(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عبد الله، حدثني زياد بن ايوب ، حدثنا هشيم ، قال: زعم ابو المقدام ، عن الحسن بن ابي الحسن ، قال: دخلت المسجد، فإذا انا بعثمان بن عفان متكئ على ردائه، فاتاه سقاءان يختصمان إليه، فقضى بينهما، ثم اتيته فنظرت إليه، فإذا رجل حسن الوجه، بوجنته نكتات جدري، وإذا شعره قد كسا ذراعيه.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: زَعَمَ أَبُو الْمِقْدَامِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا أَنَا بِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مُتَّكِئٌ عَلَى رِدَائِهِ، فَأَتَاهُ سَقَّاءَانِ يَخْتَصِمَانِ إِلَيْهِ، فَقَضَى بَيْنَهُمَا، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ، فَإِذَا رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْهِ، بِوَجْنَتِهِ نَكَتَاتُ جُدَرِيٍّ، وَإِذَا شَعْرُهُ قَدْ كَسَا ذِرَاعَيْهِ.
حسن بن ابی الحسن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مسجد نبوی میں داخل ہوا، میری نظر اچانک سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر پڑی، وہ اپنی چادر کا تکیہ بنا کر اس سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، دو آدمی ان کے پاس جھگڑتے ہوئے آئے، انہوں نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیا، پھر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں غور سے دیکھا تو وہ ایک حسین و جمیل آدمی تھے، ان کے رخسار پر چیچک کے کچھ نشانات تھے اور بالوں نے ان کے بازوؤں کو ڈھانپ رکھا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى المقدام - وأسمه هشام بن زياد القرشي
موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف فرما ہیں، مؤذن اقامت کہہ رہا ہے اور وہ لوگوں سے ان کے حالات معلوم کر رہے ہیں، اور اشیاء کی قیمتوں کے نرخ دریافت فرما رہے ہیں۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عبد الصمد ، حدثنا سالم ابو جميع ، حدثنا الحسن ، وذكر عثمان وشدة حيائه، فقال:" إن كان ليكون في البيت، والباب عليه مغلق، فما يضع عنه الثوب ليفيض عليه الماء، يمنعه الحياء ان يقيم صلبه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ أَبُو جُمَيْعٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، وَذَكَرَ عُثْمَانَ وَشِدَّةَ حَيَائِهِ، فَقَالَ:" إِنْ كَانَ لَيَكُونُ فِي الْبَيْتِ، وَالْبَابُ عَلَيْهِ مُغْلَقٌ، فَمَا يَضَعُ عَنْهُ الثَّوْبَ لِيُفِيضَ عَلَيْهِ الْمَاءَ، يَمْنَعُهُ الْحَيَاءُ أَنْ يُقِيمَ صُلْبَهُ".
حسن بصری رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کی شدتِ حیاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا اگر وہ گھر کے اندر بھی ہوتے تو جب تک دروازہ کو اچھی طرح بند نہ کر لیتے، اپنے جسم پر پانی بہانے کے لئے کپڑے نہ اتارتے تھے، اور شرم و حیاء ہی انہیں کمر سیدھی کرنے سے مانع ہوتی۔
(حديث مقطوع) حدثنا إسحاق بن عيسى بن الطباع ، عن ابي معشر ، قال:" وقتل عثمان يوم الجمعة، لثمان عشرة مضت من ذي الحجة، سنة خمس وثلاثين، وكانت خلافته ثنتي عشرة سنة إلا اثني عشر يوما".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى بْنِ الطَّبَّاعِ ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ ، قَالَ:" وَقُتِلَ عُثْمَانُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، لِثَمَانِ عَشْرَةَ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، سَنَةَ خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، وَكَانَتْ خِلَافَتُهُ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً إِلَّا اثْنَيْ عَشَرَ يَوْمًا".
ابومعشر کہتے ہیں کہ! سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت اٹھارہ ذی الحجہ بروز جمعہ ٣٥ ھ میں ہوئی، آپ کی کل مدت خلافت بارہ دن کم بارہ سال تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده منقطع، أبو معشر ضعيف، ولم يدرك عثمان
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا ابو هلال ، حدثنا قتادة :" ان عثمان قتل وهو ابن تسعين سنة، او ثمان وثمانين".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ :" أَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ وَهُوَ ابْنُ تِسْعِينَ سَنَةً، أَوْ ثَمَانٍ وَثَمَانِينَ".
