رکھا ہے اس کا کیا ہوگا؟ عمرو نے کہا کہ آپ میرے رب نہیں ہیں کہ جس طرح چاہیں میرے دل میں تصرف کرنا شروع کر دیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لیکن اس کے باوجود ہم تم سے نصیحت کی بات کہنے سے نہیں رکیں گے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو مسلمان اپنے کسی بھائی کی عیادت کے لیے جاتا ہے، اللہ اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دیتا ہے جو شام تک دن کے ہر لمحے میں اس کے لئے دعا مغفرت کرتے رہتے ہیں، اور اگر شام کو گیا ہو تو صبح تک رات کی ہر گھڑی اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔“
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن يسار
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، وحدثنا عفان ، قالا: حدثنا همام ، عن قتادة ، عن الحسن البصري ، عن علي رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتى يستيقظ، وعن المعتوه، او قال: المجنون، حتى يعقل، وعن الصغير حتى يشب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَحَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الْمَعْتُوهِ، أَوْ قَالَ: الْمَجْنُونِ، حَتَّى يَعْقِلَ، وَعَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَشِبَّ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں: (1) سویا ہوا شخص، جب تک بیدار نہ ہوجائے، (2) مجنون، جب تک اس کی عقل نہ لوٹ آئے، (3) بچہ، جب تک بالغ نہ ہوجائے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، الحسن البصري لم يسمع من علي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے آخر میں یوں فرماتے تھے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ وَلَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ.»”اے اللہ! میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں، تیری درگزر کے ذریعے تیری سزا سے، اور تیری ذات کے ذریعے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری تعریف کا احاطہ نہیں کر سکتا، تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے ہدیہ کے طور پر ایک ریشمی جوڑا آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں نے اسے زیب تن کر لیا، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر ناراضگی کے اثرات دیکھے تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں دوپٹے کے طور پر تقسیم کر دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وإسناده حسن، خ: 2614، م: 2071
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا همام ، انبانا قتادة ، عن ابي حسان ، ان عليا رضي الله عنه كان يامر بالامر فيؤتى قال: فقال له الاشتر: إن هذا الذي تقول قد تفشغ في الناس، افشيء عهده إليك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال علي رضي الله عنه: ما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا خاصة دون الناس، إلا شيء سمعته منه فهو في صحيفة في قراب سيفي، قال: فلم يزالوا به حتى اخرج الصحيفة، قال: فإذا فيها:" من احدث حدثا، او آوى محدثا، فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل"، قال: وإذا فيها:" إن إبراهيم حرم مكة، وإني احرم المدينة، حرام ما بين حرتيها وحماها كله، لا يختلى خلاها، ولا ينفر صيدها، ولا تلتقط لقطتها، إلا لمن اشار بها، ولا تقطع منها شجرة إلا ان يعلف رجل بعيره، ولا يحمل فيها السلاح لقتال"، قال: وإذا فيها:" المؤمنون تتكافا دماؤهم، ويسعى بذمتهم ادناهم، وهم يد على من سواهم، الا لا يقتل مؤمن بكافر، ولا ذو عهد في عهده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، أَنْبَأَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يَأْمُرُ بِالْأَمْرِ فَيُؤْتَى قَالَ: فَقَالَ لَهُ الْأَشْتَرُ: إِنَّ هَذَا الَّذِي تَقُولُ قَدْ تَفَشَّغَ فِي النَّاسِ، أَفَشَيْءٌ عَهِدَهُ إِلَيْكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا خَاصَّةً دُونَ النَّاسِ، إِلَّا شَيْءٌ سَمِعْتُهُ مِنْهُ فَهُوَ فِي صَحِيفَةٍ فِي قِرَابِ سَيْفِي، قَالَ: فَلَمْ يَزَالُوا بِهِ حَتَّى أَخْرَجَ الصَّحِيفَةَ، قَالَ: فَإِذَا فِيهَا:" مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ"، قَالَ: وَإِذَا فِيهَا:" إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ، وَإِنِّي أُحَرِّمُ الْمَدِينَةَ، حَرَامٌ مَا بَيْنَ حَرَّتَيْهَا وَحِمَاهَا كُلُّهُ، لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلَا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا، إِلَّا لِمَنْ أَشَارَ بِهَا، وَلَا تُقْطَعُ مِنْهَا شَجَرَةٌ إِلَّا أَنْ يَعْلِفَ رَجُلٌ بَعِيرَهُ، وَلَا يُحْمَلُ فِيهَا السِّلَاحُ لِقِتَالٍ"، قَالَ: وَإِذَا فِيهَا:" الْمُؤْمِنُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ، وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، أَلَا لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ".
ابوحسان کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب بھی کوئی حکم دیتے اور لوگ آکر کہتے کہ ہم نے اس اس طرح کر لیا تو وہ کہتے کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا۔ ایک دن اشتر نامی ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ جو یہ جملہ کہتے ہیں، لوگوں میں بہت پھیل چکا ہے، کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو وصیت کی ہے؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو چھوڑ کر خصوصیت کے ساتھ مجھے کوئی وصیت نہیں فرمائی، البتہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے وہ ایک صحیفہ میں لکھ کر اپنی تلوار کے میان میں رکھ لیا ہے۔ لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے وہ صحیفہ دکھانے پر اصرار کیا، انہوں نے وہ نکالا تو اس میں لکھا تھا کہ ”جو شخص کوئی بدعت ایجاد کرے، یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کا کوئی فرض یا نفل قبول نہ ہوگا۔“ نیز اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ ”سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس کے دونوں کونوں کے درمیان کی جگہ قابل احترام ہے، اس کی گھاس نہ کاٹی جائے، اس کے شکار کو نہ بھگایا جائے، اور یہاں کی گری پڑی چیز کو نہ اٹھایا جائے، البتہ وہ شخص اٹھا سکتا ہے جو مالک کو اس کا پتہ بتا دے، یہاں کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے البتہ اگر کوئی آدمی اپنے جانور کو چارہ کھلائے تو بات جدا ہے، اور یہاں لڑائی کے لئے اسلحہ نہ اٹھایا جائے۔“ نیز اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ ”مسلمانوں کی جانیں آپس میں برابر ہیں، ان میں سے اگر کوئی ادنیٰ بھی کسی کو امان دے دے تو اس کی امان کا لحاظ کیا جائے، اور مسلمان اپنے علاوہ لوگوں پر ید واحد کی طرح ہیں، خبردار! کسی کافر کے بدلے میں کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے، اور نہ ہی کسی ذمی کو اس وقت تک قتل کیا جائے جب تک کہ وہ معاہدے کی مدت میں ہو اور اس کی شرائط پر برقرار ہو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، أبو حسان الأعرج روايته عن على مرسلة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع میں جاتے تو یہ دعا پڑھتے: «اَللّٰهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ أَنْتَ رَبِّي خَشَعَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعَظْمِي وَعَصَبِي وَمَا اسْتَقَلَّتْ بِهِ قَدَمِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.»”اے اللہ! میں نے تیرے لئے رکوع کیا، تجھ پر ایمان لایا، تیرا تابع فرمان ہوا، تو ہی میرا رب ہے، میرے کان، آنکھیں، دماغ، ہڈیاں اور پٹھے تیرے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور میرے قدم بھی اللہ رب العالمین کی خاطر جھکے ہوئے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا يونس بن ارقم ، حدثنا يزيد بن ابي زياد ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، قال: شهدت عليا رضي الله عنه في الرحبة ينشد الناس: انشد الله من سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يوم غدير خم:" من كنت مولاه فعلي مولاه"، لما قام فشهد، قال عبد الرحمن: فقام اثنا عشر بدريا، كاني انظر إلى احدهم، فقالوا: نشهد انا سمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يوم غدير خم:" الست اولى بالمسلمين من انفسهم، وازواجي امهاتهم؟"، فقلنا: بلى يا رسول الله، قال:" فمن كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَرْقَمَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الرَّحَبَةِ يَنْشُدُ النَّاسَ: أَنْشُدُ اللَّهَ مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ:" مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ"، لَمَّا قَامَ فَشَهِدَ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَقَامَ اثْنَا عَشَرَ بَدْرِيًّا، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَحَدِهِمْ، فَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ:" أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمسلمين مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَأَزْوَاجِي أُمَّهَاتُهُمْ؟"، فَقُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ".
عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو قسم دے کر فرمایا کہ جس نے غدیر خم کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا ہو تو وہ کھڑا ہو جائے، کہ ”میں جس کا مولیٰ ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔“ اس پر بارہ بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کھڑے ہو گئے اور ان سب نے اس بات کی گواہی دی کہ ہم سب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غدیر خم کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ”کیا اللہ کو مومنین پر کوئی حق نہیں؟“ سب نے عرض کیا: کیوں نہیں! فرمایا: ”جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ ہیں، اے اللہ! جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی فرما، اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی فرما۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا شريك ، عن مخارق ، عن طارق بن شهاب ، قال: رايت عليا رضي الله عنه على المنبر يخطب، وعليه سيف حليته حديد، فسمعته يقول: والله" ما عندنا كتاب نقرؤه عليكم إلا كتاب الله تعالى وهذه الصحيفة، اعطانيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيها فرائض الصدقة"، قال: لصحيفة معلقة بسيفه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مُخَارِقٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ يَخْطُبُ، وَعَلَيْهِ سَيْفٌ حِلْيَتُهُ حَدِيدٌ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: وَاللَّهِ" مَا عِنْدَنَا كِتَابٌ نَقْرَؤُهُ عَلَيْكُمْ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى وَهَذِهِ الصَّحِيفَةَ، أَعْطَانِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهَا فَرَائِضُ الصَّدَقَةِ"، قَالَ: لِصَحِيفَةٍ مُعَلَّقَةٍ بسَيْفِهِ.
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ واللہ! ہمارے پاس قرآن کریم کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھتے ہوں، یا پھر یہ صحیفہ ہے جو تلوار سے لٹکا ہوا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیا تھا، اس میں زکوٰۃ کے حصص کی تفصیل درج ہے۔ مذکورہ صحیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس تلوار سے لٹکا رہتا تھا جس کے حلقے لوہے کے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن عاصم ، انبانا إسماعيل بن سميع ، عن مالك بن عمير ، قال: كنت قاعدا عند علي رضي الله عنه، قال: فجاء صعصعة بن صوحان فسلم، ثم قام فقال: يا امير المؤمنين، انهنا عما نهاك عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: نهانا" عن الدباء، والحنتم، والمزفت، والنقير، ونهانا عن القسي، والميثرة الحمراء، وعن الحرير، والحلق الذهب"، ثم قال: كساني رسول الله صلى الله عليه وسلم حلة من حرير، فخرجت فيها لير الناس علي كسوة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فرآني رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فامرني بنزعهما، فارسل بإحداهما إلى فاطمة، وشق الاخرى بين نسائه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ ، أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ سُمَيْعٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فَجَاءَ صَعْصَعَةُ بْنُ صُوحَانَ فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، انْهَنَا عَمَّا نَهَاكَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: نَهَانَا" عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُزَفَّتِ، وَالنَّقِيرِ، وَنَهَانَا عَنِ الْقَسِّيِّ، وَالْمِيثَرَةِ الْحَمْرَاءِ، وَعَنِ الْحَرِيرِ، وَالْحِلَقِ الذَّهَبِ"، ثُمَّ قَالَ: كَسَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةً مِنْ حَرِيرٍ، فَخَرَجْتُ فِيهَا لِيَرَ النَّاسُ عَلَيَّ كِسْوَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَرَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَأَمَرَنِي بِنَزْعِهِمَا، فَأَرْسَلَ بِإِحْدَاهُمَا إِلَى فَاطِمَةَ، وَشَقَّ الْأُخْرَى بَيْنَ نِسَائِهِ".
مالک بن عمیر کہتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا، اچانک صعصعہ بن صوحان آ گئے اور سلام کر کے کہنے لگے: امیر المومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں سے آپ کو روکا تھا ہمیں بھی ان سے روکیے، انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں کدو کی تونبی، سبز مٹکے، لک کے برتن، لکڑی کو کھود کر بنائے گئے برتن کو استعمال کرنے سے منع فرمایا (کیونکہ ان میں شراب کشید کی جاتی تھی)، نیز ریشم، سرخ زین پوش، خالص ریشم اور سونے کے حلقوں سے منع فرمایا۔ پھر فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ریشمی جوڑا عنایت فرمایا، میں وہ پہن کر باہر نکلا تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو جوڑا دیا تھا وہ میں نے پہن لیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو اسے اتارنے کا حکم دیا اور اس کا ایک حصہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھجوا دیا اور دوسرا حصہ پھاڑ کر اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، على بن عاصم ضعيف، وقد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا احمد بن عمر الوكيعي ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا الوليد بن عقبة بن نزار العنسي ، حدثني سماك بن عبيد بن الوليد العبسي ، قال: دخلت على عبد الرحمن بن ابي ليلى فحدثني انه شهد عليا رضي الله عنه في الرحبة قال: انشد الله رجلا سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم وشهده يوم غدير خم إلا قام، ولا يقوم إلا من قد رآه، فقام اثنا عشر رجلا، فقالوا: قد رايناه وسمعناه حيث اخذ بيده يقول:" اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه، وانصر من نصره، واخذل من خذله"، فقام إلا ثلاثة لم يقوموا، فدعا عليهم، فاصابتهم دعوته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ الْوَكِيعِيُّ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ بْنِ نِزَارٍ الْعَنْسِيُّ ، حَدَّثَنِي سِمَاكُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ الْوَلِيدِ الْعَبْسِيُّ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى فَحَدَّثَنِي أَنَّهُ شَهِدَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الرَّحَبَةِ قَالَ: أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدَهُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ إِلَّا قَامَ، وَلَا يَقُومُ إِلَّا مَنْ قَدْ رَآهُ، فَقَامَ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا، فَقَالُوا: قَدْ رَأَيْنَاهُ وَسَمِعْنَاهُ حَيْثُ أَخَذَ بِيَدِهِ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ، وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ"، فَقَامَ إِلَّا ثَلَاثَةٌ لَمْ يَقُومُوا، فَدَعَا عَلَيْهِمْ، فَأَصَابَتْهُمْ دَعْوَتُهُ.
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو قسم دے کر فرمایا: جس نے غدیر خم کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے حوالے سے کوئی ارشاد سنا ہو تو وہ کھڑا ہو جائے، اور وہی کھڑا ہو جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو، اس پر بارہ آدمی کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہم نے خود دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا، اور ہم نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اے اللہ! جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی فرما، اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی فرما، جو علی کی مدد کرے تو اس کی مدد فرما، اور جو اسے تنہا چھوڑے تو اسے تنہا فرما۔“ اس موقع پر تین آدمی ایسے بھی تھے جو کھڑے نہیں ہوئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں بد دعا دی اور وہ اس کا شکار ہو گئے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، دون قوله: وانصر من نصره واخذل من خذله وهذا إسناد ضعيف لجهالة الوليد بن عتبة وسماك بن عبيد
عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنتے تو وہی کلمات دہراتے جو مؤذن کہتا، اور «اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰهِ» کے جواب میں «اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰهِ» کہنے کے بعد یہ بھی فرماتے کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق الواسطي، وأبو سعيد لم نتبينه
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، قال: حدثني الحكم ، عن القاسم بن مخيمرة ، عن شريح بن هانئ ، قال: سالت عائشة رضي الله عنها عن المسح على الخفين، قالت: سل علي بن ابي طالب رضي الله عنه، فإنه كان يسافر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالته، فقال:" للمسافر ثلاثة ايام ولياليهن، وللمقيم يوم وليلة"، قال يحيى: وكان يرفعه، يعني: شعبة، ثم تركه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَكَمُ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، قَالَتْ: سَلْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ كَانَ يُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ، وَلِلْمُقِيمِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ"، قَالَ يَحْيَى: وَكَانَ يَرْفَعُهُ، يَعْنِي: شُعْبَةَ، ثُمَّ تَرَكَهُ.
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، انہیں اس مسئلے کا زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی رہتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسافر کے لئے تین دن اور تین رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔“
(حديث مرفوع) حدثنا حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني سعيد بن ابي سعيد المقبري ، عن عطاء مولى ام صبية، عن ابي هريرة ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لولا ان اشق على امتي، لامرتهم بالسواك عند كل صلاة، ولاخرت عشاء الآخرة إلى ثلث الليل الاول، فإنه إذا مضى ثلث الليل الاول هبط الله تعالى إلى السماء الدنيا، فلم يزل هناك حتى يطلع الفجر، فيقول قائل: الا سائل يعطى، الا داع يجاب، الا سقيم يستشفي فيشفى، الا مذنب يستغفر فيغفر له؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ ، عَنْ عَطَاءٍ مَوْلَى أُمِّ صُبَيَّةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي، لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ، وَلَأَخَّرْتُ عِشَاءَ الْآخِرَةِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ، فَإِنَّهُ إِذَا مَضَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَوَّلُ هَبَطَ اللَّهُ تَعَالَى إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَلَمْ يَزَلْ هُنَاكَ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ، فَيَقُولَ قَائِلٌ: أَلَا سَائِلٌ يُعْطَى، أَلَا دَاعٍ يُجَابُ، أَلَا سَقِيمٌ يَسْتَشْفِي فَيُشْفَى، أَلَا مُذْنِبٌ يَسْتَغْفِرُ فَيُغْفَرَ لَهُ؟".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا، اور عشاء کی نماز تہائی رات تک مؤخر کرتا کیونکہ رات کی جب پہلی تہائی گذر جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ (اپنی شان کے مطابق) آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور طلوع فجر تک وہیں رہتے ہیں، اور ایک منادی نداء لگاتا رہتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا، کہ اسے دیا جائے؟ ہے کوئی دعا کرنے والا، کہ اس کی دعا قبول کی جائے؟ ہے کوئی بیمار جو شفاء حاصل کرنا چاہتا ہو، کہ اسے شفاء مل جائے؟ ہے کوئی گناہگار جو اپنے گناہوں کی معافی مانگے، کہ اسے بخش دیا جائے؟“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عطاء المدني مولى أم صبية
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الحجاج ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي رضي الله عنه، قال: سئل عن الوتر، اواجب هو؟ قال:" اما كالفريضة فلا، ولكنها سنة صنعها رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه حتى مضوا على ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سُئِلَ عَنِ الْوَتْرِ، أَوَاجِبٌ هُوَ؟ قَالَ:" أَمَّا كَالْفَرِيضَةِ فَلَا، وَلَكِنَّهَا سُنَّةٌ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى مَضَوْا عَلَى ذَلِكَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے وتر کے متعلق پوچھا کہ آیا یہ فرض ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے، لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنت سے ثابت ہے، اور انہوں نے اسے ہمیشہ ادا کیا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن الاشجعي ، حدثنا ابي ، عن سفيان ، عن السدي ، عن عبد خير ، عن علي رضي الله عنه: انه دعا بكوز من ماء، ثم قال: اين هؤلاء الذين يزعمون انهم يكرهون الشرب قائما؟ قال: فاخذه" فشرب وهو قائم، ثم توضا وضوءا خفيفا، ومسح على نعليه، ثم قال: هكذا وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم للطاهر ما لم يحدث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ الْأَشْجَعِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ السُّدِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ دَعَا بِكُوزٍ مِنْ مَاءٍ، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ يَكْرَهُونَ الشُّرْبَ قَائِمًا؟ قَالَ: فَأَخَذَهُ" فَشَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءًا خَفِيفًا، وَمَسَحَ عَلَى نَعْلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا وُضُوءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلطَّاهِرِ مَا لَمْ يُحْدِثْ".
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرنے کے لئے پانی منگوایا اور فرمایا: کہاں ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی صورت میں بھی کھڑے ہو کر پانی پینا جائز نہیں ہے؟ پھر انہوں نے وہ برتن لے کر کھڑے کھڑے اس کا پانی پی لیا، پھر ہلکا سا وضو کیا، جوتوں پر مسح کیا اور فرمایا: اس طاہر آدمی کا جو بےوضو نہ ہو، یہی وضو ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے۔
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا اور وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا، پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے چاہئے کہ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» کہے، اس کے آس پاس جو لوگ ہوں وہ «يَرْحَمُكَ اللّٰهُ» کہیں، اور چھینکنے والا انہیں یہ جواب دے «يَهْدِيْكُمُ اللّٰهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ» ۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، ابن أبى ليلي سيء الحفظ، لكن للحديث طريق أخرى عن على يحسن بها
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے چاہئے کہ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلَي كُلِّ حَالٍ» کہے، اس کے آس پاس جو لوگ ہوں وہ «يَرْحَمُكَ اللّٰهُ» کہیں، اور چھینکنے والا انہیں یہ جواب دے: «يَهْدِيْكُمُ اللّٰهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ» ۔“
(حديث مرفوع) حدثنا غسان بن الربيع ، حدثنا ابو إسرائيل ، عن السدي ، عن عبد خير ، قال: خرج علينا علي بن ابي طالب رضي الله عنه ونحن في المسجد، فقال: اين السائل عن الوتر؟ فمن كان منا في ركعة شفع إليها اخرى حتى اجتمعنا إليه، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" يوتر في اول الليل، ثم اوتر في وسطه، ثم اثبت الوتر في هذه الساعة"، قال: وذلك عند طلوع الفجر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْرَائِيلَ ، عَنِ السُّدِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَنَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ عَنِ الْوَتْرِ؟ فَمَنْ كَانَ مِنَّا فِي رَكْعَةٍ شَفَعَ إِلَيْهَا أُخْرَى حَتَّى اجْتَمَعْنَا إِلَيْهِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُوتِرُ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، ثُمَّ أَوْتَرَ فِي وَسَطِهِ، ثُمَّ أَثْبَتَ الْوَتْرَ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ"، قَالَ: وَذَلِكَ عِنْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ.
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے، اور فرمایا کہ وتر کے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ ہم میں سے جس شخص نے ایک رکعت پڑھ لی تھی، اس نے جلدی سے دوسری رکعت ملائی اور ہم سب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس اکٹھے ہو گئے، انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابتداءً رات کے پہلے حصے میں وتر پڑھتے تھے، پھر درمیان والے حصے میں پڑھنے لگے، پھر اس وقت مستقل پڑھنے لگے، اس وقت طلوع فجر ہونے والی تھی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى إسرائيل
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن يزيد ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن عبد الله بن نافع ، قال: عاد ابو موسى الاشعري الحسن بن علي، فقال له علي رضي الله عنه: اعائدا جئت ام زائرا؟ فقال ابو موسى: بل جئت عائدا، فقال علي رضي الله عنه: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من عاد مريضا بكرا شيعه سبعون الف ملك، كلهم يستغفر له حتى يمسي، وكان له خريف في الجنة، وإن عاده مساء شيعه سبعون الف ملك، كلهم يستغفر له حتى يصبح، وكان له خريف في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ ، قَالَ: عَادَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَعَائِدًا جِئْتَ أَمْ زَائِرًا؟ فَقَالَ أَبُو مُوسَى: بَلْ جِئْتُ عَائِدًا، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ عَادَ مَرِيضًا بَكَرًا شَيَّعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، كُلُّهُمْ يَسْتَغْفِرُ لَهُ حَتَّى يُمْسِيَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ، وَإِنْ عَادَهُ مَسَاءً شَيَّعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، كُلُّهُمْ يَسْتَغْفِرُ لَهُ حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ".
عبداللہ بن نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: عیادت کی نیت سے آئے ہو یا ملاقات کے لئے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں تو عیادت کی نیت سے آیا ہوں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جب کوئی شخص صبح کے وقت اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کی مشایعت کرتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک اس کے لئے شام تک بخشش کی دعائیں کرتا ہے، اور جنت میں اس کا ایک باغ مقرر ہو جاتا ہے، اور اگر شام کو عیادت کرے تب بھی ستر ہزار فرشتے اس کی مشایعت کرتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک اس کے لئے صبح تک بخشش کی دعائیں کرتا ہے، اور جنت میں اس کا ایک باغ مقرر ہو جاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن، إلا أن الصحيح وقفه كما تقدم برقم: (612). وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن نافع الهاشمي
(حديث موقوف) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن عبد الله بن نافع ، قال: عاد ابو موسى الاشعري الحسن بن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، فقال له علي رضي الله عنه: اعائدا جئت ام زائرا؟ قال: لا، بل جئت عائدا، قال علي رضي الله عنه: اما إنه" ما من مسلم يعود مريضا إلا خرج معه سبعون الف ملك، كلهم يستغفر له، إن كان مصبحا حتى يمسي، وكان له خريف في الجنة، وإن كان ممسيا خرج معه سبعون الف ملك، كلهم يستغفر له حتى يصبح، وكان له خريف في الجنة".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ ، قَالَ: عَادَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَعَائِدًا جِئْتَ أَمْ زَائِرًا؟ قَالَ: لَا، بَلْ جِئْتُ عَائِدًا، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَمَا إِنَّهُ" مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُودُ مَرِيضًا إِلَّا خَرَجَ مَعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، كُلُّهُمْ يَسْتَغْفِرُ لَهُ، إِنْ كَانَ مُصْبِحًا حَتَّى يُمْسِيَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ مُمْسِيًا خَرَجَ مَعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، كُلُّهُمْ يَسْتَغْفِرُ لَهُ حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ".
عبداللہ بن نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: عیادت کی نیت سے آئے ہو یا ملاقات کے لئے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں تو عیادت کی نیت سے آیا ہوں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جب کوئی شخص صبح کے وقت اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کی مشایعت کرتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک اس کے لئے شام تک بخشش کی دعائیں کرتا ہے اور جنت میں اس کا ایک باغ مقرر ہو جاتا ہے، اور اگر شام کو عیادت کرے تب بھی ستر ہزار فرشتے اس کی مشایعت کرتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک اس کے لئے صبح تک بخشش کی دعائیں کرتا ہے اور جنت میں اس کا ایک باغ مقرر ہو جاتا ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا تو فرمایا: ”منی میں تو غسل واجب ہے، اور مذی میں صرف وضو واجب ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن مجالد ، حدثنا عامر ، قال: كان لشراحة زوج غائب بالشام، وإنها حملت، فجاء بها مولاها إلى علي بن ابي طالب رضي الله عنه، فقال: إن هذه زنت، فاعترفت، فجلدها يوم الخميس مائة، ورجمها يوم الجمعة، وحفر لها إلى السرة وانا شاهد، ثم قال:" إن الرجم سنة سنها رسول الله صلى الله عليه وسلم"، ولو كان شهد على هذه احد لكان اول من يرمي، الشاهد يشهد، ثم يتبع شهادته حجره، ولكنها اقرت، فانا اول من رماها، فرماها بحجر، ثم رمى الناس، وانا فيهم، قال: فكنت والله فيمن قتلها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ ، قَالَ: كَانَ لِشَرَاحَةَ زَوْجٌ غَائِبٌ بِالشَّامِ، وَإِنَّهَا حَمَلَتْ، فَجَاءَ بِهَا مَوْلَاهَا إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ زَنَتْ، فَاعْتَرَفَتْ، فَجَلَدَهَا يَوْمَ الْخَمِيسِ مِائَةً، وَرَجَمَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَحَفَرَ لَهَا إِلَى السُّرَّةِ وَأَنَا شَاهِدٌ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ الرَّجْمَ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَلَوْ كَانَ شَهِدَ عَلَى هَذِهِ أَحَدٌ لَكَانَ أَوَّلَ مَنْ يَرْمِي، الشَّاهِدُ يَشْهَدُ، ثُمَّ يُتْبِعُ شَهَادَتَهُ حَجَرَهُ، وَلَكِنَّهَا أَقَرَّتْ، فَأَنَا أَوَّلُ مَنْ رَمَاهَا، فَرَمَاهَا بِحَجَرٍ، ثُمَّ رَمَى النَّاسُ، وَأَنَا فِيهِمْ، قَالَ: فَكُنْتُ وَاللَّهِ فِيمَنْ قَتَلَهَا.
عامر کہتے ہیں کہ شراحہ نامی ایک عورت کا شوہر اس کے پاس موجود نہ تھا، وہ شام گیا ہوا تھا، یہ عورت امید سے ہو گئی، اس کا آقا اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اس عورت نے بدکاری کی ہے، اس عورت نے بھی اعتراف کر لیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے پہلے پچاس کوڑے لگائے، پھر جمعہ کے دن اس پر حد رجم جاری فرمائی، اور اس کے لئے ناف تک ایک گڑھا کھدوایا، میں بھی اس وقت موجود تھا۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رجم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اگر اس کا یہ جرم کسی گواہ کی شہادت سے ثابت ہوتا تو اسے پتھر مارنے کا آغاز وہی کرتا کیونکہ گواہ پہلے گواہی دیتا ہے اور اس کے بعد پتھر مارتا ہے، لیکن چونکہ اس کا یہ جرم اس کے اقرار سے ثابت ہوا ہے اس لئے اب میں اسے سب سے پہلے پتھر ماروں گا، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کا آغاز کیا، بعد میں لوگوں نے اسے پتھر مارنا شروع کئے، ان میں میں بھی شامل تھا اور واللہ! اس عورت کو اللہ کے پاس بھیجنے والوں میں میں بھی تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وفي خ: 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد، وهذا إسناد ضعيف لضعف مجالد
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، انبانا إسرائيل ، عن محمد بن عبيد الله ، عن ابيه عن عمه ، قال: قال علي رضي الله عنه وسئل: يركب الرجل هديه؟ فقال: لا باس به، قد كان النبي صلى الله عليه وسلم" يمر بالرجال يمشون، فيامرهم يركبون هديه، هدي النبي صلى الله عليه وسلم"، قال: ولا تتبعون شيئا افضل من سنة نبيكم صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَسُئِلَ: يَرْكَبُ الرَّجُلُ هَدْيَهُ؟ فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ، قَدْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَمُرُّ بِالرِّجَالِ يَمْشُونَ، فَيَأْمُرُهُمْ يَرْكَبُونَ هَدْيَهُ، َهَدْيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ: وَلَا تَتَّبِعُونَ شَيْئًا أَفْضَلَ مِنْ سُنَّةِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آدمی حج کے موقع پر قربانی کا جو جانور لے کر جارہا ہو - جسے ہدی کہتے ہیں - اس پر سوار ہو سکتا ہے؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جب پیدل چلنے والوں کے پاس سے گذر ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہدی کے جانور پر سوار ہونے کا حکم دیتے، اور تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے زیادہ افضل کسی چیز کی پیروی نہ کر سکو گے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة محمد بن عبيدالله
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن إسماعيل ، حدثنا عامر ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم" آكل الربا، ومطعمه، وشاهديه، وكاتبه، ومانع الصدقة، والواشمة، والمستوشمة، والحال، والمحلل له، قال: وكان ينهى عن النوح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ ، عَنْ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" آكِلَ الرِّبَا، وَمُطْعِمَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَكَاتِبَهُ، وَمَانِعَ الصَّدَقَةِ، وَالْوَاشِمَةَ، وَالْمُسْتَوْشِمَةَ، وَالْحَالَّ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ، قَالَ: وَكَانَ يَنْهَى عَنِ النَّوْحِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی پر لعنت فرمائی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا حماد بن زيد ، انبانا ايوب ، عن محمد ، عن عبيدة ، قال: ذكر علي اهل النهروان، فقال:" فيهم رجل مودن اليد، او مثدون اليد، او مخدج اليد، لولا ان تبطروا لنباتكم بما وعد الله عز وجل الذين يقتلونهم على لسان محمد صلى الله عليه وسلم"، قال: قلت: اانت سمعت منه؟ قال: إي ورب الكعبة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، قَالَ: ذَكَرَ عَلِيٌّ أَهْلَ النَّهْرَوَانِ، فَقَالَ:" فِيهِمْ رَجُلٌ مُودَنُ الْيَدِ، أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ، أَوْ مُخْدَجُ الْيَدِ، لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَنَبَّأْتُكُمْ بِمَا وَعَدَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ: قُلْتُ: أَأَنْتَ سَمِعْتَ مِنْهُ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ خوارج کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہوگا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاتے تو میں تم سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا حماد بن يحيى الابح ، حدثنا ابن عون ، عن محمد ، عن عبيدة ، قال: لما قتل علي اهل النهروان، قال: التمسوه، فوجدوه في حفرة تحت القتلى، فاستخرجوه، واقبل علي رضي الله عنه على اصحابه، فقال:" لولا ان تبطروا لاخبرتكم ما وعد الله من يقتل هؤلاء على لسان محمد صلى الله عليه وسلم"، قلت: انت سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: إي ورب الكعبة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ يَحْيَى الْأَبَحُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِيٌّ أَهْلَ النَّهْرَوَانِ، قَالَ: الْتَمِسُوهُ، فَوَجَدُوهُ فِي حُفْرَةٍ تَحْتَ الْقَتْلَى، فَاسْتَخْرَجُوهُ، وَأَقْبَلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ:" لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَأَخْبَرْتُكُمْ مَا وَعَدَ اللَّهُ مَنْ يَقْتُلُ هَؤُلَاءِ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب اہل نہروان سے قتال کیا تو ایک مخصوص آدمی کے متعلق حکم دیا کہ اسے تلاش کرو، لوگوں کو وہ مقتولین میں ایک گڑھے میں مل گیا، انہوں نے اسے باہر نکالا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاتے تو میں تم میں سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن، وانظر ما قبله
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا حجاج ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عفوت لكم عن صدقة الخيل والرقيق، وفي الرقة ربع عشرها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَفَوْتُ لَكُمْ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، وَفِي الرِّقَةِ رُبُعُ عُشْرِهَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے اس لئے چاندی کی زکوٰۃ بہرحال تمہیں ادا کرنا ہوگی، جس کا نصاب یہ ہے کہ ہر چالیس پر ایک درہم واجب ہوگا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وإسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي البختري ، عن علي رضي الله عنه، قال:" إذا حدثتم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا، فظنوا به الذي هو اهدى، والذي هو اهيا، والذي هو اتقى".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" إِذَا حُدِّثْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، فَظُنُّوا بِهِ الَّذِي هُوَ أَهْدَى، وَالَّذِي هُوَ أَهْيَا، وَالَّذِي هُوَ أَتْقَى".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف للانقطاع، أبو البختري لم يدرك عليا، بينهما أبو عبدالرحمن السلمي كما فى الحديث الذى بعد هذا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي البختري ، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، عن علي رضي الله عنه، قال:" إذا حدثتم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا، فظنوا برسول الله صلى الله عليه وسلم اهياه، واتقاه، واهداه"، وخرج علي علينا حين ثوب المثوب، فقال: اين السائل عن الوتر؟" هذا حين وتر حسن".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" إِذَا حُدِّثْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، فَظُنُّوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْيَاهُ، وَأَتْقَاهُ، وَأَهْدَاهُ"، وَخَرَجَ عَلِيٌّ عَلَيْنَا حِينَ ثَوَّبَ الْمُثَوِّبُ، فَقَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ عَنِ الْوِتْرِ؟" هَذَا حِينُ وِتْرٍ حَسَنٍ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن ابي بكر بن علي المقدمي ، حدثنا حماد يعني ابن زيد ، عن ايوب ، وهشام ، عن محمد ، عن عبيدة ، ان عليا رضي الله عنه ذكر اهل النهروان، فقال:" فيهم رجل مودن اليد او مثدون اليد او مخدج اليد، لولا ان تبطروا لنباتكم ما وعد الله الذي يقتلونهم على لسان محمد صلى الله عليه وسلم"، فقلت لعلي: اانت سمعته؟ قال: إي ورب الكعبة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، وَهِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ذَكَرَ أَهْلَ النَّهْرَوَانِ، فَقَالَ:" فِيهِمْ رَجُلٌ مُودَنُ الْيَدِ أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ أَوْ مُخْدَجُ الْيَدِ، لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَنَبَّأْتُكُمْ مَا وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيَ يَقْتُلُونَهُمْ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَقُلْتُ لِعَلِيٍّ: أَأَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ خوارج کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہو گا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاؤ تو میں تم میں سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، حدثني مالك بن عرفطة ، سمعت عبد خير ، قال: كنت عند علي ، فاتي بكرسي وتور، قال:" فغسل كفيه ثلاثا، ووجهه ثلاثا، وذراعيه ثلاثا، ومسح براسه، وصف يحيى: فبدا بمقدم راسه إلى مؤخره، وقال: ولا ادري ارد يده ام لا، وغسل رجليه، ثم قال: من احب ان ينظر إلى وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهذا وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم"، قال لنا ابو عبد الرحمن: هذا اخطا فيه شعبة، إنما هو عن خالد بن علقمة، عن عبد خير.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ عُرْفُطَةَ ، سَمِعْتُ عَبْدَ خَيْرٍ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَلِيٍّ ، فَأُتِيَ بِكُرْسِيٍّ وَتَوْرٍ، قَالَ:" فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا، وَوَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَصَفَ يَحْيَى: فَبَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ إِلَى مُؤَخَّرِهِ، وَقَالَ: وَلَا أَدْرِي أَرَدَّ يَدَهُ أَمْ لَا، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى وُضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهَذَا وُضُوءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ لَنَا أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا أَخْطَأَ فِيهِ شُعْبَةُ، إِنَّمَا هُوَ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ.
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ان کی خدمت میں ایک کرسی اور ایک برتن پیش کیا گیا، انہوں نے اپنی ہتھیلیوں کو تین مرتبہ دھویا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازؤوں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، اور دونوں ہتھیلیوں سے سر کا ایک مرتبہ مسح کیا، اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھوئے، پھر فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو دیکھنا چاہتا ہے تو یہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کی جانیں آپس میں برابر ہیں، ان میں سے اگر کوئی ادنیٰ بھی کسی کو امان دے دے تو اس کی امان کا لحاظ کیا جائے، اور مسلمان اپنے علاوہ لوگوں پر ید واحد کی طرح ہیں، خبردار! کسی کافر کے بدلے میں کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے، اور نہ ہی کسی ذمی کو قتل کیا جائے گا جب تک کہ وہ معاہدے کی مدت میں ہو، اور اس کی شرائط پر برقرار ہو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، أبو حسان الأعرج روايته عن على مرسلة
یوسف بن مسعود کی دادی کہتی ہیں کہ ایک آدمی اپنے اونٹ پر ان کے پاس سے گذرا جو منی کے میدان میں ایام تشریق میں اپنا اونٹ دوڑا رہا ہے اور کہتا جارہا ہے کہ یہ تو کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں، میں نے لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، يوسف بن مسعود روى عنه اثنان، وذكره ابن حبان فى الثقات، وقد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن قيس بن عباد ، قال: انطلقت انا والاشتر إلى علي رضي الله عنه، فقلنا: هل عهد إليك نبي الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس عامة؟ قال: لا، إلا ما في كتابي هذا، قال: وكتاب في قراب سيفه، فإذا فيه:" المؤمنون تكافا دماؤهم، وهم يد على من سواهم، ويسعى بذمتهم ادناهم، الا لا يقتل مؤمن بكافر، ولا ذو عهد في عهده، من احدث حدثا، او آوى محدثا، فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَالْأَشْتَرُ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْنَا: هَلْ عَهِدَ إِلَيْكَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً؟ قَالَ: لَا، إِلَّا مَا فِي كِتَابِي هَذَا، قَالَ: وَكِتَابٌ فِي قِرَابِ سَيْفِهِ، فَإِذَا فِيهِ:" الْمُؤْمِنُونَ تَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، أَلَا لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ، مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ".
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور اشتر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے پوچھا: کیا کوئی ایسی چیز ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو وصیت کی ہو اور عام لوگوں کو اس میں شامل نہ کیا ہو؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو چھوڑ کر خصوصیت کے ساتھ مجھے کوئی وصیت نہیں فرمائی، البتہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے وہ ایک صحیفہ میں لکھ کر اپنی تلوار کے میان میں رکھ لیا ہے۔ انہوں نے وہ نکالا تو اس میں لکھا تھا کہ ”مسلمانوں کی جانیں آپس میں برابر ہیں، ان میں سے اگر کوئی ادنی بھی کسی کو امان دے دے تو اس کی امان کا لحاظ کیا جائے، اور مسلمان اپنے علاوہ لوگوں پر ید واحد کی طرح ہیں، خبردار! کسی کافر کے بدلے میں کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی ذمی کو قتل کیا جائے گا جب تک کہ وہ معاہدے کی مدت میں ہو اور اس کی شرائط پر برقرار ہو۔“ نیز یہ کہ ”جو شخص کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن هشام ، عن محمد ، عن عبيدة ، عن علي رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال يوم الخندق:" شغلونا عن الصلاة الوسطى حتى غربت الشمس، او كادت الشمس ان تغرب، ملا الله اجوافهم، او قبورهم نارا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ:" شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ، أَوْ كَادَتْ الشَّمْسُ أَنْ تَغْرُبَ، مَلَأَ اللَّهُ أَجْوَافَهُمْ، أَوْ قُبُورَهُمْ نَارًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن ابي ليلى ، حدثني اخي ، عن ابي ، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا عطس احدكم فليقل: الحمد لله على كل حال، وليقل له: يرحمكم الله، وليقل هو: يهديكم الله، ويصلح بالكم"، فقلت له: عن ابي ايوب؟ قال: علي رضي الله عنه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، حَدَّثَنِي أَخِي ، عَنْ أَبِي ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ: الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَلْيُقَلْ لَهُ: يَرْحَمُكُمْ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ هُوَ: يَهْدِيكُمُ اللَّهُ، وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ"، فَقُلْتُ لَهُ: عَنْ أَبِي أَيُّوبَ؟ قَالَ: عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے چاہئے کہ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ» کہے، اس کے آس پاس جو لوگ ہوں وہ «يَرْحَمُكَ اللّٰهُ» کہیں اور چھینکنے والا انہیں یہ جواب دے: «يَهْدِيْكُمُ اللّٰهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ» ۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، ابن أبى ليلى سيء الحفظ وقد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني احمد بن محمد بن يحيى بن سعيد القطان ، حدثنا ازهر بن سعد ، عن ابن عون ، عن محمد ، عن عبيدة ، عن علي رضي الله عنه، قال: اشتكت إلي فاطمة رضي الله عنها مجل يديها من الطحن، فاتينا النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، فاطمة تشتكي إليك مجل يديها من الطحن، وتسالك خادما، فقال:" الا ادلكما على ما هو خير لكما من خادم؟"، فامرنا" عند منامنا بثلاث وثلاثين، وثلاث وثلاثين، واربع وثلاثين، من تسبيح، وتحميد، وتكبير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: اشْتَكَتْ إِلَيَّ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مَجْلَ يَدَيْهَا مِنَ الطَّحْنِ، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاطِمَةُ تَشْتَكِي إِلَيْكَ مَجْلَ يَدَيْهَا مِنَ الطَّحْنِ، وَتَسْأَلُكَ خَادِمًا، فَقَالَ:" أَلَا أَدُلُّكُمَا عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ؟"، فَأَمَرَنَا" عِنْدَ مَنَامِنَا بِثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ، وَثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ، وَأَرْبَعٍ وَثَلَاثِينَ، مِنْ تَسْبِيحٍ، وَتَحْمِيدٍ، وَتَكْبِير".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے شکایت کی کہ چکی چلا چلا کر ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے ہیں، چنانچہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فاطمہ آپ کے پاس چکی چلانے کی وجہ سے ہاتھوں میں پڑ جانے والے گٹوں کی شکایت لے کر آئی ہیں اور آپ سے ایک خادم کی درخواست کر رہی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تم دونوں کے لئے خادم سے بہتر ہو؟“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سوتے وقت تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھنے کا حکم دیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح رکوع فرماتے تھے کہ اگر پانی سے بھرا ہوا کوئی پیالہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر رکھ دیا جاتا تو وہ نہ گرتا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الشيخ الذى روى عنه أحمد، ولضعف سنان بن هارون
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شريك ، عن خالد بن علقمة ، عن عبد خير ، عن علي رضي الله عنه، قال: توضا علي رضي الله عنه" فتمضمض ثلاثا، واستنشق ثلاثا من كف واحد، وغسل وجهه ثلاثا، ثم ادخل يده في الركوة، فمسح راسه، وغسل رجليه، ثم قال: هذا وضوء نبيكم صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: تَوَضَّأَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" فَتَمَضْمَضَ ثَلَاثًا، وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ فِي الرَّكْوَةِ، فَمَسَحَ رَأْسَهُ، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا وُضُوءُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کیا تو اس میں ایک ہی کف سے تین مرتبہ کلی کی، اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، پھر اس برتن میں ہاتھ ڈال کر سر کا مسح کیا اور پاؤں دھو لئے، پھر فرمایا کہ تمہاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو یہی ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ آکر اجازت طلب کرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یہ پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کا حامل ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى يعني ابن سعيد ، عن شعبة . ح وحدثنا حجاج ، انبانا شعبة ، عن منصور ، قال يحيى: قال: حدثني منصور، عن ربعي ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تكذبوا علي، فإنه من يكذب علي يلج النار"، قال حجاج: قلت لشعبة: هل ادرك عليا؟ قال: نعم، حدثني عن علي، ولم يقل: سمع.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وَحَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ يَحْيَى: قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَيَّ يَلِجْ النَّارَ"، قَالَ حَجَّاجٌ: قُلْتُ لِشُعْبَةَ: هَلْ أَدْرَكَ عَلِيًّا؟ قَالَ: نَعَمْ، حَدَّثَنِي عَنْ عَلِيٍّ، وَلَمْ يَقُلْ: سَمِعَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری طرف جھوٹی بات کی نسبت نہ کرو، کیونکہ جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، والحديث متواتر ، خ: 106، م : (في المقدمة): 1
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ قربانی کے موقع پر آپ کے ساتھ موجود رہوں، اور یہ کہ ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دوں اور گوشت بھی تقسیم کر دوں، اور یہ بھی حکم دیا کہ قصاب کو ان میں سے کوئی چیز مزدوری کے طور پر نہ دوں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت، سونے کی انگوٹھی، ریشی کپڑے اور عصفر سے رنگے ہوئے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وإسناده حسن، م: 480 و2078
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثني شعبة ، عن عبد الملك بن ميسرة ، عن النزال بن سبرة ، ان عليا رضي الله عنه لما صلى الظهر، دعا بكوز من ماء في الرحبة، فشرب وهو قائم، ثم قال: إن رجالا يكرهون هذا، وإني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل كالذي رايتموني فعلت، ثم تمسح بفضله، وقال:" هذا وضوء من لم يحدث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنِي شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا صَلَّى الظُّهْرَ، دَعَا بِكُوزٍ مِنْ مَاءٍ فِي الرَّحَبَةِ، فَشَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمّ قَالَ: إِنَّ رِجَالًا يَكْرَهُونَ هَذَا، وَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَالَّذِي رَأَيْتُمُونِي فَعَلْتُ، ثُمَّ تَمَسَّحَ بِفَضْلِهِ، وَقَالَ:" هَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِثْ".
