(حديث موقوف) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة ، قال: جاء ناس من اهل الشام إلى عمر، فقالوا: إنا قد اصبنا اموالا وخيلا ورقيقا، نحب ان يكون لنا فيها زكاة وطهور، قال: ما فعله صاحباي قبلي فافعله، واستشار اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، وفيهم علي، فقال علي :" هو حسن، إن لم يكن جزية راتبة يؤخذون بها من بعدك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ إِلَى عُمَرَ، فَقَالُوا: إِنَّا قَدْ أَصَبْنَا أَمْوَالًا وَخَيْلًا وَرَقِيقًا، نُحِبُّ أَنْ يَكُونَ لَنَا فِيهَا زَكَاةٌ وَطَهُورٌ، قَالَ: مَا فَعَلَهُ صَاحِبَايَ قَبْلِي فَأَفْعَلَهُ، وَاسْتَشَارَ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِمْ عَلِيٌّ، فَقَالَ عَلِيٌّ :" هُوَ حَسَنٌ، إِنْ لَمْ يَكُنْ جِزْيَةً رَاتِبَةً يُؤْخَذُونَ بِهَا مِنْ بَعْدِكَ".
حارثہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ شام کے کچھ لوگ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمیں کچھ مال و دولت، گھوڑے اور غلام ملے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ ہمارے لئے اس میں پاکیزگی اور تزکیہ نفس کا سامان پیدا ہو جائے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے میرے دو پیشرو جس طرح کرتے تھے میں بھی اسی طرح کروں گا، پھر انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا، ان میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، وہ فرمانے لگے کہ یہ مال حلال ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے ٹیکس نہ بنا لیں کہ بعد میں بھی لوگوں سے وصول کرتے رہیں۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن ابي وائل : ان الصبي بن معبد كان نصرانيا تغلبيا اعرابيا فاسلم، فسال: اي العمل افضل؟ فقيل له: الجهاد في سبيل الله عز وجل، فاراد ان يجاهد، فقيل له: حججت؟ فقال: لا، فقيل: حج واعتمر، ثم جاهد، فانطلق، حتى إذا كان بالحوائط اهل بهما جميعا، فرآه زيد بن صوحان، وسلمان بن ربيعة، فقالا: لهو اضل من جمله، او: ما هو باهدى من ناقته، فانطلق إلى عمر ، فاخبره بقولهما، فقال:" هديت لسنة نبيك صلى الله عليه وسلم"، قال الحكم: فقلت لابي وائل: حدثك الصبي؟ فقال: نعم.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ : أَنَّ الصُّبَيَّ بْنَ مَعْبَدٍ كَانَ نَصْرَانِيًّا تَغْلِبِيًّا أَعْرَابِيًّا فَأَسْلَمَ، فَسَأَلَ: أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقِيلَ لَهُ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَرَادَ أَنْ يُجَاهِدَ، فَقِيلَ لَهُ: حَجَجْتَ؟ فَقَالَ: لَا، فَقِيلَ: حُجَّ وَاعْتَمِرْ، ثُمَّ جَاهِدْ، فَانْطَلَقَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْحَوَائطِ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا، فَرَآهُ زَيْدُ بْنُ صُوحَانَ، وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ، فَقَالَا: لَهُوَ أَضَلُّ مِنْ جَمَلِهِ، أَوْ: مَا هُوَ بِأَهْدَى مِنْ نَاقَتِهِ، فَانْطَلَقَ إِلَى عُمَرَ ، فَأَخْبَرَهُ بِقَوْلِهِمَا، فَقَالَ:" هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ الْحَكَمُ: فَقُلْتُ لِأَبِي وَائِلٍ: حَدَّثَكَ الصُّبَيُّ؟ فَقَالَ: نَعَمْ.
سیدنا ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک دیہاتی قبیلہ بنو تغلب کے عیسائی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا، انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ لوگوں نے بتایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، چنانچہ انہوں نے جہاد کا ارادہ کر لیا، اسی اثناء میں کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے حج کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں! اس نے کہا: آپ پہلے حج اور عمرہ کر لیں، پھر جہاد میں شرکت کریں۔ چنانچہ وہ حج کی نیت سے روانہ ہو گئے اور میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر رہنمائی نصیب ہو گئی۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے ابو وائل سے پوچھا کہ یہ روایت آپ کو خود صبی نے سنائی ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، قال: سمعت عمرو بن ميمون ، قال: صلى بنا عمر بجمع الصبح، ثم وقف، وقال:" إن المشركين كانوا لا يفيضون حتى تطلع الشمس، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم خالفهم، ثم افاض قبل ان تطلع الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا عُمَرُ بِجَمْعٍ الصُّبْحَ، ثُمَّ وَقَفَ، وَقَالَ:" إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ، ثُمَّ أَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ہمیں مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھائی، پھر وقوف کیا اور فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا طریقہ اختیار نہیں کیا، اس کے بعد سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہو گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، قال: حدثنا عاصم بن كليب ، قال: قال ابي : فحدثت به ابن عباس رضي الله عنه، قال: وما اعجبك من ذلك؟ كان عمر إذا دعا الاشياخ من اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم دعاني معهم، فقال: لا تتكلم حتى يتكلموا، قال: فدعانا ذات يوم، او ذات ليلة، فقال:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في ليلة القدر ما قد علمتم، فالتمسوها في العشر الاواخر وترا، ففي اي الوتر ترونها؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ ، قَالَ: قَالَ أَبِي : فَحَدَّثَتُ بِهِ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ، قَالَ: وَمَا أَعْجَبَكَ مِنْ ذَلِكَ؟ كَانَ عُمَرُ إِذَا دَعَا الْأَشْيَاخَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي مَعَهُمْ، فَقَالَ: لَا تَتَكَلَّمْ حَتَّى يَتَكَلَّمُوا، قَالَ: فَدَعَانَا ذَاتَ يَوْمٍ، أَوْ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وِتْرًا، فَفِي أَيِّ الْوِتْرِ تَرَوْنَهَا؟".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جب بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلاتے تو مجھے بھی ان کے ساتھ بلا لیتے اور مجھ سے فرماتے کہ جب تک یہ حضرات بات نہ کر لیں، تم کوئی بات نہ کرنا۔ اسی طرح ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں بلایا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، وہ آپ کے علم میں بھی ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو، یہ بتائیے کہ آپ کو آخری عشرے کی کس طاق رات میں شب قدر معلوم ہوتی ہے؟ (ظاہر ہے کہ ہر صحابی کا جواب مختلف تھا، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو میری رائے اچھی معلوم ہوئی)۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت عاصم بن عمرو البجلي يحدث، عن رجل من القوم الذين سالوا عمر بن الخطاب ، فقالوا له: إنما اتيناك نسالك عن ثلاث: عن صلاة الرجل في بيته تطوعا، وعن الغسل من الجنابة، وعن الرجل ما يصلح له من امراته إذا كانت حائضا، فقال: اسحار انتم؟! لقد سالتموني عن شيء ما سالني عنه احد منذ سالت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" صلاة الرجل في بيته تطوعا نور، فمن شاء نور بيته"، وقال في الغسل من الجنابة:" يغسل فرجه، ثم يتوضا، ثم يفيض على راسه ثلاثا"، وقال في الحائض:" له ما فوق الإزار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ عَمْرٍو الْبَجَلِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ سَأَلُوا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، فَقَالُوا لَهُ: إِنَّمَا أَتَيْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ: عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ تَطَوُّعًا، وَعَنِ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، وَعَنِ الرَّجُلِ مَا يَصْلُحُ لَهُ مِنَ امْرَأَتِهِ إِذَا كَانَتْ حَائِضًا، فَقَالَ: أَسُحَّارٌ أَنْتُمْ؟! لَقَدْ سَأَلْتُمُونِي عَنْ شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ تَطَوُّعًا نُورٌ، فَمَنْ شَاءَ نَوَّرَ بَيْتَهُ"، وَقَالَ فِي الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ:" يَغْسِلُ فَرْجَهُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثًا"، وَقَالَ فِي الْحَائِضِ:" لَهُ مَا فَوْقَ الْإِزَارِ".
ایک مرتبہ کچھ لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ ہم آپ سے تین سوال پوچھنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ گھر میں نفلی نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ غسل جنابت کا کیا طریقہ ہے؟ اگر عورت ”ایام“ میں ہو تو مرد کے لئے کہاں تک اجازت ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ لوگ بڑے عقلمند محسوس ہوتے ہیں، میں نے ان چیزوں سے متعلق جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا، اس وقت سے لے کر آج تک مجھ سے کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا جو آپ لوگوں نے پوچھا ہے اور فرمایا کہ انسان گھر میں جو نفلی نماز پڑھتا ہے تو وہ نور ہے اس لئے جو چاہے اپنے گھر کو منور کر لے، غسل جنابت کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا پہلے اپنی شرمگاہ کو دھوئے، پھر وضو کرے اور پھر اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈال کر حسب عادت غسل کرے اور ایام والی عورت کے متعلق فرمایا کہ ازار سے اوپر کا جتنا حصہ ہے، مرد اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل الذى روى عنه عاصم. وقوله : يغسل فرجه ثم يتوضأ .... له ما فوق الازار صحيح بالشواهد
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ابن لهيعة ، عن ابي النضر ، عن ابي سلمة ، عن ابن عمر ، انه قال: رايت سعد بن ابي وقاص يمسح على خفيه بالعراق حين يتوضا، فانكرت ذلك عليه، قال: فلما اجتمعنا عند عمر بن الخطاب ، قال لي: سل اباك عما انكرت علي من مسح الخفين، قال: فذكرت ذلك له، فقال: إذا حدثك سعد بشيء، فلا ترد عليه، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمسح على الخفين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ بِالْعِرَاقِ حِينَ يَتَوَضَّأُ، فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَلَمَّا اجْتَمَعْنَا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ لِي: سَلْ أَبَاكَ عَمَّا أَنْكَرْتَ عَلَيَّ مِنْ مَسْحِ الْخُفَّيْنِ، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِذَا حَدَّثَكَ سَعْدٌ بِشَيْءٍ، فَلَا تَرُدَّ عَلَيْهِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے عراق میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے تو مجھے اس پر بڑا تعجب اور اچنبھا ہوا، بعد میں جب ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ایک مجلس میں اکٹھے ہوئے تو سعد رضی اللہ عنہ نے مجھے سے فرمایا کہ آپ کو «مسح على الخفين» کے بارے مجھ پر جو تعجب ہو رہا تھا، اس کے متعلق اپنے والد صاحب سے پوچھ لیجئے، میں نے ان کے سامنے سارا واقعہ ذکر کر دیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں تو آپ اس کی تردید مت کیا کریں، کیونکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مورزوں پر مسح فرماتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح فرمایا ہے، بعد میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: یہ بات صحیح ہے، جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں تو آپ اس کے متعلق کسی دوسرے سے نہ پوچھا کریں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا همام بن يحيى ، قال: حدثنا قتادة ، عن سالم بن ابي الجعد الغطفاني ، عن معدان بن ابي طلحة اليعمري : ان عمر بن الخطاب قام على المنبر يوم الجمعة، فحمد الله واثنى عليه، ثم ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وذكر ابا بكر، ثم قال: رايت رؤيا لا اراها إلا لحضور اجلي، رايت كان ديكا نقرني نقرتين، قال: وذكر لي انه ديك احمر، فقصصتها على اسماء بنت عميس امراة ابي بكر رضي الله عنهما، فقالت: يقتلك رجل من العجم، قال: وإن الناس يامرونني ان استخلف، وإن الله لم يكن ليضيع دينه، وخلافته التي بعث بها نبيه صلى الله عليه وسلم، وإن يعجل بي امر فإن الشورى في هؤلاء الستة الذين مات نبي الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، فمن بايعتم منهم، فاسمعوا له واطيعوا، وإني اعلم ان اناسا سيطعنون في هذا الامر، انا قاتلتهم بيدي هذه على الإسلام، اولئك اعداء الله الكفار الضلال، وايم الله، ما اترك فيما عهد إلي ربي فاستخلفني شيئا اهم إلي من الكلالة، وايم الله، ما اغلظ لي نبي الله صلى الله عليه وسلم في شيء منذ صحبته اشد ما اغلظ لي في شان الكلالة، حتى طعن بإصبعه في صدري، وقال:" تكفيك آية الصيف، التي نزلت في آخر سورة النساء، وإني إن اعش فساقضي فيها بقضاء يعلمه من يقرا ومن لا يقرا" وإني اشهد الله على امراء الامصار، إني إنما بعثتهم ليعلموا الناس دينهم، ويبينوا لهم سنة نبيهم صلى الله عليه وسلم، ويرفعوا إلي ما عمي عليهم، ثم إنكم ايها الناس تاكلون من شجرتين لا اراهما إلا خبيثتين: هذا الثوم والبصل، وايم الله،" لقد كنت ارى نبي الله صلى الله عليه وسلم يجد ريحهما من الرجل، فيامر به فيؤخذ بيده، فيخرج به من المسجد حتى يؤتى به البقيع"، فمن اكلهما لا بد، فليمتهما طبخا. قال: فخطب الناس يوم الجمعة، واصيب يوم الاربعاء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رُؤْيَا لَا أُرَاهَا إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي، رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ، قَالَ: وَذُكَرَ لِي أَنَّهُ دِيكٌ أَحْمَرُ، فَقَصَصْتُهَا عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ امْرَأَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَتْ: يَقْتُلُكَ رَجُلٌ مِنَ الْعَجَمِ، قَالَ: وَإِنَّ النَّاسَ يَأْمُرُونَنِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ، وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُنْ لِيُضَيِّعَ دِينَهُ، وَخِلَافَتَهُ الَّتِي بَعَثَ بِهَا نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ يَعْجَلْ بِي أَمْرٌ فَإِنَّ الشُّورَى فِي هَؤُلَاءِ السِّتَّةِ الَّذِينَ مَاتَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، فَمَنْ بَايَعْتُمْ مِنْهُمْ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، وَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّ أُنَاسًا سَيَطْعَنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ، أَنَا قَاتَلْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، أُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكُفَّارُ الضُّلَّالُ، وَايْمُ اللَّهِ، مَا أَتْرُكُ فِيمَا عَهِدَ إِلَيَّ رَبِّي فَاسْتَخْلَفَنِي شَيْئًا أَهَمَّ إِلَيَّ مِنَ الْكَلَالَةِ، وَايْمُ اللَّهِ، مَا أَغْلَظَ لِي نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مُنْذُ صَحِبْتُهُ أَشَدَّ مَا أَغْلَظَ لِي فِي شَأْنِ الْكَلَالَةِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ:" تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ، الَّتِي نَزَلَتْ فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ، وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ فَسَأَقْضِي فِيهَا بِقَضَاءٍ يَعْلَمُهُ مَنْ يَقْرَأُ وَمَنْ لَا يَقْرَأُ" وَإِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ، إِنِّي إِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ لِيُعَلِّمُوا النَّاسَ دِينَهُمْ، وَيُبَيِّنُوا لَهُمْ سُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَرْفَعُوا إِلَيَّ مَا عُمِّيَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ: هَذَا الثُّومُ وَالْبَصَلُ، وَايْمُ اللَّهِ،" لَقَدْ كُنْتُ أَرَى نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجِدُ رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ، فَيَأْمُرُ بِهِ فَيُؤْخَذُ بِيَدِهِ، فَيُخْرَجُ بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يُؤْتَى بِهِ الْبَقِيعَ"، فَمَنْ أَكَلَهُمَا لَا بُدَّ، فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا. قَالَ: فَخَطَبَ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَأُصِيبَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ.
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، اللہ کی حمد و ثناء بیان کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی، پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آ گیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ مرغ سرخ رنگ کا تھا، میں نے یہ خواب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ آپ کو ایک عجمی شخص شہید کر دے گا۔ پھر فرمایا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کر دوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ نہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہو گیا تو میں مجلس شوریٰ ان چھ افراد کی مقرر کر رہا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے، جب تم ان میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو تو ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کر چکا ہوں، یہ لوگ اللہ کے دشمن، کافر اور گمراہ ہیں، اللہ کی قسم! میں نے اپنے پیچھے کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی نہیں چھوڑا جس کا مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا ہو اور اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی وہ آخری آیت ”جو گرمی میں نازل ہوئی تھی“ کافی ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلہ کا ایساحل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آ جائے، اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں جو امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ لوگو! تم دو ایسے درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتاہوں ایک لہسن اور دوسرا پیاز (کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے) بخدا! میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بو مار دے۔ راوی کہتے ہیں کہ جمعہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور بدھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہو گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني نافع مولى عبد الله بن عمر، عن عبد الله بن عمر ، قال: خرجت انا والزبير، والمقداد بن الاسود إلى اموالنا بخيبر نتعاهدها، فلما قدمناها تفرقنا في اموالنا، قال: فعدي علي تحت الليل، وانا نائم على فراشي، ففدعت يداي من مرفقي، فلما اصبحت استصرخ علي صاحباي، فاتياني، فسالاني عمن صنع هذا بك؟ قلت: لا ادري، قال: فاصلحا من يدي، ثم قدموا بي على عمر ، فقال: هذا عمل يهود، ثم قام في الناس خطيبا، فقال:" ايها الناس، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عامل يهود خيبر على انا نخرجهم إذا شئنا، وقد عدوا على عبد الله بن عمر، ففدعوا يديه كما بلغكم، مع عدوتهم على الانصار قبله، لا نشك انهم اصحابهم، ليس لنا هناك عدو غيرهم، فمن كان له مال بخيبر فليلحق به، فإني مخرج يهود، فاخرجهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَالزُّبَيْرُ، والْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ إِلَى أَمْوَالِنَا بِخَيْبَرَ نَتَعَاهَدُهَا، فَلَمَّا قَدِمْنَاهَا تَفَرَّقْنَا فِي أَمْوَالِنَا، قَالَ: فَعُدِيَ عَلَيَّ تَحْتَ اللَّيْلِ، وَأَنَا نَائِمٌ عَلَى فِرَاشِي، فَفُدِعَتْ يَدَايَ مِنْ مِرْفَقِي، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ اسْتُصْرِخَ عَلَيَّ صَاحِبَايَ، فَأَتَيَانِي، فَسَأَلَانِي عَمَّنْ صَنَعَ هَذَا بِكَ؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: فَأَصْلَحَا مِنْ يَدَيَّ، ثُمَّ قَدِمُوا بِي عَلَى عُمَرَ ، فَقَالَ: هَذَا عَمَلُ يَهُودَ، ثُمَّ قَامَ فِي النَّاسِ خَطِيبًا، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَنَّا نُخْرِجُهُمْ إِذَا شِئْنَا، وَقَدْ عَدَوْا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَفَدَعُوا يَدَيْهِ كَمَا بَلَغَكُمْ، مَعَ عَدْوَتِهِمْ عَلَى الْأَنْصَارِ قَبْلَهُ، لَا نَشُكُّ أَنَّهُمْ أَصْحَابُهُمْ، لَيْسَ لَنَا هُنَاكَ عَدُوٌّ غَيْرَهُمْ، فَمَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ بِخَيْبَرَ فَلْيَلْحَقْ بِهِ، فَإِنِّي مُخْرِجٌ يَهُودَ، فَأَخْرَجَهُمْ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے ساتھ خیبر میں اپنے اپنے مال کی دیکھ بھال کے سلسلے میں گیا ہوا تھا، جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو ہر ایک اپنی اپنی زمین کی طرف چلا گیا، میں رات کے وقت اپنے بستر پر سو رہا تھا کہ مجھ پر کسی نے حملہ کر دیا، میرے دونوں ہاتھ اپنی کہنیوں سے ہل گئے، جب صبح ہوئی میرے دونوں ساتھیوں کو اس حادثے کی خبر دی گئی، وہ آئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ کس نے کیا ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے کچھ خبر نہیں ہے۔ انہوں نے میرے ہاتھ کی ہڈی کو صحیح جگہ پر بٹھایا اور مجھے لے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے، انہوں نے فرمایا: یہ یہودیوں کی ہی کارستانی ہے، اس کے بعد وہ لوگوں کے سامنے خطاب کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ معاملہ اس شرط پر کیا تھا کہ ہم جب انہیں چاہیں گے، نکال سکیں گے، اب انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پر حملہ کیا ہے اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ انہوں نے اس کے ہاتھوں کے جوڑ ہلا دئیے ہیں، جب کہ اس سے قبل وہ ایک انصاری کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کر چکے ہیں، ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان ہی کے ساتھی ہیں، ہمارا ان کے علاوہ یہاں کوئی دشمن نہیں ہے، اس لئے خیبر میں جس شخص کا بھی کوئی مال موجود ہو، وہ وہاں چلاجائے کیونکہ اب میں یہودیوں کو وہاں سے نکالنے والا ہوں، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں خیبر سے بےدخل کر کے نکال دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، وحسين بن محمد ، قالا: حدثنا شيبان ، عن يحيى ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة : ان عمر بن الخطاب بينا هو يخطب يوم الجمعة، إذ جاء رجل، فقال عمر : لم تحتسبون عن الصلاة؟ فقال الرجل: ما هو إلا ان سمعت النداء، فتوضات، فقال: ايضا! اولم تسمعوا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا راح احدكم إلى الجمعة، فليغتسل"؟.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، وَحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فقال عمر : لم تحتسبون عَنِ الصَّلَاةِ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ، فَتَوَضَّأْتُ، فَقَالَ: أَيْضًا! أَوَلَمْ تَسْمَعُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا رَاحَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَلْيَغْتَسِلْ"؟.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ نماز کے لئے آنے میں اتنی تاخیر؟ انہوں نے جواباً کہا کہ میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آ گیا ہوں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا، کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے جائے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، قال: حدثنا زهير ، قال: حدثنا عاصم الاحول ، عن ابي عثمان ، قال: جاءنا كتاب عمر ونحن باذربيجان: يا عتبة بن فرقد، وإياكم والتنعم، وزي اهل الشرك، ولبوس الحرير، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهانا عن لبوس الحرير، وقال:" إلا هكذا"، ورفع لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إصبعيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ: جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ وَنَحْنُ بِأَذْرَبِيجَانَ: يَا عُتْبَةَ بْنَ فَرْقَدٍ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَعُّمَ، وَزِيَّ أَهْلِ الشِّرْكِ، وَلَبُوسَ الْحَرِيرِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَانَا عَنْ لَبُوسِ الْحَرِيرِ، وَقَالَ:" إِلَّا هَكَذَا"، وَرَفَعَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِصْبَعَيْهِ".
ابوعثمان کہتے ہیں کہ ہم آذربائیجان میں تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک خط آ گیا، جس میں لکھا تھا: اے عتبہ بن فرقد! عیش پرستی، ریشمی لباس اور مشرکین کے طریقوں کو اختیار کرنے سے اپنے آپ کو بچاتے رہنا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ریشمی لباس پہننے سے منع فرمایا ہے سوائے اتنی مقدار کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی بلند کر کے دکھائی۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، قال: حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا ابو الاسود ، انه سمع محمد بن عبد الرحمن ابن لبيبة يحدث، عن ابي سنان الدؤلي : انه دخل على عمر بن الخطاب، وعنده نفر من المهاجرين الاولين، فارسل عمر إلى سفط اتي به من قلعة من العراق، فكان فيه خاتم، فاخذه بعض بنيه، فادخله في فيه، فانتزعه عمر منه، ثم بكى عمر، فقال له من عنده: لم تبكي وقد فتح الله لك، واظهرك على عدوك، واقر عينك؟ فقال عمر : إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا تفتح الدنيا على احد إلا القى الله عز وجل بينهم العداوة والبغضاء إلى يوم القيامة"، وانا اشفق من ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ لَبِيبَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ الدُّؤَلِيِّ : أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَعِنْدَهُ نَفَرٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ، فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى سَفَطٍ أُتِيَ بِهِ مِنْ قَلْعَةٍ مِنَ الْعِرَاقِ، فَكَانَ فِيهِ خَاتَمٌ، فَأَخَذَهُ بَعْضُ بَنِيهِ، فَأَدْخَلَهُ فِي فِيهِ، فَانْتَزَعَهُ عُمَرُ مِنْهُ، ثُمَّ بَكَى عُمَرُ، فَقَالَ لَهُ مَنْ عِنْدَهُ: لِمَ تَبْكِي وَقَدْ فَتَحَ اللَّهُ لَكَ، وَأَظْهَرَكَ عَلَى عَدُوِّكَ، وَأَقَرَّ عَيْنَكَ؟ فَقَالَ عُمَرُ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا تُفْتَحُ الدُّنْيَا عَلَى أَحَدٍ إِلَّا أَلْقَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَيْنَهُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"، وَأَنَا أُشْفِقُ مِنْ ذَلِكَ.
ایک مرتبہ ابوسنان دؤلی رحمہ اللہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت مہاجرین اولین کی ایک جماعت ان کی خدمت میں موجود اور حاضر تھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بکس منگوایا جو ان کے پاس عراق سے لایا گیا تھا، جب اسے کھولا گیا تو اس میں سے ایک انگوٹھی نکلی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے کسی بیٹے پوتے نے وہ لے کر اپنے منہ میں ڈال لی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہ واپس لے لی اور رونے لگے۔ حاضرین نے پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی فتوحات عطاء فرمائیں، دشمن پر آپ کو غلبہ عطاء فرمایا اور آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا؟ فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ”جس شخص پر اللہ دنیا کا دروازہ کھول دیتا ہے، وہاں آپس میں قیامت تک کے لئے دشمنیاں اور نفرتیں ڈال دیتا ہے“، مجھے اسی کا خطرہ ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، و محمد بن عبدالرحمن بن لبيبة
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني نافع ، عن عبد الله بن عمر ، عن ابيه ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف يصنع احدنا إذا هو اجنب، ثم اراد ان ينام قبل ان يغتسل؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليتوضا وضوءه للصلاة، ثم لينم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ يَصْنَعُ أَحَدُنَا إِذَا هُوَ أَجْنَبَ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يَنَامَ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ لِيَنَمْ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر ہم میں سے کوئی شخص ناپاک ہو جائے اور وہ غسل کرنے سے پہلے سونا چاہے تو کیا کرے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز والا وضو کر کے سو جائے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، عن عبد الله بن عباس ، قال: سمعت عمر بن الخطاب ، يقول: لما توفي عبد الله بن ابي، دعي رسول الله صلى الله عليه وسلم للصلاة عليه، فقام إليه، فلما وقف عليه يريد الصلاة تحولت حتى قمت في صدره، فقلت: يا رسول الله، اعلى عدو الله عبد الله بن ابي القائل يوم كذا وكذا، يعدد ايامه، قال: ورسول الله صلى الله عليه وسلم يتبسم، حتى إذا اكثرت عليه، قال:" اخر عني يا عمر، إني خيرت فاخترت، وقد قيل: استغفر لهم او لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم سورة التوبة آية 80، لو اعلم اني إن زدت على السبعين غفر له لزدت"، قال: ثم صلى عليه، ومشى معه، فقام على قبره حتى فرغ منه، قال: فعجب لي وجراءتي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، والله ورسوله اعلم، قال: فوالله ما كان إلا يسيرا حتى نزلت هاتان الآيتان: ولا تصل على احد منهم مات ابدا ولا تقم على قبره إنهم كفروا بالله ورسوله وماتوا وهم فاسقون سورة التوبة آية 84، فما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعده على منافق، ولا قام على قبره، حتى قبضه الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ عَلَيْهِ، فَقَامَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ تَحَوَّلْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي صَدْرِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعَلَى عَدُوِّ اللَّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ الْقَائِلِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، يُعَدِّدُ أَيَّامَهُ، قَالَ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَسَّمُ، حَتَّى إِذَا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ، قَالَ:" أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ، إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ، وَقَدْ قِيلَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ سورة التوبة آية 80، لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ"، قَالَ: ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهِ، وَمَشَى مَعَهُ، فَقَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى فُرِغَ مِنْهُ، قَالَ: فَعَجَبٌ لِي وَجَرَاءَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا كَانَ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ هَاتَانِ الْآيَتَانِ: وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ سورة التوبة آية 84، فَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ عَلَى مُنَافِقٍ، وَلَا قَامَ عَلَى قَبْرِهِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا انتقال ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے بلایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے پاس جا کر نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں اپنی جگہ سے گھوم کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس دشمن اللہ عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جس نے فلاں دن یہ کہا تھا اور فلاں دن یہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی بکواسات گنوانا شروع کر دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے لیکن جب میں برابر اصرار کرتا ہی رہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”عمر! پیچھے ہٹ جاؤ، مجھے اس بارے اختیار دیا گیا ہے اور میں نے ایک شق کو ترجیح دے لی ہے، مجھ سے کہا گیا ہے کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں دونوں صورتیں برابر ہیں، اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لئے بخشش کی درخواست کریں گے تب بھی اللہ ان کی بخشش نہیں فرمائے گا، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے پر اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں ستر سے زائد مرتبہ اس کے لئے استغفار کرتا۔“ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، جنازے کے ساتھ گئے اور اس کی قبر پر کھڑے رہے تاآنکہ وہاں سے فراغت ہو گئی، مجھے خود پر اور اپنی جرات پر تعجب ہو رہا تھا، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ بہتر جانتے تھے، بخدا! ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ مندرجہ ذیل دو آیتیں نازل ہو گئیں۔ «وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ»[9-التوبة:84]”ان منافقین میں سے اگر کوئی مر جائے تو آپ کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں اس کی قبر پہ کھڑے نہ ہوں، بیشک یہ لوگ تو اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان ہیں اور فسق کی حالت میں مرے ہیں۔“ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی اور اسی طرح منافقین کی قبروں پر بھی کبھی نہیں کھڑے ہوئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، كما حدثني عنه نافع مولاه، قال: كان عبد الله بن عمر ، يقول:" إذا لم يكن للرجل إلا ثوب واحد، فلياتزر به ثم ليصل، فإني سمعت عمر بن الخطاب يقول ذلك، ويقول:" لا تلتحفوا بالثوب إذا كان وحده كما تفعل اليهود"، قال نافع: ولو قلت لكم إنه اسند ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لرجوت ان لا اكون كذبت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، كَمَا حَدَّثَنِي عَنْهُ نَافِعٌ مَوْلَاهُ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، يَقُولُ:" إِذَا لَمْ يَكُنْ لِلرَّجُلِ إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ، فَلْيَأْتَزِرْ بِهِ ثُمَّ لِيُصَلِّ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ ذَلِكَ، وَيَقُولُ:" لَا تَلْتَحِفُوا بِالثَّوْبِ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ كَمَا تَفْعَلُ الْيَهُودُ"، قَالَ نَافِعٌ: وَلَوْ قُلْتُ لَكُمْ إِنَّهُ أَسْنَدَ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَرَجَوْتُ أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُ.
نافع کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے اگر کسی آدمی کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہو، وہ اسی کو تہبند کے طور پر باندھ لے اور نماز پڑھ لے، کیونکہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے اور وہ یہ بھی فرماتے تھے کہ اگر ایک ہی کپڑا ہو تو اسے لحاف کی طرح مت لپیٹے جیسے یہودی کرتے ہیں، نافع کہتے ہیں کہ اگر میں یہ کہوں کہ انہوں نے اس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے تو امید ہے کہ میں جھوٹا نہیں ہوں گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا مؤمل ، حدثنا حماد ، قال: حدثنا زياد بن مخراق ، عن شهر ، عن عقبة بن عامر ، قال: حدثني عمر : انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من مات يؤمن بالله واليوم الآخر، قيل له: ادخل الجنة من اي ابواب الجنة الثمانية شئت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ مِخْرَاقٍ ، عَنْ شَهْرٍ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ : أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ مَاتَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، قِيلَ لَهُ: ادْخُلْ الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شِئْتَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے آٹھ میں سے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جاؤ۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، مؤمل سيء الحفظ تابعه الطيالسي، وشهر وثقه جماعة والأكثر على تضعيفه
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، قال: اخبرنا جعفر يعني الاحمر ، عن مطرف ، عن الحكم ، عن مجاهد ، قال: حذف رجل ابنا له بسيف، فقتله، فرفع إلى عمر ، فقال: لولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا يقاد الوالد من ولده"، لقتلتك قبل ان تبرح.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَعْفَرٌ يَعْنِي الْأَحْمَرَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: حَذَفَ رَجُلٌ ابْنًا لَهُ بِسَيْفٍ، فَقَتَلَهُ، فَرُفِعَ إِلَى عُمَرَ ، فَقَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يُقَادُ الْوَالِدُ مِنْ وَلَدِهِ"، لَقَتَلْتُكَ قَبْلَ أَنْ تَبْرَحَ.
مجاہد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے تلوار کے وار کر کے اپنے بیٹے کو مار ڈالا، اسے پکڑ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ والد سے اولاد کا قصاص نہیں لیا جائے گا تو میں تجھے بھی قتل کر دیتا اور تو یہاں سے اٹھنے بھی نہ پاتا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا الإسناد فيه انقطاع، مجاهد لم يدرك عمر بن الخطاب
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی نظریں حجر اسود پر جما رکھی ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں بخدا! اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر آپ نے اسے بوسہ دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، قال: اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، قال: اخبرني السائب بن يزيد ابن اخت نمر، ان حويطب بن عبد العزى اخبره، ان عبد الله بن السعدي اخبره: انه قدم على عمر بن الخطاب في خلافته، فقال له عمر: الم احدث انك تلي من اعمال الناس اعمالا، فإذا اعطيت العمالة، كرهتها؟ قال: فقلت: بلى، فقال عمر: فما تريد إلى ذلك؟ قال: قلت: إن لي افراسا واعبدا، وانا بخير، واريد ان تكون عمالتي صدقة على المسلمين، فقال عمر : فلا تفعل، فإني قد كنت اردت الذي اردت، فكان النبي صلى الله عليه وسلم يعطيني العطاء، فاقول: اعطه افقر إليه مني، حتى اعطاني مرة مالا، فقلت: اعطه افقر إليه مني، قال: فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" خذه فتموله، وتصدق به، فما جاءك من هذا المال، وانت غير مشرف، ولا سائل، فخذه، وما لا، فلا تتبعه نفسك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ ابْنُ أُخْتِ نَمِرٍ، أَنَّ حُوَيْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّى أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ السَّعْدِيِّ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي خِلَافَتِهِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا، فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ، كَرِهْتَهَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ عُمَرُ: فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا، وَأَنَا بِخَيْرٍ، وَأُرِيدُ أَنْ تَكُونَ عَمَالَتِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ عُمَرُ : فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي قَدْ كُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، قَالَ: فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ، وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ، وَلَا سَائِلٍ، فَخُذْهُ، وَمَا لَا، فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
ایک مرتبہ عبداللہ بن سعدی رحمہ اللہ خلافت فاروقی کے زمانے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: کیا تم وہی ہو جس کے متعلق مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں عوام الناس کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن جب تمہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینے سے ناگواری کا اظہار کرتے ہو؟ عبداللہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: جی ہاں! ایسا ہی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ میں نے عرض کیا: میرے پاس اللہ کے فضل سے گھوڑے اور غلام سب ہی کچھ ہے اور میں مالی اعتبار سے بھی صحیح ہوں اس لئے میری خواہش ہوتی ہے کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے ہی کاموں میں استعمال ہو جائے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا مت کرو، کیونکہ ایک مرتبہ میں نے بھی یہی چاہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کر دیتا کہ یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال و دولت عطاء فرمایا: میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے لو اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کر دو اور یاد رکھو! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سكن بن نافع الباهلي ، قال: حدثنا صالح ، عن الزهري ، قال: حدثني ربيعة بن دراج : ان علي بن ابي طالب سبح بعد العصر ركعتين في طريق مكة، فرآه عمر ، فتغيظ عليه، ثم قال: اما والله لقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَكَنُ بْنُ نَافِعٍ الْبَاهِلِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَالِحٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ دَرَّاجٍ : أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ سَبَّحَ بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ، فَرَآهُ عُمَرُ ، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا".
ربیعہ بن دراج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوران سفر مکہ مکرمہ کے راستے میں عصر کے بعد دو رکعت نماز بطور نفل کے پڑھ لی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يزيد ، حدثنا محمد بن إسحاق ، قال: حدثنا العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب ، عن رجل من قريش من بني سهم، عن رجل منهم يقال له: ماجدة ، قال: عارمت غلاما بمكة، فعض اذني، فقطع منها، او: عضضت اذنه، فقطعت منها، فلما قدم علينا ابو بكر حاجا، رفعنا إليه، فقال: انطلقوا بهما إلى عمر بن الخطاب، فإن كان الجارح بلغ ان يقتص منه فليقتص، قال: فلما انتهي بنا إلى عمر ، نظر إلينا، فقال: نعم، قد بلغ هذا ان يقتص منه، ادعوا لي حجاما، فلما ذكر الحجام، قال: اما إني قد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" قد اعطيت خالتي غلاما، وانا ارجو ان يبارك الله لها فيه، وقد نهيتها ان تجعله حجاما او قصابا او صائغا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي سَهْمٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ: مَاجِدَةُ ، قَالَ: عَارَمْتُ غُلَامًا بِمَكَّةَ، فَعَضَّ أُذُنِي، فَقَطَعَ مِنْهَا، أَوْ: عَضِضْتُ أُذُنَهُ، فَقَطَعْتُ مِنْهَا، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ حَاجًّا، رُفِعْنَا إِلَيْهِ، فَقَالَ: انْطَلِقُوا بِهِمَا إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَإِنْ كَانَ الْجَارِحُ بَلَغَ أَنْ يُقْتَصَّ مِنْهُ فَلْيَقْتَصَّ، قَالَ: فَلَمَّا انْتُهِيَ بِنَا إِلَى عُمَرَ ، نَظَرَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ بَلَغَ هَذَا أَنْ يُقْتَصَّ مِنْهُ، ادْعُوا لِي حَجَّامًا، فَلَمَّا ذَكَرَ الْحَجَّامَ، قَالَ: أَمَا إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" قَدْ أَعْطَيْتُ خَالَتِي غُلَامًا، وَأَنَا أَرْجُو أَنْ يُبَارِكَ اللَّهُ لَهَا فِيهِ، وَقَدْ نَهَيْتُهَا أَنْ تَجْعَلَهُ حَجَّامًا أَوْ قَصَّابًا أَوْ صَائِغًا".
ماجدہ نامی ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں نے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں ایک لڑکے کی ہڈی سے گوشت چھیل ڈالا، اس نے میرا کان اپنے دانتوں میں چبا کر کاٹ ڈالا، جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ حج کے ارادے سے ہمارے یہاں تشریف لائے تو یہ معاملہ ان کی خدمت میں پیش کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ ان دونوں کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ، اگر زخم لگانے والا قصاص کے درجے تک پہنچتا ہو تو اس سے قصاص لینا چاہیے۔ جب ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے جایا گیا اور انہوں نے ہمارے احوال سنے تو فرمایا: ہاں! یہ قصاص کے درجے تک پہنچتا ہے اور فرمایا کہ میرے پاس حجام کو بلا کر لاؤ، جب حجام کا ذکر آیا تو وہ فرمانے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی خالہ کو ایک غلام دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ان کے لئے باعث برکت بنائے گا اور میں نے انہیں اس بات سے منع کیا ہے کہ اسے حجام یا قصائی یا رنگ ریز بنائیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل من بني سهم، وجهالة ماجدة
(حديث موقوف) حدثنا عبيدة بن حميد ، عن داود بن ابي هند ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد ، قال: خطب عمر الناس، فقال:" إن الله عز وجل رخص لنبيه صلى الله عليه وسلم ما شاء، وإن نبي الله صلى الله عليه وسلم قد مضى لسبيله، فاتموا الحج والعمرة كما امركم الله عز وجل، وحصنوا فروج هذه النساء".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ النَّاسَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ رَخَّصَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَحَصِّنُوا فُرُوجَ هَذِهِ النِّسَاءِ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو جو رخصت دینی تھی سو دے دی اور وہ اس دارفانی سے کوچ کر گئے، اس لئے آپ لوگ حج اور عمرہ مکمل کیا کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم بھی دیا ہے اور ان عورتوں کی شرمگاہوں کی حفاطت کرو۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہو جائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! وضو کر لے اور سو جائے۔“
ربیعہ بن دراج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوران سفر مکہ مکرمہ کے راستے میں عصر کے بعد دو رکعت نماز بطور نفل کے پڑھ لی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان ، حدثنا شريح بن عبيد ، قال: قال عمر بن الخطاب :" خرجت اتعرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ان اسلم، فوجدته قد سبقني إلى المسجد، فقمت خلفه، فاستفتح سورة الحاقة، فجعلت اعجب من تاليف القرآن، قال: فقلت: هذا والله شاعر كما قالت قريش، قال: فقرا: إنه لقول رسول كريم وما هو بقول شاعر قليلا ما تؤمنون سورة الحاقة آية 40 - 41، قال: قلت: كاهن، قال: ولا بقول كاهن قليلا ما تذكرون تنزيل من رب العالمين ولو تقول علينا بعض الاقاويل لاخذنا منه باليمين ثم لقطعنا منه الوتين فما منكم من احد عنه حاجزين سورة الحاقة آية 42 - 47 إلى آخر السورة، قال: فوقع الإسلام في قلبي كل موقع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ :" خَرَجْتُ أَتَعَرَّضُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ أُسْلِمَ، فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَبَقَنِي إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقُمْتُ خَلْفَهُ، فَاسْتَفْتَحَ سُورَةَ الْحَاقَّةِ، فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ مِنْ تَأْلِيفِ الْقُرْآنِ، قَالَ: فَقُلْتُ: هَذَا وَاللَّهِ شَاعِرٌ كَمَا قَالَتْ قُرَيْشٌ، قَالَ: فَقَرَأَ: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلا مَا تُؤْمِنُونَ سورة الحاقة آية 40 - 41، قَالَ: قُلْتُ: كَاهِنٌ، قَالَ: وَلا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلا مَا تَذَكَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأَقَاوِيلِ لأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ سورة الحاقة آية 42 - 47 إِلَى آخِرِ السُّورَةِ، قَالَ: فَوَقَعَ الْإِسْلَامُ فِي قَلْبِي كُلَّ مَوْقِعٍ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں قبول اسلام سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے ارادے سے نکلا لیکن پتہ چلا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی مسجد میں جا چکے ہیں، میں جا کر ان کے پیچھے کھڑا ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ حاقہ کی تلاوت شروع کر دی، مجھے نظم قرآن اور اس کے اسلوب سے تعجب ہونے لگا، میں نے اپنے دل میں سوچا واللہ! یہ شخص شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں، اتنی دیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچ گئے کہ ”وہ تو ایک معزز قاصد کا قول ہے کسی شاعر کی بات تھوڑی ہے لیکن تم ایمان بہت کم لاتے ہو۔“ یہ سن کر میں نے اپنے دل میں سوچا یہ تو کاہن ہے، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے، تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو، یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اگر یہ پیغمبر ہماری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے تو ہم اسے اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیں اور اس کی گردن توڑ ڈالیں اور تم میں سے کوئی ان کی طرف سے رکا وٹ نہ بن سکے۔“ یہ آیات سن کر اسلام نے میرے دل میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑنا شروع کردئیے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، شريح بن عبيد لم يدرك عمر
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، وعصام بن خالد ، قالا: حدثنا صفوان ، عن شريح بن عبيد ، وراشد بن سعد ، وغيرهما، قالوا: لما بلغ عمر بن الخطاب سرغ حدث ان بالشام وباء شديدا، قال: بلغني ان شدة الوباء في الشام، فقلت: إن ادركني اجلي، وابو عبيدة بن الجراح حي، استخلفته، فإن سالني الله لم استخلفته على امة محمد صلى الله عليه وسلم؟ قلت: إني سمعت رسولك صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن لكل نبي امينا، واميني ابو عبيدة بن الجراح"، فانكر القوم ذلك، وقالوا: ما بال عليا قريش؟! يعنون بني فهر، ثم قال: فإن ادركني اجلي، وقد توفي ابو عبيدة، استخلفت معاذ بن جبل، فإن سالني ربي عز وجل لم استخلفته؟ قلت: سمعت رسولك صلى الله عليه وسلم يقول:" إنه يحشر يوم القيامة بين يدي العلماء نبذة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، وَعِصَامُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ ، وَرَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، وَغَيْرِهِمَا، قَالُوا: لَمَّا بَلَغَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ سَرَغَ حُدِّثَ أَنَّ بِالشَّامِ وَبَاءً شَدِيدًا، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ شِدَّةَ الْوَبَاءِ فِي الشَّامِ، فَقُلْتُ: إِنْ أَدْرَكَنِي أَجَلِي، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ حَيٌّ، اسْتَخْلَفْتُهُ، فَإِنْ سَأَلَنِي اللَّهُ لِمَ اسْتَخْلَفْتَهُ عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَمِينًا، وَأَمِينِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ"، فَأَنْكَرَ الْقَوْمُ ذَلِكَ، وَقَالُوا: مَا بَالُ عُلْيَا قُرَيْشٍ؟! يَعْنُونَ بَنِي فِهْرٍ، ثُمَّ قَالَ: فَإِنْ أَدْرَكَنِي أَجَلِي، وَقَدْ تُوُفِّيَ أَبُو عُبَيْدَةَ، اسْتَخْلَفْتُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، فَإِنْ سَأَلَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ لِمَ اسْتَخْلَفْتَهُ؟ قُلْتُ: سَمِعْتُ رَسُولَكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّهُ يُحْشَرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بَيْنَ يَدَيْ الْعُلَمَاءِ نَبْذَةً".
شریح بن عبید اور راشد بن سعید وغیرہ کہتے ہیں کہ سفر شام میں جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ”سرغ“ نامی مقام پر پہنچے تو آپ کو خبر ملی کہ شام میں طاعون کی بڑی سخت وباء پھیلی ہوئی ہے، یہ خبر سن کر انہوں نے فرمایا کہ مجھے شام میں طاعون کی وباء پھیلنے کی خبر ملی ہے، میری رائے یہ ہے کہ اگر میرا آخری وقت آ پہنچا اور ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ زندہ ہوئے تو میں انہیں اپنا خلیفہ نامزد کر دوں گا اور اگر اللہ نے مجھ سے اس کے متعلق باز پرس کی کہ تو نے امت مسلمہ پر انہیں اپنا خلیفہ کیوں مقرر کیا؟ تو میں کہہ دوں گا کہ میں نے آپ ہی کے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا ہر نبی کا ایک امین ہوتا ہے اور میرا امین ابوعبیدہ بن الجراح ہے۔ لوگوں کو یہ بات اچھی نہ لگی اور وہ کہنے لگے کہ اس صورت میں قریش کے بڑے لوگوں یعنی بنی فہر کا کیا بنے گا؟ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اگر میری موت سے پہلے ابوعبیدہ فوت ہو گئے تو میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ مقرر کردوں گا اور اگر اللہ نے مجھ سے پوچھا کہ تو نے اسے کیوں خلیفہ مقرر کیا؟ تو میں کہہ دوں گا کہ میں نے آپ کے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ وہ قیامت کے دن علماء کے درمیان ایک جماعت کی صورت میں اٹھائے جائیں گے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد رجاله ثقات إلا أن شريح بن عبيد وراشد بن سعد لم يدركا عمر
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا ابن عياش ، قال: حدثني الاوزاعي ، وغيره، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن عمر بن الخطاب ، قال: ولد لاخي ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم غلام، فسموه: الوليد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" سميتموه باسماء فراعنتكم، ليكونن في هذه الامة رجل يقال له: الوليد، لهو شر على هذه الامة من فرعون لقومه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ ، وَغَيْرُهُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: وُلِدَ لِأَخِي أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامٌ، فَسَمَّوْهُ: الْوَلِيدَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَمَّيْتُمُوهُ بِأَسْمَاءِ فَرَاعِنَتِكُمْ، لَيَكُونَنَّ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: الْوَلِيدُ، لَهُوَ شَرٌّ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ مِنْ فِرْعَوْنَ لِقَوْمِهِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے یہاں لڑکا پیدا ہوا، انہوں نے بچے کا نام ولید رکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس بچے کا نام اپنے فرعونوں کے نام پر رکھا ہے (کیونکہ ولید بن مغیرہ مشرکین مکہ کا سردار اور مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے میں بہت سرگرم تھا) میری امت میں ایک آدمی ہو گا جس کا نام ولید ہو گا جو اس امت کے حق میں فرعون سے بھی زیادہ بدتر ہو گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، سعيد بن المسيب لم يسمعه من عمر
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا ابان ، عن قتادة ، عن ابى العالية ، عن ابن عباس ، قال: شهد عندي رجال مرضيون فيهم عمر ، وارضاهم عندي عمر: ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، كان يقول:" لا صلاة بعد صلاة العصر حتى تغرب الشمس، ولا صلاة بعد صلاة الصبح حتى تطلع الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِى الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فيهُمْ عُمَرُ ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ: أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ:" لَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے ”جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان میں سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں“ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے اور فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔
(حديث موقوف) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان ، حدثنا عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، عن الحارث بن معاوية الكندي : انه ركب إلى عمر بن الخطاب يساله عن ثلاث خلال، قال: فقدم المدينة، فساله عمر: ما اقدمك؟ قال: لاسالك عن ثلاث خلال، قال: وما هن؟ قال:" ربما كنت انا والمراة في بناء ضيق، فتحضر الصلاة، فإن صليت انا وهي، كانت بحذائي، وإن صلت خلفي، خرجت من البناء، فقال عمر : تستر بينك وبينها بثوب، ثم تصلي بحذائك إن شئت. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وعن الركعتين بعد العصر، فقال:" نهاني عنهما رسول الله صلى الله عليه وسلم". (حديث موقوف) (حديث موقوف) قال: وعن القصص، فإنهم ارادوني على القصص، فقال: ما شئت، كانه كره ان يمنعه، قال:" إنما اردت ان انتهي إلى قولك، قال: اخشى عليك ان تقص فترتفع عليهم في نفسك، ثم تقص فترتفع، حتى يخيل إليك انك فوقهم بمنزلة الثريا، فيضعك الله تحت اقدامهم يوم القيامة بقدر ذلك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْكِنْدِيِّ : أَنَّهُ رَكِبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَسْأَلُهُ عَنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ، قَالَ: فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَسَأَلَهُ عُمَرُ: مَا أَقْدَمَكَ؟ قَالَ: لِأَسْأَلَكَ عَنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ، قَالَ: وَمَا هُنَّ؟ قَالَ:" رُبَّمَا كُنْتُ أَنَا وَالْمَرْأَةُ فِي بِنَاءٍ ضَيِّقٍ، فَتَحْضُرُ الصَّلَاةُ، فَإِنْ صَلَّيْتُ أَنَا وَهِيَ، كَانَتْ بِحِذَائِي، وَإِنْ صَلَّتْ خَلْفِي، خَرَجَتْ مِنَ الْبِنَاءِ، فَقَالَ عُمَرُ : تَسْتُرُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بِثَوْبٍ، ثُمَّ تُصَلِّي بِحِذَائِكَ إِنْ شِئْتَ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَعَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ:" نَهَانِي عَنْهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". (حديث موقوف) (حديث موقوف) قَالَ: وَعَنِ الْقَصَصِ، فَإِنَّهُمْ أَرَادُونِي عَلَى الْقَصَصِ، فَقَالَ: مَا شِئْتَ، كَأَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَمْنَعَهُ، قَالَ:" إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَنْتَهِيَ إِلَى قَوْلِكَ، قَالَ: أَخْشَى عَلَيْكَ أَنْ تَقُصَّ فَتَرْتَفِعَ عَلَيْهِمْ فِي نَفْسِكَ، ثُمَّ تَقُصَّ فَتَرْتَفِعَ، حَتَّى يُخَيَّلَ إِلَيْكَ أَنَّكَ فَوْقَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الثُّرَيَّا، فَيَضَعَكَ اللَّهُ تَحْتَ أَقْدَامِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَدْرِ ذَلِكَ".