قتادہ کہتے ہیں کہ شہادت کے وقت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی عمر ٩٠ یا ٨٨ سال تھی۔
قتادہ کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور انہیں سپردخاک کر دیا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے انہی کو یہ وصیت کی تھی۔
عبداللہ بن محمد بن عقیل کہتے ہیں کہ ٣٥ ھ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور پانچ سال آزمائش کے گزرے، جن میں سے چار ماہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ بھی خلیفہ رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده منقطع، عبدالله ابن محمد بن عقيل لم يدرك عثمان. قاله أحمد شاكر
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثني القاسم بن الحكم بن اوس الانصاري ، حدثني ابو عبادة الزرقي الانصاري ، من اهل المدينة، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، قال: شهدت عثمان يوم حوصر في موضع الجنائز، ولو القي حجر لم يقع إلا على راس رجل، فرايت عثمان اشرف من الخوخة التي تلي مقام جبريل عليه السلام، فقال: ايها الناس، افيكم طلحة؟ فسكتوا، ثم قال: ايها الناس: افيكم طلحة؟ فسكتوا، ثم قال: يا ايها الناس، افيكم طلحة؟ فقام طلحة بن عبيد الله، فقال له عثمان: الا اراك هاهنا؟ ما كنت ارى انك تكون في جماعة تسمع ندائي آخر ثلاث مرات ثم لا تجيبني، انشدك الله يا طلحة، تذكر يوم كنت انا وانت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في موضع كذا وكذا، ليس معه احد من اصحابه غيري وغيرك؟ قال: نعم، فقال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا طلحة، إنه ليس من نبي إلا ومعه من اصحابه رفيق من امته معه في الجنة، وإن عثمان بن عفان هذا يعنيني رفيقي معي في الجنة"، قال طلحة : اللهم نعم، ثم انصرف.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ بْنِ أَوْسٍ الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبُو عُبَادَةَ الزُّرَقِيُّ الْأَنْصَارِيُّ ، مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: شَهِدْتُ عُثْمَانَ يَوْمَ حُوصِرَ فِي مَوْضِعِ الْجَنَائِزِ، وَلَوْ أُلْقِيَ حَجَرٌ لَمْ يَقَعْ إِلَّا عَلَى رَأْسِ رَجُلٍ، فَرَأَيْتُ عُثْمَانَ أَشْرَفَ مِنَ الْخَوْخَةِ الَّتِي تَلِي مَقَامَ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، أَفِيكُمْ طَلْحَةُ؟ فَسَكَتُوا، ثُمَّ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ: أَفِيكُمْ طَلْحَةُ؟ فَسَكَتُوا، ثُمّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفِيكُمْ طَلْحَةُ؟ فَقَامَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: أَلَا أَرَاكَ هَاهُنَا؟ مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّكَ تَكُونُ فِي جَمَاعَةٍ تَسْمَعُ نِدَائِي آخِرَ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ ثُمَّ لَا تُجِيبُنِي، أَنْشُدُكَ اللَّهَ يَا طَلْحَةُ، تَذْكُرُ يَوْمَ كُنْتُ أَنَا وَأَنْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْضِعِ كَذَا وَكَذَا، لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ غَيْرِي وَغَيْرُكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا طَلْحَةُ، إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَمَعَهُ مِنْ أَصْحَابِهِ رَفِيقٌ مِنْ أُمَّتِهِ مَعَهُ فِي الْجَنَّةِ، وَإِنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ هَذَا يَعْنِينِي رَفِيقِي مَعِي فِي الْجَنَّةِ"، قَالَ طَلْحَةُ : اللَّهُمَّ نَعَمْ، ثُمَّ انْصَرَفَ.