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز ظہر کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کوزے میں پانی لایا گیا، وہ مسجد کے صحن میں تھے، انہوں نے کھڑے کھڑے وہ پانی پی لیا اور فرمایا کہ کچھ لوگ اسے ناپسند سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسے تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا ہے، پھر انہوں نے باقی پانی سے مسح کر لیا اور فرمایا: جو آدمی بےوضو نہ ہو بلکہ پہلے سے اس کا وضو موجود ہو، یہ اس شخص کا وضو ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نماز کی کنجی طہارت ہے، نماز میں حلال چیزوں کو حرام کرنے والی چیز تکبیر تحریمہ ہے، اور انہیں حلال کرنے والی چیز سلام پھیرنا ہے۔“
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو کر کے نہ دکھاؤں؟ پھر انہوں نے اپنے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا إسحاق بن إسماعيل ، حدثنا مسهر بن عبد الملك بن سلع ، حدثنا ابي عبد الملك بن سلع ، قال: كان عبد خير يؤمنا في الفجر، فقال: صلينا يوما الفجر خلف علي رضي الله عنه، فلما سلم قام وقمنا معه، فجاء يمشي حتى انتهى إلى الرحبة، فجلس واسند ظهره إلى الحائط، ثم رفع راسه فقال: يا قنبر، ائتني بالركوة والطست، ثم قال له: صب، فصب عليه،" فغسل كفه ثلاثا، وادخل كفه اليمنى فمضمض واستنشق ثلاثا، ثم ادخل كفيه فغسل وجهه ثلاثا، ثم ادخل كفه اليمنى فغسل ذراعه الايمن ثلاثا، ثم غسل ذراعه الايسر ثلاثا، فقال: هذا وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا مُسْهِرُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَلْعٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ سَلْعٍ ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ خَيْرٍ يَؤُمُّنَا فِي الْفَجْرِ، فَقَالَ: صَلَّيْنَا يَوْمًا الْفَجْرَ خَلْفَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ وَقُمْنَا مَعَهُ، فَجَاءَ يَمْشِي حَتَّى انْتَهَى إِلَى الرَّحَبَةِ، فَجَلَسَ وَأَسْنَدَ ظَهْرَهُ إِلَى الْحَائِطِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: يَا قَنْبَرُ، ائْتِنِي بِالرَّكْوَةِ وَالطَّسْتِ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: صُبَّ، فَصَبَّ عَلَيْهِ،" فَغَسَلَ كَفَّهُ ثَلَاثًا، وَأَدْخَلَ كَفَّهُ الْيُمْنَى فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَدْخَلَ كَفَّيْهِ فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَدْخَلَ كَفَّهُ الْيُمْنَى فَغَسَلَ ذِرَاعَهُ الْأَيْمَنَ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ ذِرَاعَهُ الْأَيْسَرَ ثَلَاثًا، فَقَالَ: هَذَا وُضُوءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوعبدالملک کہتے ہیں کہ نماز فجر میں عبدخیر رحمہ اللہ ہماری امامت کرتے تھے، ایک دن ہمیں نماز فجر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے پڑھنے کا موقع ملا، سلام پھیر کر جب وہ کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہو گئے، یہاں تک کہ وہ چلتے ہوئے صحن مسجد میں آ گئے اور بیٹھ کر دیوار سے ٹیک لگا لی، پھر سر اٹھا کر اپنے غلام سے کہا: قنبر! ڈول اور طشت لاؤ، پھر فرمایا کہ پانی ڈالو، اس نے پانی ڈالنا شروع کیا، چنانچہ پہلے انہوں نے اپنی ہتھیلی کو تین مرتبہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا اور پانی نکال کر کلی کی اور تین ہی مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، پھر دونوں ہاتھ ڈال کر پانی نکالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ ڈال کر پانی نکالا اور تین مرتبہ دائیں ہاتھ کو دھویا، پھر بائیں ہاتھ کو تین مرتبہ دھویا اور فرمایا کہ یہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، قال: قال علي : كنت رجلا مذاء، وكنت استحي ان اسال النبي صلى الله عليه وسلم لمكان ابنته، فامرت المقداد فساله، فقال:" يغسل ذكره وانثييه ويتوضا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ : كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً، وَكُنْتُ أَسْتَحِي أَنْ أَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَانِ ابْنَتِهِ، فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ:" يَغْسِلُ ذَكَرَهُ وَأُنْثَيَيْهِ وَيَتَوَضَّأُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں اس لئے مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص اپنی شرمگاہ کو دھو کر وضو کر لیا کرے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ورواية عروة بن الزبير عن على مرسلة، وانظر مابعده
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی کا حکم پوچھیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص وضو کر لیا کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن سلمة ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يقضي الحاجة، فياكل معنا اللحم، ويقرا القرآن، ولم يكن يحجزه او يحجبه، إلا الجنابة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلِمَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْضِي الْحَاجَةَ، فَيَأْكُلُ مَعَنَا اللَّحْمَ، وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَلَمْ يَكُنْ يَحْجِزُهُ أَوْ يَحْجُبُهُ، إِلَّا الْجَنَابَةُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے بعد وضو کیے بغیر باہر تشریف لا کر قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ گوشت بھی تناول فرما لیا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنابت کے علاوہ کوئی چیز قرآن سے نہیں روکتی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، وعبد الرحمن ، عن سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي على كل اثر صلاة مكتوبة ركعتين، إلا الفجر والعصر"، وقال عبد الرحمن: في دبر كل صلاة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي عَلَى كُلِّ أَثَرِ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ رَكْعَتَيْنِ، إِلَّا الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ"، وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر اور عصر کے علاوہ ہر فرض نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری رائے یہ تھی کہ مسح علی الخفین کے لئے موزوں کا وہ حصہ زیادہ موزوں ہے جو زمین کے ساتھ لگتا ہے بہ نسبت اس حصے کے جو پاؤں کے اوپر رہتا ہے، حتی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اوپر کے حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میں نے اپنی رائے کو ترک کر دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، والأعمش كان مضطرباً فى حديث أبى إسحاق
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا إسحاق بن إسماعيل ، حدثنا سفيان ، عن ابي السوداء ، عن ابن عبد خير ، عن ابيه ، قال: رايت عليا رضي الله عنه توضا فغسل ظهور قدميه، وقال: لولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" يغسل ظهور قدميه"، لظننت ان بطونهما احق بالغسل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي السَّوْدَاءِ ، عَنْ ابْنِ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَوَضَّأَ فَغَسَلَ ظُهُورَ قَدَمَيْهِ، وَقَالَ: لَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَغْسِلُ ظُهُورَ قَدَمَيْهِ"، لَظَنَنْتُ أَنَّ بُطُونَهُمَا أَحَقُّ بِالْغَسْلِ.
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے پاؤں کے اوپر والے حصے کو دھویا اور فرمایا: اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پاؤں کا اوپر والا حصہ دھوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میری رائے یہ تھی کہ پاؤں کا نچلا حصہ دھوئے جانے کا زیادہ حق دار ہے (کیونکہ وہ زمین کے ساتھ زیادہ لگتا ہے)۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن سعد بن إبراهيم ، عن عبد الله بن شداد ، عن علي رضي الله عنه، قال: ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفدي احدا بابويه إلا سعد بن مالك، فإني سمعته يقول له يوم احد:" ارم سعد، فداك ابي وامي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفَدِّي أَحَدًا بِأَبَوَيْهِ إِلَّا سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ لَهُ يَوْمَ أُحُدٍ:" ارْمِ سَعْدُ، فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی کے لئے - سوائے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے - اپنے والدین کو جمع کرتے ہوئے نہیں سنا۔ غزوہ احد کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے: ”سعد! تیر پھینکو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، عن علي رضي الله عنه، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم سرية، وامر عليهم رجلا من الانصار، وامرهم ان يسمعوا له ويطيعوا، قال: فاغضبوه في شيء، فقال: اجمعوا لي حطبا، فجمعوا حطبا، ثم قال: اوقدوا نارا، فاوقدوا له نارا، فقال: الم يامركم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تسمعوا لي وتطيعوا؟ قالوا: بلى، قال: فادخلوها، قال: فنظر بعضهم إلى بعض، فقالوا: إنما فررنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اجل النار، فكانوا كذلك إذ سكن غضبه، وطفئت النار، قال: فلما قدموا على النبي صلى الله عليه وسلم ذكروا ذلك له، فقال:" لو دخلوها ما خرجوا منها، إنما الطاعة في المعروف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَسْمَعُوا لَهُ وَيُطِيعُوا، قَالَ: فَأَغْضَبُوهُ فِي شَيْءٍ، فَقَالَ: اجْمَعُوا لِي حَطَبًا، فَجَمَعُوا حَطَبًا، ثُمَّ قَالَ: أَوْقِدُوا نَارًا، فَأَوْقَدُوا لَهُ نَارًا، فَقَالَ: أَلَمْ يَأْمُرْكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَسْمَعُوا لِي وَتُطِيعُوا؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَادْخُلُوهَا، قَالَ: فَنَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَقَالُوا: إِنَّمَا فَرَرْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَجْلِ النَّارِ، فَكَانُوا كَذَلِكَ إِذْ سَكَنَ غَضَبُهُ، وَطَفِئَتْ النَّارُ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ایک انصاری کو ان کا امیر مقرر کر دیا، اور لوگوں کو اس کی بات سننے اور اطاعت کرنے کا حکم دیا، جب وہ لوگ روانہ ہوئے تو راستے میں اس انصاری کو کسی بات پر غصہ آگیا، اس نے کہا کہ لکڑیاں اکٹھی کرو، اس کے بعد اس نے آگ منگوا کر لکڑیوں میں آگ لگا دی اور کہا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات سننے اور اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا تھا؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، اس نے کہا: پھر اس آگ میں داخل ہو جاؤ۔ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور کہنے لگے کہ آگ ہی سے تو بھاگ کر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہوئے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد اس کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا اور آگ بجھ گئی۔ جب وہ لوگ واپس آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا واقعہ بتایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس میں ایک مرتبہ داخل ہو جاتے تو پھر کبھی اس میں سے نکل نہ سکتے، یاد رکھو! اطاعت کا تعلق تو صرف نیکی کے کاموں سے ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن ابي هاشم القاسم بن كثير ، عن قيس الخارفي ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول:" سبق رسول الله صلى الله عليه وسلم، وصلى ابو بكر، وثلث عمر رضي الله عنه، ثم خبطتنا، او اصابتنا فتنة، فما شاء الله جل جلاله"، قال ابو عبد الرحمن: قال ابي: قوله:" ثم خبطتنا فتنة"، اراد ان يتواضع بذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الْقَاسِمِ بْنِ كَثِيرٍ ، عَنْ قَيْسٍ الْخَارِفِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" سَبَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ، وَثَلَّثَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثُمَّ خَبَطَتْنَا، أَوْ أَصَابَتْنَا فِتْنَةٌ، فَمَا شَاءَ اللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قَالَ أَبِي: قَوْلُهُ:" ثُمَّ خَبَطَتْنَا فِتْنَةٌ"، أَرَادَ أَنْ يَتَوَاضَعَ بِذَلِكَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے تشریف لے گئے، دوسرے نمبر پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اور تیسرے نمبر پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اس کے بعد ہمیں امتحانات نے گھیر لیا، اللہ جسے چاہے گا اسے معاف فرما دے گا۔
ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گائے کی قربانی کے حوالے سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا کہ ایک گائے سات آدمیوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے، اس نے پوچھا کہ اگر اس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، اس نے کہا کہ اگر وہ لنگڑی ہو؟ فرمایا: اگر قربان گاہ تک خود چل کر جا سکے تو اسے ذبح کر لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ”جانور کے آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة بن مضرب ، عن علي رضي الله عنه، قال: ما كان فينا فارس يوم بدر غير المقداد، ولقد رايتنا وما فينا إلا نائم، إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم" تحت شجرة يصلي، ويبكي، حتى اصبح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَا كَانَ فِينَا فَارِسٌ يَوْمَ بَدْرٍ غَيْرُ الْمِقْدَادِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا فِينَا إِلَّا نَائِمٌ، إِلَّا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" تَحْتَ شَجَرَةٍ يُصَلِّي، وَيَبْكِي، حَتَّى أَصْبَحَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے موقع پر سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہم میں گھڑ سوار کوئی نہ تھا، اور ہمارے درمیان ہر شخص سو جاتا تھا سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ایک درخت کے نیچے نماز پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن ابي حصين ، عن عمير بن سعيد ، عن علي رضي الله عنه، قال:" ما من رجل اقمت عليه حدا فمات فاجد في نفسي إلا الخمر، فإنه لو مات لوديته، لان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يسنه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" مَا مِنْ رَجُلٍ أَقَمْتُ عَلَيْهِ حَدًّا فَمَاتَ فَأَجِدُ فِي نَفْسِي إِلَّا الْخَمْرَ، فَإِنَّهُ لَوْ مَاتَ لَوَدَيْتُهُ، لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسُنَّهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص پر بھی میں نے کوئی شرعی سزا نافذ کی ہو، اس کے متعلق مجھے اپنے دل میں کوئی کھٹک محسوس نہیں ہوتی، سوائے شراب کے کہ اگر اس کی سزا اسی کوڑے جاری کرنے کے بعد کوئی شخص مر جائے تو میں اس کی دیت ادا کرتا ہوں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی (کہ چالیس کوڑے مارے جائیں یا اسی)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں اس لئے مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، میں نے ایک آدمی سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص اپنی شرمگاہ کو دھو کر وضو کر لیا کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن جعفر الوركاني ، انبانا شريك ، عن خالد بن علقمة ، عن عبد خير ، قال: صلينا الغداة فاتيناه فجلسنا إليه فدعا بوضوء، فاتي بركوة فيها ماء وطست، قال:" فافرغ الركوة على يده اليمنى، فغسل يديه ثلاثا، وتمضمض ثلاثا، واستنثر ثلاثا، بكف كف، ثم غسل وجهه ثلاثا، وذراعيه ثلاثا ثلاثا، ثم وضع يده في الركوة فمسح بها راسه بكفيه جميعا مرة واحدة، ثم غسل رجليه ثلاثا ثلاثا، ثم قال: هذا وضوء نبيكم صلى الله عليه وسلم فاعلموه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرَكَانِيُّ ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، قَالَ: صَلَّيْنَا الْغَدَاةَ فَأَتَيْنَاهُ فَجَلَسْنَا إِلَيْهِ فَدَعَا بِوَضُوءٍ، فَأُتِيَ بِرَكْوَةٍ فِيهَا مَاءٌ وَطَسْتٍ، قَالَ:" فَأَفْرَغَ الرَّكْوَةَ عَلَى يَدِهِ الْيُمْنَى، فَغَسَلَ يَدَيْهِ ثَلَاثًا، وَتَمَضْمَضَ ثَلَاثًا، وَاسْتَنْثَرَ ثَلَاثًا، بِكَفٍّ كَفٍّ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ فِي الرَّكْوَةِ فَمَسَحَ بِهَا رَأْسَهُ بِكَفَّيْهِ جَمِيعًا مَرَّةً وَاحِدَةً، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْه ِثلاثاً ثَلَاثًا، ثُمّ قَالَ: هَذَا وُضُوءُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْلَمُوهُ".
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم فجر کی نماز پڑھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر بیٹھ گئے، انہوں نے وضو کا پانی منگوایا، چنانچہ ایک ڈول میں پانی اور ایک طشت لایا گیا، پھر انہوں نے دائیں ہاتھ پر ڈول سے پانی بہایا اور اپنی ہتھیلی کو تین مرتبہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا اور پانی نکال کر کلی کی اور تین ہی مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین تین مرتبہ دونوں بازؤوں کو دھویا، پھر دایاں ہاتھ ڈال کر پانی نکالا اور دونوں ہتھیلیوں سے ایک ہی مرتبہ سر کا مسح کر لیا، پھر تین تین مرتبہ دونوں پاؤں دھوئے اور فرمایا کہ یہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو، اسے خوب سمجھ لو۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے جسم سے خروج مذی بکثرت ہوتا تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو فرمایا: ”جب مذی دیکھو تو اپنی شرمگاہ کو دھو لیا کرو اور نماز جیسا وضو کر لیا کرو، اور اگر منی خارج ہو تو غسل کر لیا کرو۔“
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثني وهب بن بقية ، اخبرنا خالد ، عن عطاء يعني ابن السائب ، عن عبد خير ، عن علي رضي الله عنه، قال:" الا اخبركم بخير هذه الامة بعد نبيها صلى الله عليه وسلم؟ ابو بكر، ثم خيرها بعد ابي بكر عمر رضي الله عنه، ثم يجعل الله الخير حيث احب".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ ، أخبرنا خَالِدٌ ، عَنْ عَطَاءٍ يَعْنِي ابْنَ السَّائِبِ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ خَيْرُهَا بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثُمَّ يَجْعَلُ اللَّهُ الْخَيْرَ حَيْثُ أَحَبَّ".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں، اس کے بعد اللہ جہاں چاہتا ہے اپنی محبت پیدا فرما دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خالد الواسطي سماعه من عطاء بعد الاختلاط، لكن تابع عطاء حصين بن عبدالرحمن، وهو ثقة
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثني ابو بحر عبد الواحد البصري ، حدثنا ابو عوانة ، عن خالد بن علقمة ، عن عبد خير ، قال: قال علي رضي الله عنه لما فرغ من اهل البصرة:" إن خير هذه الامة بعد نبيها صلى الله عليه وسلم ابو بكر، وبعد ابي بكر عمر، واحدثنا احداثا يصنع الله فيها ما شاء".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو بَحْرٍ عَبْدُ الْوَاحِدِ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا فَرَغَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ:" إِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ عُمَرُ، وَأَحْدَثْنَا أَحْدَاثًا يَصْنَعُ اللَّهُ فِيهَا مَا شَاءَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب اہل بصرہ سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، ان کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے، اس کے بعد ہم نے ایسی چیزیں ایجاد کر لی ہیں جن میں اللہ جو چاہے گا سو کرے گا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، ان کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے، اس کے بعد ہم نے ایسی چیزیں ایجاد کر لی ہیں جن میں اللہ جو چاہے گا سو کرے گا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا) اتنی دیر میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ آ کر اجازت طلب کرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں اجازت دے دو، خوش آمدید اس شخص کو جو پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کا حامل ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن هشام ، اخبرني ابي ، ان عليا رضي الله عنه قال للمقداد: سل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل يدنو من المراة فيمذي، فإني استحيي منه، لان ابنته عندي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم" يغسل ذكره وانثييه ويتوضا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِلْمِقْدَادِ: سَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَدْنُو مِنَ الْمَرْأَةِ فَيُمْذِي، فَإِنِّي أَسْتَحْيِي مِنْهُ، لِأَنَّ ابْنَتَهُ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَغْسِلُ ذَكَرَهُ وَأُنْثَيَيْهِ وَيَتَوَضَّأُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں: اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے قریب جائے اور اس سے مذی خارج ہو تو کیا حکم ہے؟ مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی ہے، کیونکہ ان کی صاحبزادی میرے نکاح میں ہیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص اپنی شرمگاہ کو دھو کر وضو کر لیا کرے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ورواية عروة بن الزبير عن على مرسلة
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن الاعمش ، عن ابي الضحى ، عن شتير بن شكل ، عن علي رضي الله عنه، قال: شغلونا يوم الاحزاب عن صلاة العصر، حتى سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" شغلونا عن صلاة الوسطى، صلاة العصر، ملا الله قبورهم وبيوتهم واجوافهم نارا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنِ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: شَغَلُونَا يَوْمَ الْأَحْزَابِ عَنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ، حَتَّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" شَغَلُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى، صَلَاةِ الْعَصْرِ، مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ وَأَجْوَافَهُمْ نَارًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن مشرکین نے ہمیں نماز عصر پڑھنے کا موقع نہیں دیا حتی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن علي رضي الله عنه، قال: ما عندنا شيء إلا كتاب الله تعالى، وهذه الصحيفة عن النبي صلى الله عليه وسلم:" المدينة حرام ما بين عائر إلى ثور، من احدث فيها حدثا او آوى محدثا، فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل منه عدل ولا صرف، وقال: ذمة المسلمين واحدة، فمن اخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل، ومن تولى قوما بغير إذن مواليه، فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَا عِنْدَنَا شَيْءٌ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى، وَهَذِهِ الصَّحِيفَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَائِرٍ إِلَى ثَوْرٍ، مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ، وَقَالَ: ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ، وَمَنْ تَوَلَّى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ہمارے پاس کتاب اللہ اور اس صحیفے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اس صحیفے میں یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عیر سے ثور تک مدینہ منورہ حرم ہے، جو شخص اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اللہ اس سے کوئی فرض یا نفلی عبادت قبول نہ کرے گا، اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ایک جیسی ہے، جو شخص کسی مسلمان کی پناہ کو توڑے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اور اس کا کوئی فرض یا نفل قبول نہیں ہوگا۔ اور غلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو اپنا آقا کہنا شروع کر دے، اس پر بھی اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اس کا بھی کوئی فرض یا نفل قبول نہیں کیا جائے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن ، عن علي رضي الله عنه، قال: قلت: يا رسول الله، ما لي اراك تنوق في قريش، وتدعنا ان تزوج إلينا؟ قال:" وعندك شيء؟"، قال: قلت: ابنة حمزة، قال:" إنها ابنة اخي من الرضاعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لِي أَرَاكَ تَنَوَّقُ فِي قُرَيْشٍ، وَتَدَعُنَا أَنْ تَزَوَّجَ إِلَيْنَا؟ قَالَ:" وَعِنْدَكَ شَيْءٌ؟"، قَالَ: قُلْتُ: ابْنَةُ حَمْزَةَ، قَالَ:" إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں چھوڑ کر قریش کے دوسرے خاندانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی۔ فرمایا: ”وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔“(دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے اور چچا بھتیجے بھی)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثني عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا مطلب بن زياد ، عن السدي ، عن عبد خير ، عن علي في قوله: إنما انت منذر ولكل قوم هاد سورة الرعد آية 7، قال:" رسول الله صلى الله عليه وسلم المنذر، والهاد رجل من بني هاشم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ ، عَنِ السُّدِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ فِي قَوْلِهِ: إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ سورة الرعد آية 7، قَالَ:" رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُنْذِرُ، وَالْهَادِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں یہ جو فرمایا گیا ہے: «﴿إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ﴾ [الرعد: 7] »”آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں، اور ہر قوم میں ایک ہادی آیا ہے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے متعلق فرمایا: ”ڈرانے والا اور رہنمائی کرنے والا بنو ہاشم کا ایک آدمی ہے۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عبد الرحمن ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة بن مضرب ، عن علي ، قال:" لما حضر الباس يوم بدر اتقينا برسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان من اشد الناس، ما كان، او لم يكن احد اقرب إلى المشركين منه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ:" لَمَّا حَضَرَ الْبَأْسُ يَوْمَ بَدْرٍ اتَّقَيْنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ، مَا كَانَ، أَوْ لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَقْرَبَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ مِنْهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن جب جنگ شروع ہوئی تو ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں آجاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری نسبت دشمن سے زیادہ قریب تھے، اور اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ سخت جنگ کی تھی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی، ریشمی لباس یا عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پہننے اور رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع کیا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناد حديث إسحاق بن عيسي صحيح، وإسناد عبدالرحمن بن مهدي فيه انقطاع، إبراهيم بن عبدالله بن حنين لم يسمع من علي، م: 2078
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابي، وابو خيثمة ، قالا: حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن إبراهيم بن فلان بن حنين ، عن جده عبد الله بن حنين ، قال: قال علي :" نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لبس المعصفر، وعن القسي، وعن خاتم الذهب، وعن القراءة في الركوع"، قال ايوب: او قال:" ان اقرا وانا راكع"، قال ابو خيثمة في حديثه: حدثت ان إسماعيل رجع: عن جده حنين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبِي، وَأَبُو خَيْثَمَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أخبرنا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ فُلَانِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ :" نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ الْمُعَصْفَرِ، وَعَنِ الْقَسِّيِّ، وَعَنْ خَاتَمِ الذَّهَبِ، وَعَنِ الْقِرَاءَةِ فِي الرُّكُوعِ"، قَالَ أَيُّوبُ: أَوْ قَالَ:" أَنْ أَقْرَأَ وَأَنَا رَاكِعٌ"، قَالَ أَبُو خَيْثَمَةَ فِي حَدِيثِهِ: حُدِّثْتُ أَنَّ إِسْمَاعِيلَ رَجَعَ: عَنْ جَدِّهِ حُنَيْنٍ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی، ریشمی لباس یا عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پہننے اور رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع کیا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، وذكر حنين فيه غير محفوظ، وانظر ما قبله
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب ، عن سعيد ، عن رجل ، عن الحكم بن عتيبة ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن علي ، انه قال: امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ابيع غلامين اخوين، فبعتهما، ففرقت بينهما، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ادركهما فارتجعهما، ولا تبعهما إلا جميعا، ولا تفرق بينهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عَلِيٍّ ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَبِيعَ غُلَامَيْنِ أَخَوَيْنِ، فَبِعْتُهُمَا، فَفَرَّقْتُ بَيْنَهُمَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَدْرِكْهُمَا فَارْتَجِعْهُمَا، وَلَا تَبِعْهُمَا إِلَّا جَمِيعًا، وَلَا تُفَرِّقْ بَيْنَهُمَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے دو غلاموں کو بیچنے کا حکم دیا، وہ دونوں آپس میں بھائی تھے، میں نے ان دونوں کو دو الگ الگ آدمیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا اور آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جا کر ان دونوں کو واپس لو، اور اکٹھا ایک ہی آدمی کے ہاتھ ان دونوں کو فروخت کرو (تاکہ دونوں کو ایک دوسرے سے کچھ تو قرب اور انس رہے)۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وإسناده ضعيف لجهالة الرجل الراوي عن الحكم
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا خلف بن هشام البزار ، حدثنا ابو الاحوص ، عن ابي إسحاق ، عن ابي حية ، قال: رايت عليا رضي الله عنه" يتوضا، فغسل كفيه حتى انقاهما، ثم مضمض ثلاثا، ثم استنشق ثلاثا، وغسل وجهه ثلاثا، وذراعيه ثلاثا، ومسح براسه، وغسل قدميه إلى الكعبين، واخذ فضل طهوره فشرب وهو قائم، ثم قال: احببت ان اريكم كيف كان طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ الْبَزَّارُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي حَيَّةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" يَتَوَضَّأُ، فَغَسَلَ كَفَّيْهِ حَتَّى أَنْقَاهُمَا، ثُمَّ مَضْمَضَ ثَلَاثًا، ثُمَّ اسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَغَسَلَ قَدَمَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ، وَأَخَذَ فَضْلَ طَهُورِهِ فَشَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ: أَحْبَبْتُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ كَانَ طُهُورُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوحیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، پہلے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھو کر صاف کیا، پھر تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت ہاتھ دھوئے، سر کا مسح کیا اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھوئے، اور وضو کا بچا ہوا پانی لے کر کھڑے کھڑے پی گئے اور فرمایا کہ میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دکھانا چاہتا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب ، قال: سئل سعيد عن الاعضب: هل يضحى به؟ فاخبرنا، عن قتادة ، عن جري بن كليب ، رجل من قومه، انه سمع عليا رضي الله عنه، يقول: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان" يضحى باعضب القرن والاذن"، قال قتادة: فذكرت ذلك لسعيد بن المسيب، فقال: العضب النصف فاكثر من ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، قَالَ: سُئِلَ سَعِيدٌ عَنِ الْأَعْضَبِ: هَلْ يُضَحَّى بِهِ؟ فَأَخْبَرَنَا، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ جُرَيِّ بْنِ كُلَيْبٍ ، رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ" يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ"، قَالَ قَتَادَةُ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، فَقَالَ: الْعَضَبُ النِّصْفُ فَأَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن هبيرة ، عن علي ، قال: نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم عن" التختم بالذهب، وعن لبس القسي والمياثر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هُبَيْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ" التَّخَتُّمِ بِالذَّهَبِ، وَعَنْ لُبْسِ الْقَسِّيِّ وَالْمَيَاثِرِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی، ریشمی لباس پہننے اور سرخ زین پوش سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن إسرائيل . ح وعبد الرزاق ، اخبرنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي حية الوادعي ، قال عبد الرزاق: عن ابي حية، قال: رايت عليا بال في الرحبة، ودعا بماء فتوضا" فغسل كفيه ثلاثا، ومضمض واستنشق ثلاثا، وغسل وجهه ثلاثا، وغسل ذراعيه ثلاثا ثلاثا، ومسح براسه، وغسل قدميه ثلاثا ثلاثا، ثم قام فشرب من فضل وضوئه، ثم قال: إني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل كالذي رايتموني فعلت، فاردت ان اريكموه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ . ح وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أخبرنا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي حَيَّةَ الْوَادِعِيِّ ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: عَنْ أَبِي حَيَّةَ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا بَالَ فِي الرَّحَبَةِ، وَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ" فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا، وَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَغَسَلَ قَدَمَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ مِنْ فَضْلِ وَضُوئِهِ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَالَّذِي رَأَيْتُمُونِي فَعَلْتُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أُرِيَكُمُوهُ".
ابوحیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو صحن میں پیشاب کرتے ہوئے دیکھا، پھر انہوں نے پانی منگوایا اور پہلے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھو کر صاف کیا، پھر تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھوئے، سر کا مسح کیا اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھوئے، اور وضو کا بچا ہوا پانی لے کر کھڑے کھڑے پی گئے، اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دکھانا چاہتا تھا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک دن بر سر منبر خطبہ دیتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء بیان کی اور جو اللہ کو منظور ہوا وہ کہا، پھر فرمایا کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، ان کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے، اس کے بعد ہم نے ایسی چیزیں ایجاد کر لی ہیں جن میں اللہ جو چاہے گا سو کرے گا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، ان کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف يونس بن خباب، لكن صح الأثر من طريق آخر عن المسيب، تقدم برقم: 926
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا مجمع بن يحيى ، عن عبد الله بن عمران الانصاري ، عن علي . ح والمسعودي ، عن عثمان بن عبد الله بن هرمز ، عن نافع بن جبير ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" ليس بالقصير، ولا بالطويل، ضخم الراس واللحية، شثن الكفين والقدمين، ضخم الكراديس، مشربا وجهه حمرة، طويل المسربة، إذا مشى تكفا تكفؤا، كانما يتقلع من صخر، لم ار قبله ولا بعده مثله صلى الله عليه وسلم"، وقال ابو النضر: المسربة، وقال ابو نعيم: المسربة، وقال: كانما ينحط من صبب، وقال ابو قطن: المسربة، وقال يزيد: المسربة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِمْرَانَ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ . ح وَالْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُرْمُزَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَيْسَ بِالْقَصِيرِ، وَلَا بِالطَّوِيلِ، ضَخْمَ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ، شَثْنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، ضَخْمَ الْكَرَادِيسِ، مُشْرَبًا وَجْهُهُ حُمْرَةً، طَوِيلَ الْمَسْرُبَةِ، إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ تَكَفُّؤًا، كَأَنَّمَا يَتَقَلَّعُ مِنْ صَخْرٍ، لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وقَالَ أَبُو النَّضْرِ: الْمَسْرُبَةُ، وَقَالَ أبو نعيم: المَسْرَبة، وقَالَ: كَأَنَّمَا يَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ، وقَالَ أَبُو قَطَنٍ: الْمَسْرُبَةُ، وقَالَ يَزِيدُ: الْمَسْرُبَةُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے، سر مبارک بڑا اور داڑھی گھنی تھی، ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے تھے، چہرہ مبارک میں سرخی کی آمیزش تھی، سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی، ہڈیوں کے جوڑ بہت مضبوط تھے، چلتے وقت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کہ کسی گھاٹی سے اتر رہے ہیں، میں نے ان سے پہلے یا ان کے بعد ان جیسا کوئی نہ دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، إسناد حديث وكيع عن المسعودي محتمل للتحسين، وأما عبدالله بن عمران الأنصاري فإنه فى عداد المجهولين، بينه وبين على رجل غير مسمى، كما ذكره ابن أبى حاتم وغيره
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثنا ابو صالح الحكم بن موسى ، حدثنا شهاب بن خراش ، حدثنا الحجاج بن دينار ، عن حصين بن عبد الرحمن ، عن ابي جحيفة ، قال: كنت ارى ان عليا رضي الله عنه افضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر الحديث، قلت: لا والله يا امير المؤمنين، إني لم اكن ارى ان احدا من المسلمين بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم افضل منك، قال:" افلا احدثك بافضل الناس كان بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: قلت: بلى، فقال ابو بكر رضي الله عنه، فقال: افلا اخبرك بخير الناس كان بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر؟ قلت: بلى، قال عمر رضي الله عنه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، قَالَ: كُنْتُ أَرَى أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَفْضَلُ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قُلْتُ: لَا وَاللَّهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ أَرَى أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ مِنْكَ، قَالَ:" أَفَلَا أُحَدِّثُكَ بِأَفْضَلِ النَّاسِ كَانَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَفَلَا أُخْبِرُكَ بِخَيْرِ النَّاسِ كَانَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ".
ابوجحیفہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تمام لوگوں میں سب سے افضل سمجھتا تھا، . . . . . میں نے کہا: نہیں، واللہ اے امیر المومنین! میں نہیں سمجھتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں میں آپ سے افضل بھی کوئی ہوگا، انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدسب سے افضل شخص کون ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا: وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور میں تمہیں بتاؤں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا: وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثني سريج بن يونس ، حدثنا مروان الفزاري ، اخبرنا عبد الملك بن سلع ، عن عبد خير ، قال: سمعته يقول: قام علي رضي الله عنه على المنبر، فذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم واستخلف ابو بكر رضي الله عنه، فعمل بعمله، وسار بسيرته، حتى قبضه الله عز وجل على ذلك، ثم استخلف عمر رضي الله عنه على ذلك فعمل بعملهما، وسار بسيرتهما، حتى قبضه الله عز وجل على ذلك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ الْفَزَارِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ سَلْعٍ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: قَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَمِلَ بِعَمَلِهِ، وَسَارَ بِسِيرَتِهِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ اسْتُخْلِفَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى ذَلِكَ فَعَمِلَ بِعَمَلِهِمَا، وَسَارَ بِسِيرَتِهِمَا، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى ذَلِكَ".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کر دیا گیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور ان کی سیرت پر چلتے ہوئے کام کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی اپنے پاس بلا لیا، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے اور وہ ان دونوں حضرات کے طریقے اور سیرت پر چلتے ہوئے کام کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی اپنے پاس بلا لیا۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن علي بن ربيعة ، قال: كنت ردف علي رضي الله عنه، فلما وضع رجله في الركاب، قال:" بسم الله"، فلما استوى، قال:" الحمد لله، سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين، وإنا إلى ربنا لمنقلبون"، وقال ابو سعيد مولى بني هاشم: ثم" حمد الله ثلاثا، والله اكبر ثلاثا"، ثم قال:" سبحان الله ثلاثا"، ثم قال:" لا إله إلا انت"، ثم رجع إلى حديث وكيع،" سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي، إنه لا يغفر الذنوب إلا انت، ثم ضحك، قلت: ما يضحكك؟ قال: كنت ردفا لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ففعل كالذي رايتني فعلت،" ثم ضحك"، قلت: يا رسول الله، ما يضحكك؟ قال:" قال الله تبارك وتعالى: عجب لعبدي، يعلم انه لا يغفر الذنوب غيري".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الرِّكَابِ، قَالَ:" بِسْمِ اللَّهِ"، فَلَمَّا اسْتَوَى، قَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ، سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ"، وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ: ثُمَّ" حَمِدَ اللَّهَ ثَلَاثًا، وَاللَّهُ أَكْبَرُ ثَلَاثًا"، ثُمَّ قَالَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ ثَلَاثًا"، ثُمَّ قَالَ:" لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ"، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ وَكِيعٍ،" سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، ثُمَّ ضَحِكَ، قُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ؟ قَالَ: كُنْتُ رِدْفًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَعَلَ كَالَّذِي رَأَيْتَنِي فَعَلْتُ،" ثُمَّ ضَحِكَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُضْحِكُكَ؟ قَالَ:" قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: عَجَبٌ لِعَبْدِي، يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرِي".
علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ردیف تھا، جب انہوں نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو بسم اللہ کہا، جب اس پر بیٹھ گئے تو یہ دعا پڑھی: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ»”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارا تابع فرمان بنا دیا، ہم تو اسے اپنے تابع نہیں کر سکتے تھے، اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔“ پھر تین مرتبہ الحمدللہ اور تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: اے اللہ! آپ پاک ہیں، آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، پس مجھے معاف فرما دیجئے، پھر مسکرا دئیے۔ میں نے پوچھا کہ امیر المومنین! اس موقع پر مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا جیسے میں نے کیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرائے تھے، اور میں نے بھی ان سے اس کی وجہ پوچھی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”جب بندہ یہ کہتا ہے کہ پروردگار! مجھے معاف فرما دے، تو پروردگار کو خوشی ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے علاوہ اس کے گناہ کوئی معاف نہیں کر سکتا۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، أبو إسحاق دلسه فحذف منه رجلين بينه وبين على بن ربيعة
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن سلمة ، عن علي رضي الله عنه، قال: اشتكيت، فاتاني النبي صلى الله عليه وسلم وانا اقول: اللهم إن كان اجلي قد حضر فارحني، وإن كان متاخرا فاشفني او عافني، وإن كان بلاء فصبرني، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" كيف قلت؟"، قال: فاعدت عليه، قال: فمسح بيده، ثم قال:" اللهم اشفه، او عافه"، قال: فما اشتكيت وجعي ذاك بعد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلِمَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: اشْتَكَيْتُ، فَأَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَجَلِي قَدْ حَضَرَ فَأَرِحْنِي، وَإِنْ كَانَ مُتَأَخِّرًا فَاشْفِنِي أَوْ عَافِنِي، وَإِنْ كَانَ بَلَاءً فَصَبِّرْنِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيْفَ قُلْتَ؟"، قَالَ: فَأَعَدْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: فَمَسَحَ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اشْفِهِ، أَوْ عَافِهِ"، قَالَ: فَمَا اشْتَكَيْتُ وَجَعِي ذَاكَ بَعْدُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے پاس سے گزر ہوا، میں اس وقت بیمار تھا اور یہ دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ! اگر میری موت کا وقت قریب آگیا ہے تو مجھے اس بیماری سے راحت عطاء فرما اور مجھے اپنے پاس بلا لے، اگر اس میں دیر ہو تو شفاء عطا فرما دے، اور اگر یہ کوئی آزمائش ہو تو مجھے صبر عطاء فرما۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کیا کہہ رہے ہو؟“ میں نے اپنی بات دہرا دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر ہاتھ پھیر کر دعا فرمائی: «اَللّٰهُمَّ اشْفِهِ أَوْ عَافِهِ»”اے اللہ! اسے عافیت اور شفاء عطاء فرما۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے وہ تکلیف کبھی نہیں ہوئی۔
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابن نمير ، عن عبد الملك بن سلع ، عن عبد خير ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول:" قبض الله نبيه صلى الله عليه وسلم على خير ما قبض عليه نبي من الانبياء عليهم السلام، ثم استخلف ابو بكر رضي الله عنه، فعمل بعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة نبيه، وعمر رضي الله عنه كذلك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّه، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَلْعٍ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" قَبَضَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خَيْرِ مَا قُبِضَ عَلَيْهِ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ السَّلَام، ثُمَّ اسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَمِلَ بِعَمَلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ، وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَذَلِكَ".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام انبیاء علیہم السلام میں سب سے زیادہ بہترین طریقے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا ہے، ان کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کر دیا گیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور ان کی سیرت پر چلتے ہوئے کام کرتے رہے، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے، اور وہ ان دونوں حضرات کے طریقے اور سیرت پر چلتے ہوئے کام کرتے رہے۔
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثنا زكريا بن يحيى زحمويه ، حدثنا عمر بن مجاشع ، عن ابي إسحاق ، عن عبد خير ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول على المنبر:" خير هذه الامة بعد نبيها ابو بكر وعمر رضي الله عنهم، ولو شئت ان اسمي الثالث لسميته"، فقال رجل لابي إسحاق: إنهم يقولون: إنك تقول: افضل في الشر، فقال: احروري؟!.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى زَحْمَوَيْهِ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُجَاشِعٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ:" خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَلَوْ شِئْتُ أَنْ أُسَمِّيَ الثَّالِثَ لَسَمَّيْتُهُ"، فَقَالَ رَجُلٌ لِأَبِي إِسْحَاقَ: إِنَّهُمْ يَقُولُونَ: إِنَّكَ تَقُولُ: أَفْضَلُ فِي الشَّرِّ، فَقَالَ: أَحَرُورِيٌّ؟!.
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (دوران خطبہ یہ) کہتے ہوئے سنا کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اگر میں چاہوں تو تیسرے آدمی کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ قربانی کے جانور کی آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں، اور ایسے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے جس کا کان آگے یا پیچھے سے کٹا ہوا ہو، یا اس میں سوراخ ہو، یا وہ پھٹ گیا ہو، یا جسم کے دیگر اعضاء کٹے ہوئے ہوں۔
حكم دارالسلام: حسن، أبو إسحاق لم يسمع هذا الحديث من شريح بن النعمان
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ بات ذکر فرمائی تھی کہ ”تم سے بغض کوئی منافق ہی کر سکتا ہے، اور تم سے محبت کوئی مومن ہی کر سکتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن سماك بن حرب ، عن حنش الكناني ، ان قوما باليمن حفروا زبية لاسد، فوقع فيها، فتكاب الناس عليه، فوقع فيها رجل فتعلق بآخر، ثم تعلق الآخر بآخر، حتى كانوا فيها اربعة، فتنازع في ذلك حتى اخذ السلاح بعضهم لبعض، فقال لهم علي رضي الله عنه: اتقتلون مائتين في اربعة؟ ولكن ساقضي بينكم بقضاء إن رضيتموه: للاول ربع الدية، وللثاني ثلث الدية، وللثالث نصف الدية، وللرابع الدية، فلم يرضوا بقضائه، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ساقضي بينكم بقضاء"، قال: فاخبر بقضاء علي رضي الله عنه، فاجازه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ حَنَشٍ الْكِنَانِيِّ ، أَنَّ قَوْمًا بِالْيَمَنِ حَفَرُوا زُبْيَةً لِأَسَدٍ، فَوَقَعَ فِيهَا، فَتَكَابَّ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَوَقَعَ فِيهَا رَجُلٌ فَتَعَلَّقَ بِآخَرَ، ثُمَّ تَعَلَّقَ الْآخَرُ بِآخَرَ، حَتَّى كَانُوا فِيهَا أَرْبَعَةً، فَتَنَازَعَ فِي ذَلِكَ حَتَّى أَخَذَ السِّلَاحَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ، فَقَالَ لَهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَتَقْتُلُونَ مِائَتَيْنِ فِي أَرْبَعَةٍ؟ وَلَكِنْ سَأَقْضِي بَيْنَكُمْ بِقَضَاءٍ إِنْ رَضِيتُمُوهُ: لِلْأَوَّلِ رُبُعُ الدِّيَةِ، وَلِلثَّانِي ثُلُثُ الدِّيَةِ، وَلِلثَّالِثِ نِصْفُ الدِّيَةِ، وَلِلرَّابِعِ الدِّيَةُ، فَلَمْ يَرْضَوْا بِقَضَائِهِ، فَأَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" سَأَقْضِي بَيْنَكُمْ بِقَضَاءٍ"، قَالَ: فَأُخْبِرَ بِقَضَاءِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَجَازَهُ.
حنش کنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یمن میں ایک قوم نے شیر کو شکار کرنے کے لئے ایک گڑھا کھود کر اسے ڈھانپ رکھا تھا، شیر اس میں گر پڑا، اچانک ایک آدمی بھی اس گڑھے میں گر پڑا، اس کے پیچھے دوسرا، تیسرا حتی کہ چار آدمی گر پڑے۔ (اس گڑھے میں موجود شیر نے ان سب کو زخمی کر دیا، یہ دیکھ کر ایک آدمی نے جلدی سے نیزہ پکڑا اور شیر کو دے مارا، چنانچہ شیر ہلاک ہو گیا اور وہ چاروں آدمی بھی اپنے اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے چل بسے)۔ مقتولین کے اولیاء اسلحہ نکال کر جنگ کے لئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے، اتنی دیر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ آ پہنچے اور کہنے لگے: کیا تم چار آدمیوں کے بدلے دو سو آدمیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں، اگر تم اس پر راضی ہو گئے تو سمجھو کہ فیصلہ ہو گیا۔ فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص پہلے گر کر گڑھے میں شیر کے ہاتھوں زخمی ہوا، اس کے ورثاء کو چوتھائی دیت دے دو، اور چوتھے کو مکمل دیت دے دو، دوسرے کو ایک تہائی اور تیسرے کو نصف دیت دے دو۔ ان لوگوں نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا (کیونکہ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا)۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں۔“ اتنی دیر میں ایک آدمی کہنے لگا: یا رسول اللہ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان یہ فیصلہ فرمایا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو نافذ کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، وعبد الرحمن ، عن سفيان ، عن حبيب ، عن ابي وائل ، عن ابي الهياج ، قال: قال لي علي ، قال عبد الرحمن: إن عليا رضي الله عنه قال لابي الهياج: ابعثك على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم: ان" لا تدع قبرا مشرفا إلا سويته، ولا تمثالا إلا طمسته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ أَبِي الْهَيَّاجِ ، قَالَ: قَالَ لِي عَلِيٌّ ، َقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: إِنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِأَبِي الْهَيَّاجِ: أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ" لَا تَدَعَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ، وَلَا تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے رفیق ابوالہیاج کو مخاطب کر کے فرمایا: میں تمہیں اس کام کے لئے بھیج رہا ہوں، جس کام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا، انہوں نے مجھے ہر قبر کو برابر کرنے اور ہر بت کو مٹا ڈالنے کا حکم دیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، قال: سمعت جري بن كليب يحدث، عن علي رضي الله عنه، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن" عضب الاذن والقرن"، قال: فسالت سعيد بن المسيب ما العضب؟ فقال: النصف فما فوق ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ جُرَيَّ بْنَ كُلَيْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ" عَضَبِ الْأُذُنِ وَالْقَرْنِ"، قَالَ: فَسَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ مَا الْعَضَبُ؟ فَقَالَ: النِّصْفُ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا زائدة عن منصور ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن ، عن علي رضي الله عنه، قال: كنا مع جنازة في بقيع الغرقد، فاتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس وجلسنا حوله، ومعه مخصرة ينكت بها، ثم رفع بصره، فقال:" ما منكم من نفس منفوسة إلا وقد كتب مقعدها من الجنة والنار، إلا قد كتبت شقية او سعيدة"، فقال القوم: يا رسول الله، افلا نمكث على كتابنا وندع العمل، فمن كان من اهل السعادة فسيصير إلى السعادة، ومن كان من اهل الشقوة فسيصير إلى الشقوة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بل اعملوا، فكل ميسر، اما من كان من اهل الشقوة فإنه ييسر لعمل الشقوة، واما من كان من اهل السعادة فإنه ييسر لعمل السعادة"، ثم قرا: فاما من اعطى واتقى وصدق بالحسنى فسنيسره لليسرى واما من بخل واستغنى وكذب بالحسنى فسنيسره للعسرى سورة الليل آية 5 - 10.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ جَنَازَةٍ فِي بَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ يَنْكُتُ بِهَا، ثُمَّ رَفَعَ بَصَرَهُ، فَقَالَ:" مَا مِنْكُمْ مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، إِلَّا قَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً"، فَقَالَ الْقَوْمُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَمْكُثُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى السَّعَادَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقْوَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى الشِّقْوَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلْ اعْمَلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقْوَةِ فَإِنَّهُ يُيَسَّرُ لِعَمَلِ الشِّقْوَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَإِنَّهُ يُيَسَّرُ لِعَمَلِ السَّعَادَةِ"، ثُمَّ قَرَأَ: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى سورة الليل آية 5 - 10.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم لوگ کسی جنازے کے ساتھ بقیع میں تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے، ہم بھی ان کے گرد بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ - خواہ جنت ہو یا جہنم - اللہ کے علم میں موجود اور متعین ہے، اور یہ لکھا جا چکا ہے کہ وہ شقی ہے یا سعید؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! پھر ہم اپنی کتاب پر بھروسہ کر کے عمل کو چھوڑ نہ دیں؟ کیونکہ جو اہل سعادت میں سے ہو گا وہ سعادت حاصل کر لے گا، اور جو اہل شقاوت میں سے ہو گا وہ شقاوت پا لے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کے لئے وہی اعمال آسان کئے جائیں گے جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہو گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى﴾ [الليل: 5-7] »”جس شخص نے دیا، تقویٰ اختیار کیا اور اچھی بات کی تصدیق کی تو یقینا ہم آسان راستے کے اسباب پیدا کر دیں گے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ جو شخص جھوٹا خواب بیان کرتا ہے، اسے قیامت کے دن جو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں اس لئے مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص وضو کر لیا کرے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نماز کی کنجی طہارت ہے، نماز میں حلال چیزوں کو حرام کرنے والی چیز تکبیر تحریمہ ہے، اور انہیں حلال کرنے والی چیز سلام پھیرنا ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہ پڑھو، ہاں! اگر سورج صاف ستھرا دکھائی دے رہا ہو تو جائز ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا زكريا بن يحيى زحمويه . ح وحدثنا محمد بن بكار . ح وحدثنا إسماعيل ابو معمر ، وسريج بن يونس ، قالوا: حدثنا الحسن بن يزيد الاصم ، قال ابو معمر: مولى قريش، قال: اخبرني السدي ، وقال زحمويه في حديثه: قال: سمعت السدي، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، عن علي رضي الله عنه، قال: لما توفي ابو طالب اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: إن عمك الشيخ قد مات، قال:" اذهب فواره، ولا تحدث من امره شيئا حتى تاتيني"، فواريته ثم اتيته، فقال:" اذهب فاغتسل، ولا تحدث شيئا حتى تاتيني"، فاغتسلت ثم اتيته، فدعا لي بدعوات ما يسرني بهن حمر النعم وسودها، وقال ابن بكار في حديثه: قال السدي: وكان علي رضي الله عنه إذا غسل ميتا اغتسل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى زَحْمَوَيْهِ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ . ح وَحَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ أَبُو مَعْمَرٍ ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَزِيدَ الْأَصَمُّ ، قَالَ أَبُو مَعْمَرٍ: مَوْلَى قُرَيْشٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي السُّدِّيُّ ، وَقَالَ زَحْمَوَيْهِ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: سَمِعْتُ السُّدِّيَّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو طَالِبٍ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ قَدْ مَاتَ، قَالَ:" اذْهَبْ فَوَارِهِ، وَلَا تُحْدِثْ مِنْ أَمْرِهِ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي"، فَوَارَيْتُهُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" اذْهَبْ فَاغْتَسِلْ، وَلَا تُحْدِثْ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي"، فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَدَعَا لِي بِدَعَوَاتٍ مَا يَسُرُّنِي بِهِنَّ حُمْرُ النَّعَمِ وَسُودُهَا، وقَالَ ابْنُ بَكَّارٍ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ السُّدِّيُّ: وَكَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا غَسَلَ مَيِّتًا اغْتَسَلَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ابوطالب کی وفات ہو گئی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا چچا مر گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر انہیں کسی گڑھے میں چھپا دو، اور میرے پاس آنے سے پہلے کوئی دوسرا کام نہ کرنا۔“ چنانچہ جب میں انہیں کسی گڑھے میں اتار کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا تو مجھ سے فرمایا: ”جا کر غسل کرو، اور میرے پاس آنے سے پہلے کوئی دوسرا کام نہ کرنا۔“ چنانچہ میں غسل کر کے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اتنی دعائیں دیں کہ مجھے ان کے بدلے سرخ یا سیاہ اونٹ ملنے پر اتنی خوشی نہ ہوتی۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب بھی کسی میت کو غسل دیا تو خود بھی غسل کر لیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کسی جھوٹی بات کی نسبت کرے، اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ تیار کر لینا چاہیے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلى الثعلبي، لكن متن الحديث صحيح متواتر، خ: 106، م: (في المقدمة): 1
(حديث مرفوع) قال: حدثناه إسحاق بن يوسف ، اخبرنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم ، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" لا تصلوا بعد العصر، إلا ان تصلوا والشمس مرتفعة"، قال سفيان: فما ادري بمكة يعني او بغيرها؟.(حديث مرفوع) قَالَ: حَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" لَا تُصَلُّوا بَعْدَ الْعَصْرِ، إِلَّا أَنْ تُصَلُّوا وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ"، قَالَ سُفْيَانُ: فَمَا أَدْرِي بِمَكَّةَ يَعْنِي أَوْ بِغَيْرِهَا؟.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہ پڑھو، ہاں! اگر سورج صاف ستھرا دکھائی دے رہا ہو تو جائز ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا مسعر ، عن ابي عون ، عن ابي صالح الحنفي ، عن علي رضي الله عنه، ان اكيدر دومة اهدى للنبي صلى الله عليه وسلم حلة او ثوب حرير، قال: فاعطانيه، وقال:" شققه خمرا بين النسوة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْحَنَفِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ أُكَيْدِرَ دُومَةَ أَهْدَى لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةً أَوْ ثَوْبَ حَرِيرٍ، قَالَ: فَأَعْطَانِيهِ، وَقَالَ:" شَقِّقْهُ خُمُرًا بَيْنَ النِّسْوَةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دومۃ الجندل - جو شام اور مدینہ کے درمیان ایک علاقہ ہے - کے بادشاہ اکیدر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ریشمی جوڑا بطور ہدیہ کے بھیجا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھے عطاء کر کے فرمایا: ”اس کے دوپٹے بنا کر عورتوں میں تقسیم کر دو۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن عبد الله بن سبع ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: لتخضبن هذه من هذا، فما ينتظر بي الاشقى؟! قالوا: يا امير المؤمنين، فاخبرنا به نبير عترته، قال: إذا تالله تقتلون بي غير قاتلي، قالوا: فاستخلف علينا، قال: لا، ولكن اترككم إلى ما ترككم إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا: فما تقول لربك إذا اتيته؟ وقال وكيع مرة: إذا لقيته؟ قال: اقول:" اللهم تركتني فيهم ما بدا لك، ثم قبضتني إليك وانت فيهم، فإن شئت اصلحتهم، وإن شئت افسدتهم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَبُعٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: لَتُخْضَبَنَّ هَذِهِ مِنْ هَذَا، فَمَا يَنْتَظِرُ بِي الْأَشْقَى؟! قَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَأَخْبِرْنَا بِهِ نُبِيرُ عِتْرَتَهُ، قَالَ: إِذًا تَالَلَّهِ تَقْتُلُونَ بِي غَيْرَ قَاتِلِي، قَالُوا: فَاسْتَخْلِفْ عَلَيْنَا، قَالَ: لَا، وَلَكِنْ أَتْرُكُكُمْ إِلَى مَا تَرَكَكُمْ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: فَمَا تَقُولُ لِرَبِّكَ إِذَا أَتَيْتَهُ؟ وَقَالَ وَكِيعٌ مَرَّةً: إِذَا لَقِيتَهُ؟ قَالَ: أَقُولُ:" اللَّهُمَّ تَرَكْتَنِي فِيهِمْ مَا بَدَا لَكَ، ثُمَّ قَبَضْتَنِي إِلَيْكَ وَأَنْتَ فِيهِمْ، فَإِنْ شِئْتَ أَصْلَحْتَهُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَفْسَدْتَهُمْ".
عبداللہ بن سبع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ داڑھی اس سر کے خون سے رنگین ہو کر رہے گی، وہ شقی جو مجھے قتل کرے گا نہ جانے کس چیز کا انتظار کر رہا ہے؟ لوگوں نے کہا: امیر المومنین! ہمیں اس کا نام پتہ بتائیے، ہم اس کی نسل تک مٹا دیں گے، فرمایا: واللہ! اس طرح تو تم میرے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کر دو گے، لوگوں نے عرض کیا کہ پھر ہم پر اپنا نائب ہی مقرر کر دیجئے، فرمایا: نہیں، میں تمہیں اسی کیفیت پر چھوڑ کر جاؤں گا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا تھا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ پھر آپ جب اپنے رب سے ملیں گے تو اسے کیا جواب دیں گے (کہ آپ نے کسے خلیفہ مقرر کیا؟)، فرمایا: میں عرض کروں گا کہ اے اللہ! جب تک آپ کی مشیت ہوئی، آپ نے مجھے ان میں چھوڑے رکھا، پھر آپ نے مجھے اپنے پاس بلا لیا تب بھی آپ ان میں موجود تھے، اب اگر آپ چاہیں تو ان میں اصلاح رکھیں اور اگر آپ چاہیں تو ان میں پھوٹ ڈال دیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن سبع
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن هانئ بن هانئ ، عن علي رضي الله عنه، قال: كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فجاءه عمار فاستاذن، فقال:" ائذنوا له، مرحبا بالطيب المطيب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَهُ عَمَّارٌ فَاسْتَأْذَنَ، فَقَالَ:" ائْذَنُوا لَهُ، مَرْحَبًا بِالطَّيِّبِ الْمُطَيَّبِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، اتنی دیر میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ آ کر اجازت طلب کرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں اجازت دے دو، خوش آمدید اس شخص کو جو پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کا حامل ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، إلا أنه مرسل، أبو البختري روايته عن على مرسلة، لكن السند الذى بعده موصول
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔
سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے خط سے متعلق یہ روایت مختلف رواۃ سے مروی ہے جو اس جگہ کا نام کبھی روضہ خاخ بتاتے ہیں، بعض صرف خاخ بتاتے ہیں، اور بعض روضہ کذا و کذا کہتے ہیں۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا وكيع ، حدثنا مسعر ، وسفيان ، عن ابي حصين ، عن عمير بن سعيد ، قال: قال علي رضي الله عنه:" ما كنت لاقيم على رجل حدا فيموت فاجد في نفسي منه إلا صاحب الخمر، فلو مات وديته"، وزاد سفيان:" وذلك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يسنه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، وَسُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" مَا كُنْتُ لِأُقِيمَ عَلَى رَجُلٍ حَدًّا فَيَمُوتَ فَأَجِدُ فِي نَفْسِي مِنْهُ إِلَّا صَاحِبَ الْخَمْرِ، فَلَوْ مَاتَ وَدَيْتُهُ"، وَزَادَ سُفْيَانُ:" وَذَلِكَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسُنَّهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص پر بھی میں نے کوئی شرعی سزا نافذ کی ہو، اس کے متعلق مجھے اپنے دل میں کوئی کھٹک محسوس نہیں ہوتی، سوائے شرابی کے کہ اگر اس کی سزا اسی کوڑے جاری کرنے کے بعد کوئی شخص مر جائے تو میں اس کی دیت ادا کرتا ہوں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی (کہ چالیس کوڑے مارے جائیں یا اسی)۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان . ح وحدثنا عبد الرحمن ، قال: حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن ابي الخليل ، عن علي رضي الله عنه، قال: سمعت رجلا يستغفر لابويه، وهما مشركان، فقلت: تستغفر لابويك وهما مشركان؟ فقال: اليس قد استغفر إبراهيم لابيه وهو مشرك؟ قال: فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فنزلت:" ما كان للنبي والذين آمنوا ان يستغفروا للمشركين سورة التوبة آية 113"، إلى آخر الآيتين، قال عبد الرحمن: فانزل الله:" وما كان استغفار إبراهيم لابيه إلا عن موعدة وعدها إياه سورة التوبة آية 114".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ . ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا يَسْتَغْفِرُ لِأَبَوَيْهِ، وَهُمَا مُشْرِكَانِ، فَقُلْتُ: تَسْتَغْفِرُ لِأَبَوَيْكَ وَهُمَا مُشْرِكَانِ؟ فَقَالَ: أَلَيْسَ قَدْ اسْتَغْفَرَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَهُوَ مُشْرِكٌ؟ قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ:" مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ سورة التوبة آية 113"، إِلَى آخِرِ الْآيَتَيْنِ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ:" وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لأَبِيهِ إِلا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ سورة التوبة آية 114".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک آدمی کو اپنے مشرک والدین کے لئے دعا مغفرت کرتے ہوئے سنا تو میں نے کہا کہ کیا تم اپنے مشرک والدین کے لئے دعا مغفرت کر رہے ہو؟ اس نے کہا کہ کیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے مشرک باپ کے لئے دعا مغفرت نہیں کرتے تھے؟ میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: «﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ .....﴾ [التوبة: 113] »”پیغمبر اور اہل ایمان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لئے دعا مغفرت کریں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش . ح وعبد الرحمن ، عن سفيان ، عن الاعمش ، عن خيثمة ، عن سويد بن غفلة ، قال: قال علي رضي الله عنه: إذا حدثتكم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا، فلان اخر من السماء احب إلي من ان اكذب عليه، وإذا حدثتكم فيما بيني وبينكم فإن الحرب خدعة، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" يخرج قوم في آخر الزمان احداث الاسنان سفهاء، وقال عبد الرحمن: اسفاه، الاحلام، يقولون من خير قول البرية، يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم، قال عبد الرحمن: لا يجاوز إيمانهم حناجرهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، فإذا لقيتموهم فاقتلوهم، فإن في قتلهم اجرا لمن قتلهم عند الله عز وجل يوم القيامة"، قال عبد الرحمن:" فإذا لقيتهم فاقتلهم، فإن قتلهم اجر لمن قتلهم يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ . ح وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ، وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ فَإِنَّ الْحَرْبَ خَدْعَةٌ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يَخْرُجُ قَوْمٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ، وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَسْفَاهُ، الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خير قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: لَا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ:" فَإِذَا لَقِيتَهُمْ فَاقْتُلْهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: جب میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کروں تو میرے نزدیک آسمان سے گر جانا ان کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، اور جب کسی اور کے حوالے سے کوئی بات کروں تو میں جنگجو آدمی ہوں اور جنگ تو نام ہی تدبیر اور چال کا ہے۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”قیامت کے قریب ایسی اقوام نکلیں گی جن کی عمر تھوڑی ہوگی اور عقل کے اعتبار سے وہ بیوقوف ہوں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کریں گے، لیکن ایمان ان کے گلے سے آگے نہیں جائے گا، تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو، کیونکہ ان کا قتل کرنا قیامت کے دن باعث ثواب ہوگا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قرآن کریم میں یہ جو فرمایا گیا ہے: «﴿وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ﴾ [الواقعة: 82] »”تم نے اپنا حصہ یہ بنا رکھا ہے کہ تم تکذیب کرتے رہو“، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ کہتے ہو: فلاں فلاں ستارے کے طلوع و غروب سے بارش ہوئی ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ جو شخص جھوٹا خواب بیان کرتا ہے، اسے قیامت کے دن جو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: قضى النبي صلى الله عليه وسلم" بالدين قبل الوصية، وانتم تقرءون: من بعد وصية يوصى بها او دين سورة النساء آية 12، وإن اعيان بني الام يتوارثون دون بني العلات".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَأَنْتُمْ تَقْرَءُونَ: مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ سورة النساء آية 12، وَإِنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ میت کے قرض کی ادائیگی اجراء و نفاذ وصیت سے پہلے ہو گی، جبکہ قرآن میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے ہے، اور یہ کہ اخیافی بھائی تو وارث ہوں گے لیکن علاتی بھائی وارث نہ ہوں گے۔ فائدہ: ماں شریک بھائی کو اخیافی، اور باپ شریک بھائی کو علاتی کہتے ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن ناجية بن كعب ، عن علي ، قال: لما مات ابو طالب اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: إن عمك الشيخ الضال قد مات، فقال:" انطلق فواره، ولا تحدث شيئا حتى تاتيني"، قال: فانطلقت فواريته، فامرني فاغتسلت، ثم دعا لي بدعوات ما احب ان لي بهن ما عرض من شيء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، فَقَالَ:" انْطَلِقْ فَوَارِهِ، وَلَا تُحْدِثْ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي"، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَوَارَيْتُهُ، فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ، ثُمَّ دَعَا لِي بِدَعَوَاتٍ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهِنَّ مَا عَرُضَ مِنْ شَيْءٍ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابوطالب کا انتقال ہو گیا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا اور گمراہ چچا مر گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر اسے کسی گڑھے میں چھپا دو، اور میرے پاس آنے سے پہلے کسی سے کوئی بات نہ کرنا۔“ چنانچہ میں گیا اور اسے ایک گڑھے میں چھپا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد مجھے غسل کرنے کا حکم دیا اور مجھے اتنی دعائیں دیں کہ ان کے مقابلے میں کسی وسیع و عریض چیز کی میری نگاہوں میں کوئی حیثیت نہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے تو ہم بھی کھڑے ہو جاتے تھے، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہنے لگے تو ہم بھی بیٹھنے لگے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن علي بن زيد ، عن سعيد بن المسيب ، قال: قال علي : قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: الا ادلك على اجمل فتاة في قريش؟ قال:" ومن هي؟"، قلت: ابنة حمزة، قال:" اما علمت انها ابنة اخي من الرضاعة، إن الله حرم من الرضاعة ما حرم من النسب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ : قُلْتُ لرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَجْمَلِ فَتَاةٍ فِي قُرَيْشٍ؟ قَالَ:" وَمَنْ هِيَ؟"، قُلْتُ: ابْنَةُ حَمْزَةَ، قَالَ:" أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا حَرَّمَ مِنَ النَّسَبِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ کو قریش کی ایک خوبصورت ترین دوشیزہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کون ہے؟“ میں نے عرض کیا: سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی، فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے رضاعت کی وجہ سے بھی وہ تمام رشتے حرام قرار دئیے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام قرار دیئے ہیں۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد، وهو ابن جدعان
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد عفوت لكم عن صدقة الخيل والرقيق، ولكن هاتوا ربع العشور من كل اربعين درهما درهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ عَفَوْتُ لَكُمْ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، وَلَكِنْ هَاتُوا رُبُعَ الْعُشُورِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے اس لئے چاندی کی زکوٰۃ بہرحال تمہیں ادا کرنا ہو گی، جس کا نصاب یہ ہے کہ ہر چالیس پر ایک درہم واجب ہو گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، وعثمان بن عمر ، قالا: حدثنا اسامة بن زيد ، قال وكيع: قال: سمعت عبد الله بن حنين ، وقال عثمان: عن عبد الله بن حنين، سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا اقول: نهاكم،" عن المعصفر والتختم بالذهب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ وَكِيعٌ: قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ حُنَيْنٍ ، وَقَالَ عُثْمَانُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَقُولُ: نَهَاكُمْ،" عَنِ الْمُعَصْفَرِ وَالتَّخَتُّمِ بِالذَّهَبِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے - میں یہ نہیں کہتا کہ تمہیں - سونے کی انگوٹھی اور عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پہننے سے منع کیا ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں چھوڑ کر قریش کے دوسرے خاندانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی، فرمایا: ”وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔“(در اصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے اور چچا بھتیجے بھی)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اونٹ ذبح کئے تو مجھے حکم دیا کہ ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دوں اور گوشت بھی تقسیم کر دوں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کو بھی جگاتے اور تہہ بند کس لیتے۔ کسی نے راوی سے پوچھا کہ تہبند کس لینے سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ازواج مطہرات سے جدا رہتے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ قربانی کے جانوروں کی آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں کہ کہیں ان میں کوئی عیب تو نہیں ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے تشریف لے گئے، دوسرے نمبر پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اور تیسرے نمبر پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اس کے بعد ہمیں امتحانات نے گھیر لیا، اب اللہ جو چاہے گا وہ ہوگا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین عورت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں اور بہترین عورت سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، عن علي رضي الله عنه، قال: كنا جلوسا مع النبي صلى الله عليه وسلم في جنازة، اراه قال: ببقيع الغرقد، قال: فنكت في الارض ثم رفع راسه، فقال:" ما منكم من احد إلا وقد كتب مقعده من الجنة ومقعده من النار"، قال: قلنا: يا رسول الله، افلا نتكل؟ قال:" لا، اعملوا فكل ميسر"، ثم قرا:" فاما من اعطى واتقى وصدق بالحسنى فسنيسره لليسرى واما من بخل واستغنى وكذب بالحسنى فسنيسره للعسرى سورة الليل آية 5 - 10".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، أُرَاهُ قَالَ: بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ، قَالَ: فَنَكَتَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ:" مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ"، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَتَّكِلُ؟ قَالَ:" لَا، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ"، ثُمَّ قَرَأَ:" فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى سورة الليل آية 5 - 10".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک جنازے کے انتظار میں بیٹھے تھے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی) جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ - خواہ جنت ہو یا جہنم - اللہ کے علم میں موجود اور متعین ہے۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں؟ فرمایا: ”عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کے لئے وہی اعمال آسان کئے جائیں گے جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہوگا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى﴾ [الليل: 5-7] »”جس شخص نے دیا، تقویٰ اختیار کیا اور اچھی بات کی تصدیق کی تو یقینا ہم آسان راستے کے اسباب پیدا کر دیں گے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کیا کرو، اگر پورے عشرے میں نہ کر سکو تو آخری سات راتوں میں اس کی تلاش سے مغلوب نہ ہو جانا (آخری سات راتوں میں اسے ضرور تلاش کرنا)۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، سويد بن سعيد ضعيف، وعبدالحميد بن الحسن الهلالي مختلف فيه
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن منصور ، عن ربعي بن حراش ، عن رجل ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لن يؤمن عبد حتى يؤمن باربع: يؤمن بالله، وان الله بعثني بالحق، ويؤمن بالبعث بعد الموت، ويؤمن بالقدر خيره وشره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَنْ يُؤْمِنَ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ: يُؤْمِنُ بِاللَّهِ، وَأَنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، وَيُؤْمِنُ بِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَيُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک چار چیزوں پر ایمان نہ لے آئے، اللہ پر ایمان لائے، اور یہ کہ اس نے مجھے برحق نبی بنا کر بھیجا ہے، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لائے، اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھے۔“
حكم دارالسلام: إسناده فيه رجل مبهم، وقد مضى برقم: (708) ..... عن ربعي بن حراش عن علي دون واسطة الرجل المبهم، وصحح إسناده أحمد شاكر
ہبیرہ بن یریم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو بلایا جس کا نام عثمان تھا، اس کے بالوں کی مینڈھیاں بنی ہوئی تھیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن ابن ابي ليلى ، عن المنهال بن عمرو ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، قال: كان ابي يسمر مع علي، فكان علي يلبس ثياب الصيف في الشتاء، وثياب الشتاء في الصيف، فقيل لي: لو سالته عن هذا؟ فساله، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث إلي، وانا ارمد، يوم خيبر، فقلت: يا رسول الله، إني رمد، فتفل في عيني وقال:" اللهم اذهب عنه الحر والبرد"، فما وجدت حرا ولا بردا بعد، قال: وقال:" لابعثن رجلا يحبه الله ورسوله، ويحب الله ورسوله، ليس بفرار"، قال: فتشرف لها الناس، قال: فبعث عليا رضي الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: كَانَ أَبِي يَسْمُرُ مَعَ عَلِيٍّ، فَكَانَ عَلِيٌّ يَلْبَسُ ثِيَابَ الصَّيْفِ فِي الشِّتَاءِ، وَثِيَابَ الشِّتَاءِ فِي الصَّيْفِ، فَقِيلَ لَي: لَوْ سَأَلْتَهُ عن هذا؟ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَيَّ، وَأَنَا أَرْمَدُ، يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَمِدٌ، فَتَفَلَ فِي عَيْنِي وَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ"، فَمَا وَجَدْتُ حَرًّا وَلَا بَرْدًا بَعْدُ، قَالَ: وَقَالَ:" لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، وَيُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، لَيْسَ بِفَرَّارٍ"، قَالَ: فَتَشَرَّفَ لَهَا النَّاسُ، قَالَ: فَبَعَثَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ.
عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات کے وقت مختلف امور پر بات چیت کیا کرتے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عجیب عادت تھی کہ وہ سردی کے موسم میں گرمی کے کپڑے اور گرمی کے موسم میں سردی کے کپڑے پہن لیا کرتے تھے، کسی نے میرے والد صاحب سے کہا کہ اگر آپ اس چیز کے متعلق سوال پوچھیں تو شاید وہ جواب دے دیں؟ چنانچہ والد صاحب کے سوال کرنے پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ غزوہ خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس ایک قاصد بھیجا، مجھے آشوب چشم کی بیماری لاحق تھی، اس لئے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے تو آشوب چشم ہوا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر میری آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا اور یہ دعا کی: «اَللّٰهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ»”اے اللہ! اس کی گرمی سردی دور فرما۔“ اس دن سے آج تک مجھے کبھی گرمی اور سردی کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور خود اللہ اور اس کے رسول کی نگاہوں میں محبوب ہوگا، وہ بھاگنے والا نہ ہوگا۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اس مقصد کے لئے اپنے آپ کو نمایاں کرنے لگے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جھنڈا مجھے عنایت فرما دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن أبى ليلى شيخ وكيع، وهو محمد بن عبدالرحمن بن أبى ليلى
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: تمہیں شرم یا غیرت نہیں آتی کہ تمہاری عورتیں گھروں سے باہر نکلیں، مجھے پتہ چلا ہے کہ تمہاری عورتیں بازاروں میں نکل کر طاقتور لوگوں کی بھیڑ میں گھس جاتی ہیں (ان کا جسم مردوں سے ٹکراتا ہے اور انہیں کچھ خبر نہیں ہوتی کہ ان کے جسم کا کون سا حصہ مرد کے جسم کے کون سے حصے سے ٹکراتا ہے)۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، قال: سمعت القاسم بن مخيمرة يحدث، عن شريح بن هانئ : انه سال عائشة رضي الله عنها عن المسح على الخفين؟ فقالت: سل عن ذلك عليا رضي الله عنه، فإنه كان يغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله، فقال:" للمسافر ثلاثة ايام ولياليهن، وللمقيم يوم وليلة"، قيل لمحمد كان يرفعه؟ فقال: كان يرى انه مرفوع، ولكنه كان يهابه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُخَيْمِرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ : أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ؟ فَقَالَتْ: سَلْ عَنْ ذَلِكَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ كَانَ يَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ:" لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ، وَلِلْمُقِيمِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ"، قِيلَ لِمُحَمَّدٍ كَانَ يَرْفَعُهُ؟ فَقَالَ: كَانَ يَرَى أَنَّهُ مَرْفُوعٌ، وَلَكِنَّهُ كَانَ يَهَابُهُ.
شریح بن ہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، انہیں اس مسئلے کا زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی رہتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسافر کے لئے تین دن اور تین رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن ابن عون ، عن الشعبي ، قال: لعن محمد صلى الله عليه وسلم" آكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهده، والواشمة والمتوشمة، قال ابن عون: قلت إلا من داء؟ قال: نعم، والحال والمحلل له، ومانع الصدقة، وقال: وكان ينهى عن النوح"، ولم يقل: لعن، فقلت: من حدثك؟ قال: الحارث الاعور الهمداني .(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: لَعَنَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَهُ، وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُتَوَشِّمَةَ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: قُلْتُ إِلَّا مِنْ دَاءٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَالْحَالَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ، وَمَانِعَ الصَّدَقَةِ، وَقَالَ: وَكَانَ يَنْهَى عَنِ النَّوْحِ"، وَلَمْ يَقُلْ: لَعَنَ، فَقُلْتُ: مَنْ حَدَّثَكَ؟ قَالَ: الْحَارِثُ الْأَعْوَرُ الْهَمْدَانِيُّ .
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے: سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی، اور جسم گدوانے والی پر لعنت فرمائی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحارث الأعور، وظاهر هذا الحديث الإرسال، وتقدم برقم: 980، أنه من حديث الشعبي عن الحارث عن على
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص جنابت کی حالت میں غسل کرتے ہوئے ایک بال کے برابر بھی جگہ خالی چھوڑ دے جہاں پانی نہ پہنچا ہو، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ جہنم میں ایسا ایسا معاملہ کریں گے۔“ بس اسی وقت سے میں نے اپنے بالوں کے ساتھ دشمنی پال لی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف مرفوعاً، عطاء بن السائب اختلط بأخرة، وعامة من رفع عنه هذا الحديث، فإنما رواه عنه بعد اختلاطه
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا شريك ، عن ابن عمير ، قال شريك: قلت له: عمن يا ابا عمير؟ عمن حدثه؟، قال: عن نافع بن جبير ، عن ابيه ، عن علي رضي الله عنه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم" ضخم الهامة، مشربا حمرة، شثن الكفين والقدمين، ضخم اللحية، طويل المسربة، ضخم الكراديس، يمشي في صبب، يتكفا في المشية، لا قصير ولا طويل، لم ار قبله مثله ولا بعده صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ شَرِيكٌ: قُلْتُ لَهُ: عَمَّنْ يَا أَبَا عُمَيْرٍ؟ عَمَّنْ حَدَّثَهُ؟، قَالَ: عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ضَخْمَ الْهَامَةِ، مُشْرَبًا حُمْرَةً، شَثْنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، ضَخْمَ اللِّحْيَةِ، طَوِيلَ الْمَسْرُبَةِ، ضَخْمَ الْكَرَادِيسِ، يَمْشِي فِي صَبَبٍ، يَتَكَفَّأُ فِي الْمِشْيَةِ، لَا قَصِيرٌ وَلَا طَوِيلٌ، لَمْ أَرَ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا، رنگ سرخی مائل سفید اور داڑھی گھنی تھی، ہڈیوں کے جوڑ بہت مضبوط تھے، ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے تھے، سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی، سر کے بال گھنے اور ہلکے گھنگھریالے تھے، چلتے وقت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کہ کسی گھاٹی سے اتر رہے ہیں، بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے قد کے، میں نے ان سے پہلے یا ان کے بعد ان جیسا کوئی نہ دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن عاصم ، اخبرنا عاصم بن كليب الجرمي ، عن ابي بردة بن ابي موسى ، قال: كنت جالسا مع ابي، فجاء علي، فقام علينا فسلم، ثم امر ابا موسى بامور من امور الناس، قال: ثم قال علي رضي الله عنه: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سل الله الهدى وانت تعني بذلك هداية الطريق، واسال الله السداد وانت تعني بذلك تسديدك السهم"، ونهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان اجعل خاتمي في هذه او هذه: السبابة والوسطى"، قال: فكان قائما، فما ادري في ايتهما، قال: ونهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم" عن الميثرة وعن القسية". قلنا له: يا امير المؤمنين، واي شيء الميثرة؟ قال: شيء يصنعه النساء لبعولتهن على رحالهن، قال: قلنا: وما القسية؟ قال: ثياب تاتينا من قبل الشام مضلعة، فيها امثال الاترج، قال: قال ابو بردة: فلما رايت السبني عرفت انها هي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ ، أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيُّ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي، فَجَاءَ عَلِيٌّ، فَقَامَ عَلَيْنَا فَسَلَّمَ، ثُمَّ أَمَرَ أَبَا مُوسَى بِأُمُورٍ مِنْ أُمُورِ النَّاسِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَال لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَلْ اللَّهَ الْهُدَى وَأَنْتَ تَعْنِي بِذَلِكَ هِدَايَةَ الطَّرِيقِ، وَاسْأَلْ اللَّهَ السَّدَادَ وَأَنْتَ تَعْنِي بِذَلِكَ تَسْدِيدَكَ السَّهْمَ"، وَنَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ أَجْعَلَ خَاتَمِي فِي هَذِهِ أَوْ هَذِهِ: السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى"، قَالَ: فَكَانَ قَائِمًا، فَمَا أَدْرِي فِي أَيَّتِهِمَا، قَالَ: وَنَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" عَنِ الْمِيثَرَةِ وَعَنِ الْقَسِّيَّةِ". قُلْنَا لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَأَيُّ شَيْءٍ الْمِيثَرَةُ؟ قَالَ: شَيْءٌ يَصْنَعُهُ النِّسَاءُ لِبُعُولَتِهِنَّ عَلَى رِحَالِهِنَّ، قَالَ: قُلْنَا: وَمَا الْقَسِّيَّةُ؟ قَالَ: ثِيَابٌ تَأْتِينَا مِنْ قِبَلِ الشَّامِ مُضَلَّعَةٌ، فِيهَا أَمْثَالُ الْأُتْرُجِّ، قَالَ: قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَلَمَّا رَأَيْتُ السَّبَنِيَّ عَرَفْتُ أَنَّهَا هِيَ.
ابوبردہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے، انہوں نے آ کر ہمیں سلام کیا اور میرے والد صاحب کو لوگوں کا کوئی معاملہ سپرد فرمایا، اور فرمانے لگے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: ”اللہ سے ہدایت کی دعا مانگا کرو، اور ہدایت سے ہدایت الطریق مراد لے لیا کرو، اور اللہ سے درستگی اور سداد کی دعا کیا کرو، اور آپ اس سے تیر کی درستگی مراد لے لیا کرو۔“ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شہادت یا درمیان والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے، راوی کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تھے اس لئے انگلیوں کا اشارہ میں صحیح طور پر سمجھ نہ سکا، پھر انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سرخ دھاری دار اور ریشمی کپڑوں سے منع فرمایا ہے، ہم نے پوچھا: امیر المومنین! ”میثرہ“(یہ لفظ حدیث میں استعمال ہوا ہے) سے کیا مراد ہے؟ یہ کیا چیز ہوتی ہے؟ فرمایا: عورتیں اپنے شوہروں کی سواری کے کجاوے پر رکھنے کے لئے ایک چیز بناتی تھیں (جسے زین پوش کہا جاتا ہے) اس سے وہ مراد ہے، پھر ہم نے پوچھا کہ ”قسیہ“ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا: شام کے وہ کپڑے جن میں اترج جیسے نقش و نگار بنے ہوتے تھے۔ ابوبردہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب میں نے کتان کے بنے ہوئے کپڑے دیکھے تو میں سمجھ گیا کہ یہ وہی ہیں۔
میسرہ رحمہ اللہ اور زاذان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا، اور فرمایا: اگر میں نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کیا ہے، اور اگر بیٹھ کر پیا ہے تو انہیں اس طرح بھی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، خالد بن عبدالله الواسطي روي عن عطاء بعد الاختلاط ، لكن توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، ومحمد بن جعفر ، قالا: حدثنا شعبة ، عن عون بن ابي جحيفة ، عن ابيه ، قال: قال علي رضي الله عنه:" إذا حدثتكم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا، فلان اقع من السماء إلى الارض احب إلي من ان اقول على رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم يقل، ولكن الحرب خدعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، فَلَأَنْ أَقَعَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ يَقُلْ، وَلَكِنَّ الْحَرْبَ خَدْعَةٌ".
ابوجحیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: جب میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کروں تو میرے نزدیک آسمان سے گر جانا ان کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، اور جنگ تو نام ہی تدبیر اور چال کا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني إبراهيم بن الحجاج ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن عطاء بن السائب ، عن زاذان ، ان علي بن ابي طالب شرب قائما، فنظر الناس فانكروا ذلك عليه، فقال علي رضي الله عنه: ما تنظرون؟!" إن اشرب قائما، فقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يشرب قائما، وإن اشرب قاعدا، فقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يشرب قاعدا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ شَرِبَ قَائِمًا، فَنَظَرَ النَّاسُ فَأَنْكَرُوا ذَلِكَ عَلَيْهِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا تَنْظُرُونَ؟!" إِنْ أَشْرَبْ قَائِمًا، فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْرَبُ قَائِمًا، وَإِنْ أَشْرَبْ قَاعِدًا، فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْرَبُ قَاعِدًا".
زاذان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا، لوگ ان کی طرف تعجب سے دیکھنے لگے، انہوں نے فرمایا: مجھے کیوں گھور گھور کر دیکھ رہے ہو؟ اگر میں نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کیا ہے، اور اگر بیٹھ کر پیا ہے تو انہیں اس طرح بھی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جسم مبارک کی رگ سے زائد خون نکلوایا اور یہ کام کرنے والے کو - جسے حجام کہا جاتا تھا - اس کی مزدوری دے دی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلى الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جسم مبارک کی رگ سے زائد خون نکلوایا، اور مجھے حکم دیا کہ یہ کام کرنے والے کو - جسے حجام کہا جاتا تھا - اس کی مزدوری دے دوں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، وانظر ما قبله
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن فضيل ، عن محمد بن عثمان ، عن زاذان ، عن علي رضي الله عنه، قال: سالت خديجة النبي صلى الله عليه وسلم عن ولدين ماتا لها في الجاهلية؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هما في النار"، قال: فلما راى الكراهية في وجهها قال:" لو رايت مكانهما لابغضتهما"، قالت: يا رسول الله، فولدي منك؟ قال:" في الجنة"، قال: ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن المؤمنين واولادهم في الجنة، وإن المشركين واولادهم في النار"، ثم قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" 0 والذين آمنوا واتبعتهم ذريتهم بإيمان الحقنا بهم ذرياتهم 0".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عن مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلَتْ خَدِيجَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَلَدَيْنِ مَاتَا لَهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُمَا فِي النَّارِ"، قَالَ: فَلَمَّا رَأَى الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِهَا قَالَ:" لَوْ رَأَيْتِ مَكَانَهُمَا لَأَبْغَضْتِهِمَا"، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَلَدِي مِنْكَ؟ قَالَ:" فِي الْجَنَّةِ"، قَالَ: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ وَأَوْلَادَهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمُشْرِكِينَ وَأَوْلَادَهُمْ فِي النَّارِ"، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" 0 وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّاتِهِمْ 0".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دو بچوں کے متعلق پوچھا جو زمانہ جاہلیت میں فوت ہوگئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ دونوں جہنم میں ہیں۔“ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چہرے پر اس کے نا خوشگوار اثرات دیکھے تو فرمایا: ”اگر تم ان دونوں کا ٹھکانہ دیکھ لیتیں تو تمہیں بھی ان سے نفرت ہوجاتی۔“ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر میرے ان بچوں کا کیا ہوگا جو آپ سے ہوئے ہیں؟ فرمایا: ”وہ جنت میں ہیں“، پھر فرمایا کہ ”مومنین اور ان کی اولاد جنت میں ہوگی، اور مشرکین اور ان کی اولاد جہنم میں ہوگی۔“ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ﴾ [الطور: 21] »”وہ لوگ جو ایمان لائے اور اس ایمان لانے میں ان کی اولاد نے بھی ان کی پیروی کی، ہم انہیں ان کی اولاد سے ملا دیں گے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن شعبة ، عن الحكم ، عن يحيى بن الجزار ، عن علي ، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان قاعدا يوم الخندق على فرضة من فرض الخندق، فقال:" شغلونا عن الصلاة الوسطى، حتى غابت الشمس، ملا الله بطونهم وبيوتهم نارا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ قَاعِدًا يَوْمَ الْخَنْدَقِ عَلَى فُرْضَةٍ مِنْ فُرَضِ الْخَنْدَقِ، فَقَالَ:" شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى، حَتَّى غَابَتْ الشَّمْسُ، مَلَأَ اللَّهُ بُطُونَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ نَارًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خندق کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا زائدة بن قدامة ، عن خالد بن علقمة ، حدثنا عبد خير ، قال: جلس علي بعدما صلى الفجر في الرحبة، ثم قال لغلامه: ائتني بطهور، فاتاه الغلام بإناء فيه ماء وطست، قال عبد خير: ونحن جلوس ننظر إليه،" فاخذ بيمينه الإناء فاكفاه على يده اليسرى، ثم غسل كفيه، ثم اخذ بيده اليمنى الإناء فافرغ على يده اليسرى، ثم غسل كفيه، فعله ثلاث مرار، قال عبد خير: كل ذلك لا يدخل يده في الإناء حتى يغسلها ثلاث مرات، ثم ادخل يده اليمنى في الإناء، فمضمض واستنشق ونثر بيده اليسرى، فعل ذلك ثلاث مرات، ثم ادخل يده اليمنى في الإناء، فغسل وجهه ثلاث مرات، ثم غسل يده اليمنى ثلاث مرات إلى المرفق، ثم غسل يده اليسرى ثلاث مرات إلى المرفق، ثم ادخل يده اليمنى في الإناء حتى غمرها الماء، ثم رفعها بما حملت من الماء ثم مسحها بيده اليسرى، ثم مسح راسه بيديه كلتيهما مرة، ثم صب بيده اليمنى ثلاث مرات على قدمه اليمنى، ثم غسلها بيده اليسرى، ثم صب بيده اليمنى على قدمه اليسرى، ثم غسلها بيده اليسرى ثلاث مرات، ثم ادخل يده اليمنى فغرف بكفه فشرب، ثم قال: هذا طهور نبي الله صلى الله عليه وسلم، فمن احب ان ينظر إلى طهور نبي الله صلى الله عليه وسلم فهذا طهوره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ خَيْرٍ ، قَالَ: جَلَسَ عَلِيٌّ بَعْدَمَا صَلَّى الْفَجْرَ فِي الرَّحَبَةِ، ثُمَّ قَالَ لِغُلَامِهِ: ائْتِنِي بِطَهُورٍ، فَأَتَاهُ الْغُلَامُ بِإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ وَطَسْتٍ، قَالَ عَبْدُ خَيْرٍ: وَنَحْنُ جُلُوسٌ نَنْظُرُ إِلَيْهِ،" فَأَخَذَ بِيَمِينِهِ الْإِنَاءَ فَأَكْفَأَهُ عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ غَسَلَ كَفَّيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهِ الْيُمْنَى الْإِنَاءَ فَأَفْرَغَ عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ غَسَلَ كَفَّيْهِ، فَعَلَهُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ عَبْدُ خَيْرٍ: كُلُّ ذَلِكَ لَا يُدْخِلُ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يَغْسِلَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى فِي الْإِنَاءِ، فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَنَثَرَ بِيَدِهِ الْيُسْرَى، فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى فِي الْإِنَاءِ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى ثَلَاثَ مَرَّاتٍ إِلَى الْمِرْفَقِ، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُسْرَى ثَلَاثَ مَرَّاتٍ إِلَى الْمِرْفَقِ، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى فِي الْإِنَاءِ حَتَّى غَمَرَهَا الْمَاءُ، ثُمَّ رَفَعَهَا بِمَا حَمَلَتْ مِنَ الْمَاءِ ثُمَّ مَسَحَهَا بِيَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ كِلْتَيْهِمَا مَرَّةً، ثُمَّ صَبَّ بِيَدِهِ الْيُمْنَى ثَلَاثَ مَرَّاتٍ عَلَى قَدَمِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ غَسَلَهَا بِيَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ صَبَّ بِيَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى قَدَمِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ غَسَلَهَا بِيَدِهِ الْيُسْرَى ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى فَغَرَفَ بِكَفِّهِ فَشَرِبَ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا طُهُورُ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى طُهُورِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَذَا طُهُورُهُ".
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فجر کی نماز پڑھ کر رحبہ کے پاس بیٹھ گئے، پھر اپنے غلام سے وضو کا پانی لانے کے لئے فرمایا، وہ ایک برتن لایا جس میں پانی تھا اور ایک طشت، انہوں نے دائیں ہاتھ سے برتن پکڑا اور بائیں ہاتھ پر پانی انڈیلنے لگے، پھر دونوں ہتھیلیوں کو دھویا (پھر دائیں ہاتھ سے اسی طرح کیا)، تین مرتبہ اس طرح کرنے کے بعد داہنا ہاتھ برتن میں داخل کر کے کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور بائیں ہاتھ سے ناک صاف کی، تین مرتبہ اس طرح کرنے کے بعد داہنا ہاتھ برتن میں داخل کر کے تین مرتبہ چہرہ دھویا، پھر تین مرتبہ داہنا ہاتھ کہنی سمیت دھویا، پھر بایاں ہاتھ تین مرتبہ کہنی سمیت دھویا، پھر داہنا ہاتھ برتن میں اچھی طرح ڈبو کر باہر نکالا اور اس پر جو پانی لگ گیا تھا بائیں ہاتھ پر مل کر دونوں ہاتھوں سے ایک مرتبہ سر کا مسح کیا، پھر دائیں ہاتھ سے دائیں پاؤں پر تین مرتبہ پانی بہایا اور بائیں ہاتھ سے اسے مل کر دھویا، پھر بائیں ہاتھ سے بائیں پاؤں پر تین مرتبہ پانی بہایا اور بائیں ہاتھ سے اسے مل کر دھویا، تین مرتبہ اسی طرح کیا، پھر داہنا ہاتھ برتن میں ڈال کر چلو بھر پانی نکالا اور اسے پی کر فرمایا: یہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو، جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ یہی ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، انبانا ايوب ، عن مجاهد ، قال: قال علي رضي الله عنه: جعت مرة بالمدينة جوعا شديدا، فخرجت اطلب العمل في عوالي المدينة، فإذا انا بامراة قد جمعت مدرا، فظننتها تريد بله، فاتيتها فقاطعتها كل ذنوب على تمرة، فمددت ستة عشر ذنوبا، حتى مجلت يداي، ثم اتيت الماء فاصبت منه، ثم اتيتها فقلت: بكفي هكذا، بين يديها، وبسط إسماعيل يديه وجمعهما، فعدت لي ستة عشر تمرة، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فاخبرته،" فاكل معي منها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: جُعْتُ مَرَّةً بِالْمَدِينَةِ جُوعًا شَدِيدًا، فَخَرَجْتُ أَطْلُبُ الْعَمَلَ فِي عَوَالِي الْمَدِينَةِ، فَإِذَا أَنَا بِامْرَأَةٍ قَدْ جَمَعَتْ مَدَرًا، فَظَنَنْتُهَا تُرِيدُ بَلَّهُ، فَأَتَيْتُهَا فَقَاطَعْتُهَا كُلَّ ذَنُوبٍ عَلَى تَمْرَةٍ، فَمَدَدْتُ سِتَّةَ عَشَرَ ذَنُوبًا، حَتَّى مَجَلَتْ يَدَايَ، ثُمَّ أَتَيْتُ الْمَاءَ فَأَصَبْتُ مِنْهُ، ثُمَّ أَتَيْتُهَا فَقُلْتُ: بِكَفَّيَّ هَكَذَا، بَيْنَ يَدَيْهَا، وَبَسَطَ إِسْمَاعِيلُ يَدَيْهِ وَجَمَعَهُمَا، فَعَدَّتْ لِي سِتَّةَ عَشْرَ تَمْرَةً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ،" فَأَكَلَ مَعِي مِنْهَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بھوک کی شدت سے تنگ آ کر میں اپنے گھر سے نکلا، میں ایک عورت کے پاس سے گذرا جس نے کچھ گارا اکٹھا کر رکھا تھا، میں سمجھ گیا کہ یہ اسے پانی سے تر بتر کرنا چاہتی ہے، میں نے اس کے پاس آ کر اس سے یہ معاہدہ کیا کہ ایک ڈول کھینچنے کے بدلے تم مجھے ایک کھجور دوگی، چنانچہ میں نے سولہ ڈول کھینچے یہاں تک کہ میرے ہاتھ تھک گئے، پھر میں نے پانی کے پاس آ کر پانی پیا، اس کے بعد اس عورت کے پاس آ کر اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا دیا اور اس نے گن کر سولہ کھجوریں میرے ہاتھ پر رکھ دیں، میں وہ کھجوریں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہیں یہ سارا واقعہ بتایا، اور کچھ کھجوریں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلا دیں اور کچھ خود کھا لیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، مجاهد بن جبر لم يسمع عليا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگوائے، فراغت کے بعد پچھنے لگانے والے سے اس کی مزدوری پوچھی، اس نے دو صاع بتائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک صاع کم کر دیا اور مجھے ایک صاع اس کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى جناب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا إسحاق بن إسماعيل ، حدثنا وكيع ، عن سفيان . ح وحدثني ابو خيثمة ، حدثنا يزيد بن هارون ، حدثنا سفيان ، عن عبد الاعلى الثعلبي ، عن ابي جميلة ، عن علي رضي الله عنه، ان خادما للنبي صلى الله عليه وسلم فجرت، فامرني ان اقيم عليها الحد، فوجدتها لم تجف من دمها، فاتيته، فذكرت له، فقال:" إذا جفت من دمها فاقم عليها الحد، اقيموا الحدود على ما ملكت ايمانكم"، وهذا لفظ حديث إسحاق بن إسماعيل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسماعيل ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ ، عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ خَادِمًا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَرَتْ، فَأَمَرَنِي أَنْ أُقِيمَ عَلَيْهَا الْحَدَّ، فَوَجَدْتُهَا لَمْ تَجِفَّ مِنْ دَمِهَا، فَأَتَيْتُهُ، فَذَكَرْتُ لَهُ، فَقَالَ:" إِذَا جَفَّتْ مِنْ دَمِهَا فَأَقِمْ عَلَيْهَا الْحَدَّ، أَقِيمُوا الْحُدُودَ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ"، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ إِسْحَاقَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خادمہ سے بدکاری کا گناہ سرزد ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا، میں نے دیکھا کہ اس کا تو خون ہی بند نہیں ہو رہا، میں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اس کا خون بند ہو جائے تب اس پر حد جاری کر دینا، یاد رکھو! اپنے غلاموں اور باندیوں پر بھی حد جاری کیا کرو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلى الثعلبي
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن علي بن الحسين ، عن مروان بن الحكم ، انه قال: شهدت عليا وعثمان رضي الله عنهما بين مكة والمدينة، وعثمان ينهى عن المتعة، وان يجمع بينهما، فلما راى ذلك علي رضي الله عنه،" اهل بهما، فقال: لبيك بعمرة وحج معا، فقال عثمان رضي الله عنه: تراني انهى الناس عنه، وانت تفعله؟ قال: لم اكن ادع سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم لقول احد من الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ ، أَنَّهُ قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، وَعُثْمَانُ يَنْهَى عَنِ الْمُتْعَةِ، وَأَنْ يُجْمَعَ بَيْنَهُمَا، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَهَلَّ بِهِمَا، فَقَالَ: لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجٍّ مَعًا، فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: تَرَانِي أَنْهَى النَّاسَ عَنْهُ، وَأَنْتَ تَفْعَلُهُ؟ قَالَ: لَمْ أَكُنْ أَدَعُ سُنَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ".
