(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني العباس بن الوليد النرسي ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا سعيد الجريري ، عن ابي الورد ، عن ابن اعبد ، قال: قال لي علي بن ابي طالب رضي الله عنه: يا ابن اعبد، هل تدري ما حق الطعام؟ قال: قلت: وما حقه يا ابن ابي طالب؟ قال: تقول: بسم الله، اللهم بارك لنا فيما رزقتنا، قال: وتدري ما شكره إذا فرغت؟ قال: قلت: وما شكره؟ قال: تقول: الحمد لله الذي اطعمنا وسقانا، ثم قال: الا اخبرك عني وعن فاطمة رضي الله عنها؟ كانت ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكانت من اكرم اهله عليه، وكانت زوجتي، فجرت بالرحى حتى اثر الرحى بيدها، واستقت بالقربة حتى اثرت القربة بنحرها، وقمت البيت حتى اغبرت ثيابها، واوقدت تحت القدر حتى دنست ثيابها، فاصابها من ذلك ضر، فقدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم بسبي، او خدم، قال: فقلت لها: انطلقي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاساليه خادما يقيك حر ما انت فيه، فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوجدت عنده خدما، او خداما، فرجعت ولم تساله...، فذكر الحديث، فقال:" الا ادلك على ما هو خير لك من خادم؟ إذا اويت إلى فراشك سبحي ثلاثا وثلاثين، واحمدي ثلاثا وثلاثين، وكبري اربعا وثلاثين"، قال: فاخرجت راسها، فقالت: رضيت عن الله ورسوله، مرتين، فذكر مثل حديث ابن علية، عن الجريري، او نحوه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ النَّرْسِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْوَرْدِ ، عَنِ ابْنِ أَعْبُدَ ، قَالَ: قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا ابْنَ أَعْبُدَ، هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الطَّعَامِ؟ قَالَ: قُلْتُ: وَمَا حَقُّهُ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ؟ قَالَ: تَقُولُ: بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيمَا رَزَقْتَنَا، قَالَ: وَتَدْرِي مَا شُكْرُهُ إِذَا فَرَغْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: وَمَا شُكْرُهُ؟ قَالَ: تَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا؟ كَانَتْ ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مِنْ أَكْرَمِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، وَكَانَتْ زَوْجَتِي، فَجَرَتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَ الرَّحَى بِيَدِهَا، وَأَسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ الْقِرْبَةُ بِنَحْرِهَا، وَقَمَّتْ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، وَأَوْقَدَتْ تَحْتَ الْقِدْرِ حَتَّى دَنِسَتْ ثِيَابُهَا، فَأَصَابَهَا مِنْ ذَلِكَ ضُرٌ، فَقُدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْيٍ، أَوْ خَدَمٍ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهَا: انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْأَلِيهِ خَادِمًا يَقِيكِ حَرَّ مَا أَنْتِ فِيهِ، فَانْطَلَقَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ خَدَمًا، أَوْ خُدَّامًا، فَرَجَعَتْ وَلَمْ تَسْأَلْهُ...، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ:" أَلَا أَدُلُّكِ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ؟ إِذَا أَوَيْتِ إِلَى فِرَاشِكِ سَبِّحِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبِّرِي أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ"، قَالَ: فَأَخْرَجَتْ رَأْسَهَا، فَقَالَتْ: رَضِيتُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، مَرَّتَيْنِ، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ عُلَيَّةَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، أَوْ نَحْوَهُ".
ابن اعبد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: ابن اعبد! تمہیں معلوم ہے کہ کھانے کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ ہی بتائیے کہ اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا: کھانے کا حق یہ ہے کہ اس کے آغاز میں یوں کہو: «بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْمَا رَزَقْتَنَا»”اللہ کے نام سے شروع کر رہا ہوں، اے اللہ! تو نے ہمیں جو عطاء فرما رکھا ہے اس میں برکت پیدا فرما۔“ پھر مجھ سے فرمایا کہ کھانے سے فراغت کے بعد اس کا شکر کیا ہے، تمہیں معلوم ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ ہی بتایئے کہ اس کا شکر کیا ہے؟ فرمایا: تم یوں کہو: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا»”اس اللہ کا شکر جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا۔“ پھر فرمایا کہ کیا میں تمہیں اپنی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایک بات نہ بتاؤں؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی بھی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں میں تمام بچوں سے زیادہ قابل عزت بھی تھیں، اور میری رفیقہ حیات بھی تھیں، انہوں نے اتنی چکی چلائی کہ ان کے ہاتھوں میں اس کے نشان پڑ گئے، اور اتنے مشکیزے ڈھوئے کہ ان کی گردن پر اس کے نشان پڑ گئے، گھر کو اتنا سنوارا کہ اپنے کپڑے غبار آلود ہو گئے، ہانڈی کے نیچے اتنی آگ جلائی کہ کپڑے بیکار ہو گئے جس سے انہیں جسمانی طور پر شدید اذیت ہوئی۔ اتفاقا انہی دنوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی یا خادم آئے ہوئے تھے، میں نے ان سے کہا کہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادم کی درخواست کرو تاکہ اس گرمی سے تو بچ جاؤ، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، انہوں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یا کئی خادم موجود ہیں، لیکن وہ اپنی درخواست پیش نہ کر سکیں اور واپس آگئیں۔ اس کے بعد راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذکر کیا کہ ”کیا میں تمہیں خادم سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ جب تم اپنے بستر پر لیٹو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔“ اس پر انہوں نے چادر سے اپنا سر نکال کر کہا کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہوں، پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن أعبد، وأسمه علي