اسلم کہتے ہیں کہ جس دن ”موضع الجنائز“ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا گیا، میں اس وقت وہاں موجود تھا، باغی اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ اگر کوئی پتھر پھینکا جاتا تو یقیناً وہ کسی نہ کسی آدمی کے سر پر ہی گرتا، میں نے دیکھا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس بالا خانے سے جو مقام جبرئیل کے قریب تھا جھانک کر نیچے دیکھا اور فرمایا کہ تم میں، اے لوگو! طلحہ موجود ہیں؟ لوگ خاموش رہے، تین مرتبہ ایسا ہی ہوا، بالآخر سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر سامنے آ گئے۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: میرا خیال نہ تھا کہ آپ یہاں موجود ہوں گے، میں یہ سمجھتا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کسی گروہ میں موجود ہوں اور تین مرتبہ میری آواز سنیں پھر اس کا جواب نہ دیں، طلحہ! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ آپ کو فلاں دن یاد ہے جب آپ اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فلاں جگہ تھے، وہاں میرے اور آپ کے علاوہ کوئی صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں! مجھے یاد ہے، عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے فرمایا تھا کہ طلحہ ہر نبی کے ساتھ جنت میں اس کی امت میں سے کوئی نہ کوئی رفیق ضرور ہو گا اور یہ عثمان بن عفان جنت میرے رفیق ہوں گے؟ طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں! ایسا ہی ہے، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ واپس چلے گئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف القاسم بن الحكم، وأبو عبادة الزرقي متروك
حمران کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی موجودگی میں وضو کے لئے پانی منگوایا، چنانچہ کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ چہرہ دھویا، پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، قتادة لم يسمع من مسلم بن يسار
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله ، حدثني وهب بن بقية الواسطي ، انبانا خالد يعني ابن عبد الله ، عن الجريري ، عن عروة بن قبيصة ، عن رجل من الانصار، عن ابيه ، قال: كنت قائما عند عثمان بن عفان ، فقال: الا انبئكم كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضا؟ قلنا: بلى، فدعا بماء،" فغسل وجهه ثلاثا، ومضمض واستنشق ثلاثا، ثم غسل يديه إلى مرفقيه ثلاثا، ثم مسح براسه واذنيه، وغسل رجليه ثلاثا، ثم قال: هكذا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ الْوَاسِطِيُّ ، أَنْبَأَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ قَبِيصَةَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ قَائِمًا عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، فَقَالَ: أَلَا أُنَبِّئُكُمْ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ؟ قُلْنَا: بَلَى، فَدَعَا بِمَاءٍ،" فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ يَدَيْهِ إِلَى مِرْفَقَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے پاس موجود حضرات سے فرمایا کیا میں آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو کر کے نہ دکھاؤں؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! چنانچہ انہوں نے پانی منگوایا، تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرے کو دھویا، تین تین مرتبہ دونوں بازوؤں کو کہنیوں سمیت دھویا، سر اور کانوں کا مسح کیا اور تین مرتبہ پاؤں دھوئے پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضيعف لجهالة الرجل من الأنصار وأبيه
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن ابي بكر بن علي المقدمي ، حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري ، حدثنا هلال بن حق ، عن الجريري ، عن ثمامة بن حزن القشيري ، قال: شهدت الدار يوم اصيب عثمان ، فاطلع عليهم اطلاعة، فقال: ادعوا لي صاحبيكم اللذين الباكم علي، فدعيا له، فقال: نشدتكما الله، اتعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قدم المدينة ضاق المسجد باهله، فقال:" من يشتري هذه البقعة من خالص ماله، فيكون فيها كالمسلمين، وله خير منها في الجنة"، فاشتريتها من خالص مالي، فجعلتها بين المسلمين، وانتم تمنعوني ان اصلي فيه ركعتين. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) ثم قال: انشدكم الله: اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قدم المدينة لم يكن فيها بئر يستعذب منه إلا رومة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من يشتريها من خالص ماله، فيكون دلوه فيها كدلي المسلمين، وله خير منها في الجنة"، فاشتريتها من خالص مالي، فانتم تمنعوني ان اشرب منها، ثم قال: هل تعلمون اني صاحب جيش العسرة؟ قالوا: اللهم نعم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ حِقٍّ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ ، قَالَ: شَهِدْتُ الدَّارَ يَوْمَ أُصِيبَ عُثْمَانُ ، فَاطَّلَعَ عَلَيْهِمْ اطِّلَاعَةً، فَقَالَ: ادْعُوا لِي صَاحِبَيْكُمْ اللَّذَيْنِ أَلَّبَاكُمْ عَلَيَّ، فَدُعِيَا لَهُ، فَقَالَ: نَشَدْتُكُمَا اللَّهَ، أَتَعْلَمَانِ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ ضَاقَ الْمَسْجِدُ بِأَهْلِهِ، فَقَالَ:" مَنْ يَشْتَرِي هَذِهِ الْبُقْعَةَ مِنْ خَالِصِ مَالِهِ، فَيَكُونَ فِيهَا كَالْمُسْلِمِينَ، وَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ"، فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ خَالِصِ مَالِي، فَجَعَلْتُهَا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنْتُمْ تَمْنَعُونِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ: أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ لَمْ يَكُنْ فِيهَا بِئْرٌ يُسْتَعْذَبُ مِنْهُ إِلَّا رُومَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ يَشْتَرِيهَا مِنْ خَالِصِ مَالِهِ، فَيَكُونَ دَلْوُهُ فِيهَا كَدُلِيِّ الْمُسْلِمِينَ، وَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ"، فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ خَالِصِ مَالِي، فَأَنْتُمْ تَمْنَعُونِي أَنْ أَشْرَبَ مِنْهَا، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّي صَاحِبُ جَيْشِ الْعُسْرَةِ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ.