مروان بن حکم سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ موجود تھا، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ حج تمتع یعنی حج اور عمرہ کو ایک ہی سفر میں جمع کرنے سے منع فرماتے تھے، یہ دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دونوں کا احرام باندھ لیا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ میں نے اس کی ممانعت کا حکم جاری کر دیا ہے، اور آپ پھر بھی اس طرح کر رہے ہیں؟ فرمایا: لیکن کسی کی بات کے آگے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو نہیں چھوڑ سکتا۔
میسرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا، میں نے ان سے کہا کہ آپ کھڑے ہو کر پانی پی رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اگر میں نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کیا ہے، اور اگر بیٹھ کر پیا ہے تو انہیں اس طرح بھی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، قال: سمعت ابن ابي ليلى ، حدثنا علي ، ان فاطمة رضي الله عنها اشتكت ما تلقى من اثر الرحى في يدها، واتى النبي صلى الله عليه وسلم سبي، فانطلقت فلم تجده، ولقيت عائشة رضي الله عنها، فاخبرتها، فلما جاء النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته عائشة بمجيء فاطمة رضي الله عنها إليها، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم وقد اخذنا مضاجعنا، فذهبنا لنقوم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" على مكانكما"، فقعد بيننا حتى وجدت برد قدميه على صدري، فقال:" الا اعلمكما خيرا مما سالتما؟ إذا اخذتما مضاجعكما ان تكبرا الله اربعا وثلاثين، وتسبحاه ثلاثا وثلاثين، وتحمداه ثلاثا وثلاثين، فهو خير لكما من خادم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى ، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا اشْتَكَتْ مَا تَلْقَى مِنْ أَثَرِ الرَّحَى فِي يَدِهَا، وَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيٌ، فَانْطَلَقَتْ فَلَمْ تَجِدْهُ، وَلَقِيَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَخْبَرَتْهَا، فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ عَائِشَةُ بِمَجِيءِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَيْهَا، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا، فَذَهَبْنَا لِنَقُومَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَى مَكَانِكُمَا"، فَقَعَدَ بَيْنَنَا حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى صَدْرِي، فَقَالَ:" أَلَا أُعَلِّمُكُمَا خَيْرًا مِمَّا سَأَلْتُمَا؟ إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا أَنْ تُكَبِّرَا اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، وَتُسَبِّحَاهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدَاهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آٹا پیس پیس کر ہاتھوں میں نشان پڑگئے ہیں، اس دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے کچھ قیدی آئے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خادم کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے، تو وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتا کر واپس آگئیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کی اطلاع دی، چنانچہ رات کو جب ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، ہم نے کھڑا ہونا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی جگہ رہو“، یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس بیٹھ گئے - حتی کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک محسوس کی - اور فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمہارے لئے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر لیٹا کرو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن بكار مولى بني هاشم، وابو الربيع الزهراني ، قالا: حدثنا ابو وكيع الجراح بن مليح ، عن عبد الاعلى الثعلبي ، عن ابي جميلة ، عن علي رضي الله عنه، وقال ابو الربيع في حديثه: عن ميسرة ابي جميلة، عن علي رضي الله عنه، انه قال: ارسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى امة له سوداء زنت لاجلدها الحد، قال: فوجدتها في دمائها، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بذلك، فقال لي:" إذا تعالت من نفاسها، فاجلدها خمسين"، وقال ابو الربيع في حديثه: قال: فاخبرت النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" إذا جفت من دمائها فحدها"، ثم قال:" اقيموا الحدود".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو وَكِيعٍ الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ ، عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ أَبُو الرَّبِيعِ فِي حَدِيثِهِ: عَنْ مَيْسَرَةَ أَبِي جَمِيلَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَمَةٍ لَهُ سَوْدَاءَ زَنَتْ لِأَجْلِدَهَا الْحَدَّ، قَالَ: فَوَجَدْتُهَا فِي دِمَائِهَا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ لِي:" إِذَا تَعَالَتْ مِنْ نُفَاسِهَا، فَاجْلِدْهَا خَمْسِينَ"، وَقَالَ أَبُو الرَّبِيعِ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِذَا جَفَّتْ مِنْ دِمَائِهَا فَحُدَّهَا"، ثُمَّ قَالَ:" أَقِيمُوا الْحُدُودَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سیاہ فام خادمہ سے بدکاری کا گناہ سرزد ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا، میں نے دیکھا کہ اس کا تو خون ہی بند نہیں ہو رہا، میں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اس کا خون بند ہو جائے تب اس پر حد جاری کر دینا، یاد رکھو! اپنے غلاموں اور باندیوں پر بھی حد جاری کیا کرو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلى الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ (جب سفر پر روانہ ہوتے تو) چلتے رہتے تھے یہاں تک کہ جب سورج غروب ہو جاتا اور اندھیرا چھا جاتا تو وہ اتر کر مغرب کی نماز اس کے آخر وقت میں ادا کرتے، اور اس کے فورا بعد ہی عشاء کی نماز اس کے اول وقت میں ادا کر لیتے، اور فرماتے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، اخبرنا الحكم ، قال: سمعت ابن ابي ليلى ، ان عليا رضي الله عنه حدثهم، ان فاطمة رضي الله عنها شكت إلى ابيها ما تلقى من يديها من الرحى، فذكر معنى حديث محمد بن جعفر، عن شعبة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا شَكَتْ إِلَى أَبِيهَا مَا تَلْقَى مِنْ يَدَيْهَا مِنَ الرَّحَى، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت ابا البختري الطائي ، قال: اخبرني من ، سمع عليا رضي الله عنه، يقول: لما بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فقلت: تبعثني وانا رجل حديث السن، وليس لي علم بكثير من القضاء؟ قال: فضرب صدري رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال:" اذهب، فإن الله عز وجل سيثبت لسانك، ويهدي قلبك"، قال: فما اعياني قضاء بين اثنين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْبَخْتَرِيِّ الطَّائِيَّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ ، سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: لَمَّا بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَقُلْتُ: تَبْعَثُنِي وَأَنَا رَجُلٌ حَدِيثُ السِّنِّ، وَلَيْسَ لِي عِلْمٌ بِكَثِيرٍ مِنَ الْقَضَاءِ؟ قَالَ: فَضَرَبَ صَدْرِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" اذْهَبْ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ سَيُثَبِّتُ لِسَانَكَ، وَيَهْدِي قَلْبَكَ"، قَالَ: فَمَا أَعْيَانِي قَضَاءٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں اس وقت نوخیز تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نو عمر ہوں اور مجھے فیصلہ کرنے کا قطعا کوئی علم نہیں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا: ”اللہ تمہاری زبان کو صحیح راستے پر چلائے گا اور تمہارے دل کو مضبوط رکھے گا۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں مجھے کوئی شک نہیں ہوا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الواسطة بين أبى البختري و بين علي
(حديث موقوف) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن سعيد بن المسيب ، قال:" اجتمع علي، وعثمان رضي الله عنهما بعسفان، فكان عثمان رضي الله عنه ينهى عن المتعة والعمرة، فقال علي رضي الله عنه: ما تريد إلى امر فعله رسول الله صلى الله عليه وسلم تنهى عنها؟ فقال عثمان رضي الله عنه: دعنا منك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ:" اجْتَمَعَ عَلِيٌّ، وَعُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِعُسْفَانَ، فَكَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَنْهَى عَنِ الْمُتْعَةِ وَالْعُمْرَةِ، فقال علي رضي الله عنه: ما تريد إلى أمر فعله رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَنْهَى عَنْهَا؟ فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنَا مِنْكَ".
سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہما مقام عسفان میں اکٹھے ہو گئے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ حج تمتع سے روکتے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کام کو کیا ہو، اس سے روکنے میں آپ کا کیا مقصد ہے؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ مسئلہ رہنے ہی دیجئے۔ (کیونکہ میں نے اس کا حکم نہیں دیا، صرف مشورہ کے طور پر یہ بات کہی ہے)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی کے لئے - سوائے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے - اپنے والدین کو جمع کرتے ہوئے نہیں سنا، غزوہ احد کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے کہ ”سعد! تیر پھینکو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا بھی کافی ہے، اور بچی کا پیشاب جس چیز پر لگ جائے اسے دھویا جائے گا۔“ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک ہے جب انہوں نے کھانا پینا شروع نہ کیا ہو، اور جب وہ کھانا پینا شروع کر دیں تو دونوں کا پیشاب جس چیز کو لگ جائے اسے دھونا ہی پڑے گا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیرخوار بچے کے متعلق ارشاد فرمایا: ”بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا بھی کافی ہے، اور بچی کا پیشاب جس چیز پر لگ جائے اسے دھویا جائے گا۔“ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک انہوں نے کھانا پینا شروع نہ کیا ہو، اور جب وہ کھانا پینا شروع کر دیں تو دونوں کا پیشاب جس چیز کو لگ جائے اسے دھونا ہی پڑے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت قتادة ، عن ابي حسان الاعرج ، عن عبيدة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاحزاب:" شغلونا عن صلاة الوسطى حتى آبت الشمس، ملا الله قبورهم نارا، وبيوتهم، او بطونهم"، شك شعبة في البيوت والبطون.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ:" شَغَلُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى حَتَّى آبَتْ الشَّمْسُ، مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ نَارًا، وْبُيُوتَهُمْ، أَوْ بُطُونَهُمْ"، شَكَّ شُعْبَةُ فِي الْبُيُوتِ وَالْبُطُونِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثني شعبة ، قال: سمعت قتادة ، قال: سمعت ابا حسان يحدث، عن عبيدة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاحزاب:" شغلونا عن الصلاة الوسطى حتى آبت الشمس، ملا الله قبورهم، وبيوتهم، او بطونهم نارا"، شك في البيوت والبطون، فاما القبور فليس فيه شك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنِي شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَسَّانَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ:" شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى حَتَّى آبَتْ الشَّمْسُ، مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ، وَبُيُوتَهُمْ، أَوْ بُطُونَهُمْ نَارًا"، شَكَّ فِي الْبُيُوتِ وَالْبُطُونِ، فَأَمَّا الْقُبُورُ فَلَيْسَ فِيهِ شَكٌّ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن هبيرة ، عن علي رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم اهديت له حلة من حرير فكسانيها، قال علي رضي الله عنه: فخرجت فيها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لست ارضى لك ما اكره لنفسي"، قال: فامرني فشققتها بين نسائي خمرا بين فاطمة، وعمته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هُبَيْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُهْدِيَتْ لَهُ حُلَّةٌ مِنْ حَرِيرٍ فَكَسَانِيهَا، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَخَرَجْتُ فِيهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَسْتُ أَرْضَى لَكَ مَا أَكْرَهُ لِنَفْسِي"، قَالَ: فَأَمَرَنِي فَشَقَقْتُهَا بَيْنَ نِسَائِي خُمُرًا بَيْنَ فَاطِمَةَ، وَعَمَّتِهِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے ہدیہ کے طور پر ایک ریشمی جوڑا آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں اسے پہن کر باہر نکلا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز میں اپنے لئے ناپسند سمجھتا ہوں، تمہارے لئے بھی اسے پسند نہیں کر سکتا۔“ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر میں نے اسے اپنی عورتوں یعنی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اس کی پھوپھی میں تقسیم کر دیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل صفہ میں سے ایک صاحب کا انتقال ہو گیا، کسی شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! انہوں نے ترکہ میں ایک دینار اور ایک درہم چھوڑے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جہنم کے دو انگارے ہیں جن سے داغا جائے گا، تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود پڑھ لو۔“
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لجهالة عتيبة و بريد بن أصرم
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثني شعبة ، عن قتادة ، قال: سمعت جري بن كليب ، يقول: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن" عضب القرن والاذن"، قال قتادة: فسالت سعيد بن المسيب، قال: قلت: ما عضب الاذن؟ فقال: إذا كان النصف او اكثر من ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنِي شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ جُرَيَّ بْنَ كُلَيْبٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ" عَضَبِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ"، قَالَ قَتَادَةُ: فَسَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: قُلْتُ: مَا عَضَبُ الْأُذُنِ؟ فَقَالَ: إِذَا كَانَ النِّصْفَ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف یا اس سے زیادہ سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن جري بن كليب ، انه سمع عليا رضي الله عنه، يقول: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان يضحى باعضب القرن، والاذن"، قال قتادة: فذكرت ذلك لسعيد بن المسيب، فقال: نعم، العضب: النصف او اكثر من ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ جُرَيِّ بْنِ كُلَيْبٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ، وَالْأُذُنِ"، قَالَ قَتَادَةُ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، فَقَالَ: نَعَمْ، الْعَضَبُ: النِّصْفُ أَوْ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف یا اس سے زیادہ سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، اتنی دیر میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ آ کر اجازت طلب کرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”انہیں اجازت دے دو، خوش آمدید اس شخص کو جو پاکیزہ ہے، اور پاکیزگی کا حامل ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، قال: سمعت حارثة بن مضرب يحدث، عن علي رضي الله عنه، قال: لقد رايتنا ليلة بدر وما منا إنسان إلا نائم، إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم فإنه كان" يصلي إلى شجرة، ويدعو حتى اصبح"، وما كان منا فارس يوم بدر غير المقداد بن الاسود.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْنَ مُضَرِّبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنَا لَيْلَةَ بَدْرٍ وَمَا مِنَّا إِنْسَانٌ إِلَّا نَائِمٌ، إِلَّا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ كَانَ" يُصَلِّي إِلَى شَجَرَةٍ، وَيَدْعُو حَتَّى أَصْبَحَ"، وَمَا كَانَ مِنَّا فَارِسٌ يَوْمَ بَدْرٍ غَيْرَ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے موقع پر ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے درمیان ہر شخص سو جاتا تھا، سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ایک درخت کے نیچے نماز پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے یہاں تک کہ صبح ہو گئی، اور غزوہ بدر کے دن سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہم میں کوئی گھڑ سوار نہ تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن إسماعيل بن سميع ، حدثني مالك بن عمير ، قال: جاء زيد بن صوحان إلى علي رضي الله عنه، فقال: حدثني ما نهاك عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" نهاني عن الحنتم، والدباء، والنقير، والجعة، وعن خاتم الذهب، او قال: حلقة الذهب، وعن الحرير، والقسي، والميثرة الحمراء"، قال: واهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم حلة حرير فكسانيها، فخرجت فيها، فاخذها فاعطاها فاطمة، او عمته، إسماعيل يقول ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سُمَيْعٍ ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ عُمَيْرٍ ، قَالَ: جَاءَ زَيْدُ بْنُ صُوحَانَ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: حَدِّثْنِي مَا نَهَاكَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" نَهَانِي عَنِ الْحَنْتَمِ، وَالدُّبَّاءِ، وَالنَّقِيرِ، وَالْجِعَةِ، وَعَنْ خَاتَمِ الذَّهَبِ، أَوْ قَالَ: حَلْقَةِ الذَّهَبِ، وَعَنِ الْحَرِيرِ، وَالْقَسِّيِّ، وَالْمِيثَرَةِ الْحَمْرَاءِ"، قَالَ: وَأُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةُ حَرِيرٍ فَكَسَانِيهَا، فَخَرَجْتُ فِيهَا، فَأَخَذَهَا فَأَعْطَاهَا فَاطِمَةَ، أَوْ عَمَّتَهُ، إِسْمَاعِيلُ يَقُولُ ذَلِكَ".
مالک بن عمیر کہتے ہیں کہ ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں زید بن صوحان آ گئے اور سلام کر کے کہنے لگے: امیر المومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں سے آپ لوگوں کو روکا تھا ہمیں بھی ان سے روکیے، انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کدو کی تونبی، سبز مٹکے، لک کے برتن، لکڑی کو کھود کر بنائے گئے برتن کو استعمال کرنے اور جو کی نبیذ سے منع فرمایا (کیونکہ ان میں شراب کشید کی جاتی تھی)، نیز ریشم، سرخ زین پوش، خالص ریشم اور سونے کے حلقوں سے منع فرمایا۔ پھر فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ریشمی جوڑا عنایت فرمایا، میں وہ پہن کر باہر نکلا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا یا ان کی پھوپھی کو بھجوا دیا۔
حدثناه يونس ، حدثنا عبد الواحد ، فذكره بإسناده ومعناه، إلا انه قال: جاء صعصعة بن صوحان إلى علي رضي الله عنه.حَدَّثَنَاه يُونُسُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، فَذَكَرَهُ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ صَعْصَعَةُ بْنُ صُوحَانَ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن بكار ، حدثنا حبان بن علي ، عن ضرار بن مرة ، عن حصين المزني ، قال: قال علي بن ابي طالب رضي الله عنه على المنبر: ايها الناس، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يقطع الصلاة إلا الحدث"، لا استحييكم مما لا يستحيي منه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" والحدث: ان يفسو او يضرط".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ ، حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ ضِرَارِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ حُصَيْنٍ الْمُزَنِيِّ ، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِلَّا الْحَدَثُ"، لَا أَسْتَحْيِيكُمْ مِمَّا لَا يَسْتَحْيِي مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" وَالْحَدَثُ: أَنْ يَفْسُوَ أَوْ يَضْرِطَ".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے منبر پر لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: لوگو! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”نماز حدث کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں ٹوٹتی“، اور میں تم سے اس چیز کو بیان کرنے میں شرم نہیں کروں گا جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرم محسوس نہیں فرمائی، حدث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی ہوا نکل جائے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف حبان بن على و جهالة حصين المزني
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل صفہ میں سے ایک صاحب کا انتقال ہو گیا، کسی شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! انہوں نے ترکہ میں ایک دینار اور ایک درہم چھوڑے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جہنم کے دو انگارے ہیں جن سے داغا جائے گا، تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود پڑھ لو۔“
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لجهالة عتيبة و بريد بن أصرم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی مریض کی عیادت کے لئے جاتا ہے گویا وہ جنت کے باغات میں چلتا ہے، جب وہ بیمار کے پاس بیٹھتا ہے تو اللہ کی رحمت کے سمندر میں غوطے کھاتا ہے، اور جب وہاں سے واپس روانہ ہوتا ہے تو اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر کر دیئے جاتے ہیں جو اس دن اس کے لئے بخشش کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔“
حكم دارالسلام: حسن، والصحيح وقفه، و هذا إسناد ضعيف لجهالة الرجل من الانصار
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے تو ہم بھی کھڑے ہو جاتے تھے، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بیٹھے رہنے لگے تو ہم بھی بیٹھنے لگے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن كليب ، قال: سمعت ابا بردة ، قال: سمعت علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قل: اللهم إني اسالك الهدى والسداد، واذكر بالهدى هدايتك الطريق، واذكر بالسداد تسديدك السهم"، قال: ونهى، او نهاني عن القسي، والميثرة، وعن الخاتم في السبابة، او الوسطى.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بُرْدَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالسَّدَادَ، وَاذْكُرْ بِالْهُدَى هِدَايَتَكَ الطَّرِيقَ، وَاذْكُرْ بِالسَّدَادِ تَسْدِيدَكَ السَّهْمَ"، قَالَ: وَنَهَى، أَوْ نَهَانِي عَنِ الْقَسِّيِّ، وَالْمِيثَرَةِ، وَعَنِ الْخَاتَمِ فِي السَّبَّابَةِ، أَوْ الْوُسْطَى.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دعا پڑھا کرو: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالسَّدَادَ»”اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت اور سداد کا سوال کرتا ہوں“، اور ہدایت کا لفظ بولتے وقت راستے کی رہنمائی کو ذہن میں رکھا کرو، اور سداد کا لفظ بولتے وقت تیر کی درستگی کو ذہن میں رکھا کرو۔“ نیز سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم، سرخ زین پوش اور سبابہ یا وسطی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو داود المباركي سليمان بن محمد ، حدثنا ابو شهاب ، عن شعبة ، عن الحكم ، عن ابي المورع ، عن علي ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة، فقال:" من ياتي المدينة فلا يدع قبرا إلا سواه، ولا صورة إلا طلخها، ولا وثنا إلا كسره؟"، قال: فقام رجل، فقال: انا، ثم هاب اهل المدينة فجلس، قال علي رضي الله عنه: فانطلقت، ثم جئت، فقلت: يا رسول الله، لم ادع بالمدينة قبرا إلا سويته، ولا صورة إلا طلختها، ولا وثنا إلا كسرته، قال: فقال:" من عاد فصنع شيئا من ذلك، فقد كفر بما انزل الله على محمد، يا علي، لا تكونن فتانا، او قال: مختالا، ولا تاجرا إلا تاجر الخير، فإن اولئك هم المسوفون في العمل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو دَاوُدَ الْمُبَارَكِيُّ سُلَيْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ أَبِي الْمُوَرِّعِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، فَقَالَ:" مَنْ يَأْتِي الْمَدِينَةَ فَلَا يَدَعُ قَبْرًا إِلَّا سَوَّاهُ، وَلَا صُورَةً إِلَّا طَلَخَهَا، وَلَا وَثَنًا إِلَّا كَسَرَهُ؟"، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَنَا، ثُمَّ هَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَجَلَسَ، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَانْطَلَقْتُ، ثُمَّ جِئْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَدَعْ بِالْمَدِينَةِ قَبْرًا إِلَّا سَوَّيْتُهُ، وَلَا صُورَةً إِلَّا طَلَخْتُهَا، وَلَا وَثَنًا إِلَّا كَسَّرْتُهُ، قَالَ: فَقَالَ:" مَنْ عَادَ فَصَنَعَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ، يَا عَلِيُّ، لَا تَكُونَنَّ فَتَّانًا، أَوْ قَالَ: مُخْتَالًا، وَلَا تَاجِرًا إِلَّا تَاجِرَ الْخَيْرِ، فَإِنَّ أُولَئِكَ هُمْ الْمُسَوِّفُونَ فِي الْعَمَلِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگ ایک جنازے میں شریک تھے، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کون شخص مدینہ منورہ جائے گا کہ وہاں جا کر کوئی بت ایسا نہ چھوڑے جسے اس نے توڑ نہ دیا ہو، کوئی قبر ایسی نہ چھوڑے جسے برابر نہ کر دے، اور کوئی تصویر ایسی نہ دیکھے جس پر گارا اور کیچڑ نہ مل دے؟“ ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں یہ کام کروں گا، چنانچہ وہ آدمی روانہ ہو گیا، لیکن جب مدینہ منورہ پہنچا تو وہ اہل مدینہ سے مرعوب ہو کر واپس لوٹ آیا۔ یہ دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جاتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، چنانچہ جب وہ واپس آئے تو عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے جہاں بھی کسی نوعیت کا بت پایا اسے توڑ دیا، جو قبر بھی نظر آئی اسے برابر کر دیا، اور جو تصویر بھی دکھائی دی اس پر کیچڑ ڈال دیا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب جو شخص ان کاموں میں سے کوئی کام دوبارہ کرے گا گویا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ وحی کا انکار کرتا ہے۔“ نیز یہ بھی فرمایا کہ ”اے علی! تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے، یا شیخی خورے مت بننا، صرف خیر ہی کے تاجر بننا، کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن پر صرف عمل کے ذریعے ہی سبقت لے جانا ممکن ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لجهالة أبي المورع، وقصة طمس الصورة و تسوية القبر المشرف مضت باءسناد صحيح، برقم : 741
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي عون ، عن ابي صالح ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، قال: اهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم حلة سيراء، فبعث بها إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرجت فيها، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى رايت الغضب في وجهه، فقال:" إني لم اعطكها لتلبسها"، قال: فامرني فاطرتها بين نسائي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةٌ سِيَرَاءُ، فَبَعَثَ بِهَا إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجْتُ فِيهَا، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ:" إِنِّي لَمْ أُعْطِكَهَا لِتَلْبَسَهَا"، قَالَ: فَأَمَرَنِي فَأَطَرْتُهَا بَيْنَ نِسَائِي.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے ہدیہ کے طور پر ایک ریشمی جوڑا آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں اسے پہن کر باہر نکلا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں آگئے حتی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر ناراضگی کے اثرات دیکھے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں یہ پہننے کے لئے نہیں دیا تھا۔“ پھر مجھے حکم دیا تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی جنبی ہو، یا تصویر، یا کتا ہو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، دون ذكر الجنب، وهذا إسناد ضعيف لعلل
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عبد الملك بن ميسرة ، عن النزال بن سبرة ، انه شهد عليا رضي الله عنه" صلى الظهر، ثم جلس في الرحبة في حوائج الناس، فلما حضرت العصر اتي بتور، فاخذ حفنة ماء، فمسح يديه وذراعيه ووجهه وراسه ورجليه، ثم شرب فضله وهو قائم، ثم قال: إن ناسا يكرهون ان يشربوا وهم قيام، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع كما صنعت، وهذا وضوء من لم يحدث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ ، أَنَّهُ شَهِدَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ جَلَسَ فِي الرَّحَبَةِ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ، فَلَمَّا حَضَرَتْ الْعَصْرُ أُتِيَ بِتَوْرٍ، فَأَخَذَ حَفْنَةَ مَاءٍ، فَمَسَحَ يَدَيْهِ وَذِرَاعَيْهِ وَوَجْهَهُ وَرَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ، ثُمَّ شَرِبَ فَضْلَهُ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ أَنْ يَشْرَبُوا وَهُمْ قِيَامٌ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ كَمَا صَنَعْتُ، وَهَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِثْ".
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے سامنے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر مسجد کے صحن میں بیٹھ گئے تاکہ لوگوں کے مسائل حل کریں، جب نماز عصر کا وقت آیا تو انہوں نے چلو بھر کر پانی لیا اور اپنے ہاتھوں، بازؤوں، چہرے، سر اور پاؤں پر پانی کا گیلا ہاتھ پھیرا، پھر کھڑے کھڑے وہ پانی پی لیا اور فرمایا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو ناپسند سمجھتے ہیں، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا ہے جیسے میں نے کیا ہے، اور جو آدمی بےوضو نہ ہو بلکہ پہلے سے اس کا وضو موجود ہو، یہ اس شخص کا وضو ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا شعبة ، قال: الحكم اخبرني، عن ابي محمد ، عن علي رضي الله عنه، قال: بعثه النبي صلى الله عليه وسلم إلى المدينة، فامره ان" يسوي القبور".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: الْحَكَمُ أَخْبَرَنِي، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَأَمَرَهُ أَنْ" يُسَوِّيَ الْقُبُورَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ انہیں مدینہ منورہ بھیجا اور تمام قبریں برابر کرنے کا حکم دیا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة آبي محمد الهذلي
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني شيبان ابو محمد ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، اخبرنا حجاج بن ارطاة ، عن الحكم بن عتيبة ، عن ابي محمد الهذلي ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث رجلا من الانصار ان يسوي كل قبر، وان يلطخ كل صنم، فقال: يا رسول الله، إني اكره ان ادخل بيوت قومي، قال: فارسلني، فلما جئت، قال:" يا علي، لا تكونن فتانا، ولا مختالا، ولا تاجرا إلا تاجر خير، فإن اولئك مسوفون، او مسبوقون، في العمل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي شَيْبَانُ أَبُو مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، أخبرنا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنِ الْحَكَمِ بنِ عُتَيْبَةَ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْهُذَلِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَنْ يُسَوِّيَ كُلَّ قَبْرٍ، وَأَنْ يُلَطِّخَ كُلَّ صَنَمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَدْخُلَ بُيُوتَ قَوْمِي، قَالَ: فَأَرْسَلَنِي، فَلَمَّا جِئْتُ، قَالَ:" يَا عَلِيُّ، لَا تَكُونَنَّ فَتَّانًا، وَلَا مُخْتَالًا، وَلَا تَاجِرًا إِلَّا تَاجِرَ خَيْرٍ، فَإِنَّ أُولَئِكَ مُسَوِّفُونَ، أَوْ مَسْبُوقُونَ، فِي الْعَمَلِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری آدمی کو بھیجا اور اسے حکم دیا کہ ”ہر قبر برابر کر دو، اور ہر بت پر گارا مل دو۔“ اس نے کہا: یا رسول اللہ! میں اپنی قوم کے گھروں میں داخل نہیں ہونا چاہتا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا، جب میں واپس آیا تو فرمایا کہ ”تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے یا شیخی خورے مت بننا، صرف خیر ہی کے تاجر بننا، کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن پر صرف عمل کے ذریعے ہی سبقت لے جانا ممکن ہے۔“
حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن رجل من اهل البصرة، قال: واهل البصرة يكنونه ابا مورع، قال: وكان اهل الكوفة يكنونه بابي محمد، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة، فذكر نحو حديث ابي داود، عن ابي شهاب.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، قَالَ: وَأَهْلُ الْبَصْرَةِ يُكَنُّونَهُ أَبَا مُوَرِّعٍ، قَالَ: وَكَانَ أَهْلُ الْكُوفَةِ يُكَنُّونَهُ بِأَبِي مُحَمَّد، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي دَاوُدَ، عَنْ أَبِي شِهَابٍ.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، قال. ح وحجاج ، قال: حدثني شعبة ، قال: سمعت مالك بن عرفطة ، قال: سمعت عبد خير ، قال: رايت عليا رضي الله عنه اتي بكرسي، فقعد عليه، ثم اتي بكوز، قال حجاج: بتور من ماء، قال:" فغسل يديه ثلاثا، ومضمض ثلاثا مع الاستنشاق بماء واحد، وغسل وجهه ثلاثا، وغسل ذراعيه ثلاثا، قال حجاج: ثلاثا ثلاثا، بيد واحدة، ووضع يديه في التور، ثم مسح راسه، قال حجاج: فاشار بيديه من مقدم راسه إلى مؤخر راسه، قال: ولا ادري اردها إلى مقدم راسه ام لا، وغسل رجليه ثلاثا، قال حجاج: ثلاثا ثلاثا، ثم قال: من اراد ان ينظر إلى طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهذا طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ. ح وحَجَّاجٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ عُرْفُطَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ خَيْرٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُتِيَ بِكُرْسِيٍّ، فَقَعَدَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِكُوزٍ، قَالَ حَجَّاجٌ: بِتَوْرٍ مِنْ مَاءٍ، قَالَ:" فَغَسَلَ يَدَيْهِ ثَلَاثًا، وَمَضْمَضَ ثَلَاثًا مَعَ الِاسْتِنْشَاقِ بِمَاءٍ وَاحِدٍ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، قَالَ حَجَّاجٌ: ثَلَاثًا ثَلَاثًا، بِيَدٍ وَاحِدَةٍ، وَوَضَعَ يَدَيْهِ فِي التَّوْرِ، ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ، قَالَ حَجَّاجٌ: فَأَشَارَ بِيَدَيْهِ مِنْ مُقَدَّمِ رَأْسِهِ إِلَى مُؤَخَّرِ رَأْسِهِ، قَالَ: وَلَا أَدْرِي أَرَدَّهَا إِلَى مُقَدَّمِ رَأْسِهِ أَمْ لَا، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثًا، قَالَ حَجَّاجٌ: ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمّ قَالَ: مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى طُهُورِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهَذَا طُهُورُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس کرسی لائی گئی، میں نے انہیں اس پر بیٹھے ہوئے دیکھا، پھر ایک برتن لایا گیا، انہوں نے اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر ایک ہی پانی سے تین مرتبہ کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازوؤں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، پھر دوبارہ اپنے ہاتھوں کو برتن میں ڈالا اور دونوں ہتھیلیوں سے سر کا ایک مرتبہ آگے سے پیچھے کی طرف مسح کیا، اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے، پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے، جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دیکھنا چاہے تو وہ یہی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا جميل بن مرة ، عن ابي الوضيء ، قال: شهدت عليا رضي الله عنه حيث قتل اهل النهروان، قال:" التمسوا إلي المخدج، فطلبوه في القتلى، فقالوا: ليس نجده، فقال: ارجعوا فالتمسوا، فوالله ما كذبت ولا كذبت، فرجعوا فطلبوه، فردد ذلك مرارا، كل ذلك يحلف بالله ما كذبت ولا كذبت، فانطلقوا، فوجدوه تحت القتلى في طين فاستخرجوه، فجيء به"، فقال ابو الوضيء: فكاني انظر إليه: حبشي عليه ثدي قد طبق إحدى يديه، مثل ثدي المراة، عليها شعرات مثل شعرات تكون على ذنب اليربوع.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْوَضِيءِ ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَيْثُ قَتَلَ أَهْلَ النَّهْرَوَانِ، قَالَ:" الْتَمِسُوا إِلَيَّ الْمُخْدَجَ، فَطَلَبُوهُ فِي الْقَتْلَى، فَقَالُوا: لَيْسَ نَجِدُهُ، فَقَالَ: ارْجِعُوا فَالْتَمِسُوا، فَوَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، فَرَجَعُوا فَطَلَبُوهُ، فَرَدَّدَ ذَلِكَ مِرَارًا، كُلُّ ذَلِكَ يَحْلِفُ بِاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، فَانْطَلَقُوا، فَوَجَدُوهُ تَحْتَ الْقَتْلَى فِي طِينٍ فَاسْتَخْرَجُوهُ، فَجِيءَ بِهِ"، فَقَالَ أَبُو الْوَضِيءِ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ: حَبَشِيٌّ عَلَيْهِ ثَدْيٌ قَدْ طَبَقَ إِحْدَى يَدَيْهِ، مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ، عَلَيْهَا شَعَرَاتٌ مِثْلُ شَعَرَاتٍ تَكُونُ عَلَى ذَنَبِ الْيَرْبُوعِ.
ابوالوضی کہتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ اہل نہروان کے ساتھ جنگ میں مشغول تھے تو میں وہاں موجود تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مقتولین میں ایک ایسا آدمی تلاش کرو جس کا ہاتھ ناقص اور نامکمل ہو، لوگوں نے اسے لاشوں میں تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملا، اور لوگ کہنے لگے کہ ہمیں نہیں مل رہا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دوبارہ جا کر تلاش کرو، واللہ! نہ میں تم سے جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا۔ کئی مرتبہ اسی طرح ہوا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہر مرتبہ لوگوں کو تلاش کرنے کے لئے دوبارہ بھیجتے رہے، اور ہر مرتبہ قسم کھا کر یہ فرماتے رہے کہ نہ میں تم سے جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا۔ آخری مرتبہ جب لوگوں نے اسے تلاش کیا تو وہ انہیں مقتولین کی لاشوں کے نیچے مٹی میں پڑا ہوا مل گیا، انہوں نے اسے نکالا اور لا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ابوالوضی کہتے ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میں اب بھی اسے اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں، وہ ایک حبشی تھا جس کے ہاتھ پر عورت کی چھاتی جیسا نشان بنا ہوا تھا، اور اس چھاتی پر اسی طرح بال تھے جیسے کسی جنگلی چوہے کی دم پر ہوتے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم: انه كان في جنازة، فاخذ عودا ينكت في الارض فقال:" ما منكم من احد إلا قد كتب مقعده من النار، او من الجنة"، قالوا: يا رسول الله، افلا نتكل؟ قال:" اعملوا فكل ميسر: فاما من اعطى واتقى وصدق بالحسنى فسنيسره لليسرى، واما من بخل واستغنى وكذب بالحسنى فسنيسره للعسرى سورة الليل آية 5 - 10"، قال شعبة : وحدثني به منصور بن المعتمر فلم انكر من حديث سليمان شيئا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ كَانَ فِي جَنَازَةٍ، فَأَخَذَ عُودًا يَنْكُتُ فِي الْأَرْضِ فَقَالَ:" مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا قَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ، أَوْ مِنَ الْجَنَّةِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَتَّكِلُ؟ قَالَ:" اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى، وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى سورة الليل آية 5 - 10"، قَالَ شُعْبَةُ : وَحَدَّثَنِي بِهِ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ فَلَمْ أُنْكِرْ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ شَيْئًا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے کے انتظار میں بیٹھے تھے، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی) جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ - خواہ جنت ہو یا جہنم - اللہ کے علم میں موجود اور متعین ہے۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں؟ فرمایا: ”عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کے لئے وہی اعمال آسان کئے جائیں گے جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہو گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى﴾ [الليل: 5-7] »”جس شخص نے دیا، تقویٰ اختیار کیا، اور اچھی بات کی تصدیق کی تو یقینا ہم اسے آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت سليمان يحدث، عن المنذر الثوري ، عن محمد بن علي ، عن علي رضي الله عنه، قال: استحييت ان اسال النبي صلى الله عليه وسلم عن المذي من اجل فاطمة رضي الله عنها، فامرت المقداد بن الاسود، فسال عن ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" فيه الوضوء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ يُحَدِّثُ، عَنِ الْمُنْذِرِ الثَّوْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: اسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمَذْيِ مِنْ أَجْلِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ، فَسَأَلَ عَنْ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" فِيهِ الْوُضُوءُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں، اس لئے مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص وضو کر لیا کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن الحسن ، ان عمر بن الخطاب اراد ان يرجم مجنونة، فقال له علي : ما لك ذلك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتى يستيقظ، وعن الطفل حتى يحتلم، وعن المجنون حتى يبرا، او يعقل"، فادرا عنها عمر رضي الله عنه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَن قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَرَادَ أَنْ يَرْجُمَ مَجْنُونَةً، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : مَا لَكَ ذَلِكَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الطِّفْلِ حَتَّى يَحْتَلِمَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يَبْرَأَ، أَوْ يَعْقِلَ"، فَأَدْرَأَ عَنْهَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک دیوانی عورت کو رجم کرنے کا ارادہ کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں: (1) سویا ہوا شخص، جب تک بیدار نہ ہو جائے، (2) بچہ، جب تک بالغ نہ ہو جائے، (3) مجنون، جب تک اس کی عقل لوٹ نہ آئے۔“ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی سزا معطل کر دی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، والحسن البصري لم يسمع من عمر ولا من علي
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن عبد الله الداناج ، عن حضين ، قال: شهد على الوليد بن عقبة عند عثمان انه شرب الخمر، فكلم علي عثمان فيه، فقال: دونك ابن عمك فاجلده، فقال: قم يا حسن، فقال: ما لك ولهذا؟ ول هذا غيرك، فقال: بل عجزت ووهنت وضعفت، قم يا عبد الله بن جعفر، فجلده، وعد علي رضي الله عنه، فلما كمل اربعين، قال: حسبك او امسك،" جلد رسول الله صلى الله عليه وسلم اربعين، وابو بكر اربعين، وكملها عمر ثمانين، وكل سنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الدَّانَاجِ ، عَنْ حُضَيْنٍ ، قَالَ: شُهِدَ عَلَى الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ عِنْدَ عُثْمَانَ أَنَّهُ شَرِبَ الْخَمْرَ، فَكَلَّمَ عَلِيٌّ عُثْمَانَ فِيهِ، فَقَالَ: دُونَكَ ابْنُ عَمِّكَ فَاجْلِدْهُ، فَقَالَ: قُمْ يَا حَسَنُ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَلِهَذَا؟ وَلِّ هَذَا غَيْرَكَ، فَقَالَ: بَلْ عَجَزْتَ وَوَهَنْتَ وَضَعُفْتَ، قُمْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ، فَجَلَدَهُ، وَعَدَّ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَلَمَّا كَمَّلَ أَرْبَعِينَ، قَالَ: حَسْبُكَ أَوْ أَمْسِكْ،" جَلَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ، وَأَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ، وَكَمَّلَهَا عُمَرُ ثَمَانِينَ، وَكُلٌّ سُنَّةٌ".
حضین کہتے ہیں کہ کوفہ سے کچھ لوگ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ولید کی شراب نوشی کے حوالے سے کچھ خبریں بتائیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان سے اس حوالے سے گفتگو کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کا چچا زاد بھائی آپ کے حوالے ہے، آپ اس پر سزا جاری فرمائیے، انہوں نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ حسن! کھڑے ہو کر اسے کوڑے مارو، انہوں نے کہا کہ آپ یہ کام نہیں کر سکتے، کسی اور کو اس کا حکم دیجئے، فرمایا: اصل میں تم کمزور اور عاجز ہوگئے ہو، اس لئے عبداللہ بن جعفر! تم کھڑے ہو کر اس پر سزا جاری کرو۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کوڑے مارتے جاتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ گنتے جاتے تھے، جب چالیس کوڑے ہوئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس کرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کو چالیس کوڑے مارے تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی چالیس کوڑے مارے تھے، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی مارے تھے، اور دونوں ہی سنت ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن الشعبي ، ان شراحة الهمدانية اتت عليا رضي الله عنه، فقالت: إني زنيت، فقال: لعلك غيرى، لعلك رايت في منامك، لعلك استكرهت؟ وكل ذلك تقول: لا، فجلدها يوم الخميس، ورجمها يوم الجمعة، وقال:" جلدتها بكتاب الله، ورجمتها بسنة نبي الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، أَنَّ شَرَاحَةَ الْهَمْدَانِيَّةَ أَتَتْ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَتْ: إِنِّي زَنَيْتُ، فَقَالَ: لَعَلَّكِ غَيْرَى، لَعَلَّكِ رَأَيْتِ فِي مَنَامِكِ، لَعَلَّكِ اسْتُكْرِهْتِ؟ وكُلٌّ ذلك تَقُولُ: لَا، فَجَلَدَهَا يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَرَجَمَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَالَ:" جَلَدْتُهَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَرَجَمْتُهَا بِسُنَّةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شراحہ ہمدانیہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھ سے بدکاری کا ارتکاب ہو گیا ہے اس لئے مجھے سزا دیجئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہو سکتا ہے تو نے خواب میں اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہو، شاید تجھے زبردستی اس کام پر مجبور کیا گیا ہو؟ لیکن وہ ہر بات کے جواب میں ”نہیں“ کہتی رہی، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جمعرات کے دن اسے کوڑے مارے، اور جمعہ کے دن اس پر حد رجم جاری فرمائی، اور فرمایا کہ میں نے کتاب اللہ کی روشنی میں اسے کوڑے مارے ہیں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اسے رجم کیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وفي خ : 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا معمر ، حدثني الزهري ، عن ابي عبيد مولى عبد الرحمن بن عوف، قال: شهدت عليا رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم" ينهى ان يمسك احد من نسكه شيئا فوق ثلاثة ايام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، حدثني الزُّهْرِيُّ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَنْهَى أَنْ يُمْسِكَ أَحَدٌ مِنْ نُسُكِهِ شَيْئًا فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت اپنے پاس رکھنے سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو خيثمة زهير بن حرب ، وسفيان بن وكيع بن الجراح ، قالا: حدثنا جرير ، عن منصور ، عن المنهال بن عمرو ، عن نعيم بن دجاجة الاسدي ، قال: كنت عند علي رضي الله عنه، فدخل عليه ابو مسعود فقال له: يا فروخ، انت القائل: لا ياتي على الناس مائة سنة وعلى الارض عين تطرف؟ اخطت استك الحفرة! إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا ياتي على الناس مائة سنة، وعلى الارض عين تطرف ممن هو اليوم حي"، وإنما رخاء هذه وفرجها بعد المائة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَسُفْيَانُ بْنُ وَكِيعِ بْنِ الْجَرَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ دِجَاجَةَ الْأَسَدِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو مَسْعُودٍ فَقَالَ لَهُ: يَا فَرُّوخُ، أَنْتَ الْقَائِلُ: لَا يَأْتِي عَلَى النَّاسِ مِائَةُ سَنَةٍ وَعَلَى الْأَرْضِ عَيْنٌ تَطْرِفُ؟ أَخْطَتْ اسْتُكَ الْحُفْرَةَ! إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَأْتِي عَلَى النَّاسِ مِائَةُ سَنَةٍ، وَعَلَى الْأَرْضِ عَيْنٌ تَطْرِفُ مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ حَيٌّ"، وَإِنَّمَا رَخَاءُ هَذِهِ وَفَرَجُهَا بَعْدَ الْمِائَةِ.
نعیم بن دجاجہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ ہی نے یہ بات فرمائی ہے کہ لوگوں پر سو سال نہیں گذریں گے کہ زمین پر کوئی آنکھ ایسی باقی نہ بچے گی جس کی پلکیں جھپکتی ہوں، یعنی سب لوگ مرجائیں گے؟ آپ سے اس میں خطا ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی تھی وہ یہ ہے کہ ”آج جو لوگ زندہ ہیں سو سال گذرنے پر ان میں سے کسی کی آنکھ ایسی نہ رہے گی کہ جس کی پلکیں جھپکتی ہوں“، یعنی قیامت مراد نہیں ہے، واللہ! اس امت کو سو سال کے بعد تو سہولیات ملیں گی۔
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا جميل بن مرة ، عن ابي الوضيء ، قال: شهدت عليا رضي الله عنه حين قتل اهل النهروان، قال:" التمسوا في القتلى، قالوا: لم نجده، قال: اطلبوه، فوالله ما كذبت ولا كذبت، حتى استخرجوه من تحت القتلى"، قال ابو الوضيء: فكاني انظر إليه: حبشي إحدى يديه مثل ثدي المراة، عليها شعرات مثل ذنب اليربوع.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْوَضِيءِ ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ قَتَلَ أَهْلَ النَّهْرَوَانِ، قَالَ:" الْتَمِسُوا فِي الْقَتْلَى، قَالُوا: لَمْ نَجِدْهُ، قَالَ: اطْلُبُوهُ، فَوَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، حَتَّى اسْتَخْرَجُوهُ مِنْ تَحْتِ الْقَتْلَى"، قَالَ أَبُو الْوَضِيءِ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ: حَبَشِيٌّ إِحْدَى يَدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ، عَلَيْهَا شَعَرَاتٌ مِثْلُ ذَنَبِ الْيَرْبُوعِ.
ابوالوضی کہتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ اہل نہروان کے ساتھ جنگ میں مشغول تھے تو میں وہاں موجود تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مقتولین میں ایک ایسا آدمی تلاش کرو جس کا ہاتھ ناقص اور نامکمل ہو، لوگوں نے اسے لاشوں میں تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملا، اور لوگ کہنے لگے کہ ہمیں نہیں مل رہا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دوبارہ جا کر تلاش کرو، واللہ! نہ میں تم سے جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا۔ آخری مرتبہ جب لوگوں نے اسے تلاش کیا تو وہ انہیں مقتولین کی لاشوں کے نیچے مٹی میں پڑا ہوا مل گیا، انہوں نے اسے نکالا اور لا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ابوالوضی کہتے ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میں اب بھی اسے اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں، وہ ایک حبشی تھا جس کے ہاتھ پر عورت کی چھاتی جیسا نشان بنا ہوا تھا اور اس چھاتی پر اسی طرح کے بال تھے جیسے کسی جنگلی چوہے کی دم پر ہوتے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني حجاج بن يوسف الشاعر ، حدثني عبد الصمد بن عبد الوارث ، حدثنا يزيد بن ابي صالح ، ان ابا الوضيء عبادا حدثه، انه قال: كنا عامدين إلى الكوفة مع علي بن ابي طالب رضي الله عنه، فلما بلغنا مسيرة ليلتين او ثلاث من حروراء شذ منا ناس كثير، فذكرنا ذلك لعلي رضي الله عنه، فقال: لا يهولنكم امرهم فإنهم سيرجعون، فذكر الحديث بطوله، قال: فحمد الله علي بن ابي طالب رضي الله عنه، وقال: إن خليلي اخبرني:" ان قائد هؤلاء رجل مخدج اليد، على حلمة ثديه شعرات كانهن ذنب اليربوع"، فالتمسوه فلم يجدوه، فاتيناه، فقلنا: إنا لم نجده، فقال: التمسوه، فوالله ما كذبت ولا كذبت، ثلاثا، فقلنا لم نجده، فجاء علي بنفسه، فجعل يقول: اقلبوا ذا اقلبوا ذا، حتى جاء رجل من الكوفة، فقال: هو ذا، قال علي رضي الله عنه: الله اكبر، لا ياتيكم احد يخبركم من ابوه؟ فجعل الناس يقولون: هذا مالك، هذا مالك، يقول علي رضي الله عنه: ابن من هو؟.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ يُوسُفَ الشَّاعِرُ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ، أَنَّ أَبَا الْوَضِيءِ عَبَّادًا حَدَّثَهُ، أَنَّهُ قَالَ: كُنَّا عَامِدِينَ إِلَى الْكُوفَةِ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَلَمَّا بَلَغْنَا مَسِيرَةَ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثٍ مِنْ حَرُورَاءَ شَذَّ مِنَّا نَاسٌ كَثِيرٌ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: لَا يَهُولَنَّكُمْ أَمْرُهُمْ فَإِنَّهُمْ سَيَرْجِعُونَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، قَالَ: فَحَمِدَ اللَّهَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ: إِنَّ خَلِيلِي أَخْبَرَنِي:" أَنَّ قَائِدَ هَؤُلَاءِ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْيَدِ، عَلَى حَلَمَةِ ثَدْيِهِ شَعَرَاتٌ كَأَنَّهُنَّ ذَنَبُ الْيَرْبُوعِ"، فَالْتَمَسُوهُ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَأَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: إِنَّا لَمْ نَجِدْهُ، فَقَالَ: الْتَمِسُوهُ، فَوَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، ثَلَاثًا، فَقُلْنَا لَمْ نَجِدْهُ، فَجَاءَ عَلِيٌّ بِنَفْسِهِ، فَجَعَلَ يَقُولُ: اقْلِبُوا ذَا اقْلِبُوا ذَا، حَتَّى جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْكُوفَةِ، فَقَالَ: هُوَ ذَا، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا يَأْتِيكُمْ أَحَدٌ يُخْبِرُكُمْ مَنْ أَبُوهُ؟ فَجَعَلَ النَّاسُ يَقُولُونَ: هَذَا مَالِكٌ، هَذَا مَالِكٌ، يَقُولُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ابْنُ مَنْ هُوَ؟.
