(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، وإسرائيل ، وابي ، عن ابي إسحاق ، عن عاصم بن ضمرة ، قال: سالنا عليا رضي الله عنه عن تطوع النبي صلى الله عليه وسلم بالنهار؟ فقال: إنكم لا تطيقونه، قال: قلنا: اخبرنا به ناخذ منه ما اطقنا، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم" إذا صلى الفجر امهل، حتى إذا كانت الشمس من ها هنا، يعني: من قبل المشرق، مقدارها من صلاة العصر من هاهنا، من قبل المغرب، قام فصلى ركعتين، ثم يمهل حتى إذا كانت الشمس من هاهنا، يعني: من قبل المشرق، مقدارها من صلاة الظهر من هاهنا، يعني: من قبل المغرب، قام فصلى اربعا، واربعا قبل الظهر إذا زالت الشمس، وركعتين بعدها، واربعا قبل العصر، يفصل بين كل ركعتين بالتسليم على الملائكة المقربين، والنبيين، ومن تبعهم من المؤمنين والمسلمين"، وقال: قال علي رضي الله عنه: تلك ست عشرة ركعة تطوع النبي صلى الله عليه وسلم بالنهار، وقل من يداوم عليها، حدثنا وكيع، عن ابيه، قال: قال حبيب بن ابي ثابت لابي إسحاق حين حدثه: يا ابا إسحاق، يسوى حديثك هذا ملء مسجدك ذهبا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، وَإِسْرَائِيلُ ، وَأَبِي ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، قَالَ: سَأَلْنَا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ تَطَوُّعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّهَارِ؟ فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَا تُطِيقُونَهُ، قَالَ: قُلْنَا: أَخْبِرْنَا بِهِ نَأْخُذْ مِنْهُ مَا أَطَقْنَا، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا صَلَّى الْفَجْرَ أَمْهَلَ، حَتَّى إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مِنْ هَا هُنَا، يَعْنِي: مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، مِقْدَارُهَا مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ هَاهُنَا، مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ، قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يُمْهِلُ حَتَّى إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مِنْ هَاهُنَا، يَعْنِي: مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، مِقْدَارُهَا مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ مِنْ هَاهُنَا، يَعْنِي: مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ، قَامَ فَصَلَّى أَرْبَعًا، وَأَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَأَرْبَعًا قَبْلَ الْعَصْرِ، يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ، وَالنَّبِيِّينَ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ"، وقَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: تِلْكَ سِتَّ عَشْرَةَ رَكْعَةً تَطَوُّعُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّهَارِ، وَقَلَّ مَنْ يُدَاوِمُ عَلَيْهَا، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَأَبِي إِسْحَاقَ حِينَ حَدَّثَهُ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، يَسْوَى حَدِيثُكَ هَذَا مِلْءَ مَسْجِدِكَ ذَهَبًا.
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ فرمایا: تم اس طرح پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتے، ہم نے عرض کیا: آپ بتا دیجئے، ہم اپنی طاقت اور استطاعت کے بقدر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے، فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے، جب سورج مشرق سے اس مقدار میں نکل آتا جتنا عصر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھتے۔ پھر تھوڑی دیر انتظار فرماتے اور جب سورج مشرق سے اتنی مقدار میں نکل آتاجتنا کہ ظہر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر چار رکعت نماز پڑھتے، پھر سورج ڈھلنے کے بعد چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں ظہر کے بعد اور چار رکعتیں عصر سے پہلے پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں میں ملائکہ مقربین، انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی پیروی کرنے والے مسلمانوں اور مومنین کے لئے سلام کے کلمات کہتے (تشہد پڑھتے) اس اعتبار سے پورے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کی یہ سولہ رکعتیں ہوئیں، لیکن ان پر دوام کرنے والے بہت کم ہیں، یہ حدیث بیان کر کے حبیب بن ابی ثابت نے کہا کہ اے ابواسحاق! آپ کی یہ حدیث اس مسجد کے سونے سے بھرپور ہونے کے اعتبار سے برابر ہے۔