ثمامہ بن خزن قشیری کہتے ہیں کہ جس دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، میں وہاں موجود تھا، عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے گھر سے جھانک کر دیکھا اور فرمایا: اپنے ان دو ساتھیوں کو بلا کر لاؤ جو تمہیں مجھ پر چڑھا لائے ہیں انہیں بلایا گیا، عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اور مسجد نبوی تنگ ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمین کا یہ ٹکڑا اپنے مال سے خرید کر مسلمانوں کے لئے اسے وقف کون کرے گا؟ اس کا عوض اسے جنت میں بہترین شکل میں عطاء کیا جائے گا“، چنانچہ میں خالص اپنے مال سے اسے خریدا اور مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا اب تم مجھے اس ہی میں دو رکعتیں پڑھنے سے روکتے ہو؟ پھر فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت سوائے بیرِ رومہ کے میٹھے پانی کا کوئی اور کنواں نہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے جو اسے خالص اپنے مال سے خریدے اور اپنا حصہ بھی مسلمانوں کے برابر رکھے؟ اور آخرت میں جنت کے اندر بہترین بدلہ حاصل کر لے؟“ چنانچہ میں نے اسے خالص اپنے مال سے خرید کر وقف کر دیا اب تم مجھے اس ہی کا پانی پینے سے روکتے ہو؟ پھر فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں غزوہ تبوک میں سامان جہاد مہیا کرنے والا ہوں لوگوں نے ان کی تصدیق کی۔
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله، حدثني ابي، وابو خيثمة ، قالا: حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا زائدة ، عن عاصم ، عن شقيق ، قال: لقي عبد الرحمن بن عوف الوليد بن عقبة، فقال له: ما لي اراك قد جفوت امير المؤمنين عثمان ؟ قال عبد الرحمن: ابلغه... فذكر الحديث، واما قوله:" إني تخلفت يوم بدر، فإني كنت امرض رقية بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ماتت، وقد ضرب لي رسول الله صلى الله عليه وسلم بسهم، ومن ضرب له رسول الله صلى الله عليه وسلم بسهم، فقد شهد"... فذكر الحديث بطوله إلى آخره.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبِي، وَأَبُو خَيْثَمَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: لَقِيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْوَلِيدَ بْنَ عُقْبَةَ، فَقَالَ لَهُ: ما لِي أَرَاكَ قَدْ جَفَوْتَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانَ ؟ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَبْلِغْهُ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَأَمَّا قَوْلُهُ:" إِنِّي تَخَلَّفْتُ يَوْمَ بَدْرٍ، فَإِنِّي كُنْتُ أُمَرِّضُ رُقَيَّةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَاتَتْ، وَقَدْ ضَرَبَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَهْمٍ، وَمَنْ ضَرَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَهْمٍ، فَقَدْ شَهِدَ"... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ إِلَى آخِرِهِ.
شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ولید بن عقبہ سے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی ولید نے کہا: کیا بات ہے آپ امیرالمومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے؟ انہوں نے کہا کہ میری طرف سے انہیں یہ پیغام پہنچا دو، پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔ اور غزوہ بدر سے پیچھے رہ جانے کا جو طعنہ انہوں نے مجھے دیا ہے تو اصل بات یہ ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی اور اپنی زوجہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھا، یہاں تک کہ وہ اسی دوران فوت ہو گئیں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکاء بدر کے ساتھ مال غنیمت میں میرا حصہ بھی شامل فرمایا: اور یہ سمجھا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا حصہ مقرر فرمایا وہ غزوہ بدر میں شریک تھا۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عبد الله، حدثني سفيان بن وكيع ، حدثني قبيصة ، عن ابي بكر بن عياش ، عن عاصم ، عن ابي وائل ، قال: قلت لعبد الرحمن بن عوف :" كيف بايعتم عثمان وتركتم عليا؟ قال: ما ذنبي؟ قد بدات بعلي، فقلت: ابايعك على كتاب الله وسنة رسوله، وسيرة ابي بكر، وعمر، قال: فقال: فيما استطعت، قال: ثم عرضتها على عثمان، فقبلها".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ ، حَدَّثَنِي قَبِيصَةُ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ :" كَيْفَ بَايَعْتُمْ عُثْمَانَ وَتَرَكْتُمْ عَلِيًّا؟ قَالَ: مَا ذَنْبِي؟ قَدْ بَدَأْتُ بِعَلِيٍّ، فَقُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ، وَسِيرَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، قَالَ: فَقَالَ: فِيمَا اسْتَطَعْتُ، قَالَ: ثُمَّ عَرَضْتُهَا عَلَى عُثْمَانَ، فَقَبِلَهَا".