ابوالوضی کہتے ہیں کہ ہم کوفہ کے ارادے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے، جب ہم حروراء نامی جگہ سے دو یا تین راتوں کے فاصلے کے برابر رہ گئے تو ہم سے بہت سارے لوگ جدا ہو کر چلے گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ہم نے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم گھبراؤ مت، عنقریب یہ لوگ واپس لوٹ آئیں گے۔ اس کے بعد راوی نے مکمل حدیث ذکر کی اور آخر میں کہا کہ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا تھا کہ ان لوگوں کا قائد ایک ایسا آدمی ہوگا جس کا ہاتھ نامکمل ہوگا، اور اس کے ہاتھ پر عورت کی چھاتی جیسی گھنڈی بھی ہوگی جس پر اس طرح کے بال ہوں گے جیسے جنگلی چوہے کی دم ہوتی ہے، تم مقتولین میں اس کی لاش تلاش کرو۔ لوگوں نے اس کی تلاش شروع کی لیکن نہ مل سکی، ہم نے آ کر عرض کر دیا کہ ہمیں تو اس کی لاش نہیں مل رہی، تین مرتبہ اسی طرح ہوا، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ خود بنفس نفیس اسے تلاش کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: اسے پلٹو، اسے پلٹو، اتنی دیر میں کوفہ کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یہ رہا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کا باپ کون ہے؟ لوگ کہنے لگے کہ اس کا نام مالک ہے، اس کا نام مالک ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کس کا بیٹا ہے؟ (تو اس کا کوئی جواب نہ مل سکا)۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا سلمة بن كهيل ، عن الشعبي ، ان عليا رضي الله عنه، قال لشراحة: لعلك استكرهت، لعل زوجك اتاك، لعلك، لعلك؟ قالت: لا، قال: فلما وضعت ما في بطنها جلدها، ثم رجمها، فقيل له: جلدتها ثم رجمتها؟! قال:" جلدتها بكتاب الله، ورجمتها بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أخبرنا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِشَرَاحَةَ: لَعَلَّكِ اسْتُكْرِهْتِ، لَعَلَّ زَوْجَكِ أَتَاكِ، لَعَلَّكِ، لَعَلَّكِ؟ قَالَتْ: لَا، قَالَ: فَلَمَّا وَضَعَتْ مَا فِي بَطْنِهَا جَلَدَهَا، ثُمَّ رَجَمَهَا، فَقِيلَ لَهُ: جَلَدْتَهَا ثُمَّ رَجَمْتَهَا؟! قَالَ:" جَلَدْتُهَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَرَجَمْتُهَا بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ (شراحہ ہمدانیہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھ سے بدکاری کا ارتکاب ہو گیا ہے اس لئے سزا دیجئے)، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہو سکتا ہے تجھے زبردستی اس کام پر مجبور کیا گیا ہو؟ شاید وہ تمہارا شوہر ہی ہو، لیکن وہ ہر بات کے جواب میں ”نہیں“ کہتی رہی، چنانچہ وضع حمل کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے کوڑے مارے، اور اس پر حد رجم جاری فرمائی۔ کسی شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اسے کوڑے بھی مارے اور رجم بھی کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے کتاب اللہ کی روشنی میں اسے کوڑے مارے ہیں، اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اسے رجم کیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وفي خ : 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن ابي عبيد مولى عبد الرحمن بن عوف، قال:... ثم شهدته مع علي ، فصلى قبل ان يخطب بلا اذان ولا إقامة، ثم خطب، فقال: يا ايها الناس إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد" نهى ان تاكلوا نسككم بعد ثلاث ليال"، فلا تاكلوها بعد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أخبرنا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ:... ثُمَّ شَهِدْتُهُ مَعَ عَلِيٍّ ، فَصَلَّى قَبْلَ أَنْ يَخْطُبَ بِلَا أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، ثُمَّ خَطَبَ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ" نَهَى أَنْ تَأْكُلُوا نُسُكَكُمْ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ"، فَلَا تَأْكُلُوهَا بَعْدُ.
ابوعبید کہتے ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحی دونوں موقعوں پر مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا ہے، انہوں نے خطبہ سے پہلے بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا ہے، لہذا تین دن کے بعد اسے مت کھایا کرو۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہ پڑھو، ہاں! اگر سورج صاف ستھرا دکھائی دے رہا ہو تو جائز ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن عيينة ، عن محمد بن سوقة ، عن منذر الثوري ، عن محمد بن علي ، قال:" جاء إلى علي رضي الله عنه ناس من الناس فشكوا سعاة عثمان، قال: فقال لي ابي: اذهب بهذا الكتاب إلى عثمان، فقل له: إن الناس قد شكوا سعاتك، وهذا امر رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصدقة فمرهم فلياخذوا به، قال: فاتيت عثمان، فذكرت ذلك له، قال: فلو كان ذاكرا عثمان بشيء لذكره يومئذ، يعني: بسوء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أخبرنا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ ، عَنْ مُنْذِرٍ الثَّوْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، قَالَ:" جَاءَ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ فَشَكَوْا سُعَاةَ عُثْمَانَ، قَالَ: فَقَالَ لِي أَبِي: اذْهَبْ بِهَذَا الْكِتَابِ إِلَى عُثْمَانَ، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ شَكَوْا سُعَاتَكَ، وَهَذَا أَمْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّدَقَةِ فَمُرْهُمْ فَلْيَأْخُذُوا بِهِ، قَالَ: فَأَتَيْتُ عُثْمَانَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: فَلَوْ كَانَ ذَاكِرًا عُثْمَانَ بِشَيْءٍ لَذَكَرَهُ يَوْمَئِذٍ، يَعْنِي: بِسُوءٍ".
محمد بن علی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ کچھ گورنروں کی شکایت لے کر آئے، مجھ سے والد صاحب نے کہا کہ یہ خط سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ لوگ آپ کے گورنروں کی شکایت لے کر آئے ہیں، زکوٰۃ کی وصولی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اس خط میں درج ہیں، آپ اپنے گورنروں کو حکم جاری کر دیجئے کہ لوگوں سے اسی کے مطابق زکوٰۃ وصول کریں، چنانچہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے سامنے ساری بات دہرا دی۔ راوی کہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا غیر مناسب انداز میں تذکرہ کرنا چاہتا تو اس دن کے حوالے سے کرتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني حجاج بن الشاعر ، حدثني عبد الصمد بن عبد الوارث ، حدثنا يزيد بن ابي صالح ، ان ابا الوضيء عبادا حدثه، انه قال: كنا عامدين إلى الكوفة مع علي بن ابي طالب رضي الله عنه، فذكر حديث المخدج، قال علي: فوالله ما كذبت ولا كذبت، ثلاثا، فقال علي : اما إن خليلي اخبرني:" ثلاثة إخوة من الجن: هذا اكبرهم، والثاني له جمع كثير، والثالث فيه ضعف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أًبِي صَالِحٍ ، أَنَّ أَبَا الْوَضِيءِ عَبَّادًا حَدَّثَهُ، أَنَّهُ قَالَ: كُنَّا عَامِدِينَ إِلَى الْكُوفَةِ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَذَكَرَ حَدِيثَ الْمُخْدَجِ، قَالَ عَلِيٌّ: فَوَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، ثَلَاثًا، فَقَالَ عَلِيٌّ : أَمَا إِنَّ خَلِيلِي أَخْبَرَنِي:" ثَلَاثَةَ إِخْوَةٍ مِنَ الْجِنِّ: هَذَا أَكْبَرُهُمْ، وَالثَّانِي لَهُ جَمْعٌ كَثِيرٌ، وَالثَّالِثُ فِيهِ ضَعْفٌ".
ابوالوضی کہتے ہیں کہ ہم کوفہ کے ارادے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے، پھر انہوں نے حدیث نمبر (1189) ذکر کی اور اس کے آخر میں یہ بھی کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یاد رکھو! میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتا رکھا ہے کہ ”جنات میں تین بھائی ہیں، یہ ان میں سب سے بڑا ہے، دوسرے کے پاس بھی جم غفیر ہے، اور تیسرا کمزور ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن ، هو مكرر 1189. وقوله : «أما ان خليلي.....» لم يرد إلا فى هذا الحديث
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا زكريا بن يحيى زحمويه ، حدثنا شريك ، عن خالد بن علقمة ، عن عبد خير ، قال: صلينا الغداة، فجلسنا إلى علي بن ابي طالب رضي الله عنه،" فدعا بوضوء، فغسل يديه ثلاثا، ومضمض مرتين من كف واحد، ثم غسل وجهه ثلاثا، ثم غسل ذراعيه، ثم غسل قدميه ثلاثا، ثم قال: هذا وضوء نبيكم صلى الله عليه وسلم، فاعلموا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى زَحْمَوَيْهِ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، قَالَ: صَلَّيْنَا الْغَدَاةَ، فَجَلَسْنَا إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" فَدَعَا بِوَضُوءٍ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ ثَلَاثًا، وَمَضْمَضَ مَرَّتَيْنِ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: هَذَا وُضُوءُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاعْلَمُوا".
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ کر ہم ان کے پاس ہی بیٹھ گئے، انہوں نے وضو کا پانی منگوایا، تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو دھویا، پھر ایک ہی کف سے دو مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازؤوں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے، اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے، اسے خوب سمجھ لو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا ابو بحر ، حدثنا ابو عوانة ، عن خالد بن علقمة ، عن عبد خير ، قال: اتينا عليا رضي الله عنه وقد صلى،" فدعا بكوز، ثم تمضمض ثلاثا، واستنشق ثلاثا، تمضمض من الكف الذي ياخذ، وغسل وجهه ثلاثا، ويده اليمنى ثلاثا، ويده الشمال ثلاثا، ثم قال: من سره ان يعلم وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهو هذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أًبُو بَحْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، قَالَ: أَتَيْنَا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَدْ صَلَّى،" فَدَعَا بِكُوزٍ، ثُمَّ تَمَضْمَضَ ثَلَاثًا، وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، تَمَضْمَضَ مِنَ الْكَفِّ الَّذِي يَأْخُذُ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَيَدَهُ الْيُمْنَى ثَلَاثًا، وَيَدَهُ الشِّمَالَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَعْلَمَ وُضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهُوَ هَذَا".
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ فجر کی نماز پڑھ چکے تھے، انہوں نے وضو کا پانی منگوایا، تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو دھویا، پھر ایک ہی کف سے تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازؤوں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، اور فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو معلوم کرنا چاہتا ہے تو وہ یہی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح ، ابو بحر البكراوي - وان كان فيه ضعف- قد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن ليث ، عن مجاهد ، عن ابي معمر ، قال: كنا مع علي رضي الله عنه،" فمر به جنازة، فقام لها ناس، فقال علي رضي الله عنه: من افتاكم هذا؟! فقالوا: ابو موسى، قال: إنما فعل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم مرة، وكان يتشبه باهل الكتاب، فلما نهي انتهى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" فَمَرَّ بِهِ جَنَازَةٌ، فَقَامَ لَهَا نَاسٌ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَنْ أَفْتَاكُمْ هَذَا؟! فَقَالُوا: أَبُو مُوسَى، قَالَ: إِنَّمَا فَعَلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً، وَكَانَ يَتَشَبَّهُ بِأَهْلِ الْكِتَابِ، فَلَمَّا نُهِيَ انْتَهَى".
ابومعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ موجود تھے، وہاں سے ایک جنازہ گذرا، لوگ اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تمہیں یہ مسئلہ کس نے بتایا ہے؟ لوگوں نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا نام لیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح صرف ایک مرتبہ کیا تھا اور وہ بھی اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی مشابہت اختیار فرمایا کرتے تھے، لیکن جب اس کی ممانعت کر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، حدثني ابن شهاب ، عن علي بن حسين بن علي ، عن ابيه حسين بن علي ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: قال علي:" اصبت شارفا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في المغنم يوم بدر، واعطاني رسول الله صلى الله عليه وسلم شارفا اخرى، فانختهما يوما عند باب رجل من الانصار، وانا اريد ان احمل عليهما إذخرا لابيعه، ومعي صائغ من بني قينقاع لاستعين به على وليمة فاطمة، وحمزة بن عبد المطلب يشرب في ذلك البيت، فثار إليهما حمزة بالسيف فجب اسنمتهما، وبقر خواصرهما، ثم اخذ من اكبادهما، قلت لابن شهاب: ومن السنام؟ قال: جب اسنمتهما، فذهب بها، قال: فنظرت إلى منظر افظعني، فاتيت نبي الله صلى الله عليه وسلم وعنده زيد بن حارثة، فاخبرته الخبر، فخرج ومعه زيد، فانطلق معه فدخل على حمزة فتغيظ عليه، فرفع حمزة بصره، فقال: هل انتم إلا عبيد لابي! فرجع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقهقر حتى خرج عنهم، وذلك قبل تحريم الخمر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ:" أَصَبْتُ شَارِفًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَارِفًا أُخْرَى، فَأَنَخْتُهُمَا يَوْمًا عِنْدَ بَابِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَيْهِمَا إِذْخِرًا لِأَبِيعَهُ، وَمَعِي صَائِغٌ مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ لِأَسْتَعِينَ بِهِ عَلَى وَلِيمَةِ فَاطِمَةَ، وَحَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَشْرَبُ فِي ذَلِكَ الْبَيْتِ، فَثَارَ إِلَيْهِمَا حَمْزَةُ بِالسَّيْفِ فَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا، وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، ثُمَّ أَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، قُلْتُ لِابْنِ شِهَابٍ: وَمِنْ السَّنَامِ؟ قَالَ: جَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا، فَذَهَبَ بِهَا، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَى مَنْظَرٍ أَفْظَعَنِي، فَأَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، فَخَرَجَ وَمَعَهُ زَيْدٌ، فَانْطَلَقَ مَعَهُ فَدَخَلَ عَلَى حَمْزَةَ فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ، فَرَفَعَ حَمْزَةُ بَصَرَهُ، فَقَالَ: هَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي! فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَهْقِرُ حَتَّى خَرَجَ عَنْهُمْ، وَذَلِكَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْخَمْرِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے مال غنیمت سے مجھے ایک عمر رسیدہ اونٹنی حاصل ہوئی تھی اور ایک ایسی ہی اونٹنی مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، ایک دن میں نے ان دونوں کو ایک انصاری کے گھر کے دروازے پر بٹھایا، میرا ارادہ تھا کہ ان پر اذخر نامی گھاس کو لاد کر بازار لے جاؤں گا اور اسے بیچ دوں گا، میرے ساتھ بنو قینقاع کا ایک سنار بھی تھا، جس سے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ولیمے میں کام لینا چاہتا تھا۔ ادھر اس انصاری کے گھر میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شراب پی رہے تھے (کیونکہ اس وقت تک شراب کی حرمت کا حکم نازل نہیں ہوا تھا)، اونٹنیوں کو دیکھ کر وہ اپنی تلوار لے کر ان پر پل پڑے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھیں پھاڑ ڈالیں اور جگر نکال لئے اور انہیں اندر لے گئے، میں نے جب یہ منظر دیکھا تو میں بہت پریشان ہوا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری بات بتائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ نکلے، سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان سے خوب ناراضگی کا اظہار کیا، سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا اور فرمایا کہ تم سب میرے باپ کے غلام ہی تو ہو، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں واپس چلے آئے، اور یہ واقعہ حرمت شراب کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو الاحوص ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، قال: قال ناس من اصحاب علي لعلي رضي الله عنه: الا تحدثنا بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنهار والتطوع، فقال علي رضي الله عنه: إنكم والله لا تطيقونها، فقالوا له: اخبرنا بها ناخذ منها ما اطقنا... فذكر الحديث بطوله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، قَالَ: قَالَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَلَا تُحَدِّثُنَا بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّهَارِ وَالتَّطَوُّعِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّكُمْ وَاللَّهِ لَا تُطِيقُونَهَا، فَقَالُوا لَهُ: أَخْبِرْنَا بِهَا نَأْخُذْ مِنْهَا مَا أَطَقْنَا... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
حدثنا عبد الله، حدثنا ابو كامل الجحدري فضيل بن الحسين إملاء علي من كتابه، حدثنا ابو عوانة ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي رضي الله عنه، انه سئل عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنهار، فقال: كان" يصلي ست عشرة ركعة، قال: يصلي إذا كانت الشمس من هاهنا كهيئتها من هاهنا كصلاة العصر ركعتين، وكان يصلي إذا كانت الشمس من هاهنا كهيئتها من هاهنا كصلاة الظهر اربع ركعات، وكان يصلي قبل الظهر اربع ركعات، وبعد الظهر ركعتين، وقبل العصر اربع ركعات".حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ فُضَيْلُ بْنُ الْحُسَيْنِ إِمْلَاءً عَلَيَّ مِنْ كِتَابِهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّهَارِ، فَقَالَ: كَانَ" يُصَلِّي سِتَّ عَشْرَةَ رَكْعَةً، قَالَ: يُصَلِّي إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَاهُنَا كَصَلَاةِ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ يُصَلِّي إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَاهُنَا كَصَلَاةِ الظُّهْرِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَكَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَبَعْدَ الظُّهْرِ رَكْعَتَيْنِ، وَقَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ".
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کل سولہ رکعتیں پڑھتے تھے، فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے، جب سورج مشرق سے اس مقدار میں نکل آتا جتنا عصر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھتے، پھر تھوڑی دیر انتظار فرماتے، اور جب سورج مشرق سے اتنی مقدار میں نکل آتا جتنا ظہر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر چار رکعت نماز پڑھتے، پھر سورج ڈھلنے کے بعد چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں ظہر کے بعد اور چار رکعتیں عصر سے پہلے پڑھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن الحسن ، وعبد الله ابني محمد بن علي، عن ابيهما محمد بن علي ، انه سمع اباه علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال لابن عباس، وبلغه انه رخص في متعة النساء، فقال له علي بن ابي طالب رضي الله عنه: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد" نهى عنها يوم خيبر، وعن لحوم الحمر الاهلية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعَبْدِ اللَّهِ ابني محمد بن علي، عَنْ أَبِيهِمَا مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ، وَبَلَغَهُ أَنَّهُ رَخَّصَ فِي مُتْعَةِ النِّسَاءِ، فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ" نَهَى عَنْهَا يَوْمَ خَيْبَر، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے زمانے میں ہی نکاح متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت فرما دی تھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تھا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، عن سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن ابي حية بن قيس ، عن علي رضي الله عنه، انه" توضا ثلاثا ثلاثا، ثم مسح براسه، ثم شرب فضل وضوئه، ثم قال: من سره ان ينظر إلى وضوء النبي صلى الله عليه وسلم، فلينظر إلى هذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي حَيَّةَ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ" تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسَهُ، ثُمَّ شَرِبَ فَضْلَ وَضُوئِهِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى وُضُوءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا، اور وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا، پھر فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دیکھنا چا ہے وہ اسے دیکھ لے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن شيخ لهم يقال له: سالم ، عن عبد الله بن مليل ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول:" اعطي كل نبي سبعة نجباء من امته، واعطي النبي صلى الله عليه وسلم اربعة عشر نجيبا من امته، منهم ابو بكر وعمر رضي الله عنهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ شَيْخٍ لَهُمْ يُقَالُ لَهُ: سَالِمٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُلَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" أُعْطِيَ كُلُّ نَبِيٍّ سَبْعَةَ نُجَبَاءَ مِنْ أُمَّتِهِ، وَأُعْطِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَةَ عَشَرَ نَجِيبًا مِنْ أُمَّتِهِ، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا".
عبداللہ بن ملیل رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو سات نقباء، وزراء، نجباء دیئے گئے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصیت کے ساتھ چودہ وزراء، نقباء، نجباء دیئے گئے جن میں سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی ہیں۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن علي بن زيد ، عن الحسن ، عن قيس بن عباد ، قال: كنا مع علي رضي الله عنه، فكان" إذا شهد مشهدا، او اشرف على اكمة، او هبط واديا، قال: سبحان الله، صدق الله ورسوله، فقلت لرجل من بني يشكر: انطلق بنا إلى امير المؤمنين حتى نساله عن قوله: صدق الله ورسوله، قال: فانطلقنا إليه، فقلنا: يا امير المؤمنين، رايناك إذا شهدت مشهدا، او هبطت واديا، او اشرفت على اكمة، قلت: صدق الله ورسوله، فهل عهد رسول الله إليك شيئا في ذلك؟ قال: فاعرض عنا والححنا عليه، فلما راى ذلك، قال: والله ما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم عهدا إلا شيئا عهده إلى الناس، ولكن الناس وقعوا على عثمان رضي الله عنه، فقتلوه، فكان غيري فيه اسوا حالا وفعلا مني، ثم إني رايت اني احقهم بهذا الامر، فوثبت عليه، فالله اعلم اصبنا ام اخطانا".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَكَانَ" إِذَا شَهِدَ مَشْهَدًا، أَوْ أَشْرَفَ عَلَى أَكَمَةٍ، أَوْ هَبَطَ وَادِيًا، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَقُلْتُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي يَشْكُرَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ حَتَّى نَسْأَلَهُ عَنْ قَوْلِهِ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، رَأَيْنَاكَ إِذَا شَهِدْتَ مَشْهَدًا، أَوْ هَبَطْتَ وَادِيًا، أَوْ أَشْرَفْتَ عَلَى أَكَمَةٍ، قُلْتَ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَهَلْ عَهِدَ رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكَ شَيْئًا فِي ذَلِكَ؟ قَالَ: فَأَعْرَضَ عَنَّا وَأَلْحَحْنَا عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدًا إِلَّا شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَى النَّاسِ، وَلَكِنَّ النَّاسَ وَقَعُوا عَلَى عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَتَلُوهُ، فَكَانَ غَيْرِي فِيهِ أَسْوَأَ حَالًا وَفِعْلًا مِنِّي، ثُمَّ إِنِّي رَأَيْتُ أَنِّي أَحَقُّهُمْ بِهَذَا الْأَمْرِ، فَوَثَبْتُ عَلَيْهِ، فَاللَّهُ أَعْلَمُ أَصَبْنَا أَمْ أَخْطَأْنَا".
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، وہ جب بھی لوگوں کے کسی مجمع کو دیکھتے، یا کسی ٹیلے پر چڑھتے، یا کسی وادی میں اترتے تو فرماتے: «سُبْحَانَ اللّٰهِ، صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ.» میں نے بنو یشکر کے ایک آدمی سے کہا کہ آؤ، ذرا امیر المومنین سے یہ بات پوچھتے ہیں کہ «صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ» سے ان کی کیا مراد ہوتی ہے؟ چنانچہ ہم دونوں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: امیر المومنین! ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ کسی مجمع کو دیکھیں، کسی وادی میں اتریں، یا کسی ٹیلے پر چڑھیں تو آپ «صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ» کہتے ہیں، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے آپ کو کچھ بتا رکھا ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمارا سوال سن کر اعراض فرمایا، لیکن ہم نے بہت اصرار کیا، جب انہوں نے ہمارا اصرار دیکھا تو فرمایا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی بات بتائی ہے تو وہ لوگوں کو بھی بتائی ہے، لیکن لوگ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پیچھے پڑ گئے یہاں تک کہ انہیں شہید کر کے ہی دم لیا، اب میرے علاوہ دوسرے لوگوں کا حال بھی کچھ بہتر نہ تھا اور کام بھی، پھر میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مجھے خلافت کا حق بھی پہنچتا ہے اس لئے میں اس سواری پر سوار ہو گیا، اب اللہ جانتا ہے کہ ہم نے صحیح کیا یا غلط؟
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على بن زيد و هو ابن جدعان
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ فرمایا: پورے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کی سولہ رکعتیں ہوتی تھیں لیکن ان پر دوام کرنے والے بہت کم ہیں۔
حدثني عبد الله، حدثني ابي، حدثنا وكيع، قال: وقال ابي قال حبيب بن ابي ثابت: يا ابا إسحاق، ما احب ان لي بحديثك هذا ملء مسجدك هذا ذهبا.حَدَّثَني عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَني أَبِي، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: وَقَالَ أَبِي قَالَ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، مَا أُحِبُّ أَنّ لِي بِحَدِيثِكَ هَذَا مِلْءَ مَسْجِدِكَ هَذَا ذَهَبًا.
حبیب بن ابی ثابت نے گزشتہ حدیث بیان کر کے فرمایا: اے ابواسحاق! مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ آپ کی اس حدیث کے عوض مجھے یہ مسجد سونے سے بھر کر دے دی جائے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ قربانی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود رہوں، اور یہ کہ ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة ، اخبرنا مجالد ، عن عامر ، قال: حملت شراحة وكان زوجها غائبا، فانطلق بها مولاها إلى علي، فقال لها علي رضي الله عنه: لعل زوجك جاءك، او لعل احدا استكرهك على نفسك؟ قالت: لا، واقرت بالزنا، فجلدها علي رضي الله عنه يوم الخميس انا شاهده، ورجمها يوم الجمعة وانا شاهده، فامر بها فحفر لها إلى السرة، ثم قال:" إن الرجم سنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد كانت نزلت آية الرجم، فهلك من كان يقرؤها وآيا من القرآن باليمامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: حَمَلَتْ شُرَاحَةُ وَكَانَ زَوْجُهَا غَائِبًا، فَانْطَلَقَ بِهَا مَوْلَاهَا إِلَى عَلِيٍّ، فَقَالَ لَهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَعَلَّ زَوْجَكِ جَاءَكِ، أَوْ لَعَلَّ أَحَدًا اسْتَكْرَهَكِ عَلَى نَفْسِكِ؟ قَالَتْ: لَا، وَأَقَرَّتْ بِالزِّنَا، فَجَلَدَهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْخَمِيسِ أَنَا شَاهِدُهُ، وَرَجَمَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَأَنَا شَاهِدُهُ، فَأَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا إِلَى السُّرَّةِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ الرَّجْمَ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ كَانَتْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ، فَهَلَكَ مَنْ كَانَ يَقْرَؤُهَا وَآيًا مِنَ الْقُرْآنِ بِالْيَمَامَةِ".
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شراحہ ہمدانیہ بچے کی امید سے ہو گئی، حالانکہ اس کا شوہر موجود نہیں تھا، چنانچہ اس کا آقا اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر آیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہو سکتا ہے وہ تمہارا شوہر ہی ہو، شاید تجھے زبردستی اس کام پر مجبور کیا گیا ہو؟ لیکن وہ ہر بات کے جواب میں ”نہیں“ کہتی رہی، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جمعرات کے دن اسے کوڑے مارے، اور جمعہ کے دن اس پر حد رجم جاری فرمائی، اور میں دونوں موقعوں پر موجود تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ناف تک اس کے لئے گڑھا کھودنے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ رجم سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور آیت رجم کا نزول بھی ہوا تھا، بعد میں یمامہ کے وہ لوگ جو آیت رجم اور قرآن کی دیگر آیات پڑھتے تھے، وہ ہلاک ہو گئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مجالد، وفي الخبر الفاظ منكرة، وانظر : 716
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن سماك ، عن حنش ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا تقاضى إليك رجلان، فلا تقض للاول حتى تسمع ما يقول الآخر، فسوف ترى كيف تقضي"، قال: فما زلت بعد قاضيا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا تَقَاضَى إِلَيْكَ رَجُلَانِ، فَلَا تَقْضِ لِلْأَوَّلِ حَتَّى تَسْمَعَ مَا يَقُولُ الْآخَرُ، فَسَوُفَ تَرَى كَيْفَ تَقْضِي"، قَالَ: فَمَا زِلْتُ بَعْدُ قَاضِيًا.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا، بلکہ دونوں کی بات سننا، تم دیکھو گے کہ تم کس طرح فیصلہ کرتے ہو۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں مسلسل عہدہ قضاء پر فائز رہا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف حنش
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”بہترین عورت سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام ہیں، اور بہترین عورت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو، اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اسے بری موت سے محفوظ رکھا جائے، اسے چاہئے کہ اللہ سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو خيثمة ، حدثنا جرير ، عن منصور ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل وتر يحب الوتر، فاوتروا يا اهل القرآن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوَتْرَ، فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ طاق ہے، اور طاق عدد کو پسند کرتا ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا زهير ، حدثنا الحسن بن الحر ، حدثنا الحكم بن عتيبة ، عن رجل يدعى: حنشا ، عن علي رضي الله عنه، قال:" كسفت الشمس فصلى علي رضي الله عنه للناس، فقرا: يس او نحوها، ثم ركع نحوا من قدر السورة، ثم رفع راسه، فقال: سمع الله لمن حمده، ثم قام قدر السورة يدعو ويكبر، ثم ركع قدر قراءته ايضا، ثم قال: سمع الله لمن حمده، ثم قام ايضا قدر السورة، ثم ركع قدر ذلك ايضا، حتى صلى اربع ركعات، ثم قال: سمع الله لمن حمده، ثم سجد، ثم قام في الركعة الثانية ففعل كفعله في الركعة الاولى، ثم جلس يدعو ويرغب، حتى انكشفت الشمس، ثم حدثهم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كذلك فعل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ ، عَنْ رَجُلٍ يُدْعَى: حَنَشًا ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَسَفَتْ الشَّمْسُ فَصَلَّى عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِلنَّاسِ، فَقَرَأَ: يس أَوْ نَحْوَهَا، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِنْ قَدْرِ السُّورَةِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ قَامَ قَدْرَ السُّورَةِ يَدْعُو وَيُكَبِّرُ، ثُمَّ رَكَعَ قَدْرَ قِرَاءَتِهِ أَيْضًا، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ قَامَ أَيْضًا قَدْرَ السُّورَةِ، ثُمَّ رَكَعَ قَدْرَ ذَلِكَ أَيْضًا، حَتَّى صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ فَفَعَلَ كَفِعْلِهِ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى، ثُمَّ جَلَسَ يَدْعُو وَيَرْغَبُ، حَتَّى انْكَشَفَتْ الشَّمْسُ، ثُمَّ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَلِكَ فَعَلَ".
حنش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نماز کسوف پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے، انہوں نے سورہ یٓس یا اس جیسی کوئی سورت تلاوت فرمائی، پھر سورت کے بقدر رکوع کیا، پھر سر اٹھا کر «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہا اور سورت کی تلاوت کے بقدر کھڑے رہے اور دعا کرتے رہے، پھر تکبیر کہہ کر دوبارہ اتنا ہی طویل رکوع کیا جو سورت کی تلاوت کے بقدر تھا، پھر «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہہ کر مزید اتنی ہی دیر کھڑے رہے، اس طرح انہوں نے چار رکوع کئے، پھر سجدہ کیا اور دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوئے اور پہلی رکعت کی طرح یہ دوسری رکعت بھی پڑھی، پھر بیٹھ کر دعا کرتے رہے یہاں تک کہ سورج گرہن ختم ہو گیا، پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ اسی طرح کیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف حنش ، وفي مسلم : (908) عن ابن عباس قال : صلى رسول الله حين كسفت الشمس ، ثمان ركعات م فى اربع سجدات، وعن على مثل ذلك
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن عطاء بن السائب ، عن ابي عبد الرحمن ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن العبد إذا جلس في مصلاه بعد الصلاة، صلت عليه الملائكة، وصلاتهم عليه: اللهم اغفر له، اللهم ارحمه، وإن جلس ينتظر الصلاة، صلت عليه الملائكة، وصلاتهم عليه: اللهم اغفر له، اللهم ارحمه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا جَلَسَ فِي مُصَلَّاهُ بَعْدَ الصَّلَاةِ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ، وَصَلَاتُهُمْ عَلَيْهِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، وَإِنْ جَلَسَ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ، وَصَلَاتُهُمْ عَلَيْهِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کوئی شخص نماز کے بعد اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہتا ہے تو فرشتے اس پر صلوٰۃ پڑھتے رہتے ہیں، اور فرشتوں کی صلوٰۃ یہ دعا ہے کہ اے اللہ! اسے معاف فرما دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما دے۔ اسی طرح اگر وہ بیٹھ کر اگلی نماز کا انتظار کرتا رہے تو فرشتے اس پر بھی صلوٰۃ پڑھتے ہیں، اور ان کی صلوٰۃ یہی دعا ہے کہ اے اللہ! اسے معاف فرما دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما دے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، عطاء بن السائب قد اختلط
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا هشام ، عن محمد ، عن عبيدة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الخندق:" ما لهم، ملا الله بيوتهم وقبورهم نارا كما حبسونا عن صلاة الوسطى حتى غابت الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيْدُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ:" مَا لَهُمْ، مَلَأَ اللَّهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا كَمَا حَبَسُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى حَتَّى غَابَتْ الشَّمْسُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا زكريا ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: إنكم تقرءون: من بعد وصية يوصى بها او دين سورة النساء آية 12، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم" قضى بالدين قبل الوصية، وإن اعيان بني الام يتوارثون دون بني العلات، يرث الرجل اخاه لابيه، وامه دون اخيه لابيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ: مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ سورة النساء آية 12، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَضَى بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَإِنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ، يَرِثُ الرَّجُلُ أَخَاهُ لِأَبِيهِ، وَأُمِّهِ دُونَ أَخِيهِ لِأَبِيهِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ ”میت کے قرض کی ادائیگی اجراء و نفاذ وصیت سے پہلے ہو گی“، جبکہ قرآن میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے ہے، اور یہ کہ ”اخیافی بھائی تو وارث ہوں گے لیکن علاتی بھائی وارث نہ ہوں گے“، انسان کا حقیقی بھائی تو اس کا وارث ہوگا لیکن صرف باپ شریک بھائی وارث نہ ہوگا۔ فائدہ: ماں شریک بھائی کو اخیافی اور باپ شریک بھائی کو علاتی کہتے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا مسعر ، عن عبد الملك بن ميسرة ، عن النزال بن سبرة ، قال: اتي علي بإناء من ماء،" فشرب وهو قائم، ثم قال: إنه بلغني ان اقواما يكرهون ان يشرب احدهم وهو قائم، وقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل مثل ما فعلت، ثم اخذ منه فتمسح، ثم قال: هذا وضوء من لم يحدث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ ، قَالَ: أُتِيَ عَلِيٌّ بِإِنَاءٍ مِنْ مَاءٍ،" فَشَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ أَقْوَامًا يَكْرَهُونَ أَنْ يَشْرَبَ أَحَدُهُمْ وَهُوَ قَائِمٌ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ، ثُمَّ أَخَذَ مِنْهُ فَتَمَسَّحَ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِثْ".
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز ظہر کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کوزے میں پانی لایا گیا، وہ مسجد کے صحن میں تھے، انہوں نے کھڑے کھڑے وہ پانی پی لیا اور فرمایا کہ کچھ لوگ اسے ناپسند سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسے تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا ہے، پھر انہوں نے باقی پانی سے مسح کر لیا اور فرمایا: جو آدمی بےوضو نہ ہو بلکہ پہلے سے اس کا وضو موجود ہو، یہ اس شخص کا وضو ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا هشام ، عن محمد ، عن عبيدة ، قال: قال علي لاهل النهروان:" فيهم رجل مثدون اليد، او مودن اليد، او مخدج اليد، لولا ان تبطروا لانباتكم ما قضى الله على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم لمن قتلهم، قال عبيدة: فقلت لعلي رضي الله عنه: آنت سمعته؟ قال: نعم ورب الكعبة، يحلف عليها ثلاثا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ لِأَهْلِ النَّهْرَوَانِ:" فِيْهُمْ رَجُلٌ مَثْدُونُ الْيَدِ، أَوْ مُودَنُ الْيَدِ، أَوْ مُخْدَجُ الْيَدِ، لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَأَنْبَأْتُكُمْ مَا قَضَى اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ قَتَلَهُمْ، قَالَ عَبِيدَةُ: فَقُلْتُ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: آنْتَ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، يَحْلِفُ عَلَيْهَا ثَلَاثًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ خوارج کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہوگا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاتے تو میں تم میں سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے تین مرتبہ فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو پسند کرتا ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو پسند کرتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا العوام ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن علي ، قال: اتانا النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة حتى وضع قدمه بيني وبين فاطمة، فعلمنا ما نقول إذا اخذنا مضاجعنا:" ثلاثا وثلاثين تسبيحة، وثلاثا وثلاثين تحميدة، واربعا وثلاثين تكبيرة"، قال علي: فما تركتها بعد، فقال له رجل: ولا ليلة صفين؟ قال: ولا ليلة صفين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: أَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ حَتَّى وَضَعَ قَدَمَهُ بَيْنِي وَبَيْنَ فَاطِمَةَ، فَعَلَّمَنَا مَا نَقُولُ إِذَا أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا:" ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً، وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً، وَأَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً"، قَالَ عَلِيٌّ: فَمَا تَرَكْتُهَا بَعْدُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ؟ قَالَ: وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کو جب ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور میرے اور فاطمہ کے درمیان قدم مبارک رکھ کر ہمیں بستر پر لیٹنے کے بعد یہ کلمات پڑھنے کے لئے سکھائے: ”تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے ان کلمات کو کبھی ترک نہیں کیا، کسی نے پوچھا: صفین کی رات میں بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں!۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا سعيد بن ابي عروبة ، عن عبد الله الداناج ، عن حضين بن المنذر بن الحارث بن وعلة ، ان الوليد بن عقبة صلى بالناس الصبح اربعا، ثم التفت إليهم، فقال: ازيدكم؟! فرفع ذلك إلى عثمان، فامر به ان يجلد، فقال علي للحسن بن علي: قم يا حسن فاجلده، قال: وفيم انت وذاك؟! فقال علي: بل عجزت ووهنت، قم يا عبد الله بن جعفر فاجلده، فقام عبد الله بن جعفر فجلده، وعلي يعد، فلما بلغ اربعين، قال له: امسك، ثم قال:" ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم في الخمر اربعين، وضرب ابو بكر اربعين وعمر صدرا من خلافته، ثم اتمها عمر ثمانين، وكل سنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الدَّانَاجِ ، عَنْ حُضَيْنِ بْنِ الْمُنْذِرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ وَعْلَةَ ، أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ عُقْبَةَ صَلَّى بِالنَّاسِ الصُّبْحَ أَرْبَعًا، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: أَزِيدُكُمْ؟! فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى عُثْمَانَ، فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُجْلَدَ، فَقَالَ عَلِيٌّ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ: قُمْ يَا حَسَنُ فَاجْلِدْهُ، قَالَ: وَفِيمَ أَنْتَ وَذَاكَ؟! فَقَالَ عَلِيٌّ: بَلْ عَجَزْتَ وَوَهَنْتَ، قُمْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ فَاجْلِدْهُ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ فَجَلَدَهُ، وَعَلِيٌّ يَعُدُّ، فَلَمَّا بَلَغَ أَرْبَعِينَ، قَالَ لَهُ: أَمْسِكْ، ثُمَّ قَالَ:" ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ أَرْبَعِينَ، وَضَرَبَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ وَعُمَرُ صَدْرًا مِنْ خِلَافَتِهِ، ثُمَّ أَتَمَّهَا عُمَرُ ثَمَانِينَ، وَكُلٌّ سُنَّةٌ".
حضین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ولید بن عقبہ نے لوگوں کو فجر کی نماز میں دو کی بجائے چار رکعتیں پڑھا دیں، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ شاید میں نے نماز کی رکعتوں میں اضافہ کردیا ہے؟ یہ معاملہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے ولید پر شراب نوشی کی سزا جاری کرنے کا حکم دے دیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ حسن! کھڑے ہو کر اسے کوڑے مارو، انہوں نے کہا کہ آپ یہ کام نہیں کر سکتے، کسی اور کو اس کا حکم دیجئے، فرمایا: اصل میں تم کمزور اور عاجز ہوگئے ہو، اس لئے عبداللہ بن جعفر! تم کھڑے ہو کر اس پر سزا جاری کرو۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کوڑے مارتے جاتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ گنتے جاتے تھے، جب چالیس کوڑے ہوئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس کرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کو چالیس کوڑے مارے تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی چالیس کوڑے مارے تھے، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی مارے تھے، اور دونوں ہی سنت ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا سفيان بن سعيد ، عن عبد الاعلى الثعلبي ، عن ابي جميلة ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان جارية للنبي صلى الله عليه وسلم نفست من الزنا، فارسلني النبي صلى الله عليه وسلم لاقيم عليها الحد، فوجدتها في الدم لم يجف عنها، فرجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرته، فقال لي:" إذا جف الدم عنها فاجلدها الحد"، ثم قال:" اقيموا الحدود على ما ملكت ايمانكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ ، عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ جَارِيَةً لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُفِسَتْ مِنَ الزِّنَا، فَأَرْسَلَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُقِيمَ عَلَيْهَا الْحَدَّ، فَوَجَدْتُهَا فِي الدَّمِ لَمْ يَجِفَّ عَنْهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ لِي:" إِذَا جَفَّ الدَّمُ عَنْهَا فَاجْلِدْهَا الْحَدَّ"، ثُمَّ قَالَ:" أَقِيمُوا الْحُدُودَ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خادمہ سے بدکاری کا گناہ سرزد ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا، میں نے دیکھا کہ اس کا تو خون ہی بند نہیں ہو رہا، میں نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اس کا خون بند ہو جائے تو اس پر حد جاری کر دینا، اور یاد رکھو! اپنے غلاموں اور باندیوں پر بھی حد جاری کیا کرو۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلي الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے، لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے، اس لئے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني العباس بن الوليد النرسي ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا ابو إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عفوت لكم عن الخيل والرقيق، فادوا صدقة الرقة من كل اربعين درهما درهما، وليس في تسعين ومائة شيء، فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ النَّرْسِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَفَوْتُ لَكُمْ عَنِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَأَدُّوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا، وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے اس لئے چاندی کی زکوٰۃ بہرحال تمہیں ادا کرنا ہوگی، جس کا نصاب یہ ہے کہ ہر چالیس پر ایک درہم واجب ہوگا، ایک سو نوے درہم تک کچھ واجب نہ ہوگا، لیکن جب ان کی تعداد دو سو تک پہنچ جائے تو اس پر پانچ درہم واجب ہوں گے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، أبو عوانة وإن روي عن أبي إسحاق بعد تغير، لكن قد تابعه غير واحد
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ پوری رات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کی سولہ رکعتیں ہوتی تھیں۔
حكم دارالسلام: إسناده قوي ، غير أن قوله فيه : «من الليل» خطأ، والصحيح «من النهار» انظر رقم : 650 و 1642
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا، اسی طرح قیصر نے ہدیہ بھیجا تو وہ بھی قبول فرما لیا، اور دیگر بادشاہوں نے بھیجا تو وہ بھی قبول فرما لیا۔
حكم دارالسلام: اسناده ضعيف لضعف ثوير بن أبي فاختة، وأخذ الهدية من المشركين لقصد تأنيسهم وتأليفهم على الاسلام ثابت عنه
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن ربيعة بن النابغة ، عن ابيه ، عن علي ، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن زيارة القبور، وعن الاوعية، وان تحبس لحوم الاضاحي بعد ثلاث، ثم قال:" إني كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها، فإنها تذكركم الآخرة، ونهيتكم عن الاوعية فاشربوا فيها، واجتنبوا كل ما اسكر، ونهيتكم عن لحوم الاضاحي ان تحبسوها بعد ثلاث، فاحبسوا ما بدا لكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ النَّابِغَةِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، وَعَنِ الْأَوْعِيَةِ، وَأَنْ تُحْبَسَ لُحُومُ الْأَضَاحِيِّ بَعْدَ ثَلَاثٍ، ثُمَّ قَالَ:" إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنِ الْأَوْعِيَةِ فَاشْرَبُوا فِيهَا، وَاجْتَنِبُوا كُلَّ مَا أَسْكَرَ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ أَنْ تَحْبِسُوهَا بَعْدَ ثَلَاثٍ، فَاحْبِسُوا مَا بَدَا لَكُمْ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء قبرستان جانے سے، مخصوص برتنوں کے استعمال سے، اور تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت اپنے پاس رکھنے سے منع فرما دیا تھا، اس کے بعد فرمایا کہ ”میں نے پہلے تمہیں قبرستان جانے سے روکا تھا، اب اجازت دیتا ہوں اس لئے قبرستان جایا کرو کیونکہ اس سے آخرت کی یاد آتی ہے، میں نے تمہیں مخصوص برتن استعمال کرنے سے بھی روکا تھا، اب انہیں پینے کے لئے استعمال کر لیا کرو لیکن نشہ آور چیزوں سے بچتے رہو، اور میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے بھی منع کیا تھا، اب تہیں اجازت ہے کہ جب تک چاہو رکھو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد ولجهالة ربيعة بن النابغة وأبيه
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا شريك ، عن الركين بن الربيع ، عن حصين بن قبيصة ، عن علي ، قال: كنت رجلا مذاء، فاستحييت ان اسال رسول الله صلى الله عليه وسلم من اجل ابنته، فامرت المقداد، فسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل يجد المذي، فقال:" ذلك ماء الفحل، ولكل فحل ماء، فليغسل ذكره وانثييه، وليتوضا وضوءه للصلاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الرُّكَيْنِ بْنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ قَبِيصَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً، فَاسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَجْلِ ابْنَتِهِ، فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ، فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَجِدُ الْمَذْيَ، فَقَالَ:" ذَلِكَ مَاءُ الْفَحْلِ، وَلِكُلِّ فَحْلٍ مَاءٌ، فَلْيَغْسِلْ ذَكَرَهُ وَأُنْثَيَيْهِ، وَلْيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے جسم سے خروج مذی بکثرت ہوتا تھا، مجھے خود سے یہ مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی کہ ان کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں، چنانچہ میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ ”یہ تو مرد کا پانی ہے اور ہر طاقتور مرد کا پانی ہوتا ہے، اس لئے جب مذی دیکھو تو اپنی شرمگاہ کو دھو لیا کرو اور نماز جیسا وضو کر لیا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا اشعث بن سوار ، عن ابن اشوع ، عن حنش بن المعتمر ، ان عليا رضي الله عنه بعث صاحب شرطه، فقال: ابعثك لما بعثني له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تدع قبرا إلا سويته، ولا تمثالا إلا وضعته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ ابْنِ أَشْوَعَ ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعَثَ صَاحِبَ شُرْطَهِ، فَقَالَ: أَبْعَثُكَ لِمَا بَعَثَنِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَدَعْ قَبْرًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ، وَلَا تِمْثَالًا إِلَّا وَضَعْتَهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے رفیق حیان کو مخاطب کر کے فرمایا: میں تمہیں اس کام لئے بھیج رہا ہوں، جس کام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا، کوئی قبر برابر کئے بغیر نہ چھوڑنا، اور کوئی تصویر مٹائے بغیر نہ چھوڑنا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا اسناد ضعيف لضعف أشعث بن سوار و حنش
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا جرير ، عن محمد بن سالم ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فيما سقت السماء ففيه العشر، وما سقي بالغرب والدالية ففيه نصف العشر"، قال ابو عبد الرحمن: فحدثت ابي بحديث عثمان، عن جرير، فانكره جدا، وكان ابي لا يحدثنا، عن محمد بن سالم لضعفه عنده، وإنكاره لحديثه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ فَفِيهِ الْعُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِالْغَرْبِ وَالدَّالِيَةِ فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: فَحَدَّثْتُ أَبِي بِحَدِيثِ عُثْمَانَ، عَنْ جَرِيرٍ، فَأَنْكَرَهُ جَدّاً، وَكَانَ أَبِي لَا يُحَدِّثُنَا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ لِضَعْفِهِ عِنْدَهُ، وَإِنْكَارِهِ لِحَدِيثِهِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو زمین بارش کے پانی سے سیراب ہوتی ہو اس میں عشر واجب ہے، اور جو زمین ڈول یا رہٹ سے سیراب ہوتی ہو اس میں نصف عشر واجب ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وإسناد هذا مرفوعاً ضعيف لضعف محمد بن سالم الهمداني
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ فرمایا: تم اس طرح پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتے، ہم نے عرض کیا: آپ بتا دیجئے، ہم اپنی طاقت اور استطاعت کے بقدر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے، فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرائض کے علاوہ دن کو سولہ رکعتیں پڑھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا سفيان ، وشريك ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" عفوت لكم عن صدقة الخيل والرقيق، فادوا ربع العشور".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، وَشَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" عَفَوْتُ لَكُمْ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَأَدُّوا رُبُعَ الْعُشُورِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے، اس لئے چاندی کی زکوٰۃ بہرحال تمہیں ادا کرنا ہوگی، جس کا نصاب یہ ہے کہ ہر چالیس پر ایک درہم واجب ہوگا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا إسرائيل بن يونس ، حدثنا ابو إسحاق ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا علي، إني احب لك ما احب لنفسي، واكره لك ما اكره لنفسي، لا تقرا وانت راكع، ولا وانت ساجد، ولا تصل وانت عاقص شعرك، فإنه كفل الشيطان، ولا تقع بين السجدتين، ولا تعبث بالحصى، ولا تفترش ذراعيك، ولا تفتح على الإمام، ولا تتختم بالذهب، ولا تلبس القسي، ولا تركب على المياثر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَلِيُّ، إِنِّي أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي، وَأَكْرَهُ لَكَ مَا أَكْرَهُ لِنَفْسِي، لَا تَقْرَأْ وَأَنْتَ رَاكِعٌ، وَلَا وَأَنْتَ سَاجِدٌ، وَلَا تُصَلِّ وَأَنْتَ عَاقِصٌ شَعْرَكَ، فَإِنَّهُ كِفْلُ الشَّيْطَانِ، وَلَا تُقْعِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَلَا تَعْبَثْ بِالْحَصَى، وَلَا تَفْتَرِشْ ذِرَاعَيْكَ، وَلَا تَفْتَحْ عَلَى الْإِمَامِ، وَلَا تَتَخَتَّمْ بِالذَّهَبِ، وَلَا تَلْبَسْ الْقَسِّيَّ، وَلَا تَرْكَبْ عَلَى الْمَيَاثِرِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”علی! میں تمہارے لئے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں، اور تمہارے لئے وہی چیز ناپسند کرتا ہوں جو اپنے لئے ناپسند کرتا ہوں، رکوع یا سجدے کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت نہ کیا کرو، بالوں کی مینڈھیاں بنا کر نماز نہ پڑھو کیونکہ یہ شیطان کا طریقہ ہے، دو سجدوں کے درمیان اپنی سرین پر مت بیٹھو، کنکریوں کے ساتھ دوران نماز مت کھیلو، سجدے میں اپنے بازو زمین پر مت بچھاؤ، امام کو لقمہ مت دو، سونے کی انگوٹھی مت پہنو، ریشمی لباس مت پہنو، اور سرخ زین پوش پر مت سوار ہوا کرو۔“
حكم دارالسلام: هذا اسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور، ثم هو منقطع، أبو اسحاق لم يسمعه من الحارث
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن عمرو بن قيس ، عن الحكم ، عن القاسم بن مخيمرة ، عن شريح بن هانئ ، قال: اتيت عائشة رضي الله عنها اسالها عن الخفين، فقالت: عليك بابن ابي طالب فاساله، فإنه كان يسافر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتيته، فسالته، فقال: جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم" ثلاثة ايام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَسْأَلُهَا عَنِ الْخُفَّيْنِ، فَقَالَتْ: عَلَيْكَ بِابْنِ أَبِي طَالِبٍ فَاسْأَلْهُ، فَإِنَّهُ كَانَ يُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ لِلْمُسَافِرِ، وَيَوْمًا وَلَيْلَةً لِلْمُقِيمِ".