حارث بن معاویہ کندی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں تین سوال پوچھنے کے لئے سواری پر سفر کر کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوا، جب میں مدینہ منورہ پہنچا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آنے کی وجہ پوچھی، میں نے عرض کیا کہ تین باتوں کے متعلق پوچھنے کے لئے حاضر ہوا ہوں، فرمایا: وہ تین باتیں کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ بعض اوقات میں اور میری بیوی ایک تنگ کمرے میں ہوتے ہیں، نماز کا وقت آ جاتا ہے، اگر ہم دونوں وہاں نماز پڑھتے ہوں تو وہ میرے بالکل ساتھ ہوتی ہے اور اگر وہ میرے پیچھے کھڑی ہوتی ہے تو کمرے سے باہر چلی جاتی ہے اب کیا کیا جائے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے اور اپنی بیوی کے درمیان ایک کپڑا لٹکا لیا کرو، پھر اگر تم چاہو تو وہ تمہارے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتی ہے۔ پھر میں نے عصر کے بعد دو نفل پڑھنے کے حوالے سے پوچھا: تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے ان سے وعظ گوئی کے حوالے سے پوچھا کہ لوگ مجھ سے وعظ کہنے کا مطالبہ کرتے ہیں؟ فرمایا کہ آپ کی مرضی ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے جواب سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ براہ راست منع کرنے کو اچھا نہیں سمجھ رہے، میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی بات کو حرفِ آخر سمجھوں گا، فرمایا: مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اگر تم نے قصہ گوئی یا وعظ شروع کر دیا تو تم اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں اونچا سمجھنے لگو گے، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم وعظ کہتے وقت اپنے آپ کو ثریا پر پہنچا ہوا سمجھنے لگو گے، جس کے نتیجے میں قیامت کے دن اللہ تمہیں اسی قدر ان کے قدموں کے نیچے ڈال دے گا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے روکتا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس کی ممانعت کا حکم سنا ہے، میں نے اس طرح کی کوئی قسم نہیں اٹھائی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی بات برسبیل تذکرہ یا کسی سے نقل کر کے کہی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن إسحاق ، انبانا عبد الله يعني ابن المبارك ، انبانا محمد بن سوقة ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر : ان عمر بن الخطاب خطب الناس بالجابية، فقال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل مقامي فيكم، فقال:" استوصوا باصحابي خيرا، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يفشو الكذب حتى إن الرجل ليبتدئ بالشهادة قبل ان يسالها، فمن اراد منكم بحبحة الجنة، فليلزم الجماعة، فإن الشيطان مع الواحد، وهو من الاثنين ابعد، لا يخلون احدكم بامراة، فإن الشيطان ثالثهما، ومن سرته حسنته وساءته سيئته، فهو مؤمن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَقَامِي فِيكُمْ، فَقَالَ:" اسْتَوْصُوا بِأَصْحَابِي خَيْرًا، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَبْتَدِئُ بِالشَّهَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا، فَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ بَحْبَحَةَ الْجَنَّةِ، فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ، وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، لَا يَخْلُوَنَّ أَحَدُكُمْ بِامْرَأَةٍ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ ثَالِثُهُمَا، وَمَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ، فَهُوَ مُؤْمِنٌ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران سفر ”جابیہ“ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے جیسے میں کھڑا ہوا ہوں اور فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، یہی حکم ان کے بعد والوں اور ان کے بعد والوں کا بھی ہے، اس کے بعد جھوٹ اتنا عام ہو جائے گا کہ گواہی کی درخواست سے قبل ہی آدمی گواہی دینے کے لئے تیار ہو جائے گا، سو تم میں سے جو شخص جنت کا ٹھکانہ چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ”جماعت“ کو لازم پکڑے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے، یاد رکھو! تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے کیونکہ ان دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے اور جس شخص کو اپنی نیکی سے خوشی اور برائی سے غم ہو، وہ مومن ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، قال: حدثنا زائدة ، حدثنا سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قال عمر : كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في ركب، فقال رجل: لا وابي، فقال رجل:" لا تحلفوا بآبائكم"، فالتفت، فإذا هو رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَكْبٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: لَا وَأَبِي، فَقَالَ رَجُلٌ:" لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ"، فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے، ایک آدمی نے قسم کھاتے ہوئے کہا: «لَاوَأَبِي» تو دوسرے آدمی نے اس سے کہا: کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، رواية سماك عن عكرمة فيها اضطراب، خ: 6647، م: 1646
(حديث مرفوع) حدثنا عصام بن خالد ، وابو اليمان ، قالا: اخبرنا شعيب بن ابي حمزة ، عن الزهري ، قال: حدثنا عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، ان ابا هريرة ، قال: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان ابو بكر بعده، وكفر من كفر من العرب، قال عمر : يا ابا بكر، كيف تقاتل الناس، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فمن قال: لا إله إلا الله، فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه، وحسابه على الله تعالى"؟ قال ابو بكر: والله لاقاتلن، قال ابو اليمان: لاقتلن من فرق بين الصلاة والزكاة، فإن الزكاة حق المال، والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، لقاتلتهم على منعها. قال عمر: فوالله ما هو إلا ان رايت ان الله عز وجل قد شرح صدر ابي بكر للقتال، فعرفت انه الحق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ ، وَأَبُو الْيَمَانِ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ : يَا أَبَا بَكْرٍ، كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى"؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ، قَالَ أَبُو الْيَمَانِ: لَأَقْتُلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا. قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے اور ان کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو گئے اور اہل عرب میں سے جو کافر ہو سکتے تھے، سو ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کر سکتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ ”لا الہ الا اللہ“ نہ کہہ لیں، جو شخص ”لا الہ الا اللہ“ کہہ لے، اس نے جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، ہاں! اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہو گا؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، بخدا! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ ”جو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے“ بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرما دی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضيعف لانقطاعه، عمرو بن شعيب لم يدرك عبدالله بن عمرو بن العاص
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان الحكم بن نافع ، حدثنا ابو بكر بن عبد الله ، عن راشد بن سعد ، عن حمزة بن عبد كلال ، قال: سار عمر بن الخطاب إلى الشام بعد مسيره الاول كان إليها، حتى إذا شارفها، بلغه ومن معه ان الطاعون فاش فيها، فقال له اصحابه: ارجع ولا تقحم عليه، فلو نزلتها وهو بها لم نر لك الشخوص عنها، فانصرف راجعا إلى المدينة، فعرس من ليلته تلك، وانا اقرب القوم منه، فلما انبعث، انبعثت معه في اثره، فسمعته يقول: ردوني عن الشام بعد ان شارفت عليه، لان الطاعون فيه، الا وما منصرفي عنه بمؤخر في اجلي، وما كان قدوميه بمعجلي عن اجلي، الا ولو قد قدمت المدينة ففرغت من حاجات لا بد لي منها فيها، لقد سرت حتى ادخل الشام، ثم انزل حمص، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ليبعثن الله منها يوم القيامة سبعين الفا لا حساب عليهم ولا عذاب عليهم، مبعثهم فيما بين الزيتون، وحائطها في البرث الاحمر منها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ حُمْزةَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ ، قَالَ: سَارَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى الشَّامِ بَعْدَ مَسِيرِهِ الْأَوَّلِ كَانَ إِلَيْهَا، حَتَّى إِذَا شَارَفَهَا، بَلَغَهُ وَمَنْ مَعَهُ أَنَّ الطَّاعُونَ فَاشٍ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: ارْجِعْ وَلَا تَقَحَّمْ عَلَيْهِ، فَلَوْ نَزَلْتَهَا وَهُوَ بِهَا لَمْ نَرَ لَكَ الشُّخُوصَ عَنْهَا، فَانْصَرَفَ رَاجِعًا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَعَرَّسَ مِنْ لَيْلَتِهِ تِلْكَ، وَأَنَا أَقْرَبُ الْقَوْمِ مِنْهُ، فَلَمَّا انْبَعَثَ، انْبَعَثْتُ مَعَهُ فِي أَثَرِهِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: رَدُّونِي عَنِ الشَّامِ بَعْدَ أَنْ شَارَفْتُ عَلَيْهِ، لِأَنَّ الطَّاعُونَ فِيهِ، أَلَا وَمَا مُنْصَرَفِي عَنْهُ بمُؤَخِّرٌ فِي أَجَلِي، وَمَا كَانَ قُدُومِيهِ بمُعَجِّلِي عَنْ أَجَلِي، أَلَا وَلَوْ قَدْ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَفَرَغْتُ مِنْ حَاجَاتٍ لَا بُدّ لِي مِنْهَا فيها، لَقَدْ سِرْتُ حَتَّى أَدْخُلَ الشَّامَ، ثُمَّ أَنْزِلَ حِمْصَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ مِنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ عَلَيْهِمْ، مَبْعَثُهُمْ فِيمَا بَيْنَ الزَّيْتُونِ، وَحَائِطِهَا فِي الْبَرْثِ الْأَحْمَرِ مِنْهَا".
حمرہ بن عبد کلال کہتے ہیں کہ پہلے سفر شام کے بعد ایک مرتبہ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے، جب اس کے قریب پہنچے تو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو یہ خبر ملی کی شام میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، ساتھیوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہیں سے واپس لوٹ چلیے، آگے مت بڑھیے، اگر آپ وہاں چلے گئے اور واقعی یہ وباء وہاں پھیلی ہوئی ہو تو ہمیں آپ کو وہاں سے منتقل کرنے کی کوئی صورت پیش نہیں آئے گی۔ چنانچہ مشورہ کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ واپس آ گئے، اس رات جب آپ نے آخری پہر میں پڑاؤ ڈالا تو میں آپ کے سب سے زیادہ قریب تھا، جب وہ اٹھے تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے اٹھ گیا، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں شام کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن یہ لوگ مجھے وہاں سے اس بناء پر واپس لے آئے کہ وہاں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہے، حالانکہ وہاں سے واپس آ جانے کی بناء پر میری موت کے وقت میں تو تاخیر ہو نہیں سکتی اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ میری موت کا پیغام جلد آ جائے، اس لئے اب میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر میں مدینہ منورہ پہنچ کر ان تمام ضروری کاموں سے فارغ ہو گیا جن میں میری موجودگی ضروری ہے تو میں شام کی طرف دوبارہ ضرور روانہ ہوں گا اور شہر ”حمص“ میں پڑاؤ کروں گا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے ستر ہزار ایسے بندوں کو اٹھائے گا جن کا نہ حساب ہو گا اور نہ ہی عذاب اور ان کے اٹھائے جانے کی جگہ زیتون کے درخت اور سرخ و نرم زمین میں اس کے باغ کے درمیان ہو گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى بكر بن عبد الله وحمرة بن عبد كلال
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن يزيد ، اخبرنا حيوة ، اخبرنا ابو عقيل ، عن ابن عمه ، عن عقبة بن عامر : انه خرج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما يحدث اصحابه، فقال:" من قام إذا استقلت الشمس فتوضا، فاحسن الوضوء، ثم قام فصلى ركعتين، غفر له خطاياه، فكان كما ولدته امه". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قال عقبة بن عامر: فقلت: الحمد لله الذي رزقني ان اسمع هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي عمر بن الخطاب، وكان تجاهي جالسا: اتعجب من هذا؟ فقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اعجب من هذا قبل ان تاتي، فقلت: وما ذاك بابي انت وامي؟ فقال عمر : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من توضا فاحسن الوضوء، ثم رفع نظره إلى السماء، فقال: اشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له، واشهد ان محمدا عبده ورسوله، فتحت له ثمانية ابواب الجنة، يدخل من ايها شاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَقِيلٍ ، عَنِ ابْنِ عَمِّهِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ : أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا يُحَدِّثُ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ:" مَنْ قَامَ إِذَا اسْتَقَلَّتْ الشَّمْسُ فَتَوَضَّأَ، فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، غُفِرَ لَهُ خَطَايَاهُ، فَكَانَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ: فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي أَنْ أَسْمَعَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَكَانَ تُجَاهِي جَالِسًا: أَتَعْجَبُ مِنْ هَذَا؟ فَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْجَبَ مِنْ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَ، فَقُلْتُ: وَمَا ذَاكَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ فَقَالَ عُمَرُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ رَفَعَ نَظَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فُتِحَتْ لَهُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ تبوک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کے ساتھ حدیث بیان کرنے کے لئے بیٹھے اور فرمایا: ”جو شخص استقلال شمس کے وقت کھڑا ہو کر خوب اچھی طرح وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھ لے، اس کے سارے گناہ اس طرح معاف کر دئیے جائیں گے گویا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو“، سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سننے کی توفیق عطا فرمائی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس مجلس میں سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، وہ فرمانے لگے کہ کیا آپ کو اس پر تعجب ہو رہا ہے؟ آپ کے آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی زیادہ عجیب بات فرمائی تھی، میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر فداء ہوں، وہ کیا بات تھی؟ فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا: ”جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے اور یہ کہے «اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله» اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره إلا الشطر الأول، وقوله : (ثم رفع نظره إلى السماء) ضعيف ليس له شاهد، وهذا إسناد ضعيف لجهالة ابن عم أبى عقيل
اشعث بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی دعوت کی، ان کی زوجہ محترمہ نے انہیں دعوت میں جانے سے روکا، انہیں یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے اپنی بیوی کو مارا، پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث! تین باتیں یاد رکھو جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کی ہیں۔ کسی شخص سے یہ سوال مت کرو کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا ہے؟ وتر پڑھے بغیر مت سویا کرو۔ تیسری بات میں بھول گیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالرحمن المسلي
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا، وہ آخرت میں اسے نہیں پہنایا جائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، أم عمرو ابنة عبد الله بن الزبير روى لها البخاري تعليقاً والنسائي
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن إسحاق ، حدثنا ابن لهيعة ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، قال: اخبرني عمر بن الخطاب ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" ليسيرن الراكب في جنبات المدينة، ثم ليقول: لقد كان في هذا حاضر من المؤمنين كثير". قال ابي احمد بن حنبل: ولم يجز به حسن الاشيب جابرا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيَسِيرَنَّ الرَّاكِبُ فِي جَنَبَاتِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ لَيَقُولُ: لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا حَاضِرٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ كَثِيرٌ". قَالَ أَبِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَلَمْ يَجُزْ بِهِ حَسَنٌ الْأَشْيَبُ جَابِرًا.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب ایک سوار مدینہ منورہ کے اطراف و جوانب میں چکر لگاتا ہو گا اور کہتا ہو گا کہ کبھی یہاں بہت سے مومن آباد ہوا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف، ابن لهيعة سيء الحفظ، وأبو الزبير رمي بالتدليس
(حديث مرفوع) حدثنا هارون ، حدثنا ابن وهب ، حدثني عمرو بن الحارث ، ان عمر بن السائب حدثه، ان القاسم بن ابي القاسم السبئي حدثه، عن قاص الاجناد ، انه سمعه يحدث، ان عمر بن الخطاب ، قال: يا ايها الناس، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فلا يقعدن على مائدة يدار عليها بالخمر، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل الحمام إلا بإزار، ومن كانت تؤمن بالله واليوم الآخر، فلا تدخل الحمام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ السَّائِبِ حَدَّثَهُ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ أَبِي الْقَاسِمِ السَّبَئِيَّ حَدَّثَهُ، عَنْ قَاصِّ الْأَجْنَادِ ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا يَقْعُدَنَّ عَلَى مَائِدَةٍ يُدَارُ عَلَيْهَا بِالْخَمْرِ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَدْخُلْ الْحَمَّامَ إِلَّا بِإِزَارٍ، وَمَنْ كَانَتْ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا تَدْخُلْ الْحَمَّامَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے لوگو! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ کسی ایسے دستر خوان پر مت بیٹھے جہاں شراب پیش کی جاتی ہو، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ بغیر تہبند کے حمام میں داخل نہ ہو اور جو عورت اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو وہ حمام میں مت جائے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف الجهالة قاص الأجناد
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص کسی مجاہد کے سر پر سایہ کرے، اللہ قیامت کے دن اس پر سایہ کرے گا، جو شخص مجاہد کے لئے سامان جہاد مہیا کرے یہاں تک کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے، اس کے لئے اس مجاہد کے برابر اجر لکھا جاتا رہے گا جب تک وہ فوت نہ ہو جائے اور جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد تعمیر کرے جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے، اللہ جنت میں اس کا گھر تعمیر کر دے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عثمان بن عبدالله بن سراقة - وهو ابن بنت عمر- مختلف فى إدراكه جده عمر، وهو ثقة من رجال البخاري
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن سليمان الاعمش ، عن شقيق ، عن سلمان بن ربيعة ، قال: سمعت عمر ، يقول: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسمة، فقلت: يا رسول الله، لغير هؤلاء احق منهم اهل الصفة، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنكم تخيروني بين ان تسالوني بالفحش، وبين ان تبخلوني، ولست بباخل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةً، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَغَيْرُ هَؤُلَاءِ أَحَقُّ مِنْهُمْ أَهْلُ الصُّفَّةِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكُمْ تُخَيِّرُونِي بَيْنَ أَنْ تَسْأَلُونِي بِالْفُحْشِ، وَبَيْنَ أَنْ تُبَخِّلُونِي، وَلَسْتُ بِبَاخِلٍ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کے زیادہ حقدار تو ان لوگوں کو چھوڑ کر اہل صفہ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم مجھ سے غیر مناسب طریقے سے سوال کرنے یا مجھے بخیل قرار دینے میں خود مختار ہو، حالانکہ میں بخیل نہیں ہوں۔“ (فائدہ: مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اہل صفہ کو کچھ نہیں دیا تو اپنے پاس کچھ بچا کر نہیں رکھا اور اگر دوسروں کو دیا ہے تو ان کی ضروریات کو سامنے رکھ دیا۔)
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن ابي رافع : ان عمر بن الخطاب كان مستندا إلى ابن عباس، وعنده ابن عمر، وسعيد بن زيد:" اعلموا اني لم اقل في الكلالة شيئا، ولم استخلف من بعدي احدا، وانه من ادرك وفاتي من سبي العرب، فهو حر من مال الله عز وجل، فقال سعيد بن زيد: اما إنك لو اشرت برجل من المسلمين، لاتمنك الناس، وقد فعل ذلك ابو بكر واتمنه الناس. فقال عمر: قد رايت من اصحابي حرصا سيئا، وإني جاعل هذا الامر إلى هؤلاء النفر الستة الذين مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، ثم قال عمر: لو ادركني احد رجلين، ثم جعلت هذا الامر إليه، لوثقت به سالم مولى ابي حذيفة، وابو عبيدة بن الجراح".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ مُسْتَنِدًا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، وعنده ابن عمر، وسعيد بن زيد:" اعْلَمُوا أَنِّي لَمْ أَقُلْ فِي الْكَلَالَةِ شَيْئًا، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِي أَحَدًا، وَأَنَّهُ مَنْ أَدْرَكَ وَفَاتِي مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ، فَهُوَ حُرٌّ مِنْ مَالِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ: أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَشَرْتَ بِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، لَأْتَمَنَكَ النَّاسُ، وَقَدْ فَعَلَ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ وَأْتَمَنَهُ النَّاسُ. فَقَالَ عُمَرُ: قَدْ رَأَيْتُ مِنْ أَصْحَابِي حِرْصًا سَيِّئًا، وَإِنِّي جَاعِلٌ هَذَا الْأَمْرَ إِلَى هَؤُلَاءِ النَّفَرِ السِّتَّةِ الَّذِينَ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: لَوْ أَدْرَكَنِي أَحَدُ رَجُلَيْنِ، ثُمَّ جَعَلْتُ هَذَا الْأَمْرَ إِلَيْهِ، لَوَثِقْتُ بِهِ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ".
سیدنا ابورافع کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ایام میں ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، آپ نے فرمایا کہ یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ میں نے کلالہ کے حوالے سے کوئی قول اختیار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے بعد کسی کو بطور خلیفہ کے نامزد کیا ہے اور یہ کہ میری وفات کے بعد عرب کے جتنے قیدی ہیں، سب اللہ کی راہ میں آزاد ہوں گے۔ سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اگر آپ کسی مسلمان کے متعلق خلیفہ ہونے کا مشورہ ہی دے دیں تو لوگ آپ پر اعتماد کریں گے جیسا کہ اس سے قبل سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور لوگوں نے ان پر بھی اعتماد کیا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: دراصل مجھے اپنے ساتھیوں میں ایک بری لالچ دکھائی دے رہی ہے، اس لئے میں ایسا تو نہیں کرتا، البتہ ان چھ آدمیوں پر اس بوجھ کو ڈال دیتا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت وفات دنیا سے راضی ہو کر گئے تھے، ان میں سے جسے چاہو، خلیفہ منتخب کرلو۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر دو میں سے کوئی ایک آدمی بھی موجود ہوتا اور میں خلافت اس کے حوالے کر دیتا تو مجھے اطمینان رہتا، ایک سالم جو کہ ابوحذیفہ کے غلام تھے اور دوسرے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على بن زيد وهو ابن جدعان
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، حدثني ابو العالية ، عن ابن عباس ، قال: شهد عندي رجال مرضيون فيهم عمر ، وارضاهم عندي عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا صلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس، ولا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنِي أَبُو الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فِيهِمْ عُمَرُ ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے ”جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نطروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں“ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئے اس پر جھکے تو فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، اگر میں نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری تقبیل یا استلام کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا اور کبھی تیرا استلام نہ کرتا، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تمہارے لئے اللہ کے پیغمبر کی زندگی کے ایک ایک لمحے میں بہترین رہنمائی موجود ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، انبانا عمار بن ابي عمار ، ان عمر بن الخطاب ، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" راى في يد رجل خاتما من ذهب، فقال:" الق ذا"، فالقاه، فتختم بخاتم من حديد، فقال:" ذا شر منه"، فتختم بخاتم من فضة، فسكت عنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَنْبَأَنَا عَمَّارُ بْنُ أَبِي عَمَّارٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" رَأَى فِي يَدِ رَجُلٍ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ:" أَلْقِ ذَا"، فَأَلْقَاهُ، فَتَخَتَّمَ بِخَاتَمٍ مِنْ حَدِيدٍ، فَقَالَ:" ذَا شَرٌّ مِنْهُ"، فَتَخَتَّمَ بِخَاتَمٍ مِنْ فِضَّةٍ، فَسَكَتَ عَنْهُ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اتار دو“، چنانچہ اس نے اتار دی اور اس کی جگہ لوہے کی انگوٹھی پہن لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو اس سے بھی بری ہے“، پھر اس نے چاندی کی انگوٹھی پہن لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سکوت فرما لیا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عمار بن أبى عمار لم يدرك عمر
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا زائدة ، حدثنا عاصم . وحسين بن علي ، عن زائدة ، عن عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ، قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت الانصار: منا امير ومنكم امير، فاتاهم عمر ، فقال:" يا معشر الانصار، الستم تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد امر ابا بكر ان يؤم الناس؟ فايكم تطيب نفسه ان يتقدم ابا بكر؟ فقالت الانصار: نعوذ بالله ان نتقدم ابا بكر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ . وَحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَأَتَاهُمْ عُمَرُ ، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يَؤُمَّ النَّاسَ؟ فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ؟ فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: نَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہو گیا تو انصار کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور فرمایا: اے گروہِ انصار! کیا آپ کے علم میں یہ بات نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی امامت کا حکم خود دیا تھا؟ آپ میں سے کون شخص اپنے دل کی بشاشت کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھ سکتا ہے؟ اس پر انصار کہنے لگے: اللہ کی پناہ! کہ ہم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا موسى بن داود ، حدثنا ابن لهيعة ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، ان عمر بن الخطاب اخبره: انه راى رجلا توضا للصلاة، فترك موضع ظفر على ظهر قدمه، فابصره النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ارجع فاحسن وضوءك"، فرجع فتوضا، ثم صلى.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا تَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ، فَتَرَكَ مَوْضِعَ ظُفُرٍ عَلَى ظَهْرِ قَدَمِهِ، فَأَبْصَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ"، فَرَجَعَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ صَلَّى.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو نماز کے لئے وضو کر رہا تھا، اس نے وضو کرتے ہوئے پاؤں کی پشت پر ایک ناخن کے بقدر جگہ چھوڑ دی یعنی وہ اسے دھو نہ سکا یا وہاں تک پانی نہیں پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے دیکھ لیا اور فرمایا کہ جا کر اچھی طرح وضو کرو، چنانچہ اس نے جا کر دوبارہ وضو کیا اور نماز پڑھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عبدالله ابن لهيعة- وإن كان سيء الحفظ - توبع
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا الهيثم بن رافع الطاطري بصري ، حدثني ابو يحيى ، رجل من اهل مكة، عن فروخ مولى عثمان: ان عمر، وهو يومئذ امير المؤمنين خرج إلى المسجد، فراى طعاما منثورا، فقال: ما هذا الطعام؟ فقالوا: طعام جلب إلينا، قال: بارك الله فيه وفيمن جلبه، قيل: يا امير المؤمنين، فإنه قد احتكر، قال: ومن احتكره؟ قالوا: فروخ مولى عثمان، وفلان مولى عمر، فارسل إليهما، فدعاهما، فقال: ما حملكما على احتكار طعام المسلمين؟ قالا: يا امير المؤمنين، نشتري باموالنا ونبيع، فقال عمر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من احتكر على المسلمين طعامهم، ضربه الله بالإفلاس، او بجذام". فقال فروخ عند ذلك: يا امير المؤمنين، اعاهد الله واعاهدك، ان لا اعود في طعام ابدا، واما مولى عمر، فقال: إنما نشتري باموالنا ونبيع. قال ابو يحيى: فلقد رايت مولى عمر مجذوما.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ رَافِعٍ الطَّاطَرِيُّ بَصْرِيٌّ ، حَدَّثَنِي أَبُو يَحْيَى ، رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، عَنْ فَرُّوخَ مَوْلَى عُثْمَانَ: أَنَّ عُمَرَ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ خَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَرَأَى طَعَامًا مَنْثُورًا، فَقَالَ: مَا هَذَا الطَّعَامُ؟ فَقَالُوا: طَعَامٌ جُلِبَ إِلَيْنَا، قَالَ: بَارَكَ اللَّهُ فِيهِ وَفِيمَنْ جَلَبَهُ، قِيلَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَإِنَّهُ قَدْ احْتُكِرَ، قَالَ: وَمَنْ احْتَكَرَهُ؟ قَالُوا: فَرُّوخُ مَوْلَى عُثْمَانَ، وَفُلَانٌ مَوْلَى عُمَرَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا، فَدَعَاهُمَا، فَقَالَ: مَا حَمَلَكُمَا عَلَى احْتِكَارِ طَعَامِ الْمُسْلِمِينَ؟ قَالَا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، نَشْتَرِي بِأَمْوَالِنَا وَنَبِيعُ، فَقَالَ عُمَرُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ احْتَكَرَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ طَعَامَهُمْ، ضَرَبَهُ اللَّهُ بِالْإِفْلَاسِ، أَوْ بِجُذَامٍ". فَقَالَ فَرُّوخُ عِنْدَ ذَلِكَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أُعَاهِدُ اللَّهَ وَأُعَاهِدُكَ، أَنْ لَا أَعُودَ فِي طَعَامٍ أَبَدًا، وَأَمَّا مَوْلَى عُمَرَ، فَقَالَ: إِنَّمَا نَشْتَرِي بِأَمْوَالِنَا وَنَبِيعُ. قَالَ أَبُو يَحْيَى: فَلَقَدْ رَأَيْتُ مَوْلَى عُمَرَ مَجْذُومًا.
فروخ کہتے ہیں کہ ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں مسجد جانے کے لئے گھر سے نکلے، راستے میں انہیں جگہ جگہ غلہ نظر آیا، انہوں نے پوچھا: یہ غلہ کیسا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ درآمد کیا گیا ہے، فرمایا: اللہ اس میں برکت دے اور اس شخص کو بھی جس نے اسے درآمد کیا ہے، لوگوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! یہ تو ذخیرہ اندوزی کا مال ہے، پوچھا: کس نے ذخیرہ کر کے رکھا ہوا تھا؟ لوگوں نے بتایا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام فروخ اور آپ کے فلاں غلام نے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو بلاوا بھیجا اور فرمایا کہ تم نے مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کیوں کی؟ انہوں نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اس لئے ہمیں اپنی مملوکہ چیز پر اختیار ہے، جب مرضی بیچیں) فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے تنگدستی اور کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیتا ہے۔ فروخ نے تو یہ سن کر اسی وقت کہا: امیر المؤمنین! میں اللہ سے اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام اپنی اسی بات پر اڑا رہا کہ ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اس لئے ہمیں اختیار ہونا چاہیے)۔ ابویحییٰ کہتے ہیں کہ بعد میں جب میں نے اسے دیکھا تو وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہوچکا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى يحيى المكي وفروخ مولي عثمان
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، انبانا شعيب ، عن الزهري ، حدثنا سالم بن عبد الله ، ان عبد الله بن عمر ، قال: سمعت عمر ، يقول: كان النبي صلى الله عليه وسلم يعطيني العطاء، فاقول: اعطه افقر إليه مني، حتى اعطاني مرة مالا، فقلت: اعطه افقر إليه مني، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" خذه فتموله وتصدق به، فما جاءك من هذا المال، وانت غير مشرف ولا سائل، فخذه، وما لا، فلا تتبعه نفسك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ ، يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ، فَخُذْهُ، وَمَا لَا، فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کر دیتا کہ یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال و دولت عطا فرمایا، میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے لو اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کر دو اور یاد رکھو! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا ليث ، حدثني بكير ، عن عبد الملك بن سعيد الانصاري ، عن جابر بن عبد الله ، عن عمر بن الخطاب ، قال: هششت يوما فقبلت وانا صائم، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: صنعت اليوم امرا عظيما، قبلت وانا صائم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارايت لو تمضمضت بماء وانت صائم؟ قلت: لا باس بذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ففيم؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي بُكَيْرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: هَشَشْتُ يَوْمًا فَقَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: صَنَعْتُ الْيَوْمَ أَمْرًا عَظِيمًا، قَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ تَمَضْمَضْتَ بِمَاءٍ وَأَنْتَ صَائِمٌ؟ قُلْتُ: لَا بَأْسَ بِذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفِيمَ؟".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں بہت خوش تھا، خوشی سے سرشار ہو کر میں نے روزہ کی حالت میں ہی اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، اس کے بعد احساس ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے، میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دے دیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بتاؤ! اگر آپ روزے کی حالت میں کلی کر لو تو کیا ہو گا؟“ میں نے عرض کیا: اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے، فرمایا: ”پھر اس میں کہاں سے ہو گا؟“
(حديث مرفوع) حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا داود يعني ابن ابي الفرات ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابي الاسود ، انه قال: اتيت المدينة فوافيتها وقد وقع فيها مرض، فهم يموتون موتا ذريعا، فجلست إلى عمر بن الخطاب، فمرت به جنازة، فاثني على صاحبها خير، فقال عمر : وجبت، ثم مر باخرى، فاثني على صاحبها خير، فقال عمر: وجبت، ثم مر بالثالثة، فاثني عليها شر، فقال عمر: وجبت، فقال ابو الاسود: ما وجبت يا امير المؤمنين؟ قال: قلت كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايما مسلم شهد له اربعة بخير، ادخله الله الجنة، قال: فقلنا: وثلاثة؟ قال: فقال: وثلاثة، قال: قلنا: واثنان، قال: واثنان"، قال: ثم لم نساله عن الواحد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْفُرَاتِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَوَافَيْتُهَا وَقَدْ وَقَعَ فِيهَا مَرَضٌ، فَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا، فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَمَرَّتْ بِهِ جَنَازَةٌ، فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ، فَقَالَ عُمَرُ : وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى، فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ، فَأُثْنِيَ عَلَيْهَا شَرًُّ، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ، فَقَالَ أَبُو الْأَسْوَدِ: مَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: قُلْتُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَقُلْنَا: وَثَلَاثَةٌ؟ قَالَ: فَقَالَ: وَثَلَاثَةٌ، قَالَ: قُلْنَا: وَاثْنَانِ، قَالَ: وَاثْنَانِ"، قَالَ: ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ.
ابوالاسود رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں، میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گزر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واجب ہو گئی، پھر دوسرا جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا: واجب ہو گئی، تیسراجنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا: واجب ہو گئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیر المؤمنین! کیا چیز واجب ہو گئی؟ فرمایا: میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں اس کے لئے جنت واجب ہو گئی، ہم نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب بھی یہی حکم ہے“، ہم نے دو کے متعلق پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے“، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں بھی جہاد کے لئے نکلے تھے اور فتح مکہ کا واقعہ تو خیر رمضان ہی میں پیش آیا تھا، ان دونوں موقعوں پر ہم نے دوران سفر روزے نہیں رکھے تھے۔ (بلکہ بعد میں قضاء کی تھی)۔
حكم دارالسلام: حديث قوي، عبدالله بن لهيعة سيء الحفظ، لكن رواه عنه قتيبة بن سعيد، ورواية قتيبة عنه صالحة معتبر بها
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا المثنى بن عوف العنزي بصري ، قال: انبانا الغضبان بن حنظلة ، ان اباه حنظلة بن نعيم وفد إلى عمر، فكان عمر إذا مر به إنسان من الوفد، ساله ممن هو، حتى مر به ابي، فساله ممن انت؟ فقال: من عنزة، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" حي من هاهنا مبغي عليهم منصورون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ عَوْفٍ الْعَنَزِيُّ بَصْرِيٌّ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْغَضْبَانُ بْنُ حَنْظَلَةَ ، أَنَّ أَبَاهُ حَنْظَلَةَ بْنَ نُعَيْمٍ وَفَدَ إِلَى عُمَرَ، فَكَانَ عُمَرُ إِذَا مَرَّ بِهِ إِنْسَانٌ مِنَ الْوَفْدِ، سَأَلَهُ مِمَّنْ هُوَ، حَتَّى مَرَّ بِهِ أَبِي، فَسَأَلَهُ مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ: مِنْ عَنَزَةَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" حَيٌّ مِنْ هَاهُنَا مَبْغِيٌّ عَلَيْهِمْ مَنْصُورُونَ".
غضبان بن حنظلہ کہتے ہیں کہ ان کے والد حنظلہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک وفد لے کر حاضر ہوئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس وفد کے جس آدمی کے پاس سے بھی گزرتے اس کے متعلق یہ ضرور پوچھتے کہ اس کا تعلق کہاں سے ہے؟ چنانچہ جب میرے والد کے پاس پہنچے تو ان سے بھی یہی پوچھا کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ انہوں نے بتایا: قبیلہ عنزہ سے، تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس قبیلے کے لوگ مظفر و منصور ہوتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الغضبان بن حنظلة وأبيه
معمر (جو کہ ایک مشہور محدث ہیں) نے ایک مرتبہ سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ علیہ سے دوران سفر روزہ رکھنے کا حکم دریافت کیا تو انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث انہیں سنائی کہ ہم نے ماہ رمضان میں دو مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شرکت کی ہے، ایک غزوہ بدر کے موقع پر اور ایک فتح مکہ کے موقع پر اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے نہیں رکھے۔
حكم دارالسلام: حديث قوي، عبدالله بن لهيعة سيء الحفظ، لكن رواه عنه قتيبة بن سعيد، ورواية قتيبة عنه صالحة معتبر بها
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خطرہ اس منافق سے ہے جو زبان دان ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا عبد العزيز بن محمد ، حدثنا صالح بن محمد بن زائدة ، عن سالم بن عبد الله : انه كان مع مسلمة بن عبد الملك في ارض الروم، فوجد في متاع رجل غلول، فسال سالم بن عبد الله، فقال: حدثني عبد الله ، عن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من وجدتم في متاعه غلولا، فاحرقوه، قال: واحسبه قال: واضربوه"، قال: فاخرج متاعه في السوق، قال: فوجد فيه مصحفا، فسال سالما، فقال: بعه، وتصدق بثمنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ : أَنَّهُ كَانَ مَعَ مَسْلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فِي أَرْضِ الرُّومِ، فَوُجِدَ فِي مَتَاعِ رَجُلٍ غُلُولٌ، فَسَأَلَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ وَجَدْتُمْ فِي مَتَاعِهِ غُلُولًا، فَأَحْرِقُوهُ، قَالَ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: وَاضْرِبُوهُ"، قَالَ: فَأَخْرَجَ مَتَاعَهُ فِي السُّوقِ، قَالَ: فَوَجَدَ فِيهِ مُصْحَفًا، فَسَأَلَ سَالِمًا، فَقَالَ: بِعْهُ، وَتَصَدَّقْ بِثَمَنِهِ".
سیدنا سالم رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمہ بن عبدالملک کے ساتھ ارض روم میں تھے کہ ایک آدمی کے سامان سے چوری کا مال غنیمت نکل آیا، لوگوں نے سیدنا سالم رحمہ اللہ علیہ سے اس مسئلے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اپنے والد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جس شخص کے سامان میں سے تمہیں چوری کا مال غنیمت مل جائے، اس سامان کو آگ لگا دو“ اور شاید یہ بھی فرمایا کہ اس شخص کی پٹائی کرو۔ چنانچہ لوگوں نے اس کا سامان نکال کر بازار میں لا کر رکھا، اس میں سے ایک قرآن شریف بھی نکلا، لوگوں نے سالم سے اس کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ اسے بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کر دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف صالح بن محمد بن زائدة
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، «مِنَ الْبُخْلِ، وَالْجُبْنِ، وَفِتْنَةِ الصَّدْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَسُوءِ الْعُمُرِ» بخل سے، بزدلی سے، دل کے فتنہ سے، عذاب قبر سے اور بری عمر سے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا ابن لهيعة ، قال: سمعت عطاء بن دينار ، عن ابي يزيد الخولاني ، انه سمع فضالة بن عبيد ، يقول سمعت عمر بن الخطاب ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" الشهداء ثلاثة: رجل مؤمن جيد الإيمان لقي العدو، فصدق الله حتى قتل، فذلك الذي يرفع إليه الناس اعناقهم يوم القيامة، ورفع رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه حتى وقعت قلنسوته، او قلنسوة عمر، ورجل مؤمن جيد الإيمان لقي العدو، فكانما يضرب جلده بشوك الطلح، اتاه سهم غرب، فقتله، هو في الدرجة الثانية، ورجل مؤمن جيد الإيمان، خلط عملا صالحا، وآخر سيئا، لقي العدو، فصدق الله حتى قتل، فذلك في الدرجة الثالثة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي يَزِيدَ الْخَوْلَانِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ ، يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الشُّهَدَاءُ ثَلَاثَةٌ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ، فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ الَّذِي يَرْفَعُ إِلَيْهِ النَّاسُ أَعْنَاقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ حَتَّى وَقَعَتْ قَلَنْسُوَتُهُ، أَوْ قَلَنْسُوَةُ عُمَرَ، وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ، فَكَأَنَّمَا يُضْرَبُ جِلْدُهُ بِشَوْكِ الطَّلْحِ، أَتَاهُ سَهْمٌ غَرْبٌ، فَقَتَلَهُ، هُوَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ، وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ، خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا، وَآخَرَ سَيِّئًا، لَقِيَ الْعَدُوَّ، فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّالِثَةِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: شہداء تین طرح کے ہوتے ہیں۔ وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے اس کا آمنا سامنا ہوا اور اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا یہاں تک کہ شہید ہو گیا، یہ تو وہ آدمی ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر بلند کر کے دکھایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹوپی گر گئی۔ وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے آمنا سامنا ہوا اور ایسا محسوس ہو کہ اس کے جسم پر کسی نے کانٹے چبھا دئیے ہوں، اچانک کہیں سے ایک تیر آیا اور وہ شہید ہو گیا، یہ دوسرے درجے میں ہو گا۔ وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان تو مضبوط ہو لیکن اس نے کچھ اچھے اور کچھ برے دونوں طرح کے عمل کیے ہوں، دشمن سے جب اس کا آمنا سامنا ہوا تو اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا، یہاں تک کہ شہید ہو گیا، یہ تیسرے درجے میں ہو گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى يزيد الخولاني
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا عبد الله بن لهيعة ، حدثنا عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، عن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يقاد والد من ولد". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يرث المال من يرث الولاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يُقَادُ وَالِدٌ مِنْ وَلَدٍ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرِثُ الْمَالَ مَنْ يَرِثُ الْوَلَاءَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”باپ سے اس کی اولاد کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مال کا وارث وہی ہو گا جو ولاء کا وارث ہو گا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، عبدالله بن لهيعة- وإن كان سيء الحفظ - قد توبع
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ باپ سے اس کی اولاد کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن إسحاق ، انبانا ابن لهيعة ، عن عطاء بن دينار ، عن ابي يزيد الخولاني ، قال: سمعت فضالة بن عبيد ، يقول: سمعت عمر بن الخطاب ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" الشهداء اربعة: رجل مؤمن جيد الإيمان لقي العدو، فصدق الله، فقتل، فذلك الذي ينظر الناس إليه هكذا، ورفع راسه حتى سقطت قلنسوة رسول الله صلى الله عليه وسلم، او قلنسوة عمر، والثاني: رجل مؤمن لقي العدو، فكانما يضرب ظهره بشوك الطلح، جاءه سهم غرب، فقتله، فذاك في الدرجة الثانية، والثالث: رجل مؤمن خلط عملا صالحا وآخر سيئا، لقي العدو، فصدق الله عز وجل حتى قتل، قال: فذاك في الدرجة الثالثة، والرابع: رجل مؤمن اسرف على نفسه إسرافا كثيرا، لقي العدو، فصدق الله حتى قتل، فذاك في الدرجة الرابعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي يَزِيدَ الْخَوْلَانِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الشُّهَدَاءُ أَرْبَعَةٌ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ، فَصَدَقَ اللَّهَ، فَقُتِلَ، فَذَلِكَ الَّذِي يَنْظُرُ النَّاسُ إِلَيْهِ هَكَذَا، وَرَفَعَ رَأْسَهُ حَتَّى سَقَطَتْ قَلَنْسُوَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَلَنْسُوَةُ عُمَرَ، وَالثَّانِي: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ لَقِيَ الْعَدُوَّ، فَكَأَنَّمَا يُضْرَبُ ظَهْرُهُ بِشَوْكِ الطَّلْحِ، جَاءَهُ سَهْمٌ غَرْبٌ، فَقَتَلَهُ، فَذَاكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ، وَالثَّالِثُ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا، لَقِيَ الْعَدُوَّ، فَصَدَقَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى قُتِلَ، قَالَ: فَذَاكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّالِثَةِ، وَالرَّابِعُ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ أَسْرَفَ عَلَى نَفْسِهِ إِسْرَافًا كَثِيرًا، لَقِيَ الْعَدُوَّ، فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَاكَ فِي الدَّرَجَةِ الرَّابِعَةِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: شہداء چار طرح کے ہوتے ہیں۔ وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے اس کا آمنا سامنا ہوا اور اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا یہاں تک کہ شہید ہو گیا، یہ تو وہ آدمی ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر بلند کر کے دکھایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹوپی مبارک گر گئی۔ وہ مسلمان آدمی جس کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا اور ایسا محسوس ہوا کہ اس کے جسم پر کسی نے کانٹے چبھا دئیے ہوں، اچانک کہیں سے ایک تیر آیا اور وہ شہید ہو گیا، یہ دوسرے درجے میں ہو گا۔ وہ مسلمان آدمی جس نے کچھ اچھے اور کچھ برے دونوں طرح کے عمل کیے ہوں، دشمن سے جب اس کا آمنا سامنا ہوا تو اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا، یہاں تک کہ شہید ہو گیا، یہ تیسرے درجے میں ہو گا۔ وہ مسلمان آدمی جس نے اپنی جان پر بےحد ظلم کیا، اس کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا، تو اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا اور شہید ہو گیا، یہ چوتھے درجے میں ہو گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى يزيد الخولاني
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا ابو الزبير ، عن جابر ، ان عمر بن الخطاب اخبره، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" سيخرج اهل مكة، ثم لا يعبر بها، او لا يعرفها إلا قليل، ثم تمتلئ وتبنى، ثم يخرجون منها، فلا يعودون فيها ابدا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" سَيَخْرُجُ أَهْلُ مَكَّةَ، ثُمَّ لَا يَعْبُرُ بِهَا، أَوْ لَا يَعْرِفُهَا إِلَّا قَلِيلٌ، ثُمَّ تَمْتَلِئُ وَتُبْنَى، ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنْهَا، فَلَا يَعُودُونَ فِيهَا أَبَدًا".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب اہل مکہ اپنے شہر سے نکلیں گے لیکن دوبارہ اسے بہت کم آباد کر سکیں گے، پھر شہر مکہ بھر جائے گا اور وہاں بڑی عمارتیں بن جائیں گے، اس وقت جب اہل مکہ وہاں سے نکل گئے تو دوبارہ واپس کبھی نہیں آ سکیں گے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة وتدليس أبى الزبير
(حديث مرفوع) حدثنا الحسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا ابو الزبير ، عن جابر ، ان عمر بن الخطاب اخبره: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى رجلا توضا لصلاة الظهر، فترك موضع ظفر على ظهر قدمه، فابصره رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ارجع فاحسن وضوءك" فرجع فتوضا، ثم صلى.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا تَوَضَّأَ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ، فَتَرَكَ مَوْضِعَ ظُفُرٍ عَلَى ظَهْرِ قَدَمِهِ، فَأَبْصَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ" فَرَجَعَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ صَلَّى.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو نماز ظہر کے لئے وضو کر رہا تھا، اس نے وضو کرتے ہوئے پاؤں کی پشت پر ایک ناخن کے بقدر جگہ چھوڑ دی یعنی وہ اسے دھو نہ سکا یا وہاں تک پانی نہیں پہنچا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ جا کر اچھی طرح وضو کرو، چنانچہ اس نے جا کر دوبارہ وضو کیا اور نماز پڑھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ابن لهيعة قد توبع. م: 243
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عیسائیوں نے جس طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو حد سے زیادہ آگے بڑھایا مجھے اس طرح مت بڑھاؤ، میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا ابو بشر ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال: نزلت هذه الآية ورسول الله صلى الله عليه وسلم متوار بمكة: ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110، قال:" كان إذا صلى باصحابه رفع صوته بالقرآن، قال: فلما سمع ذلك المشركون سبوا القرآن، ومن انزله ومن جاء به، فقال الله عز وجل لنبيه صلى الله عليه وسلم: ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110، اي بقراءتك، فيسمع المشركون، فيسبوا القرآن ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 عن اصحابك، فلا تسمعهم القرآن، حتى ياخذوه عنك، وابتغ بين ذلك سبيلا سورة الإسراء آية 110".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَارٍ بِمَكَّةَ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110، قَالَ:" كَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ سَبُّوا الْقُرْآنَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110، أَيْ بِقِرَاءَتِكَ، فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ، فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ، فَلَا تُسْمِعُهُمْ الْقُرْآنَ، حَتَّى يَأْخُذُوهُ عَنْكَ، وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا سورة الإسراء آية 110".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت قرآنی «ولا تجهر بصلاتك ولاتخافت بها» جس وقت نازل ہوئی ہے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں روپوش تھے، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے تو قرآن کریم کی تلاوت بلند آواز سے کرتے تھے، جب مشرکین کے کانوں تک وہ آواز پہنچتی تو وہ خود قرآن کو، قرآن نازل کرنے والے کو اور قرآن لانے والے کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ بلند آواز سے قرأت نہ کیا کریں کہ مشرکین کے کانوں تک وہ آواز پہنچے اور وہ قرآن ہی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں اور اتنی پست آواز سے بھی تلاوت نہ کریں کہ آپ کے ساتھی اسے سن ہی نہ سکیں، بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کریں۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا علي بن زيد ، عن يوسف بن مهران ، عن ابن عباس ، قال: خطب عمر بن الخطاب ، وقال هشيم مرة: خطبنا، فحمد الله تعالى واثنى عليه، فذكر الرجم، فقال:" لا تخدعن عنه، فإنه حد من حدود الله تعالى، الا إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد رجم، ورجمنا بعده، ولولا ان يقول قائلون: زاد عمر في كتاب الله ما ليس منه، لكتبته في ناحية من المصحف، شهد عمر بن الخطاب، وقال هشيم مرة، وعبد الرحمن بن عوف، وفلان، وفلان، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد رجم ورجمنا من بعده، الا وإنه سيكون من بعدكم قوم يكذبون بالرجم، وبالدجال، وبالشفاعة، وبعذاب القبر، وبقوم يخرجون من النار بعدما امتحشوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، وَقَالَ هُشَيْمٌ مَرَّةً: خَطَبَنَا، فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى وَأَثْنَى عَلَيْهِ، فَذَكَرَ الرَّجْمَ، فَقَالَ:" لَا تُخْدَعُنَّ عَنْهُ، فَإِنَّهُ حَدٌّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ تَعَالَى، أَلَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَمَ، وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، وَلَوْلَا أَنْ يَقُولَ قَائِلُونَ: زَادَ عُمَرُ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَيْسَ مِنْهُ، لَكَتَبْتُهُ فِي نَاحِيَةٍ مِنَ الْمُصْحَفِ، شَهِدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَقَالَ هُشَيْمٌ مَرَّةً، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَفُلَانٌ، وَفُلَانٌ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَمَ وَرَجَمْنَا مِنْ بَعْدِهِ، أَلَا وَإِنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ بَعْدِكُمْ قَوْمٌ يُكَذِّبُونَ بِالرَّجْمِ، وَبِالدَّجَّالِ، وَبِالشَّفَاعَةِ، وَبِعَذَابِ الْقَبْرِ، وَبِقَوْمٍ يُخْرَجُونَ مِنَ النَّارِ بَعْدَمَا امْتَحَشُوا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے، حمد و ثناء کے بعد آپ نے رجم کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا کہ رجم کے حوالے سے کسی دھوکے کا شکار مت رہنا، یہ اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں میں سے ایک سزا ہے، یاد رکھو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا جاری فرمائی ہے اور ہم بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ سزا جاری کرتے رہے ہیں، اگر کہنے والے یہ نہ کہتے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن میں اضافہ کر دیا اور ایسی چیز اس میں شامل کر دی جو کتاب اللہ میں سے نہیں ہے تو میں اس آیت کو قرآن کریم کے حاشیے پر لکھ دیتا۔ یاد رکھو! سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس بات کا گواہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی سزا جاری فرمائی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی یہ سزا جاری کی ہے، یاد رکھو! تمہارے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو رجم کی تکذیب کرتے ہوں گے، دجال، شفاعت اور عذاب قبر سے انکار کرتے ہوں گے اور اس قوم کے ہونے کو جھٹلائیں گے جنہیں جہنم میں جل کر کوئلہ ہوجانے کے بعد نکال لیا جائے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على بن زيد، والشطر الأول صحيح كما سيأتي برقم: 197 و 391
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، انبانا حميد ، عن انس ، قال: قال عمر : وافقت ربي في ثلاث، قلت:" يا رسول الله، لو اتخذنا من مقام إبراهيم مصلى؟ فنزلت: واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125، وقلت: يا رسول الله، إن نساءك يدخل عليهن البر والفاجر، فلو امرتهن ان يحتجبن؟ فنزلت آية الحجاب، واجتمع على رسول الله صلى الله عليه وسلم نساؤه في الغيرة، فقلت لهن: عسى ربه إن طلقكن ان يبدله ازواجا خيرا منكن سورة التحريم آية 5، قال: فنزلت كذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، قُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى؟ فَنَزَلَتْ: وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125، وَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ نِسَاءَكَ يَدْخُلُ عَلَيْهِنَّ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَلَوْ أَمَرْتَهُنَّ أَنْ يَحْتَجِبْنَ؟ فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ، وَاجْتَمَعَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاؤُهُ فِي الْغَيْرَةِ، فَقُلْتُ لَهُنَّ: عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ سورة التحريم آية 5، قَالَ: فَنَزَلَتْ كَذَلِكَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے۔ (پہلا) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنا لیتے، اس پر یہ آیت نازل ہو گئی کہ مقام ابراہیم کو مصلی بنا لو۔ (دوسرا) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کی ازواج مطہرات کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، اگر آپ انہیں پردے کا حکم دے دیں تو بہتر ہے؟ اس پر آیت حجاب نازل ہو گئی۔ (تیسرا) ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات نے کسی بات پر ایکا کر لیا، میں نے ان سے کہا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہو تو ہو سکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر عطاء کر دے، ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل ہوگئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة بن الزبير ، عن المسور بن مخرمة ، ان عمر بن الخطاب ، قال: سمعت هشام بن حكيم بن حزام يقرا سورة الفرقان، فقرا فيها حروفا لم يكن نبي الله صلى الله عليه وسلم اقرانيها، قال: فاردت ان اساوره وهو في الصلاة، فلما فرغ، قلت: من اقراك هذه القراءة؟ قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: كذبت، والله ما هكذا اقراك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخذت بيده اقوده، فانطلقت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إنك اقراتني سورة الفرقان، وإني سمعت هذا يقرا فيها حروفا لم تكن اقراتنيها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقرا يا هشام، فقرا كما كان قرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هكذا انزلت، ثم قال: اقرا يا عمر، فقرات، فقال: هكذا انزلت، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن القرآن نزل على سبعة احرف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ، فَقَرَأَ فِيهَا حُرُوفًا لَمْ يَكُنْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا، قَالَ: فَأَرَدْتُ أَنْ أُسَاوِرَهُ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، فَلَمَّا فَرَغَ، قُلْتُ: مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ الْقِرَاءَةَ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: كَذَبْتَ، وَاللَّهِ مَا هَكَذَا أَقْرَأَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ أَقُودُهُ، فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ، وَإِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ فِيهَا حُرُوفًا لَمْ تَكُنْ أَقْرَأْتَنِيهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ يَا هِشَامُ، فَقَرَأَ كَمَا كَانَ قَرَأَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ: اقْرَأْ يَا عُمَرُ، فَقَرَأْتُ، فَقَالَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا، میرا دل چاہا کہ میں ان سے نماز ہی میں پوچھ لوں، بہرحال! فراغت کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ تمہیں سورت فرقان اس طرح کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا: آپ جھوٹ بولتے ہیں، بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس طرح یہ سورت نہیں پڑھائی ہو گی۔ یہ کہہ کر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہو گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے سورت فرقان خود پڑھائی ہے، میں نے اسے سورت فرقان کو ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہشام سے اس کی تلاوت کرنے کے لئے فرمایا: انہوں نے اسی طرح پڑھا جیسے وہ پہلے پڑھ رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے“، پھر مجھ سے کہا کہ عمر! تم بھی پڑھ کر سناؤ، چنانچہ میں نے بھی پڑھ کر سنا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سورت اس طرح بھی نازل ہوئی ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا: ”بیشک اس قرآن کا نزول سات قرأتوں پر ہوا ہے۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک کی وجہ سے کروٹیں بدلتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ردی کھجور بھی نہ ملتی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا پیٹ بھر لیتے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن ابي عدي ، عن حميد ، عن انس ، قال: قال عمر : وافقت ربي عز وجل في ثلاث، او وافقني ربي في ثلاث، قال: قلت: يا رسول الله، لو اتخذت المقام مصلى؟ قال: فانزل الله عز وجل: واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125، وقلت: لو حجبت عن امهات المؤمنين، فإنه يدخل عليك البر والفاجر؟ فانزلت آية الحجاب، قال: وبلغني عن امهات المؤمنين شيء، اقول لهن: لتكفن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، او ليبدلنه الله بكن ازواجا خيرا منكن مسلمات، حتى اتيت على إحدى امهات المؤمنين، فقالت: يا عمر، اما في رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يعظ نساءه حتى تعظهن، فكففت، فانزل الله عز وجل: عسى ربه إن طلقكن ان يبدله ازواجا خيرا منكن مسلمات مؤمنات قانتات سورة التحريم آية 5 الآية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِي ثَلَاثٍ، أَوْ وَافَقَنِي رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ اتَّخَذْتَ الْمَقَامَ مُصَلًّى؟ قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125، وَقُلْتُ: لَوْ حَجَبْتَ عَنْ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، فَإِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ؟ فَأُنْزِلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ، قَالَ: وَبَلَغَنِي عَنْ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ شَيْءٌ، أَقُولُ لَهُنَّ: لَتَكُفُّنَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ لَيُبْدِلَنَّهُ اللَّهُ بِكُنَّ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ، حَتَّى أَتَيْتُ عَلَى إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَتْ: يَا عُمَرُ، أَمَا فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَعِظُ نِسَاءَهُ حَتَّى تَعِظَهُنَّ، فَكَفَفْتُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ سورة التحريم آية 5 الْآيَةَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے، (پہلا) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنا لیتے، اس پر یہ آیت نازل ہو گئی کہ مقام ابراہیم کو مصلی بنا لو۔ (دوسرا) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کی ازواج مطہرات کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں اگر آپ انہیں پردے کا حکم دے دیں تو بہتر ہے؟ اس پر آیت حجاب نازل ہو گئی۔ (تیسرا) ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات نے کسی بات پر ایکا کر لیا، میں نے ان سے کہا کہ تم باز آ جاؤ، ورنہ ہو سکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں عطاء کر دے، میں اسی سلسلے میں امہات المؤمنین میں سے کسی کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اے عمر! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو نصیحت نہیں کر سکتے کہ تم انہیں نصیحت کرنے نکلے ہو؟ اس پر میں رک گیا، لیکن ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل ہو گئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا الاوزاعي ، ان يحيى بن ابي كثير حدثه، عن عكرمة مولى ابن عباس، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: سمعت عمر بن الخطاب ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالعقيق، يقول:" اتاني الليلة آت من ربي، فقال: صل في هذا الوادي المبارك، وقل: عمرة في حجة". قال الوليد: يعني ذا الحليفة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْعَقِيقِ، يَقُولُ:" أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتٍ مِنْ رَبِّي، فَقَالَ: صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ، وَقُلْ: عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ". قَالَ الْوَلِيدُ: يَعْنِي ذَا الْحُلَيْفَةِ.