ابووائل کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کس طرح کر لی؟ انہوں نے فرمایا: اس میں میرا کیا جرم ہے، میں نے تو پہلے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ میں آپ سے بیعت کرتا ہوں کتاب اللہ، سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرۃ حضرات شیخین رضی اللہ عنہ پر، انہوں نے مجھ سے کہا کہ حسب استطاعت ایسا کرنے کی کوشش کروں گا لیکن جب میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کی پیشکش کی تو انہوں نے اسے قبول کر لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا ليث ، حدثنا زهرة بن معبد القرشي ، عن ابي صالح مولى عثمان، قال: سمعت عثمان ، يقول على المنبر: ايها الناس، إني كتمتكم حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، كراهية تفرقكم عني، ثم بدا لي ان احدثكموه، ليختار امرؤ لنفسه ما بدا له، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" رباط يوم في سبيل الله، خير من الف يوم فيما سواه من المنازل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنَا زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ الْقُرَشِيُّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي كَتَمْتُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَرَاهِيَةَ تَفَرُّقِكُمْ عَنِّي، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ، لِيَخْتَارَ امْرُؤٌ لِنَفْسِهِ مَا بَدَا لَهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَنَازِلِ".
ابوصالح جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو منبر پر دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگو! میں نے اب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث تم سے بیان نہیں کی تاکہ تم لوگ مجھ سے جدا نہ ہو جاؤ لیکن اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم سے بیان کر دوں تاکہ ہر آدمی جو مناسب سمجھے اسے اختیار کر لے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کے راستہ میں ایک دن کی پہرہ داری دوسری جگہوں پر ہزار دن کی پہرہ داری سے بھی افضل ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا ابن لهيعة ، اخبرنا موسى بن وردان ، قال: سمعت سعيد بن المسيب ، يقول: سمعت عثمان يخطب على المنبر، وهو يقول: كنت ابتاع التمر من بطن من اليهود يقال لهم: بنو قينقاع، فابيعه بربح الآصع، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا عثمان، إذا اشتريت فاكتل، وإذا بعت فكل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ وَرْدَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَهُوَ يَقُولُ: كُنْتُ أَبْتَاعُ التَّمْرَ مِنْ بَطْنٍ مِنَ الْيَهُودِ يُقَالُ لَهُمْ: بَنُو قَيْنُقَاعٍ، فَأَبِيعُهُ بِرِبْحِ الْآصُعِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا عُثْمَانُ، إِذَا اشْتَرَيْتَ فَاكْتَلْ، وَإِذَا بِعْتَ فَكِلْ".
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے میں یہودیوں کے ایک خاندان اور قبیلہ سے ”جنہیں بنو قینقاع کہا جاتا تھا“، کھجوریں خریدتا تھا اور اپنا منافع رکھ کر آگے بیچ دیتا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا: ”عثمان! جب خریدا کرو تو اسے تول لیا کرو اور جب بیچا کرو تو تول کر بیچا کرو۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، فإنه من قديم حديث ابن لهيعة
(حديث مرفوع) حدثنا بشر بن شعيب بن ابي حمزة ، حدثني ابي ، عن الزهري ، حدثني عروة بن الزبير ، ان عبيد الله بن عدي بن الخيار اخبره، ان عثمان ، قال له: إن النبي صلى الله عليه وسلم، قال له:" إن الله قد بعث محمدا عليه الصلاة والسلام بالحق، فكنت ممن استجاب لله ولرسوله، وآمن بما بعث به محمدا عليه الصلاة والسلام، ثم هاجرت الهجرتين، ونلت صهر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوالله ما عصيته، ولا غششته، حتى توفاه الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُثْمَانَ ، قَالَ لَهُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ مُحَمَّدًا عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ بِالْحَقِّ، فَكُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ، وَآمَنَ بِمَا بَعَثَ بِهِ مُحَمَّدًا عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ، ثُمَّ هَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ، وَنِلْتُ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ، وَلَا غَشَشْتُهُ، حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
عبیداللہ بن عدی بن الخیار کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا:: اللہ و رسول کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں، میں بھی تھا، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ایمان لانے والوں میں، میں بھی تھا، پھر میں نے حبشہ کی طرف دونوں مرتبہ ہجرت کی، مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف بھی حاصل ہوا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت بھی کی ہے، اللہ کی قسم! میں نے نہ کبھی ان کی نافرمانی کی اور نہ ہی دھوکہ دیا، یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