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، انہیں اس مسئلے کا زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی رہتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسافر کے لئے تین دن اور تین رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن الاعمش ، عن ابي الضحى ، عن شتير بن شكل العبسي ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: لما كان يوم الاحزاب، صلينا العصر بين المغرب والعشاء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" شغلونا عن الصلاة الوسطى صلاة العصر، ملا الله قبورهم واجوافهم نارا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ الْعَبْسِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْأَحْزَابِ، صَلَّيْنَا الْعَصْرَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى صَلَاةِ الْعَصْرِ، مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَأَجْوَافَهُمْ نَارًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن ہم نے عصر کی نماز مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جبرئیل میرے پاس آئے لیکن گھر میں داخل نہیں ہوئے“، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ”اندر کیوں نہیں آئے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کوئی تصویر ہو یا پیشاب ہو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، الحسن بن ذكوان ليس بالقوي، وعمرو بن خالد القرشي متروك
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”علی! اپنی ران کسی کے سامنے ظاہر نہ کرو، اور کسی زندہ یا مردہ شخص کی ران پر نگاہ مت ڈالو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، و هذا اسناد ضعيف لانقطاعه، حبيب بن أبي ثابت مدلس و قد عنعن، وهو لم يسمع من عاصم بن ضمرة شياً
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، وحسين ، وابو احمد الزبيري ، قالوا: حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن هبيرة بن يريم ، عن علي رضي الله عنه، قال: قلت لفاطمة: لو اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فسالته خادما، فقد اجهدك الطحن والعمل؟ قال حسين: إنه قد جهدك الطحن والعمل، وكذلك قال ابو احمد، قالت: فانطلق معي، قال: فانطلقت معها فسالناه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" الا ادلكما على ما هو خير لكما من ذلك؟ إذا اويتما إلى فراشكما، فسبحا الله ثلاثا وثلاثين، واحمداه ثلاثا وثلاثين، وكبراه اربعا وثلاثين، فتلك مائة على اللسان، والف في الميزان"، فقال علي رضي الله عنه: ما تركتها بعدما سمعتها من النبي صلى الله عليه وسلم، فقال رجل: ولا ليلة صفين؟ قال: ولا ليلة صفين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، وَحُسَيْنٌ ، وَأَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ: لَوْ أَتَيْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتِهِ خَادِمًا، فَقَدْ أَجْهَدَكِ الطَّحْنُ وَالْعَمَلُ؟ قَالَ حُسَيْنٌ: إِنَّهُ قَدْ جَهَدَكِ الطَّحْنُ وَالْعَمَلُ، وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو أَحْمَدَ، قَالَتْ: فَانْطَلِقْ مَعِي، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ مَعَهَا فَسَأَلْنَاهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أَدُلُّكُمَا عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ ذَلِكَ؟ إِذَا أَوَيْتُمَا إِلَى فِرَاشِكُمَا، فَسَبِّحَا اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدَاهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبِّرَاهُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، فَتِلْكَ مِائَةٌ عَلَى اللِّسَانِ، وَأَلْفٌ فِي الْمِيزَانِ"، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا تَرَكْتُهَا بَعْدَمَا سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ؟ قَالَ: وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آٹا پیس پیس کر تمہارے ہاتھوں میں نشان پڑگئے ہیں، اگر تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر ان سے ایک خادم کی درخواست کرتیں (تو شاید کچھ بہتر ہو جاتا)، انہوں نے کہا کہ آپ بھی میرے ساتھ چلیں، چنانچہ میں ان کے ساتھ چلا گیا اور ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے درخواست پیش کر دی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمہارے لئے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر لیٹا کرو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو، کہنے کو تو یہ سو ہوں گے لیکن میزان عمل میں ایک ہزار کے برابر ہوں گے۔“ چنانچہ اس دن کے بعد سے میں نے انہیں کبھی ترک نہیں کیا، ایک سائل نے پوچھا کہ جنگ صفین کی رات بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں! جنگ صفین کی رات بھی نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا إسرائيل ، عن عطاء بن السائب ، قال: دخلت على ابي عبد الرحمن السلمي وقد صلى الفجر، وهو جالس في المجلس، فقلت: لو قمت إلى فراشك كان اوطا لك؟ فقال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من صلى الفجر ثم جلس في مصلاه، صلت عليه الملائكة، وصلاتهم عليه: اللهم اغفر له، اللهم ارحمه، ومن ينتظر الصلاة صلت عليه الملائكة، وصلاتهم عليه: اللهم اغفر له، اللهم ارحمه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ وَقَدْ صَلَّى الْفَجْرَ، وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْمَجْلِسِ، فَقُلْتُ: لَوْ قُمْتَ إِلَى فِرَاشِكَ كَانَ أَوْطَأَ لَكَ؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ صَلَّى الْفَجْرَ ثُمَّ جَلَسَ فِي مُصَلَّاهُ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ، وَصَلَاتُهُمْ عَلَيْهِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، وَمَنْ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ، وَصَلَاتُهُمْ عَلَيْهِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کوئی شخص نماز کے بعد اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہتا ہے تو فرشتے اس پر صلوٰۃ پڑھتے رہتے ہیں، اور فرشتوں کی صلوٰۃ یہ دعا ہے کہ اے اللہ! اسے معاف فرما دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما دے، اسی طرح اگر وہ بیٹھ کر اگلی نماز کا انتظار کرتا رہے تو فرشتے اس پر بھی صلوٰۃ پڑھتے ہیں، اور ان کی صلوٰۃ یہی دعا ہے کہ اے اللہ! اسے معاف فرما دے، اے اللہ اس پر رحم فرما دے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب سورج مشرق سے اتنا نکل آتا جتنا عصر کے وقت مغرب سے قریب ہوتا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ظہرغنی کی موجودگی میں کسی سے سوال کرتا ہے تو وہ اپنے پیٹ میں جہنم کے انگاروں کی تعداد بڑھاتا ہے۔“ لوگوں نے پوچھا کہ ظہرغنی سے کیا مراد ہے؟ تو فرمایا: ”رات کا کھانا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، حسن بن ذكوان ضعيف، وهو لم يسمع من حبيب بن أبى ثابت، بينهما عمرو بن خالد القرشي المتهم بالكذب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن يحيى ، عن عبد الصمد ، حدثني ابي ، حدثنا حسن بن ذكوان ، عن حبيب بن ابي ثابت ، عن عاصم بن ضمرة ، عن علي رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن كل ذي ناب من السبع، وكل ذي مخلب من الطير، وعن ثمن الميتة، وعن لحم الحمر الاهلية، وعن مهر البغي، وعن عسب الفحل، وعن المياثر الارجوان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ ذَكْوَانَ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَكُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ، وَعَنْ ثَمَنِ الْمَيْتَةِ، وَعَنْ لَحْمِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، وَعَنْ مَهْرِ الْبَغِيِّ، وَعَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ، وَعَنِ الْمَيَاثِرِ الْأُرْجُوَانِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس درندے کو کھانے سے منع فرمایا ہے جو کچلی والے دانتوں سے شکار کرتا ہو، اور ہر وہ پرندہ جو اپنے پنجوں سے شکار کرتا ہو، نیز مردار کی قیمت کھانے سے، پالتو گدھوں کے گوشت سے، فاحشہ عورت کی کمائی سے، سانڈ کو جفتی پر دے کر اس سے حاصل ہونے والی کمائی سے، اور سرخ زین پوشوں سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا إسرائيل ، عن إبراهيم بن عبد الاعلى ، عن طارق بن زياد ، قال: سار علي إلى النهروان فقتل الخوارج، فقال: اطلبوا، فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" سيجيء قوم يتكلمون بكلمة الحق لا يجاوز حلوقهم، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية، سيماهم، او فيهم رجل اسود مخدج اليد، في يده شعرات سود"، إن كان فيهم فقد قتلتم شر الناس، وإن لم يكن فيهم فقد قتلتم خير الناس، قال: ثم إنا وجدنا المخدج، قال: فخررنا سجودا، وخر علي ساجدا معنا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ طَارِقِ بْنِ زِيَادٍ ، قَالَ: سَارَ عَلِيٌّ إِلَى النَّهْرَوَانِ فَقَتَلَ الْخَوَارِجَ، فَقَالَ: اطْلُبُوا، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" سَيَجِيءُ قَوْمٌ يَتَكَلَّمُونَ بِكَلِمَةِ الْحَقِّ لَا يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، سِيمَاهُمْ، أَوْ فِيهِمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ مُخْدَجُ الْيَدِ، فِي يَدِهِ شَعَرَاتٌ سُودٌ"، إِنْ كَانَ فِيهِمْ فَقَدْ قَتَلْتُمْ شَرَّ النَّاسِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِمْ فَقَدْ قَتَلْتُمْ خَيْرَ النَّاسِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّا وَجَدْنَا الْمُخْدَجَ، قَالَ: فَخَرَرْنَا سُجُودًا، وَخَرَّ عَلِيٌّ سَاجِدًا مَعَنَا.
طارق بن زیاد کہتے ہیں کہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے نکلے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا، اور فرمایا: دیکھو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”عنقریب ایک ایسی قوم کا خروج ہوگا جو بات تو صحیح کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گی، وہ لوگ حق سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ان کی علامت یہ ہوگی کہ ان میں ایک شخص کا ہاتھ ناتمام ہوگا، اس کے ہاتھ (ہتھیلی) میں کالے بال ہوں گے۔“ اب اگر ایسا ہی ہے تو تم نے ایک بدترین آدمی کے وجود سے دنیا کو پاک کر دیا، اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم نے ایک بہترین آدمی کو قتل کر دیا، یہ سن کر ہم رونے لگے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے تلاش کرو، چنانچہ ہم نے اسے تلاش کیا تو ہمیں ناقص ہاتھ والا ایک آدمی مل گیا، جسے دیکھ کر ہم سجدے میں گر پڑے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی سربسجود ہو گئے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة طارق بن زياد الكوفي
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا شريك ، عن الاسود بن قيس ، عن عمرو بن سفيان ، قال: خطب رجل يوم البصرة حين ظهر علي رضي الله عنه، فقال علي : هذا الخطيب الشحشح،" سبق رسول الله صلى الله عليه وسلم، وصلى ابو بكر، وثلث عمر، ثم خبطتنا فتنة بعدهم، يصنع الله فيها ما شاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُفْيَانَ ، قَالَ: خَطَبَ رَجُلٌ يَوْمَ الْبَصْرَةِ حِينَ ظَهَرَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ عَلِيٌّ : هَذَا الْخَطِيبُ الشَّحْشَحُ،" سَبَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ، وَثَلَّثَ عُمَرُ، ثُمَّ خَبَطَتْنَا فِتْنَةٌ بَعْدَهُمْ، يَصْنَعُ اللَّهُ فِيهَا مَا شَاءَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے تشریف لے گئے، دوسرے نمبر پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اور تیسرے نمبر پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اس کے بعد ہمیں امتحانات نے گھیر لیا، اب اللہ جو چاہے گا سو کرے گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، و هذا إسناد ضعيف لضعف شريك و جهالة عمر و بن سفيان الثقفي
(حديث موقوف) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا مسعر ، عن ابي عون ، عن ابي صالح الحنفي ، عن علي ، قال: قيل لعلي ولابي بكر يوم بدر:" مع احدكما جبريل، ومع الآخر ميكائيل، وإسرافيل ملك عظيم يشهد القتال، او قال: يشهد الصف".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الْحَنَفِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قِيلَ لِعَلِيٍّ وَلِأَبِي بَكْرٍ يَوْمَ بَدْرٍ:" مَعَ أَحَدِكُمَا جِبْرِيلُ، وَمَعَ الْآخَرِ مِيكَائِيلُ، وَإِسْرَافِيلُ مَلَكٌ عَظِيمٌ يَشْهَدُ الْقِتَالَ، أَوْ قَالَ: يَشْهَدُ الصَّفَّ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو غزوہ بدر کے موقع پر بتایا گیا کہ آپ میں سے ایک کے ساتھ حضرت جبرئیل علیہ السلام اور دوسرے کے ساتھ حضرت میکائیل علیہ السلام ہیں اور حضرت اسرافیل علیہ السلام بھی - جو ایک عظیم فرشتہ ہیں - میدان کار زار میں موجود ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے تشریف لے گئے، دوسرے نمبر پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اور تیسرے نمبر پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اس کے بعد ہمیں امتحانات نے گھیر لیا، اب اللہ جو چاہے گا سو کرے گا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعت نفل پڑھتے تھے اور دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: سعيد بن خثيم وفضيل بن مرزوق صدوقان يهمان، وقد روي عن ابي اسحاق باسانيد اصح من هذا، فذكروا تطوع النبي صلي الله عليه وسلم بالنهار ست عشرة ركعة
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا عبد الله بن صندل ، وسويد بن سعيد ، جميعا في سنة ست وعشرين ومائتين، قالا: حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة السلولي ، قال: قال علي رضي الله عنه: الا إن الوتر ليس بحتم كصلاتكم المكتوبة، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم اوتر، ثم قال:" اوتروا يا اهل القرآن، اوتروا فإن الله وتر يحب الوتر"، وهذا لفظ حديث عبد الله بن صندل، ومعناهما واحد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَنْدَلٍ ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، جَمِيعًا فِي سَنَةِ سِتٍّ وَعِشْرِينَ وَمِائَتَيْنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ السَّلُولِيِّ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَلَا إِنَّ الْوَتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَصَلَاتِكُمْ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْتَرَ، ثُمَّ قَالَ:" أَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ، أَوْتِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ وَتْرٌ يُحِبُّ الْوَتْرَ"، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَنْدَلٍ، وَمَعْنَاهُمَا وَاحِدٌ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وتر فرض نماز کی طرح یقینی نہیں ہیں (قرآن سے اس کا ثبوت نہیں)، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ وتر پڑھے ہیں اس لئے اے اہل قرآن! تم بھی وتر پڑھا کرو، کیونکہ اللہ بھی وتر ہے اور طاق عدد ہی کو پسند کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث قوي، عبدالله بن صندل و سويد بن سعيد قد توبعا
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا فطر ، عن كثير بن نافع النواء ، قال: سمعت عبد الله بن مليل ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنه لم يكن قبلي نبي إلا قد اعطي سبعة رفقاء نجباء وزراء، وإني اعطيت اربعة عشر: حمزة، وجعفر، وعلي، وحسن، وحسين، وابو بكر، وعمر، والمقداد، وعبد الله بن مسعود، وابو ذر، وحذيفة، وسلمان، وعمار، وبلال".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ نَافِعٍ النَّوَّاءِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُلَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ قَبْلِي نَبِيٌّ إِلَّا قَدْ أُعْطِيَ سَبْعَةَ رُفَقَاءَ نُجَبَاءَ وُزَرَاءَ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ أَرْبَعَةَ عَشَرَ: حَمْزَةُ، وَجَعْفَرٌ، وَعَلِيٌّ، وَحَسَنٌ، وَحُسَيْنٌ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَالْمِقْدَادُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَأَبُو ذَرٍّ، وَحُذَيْفَةُ، وَسَلْمَانُ، وَعَمَّارٌ، وَبِلَالٌ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھ سے پہلے ہر نبی کو سات رفقاء، نجباء اور وزراء دیئے گئے ہیں جبکہ مجھے چودہ دیئے گئے ہیں۔“ سیدنا حمزہ، سیدنا جعفر، سیدنا علی، سیدنا حسن، سیدنا حسین، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا مقداد، سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا ابوذر غفاری، سیدنا حذیفہ، سیدنا سلمان، سیدنا عمار اور سیدنا بلال رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف كثير النّواء و عبدالله بن مليل
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا يونس ، عن ابي إسحاق ، عن عبد خير ، قال: رايت عليا رضي الله عنه" توضا، ومسح على النعلين، ثم قال: لولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل كما رايتموني فعلت، لرايت ان باطن القدمين هو احق بالمسح من ظاهرهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" تَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى النَّعْلَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: لَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَمَا رَأَيْتُمُونِي فَعَلْتُ، لَرَأَيْتُ أَنَّ بَاطِنَ الْقَدَمَيْنِ هُوَ أَحَقُّ بِالْمَسْحِ مِنْ ظَاهِرِهِمَا".
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے نعلین پر مسح کیا اور فرمایا: اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پاؤں کا اوپر والا حصہ دھوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میری رائے یہ تھی کہ پاؤں کا نچلا حصہ دھوئے جانے کا زیادہ حق دار ہے (کیونکہ وہ زمین کے ساتھ زیادہ لگتا ہے)۔
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ شیعوں کا یہ خیال ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دوبارہ واپس آئیں گے؟ فرمایا: یہ کذاب لوگ جھوٹ بولتے ہیں، اگر ہمیں اس بات کا یقین ہوتا تو ان کی بیویاں دوسرے شوہروں سے نکاح نہ کرتیں اور ہم ان کی میراث تقسیم نہ کرتے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے، اس لئے ان میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص نے قرآن پڑھا اور وہ اس پر غالب آگیا تو قیامت کے دن اس کے اہل خانہ میں سے دس ایسے افراد کے حق میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی جن کے لئے جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف عمرو بن عثمان الرقي و حفص ابي عمر القاري، ولجهالة كثير بن زاذان
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کوئی تصویر یا کتا ہو۔ اس وقت گھر میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا ایک چھوٹا سا کتا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، عمرو بن خالد متهم بالكذب، و حسن بن ذكوان ضعيف
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثني إسماعيل ابو معمر ، حدثنا ابن علية ، عن يونس ، عن الحسن ، عن قيس بن عباد ، قال: قلت لعلي :" ارايت مسيرك هذا، عهد عهده إليك رسول الله صلى الله عليه وسلم، ام راي رايته؟ قال: ما تريد إلى هذا؟ قلت: ديننا ديننا، قال: ما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه شيئا، ولكن راي رايته".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيٍّ :" أَرَأَيْتَ مَسِيرَكَ هَذَا، عَهْدٌ عَهِدَهُ إِلَيْكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمْ رَأْيٌ رَأَيْتَهُ؟ قَالَ: مَا تُرِيدُ إِلَى هَذَا؟ قُلْتُ: دِينَنَا دِينَنَا، قَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ شَيْئًا، وَلَكِنْ رَأْيٌ رَأَيْتُهُ".
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک سفر کے دوران پوچھا کہ یہ تو بتایئے، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس سفر کی وصیت کی تھی یا یہ آپ کی رائے پر مبنی ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ میں نے عرض کیا کہ صرف دین، فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی کوئی وصیت نہیں کی تھی، یہ تو ایک رائے ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا ابو احمد ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن ابي الخليل ، عن علي رضي الله عنه، قال:" كان للمغيرة بن شعبة رمح، فكنا إذا خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة خرج به معه، فيركزه فيمر الناس عليه فيحملونه، فقلت: لئن اتيت النبي صلى الله عليه وسلم لاخبرنه، فقال: إنك إن فعلت لم ترفع ضالة".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَ لِلْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رُمْحٌ، فَكُنَّا إِذَا خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ خَرَجَ بِهِ مَعَهُ، فَيَرْكُزُهُ فَيَمُرُّ النَّاسُ عَلَيْهِ فَيَحْمِلُونَهُ، فَقُلْتُ: لَئِنْ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأُخْبِرَنَّهُ، فَقَالَ: إِنَّكَ إِنْ فَعَلْتَ لَمْ تَرْفَعْ ضَالَّةً".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نیزہ تھا، ہم جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے کے لئے نکلتے تو وہ اس نیزے کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے، وہ اسے گاڑ دیتے، لوگ وہاں سے گذرتے تو انہیں اٹھا کر پکڑا دیتے، میں نے یہ دیکھ کر اپنے دل میں سوچا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ساری صورت حال ضرور بتاؤں گا، (چنانچہ جب میں نے ذکر کیا تو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ایسا کرنے لگے تو کوئی گمشدہ چیز اس کے مالک تک پہنچانے کے لئے نہیں اٹھائی جائے گی۔“
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا اور وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا، پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية بن هشام ، حدثنا سفيان ، عن سالم بن ابي حفصة ، قال: بلغني عن عبد الله بن مليل، فغدوت إليه، فوجدتهم في جنازة، فحدثني رجل ، عن عبد الله بن مليل ، قال: سمعت عليا رضي الله عنه، يقول:" اعطي كل نبي سبعة نجباء، واعطي نبيكم اربعة عشر نجيبا، منهم ابو بكر، وعمر، وعبد الله بن مسعود، وعمار بن ياسر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ ، قَالَ: بَلَغَنِي عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُلَيْلٍ، فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ، فَوَجَدْتُهُمْ فِي جَنَازَةٍ، فَحَدَّثَنِي رَجُلٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُلَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" أُعْطِيَ كُلُّ نَبِيٍّ سَبْعَةَ نُجَبَاءَ، وَأُعْطِيَ نَبِيُّكُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ نَجِيبًا، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَعَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھ سے پہلے ہر نبی کو سات رفقاء، نجباء اور وزراء دیئے گئے ہیں جبکہ مجھے چودہ دیئے گئے ہیں، جن میں ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عبداللہ بن مسعود اور عمار رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن ابي بكير ، حدثنا زهير ، اخبرنا ابو إسحاق ، عن شريح بن النعمان ، قال: وكان رجل صدق، عن علي رضي الله عنه، قال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان نستشرف العين والاذن، وان لا نضحي بعوراء، ولا مقابلة، ولا مدابرة، ولا شرقاء، ولا خرقاء"، قال زهير: فقلت لابي إسحاق: اذكر عضباء؟ قال: لا، قلت: ما المقابلة؟ قال: هي التي يقطع طرف اذنها، قلت: فالمدابرة؟ قال: التي يقطع مؤخر الاذن، قلت: ما الشرقاء؟ قال: التي يشق اذنها، قلت: فما الخرقاء؟ قال: التي تخرق اذنها السمة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ ، قَالَ: وَكَانَ رَجُلَ صِدْقٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ، وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِعَوْرَاءَ، وَلَا مُقَابَلَةٍ، وَلَا مُدَابَرَةٍ، وَلَا شَرْقَاءَ، وَلَا خَرْقَاءَ"، قَالَ زُهَيْرٌ: فَقُلْتُ لِأَبِي إِسْحَاقَ: أَذَكَرَ عَضْبَاءَ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: مَا الْمُقَابَلَةُ؟ قَالَ: هِيَ الَّتِي يُقْطَعُ طَرَفُ أُذُنِهَا، قُلْتُ: فَالْمُدَابَرَةُ؟ قَالَ: الَّتِي يُقْطَعُ مُؤَخَّرُ الْأُذُنِ، قُلْتُ: مَا الشَّرْقَاءُ؟ قَالَ: الَّتِي يُشَقُّ أُذُنُهَا، قُلْتُ: فَمَا الْخَرْقَاءُ؟ قَالَ: الَّتِي تَخْرِقُ أُذُنَهَا السِّمَةُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ”قربانی کے جانور کے کان اور آنکھ اچھی طرح دیکھ لیں، کانے جانور کی قربانی نہ کریں، مقابلہ، مدابرہ، شرقاء یا خرقاء کی قربانی نہ کریں۔“ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابواسحاق سے پوچھا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عضباء کا ذکر بھی کیا تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ مقابلہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ جانور جس کے کان کا ایک کنارہ کٹا ہوا ہو، پھر میں نے پوچھا کہ مدابرہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ جانور جس کا کان پیچھے سے کٹا ہوا ہو، میں نے شرقاء کا معنی پوچھا تو فرمایا: جس کا کان چیرا ہوا ہو، میں نے خرقاء کا معنی پوچھا تو انہوں بتایا: وہ جانور جس کا کان پھٹ گیا ہو۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف، زهير سمع من أبي أسحاق بعد تغيره
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا الحجاج بن ارطاة ، عن الحكم ، عن القاسم بن مخيمرة ، عن شريح بن هانئ ، قال: سالت عائشة رضي الله عنها عن المسح على الخفين، فقالت: سل عليا فهو اعلم بهذا مني، هو كان يسافر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالت عليا رضي الله عنه، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" للمقيم يوم وليلة، وللمسافر ثلاثة ايام ولياليهن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَتْ: سَلْ عَلِيًّا فَهُوَ أَعْلَمُ بِهَذَا مِنِّي، هُوَ كَانَ يُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِلْمُقِيمِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَلِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ".
شریح بن ہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، انہیں اس مسئلے کا زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی رہتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسافر کے لئے تین دن اور تین رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔“
حكم دارالسلام: صحيح، م : 276، الحجاج مدلس، وقد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص نے قرآن پڑھا اور وہ اس پر غالب آگیا تو قیامت کے دن اس کے اہل خانہ میں سے دس ایسے افراد کے حق میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی جن کے لئے جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف حفص بن سليمان القاري، و جهالة كثير بن زاذان
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن عبيد المحاربي ، قالا: حدثنا شريك ، عن ابي الحسناء ، عن الحكم ، عن حنش ، عن علي رضي الله عنه، قال: امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان" اضحي عنه بكبشين"، فانا احب ان افعله، وقال محمد بن عبيد المحاربي في حديثه:" ضحى عنه بكبشين: واحد عن النبي صلى الله عليه وسلم، والآخر عنه، فقيل له: فقال: إنه امرني فلا ادعه ابدا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ" أُضَحِّيَ عَنْهُ بِكَبْشَيْنِ"، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَفْعَلَهُ، وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ فِي حَدِيثِهِ:" ضَحَّى عَنْهُ بِكَبْشَيْنِ: وَاحِدٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْآخَرُ عَنْهُ، فَقِيلَ لَهُ: فَقَالَ: إِنَّهُ أَمَرَنِي فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے اپنی طرف سے دو مینڈھوں کی قربانی کرنے کا حکم دیا، چنانچہ میں آخر دم تک ان کی طرف سے قربانی کرتا رہوں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبي الحسناء و ضعف شريك
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني محرز بن عون بن ابي عون ، حدثنا شريك ، عن سماك ، عن حنش ، عن علي رضي الله عنه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم قاضيا، فقال:" إذا جاءك الخصمان، فلا تقض على احدهما حتى تسمع من الآخر، فإنه يبين لك القضاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحْرِزُ بْنُ عَوْنِ بْنِ أَبِي عَوْنٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاضِيًا، فَقَالَ:" إِذَا جَاءَكَ الْخَصْمَانِ، فَلَا تَقْضِ عَلَى أَحَدِهِمَا حَتَّى تَسْمَعَ مِنَ الْآخَرِ، فَإِنَّهُ يَبِينُ لَكَ الْقَضَاءُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قاضی بنا کر بھیجا اور ارشاد فرمایا: ”جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا بلکہ دونوں کی بات سننا، تم دیکھو گے کہ تم کس طرح فیصلہ کرتے ہو۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا اسناد ضعيف لضعف شريك و حنش
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں اس وقت نوخیز تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نو عمر ہوں اور مجھے فیصلہ کرنے کا قطعا کوئی علم نہیں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا: ”اللہ تمہاری زبان کو صحیح راستے پر چلائے گا اور تمہارے دل کو مضبوط رکھے گا، جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو دوسرے فریق کی بات سنے بغیر پہلے کے حق میں فیصلہ نہ کرنا، اس طرح تمہارے لئے فیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا۔“ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں مسلسل قاضی بنتا رہا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے رفیق حیان کو مخاطب کر کے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہیں اس کام کے لئے بھیج رہا ہوں جس کام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا؟ انہوں نے مجھے ہر قبر کو برابر کرنے اور ہر بت کو مٹا ڈالنے کا حکم دیا تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الاشعث بن سوار و حنش الكناني
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله حدثني ابي. ح وحدثني ابو بكر بن ابي شيبة ، قالا: حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن سماك ، عن حنش ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا تقاضى إليك رجلان، فلا تقض للاول حتى تسمع ما يقول الآخر، فإنك سوف ترى كيف تقضي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حدثني أبي. ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالاَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا تَقَاضَى إِلَيْكَ رَجُلَانِ، فَلَا تَقْضِ لِلْأَوَّلِ حَتَّى تَسْمَعَ مَا يَقُولُ الْآخَرُ، فَإِنَّكَ سَوْفَ تَرَى كَيْفَ تَقْضِي".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا بلکہ دونوں کی بات سننا، تم دیکھو گے کہ تم کس طرح فیصلہ کرتے ہو۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، و هذا إسناد ضعيف لضعف حنش
حنش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے ذبح کرتے ہوئے دیکھا، میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے اپنی طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیا، (چنانچہ میں آخر دم تک ان کی طرف سے قربانی کرتا رہوں گا)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابي الحسناء و ضعف شريك
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو بكر ، حدثنا عمرو بن حماد ، عن اسباط بن نصر ، عن سماك ، عن حنش ، عن علي رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم حين بعثه ببراءة، فقال: يا نبي الله، إني لست باللسن ولا بالخطيب، قال:" ما بد ان اذهب بها انا، او تذهب بها انت"، قال: فإن كان ولا بد فساذهب انا، قال:" فانطلق، فإن الله يثبت لسانك، ويهدي قلبك"، قال: ثم وضع يده على فمه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ ، عَنْ أَسْبَاطِ بْنِ نَصْرٍ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَعَثَهُ بِبَرَاءَةٌ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي لَسْتُ بِاللَّسِنِ وَلَا بِالْخَطِيبِ، قَالَ:" مَا بُدٌّ أَنْ أَذْهَبَ بِهَا أَنَا، أَوْ تَذْهَبَ بِهَا أَنْتَ"، قَالَ: فَإِنْ كَانَ وَلَا بُدَّ فَسَأَذْهَبُ أَنَا، قَالَ:" فَانْطَلِقْ، فَإِنَّ اللَّهَ يُثَبِّتُ لِسَانَكَ، وَيَهْدِي قَلْبَكَ"، قَالَ: ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَمِهِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مشرکین سے اعلان براءت کے لئے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھیجا تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں تو کوئی فصیح و بلیغ آدمی نہیں ہوں، اور نہ ہی کوئی خطیب ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ یا تم چلے جاؤ یا میں چلا جاؤں۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اگر یہی ضروری ہے تو پھر میں ہی چلا جاتا ہوں، فرمایا: ”تم جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہاری زبان کو جما دے گا اور تمہارے دل کو صحیح راہ پر رکھے گا۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے منہ پر رکھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن جابر ، ان عاصم بن بهدلة ، قال: سمعت زرا يحدث، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال يوم احد:" شغلونا عن صلاة الوسطى، حتى آبت الشمس ملا الله قبورهم وبيوتهم وبطونهم نارا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ عَاصِمَ بْنَ بَهْدَلَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ زِرًّا يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمَ أُحُدٍ:" شَغَلُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى، حَتَّى آبَتِ الشَّمْسُ مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ وَبُطُونَهُمْ نَارًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ : 4533، م : 627 ، جابر الجعفي قد توبع عند غير المولف
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن جابر ، قال: سمعت الشعبي يحدث، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، انه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم" آكل الربا، وموكله، وشاهديه، وكاتبه، والواشمة والمتوشمة، والمحل والمحلل له، ومانع الصدقة، ونهى عن النوح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يُحَدِّثُ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَكَاتِبَهُ، وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُتَوَشِّمَةَ، وَالْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ، وَمَانِعَ الصَّدَقَةِ، وَنَهَى عَنِ النَّوْحِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے، سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی پر لعنت فرمائی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا اسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي والحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن جابر ، قال: سمعت عبد الله بن نجي يحدث، عن علي رضي الله عنه، قال: كانت لي ساعة من رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليل ينفعني الله عز وجل بما شاء ان ينفعني بها، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تدخل الملائكة بيتا فيه صورة ولا كلب ولا جنب"، قال:" فنظرت فإذا جرو للحسن بن علي تحت السرير، فاخرجته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ نُجَيٍّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَتْ لِي سَاعَةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ يَنْفَعُنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا شَاءَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَلَا كَلْبٌ وَلَا جُنُبٌ"، قَالَ:" فَنَظَرْتُ فَإِذَا جِرْوٌ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ تَحْتَ السَّرِيرِ، فَأَخْرَجْتُهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رات کو ایک مخصوص وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، جس سے اللہ مجھے خوب فائدہ پہنچاتا تھا، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جہاں کوئی کتا، کوئی جنبی یا کوئی تصویر اور مورتی ہو، میں نے دیکھا تو چارپائی کے نیچے کتے کا ایک پلہ نطر آیا جو حسن کا تھا، میں نے اسے باہر نکال دیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن جابر ، قال: سمعت ابا بردة يحدث، عن علي رضي الله عنه، قال: نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان اضع الخاتم في الوسطى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بُرْدَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ أَضَعَ الْخَاتَمَ فِي الْوُسْطَى".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے درمیان والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، و هذا إسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری طرف جھوٹی بات کی نسبت نہ کرو، کیونکہ جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، والحديث متواتر، خ : 106، م : (في المقدمة) : 1
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے آخر میں یوں فرماتے تھے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ»”اے اللہ! میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں، تیری درگزر کے ذریعے تیری سزا سے، اور تیری ذات کے ذریعے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری تعریف کا احاطہ نہیں کر سکتا، تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: «اَللّٰهُمَّ بِكَ أَصُولُ وَبِكَ أَحُولُ وَبِكَ أَسِيرُ»”اے اللہ! میں آپ ہی کے نام کی برکت سے حملہ کرتا ہوں، آپ ہی کے نام کی برکت سے حرکت کرتا ہوں، اور آپ ہی کے نام کی برکت سے چلتا ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن سليمان لوين ، حدثنا محمد بن جابر ، عن سماك ، عن حنش ، عن علي رضي الله عنه، قال: لما نزلت عشر آيات من براءة على النبي صلى الله عليه وسلم، دعا النبي صلى الله عليه وسلم ابا بكر رضي الله عنه، فبعثه بها ليقراها على اهل مكة، ثم دعاني النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لي:" ادرك ابا بكر رضي الله عنه، فحيثما لحقته فخذ الكتاب منه، فاذهب به إلى اهل مكة، فاقراه عليهم"، فلحقته بالجحفة، فاخذت الكتاب منه، ورجع ابو بكر رضي الله عنه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، نزل في شيء؟ قال:" لا، ولكن جبريل جاءني، فقال: لن يؤدي عنك إلا انت، او رجل منك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ لُوَيْنٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ عَشْرُ آيَاتٍ مِنْ بَرَاءَةٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَبَعَثَهُ بِهَا لِيَقْرَأَهَا عَلَى أَهْلِ مَكَّةَ، ثُمَّ دَعَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي:" أَدْرِكْ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَحَيْثُمَا لَحِقْتَهُ فَخُذْ الْكِتَابَ مِنْهُ، فَاذْهَبْ بِهِ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، فَاقْرَأْهُ عَلَيْهِمْ"، فَلَحِقْتُهُ بِالْجُحْفَةِ، فَأَخَذْتُ الْكِتَابَ مِنْهُ، وَرَجَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَزَلَ فِيَّ شَيْءٌ؟ قَالَ:" لَا، وَلَكِنَّ جِبْرِيلَ جَاءَنِي، فَقَالَ: لَنْ يُؤَدِّيَ عَنْكَ إِلَّا أَنْتَ، أَوْ رَجُلٌ مِنْكَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سورہ براءۃ کی ابتدائی دس آیات نازل ہوئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں اہل مکہ کی طرف بھیجا تاکہ وہ انہیں یہ پڑھ کر سنا دیں، ان کے جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: ”سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے جاؤ، وہ تمہیں جہاں بھی ملیں ان سے وہ خط لے کر تم اہل مکہ کے پاس جاؤ اور انہیں وہ خط پڑھ کر سناؤ۔“ چنانچہ میں نے مقام جحفہ میں انہیں جا لیا اور ان سے وہ خط وصول کر لیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس پہنچے تو عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میرے بارے میں کوئی حکم نازل ہوا ہے؟ فرمایا: ”نہیں! اصل بات یہ ہے کہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے تھے اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ یہ پیغام آپ خود پہنچائیں یا آپ کے خاندان کا کوئی فرد، (اس لئے مجبورا مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اس خدمت پر مامور کرنا پڑا)۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف محمد بن جابر و حنش بن المعتمر، ومتنه منكر، والصواب ماأخرجه البخاري برقم : 4656
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن إبراهيم التيمي ، عن الحارث بن سويد ، قال: قيل لعلي رضي الله عنه: إن رسولكم كان يخصكم بشيء دون الناس عامة؟ قال: ما خصنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء لم يخص به الناس، إلا بشيء في قراب سيفي هذا، فاخرج صحيفة فيها شيء من اسنان الإبل، وفيها:" ان المدينة حرم من بين ثور إلى عائر، من احدث فيها حدثا، او آوى محدثا، فإن عليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل، وذمة المسلمين واحدة فمن اخفر مسلما، فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل، ومن تولى مولى بغير إذنهم، فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ ، قَالَ: قِيلَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ رَسُولَكُمْ كَانَ يَخُصُّكُمْ بِشَيْءٍ دُونَ النَّاسِ عَامَّةً؟ قَالَ: مَا خَصَّنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ لَمْ يَخُصَّ بِهِ النَّاسَ، إِلَّا بِشَيْءٍ فِي قِرَابِ سَيْفِي هَذَا، فَأَخْرَجَ صَحِيفَةً فِيهَا شَيْءٌ مِنْ أَسْنَانِ الْإِبِلِ، وَفِيهَا:" أَنَّ الْمَدِينَةَ حَرَمٌ مِنْ بَيْنِ ثَوْرٍ إِلَى عَائِرٍ، مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَإِنَّ عَلَيْهِ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ، وَمَنْ تَوَلَّى مَوْلًى بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ".
حارث بن سوید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام لوگوں کو چھوڑ کر خصوصیت کے ساتھ آپ سے کوئی بات بیان فرمائی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر خصوصیت سے ہمیں کوئی بات نہیں بتائی، البتہ میری تلوار کے اس نیام میں جو کچھ ہے وہی ہے، پھر انہوں نے اس میں سے ایک صحیفہ نکالا جس میں اونٹوں کی عمریں درج تھیں اور لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عیر سے ثور تک مدینہ منورہ حرم ہے، جو شخص اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اللہ اس سے کوئی فرض یا نفلی عبادت قبول نہ کرے گا۔ اور جو غلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو اپنا آقا کہنا شروع کر دے، اس پر بھی اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اللہ اس کا بھی کوئی فرض یا نفل قبول نہیں کرے گا، اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ایک جیسی ہے، ایک عام آدمی بھی اگر کسی کو امان دے دے تو اس کا لحاظ کیا جائے گا، جو شخص کسی مسلمان کی ذمہ داری کو پامال کرتا ہے اس پر اللہ کی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اور قیامت کے دن اس کا بھی کوئی فرض یا نفل قبول نہیں ہوگا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن ابي الضحى ، عن شتير بن شكل ، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال يوم الاحزاب:" حبسونا عن صلاة الوسطى، صلاة العصر، حتى غربت الشمس، ملا الله قبورهم وبيوتهم، او قبورهم وبطونهم، نارا"، قال شعبة:" ملا الله قبورهم وبيوتهم، او قبورهم وبطونهم نارا"، لا ادري افي الحديث هو ام ليس في الحديث؟ اشك فيه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ:" حَبَسُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى، صَلَاةِ الْعَصْرِ، حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ، مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ، أَوْ قُبُورَهُمْ وَبُطُونَهُمْ، نَارًا"، قَالَ شُعْبَةُ:" مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ، أَوْ قُبُورَهُمْ وَبُطُونَهُمْ نَارًا"، لَا أَدْرِي أَفِي الْحَدِيثِ هُوَ أَمْ لَيْسَ فِي الْحَدِيثِ؟ أَشُكُّ فِيهِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے گا کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا نصر بن علي ، حدثنا نوح بن قيس ، حدثنا خالد بن قيس ، عن يوسف بن مازن ، ان رجلا سال عليا رضي الله عنه، فقال: يا امير المؤمنين، انعت لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، صفه لنا، فقال:" كان ليس بالذاهب طولا، وفوق الربعة، إذا جاء مع القوم غمرهم، ابيض شديد الوضح، ضخم الهامة، اغر ابلج، هدب الاشفار، شثن الكفين والقدمين، إذا مشى يتقلع كانما ينحدر في صبب، كان العرق في وجهه اللؤلؤ، لم ار قبله ولا بعده مثله، بابي وامي صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ قَيْسٍ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَازِنٍ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، انْعَتْ لَنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صِفْهُ لَنَا، فَقَالَ:" كَانَ لَيْسَ بِالذَّاهِبِ طُولًا، وَفَوْقَ الرَّبْعَةِ، إِذَا جَاءَ مَعَ الْقَوْمِ غَمَرَهُمْ، أَبْيَضَ شَدِيدَ الْوَضَحِ، ضَخْمَ الْهَامَةِ، أَغَرَّ أَبْلَجَ، هَدِبَ الْأَشْفَارِ، شَثْنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، إِذَا مَشَى يَتَقَلَّعُ كَأَنَّمَا يَنْحَدِرُ فِي صَبَبٍ، كَأَنَّ الْعَرَقَ فِي وَجْهِهِ اللُّؤْلُؤُ، لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ، بِأَبِي وَأُمِّي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
یوسف بن مازن کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ امیر المومنین! ہمارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کیجئے، فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لمبے قد کے نہ تھے، درمیانے قد سے تھوڑے اونچے تھے، لیکن جب لوگوں کے ساتھ آ رہے ہوتے تو سب سے اونچے محسوس ہوتے، سفید کھلتا ہوا رنگ تھا، سر مبارک بڑا تھا، روشن کشادہ پیشانی تھی، پلکوں کے بال لمبے تھے، ہتھیلیاں اور پاؤں مبارک بھرے ہوئے تھے، جب چلتے تو پاؤں اٹھا کر چلتے، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی گھاٹی میں اتر رہے ہوں، پسینہ کے قطرات روئے انور پر موتیوں کی مانند محسوس ہوتے تھے، میں نے ان جیسا نہ ان سے پہلے دیکھا اور نہ ان کے بعد، میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں، صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، يوسف بن مازن لم يدرك علياً ، وخالد بن خالد مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني نصر بن علي ، حدثنا عبد الله بن داود ، عن نعيم بن حكيم ، عن ابي مريم ، عن علي رضي الله عنه، قال:" كان على الكعبة اصنام، فذهبت لاحمل النبي صلى الله عليه وسلم إليها، فلم استطع، فحملني، فجعلت اقطعها، ولو شئت لنلت السماء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَ عَلَى الْكَعْبَةِ أَصْنَامٌ، فَذَهَبْتُ لِأَحْمِلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهَا، فَلَمْ أَسْتَطِعْ، فَحَمَلَنِي، فَجَعَلْتُ أَقْطَعُهَا، وَلَوْ شِئْتُ لَنِلْتُ السَّمَاءَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خانہ کعبہ پر بہت سے بت پڑے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیٹھنے کے لئے فرمایا اور خود میرے کندھوں پر چڑھ گئے، میں نے کھڑا ہونا چاہا لیکن نہ ہو سکا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے لے کر کھڑے ہو گئے اور میں بتوں کو توڑنے لگا، اس وقت مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو افق کو چھو لوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبي مريم الثقفي و ضعف نعيم بن حكيم
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو خيثمة ، حدثنا شبابة بن سوار ، حدثني نعيم بن حكيم ، حدثني ابو مريم ، حدثنا علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن قوما يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية، يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم، طوبى لمن قتلهم وقتلوه، علامتهم رجل مخدج اليد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ ، حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ قَوْمًا يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، طُوبَى لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوهُ، عَلَامَتُهُمْ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْيَدِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک قوم ایسی آئے گی جو اسلام سے ایسے نکل جائے گی جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، یہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر سکے گا، اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جو انہیں قتل کرے یا ان کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر لے، ان کی علامت وہ آدمی ہے جس کا ہاتھ نامکمل ہوگا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، م : 1066 ، وهذا إسناد ضعيف كسابقه
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني نصر بن علي ، وعبيد الله بن عمر ، قالا: حدثنا عبد الله بن داود ، عن نعيم بن حكيم ، عن ابي مريم ، عن علي رضي الله عنه، ان امراة الوليد بن عقبة اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن الوليد يضربها، وقال نصر بن علي في حديثه: تشكوه، قال:" قولي له: قد اجارني"، قال علي: فلم تلبث إلا يسيرا حتى رجعت، فقالت: ما زادني إلا ضربا، فاخذ هدبة من ثوبه، فدفعها إليها، وقال:" قولي له: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد اجارني"، فلم تلبث إلا يسيرا حتى رجعت، فقالت: ما زادني إلا ضربا، فرفع يديه، وقال:" اللهم عليك الوليد، اثم بي مرتين"، وهذا لفظ حديث القواريري، ومعناهما واحد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ امْرَأَةَ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْوَلِيدَ يَضْرِبُهَا، وَقَالَ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ فِي حَدِيثِهِ: تَشْكُوهُ، قَالَ:" قُولِي لَهُ: قَدْ أَجَارَنِي"، قَالَ عَلِيٌّ: فَلَمْ تَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى رَجَعَتْ، فَقَالَتْ: مَا زَادَنِي إِلَّا ضَرْبًا، فَأَخَذَ هُدْبَةً مِنْ ثَوْبِهِ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهَا، وَقَالَ:" قُولِي لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَارَنِي"، فَلَمْ تَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى رَجَعَتْ، فَقَالَتْ: مَا زَادَنِي إِلَّا ضَرْبًا، فَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَقَالَ:" اللَّهُمَّ عَلَيْكَ الْوَلِيدَ، أَثِمَ بِي مَرَّتَيْنِ"، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ الْقَوَارِيرِيّ، وَمَعْنَاهُمَا وَاحِدٌ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ولید بن عقبہ کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ولید مجھے مارتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اس سے جا کر کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پناہ دی ہے۔“ کچھ ہی عرصے بعد وہ دوبارہ آگئی اور کہنے لگی کہ اب تو اس نے مجھے اور زیادہ مارنا پیٹنا شروع کر دیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے کا ایک کونہ پکڑ کر اسے دیا اور فرمایا: ”اسے جا کر کہنا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ دی ہے۔“ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد وہ واپس آگئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! اس نے مجھے اور زیادہ مارنا شروع کر دیا ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ”الہی! ولید سے سمجھ لے، اس نے دو مرتبہ میری نافرمانی کی ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن يحيى بن الجزار ، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه كان يوم الاحزاب على فرضة من فرض الخندق، فقال:" شغلونا عن صلاة الوسطى حتى غربت الشمس، ملا الله قبورهم وبيوتهم، او بطونهم وبيوتهم نارا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ عَلَى فُرْضَةٍ مِنْ فُرَضِ الْخَنْدَقِ، فَقَالَ:" شَغَلُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ، مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ، أَوْ بُطُونَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ نَارًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خندق کے کسی کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت القاسم بن ابي بزة يحدث، عن ابي الطفيل ، قال: سئل علي رضي الله عنه، هل خصكم رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء؟ فقال: ما خصنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء لم يعم به الناس كافة، إلا ما كان في قراب سيفي هذا، قال: فاخرج صحيفة فيها مكتوب:" لعن الله من ذبح لغير الله، لعن الله من سرق منار الارض، ولعن الله من لعن والده، ولعن الله من آوى محدثا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ أَبِي بَزَّةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: سُئِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، هَلْ خَصَّكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ؟ فَقَالَ: مَا خَصَّنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ لَمْ يَعُمَّ بِهِ النَّاسَ كَافَّةً، إِلَّا مَا كَانَ فِي قِرَابِ سَيْفِي هَذَا، قَالَ: فَأَخْرَجَ صَحِيفَةً فِيهَا مَكْتُوبٌ:" لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ، لَعَنَ اللَّهُ مَنْ سَرَقَ مَنَارَ الْأَرْضِ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَهُ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا".