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے وادی عقیق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آج رات ایک آنے والا میرے رب کے پاس سے آیا اور کہنے لگا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھیے اور حج کے ساتھ عمرہ کی بھی نیت کر کے احرام باندھ لیں، مراد ذوالحلیفہ کی جگہ ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن الزهري ، سمع مالك بن اوس بن الحدثان ، سمع عمر بن الخطاب ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال سفيان مرة: سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" الذهب بالورق ربا، إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا، إلا هاء وهاء، والشعير بالشعير ربا، إلا هاء وهاء، والتمر بالتمر ربا، إلا هاء وهاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، سَمِعَ مَالِكَ بْنَ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ".
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سونا چاندی کے بدلے بیچنا اور خریدنا سود ہے الاّ یہ کہ نقد ہو، گندم کی گندم کے بدلے خرید و فروخت سود ہے الاّ یہ کہ نقد ہو، جَو کی خرید و فروخت جَو کے بدلے سود ہے الاّ یہ کہ نقد ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن الزهري ، سمع ابا عبيد ، قال: شهدت العيد مع عمر ، فبدا بالصلاة قبل الخطبة، وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن صيام هذين اليومين، اما يوم الفطر: ففطركم من صومكم، واما يوم الاضحى: فكلوا من لحم نسككم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، سَمِعَ أَبَا عُبَيْدٍ ، قَالَ: شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ ، فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ، أَمَّا يَوْمُ الْفِطْرِ: فَفِطْرُكُمْ مِنْ صَوْمِكُمْ، وَأَمَّا يَوْمُ الْأَضْحَى: فَكُلُوا مِنْ لَحْمِ نُسُكِكُمْ".
ابوعبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی، پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے روزے سے منع فرمایا ہے، عیدالفطر کے دن تو اس لئے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحی کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکو۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عیسائیوں نے جس طرح عیسیٰ علیہ السلام کو حد سے زیادہ آگے بڑھایا مجھے اس طرح مت بڑھاؤ، میں تو اللہ کا بندہ ہوں، لہٰذا تم مجھے اس کا بندہ اور پیغمبر ہی کہا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر ، عن عمر : انه سال النبي صلى الله عليه وسلم:" اينام احدنا وهو جنب؟ قال: يتوضا وينام إن شاء". وقال سفيان مرة: ليتوضا ولينم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ : أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيَنَامُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَ: يَتَوَضَّأُ وَيَنَامُ إِنْ شَاءَ". وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: لِيَتَوَضَّأْ وَلْيَنَمْ".
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہو جائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاہے تو وضو کر کے سو جائے (اور چاہے تو یوں ہی سو جائے)۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه : ان عمر حمل على فرس في سبيل الله، فرآها او بعض نتاجها يباع، فاراد شراءه، فسال النبي صلى الله عليه وسلم عنه، فقال:" اتركها توافك، او تلقها جميعا". وقال مرة: فنهاه، وقال:" لا تشتره، ولا تعد في صدقتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ عُمَرَ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَرَآهَا أَوْ بَعْضَ نِتَاجِهَا يُبَاعُ، فَأَرَادَ شِرَاءَهُ، فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَقَالَ:" اتْرُكْهَا تُوَافِكَ، أَوْ تَلْقَهَا جَمِيعًا". وَقَالَ مَرَّةً: فَنَهَاهُ، وَقَالَ:" لَا تَشْتَرِهِ، وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، بعد میں دیکھا کہ وہ گھوڑا خود یا اس کا کوئی بچہ بازار میں بک رہا ہے، انہوں نے سوچا کہ اسے خرید لیتا ہوں، چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کر دیا اور فرمایا کہ اسے مت خریدو اور اپنے صدقے سے رجوع مت کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عاصم بن عبيد الله ، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة يحدث، عن عمر ، يبلغ به النبي، وقال سفيان مرة: عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" تابعوا بين الحج والعمرة، فإن متابعة بينهما ينفيان الفقر والذنوب، كما ينفي الكير خبث الحديد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عُمَرَ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَإِنَّ مُتَابَعَةً بَيْنَهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ، كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حج و عمرہ تسلسل کے ساتھ کیا کرو، کیونکہ ان کے تسلسل سے فقر و فاقہ اور گناہ ایسے دور ہو جاتے ہیں جیسے بھٹی میں لوہے کا میل کچیل دور ہو جاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عاصم بن عبيد الله
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن يحيى ، عن محمد بن إبراهيم التيمي ، عن علقمة بن وقاص ، قال: سمعت عمر ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إنما الاعمال بالنية، ولكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله عز وجل، فهجرته إلى ما هاجر إليه، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها، او امراة ينكحها، فهجرته إلى ما هاجر إليه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال کا دارومدار تو نیت پر ہے اور ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو، سو جس شخص کی ہجرت اللہ کی طرف ہو، تو وہ اس کی طرف ہی ہو گی جس کی طرف اس نے ہجرت کی اور جس کی ہجرت حصول دنیا کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہو تو اس کی ہجرت اس چیز کی طرف ہو گی جس کی طرف اس نے کی۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا سفيان ، عن عبدة بن ابي لبابة ، عن ابي وائل ، قال: قال الصبي بن معبد :" كنت رجلا نصرانيا فاسلمت، فاهللت بالحج والعمرة، فسمعني زيد بن صوحان، وسلمان بن ربيعة، وانا اهل بهما، فقالا: لهذا اضل من بعير اهله، فكانما حمل علي بكلمتهما جبل، فقدمت على عمر ، فاخبرته، فاقبل عليهما فلامهما، واقبل علي فقال: هديت لسنة النبي صلى الله عليه وسلم، هديت لسنة نبيك صلى الله عليه وسلم"، قال عبدة: قال ابو وائل: كثيرا ما ذهبت انا ومسروق إلى الصبي نساله عنه.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: قَالَ الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ :" كُنْتُ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ، فَأَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَسَمِعَنِي زَيْدُ بْنُ صُوحَانَ، وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَأَنَا أُهِلُّ بِهِمَا، فَقَالَا: لَهَذَا أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِ أَهْلِهِ، فَكَأَنَّمَا حُمِلَ عَلَيَّ بِكَلِمَتِهِمَا جَبَلٌ، فَقَدِمْتُ عَلَى عُمَرَ ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمَا فَلَامَهُمَا، وَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: هُدِيتَ لِسُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ عَبْدَةُ: قَالَ أَبُو وَائِلٍ: كَثِيرًا مَا ذَهَبْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ إِلَى الصُّبَيِّ نَسْأَلُهُ عَنْهُ.
سیدنا ابووائل رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں ایک عیسائی تھا، پھر میں نے اسلام قبول کر لیا، میں نے میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، ان دونوں کی یہ بات مجھ پر پہاڑ سے بھی زیادہ بوجھ ثابت ہوئی، چنانچہ میں جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کی طرف متوجہ ہو کر انہیں ملامت کی اور میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت کی رہنمائی نصیب ہو گئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن طاوس ، عن ابن عباس : ذكر لعمر ان سمرة، وقال مرة: بلغ عمر ان سمرة باع خمرا، قال: قاتل الله سمرة، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لعن الله اليهود، حرمت عليهم الشحوم، فجملوها، فباعوها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : ذُكِرَ لِعُمَرَ أَنَّ سَمُرَةَ، وَقَالَ مَرَّةً: بَلَغَ عُمَرَ أَنَّ سَمُرَةَ بَاعَ خَمْرًا، قَالَ: قَاتَلَ اللَّهُ سَمُرَةَ، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ، حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ، فَجَمَلُوهَا، فَبَاعُوهَا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ بات ذکر کی گئی کہ سمرہ نے شراب فروخت کی ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ اسے ہلاک کرے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت فرمائے کہ ان پر چربی کو حرام قرار دیا گیا لیکن انہوں نے اسے پگھلا کر اس کا تیل بنا لیا اور اسے فروخت کرنا شروع کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، ومعمر ، عن الزهري ، عن مالك بن اوس بن الحدثان ، عن عمر بن الخطاب ، قال: كانت اموال بني النضير مما افاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل، ولا ركاب، فكانت لرسول الله صلى الله عليه وسلم خالصة، وكان ينفق على اهله منها نفقة سنته، وقال مرة:" قوت سنته، وما بقي جعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، وَمَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ، وَلَا رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصَةً، وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَته، وَقَالَ مَرَّةً:" قُوتَ سَنِتِه، وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر سے حاصل ہونے والے اموال کا تعلق مال فئی سے تھا جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو عطا فرمائے اور مسلمانوں کو اس پر گھوڑے یا کوئی اور سواری دوڑانے کی ضرورت نہیں پیش آئی، اس لئے یہ مال خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا نفقہ ایک ہی مرتبہ دے دیا کرتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے گھوڑے اور دیگر اسلحہ جو جہاد میں کام آ سکے فراہم کر لیتے تھے۔
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہم سے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟“ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن إدريس ، انبانا ابن جريج ، عن ابن ابي عمار ، عن عبد الله بن بابيه ، عن يعلى بن امية ، قال: سالت عمر بن الخطاب، قلت: ليس عليكم جناح ان تقصروا من الصلاة إن خفتم ان يفتنكم الذين كفروا سورة النساء آية 101، وقد امن الله الناس؟! فقال لي عمر : عجبت مما عجبت منه، فسالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال:" صدقة تصدق الله بها عليكم، فاقبلوا صدقته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قُلْتُ: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا سورة النساء آية 101، وَقَدْ أَمَّنَ اللَّهُ النَّاسَ؟! فَقَالَ لِي عُمَرُ : عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ".
یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کریم میں قصر کا جو حکم ”خوف“ کی حالت میں آیا ہے، اب تو ہر طرف امن و امان ہو گیا ہے تو کیا یہ حکم ختم ہو گیا؟ (اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں اب تک یہ آیت کیوں موجود ہے؟) تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تمہیں ہوا ہے اور میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے، لہٰذا اس صدقے اور مہربانی کو قبول کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: جاء رجل إلى عمر وهو بعرفة، قال ابو معاوية : وحدثنا الاعمش ، عن خيثمة ، عن قيس بن مروان : انه اتى عمر ، فقال: جئت يا امير المؤمنين من الكوفة، وتركت بها رجلا يملي المصاحف عن ظهر قلبه، فغضب وانتفخ حتى كاد يملا ما بين شعبتي الرجل، فقال: ومن هو ويحك؟ قال عبد الله بن مسعود: فما زال يطفا ويسرى عنه الغضب، حتى عاد إلى حاله التي كان عليها، ثم قال: ويحك، والله ما اعلمه بقي من الناس احد هو احق بذلك منه، وساحدثك عن ذلك، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يزال يسمر عند ابي بكر الليلة كذلك في الامر من امر المسلمين، وإنه سمر عنده ذات ليلة، وانا معه، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، وخرجنا معه، فإذا رجل قائم يصلي في المسجد، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يستمع قراءته، فلما كدنا ان نعرفه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سره ان يقرا القرآن رطبا كما انزل، فليقراه على قراءة ابن ام عبد"، قال: ثم جلس الرجل يدعو، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول له:" سل تعطه، سل تعطه"، قال عمر: قلت: والله لاغدون إليه فلابشرنه، قال: فغدوت إليه لابشره، فوجدت ابا بكر قد سبقني إليه فبشره، ولا والله ما سبقته إلى خير قط، إلا وسبقني إليه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَة ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ وَهُوَ بِعَرَفَةَ، قَالَ أَبُو مُعَاوِيَة : وَحَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مَرْوَانَ : أَنَّهُ أَتَى عُمَرَ ، فَقَالَ: جِئْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ الْكُوفَةِ، وَتَرَكْتُ بِهَا رَجُلًا يُمْلِي الْمَصَاحِفَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ، فَغَضِبَ وَانْتَفَخَ حَتَّى كَادَ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ شُعْبَتَيْ الرَّجلِ، فَقَالَ: وَمَنْ هُوَ وَيْحَكَ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: فَمَا زَالَ يُطْفَأُ وَيُسَرَّى عَنْهُ الْغَضَبُ، حَتَّى عَادَ إِلَى حَالِهِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: وَيْحَكَ، وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُهُ بَقِيَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ هُوَ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ، وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ ذَلِكَ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزَالُ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ كَذَلكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّهُ سَمَرَ عِنْدَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، وَأَنَا مَعَهُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَرَجْنَا مَعَهُ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ، فَلَمَّا كِدْنَا أَنْ نَعْرِفَهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ"، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ الرَّجُلُ يَدْعُو، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لَهُ:" سَلْ تُعْطَهْ، سَلْ تُعْطَهْ"، قَالَ عُمَرُ: قُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَغْدُوَنَّ إِلَيْهِ فَلَأُبَشِّرَنَّهُ، قَالَ: فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ لِأُبَشِّرَهُ، فَوَجَدْتُ أَبَا بَكْرٍ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ فَبَشَّرَهُ، وَلَا وَاللَّهِ مَا سَبَقْتُهُ إِلَى خَيْرٍ قَطُّ، إِلَّا وَسَبَقَنِي إِلَيْهِ.
قیس بن مروان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ امیر المؤمنین! میں کوفہ سے آپ کے پاس آ رہا ہوں، وہاں میں ایک ایسے آدمی کو چھوڑ کر آیا ہوں جو اپنی یاد سے قرآن کریم املاء کروا رہا ہے، یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ غضب ناک ہو گئے اور ان کی رگیں اس طرح پھول گئیں کہ کجاوے کے دونوں کنارے ان سے بھر گئے اور مجھ سے پوچھا: افسوس! وہ کون ہے؟ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا۔ میں نے دیکھا کہ ان کا نام سنتے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا اور ان کی وہ کیفیت ختم ہونا شروع ہو گئی، یہاں تک کہ وہ نارمل ہو گئے اور مجھ سے فرمایا: کمبخت! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے علم کے مطابق لوگوں میں ان سے زیادہ اس کا کوئی حق دار نہیں ہے اور میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ رات کے وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں مشورہ کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ اسی طرح رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے، میں بھی وہاں موجود تھا، فراغت کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل آئے، دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ ابھی ہم اس آدمی کی آواز پہچاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے، پھر وہ آدمی بیٹھ کر دعا کرنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرمانے لگے: ”مانگو، تمہیں عطاء کیا جائے گا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ صبح ہوتے ہی میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چنانچہ جب میں صبح انہیں یہ خوشخبری سنانے کے لئے پہنچا تو وہاں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی پایا، وہ مجھ پر اس معاملے میں بھی سبقت لے گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن عابس بن ربيعة ، قال: رايت عمر يقبل الحجر، ويقول:" إني لاقبلك واعلم انك حجر، ولولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك، لم اقبلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ:" إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ، لَمْ أُقَبِّلْكَ".
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے لیکن میں تجھے پھر بھی بوسہ دے رہا ہوں اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن عبد الملك بن عمير ، عن جابر بن سمرة ، قال: خطب عمر الناس بالجابية، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام في مثل مقامي هذا، فقال:" احسنوا إلى اصحابي، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يجيء قوم يحلف احدهم على اليمين قبل ان يستحلف عليها، ويشهد على الشهادة قبل ان يستشهد، فمن احب منكم ان ينال بحبوحة الجنة، فليلزم الجماعة، فإن الشيطان مع الواحد، وهو من الاثنين ابعد، ولا يخلون رجل بامراة، فإن ثالثهما الشيطان، ومن كان منكم تسره حسنته، وتسوءه سيئته، فهو مؤمن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ النَّاسَ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِي مِثْلِ مَقَامِي هَذَا، فَقَالَ:" أَحْسِنُوا إِلَى أَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ يَحْلِفُ أَحَدُهُمْ عَلَى الْيَمِينِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَحْلَفَ عَلَيْهَا، وَيَشْهَدُ عَلَى الشَّهَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَشْهَدَ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَنَالَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ، فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ، وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، وَلَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ، فَإِنَّ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ تَسُرُّهُ حَسَنَتُهُ، وَتَسُوءُهُ سَيِّئَتُهُ، فَهُوَ مُؤْمِنٌ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران سفر ”جابیہ“ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے جیسے میں کھڑا ہوں اور فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، یہی حکم ان کے بعد والوں اور ان کے بعد والوں کا بھی ہے، اس کے بعد ایک قوم ایسی آئے گی جو قسم کی درخواست سے پہلے ہی قسم کھانے کے لئے تیار ہو گی اور گواہی کی درخواست سے قبل ہی آدمی گواہی دینے کے لئے تیار ہو جائے گا، سو تم میں سے جو شخص جنت کا ٹھکانہ چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ”جماعت“ کو لازم پکڑے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے، یاد رکھو! تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے کیونکہ ان دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے اور جس شخص کو اپنی نیکی سے خوشی اور برائی سے غم ہو، وہ مومن ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، رجاله ثقات غير أنه اختلف فيه على عبدالملك بن عمير، لكثرة اختلاف الثقات عنه فى الإسناد
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عمر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يسمر عند ابي بكر الليلة، كذلك في الامر من امر المسلمين، وانا معه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ، كَذَلِكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنَا مَعَهُ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ روزانہ رات کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس مسلمانوں کے معاملات میں مشورے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ میں بھی اس موقع پر موجود تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، عن سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن معدان بن ابي طلحة، قال: قال عمر :" ما سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شيء اكثر مما سالته عن الكلالة، حتى طعن بإصبعه في صدري، وقال: تكفيك آية الصيف التي في آخر سورة النساء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ :" مَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ عَنِ الْكَلَالَةِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ”کلالہ“ سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی مرتبہ سوال کیا، اس سے زیادہ کسی چیز کے متعلق سوال نہیں کیا، یہاں تک کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنی انگلی رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے سورت نساء کی آخری آیت جو موسم گرما میں نازل ہوئی تھی کافی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبد الملك ، حدثنا عبد الله مولى اسماء، قال: ارسلتني اسماء إلى ابن عمر انه بلغها انك تحرم اشياء ثلاثة: العلم في الثوب، وميثرة الارجوان، وصوم رجب كله، فقال: اما ما ذكرت من صوم رجب، فكيف بمن يصوم الابد؟ واما ما ذكرت من العلم في الثوب، فإني سمعت عمر ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: اي" من لبس الحرير في الدنيا، لم يلبسه في الآخرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ، قَالَ: أَرْسَلَتْنِي أَسْمَاءُ إِلَى ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ بَلَغَهَا أَنَّكَ تُحَرِّمُ أَشْيَاءَ ثَلَاثَةً: الْعَلَمَ فِي الثَّوْبِ، وَمِيثَرَةَ الْأُرْجُوَانِ، وَصَوْمَ رَجَبٍ كُلِّهِ، فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ صَوْمِ رَجَبٍ، فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الْأَبَدَ؟ وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنَ الْعَلَمِ فِي الثَّوْبِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: أي" مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ".
عبداللہ جو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے غلام تھے کہتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ کپڑوں میں ریشمی نقش ونگار کو، سرخ رنگ کے کپڑوں کو، مکمل ماہ رجب کے روزوں کو۔ انہوں نے جواباً کہلوا بھیجا کہ آپ نے رجب کے روزوں کو حرام قرار دینے کی جو بات ذکر کی ہے، جو شخص خود سارا سال روزے رکھتا ہو، وہ یہ بات کیسے کہہ سکتا ہے؟ (یعنی یہ بات میں نے نہیں کہی) اور جہاں تک کپڑوں میں نقش و نگار کی بات ہے تو میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، انا سالته، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا ثابت ، عن انس ، قال: كنا مع عمر بين مكة، والمدينة، فتراءينا الهلال، وكنت حديد البصر، فرايته، فجعلت اقول لعمر : اما تراه؟ قال: ساراه وانا مستلق على فراشي، ثم اخذ يحدثنا عن اهل بدر، قال: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليرينا مصارعهم بالامس، يقول:" هذا مصرع فلان غدا، إن شاء الله تعالى، وهذا مصرع فلان غدا، إن شاء الله تعالى"، قال: فجعلوا يصرعون عليها، قال: قلت: والذي بعثك بالحق، ما اخطئوا تيك، كانوا يصرعون عليها، ثم امر بهم، فطرحوا في بئر، فانطلق إليهم، فقال:" يا فلان، يا فلان، هل وجدتم ما وعدكم الله حقا، فإني وجدت ما وعدني الله حقا"، قال عمر: يا رسول الله، اتكلم قوما قد انتنوا؟ قال:" ما انتم باسمع لما اقول منهم، ولكن لا يستطيعون ان يجيبوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، أَنَا سَأَلْتُهُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ، وَالْمَدِينَةِ، فَتَرَاءَيْنَا الْهِلَالَ، وَكُنْتُ حَدِيدَ الْبَصَرِ، فَرَأَيْتُهُ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ لِعُمَرَ : أَمَا تَرَاهُ؟ قَالَ: سَأَرَاهُ وَأَنَا مُسْتَلْقٍ عَلَى فِرَاشِي، ثُمَّ أَخَذَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ، قَالَ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرِينَا مَصَارِعَهُمْ بِالْأَمْسِ، يَقُولُ:" هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى، وَهَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى"، قَالَ: فَجَعَلُوا يُصْرَعُونَ عَلَيْهَا، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا أَخْطَئوا تِيكَ، كَانُوا يُصْرَعُونَ عَلَيْهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ، فَطُرِحُوا فِي بِئْرٍ، فَانْطَلَقَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ:" يَا فُلَانُ، يَا فُلَانُ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمْ اللَّهُ حَقًّا، فَإِنِّي وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللَّهُ حَقًّا"، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُكَلِّمُ قَوْمًا قَدْ أَنْتَنُوا؟ قَالَ:" مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، وَلَكِنْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يُجِيبُوا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان تھے کہ ہمیں پہلی کا چاند دکھائی دیا، میری بصارت تیز تھی اس لئے میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ دیکھ رہے ہیں؟ فرمایا: میں ابھی دیکھتا ہوں، میں اس وقت فرش پر چت لیٹا ہوا تھا، پھر عمر رضی اللہ عنہ اہل بدر کے حوالے سے حدیث بیان کرنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن پہلے ہی وہ تمام جگہیں دکھا دیں جہاں کفار کی لاشیں گرنی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دکھاتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ یہاں فلاں کی لاش گرے گی اور ان شاء اللہ کل یہاں فلاں شخص قتل ہو گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ انہی جگہوں پر گرنے لگے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ تو اس جگہ سے ”جس کی نشاندہی آپ نے فرمائی تھی“ ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوئے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان کی لاشیں گھسیٹ کر ایک کنویں میں پھینک دی گئیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کنوئیں کے پاس جا کر کھڑے ہوئے اور ایک ایک کا نام لے کر فرمایا کہ کیا تم نے اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا یا نہیں؟ میں نے تو اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ان لوگوں سے گفتگو فرما رہے ہیں جو مردار ہو چکے، فرمایا: ”میں ان سے جو کچھ کہہ رہا تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ جواب نہیں دے سکتے (اور تم جواب دے سکتے ہو)۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا حسين المعلم ، حدثنا عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: فلما رجع عمرو جاء بنو معمر بن حبيب يخاصمونه في ولاء اختهم إلى عمر بن الخطاب ، فقال: اقضي بينكم بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ما احرز الولد او الوالد، فهو لعصبته من كان" فقضى لنا به.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: فَلَمَّا رَجَعَ عَمْرٌو جَاءَ بَنُو مَعْمَرِ بْنِ حَبِيبٍ يُخَاصِمُونَهُ فِي وَلَاءِ أُخْتِهِمْ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ: أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا أَحْرَزَ الْوَلَدُ أَوْ الْوَالِدُ، فَهُوَ لِعَصَبَتِهِ مَنْ كَانَ" فَقَضَى لَنَا بِهِ.
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بنو معمر بن حبیب اپنی بہن کی ولاء کا جھگڑ الے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اسی طرح فیصلہ کروں گا جیسے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اولاد یا والد نے جو کچھ بھی جمع کیا ہے وہ سب اس کے عصبہ کا ہو گا خواہ وہ کوئی بھی ہو، چنانچہ انہوں نے اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا۔
(حديث مرفوع) قرات على يحيى بن سعيد ، عن عثمان بن غياث ، قال: حدثني عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، وحميد بن عبد الرحمن الحميري ، قالا: لقينا عبد الله بن عمر ، فذكرنا القدر، وما يقولون فيه، فقال: إذا رجعتم إليهم، فقولوا: إن ابن عمر منكم بريء، وانتم منه برآء ثلاث مرار، ثم قال: اخبرني عمر بن الخطاب انهم بينما هم جلوس، او قعود عند النبي صلى الله عليه وسلم، جاءه رجل يمشي، حسن الوجه، حسن الشعر، عليه ثياب بياض، فنظر القوم بعضهم إلى بعض: ما نعرف هذا، وما هذا بصاحب سفر، ثم قال: يا رسول الله، آتيك؟ قال: نعم، فجاء فوضع ركبتيه عند ركبتيه، ويديه على فخذيه، فقال: ما الإسلام؟ قال:" شهادة ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت"، قال: فما الإيمان؟ قال:" ان تؤمن بالله وملائكته، والجنة والنار، والبعث بعد الموت، والقدر كله"، قال: فما الإحسان؟ قال:" ان تعمل لله كانك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك"، قال: فمتى الساعة؟ قال:" ما المسئول عنها باعلم من السائل"، قال: فما اشراطها؟ قال:" إذا العراة الحفاة العالة رعاء الشاء تطاولوا في البنيان، وولدت الإماء رباتهن، قال: ثم قال: علي الرجل"، فطلبوه، فلم يروا شيئا، فمكث يومين او ثلاثة، ثم قال:" يا ابن الخطاب، اتدري من السائل عن كذا وكذا؟" قال: الله ورسوله اعلم، قال:" ذاك جبريل، جاءكم يعلمكم دينكم". (حديث موقوف) (حديث قدسي) قال: وساله رجل من جهينة، او مزينة، فقال: يا رسول الله، فيما نعمل، افي شيء قد خلا او مضى، او في شيء يستانف الآن؟ قال:" في شيء قد خلا او مضى"، فقال رجل، او بعض القوم: يا رسول الله، فيما نعمل؟ قال:" اهل الجنة ييسرون لعمل اهل الجنة، واهل النار ييسرون لعمل اهل النار"، قال يحيى، قال: هو هكذا، يعني: كما قرات علي.(حديث مرفوع) قَرَأْتُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، قَالَا: لَقِينَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، فَذَكَرْنَا الْقَدَرَ، وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ، فَقَالَ: إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ، فَقُولُوا: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ مِنْكُمْ بَرِيءٌ، وَأَنْتُمْ مِنْهُ بُرَآءُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّهُمْ بَيْنَما هُمْ جُلُوسٌ، أَوْ قُعُودٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَهُ رَجُلٌ يَمْشِي، حَسَنُ الْوَجْهِ، حَسَنُ الشَّعْرِ، عَلَيْهِ ثِيَابُ بَيَاضٍ، فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ: مَا نَعْرِفُ هَذَا، وَمَا هَذَا بِصَاحِبِ سَفَرٍ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، آتِيكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَجَاءَ فَوَضَعَ رُكْبَتَيْهِ عِنْدَ رُكْبَتَيْهِ، وَيَدَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، فَقَالَ: مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ:" شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ"، قَالَ: فَمَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ، وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْقَدَرِ كُلِّهِ"، قَالَ: فَمَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تَعْمَلَ لِلَّهِ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ"، قَالَ: فَمَا أَشْرَاطُهَا؟ قَالَ:" إِذَا الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ الْعَالَةُ رِعَاءُ الشَّاءِ تَطَاوَلُوا فِي الْبُنْيَانِ، وَوَلَدَتْ الْإِمَاءُ رَبَّاتِهِنَّ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: عَلَيَّ الرَّجُلَ"، فَطَلَبُوهُ، فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا، فَمَكَثَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، ثُمَّ قَالَ:" يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أَتَدْرِي مَنْ السَّائِلُ عَنْ كَذَا وَكَذَا؟" قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" ذَاكَ جِبْرِيلُ، جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ". (حديث موقوف) (حديث قدسي) قَالَ: وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ جُهَيْنَةَ، أَوْ مُزَيْنَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِيمَا نَعْمَلُ، أَفِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى، أَوْ فِي شَيْءٍ يُسْتَأْنَفُ الْآنَ؟ قَالَ:" فِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى"، فَقَالَ رَجُلٌ، أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِيمَا نَعْمَلُ؟ قَالَ:" أَهْلُ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَهْلُ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ"، قَالَ يَحْيَى، قَالَ: هُوَ هَكَذَا، يَعْنِي: كَمَا قَرَأْتَ عَلَيَّ.
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمان حمیری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہماری ملاقات سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی، ہم نے ان کے سامنے مسئلہ تقدیر کو چھیڑا اور لوگوں کے اعتراضات کا بھی ذکر کیا، ہماری بات سن کر انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر تم سے بَری ہے اور تم اس سے بَری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، خوبصورت رنگ، خوبصورت بال اور سفید کپڑوں میں ملبوس اس آدمی کو دیکھ کر لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اشاروں میں کہنے لگے کہ ہم تو اسے نہیں پہچانتے اور یہ مسافر بھی نہیں لگتا۔ اس آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں قریب آ سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں، نیز یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں۔“ اس نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، جنت وجہنم، قیامت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور تقدیر پر یقین رکھو“، اس نے پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوئی عمل اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کر سکتے تو کم از کم یہی تصور کر لو کہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔“ اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: ”جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بےخبر ہیں“، اس نے کہا کہ پھر اس کی کچھ علامات ہی بتا دیجئے؟ فرمایا: ”جب تم یہ دیکھو کہ جن کے جسم پر چیتھڑا اور پاؤں میں لیترا نہیں ہوتا تھا، غریب اور چرواہے تھے، آج وہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں، لونڈیاں اپنی مالکن کو جنم دینے لگیں تو قیامت قریب آ گئی۔“ جب وہ آدمی چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا اس آدمی کو بلا کر لانا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں نکلے تو انہیں کچھ نظر نہ آیا، دو تین دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اے ابن خطاب! کیا تمہیں علم ہے کہ وہ سائل کون تھا؟“ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: ”وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔“ راوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبیلہ جہینہ یا مزینہ کے ایک آدمی نے بھی یہ سوال پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! ہم جو عمل کرتے ہیں کیا ان کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے؟ فرمایا: ”ان کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے“، اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر عمل کا کیا فائدہ؟ فرمایا: ”اہل جنت کے لئے اہل جنت کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کے لئے اہل جہنم کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، حدثني سلمة بن كهيل ، قال: سمعت ابا الحكم ، قال: سالت ابن عباس عن نبيذ الجر، فقال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نبيذ الجر والدباء، وقال: من سره ان يحرم ما حرم الله تعالى ورسوله، فليحرم النبيذ"، قال: وسالت ابن الزبير ، فقال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدباء والجر"، قال: وسالت ابن عمر ، فحدث عن عمر : ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن الدباء والمزفت"، قال: وحدثني اخي ، عن ابي سعيد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن الجر والدباء، والمزفت والبسر، والتمر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحَكَمِ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ نبيذ الجر، فقال:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ، وَقَالَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُحَرِّمَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى وَرَسُولُهُ، فَلْيُحَرِّمْ النَّبِيذَ"، قَالَ: وَسَأَلْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ ، فَقَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْجَرِّ"، قَالَ: وَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، فَحَدَّثَ عَنْ عُمَرَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْمُزَفَّتِ"، قَالَ: وَحَدَّثَنِي أَخِي ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ، وَالْمُزَفَّتِ وَالْبُسْرِ، وَالتَّمْرِ".
ابوالحکم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نبیذ اور کدو کی تونبی سے تو منع فرمایا ہے، اس لئے جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ نبیذ کو حرام سمجھے۔ ابوالحکم کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہی سوال سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے اور کدو کی تونبی کی نبیذ سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے یہی سوال سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کی تونبی اور سبز مٹکے سے منع فرمایا ہے اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے، کدو کی تونبی اور لکڑی کو کھوکھلا کر کے بطور برتن استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے اور کچی اور پکی کھجور کی شراب سے بھی منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، وحديث أبى سعيد، هو الخدري، إسناده صحيح
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يحيى بن سعيد ، انا سالته، حدثنا هشام ، حدثنا قتادة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن معدان بن ابي طلحة : ان عمر خطب يوم جمعة، فذكر نبي الله صلى الله عليه وسلم، وذكر ابا بكر، وقال:" إني قد رايت كان ديكا قد نقرني نقرتين، ولا اراه إلا لحضور اجلي، وإن اقواما يامروني ان استخلف، وإن الله لم يكن ليضيع دينه، ولا خلافته، والذي بعث به نبيه صلى الله عليه وسلم، فإن عجل بي امر، فالخلافة شورى بين هؤلاء الستة الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، وإني قد علمت ان قوما سيطعنون في هذا الامر انا ضربتهم بيدي هذه على الإسلام، فإن فعلوا، فاولئك اعداء الله الكفرة الضلال. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وإني لا ادع بعدي شيئا اهم إلي من الكلالة، وما اغلظ لي رسول الله صلى الله عليه وسلم في شيء منذ صاحبته، ما اغلظ لي في الكلالة، وما راجعته في شيء ما راجعته في الكلالة، حتى طعن بإصبعه في صدري، وقال:" يا عمر، الا تكفيك آية الصيف التي في آخر سورة النساء؟". فإن اعش اقضي فيها قضية يقضي بها من يقرا القرآن، ومن لا يقرا القرآن. (حديث موقوف) (حديث موقوف) ثم قال:" اللهم إني اشهدك على امراء الامصار، فإنما بعثتهم ليعلموا الناس دينهم، وسنة نبيهم صلى الله عليه وسلم، ويقسموا فيهم فيئهم، ويعدلوا عليهم، ويرفعوا إلي ما اشكل عليهم من امرهم". رقم الحديث: 188 (حديث موقوف) (حديث مرفوع) ايها الناس، إنكم تاكلون من شجرتين لا اراهما إلا خبيثتين، لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا وجد ريحهما من الرجل في المسجد، امر به، فاخذ بيده، فاخرج إلى البقيع، ومن اكلهما، فليمتهما طبخا".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، أَنَا سَأَلْتُهُ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ : أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ يَوْمَ جُمُعَةٍ، فَذَكَرَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ، وَقَالَ:" إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا قَدْ نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ، وَلَا أُرَاهُ إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي، وَإِنَّ أَقْوَامًا يَأْمُرُونِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ، وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُنْ لِيُضِيعَ دِينَهُ، وَلَا خِلَافَتَهُ، وَالَّذِي بَعَثَ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ عَجِلَ بِي أَمْرٌ، فَالْخِلَافَةُ شُورَى بَيْنَ هَؤُلَاءِ السِّتَّةِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، وَإِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ قَوْمًا سَيَطْعُنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ أَنَا ضَرَبْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ فَعَلُوا، فَأُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكَفَرَةُ الضُّلَّالُ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَإِنِّي لَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا أَهَمَّ إِلَيَّ مِنَ الْكَلَالَةِ، وَمَا أَغْلَظَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مُنْذُ صَاحَبْتُهُ، مَا أَغْلَظَ لِي فِي الْكَلَالَةِ، وَمَا رَاجَعْتُهُ فِي شَيْءٍ مَا رَاجَعْتُهُ فِي الْكَلَالَةِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ:" يَا عُمَرُ، أَلَا تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ؟". فَإِنْ أَعِشْ أَقْضِي فِيهَا قَضِيَّةً يَقْضِي بِهَا مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَمَنْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ. (حديث موقوف) (حديث موقوف) ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ، فَإِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ لِيُعَلِّمُوا النَّاسَ دِينَهُمْ، وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقْسِمُوا فِيهِمْ فَيْئَهُمْ، وَيَعْدِلُوا عَلَيْهِمْ، وَيَرْفَعُوا إِلَيَّ مَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَمْرِهِمْ". رقم الحديث: 188 (حديث موقوف) (حديث مرفوع) أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ، لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَجَدَ رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ فِي الْمَسْجِدِ، أَمَرَ بِهِ، فَأُخِذَ بِيَدِهِ، فَأُخْرِجَ إِلَى الْبَقِيعِ، وَمَنْ أَكَلَهُمَا، فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا".
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آ گیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔ کچھ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقر کر دوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو نہ ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہو گیا تو میں مجلس شوری ان چھ افراد کی مقرر کر رہا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کر چکا ہوں، اگر یہ لوگ ایسا کریں تو یہ لوگ اللہ کے دشمن، کافر اور گمراہ ہیں، میں نے اپنے پیچھے کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی نہیں چھوڑا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز میں اتنا تکرار نہیں کیا جتنا کلالہ کے مسئلے میں کیا تھا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا: ”کیا تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی وہ آخری آیت جو گرمی میں نازل ہوئی تھی کافی نہیں ہے؟“ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کا ایسا حل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آ جائے، پھر فرمایا: میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں جو امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں، ان میں مال غنیمت تقسیم کریں، ان میں انصاف کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ لوگو! تم دو درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتا ہوں (ایک لہسن اور دوسرا پیاز، جنہیں کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے) میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بدبو مار دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن نمير ، عن مجالد ، عن عامر ، عن جابر بن عبد الله ، قال: سمعت عمر بن الخطاب ، يقول لطلحة بن عبيد الله : ما لي اراك قد شعثت واغبررت منذ توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ لعلك ساءك يا طلحة إمارة ابن عمك؟ قال: معاذ الله، إني لاحذركم ان لا افعل ذلك، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إني لاعلم كلمة لا يقولها احد عند حضرة الموت إلا وجد روحه لها روحا حين تخرج من جسده، وكانت له نورا يوم القيامة"، فلم اسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عنها، ولم يخبرني بها، فذلك الذي دخلني، قال عمر: فانا اعلمها، قال: فلله الحمد، قال: فما هي؟ قال: هي الكلمة التي قالها لعمه: لا إله إلا الله، قال طلحة: صدقت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ : مَا لِي أَرَاكَ قَدْ شَعِثْتَ وَاغْبَرَرْتَ مُنْذُ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ لَعَلَّكَ سَاءَكَ يَا طَلْحَةُ إِمَارَةُ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ، إِنِّي لَأَحْذَرُكُمْ أَنْ لَا أَفْعَلَ ذَلِكَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا أَحَدٌ عِنْدَ حَضْرَةِ الْمَوْتِ إِلَّا وَجَدَ رُوحَهُ لَهَا رَوْحًا حِينَ تَخْرُجُ مِنْ جَسَدِهِ، وَكَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَلَمْ أَسْأَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، وَلَمْ يُخْبِرْنِي بِهَا، فَذَلِكَ الَّذِي دَخَلَنِي، قَالَ عُمَرُ: فَأَنَا أَعْلَمُهَا، قَالَ: فَلِلَّهِ الْحَمْدُ، قَالَ: فَمَا هِيَ؟ قَالَ: هِيَ الْكَلِمَةُ الَّتِي قَالَهَا لِعَمِّهِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ طَلْحَةُ: صَدَقْتَ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کیا بات ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد سے آپ پراگندہ حال اور غبار آلود رہنے لگے ہیں؟ کیا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی؟ انہوں نے فرمایا: اللہ کی پناہ! مجھے تو کسی صورت ایسا نہیں کرنا چاہیے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو اس کے لئے روح نکلنے میں سہولت پیدا ہو جائے اور قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو، مجھے افسوس ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتاہوں، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے الحمدللہ کہہ کر پوچھا: کہ وہ کیا کلمہ ہے؟ فرمایا وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی لا الہ الا اللہ، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه، وهذا إسناد ضعيف لضعف مجالد
(حديث مرفوع) حدثنا جعفر بن عون ، انبانا ابو عميس ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، قال: جاء رجل من اليهود إلى عمر، فقال:" يا امير المؤمنين، إنكم تقرءون آية في كتابكم، لو علينا معشر اليهود نزلت، لاتخذنا ذلك اليوم عيدا، قال: واي آية هي؟ قال: قوله عز وجل: اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي سورة المائدة آية 3، قال: فقال عمر : والله إنني لاعلم اليوم الذي نزلت فيه على رسول الله صلى الله عليه وسلم، والساعة التي نزلت فيها على رسول الله صلى الله عليه وسلم، عشية عرفة في يوم الجمعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَنْبَأَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ إِلَى عُمَرَ، فَقَالَ:" يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً فِي كِتَابِكُمْ، لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ نَزَلَتْ، لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، قَالَ: وَأَيُّ آيَةٍ هِيَ؟ قَالَ: قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي سورة المائدة آية 3، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ : وَاللَّهِ إِنَّنِي لَأَعْلَمُ الْيَوْمَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالسَّاعَةَ الَّتِي نَزَلَتْ فِيهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَشِيَّةَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ".
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: امیر المؤمنین! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک آیت ایسی پڑھتے ہیں جو ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے آیت تکمیل دین کا حوالہ دیا، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا! مجھے علم ہے کہ یہ آیت کس دن اور کس وقت نازل ہوئی تھی، یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جمعہ کے دن عرفہ کی شام نازل ہوئی تھی۔
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو تیر مارا جس سے وہ جاں بحق ہو گیا، اس کا صرف ایک ہی وارث تھا اور وہ تھا اس کا ماموں، سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح نے اس سلسلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خط لکھا، انہوں نے جواباً لکھ بھیجا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ”جس کا کوئی مولیٰ نہ ہو، اللہ اور اس کا رسول اس کے مولیٰ ہیں اور جس کا کوئی وارث نہ ہو، ماموں ہی اس کا وارث ہو گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي يعفور العبدي ، قال: سمعت شيخا بمكة في إمارة الحجاج يحدث، عن عمر بن الخطاب ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له:" يا عمر، إنك رجل قوي، لا تزاحم على الحجر فتؤذي الضعيف، إن وجدت خلوة فاستلمه، وإلا فاستقبله، فهلل وكبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ الْعَبْدِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ شَيْخًا بِمَكَّةَ فِي إِمَارَةِ الْحَجَّاجِ يُحَدِّثُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ:" يَا عُمَرُ، إِنَّكَ رَجُلٌ قَوِيٌّ، لَا تُزَاحِمْ عَلَى الْحَجَرِ فَتُؤْذِيَ الضَّعِيفَ، إِنْ وَجَدْتَ خَلْوَةً فَاسْتَلِمْهُ، وَإِلَّا فَاسْتَقْبِلْهُ، فَهَلِّلْ وَكَبِّرْ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”عمر! تم طاقتور آدمی ہو، حجر اسود کو بوسہ دینے میں مزاحمت نہ کرنا، کہیں کمزور آدمی کو تکلیف نہ پہنچے، اگر خالی جگہ مل جائے تو استلام کر لینا، ورنہ محض استقبال کر کے تہلیل و تکبیر پر ہی اکتفاء کر لینا۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، الشيخ الذى روى عنه أبو يعفور مجهول، وسماه سفيان ابن عيينة : عبدالرحمن بن نافع بن عبدالحارث، والحديث مرسل
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا كهمس ، عن ابن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابن عمر ، عن عمر : ان جبريل عليه السلام، قال للنبي صلى الله عليه وسلم:" ما الإيمان؟ قال: ان تؤمن بالله وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وبالقدر خيره وشره، فقال له جبريل عليه السلام: صدقت، قال: فتعجبنا منه يساله ويصدقه، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ذاك جبريل، اتاكم يعلمكم معالم دينكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عن عمر : أَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَبِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام: صَدَقْتَ، قَالَ: فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَاكَ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا: ”ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، پیغمبروں، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر یقین رکھو“، جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے سچ کہا، ہمیں تعجب ہوا کہ سوال بھی کر رہے ہیں اور تصدیق بھی کر رہے ہیں، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ یہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عاصم بن عمر ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اقبل الليل، وقال مرة: جاء الليل من ههنا، وذهب النهار من ههنا، فقد افطر الصائم" يعني المشرق والمغرب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ، وَقَالَ مَرَّةً: جَاءَ اللَّيْلُ مِنْ هَهُنَا، وَذَهَبَ النَّهَارُ مِنْ هَهُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ" يَعْنِي الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب رات یہاں سے آ جائے اور دن وہاں سے چلا جائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کر لینا چاہیے، مشرق اور مغرب مراد ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا إسرائيل بن يونس ، عن عبد الاعلى الثعلبي ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، قال: كنت مع عمر ، فاتاه رجل، فقال:" إني رايت الهلال، هلال شوال، فقال عمر: يا ايها الناس، افطروا، ثم قام إلى عس فيه ماء، فتوضا، ومسح على خفيه، فقال الرجل: والله يا امير المؤمنين ما اتيتك إلا لاسالك عن هذا، افرايت غيرك فعله؟ فقال: نعم، خيرا مني، وخير الامة، رايت ابا القاسم صلى الله عليه وسلم فعل مثل الذي فعلت، وعليه جبة شامية ضيقة الكمين، فادخل يده من تحت الجبة"، ثم صلى عمر المغرب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ بْنُ يُونُسَ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عُمَرَ ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ الْهِلَالَ، هِلَالَ شَوَّالٍ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْطِرُوا، ثُمَّ قَامَ إِلَى عُسٍّ فِيهِ مَاءٌ، فَتَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَاللَّهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا أَتَيْتُكَ إِلَّا لِأَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا، أَفَرَأَيْتَ غَيْرَكَ فَعَلَهُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، خَيْرًا مِنِّي، وَخَيْرَ الْأُمَّةِ، رَأَيْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ الَّذِي فَعَلْتُ، وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَامِيَّةٌ ضَيِّقَةُ الْكُمَّيْنِ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّةِ"، ثُمَّ صَلَّى عُمَرُ الْمَغْرِبَ".
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے شوال کا چاند دیکھ لیا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! روزہ افطار کر لو، پھر خود کھڑے ہو کر ایک برتن سے جس میں پانی تھا وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، وہ آدمی کہنے لگا۔ بخدا! امیر المؤمنین! میں آپ کے پاس یہی پوچھنے کے لئے آیا تھا کہ آپ نے کسی اور کو بھی موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ فرمایا: ہاں! اس ذات کو جو مجھ سے بہتر تھی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شامی جبہ پہن رکھا تھا جس کی آستینیں تنگ تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جبے کے نیچے سے داخل کئے تھے، یہ کہہ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مغرب کی نماز پڑھانے کے لئے چلے گئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي وعدم سماع عبدالرحمن بن أبي ليلى من عمر
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن عبيد الله ، عن سالم ، عن عبد الله بن عمر ، عن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" انه استاذنه في العمرة فاذن له، فقال: يا اخي، لا تنسنا من دعائك، وقال بعد في المدينة: يا اخي، اشركنا في دعائك"، فقال عمر: ما احب ان لي بها ما طلعت عليه الشمس، لقوله: يا اخي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ اسْتَأْذَنَهُ فِي الْعُمْرَةِ فَأَذِنَ لَهُ، فَقَالَ: يَا أَخِي، لَا تَنْسَنَا مِنْ دُعَائِكَ، وَقَالَ بَعْدُ فِي الْمَدِينَةِ: يَا أَخِي، أَشْرِكْنَا فِي دُعَائِكَ"، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، لِقَوْلِهِ: يَا أَخِي.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ پر جانے کے لئے اجازت مانگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دیتے ہوئے فرمایا بھائی! ہمیں اپنی دعاؤں میں بھول نہ جانا، یا یہ فرمایا کہ بھائی! ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر اس ایک لفظ «يا اخي» کے بدلے مجھے وہ سب کچھ دے دیا جائے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے یعنی پوری دنیا تو میں اس ایک لفظ کے بدلے پوری دنیا کو پسند نہیں کروں گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة . وحجاج ، قال: سمعت شعبة ، عن عاصم بن عبيد الله ، عن سالم ، عن ابن عمر ، عن عمر :" انه قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ارايت ما نعمل فيه، اقد فرغ منه، او في شيء مبتدإ، او امر مبتدع؟ قال:" فيما قد فرغ منه"، فقال عمر: الا نتكل؟ فقال:" اعمل يا ابن الخطاب، فكل ميسر، اما من كان من اهل السعادة، فيعمل للسعادة، واما اهل الشقاء، فيعمل للشقاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . وَحَجَّاجٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ :" أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيهِ، أَقَدْ فُرِغَ مِنْهُ، أَوْ فِي شَيْءٍ مُبْتَدَإٍ، أَوْ أَمْرٍ مُبْتَدَعٍ؟ قَالَ:" فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ"، فَقَالَ عُمَرُ: أَلَا نَتَّكِلُ؟ فَقَالَ:" اعْمَلْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ، فَيَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاءِ، فَيَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ".
