(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن هانئ بن هانئ ، وهبيرة بن يريم ، عن علي ان ابنة حمزة تبعتهم تنادي: يا عم، يا عم، فتناولها علي فاخذ بيدها، وقال لفاطمة: دونك ابنة عمك فحوليها، فاختصم فيها علي، وزيد، وجعفر، فقال علي: انا اخذتها وهي ابنة عمي، وقال جعفر: ابنة عمي وخالتها تحتي، وقال زيد: ابنة اخي، فقضى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم لخالتها، وقال:" الخالة بمنزلة الام"، ثم قال لعلي:" انت مني وانا منك"، وقال لجعفر:" اشبهت خلقي وخلقي"، وقال لزيد:" انت اخونا ومولانا"، فقال له علي رضي الله عنه: يا رسول الله، الا تزوج ابنة حمزة؟ فقال:" إنها ابنة اخي من الرضاعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ ، وَهُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ ابْنَةَ حَمْزَةَ تَبِعَتْهُمْ تُنَادِي: يَا عَمُّ، يَا عَمُّ، فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَالَ لِفَاطِمَةَ: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ فَحَوِّلِيهَا، فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ، وَزَيْدٌ، وَجَعْفَرٌ، فَقَالَ عَلِيٌّ: أَنَا أَخَذْتُهَا وَهِيَ ابْنَةُ عَمِّي، وَقَالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي، وَقَالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أَخِي، فَقَضَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ:" الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ"، ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ:" أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ"، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ:" أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي"، وَقَالَ لِزَيْدٍ:" أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا"، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تَزَوَّجُ ابْنَةَ حَمْزَةَ؟ فَقَالَ:" إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم مکہ مکرمہ سے نکلنے لگے تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی چچا جان! چچا جان! پکارتی ہوئی ہمارے پیچھے لگ گئی، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا، اور ان سے کہا کہ اپنی چچا زاد بہن کو سنبھالو، (جب ہم مدینہ منورہ پہنچے) تو اس بچی کی پرورش کے سلسلے میں میرا، سیدنا جعفر اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کا جھگڑا ہو گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا تھا کہ اسے میں لے کر آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ یعنی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا میرے نکاح میں ہیں، لہٰذا اس کی پرورش میرا حق ہے، سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ میری بھتیجی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”جعفر! آپ تو صورت اور سیرت میں میرے مشابہہ ہیں، علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں، اور زید! آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) ہیں، بچی اپنی خالہ کے پاس رہے گی کیونکہ خالہ بھی ماں کے مرتبہ میں ہوتی ہے۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس سے نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ فرمایا: ”اس لئے کہ یہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن، حجاج هو ابن محمد المصيصي الأعور