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ کسی شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتایئے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ آپ سے بیان کی ہو؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسی کوئی خصوصی بات نہیں کی جو دوسرے لوگوں سے چھپائی ہو، البتہ میری تلوار کی نیام میں جو کچھ ہے وہ ہے، یہ کہہ کر انہوں نے ایک صحیفہ نکالا جس میں لکھا تھا کہ ”اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو غیر اللہ کے نام پر کسی جانور کو ذبح کرے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو کسی بدعت کو ٹھکانہ دے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو اپنے والدین پر لعنت کرے، اور اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو زمین کے بیج بدل دے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سلمة بن كهيل ، قال: سمعت حجية بن عدي ، قال: سمعت علي بن ابي طالب رضي الله عنه، وساله رجل عن البقرة؟ فقال: عن سبعة، وساله عن الاعرج؟ فقال: إذا بلغت المنسك، وسئل عن القرن؟ فقال: لا يضره، وقال علي: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان نستشرف العين والاذن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ حُجَيَّةَ بْنَ عَدِيٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ الْبَقَرَةِ؟ فَقَالَ: عَنْ سَبْعَةٍ، وَسَأَلَهُ عَنِ الْأَعْرَجِ؟ فَقَالَ: إِذَا بَلَغَتْ الْمَنْسَكَ، وَسُئِلَ عَنِ الْقَرَنِ؟ فَقَالَ: لَا يَضُرُّهُ، وَقَالَ عَلِيٌّ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ".
ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گائے کی قربانی کے حوالے سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا کہ ایک گائے سات آدمیوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے، اس نے پوچھا کہ اگر اس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، اس نے کہا کہ اگر وہ لنگڑی ہو؟ فرمایا: اگر قربان گاہ تک خود چل کر جا سکے تو اسے ذبح کر لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ”جانور کے آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، وعفان ، المعنى، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا سماك ، عن حنش بن المعتمر ، ان عليا رضي الله عنه كان باليمن، فاحتفروا زبية للاسد، فجاء حتى وقع فيها رجل، وتعلق بآخر، وتعلق الآخر بآخر، وتعلق الآخر بآخر، حتى صاروا اربعة، فجرحهم الاسد فيها، فمنهم من مات فيها، ومنهم من اخرج فمات، قال: فتنازعوا في ذلك حتى اخذوا السلاح، قال: فاتاهم علي رضي الله عنه، فقال: ويلكم، تقتلون مائتي إنسان في شان اربعة اناسي؟ تعالوا اقض بينكم بقضاء، فإن رضيتم به، وإلا فارتفعوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فقضى للاول ربع ديته، وللثاني ثلث ديته، وللثالث نصف ديته، وللرابع الدية كاملة، قال: فرضي بعضهم، وكره بعضهم، وجعل الدية على قبائل الذين ازدحموا، قال: فارتفعوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال بهز: قال حماد: احسبه قال: كان متكئا فاحتبى، قال:" ساقضي بينكم بقضاء"، قال: فاخبر ان عليا رضي الله عنه قضى بكذا وكذا، قال: فامضى قضاءه، قال عفان:" ساقضي بينكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَعَفَّانُ ، الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا سِمَاكٌ ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ بِالْيَمَنِ، فَاحْتَفَرُوا زُبْيَةً لِلْأَسَدِ، فَجَاءَ حَتَّى وَقَعَ فِيهَا رَجُلٌ، وَتَعَلَّقَ بِآخَرَ، وَتَعَلَّقَ الْآخَرُ بِآخَرَ، وَتَعَلَّقَ الْآخَرُ بِآخَرَ، حَتَّى صَارُوا أَرْبَعَةً، فَجَرَحَهُمْ الْأَسَدُ فِيهَا، فَمِنْهُمْ مَنْ مَاتَ فِيهَا، وَمِنْهُمْ مَنْ أُخْرِجَ فَمَاتَ، قَالَ: فَتَنَازَعُوا فِي ذَلِكَ حَتَّى أَخَذُوا السِّلَاحَ، قَالَ: فَأَتَاهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: وَيْلَكُمْ، تَقْتُلُونَ مِائَتَيْ إِنْسَانٍ فِي شَأْنِ أَرْبَعَةِ أَنَاسِيَّ؟ تَعَالَوْا أَقْضِ بَيْنَكُمْ بِقَضَاءٍ، فَإِنْ رَضِيتُمْ بِهِ، وَإِلَّا فَارْتَفِعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَضَى لِلْأَوَّلِ رُبُعَ دِيَتِه، وَلِلثَّانِي ثُلُثَ دِيَتِه، وَلِلثَّالِثِ نِصْفَ دِيَتِه، وَلِلرَّابِعِ الدِّيَةَ كَامِلَةً، قَالَ: فَرَضِيَ بَعْضُهُمْ، وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ، وَجَعَلَ الدِّيَةَ عَلَى قَبَائِلِ الَّذِينَ ازْدَحَمُوا، قَالَ: فَارْتَفَعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ بَهْزٌ: قَالَ حَمَّادٌ: أَحْسَبُهُ قَالَ: كَانَ مُتَّكِئًا فَاحْتَبَى، قَالَ:" سَأَقْضِي بَيْنَكُمْ بِقَضَاءٍ"، قَالَ: فَأُخْبِرَ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَضَى بِكَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَأَمْضَى قَضَاءَهُ، قَالَ عَفَّانُ:" سَأَقْضِي بَيْنَكُمْ".
حنش کنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یمن میں ایک قوم نے شیر کو شکار کرنے کے لئے ایک گڑھا کھود کر اسے ڈھانپ رکھا تھا، شیر اس میں گر پڑا، اچانک ایک آدمی بھی اس گڑھے میں گر پڑا، اس کے پیچھے دوسرا، تیسرا حتی کہ چار آدمی گر پڑے (اس گڑھے میں موجود شیر نے ان سب کو زخمی کر دیا، یہ دیکھ کر ایک آدمی نے جلدی سے نیزہ پکڑا اور شیر کو دے مارا، چنانچہ شیر ہلاک ہو گیا اور وہ چاروں آدمی بھی اپنے اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے چل بسے)۔ مقتولین کے اولیاء اسلحہ نکال کر جنگ کے لئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے، اتنی دیر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ آ پہنچے اور کہنے لگے: کیا تم چار آدمیوں کے بدلے دو سو آدمیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں، اگر تم اس پر راضی ہو گئے تو سمجھو کہ فیصلہ ہو گیا، فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص پہلے گر کر گڑھے میں شیر کے ہاتھوں زخمی ہوا، اس کے ورثاء کو چوتھائی دیت دے دو، اور چوتھے کو مکمل دیت دے دو، دوسرے کو ایک تہائی اور تیسرے کو نصف دیت دے دو، ان لوگوں نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا (کیونکہ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا)۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں“، اتنی دیر میں ایک آدمی کہنے لگا: یا رسول اللہ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان یہ فیصلہ فرمایا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو نافذ کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني حجاج بن الشاعر ، حدثنا شبابة ، حدثني نعيم بن حكيم ، حدثني ابو مريم ، ورجل من جلساء علي رضي الله عنه، عن علي ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال يوم غدير خم:" من كنت مولاه فعلي مولاه"، قال: فزاد الناس بعد:" وال من والاه، وعاد من عاداه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو مَرْيَمَ ، وَرَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ عَلِيٍّ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ:" مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ"، قَالَ: فَزَادَ النَّاسُ بَعْدُ:" وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے موقع پر یہ فرمایا تھا کہ ”جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔“ بعد میں لوگوں نے اس پر یہ اضافہ کر لیا کہ اے اللہ! جس کا یہ دوست ہو تو اس کا دوست بن جا، اور جس کا یہ دشمن ہو تو اس کا دشمن بن جا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف نعيم بن حكيم ولجهالة أبى مريم
(حديث مرفوع) حدثنا بهز بن اسد ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا سلمة بن كهيل ، عن حجية بن عدي ، ان عليا رضي الله عنه سئل عن البقرة؟ فقال: عن سبعة، وسئل عن المكسورة القرن؟ فقال: لا باس، وسئل عن العرج؟ فقال: ما بلغت المنسك، ثم قال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم" ان نستشرف العينين والاذنين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أخبرنا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سُئِلَ عَنِ الْبَقَرَةِ؟ فَقَالَ: عَنْ سَبْعَةٍ، وَسُئِلَ عَنِ الْمَكْسُورَةِ الْقَرْنِ؟ فَقَالَ: لَا بَأْسَ، وَسُئِلَ عَنِ الْعَرَجِ؟ فَقَالَ: مَا بَلَغَتْ الْمَنْسَكَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَيْنِ وَالْأُذُنَيْنِ".
ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گائے کی قربانی کے حوالے سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا کہ ایک گائے سات آدمیوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے، اس نے پوچھا کہ اگر اس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، اس نے کہا کہ اگر وہ لنگڑی ہو؟ فرمایا: اگر قربان گاہ تک خود چل کر جا سکے تو اسے ذبح کر لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ”جانور کے آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني العباس بن الوليد النرسي ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا سعيد الجريري ، عن ابي الورد ، عن ابن اعبد ، قال: قال لي علي بن ابي طالب رضي الله عنه: يا ابن اعبد، هل تدري ما حق الطعام؟ قال: قلت: وما حقه يا ابن ابي طالب؟ قال: تقول: بسم الله، اللهم بارك لنا فيما رزقتنا، قال: وتدري ما شكره إذا فرغت؟ قال: قلت: وما شكره؟ قال: تقول: الحمد لله الذي اطعمنا وسقانا، ثم قال: الا اخبرك عني وعن فاطمة رضي الله عنها؟ كانت ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكانت من اكرم اهله عليه، وكانت زوجتي، فجرت بالرحى حتى اثر الرحى بيدها، واستقت بالقربة حتى اثرت القربة بنحرها، وقمت البيت حتى اغبرت ثيابها، واوقدت تحت القدر حتى دنست ثيابها، فاصابها من ذلك ضر، فقدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم بسبي، او خدم، قال: فقلت لها: انطلقي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاساليه خادما يقيك حر ما انت فيه، فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوجدت عنده خدما، او خداما، فرجعت ولم تساله...، فذكر الحديث، فقال:" الا ادلك على ما هو خير لك من خادم؟ إذا اويت إلى فراشك سبحي ثلاثا وثلاثين، واحمدي ثلاثا وثلاثين، وكبري اربعا وثلاثين"، قال: فاخرجت راسها، فقالت: رضيت عن الله ورسوله، مرتين، فذكر مثل حديث ابن علية، عن الجريري، او نحوه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ النَّرْسِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْوَرْدِ ، عَنِ ابْنِ أَعْبُدَ ، قَالَ: قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا ابْنَ أَعْبُدَ، هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الطَّعَامِ؟ قَالَ: قُلْتُ: وَمَا حَقُّهُ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ؟ قَالَ: تَقُولُ: بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيمَا رَزَقْتَنَا، قَالَ: وَتَدْرِي مَا شُكْرُهُ إِذَا فَرَغْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: وَمَا شُكْرُهُ؟ قَالَ: تَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا؟ كَانَتْ ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مِنْ أَكْرَمِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، وَكَانَتْ زَوْجَتِي، فَجَرَتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَ الرَّحَى بِيَدِهَا، وَأَسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ الْقِرْبَةُ بِنَحْرِهَا، وَقَمَّتْ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، وَأَوْقَدَتْ تَحْتَ الْقِدْرِ حَتَّى دَنِسَتْ ثِيَابُهَا، فَأَصَابَهَا مِنْ ذَلِكَ ضُرٌ، فَقُدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْيٍ، أَوْ خَدَمٍ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهَا: انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْأَلِيهِ خَادِمًا يَقِيكِ حَرَّ مَا أَنْتِ فِيهِ، فَانْطَلَقَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ خَدَمًا، أَوْ خُدَّامًا، فَرَجَعَتْ وَلَمْ تَسْأَلْهُ...، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ:" أَلَا أَدُلُّكِ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ؟ إِذَا أَوَيْتِ إِلَى فِرَاشِكِ سَبِّحِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبِّرِي أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ"، قَالَ: فَأَخْرَجَتْ رَأْسَهَا، فَقَالَتْ: رَضِيتُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، مَرَّتَيْنِ، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ عُلَيَّةَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، أَوْ نَحْوَهُ".
ابن اعبد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: ابن اعبد! تمہیں معلوم ہے کہ کھانے کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ ہی بتائیے کہ اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا: کھانے کا حق یہ ہے کہ اس کے آغاز میں یوں کہو: «بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْمَا رَزَقْتَنَا»”اللہ کے نام سے شروع کر رہا ہوں، اے اللہ! تو نے ہمیں جو عطاء فرما رکھا ہے اس میں برکت پیدا فرما۔“ پھر مجھ سے فرمایا کہ کھانے سے فراغت کے بعد اس کا شکر کیا ہے، تمہیں معلوم ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ ہی بتایئے کہ اس کا شکر کیا ہے؟ فرمایا: تم یوں کہو: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا»”اس اللہ کا شکر جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا۔“ پھر فرمایا کہ کیا میں تمہیں اپنی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایک بات نہ بتاؤں؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی بھی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں میں تمام بچوں سے زیادہ قابل عزت بھی تھیں، اور میری رفیقہ حیات بھی تھیں، انہوں نے اتنی چکی چلائی کہ ان کے ہاتھوں میں اس کے نشان پڑ گئے، اور اتنے مشکیزے ڈھوئے کہ ان کی گردن پر اس کے نشان پڑ گئے، گھر کو اتنا سنوارا کہ اپنے کپڑے غبار آلود ہو گئے، ہانڈی کے نیچے اتنی آگ جلائی کہ کپڑے بیکار ہو گئے جس سے انہیں جسمانی طور پر شدید اذیت ہوئی۔ اتفاقا انہی دنوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی یا خادم آئے ہوئے تھے، میں نے ان سے کہا کہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادم کی درخواست کرو تاکہ اس گرمی سے تو بچ جاؤ، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، انہوں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یا کئی خادم موجود ہیں، لیکن وہ اپنی درخواست پیش نہ کر سکیں اور واپس آگئیں۔ اس کے بعد راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذکر کیا کہ ”کیا میں تمہیں خادم سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ جب تم اپنے بستر پر لیٹو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔“ اس پر انہوں نے چادر سے اپنا سر نکال کر کہا کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہوں، پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن أعبد، وأسمه علي
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا همام ، عن قتادة ، عن ابي حسان ، عن عبيدة ، قال: كنا نرى ان صلاة الوسطى صلاة الصبح، قال: فحدثنا علي رضي الله عنه، انهم يوم الاحزاب اقتتلوا، وحبسونا عن صلاة العصر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اللهم املا قبورهم نارا، او املا بطونهم نارا، كما حبسونا عن صلاة الوسطى"، قال: فعرفنا يومئذ ان صلاة الوسطى صلاة العصر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، قَالَ: كُنَّا نَرَى أَنَّ صَلَاةَ الْوُسْطَى صَلَاةُ الصُّبْحِ، قَالَ: فَحَدَّثَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُمْ يَوْمَ الْأَحْزَابِ اقْتَتَلُوا، وَحَبَسُونَا عَنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ امْلَأْ قُبُورَهُمْ نَارًا، أَوْ امْلَأْ بُطُونَهُمْ نَارًا، كَمَا حَبَسُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى"، قَالَ: فَعَرَفْنَا يَوْمَئِذٍ أَنَّ صَلَاةَ الْوُسْطَى صَلَاةُ الْعَصْرِ.
عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم صلوۃ وسطی فجر کی نماز کو سمجھتے تھے، پھر ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ انہوں نے غزوہ احزاب کے موقع پر جنگ شروع کی تو مشرکین نے ہمیں نماز عصر پڑھنے سے روک دیا، اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“ اس دن ہمیں پتہ چلا کہ صلوۃ وسطی سے مراد نماز عصر ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، اخبرني عبد الملك بن ميسرة ، عن زيد بن وهب ، عن علي رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث إليه حلة سيراء، فلبسها، وخرج على القوم، فعرف الغضب في وجهه، فامره" ان يشققها بين نسائه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَيْهِ حُلَّةً سِيَرَاءَ، فَلَبِسَهَا، وَخَرَجَ عَلَى الْقَوْمِ، فَعَرَفَ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، فَأَمَرَهُ" أَنْ يُشَقِّقَهَا بَيْنَ نِسَائِهِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ریشمی جوڑا میرے پاس بھیج دیا، میں نے اسے زیب تن کر لیا، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر ناراضگی کے اثرات دیکھے تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، عن عبد الملك بن ميسرة ، قال: سمعت النزال بن سبرة ، قال: رايت عليا رضي الله عنه صلى الظهر، ثم قعد لحوائج الناس، فلما حضرت العصر،" اتي بتور من ماء، فاخذ منه كفا، فمسح وجهه وذراعيه وراسه ورجليه، ثم اخذ فضله فشرب قائما، وقال: إن ناسا يكرهون هذا، وقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله، وهذا وضوء من لم يحدث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ قَعَدَ لِحَوَائِجِ النَّاسِ، فَلَمَّا حَضَرَتْ الْعَصْرُ،" أُتِيَ بِتَوْرٍ مِنْ مَاءٍ، فَأَخَذَ مِنْهُ كَفًّا، فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ وَرَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ فَضْلَهُ فَشَرِبَ قَائِمًا، وَقَالَ: إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ هَذَا، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ، وَهَذَا وُضُوءُ مَنْ لَمْ يُحْدِثْ".
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے سامنے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر مسجد کے صحن میں بیٹھ گئے تاکہ لوگوں کے مسائل حل کریں، جب نماز عصر کا وقت آیا تو ان کے پاس پانی کا ایک برتن لایا گیا، انہوں نے چلو بھر کر پانی لیا اور اپنے ہاتھوں، بازؤوں، چہرے، سر اور پاؤں پر پانی کا گیلا ہاتھ پھیرا، پھر کھڑے کھڑے وہ پانی پی لیا اور فرمایا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو ناپسند سمجھتے ہیں، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا ہے جیسے میں نے کیا ہے، اور جو آدمی بےوضو نہ ہو بلکہ پہلے سے اس کا وضو موجود ہو، یہ اس شخص کا وضو ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن سلمة بن كهيل ، عن الشعبي ، ان عليا رضي الله عنه، قال لشراحة: لعلك استكرهت، لعل زوجك اتاك، لعلك؟ قالت: لا، فلما وضعت، جلدها، ثم رجمها، فقيل له: لم جلدتها، ثم رجمتها؟ قال:" جلدتها بكتاب الله، ورجمتها بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِشَرَاحَةَ: لَعَلَّكِ اسْتُكْرِهْتِ، لَعَلَّ زَوْجَكِ أَتَاكِ، لَعَلَّكِ؟ قَالَتْ: لَا، فَلَمَّا وَضَعَتْ، جَلَدَهَا، ثُمَّ رَجَمَهَا، فَقِيلَ لَهُ: لِمَ جَلَدْتَهَا، ثُمَّ رَجَمْتَهَا؟ قَالَ:" جَلَدْتُهَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَرَجَمْتُهَا بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شراحہ ہمدانیہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہو سکتا ہے تجھے زبردستی اس کام پر مجبور کیا گیا ہو؟ شاید وہ تمہارا شوہر ہی ہو؟ لیکن وہ ہر بات کے جواب میں ”نہیں“ کہتی رہی، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضع حمل کے بعد اسے کوڑے مارے، اور پھر اس پر حد رجم جاری فرمائی، کسی نے پوچھا کہ آپ نے اسے دونوں سزائیں کیوں دیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے کتاب اللہ کی روشنی میں اسے کوڑے مارے ہیں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اسے رجم کیا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح وفي خ : 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو عبد الرحمن عبد الله بن عمر ، حدثنا ابو معاوية ، عن عبد الرحمن بن إسحاق القرشي ، عن سيار ابي الحكم ، عن ابي وائل ، قال: اتى عليا رضي الله عنه رجل، فقال: يا امير المؤمنين، إني عجزت عن مكاتبتي فاعني، فقال علي رضي الله عنه: الا اعلمك كلمات علمنيهن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لو كان عليك مثل جبل صير دنانير لاداه الله عنك؟ قلت: بلى، قال: قل:" اللهم اكفني بحلالك عن حرامك، واغنني بفضلك عمن سواك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ الْقُرَشِيِّ ، عَنْ سَيَّارٍ أَبِي الْحَكَمِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: أَتَى عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنِّي عَجَزْتُ عَنْ مُكَاتَبَتِي فَأَعِنِّي، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ عَلَّمَنِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَوْ كَانَ عَلَيْكَ مِثْلُ جَبَلِ صِيرٍ دَنَانِيرَ لَأَدَّاهُ اللَّهُ عَنْكَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: قُلْ:" اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ".
ابووائل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ امیر المومنین! میں بدل کتابت ادا کرنے سے عاجز آ گیا ہوں، آپ میری مدد فرمائیے، انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ کلمات نہ سکھا دوں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائے تھے؟ اگر تم پر جبل صیر کے برابر بھی دینار قرض ہوگا تو اللہ اسے ادا کروا دے گا، اس نے کہا: کیوں نہیں، فرمایا: یہ دعا پڑھتے رہا کرو: «اَللّٰهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ»”اے اللہ! آپ اپنے حلال کے ذریعے حرام سے میری کفایت فرمائیے اور اپنی مہربانی سے مجھے اپنے علاوہ ہر ایک سے بےنیاز فرما دیجئے۔“
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن ابن إسحاق الواسطي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا»”اے اللہ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطاء فرما۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق الواسطي و جهالة النعمان بن سعد
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن عاصم بن كليب ، حدثني ابو بردة بن ابي موسى ، قال: كنت جالسا مع ابي موسى فاتانا علي رضي الله عنه، فقام على ابي موسى، فامره بامر من امر الناس، قال: قال علي : قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قل: اللهم اهدني وسددني، واذكر بالهدى هدايتك الطريق، واذكر بالسداد تسديد السهم"، ونهاني ان اجعل خاتمي في هذه، واهوى ابو بردة إلى السبابة او الوسطى، قال عاصم: انا الذي اشتبه علي ايتهما عنى، ونهاني عن الميثرة، والقسية، قال ابو بردة: فقلت: يا امير المؤمنين، ما الميثرة وما القسية؟ قال: اما الميثرة: شيء كانت تصنعه النساء لبعولتهن يجعلونه على رحالهم، واما القسي: فثياب كانت تاتينا من الشام او اليمن، شك عاصم، فيها حرير، فيها امثال الاترج، قال ابو بردة: فلما رايت السبني عرفت انها هي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي مُوسَى فَأَتَانَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَامَ عَلَى أَبِي مُوسَى، فَأَمَرَهُ بِأَمْرٍ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ : قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُلْ: اللَّهُمَّ اهْدِنِي وَسَدِّدْنِي، وَاذْكُرْ بِالْهُدَى هِدَايَتَكَ الطَّرِيقَ، وَاذْكُرْ بِالسَّدَادِ تَسْدِيدَ السَّهْمِ"، وَنَهَانِي أَنْ أَجْعَلَ خَاتَمِي فِي هَذِهِ، وَأَهْوَى أَبُو بُرْدَةَ إِلَى السَّبَّابَةِ أَوْ الْوُسْطَى، قَالَ عَاصِمٌ: أَنَا الَّذِي اشْتَبَهَ عَلَيَّ أَيَّتَهُمَا عَنَى، وَنَهَانِي عَنِ الْمِيثَرَةِ، وَالْقَسِّيَّةِ، قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَقُلْتُ: يَا أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، مَا الْمِيثَرَةُ وَمَا الْقَسِّيَّةُ؟ قَالَ: أَمَّا الْمِيثَرَةُ: شَيْءٌ كَانَتْ تَصْنَعُهُ النِّسَاءُ لِبُعُولَتِهِنَّ يَجْعَلُونَهُ عَلَى رِحَالِهِمْ، وَأَمَّا الْقَسِّيُّ: فَثِيَابٌ كَانَتْ تَأْتِينَا مِنَ الشَّامِ أَوْ الْيَمَنِ، شَكَّ عَاصِمٌ، فِيهَا حَرِيرٌ، فِيهَا أَمْثَالُ الْأُتْرُجِّ، قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَلَمَّا رَأَيْتُ السَّبَنِيَّ عَرَفْتُ أَنَّهَا هِيَ.
ابوبردہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے، انہوں نے آ کر ہمیں سلام کیا اور میرے والد صاحب کو لوگوں کا کوئی معاملہ سپرد فرمایا، اور فرمانے لگے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: ”اللہ سے ہدایت کی دعا مانگا کرو اور ہدایت سے ہدایت الطریق مراد لے لیا کرو، اور اللہ سے درستگی اور سداد کی دعا کیا کرو اور اس سے تیر کی درستگی مراد لیا کرو۔“ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شہادت یا درمیان والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تھے اس لئے انگلیوں کا اشارہ میں صحیح طور پر سمجھ نہ سکا، پھر انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سرخ دھاری دار اور ریشمی کپڑوں سے منع فرمایا ہے، ہم نے پوچھا: امیر المومنین! «مِيثَرَة»(یہ لفظ حدیث میں استعمال ہوا ہے) سے کیا مراد ہے؟ یہ کیا چیز ہوتی ہے؟ فرمایا: عورتیں اپنے شوہروں کی سواری کے کجاوے پر رکھنے کے لئے ایک چیز بناتی تھیں (جسے زین پوش کہا جاتا ہے) اس سے وہ مراد ہے، پھر ہم نے پوچھا کہ «قِسِّيَّة» سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا: شام کے وہ کپڑے جن میں اترج جیسے نقش و نگار بنے ہوتے تھے۔ ابوبردہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب میں نے کتان کے بنے ہوئے کپڑے دیکھے تو میں سمجھ گیا کہ یہ وہی ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن المنهال اخو حجاج، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا عبد الرحمن بن إسحاق ، عن النعمان بن سعد ، قال: قال رجل لعلي : يا امير المؤمنين، اي شهر تامرني ان اصوم بعد رمضان؟ فقال: ما سمعت احدا سال عن هذا بعد رجل سال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اي شهر تامرني ان اصوم بعد رمضان؟ فقال:" إن كنت صائما شهرا بعد رمضان فصم المحرم، فإنه شهر الله، وفيه يوم تاب على قوم، ويتوب فيه على قوم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ أَخُو حَجَّاجٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِعَلِيٍّ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ: مَا سَمِعْتُ أَحَدًا سَأَلَ عَنْ هَذَا بَعْدَ رَجُلٍ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ:" إِنْ كُنْتَ صَائِمًا شَهْرًا بَعْدَ رَمَضَانَ فَصُمْ الْمُحَرَّمَ، فَإِنَّهُ شَهْرُ اللَّهِ، وَفِيهِ يَوْمٌ تَابَ عَلَى قَوْمٍ، وَيَتُوبُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ".
نعمان بن سعد کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: امیر المومنین! رمضان کے بعد آپ مجھے کس مہینے کے روزے رکھنے کی تاکید کرتے ہیں؟ فرمایا کہ میں نے صرف ایک آدمی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا سوال کرتے ہوئے سنا تھا، اس کے بعد یہ واحد آدمی ہے جس سے میں یہ سوال سن رہا ہوں، اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”اگر تم رمضان کے بعد کسی مہینے کے روزے رکھنا چاہتے ہو تو ماہ محرم کے روزے رکھو، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اللہ ایک قوم کی توبہ قبول کرے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق الواسطي و جهالة النعمان بن سعد. وفي مسلم : 1163، عن ابي هريرة مرفوعاً : «افضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم.»
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُوْرِهَا»”اے اللہ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطاء فرما۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، اراه عن ابي عوانة ، عن خالد بن علقمة ، عن عبد خير ، قال: اتيت عليا رضي الله عنه وقد صلى، فدعا بطهور، فقلنا: ما يصنع بالطهور وقد صلى؟ ما يريد إلا ان يعلمنا،" فاتي بطست وإناء، فرفع الإناء فصب على يده، فغسلها ثلاثا، ثم غمس يده في الإناء، فمضمض واستنثر ثلاثا، ثم تمضمض وتنثر من الكف الذي اخذ منه، ثم غسل وجهه ثلاثا، وغسل يده اليمنى ثلاثا، ويده الشمال ثلاثا، ثم جعل يده في الماء، فمسح براسه مرة واحدة، ثم غسل رجله اليمنى ثلاثا، ورجله الشمال ثلاثا، ثم قال: من سره ان يعلم طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهو هذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، أُرَاهُ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَدْ صَلَّى، فَدَعَا بِطَهُورٍ، فَقُلْنَا: مَا يَصْنَعُ بِالطَّهُورِ وَقَدْ صَلَّى؟ مَا يُرِيدُ إِلَّا أَنْ يُعَلِّمَنَا،" فَأُتِيَ بِطَسْتٍ وَإِنَاءٍ، فَرَفَعَ الْإِنَاءَ فَصَبَّ عَلَى يَدِهِ، فَغَسَلَهَا ثَلَاثًا، ثُمَّ غَمَسَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ، فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَتَنَثَّرَ مِنَ الْكَفِّ الَّذِي أَخَذَ مِنْهُ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى ثَلَاثًا، وَيَدَهُ الشِّمَالَ ثَلَاثًا، ثُمَّ جَعَلَ يَدَهُ فِي الْمَاءِ، فَمَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّةً وَاحِدَةً، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَهُ الْيُمْنَى ثَلَاثًا، وَرِجْلَهُ الشِّمَالَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَعْلَمَ طُهُورَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهُوَ هَذَا".
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ نماز پڑھ چکے تھے، انہوں نے پانی منگوایا، ہم سوچنے لگے کہ نماز پڑھنے کے بعد اب یہ پانی کا کیا کریں گے؟ ان کا مقصد صرف ہمیں تعلیم دینا تھا، چنانچہ ان کے پاس ایک طشت اور برتن لایا گیا، انہوں نے وہ برتن اٹھایا اور اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا، اور تین مرتبہ انہیں دھویا، پھر اسے برتن میں ڈالا، تین مرتبہ کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ ناک صاف کی اور تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازوؤں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، پھر دوبارہ اپنے ہاتھوں کو برتن میں ڈالا اور دونوں ہتھیلیوں سے سر کا ایک مرتبہ مسح کیا، اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے، پھر فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو معلوم کرنا چاہتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ قربانی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود رہوں، اور یہ کہ ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دوں اور گوشت بھی تقسیم کر دوں، اور یہ بھی حکم دیا کہ قصاب کو ان میں سے کوئی چیز مزدوری کے طور پر نہ دوں، اور فرمایا کہ اسے ہم اپنے پاس سے مزدوری دیتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا همام ، اخبرنا قتادة ، عن ابي حسان ، عن عبيدة السلماني ، عن علي رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يوم الاحزاب:" ملا الله بيوتهم وقبورهم نارا، كما حبسونا عن الصلاة الوسطى حتى غابت الشمس"، او قال:" حتى آبت الشمس"، إحدى الكلمتين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، أخبرنا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ:" مَلَأَ اللَّهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا، كَمَا حَبَسُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى حَتَّى غَابَتْ الشَّمْسُ"، أَوْ قَالَ:" حَتَّى آبَتْ الشَّمْسُ"، إِحْدَى الْكَلِمَتَيْنِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، عن عطاء بن السائب ، عن ابي ظبيان الجنبي ، ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه اتي بامراة قد زنت، فامر برجمها، فذهبوا بها ليرجموها، فلقيهم علي رضي الله عنه، فقال: ما هذه؟ قالوا: زنت فامر عمر برجمها، فانتزعها علي من ايديهم وردهم، فرجعوا إلى عمر رضي الله عنه، فقال: ما ردكم؟ قالوا ردنا علي رضي الله عنه، قال: ما فعل هذا علي إلا لشيء قد علمه، فارسل إلى علي، فجاء وهو شبه المغضب، فقال: ما لك رددت هؤلاء؟ قال: اما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتى يستيقظ، وعن الصغير حتى يكبر، وعن المبتلى حتى يعقل"، قال: بلى، قال علي رضي الله عنه: فإن هذه مبتلاة بني فلان، فلعله اتاها وهو بها، فقال عمر: لا ادري، قال: وانا لا ادري، فلم يرجمها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ الْجَنْبِيِّ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُتِيَ بِامْرَأَةٍ قَدْ زَنَتْ، فَأَمَرَ بِرَجْمِهَا، فَذَهَبُوا بِهَا لِيَرْجُمُوهَا، فَلَقِيَهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ؟ قَالُوا: زَنَتْ فَأَمَرَ عُمَرُ بِرَجْمِهَا، فَانْتَزَعَهَا عَلِيٌّ مِنْ أَيْدِيهِمْ وَرَدَّهُمْ، فَرَجَعُوا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَا رَدَّكُمْ؟ قَالُوا رَدَّنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَا فَعَلَ هَذَا عَلِيٌّ إِلَّا لِشَيْءٍ قَدْ عَلِمَهُ، فَأَرْسَلَ إِلَى عَلِيٍّ، فَجَاءَ وَهُوَ شِبْهُ الْمُغْضَبِ، فَقَالَ: مَا لَكَ رَدَدْتَ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَكْبَرَ، وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَعْقِلَ"، قَالَ: بَلَى، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَإِنَّ هَذِهِ مُبْتَلَاةُ بَنِي فُلَانٍ، فَلَعَلَّهُ أَتَاهَا وَهُوَ بِهَا، فَقَالَ عُمَرُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: وَأَنَا لَا أَدْرِي، فَلَمْ يَرْجُمْهَا.
ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک عورت لائی گئی جس نے بدکاری کی تھی، جرم ثابت ہو جانے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا، لوگ اسے رجم کرنے کے لئے لے کر جا رہے تھے کہ راستے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ اس نے بدکاری کی ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو ان کے ہاتھوں سے چھڑا لیا اور ان لوگوں کو واپس بھیج دیا، وہ لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے پوچھا کہ تم لوگ واپس کیوں آ گئے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے واپس بھیجا ہے، فرمایا: علی رضی اللہ عنہ نے یہ کام یوں ہی نہیں کیا ہوگا، انہیں ضرور اس کے متعلق کچھ علم ہوگا، چنانچہ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو کچھ ناراض سے محسوس ہو رہے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے لوگوں کو واپس بھیجنے کی وجہ دریافت فرمائی، تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ ”تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہوتے ہیں: سویا ہوا شخص جب تک بیدار نہ ہو جائے، بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے، اور دیوانہ جب تک اس کی عقل واپس نہ آجائے؟“ فرمایا: کیوں نہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ عورت فلاں قبیلے کی دیوانی عورت ہے، ہو سکتا ہے کہ جس شخص نے اس سے بدکاری کی ہے، اس وقت یہ اپنے ہوش میں نہ ہو اور دیوانی ہو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بھائی! مجھے تو نہیں پتہ، انہوں نے کہا کہ پھر مجھے بھی نہیں پتہ، تاہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر اس پر حد رجم جاری نہیں فرمائی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، هذا إسناد منقطع، أبو ظبيان لم يدرك عمر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُوْرِهَا»”اے اللہ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطاء فرما۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق و لجهالة النعمان بن سعد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ ”جب تم رکوع میں جاؤ تو اللہ کی عظمت بیان کیا کرو، اور جب سجدہ میں جاؤ تو اس سے دعا کیا کرو، امید ہے کہ تمہاری دعا قبول ہوگی۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُوْرِهَا»”اے اللہ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطاء فرما۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابن ابي عدي ، عن ابن عون ، عن محمد ، قال: قال عبيدة : لا احدثك إلا ما سمعت منه، قال محمد، فحلف لنا عبيدة ثلاث مرار، وحلف له علي ، قال: قال:" لولا ان تبطروا لنباتكم ما وعد الله الذين يقتلونهم عن لسان محمد صلى الله عليه وسلم، قال: قلت: اانت سمعته منه؟ قال: إي ورب الكعبة، إي ورب الكعبة، إي ورب الكعبة، فيهم رجل مخدج اليد، او مثدون اليد، احسبه قال: او مودن اليد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ عَبِيدَةُ : لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا سَمِعْتُ مِنْهُ، قَالَ مُحَمَّدٌ، فَحَلَفَ لَنَا عَبِيدَةُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، وَحَلَفَ لَهُ عَلِيٌّ ، قَالَ: قَالَ:" لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَنَبَّأْتُكُمْ مَا وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ عَنْ لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: أَأَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْهُ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، فِيهِمْ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْيَدِ، أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ، أَحْسَبُهُ قَالَ: أَوْ مُودَنُ الْيَدِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ خوارج کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہوگا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاتے تو میں تم سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے تین مرتبہ فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثني سويد بن سعيد ، اخبرنا علي بن مسهر ، عن عبد الرحمن بن إسحاق ، حدثنا النعمان بن سعد ، قال: كنا جلوسا عند علي رضي الله عنه، فقرا هذه الآية:" يوم نحشر المتقين إلى الرحمن وفدا سورة مريم آية 85، قال: لا والله ما على ارجلهم يحشرون، ولا يحشر الوفد على ارجلهم، ولكن بنوق لم ير الخلائق مثلها، عليها رحائل من ذهب، فيركبون عليها حتى يضربوا ابواب الجنة".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا النُّعْمَانُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ:" يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًا سورة مريم آية 85، قَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا عَلَى أَرْجُلِهِمْ يُحْشَرُونَ، وَلَا يُحْشَرُ الْوَفْدُ عَلَى أَرْجُلِهِمْ، وَلَكِنْ بِنُوقٍ لَمْ يَرَ الْخَلَائِقُ مِثْلَهَا، عَلَيْهَا رَحَائِلُ مِنْ ذَهَبٍ، فَيَرْكَبُونَ عَلَيْهَا حَتَّى يَضْرِبُوا أَبْوَابَ الْجَنَّةِ".
نعمان بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی: «﴿يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًا﴾ [مريم: 85] »”قیامت کا دن وہ ہوگا جس میں ہم متقیوں کو رحمن کی بارگاہ میں ایک وفد کی صورت میں جمع کریں گے۔“ اور فرمایا کہ واللہ! انہیں پاؤں کے بل چلا کر جمع نہیں کیا جائے گا، بلکہ انہیں ایسی اونٹنیوں پر سوار کیا جائے گا جن کی مثل اس سے قبل مخلوق نے نہ دیکھی ہو گی، ان پر سونے کے کجاوے ہوں گے اور وہ اس پر سوار ہوں گے یہاں تک کہ جنت کے دروازے کھٹکھٹائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق الواسطي و لجهالة النعمان بن سعد
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني ابان بن صالح ، عن عكرمة ، قال: وقفت مع الحسين ، فلم ازل اسمعه يقول: لبيك لبيك، حتى رمى الجمرة، فقلت: يا ابا عبد الله، ما هذا الإهلال؟ قال: سمعت علي بن ابي طالب رضي الله عنه، يهل حتى انتهى إلى الجمرة، وحدثني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" اهل حتى انتهى إليها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، قَالَ: وَقَفْتُ مَعَ الْحُسَيْنِ ، فَلَمْ أَزَلْ أَسْمَعُهُ يَقُولُ: لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، مَا هَذَا الْإِهْلَالُ؟ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يُهِلُّ حَتَّى انْتَهَى إِلَى الْجَمْرَةِ، وَحَدَّثَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَهَلَّ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهَا".
عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوا تو میں نے انہیں مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا تاآنکہ انہوں نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، میں نے ان سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوا تھا تو میں نے انہیں بھی جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا تھا، اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني زهير ابو خيثمة ، حدثنا ابو معاوية ، حدثنا عبد الرحمن بن إسحاق ، عن النعمان بن سعد ، عن علي رضي الله عنه، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فقال: يا رسول الله، اخبرني بشهر اصومه بعد رمضان؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن كنت صائما شهرا بعد رمضان فصم المحرم، فإنه شهر الله، وفيه يوم تاب فيه على قوم، ويتاب فيه على آخرين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي زُهَيْرٌ أَبُو خَيْثَمَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي بِشَهْرٍ أَصُومُهُ بَعْدَ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ كُنْتَ صَائِمًا شَهْرًا بَعْدَ رَمَضَانَ فَصُمْ الْمُحَرَّمَ، فَإِنَّهُ شَهْرُ اللَّهِ، وَفِيهِ يَوْمٌ تَابَ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ، وَيُتَابُ فِيهِ عَلَى آخَرِينَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! رمضان کے علاوہ مجھے کوئی ایسا مہینہ بتائیے جس کے میں روزے رکھ سکوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم رمضان کے بعد کسی مہینے کے روزے رکھنا چاہتے ہو تو ماہ محرم کے روزے رکھو، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی، اور اللہ ایک قوم کی توبہ قبول کرے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق و لجهالة النعمان بن سعد
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، اخبرنا شريك ، عن منصور ، عن ربعي ، عن علي رضي الله عنه، قال: جاء النبي صلى الله عليه وسلم اناس من قريش، فقالوا: يا محمد، إنا جيرانك وحلفاؤك، وإن ناسا من عبيدنا قد اتوك ليس بهم رغبة في الدين، ولا رغبة في الفقه، إنما فروا من ضياعنا واموالنا، فارددهم إلينا، فقال لابي بكر رضي الله عنه:" ما تقول؟"، قال: صدقوا، إنهم جيرانك، قال: فتغير وجه النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قال لعمر رضي الله عنه:" ما تقول؟"، قال: صدقوا، إنهم لجيرانك وحلفاؤك، فتغير وجه النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُنَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّا جِيرَانُكَ وَحُلَفَاؤُكَ، وَإِنَّ نَاسًا مِنْ عَبِيدِنَا قَدْ أَتَوْكَ لَيْسَ بِهِمْ رَغْبَةٌ فِي الدِّينِ، وَلَا رَغْبَةٌ فِي الْفِقْهِ، إِنَّمَا فَرُّوا مِنْ ضِيَاعِنَا وَأَمْوَالِنَا، فَارْدُدْهُمْ إِلَيْنَا، فَقَالَ لِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" مَا تَقُولُ؟"، قَالَ: صَدَقُوا، إِنَّهُمْ جِيرَانُكَ، قَالَ: فَتَغَيَّرَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" مَا تَقُولُ؟"، قَالَ: صَدَقُوا، إِنَّهُمْ لَجِيرَانُكَ وَحُلَفَاؤُكَ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ قریش کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہنے لگے کہ ہم آپ کے پڑوسی اور آپ کے حلیف ہیں، ہمارے کچھ غلام آپ کے پاس آگئے ہیں، انہیں دین سے رغبت ہے اور نہ ہی اس کی سمجھ بوجھ سے کوئی دلچسپی ہے، اصل میں وہ ہماری جائیداد اور مال و دولت اپنے قبضہ میں کر کے فرار ہوگئے ہیں، اس لئے آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ”آپ کی کیا رائے ہے؟“ انہوں نے عرض کیا کہ ان کی یہ بات تو صحیح ہے کہ یہ آپ کے پڑوسی ہیں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور کا رنگ بدل گیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی رائے پوچھی، تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ آپ کے پڑوسی اور حلیف تو واقعۃ ہیں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا (کیونکہ فی الجملہ اس سے مشرکین کی بات کی تائید ہوتی تھی)۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني سويد بن سعيد سنة ست وعشرين ومائتين، اخبرنا علي بن مسهر ، عن عبد الرحمن بن إسحاق ، عن النعمان بن سعد ، عن علي رضي الله عنه، قال: ساله رجل: اقرا في الركوع والسجود؟ فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني نهيت ان اقرا في الركوع والسجود، فإذا ركعتم فعظموا الله، وإذا سجدتم فاجتهدوا في المسالة، فقمن ان يستجاب لكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ سَنَةَ سِتٍّ وَعِشْرِينَ وَمِائَتَيْنِ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ: أَقْرَأُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ؟ فقَالَ: قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَقْرَأَ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، فَإِذَا رَكَعْتُمْ فَعَظِّمُوا اللَّهَ، وَإِذَا سَجَدْتُمْ فَاجْتَهِدُوا فِي الْمَسْأَلَةِ، فَقَمِنٌ أَنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ".