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم جو عمل کرتے ہیں، کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا؟ فرمایا: ”نہیں! بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے“، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں؟ فرمایا: ”ابن خطاب! عمل کرتے رہو کیونکہ جو شخص جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اسے اس کے اسباب مہیا کر دئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کر دیا جاتا ہے، پھر جو سعادت مند ہوتا ہے وہ نیکی کے کام کرتا ہے اور جو اشقیاء میں سے ہوتا ہے وہ بدبختی کے کام کرتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عاصم بن عبيدالله
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو! بعض لوگ کہتے ہیں کہ رجم کا کیا مطلب؟ قرآن کریم میں تو صرف کوڑے مارنے کا ذکر آتا ہے، حالانکہ رجم کی سزا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ہم نے بھی دی ہے، اگر کہنے والے یہ نہ کہتے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کر دیا تو میں اسے قرآن میں لکھ دیتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت يزيد بن خمير يحدث، عن حبيب بن عبيد ، عن جبير بن نفير ، عن ابن السمط : انه اتى ارضا يقال لها: دومين، من حمص على راس ثمانية عشر ميلا، فصلى ركعتين، فقلت له: اتصلي ركعتين؟ فقال:" رايت عمر بن الخطاب بذي الحليفة يصلي ركعتين، فسالته، فقال: إنما افعل كما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، او قال: فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ خُمَيْرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ السِّمْطِ : أَنَّهُ أَتَى أَرْضًا يُقَالُ لَهَا: دَوْمِينُ، مِنْ حِمْصَ عَلَى رَأْسِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ مِيلًا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقُلْتُ لَهُ: أَتُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ؟ فَقَالَ:" رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَفْعَلُ كَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابن سمط کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سر زمین ”دومین“ جو حمص سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے، پر میرا آنا ہوا، وہاں سیدنا جبیر بن نفیر نے دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ رکعتیں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے بھی ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھ کر یہی سوال کیا تھا، انہوں نے مجھے جواب دیا تھا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) قرات على عبد الرحمن بن مهدي : مالك ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله ، عن ابن عمر ، قال: دخل رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم المسجد يوم الجمعة، وعمر بن الخطاب يخطب الناس، فقال عمر: اية ساعة هذه؟ فقال: يا امير المؤمنين، انقلبت من السوق، فسمعت النداء، فما زدت على ان توضات، فقال عمر : والوضوء ايضا، وقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يامر بالغسل".(حديث مرفوع) قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ : مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ عُمَرُ: أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ؟ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، انْقَلَبْتُ مِنَ السُّوقِ، فَسَمِعْتُ النِّدَاءَ، فَمَا زِدْتُ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ، فَقَالَ عُمَرُ : وَالْوُضُوءَ أَيْضًا، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَأْمُرُ بِالْغُسْلِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا وقت ہے آنے کا؟ انہوں نے جواباً کہا کہ امیر المؤمنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آ گیا ہوں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اوپر سے وضو بھی؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے لئے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مشرکین مزدلفہ سے طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا اور مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہو گئے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں جزیرہ عرب سے یہود و نصاریٰ کو نکال کر رہوں گا، یہاں تک کہ جزیرہ عرب میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی نہ رہے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه : ان عمر بن الخطاب بينا هو قائم يخطب يوم الجمعة، فدخل رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فناداه عمر: اية ساعة هذه؟ فقال: إني شغلت اليوم، فلم انقلب إلى اهلي حتى سمعت النداء، فلم ازد على ان توضات، فقال عمر : الوضوء ايضا، وقد علمتم، وفي موضع آخر: وقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يامر بالغسل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَيْنَا هُوَ قَائِمٌ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَدَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَادَاهُ عُمَرُ: أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ؟ فَقَالَ: إِنِّي شُغِلْتُ الْيَوْمَ، فَلَمْ أَنْقَلِبْ إِلَى أَهْلِي حَتَّى سَمِعْتُ النِّدَاءَ، فَلَمْ أَزِدْ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ، فَقَالَ عُمَرُ : الْوُضُوءَ أَيْضًا، وَقَدْ عَلِمْتُمْ، وَفِي مَوْضِعٍ آخَرَ: وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَأْمُرُ بِالْغُسْلِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا وقت ہے آنے کا؟ انہوں نے جواباً کہا کہ امیر المؤمنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آ گیا ہوں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اوپر سے وضو بھی؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے لئے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا عكرمة يعني ابن عمار ، حدثني سماك الحنفي ابو زميل ، قال: حدثني عبد الله بن عباس ، حدثني عمر بن الخطاب ، قال: لما كان يوم خيبر اقبل نفر من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: فلان شهيد، فلان شهيد، حتى مروا على رجل، فقالوا:" فلان شهيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كلا، إني رايته في النار في بردة غلها، او عباءة، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ابن الخطاب، اذهب فناد في الناس: انه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون"، قال فخرجت فناديت: الا إنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ يَعْنِي ابْنَ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فُلَانٌ شَهِيدٌ، حَتَّى مَرُّوا عَلَى رَجُلٍ، فَقَالُوا:" فُلَانٌ شَهِيدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَلَّا، إِنِّي رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ فِي بُرْدَةٍ غَلَّهَا، أَوْ عَبَاءَةٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، اذْهَبْ فَنَادِ فِي النَّاسِ: أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ"، قَالَ فَخَرَجْتُ فَنَادَيْتُ: أَلَا إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو یہ کہہ رہے تھے کہ فلاں بھی شہید ہے، فلاں بھی شہید ہے، یہاں تک کہ ان کا گزر ایک آدمی پر ہوا، اس کے بارے بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ بھی شہید ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرگز نہیں! میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چوری کی تھی“، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن خطاب! جا کر لوگوں میں منادی کر دو کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے“، چنانچہ میں نکل کر یہ منادی کرنے لگا کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن يزيد ، حدثنا داود يعني ابن ابي الفرات ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابي الاسود الديلي ، قال: اتيت المدينة وقد وقع بها مرض، فهم يموتون موتا ذريعا، فجلست إلى عمر بن الخطاب، فمرت به جنازة، فاثني على صاحبها خير، فقال عمر : وجبت، ثم مر باخرى، فاثني على صاحبها خير، فقال: وجبت، ثم مر بالثالثة، فاثني على صاحبها شر، فقال عمر: وجبت، فقلت: وما وجبت يا امير المؤمنين؟ قال: قلت كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايما مسلم شهد له اربعة بخير، ادخله الله الجنة، قال: قلنا: او ثلاثة؟ قال: او ثلاثة، فقلنا: او اثنان؟ قال: او اثنان"، ثم لم نساله عن الواحد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْفُرَاتِ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ، فَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا، فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَمَرَّتْ بِهِ جَنَازَةٌ، فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ، فَقَالَ عُمَرُ : وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى، فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ، فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا شَرٌّ، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ، فَقُلْتُ: وَمَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: قُلْتُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، قَالَ: قُلْنَا: أَوْ ثَلَاثَةٌ؟ قَالَ: أَوْ ثَلَاثَةٌ، فَقُلْنَا: أَوْ اثْنَانِ؟ قَالَ: أَوْ اثْنَانِ"، ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ.
ابوالاسود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں، میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گزر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا: واجب ہوگئی، تیسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا: واجب ہو گئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیر المؤمنین! کیا چیز واجب ہو گئی؟ انہوں نے فرمایا: میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کے لئے جنت واجب ہو گئی، ہم نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کر لیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”منکرین تقدیر کے ساتھ مت بیٹھا کرو اور گفتگو شروع کرنے میں ان سے پہل نہ کیا کرو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حكيم ابن شريك الهذلي
ابن سمط کہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ذوالحلیفہ کی طرف روانہ ہوئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے اس کے متعلق سوال کیا، انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نوح قراد ، انبانا عكرمة بن عمار ، حدثنا سماك الحنفي ابو زميل ، حدثني ابن عباس ، حدثني عمر بن الخطاب ، قال: لما كان يوم بدر، قال: نظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى اصحابه وهم ثلاث مائة ونيف، ونظر إلى المشركين، فإذا هم الف وزيادة، فاستقبل النبي صلى الله عليه وسلم القبلة، ثم مد يديه، وعليه رداؤه وإزاره، ثم قال:" اللهم اين ما وعدتني؟ اللهم انجز ما وعدتني، اللهم إنك إن تهلك هذه العصابة من اهل الإسلام، فلا تعبد في الارض ابدا"، قال: فما زال يستغيث ربه عز وجل، ويدعوه حتى سقط رداؤه، فاتاه ابو بكر، فاخذ رداءه، فرداه ثم التزمه من ورائه، ثم قال: يا نبي الله، كفاك مناشدتك ربك، فإنه سينجز لك ما وعدك، وانزل الله عز وجل: إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم اني ممدكم بالف من الملائكة مردفين سورة الانفال آية 9، فلما كان يومئذ، والتقوا، فهزم الله عز وجل المشركين، فقتل منهم سبعون رجلا، واسر منهم سبعون رجلا، فاستشار رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا بكر، وعليا، وعمر، فقال ابو بكر: يا نبي الله، هؤلاء بنو العم والعشيرة والإخوان، فإني ارى ان تاخذ منهم الفدية، فيكون ما اخذنا منهم قوة لنا على الكفار، وعسى الله ان يهديهم، فيكونون لنا عضدا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما ترى يا ابن الخطاب؟ قال: قلت: والله ما ارى ما راى ابو بكر، ولكني ارى ان تمكنني من فلان قريبا لعمر، فاضرب عنقه، وتمكن عليا من عقيل، فيضرب عنقه، وتمكن حمزة من فلان اخيه، فيضرب عنقه، حتى يعلم الله انه ليست في قلوبنا هوادة للمشركين، هؤلاء صناديدهم وائمتهم وقادتهم، فهوي رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال ابو بكر، ولم يهو ما قلت، فاخذ منهم الفداء، فلما ان كان من الغد، قال عمر: غدوت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا هو قاعد وابو بكر، وإذا هما يبكيان، فقلت: يا رسول الله، اخبرني ماذا يبكيك انت وصاحبك؟ فإن وجدت بكاء بكيت، وإن لم اجد بكاء تباكيت لبكائكما، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" الذي عرض علي اصحابك من الفداء، لقد عرض علي عذابكم ادنى من هذه الشجرة، لشجرة قريبة، وانزل الله عز وجل: ما كان لنبي ان يكون له اسرى حتى يثخن في الارض إلى قوله لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما اخذتم سورة الانفال آية 67 - 68 من الفداء، ثم احل لهم الغنائم، فلما كان يوم احد من العام المقبل، عوقبوا بما صنعوا يوم بدر من اخذهم الفداء، فقتل منهم سبعون، وفر اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم، وكسرت رباعيته، وهشمت البيضة على راسه، وسال الدم على وجهه، وانزل الله تعالى: اولما اصابتكم مصيبة قد اصبتم مثليها قلتم انى هذا قل هو من عند انفسكم إن الله على كل شيء قدير سورة آل عمران آية 165، باخذكم الفداء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ ، أَنْبَأَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَنَيِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ، فَإِذَا هُمْ أَلْفٌ وَزِيَادَةٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ، ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ، وَعَلَيْهِ رِدَاؤُهُ وَإِزَارُهُ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي؟ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنَّكَ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا"، قَالَ: فَمَا زَالَ يَسْتَغِيثُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَيَدْعُوهُ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ، فَرَدَّاهُ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ، فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ سورة الأنفال آية 9، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُئِذٍ، وَالْتَقَوْا، فَهَزَمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِكِينَ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ، وَعَلِيًّا، وَعُمَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ الْفِدْيَةَ، فَيَكُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْهُمْ قُوَّةً لَنَا عَلَى الْكُفَّارِ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ، فَيَكُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ قَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَرَى مَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ، وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَنِي مِنْ فُلَانٍ قَرِيبًا لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنَ حَمْزَةَ مِنْ فُلَانٍ أَخِيهِ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، حَتَّى يَعْلَمَ اللَّهُ أَنَّهُ لَيْسَتْ فِي قُلُوبِنَا هَوَادَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ، هَؤُلَاءِ صَنَادِيدُهُمْ وَأَئِمَّتُهُمْ وَقَادَتُهُمْ، فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ، فَأَخَذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنَ الْغَدِ، قَالَ عُمَرُ: غَدَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ، وَإِذَا هُمَا يَبْكِيَانِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي مَاذَا يُبْكِيكَ أَنْتَ وَصَاحِبَكَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنَ الْفِدَاءِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُكُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، لِشَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لَوْلا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ سورة الأنفال آية 67 - 68 مِنَ الْفِدَاءِ، ثُمَّ أُحِلَّ لَهُمْ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ، عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا يَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِهِمْ الْفِدَاءَ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ، وَهُشِمَتْ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِهِ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سورة آل عمران آية 165، بِأَخْذِكُمْ الْفِدَاءَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دعا کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعا کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الٰہی! تیرا وعدہ کہاں گیا؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہو گئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔“ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستقل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی رداء مبارک گر گئی، یہ دیکھ کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چمٹ گئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے رب سے بہت دعا کر لی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کر لیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔ جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چنانچہ ان میں سے ستر قتل ہو گئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لئے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر، سیدنا علی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست و بازو بن جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابن خطاب! تمہاری رائے کیا ہے؟“ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو جو عمر کا قریبی رشتہ دار تھا میرے حوالے کر دیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑا دوں، آپ عقیل کو علی کے حوالے کر دیں اور وہ ان کی گردن اڑا دیں، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطا فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لئے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں، جب یہ قتل ہو جائیں گے تو کفر و شرک اپنی موت آپ مر جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) رو رہے ہیں؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آ جائیں تو آپ کا ساتھ دوں ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کر لوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آ رہا ہے اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں۔۔۔ آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔ آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہو گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر منتشر ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہو گئے، خَود کی کڑی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور خون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو گیا؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نوح ، حدثنا مالك بن انس ، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، عن عمر بن الخطاب ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، قال: فسالته عن شيء ثلاث مرات، فلم يرد علي، قال: فقلت لنفسي: ثكلتك امك يا ابن الخطاب، نزرت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرات، فلم يرد عليك، قال: فركبت راحلتي، فتقدمت مخافة ان يكون نزل في شيء، قال: فإذا انا بمناد ينادي: يا عمر، اين عمر؟ قال: فرجعت، وانا اظن انه نزل في شيء، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" نزلت علي البارحة سورة هي احب إلي من الدنيا وما فيها: إنا فتحنا لك فتحا مبينا ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تاخر سورة الفتح آية 1 - 2.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، قَالَ: فَسَأَلْتُهُ عَنْ شَيْءٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، قَالَ: فَقُلْتُ لِنَفْسِي: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْكَ، قَالَ: فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي، فَتَقَدَّمْتُ مَخَافَةَ أَنْ يَكُونَ نَزَلَ فِيَّ شَيْءٌ، قَالَ: فَإِذَا أَنَا بِمُنَادٍ يُنَادِي: يَا عُمَرُ، أَيْنَ عُمَرُ؟ قَالَ: فَرَجَعْتُ، وَأَنَا أَظُنُّ أَنَّهُ نَزَلَ فِيَّ شَيْءٌ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَزَلَتْ عَلَيَّ الْبَارِحَةَ سُورَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ سورة الفتح آية 1 - 2.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے متعلق تین مرتبہ سوال کیا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بھی جواب نہ دیا، میں نے اپنے دل میں کہا: ابن خطاب! تیری ماں تجھے روئے، تو نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین مرتبہ ایک چیز کے متعلق دریافت کیا،لیکن انہوں نے تجھے کوئی جواب نہ دیا، یہ سوچ کر میں اپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے نکل آیا کہ کہیں میرے بارے قرآن کی کوئی آیت نازل نہ ہو جائے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک منادی میرا نام لے کر پکارتا ہوا آیا کہ عمر کہاں ہے؟ میں یہ سوچتا ہوا واپس لوٹ آیا کہ شاید میرے بارے میں قرآن کی کوئی آیت نازل ہوئی ہے، وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آج رات مجھ پر ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ پسندیدہ ہے“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت الفتح کی پہلی آیت تلاوت فرمائی۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا المسعودي ، عن حكيم بن جبير ، عن موسى بن طلحة ، عن ابن الحوتكية ، قال: اتي عمر بن الخطاب بطعام، فدعا إليه رجلا، فقال: إني صائم، ثم قال: واي الصيام تصوم؟ لولا كراهية ان ازيد او انقص لحدثتكم بحديث النبي صلى الله عليه وسلم حين جاءه الاعرابي بالارنب، ولكن ارسلوا إلى عمار، فلما جاء عمار، قال: اشاهد انت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم جاءه الاعرابي بالارنب؟ قال: نعم، فقال: إني رايت بها دما، فقال:" كلوها، قال: إني صائم، قال: واي الصيام تصوم؟ قال: اول الشهر وآخره، قال: إن كنت صائما، فصم الثلاث عشرة، والاربع عشرة، والخمس عشرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنِ ابْنِ الْحَوْتَكِيَّةِ ، قَالَ: أُتِيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِطَعَامٍ، فَدَعَا إِلَيْهِ رَجُلًا، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ: وَأَيُّ الصِّيَامِ تَصُومُ؟ لَوْلَا كَرَاهِيَةُ أَنْ أَزِيدَ أَوْ أَنْقُصَ لَحَدَّثْتُكُمْ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَاءَهُ الْأَعْرَابِيُّ بِالْأَرْنَبِ، وَلَكِنْ أَرْسِلُوا إِلَى عَمَّارٍ، فَلَمَّا جَاءَ عَمَّارٌ، قَالَ: أَشَاهِدٌ أَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جَاءَهُ الْأَعْرَابِيُّ بِالْأَرْنَبِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ بِهَا دَمًا، فَقَالَ:" كُلُوهَا، قَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: وَأَيُّ الصِّيَامِ تَصُومُ؟ قَالَ: أَوَّلَ الشَّهْرِ وَآخِرَهُ، قَالَ: إِنْ كُنْتَ صَائِمًا، فَصُمْ الثَّلَاثَ عَشْرَةَ، وَالْأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَالْخَمْسَ عَشْرَةَ".
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، انہوں نے ایک آدمی کو شرکت کی دعوت دی، اس نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، فرمایا: تم کون سے روزے رکھ رہے ہو؟ اگر کمی بیشی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بیان کرتا جب ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خرگوش لے کر حاضر ہوا، تم ایسا کرو کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو بلا کر لاؤ۔ جب سیدنا عمار رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے جب ایک دیہاتی ایک خرگوش لے کر آیا تھا؟ فرمایا: جی ہاں! میں نے اس پر خون لگا ہوا دیکھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کھاؤ“، وہ کہنے لگا کہ میرا روزہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیسا روزہ؟“ اس نے کہا کہ میں ہر ماہ کی ابتداء اور اختتام پر روزہ رکھتا ہوں، فرمایا: ”اگر تم روزہ رکھنا ہی چاہتے ہو تو نفلی روزے کے لئے مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا انتخاب کیا کرو۔“
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف، المسعودي كان قد اختلط، ورواية أبى النضر عنه بعد الاختلاط، وحكيم بن جبير ضعيف لكنه توبع، وابن الحوتكية لم يرو عنه سوى موسى بن طلحة
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا ابو عقيل ، حدثنا مجالد بن سعيد ، اخبرنا عامر ، عن مسروق بن الاجدع ، قال: لقيت عمر بن الخطاب، فقال لي: من انت؟ قلت: مسروق بن الاجدع، فقال عمر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" الاجدع شيطان"، ولكنك مسروق بن عبد الرحمن، قال عامر: فرايته في الديوان مكتوبا: مسروق بن عبد الرحمن، فقلت: ما هذا؟ فقال: هكذا سماني عمر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ ، حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ ، أَخْبَرَنَا عَامِرٌ ، عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ ، قَالَ: لَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لِي: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ، فَقَالَ عُمَرُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْأَجْدَعُ شَيْطَانٌ"، وَلَكِنَّكَ مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ عَامِرٌ: فَرَأَيْتُهُ فِي الدِّيوَانِ مَكْتُوبًا: مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: هَكَذَا سَمَّانِي عُمَرُ.
مسروق بن اجدع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں مسروق بن اجدع ہوں، فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اجدع شیطان کا نام ہے، اس لئے تمہارا نام مسروق بن عبدالرحمن ہے، عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ان کے رجسٹر میں ان کا نام مسروق بن عبدالرحمن لکھا ہوا دیکھا تو ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے میرا یہ نام رکھا تھا۔
اسلم ”جو کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے“ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو جو بستی اور شہر بھی مفتوح ہو گا، میں اسے فاتحین کے درمیان تقسیم کر دیا کروں گا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم فرما دیا تھا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا «لا وابي» تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، رواية سماك عن عكرمة فيها اضطراب، خ: 6647، م:1646
سیار بن معرور کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اس مسجد کی تعمیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے ساتھ مل کر فرمائی ہے، اگر رش زیادہ ہو جائے تو (مسجد کی کمی کو مورد التزام ٹھہرانے کی بجائے) اپنے بھائی کی پشت پر سجدہ کر لیا کرو، اسی طرح ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو راستے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ مسجد میں نماز پڑھا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سيار بن معرور - وإن لم يرو عنه غير سماك، ولم يوثقه غير ابن حبان قد توبع
(حديث موقوف) قرات على قرات على يحيى بن سعيد : زهير ، قال: حدثنا ابو إسحاق ، عن حارثة بن مضرب : انه حج مع عمر بن الخطاب ، فاتاه اشراف اهل الشام، فقالوا: يا امير المؤمنين،" إنا اصبنا من اموالنا رقيقا ودواب، فخذ من اموالنا صدقة تطهرنا بها، وتكون لنا زكاة، فقال: هذا شيء لم يفعله اللذان كانا من قبلي، ولكن انتظروا حتى اسال المسلمين".(حديث موقوف) قَرَأْتُ عَلَى قَرَأْتُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ : زهير ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ : أَنَّهُ حَجَّ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَأَتَاهُ أَشْرَافُ أَهْلِ الشَّامِ، فَقَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ،" إِنَّا أَصَبْنَا مِنْ أَمْوَالِنَا رَقِيقًا وَدَوَابَّ، فَخُذْ مِنْ أَمْوَالِنَا صَدَقَةً تُطَهِّرُنَا بِهَا، وَتَكُونُ لَنَا زَكَاةً، فَقَالَ: هَذَا شَيْءٌ لَمْ يَفْعَلْهُ اللَّذَانِ كَانَا مِنْ قَبْلِي، وَلَكِنْ انْتَظِرُوا حَتَّى أَسْأَلَ الْمُسْلِمِينَ".
حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ انہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کا شرف حاصل ہوا، شام کے کچھ معززین ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے، امیرالمومنین! ہمیں کچھ غلام اور جانور ملے ہیں، آپ ہمارے مال سے زکوٰۃ وصول کر لیجئے تاکہ ہمارا مال پاک ہو جائے اور وہ ہمارے لئے پاکیزگی کا سبب بن جائے، فرمایا: یہ کام تو مجھ سے پہلے میرے دو پیشرو حضرات نے نہیں کیا، میں کیسے کر سکتا ہوں البتہ ٹھہرو! میں مسلمانوں سے مشورہ کر لیتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، زهير روي عن أبى إسحاق السبيعي بعد ما تغير، لكنه توبع
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں زندہ رہا تو جزیرہ عرب سے یہود و نصاریٰ کو نکال کر رہوں گا، یہاں تک کہ جزیرہ عرب میں مسلمان کے علاوہ کوئی نہ رہے گا۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص سے اس کا رات والی دعاؤں کا معمول کسی وجہ سے چھوٹ جائے اور وہ اسے اگلے دن فجر اور ظہر کے درمیان کسی بھی وقت پڑھ لے تو گویا اس نے اپنا معمول رات ہی کو پورا کیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نوح قراد ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثنا سماك الحنفي ابو زميل ، حدثني ابن عباس ، حدثني عمر ، قال: لما كان يوم بدر، قال: نظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى اصحابه وهم ثلاث مائة ونيف، ونظر إلى المشركين فإذا هم الف وزيادة، فاستقبل النبي صلى الله عليه وسلم القبلة، ثم مد يده، وعليه رداؤه وإزاره، ثم قال:" اللهم اين ما وعدتني؟ اللهم انجز ما وعدتني، اللهم إن تهلك هذه العصابة من اهل الإسلام، فلا تعبد في الارض ابدا"، قال: فما زال يستغيث ربه، ويدعوه حتى سقط رداؤه، فاتاه ابو بكر، فاخذ رداءه، فرداه ثم التزمه من ورائه، ثم قال: يا نبي الله، كفاك مناشدتك ربك، فإنه سينجز لك ما وعدك، وانزل الله تعالى: إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم اني ممدكم بالف من الملائكة مردفين سورة الانفال آية 9، فلما كان يومئذ، والتقوا، فهزم الله المشركين، فقتل منهم سبعون رجلا، واسر منهم سبعون رجلا، فاستشار رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا بكر، وعليا، وعمر، فقال ابو بكر: يا نبي الله، هؤلاء بنو العم والعشيرة والإخوان، فانا ارى ان تاخذ منهم الفداء، فيكون ما اخذنا منهم قوة لنا على الكفار، وعسى الله عز وجل ان يهديهم فيكونون لنا عضدا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما ترى يا ابن الخطاب؟ فقال: قلت: والله ما ارى ما راى ابو بكر، ولكني ارى ان تمكنني من فلان قريب لعمر، فاضرب عنقه، وتمكن عليا من عقيل، فيضرب عنقه، وتمكن حمزة من فلان اخيه، فيضرب عنقه، حتى يعلم الله انه ليس في قلوبنا هوادة للمشركين، هؤلاء صناديدهم وائمتهم وقادتهم، فهوي رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال ابو بكر، ولم يهو ما قلت، فاخذ منهم الفداء، فلما كان من الغد، قال عمر: غدوت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا هو قاعد وابو بكر، وإذا هما يبكيان، فقلت: يا رسول الله، اخبرني ماذا يبكيك انت وصاحبك؟ فإن وجدت بكاء بكيت، وإن لم اجد بكاء تباكيت لبكائكما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" الذي عرض علي اصحابك من الفداء، ولقد عرض علي عذابكم ادنى من هذه الشجرة" لشجرة قريبة، وانزل الله تعالى: ما كان لنبي ان يكون له اسرى حتى يثخن في الارض إلى قوله لمسكم فيما اخذتم سورة الانفال آية 67 - 68 من الفداء، ثم احل لهم الغنائم، فلما كان يوم احد من العام المقبل، عوقبوا بما صنعوا يوم بدر من اخذهم الفداء، فقتل منهم سبعون، وفر اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم، وكسرت رباعيته، وهشمت البيضة على راسه، وسال الدم على وجهه، فانزل الله: اولما اصابتكم مصيبة قد اصبتم مثليها إلى قوله إن الله على كل شيء قدير سورة آل عمران آية 165، باخذكم الفداء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَنَيِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَإِذَا هُمْ أَلْفٌ وَزِيَادَةٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ، ثُمَّ مَدَّ يَدَهُ، وَعَلَيْهِ رِدَاؤُهُ وَإِزَارُهُ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي؟ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا"، قَالَ: فَمَا زَالَ يَسْتَغِيثُ رَبَّهُ، وَيَدْعُوهُ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ، فَرَدَّاهُ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ، فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ سورة الأنفال آية 9، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُئِذٍ، وَالْتَقَوْا، فَهَزَمَ اللَّهُ الْمُشْرِكِينَ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ، وَعَلِيًّا، وَعُمَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ وَالْإِخْوَانُ، فَأَنَا أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ، فَيَكُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْهُمْ قُوَّةً لَنَا عَلَى الْكُفَّارِ، وَعَسَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَهْدِيَهُمْ فَيَكُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ فَقَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَرَى مَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ، وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَنِي مِنْ فُلَانٍ قَرِيبٍ لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنَ حَمْزَةَ مِنْ فُلَانٍ أَخِيهِ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، حَتَّى يَعْلَمَ اللَّهُ أَنَّهُ لَيْسَ فِي قُلُوبِنَا هَوَادَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ، هَؤُلَاءِ صَنَادِيدُهُمْ وَأَئِمَّتُهُمْ وَقَادَتُهُمْ، فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ، فَأَخَذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ، قَالَ عُمَرُ: غَدَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ، وَإِذَا هُمَا يَبْكِيَانِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي مَاذَا يُبْكِيكَ أَنْتَ وَصَاحِبَكَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنَ الْفِدَاءِ، وَلَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُكُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ" لِشَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ سورة الأنفال آية 67 - 68 مِنَ الْفِدَاءِ، ثُمَّ أُحِلَّ لَهُمْ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ، عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا يَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِهِمْ الْفِدَاءَ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ، وَهُشِمَتْ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا إِلَى قَوْلِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سورة آل عمران آية 165، بِأَخْذِكُمْ الْفِدَاءَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دعا کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعا کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الٰہی! تیرا وعدہ کہاں گیا؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہو گئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔“ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستقل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی رداء مبارک گر گئی، یہ دیکھ کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چمٹ گئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے رب سے بہت دعا کر لی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کر لیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔ جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چنانچہ ان میں سے ستر قتل ہو گئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لئے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر، سیدنا علی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست و بازو بن جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابن خطاب! تمہاری رائے کیا ہے؟“ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو جو عمر کا قریبی رشتہ دار تھا میرے حوالے کر دیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑا دوں، آپ عقیل کو علی کے حوالے کر دیں اور وہ ان کی گردن اڑا دیں، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطا فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لئے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں، جب یہ قتل ہو جائیں گے تو کفر و شرک اپنی موت آپ مر جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) رو رہے ہیں؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آ جائیں تو آپ کا ساتھ دوں ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کر لوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آ رہا ہے اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں۔۔۔ آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔ آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہو گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر منتشر ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہو گئے، خَود کی کڑی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور خون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو گیا؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن ابي ثور ، عن ابن عباس ، قال:" لم ازل حريصا على ان اسال عمر بن الخطاب عن المراتين من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، اللتين قال الله تعالى: إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما سورة التحريم آية 4، حتى حج عمر وحججت معه، فلما كنا ببعض الطريق عدل عمر، وعدلت معه بالإداوة، فتبرز ثم اتاني، فسكبت على يديه، فتوضا، فقلت: يا امير المؤمنين، من المراتان من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم اللتان قال الله تعالى: إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما سورة التحريم آية 4؟ فقال عمر : واعجبا لك يا ابن عباس! قال الزهري: كره، والله، ما ساله عنه ولم يكتمه عنه، قال: هما حفصة، وعائشة، قال ثم اخذ يسوق الحديث، قال: كنا معشر قريش قوما نغلب النساء، فلما قدمنا المدينة وجدنا قوما تغلبهم نساؤهم، فطفق نساؤنا يتعلمن من نسائهم، قال: وكان منزلي في بني امية بن زيد بالعوالي، قال: فغضبت يوما على امراتي، فإذا هي تراجعني، فانكرت ان تراجعني، فقالت: ما تنكر ان اراجعك، فوالله إن ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ليراجعنه، وتهجره إحداهن اليوم إلى الليل، قال: فانطلقت، فدخلت على حفصة، فقلت: اتراجعين رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: نعم، قلت: وتهجره إحداكن اليوم إلى الليل؟ قالت: نعم، قلت: قد خاب من فعل ذلك منكن وخسر، افتامن إحداكن ان يغضب الله عليها لغضب رسوله، فإذا هي قد هلكت؟ لا تراجعي رسول الله ولا تساليه شيئا، وسليني ما بدا لك، ولا يغرنك إن كانت جارتك هي اوسم واحب إلى رسول الله منك، يريد عائشة، قال: وكان لي جار من الانصار، وكنا نتناوب النزول إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فينزل يوما، وانزل يوما، فياتيني بخبر الوحي وغيره، وآتيه بمثل ذلك، قال: وكنا نتحدث ان غسان تنعل الخيل لتغزونا، فنزل صاحبي يوما، ثم اتاني عشاء، فضرب بابي، ثم ناداني فخرجت إليه، فقال: حدث امر عظيم، قلت: وماذا، اجاءت غسان؟ قال: لا، بل اعظم من ذلك واطول، طلق الرسول نساءه، فقلت: قد خابت حفصة وخسرت، قد كنت اظن هذا كائنا، حتى إذا صليت الصبح شددت علي ثيابي، ثم نزلت فدخلت على حفصة وهي تبكي، فقلت: اطلقكن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: لا ادري، هو هذا معتزل في هذه المشربة، فاتيت غلاما له اسود، فقلت: استاذن لعمر، فدخل الغلام ثم خرج إلي، فقال: قد ذكرتك له فصمت، فانطلقت حتى اتيت المنبر، فإذا عنده رهط جلوس يبكي بعضهم، فجلست قليلا، ثم غلبني ما اجد، فاتيت الغلام، فقلت: استاذن لعمر، فدخل الغلام ثم خرج إلي، فقال: قد ذكرتك له فصمت، فخرجت، فجلست إلى المنبر، ثم غلبني ما اجد، فاتيت الغلام، فقلت: استاذن لعمر، فدخل ثم خرج إلي، فقال: قد ذكرتك له فصمت، فوليت مدبرا، فإذا الغلام يدعوني، فقال: ادخل، فقد اذن لك، فدخلت، فسلمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو متكئ على رمل حصير. ح وحدثناه يعقوب ، في حديث صالح ، قال: رمال حصير قد اثر في جنبه، فقلت: اطلقت يا رسول الله نساءك؟ فرفع راسه إلي، وقال:" لا"، فقلت: الله اكبر، لو رايتنا يا رسول الله، وكنا معشر قريش قوما نغلب النساء، فلما قدمنا المدينة، وجدنا قوما تغلبهم نساؤهم، فطفق نساؤنا يتعلمن من نسائهم، فتغضبت على امراتي يوما، فإذا هي تراجعني، فانكرت ان تراجعني، فقالت: ما تنكر ان اراجعك؟ فوالله إن ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم ليراجعنه، وتهجره إحداهن اليوم إلى الليل، فقلت: قد خاب من فعل ذلك منهن وخسر، افتامن إحداهن ان يغضب الله عليها لغضب رسوله، فإذا هي قد هلكت؟ فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، فدخلت على حفصة، فقلت لا يغرك إن كانت جارتك هي اوسم واحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منك، فتبسم اخرى، فقلت: استانس يا رسول الله؟ قال:" نعم"، فجلست، فرفعت راسي في البيت، فوالله ما رايت فيه شيئا يرد البصر، إلا اهبة ثلاثة، فقلت: ادع يا رسول الله ان يوسع على امتك، فقد وسع على فارس، والروم، وهم لا يعبدون الله، فاستوى جالسا، ثم قال:" افي شك انت يا ابن الخطاب؟ اولئك قوم عجلت لهم طيباتهم في الحياة الدنيا"، فقلت: استغفر لي يا رسول الله، وكان اقسم ان لا يدخل عليهن شهرا من شدة موجدته عليهن، حتى عاتبه الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4، حَتَّى حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ عُمَرُ، وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ، فَتَبَرَّزَ ثُمَّ أَتَانِي، فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ، فَتَوَضَّأَ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4؟ فَقَالَ عُمَرُ : وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ! قَالَ الزُّهْرِيُّ: كَرِهَ، وَاللَّهِ، مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ عَنْهُ، قَالَ: هُمَا حَفْصَةُ، وَعَائِشَةُ، قَالَ ثُمَّ أَخَذَ يَسُوقُ الْحَدِيثَ، قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، قَالَ: وَكَانَ مَنْزِلِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ بِالْعَوَالِي، قَالَ: فَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاكُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْكُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ؟ لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا، وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلَا يَغُرَّنَّكِ إِنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ مِنْكِ، يُرِيدُ عَائِشَةَ، قَالَ: وَكَانَ لِي جَارٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْزِلُ يَوْمًا، وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ، قَالَ: وَكُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا، فَنَزَلَ صَاحِبِي يَوْمًا، ثُمَّ أَتَانِي عِشَاءً، فَضَرَبَ بَابِي، ثُمَّ نَادَانِي فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ: وَمَاذَا، أَجَاءَتْ غَسَّانُ؟ قَالَ: لَا، بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَطْوَلُ، طَلَّقَ الرَّسُولُ نِسَاءَهُ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا، حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ نَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: لَا أَدْرِي، هُوَ هَذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرُبَةِ، فَأَتَيْتُ غُلَامًا لَهُ أَسْوَدَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ الْغُلَامُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُ الْمِنْبَرَ، فَإِذَا عِنْدَهُ رَهْطٌ جُلُوسٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ، فَجَلَسْتُ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ الْغُلَامُ ثُمَّ خَرَجَ إِليَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَخَرَجْتُ، فَجَلَسْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا، فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي، فَقَالَ: ادْخُلْ، فَقَدْ أَذِنَ لَكَ، فَدَخَلْتُ، فَسَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ. ح وحَدَّثَنَاه يَعْقُوبُ ، فِي حَدِيثِ صَالِحٍ ، قَالَ: رُمَالِ حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: أَطَلَّقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نِسَاءَكَ؟ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ، وَقَالَ:" لَا"، فَقُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، لَوْ رَأَيْتَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ؟ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاهُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ؟ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ لَا يَغُرُّكِ إِنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَقُلْتُ: أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، فَجَلَسْتُ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فِي الْبَيْتِ، فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ، إِلَّا أَهَبَةً ثَلَاثَةً، فَقُلْتُ: ادْعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ، فَقَدْ وُسِّعَ عَلَى فَارِسَ، وَالرُّومِ، وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ، فَاسْتَوَى جَالِسًا، ثُمَّ قَالَ:" أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا"، فَقُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ، حَتَّى عَاتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی بڑی آرزو تھی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو ازواج مطہرات کے بارے سوال کروں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر تم دونوں توبہ کر لو تو اچھا ہے کیونکہ تمہارے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں۔“ لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی، حتیٰ کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، راستے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے ہٹ کر چلنے لگے، میں بھی پانی کا برتن لے کر ان کے پیچھے چلا گیا، انہوں نے اپنی طبعی ضرورت پوری کی اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وضو کرنے لگے۔ اس دوران مجھے موقع مناسب معلوم ہوا، اس لئے میں نے پوچھ ہی لیا کہ امیر المؤمنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے وہ دو عورتیں کون تھیں جن کے بارے اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم توبہ کر لو تو اچھا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن عباس! حیرانگی کی بات ہے کہ تمہیں یہ بات معلوم نہیں، وہ دونوں عائشہ اور حفصہ تھیں اور فرمایا کہ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے، لیکن جب ہم مدینہ منورہ میں آئے تو یہاں کی عورتیں، مردوں پر غالب نظر آئیں، ان کی دیکھا دیکھی ہماری عورتوں نے بھی ان سے یہ طور طریقے سیکھنا شروع کر دئیے۔ میرا گھر اس وقت عوالی میں بنو امیہ بن زید کے پاس تھا، ایک دن میں نے اپنی بیوی پر غصہ کا اظہار کسی وجہ سے کیا تو وہ الٹا مجھے جواب دینے لگی، مجھے بڑا تعجب ہوا، وہ کہنے لگی کہ میرے جواب دینے پر تو آپ کو تعجب ہو رہا ہے بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی انہیں جواب دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان میں سے کوئی سارا دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات ہی نہیں کرتی۔ یہ سنتے ہی میں اپنی بیٹی حفصہ کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ کیا تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تکرار کرتی ہو؟ انہوں نے اقرار کیا، پھر میں نے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی سارا دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات ہی نہیں کرتی؟ انہوں نے اس پر اقرار کیا، میں نے کہا کہ تم میں سے جو یہ کرتا ہے وہ بڑے نقصان اور خسارے میں ہے، کیا تم لوگ اس بات پر مطمئن ہو کہ اپنے پیغمبر کو ناراض دیکھ کر تم میں سے کسی پر اللہ کا غضب نازل ہو اور وہ ہلاک ہو جائے۔ خبردار! تم آئندہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بات پر نہ تکرار کرنا اور نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا، جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بتا دینا اور اپنی سہیلی یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ چہیتی اور لاڈلی سمجھ کر کہیں تم دھوکے میں نہ رہنا۔ میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم دونوں نے باری مقرر کر رکھی تھی، ایک دن وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ایک دن میں، وہ اپنے دن کی خبریں اور وحی مجھے سنا دیتا اور میں اپنی باری کی خبریں اور وحی اسے سنا دیتا، اس زمانے میں ہم لوگ آپس میں یہ گفتگو ہی کرتے رہتے تھے کہ بنو غسان کے لوگ ہم سے مقابلے کے لئے اپنے گھوڑوں کے نعل ٹھونک رہے ہیں، اس تناظر میں میرا پڑوسی ایک دن عشاء کے وقت میرے گھر آیا اور زور زور سے دروازہ بجایا، پھر مجھے آوازیں دینے لگا، میں جب باہر نکل کر آیا تو وہ کہنے لگا کہ آج تو ایک بڑا اہم واقعہ پیش آیا ہے، میں نے پوچھا کہ کیا بنوغسان نے حملہ کر دیا؟ اس نے کہا: نہیں! اس سے بھی زیادہ اہم واقعہ پیش آیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، میں نے یہ سنتے ہی کہا کہ حفصہ خسارے میں رہ گئی، مجھے پتہ تھا کہ یہ ہو کر رہے گا۔ خیر! فجر کی نماز پڑھ کر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور سیدھا حفصہ کے پاس پہنچا، وہ رو رہی تھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے کچھ خبر نہیں، وہ اس بالاخانے میں اکیلے رہ رہے ہیں، میں وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام ملا، میں نے کہا کہ میرے لئے اندر داخل ہونے کی اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد آ کر کہنے لگا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ذکر کر دیا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ میں وہاں سے آ کر منبر کے قریب پہنچا تو وہاں بھی بہت سے لوگوں کو بیٹھے روتا ہوا پایا، میں بھی تھوڑی دیر کے لئے وہاں بیٹھ گیا، لیکن پھر بے چینی مجھ پر غالب آ گئی اور میں نے دوبارہ اس غلام سے جا کر کہا کہ میرے لئے اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی آ کر کہنے لگا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ذکر کیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، تین مرتبہ اس طرح ہونے کے بعد جب میں واپس جانے لگا تو غلام نے مجھے آواز دی کہ آئیے، آپ کو اجازت مل گئی ہے۔ میں نے اندر داخل ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں جس کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک پر نظر آ رہے ہیں، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا: ”نہیں“، میں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور عرض کیا، یا رسول اللہ! دیکھئے تو سہی، ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہتے تھے، جب مدینہ منورہ پہنچے تو یہاں ایسے لوگوں سے پالا پڑا جن پر ان کی عورتیں غالب رہتی ہیں، ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ان کے طور طریقے سیکھنا شروع کر دیئے، چنانچہ ایک دن میں اپنی بیوی سے کسی بات پر ناراض ہوا، تو وہ الٹا مجھے جواب دینے گئی، مجھے تعجب ہوا، تو وہ کہنے لگی کہ آپ کو میرے جواب دینے تعجب ہو رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی انہیں جواب دیتی ہیں اور سارا سارا دن تک ان سے بات نہیں کرتیں۔ میں نے کہا کہ جو ایسا کرتی ہے وہ نقصان اور خسارے میں ہے، کیا وہ اس بات سے مطمئن رہتی ہیں کہ اگر اپنے پیغمبر کی ناراضگی پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا تو وہ ہلاک نہیں ہوں گی؟ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، میں نے مزید عرض کیا، یا رسول اللہ! اس کے بعد میں حفصہ کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ تو اس بات سے دھوکے میں نہ رہ کہ تیری سہیلی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ چہیتی اور لاڈلی ہے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرائے۔ پھر میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا میں بےتکلف ہو سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، چنانچہ میں نے سر اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانہ اقدس کا جائزہ لینا شروع کر دیا، اللہ کی قسم! مجھے وہاں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس کی طرف بار بار نظریں اٹھیں، سوائے تین کچی کھالوں کے، میں نے یہ دیکھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ آپ کی امت پر وسعت اور کشادگی فرمائے، فارس اور روم جو ”اللہ کی عبادت نہیں کرتے“ ان پر تو بڑی فراخی کی گئی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: ابن خطاب! کیا تم اب تک شک میں مبتلا ہو؟ ان لوگوں کو دنیا میں ہی ساری چیزیں دے دی گئی ہیں، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے لیے بخشش کی دعاء فرما دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل میں یہ قسم کھائی تھی کہ ایک مہینے تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہیں جائیں گے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر سخت غصہ اور غم تھا، تا آنکہ الله تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلے میں وحی نازل فرما دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرني يونس بن سليم ، قال: املى علي يونس بن يزيد الايلي ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عبد الرحمن بن عبد القاري ، سمعت عمر بن الخطاب ، يقول: كان إذا نزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم الوحي، يسمع عند وجهه دوي كدوي النحل، فمكثنا ساعة، فاستقبل القبلة ورفع يديه، فقال:" اللهم زدنا ولا تنقصنا، واكرمنا ولا تهنا، واعطنا ولا تحرمنا، وآثرنا ولا تؤثر علينا، وارض عنا وارضنا"، ثم قال:" لقد انزلت علي عشر آيات، من اقامهن دخل الجنة، ثم قرا علينا: قد افلح المؤمنون سورة المؤمنون آية 1 حتى ختم العشر آيات".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ سُلَيْمٍ ، قَالَ: أَمْلَى عَلَيَّ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ الْأَيْلِيُّ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ ، سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ: كَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ، يُسْمَعُ عِنْدَ وَجْهِهِ دَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ، فَمَكَثْنَا سَاعَةً، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا، وَأَكْرِمْنَا وَلَا تُهِنَّا، وَأَعْطِنَا وَلَا تَحْرِمْنَا، وَآثِرْنَا وَلَا تُؤْثِرْ عَلَيْنَا، وَارْضَ عَنَّا وَأَرْضِنَا"، ثُمَّ قَالَ:" لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ عَشْرُ آيَاتٍ، مَنْ أَقَامَهُنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ، ثُمَّ قَرَأَ عَلَيْنَا: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ سورة المؤمنون آية 1 حَتَّى خَتَمَ الْعَشْرَ آيات".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب نزول وحی ہوتا تو آپ کے روئے انور کے قریب سے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی سی آواز سنائی دیتی تھی، ایک مرتبہ ایسا ہوا تو ہم کچھ دیر کے لئے رک گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر اپنے ہاتھ پھیلائے اور یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ! ہمیں زیادہ عطاء فرما، کمی نہ فرما، ہمیں معزز فرما، ذلیل نہ فرما، ہمیں عطاء فرما، محروم نہ فرما، ہمیں ترجیح دے، دوسروں کو ہم پر ترجیح نہ دے، ہم سے راضی ہو جا اور ہمیں راضی کر دے، اس کے بعد فرمایا کہ مجھ پر ابھی ابھی دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر ان کی پابندی کوئی شخص کر لے، وہ جنت میں داخل ہو گا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت المومنون کی ابتدائی دس آیات کی تلاوت فرمائی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن ابي عبيد مولى عبد الرحمن بن عوف: انه شهد العيد مع عمر بن الخطاب ، فصلى قبل ان يخطب بلا اذان ولا إقامة، ثم خطب، فقال:" يا ايها الناس، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن صيام هذين اليومين، اما احدهما: فيوم فطركم من صيامكم وعيدكم، واما الآخر: فيوم تاكلون فيه من نسككم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أبي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ: أَنَّهُ شَهِدَ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَصَلَّى قَبْلَ أَنْ يَخْطُبَ بِلَا أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، ثُمَّ خَطَبَ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ، أَمَّا أَحَدُهُمَا: فَيَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ وَعِيدُكُمْ، وَأَمَّا الْآخَرُ: فَيَوْمٌ تَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ نُسُكِكُمْ".
ابوعبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے خطبہ سے پہلے بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو دنوں کے روزے سے منع فرمایا ہے، عیدالفطر کے دن تو اس لئے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحیٰ کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکو۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الله بن عمر العمري، لكنه قد توبع، خ: 1597، م: 1270
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرني سيار ، عن ابي وائل : ان رجلا كان نصرانيا يقال له: الصبي بن معبد ، اسلم، فاراد الجهاد، فقيل له: ابدا بالحج، فاتى الاشعري، فامره ان يهل بالحج والعمرة جميعا، ففعل، فبينما هو يلبي، إذ مر يزيد بن صوحان، وسلمان بن ربيعة، فقال احدهما لصاحبه: لهذا اضل من بعير اهله، فسمعها الصبي، فكبر ذلك عليه، فلما قدم اتى عمر، فذكر ذلك له، فقال له عمر :" هديت لسنة نبيك، قال: وسمعته مرة اخرى يقول: وفقت لسنة نبيك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنِي سَيَّارٌ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ : أَنَّ رَجُلًا كَانَ نَصْرَانِيًّا يُقَالُ لَهُ: الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، أسلم، فأراد الجهاد، فقيل له: ابْدَأْ بِالْحَجِّ، فَأَتَى الْأَشْعَرِيَّ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُهِلَّ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ جَمِيعًا، فَفَعَلَ، فَبَيْنَمَا هُوَ يُلَبِّي، إِذْ مَرَّ يَزِيدُ بْنُ صُوحَانَ، وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: لَهَذَا أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِ أَهْلِهِ، فَسَمِعَهَا الصُّبَيُّ، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمَ أَتَى عُمَرَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ :" هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ، قَالَ: وَسَمِعْتُهُ مَرَّةً أُخْرَى يَقُولُ: وُفِّقْتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ".
سیدنا ابووائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک عیسائی آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا، انہوں نے جہاد کا ارادہ کر لیا، اسی اثناء میں کسی نے کہا: آپ پہلے حج کر لیں، پھر جہاد میں شرکت کریں۔ چنانچہ وہ اشعری کے پاس آئے، انہوں نے صبی کو حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھ لینے کا حکم دیا، انہوں نے ایسا ہی کیا، وہ یہ تلبیہ پڑھتے ہوئے، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے پاس سے گزرے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی نے یہ بات سن لی اور ان پر بہت بوجھ بنی، جب وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہو گئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عمر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يسمر عند ابي بكر الليلة كذاك في الامر من امر المسلمين، وانا معه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ كَذَاكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنَا مَعَهُ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ روزانہ رات کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس مسلمانوں کے معاملات میں مشورے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ میں بھی اس موقع پر موجود تھا۔
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں، میں جانتاہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، لیکن میں تجھے پھر بھی بوسہ دے رہا ہوں، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہو جائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! وضو کر لے اور سو جائے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، اخبرنا هشام ، عن ابيه ، عن عاصم ، عن عمر بن الخطاب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اقبل الليل، وادبر النهار، وغابت الشمس، فقد افطرت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ، وَغَابَتْ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَفْطَرْتَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب رات آ جائے اور دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو تمہیں روزہ افطار کر لینا چاہیے، (مشرق اور مغرب مراد ہے)۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو كامل ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابن شهاب . ح وحدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، المعنى، عن ابي الطفيل عامر بن واثلة : ان نافع بن عبد الحارث لقي عمر بن الخطاب بعسفان، وكان عمر استعمله على مكة، فقال له عمر: من استخلفت على اهل الوادي؟ قال: استخلفت عليهم ابن ابزى، فقال: وما ابن ابزى؟ فقال: رجل من موالينا، فقال عمر: استخلفت عليهم مولى! فقال: إنه قارئ لكتاب الله، عالم بالفرائض، قاض، فقال عمر : اما إن نبيكم صلى الله عليه وسلم، قد قال:" إن الله يرفع بهذا الكتاب اقواما، ويضع به آخرين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، الْمَعْنَى، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ : أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ لَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِعُسْفَانَ، وَكَانَ عُمَرُ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى مَكَّةَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَنْ اسْتَخْلَفْتَ عَلَى أَهْلِ الْوَادِي؟ قَالَ: اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْهِمْ ابْنَ أَبْزَى، فَقَالَ: وَمَا ابْنُ أَبْزَى؟ فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ مَوَالِينَا، فَقَالَ عُمَرُ: اسْتَخْلَفْتَ عَلَيْهِمْ مَوْلًى! فَقَالَ: إِنَّهُ قَارِئٌ لِكِتَابِ اللَّهِ، عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ، قَاضٍ، فَقَالَ عُمَرُ : أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ".
