مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
7. مسنَدِ عَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 770
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ ، وَهُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا خَرَجْنَا مِنْ مَكَّةَ اتَّبَعَتْنَا ابْنَةُ حَمْزَةَ تُنَادِي: يَا عَمِّ، يَا عَمِّ، قَالَ: فَتَنَاوَلْتُهَا بِيَدِهَا، فَدَفَعْتُهَا إِلَى فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقُلْتُ: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ اخْتَصَمْنَا فِيهَا أَنَا وَجَعْفَرٌ وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فقال جعفر: ابنة عمي وخالتها عندي، يعني: أسماء بنت عميس، وَقَالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أَخِي، وَقُلْتُ: أَنَا أَخَذْتُهَا وَهِيَ ابْنَةُ عَمِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا أَنْتَ يَا جَعْفَرُ، فَأَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي، وَأَمَّا أَنْتَ يَا عَلِيُّ، فَمِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا زَيْدُ، فَأَخُونَا وَمَوْلَانَا، وَالْجَارِيَةُ عِنْدَ خَالَتِهَا، فَإِنَّ الْخَالَةَ وَالِدَةٌ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تَزَوَّجُهَا؟ قَالَ:" إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم مکہ مکرمہ سے نکلنے لگے تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی چچا جان! چچاجان! پکارتی ہوئی ہمارے پیچھے لگ گئی، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا، اور ان سے کہا کہ اپنی چچا زاد بہن کو سنبھالو، جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو اس بچی کی پرورش کے سلسلے میں میرا، سیدنا جعفر اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کا جھگڑا ہو گیا۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، اور اس کی خالہ یعنی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا میرے نکاح میں ہیں، لہذا اس کی پرورش میرا حق ہے۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ میری بھتیجی ہے۔ اور میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسے میں لے کر آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”جعفر! آپ تو صورت اور سیرت میں میرے مشابہہ ہیں، علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں، اور زید! آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولی (آزاد کردہ غلام) ہیں، بچی اپنی خالہ کے پاس رہے گی کیونکہ خالہ بھی ماں کے مرتبہ میں ہوتی ہے۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس سے نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ فرمایا: ”اس لئے کہ یہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن. هانئ وهبيرة حديثهما حسن لمتابعة أحدهما للآخر