(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا هاشم بن البريد ، عن حسين بن ميمون ، عن عبد الله بن عبد الله قاضي الري، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، قال: سمعت امير المؤمنين عليا رضي الله عنه يقول: اجتمعت انا وفاطمة رضي الله عنها، والعباس، وزيد بن حارثة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال العباس: يا رسول الله، كبر سني، ورق عظمي، وكثرت مؤنتي، فإن رايت يا رسول الله ان تامر لي بكذا وكذا وسقا من طعام فافعل، فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نفعل"، فقالت فاطمة: يا رسول الله، إن رايت ان تامر لي كما امرت لعمك فافعل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نفعل ذلك"، ثم قال زيد بن حارثة: يا رسول الله، كنت اعطيتني ارضا كانت معيشتي منها، ثم قبضتها، فإن رايت ان تردها علي فافعل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نفعل ذاك"، قال: فقلت: انا يا رسول الله، إن رايت ان توليني هذا الحق الذي جعله الله لنا في كتابه من هذا الخمس، فاقسمه في حياتك كي لا ينازعنيه احد بعدك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نفعل ذاك"، فولانيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقسمته في حياته، ثم ولانيه ابو بكر رضي الله عنه فقسمته في حياته، ثم ولانيه عمر رضي الله عنه فقسمت في حياته، حتى كانت آخر سنة من سني عمر رضي الله عنه، فإنه اتاه مال كثير.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْبَرِيدِ ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَاضِي الرَّيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: اجْتَمَعْتُ أَنَا وَفَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، وَالْعَبَّاسُ، وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَبِرَ سِنِّي، وَرَقَّ عَظْمِي، وَكَثُرَتْ مُؤْنَتِي، فَإِنْ رَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ تَأْمُرَ لِي بِكَذَا وَكَذَا وَسْقًا مِنْ طَعَامٍ فَافْعَلْ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَفْعَلُ"، فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَأْمُرَ لِي كَمَا أَمَرْتَ لِعَمِّكَ فَافْعَلْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَفْعَلُ ذَلِكَ"، ثُمَّ قَالَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنْتَ أَعْطَيْتَنِي أَرْضًا كَانَتْ مَعِيشَتِي مِنْهَا، ثُمَّ قَبَضْتَهَا، فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَرُدَّهَا عَلَيَّ فَافْعَلْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَفْعَلُ ذاكَ"، قَالَ: فَقُلْتُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُوَلِّيَنِي هَذَا الْحَقَّ الَّذِي جَعَلَهُ اللَّهُ لَنَا فِي كِتَابِهِ مِنْ هَذَا الْخُمُسِ، فَأَقْسِمُهُ فِي حَيَاتِكَ كَيْ لَا يُنَازِعَنِيهِ أَحَدٌ بَعْدَكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَفْعَلُ ذَاكَ"، فَوَلَّانِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَسَمْتُهُ فِي حَيَاتِهِ، ثُمَّ وَلَّانِيهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَسَمْتُهُ فِي حَيَاتِهِ، ثُمَّ وَلَّانِيهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَسَمْتُ فِي حَيَاتِهِ، حَتَّى كَانَتْ آخِرُ سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ كَثِيرٌ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدنا عباس اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ! میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں، میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور میری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں، اگر آپ مجھے اتنے من غلہ اور گندم دے دیں تو میرا کام بن جائے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا دے دیں گے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر مناسب سمجھیں تو آپ نے اپنے چچا کے لئے جو حکم دیا ہے وہ ہمارے لئے بھی دے دیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا دے دیں گے، پھر سیدنا زید بن حارثہ کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ نے مجھے زمین کا ایک ٹکڑا عطا فرمایا تھا جس سے میری گزر اوقات ہو جاتی تھی، لیکن پھر آپ نے وہ زمین واپس لے لی، اگر آپ مناسب خیال فرمائیں تو وہ مجھے واپس کر دیں فرمایا: اچھا کر دیں گے۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ نے قرآن کریم میں ہمارے لئے خمس کا جو حق مقرر فرمایا ہے، اگر آپ مناسب خیال فرمائیں تو مجھے اس کا نگران بنا دیجئے تاکہ میں آپ کی حیات طیبہ میں اسے تقسیم کیا کروں اور آپ کے بعد کوئی شخص اس میں مجھ سے جھگڑا نہ کر سکے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا بنا دیں گے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا نگران بنا دیا اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اسے تقسیم کرتا رہا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے زمانے میں مجھے اس کی نگرانی پر برقرار رکھا اور میں ان کی حیات میں بھی اسے تقسیم کرتا رہا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی مجھے اس پر برقرار رکھا اور میں اسے تقسیم کرتا رہا لیکن جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا آخری سال تھا تو اس کی نگرانی مجھ سے لے لی گئی، اس وقت ان کے پاس بہت مال آیا تھا۔ (اور وہ مختلف طریقہ اختیار کرنا چاہتے تھے)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، حسين بن ميمون ليس بمعروف، قل من روى عنه، قال البخاري : هو حديث لم يتابع عليه