سیدنا عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عسفان نامی جگہ میں نافع بن عبدالحارث کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، سیدنا رضی اللہ عنہ نے انہیں مکہ مکرمہ کا گورنر بنا رکھا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اپنے پیچھے اپنا نائب کسے بنایا؟ انہوں نے کہا: عبدالرحمن بن ابزی کو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ابن ابزی کون ہے؟ عرض کیا، ہمارے موالی میں سے ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کہ تم ایک غلام کو اپنا نائب بنا آئے؟ عرض کیا کہ وہ قرآن کریم کا قاری ہے، علم فرائض و وراثت کو جانتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق فرما گئے ہیں کہ بیشک اللہ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو عزتیں عطا فرمائے گا اور بہت سے لوگوں نیچے کر دے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا إسماعيل بن سميع ، عن مسلم البطين ، عن ابي البختري ، قال: قال عمر لابي عبيدة بن الجراح:" ابسط يدك حتى ابايعك، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: انت امين هذه الامة، فقال ابو عبيدة: ما كنت لاتقدم بين يدي رجل امره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يؤمنا، فامنا حتى مات".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْل ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ سُمَيْعٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ لِأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ:" ابْسُطْ يَدَكَ حَتَّى أُبَايِعَكَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: أَنْتَ أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: مَا كُنْتُ لِأَتَقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ رَجُلٍ أَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَؤُمَّنَا، فَأَمَّنَا حَتَّى مَاتَ".
ابوالبختری کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اپنا ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ اس امت کے امین ہیں، انہوں نے فرمایا: میں اس شخص سے آگے نہیں بڑھ سکتا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری امامت کا حکم دیا ہو اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک ہماری امامت کرتے رہے ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، أبو البختري لم يدرك عمر
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا سفيان ، عن الاعمش ، عن شقيق بن سلمة ، عن سلمان بن ربيعة ، عن عمر ، قال: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسمة، فقلت: يا رسول الله، لغير هؤلاء احق منهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إنهم خيروني بين ان يسالوني بالفحش، او يبخلوني، فلست بباخل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةً، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَغَيْرُ هَؤُلَاءِ أَحَقُّ مِنْهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُمْ خَيَّرُونِي بَيْنَ أَنْ يَسْأَلُونِي بِالْفُحْشِ، أَوْ يُبَخِّلُونِي، فَلَسْتُ بِبَاخِلٍ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کے زیادہ حقدار تو ان لوگوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ا”نہوں نے مجھ سے غیر مناسب طریقے سے سوال کرنے یا مجھے بخیل قرار دینے میں مجھے اختیار دے دیا ہے، حالانکہ میں بخیل نہیں ہوں۔“(فائدہ: مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اہل صفہ کو کچھ نہیں دیا تو اپنے پاس کچھ بچا کر نہیں رکھا اور اگر دوسروں کو دیا ہے تو ان کی ضروریات کو سامنے رکھ کر دیا۔)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہو جائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! نماز والا وضو کر لے اور سو جائے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، عبد الله ابن عمر العمري شيخ عبدالرزاق - وإن كان ضعيفا - توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، قال: راى ابن عمر سعد بن مالك يمسح على خفيه، فقال ابن عمر: وإنكم لتفعلون هذا؟ فقال سعد: نعم، فاجتمعا عند عمر، فقال سعد: يا امير المؤمنين، افت ابن اخي في المسح على الخفين، فقال عمر :" كنا ونحن مع نبينا صلى الله عليه وسلم نمسح على خفافنا، فقال ابن عمر: وإن جاء من الغائط والبول؟ فقال عمر: نعم، وإن جاء من الغائط والبول"، قال نافع: فكان ابن عمر بعد ذلك يمسح عليهما ما لم يخلعهما، وما يوقت لذلك وقتا، فحدثت به معمرا ، فقال: حدثنيه ايوب ، عن نافع مثله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: رَأَى ابْنُ عُمَرَ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَإِنَّكُمْ لَتَفْعَلُونَ هَذَا؟ فَقَالَ سَعْدٌ: نَعَمْ، فَاجْتَمَعَا عِنْدَ عُمَرَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَفْتِ ابْنَ أَخِي فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَ عُمَرُ :" كُنَّا وَنَحْنُ مَعَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَمْسَحُ عَلَى خِفَافِنَا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَإِنْ جَاءَ مِنَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ، وَإِنْ جَاءَ مِنَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ"، قَالَ نَافِعٌ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ بَعْدَ ذَلِكَ يَمْسَحُ عَلَيْهِمَا مَا لَمْ يَخْلَعْهُمَا، وَمَا يُوَقِّتُ لِذَلِكَ وَقْتًا، فَحَدَّثْتُ بِهِ مَعْمَرًا ، فَقَالَ: حَدَّثَنِيهِ أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ مِثْلَهُ.
ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ آپ یہ بھی کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں! پھر وہ دونوں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اکٹھے ہوئے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! ذرا ہمارے بھتیجے کو موزوں پر مسح کا مسئلہ بتا دیجئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم ماضی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور اب بھی موزوں پر مسح کرتے ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اگرچہ کوئی شخص پاخانہ یا پیشاب ہی کر کے آیا ہو؟ فرمایا: ہاں! اگرچہ وہ پاخانہ یا پیشاب ہی کر کے آیا ہو، نافع کہتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی موزوں پر مسح کرنے لگے اور اس وقت تک مسح کرتے رہے جب تک موزے اتار نہ لیتے اور اس کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں فرماتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان ، قال: صرفت عند طلحة بن عبيد الله ورقا بذهب، فقال: انظرني حتى ياتينا خازننا من الغابة، قال: فسمعها عمر بن الخطاب ، فقال: لا والله، لا تفارقه حتى تستوفي منه صرفه، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" الذهب بالورق ربا، إلا هاء وهاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: صَرَفْتُ عِنْدَ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَرِقًا بِذَهَبٍ، فَقَالَ: أَنْظِرْنِي حَتَّى يَأْتِيَنَا خَازِنُنَا مِنَ الْغَابَةِ، قَالَ: فَسَمِعَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ، لَا تُفَارِقُهُ حَتَّى تَسْتَوْفِيَ مِنْهُ صَرْفَهُ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ".
سیدنا مالک بن اوس بن الحدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے سونے کے بدلے چاندی کا معاملہ طے کیا، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ذرا رکیے، ہمارا خازن ”غابہ“ سے آتا ہی ہو گا، یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں! تم اس وقت تک ان سے جدا نہ ہوناجب تک کہ ان سے اپنی چیز وصول نہ کر لو، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کی چاندی کے بدلے خرید و فروخت سود ہے الاّ یہ کہ معاملہ نقد ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، قال: لما ارتد اهل الردة في زمان ابي بكر، قال عمر : كيف تقاتل الناس يا ابا بكر وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فإذا قالوا: لا إله إلا الله، فقد عصموا مني دماءهم واموالهم، إلا بحقها، وحسابهم على الله"؟ فقال ابو بكر: والله لاقاتلن من فرق بين الصلاة والزكاة، فإن الزكاة حق المال، والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، لقاتلتهم عليها، قال عمر: فوالله ما هو إلا ان رايت ان الله قد شرح صدر ابي بكر للقتال، فعرفت انه الحق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، قَالَ: لَمَّا ارْتَدَّ أَهْلُ الرِّدَّةِ فِي زَمَانِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ عُمَرُ : كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ يَا أَبَا بَكْرٍ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقْد عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ"؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَيْهَا، قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ.
عبیداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اہل عرب میں سے جو مرتد ہو سکتے تھے، سو ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کر سکتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ لیں، جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ لے، اس نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، ہاں اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہو گا؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، بخدا! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ جو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرما دی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهو مرسل، رواية عبيدالله بن عبدالله ابن عتبة عن عمر مرسلة، وقد تقدم موصولاً برقم: 117، خ: 1399، م :20
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا إسرائيل ، عن سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قال عمر : كنت في ركب اسير في غزاة مع النبي صلى الله عليه وسلم، فحلفت، فقلت: لا وابي، فنهرني رجل من خلفي، وقال:" لا تحلفوا بآبائكم"، فالتفت، فإذا انا برسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : كُنْتُ فِي رَكْبٍ أَسِيرُ فِي غَزَاةٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَلَفْتُ، فَقُلْتُ: لَا وَأَبِي، فَنَهَرَنِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي، وَقَالَ:" لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ"، فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا: «لا وابي» تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤاجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، رواية سماك عن عكرمة فيها اضطراب، خ: 6647، م: 1646
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، عن عمر ، قال: سمعني رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا احلف بابي، فقال:" إن الله ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم"، قال عمر: فوالله ما حلفت بها بعد ذاكرا، ولا آثرا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَحْلِفُ بِأَبِي، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ"، قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا حَلَفْتُ بِهَا بَعْدُ ذَاكِرًا، وَلَا آثِرًا.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے آباؤاجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے منع فرمایا ہے۔“ چنانچہ اس کے بعد میں نے جان بوجھ کر یا نقل کے طور پر بھی ایسی قسم نہیں کھائی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا التيمي ، عن ابي عثمان ، قال: كنا مع عتبة بن فرقد، فكتب إليه عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم، فكان فيما كتب إليه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا يلبس الحرير في الدنيا إلا من ليس له في الآخرة منه شيء، إلا هكذا"، وقال بإصبعيه السبابة والوسطى. قال ابو عثمان: فرايت انها ازرار الطيالسة، حين راينا الطيالسة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ فِيمَا كَتَبَ إِلَيْهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا إِلَّا مَنْ لَيْسَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْهُ شَيْءٌ، إِلَّا هَكَذَا"، وَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى. قَالَ أَبُو عُثْمَانَ: فَرَأَيْتُ أَنَّهَا أَزْرَارُ الطَّيَالِسَةِ، حِينَ رَأَيْنَا الطَّيَالِسَةَ.
ابوعثمان کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک خط آ گیا، جس میں لکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں ریشمی لباس پہنتا ہے سوائے اتنی مقدار کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی بلند کر کے دکھائی، اس کا آخرت میں ریشم کے حوالے سے کوئی حصہ نہیں۔“
یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کریم میں قصر کا جو حکم ”خوف“ کی حالت میں آیا ہے، اب تو ہر طرف امن و امان ہو گیا ہے تو کیا یہ حکم ختم ہو گیا؟ (اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں اب تک یہ آیت کیوں موجود ہے؟) تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تمہیں ہوا ہے اور میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے، لہٰذا اس کے صدقے اور مہربانی کو قبول کرو۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يحيى ، عن ابن ابي عروبة ، حدثنا قتادة ، عن سعيد بن المسيب ، قال: قال عمر :" إن آخر ما نزل من القرآن آية الربا، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قبض ولم يفسرها، فدعوا الربا والريبة".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ :" إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ آيَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ وَلَمْ يُفَسِّرْهَا، فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں سب سے آخری آیت سود سے متعلق نازل ہوئی ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وصال مبارک سے قبل اس کی مکمل وضاحت کا موقع نہیں مل سکا، اس لئے سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں ذرا بھی شک ہو اسے بھی چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حسن، سعيد بن المسيب أدرك عمر ولم يسمع منه
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میت کو اس کی قبر میں اس پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن يحيى ، قال: سمعت سعيد بن المسيب : ان عمر ، قال:" إياكم ان تهلكوا عن آية الرجم، وان يقول قائل: لا نجد حدين في كتاب الله، فقد رايت النبي صلى الله عليه وسلم" قد رجم، وقد رجمنا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ يَحْيَى ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ : أَنَّ عُمَرَ ، قَالَ:" إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ، وَأَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: لَا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَدْ رَجَمَ، وَقَدْ رَجَمْنَا".
سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آیت رجم کے حوالے سے اپنے آپ کو ہلاکت میں پڑنے سے بچانا، کہیں کوئی شخص یہ نہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ میں تو ہمیں دو سزاؤں کا تذکرہ نہیں ملتا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی رجم کی سزا جاری کرتے ہوئے دیکھا ہے اور خود ہم نے بھی یہ سزا جاری کی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، سعيد بن السيب لم يسمع من عمر، خ: 2462، م: 1691
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا حميد ، عن انس ، قال: قال عمر :" وافقت ربي في ثلاث، او وافقني ربي في ثلاث، قلت: يا رسول الله، لو اتخذت من مقام إبراهيم مصلى؟ فانزل الله: واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125، قلت: يا رسول الله، إنه يدخل عليك البر والفاجر، فلو امرت امهات المؤمنين بالحجاب، فانزل الله آية الحجاب، وبلغني معاتبة النبي عليه السلام بعض نسائه، قال: فاستقريت امهات المؤمنين، فدخلت عليهن، فجعلت استقريهن واحدة واحدة: والله لئن انتهيتن، وإلا ليبدلن الله رسوله خيرا منكن، قال: فاتيت على بعض نسائه، قالت: يا عمر، اما في رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يعظ نساءه حتى تكون انت تعظهن؟ فانزل الله عز وجل: عسى ربه إن طلقكن ان يبدله ازواجا خيرا منكن سورة التحريم آية 5".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ :" وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، أو وَافَقَنِي رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ اتَّخَذْتَ مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَلَوْ أَمَرْتَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِالْحِجَابِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ، وَبَلَغَنِي مُعَاتَبَةُ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام بَعْضَ نِسَائِهِ، قَالَ: فَاسْتَقْرَيْتُ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِنَّ، فَجَعَلْتُ أَسْتَقْرِيهِنَّ وَاحِدَةً وَاحِدَةً: وَاللَّهِ لَئِنْ انْتَهَيْتُنَّ، وَإِلَّا لَيُبَدِّلَنَّ اللَّهُ رَسُولَهُ خَيْرًا مِنْكُنَّ، قَالَ: فَأَتَيْتُ عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ، قَالَتْ: يَا عُمَرُ، أَمَا فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَعِظُ نِسَاءَهُ حَتَّى تَكُونَ أَنْتَ تَعِظُهُنَّ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ سورة التحريم آية 5".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے۔ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنا لیتے، اس پر یہ آیت نازل ہو گئی کہ مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنالو۔ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، اگر آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دے دیں تو بہتر ہے؟ اس پر اللہ نے آیت حجاب نازل فرما دی۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات سے ناراضگی کا مجھے پتہ چلا، میں ان میں سے ہر ایک کے پاس فرداً فرداً گیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ باز آ جاؤ ورنہ ہو سکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں عطاء کر دے، حتیٰ کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ محترمہ کے پاس گیا تو وہ کہنے لگیں عمر! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں جو تم ان کی بیویوں کو نصیحت کرنے آ گئے ہو؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل فرما دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن شعبة ، حدثني ابو ذبيان ، سمعت عبد الله بن الزبير ، يقول: لا تلبسوا نساءكم الحرير، فإني سمعت عمر يحدث، يقول: عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" من لبس الحرير في الدنيا، لم يلبسه في الآخرة". وقال عبد الله بن الزبير: من عنده ومن لم يلبسه في الآخرة لم يدخل الجنة، قال الله تعالى: ولباسهم فيها حرير سورة الحج آية 23.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي أَبُو ذِبْيَانَ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ ، يَقُولُ: لَا تُلْبِسُوا نِسَاءَكُمْ الْحَرِيرَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يُحَدِّثُ، يَقُولُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ". وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ: مِنْ عِنْدِهِ وَمَنْ لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ لَمْ يَدْخُلْ الْجَنَّةَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ سورة الحج آية 23.
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اپنی عورتوں کو بھی ریشمی کپڑے مت پہنایا کرو کیونکہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے، وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا“، اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے فرمایا کہ جو آخرت میں بھی ریشم نہ پہن سکے وہ جنت میں ہی داخل نہ ہو گا، کیونکہ قرآن میں آتا ہے کہ اہل جنت کا لباس ریشم کا ہو گا۔ (فائدہ: یہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا اپنا اجتہاد تھا، جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ ریشمی کپڑے کی ممانعت مرد کے لئے ہے، عورت کے لئے نہیں۔)
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن إسماعيل ، حدثنا عامر ، وحدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد ، عن رجل ، عن الشعبي ، قال: مر عمر بطلحة، فذكر معناه، قال: مر عمر بطلحة، فرآه مهتما، قال: لعلك ساءك إمارة ابن عمك، قال: يعني ابا بكر، فقال: لا، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إني لاعلم كلمة لا يقولها الرجل عند موته إلا كانت له نورا في صحيفته، او: وجد لها روحا عند الموت"، قال عمر: انا اخبرك بها، هي الكلمة التي اراد بها عمه: شهادة ان لا إله إلا الله، قال: فكانما كشف عني غطاء، قال: صدقت، لو علم كلمة هي افضل منها، لامره بها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ ، وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: مَرَّ عُمَرُ بِطَلْحَةَ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، قَالَ: مَرَّ عُمَرُ بِطَلْحَةَ، فَرَآهُ مُهْتَمًّا، قَالَ: لَعَلَّكَ سَاءَكَ إِمَارَةُ ابْنِ عَمِّكَ، قَالَ: يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ: لَا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا الرَّجُلُ عِنْدَ مَوْتِهِ إِلَّا كَانَتْ لَهُ نُورًا فِي صَحِيفَتِهِ، أَوْ: وَجَدَ لَهَا رَوْحًا عِنْدَ الْمَوْتِ"، قَالَ عُمَرُ: أَنَا أُخْبِرُكَ بِهَا، هِيَ الْكَلِمَةُ الَّتِي أَرَادَ بِهَا عَمَّهُ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: فَكَأَنَّمَا كُشِفَ عَنِّي غِطَاءٌ، قَالَ: صَدَقْتَ، لَوْ عَلِمَ كَلِمَةً هِيَ أَفْضَلُ مِنْهَا، لَأَمَرَهُ بِهَا.
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو انہیں پریشان حال دیکھا، وہ کہنے لگے کہ شاید آپ کو اپنے چچازاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی؟ انہوں نے فرمایا: اللہ کی پناہ! مجھے تو کسی صورت ایسا نہیں کرنا چاہیے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو اس کے لئے روح نکلنے میں سہولت پیدا ہو جائے اور قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو، (مجھے افسوس ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ میں وہ کلمہ جانتا ہوں، (سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے الحمدللہ کہہ کر پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے؟) فرمایا: وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی لا الہ الا اللہ، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا: آپ نے میرے اوپر سے پردہ ہٹا دیا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے افضل بھی کوئی کلمہ جانتے ہوتے تو اپنے چچا کو اس کا حکم دیتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه، عامر بن شراحيل الشعبي لم يدرك عمر، وقد تقدم موصولاً برقم: 187
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن جريج ، حدثني سليمان بن عتيق ، عن عبد الله بن بابيه ، عن يعلى بن امية ، قال: طفت مع عمر بن الخطاب ،" فلما كنت عند الركن الذي يلي الباب مما يلي الحجر، اخذت بيده ليستلم، فقال: اما طفت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلت: بلى، قال: فهل رايته يستلمه؟ قلت: لا، قال: فانفذ عنك، فإن لك في رسول الله اسوة حسنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَتِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَ: طُفْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ،" فَلَمَّا كُنْتُ عِنْدَ الرُّكْنِ الَّذِي يَلِي الْبَابَ مِمَّا يَلِي الْحَجَرَ، أَخَذْتُ بِيَدِهِ لِيَسْتَلِمَ، فَقَالَ: أَمَا طُفْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَهَلْ رَأَيْتَهُ يَسْتَلِمُهُ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَانْفُذْ عَنْكَ، فَإِنَّ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةً حَسَنَةً".
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کر لیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا: تو کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ میں نے کہا: نہیں! فرمایا: پھر اسے چھوڑ دو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ موجود ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يحيى ، عن الاعمش ، حدثنا شقيق ، حدثني الصبي بن معبد ، وكان رجلا من بني تغلب، قال: كنت نصرانيا فاسلمت، فاجتهدت فلم آل، فاهللت بحجة وعمرة، فمررت بالعذيب على سلمان بن ربيعة، وزيد بن صوحان، فقال احدهما: ابهما جميعا؟ فقال له صاحبه: دعه، فلهو اضل من بعيره، قال: فكانما بعيري على عنقي، فاتيت عمر، فذكرت ذلك له، فقال لي عمر : إنهما لم يقولا شيئا،" هديت لسنة نبيك صلى الله عليه وسلم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، حَدَّثَنَا شَقِيقٌ ، حَدَّثَنِي الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، وَكَانَ رَجُلًا مِنْ بَنِي تَغْلِبَ، قَالَ: كُنْتُ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ، فَاجْتَهَدْتُ فَلَمْ آلُ، فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، فَمَرَرْتُ بِالْعُذَيْبِ عَلَى سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَزَيْدِ بْنِ صُوحَانَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: أَبِهِمَا جَمِيعًا؟ فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ: دَعْهُ، فَلَهُوَ أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِهِ، قَالَ: فَكَأَنَّمَا بَعِيرِي عَلَى عُنُقِي، فَأَتَيْتُ عُمَرَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لِي عُمَرُ : إِنَّهُمَا لَمْ يَقُولَا شَيْئًا،" هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابووائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد قبیلہ بنو تغلب کے آدمی تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کر لیا اور محنت کرنے میں کوئی کمی نہ کی۔ پھر میں نے میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے پاس سے مقام عذیب میں میرا گزر ہوا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی کہتے ہیں کہ اس جملے سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرا اونٹ میری گردن پر ہے، میں جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں، آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہو گئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، حدثني نافع ، عن ابن عمر ، عن عمر ، انه قال: يا رسول الله، إني نذرت في الجاهلية ان اعتكف في المسجد الحرام ليلة، فقال له:" فاوف بنذرك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَذَرْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ لَيْلَةً، فَقَالَ لَهُ:" فَأَوْفِ بِنَذْرِكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں ذکر کیا یا رسول اللہ! میں نے زمانہ جاہلیت میں یہ منت مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا، اب کیا کروں؟ فرمایا: اپنی منت پوری کرو۔
حدثنا عبد الرزاق، انبانا سفيان، عن منصور، عن ابي وائل، عن صبي بن معبد التغلبي، قال: كنت حديث عهد بنصرانية، فاردت الجهاد او الحج، فاتيت رجلا من قومي يقال له: هديم، فسالته، فامرني بالحج، فقرنت بين الحج والعمرة.. فذكره.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُور، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ صُبَيِّ بْنِ مَعْبَدٍ التَّغْلِبِيِّ، قَالَ: كُنْتُ حَدِيثَ عَهْدٍ بِنَصْرَانِيَّةٍ، فَأَرَدْتُ الْجِهَادَ أَوْ الْحَجَّ، فَأَتَيْتُ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي يُقَالُ لَهُ: هُدَيْمٌ، فَسَأَلْتُهُ، فَأَمَرَنِي بِالْحَجِّ، فَقَرَنْتُ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ.. فَذَكَرَهُ.
صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں نے نیا نیا عیسائیت کو خیرباد کہا تھا، میں نے ارادہ کیا کہ جہاد یا حج پر روانہ ہو جاؤں، چنانچہ میں نے اپنے ایک ہم قوم سے جس کا نام ”ہدیم“ تھا مشورہ کیا تو اس نے مجھے حج کرنے کو کہا، میں نے حج اور عمرہ دونوں کی نیت کر لی، اس کے بعد انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سفر کی نماز میں دو رکعتیں ہیں، عیدین میں سے ہر ایک کی دو دو رکعتیں اور جمعہ کی بھی دو رکعتیں ہیں اور یہ ساری نمازیں مکمل ہیں، ان میں سے قصر کوئی بھی نہیں ہے جیسا کہ لسان نبوت سے ادا ہو چکا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، رواية عبدالرحمن بن أبى ليلى عن عمر مرسلة، لكنه بين الواسطة بينهما عند غير الإمام أحمد، وهو كعب بن عجرة، فصح الاسناد بذكر كعب
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا هشام بن سعد ، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، عن عمر : انه وجد فرسا كان حمل عليها في سبيل الله تباع في السوق، فاراد ان يشتريها، فسال النبي صلى الله عليه وسلم، فنهاه، وقال:" لا تعودن في صدقتك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ : أَنَّهُ وَجَدَ فَرَسًا كَانَ حَمَلَ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ تُبَاعُ فِي السُّوقِ، فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا، فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَاهُ، وَقَالَ:" لَا تَعُودَنَّ فِي صَدَقَتِكَ".
اسلم رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، بعد میں دیکھا کہ وہی گھوڑا بازار میں بک رہا ہے، انہوں نے سوچا کہ اسے خرید لیتا ہوں، چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کر دیا اور فرمایا کہ اسے مت خریدو اور اپنے صدقے سے رجوع مت کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وإسناده حسن، خ: 1490، م: 1620
(حديث موقوف) حدثنا وكيع ، عن ابن ابي خالد ، عن قيس ، قال: رايت عمر وبيده عسيب نخل، وهو يجلس الناس يقول:" اسمعوا لقول خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء مولى لابي بكر يقال له: شديد بصحيفة، فقراها على الناس، فقال: يقول ابو بكر:" اسمعوا واطيعوا لما في هذه الصحيفة، فوالله ما الوتكم". قال قيس: فرايت عمر بعد ذلك على المنبر.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ وَبِيَدِهِ عَسِيبُ نَخْلٍ، وَهُوَ يُجْلِسُ النَّاسَ يَقُولُ:" اسْمَعُوا لِقَوْلِ خَلِيفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ مَوْلًى لِأَبِي بَكْرٍ يُقَالُ لَهُ: شَدِيدٌ بِصَحِيفَةٍ، فَقَرَأَهَا عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: يَقُولُ أَبُو بَكْرٍ:" اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لِمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، فَوَاللَّهِ مَا أَلَوْتُكُمْ". قَالَ قَيْسٌ: فَرَأَيْتُ عُمَرَ بَعْدَ ذَلِكَ عَلَى الْمِنْبَرِ.
قیس کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ اس حال میں دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی اور وہ لوگوں کو بٹھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات توجہ سے سنو، اتنی دیر میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا آزاد کردہ غلام جس کا نام ”شدید“ تھا ایک کاغذ لے کر آ گیا اور اس نے لوگوں کو وہ پڑھ کر سنایا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کاغذ میں جس شخص کا نام درج ہے (وہ میرے بعد خلیفہ ہو گا اس لئے) تم اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا، بخدا! میں نے اس سلسلے میں مکمل احتیاط اور کوشش کر لی ہے، قیس کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر جلوہ افروز دیکھا (جس کا مطلب یہ تھا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کاغذ میں ان ہی کا نام لکھوایا تھا)۔
(حديث مرفوع) حدثنا مؤمل ، حدثنا سفيان ، عن سلمة ، عن عمران السلمي ، قال: سالت ابن عباس عن النبيذ، فقال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نبيذ الجر والدباء"، فلقيت ابن عمر فسالته، فاخبرني فيما اظن: عن عمر : ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن نبيذ الجر والدباء"، شك سفيان، قال: فلقيت ابن الزبير، فسالته، فقال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نبيذ الجر والدباء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ ، عَنْ عِمْرَانَ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيذِ، فَقَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ"، فَلَقِيتُ ابْنَ عُمَرَ فَسَأَلْتُهُ، فَأَخْبَرَنِي فِيمَا أَظُنُّ: عَنْ عُمَرَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ"، شَكَّ سُفْيَانُ، قَالَ: فَلَقِيتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ".
عمران اسلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نبیذ اور کدو کی تونبی سے منع فرمایا ہے۔ پھر میں نے یہی سوال سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کی تونبی اور سبز مٹکے سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے یہی سوال سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے اور کدو کی تونبی کی نبیذ سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، مؤمل وإن كان سيء الحفظ - قد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ابي سنان بن آدم ، عن عبيد بن آدم وابي مريم ، وابي شعيب : ان عمر بن الخطاب ، كان بالجابية... فذكر فتح بيت المقدس. قال: قال ابو سلمة: فحدثني ابو سنان، عن عبيد بن آدم، قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول لكعب:" اين ترى ان اصلي؟ فقال: إن اخذت عني صليت خلف الصخرة، فكانت القدس كلها بين يديك، فقال عمر ضاهيت اليهودية، لا، ولكن اصلي حيث صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم"، فتقدم إلى القبلة فصلى، ثم جاء فبسط رداءه، فكنس الكناسة في ردائه، وكنس الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ بن آدم ، عَنْ عبيد بن آدم وأبي مريم ، وأبي شعيب : أن عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، كان بالجابية... فذكر فتح بيت المقدس. قَالَ: قَالَ أبو سلمة: فحدثني أبو سنان، عن عبيد بن آدم، قَالَ: سمعت عمر بن الخطاب يَقُولُ لِكَعْبٍ:" أَيْنَ تُرَى أَنْ أُصَلِّيَ؟ فَقَالَ: إِنْ أَخَذْتَ عَنِّي صَلَّيْتَ خَلْفَ الصَّخْرَةِ، فَكَانَتْ الْقُدْسُ كُلُّهَا بَيْنَ يَدَيْكَ، فَقَالَ عُمَرُ ضَاهَيْتَ الْيَهُودِيَّةَ، لَا، وَلَكِنْ أُصَلِّي حَيْثُ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، فَتَقَدَّمَ إِلَى الْقِبْلَةِ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَبَسَطَ رِدَاءَهُ، فَكَنَسَ الْكُنَاسَةَ فِي رِدَائِهِ، وَكَنَسَ النَّاسُ".
فتح بیت المقدس کے واقعے میں مختلف رواۃ ذکر کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کعب احبار سے پوچھا کہ آپ کی رائے میں مجھے کہاں نماز پڑھنی چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ اگر آپ میری رائے پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو صخرہ کے پیچھے نماز پڑھیں، اس طرح پورا بیت المقدس آپ کے سامنے ہو گا، فرمایا: تم نے بھی یہودیوں جیسی بات کہی، ایسا نہیں ہو سکتا، میں اس مقام پر نماز پڑھوں گا جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج نماز پڑھی تھی، چنانچہ انہوں نے قبلہ کی طرف بڑھ کر نماز پڑھی، پھر نماز کے بعد اپنی چادر بچھائی اور اپنی چادر میں وہاں کا سارا کوڑا کرکٹ اکٹھا کیا، لوگوں نے بھی ان کی پیروی کی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى سنان وهو عيسي بن سنان الحنفي
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا مالك يعني ابن مغول ، قال: سمعت الفضيل بن عمرو ، عن إبراهيم ، عن عمر ، قال:" سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الكلالة، فقال:" تكفيك آية الصيف"، فقال: لان اكون سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عنها احب إلي من ان يكون لي حمر النعم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ مِغْوَلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عَمْرٍو ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ:" سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَلَالَةِ، فَقَالَ:" تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ"، فَقَالَ: لَأَنْ أَكُونَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي حُمْرُ النَّعَمِ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کلالہ کے متعلق سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لئے موسم گرما میں نازل ہونے والی آیت کلالہ کافی ہے“، مجھے اس مسئلے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنا سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ پسندیدہ تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا سند رجاله ثقات إلا أن إبراهيم النخعي- لم يدرك عمر، م: 567
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر میں ناپاک ہو جاؤں تو کیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ شرمگاہ کو دھو کر نماز والا وضو کر کے سو جاؤ۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا همام ، عن قتادة ، عن قزعة ، قال: قلت لابن عمر :" يعذب الله هذا الميت ببكاء هذا الحي؟" فقال: حدثني عمر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما كذبت على عمر، ولا كذب عمر على رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ قَزَعَةَ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ :" يُعَذِّبُ اللَّهُ هَذَا الْمَيِّتَ بِبُكَاءِ هَذَا الْحَيِّ؟" فَقَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا كَذَبْتُ عَلَى عُمَرَ، وَلَا كَذَبَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ میت کو اہل محلہ کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کریں گے؟ فرمایا کہ یہ بات مجھ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کی ہے، میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی جھوٹی نسبت کی ہے اور نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا الحسن بن عبيد الله ، حدثنا إبراهيم ، عن علقمة ، عن القرثع ، عن قيس او ابن قيس رجل من جعفي، عن عمر بن الخطاب ، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا معه وابو بكر، على عبد الله بن مسعود وهو يقرا، فقام، فسمع قراءته، ثم ركع عبد الله، وسجد، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سل تعطه، سل تعطه"، قال: ثم مضى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال:" من سره ان يقرا القرآن غضا كما انزل، فليقراه من ابن ام عبد"، قال: فادلجت إلى عبد الله بن مسعود لابشره بما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فلما ضربت الباب، او قال: لما سمع صوتي، قال: ما جاء بك هذه الساعة؟ قلت: جئت لابشرك بما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قد سبقك ابو بكر، قلت: إن يفعل فإنه سباق بالخيرات، ما استبقنا خيرا قط إلا سبقنا إليها ابو بكر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ الْقَرْثَعِ ، عَنِ قَيْسٍ أَوْ ابْنِ قَيْسٍ رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ وَأَبُو بَكْرٍ، عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَهُوَ يَقْرَأُ، فَقَامَ، فَسَمِعَ قِرَاءَتَهُ، ثُمَّ رَكَعَ عَبْدُ اللَّهِ، وَسَجَدَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَلْ تُعْطَهْ، سَلْ تُعْطَهْ"، قَالَ: ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ مِنَ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ"، قَالَ: فَأَدْلَجْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ لِأُبَشِّرَهُ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا ضَرَبْتُ الْبَابَ، أَوْ قَالَ: لَمَّا سَمِعَ صَوْتِي، قَالَ: مَا جَاءَ بِكَ هَذِهِ السَّاعَةَ؟ قُلْتُ: جِئْتُ لِأُبَشِّرَكَ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَدْ سَبَقَكَ أَبُو بَكْرٍ، قُلْتُ: إِنْ يَفْعَلْ فَإِنَّهُ سَبَّاقٌ بِالْخَيْرَاتِ، مَا اسْتَبَقْنَا خَيْرًا قَطُّ إِلَّا سَبَقَنَا إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا گزر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا، میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس وقت قرآن پڑھ رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رکوع سجدہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مانگو تمہیں دیا جائے گا“، پھر واپس جاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ رات ہی کو میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چنانچہ جب میں نے ان کا دروازہ بجایا تو انہوں نے فرمایا کہ رات کے اس وقت میں خیر تو ہے؟ میں نے کہا کہ میں آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خوشخبری سنانے کے لئے آیا ہوں، انہوں نے فرمایا: کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ پر سبقت لے گئے ہیں، میں نے کہا: اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو وہ نیکیوں میں بہت زیادہ آگے بڑھنے والے ہیں، میں نے جس معاملے میں بھی ان سے مسابقت کی کوشش کی، وہ ہر اس معاملے میں مجھ سے سبقت لے گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد الجريري ، عن ابي نضرة ، عن اسير بن جابر ، قال: لما اقبل اهل اليمن جعل عمر يستقري الرفاق، فيقول: هل فيكم احد من قرن؟ حتى اتى على قرن، فقال: من انتم؟ قالوا: قرن، فوقع زمام عمر، او: زمام اويس، فناوله احدهما الآخر، فعرفه، فقال عمر: ما اسمك؟ قال: انا اويس، فقال: هل لك والدة؟ قال: نعم، قال: فهل كان بك من البياض شيء؟ قال: نعم، فدعوت الله عز وجل، فاذهبه عني إلا موضع الدرهم من سرتي لاذكر به ربي، قال له عمر: استغفر لي، قال: انت احق ان تستغفر لي، انت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر : إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن خير التابعين رجل يقال له: اويس، وله والدة، وكان به بياض، فدعا الله عز وجل فاذهبه عنه إلا موضع الدرهم في سرته"، فاستغفر له، ثم دخل في غمار الناس، فلم يدر اين وقع، قال: فقدم الكوفة، قال: وكنا نجتمع في حلقة، فنذكر الله، وكان يجلس معنا، فكان إذا ذكر هو وقع حديثه من قلوبنا موقعا لا يقع حديث غيره... فذكر الحديث.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَ أَهْلُ الْيَمَنِ جَعَلَ عُمَرُ يَسْتَقْرِي الرِّفَاقَ، فَيَقُولُ: هَلْ فِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ قَرَنٍ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى قَرَنٍ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: قَرَنٌ، فَوَقَعَ زِمَامُ عُمَرَ، أَوْ: زِمَامُ أُوَيْسٍ، فَنَاوَلَهُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ، فَعَرَفَهُ، فَقَالَ عُمَرُ: مَا اسْمُكَ؟ قَالَ: أَنَا أُوَيْسٌ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ وَالِدَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ كَانَ بِكَ مِنَ الْبَيَاضِ شَيْءٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَدَعَوْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَذْهَبَهُ عَنِّي إِلَّا مَوْضِعَ الدِّرْهَمِ مِنْ سُرَّتِي لِأَذْكُرَ بِهِ رَبِّي، قَالَ لَهُ عُمَرُ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِي، أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: أُوَيْسٌ، وَلَهُ وَالِدَةٌ، وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ، فَدَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَأَذْهَبَهُ عَنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ الدِّرْهَمِ فِي سُرَّتِهِ"، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، ثُمَّ دَخَلَ فِي غِمَارِ النَّاسِ، فَلَمْ يُدْرَ أَيْنَ وَقَعَ، قَالَ: فَقَدِمَ الْكُوفَةَ، قَالَ: وَكُنَّا نَجْتَمِعُ فِي حَلْقَةٍ، فَنَذْكُرُ اللَّهَ، وَكَانَ يَجْلِسُ مَعَنَا، فَكَانَ إِذَا ذَكَرَ هُوَ وَقَعَ حَدِيثُهُ مِنْ قُلُوبِنَا مَوْقِعًا لَا يَقَعُ حَدِيثُ غَيْرِهِ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل یمن کا وفد آیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی اونٹنی کی رسی تلاش کرتے جاتے تھے اور پوچھتے جاتے تھے کہ کیا تم میں سے کوئی ”قرن“ سے بھی آیا ہے، یہاں تک کہ وہ پوچھتے پوچھتے ”قرن“ کے لوگوں کے پاس آ پہنچے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارا تعلق ”قرن“ سے ہے، اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی یا سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کے ہاتھ سے جانوروں کی لگام چھوٹ کر گر پڑی، ان میں سے ایک نے دوسرے کو اٹھا کر وہ لگام دی تو ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کا اسم گرامی کیا ہے؟ عرض کیا: اویس! فرمایا: کیا آپ کی کوئی والدہ بھی تھیں؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: کیا آپ کے جسم پر چیچک کا بھی کوئی نشان ہے؟ عرض کیا: جی ہاں! لیکن میں نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اسے ختم کر دیا، اب وہ نشان میری ناف کے پاس صرف ایک درہم کے برابر رہ گیا ہے تاکہ اسے دیکھ کر مجھے اپنے رب کی یاد آتی رہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ اللہ سے میرے لئے بخشش کی دعا کیجئے، انہوں نے عرض کیا کہ آپ صحابی رسول ہیں، آپ میرے حق میں بخشش کی دعا کیجئے، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خیرالتابعین اویس نامی ایک آدمی ہو گا، جس کی والدہ بھی ہو گی اور اس کے جسم پر چیچک کے نشانات ہوں گے، پھر جب وہ اللہ سے دعا کرے گا تو ناف کے پاس ایک درہم کے برابر جگہ کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اس بیماری کو اس سے دور فرما دیں گے، سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش کی دعا کی اور لوگوں کے ہجوم میں گھس کر غائب ہو گئے، کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ وہ کہاں چلے گئے۔ بعد میں وہ کوفہ آ گئے تھے، راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ایک حلقہ بنا کر ذکر کیا کرتے تھے، یہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے، جب یہ ذکر کرتے تھے تو ان کی بات ہمارے دلوں پر اتنا اثر کرتی تھی کہ کسی دوسرے کی بات اتنا اثر نہیں کرتی تھی۔
حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا عبد الواحد بن زياد، حدثنا الحسن بن عبيد الله، عن إبراهيم، عن علقمة، عن القرثع، عن قيس او ابن قيس، رجل من جعفي، عن عمر بن الخطاب، فذكر نحو حديث عفان.حَدَّثَنَا عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدِ بْنُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنِ الْقَرْثَعِ، عَنْ قَيْسٍ أَوْ ابْنِ قَيْسٍ، رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَفَّانَ.
گزشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے جو عبارت میں موجود ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، عن انس : ان عمر بن الخطاب لما عولت عليه حفصة، فقال: يا حفصة، اما سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" المعول عليه يعذب". قال: وعول صهيب، فقال عمر: يا صهيب، اما علمت ان المعول عليه يعذب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَمَّا عَوَّلَتْ عَلَيْهِ حَفْصَةُ، فَقَالَ: يَا حَفْصَةُ، أَمَا سَمِعْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُعَوَّلُ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ". قَالَ: وَعَوَّلَ صُهَيْبٌ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا صُهَيْبُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْمُعَوَّلَ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کا آخری وقت قریب آیا تو سیدنا حفصہ رضی اللہ عنہا رونے اور چیخنے لگیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حفصہ! کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جس پر چیخ کر رویا جاتا ہے، اسے عذاب ہوتا ہے؟ اس کے بعد سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ پر بھی ایسی ہی کیفیت طاری ہوئی تو ان سے بھی یہی فرمایا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا، آخرت میں اسے نہیں پہنایا جائے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، أم عمرو ابنة عبدالله روى لها البخاري تعليقاً والنسائي
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، حدثنا ابو العالية ، عن ابن عباس : حدثني رجال مرضيون فيهم عمر ، وقال عفان مرة: شهد عندي رجال مرضيون، وارضاهم عندي عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا صلاة بعد صلاتين: بعد الصبح حتى تطلع الشمس، وبعد العصر حتى تغرب الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : حَدَّثَنِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فِيهِمْ عُمَرُ ، وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً: شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاتَيْنِ: بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے، جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے دو نمازوں کے بعد کوئی نماز نہیں ہے، فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب : ان اليهود، قالوا لعمر :" إنكم تقرءون آية، لو انزلت فينا، لاتخذنا ذلك اليوم عيدا، فقال: إني لاعلم حيث انزلت، واي يوم انزلت، واين رسول الله صلى الله عليه وسلم حين انزلت، انزلت يوم عرفة ورسول الله صلى الله عليه وسلم واقف بعرفة"، قال سفيان: واشك يوم جمعة او لا، يعني: اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا سورة المائدة آية 3.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ : أَنَّ الْيَهُودَ، قَالُوا لِعُمَرَ :" إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً، لَوْ أُنْزِلَتْ فِينَا، لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، فَقَالَ: إِنِّي لَأَعْلَمُ حَيْثُ أُنْزِلَتْ، وَأَيَّ يَوْمٍ أُنْزِلَتْ، وَأَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَتْ، أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ"، قَالَ سُفْيَانُ: وَأَشُكُّ يَوْمَ جُمُعَةٍ أَوْ لَا، يَعْنِي: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا سورة المائدة آية 3.
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا، امیر المؤمنین! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں جو اگر ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی، (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے آیت تکمیل دین کا حوالہ دیا،) اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا! مجھے علم ہے کہ یہ آیت کس دن اور کس وقت نازل ہوئی تھی، یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جمعہ کے دن عرفہ کی شام نازل ہوئی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، عن ابي موسى ، قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالبطحاء، فقال:" بم اهللت؟" قلت: بإهلال كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" هل سقت من هدي؟" قلت: لا، قال:" طف بالبيت، وبالصفا، والمروة، ثم حل"، فطفت بالبيت، وبالصفا، والمروة، ثم اتيت امراة من قومي فمشطتني، وغسلت راسي، فكنت افتي الناس بذلك بإمارة ابي بكر، وإمارة عمر، فإني لقائم في الموسم إذ جاءني رجل، فقال: إنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في شان النسك، فقلت: ايها الناس، من كنا افتيناه فتيا، فهذا امير المؤمنين قادم عليكم، فبه فاتموا، فلما قدم قلت: ما هذا الذي قد احدثت في شان النسك؟ قال: إن ناخذ بكتاب الله تعالى، فإن الله تعالى، قال: واتموا الحج والعمرة لله سورة البقرة آية 196، وإن ناخذ بسنة نبينا صلى الله عليه وسلم، فإنه لم يحل حتى نحر الهدي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ:" بِمَ أَهْلَلْتَ؟" قُلْتُ: بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هَلْ سُقْتَ مِنْ هَدْيٍ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" طُفْ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حِلَّ"، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَّطَتْنِي، وَغَسَلَتْ رَأْسِي، فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ بِإِمَارَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَإِمَارَةِ عُمَرَ، فَإِنِّي لَقَائِمٌ فِي الْمَوْسِمِ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ، فَقُلْتُ: أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فُتْيَا، فَهَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ، فَبِهِ فَأْتَمُّوا، فَلَمَّا قَدِمَ قُلْتُ: مَا هَذَا الَّذِي قَدْ أَحْدَثْتَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ؟ قَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَالَ: وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ سورة البقرة آية 196، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ.
سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں جب یمن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے احرام کی حالت میں دیکھ کر پوچھا کہ کس نیت سے احرام باندھا؟ میں نے عرض کیا یہ نیت کر کے کہ جس نیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہو، میرا بھی وہی احرام ہے، پھر پوچھا کہ قربانی کا جانور ساتھ لائے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں! فرمایا کہ پھر خانہ کعبہ کا طواف کر کے صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہو جاؤ۔ چنانچہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا، صفا مروہ کے درمیان سعی کی، پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے سر کے بالوں میں کنگھی کی اور میرا سر پانی سے دھویا، بعد میں لوگوں کو بھی حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کے دور خلافت میں یہی مسئلہ بتاتا رہا، ایک دن ایام حج میں، میں کسی جگہ کھڑا ہوا تھا کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نہیں جانتے، امیر المؤمنین نے حج کے معاملات میں کیا نئے احکام جاری کئے ہیں؟ اس پر میں نے کہا: لوگو! ہم نے جسے بھی کوئی فتویٰ دیا ہو، وہ سن لے، یہ امیر المؤمنین موجود ہیں، ان ہی کی اقتداء کرو، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے ان سے پوچھا کہ مناسک حج میں آپ نے یہ کیا نیا حکم جاری کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر ہم قرآن کریم کو لیتے ہیں تو وہ ہمیں اتمام حج و عمرہ کا حکم دیتا ہے اور اگر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوئے۔ (فائدہ: دراصل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرنے کی ممانعت کی تھی، یہاں اسی کا ذکر ہے۔)
سوید بن غفلہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں، میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے جو کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھ پر مہربان دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان . وعبد الرزاق ، انبانا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، قال: قال عمر ، قال عبد الرزاق: سمعت عمر: إن المشركين كانوا لا يفيضون من جمع حتى تشرق الشمس على ثبير، قال عبد الرزاق: وكانوا يقولون: اشرق ثبير كيما نغير يعني، فخالفهم النبي صلى الله عليه وسلم،" فدفع قبل ان تطلع الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ . وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: سَمِعْتُ عُمَرَ: إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ حَتَّى تُشْرِقَ الشَّمْسُ عَلَى ثَبِيرٍ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَكَانُوا يَقُولُونَ: أَشْرِقْ ثَبِيرُ كَيْمَا نُغِيرُ يَعْنِي، فَخَالَفَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے واپس نہیں جاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا اور مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہو گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا مالك ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن ابن عباس ، قال: قال عمر :" إن الله تعالى بعث محمدا صلى الله عليه وسلم، وانزل عليه الكتاب، فكان فيما انزل عليه آية الرجم، فقرانا بها، وعقلناها، ووعيناها، فاخشى ان يطول بالناس عهد، فيقولوا: إنا لا نجد آية الرجم، فتترك فريضة انزلها الله تعالى، وإن الرجم في كتاب الله تعالى حق على من زنى إذا احصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة، او كان الحبل، او الاعتراف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ :" إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَرَأْنَا بِهَا، وَعَقَلْنَاهَا، وَوَعَيْنَاهَا، فَأَخْشَى أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ عَهْدٌ، فَيَقُولُوا: إِنَّا لَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ، فَتُتْرَكَ فَرِيضَةٌ أَنْزَلَهَا اللَّهُ تَعَالَى، وَإِنَّ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أَحْصَنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ إِذَا قَامَتْ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، أَوْ الِاعْتِرَافُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا: ان پر کتاب نازل فرمائی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے پڑھا اور یاد کیا تھا، مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ ہمیں تو رجم سے متعلق کوئی آیت نہیں ملتی اور یوں ایک فریضہ جو اللہ نے نازل کیا ہے چھوٹ جائے، یاد رکھو! کتاب اللہ سے رجم کا ثبوت برحق ہے اس شخص کے لئے جو شادی شدہ ہو خواہ مرد ہو یا عورت جبکہ گواہ موجود ہوں، یا عورت حاملہ ہو گئی ہو یا وہ اعتراف جرم کر لے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عبد الرحمن بن عبد ، عن عمر بن الخطاب ، قال: سمعت هشام بن حكيم يقرا سورة الفرقان في الصلاة على غير ما اقرؤها، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم اقرانيها، فاخذت بثوبه، فذهبت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني سمعته يقرا سورة الفرقان على غير ما اقراتنيها، فقال:" اقرا"، فقرا القراءة التي سمعتها منه، فقال:" هكذا انزلت"، ثم قال لي:" اقرا" فقرات، فقال:" هكذا انزلت، إن هذا القرآن انزل على سبعة احرف، فاقرءوا ما تيسر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي الصَّلَاةِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا، فَأَخَذْتُ بِثَوْبِهِ، فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا، فَقَالَ:" اقْرَأْ"، فَقَرَأَ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهَا مِنْهُ، فَقَالَ:" هَكَذَا أُنْزِلَتْ"، ثُمَّ قَالَ لِي:" اقْرَأْ" فَقَرَأْتُ، فَقَالَ:" هَكَذَا أُنْزِلَتْ، إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ہشام بن حکیم کو نماز میں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے سورت فرقان خود پڑھائی ہے، میں نے اسے سورت فرقان کو ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہشام سے اس کی تلاوت کرنے کے لئے فرمایا: انہوں نے اسی طرح پڑھا جیسے میں نے انہیں سنا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے“، پھر مجھ سے کہا کہ عمر! تم بھی پڑھ کر سناؤ، چنانچہ میں نے بھی پڑھ کر سنا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس طرح بھی نازل ہوئی ہے“، اس کے بعد ارشاد فرمایا: ”بیشک اس قرآن کا نزول سات قرأتوں پر ہوا ہے، لہٰذا تمہارے لئے جو آسان ہو اس کے مطابق تلاوت کر لیا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا عبد الله بن المبارك ، عن معمر ، عن الزهري ، عن السائب بن يزيد ، عن عبد الله بن السعدي ، قال: قال لي عمر : الم احدث انك تلي من اعمال الناس اعمالا، فإذا اعطيت العمالة لم تقبلها؟ قال: نعم، قال: فما تريد إلى ذاك؟ قال: انا غني، لي اعبد ولي افراس، اريد ان يكون عملي صدقة على المسلمين، قال: لا تفعل، فإني كنت افعل مثل الذي تفعل، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطيني العطاء، فاقول: اعطه من هو افقر إليه مني، فقال:" خذه، فإما ان تموله، وإما ان تصدق به، وما آتاك الله من هذا المال، وانت غير مشرف له ولا سائله فخذه، وما لا، فلا تتبعه نفسك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّعْدِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي عُمَرُ : أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا، فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ لَمْ تَقْبَلْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَاكَ؟ قَالَ: أَنَا غَنِيٌّ، لِي أَعْبُدٌ وَلِي أَفْرَاسٌ، أُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: لَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي كُنْتُ أَفْعَلُ مِثْلَ الَّذِي تَفْعَلُ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ:" خُذْهُ، فَإِمَّا أَنْ تَمَوَّلَهُ، وَإِمَّا أَنْ تَصَدَّقَ بِهِ، وَمَا آتَاكَ اللَّهُ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ لَهُ وَلَا سَائِلِهِ فَخُذْهُ، وَمَا لَا، فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
ایک مرتبہ عبداللہ بن سعدی رحمہ اللہ خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: کیا تم وہی ہو جس کے متعلق مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں عوام الناس کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن جب تہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینے سے ناگواری کا اظہار کرتے ہو؟ عبداللہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں! ایسا ہی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ میں نے عرض کیا: میرے پاس اللہ کے فضل سے گھوڑے اور غلام سب ہی کچھ ہے اور میں مالی اعتبار سے بھی صحیح ہوں، اس لئے میری خواہش ہوتی ہے کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے ہی کاموں میں استعمال ہو جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسا مت کرو، کیونکہ ایک مرتبہ میں نے بھی یہی چاہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کر دیتا کہ یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال و دولت عطاء فرمایا، میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے لو اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کردو اور یاد رکھو! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، عن عمر بن الخطاب ، قال: حملت على فرس في سبيل الله، فاضاعه صاحبه، فاردت ان ابتاعه، وظننت انه بائعه برخص، فقلت: حتى اسال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" لا تبتعه، وإن اعطاكه بدرهم، فإن الذي يعود في صدقته، كالكلب يعود في قيئه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: حَمَلْتُ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَضَاعَهُ صَاحِبُهُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَبْتَاعَهُ، وَظَنَنْتُ أَنَّهُ بَائِعُهُ بِرُخْصٍ، فَقُلْتُ: حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَا تَبْتَعْهُ، وَإِنْ أَعْطَاكَهُ بِدِرْهَمٍ، فَإِنَّ الَّذِي يَعُودُ فِي صَدَقَتِهِ، َكَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، اس نے اسے ضائع کر دیا، میں نے سوچا کہ اسے خرید لیتا ہوں، کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ اسے سستا فروخت کر دے گا، لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مت خریدو اگرچہ وہ تمہیں پیسوں کے بدلے دے کیونکہ صدقہ دے کر رجوع کرنے والے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کتا قے کر کے اسے دوبارہ چاٹ لے۔
(حديث مرفوع) قرات على عبد الرحمن ، عن مالك ، عن ابن شهاب ، عن ابي عبيد مولى ابن ازهر، انه قال: شهدت العيد مع عمر بن الخطاب ، فجاء فصلى، ثم انصرف، فخطب الناس، فقال:" إن هذين يومان نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيامهما: يوم فطركم من صيامكم، والآخر: يوم تاكلون فيه من نسككم".(حديث مرفوع) قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ، أَنَّهُ قَالَ: شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَجَاءَ فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ:" إِنَّ هَذَيْنِ يَوْمَانِ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِهِمَا: يَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ، وَالْآخَرُ: يَوْمٌ تَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ نُسُكِكُمْ".
ابوعبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے آ کر پہلے نماز پڑھائی، پھر لوگوں کی طرف منہ پھیر کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کے روزے سے منع فرمایا ہے، عیدالفطر کے دن تو اس لئے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحی کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکو۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن يحيى بن ابي إسحاق ، عن سالم بن عبد الله ، قال: كان عمر رجلا غيورا، فكان إذا خرج إلى الصلاة اتبعته عاتكة ابنة زيد، فكان يكره خروجها، ويكره منعها، وكان يحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا استاذنتكم نساؤكم إلى الصلاة، فلا تمنعوهن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ رَجُلًا غَيُورًا، فَكَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّبَعَتْهُ عَاتِكَةُ ابْنَةُ زَيْدٍ، فَكَانَ يَكْرَهُ خُرُوجَهَا، وَيَكْرَهُ مَنْعَهَا، وَكَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا اسْتَأْذَنَتْكُمْ نِسَاؤُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ، فَلَا تَمْنَعُوهُنَّ".
سیدنا سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بڑے غیور طبع آدمی تھے، جب وہ نماز کے لئے نکلتے تو ان کے پیچھے پیچھے عاتکہ بنت زید بھی چلی جاتیں، انہیں ان کا نکلنا بھی پسند نہ تھا اور روکنا بھی پسند نہ تھا اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ جب تمہاری عورتیں تم سے نماز کے لئے مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں مت روکو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سالم بن عبدالله بن عمر لم يدرك جده، و فى الباب عن ابن عمر عند البخاري : 865، ومسلم: 442
(حديث موقوف) حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، عن عمر ، قال:" لولا آخر المسلمين، ما فتحت قرية إلا قسمتها، كما قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ:" لَوْلَا آخِرُ الْمُسْلِمِينَ، مَا فُتِحَتْ قَرْيَةٌ إِلَّا قَسَمْتُهَا، كَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اگر بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جو بستی اور شہر بھی مفتوح ہوتا، میں اسے فاتحین کے درمیان تقسیم کر دیتا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم فرما دیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا سلمة بن علقمة ، عن محمد بن سيرين ، قال: نبئت , عن ابي العجفاء السلمي ، قال: سمعت عمر ، يقول: الا لا تغلوا صدق النساء، الا لا تغلوا صدق النساء، فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا، او تقوى عند الله، كان اولاكم بها النبي صلى الله عليه وسلم، ما اصدق رسول الله صلى الله عليه وسلم امراة من نسائه، ولا اصدقت امراة من بناته، اكثر من ثنتي عشرة اوقية، وإن الرجل ليبتلى بصدقة امراته، وقال مرة: وإن الرجل ليغلي بصدقة امراته، حتى تكون لها عداوة في نفسه، وحتى يقول: كلفت إليك علق القربة، قال: وكنت غلاما عربيا مولدا، لم ادر ما علق القربة. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قال: واخرى تقولونها لمن قتل في مغازيكم، او مات: قتل فلان شهيدا، ومات فلان شهيدا، ولعله ان يكون قد اوقر عجز دابته، او دف راحلته ذهبا، او ورقا يلتمس التجارة، لا تقولوا ذاكم، ولكن قولوا كما قال النبي، او كما قال محمد صلى الله عليه وسلم:" من قتل او مات في سبيل الله فهو في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، قَالَ: نُبِّئْتُ , عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ ، يَقُولُ: أَلَا لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ، أَلَا لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا، أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ، كَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ، أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُبْتَلَى بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ، وَقَالَ مَرَّةً: وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُغْلِي بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ، حَتَّى تَكُونَ لَهَا عَدَاوَةٌ فِي نَفْسِهِ، وَحَتَّى يَقُولَ: كَلِفْتُ إِلَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ، قَالَ: وَكُنْتُ غُلَامًا عَرَبِيًّا مُوَلَّدًا، لَمْ أَدْرِ مَا عَلَقُ الْقِرْبَةِ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَ: وَأُخْرَى تَقُولُونَهَا لِمَنْ قُتِلَ فِي مَغَازِيكُمْ، أَوَ مَاتَ: قُتِلَ فُلَانٌ شَهِيدًا، وَمَاتَ فُلَانٌ شَهِيدًا، وَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِهِ، أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِهِ ذَهَبًا، أَوْ وَرِقًا يَلْتَمِسُ التِّجَارَةَ، لَا تَقُولُوا ذَاكُمْ، وَلَكِنْ قُولُوا كَمَا قَالَ النَّبِيُّ، أَوْ كَمَا قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قُتِلَ أَوْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ".
ابوالعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو تکرار کے ساتھ یہ بات دہراتے ہوئے سنا کہ لوگو! اپنی بیویوں کے مہر زیادہ مت باندھا کرو، کیونکہ اگر یہ چیز دنیا میں باعث عزت ہوتی یا اللہ کے نزدیک تقویٰ میں شمار ہوتی تو اس کے سب سے زیادہ حقدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی یا بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا اور انسان اپنی بیوی کے حق مہر سے ہی آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے، جو بعد میں اس کے لئے خود اپنی ذات سے دشمنی ثابت ہوتی ہے اور انسان یہاں تک کہہ جاتا ہے کہ میں تو تمہارے پاس مشکیزہ کا منہ باندھنے والی رسی تک لانے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ ابوالعجفاء (جو کہ راوی ہیں) کہتے ہیں کہ میں چونکہ عرب کے ان غلاموں میں سے تھا جنہیں ”مولدین“ کہا جاتا ہے اس لئے مجھے اس وقت تک ”علق القربۃ“(مشکیزہ کا منہ باندھنے والی رسی) کا معنی معلوم نہیں تھا۔ پھر سیدنا رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص دوران جہاد مقتول ہو جائے یا طبعی طور پر فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی شہید ہو گیا، فلاں آدمی شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہوا، حالانکہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پچھلے حصے میں یا کجاوے کے نیچے سونا چاندی چھپا رکھا ہو، جس سے وہ تجارت کا ارادہ رکھتا ہو، اس لئے تم کسی کے متعلق یقین کے ساتھ یہ مت کہو کہ وہ شہید ہے، البتہ یہ کہہ سکتے ہو کہ جو شخص اللہ کے راستہ میں مقتول یا فوت ہو جائے (وہ شہید ہے) اور جنت میں داخل ہو گا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ظاهر إسناده الانقطاع بين محمد بن سيرين وبين أبى العجفاء لكن قد وصل الإسناد بتصريح ابن سيرين بالسماع من أبى العجفاء عند المؤلف برقم: 340
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، انبانا الجريري سعيد ، عن ابي نضرة ، عن ابي فراس ، قال: خطب عمر بن الخطاب ، فقال:" يا ايها الناس، الا إنا إنما كنا نعرفكم إذ بين ظهرينا النبي صلى الله عليه وسلم، وإذ ينزل الوحي، وإذ ينبئنا الله من اخباركم، الا وإن النبي صلى الله عليه وسلم قد انطلق، وقد انقطع الوحي، وإنما نعرفكم بما نقول لكم، من اظهر منكم خيرا، ظننا به خيرا واحببناه عليه، ومن اظهر منكم لنا شرا، ظننا به شرا، وابغضناه عليه، سرائركم بينكم وبين ربكم، الا إنه قد اتى علي حين وانا احسب ان من قرا القرآن يريد الله وما عنده، فقد خيل إلي بآخرة، الا إن رجالا قد قرءوه يريدون به ما عند الناس، فاريدوا الله بقراءتكم، واريدوه باعمالكم، الا إني والله ما ارسل عمالي إليكم ليضربوا ابشاركم، ولا لياخذوا اموالكم، ولكن ارسلهم إليكم ليعلموكم دينكم وسنتكم، فمن فعل به شيء سوى ذلك، فليرفعه إلي، فوالذي نفسي بيده، إذن لاقصنه منه، فوثب عمرو بن العاص، فقال: يا امير المؤمنين، اورايت إن كان رجل من المسلمين على رعية، فادب بعض رعيته، ائنك لمقتصه منه؟ قال: إي والذي نفس عمر بيده، إذن لاقصنه منه، وقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقص من نفسه؟ الا لا تضربوا المسلمين فتذلوهم، ولا تجمروهم فتفتنوهم، ولا تمنعوهم حقوقهم فتكفروهم، ولا تنزلوهم الغياض فتضيعوهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَنْبَأَنَا الْجُرَيْرِيُّ سَعِيدٌ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي فِرَاسٍ ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّا إِنَّمَا كُنَّا نَعْرِفُكُمْ إِذْ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِذْ يَنْزِلُ الْوَحْيُ، وَإِذْ يُنْبِئُنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ، أَلَا وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ انْطَلَقَ، وَقَدْ انْقَطَعَ الْوَحْيُ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُكُمْ بِمَا نَقُولُ لَكُمْ، مَنْ أَظْهَرَ مِنْكُمْ خَيْرًا، ظَنَنَّا بِهِ خَيْرًا وَأَحْبَبْنَاهُ عَلَيْهِ، وَمَنْ أَظْهَرَ مِنْكُمْ لَنَا شَرًّا، ظَنَنَّا بِهِ شَرًّا، وَأَبْغَضْنَاهُ عَلَيْهِ، سَرَائِرُكُمْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ، أَلَا إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيَّ حِينٌ وَأَنَا أَحْسِبُ أَنَّ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ يُرِيدُ اللَّهَ وَمَا عِنْدَهُ، فَقَدْ خُيِّلَ إِلَيَّ بِآخِرَةٍ، أَلَا إِنَّ رِجَالًا قَدْ قَرَءُوهُ يُرِيدُونَ بِهِ مَا عِنْدَ النَّاسِ، فَأَرِيدُوا اللَّهَ بِقِرَاءَتِكُمْ، وَأَرِيدُوهُ بِأَعْمَالِكُمْ، أَلَا إِنِّي وَاللَّهِ مَا أُرْسِلُ عُمَّالِي إِلَيْكُمْ لِيَضْرِبُوا أَبْشَارَكُمْ، وَلَا لِيَأْخُذُوا أَمْوَالَكُمْ، وَلَكِنْ أُرْسِلُهُمْ إِلَيْكُمْ لِيُعَلِّمُوكُمْ دِينَكُمْ وَسُنَّتَكُمْ، فَمَنْ فُعِلَ بِهِ شَيْءٌ سِوَى ذَلِكَ، فَلْيَرْفَعْهُ إِلَيَّ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِذَنْ لَأُقِصَّنَّهُ مِنْهُ، فَوَثَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَوَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى رَعِيَّةٍ، فَأَدَّبَ بَعْضَ رَعِيَّتِهِ، أَئِنَّكَ لَمُقْتَصُّهُ مِنْهُ؟ قَالَ: إِي وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرَ بِيَدِهِ، إِذَنْ لَأُقِصَّنَّهُ مِنْهُ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقِصُّ مِنْ نَفْسِهِ؟ أَلَا لَا تَضْرِبُوا الْمُسْلِمِينَ فَتُذِلُّوهُمْ، وَلَا تُجَمِّرُوهُمْ فَتَفْتِنُوهُمْ، وَلَا تَمْنَعُوهُمْ حُقُوقَهُمْ فَتُكَفِّرُوهُمْ، وَلَا تُنْزِلُوهُمْ الْغِيَاضَ فَتُضَيِّعُوهُمْ".
ابوفراس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگو! جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود رہے، وحی نازل ہوتی رہی اور اللہ ہمیں تمہارے حالات سے مطلع کرتا رہا اس وقت تک تو ہم تمہیں پہچانتے تھے، اب چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ہیں اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے اب ہم تمہیں ان چیزوں سے پہچانیں گے جو ہم تمہیں کہیں گے۔ تم میں سے جو شخص خیر ظاہر کرے گا ہم اس کے متعلق اچھا گمان رکھیں گے اور اس سے محبت کریں گے اور جو شر ظاہر کرے گا ہم اس کے متعلق اچھا گمان نہیں رکھیں گے اور اس بناء پر اس سے نفرت کریں گے، تمہارے پوشیدہ راز تمہارے رب اور تمہارے درمیان ہوں گے۔ یاد رکھو! مجھ پر ایک وقت ایسا بھی آیا ہے کہ جس میں، میں سمجھتا ہوں جو شخص قرآن کریم کو اللہ اور اس کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہے وہ میرے سامنے آخرت کا تخیل پیش کرتا ہے، یاد رکھو! بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو قرآن کریم کی تلاوت سے لوگوں کے مال و دولت کا حصول چاہتے ہیں، تم اپنی قرأت سے اللہ کو حاصل کرو اپنے اعمال کے ذریعے اللہ کو حاصل کرو اور یاد رکھو! میں نے تمہارے پاس اپنے مقرر کردہ گورنروں کو اس لئے نہیں بھیجا کہ وہ تمہاری چمڑی ادھیڑ دیں اور تمہارے مال و دولت پر قبضہ کر لیں، میں نے تو انہیں تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ وہ تمہیں تمہارا دین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں سکھائیں۔ جس شخص کے ساتھ اس کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہوا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اسے میرے سامنے پیش کرے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں اسے بدلہ ضرور لے کر دوں گا، یہ سن کر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کود کر سامنے آئے اور کہنے لگے امیر المؤمنین! اگر کسی آدمی کو رعایا پر ذمہ دار بنایا جائے اور وہ رعایا کو ادب سکھانے کے لئے کوئی سزا دے دے، تو کیا آپ اس سے بھی قصاص لیں گے؟ فرمایا: ہاں! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے میں اس سے بھی قصاص لوں گا، میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف سے قصاص دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ یاد رکھو! مسلمانوں کو مار پیٹ کر ذلیل مت کرو، انہیں انگاروں پر مت رکھو کہ انہیں آزمائش میں مبتلا کر دو، ان سے ان کے حقوق مت روکو کہ انہیں کفر اختیار کرنے پر مجبور کر دو اور انہیں غصہ مت دلاؤ کہ انہیں ضائع کر دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى فراس، وهو النهدي، والشطر الأول من الحديث فى البخاري: 2641 مختصراً
حدثنا إسماعيل مرة اخرى، اخبرنا سلمة بن علقمة، عن محمد بن سيرين، قال: نبئت عن ابي العجفاء، قال: سمعت عمر، يقول: الا لا تغلوا صدق النساء... فذكر الحديث. قال إسماعيل: وذكر ايوب، وهشام، وابن عون، عن محمد، عن ابي العجفاء، عن عمر نحوا من حديث سلمة، إلا انهم قالوا: لم يقل محمد: نبئت عن ابي العجفاء.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً أُخْرَى، أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: نُبِّئْتُ عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ: أَلَا لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. قَالَ إِسْمَاعِيلُ: وَذَكَرَ أَيُّوبُ، وَهِشَامٌ، وَابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ، عَنْ عُمَرَ نَحْوًا مِنْ حَدِيثِ سَلَمَةَ، إِلَّا أَنَّهُمْ قَالُوا: لَمْ يَقُلْ مُحَمَّدٌ: نُبِّئْتُ عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ.
مہر زیادہ مقرر نہ کرنے والی روایت جو عنقریب گزری ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، قال: كنت عند عبد الله بن عمر، ونحن ننتظر جنازة ام ابان ابنة عثمان بن عفان، وعنده عمرو بن عثمان، فجاء ابن عباس يقوده قائده، قال: فاراه اخبره بمكان ابن عمر، فجاء حتى جلس إلى جنبي وكنت بينهما، فإذا صوت من الدار، فقال ابن عمر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الميت يعذب ببكاء اهله عليه"، فارسلها عبد الله مرسلة، قال ابن عباس : كنا مع امير المؤمنين عمر، حتى إذا كنا بالبيداء، إذا هو برجل نازل في ظل شجرة، فقال لي: انطلق، فاعلم من ذاك، فانطلقت، فإذا هو صهيب، فرجعت إليه، فقلت: إنك امرتني ان اعلم لك من ذلك، وإنه صهيب، فقال: مروه فليلحق بنا، فقلت: إن معه اهله، قال: وإن كان معه اهله، وربما قال ايوب مرة: فليلحق بنا، فلما بلغنا المدينة لم يلبث امير المؤمنين ان اصيب، فجاء صهيب، فقال: وا اخاه، وا صاحباه، فقال عمر : الم تعلم، اولم تسمع ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الميت ليعذب ببعض بكاء اهله عليه"؟ فاما عبد الله فارسلها مرسلة، واما عمر، فقال:" ببعض بكاء"، فاتيت عائشة فذكرت لها قول عمر، فقالت: لا والله، ما قاله رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان الميت يعذب ببكاء احد، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الكافر ليزيده الله عز وجل ببكاء اهله عذابا"، وإن الله لهو اضحك وابكى، ولا تزر وازرة وزر اخرى سورة الانعام آية 164. قال ايوب ابن ابي تميمة السختياني ، وقال ابن ابي مليكة: حدثني القاسم ، قال: لما بلغ عائشة قول عمر، وابن عمر، قالت: إنكم لتحدثوني عن غير كاذبين ولا مكذبين، ولكن السمع يخطئ.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ جَنَازَةَ أُمِّ أَبَانَ ابْنَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعِنْدَهُ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، فَجَاءَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُودُهُ قَائِدُهُ، قَالَ: فَأُرَاهُ أَخْبَرَهُ بِمَكَانِ ابْنِ عُمَرَ، فَجَاءَ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِي وَكُنْتُ بَيْنَهُمَا، فَإِذَا صَوْتٌ مِنَ الدَّارِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ"، فَأَرْسَلَهَا عَبْدُ اللَّهِ مُرْسَلَةً، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : كُنَّا مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ، إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ نَازِلٍ فِي ظِلِّ شَجَرَةٍ، فَقَالَ لِي: انْطَلِقْ، فَاعْلَمْ مَنْ ذَاكَ، فَانْطَلَقْتُ، فَإِذَا هُوَ صُهَيْبٌ، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: إِنَّكَ أَمَرْتَنِي أَنْ أَعْلَمَ لَكَ مَنْ ذَلكَ، وَإِنَّهُ صُهَيْبٌ، فَقَالَ: مُرُوهُ فَلْيَلْحَقْ بِنَا، فَقُلْتُ: إِنَّ مَعَهُ أَهْلَهُ، قَالَ: وَإِنْ كَانَ مَعَهُ أَهْلُهُ، وَرُبَّمَا قَالَ أَيُّوبُ مَرَّةً: فَلْيَلْحَقْ بِنَا، فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَدِينَةَ لَمْ يَلْبَثْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ أُصِيبَ، فَجَاءَ صُهَيْبٌ، فَقَالَ: وَا أَخَاهُ، وَا صَاحِبَاهُ، فَقَالَ عمر : أَلَمْ تَعْلَمْ، أَوَلَمْ تَسْمَعْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ"؟ فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ فَأَرْسَلَهَا مُرْسَلَةً، وَأَمَّا عُمَرُ، فَقَالَ:" بِبَعْضِ بُكَاءِ"، فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ فَذَكَرْتُ لَهَا قَوْلَ عُمَرَ، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ، مَا قَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَحَدٍ، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْكَافِرَ لَيَزِيدُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَذَابًا"، وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى، وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164. قَالَ أَيُّوبُ ابْنِ أَبِي تَِميمَة السختياني ، وَقَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ ، قَالَ: لَمَّا بَلَغَ عَائِشَةَ قَوْلُ عُمَرَ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَتْ: إِنَّكُمْ لَتُحَدِّثُونِي عَنْ غَيْرِ كَاذِبَيْنِ وَلَا مُكَذَّبَيْنِ، وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ.
سیدنا عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام ابان کے جنازے کے انتظار میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہاں عمرو بن عثمان بھی تھے، اتنی دیر میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کا رہنما لے آیا، شاید اسی نے انہیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی نشست کا بتایا، چنانچہ وہ میرے پہلو میں آ کر بیٹھ گئے اور میں ان دونوں کے درمیان ہو گیا، اچانک گھر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے اور اہل خانہ کو یہ حدیث کہلوا بھیجی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ ہم امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقام بیداء میں پہنچے تو ان کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو کسی درخت کے سائے میں کھڑا تھا، انہوں نے مجھ سے فرمایا: جا کر خبر لاؤ کہ یہ آدمی کون ہے؟ میں گیا تو وہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ تھے، میں نے واپس آ کر عرض کیا کہ آپ نے مجھے فلاں آدمی کے بارے معلوم کرنے کا حکم دیا تھا، وہ صہیب ہیں، فرمایا: انہیں ہمارے پاس آنے کے لئے کہو، میں نے عرض کیا: ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ بھی ہیں، فرمایا: اگرچہ اہل خانہ ہوں تب بھی انہیں بلا کر لاؤ۔ خیر! مدینہ منورہ پہنچنے کے چند دن بعد ہی امیر المؤمنین پر قاتلانہ حملہ ہوا، سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو وہ آئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھتے ہی کہنے لگے ہائے! میرے بھائی، ہائے میرے دوست، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کو اس کے رشتہ داروں کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی ذکر کیا، انہوں نے فرمایا: بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات نہیں فرمائی تھی کہ میت کو کسی کے رونے دھونے سے عذاب ہوتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کافر کے اہل خانہ کے رونے دھونے کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کر دیتا ہے، اصل ہنسانے اور رلانے والا تو اللہ ہے اور یہ بھی اصول ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے سیدنا قاسم رحمہ اللہ نے بتایا کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے کا یہ قول معلوم ہوا تو فرمایا کہ تم لوگ جن سے حدیث روایت کر رہے ہو، نہ تو وہ جھوٹے تھے اور نہ ان کی تکذیب کی جا سکتی ہے، البتہ بعض اوقات انسان سے سننے میں غلطی ہو جاتی ہے۔
حدثنا عبد الرزاق ، انبانا ابن جريج ، اخبرني عبد الله بن ابي مليكة ... فذكر معنى حديث ايوب، إلا انه قال: فقال ابن عمر لعمرو بن عثمان، وهو مواجهه: الا تنهى عن البكاء، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الميت ليعذب ببكاء اهله عليه".حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ... فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ أَيُّوبَ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، وَهُوَ مُوَاجِهُهُ: أَلَا تَنْهَى عَنِ الْبُكَاءِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ".
ایک دوسری سند سے بھی یہ روایت مروی ہے البتہ اس میں یہ بھی ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عمرو بن عثمان سے جو ان کے سامنے ہی تھے فرمایا کہ آپ ان رونے والیوں کو رونے سے روکتے کیوں نہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
حدثنا عبد الرزاق ، انبانا ابن جريج ، اخبرني عبد الله بن ابي مليكة ، قال: توفيت ابنة لعثمان بن عفان بمكة، فحضرها ابن عمر، وابن عباس، وإني لجالس بينهما، فقال ابن عمر لعمرو بن عثمان وهو مواجهه: الا تنهى عن البكاء، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الميت ليعذب ببكاء اهله عليه"... فذكر نحو حديث إسماعيل، عن ايوب، عن ابن ابي مليكة.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: تُوُفِّيَتْ ابْنَةٌ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ بِمَكَّةَ، فَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ مُوَاجِهُهُ: أَلَا تَنْهَى عَنِ الْبُكَاءِ، فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ"... فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ.
عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی فوت ہو گئی، اس کے جنازے میں سیدنا ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم دونوں شریک ہوئے، جبکہ میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے عمرو بن عثمان سے کہا کہ تم ان لوگوں کو رونے سے کیوں نہیں روکتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میت پر اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا إسرائيل ، عن سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قال عمر : كنت في ركب اسير في غزاة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحلفت، فقلت: لا وابي، فهتف بي رجل من خلفي:" لا تحلفوا بآبائكم"، فالتفت، فإذا هو رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : كُنْتُ فِي رَكْبٍ أَسِيرُ فِي غَزَاةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَلَفْتُ، فَقُلْتُ: لَا وَأَبِي، فَهَتَفَ بِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي:" لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ"، فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا: «لا وابي» تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، رواية سماك عن عكرمة فيها اضطراب، خ: 6647، م: 1646
(حديث موقوف) حدثنا محمد بن ميسر ابو سعد الصاغاني ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن عمرو بن عطاء ، عن مالك بن اوس بن الحدثان ، قال: كان عمر يحلف على ايمان ثلاث، يقول: والله ما احد احق بهذا المال من احد، وما انا باحق به من احد، والله ما من المسلمين احد إلا وله في هذا المال نصيب إلا عبدا مملوكا، ولكنا على منازلنا من كتاب الله تعالى، وقسمنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فالرجل وبلاؤه في الإسلام، والرجل وقدمه في الإسلام، والرجل وغناؤه في الإسلام، والرجل وحاجته، ووالله لئن بقيت لهم، لياتين الراعي بجبل صنعاء حظه من هذا المال وهو يرعى مكانه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُيَسَّرٍ أَبُو سَعْدٍ الصَّاغَانِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ يَحْلِفُ عَلَى أَيْمَانٍ ثَلَاثٍ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَحَدٌ أَحَقَّ بِهَذَا الْمَالِ مِنْ أَحَدٍ، وَمَا أَنَا بِأَحَقَّ بِهِ مِنْ أَحَدٍ، وَاللَّهِ مَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَحَدٌ إِلَّا وَلَهُ فِي هَذَا الْمَالِ نَصِيبٌ إِلَّا عَبْدًا مَمْلُوكًا، وَلَكِنَّا عَلَى مَنَازِلِنَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، وَقَسْمِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَالرَّجُلُ وَبَلَاؤُهُ فِي الْإِسْلَامِ، وَالرَّجُلُ وَقَدَمُهُ فِي الْإِسْلَامِ، وَالرَّجُلُ وَغَنَاؤُهُ فِي الْإِسْلَامِ، وَالرَّجُلُ وَحَاجَتُهُ، وَوَاللَّهِ لَئِنْ بَقِيتُ لَهُمْ، لَيَأْتِيَنَّ الرَّاعِيَ بِجَبَلِ صَنْعَاءَ حَظُّهُ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَهُوَ يَرْعَى مَكَانَهُ".
مالک بن اوس کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تین باتوں پر قسم کھایا کرتے تھے، وہ فرماتے تھے کہ اللہ کی قسم! اس مال کا ایک کی نسبت دوسرا کوئی شخص زیادہ حقدار نہیں (بلکہ سب برابر مستحق ہیں) اور میں بھی کسی دوسرے کی نسبت زیادہ مستحق نہیں ہوں، اللہ کی قسم! ہر مسلمان کا اس مال میں حق ہے سوائے اس غلام کے جو اپنے آقا کا اب تک مملوک ہے، البتہ ہم کتاب اللہ کے مطابق درجہ بندی کریں گے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا طریقہ تقسیم حاصل کریں گے۔ چنانچہ ایک آدمی وہ ہے جس نے اسلام کی خاطر بڑی آزمائشیں برداشت کیں، ایک آدمی وہ ہے جو قدیم الاسلام ہو، ایک آدمی وہ ہے جو اسلام میں رہا اور ایک آدمی وہ ہے جو ضرورت مند رہا، اللہ کی قسم! اگر میں زندہ رہا تو ایسا ہو کر رہے گا کہ جبل صنعاء سے ایک چرواہا آئے گا اور اس مال سے اپنا حصہ وصول کرے گا اور اپنی جگہ جانور بھی چراتا رہے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد القدوس بن الحجاج ، حدثنا صفوان ، حدثني ابو المخارق زهير بن سالم : ان عمير بن سعد الانصاري كان ولاه عمر حمص... فذكر الحديث، قال عمر يعني لكعب:" إني اسالك عن امر فلا تكتمني، قال: والله لا اكتمك شيئا اعلمه، قال: ما اخوف شيء تخوفه على امة محمد صلى الله عليه وسلم؟ قال: ائمة مضلين، قال عمر : صدقت، قد اسر ذلك إلي واعلمنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ الْحَجَّاجِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنِي أَبُو الْمُخَارِقِ زُهَيْرُ بْنُ سَالِمٍ : أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ وَلَّاهُ عُمَرُ حِمْصَ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ عُمَرُ يَعْنِي لِكَعْبٍ:" إِنِّي أَسْأَلُكَ عَنْ أَمْرٍ فَلَا تَكْتُمْنِي، قَالَ: وَاللَّهِ لَا أَكْتُمُكَ شَيْئًا أَعْلَمُهُ، قَالَ: مَا أَخْوَفُ شَيْءٍ تَخَوَّفُهُ عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَئِمَّةً مُضِلِّينَ، قَالَ عُمَرُ : صَدَقْتَ، قَدْ أَسَرَّ ذَلِكَ إِلَيَّ وَأَعْلَمَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عمیر بن سعید کو حمص کا گورنر مقرر فرما رکھا تھا، ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: میں تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں، مجھ سے کچھ نہ چھپانا، انہوں نے عرض کیا کہ مجھے جس چیز کا علم ہو گا، اسے نہیں چھپاؤں گا، فرمایا: امت مسلمہ کے حوالے سے تمہیں سب سے زیادہ خطرناک بات کیا معلوم ہوتی ہے؟ عرض کیا: گمراہ کن ائمہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ نے سچ کہا، مجھے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف زهير بن سالم ولم يسمع من عمر
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، قال ابن شهاب : فقال سالم : فسمعت عبد الله بن عمر ، يقول: قال عمر : ارسلوا إلي طبيبا ينظر إلى جرحي هذا، قال: فارسلوا إلى طبيب من العرب، فسقى عمر نبيذا، فشبه النبيذ بالدم حين خرج من الطعنة التي تحت السرة، قال: فدعوت طبيبا آخر من الانصار من بني معاوية، فسقاه لبنا، فخرج اللبن من الطعنة صلدا ابيض، فقال له الطبيب: يا امير المؤمنين، اعهد، فقال عمر: صدقني اخو بني معاوية، ولو قلت غير ذلك كذبتك، قال: فبكى عليه القوم حين سمعوا ذلك، فقال: لا تبكوا علينا، من كان باكيا فليخرج، الم تسمعوا ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال:" يعذب الميت ببكاء اهله عليه"، فمن اجل ذلك كان عبد الله لا يقر ان يبكى عنده على هالك من ولده ولا غيرهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ ابْنِ شِهَابٍ : فَقَالَ سَالِمٌ : فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ عُمَرُ : أَرْسِلُوا إِلَيَّ طَبِيبًا يَنْظُرُ إِلَى جُرْحِي هَذَا، قَالَ: فَأَرْسَلُوا إِلَى طَبِيبٍ مِنَ الْعَرَبِ، فَسَقَى عُمَرَ نَبِيذًا، فَشُبِّهَ النَّبِيذُ بِالدَّمِ حِينَ خَرَجَ مِنَ الطَّعْنَةِ الَّتِي تَحْتَ السُّرَّةِ، قَالَ: فَدَعَوْتُ طَبِيبًا آخَرَ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِي مُعَاوِيَةَ، فَسَقَاهُ لَبَنًا، فَخَرَجَ اللَّبَنُ مِنَ الطَّعْنَةِ صَلْدًا أَبْيَضَ، فَقَالَ لَهُ الطَّبِيبُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اعْهَدْ، فَقَالَ عُمَرُ: صَدَقَنِي أَخُو بَنِي مُعَاوِيَةَ، وَلَوْ قُلْتَ غَيْرَ ذَلِكَ كَذَّبْتُكَ، قَالَ: فَبَكَى عَلَيْهِ الْقَوْمُ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ، فَقَالَ: لَا تَبْكُوا عَلَيْنَا، مَنْ كَانَ بَاكِيًا فَلْيَخْرُجْ، أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:" يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ"، فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ لَا يُقِرُّ أَنْ يُبْكَى عِنْدَهُ عَلَى هَالِكٍ مِنْ وَلَدِهِ وَلَا غَيْرِهِمْ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قاتلانہ حملہ میں زخمی ہونے کے بعد فرمایا، میرے پاس طبیب کو بلا کر لاؤ جو میرے زخموں کی دیکھ بھال کرے، چنانچہ عرب کا ایک نامی گرامی طبیب بلایا گیا، اس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نبیذ پلائی، لیکن وہ ناف کے نیچے لگے ہوئے زخم سے نکل آئی اور اس کا رنگ خون کی طرح سرخ ہو چکا تھا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد انصار کے بنو معاویہ میں سے ایک طبیب کو بلایا، اس نے آ کر انہیں دودھ پلایا، وہ بھی ان کے زخم سے چکنا سفید نکل آیا، طبیب نے یہ دیکھ کر کہا کہ امیر المؤمنین! اب وصیت کر دیجئے، (یعنی اب بچنا مشکل ہے)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا، اگر تم کوئی دوسری بات کہتے تو میں تمہاری بات نہ مانتا۔ یہ سن کر لوگ رونے لگے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھ پر مت روؤ، جو رونا چاہتا ہے وہ باہر چلا جائے کیا تم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے، اسی وجہ سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بیٹوں یا کسی اور کے انتقال پر رونے والوں کو اپنے پاس نہیں بٹھاتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا الثوري ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، قال: سمعت عمر بن الخطاب ، يقول:" كان اهل الجاهلية لا يفيضون من جمع، حتى يروا الشمس على ثبير، وكانوا يقولون: اشرق ثبير كيما نغير، فافاض رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل طلوع الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ:" كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ، حَتَّى يَرَوْا الشَّمْسَ عَلَى ثَبِيرٍ، وَكَانُوا يَقُولُونَ: أَشْرِقْ ثَبِيرُ كَيْمَا نُغِيرُ، فَأَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے اور کہتے تھے کہ کوہ ثبیر روشن ہو تاکہ ہم حملہ کریں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہو گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن المسور بن مخرمة ، وعبد الرحمن بن عبد القاري ، انهما سمعا عمر ، يقول: مررت بهشام بن حكيم بن حزام يقرا سورة الفرقان في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستمعت قراءته، فإذا هو يقرا على حروف كثيرة لم يقرئنيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكدت ان اساوره في الصلاة، فنظرت حتى سلم، فلما سلم، لببته بردائه، فقلت: من اقراك هذه السورة التي تقرؤها؟ قال: اقرانيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلت له: كذبت، فوالله إن النبي صلى الله عليه وسلم لهو اقراني هذه السورة التي تقرؤها، قال: فانطلقت اقوده إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني سمعت هذا يقرا سورة الفرقان على حروف لم تقرئنيها، وانت اقراتني سورة الفرقان! فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ارسله يا عمر، اقرا يا هشام، فقرا عليه القراءة التي سمعته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هكذا انزلت، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم: اقرا يا عمر، فقرات القراءة التي اقراني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: هكذا انزلت، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن القرآن انزل على سبعة احرف، فاقرءوا منه ما تيسر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ ، أنهما سمعا عمر ، يَقُولُ: مَرَرْتُ بِهِشَامِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَمَعْتُ قِرَاءَتَهُ، فَإِذَا هُوَ يَقْرَأُ عَلَى حُرُوفٍ كَثِيرَةٍ لَمْ يُقْرِئْنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكِدْتُ أَنْ أُسَاوِرَهُ فِي الصَّلَاةِ، فَنَظَرْتُ حَتَّى سَلَّمَ، فَلَمَّا سَلَّمَ، لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ، فَقُلْتُ: مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي تَقْرَؤُهَا؟ قَالَ: أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: كَذَبْتَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُوَ أَقْرَأَنِي هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي تَقْرَؤُهَا، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ أَقُودُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى حُرُوفٍ لَمْ تُقْرِئْنِيهَا، وَأَنْتَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ! فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْسِلْهُ يَا عُمَرُ، اقْرَأْ يَا هِشَامُ، فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْرَأْ يَا عُمَرُ، فَقَرَأْتُ الْقِرَاءَةَ الَّتِي أَقْرَأَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَاقْرَءُوا مِنْهُ مَا تَيَسَّرَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دور نبوت میں ہشام بن حکیم کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میرا دل چاہا کہ میں ان سے نماز ہی میں پوچھ لوں، بہرحال فراغت کے بعد میں نے انہیں چادر سے گھسیٹ کر پوچھا کہ تمہیں سورت فرقان اس طرح کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا: آپ جھوٹ بولتے ہیں، بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی یہ سورت پڑھائی ہے۔ یہ کہہ کر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے سورت فرقان خود پڑھائی ہے، میں نے اسے سورت فرقان کو ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! اسے چھوڑ دو“، پھر ہشام سے اس کی تلاوت کرنے کے لئے فرمایا: انہوں نے اسی طرح پڑھا جیسے وہ پہلے پڑھ رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے“، پھر مجھ سے کہا کہ عمر! تم بھی پڑھ کر سناؤ، چنانچہ میں نے بھی پڑھ کر سنا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس طرح بھی نازل ہوئی ہے“، اس کے بعد ارشاد فرمایا: ”بیشک اس قرآن کا نزول سات قرائتوں پر ہوا ہے، لہٰذا تمہارے لئے جو آسان ہو اس کے مطابق تلاوت کر لیا کرو۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دور نبوت میں ہشام بن حکیم کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میرا دل چاہا کہ میں ان سے نماز ہی میں پوچھ لوں، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن عاصم ، عن ابيه ، عن ابن عباس ، قال: قال عمر : قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كان منكم ملتمسا ليلة القدر، فليلتمسها في العشر الاواخر وترا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُلْتَمِسًا لَيْلَةَ الْقَدْرِ، فَلْيَلْتَمِسْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وِتْرًا".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن ابن عمر : ان عمر قيل له: الا تستخلف؟ فقال:" إن اترك، فقد ترك من هو خير مني: رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن استخلف، فقد استخلف من هو خير مني: ابو بكر".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ عُمَرَ قِيلَ لَهُ: أَلَا تَسْتَخْلِفُ؟ فَقَالَ:" إِنْ أَتْرُكْ، فَقَدْ تَرَكَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ، فَقَدْ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي: أَبُو بَكْرٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ اپنا خلیفہ کسی کو مقرر کر دیجئے؟ فرمایا: اگر میں خلیفہ مقرر نہ کروں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی مقرر نہیں کیا تھا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اگر مقرر کر دوں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی مقرر کیا تھا یعنی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا يحيى بن سعيد الانصاري ، ان محمد بن إبراهيم اخبره، انه سمع علقمة بن وقاص الليثي ، يقول: إنه سمع عمر بن الخطاب وهو يخطب الناس، وهو يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إنما العمل بالنية، وإنما لامرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله وإلى رسوله، فهجرته إلى الله وإلى رسوله، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها، او امراة يتزوجها، فهجرته إلى ما هاجر إليه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنصاري ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ ، يَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ، وَهُوَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّمَا الْعَمَلُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال کا دارومدار تو نیت پر ہے اور ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو، سو جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو، تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہو گی اور جس کی ہجرت حصول دنیا کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہو تو اس کی ہجرت اس چیز کی طرف ہو گی جس کی طرف اس نے کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، حدثنا عاصم ، عن ابي عثمان النهدي ، عن عمر بن الخطاب ، انه قال: اتزروا وارتدوا وانتعلوا، والقوا الخفاف والسراويلات، والقوا الركب وانزوا نزوا، وعليكم بالمعدية، وارموا الاغراض، وذروا التنعم وزي العجم، وإياكم والحرير، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد نهى عنه، وقال:" لا تلبسوا من الحرير إلا ما كان هكذا، واشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بإصبعيه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنَّهُ قَالَ: اتَّزِرُوا وَارْتَدُوا وَانْتَعِلُوا، وَأَلْقُوا الْخِفَافَ وَالسَّرَاوِيلَاتِ، وَأَلْقُوا الرُّكُبَ وَانْزُوا نَزْوًا، وَعَلَيْكُمْ بِالْمَعَدِّيَّةِ، وَارْمُوا الْأَغْرَاضَ، وَذَرُوا التَّنَعُّمَ وَزِيَّ الْعَجَمِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْحَرِيرَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَنْهُ، وَقَالَ:" لَا تَلْبَسُوا مِنَ الْحَرِيرِ إِلَّا مَا كَانَ هَكَذَا، وَأَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِصْبَعَيْهِ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ تہبند بھی باندھا کرو اور جسم کے اوپر والے حصے پر چادر بھی ڈالا کرو، جوتے پہنا کرو، موزے اور شلوار چھوڑ دو، سواری کو گھٹنوں کے بل بٹھا کر اس پر سوار ہونے کی بجائے کود کر سوار ہوا کرو تاکہ تمہاری بہادری اور ہمت میں اضافہ ہو، قبیلہ معد کی سواریوں کو اپنے اوپر لازم کر لو، ہدف پر نشانہ لگانا سیکھو، ناز و نعمت، عیش پرستی اور عجم کے طور طریقے چھوڑ دو اور ریشم سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ ریشم مت پہنو، سوائے اتنی مقدار کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا يحيى ، عن سعيد بن المسيب ، ان عمر بن الخطاب ، قال:" إياكم ان تهلكوا عن آية الرجم"، وان يقول قائل: لا نجد حدين في كتاب الله تعالى، فقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم رجم، ورجمنا بعده.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، قَالَ:" إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ"، وَأَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: لَا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ، وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آیت رجم کے حوالے سے اپنے آپ کو ہلاکت میں پڑنے سے بچانا، کہیں کوئی شخص یہ نہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ میں تو ہمیں دو سزاؤں کا تذکرہ نہیں ملتا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی رجم کی سزا جاری کرتے ہوئے دیکھا ہے اور خود ہم نے بھی یہ سزاجاری کی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، سعيد بن المسيب لم يسمع من عمر، خ: 2462، م :1691
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا العوام ، حدثني شيخ كان مرابطا بالساحل، قال: لقيت ابا صالح مولى عمر بن الخطاب، فقال: حدثنا عمر بن الخطاب ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال:" ليس من ليلة إلا والبحر يشرف فيها ثلاث مرات على الارض، يستاذن الله في ان ينفضخ عليهم، فيكفه الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا الْعَوَّامُ ، حَدَّثَنِي شَيْخٌ كَانَ مُرَابِطًا بِالسَّاحِلِ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا صَالِحٍ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" لَيْسَ مِنْ لَيْلَةٍ إِلَّا وَالْبَحْرُ يُشْرِفُ فِيهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ عَلَى الْأَرْضِ، يَسْتَأْذِنُ اللَّهَ فِي أَنْ يَنْفَضِخَ عَلَيْهِمْ، فَيَكُفُّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی رات ایسی نہیں گزرتی جس میں سمندر تین مرتبہ زمین پر جھانک کر نہ دیکھتا ہو، وہ ہر مرتبہ اللہ سے یہی اجازت مانگتا ہے کہ زمین والوں کو ڈبو دے، لیکن اللہ اسے ایسا کرنے سے روک دیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الشيخ الذى روى عنه العوام بن حوشب ، وأبو صالح مجهول أيضا
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا عبد الملك ، عن انس بن سيرين ، قال: قلت لابن عمر : حدثني عن طلاقك امراتك، قال: طلقتها وهي حائض، قال: فذكرت ذلك لعمر بن الخطاب ، فذكره للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" مره فليراجعها، فإذا طهرت، فليطلقها في طهرها"، قال: قلت له: هل اعتددت بالتي طلقتها وهي حائض؟ قال: فما لي لا اعتد بها، وإن كنت قد عجزت واستحمقت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ : حَدِّثْنِي عَنْ طَلَاقِكَ امْرَأَتَكَ، قَالَ: طَلَّقْتُهَا وَهِيَ حَائِضٌ، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، فَإِذَا طَهُرَتْ، فَلْيُطَلِّقْهَا فِي طُهْرِهَا"، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: هَلْ اعْتَدَدْتَ بِالَّتِي طَلَّقْتَهَا وَهِيَ حَائِضٌ؟ قَالَ: فَمَا لِي لَا أَعْتَدُّ بِهَا، وَإِنْ كُنْتُ قَدْ عَجَزْتُ وَاسْتَحْمَقْتُ.
انس بن سیرین کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ اپنی زوجہ کو طلاق دینے کا واقعہ تو سنائیے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایام کی حالت میں طلاق دے دی اور یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی بتا دی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا:”اس سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے، جب وہ پاک ہو جائے تو ایام طہارت میں اسے طلاق دے دے“، میں نے پوچھا: کہ کیا آپ نے وہ طلاق شمار کی تھی جو ایام کی حالت میں دی تھی؟ انہوں نے کہا کہ اسے شمار نہ کرنے کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہا: اگر میں ایسا کرتا تو لوگ مجھے بیوقوف سمجھتے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا اصبغ ، عن ابي العلاء الشامي ، قال: لبس ابو امامة ثوبا جديدا، فلما بلغ ترقوته، قال: الحمد لله الذي كساني ما اواري به عورتي، واتجمل به في حياتي، ثم قال: سمعت عمر بن الخطاب ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من استجد ثوبا فلبسه، فقال حين يبلغ ترقوته: الحمد لله الذي كساني ما اواري به عورتي، واتجمل به في حياتي، ثم عمد إلى الثوب الذي اخلق، او قال: القى، فتصدق به، كان في ذمة الله تعالى، وفي جوار الله، وفي كنف الله حيا وميتا، حيا وميتا، حيا وميتا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا أَصْبَغُ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ الشَّامِيِّ ، قَالَ: لَبِسَ أَبُو أُمَامَةَ ثَوْبًا جَدِيدًا، فَلَمَّا بَلَغَ تَرْقُوَتَهُ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي، وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ اسْتَجَدَّ ثَوْبًا فَلَبِسَهُ، فَقَالَ حِينَ يَبْلُغُ تَرْقُوَتَهُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي، وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ، أَوْ قَالَ: أَلْقَى، فَتَصَدَّقَ بِهِ، كَانَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ تَعَالَى، وَفِي جِوَارِ اللَّهِ، وَفِي كَنَفِ اللَّهِ حَيًّا وَمَيِّتًا، حَيًّا وَمَيِّتًا، حَيًّا وَمَيِّتًا".
ابوالعلاء شامی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے نیا لباس زیب تن کیا، جب وہ ان کی ہنسلی کی ہڈی تک پہنچا تو انہوں نے یہ دعا پڑھی کہ اس اللہ کا شکر جس نے مجھے لباس پہنایا جس کے ذریعے میں اپنا ستر چھپاتا ہوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کرتا ہوں، پھر فرمایا کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نیا کپڑا پہنے اور جب وہ اس کی ہنسلی کی ہڈی تک پہنچے تو یہ دعا پڑھے۔ اور پرانا کپڑاصدقہ کر دے، وہ زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی اللہ کی حفاظت میں، اللہ کے پڑوس میں اور اللہ کی نگہبانی میں رہے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى العلاء الشامي
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا محمد بن إسحاق ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن عمر بن الخطاب ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا رسول الله، احدنا إذا اراد ان ينام وهو جنب، كيف يصنع قبل ان يغتسل؟ قال:" يتوضا وضوءه للصلاة، ثم ينام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدُنَا إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ وَهُوَ جُنُبٌ، كَيْفَ يَصْنَعُ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ؟ قَالَ:" يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يَنَامُ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر ہم میں سے کوئی شخص ناپاک ہو جائے اور وہ غسل کرنے سے پہلے سونا چاہے تو کیا کرے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز والا وضو کر کے سو جائے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا ورقاء . وابو النضر ، قال: حدثنا ورقاء ، عن عبد الاعلى الثعلبي ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، قال: كنت مع البراء بن عازب، وعمر بن الخطاب في البقيع ينظر إلى الهلال، فاقبل راكب، فتلقاه عمر، فقال: من اين جئت؟ فقال: من المغرب، قال: اهللت؟ قال: نعم، قال عمر: الله اكبر، إنما يكفي المسلمين الرجل، ثم قام عمر ، فتوضا، فمسح على خفيه، ثم صلى المغرب، ثم قال: هكذا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع، قال ابو النضر: وعليه جبة ضيقة الكمين، فاخرج يده من تحتها ومسح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا وَرْقَاءُ . وَأَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي الْبَقِيعِ يَنْظُرُ إِلَى الْهِلَالِ، فَأَقْبَلَ رَاكِبٌ، فَتَلَقَّاهُ عُمَرُ، فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟ فَقَالَ: مِنَ المَغْرَبِ، قَالَ: أَهْلَلْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ عُمَرُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، إِنَّمَا يَكْفِي الْمُسْلِمِينَ الرَّجُلُ، ثُمَّ قَامَ عُمَرُ ، فَتَوَضَّأَ، فَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ، قَالَ أَبُو النَّضْرِ: وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ ضَيِّقَةُ الْكُمَّيْنِ، فَأَخْرَجَ يَدَهُ مِنْ تَحْتِهَا وَمَسَحَ".
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جنت البقیع میں چاند دیکھ رہے تھے کہ ایک سوار آدمی آیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اس سے آمنا سامنا ہو گیا، انہوں نے اس سے پوچھا کہ تم کسی طرف سے آ رہے ہو؟ اس نے بتایا مغرب کی جانب سے، انہوں نے پوچھا: کیا تم نے چاند دیکھا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! میں نے شوال کا چاند دیکھ لیا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: مسلمانوں کے لئے ایک آدمی کی گواہی بھی کافی ہے، پھر خود کھڑے ہو کر ایک برتن سے جس میں پانی تھا، وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا اور مغرب کی نماز پڑھائی اور فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شامی جبہ پہن رکھا تھا جس کی آستینیں تنگ تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جبے کے نیچے سے نکال کر مسح کیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي، وعبدالرحمن بن أبى ليلى لم يسمع من عمر
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا جرير ، انبانا الزبير بن الخريت ، عن ابي لبيد ، قال: خرج رجل من طاحية مهاجرا، يقال له: بيرح بن اسد، فقدم المدينة بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بايام، فرآه عمر ، فعلم انه غريب، فقال له: من انت؟ قال: من اهل عمان؟ قال: نعم، قال: فاخذ بيده، فادخله على ابي بكر، فقال: هذا من اهل الارض، التي سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إني لاعلم ارضا يقال لها: عمان، ينضح بناحيتها البحر، بها حي من العرب، لو اتاهم رسولي، ما رموه بسهم ولا حجر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، أَنْبَأَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ الْخِرِّيتِ ، عَنْ أَبِي لَبِيدٍ ، قَالَ: خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ طَاحِيَةَ مُهَاجِرًا، يُقَالُ لَهُ: بَيْرَحُ بْنُ أَسَدٍ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَيَّامٍ، فَرَآهُ عُمَرُ ، فَعَلِمَ أَنَّهُ غَرِيبٌ، فَقَالَ لَهُ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: مِنْ أَهْلِ عُمَانَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِهِ، فَأَدْخَلَهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: هَذَا مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، الَّتِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ أَرْضًا يُقَالُ لَهَا: عُمَانُ، يَنْضَحُ بِنَاحِيَتِهَا الْبَحْرُ، بِهَا حَيٌّ مِنَ الْعَرَبِ، لَوْ أَتَاهُمْ رَسُولِي، مَا رَمَوْهُ بِسَهْمٍ وَلَا حَجَرٍ".