نعمان بن سعد کہتے ہیں کہ ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا میں رکوع اور سجدہ میں قرأت کر سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”مجھے رکوع اور سجدے کی حالت میں تلاوت قرآن سے منع کیا گیا ہے، جب تم رکوع کرو تو اللہ کی عظمت بیان کیا کرو، اور جب سجدہ کرو تو خوب توجہ سے دعا مانگو، امید ہے کہ تمہاری دعا قبول ہوگی۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق، و لجهالة النعمان بن سعد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں ایسے بالاخانے بھی ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے ہی نظر آتا ہے، اور بیرونی حصہ اندر سے نظر آتا ہے۔“ ایک دیہاتی نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ کس کے لئے ہیں؟ فرمایا: ”اس شخص کے لئے جو اچھی بات کرے، ضرورت مندوں کو کھانا کھلائے، اور جب لوگ رات کو سو رہے ہوں تو صرف رضاء الٰہی کے لئے نماز تہجد ادا کرے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُوْرِهَا»”اے اللہ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطاء فرما۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا اسود بن عامر ، اخبرنا ابو بكر ، عن الاعمش ، عن سلمة بن كهيل ، عن عبد الله بن سبع ، قال: خطبنا علي رضي الله عنه، فقال:" والذي فلق الحبة، وبرا النسمة، لتخضبن هذه من هذه، قال: قال الناس: فاعلمنا من هو؟ والله لنبيرنه، او لنبيرن عترته، قال: انشدكم بالله ان يقتل غير قاتلي، قالوا: إن كنت قد علمت ذلك استخلف إذا، قال: لا، ولكن اكلكم إلى ما وكلكم إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، أخبرنا أَبُو بَكْرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَبُعٍ ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ:" وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، لَتُخْضَبَنَّ هَذِهِ مِنْ هَذِهِ، قَالَ: قَالَ النَّاسُ: فَأَعْلِمْنَا مَنْ هُوَ؟ وَاللَّهِ لَنُبِيرَنَّهُ، أو لَنُبِيرَنَّ عِتْرَتَهُ، قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ أَنْ يُقْتَلَ غَيْرُ قَاتِلِي، قَالُوا: إِنْ كُنْتَ قَدْ عَلِمْتَ ذَلِكَ اسْتَخْلِفْ إِذًا، قَالَ: لَا، وَلَكِنْ أَكِلُكُمْ إِلَى مَا وَكَلَكُمْ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن سبع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اس ذات کی قسم جو دانے کو پھاڑتی اور جاندار کو پیدا کرتی ہے! یہ داڑھی اس سر کے خون سے رنگین ہو کر رہے گی۔ لوگوں نے کہا: امیر المومنین! ہمیں اس کا نام پتہ بتائیے، ہم اس کی نسل تک مٹا دیں گے، فرمایا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، کہیں میرے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل نہ کر دینا، لوگوں نے عرض کیا کہ جب آپ کو یہ بات معلوم ہے تو پھر ہم پر اپنا نائب ہی مقرر کر دیجئے، فرمایا: نہیں، میں تمہیں اسی کیفیت پر چھوڑ کر جاؤں گا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لجهالة عبد الله بن سبع و لا نقطاع بين سلمة بن كهيل و بين عبد الله بن سبع
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود ، اخبرنا زائدة ، عن السدي ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، قال: خطب علي رضي الله عنه، قال: يا ايها الناس، اقيموا على ارقائكم الحدود، من احصن منهم، ومن لم يحصن، فإن امة لرسول الله صلى الله عليه وسلم زنت، فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اقيم عليها الحد، فاتيتها فإذا هي حديث عهد بنفاس، فخشيت إن انا جلدتها ان تموت، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فقال" احسنت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، أخبرنا زَائِدَةُ ، عَنِ السُّدِّيِّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: خَطَبَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَقِيمُوا عَلَى أَرِقَّائِكُمْ الْحُدُودَ، مَنْ أُحْصِنَ مِنْهُمْ، وَمَنْ لَمْ يُحْصَنْ، فَإِنَّ أَمَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَنَتْ، فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُقِيمَ عَلَيْهَا الْحَدَّ، فَأَتَيْتُهَا فَإِذَا هِيَ حَدِيثُ عَهْدٍ بِنِفَاسٍ، فَخَشِيتُ إِنْ أَنَا جَلَدْتُهَا أَنْ تَمُوتَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ" أَحْسَنْتَ".
ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! اپنے غلاموں، باندیوں پر بھی حدود جاری کیا کرو، خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، کیونکہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک باندی سے بدکاری کا ارتکاب ہو گیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس پر سزا جاری کرنے کا حکم دیا، جب میں اس پر حد جاری کرنے لگا تو پتہ چلا کہ ابھی اس کے نفاس کا زمانہ تازہ ہے، مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں کوڑے لگنے سے یہ مر ہی نہ جائے، چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا معاملہ ذکر کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اچھا کیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة بن مضرب ، عن علي رضي الله عنه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فقلت: إنك تبعثني إلى قوم وهم اسن مني لاقضي بينهم، فقال:" اذهب فإن الله سيهدي قلبك ويثبت لسانك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَقُلْتُ: إِنَّكَ تَبْعَثُنِي إِلَى قَوْمٍ وَهُمْ أَسَنُّ مِنِّي لِأَقْضِيَ بَيْنَهُمْ، فَقَالَ:" اذْهَبْ فَإِنَّ اللَّهَ سَيَهْدِي قَلْبَكَ وَيُثَبِّتُ لِسَانَكَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے ایک ایسی قوم کی طرف فیصلہ کرنے کے لئے بھیج رہے ہیں جو مجھ سے بڑی عمر کے ہیں، فرمایا: ”اللہ تمہاری زبان کو صحیح راستے پر چلائے گا، اور تمہارے دل کو مضبوط رکھے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو معاوية ، عن عبد الرحمن بن إسحاق ، عن النعمان بن سعد ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن في الجنة سوقا ما فيها بيع ولا شراء، إلا الصور من النساء والرجال، فإذا اشتهى الرجل صورة دخل فيها، وإن فيها لمجمعا للحور العين يرفعن اصواتا لم ير الخلائق مثلها، يقلن: نحن الخالدات فلا نبيد، ونحن الراضيات فلا نسخط، ونحن الناعمات فلا نبؤس، فطوبى لمن كان لنا وكنا له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ فِي الْجَنَّةِ سُوقًا مَا فِيهَا بَيْعٌ وَلَا شِرَاءٌ، إِلَّا الصُّوَرُ مِنَ النِّسَاءِ وَالرِّجَالِ، فَإِذَا اشْتَهَى الرَّجُلُ صُورَةً دَخَلَ فِيهَا، وَإِنَّ فِيهَا لَمَجْمَعًا لِلْحُورِ الْعِينِ يَرْفَعْنَ أَصْوَاتًا لَمْ يَرَ الْخَلَائِقُ مِثْلَهَا، يَقُلْنَ: نَحْنُ الْخَالِدَاتُ فَلَا نَبِيدُ، وَنَحْنُ الرَّاضِيَاتُ فَلَا نَسْخَطُ، وَنَحْنُ النَّاعِمَاتُ فَلَا نَبْؤُسُ، فَطُوبَى لِمَنْ كَانَ لَنَا وَكُنَّا لَهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں ایک بازار ہوگا لیکن اس میں خرید و فروخت نہ ہوگی، اس میں صرف مردوں اور عورتوں کی صورتیں ہوں گی، جس آدمی کو جو صورت پسند ہوگی وہ اس میں داخل ہو جائے گا، نیز جنت میں حور عین کا ایک مجمع لگتا ہے جہاں وہ - کہ ان جیسا حسین خلائق عالم نے نہ دیکھا ہوگا - اپنی آوازیں بلند کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں، ہم کبھی فناء نہ ہوں گی، ہم ہمیشہ راضی رہنے والی ہیں، ہم کبھی ناراض نہ ہوں گی، ہم ناز و نعم میں پلی ہوئی ہیں اس لئے ہم تنگی میں نہیں رہیں گی، اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جو ہمارا ہے اور جس کے ہم ہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق، و لجهالة النعمان بن سعد
حدثنا عبد الله، حدثني زهير ابو خيثمة ، حدثنا ابو معاوية ، حدثنا عبد الرحمن بن إسحاق ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن في الجنة سوقا"، فذكر الحديث، إلا انه قال:" فإذا اشتهى الرجل صورة دخلها، قال: وفيها مجتمع الحور العين يرفعن اصواتا..."، فذكر مثله.حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي زُهَيْرٌ أَبُو خَيْثَمَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ فِي الْجَنَّةِ سُوقًا"، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" فَإِذَا اشْتَهَى الرَّجُلُ صُورَةً دَخَلَهَا، قَالَ: وَفِيهَا مُجْتَمَعُ الْحُورِ الْعِينِ يَرْفَعْنَ أَصْوَاتًا..."، فَذَكَرَ مِثْلَهُ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق ، ثم هو منقطع بين عبدالرحمٰن و بين علي، وانظر ماقبله
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا، سر کا مسح کیا اور وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا، پھر فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ یہ دیکھ لے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن سويد بن غفلة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يكون في آخر الزمان قوم يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية، قتالهم حق على كل مسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، قِتَالُهُمْ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک قوم ایسی آئے گی جو اسلام سے ایسے نکل جائے گی جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، یہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر سکے گا، ان سے قتال کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، روي يوسف بن أبي اسحاق عن أبيه فأدخل بينه و بين سويد بن غفلة أبا قيس الأودي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں آجاتے تھے، اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہم میں سے کوئی بھی دشمن کے اتنا قریب نہ تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا سفيان ، عن عبد الرحمن بن عياش ، عن زيد بن علي ، عن ابيه ، عن عبيد الله بن ابي رافع ، عن علي رضي الله عنه، قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة، فقال:" هذا الموقف، وعرفة كلها موقف"، ثم اردف اسامة، فجعل يعنق على ناقته، والناس يضربون الإبل يمينا وشمالا، لا يلتفت إليهم، ويقول:" السكينة ايها الناس"، ودفع حين غابت الشمس، فاتى جمعا، فصلى بها الصلاتين، يعني: المغرب والعشاء، ثم بات، بها فلما اصبح وقف على قزح، فقال:" هذا قزح، وهو الموقف، وجمع كلها موقف"، قال: ثم سار، فلما اتى محسرا قرعها فخبت، حتى جاز الوادي، ثم حبسها واردف الفضل، ثم سار حتى اتى الجمرة فرماها، ثم اتى المنحر، فقال:" هذا المنحر، ومنى كلها منحر"، ثم اتته امراة شابة من خثعم، فقالت: إن ابي شيخ قد افند، وقد ادركته فريضة الله في الحج، فهل يجزئ ان احج عنه؟ قال:" نعم، فادي عن ابيك"، قال: ولوى عنق الفضل، فقال له العباس: يا رسول الله، ما لك لويت عنق ابن عمك؟ قال:" رايت شابا وشابة، فخفت الشيطان عليهما"، قال: واتاه رجل، فقال: افضت قبل ان احلق؟ قال:" فاحلق، او قصر، ولا حرج"، قال: واتى زمزم، فقال:" يا بني عبد المطلب، سقايتكم، لولا ان يغلبكم الناس عليها لنزعت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ"، ثُمَّ أَرْدَفَ أُسَامَةَ، فَجَعَلَ يُعْنِقُ عَلَى نَاقَتِهِ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ الْإِبِلَ يَمِينًا وَشِمَالًا، لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، وَدَفَعَ حِينَ غَابَتْ الشَّمْسُ، فَأَتَى جَمْعًا، فَصَلَّى بِهَا الصَّلَاتَيْنِ، يَعْنِي: الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، ثُمَّ بَاتَ، بِهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ وَقَفَ عَلَى قُزَحَ، فَقَالَ:" هَذَا قُزَحُ، وَهُوَ الْمَوْقِفُ، وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ"، قَالَ: ثُمَّ سَارَ، فَلَمَّا أَتَى مُحَسِّرًا قَرَعَهَا فَخَبَّتْ، حَتَّى جَازَ الْوَادِيَ، ثُمَّ حَبَسَهَا وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ، ثُمَّ سَارَ حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا، ثُمَّ أَتَى الْمَنْحَرَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَنْحَرُ، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ"، ثُمَّ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ قَدْ أَفْنَدَ، وَقَدْ أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ، فَهَلْ يُجْزِئُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ، فَأَدِّي عَنْ أَبِيكِ"، قَالَ: وَلَوَى عُنُقَ الْفَضْلِ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ:" رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً، فَخِفْتُ الشَّيْطَانَ عَلَيْهِمَا"، قَالَ: وَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ؟ قَالَ:" فَاحْلِقْ، أَوْ قَصِّرْ، وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: وَأَتَى زَمْزَمَ، فَقَالَ:" يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، سِقَايَتَكُمْ، لَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمْ النَّاسُ عَلَيْهَا لَنَزَعْتُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا: ”یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے۔“ پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے، اپنے پیچھے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے: ”لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں، اور رات بھر وہیں رہے، صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے، وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ ”یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے، وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا، اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں، پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ ”یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے۔“ اتنی دیر میں بنو خثعم کی ایک نوجوان عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ تقریبا ختم ہو چکے ہیں لیکن ان پر حج بھی فرض ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کر سکتی ہو۔“ یہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی گردن موڑ دی (کیونکہ وہ اس عورت کو دیکھنے لگے تھے)۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی گردن کس حکمت کی بنا پر موڑی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ دونوں نوجوان ہیں، مجھے ان کے بارے شیطان سے امن نہ ہوا، اس لئے دونوں کا رخ پھیر دیا۔“ بہرحال! تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں نے قربانی کرنے سے پہلے بال کٹوا لئے، اب کیا کروں؟ فرمایا: ”اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔“ ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے حلق سے پہلے طواف زیارت کر لیا، فرمایا: ”کوئی بات نہیں، اب حلق یا قصر کر لو۔“ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت کے لئے حرم شریف پہنچے، طواف کیا، زمزم پیا، اور فرمایا: ”بنو عبدالمطلب! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہو، اگر لوگ تم پر غالب نہ آجاتے تو میں بھی اس میں سے ڈول کھینچ کھینچ کر نکالتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا هاشم يعني ابن البريد ، عن إسماعيل الحنفي ، عن مسلم البطين ، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، قال: اخذ بيدي علي رضي الله عنه، فانطلقنا نمشي، حتى جلسنا على شط الفرات، فقال علي رضي الله عنه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من نفس منفوسة إلا قد سبق لها من الله شقاء او سعادة"، فقام رجل، فقال: يا رسول الله، فيم إذا نعمل؟ قال:" اعملوا فكل ميسر لما خلق له"، ثم قرا هذه الآية:" فاما من اعطى واتقى وصدق بالحسنى فسنيسره لليسرى واما من بخل واستغنى وكذب بالحسنى فسنيسره للعسرى سورة الليل آية 5 - 10".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا هَاشِمٌ يَعْنِي ابْنَ الْبَرِيدِ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ الْحَنَفِيِّ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: أَخَذَ بِيَدِي عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَانْطَلَقْنَا نَمْشِي، حَتَّى جَلَسْنَا عَلَى شَطِّ الْفُرَاتِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا قَدْ سَبَقَ لَهَا مِنَ اللَّهِ شَقَاءٌ أَوْ سَعَادَةٌ"، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِيمَ إِذًا نَعْمَلُ؟ قَالَ:" اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ"، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ:" فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى سورة الليل آية 5 - 10".
ابوعبدالرحمن سلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم چہل قدمی کرتے ہوئے چلتے رہے، حتی کہ فرات کے کنارے جا کر بیٹھ گئے، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کا شقی یا سعید ہونا اللہ کے علم میں موجود اور متعین ہے۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: یا رسول اللہ! پھر ہم عمل کیوں کریں؟ فرمایا: ”عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کے لئے وہی اعمال آسان کئے جائیں گے جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہوگا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى o فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى o وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى o وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى o فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى﴾ [الليل: 5-10] »”جس شخص نے دیا، تقویٰ اختیار کیا، اور اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم اس کے لئے آسانی کے اسباب پیدا کر دیں گے، اور جو شخص بخل اختیار کرے، اپنے آپ کو مستغنی ظاہر کرے، اور اچھی بات کی تکذیب کرے، تو ہم اس کے لئے تنگی کے اسباب پیدا کر دیں گے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا إسحاق بن إسماعيل ، حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي حية الوادعي ، قال: رايت عليا رضي الله عنه بال في الرحبة، ثم" دعا بماء فتوضا، فغسل كفيه ثلاثا، وتمضمض واستنشق ثلاثا، وغسل وجهه ثلاثا، وغسل ذراعيه ثلاثا ثلاثا، ومسح براسه، وغسل قدميه ثلاثا ثلاثا، ثم قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل كالذي رايتموني فعلت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي حَيَّةَ الْوَادِعِيِّ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَالَ فِي الرَّحَبَةِ، ثُمَّ" دَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا، وَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَغَسَلَ قَدَمَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَالَّذِي رَأَيْتُمُونِي فَعَلْتُ".
ابوحیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو صحن میں پیشاب کرتے ہوئے دیکھا، پھر انہوں نے پانی منگوایا اور پہلے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھو کر صاف کیا، پھر تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھوئے، سر کا مسح کیا اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھوئے، اور وضو کا بچا ہوا پانی لے کر کھڑے کھڑے پی گئے، اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسے تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دکھانا چاہتا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو الاحوص ، عن ابي إسحاق ، عن ابي حية ، قال: رايت عليا رضي الله عنه" توضا، فانقى كفيه، ثم غسل وجهه ثلاثا، وذراعيه ثلاثا، ومسح براسه، ثم غسل قدميه إلى الكعبين، ثم قام فشرب فضل وضوئه، ثم قال: إنما اردت ان اريكم طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي حَيَّةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" تَوَضَّأَ، فَأَنْقَى كَفَّيْهِ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ فَضْلَ وَضُوئِهِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أُرِيَكُمْ طُهُورَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوحیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے پہلے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو صاف کیا، پھر تین مرتبہ چہرہ اور تین مرتبہ دونوں بازو دھوئے، سر کا مسح کیا، پھر ٹخنوں تک دونوں پاؤں دھوئے، پھر کھڑے ہو کر وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا، اور فرمایا: میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دکھانا چاہتا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني سويد بن سعيد ، حدثنا مروان الفزاري ، عن المختار بن نافع ، حدثني ابو مطر البصري وكان قد ادرك عليا رضي الله عنه، ان عليا اشترى ثوبا بثلاثة دراهم، فلما لبسه، قال:" الحمد لله الذي رزقني من الرياش ما اتجمل به في الناس، واواري به عورتي"، ثم قال: هكذا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ الْفَزَارِيُّ ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ نَافِعٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو مَطَرٍ الْبَصْرِيُّ وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ عَلِيًّا اشْتَرَى ثَوْبًا بِثَلَاثَةِ دَرَاهِمَ، فَلَمَّا لَبِسَهُ، قَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنَ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ، وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي"، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ.
ابومطر بصری - جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پایا تھا - سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تین درہم کا ایک کپڑا خریدا، جب اسے پہنا تو یہ دعا پڑھی: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنْ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي»”اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے یہ لباس عطاء فرمایا، جس سے میں لوگوں میں خوبصورت لگتا ہوں، اور اپنا ستر چھپاتا ہوں۔“ پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف المختار بن نافع، ولجهالة أبي مطر البصري
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو دیکھنا چاہتا ہے وہ میری طرف دیکھے، پھر انہوں نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا، سر کا مسح کیا اور وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا مختار بن نافع التمار ، عن ابي مطر ، انه راى عليا اتى غلاما حدثا، فاشترى منه قميصا بثلاثة دراهم، ولبسه إلى ما بين الرصغين إلى الكعبين، يقول ولبسه: الحمد لله الذي رزقني من الرياش ما اتجمل به في الناس، واواري به عورتي، فقيل: هذا شيء ترويه عن نفسك، او عن نبي الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: هذا شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوله عند الكسوة:" الحمد لله الذي رزقني من الرياش ما اتجمل به في الناس، واواري به عورتي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُخْتَارُ بْنُ نَافِعٍ التَّمَّارُ ، عَنْ أَبِي مَطَرٍ ، أَنَّهُ رَأَى عَلِيًّا أَتَى غُلَامًا حَدَثًا، فَاشْتَرَى مِنْهُ قَمِيصًا بِثَلَاثَةِ دَرَاهِمَ، وَلَبِسَهُ إِلَى مَا بَيْنَ الرُّصْغَيْنِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ، يَقُولُ وَلَبِسَهُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنَ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ، وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي، فَقِيلَ: هَذَا شَيْءٌ تَرْوِيهِ عَنْ نَفْسِكَ، أَوْ عَنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: هَذَا شَيْءٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ عِنْدَ الْكُسْوَةِ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنَ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ، وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي".
ابومطر بصری جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پایا تھا، سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تین درہم کا ایک کپڑا خریدا، جب اسے پہنا تو یہ دعا پڑھی: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنْ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي»”اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے یہ لباس عطاء فرمایا، جس سے میں لوگوں میں خوبصورت لگتا ہوں، اور اپنا ستر چھپاتا ہوں۔“ پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف المختار بن نافع، ولجهالة أبي مطر البصري
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا مختار ، عن ابي مطر ، قال: بينا نحن جلوس مع امير المؤمنين علي في المسجد على باب الرحبة جاء رجل، فقال: ارني وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو عند الزوال، فدعا قنبرا، فقال: ائتني بكوز من ماء،" فغسل كفيه ووجهه ثلاثا، وتمضمض ثلاثا، فادخل بعض اصابعه في فيه، واستنشق ثلاثا، وغسل ذراعيه ثلاثا، ومسح راسه واحدة، فقال: داخلهما من الوجه، وخارجهما من الراس، ورجليه إلى الكعبين ثلاثا، ولحيته تهطل على صدره، ثم حسا حسوة بعد الوضوء"، ثم قال: اين السائل عن وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ كذا كان وضوء نبي الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُخْتَارٌ ، عَنْ أَبِي مَطَرٍ ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٍّ فِي الْمَسْجِدِ عَلَى بَابِ الرَّحَبَةِ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَرِنِي وُضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ عِنْدَ الزَّوَالِ، فَدَعَا قَنْبَرًا، فَقَالَ: ائْتِنِي بِكُوزٍ مِنْ مَاءٍ،" فَغَسَلَ كَفَّيْهِ وَوَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَتَمَضْمَضَ ثَلَاثًا، فَأَدْخَلَ بَعْضَ أَصَابِعِهِ فِي فِيهِ، وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، وَمَسَحَ رَأْسَهُ وَاحِدَةً، فَقَالَ: دَاخِلُهُمَا مِنَ الْوَجْهِ، وَخَارِجُهُمَا مِنَ الرَّأْسِ، وَرِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ثَلَاثًا، وَلِحْيَتُهُ تَهْطِلُ عَلَى صَدْرِهِ، ثُمَّ حَسَا حَسْوَةً بَعْدَ الْوُضُوءِ"، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وُضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ كَذَا كَانَ وُضُوءُ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابومطر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ زوال کے وقت مسجد میں باب الرحبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وضو کر کے دکھائیے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام قنبر کو بلا کر فرمایا: ایک کٹورے میں پانی لے کر آؤ، پھر انہوں نے اپنے ہاتھوں اور چہرے کو تین مرتبہ دھویا، تین مرتبہ کلی کی اور اپنی ایک انگلی منہ میں ڈالی، ناک میں تین مرتبہ پانی ڈالا، تین مرتبہ بازوؤں کو دھویا، ایک مرتبہ سر کا مسح کیا، چہرہ کی طرف سے اندر کے حصے کا اور سر کی طرف سے باہر کے حصے کا، اور تین مرتبہ ٹخنوں سمیت پاؤں دھوئے، اس وقت ان کی داڑھی سینے پر لٹک رہی تھی، پھر انہوں نے وضو کے بعد ایک گھونٹ پانی پیا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح وضو فرماتے تھے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی کے لئے - سوائے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے - اپنے والدین کو جمع کرتے ہوئے نہیں سنا، غزوہ احد کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے: ”سعد تیر پھینکو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن ، عن علي رضي الله عنه، قال: قلت: يا رسول الله، ما لك تنوق في قريش ولا تزوج إلينا؟ قال:" وعندك شيء؟"، قال: قلت: نعم، ابنة حمزة، قال:" تلك ابنة اخي من الرضاعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ تَنَوَّقُ فِي قُرَيْشٍ وَلَا تَزَوَّجُ إِلَيْنَا؟ قَالَ:" وَعِنْدَكَ شَيْءٌ؟"، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، ابْنَةُ حَمْزَةَ، قَالَ:" تِلْكَ ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں چھوڑ کر قریش کے دوسرے خاندانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی۔ فرمایا: ”وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔“(دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے اور چچا بھتیجے بھی)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ کے ایک خچر پیش کیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے، کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اگر ہم بھی یہ جانور حاصل کرنا چاہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم گھوڑوں پر گدھوں کو کدوانا چاہتے ہو؟ یہ وہ لوگ کرتے ہیں جو جاہل ہیں۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، عبد الله بن لهيعة سي الحفظ لكنه توبع
ابوحیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو کر کے نہ دکھاؤں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا: پھر میرے پاس ایک طشت اور پانی کا ایک برتن لے کر آؤ، چنانچہ پہلے انہوں نے تین مرتبہ اپنے دونوں ہاتھوں کو دھویا، پھر تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت ہاتھ دھوئے، سر کا مسح کیا، اور تین مرتبہ ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھوئے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے چار چیزیں ایسی دی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں، مجھے زمین کے خزانے دیئے گئے ہیں، میرا نام احمد رکھا گیا ہے، مٹی کو میرے لئے پانی کی طرح پاک کرنے والا قرار دیا گیا ہے اور میری امت کو بہترین امت کا خطاب دیا گیا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن ، و تقدم برقم : 763 الا انه ذكر هناك فى الحديث خامسة، وهى قوله : «نصرت بالرعب»
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن عطاء بن السائب ، عن ابي ظبيان ، ان عليا رضي الله عنه قال لعمر رضي الله عنه: يا امير المؤمنين، اما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" رفع القلم عن ثلاثة: عن النائم حتى يستيقظ، وعن الصغير حتى يكبر، وعن المبتلى حتى يعقل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَكْبَرَ، وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَعْقِلَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے امیر المومنین! کیا آپ نے نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں: (1) سویا ہوا شخص جب تک بیدار نہ ہو جائے، (2) بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے، (3) مجنون جب تک اس کی عقل لوٹ نہ آئے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا اِسناد منقطع، ابو ظبيان لم يدرك عمر
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا إسرائيل ، حدثنا ابو إسحاق ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا اعلمك كلمات إذا قلتهن غفر لك، على انه مغفور لك: لا إله إلا الله العلي العظيم، لا إله إلا هو الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ إِذَا قُلْتَهُنَّ غُفِرَ لَكَ، عَلَى أَنَّهُ مَغْفُورٌ لَكَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ”کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں کہ جب تم انہیں زبان سے ادا کر لو تو تمہارے گناہ معاف کر دیئے جائیں حالانکہ تمہارے گناہ معاف ہو چکے، یہ کلمات کہہ لیا کرو: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.»”اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ حلیم و کریم ہے، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، وہ عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا هشيم ، حدثنا حصين بن عبد الرحمن ، عن الشعبي ، عن الحارث ، عن علي رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لعن آكل الربا، وموكله، وشاهديه، وكاتبه، والمحل والمحلل له، والواشمة والمستوشمة، ومانع الصدقة، ونهى عن النوح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَكَاتِبَهُ، وَالْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ، وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ، وَمَانِعَ الصَّدَقَةِ، وَنَهَى عَنِ النَّوْحِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے: سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی پر لعنت فرمائی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا اِسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، قال: يونس بن ابي إسحاق اخبرني، عن ابي إسحاق ، عن ابي جحيفة ، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اذنب في الدنيا ذنبا فعوقب به، فالله اعدل من ان يثني عقوبته على عبده، ومن اذنب ذنبا في الدنيا فستر الله عليه، وعفا عنه، فالله اكرم من ان يعود في شيء قد عفا عنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ: يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ أَخْبَرَنِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَذْنَبَ فِي الدُّنْيَا ذَنْبًا فَعُوقِبَ بِهِ، فَاللَّهُ أَعْدَلُ مِنْ أَنْ يُثَنِّيَ عُقُوبَتَهُ عَلَى عَبْدِهِ، وَمَنْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فِي الدُّنْيَا فَسَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَعَفَا عَنْهُ، فَاللَّهُ أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يَعُودَ فِي شَيْءٍ قَدْ عَفَا عَنْهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے اور اسے اس کی سزا بھی مل جائے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہت عادل ہے کہ اپنے بندے کو دوبارہ سزا دے، اور جو شخص دنیا میں کوئی گناہ کر بیٹھے اور اللہ اس کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اسے معاف فرما دے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہت کریم ہے کہ جس چیز کو وہ معاف کر چکا ہو اس کا معاملہ دوبارہ کھولے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو خيثمة . ح وحدثنا إسحاق بن إسماعيل ، قالا: حدثنا جرير ، عن منصور ، عن عبد الملك بن ميسرة ، عن النزال بن سبرة ، قال: صلينا مع علي رضي الله عنه الظهر، فانطلق إلى مجلس له يجلسه في الرحبة، فقعد وقعدنا حوله، ثم حضرت العصر،" فاتي بإناء، فاخذ منه كفا، فتمضمض واستنشق ومسح بوجهه وذراعيه، ومسح براسه، ومسح برجليه، ثم قام فشرب فضل إنائه، ثم قال: إني حدثت ان رجالا يكرهون ان يشرب احدهم وهو قائم، إني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل كما فعلت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ . ح وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنِ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ ، قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الظُّهْرَ، فَانْطَلَقَ إِلَى مَجْلِسٍ لَهُ يَجْلِسُهُ فِي الرَّحَبَةِ، فَقَعَدَ وَقَعَدْنَا حَوْلَهُ، ثُمَّ حَضَرَتْ الْعَصْرُ،" فَأُتِيَ بِإِنَاءٍ، فَأَخَذَ مِنْهُ كَفًّا، فَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَمَسَحَ بِوَجْهِهِ وَذِرَاعَيْهِ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَمَسَحَ بِرِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ فَضْلَ إِنَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي حُدِّثْتُ أَنَّ رِجَالًا يَكْرَهُونَ أَنْ يَشْرَبَ أَحَدُهُمْ وَهُوَ قَائِمٌ، إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَمَا فَعَلْتُ".
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی، پھر وہ اپنی نشست پر تشریف لے گئے جہاں وہ باب الرحبہ کے قریب بیٹھتے تھے، وہ بیٹھے تو ہم بھی ان کے ارد گرد بیٹھ گئے، جب عصر کی نماز کا وقت آیا تو ان کے پاس ایک برتن لایا گیا، انہوں نے اس سے ایک چلو بھرا، کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، چہرے اور ہاتھوں پر پھیرا، سر اور پاؤں پر پھیرا، اور کھڑے ہو کر بچا ہوا پانی پی لیا، اور فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسے میں نے کیا ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا حجاج ، حدثنا شريك ، عن عاصم بن كليب ، عن محمد بن كعب القرظي ، ان عليا رضي الله عنه، قال:" لقد رايتني مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإني لاربط الحجر على بطني من الجوع، وإن صدقتي اليوم لاربعون الفا".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" لَقَدْ رَأَيْتُنِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنِّي لَأَرْبُطُ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِي مِنَ الْجُوعِ، وَإِنَّ صَدَقَتِي الْيَوْمَ لَأَرْبَعُونَ أَلْفًا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجھ پر ایسا وقت بھی گذرا ہے کہ بھوک کی شدت سے میں اپنے پیٹ پر پتھر باندھتا تھا، اور آج میرے مال کی صرف زکوٰۃ چالیس ہزار دینار بنتی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لا نقطاعه، محمد بن كعب القرظي لم يسمع من علي، و شريك النخعي سي الحفظ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”علی! پہلی نظر کسی نا محرم پر پڑنے کے بعد اس پر دوسری نظر نہ ڈالنا، کیونکہ پہلی نظر تو تمہیں معاف ہوگی، دوسری نہیں ہوگی۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا اِسناد ضعيف ، محمد بن اسحاق مدلس وقد عنعن
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حسن کی پیدائش ہوئی تو ان کا نام حمزہ رکھا گیا، اور جب حسین کی پیدائش ہوئی تو ان کا نام ان کے چچا کے نام پر جعفر رکھا گیا، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ان دونوں کے نام بدل دوں۔“ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام علی الترتیب حسن اور حسین رکھ دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن عثمان بن المغيرة ، عن ابي صادق ، عن ربيعة بن ناجذ ، عن علي رضي الله عنه، قال: جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، او دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم، بني عبد المطلب، فيهم رهط كلهم ياكل الجذعة، ويشرب الفرق، قال: فصنع لهم مدا من طعام، فاكلوا حتى شبعوا، قال: وبقي الطعام كما هو كانه لم يمس، ثم دعا بغمر، فشربوا حتى رووا، وبقي الشراب كانه لم يمس او لم يشرب، فقال:" يا بني عبد المطلب، إني بعثت لكم خاصة، وإلى الناس بعامة، وقد رايتم من هذه الآية ما رايتم، فايكم يبايعني على ان يكون اخي وصاحبي؟"، قال: فلم يقم إليه احد، قال: فقمت إليه، وكنت اصغر القوم، قال: فقال:" اجلس"، قال: ثلاث مرات، كل ذلك اقوم إليه، فيقول لي:" اجلس"، حتى كان في الثالثة ضرب بيده على يدي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِذٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فِيهِمْ رَهْطٌ كُلُّهُمْ يَأْكُلُ الْجَذَعَةَ، وَيَشْرَبُ الْفَرَقَ، قَالَ: فَصَنَعَ لَهُمْ مُدًّا مِنْ طَعَامٍ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، قَالَ: وَبَقِيَ الطَّعَامُ كَمَا هُوَ كَأَنَّهُ لَمْ يُمَسَّ، ثُمَّ دَعَا بِغُمَرٍ، فَشَرِبُوا حَتَّى رَوَوْا، وَبَقِيَ الشَّرَابُ كَأَنَّهُ لَمْ يُمَسَّ أَوْ لَمْ يُشْرَبْ، فَقَالَ:" يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي بُعِثْتُ لَكُمْ خَاصَّةً، وَإِلَى النَّاسِ بِعَامَّةٍ، وَقَدْ رَأَيْتُمْ مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ مَا رَأَيْتُمْ، فَأَيُّكُمْ يُبَايِعُنِي عَلَى أَنْ يَكُونَ أَخِي وَصَاحِبِي؟"، قَالَ: فَلَمْ يَقُمْ إِلَيْهِ أَحَدٌ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ، وَكُنْتُ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، قَالَ: فَقَالَ:" اجْلِسْ"، قَالَ: ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، كُلُّ ذَلِكَ أَقُومُ إِلَيْهِ، فَيَقُولُ لِي:" اجْلِسْ"، حَتَّى كَانَ فِي الثَّالِثَةِ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى يَدِي.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدالمطلب کو دعوت پر جمع فرمایا، ان میں سے کچھ لوگ تو ایسے تھے کہ پورا پورا بکری کا بچہ کھا جاتے اور سولہ رطل کے برابر پانی پی جاتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کی دعوت میں صرف ایک مد (آسانی کے لئے ایک کلو فرض کر لیں) کھانا تیار کروایا، ان لوگوں نے کھانا شروع کیا تو اتنے سے کھانے میں وہ سب لوگ سیر ہوگئے اور کھانا ویسے ہی بچا رہا، محسوس ہوتا تھا کہ اسے کسی نے چھوا تک نہیں ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑا سا پانی منگوایا، وہ ان سب نے سیراب ہو کر پیا لیکن پانی اسی طرح بچا رہا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اسے کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ان تمام مراحل سے فراغت پا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”اے بنو عبدالمطلب! مجھے خصوصیت کے ساتھ تمہاری طرف اور عمومیت کے ساتھ پوری انسانیت کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، اور تم نے کھانے کا یہ معجزہ تو دیکھ ہی لیا ہے، اب تم میں سے کون مجھ سے اس بات پر بیعت کرتا ہے کہ وہ میرا بھائی اور میرا ساتھی بنے؟“ اس پر کوئی بھی کھڑا نہ ہوا، یہ دیکھ کر - کہ اگرچہ میں سب سے چھوٹا ہوں - میں کھڑا ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیٹھ جانے کا حکم دیا اور تین مرتبہ اپنی بات کو دہرایا، اور تینوں مرتبہ اسی طرح ہوا کہ میں کھڑا ہو جاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بیٹھنے کا حکم دے دیتے، یہاں تک کہ تیسری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا (بیعت فرما لیا)۔
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے علی! جنت میں تمہارے لئے ایک خزانہ رکھا گیا ہے اور تم اس کے دو سینگوں والے ہو (مکمل مالک ہو)، اس لئے اگر کسی نا محرم پر نظر پڑ جائے تو دوبارہ اس پر نظر مت ڈالو، کیونکہ پہلی نظر تو تمہیں معاف ہو جائے گی لیکن دوسری معاف نہیں ہوگی۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن اسحاق مدلس وقد عنعن
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی شروع کی تو اپنے دست مبارک سے تیس اونٹ ذبح کئے اور مجھے حکم دیا تو باقی کے اونٹ میں نے ذبح کئے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دو اور گوشت بھی تقسیم کر دو، اور یہ کہ قصاب کو ان میں سے کوئی چیز مزدوری کے طور پر نہ دو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، محمد بن اسحاق مدلس وقد عنعنه، بينه و بين ابن ابي نجيح فيه رجل مبهم كما فى رواية برقم : 2359 ثم هو مخالف لما فى صحيح مسلم : 1218 من حديث جابر : ... فنحر ثلاثاً و ستين بيده ثم اعطي علياً، فنحر ما غبر.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، قال: سمعت عاصم بن ضمرة ، يقول: سالنا عليا رضي الله عنه عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من النهار، فقال: إنكم لا تطيقون ذلك، قلنا: من اطاق منا ذلك، قال" إذا كانت الشمس من هاهنا كهيئتها من هاهنا عند العصر صلى ركعتين، وإذا كانت الشمس من هاهنا كهيئتها من هاهنا عند الظهر صلى اربعا، ويصلي قبل الظهر اربعا، وبعدها ركعتين، وقبل العصر اربعا، ويفصل بين كل ركعتين بالتسليم على الملائكة المقربين والنبيين، ومن تبعهم من المؤمنين والمسلمين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ ضَمْرَةَ ، يَقُولُ: سَأَلْنَا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّهَارِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَا تُطِيقُونَ ذَلِكَ، قُلْنَا: مَنْ أَطَاقَ مِنَّا ذَلِكَ، قَالَ" إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَاهُنَا عِنْدَ الْعَصْرِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَإِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَاهُنَا عِنْدَ الظُّهْرِ صَلَّى أَرْبَعًا، وَيُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَقَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا، وَيَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَالنَّبِيِّينَ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ".
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ فرمایا: تم اس طرح پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتے، ہم نے عرض کیا: آپ بتا دیجئے، ہم اپنی طاقت اور استطاعت کے بقدر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے، فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے، جب سورج مشرق سے اس مقدار میں نکل آتا جتنا عصر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھتے۔ پھر تھوڑی دیر انتظار فرماتے اور جب سورج مشرق سے اتنی مقدار میں نکل آتا جتنا ظہر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر چار رکعت نماز پڑھتے، پھر سورج ڈھلنے کے بعد چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں ظہر کے بعد اور چار رکعتیں عصر سے پہلے پڑھتے تھے، اور ہر دو رکعتوں میں ملائکہ مقربین، انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی پیروی کرنے والے مسلمانوں اور مومنین کے لئے سلام کے کلمات کہتے (تشہد پڑھتے)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تمہارے معاملہ میں وہی ہوگا جیسا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا، یہودیوں نے ان سے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ پر گناہ کا بہتان باندھا، اور عیسائیوں نے ان سے اتنی محبت کی کہ انہیں اس مقام پر پہنچا دیا جو ان کا مقام و مرتبہ نہ تھا۔“ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک وہ محبت میں حد سے آگے بڑھ جانے والے جو مجھے اس مقام پر فائز کر دیں گے جو میرا مقام نہیں ہے، اور دوسرے وہ بغض رکھنے والے جو میری عداوت میں آ کر مجھ پر ایسے بہتان باندھیں گے جن کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحكم بن عبدالمك القرشي، ولجهالة ربيعة بن ناجذ
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو محمد سفيان بن وكيع بن الجراح بن مليح ، حدثنا خالد بن مخلد ، حدثنا ابو غيلان الشيباني ، عن الحكم بن عبد الملك ، عن الحارث بن حصيرة ، عن ابي صادق ، عن ربيعة بن ناجد ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن فيك من عيسى مثلا، ابغضته يهود حتى بهتوا امه، واحبته النصارى حتى انزلوه بالمنزل الذي ليس به"، الا وإنه يهلك في اثنان: محب يقرظني بما ليس في، ومبغض يحمله شنآني على ان يبهتني، الا إني لست بنبي، ولا يوحى إلي، ولكني اعمل بكتاب الله وسنة نبيه صلى الله عليه وسلم ما استطعت، فما امرتكم من طاعة الله، فحق عليكم طاعتي فيما احببتم وكرهتم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو مُحَمَّدٍ سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعِ بْنِ الْجَرَّاحِ بْنِ مَلِيحٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو غَيْلَانَ الشَّيْبَانِيُّ ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَصِيرَةَ ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ فِيكَ مِنْ عِيسَى مَثَلًا، أَبْغَضَتْهُ يَهُودُ حَتَّى بَهَتُوا أُمَّهُ، وَأَحَبَّتْهُ النَّصَارَى حَتَّى أَنْزَلُوهُ بِالْمَنْزِلِ الَّذِي لَيْسَ بِهِ"، أَلَا وَإِنَّهُ يَهْلِكُ فِيَّ اثْنَانِ: مُحِبٌّ يُقَرِّظُنِي بِمَا لَيْسَ فِيَّ، وَمُبْغِضٌ يَحْمِلُهُ شَنَآنِي عَلَى أَنْ يَبْهَتَنِي، أَلَا إِنِّي لَسْتُ بِنَبِيٍّ، وَلَا يُوحَى إِلَيَّ، وَلَكِنِّي أَعْمَلُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا اسْتَطَعْتُ، فَمَا أَمَرْتُكُمْ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ، فَحَقٌّ عَلَيْكُمْ طَاعَتِي فِيمَا أَحْبَبْتُمْ وَكَرِهْتُمْ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا: ”تمہارے معاملہ میں وہی ہوگا جیسا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا، یہودیوں نے ان سے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ پر گناہ کا بہتان باندھا، اور عیسائیوں نے ان سے اتنی محبت کی کہ انہیں اس مقام پر پہنچا دیا جو ان کا مقام و مرتبہ نہ تھا۔“ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک وہ محبت میں حد سے آگے بڑھ جانے والے جو مجھے اس مقام پر فائز کر دیں گے جو میرا مقام نہیں ہے، اور دوسرے وہ بغض رکھنے والے جو میری عداوت میں آ کر مجھ پر ایسے بہتان باندھیں جن کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خبردار! میں نبی نہیں ہوں اور نہ ہی مجھ پر وحی آتی ہے، میں تو حسب استطاعت صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہوں، اس لئے اللہ کی اطاعت کے حوالے سے میں تمہیں جو حکم دوں - خواہ وہ تمہیں اچھا لگے یا برا - اس میں تم پر میری اطاعت کرنا میرا حق بنتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني ابو خيثمة زهير بن حرب ، حدثنا القاسم بن مالك المزني ، عن عاصم بن كليب ، عن ابيه ، قال: كنت جالسا عند علي رضي الله عنه، فقال: إني دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وليس عنده احد إلا عائشة رضي الله عنها، فقال:" يا ابن ابي طالب، كيف انت وقوم كذا وكذا؟"، قال: قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" قوم يخرجون من المشرق يقرءون القرآن، لا يجاوز تراقيهم، يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية، فمنهم رجل مخدج اليد، كان يديه ثدي حبشية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنِّي دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ عِنْدَهُ أَحَدٌ إِلَّا عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ:" يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ، كَيْفَ أَنْتَ وَقَوْمَ كَذَا وَكَذَا؟"، قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" قَوْمٌ يَخْرُجُونَ مِنَ الْمَشْرِقِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَمِنْهُمْ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْيَدِ، كَأَنَّ يَدَيْهِ ثَدْيُ حَبَشِيَّةٍ".
کلیب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت سوائے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی اور نہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: ”اے ابن ابی طالب! تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب ایسی ایسی قوم سے تمہارا پالا پڑے گا؟“ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، فرمایا: ”ایک قوم ہوگی جو مشرق سے نکلے گی، وہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے آگے نہ جا سکے گا، وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ان میں ایک آدمی ایسا بھی ہوگا جس کا ہاتھ ناقص ہوگا، اور اس کے ہاتھ ایک حبشی عورت کی چھاتی کی طرح محسوس ہوں گے۔“
حدثنا عبد الله، حدثني إسماعيل ابو معمر ، حدثنا عبد الله بن إدريس ، حدثنا عاصم بن كليب ، عن ابيه ، قال: كنت جالسا عند علي رضي الله عنه، إذ دخل عليه رجل عليه ثياب السفر، فاستاذن على علي رضي الله عنه وهو يكلم الناس، فشغل عنه، فقال علي رضي الله عنه: إني دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده عائشة رضي الله عنها، فقال لي:" كيف انت وقوم كذا وكذا؟"، فقلت: الله ورسوله اعلم، ثم عاد، فقلت: الله ورسوله اعلم، قال: فقال:" قوم يخرجون من قبل المشرق يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، فيهم رجل مخدج اليد، كان يده ثدي حبشية"، انشدكم بالله هل اخبرتكم ان فيهم،...، فذكر الحديث بطوله.حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ عَلَيْهِ ثِيَابُ السَّفَرِ، فَاسْتَأْذَنَ عَلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يُكَلِّمُ النَّاسَ، فَشُغِلَ عَنْهُ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنِّي دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ لِي:" كَيْفَ أَنْتَ وَقَوْمَ كَذَا وَكَذَا؟"، فَقُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، ثُمَّ عَادَ، فَقُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَقَالَ:" قَوْمٌ يَخْرُجُونَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فِيهِمْ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْيَدِ، كَأَنَّ يَدَهُ ثَدْيُ حَبَشِيَّةٍ"، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ فِيهِمْ،...، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
کلیب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ایک آدمی ان کے پاس آیا جس پر سفر کے کپڑے تھے، اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے - جو کہ لوگوں سے گفتگو فرما رہے تھے - اندر آنے کی اجازت لی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس سے منہ پھیرنے کے بعد فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت سوائے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی اور نہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: ”اے ابن ابی طالب! تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب ایسی ایسی قوم سے تمہارا پالا پڑے گا؟“ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، دو مرتبہ اسی طرح ہوا، پھر فرمایا: ”ایک قوم ہوگی جو مشرق سے نکلے گی، وہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے آگے نہ جا سکے گا، وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ان میں ایک آدمی ایسا بھی ہوگا جس کا ہاتھ ناقص ہوگا، اور اس کے ہاتھ ایک حبشی عورت کی چھاتی کی طرح محسوس ہوں گے۔“ . . . . . اس کے بعد انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني سفيان بن وكيع بن الجراح ، حدثنا ابي ، عن ابيه ، عن ابي إسحاق ، عن ابي حية الوادعي ، وعمرو ذي مر ، قال: ابصرنا عليا رضي الله عنه" توضا فغسل يديه، ومضمض واستنشق، قال: وانا اشك في المضمضة والاستنشاق ثلاثا، ذكرها ام لا؟ وغسل وجهه ثلاثا، ويديه ثلاثا، كل واحدة منهما ثلاثا، ومسح براسه واذنيه، قال احدهما: ثم اخذ غرفة فمسح بها راسه، ثم قام فشرب فضل وضوئه، ثم قال: هكذا كان النبي صلى الله عليه وسلم يتوضا". (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعِ بْنِ الْجَرَّاحِ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي حَيَّةَ الْوَادِعِيِّ ، وعَمْرٍو ذِي مُرٍّ ، قَالَ: أَبْصَرْنَا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" تَوَضَّأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، وَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، قَالَ: وَأَنَا أَشُكُّ فِي الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ ثَلَاثًا، ذَكَرَهَا أَمْ لَا؟ وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَيَدَيْهِ ثَلَاثًا، كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ، قَالَ أَحَدُهُمَا: ثُمَّ أَخَذَ غَرْفَةً فَمَسَحَ بِهَا رَأْسَهُ، ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ فَضْلَ وَضُوئِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ".
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو سکھایا، چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے اپنے ہاتھوں کو دھویا، کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازوؤں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، پھر دوبارہ اپنے ہاتھوں کو برتن میں ڈالا اور اپنے ہاتھ کو اس کے نیچے ڈبو دیا، پھر اسے باہر نکال کر دوسرے ہاتھ پر مل لیا اور دونوں ہتھیلیوں سے سر کا ایک مرتبہ مسح کیا، اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے، پھر ہتھیلی سے چلو بنا کر تھوڑا سا پانی لیا اور اسے پی گئے، اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وإسناده ضعيف لضعف سفيان بن وكيع وقد توبع، و عمرو ذومر مجهول وتابعه هنا ابوحية الوادعي