ابولبید کہتے ہیں کہ ایک آدمی جس کا نام بیرح بن اسد تھا طاحیہ نامی جگہ سے ہجرت کے ارادے سے روانہ ہوا جب وہ مدینہ منورہ پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئے کئی دن گزر چکے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو وہ انہیں اجنبی محسوس ہوا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: آپ کون ہو؟ اس نے کہا: کہ میرا تعلق عمان سے ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ”اچھا“ کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا کہ ان کا تعلق اس سرزمین سے ہے جس کے متعلق میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسے شہر کو جانتا ہوں جس کا نام عمان ہے اس کے ایک کنارے سمندر بہتا ہے، وہاں عرب کا ایک قبیلہ بھی آباد ہے، اگر میرا قاصد ان کے پاس گیا ہے تو انہوں نے اسے کوئی تیر یا پتھر نہیں مارا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو لبيد لم يدرك عمر ولا أبا بكر، ويشهد للمرفوع منه حديث أبى برزة الأسلمي يأتي برقم: 19771
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا يزيد ، انبانا عاصم بن محمد ، عن ابيه ، عن ابن عمر ، عن عمر ، قال: لا اعلمه إلا رفعه، قال: يقول الله تبارك وتعالى:" من تواضع لي هكذا، وجعل يزيد باطن كفه إلى الارض، وادناها إلى الارض، رفعته هكذا، وجعل باطن كفه إلى السماء، ورفعها نحو السماء".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا رَفَعَهُ، قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:" مَنْ تَوَاضَعَ لِي هَكَذَا، وَجَعَلَ يَزِيدُ بَاطِنَ كَفِّهِ إِلَى الْأَرْضِ، وَأَدْنَاهَا إِلَى الْأَرْضِ، رَفَعْتُهُ هَكَذَا، وَجَعَلَ بَاطِنَ كَفِّهِ إِلَى السَّمَاءِ، وَرَفَعَهَا نَحْوَ السَّمَاءِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث قدسی مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو شخص میرے لئے اتنا سا جھکتا ہے، راوی نے زمین کے قریب اپنے ہاتھ کو لے جا کر کہا، تو میں اسے اتنا بلند کر دیتا ہوں، راوی نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ اٹھا کر دکھایا۔ (فائدہ: یعنی تواضع اختیار کرنے والے کو اللہ کی طرف سے رفعتیں اور عظمتیں عطاء ہوتی ہیں۔)
ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے منبر کے نیچے بیٹھا ہوا تھا اور وہ لوگوں کے سامنے خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خطرہ اس منافق سے ہے جو زبان دان ہو۔
(حديث قدسي) حدثنا روح ، حدثنا مالك . ح وحدثنا إسحاق ، اخبرني مالك . قال: ابو عبد الرحمن عبد الله بن احمد: وحدثنا مصعب الزبيري ، حدثني مالك ، عن زيد بن ابي انيسة ، ان عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب اخبره، عن مسلم بن يسار الجهني : ان عمر بن الخطاب سئل عن هذه الآية: وإذ اخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم سورة الاعراف آية 172 الآية، فقال عمر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عنها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله خلق آدم، ثم مسح ظهره بيمينه، واستخرج منه ذرية، فقال: خلقت هؤلاء للجنة، وبعمل اهل الجنة يعملون، ثم مسح ظهره، فاستخرج منه ذرية، فقال: خلقت هؤلاء للنار، وبعمل اهل النار يعملون"، فقال رجل: يا رسول الله، ففيم العمل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل إذا خلق العبد للجنة، استعمله بعمل اهل الجنة، حتى يموت على عمل من اعمال اهل الجنة، فيدخله به الجنة، وإذا خلق العبد للنار استعمله بعمل اهل النار، حتى يموت على عمل من اعمال اهل النار، فيدخله به النار".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ . ح وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ . قَالَ: أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد: وحَدَّثَنَا مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ ، أَنَّ عَبْدَ الْحَمِيدِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سُئِل عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ سورة الأعراف آية 172 الْآيَةَ، فَقَالَ عُمَرُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ، وَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ، وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ، وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ، اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيُدْخِلَهُ بِهِ الْجَنَّةَ، وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ، فَيُدْخِلَهُ بِهِ النَّارَ".
مسلم بن یسار الجہنی کہتے ہیں کہ کسی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا: «واذ اخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذرياتهم» تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس نوعیت کا سوال کسی کو پوچھتے ہوئے سنا تھا، اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کی جب تخلیق فرمائی تو کچھ عرصے بعد ان کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرا اور ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا کہ میں نے ان لوگوں کو جنت کے لئے اور اہل جنت کے اعمال کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ ہاتھ پھیر کر ان کی کچھ اور اولاد کو نکالا اور فرمایا: میں نے ان لوگوں کو جہنم کے لئے اور اہل جہنم کے اعمال کرنے کے لئے پیدا کیا ہے، ایک آدمی نے یہ سن کر عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر عمل کا کیا فائدہ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جب کسی بندے کو جنت کے لئے پیدا کیا ہے تو اسے اہل جنت کے کاموں میں لگائے رکھے گا یہاں تک کہ وہ جنتیوں والے اعمال کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جائے اور اس کی برکت سے جنت میں داخل ہو جائے اور اگر کسی بندے کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے تو وہ اسے اہل جہنم کے کاموں میں لگائے رکھے گا، یہاں تک کہ جہنمیوں کے اعمال کرتا ہوا وہ دنیا سے رخصت ہو جائے گا اور ان کی نحوست سے جہنم میں داخل ہو جائے گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، مسلم بن يسار لم يسمع من عمر، ثم إنه فى عداد المجهولين
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا مالك بن انس ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله بن عمر ، عن ابيه : ان رجلا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل المسجد يوم الجمعة، وعمر بن الخطاب قائم يخطب، فقال عمر: اية ساعة هذه؟ فقال: يا امير المؤمنين، انقلبت من السوق فسمعت النداء، فما زدت على ان توضات، فاقبلت، فقال عمر : الوضوء ايضا! وقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يامرنا بالغسل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَائِمٌ يَخْطُبُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ؟ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، انْقَلَبْتُ مِنَ السُّوقِ فَسَمِعْتُ النِّدَاءَ، فَمَا زِدْتُ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ، فَأَقْبَلْتُ، فَقَالَ عُمَرُ : الْوُضُوءُ أَيْضًا! وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا بِالْغُسْلِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا وقت ہے آنے کا؟ انہوں نے جواباً کہا کہ امیرالمومنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آ گیا ہوں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اوپر سے وضو بھی؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے لئے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني سليمان بن عتيق ، عن عبد الله بن بابيه ، عن بعض بني يعلى ، عن يعلى بن امية ، قال: طفت مع عمر بن الخطاب ، فاستلم الركن، قال يعلى: فكنت مما يلي البيت، فلما بلغت الركن الغربي الذي يلي الاسود، جررت بيده ليستلم، فقال:" ما شانك؟ فقلت: الا تستلم؟ قال: الم تطف مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقلت: بلى، فقال: افرايته يستلم هذين الركنين الغربيين؟ قال: فقلت لا، قال: افليس لك فيه اسوة حسنة؟ قال: قلت: بلى، قال: فانفذ عنك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَتِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ ، عَنْ بَعْضِ بَنِي يَعْلَى ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَ: طُفْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ، قَالَ يَعْلَى: فَكُنْتُ مِمَّا يَلِي الْبَيْتَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ الرُّكْنَ الْغَرْبِيَّ الَّذِي يَلِي الْأَسْوَدَ، جَرَرْتُ بِيَدِهِ لِيَسْتَلِمَ، فَقَالَ:" مَا شَأْنُكَ؟ فَقُلْتُ: أَلَا تَسْتَلِمُ؟ قَالَ: أَلَمْ تَطُفْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ: أَفَرَأَيْتَهُ يَسْتَلِمُ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ الْغَرْبِيَّيْنِ؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَا، قَالَ: أَفَلَيْسَ لَكَ فِيهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَانْفُذْ عَنْكَ".
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا، انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کر لیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا کیا آپ استلام نہیں کریں گے؟ انہوں نے فرمایا: کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا: تو کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ میں نے کہا نہیں! انہوں نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ موجود نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا: پھر اسے چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وجهالة بعض بني يعلى لا تضر، فقد روي عبدالله بن بابيه هذا الحديث عن يعلى بن أمية دون واسطة
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر ، وابو عامر ، قالا: حدثنا مالك ، عن الزهري ، عن مالك بن اوس بن الحدثان ، قال: جئت بدنانير لي، فاردت ان اصرفها، فلقيني طلحة بن عبيد الله، فاصطرفها واخذها، فقال: حتى يجيء سلم خازني، قال ابو عامر: من الغابة، وقال فيها كلها: هاء وهاء، قال: فسالت عمر بن الخطاب عن ذلك، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" الذهب بالورق ربا، إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا، إلا هاء وهاء، والشعير بالشعير ربا، إلا هاء وهاء، والتمر بالتمر ربا، إلا هاء وهاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، وَأَبُو عَامِرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: جِئْتُ بِدَنَانِيرَ لِي، فَأَرَدْتُ أَنْ أَصْرِفَهَا، فَلَقِيَنِي طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَاصْطَرَفَهَا وَأَخَذَهَا، فَقَالَ: حَتَّى يَجِيءَ سَلْمٌ خَازِنِي، قَالَ أَبُو عَامِرٍ: مِنَ الْغَابَةِ، وَقَالَ فِيهَا كُلِّهَا: هَاءَ وَهَاءَ، قَالَ: فَسَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ".
سیدنا مالک بن اوس بن الحدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سونے کے بدلے چاندی حاصل کرنے کے لئے اپنے کچھ دینار لے کر آیا، راستے میں سیدنا طلحۃ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی، انہوں نے مجھ سے سونے کے بدلے چاندی کا معاملہ طے کر لیا اور میرے دینار پکڑ لئے اور کہنے لگے کہ ذرا رکیے ہمارا خازن غابہ سے آتا ہی ہو گا، میں نے سیدنا رضی اللہ عنہ سے اس کا حکم پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کی چاندی کے بدلے خریدوفروخت سود ہے الاّ یہ کہ معاملہ نقد ہو، اسی طرح کھجور کے بدلے کھجور کی بیع سود ہے الاّ یہ کہ معاملہ نقد ہو۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا بكر بن عيسى ، حدثنا ابو عوانة ، عن المغيرة ، عن الشعبي ، عن عدي بن حاتم ، قال: اتيت عمر بن الخطاب في اناس من قومي، فجعل يفرض للرجل من طيئ في الفين ويعرض عني، قال: فاستقبلته، فاعرض عني، ثم اتيته من حيال وجهه، فاعرض عني، قال: فقلت: يا امير المؤمنين، اتعرفني؟ قال: فضحك حتى استلقى لقفاه، ثم قال:" نعم والله إني لاعرفك، آمنت إذ كفروا، واقبلت إذ ادبروا، ووفيت إذ غدروا، وإن اول صدقة بيضت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ووجوه اصحابه صدقة طيئ، جئت بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم"، ثم اخذ يعتذر، ثم قال: إنما فرضت لقوم اجحفت بهم الفاقة، وهم سادة عشائرهم، لما ينوبهم من الحقوق.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِي أُنَاسٍ مِنْ قَوْمِي، فَجَعَلَ يَفْرِضُ لِلرَّجُلِ مِنْ طَيِّئٍ فِي أَلْفَيْنِ وَيُعْرِضُ عَنِّي، قَالَ: فَاسْتَقْبَلْتُهُ، فَأَعْرَضَ عَنِّي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنْ حِيَالِ وَجْهِهِ، فَأَعْرَضَ عَنِّي، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَتَعْرِفُنِي؟ قَالَ: فَضَحِكَ حَتَّى اسْتَلْقَى لِقَفَاهُ، ثُمَّ قَالَ:" نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُكَ، آمَنْتَ إِذْ كَفَرُوا، وَأَقْبَلْتَ إِذْ أَدْبَرُوا، وَوَفَيْتَ إِذْ غَدَرُوا، وَإِنَّ أَوَّلَ صَدَقَةٍ بَيَّضَتْ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُجُوهَ أَصْحَابِهِ صَدَقَةُ طَيِّئٍ، جِئْتَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، ثُمَّ أَخَذَ يَعْتَذِرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا فَرَضْتُ لِقَوْمٍ أَجْحَفَتْ بِهِمْ الْفَاقَةُ، وَهُمْ سَادَةُ عَشَائِرِهِمْ، لِمَا يَنُوبُهُمْ مِنَ الْحُقُوقِ.
سیدنا عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے بنو طئی کے ایک آدمی کو دو ہزار دئیے لیکن مجھ سے اعراض کیا، میں ان کے سامنے آیا تب بھی انہوں نے اعراض کیا، میں ان کے چہرے کے رخ کی جانب سے آیا لیکن انہوں نے پھر بھی اعراض کیا، یہ دیکھ کر میں نے کہا امیرالمومنین! آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہنسنے لگے، پھر چت لیٹ گئے اور فرمایا: ہاں! اللہ کی قسم! میں آپ کو جانتا ہوں، جب یہ کافر تھے آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا، جب انہوں نے پیٹھ پھیر رکھی تھی آپ متوجہ ہو گئے تھے، جب انہوں نے عہد شکنی کی تھی تب آپ نے وعدہ وفا کیا تھا اور سب سے پہلا وہ مال صدقہ جسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے چہرے کھل اٹھے تھے بنو طئی کی طرف سے آنے والا وہ مال تھا جو آپ ہی لے کر آئے تھے۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان سے معذرت کرتے ہوئے فرمانے لگے میں نے ان لوگوں کو مال دیا ہے جنہیں فقر و فاقہ اور تنگدستی نے کمزور کر رکھا ہے اور یہ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہیں، کیونکہ ان پر حقوق کی نیاب کی ذمہ داری ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اب طواف کے دوران جبکہ اللہ نے اسلام کو شان و شوکت عطاء فرما دی اور کفر و اہل کفر کو ذلیل کرکے نکال دیا رمل اور کندھے خالی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی لیکن اس کے باوجود ہم اسے ترک نہیں کریں گے کیونکہ ہم اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن، خ: 1605
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، وعفان ، قالا: حدثنا داود بن ابي الفرات ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، قال عفان: عن ابن بريدة، عن ابي الاسود الديلي ، قال: اتيت المدينة، وقد وقع بها مرض، قال عبد الصمد: فهم يموتون موتا ذريعا، فجلست إلى عمر بن الخطاب، فمرت به جنازة، فاثني على صاحبها خير، فقال عمر : وجبت، ثم مر باخرى، فاثني على صاحبها خير، فقال: وجبت، ثم مر باخرى فاثني عليها شر، فقال عمر: وجبت، فقال ابو الاسود: فقلت له: يا امير المؤمنين، ما وجبت؟ فقال: قلت كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايما مسلم شهد له اربعة بخير، إلا ادخله الله الجنة، قال: قلنا: وثلاثة؟ قال: وثلاثة، قلنا: واثنان؟ قال: واثنان"، قال: ولم نساله عن الواحد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، قَالَ عَفَّانُ: عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ، قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: فَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا، فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَمَرَّتْ بِهِ جَنَازَةٌ، فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ، فَقَالَ عُمَرُ : وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى، فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَيْهَا شَرٌّ، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ، فَقَالَ أَبُو الْأَسْوَدِ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا وَجَبَتْ؟ فَقَالَ: قُلْتُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ، إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، قَالَ: قُلْنَا: وَثَلَاثَةٌ؟ قَالَ: وَثَلَاثَةٌ، قُلْنَا: وَاثْنَانِ؟ قَالَ: وَاثْنَانِ"، قَالَ: وَلَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ.
ابوالاسود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں، میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گزر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واجب ہو گئی، پھر دوسرا جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا: واجب ہو گئی، تیسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا: واجب ہو گئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیر المؤمنین! کیا چیز واجب ہو گئی؟ انہوں نے فرمایا: میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کے لئے جنت واجب ہو گئی، ہم نے عرض کیا: اگر تین آدمی ہوں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا:، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حرب يعني ابن شداد ، حدثنا يحيى ، حدثنا ابو سلمة ، حدثنا ابو هريرة ، قال: بينما عمر بن الخطاب يخطب، إذ جاء رجل فجلس، فقال عمر: لم تحتبسون عن الجمعة؟ فقال الرجل: يا امير المؤمنين، ما هو إلا ان سمعت النداء فتوضات، ثم اقبلت، فقال عمر : وايضا! الم تسمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا راح احدكم إلى الجمعة، فليغتسل"؟.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ يَعْنِي ابْنَ شَدَّادٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَجَلَسَ، فَقَالَ عُمَرُ: لِمَ تَحْتَبِسُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ فَتَوَضَّأْتُ، ثُمَّ أَقْبَلْتُ، فَقَالَ عُمَرُ : وَأَيْضًا! أَلَمْ تَسْمَعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا رَاحَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَلْيَغْتَسِلْ"؟.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آ کر بیٹھ گئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: نماز سے کیوں رکے رہے، انہوں نے جواباً کہا کہ امیر المؤمنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آ گیا ہوں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے جائے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حرب ، حدثنا يحيى ، عن عمران بن حطان فيما يحسب حرب: انه سال ابن عباس عن لبوس الحرير، فقال: سل عنه عائشة، فسال عائشة فقالت: سل ابن عمر، فسال ابن عمر، فقال: حدثني ابو حفص ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من لبس الحرير في الدنيا، فلا خلاق له في الآخرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حِطَّانَ فِيمَا يَحْسِبُ حَرْبٌ: أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ لَبُوسِ الْحَرِيرِ، فَقَالَ: سَلْ عَنْهُ عَائِشَةَ، فَسَأَلَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ: سَلْ ابْنَ عُمَرَ، فَسَأَلَ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَفْصٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَلَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ".
عمران بن حطان نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ریشمی لباس کی بابت سوال کیا، انہوں نے کہا کہ اس کا جواب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھو، عمران نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھو، انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد محترم کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا کہ جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يحيى بن حماد ، وعفان ، قالا: حدثنا ابو عوانة ، عن داود بن عبد الله الاودي ، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري ، حدثنا ابن عباس بالبصرة، قال: انا اول من اتى عمر حين طعن، فقال:" احفظ عني ثلاثا، فإني اخاف ان لا يدركني الناس: اما انا فلم اقض في الكلالة قضاء، ولم استخلف على الناس خليفة، وكل مملوك له عتيق، فقال له الناس: استخلف، فقال: اي ذلك افعل فقد فعله من هو خير مني، إن ادع إلى الناس امرهم، فقد تركه نبي الله عليه الصلاة والسلام، وإن استخلف، فقد استخلف من هو خير مني: ابو بكر، فقلت له: ابشر بالجنة، صاحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاطلت صحبته، ووليت امر المؤمنين فقويت، واديت الامانة، فقال: اما تبشيرك إياي بالجنة، فوالله لو ان لي، قال عفان: فلا والله الذي لا إله إلا هو، لو ان لي الدنيا بما فيها، لافتديت به من هول ما امامي قبل ان اعلم الخبر، واما قولك في امر المؤمنين، فوالله لوددت ان ذلك كفافا، لا لي ولا علي، واما ما ذكرت من صحبة نبي الله صلى الله عليه وسلم، فذلك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ بِالْبَصْرَةِ، قَالَ: أَنَا أَوَّلُ مَنْ أَتَى عُمَرَ حِينَ طُعِنَ، فَقَالَ:" احْفَظْ عَنِّي ثَلَاثًا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ لَا يُدْرِكَنِي النَّاسُ: أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَقْضِ فِي الْكَلَالَةِ قَضَاءً، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ عَلَى النَّاسِ خَلِيفَةً، وَكُلُّ مَمْلُوكٍ لَهُ عَتِيقٌ، فَقَالَ لَهُ النَّاسُ: اسْتَخْلِفْ، فَقَالَ: أَيَّ ذَلِكَ أَفْعَلُ فَقَدْ فَعَلَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي، إِنْ أَدَعْ إِلَى النَّاسِ أَمْرَهُمْ، فَقَدْ تَرَكَهُ نَبِيُّ اللَّهِ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ، وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ، فَقَدْ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي: أَبُو بَكْرٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، صَاحَبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَطَلْتَ صُحْبَتَهُ، وَوُلِّيتَ أَمْرَ الْمُؤْمِنِينَ فَقَوِيتَ، وَأَدَّيْتَ الْأَمَانَةَ، فَقَالَ: أَمَّا تَبْشِيرُكَ إِيَّايَ بِالْجَنَّةِ، فَوَاللَّهِ لَوْ أَنَّ لِي، قَالَ عَفَّانُ: فَلَا وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، لَوْ أَنَّ لِي الدُّنْيَا بِمَا فِيهَا، لَافْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ هَوْلِ مَا أَمَامِي قَبْلَ أَنْ أَعْلَمَ الْخَبَرَ، وَأَمَّا قَوْلُكَ فِي أَمْرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَوَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ كَفَافًا، لَا لِي وَلَا عَلَيَّ، وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَلِكَ".
حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بصرہ میں ہمیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث سنائی کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے تو سب سے پہلے ان کے پاس پہنچنے والا میں ہی تھا، انہوں نے فرمایا کہ میری تین باتیں یاد رکھو، کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ لوگ جب تک آئیں گے اس وقت تک میں نہیں بچوں گا اور لوگ مجھے نہ پا سکیں گے، کلالہ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتا، لوگوں پر اپنا نائب اور خلیفہ کسی کو نامزد نہیں کرتا اور میرا ہر غلام آزاد ہے۔ لوگوں نے ان سے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! کسی کو اپنا خلفیہ نامزد کر دیجئے، انہوں نے فرمایا کہ میں جس پہلو کو بھی اختیار کروں، اسے مجھ سے بہتر ذات نے اختیار کیا ہے، چنانچہ اگر میں لوگوں کا معاملہ ان ہی کے حوالے کر دوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور اگر کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کر دوں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی اپنا خلیفہ مقرر کیا تھا یعنی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو جنت کی بشارت ہو، آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہوا اور طویل موقع ملا، اس کے بعد آپ کو امیر المؤمنین بنایا گیا تو آپ نے اپنے مضبوط ہونے کا ثبوت پیش کیا اور امانت کو ادا کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ تم نے مجھے جنت کی جو بشارت دی ہے، اللہ کی قسم! اگر میرے پاس دنیا ومافیہا کی نعمتیں اور خزانے ہوتے تو اصل صورت حال واضح ہونے سے پہلے اپنے سامنے پیش آنے والے ہولناک واقعات و مناظر کے فدئیے میں دے دیتا اور مسلمانوں پر خلافت کا جو تم نے ذکر کیا ہے تو بخدا! میری تمنا ہے کہ برابر سرابر چھوٹ جاؤں، نہ میرا کوئی فائدہ ہو اور نہ مجھ پر کوئی وبال ہو، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا جو تم نے ذکر کیا ہے، وہ صحیح ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا سفيان ، عن عبد الرحمن بن عياش ، عن حكيم بن حكيم ، عن ابي امامة بن سهل ، قال: كتب عمر إلى ابي عبيدة بن الجراح: ان علموا غلمانكم العوم، ومقاتلتكم الرمي، فكانوا يختلفون إلى الاغراض، فجاء سهم غرب إلى غلام، فقتله، فلم يوجد له اصل، وكان في حجر خال له، فكتب فيه ابو عبيدة إلى عمر: إلى من ادفع عقله، فكتب إليه عمر : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول:" الله ورسوله مولى من لا مولى له، والخال وارث من لا وارث له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ: أَنْ عَلِّمُوا غِلْمَانَكُمْ الْعَوْمَ، وَمُقَاتِلَتَكُمْ الرَّمْيَ، فَكَانُوا يَخْتَلِفُونَ إِلَى الْأَغْرَاضِ، فَجَاءَ سَهْمٌ غَرْبٌ إِلَى غُلَامٍ، فَقَتَلَهُ، فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ أَصْلٌ، وَكَانَ فِي حَجْرِ خَالٍ لَهُ، فَكَتَبَ فِيهِ أَبُو عُبَيْدَةَ إِلَى عُمَرَ: إِلَى مَنْ أَدْفَعُ عَقْلَهُ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" اللَّهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَى مَنْ لَا مَوْلَى لَهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط میں لکھا کہ اپنے لڑکوں کو تیرنا اور اپنے جنگجوؤں کو تیر اندازی کرنا سکھاؤ، چنانچہ مختلف چیزوں کو نشانہ بنا کر تیر اندازی سیکھنے لگے، اسی تناظر میں ایک بچے کو نامعلوم تیر لگا، جس سے وہ جاں بحق ہو گیا، اس کا صرف ایک ہی وارث تھا اور وہ تھا اس کا ماموں، سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خط لکھا، انہوں نے جواباً لکھ بھیجا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس کا کوئی مولیٰ نہ ہو، اللہ و رسول اس کے مولیٰ ہیں اور جس کا کوئی وارث نہ ہو، ماموں ہی اس کا وارث ہو گا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مال کی وراثت اسی کو ملے گی جسے ولاء ملے گی خواہ وہ باپ ہو یا بیٹا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن عابس بن ربيعة ، قال: رايت عمر اتى الحجر، فقال:" اما والله إني لاعلم انك حجر، لا تضر ولا تنفع، ولولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلك، ما قبلتك"، ثم دنا فقبله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ أَتَى الْحَجَرَ، فَقَالَ:" أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ، مَا قَبَّلْتُكَ"، ثُمَّ دَنَا فَقَبَّلَهُ.
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کے قریب آئے اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: بخدا! میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے جو کسی کو نفع و نقصان نہیں دے سکتا، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر آپ نے اسے قریب ہو کر بوسہ دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا دجين ابو الغصن بصري ، قال: قدمت المدينة فلقيت اسلم مولى عمر بن الخطاب، فقلت: حدثني عن عمر، فقال: لا استطيع، اخاف ان ازيد او انقص، كنا إذا قلنا لعمر : حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اخاف ان ازيد حرفا، او انقص، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من كذب علي، فهو في النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا دُجَيْنٌ أَبُو الْغُصْنِ بَصْرِيٌّ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ أَسْلَمَ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: حَدِّثْنِي عَنْ عُمَرَ، فَقَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ، أَخَافُ أَنْ أَزِيدَ أَوْ أَنْقُصَ، كُنَّا إِذَا قُلْنَا لِعُمَرَ : حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَخَافُ أَنْ أَزِيدَ حَرْفًا، أَوْ أَنْقُصَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ، فَهُوَ فِي النَّارِ".
دجین جن کی کنیت ابوالغصن تھی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ آیا، وہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام اسلم سے ملاقات ہوئی، میں نے ان سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کوئی حدیث سنانے کی فرمائش کی، انہوں نے معذرت کی اور فرمایا کہ مجھے کمی بیشی کا اندیشہ ہے، ہم بھی جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث سنائیے تو وہ یہی جواب دیتے تھے کہ مجھے اندیشہ کہ کہیں کچھ کمی بیشی نہ ہو جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص میری طرف کسی جھوٹی بات کو منسوب کرتا ہے وہ جہنم میں ہو گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف دجين بن ثابت، ومتن الحديث متواتر
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا حماد بن زيد ، عن عمرو بن دينار مولى آل الزبير، عن سالم ، عن ابيه ، عن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قال في سوق: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، بيده الخير، يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير، كتب الله له بها الف الف حسنة، ومحا عنه بها الف الف سيئة، وبنى له بيتا في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ مَوْلَى آلِ الزُّبَيْرِ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَالَ فِي سُوقٍ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ، وَمَحَا عَنْهُ بِهَا أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ، وَبَنَى لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص بازار میں یہ کلمات کہہ لے، «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ» اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہی بھی اسی کی ہے اور تمام تعریفات بھی اسی کی ہیں ہر طرح کی خیر اسی کے دست قدرت میں ہے، وہی زندگی اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس لاکھ نیکیاں لکھ دے گا، دس لاکھ گناہ مٹا دے گا اور جنت میں اس کے لئے محل بنائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير منكر الحديث
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثني ابو زميل ، حدثني ابن عباس ، حدثني عمر بن الخطاب ، قال: لما كان يوم خيبر، اقبل نفر من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقولون: فلان شهيد، وفلان شهيد، حتى مروا برجل، فقالوا: فلان شهيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كلا، إني رايته يجر إلى النار في عباءة غلها، اخرج يا عمر فناد في الناس: إنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون"، فخرجت، فناديت: إنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ، أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُونَ: فُلَانٌ شَهِيدٌ، وَفُلَانٌ شَهِيدٌ، حَتَّى مَرُّوا بِرَجُلٍ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَلَّا، إِنِّي رَأَيْتُهُ يُجَرُّ إِلَى النَّارِ فِي عَبَاءَةٍ غَلَّهَا، اخْرُجْ يَا عُمَرُ فَنَادِ فِي النَّاسِ: إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ"، فَخَرَجْتُ، فَنَادَيْتُ: إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو یہ کہہ رہے تھے کہ فلاں بھی شہید ہے، فلاں بھی شہید ہے، یہاں تک کہ ان کا گزر ایک آدمی پر ہوا، اس کے بارے بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ بھی شہید ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرگز نہیں! میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چوری کی تھی“، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن خطاب! جا کر لوگوں میں منادی کر دو کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے“، چنانچہ میں نکل کر یہ منادی کرنے لگا کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے۔
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کسی موقع پر اپنے باپ کی قسم کھائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روکتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم کھاتا ہے، وہ شرک کرتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حماد الخياط ، حدثنا عبد الله ، عن نافع : ان عمر زاد في المسجد من الاسطوانة إلى المقصورة، وزاد عثمان، وقال عمر : لولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" نبغي ان نزيد في مسجدنا"، ما زدت فيه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادٌ الْخَيَّاطُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ عُمَرَ زَادَ فِي الْمَسْجِدِ مِنَ الْأُسْطُوَانَةِ إِلَى الْمَقْصُورَةِ، وَزَادَ عُثْمَانُ، وَقَالَ عُمَرُ : لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" نَبْغِي أَنْ نَزِيدُ فِي مَسْجِدِنَا"، مَا زِدْتُ فِيهِ.
نافع کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں اسطوانہ یعنی ستون سے لے کر مقصورہ شریف تک کا اضافہ کروایا، بعد میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی توسیع میں اس کی عمارت بڑھائی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ ہم اپنی اس مسجد کی عمارت میں مزید اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو میں کبھی اس میں اضافہ نہ کرتا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبد الله، وهو ابن عمر العمري
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، عن ابن عباس ، عن عمر ، انه قال: إن الله عز وجل بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق، وانزل معه الكتاب، فكان مما انزل عليه: آية الرجم، فرجم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورجمنا بعده. ثم قال: قد كنا نقرا: ولا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم او إن كفرا بكم ان ترغبوا عن آبائكم، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تطروني كما اطري ابن مريم، وإنما انا عبد، فقولوا: عبده ورسوله"، وربما قال معمر:" كما اطرت النصارى ابن مريم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، وَأَنْزَلَ مَعَهُ الْكِتَابَ، فَكَانَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَيْهِ: آيَةُ الرَّجْمِ، فَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ. ثُمَّ قَالَ: قَدْ كُنَّا نَقْرَأُ: وَلَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ فَإِنَّهُ كُفْرٌ بِكُمْ أَوْ إِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تُطْرُونِي كَمَا أُطْرِيَ ابْنُ مَرْيَمَ، وَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ، فَقُولُوا: عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"، وَرُبَّمَا قَالَ مَعْمَرٌ:" كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا: ان پر کتاب نازل فرمائی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کیا تھا اور ہم نے بھی رجم کیا تھا، پھر فرمایا کہ ہم لوگ یہ حکم بھی پڑھتے تھے کہ اپنے آباؤ اجداد سے بے رغبتی ظاہر نہ کرو کیونکہ یہ تمہاری جانب سے کفر ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس طرح حد سے آگے مت بڑاؤ جیسے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، میں تو ایک بندہ ہوں، اس لئے یوں کہا کرو کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر : انه قال لعمر : إني سمعت الناس يقولون مقالة، فآليت ان اقولها لك، زعموا انك غير مستخلف، فوضع راسه ساعة، ثم رفعه، فقال:" إن الله عز وجل يحفظ دينه، وإني إن لا استخلف، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يستخلف، وإن استخلف، فإن ابا بكر قد استخلف"، قال: فوالله، ما هو إلا ان ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم وابا بكر، فعلمت انه لم يكن يعدل برسول الله صلى الله عليه وسلم احدا، وانه غير مستخلف.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّهُ قَالَ لِعُمَرَ : إِنِّي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ مَقَالَةً، فَآلَيْتُ أَنْ أَقُولَهَا لَك، زَعَمُوا أَنَّكَ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ سَاعَةً، ثُمَّ رَفَعَهُ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَحْفَظُ دِينَهُ، وَإِنِّي إِنْ لَا أَسْتَخْلِفْ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسْتَخْلِفْ، وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ، فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَدْ اسْتَخْلَفَ"، قَالَ: فَوَاللَّهِ، مَا هُوَ إِلَّا أَنْ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَعْدِلُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا، وَأَنَّهُ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے ہوئے سنا ہے، میں اسے آپ تک پہنچانے میں کوتاہی نہیں کروں گا، لوگوں کا خیال یہ ہے کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کر رہے؟ انہوں نے ایک لمحے کے لئے اپنا سر جھکا کر اٹھایا اور فرمایا کہ اللہ اپنے دین کی حفاظت خود کرے گا، میں کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کروں گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی کو اپنا خلیفہ مقرر نہیں فرمایا تھا اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کر دیتا ہوں تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔
مالک بن اوس کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مجھے بلوایا، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی، جس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن ابن المسيب ، قال: لما مات ابو بكر بكي عليه، فقال عمر : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الميت يعذب ببكاء الحي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ أَبُو بَكْرٍ بُكِيَ عَلَيْهِ، فَقَالَ عُمَرُ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ".
سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو لوگ رونے لگے، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میت پر اس کے اہل محلہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، ابن المسيب لم يسمع من عمر،خ:1292، م: 927
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن خالد ، حدثنا رباح ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، عن ابي هريرة ، قال: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكفر من كفر، قال: قال عمر بن الخطاب : يا ابا بكر، كيف تقاتل الناس، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فمن قال: لا إله إلا الله، فقد عصم مني ماله ونفسه، وحسابه على الله عز وجل"؟ قال ابو بكر: لاقاتلن من فرق بين الصلاة والزكاة، إن الزكاة حق المال، والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، لقاتلتهم على منعها، فقال عمر: والله ما هو إلا ان رايت ان الله قد شرح صدر ابي بكر بالقتال، فعرفت انه الحق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا رَبَاحٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : يَا أَبَا بَكْرٍ، كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، إِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ بِالْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے اور ان کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو گئے اور اہل عرب میں سے جو کافر ہو سکتے تھے، سو ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کر سکتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ «لا اله الا الله» نہ کہہ لیں، جو شخص «لا اله الا الله» کہہ لے، اس نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، ہاں! اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہو گا؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، بخدا! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ جو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرما دی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن الزهري ، عن مالك بن اوس ، قال: ارسل إلي عمر ... فذكر الحديث، وقال:" إن اموال بني النضير كانت مما افاء الله على رسوله، مما لم يوجف عليه المسلمون بخيل ولا ركاب، فكان ينفق على اهله منها نفقة سنة، وما بقي جعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ:" إِنَّ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ كَانَتْ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ، مِمَّا لَمْ يُوجِفْ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ، فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَةٍ، وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر سے حاصل ہونے والے اموال کا تعلق مال فئی سے تھا، جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو عطا فرمائے اور مسلمانوں کو اس پر گھوڑے یا کوئی اور سواری دوڑانے کی ضرورت نہیں پیش آئی، اس لئے یہ مال خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا نفقہ ایک ہی مرتبہ دے دیا کرتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے گھوڑے اور دیگر اسلحہ (جو جہاد میں کام آ سکے) فراہم کر لیتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عاصم بن عمر ، عن ابيه : ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا اقبل الليل، وادبر النهار، وغربت الشمس، فقد افطر الصائم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ، وَغَرَبَتْ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب رات یہاں سے آ جائے اور دن وہاں سے چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کر لینا چاہیے، مشرق اور مغرب مراد ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن يحيى يعني ابن سعيد ، عن عبيد بن حنين ، عن ابن عباس ، قال: اردت ان اسال عمر فما رايت موضعا، فمكثت سنتين، فلما كنا بمر الظهران، وذهب ليقضي حاجته، فجاء وقد قضى حاجته، فذهبت اصب عليه من الماء، قلت:" يا امير المؤمنين، من المراتان اللتان تظاهرتا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: عائشة، وحفصة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: أَرَدْتُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ فَمَا رَأَيْتُ مَوْضِعًا، فَمَكَثْتُ سَنَتَيْنِ، فَلَمَّا كُنَّا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، وَذَهَبَ لِيَقْضِيَ حَاجَتَهُ، فَجَاءَ وَقَدْ قَضَى حَاجَتَهُ، فَذَهَبْتُ أَصُبُّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَاءِ، قُلْتُ:" يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنْ الْمَرْأَتَانِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: عَائِشَةُ، وَحَفْصَةُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی بڑی آرزو تھی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو ازواج مطہرات کے بارے) سوال کروں، لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی اور دو سال گزر گئے، حتی کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، راستے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے ہٹ کر چلنے لگے، میں بھی پانی کا برتن لے کر ان کے پیچھے چلا گیا، انہوں نے اپنی طبعی ضرورت پوری کی اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور عرض کیا: اے امیر المؤمنین! وہ دو عورتیں کون ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آنا چاہتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا کہ عائشہ اور حفصہ (رضی اللہ عنہما)۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن ايوب ، عن ابن سيرين ، سمعه من ابي العجفاء ، سمعت عمر ، يقول: لا تغلوا صدق النساء، فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا، او تقوى في الآخرة، لكان اولاكم بها النبي صلى الله عليه وسلم،" ما انكح شيئا من بناته ولا نسائه فوق اثنتي عشرة وقية". واخرى تقولونها في مغازيكم: قتل فلان شهيدا، مات فلان شهيدا، ولعله ان يكون قد اوقر عجز دابته، او دف راحلته ذهبا وفضة، يبتغي التجارة، فلا تقولوا ذاكم، ولكن قولوا كما قال محمد صلى الله عليه وسلم:" من قتل في سبيل الله، فهو في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، سَمِعَهُ مِنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ ، سَمِعْتُ عُمَرَ ، يَقُولُ: لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا، أَوْ تَقْوَى فِي الْآخِرَةِ، لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" مَا أَنْكَحَ شَيْئًا مِنْ بَنَاتِهِ وَلَا نِسَائِهِ فَوْقَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ وُقِيَّةً". وَأُخْرَى تَقُولُونَهَا فِي مَغَازِيكُمْ: قُتِلَ فُلَانٌ شَهِيدًا، مَاتَ فُلَانٌ شَهِيدًا، وَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِهِ، أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِهِ ذَهَبًا وَفِضَّةً، يَبْتَغِي التِّجَارَةَ، فَلَا تَقُولُوا ذَاكُمْ، وَلَكِنْ قُولُوا كَمَا قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ".
ابوالعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگو! اپنی بیویوں کے مہر زیادہ مت باندھا کرو، کیونکہ اگر یہ چیزیں دنیا میں باعث عزت ہوتی یا اللہ کے نزدیک تقویٰ میں شمار ہوتی تو اس کے سب زیادہ حق دار نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی یا بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص دوران جہاد مقتول ہو جائے یا طبعی طور پر فوت ہو جائے، تو آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی شہید ہو گیا، فلاں آدمی شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہوا، حالانکہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پچھلے حصے میں یا کجاوے کے نیچے سونا چاندی چھپا رکھا ہو، جس سے وہ تجارت کا ارادہ رکھتا ہو، اس لئے تم کسی کے متعلق یقین کے ساتھ یہ مت کہو کہ وہ شہید ہے، البتہ یہ کہہ سکتے ہو کہ جو شخص اللہ کے راستہ میں مقتول یا فوت ہو جائے (وہ شہید ہے) اور جنت میں داخل ہو گا، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، امله علي، عن قتادة ، عن سالم بن ابي الجعد الغطفاني ، عن معدان بن ابي طلحة اليعمري : ان عمر قام خطيبا، فحمد الله واثنى عليه، وذكر نبي الله صلى الله عليه وسلم، وابا بكر، ثم قال: إني رايت رؤيا كان ديكا نقرني نقرتين، ولا ارى ذلك إلا لحضور اجلي، وإن ناسا يامرونني ان استخلف، وإن الله عز وجل لم يكن ليضيع خلافته ودينه، ولا الذي بعث به نبيه صلى الله عليه وسلم، فإن عجل بي امر فالخلافة شورى في هؤلاء الرهط الستة الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، فايهم بايعتم له، فاسمعوا له واطيعوا، وقد عرفت ان رجالا سيطعنون في هذا الامر، وإني قاتلتهم بيدي هذه على الإسلام، فإن فعلوا، فاولئك اعداء الله الكفرة الضلال. وإني والله ما ادع بعدي شيئا هو اهم إلي من امر الكلالة، ولقد سالت نبي الله صلى الله عليه وسلم عنها، فما اغلظ لي في شيء قط ما اغلظ لي فيها، حتى طعن بيده او بإصبعه في صدري، او جنبي، وقال:" يا عمر تكفيك الآية التي نزلت في الصيف، التي في آخر سورة النساء"، وإني إن اعش اقض فيها قضية لا يختلف فيها احد يقرا القرآن، او لا يقرا القرآن. ثم قال:" اللهم إني اشهدك على امراء الامصار، فإني بعثتهم يعلمون الناس دينهم، وسنة نبيهم، ويقسمون فيهم فيئهم، ويعدلون عليهم، وما اشكل عليهم يرفعونه إلي". ثم قال: يا ايها الناس، إنكم تاكلون من شجرتين لا اراهما إلا خبيثتين، هذا الثوم والبصل، لقد كنت ارى الرجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوجد ريحه منه، فيؤخذ بيده حتى يخرج به إلى البقيع، فمن كان آكلهما لا بد، فليمتهما طبخا، قال: فخطب بها عمر يوم الجمعة، واصيب يوم الاربعاء، لاربع ليال بقين من ذي الحجة.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، أَمَلَّهُ عَلَيَّ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ : أَنَّ عُمَرَ قَامَ خَطِيبًا، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَرَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ رُؤْيَا كَأَنَّ دِيكًا نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ، وَلَا أُرَى ذَلِكَ إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي، وَإِنَّ نَاسًا يَأْمُرُونَنِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَكُنْ لِيُضِيعَ خِلَافَتَهُ وَدِينَهُ، وَلَا الَّذِي بَعَثَ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ عَجِلَ بِي أَمْرٌ فَالْخِلَافَةُ شُورَى فِي هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ السِّتَّةِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، فَأَيُّهُمْ بَايَعْتُمْ لَهُ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، وَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّ رِجَالًا سَيَطْعَنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ، وَإِنِّي قَاتَلْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ فَعَلُوا، فَأُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكَفَرَةُ الضُّلَّالُ. وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا هُوَ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ أَمْرِ الْكَلَالَةِ، وَلَقَدْ سَأَلْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، فَمَا أَغْلَظَ لِي فِي شَيْءٍ قَطُّ مَا أَغْلَظَ لِي فِيهَا، حَتَّى طَعَنَ بِيَدِهِ أَوْ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، أَوْ جَنْبِي، وَقَالَ:" يَا عُمَرُ تَكْفِيكَ الْآيَةُ الَّتِي نَزَلَتْ فِي الصَّيْفِ، الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ"، وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ أَقْضِ فِيهَا قَضِيَّةً لَا يَخْتَلِفُ فِيهَا أَحَدٌ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، أَوْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ. ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ، فَإِنِّي بَعَثْتُهُمْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ دِينَهُمْ، وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ، وَيَقْسِمُونَ فِيهِمْ فَيْئَهُمْ، وَيُعَدِّلُونَ عَلَيْهِمْ، وَمَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ يَرْفَعُونَهُ إِلَيَّ". ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ، هَذَا الثُّومُ وَالْبَصَلُ، لَقَدْ كُنْتُ أَرَى الرَّجُلَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوجَدُ رِيحُهُ مِنْهُ، فَيُؤْخَذُ بِيَدِهِ حَتَّى يُخْرَجَ بِهِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَمَنْ كَانَ آكِلَهُمَا لَا بُدَّ، فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا، قَالَ: فَخَطَبَ بِهَا عُمَرُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَأُصِيبَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، لِأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ.
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی، پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آ گیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔ پھر فرمایا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کر دوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو نہ ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہو گیا تو میں مجلس شوری ان چھ افراد کی مقرر کر رہا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے، جب تم ان میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو، تو ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کر چکا ہوں، یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں، اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی آخری آیت، جو گرمی میں نازل ہوئی تھی کافی ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کا ایساحل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آ جائے اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں، ان میں مال غنیمت تقسیم کریں، ان میں انصاف کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ پھر فرمایا: لوگو! تم دو درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتا ہوں (ایک لہسن اور دوسرا پیاز، جنہیں کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے)۔ میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بو مار دے۔ راوی کہتے ہیں کہ جمعہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا: اور ٢٦ ذی الحجہ بروز بدھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہو گیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سعيد بن أبى عروبة اختلط ، وقد توبع، م: 567
سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگرچہ حج تمتع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ پیلو کے درخرت کے نیچے رات گزاریں اور صبح کو اٹھ کر حج کی نیت کر لیں۔
حكم دارالسلام: صحيح، م: 1222، حجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن، ويأتي بإسناد صحيح من طريق شعبة برقم: 351
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدث کے بعد وضو کرتے ہوئے دیکھا، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد وعاصم بن عبيد الله
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سماك ، قال: سمعت عياضا الاشعري ، قال: شهدت اليرموك، وعلينا خمسة امراء: ابو عبيدة بن الجراح، ويزيد بن ابي سفيان، وابن حسنة، وخالد بن الوليد، وعياض، وليس عياض هذا بالذي حدث سماكا، قال: وقال عمر " إذا كان قتال، فعليكم ابو عبيدة، قال: فكتبنا إليه: إنه قد جاش إلينا الموت، واستمددناه، فكتب إلينا: إنه قد جاءني كتابكم تستمدوني، وإني ادلكم على من هو اعز نصرا واحضر جندا، الله عز وجل، فاستنصروه، فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قد نصر يوم بدر في اقل من عدتكم، فإذا اتاكم كتابي هذا، فقاتلوهم ولا تراجعوني"، قال: فقاتلناهم فهزمناهم، وقتلناهم اربع فراسخ، قال: واصبنا اموالا، فتشاوروا، فاشار علينا عياض ان نعطي عن كل راس عشرة، قال: وقال ابو عبيدة: من يراهني؟ فقال شاب: انا إن لم تغضب، قال: فسبقه، فرايت عقيصتي ابي عبيدة تنقزان وهو خلفه على فرس عربي.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عِيَاضًا الْأَشْعَرِيَّ ، قَالَ: شَهِدْتُ الْيَرْمُوكَ، وَعَلَيْنَا خَمْسَةُ أُمَرَاءَ: أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، وَابْنُ حَسَنَةَ، وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، وَعِيَاضٌ، وَلَيْسَ عِيَاضٌ هَذَا بِالَّذِي حَدَّثَ سِمَاكًا، قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ " إِذَا كَانَ قِتَالٌ، فَعَلَيْكُمْ أَبُو عُبَيْدَةَ، قَالَ: فَكَتَبْنَا إِلَيْهِ: إِنَّهُ قَدْ جَاشَ إِلَيْنَا الْمَوْتُ، وَاسْتَمْدَدْنَاهُ، فَكَتَبَ إِلَيْنَا: إِنَّهُ قَدْ جَاءَنِي كِتَابُكُمْ تَسْتَمِدُّونِي، وَإِنِّي أَدُلُّكُمْ عَلَى مَنْ هُوَ أَعَزُّ نَصْرًا وَأَحْضَرُ جُنْدًا، اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَاسْتَنْصِرُوهُ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نُصِرَ يَوْمَ بَدْرٍ فِي أَقَلَّ مِنْ عِدَّتِكُمْ، فَإِذَا أَتَاكُمْ كِتَابِي هَذَا، فَقَاتِلُوهُمْ وَلَا تُرَاجِعُونِي"، قَالَ: فَقَاتَلْنَاهُمْ فَهَزَمْنَاهُمْ، وَقَتَلْنَاهُمْ أَرْبَعَ فَرَاسِخَ، قَالَ: وَأَصَبْنَا أَمْوَالًا، فَتَشَاوَرُوا، فَأَشَارَ عَلَيْنَا عِيَاضٌ أَنْ نُعْطِيَ عَنْ كُلِّ رَأْسٍ عَشْرَةً، قَالَ: وَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: مَنْ يُرَاهِنِّي؟ فَقَالَ شَابٌّ: أَنَا إِنْ لَمْ تَغْضَبْ، قَالَ: فَسَبَقَهُ، فَرَأَيْتُ عَقِيصَتَيْ أَبِي عُبَيْدَةَ تَنْقُزَانِ وَهُوَ خَلْفَهُ عَلَى فَرَسٍ عَرَبِيٍّ.
سیدنا عیاض اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں غزوہ یرموک میں موجود تھا، ہم پر پانچ امراء مقرر تھے، ابوعبیدہ بن الجراح، یزید بن ابی سفیان، ابن حسنہ، خالد بن ولید، عیاض بن غنم (یاد رہے کہ اس سے مراد خود راوی حدیث نہیں ہیں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرما رکھا تھا کہ جب جنگ شروع ہو تو تمہارے سردار سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ہوں گے، راوی کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف ایک مراسلہ میں لکھ کر بھیجا کہ موت ہماری طرف اچھل اچھل کر آ رہی ہے، ہمارے لئے کمک روانہ کیجئے، انہوں نے جواب میں لکھ بھیجا کہ میرے پاس تمہارا خط پہنچا جس میں تم نے مجھ سے امداد کی درخواست کی ہے، میں تمہیں ایسی ہستی کا پتہ بتاتا ہوں جس کی نصرت سب سے زیادہ مضبوط اور جس کے لشکر سب سے زیادہ حاضر باش ہوتے ہیں، وہ ہستی اللہ تبارک وتعالیٰ ہیں، ان ہی سے مدد مانگو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت غزوہ بدر کے موقع پر بھی کی گئی تھی جبکہ وہ تعداد میں تم سے بہت تھوڑے تھے، اس لئے جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو ان سے قتال شروع کر دو اور مجھ سے بار بار امداد کے لئے مت کہو۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم نے قتال شروع کیا تو مشرکین کو شرمناک ہزیمت سے دوچار کیا اور چار فرسخ تک انہیں قتل کرتے چلے گئے اور ہمیں مال غنیمت بھی حاصل ہوا، اس کے بعد مجاہدین نے باہم مشورہ کیا، سیدنا عیاض رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ہر مجاہد کو فی کس دس درہم دیئے جائیں، سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: میرے ساتھ اس کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ ایک نوجوان بولا: اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں کروں گا، یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا، میں نے سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے بالوں کی چوٹیوں کو دیکھا کہ وہ ہوا میں لہرا رہی تھیں اور وہ نوجوان ان کے پیچھے ایک عربی گھوڑے پر بیٹھا ہوا تھا۔
علی بن زید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ آیا، اس وقت میں نے ریشمی جبہ زیب تن کر رکھا تھا، سیدنا سالم رحمہ اللہ نے مجھ سے فرمایا کہ تم ان کپڑوں کا کیا کرو گے؟ میں نے اپنے والد کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہا کے حوالے سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ریشم وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد ابن جدعان، خ : 5835، م: 2069
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المنذر اسد بن عمرو ، اراه عن حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قتل رجل ابنه عمدا، فرفع إلى عمر بن الخطاب ، فجعل عليه مائة من الإبل: ثلاثين حقة، وثلاثين جذعة، واربعين ثنية، وقال: لا يرث القاتل، ولولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا يقتل والد بولده" لقتلتك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُنْذِرِ أَسَدُ بْنُ عَمْرٍو ، أُرَاهُ عَنِ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَتَلَ رَجُلٌ ابْنَهُ عَمْدًا، فَرُفِعَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَجَعَلَ عَلَيْهِ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ: ثَلَاثِينَ حِقَّةً، وَثَلَاثِينَ جَذَعَةً، وَأَرْبَعِينَ ثَنِيَّةً، وَقَالَ: لَا يَرِثُ الْقَاتِلُ، وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يُقْتَلُ وَالِدٌ بِوَلَدِهِ" لَقَتَلْتُكَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر مار ڈالا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے اس پر سو اونٹ دیت واجب قرار دی، تیس حقے، تیس جذعے اور چالیس ثنیے یعنی جو دوسرے سال میں لگے ہوں اور فرمایا: قاتل وارث نہیں ہوتا اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ باپ کو بیٹے کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا تو میں تجھے قتل کر دیتا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، حجاج بن أرطاة مدلس، وقد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، ويزيد ، عن يحيى بن سعيد ، عن عمرو بن شعيب ، قال: قال عمر : لولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ليس لقاتل شيء" لورثتك، قال: ودعا خال المقتول، فاعطاه الإبل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، وَيَزِيدُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيْسَ لِقَاتِلٍ شَيْءٌ" لَوَرَّثْتُكَ، قَالَ: وَدَعَا خَالَ الْمَقْتُولِ، فَأَعْطَاهُ الْإِبِلَ.
ایک دوسری سند سے اسی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مقتول کے بھائی کو بلایا اور دیت کے وہ اونٹ اس کے حوالے کر دئیے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عمرو بن شيعب لم يدرك عمر
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني عبد الله بن ابي نجيح ، وعمرو بن شعيب ، كلاهما، عن مجاهد بن جبر ، فذكر الحديث، وقال: اخذ عمر من الإبل ثلاثين حقة، وثلاثين جذعة، واربعين ثنية إلى بازل عامها، كلها خلفة، قال: ثم دعا اخا المقتول، فاعطاها إياه دون ابيه، وقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ليس لقاتل شيء".حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ ، وَعَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، كِلَاهُمَا، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ: أَخَذَ عُمَرُ مِنَ الْإِبِلِ ثَلَاثِينَ حِقَّةً، وَثَلَاثِينَ جَذَعَةً، وَأَرْبَعِينَ ثَنِيَّةً إِلَى بَازِلِ عَامِهَا، كُلُّهَا خَلِفَةٌ، قَالَ: ثُمَّ دَعَا أَخَا الْمَقْتُولِ، فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ دُونَ أَبِيهِ، وَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيْسَ لِقَاتِلٍ شَيْءٌ".
مجاہد سے گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر سو اونٹ دیت واجب قرار دی، تیس حقے، تیس جذعے اور چالیس ثنیے، یعنی جو دوسرے سال میں لگے ہوں، اور سب کے سب حاملہ ہوں، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مقتول کے بھائی کو بلایا اور دیت کے وہ اونٹ اس کے حوالے کر دئیے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قاتل کو کچھ نہیں ملے گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، مجاهد بن جبر لم يدرك عمر، وانظر ما قبله
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن عكرمة بن خالد ، عن مالك بن اوس بن الحدثان ، قال: جاء العباس، وعلي إلى عمر يختصمان، فقال العباس: اقض بيني وبين هذا الكذا كذا، فقال الناس: افصل بينهما، افصل بينهما، قال: لا افصل بينهما، قد علما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا نورث، ما تركنا صدقة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: جاء العباس، وَعَلِيٌّ إلى عمر يختصمان، فقال العباس: اقض بيني وبين هذا الكذا كذا، فقال الناس: افصل بينهما، افصل بينهما، قَالَ: لَا أَفْصِلُ بَيْنَهُمَا، قَدْ عَلِمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ".
مالک بن اوس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اپنا جھگڑا لے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس فیصلہ کرانے آئے، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور ان کے درمیان فلاں فلاں چیز کا فیصلہ کر دیجئے، لوگوں نے بھی کہا کہ ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں ان دونوں کے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کروں گا کیونکہ یہ دونوں جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا إسماعيل ، عن ابن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن ابن المسيب ، ان عمر ، قال:" إن من آخر ما انزل آية الربا، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم توفي ولم يفسرها، فدعوا الربا والريبة".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ عُمَرَ ، قَالَ:" إِنَّ مِنْ آخِرِ مَا أُنْزِلَ آيَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّيَ وَلَمْ يُفَسِّرْهَا، فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں سب سے آخری آیت سود سے متعلق نازل ہوئی ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وصال مبارک سے قبل اس کی مکمل وضاحت کا موقع نہیں مل سکا، اس لئے سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں ذرا بھی شک ہو اسے بھی چھوڑ دو۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عبد الله محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن عمارة بن عمير ، عن إبراهيم بن ابي موسى ، عن ابي موسى : انه كان يفتي بالمتعة، فقال له رجل: رويدك ببعض فتياك، فإنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في النسك بعدك، حتى لقيه بعد، فساله، فقال عمر :" قد علمت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد فعله واصحابه، ولكني كرهت ان يظلوا بهن معرسين في الاراك، ثم يروحون بالحج تقطر رءوسهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِي مُوسَى : أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِالْمُتْعَةِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: رُوَيْدَكَ بِبَعْضِ فُتْيَاكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدَكَ، حَتَّى لَقِيَهُ بَعْدُ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ عُمَرُ :" قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَهُ وَأَصْحَابُهُ، وَلَكِنِّي كَرِهْتُ أَنْ يَظَلُّوا بِهِنَّ مُعَرِّسِينَ فِي الْأَرَاكِ، ثُمَّ َيَرُوحُون باِلْحَجِّ تَقْطُرُ رُءُوسُهُمْ".
سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ حج تمتع کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے، ایک دن ایک شخص آ کر ان سے کہنے لگا کہ آپ اپنے کچھ فتوے روک کر رکھیں، آپ کو معلوم نہیں ہے کہ آپ کے پیچھے، امیر المؤمنین نے مناسک حج کے حوالے سے کیا نئے احکام جاری کئے ہیں، جب ان دونوں حضرات کی ملاقات ہوئی تو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے اس کی بابت دریافت کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ حج تمتع نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ نے بھی کیا ہے، لیکن مجھے یہ چیز اچھی معلوم نہیں ہوتی کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے اپنی بیویوں کے پاس ”رات گزاریں“ اور صبح کو حج کے لئے اس حال میں روانہ ہوں کہ ان کے سروں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، عن سعد بن إبراهيم ، قال: سمعت عبيد الله بن عبد الله بن عتبة يحدث، عن ابن عباس ، عن عبد الرحمن بن عوف ، قال: حج عمر بن الخطاب ، فاراد ان يخطب الناس خطبة، فقال عبد الرحمن بن عوف: إنه قد اجتمع عندك رعاع الناس، فاخر ذلك حتى تاتي المدينة. فلما قدم المدينة دنوت منه قريبا من المنبر، فسمعته يقول:" وإن ناسا يقولون: ما بال الرجم، وإنما في كتاب الله الجلد؟ وقد رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا بعده، ولولا ان يقولوا: اثبت في كتاب الله ما ليس فيه، لاثبتها كما انزلت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ: حَجَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَأَرَادَ أَنْ يَخْطُبَ النَّاسَ خُطْبَةً، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: إِنَّهُ قَدْ اجْتَمَعَ عِنْدَكَ رَعَاعُ النَّاسِ، فَأَخِّرْ ذَلِكَ حَتَّى تَأْتِيَ الْمَدِينَةَ. فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ دَنَوْتُ مِنْهُ قَرِيبًا مِنَ الْمِنْبَرِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" وَإِنَّ نَاسًا يَقُولُونَ: مَا بَالُ الرَّجْمِ، وَإِنَّمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ الْجَلْدُ؟ وَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، وَلَوْلَا أَنْ يَقُولُوا: أَثْبَتَ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَيْسَ فِيهِ، لَأَثْبَتُّهَا كَمَا أُنْزِلَتْ".
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، وہاں انہوں نے مخصوص حالات کے تناظر میں کوئی خطبہ دینا چاہا، لیکن سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ اس وقت تو لوگوں کا کمزور طبقہ بہت بڑی مقدار میں موجود ہے، آپ اپنے اس خطبہ کو مدینہ منورہ واپسی تک مؤخر کر دیں (کیونکہ وہاں کے لوگ سمجھدار ہیں، وہ آپ کی بات سمجھ لیں گے، یہ لوگ بات کو صحیح طرح سمجھ نہ سکیں گے اور شورش بپا کر دیں گے۔) چنانچہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ واپس آ گئے تو ایک دن میں منبر کے قریب گیا، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ بعض لوگ کہتے ہیں رجم کی کیا حیثیت ہے؟ کتاب اللہ میں تو صرف کوڑوں کی سزا ذکر کی گئی ہے؟ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا جاری فرمائی ہے اور ان کے بعد ہم نے بھی، اور اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے کتاب اللہ میں اس چیز کا اضافہ کر دیا جو اس میں نہیں ہے تو میں اس حکم والی آیت کو قرآن کریم (کے حاشیے) پر لکھ دیتا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک کی وجہ سے کروٹیں بدلتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ردی کھجور بھی نہ ملتی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا پیٹ بھر لیتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، قال: سمعت رفيعا ابا العالية يحدث، عن ابن عباس : حدثني رجال، قال شعبة: احسبه قال: من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: واعجبهم إلي عمر بن الخطاب ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن الصلاة في ساعتين: بعد العصر حتى تغرب الشمس، وبعد الصبح حتى تطلع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رُفَيْعًا أَبَا الْعَالِيَةِ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : حَدَّثَنِي رِجَالٌ، قَالَ شُعْبَةُ: أَحْسِبُهُ قَالَ: مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَأَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الصَّلَاةِ فِي سَاعَتَيْنِ: بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے (جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں) کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، ایک تو یہ کہ عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے اور دوسرے یہ کہ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة . وحجاج ، قال: حدثني شعبة ، عن قتادة ، قال: سمعت ابا عثمان النهدي ، قال: جاءنا كتاب عمر ، ونحن باذربيجان مع عتبة بن فرقد، او بالشام: اما بعد، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن الحرير إلا هكذا، اصبعين"، قال ابو عثمان: فما عتمنا إلا انه الاعلام.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . وَحَجَّاجٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيَّ ، قَالَ: جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ ، وَنَحْنُ بِأَذْرَبِيجَانَ مَعَ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ، أَوْ بِالشَّامِ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الْحَرِيرِ إِلَّا هَكَذَا، أُصْبُعَيْنِ"، قَالَ أَبُو عُثْمَانَ: فَمَا عَتَّمْنَا إِلَّا أَنَّهُ الْأَعْلَامُ.
ابوعثمان کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ شام یا آذربائیجان میں تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک خط آ گیا، جس میں لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی لباس پہننے سے منع فرمایا ہے سوائے اتنی مقدار یعنی دو انگلیوں کے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة . وابو داود ، عن شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، قال: صلى عمر الصبح وهو بجمع، قال ابو داود: كنا مع عمر بجمع، فقال: إن المشركين كانوا لا يفيضون حتى تطلع الشمس، ويقولون: اشرق ثبير،" وإن نبي الله صلى الله عليه وسلم خالفهم، فافاض قبل طلوع الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . وَأَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ: صَلَّى عُمَرُ الصُّبْحَ وَهُوَ بِجَمْعٍ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: كُنَّا مَعَ عُمَرَ بِجَمْعٍ، فَقَالَ: إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَيَقُولُونَ: أَشْرِقْ ثَبِيرُ،" وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ، فَأَفَاضَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ".
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھائی اور فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے اور کہتے تھے کہ کوہ ثبیر روشن ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا اور مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہو گئے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اگر میں رات کو ناپاک ہو جاؤں تو کیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی شرمگاہ کو دھو کر نماز والا وضو کر کے سو جاؤ۔“
ابوالحکم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے، کدو کی تونبی، سبز رنگ کی روغنی ہنڈیا یا برتن سے منع فرمایا ہے۔
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں، میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت ابا جمرة الضبعي يحدث، عن جويرية بن قدامة ، قال: حججت فاتيت المدينة العام الذي اصيب فيه عمر ، قال: فخطب، فقال:" إني رايت كان ديكا احمر نقرني نقرة او نقرتين" شعبة الشاك، فكان من امره انه طعن، فاذن للناس عليه، فكان اول من دخل عليه اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ثم اهل المدينة، ثم اهل الشام، ثم اذن لاهل العراق، فدخلت فيمن دخل، قال: فكان كلما دخل عليه قوم، اثنوا عليه وبكوا، قال: فلما دخلنا عليه، قال: وقد عصب بطنه بعمامة سوداء، والدم يسيل، قال: فقلنا: اوصنا، قال: وما ساله الوصية احد غيرنا، فقال:" عليكم بكتاب الله، فإنكم لن تضلوا ما اتبعتموه، فقلنا: اوصنا، فقال: اوصيكم بالمهاجرين، فإن الناس سيكثرون ويقلون، واوصيكم بالانصار، فإنهم شعب الإسلام الذي لجئ إليه، واوصيكم بالاعراب، فإنهم اصلكم ومادتكم، واوصيكم باهل ذمتكم، فإنهم عهد نبيكم ورزق عيالكم، قوموا عني"، قال: فما زادنا على هؤلاء الكلمات، قال محمد بن جعفر: قال شعبة: ثم سالته بعد ذلك، فقال في الاعراب: واوصيكم بالاعراب، فإنهم إخوانكم، وعدو عدوكم.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَمْرَةَ الضُّبَعِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ قُدَامَةَ ، قَالَ: حَجَجْتُ فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ الْعَامَ الَّذِي أُصِيبَ فِيهِ عُمَرُ ، قَالَ: فَخَطَبَ، فَقَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا أَحْمَرَ نَقَرَنِي نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ" شُعْبَةُ الشَّاكُّ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ أَنَّهُ طُعِنَ، فَأُذِنَ لِلنَّاسِ عَلَيْهِ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ أَهْلُ الشَّامِ، ثُمَّ أُذِنَ لِأَهْلِ الْعِرَاقِ، فَدَخَلْتُ فِيمَنْ دَخَلَ، قَالَ: فَكَانَ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهِ قَوْمٌ، أَثْنَوْا عَلَيْهِ وَبَكَوْا، قَالَ: فَلَمَّا دَخَلْنَا عَلَيْهِ، قَالَ: وَقَدْ عَصَبَ بَطْنَهُ بِعِمَامَةٍ سَوْدَاءَ، وَالدَّمُ يَسِيلُ، قَالَ: فَقُلْنَا: أَوْصِنَا، قَالَ: وَمَا سَأَلَهُ الْوَصِيَّةَ أَحَدٌ غَيْرُنَا، فَقَالَ:" عَلَيْكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنَّكُمْ لَنْ تَضِلُّوا مَا اتَّبَعْتُمُوهُ، فَقُلْنَا: أَوْصِنَا، فَقَالَ: أُوصِيكُمْ بِالْمُهَاجِرِينَ، فَإِنَّ النَّاسَ سَيَكْثُرُونَ وَيَقِلُّونَ، وَأُوصِيكُمْ بِالْأَنْصَارِ، فَإِنَّهُمْ شَعْبُ الْإِسْلَامِ الَّذِي لَجِئَ إِلَيْهِ، وَأُوصِيكُمْ بِالْأَعْرَابِ، فَإِنَّهُمْ أَصْلُكُمْ وَمَادَّتُكُمْ، وَأُوصِيكُمْ بِأَهْلِ ذِمَّتِكُمْ، فَإِنَّهُمْ عَهْدُ نَبِيِّكُمْ وَرِزْقُ عِيَالِكُمْ، قُومُوا عَنِّي"، قَالَ: فَمَا زَادَنَا عَلَى هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ فِي الْأَعْرَابِ: وَأُوصِيكُمْ بِالْأَعْرَابِ، فَإِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ، وَعَدُوُّ عَدُوِّكُمْ.
جویریہ بن قدامہ کہتے ہیں کہ جس سال سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، مجھے اس سال حج کی سعادت نصیب ہوئی، میں مدینہ منورہ بھی حاضر ہوا، وہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک سرخ رنگ کا مرغا مجھے ایک یا دو مرتبہ ٹھونگ مارتا ہے اور ایسا ہی ہوا تھا کہ قاتلانہ حملے میں ان پر نیزے کے زخم آئے تھے۔ بہرحال! لوگوں کو ان کے پاس آنے کی اجازت دی گئی تو سب سے پہلے ان کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف لائے، پھر عام اہل مدینہ، پھر اہل شام اور پھر اہل عراق، اہل عراق کے ساتھ داخل ہونے والوں میں میں بھی شامل تھا، جب بھی لوگوں کی کوئی جماعت ان کے پاس جاتی تو ان کی تعریف کرتی اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے۔ جب ہم ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ان کے پیٹ کو سفید عمامے سے باندھ دیا گیا ہے لیکن اس میں سے خون کا سیل رواں جاری ہے، ہم نے ان سے وصیت کی درخواست کی جو کہ اس سے قبل ہمارے علاوہ کسی اور نے نہ کی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتاب اللہ کو لازم پکڑو، کیونکہ جب تک تم اس کی اتباع کرتے رہو گے، ہرگز گمراہ نہ ہو گے، ہم نے مزید وصیت کی درخواست کی تو فرمایا: میں تمہیں مہاجرین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ لوگ تو کم اور زیادہ ہوتے ہی رہتے ہیں، انصار کے ساتھ بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کا قلعہ ہیں جہاں اہل اسلام نے آکر پناہ لی تھی، نیز دیہاتیوں سے کیونکہ وہ تمہاری اصل اور تمہارا مادہ ہیں، نیز ذمیوں سے بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ وہ تمہارے نبی کی ذمہ داری میں ہیں (ان سے معاہدہ کر رکھا ہے) اور تمہارے اہل و عیال کا رزق ہیں۔ اب جاؤ، اس سے زائد بات انہوں نے کوئی ارشاد نہیں فرمائی، البتہ راوی نے ایک دوسرے موقع پر دیہاتیوں سے متعلق جملے میں اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ وہ تمہارے بھائی اور تمہارے دشمن کے دشمن ہیں۔
حدثنا حجاج ، انبانا شعبة ، سمعت ابا جمرة الضبعي يحدث، عن جويرية بن قدامة ، قال: حججت، فاتيت المدينة العام الذي اصيب فيه عمر ، قال: فخطب، فقال:" إني رايت كان ديكا احمر نقرني نقرة او نقرتين" شعبة الشاك، قال: فما لبث إلا جمعة حتى طعن... فذكر مثله، إلا انه قال:" واوصيكم باهل ذمتكم، فإنهم ذمة نبيكم، قال شعبة: ثم سالته بعد ذلك، فقال في الاعراب: واوصيكم بالاعراب، فإنهم إخوانكم، وعدو عدوكم".حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ أَبَا جَمْرَةَ الضُّبَعِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ قُدَامَةَ ، قَالَ: حَجَجْتُ، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ الْعَامَ الَّذِي أُصِيبَ فِيهِ عُمَرُ ، قَالَ: فَخَطَبَ، فَقَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا أَحْمَرَ نَقَرَنِي نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ" شُعْبَةُ الشَّاكُّ، قَالَ: فَمَا لَبِثَ إِلَّا جُمُعَةً حَتَّى طُعِنَ... فَذَكَرَ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" وَأُوصِيكُمْ بِأَهْلِ ذِمَّتِكُمْ، فَإِنَّهُمْ ذِمَّةُ نَبِيِّكُمْ، قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ فِي الْأَعْرَابِ: وَأُوصِيكُمْ بِالْأَعْرَابِ، فَإِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ، وَعَدُوُّ عَدُوِّكُمْ".
جویریہ بن قدامہ کہتے ہیں کہ جس سال سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، مجھے اس سال حج کی سعادت نصیب ہوئی، میں مدینہ منورہ بھی حاضر ہوا، وہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک سرخ رنگ کا مرغا مجھے ایک یا دو مرتبہ ٹھونگ مارتا ہے، چنانچہ ابھی ایک جمعہ ہی گزر ا تھا کہ ان پر حملہ ہو گیا، پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی اور یہ کہ میں تمہیں ذمیوں سے بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ وہ تمہارے نبی کی ذمہ داری میں ہیں (ان سے معاہدہ کر رکھا ہے) اور دیہاتیوں کے حوالے سے فرمایا کہ میں تمہیں دیہاتیوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارے بھائی اور تمہارے دشمنوں کے دشمن ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ”جابیہ“ میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم پہننے سے (مرد کو) منع فرمایا ہے، سوائے دو تین یا چار انگلیوں کی مقدار کے اور یہ کہہ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی سے بھی اشارہ کیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وسماع محمد بن جعفر من سعيد بن أبى عروبة مختلف فيه : أقبل الاختلاط أم بعده؟ خ : 5828، م: 2069
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا كهمس ، عن ابن بريدة . ويزيد بن هارون ، قال: حدثنا كهمس ، عن ابن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، سمع ابن عمر ، قال: حدثني عمر بن الخطاب ، قال: بينما نحن ذات يوم عند نبي الله صلى الله عليه وسلم، إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب، شديد سواد الشعر، لا يرى، قال يزيد: لا نرى عليه اثر السفر، ولا يعرفه منا احد، حتى جلس إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم، فاسند ركبتيه إلى ركبتيه، ووضع كفيه على فخذيه، ثم قال: يا محمد، اخبرني عن الإسلام، ما الإسلام؟ فقال:" الإسلام: ان تشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا"، قال: صدقت، قال: فعجبنا له، يساله ويصدقه، قال: ثم قال: اخبرني عن الإيمان، قال:" الإيمان: ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، والقدر كله: خيره وشره"، قال: صدقت، قال: فاخبرني عن الإحسان، ما الإحسان؟ قال يزيد:" ان تعبد الله كانك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك"، قال: فاخبرني عن الساعة، قال:" ما المسئول عنها باعلم بها من السائل"، قال: فاخبرني عن اماراتها، قال:" ان تلد الامة ربتها، وان ترى الحفاة العراة رعاء الشاء يتطاولون في البناء"، قال: ثم انطلق، قال: فلبث مليا، قال يزيد: ثلاثا فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عمر، اتدري من السائل؟" قال: قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" فإنه جبريل، اتاكم يعلمكم دينكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ . وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ ذَاتَ يَوْمٍ عِنْدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى، قَالَ يَزِيدُ: لَا نَرَى عَلَيْهِ أَثَرَ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، ثُمّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ فَقَالَ:" الْإِسْلَامُ: أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنْ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ، يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ:" الْإِيمَانُ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْقَدَرِ كُلِّهِ: خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ يَزِيدُ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ بِهَا مِنَ السَّائِلِ"، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا، قَالَ:" أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبِنَاءِ"، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ، قَالَ: فَلَبِثَ مَلِيًّا، قَالَ يَزِيدُ: ثَلَاثًا فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عُمَرُ، أَتَدْرِي مَنْ السَّائِلُ؟" قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، وہ مضبوط، سفید کپڑوں میں ملبوس اور انتہائی سیاہ بالوں والا تھا، اس پر نہ سفر کے آثار نظر آ رہے تھے اور نہ ہی ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا، وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔ اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر ہاتھ رکھ لئے اور کہنے لگا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے اسلام کے بارے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں، نیز یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں۔“ اس نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی) تصدیق کی تو ہمیں اس کے سوال اور تصدیق پر تعجب ہوا۔ اس نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، یوم آخرت اور ہر اچھی بری تقدیر پر یقین رکھو“، اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوئی عمل اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کر سکتے تو پھر یہی تصور کر لو کہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے (اس لئے یہی تصور کر لیا کرو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے)۔“ اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: ”جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، (یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بےخبر ہیں)“، اس نے کہا کہ پھر اس کی کچھ علامات ہی بتا دیجئے؟ فرمایا: ”جب تم یہ دیکھو کہ جن کے جسم پر چیتھڑا اور پاؤں میں لیترا نہیں ہوتا تھا، غریب اور چرواہے تھے، آج وہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں، لونڈیاں اپنی مالکن کو جنم دینے لگیں تو قیامت قریب آ گئی۔“ پھر وہ آدمی چلا گیا تو کچھ دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے عمر! کیا تمہیں علم ہے کہ وہ سائل کون تھا؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا: ”وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا بهز . قال: وحدثنا عفان ، قالا: حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي نضرة ، قال: قلت لجابر بن عبد الله: إن ابن الزبير ينهى عن المتعة، وإن ابن عباس يامر بها، قال: فقال لي: على يدي جرى الحديث، تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال عفان: ومع ابي بكر، فلما ولي عمر ، خطب الناس، فقال:" إن القرآن هو القرآن، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم هو الرسول، وإنهما كانتا متعتان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم: إحداهما متعة الحج، والاخرى متعة النساء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ . قَالَ: وَحَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ يَنْهَى عَنِ الْمُتْعَةِ، وَإِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ يَأْمُرُ بِهَا، قَالَ: فَقَالَ لِي: عَلَى يَدِي جَرَى الْحَدِيثُ، تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَفَّانُ: وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا وَلِيَ عُمَرُ ، خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ:" إِنَّ الْقُرْآنَ هُوَ الْقُرْآنُ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الرَّسُولُ، وَإِنَّهُمَا كَانَتَا مُتْعَتَانِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِحْدَاهُمَا مُتْعَةُ الْحَجِّ، وَالْأُخْرَى مُتْعَةُ النِّسَاءِ".
ابونضرہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حج تمتع سے منع کرتے ہیں جبکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کی اجازت دیتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک روایت کے مطابق سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں تھی حج تمتع کیا ہے، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت ملی تو انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا کہ قرآن، قرآن ہے اور پیغمبر، پیغمبر ہے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں دو طرح کا متعہ ہوتا تھا، ایک متعۃ الحج جسے حج تمتع کہتے ہیں اور ایک متعۃ النساء جو عورتوں کو طلاق دے کر رخصت کرتے وقت کپڑوں کی صورت میں دینا مستحب ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کر لیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتا، جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عبدالله بن الهيعة - وإن كان سيء الحفظ - توبع
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا ليث ، حدثني بكير بن عبد الله ، عن بسر بن سعيد ، عن ابن الساعدي المالكي ، انه قال: استعملني عمر بن الخطاب على الصدقة، فلما فرغت منها واديتها إليه، امر لي بعمالة، فقلت له: إنما عملت لله، واجري على الله، قال: خذ ما اعطيت، فإني قد عملت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فعملني، فقلت مثل قولك، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اعطيت شيئا من غير ان تسال، فكل وتصدق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي بُكَيْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ ابْنِ السَّاعِدِيِّ الْمَالِكِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: اسْتَعْمَلَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْهَا وَأَدَّيْتُهَا إِلَيْهِ، أَمَرَ لِي بِعِمَالَةٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّمَا عَمِلْتُ لِلَّهِ، وَأَجْرِي عَلَى اللَّهِ، قَالَ: خُذْ مَا أُعْطِيتَ، فَإِنِّي قَدْ عَمِلْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَمَّلَنِي، فَقُلْتُ مِثْلَ قَوْلِكَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أُعْطِيتَ شَيْئًا مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْأَلَ، فَكُلْ وَتَصَدَّقْ".
عبداللہ بن ساعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے کسی جگہ زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا، جب میں فارغ ہو کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ مال ان کے حوالے کر دیا، تو انہوں نے مجھے تنخواہ دینے کا حکم دیا، میں نے عرض کیا کہ میں نے یہ کام اللہ کی رضا کے لئے کیا ہے اور وہی مجھے اس کا اجر دے گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں جو دیا جائے وہ لے لیا کرو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک مرتبہ میں نے بھی یہی خدمت سرانجام دی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال و دولت عطا فرمایا، میں نے تمہاری والی بات کہہ دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے کھا لیا کرو، ورنہ اسے صدقہ کر دیا کرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا ليث ، حدثني بكير ، عن عبد الملك بن سعيد الانصاري ، عن جابر بن عبد الله ، عن عمر بن الخطاب ، انه قال: هششت يوما فقبلت، وانا صائم، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: صنعت اليوم امرا عظيما،" قبلت وانا صائم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارايت لو تمضمضت بماء وانت صائم؟ فقلت: لا باس بذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ففيم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي بُكَيْرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنَّهُ قَالَ: هَشَشْتُ يَوْمًا فَقَبَّلْتُ، وَأَنَا صَائِمٌ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: صَنَعْتُ الْيَوْمَ أَمْرًا عَظِيمًا،" قَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ تَمَضْمَضْتَ بِمَاءٍ وَأَنْتَ صَائِمٌ؟ فَقُلْتُ: لَا بَأْسَ بِذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَفِيمَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں بہت خوش تھا، خوشی سے سرشار ہو کر میں نے روزہ کی حالت میں ہی اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، اس کے بعد احساس ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے، میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دے دیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بتاؤ! اگر تم روزے کی حالت میں کلی کر لو تو کیا ہو گا؟“ میں نے عرض کیا: اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے، فرمایا: ”پھر اس میں کہاں سے ہو گا؟“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کر لیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عبدالله بن الهيعة قد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابن يعمر ، قال: قلت لابن عمر: إنا نسافر في الآفاق، فنلقى قوما يقولون: لا قدر، فقال ابن عمر : إذا لقيتموهم فاخبروهم ان عبد الله بن عمر منهم بريء، وانهم منه برآء، ثلاثا، ثم انشا يحدث: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء رجل فذكر من هيئته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ادنه، فدنا، فقال: ادنه، فدنا، فقال: ادنه، فدنا، حتى كاد ركبتاه تمسان ركبتيه، فقال: يا رسول الله، اخبرني ما الإيمان؟ او عن الإيمان، قال:" تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر" قال سفيان: اراه قال:" خيره وشره"، قال: فما الإسلام؟ قال:" إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وحج البيت، وصيام شهر رمضان، وغسل من الجنابة"، كل ذلك، قال: صدقت، صدقت. قال القوم: ما راينا رجلا اشد توقيرا لرسول الله صلى الله عليه وسلم من هذا، كانه يعلم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: يا رسول الله، اخبرني عن الإحسان، قال:" ان تعبد الله، او تعبده كانك تراه، فإن لا تراه، فإنه يراك"، كل ذلك نقول: ما راينا رجلا اشد توقيرا لرسول الله من هذا، فيقول: صدقت صدقت، قال: اخبرني عن الساعة، قال:" ما المسئول عنها باعلم بها من السائل"، قال: فقال: صدقت، قال ذلك مرارا، ما راينا رجلا اشد توقيرا لرسول الله صلى الله عليه وسلم من هذا، ثم ولى، قال سفيان: فبلغني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" التمسوه" فلم يجدوه، قال:" هذا جبريل جاءكم يعلمكم دينكم، ما اتاني في صورة إلا عرفته، غير هذه الصورة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنِ ابْنِ يَعْمَرَ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: إِنَّا نُسَافِرُ فِي الْآفَاقِ، فَنَلْقَى قَوْمًا يَقُولُونَ: لَا قَدَرَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : إِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَأَخْبِرُوهُمْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مِنْهُمْ بَرِيءٌ، وَأَنَّهُمْ مِنْهُ بُرَآءُ، ثَلَاثًا، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَذَكَرَ مِنْ هَيْئَتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ادْنُهْ، فَدَنَا، فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا، فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا، حَتَّى كَادَ رُكْبَتَاهُ تَمَسَّانِ رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي مَا الْإِيمَانُ؟ أَوْ عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ:" تُؤْمِنُ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ" قَالَ سُفْيَانُ: أُرَاهُ قَالَ:" خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ: فَمَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ:" إِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَحَجُّ الْبَيْتِ، وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَغُسْلٌ مِنَ الْجَنَابَةِ"، كُلُّ ذَلِكَ، قَالَ: صَدَقْتَ، صَدَقْتَ. قَالَ الْقَوْمُ: مَا رَأَيْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِيرًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا، كَأَنَّهُ يُعَلِّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، أَوْ تَعْبُدَهُ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَا تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، كُلُّ ذَلِكَ نَقُولُ: مَا رَأَيْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِيرًا لِرَسُولِ اللَّهِ مِنْ هَذَا، فَيَقُولُ: صَدَقْتَ صَدَقْتَ، قَالَ: أَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ بِهَا مِنَ السَّائِلِ"، قَالَ: فَقَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ ذَلِكَ مِرَارًا، مَا رَأَيْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِيرًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا، ثُمَّ وَلَّى، قَالَ سُفْيَانُ: فَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْتَمِسُوهُ" فَلَمْ يَجِدُوهُ، قَالَ:" هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ، مَا أَتَانِي فِي صُورَةٍ إِلَّا عَرَفْتُهُ، غَيْرَ هَذِهِ الصُّورَةِ".
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ ہم لوگ دنیا میں مختلف جگہوں کے سفر پر آتے جاتے رہتے ہیں، ہماری ملاقات بعض ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے جو تقدیر کے منکر ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر تم سے بری ہے اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، پھر انہوں نے اس کا حلیہ بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اسے قریب ہونے کے لئے کہا: چنانچہ وہ اتنا قریب ہوا کہ اس کے گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ کے گھٹنوں سے چھونے لگے، اس نے کہا: یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، جنت و جہنم، قیامت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور تقدیر پر یقین رکھو“، اس نے پھر پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو رمضان کے روزے رکھو اور حج بیت اللہ کرو اور غسل جنابت کرو۔ اس نے پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا: ”تم اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لئے اس کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کر سکتے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے (اس لئے یہ تصور ہی کر لیا کرو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے)“، اس کے ہر سوال پر ہم یہی کہتے تھے کہ اس سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و توقیر کرنے والا ہم نے کوئی نہیں دیکھا اور وہ باربار کہتا جا رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ اس نے پھر پوچھا: کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: ”جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بےخبر ہیں،“ جب وہ آدمی چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذرا اس آدمی کو بلا کر لانا“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں نکلے تو انہیں وہ نہ ملا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے، اس سے پہلے وہ جس صورت میں بھی آتے تھے میں انہیں پہچان لیتا تھا لیکن اس مرتبہ نہیں پہچان سکا۔“
حدثنا ابو احمد ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابن يعمر ، قال: سالت ابن عمر، او: ساله رجل: إنا نسير في هذه الارض فنلقى قوما يقولون: لا قدر، فقال ابن عمر : إذا لقيت اولئك، فاخبرهم ان عبد الله بن عمر منهم بريء، وهم منه برآء، قالها ثلاث مرات، ثم انشا يحدثنا، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء رجل، فقال: يا رسول الله، ادنو؟ فقال:" ادنه، فدنا رتوة، ثم قال: يا رسول الله، ادنو؟ فقال: ادنه، فدنا رتوة، ثم قال: يا رسول الله، ادنو؟ فقال: ادنه، فدنا رتوة"، حتى كادت ان تمس ركبتاه ركبة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ما الإيمان؟ فذكر معناه.حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنِ ابْنِ يَعْمَرَ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، أَوْ: سَأَلَهُ رَجُلٌ: إِنَّا نَسِيرُ فِي هَذِهِ الْأَرْضِ فَنَلْقَى قَوْمًا يَقُولُونَ: لَا قَدَرَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : إِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مِنْهُمْ بَرِيءٌ، وَهُمْ مِنْهُ بُرَآءُ، قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَدْنُو؟ فَقَالَ:" ادْنُهْ، فَدَنَا رَتْوَةً، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَدْنُو؟ فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا رَتْوَةً، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَدْنُو؟ فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا رَتْوَةً"، حَتَّى كَادَتْ أَنْ تَمَسَّ رُكْبَتَاهُ رُكْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِيمَانُ؟ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا کہ ہم لوگ دنیا میں مختلف جگہوں کے سفر پر آتے جاتے رہتے ہیں، ہماری ملاقات بعض ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے جو تقدیر کے منکر ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر تم سے بری ہے اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، پھر انہوں نے اس کا حلیہ بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اسے قریب ہونے کے لئے کہا: چنانچہ وہ اتنا قریب ہوا کہ اس کے گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ کے گھٹنوں سے چھونے لگے، اس نے کہا: یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص کسی مجاہد کے سر پر سایہ کرے، اللہ قیامت کے دن اس پر سایہ کرے گا، جو شخص مجاہد کو سامان جہاد مہیا کرے یہاں تک کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے، اس کے لئے اس مجاہد کے برابر اجر لکھا جاتا رہے گا اور جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد تعمیر کرے جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے، اللہ جنت میں اس کا گھر تعمیر کرے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عبدالله بن لهيعة قد توبع، وفي إدراك عثمان بن عبدالله بن سراقة لعمر بن الخطاب خلاف
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص سے اس کا رات والی دعاؤں کا معمول کسی وجہ سے چھوٹ جائے اور وہ اسے اگلے دن فجر اور ظہر کے درمیان کسی بھی وقت پڑھ لے تو گویا اس نے اپنا معمول رات ہی کو پورا کیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا خلف بن الوليد ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي ميسرة ، عن عمر بن الخطاب ، قال:" لما نزل تحريم الخمر، قال: اللهم بين لنا في الخمر بيانا شافيا، فنزلت هذه الآية التي في سورة البقرة: يسالونك عن الخمر والميسر قل فيهما إثم كبير سورة البقرة آية 219، قال: فدعي عمر، فقرئت عليه، فقال: اللهم بين لنا في الخمر بيانا شافيا، فنزلت الآية التي في سورة النساء: يايها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وانتم سكارى سورة النساء آية 43، فكان منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اقام الصلاة نادى: ان لا يقربن الصلاة سكران، فدعي عمر، فقرئت عليه، فقال: اللهم بين لنا في الخمر بيانا شافيا، فنزلت الآية التي في المائدة، فدعي عمر، فقرئت عليه، فلما بلغ: فهل انتم منتهون سورة المائدة آية 91 قال: فقال عمر: انتهينا، انتهينا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ:" لَمَّا نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، قَالَ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شَافِيًا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ الَّتِي فِي سُورَةِ الْبَقَرَةِ: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ سورة البقرة آية 219، قَالَ: فَدُعِيَ عُمَرُ، فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شَافِيًا، فَنَزَلَتْ الْآيَةُ الَّتِي فِي سُورَةِ النِّسَاءِ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى سورة النساء آية 43، فَكَانَ مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَقَامَ الصَّلَاةَ نَادَى: أَنْ لَا يَقْرَبَنَّ الصَّلَاةَ سَكْرَانُ، فَدُعِيَ عُمَرُ، فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شَافِيًا، فَنَزَلَتْ الْآيَةُ الَّتِي فِي الْمَائِدَةِ، فَدُعِيَ عُمَرُ، فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ، فَلَمَّا بَلَغَ: فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ سورة المائدة آية 91 قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: انْتَهَيْنَا، انْتَهَيْنَا".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حرمت شراب کا حکم نازل ہونا شروع ہوا تو انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے میں کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، چنانچہ سورت بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی۔ «يسألونك عن الخمر والميسر قل فيهما اثم كبير»”اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! یہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے پوچھتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ ان کا گناہ بہت بڑا ہے۔“ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت سنائی گئی، انہوں نے پھر وہی دعا کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، اس پر سورت نساء کی یہ آیت نازل ہوئی۔ «يا ايها الذين آمنوا لاتقربوا الصلاة وانتم سكاري»”اے ایمان والو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔“ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مؤذن جب اقامت کہتا تو یہ نداء بھی لگاتا کہ نشے میں مدہوش کوئی شخص نماز کے قریب نہ آئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی، لیکن انہوں نے پھر وہی دعا کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، اس پر سورت مائدہ کی آیت نازل ہوئی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر اس کی تلاوت بھی سنائی گئی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم «فهل انتم منتهون» پر پہنچے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم باز آ گئے، ہم باز آ گئے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن ابي وائل ، عن صبي بن معبد : انه كان نصرانيا تغلبيا، فاسلم، فسال: اي العمل افضل؟ فقيل له: الجهاد في سبيل الله عز وجل، فاراد ان يجاهد، فقيل له: احججت؟ قال: لا، فقيل له: حج واعتمر، ثم جاهد، فاهل بهما جميعا، فوافق زيد بن صوحان، وسلمان بن ربيعة، فقالا: هو اضل من ناقته، او: ما هو باهدى من جمله، فانطلق إلى عمر ، فاخبره بقولهما، فقال:" هديت لسنة نبيك صلى الله عليه وسلم، او لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ صُبَيِّ بْنِ مَعْبَدٍ : أَنَّهُ كَانَ نَصْرَانِيًّا تَغْلِبِيًّا، فَأَسْلَمَ، فَسَأَلَ: أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقِيلَ لَهُ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَرَادَ أَنْ يُجَاهِدَ، فَقِيلَ لَهُ: أَحَجَجْتَ؟ قَالَ: لَا، فَقِيلَ لَهُ: حُجَّ وَاعْتَمِرْ، ثُمَّ جَاهِدْ، فَأَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا، فَوَافَقَ زَيْدَ بْنَ صُوحَانَ، وَسَلْمَانَ بْنَ رَبِيعَةَ، فَقَالَا: هُوَ أَضَلُّ مِنْ نَاقَتِهِ، أَوْ: مَا هُوَ بِأَهْدَى مِنْ جَمَلِهِ، فَانْطَلَقَ إِلَى عُمَرَ ، فَأَخْبَرَهُ بِقَوْلِهِمَا، فَقَالَ:" هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابووائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک دیہاتی قبیلہ بنو تغلب کے عیسائی آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا، انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ لوگوں نے بتایا، اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، چنانچہ انہوں نے جہاد کا ارادہ کر لیا، اسی اثناء میں کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے حج کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں! اس نے کہا: آپ پہلے حج اور عمرہ کر لیں، پھر جہاد میں شرکت کریں۔ چنانچہ وہ حج کی نیت سے روانہ ہو گئے اور میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی نے یہ بات سن لی جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہو گئی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن هشام ، قال: اخبرني ابي ، ان عمر ، قال للحجر:" إنما انت حجر، ولولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك، ما قبلتك"، ثم قبله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، أَنَّ عُمَرَ ، قَالَ لِلْحَجَرِ:" إِنَّمَا أَنْتَ حَجَرٌ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ، مَا قَبَّلْتُكَ"، ثُمَّ قَبَّلَهُ.
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تو محض ایک پتھر ہے اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر آپ نے اسے بوسہ دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عروة بن الزبير والد هشام لم يدرك عمر، خ: 1597، م: 1271
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن هشام ، عن ابيه : ان عمر اتى الحجر، فقال:" إني لاعلم انك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك، ما قبلتك" قال: ثم قبله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ عُمَرَ أَتَى الْحَجَرَ، فَقَالَ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ، مَا قَبَّلْتُكَ" قَالَ: ثُمَّ قَبَّلَهُ.
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اس سے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، کسی کو نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر انہوں نے اسے بوسہ دیا۔
سوید بن غفلہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو چمٹ کر اسے بوسہ دیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھ پر مہربان دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عاصم بن عمر ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا جاء الليل من ههنا، وذهب النهار من ههنا، فقد افطر الصائم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا جَاءَ اللَّيْلُ مِنْ هَهُنَا، وَذَهَبَ النَّهَارُ مِنْ هَهُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب رات یہاں سے آ جائے اور دن وہاں سے چلا جائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کر لینا چاہیے، مشرق اور مغرب مراد ہے۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”صدقہ دے کر دوبارہ اس کی طرف رجوع کرنے والا اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو اپنے منہ سے قئی کر کے اس کو چاٹ لے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وإسناده حسن، خ: 1490، م: 1620
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن عمر ، قال:" كان اهل الجاهلية لا يفيضون من جمع، حتى يقولوا: اشرق ثبير كيما نغير، فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم خالفهم، فكان يدفع من جمع مقدار صلاة المسفرين بصلاة الغداة، قبل طلوع الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ:" كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ، حَتَّى يَقُولُوا: أَشْرِقْ ثَبِيرُ كَيْمَا نُغِيرُ، فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ، فَكَانَ يَدْفَعُ مِنْ جَمْعٍ مِقْدَارَ صَلَاةِ الْمُسْفِرِينَ بِصَلَاةِ الْغَدَاةِ، قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے اور کہتے تھے کہ کوہ ثبیر روشن ہو تاکہ ہم حملہ کریں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا اور مزدلفہ سے منیٰ کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہو گئے جبکہ نماز فجر اسفار کر کے پڑھنے والوں کی مقدار کے تناسب سے پڑھی جا سکتی تھی۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میت کو اس پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وإسناده حسن، خ: 1287، م: 927
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن عمر : ان النبي صلى الله عليه وسلم" كان يتعوذ من البخل والجبن، وعذاب القبر، وارذل العمر، وفتنة الصدر"، قال وكيع: فتنة الصدر: ان يموت الرجل، وذكر وكيع: الفتنة لم يتب منها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عُمَرَ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَفِتْنَةِ الصَّدْرِ"، قَالَ وَكِيعٌ: فِتْنَةُ الصَّدْرِ: أَنْ يَمُوتَ الرَّجُلُ، وَذَكَرَ وَكِيعٌ: الْفِتْنَةَ لَمْ يَتُبْ مِنْهَا.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (پانچ چیزوں سے) اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، بخل سے، بزدلی سے، دل کے فتنہ سے، عذاب قبر سے اور بری عمر سے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا عمر بن الوليد الشني ، عن عبد الله بن بريدة ، قال: جلس عمر مجلسا، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجلسه تمر عليه الجنائز، قال:" فمروا بجنازة، فاثنوا خيرا، فقال: وجبت، ثم مروا بجنازة، فاثنوا خيرا، فقال: وجبت، ثم مروا بجنازة، فقالوا خيرا، فقال: وجبت، ثم مروا بجنازة، فقالوا: هذا كان اكذب الناس، فقال: إن اكذب الناس اكذبهم على الله، ثم الذين يلونهم، من كذب على روحه في جسده، قال: قالوا: ارايت إذا شهد اربعة؟ قال: وجبت، قالوا: وثلاثة؟ قال: وجبت، قالوا: واثنين؟ قال: وجبت، ولان اكون قلت واحدا احب إلي من حمر النعم، قال: فقيل لعمر: هذا شيء تقوله برايك، ام شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا، بل سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْوَلِيدِ الشَّنِّيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، قَالَ: جَلَسَ عُمَرُ مَجْلِسًا، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُهُ تَمُرُّ عَلَيْهِ الْجَنَائِزُ، قَالَ:" فَمَرُّوا بِجِنَازَةٍ، فَأَثْنَوْا خَيْرًا، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ، فَأَثْنَوْا خَيْرًا، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ، فَقَالُوا خَيْرًا، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ، فَقَالُوا: هَذَا كَانَ أَكْذَبَ النَّاسِ، فَقَالَ: إِنَّ أَكْذَبَ النَّاسِ أَكْذَبُهُمْ عَلَى اللَّهِ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، مَنْ كَذَبَ عَلَى رُوحِهِ فِي جَسَدِهِ، قَالَ: قَالُوا: أَرَأَيْتَ إِذَا شَهِدَ أَرْبَعَةٌ؟ قَالَ: وَجَبَتْ، قَالُوا: وَثَلَاثَةٌ؟ قَالَ: وَجَبَتْ، قَالُوا: وَاثْنَيْنِ؟ قَالَ: وَجَبَتْ، وَلَأَنْ أَكُونَ قُلْتُ وَاحِدًا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، قَالَ: فَقِيلَ لِعُمَرَ: هَذَا شَيْءٌ تَقُولُهُ بِرَأْيِكَ، أَمْ شَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا، بَلْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن بریدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیٹھتے تھے اور وہاں سے جنازے گزر تے تھے، وہاں سے ایک جنازہ کا گزر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واجب ہو گئی، پھر دوسرا جنازہ گزر ا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا: واجب ہو گئی، تیسرے جنازہ پر بھی ایسا ہی ہوا، جب چوتھا جنازہ گزر ا تو لوگوں نے کہا: یہ سب سے بڑا جھوٹا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں میں سب سے بڑا جھوٹا وہ ہوتا ہے جو اللہ پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھتا ہے، اس کے بعد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے جسم میں موجود روح پر جھوٹ باندھتے ہیں، لوگوں نے کہا: یہ بتائیے کہ اگر کسی مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس کے لئے جنت واجب ہو گئی، لوگوں نے عرض کیا: اگر تین آدمی ہوں؟ تو فرمایا: تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، فرمایا: دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، اگر میں ایک کے متعلق پوچھ لیتا تو یہ میرے نزدیک سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسندیدہ تھا، کسی شخص نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ بات آپ اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں یا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، بلکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2643، عبدالله بن بريدة لم يدرك عمر، بينهما أبو الأسود الدؤلي كما تقدم برقم: 139 بإسناد صحيح
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن ابيه ، عن عباية بن رفاعة ، قال: بلغ عمر ان سعدا لما بنى القصر، قال: انقطع الصويت، فبعث إليه محمد بن مسلمة، فلما قدم اخرج زنده، واورى ناره، وابتاع حطبا بدرهم، وقيل لسعد: إن رجلا فعل كذا وكذا، فقال: ذاك محمد بن مسلمة، فخرج إليه، فحلف بالله ما قاله، فقال: نؤدي عنك الذي تقوله، ونفعل ما امرنا به، فاحرق الباب، ثم اقبل يعرض عليه ان يزوده، فابى، فخرج، فقدم على عمر ، فهجر إليه، فسار ذهابه ورجوعه تسع عشرة، فقال: لولا حسن الظن بك، لراينا انك لم تؤد عنا، قال: بلى، ارسل يقرا السلام، ويعتذر، ويحلف بالله ما قال: فهل زودك شيئا؟ قال: لا، قال: فما منعك ان تزودني انت؟ قال: إني كرهت ان آمر لك، فيكون لك البارد، ويكون لي الحار، وحولي اهل المدينة قد قتلهم الجوع، وقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا يشبع الرجل دون جاره". (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ ، قَالَ: بَلَغَ عُمَرَ أَنَّ سَعْدًا لَمَّا بَنَى الْقَصْرَ، قَالَ: انْقَطَعَ الصُّوَيْتُ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ، فَلَمَّا قَدِمَ أَخْرَجَ زَنْدَهُ، وَأَوْرَى نَارَهُ، وَابْتَاعَ حَطَبًا بِدِرْهَمٍ، وَقِيلَ لِسَعْدٍ: إِنَّ رَجُلًا فَعَلَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: ذَاكَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ، فَحَلَفَ بِاللَّهِ مَا قَالَهُ، فَقَالَ: نُؤَدِّي عَنْكَ الَّذِي تَقُولُهُ، وَنَفْعَلُ مَا أُمِرْنَا بِهِ، فَأَحْرَقَ الْبَابَ، ثُمَّ أَقْبَلَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ أَنْ يُزَوِّدَهُ، فَأَبَى، فَخَرَجَ، فَقَدِمَ عَلَى عُمَرَ ، فَهَجَّرَ إِلَيْهِ، فَسَارَ ذَهَابَهُ وَرُجُوعَهُ تِسْعَ عَشْرَةَ، فَقَالَ: لَوْلَا حُسْنُ الظَّنِّ بِكَ، لَرَأَيْنَا أَنَّكَ لَمْ تُؤَدِّ عَنَّا، قَالَ: بَلَى، أَرْسَلَ يَقْرَأُ السَّلَامَ، وَيَعْتَذِرُ، وَيَحْلِفُ بِاللَّهِ مَا قَالَ: فَهَلْ زَوَّدَكَ شَيْئًا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَا مَنَعَكَ أَنْ تُزَوِّدَنِي أَنْتَ؟ قَالَ: إِنِّي كَرِهْتُ أَنْ آمُرَ لَكَ، فَيَكُونَ لَكَ الْبَارِدُ، وَيَكُونَ لِي الْحَارُّ، وَحَوْلِي أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَدْ قَتَلَهُمْ الْجُوعُ، وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَشْبَعُ الرَّجُلُ دُونَ جَارِهِ".
عبایہ بن رفاعہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خبر معلوم ہوئی کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے لئے ایک محل تعمیر کروایا ہے جہاں فریادیوں کی آوازیں پہنچنا بند ہو گئی ہیں، تو انہوں نے فوراً محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا: انہوں نے وہاں پہنچ کر چقماق نکال کر اس سے آگ سلگائی، ایک درہم کی لکڑیاں خریدیں اور انہیں آگ لگا دی۔ کسی نے جا کر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ایک آدمی ایسا ایسا کر رہا ہے، انہوں نے فرمایا کہ وہ محمد بن مسلمہ ہیں، یہ کہہ کر وہ ان کے پاس آئے اور ان سے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے کوئی بات نہیں کہی ہے, محمد بن مسلمہ کہنے لگے کہ ہمیں تو جو حکم ملا ہے، ہم وہی کریں گے، اگر آپ نے کوئی پیغام دینا ہو تو وہ بھی پہنچا دیں گے، یہ کہہ کر انہوں نے اس محل کے دروازے کو آگ لگا دی۔ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں زاد راہ کی پیشکش کی لیکن انہوں نے اسے بھی قبول نہ کیا اور واپس روانہ ہو گئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جس وقت وہ پہنچے وہ دوپہر کا وقت تھا اور اس آنے جانے میں ان کے کل انیس دن صرف ہوئے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: اگر آپ کے ساتھ حسن ظن نہ ہوتا تو ہم یہ سمجھتے کہ شاید آپ نے ہمارا پیغام ان تک نہیں پہنچایا۔ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں! اس کے جواب میں انہوں نے آپ کو سلام کہلوایا ہے اور معذرت کی ہے اور اللہ کی قسم کھا کر کہا ہے کہ انہوں نے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا انہوں نے آپ کو زادراہ دیا؟ عرض کیا میں نے خود ہی نہیں لیا، فرمایا: پھر اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گئے؟ عرض کیا کہ مجھے یہ چیز اچھی نہ لگی کہ میں انہیں آپ کا کوئی حکم دوں، وہ آپ کے لئے تو ٹھنڈے رہیں اور میرے لئے گرم ہو جائیں، پھر میرے اردگرد اہل مدینہ آباد ہیں جنہیں بھوک نے مار رکھا ہے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو چھوڑ کر خود سیراب نہ ہوتا پھرے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ورواية عباية بن رفاعة عن عمر مرسلة