(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني حجاج بن يوسف الشاعر ، حدثني عبد الصمد بن عبد الوارث ، حدثنا يزيد بن ابي صالح ، ان ابا الوضيء عبادا حدثه، انه قال: كنا عامدين إلى الكوفة مع علي بن ابي طالب رضي الله عنه، فلما بلغنا مسيرة ليلتين او ثلاث من حروراء شذ منا ناس كثير، فذكرنا ذلك لعلي رضي الله عنه، فقال: لا يهولنكم امرهم فإنهم سيرجعون، فذكر الحديث بطوله، قال: فحمد الله علي بن ابي طالب رضي الله عنه، وقال: إن خليلي اخبرني:" ان قائد هؤلاء رجل مخدج اليد، على حلمة ثديه شعرات كانهن ذنب اليربوع"، فالتمسوه فلم يجدوه، فاتيناه، فقلنا: إنا لم نجده، فقال: التمسوه، فوالله ما كذبت ولا كذبت، ثلاثا، فقلنا لم نجده، فجاء علي بنفسه، فجعل يقول: اقلبوا ذا اقلبوا ذا، حتى جاء رجل من الكوفة، فقال: هو ذا، قال علي رضي الله عنه: الله اكبر، لا ياتيكم احد يخبركم من ابوه؟ فجعل الناس يقولون: هذا مالك، هذا مالك، يقول علي رضي الله عنه: ابن من هو؟.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ يُوسُفَ الشَّاعِرُ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ، أَنَّ أَبَا الْوَضِيءِ عَبَّادًا حَدَّثَهُ، أَنَّهُ قَالَ: كُنَّا عَامِدِينَ إِلَى الْكُوفَةِ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَلَمَّا بَلَغْنَا مَسِيرَةَ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثٍ مِنْ حَرُورَاءَ شَذَّ مِنَّا نَاسٌ كَثِيرٌ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: لَا يَهُولَنَّكُمْ أَمْرُهُمْ فَإِنَّهُمْ سَيَرْجِعُونَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، قَالَ: فَحَمِدَ اللَّهَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ: إِنَّ خَلِيلِي أَخْبَرَنِي:" أَنَّ قَائِدَ هَؤُلَاءِ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْيَدِ، عَلَى حَلَمَةِ ثَدْيِهِ شَعَرَاتٌ كَأَنَّهُنَّ ذَنَبُ الْيَرْبُوعِ"، فَالْتَمَسُوهُ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَأَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: إِنَّا لَمْ نَجِدْهُ، فَقَالَ: الْتَمِسُوهُ، فَوَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، ثَلَاثًا، فَقُلْنَا لَمْ نَجِدْهُ، فَجَاءَ عَلِيٌّ بِنَفْسِهِ، فَجَعَلَ يَقُولُ: اقْلِبُوا ذَا اقْلِبُوا ذَا، حَتَّى جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْكُوفَةِ، فَقَالَ: هُوَ ذَا، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا يَأْتِيكُمْ أَحَدٌ يُخْبِرُكُمْ مَنْ أَبُوهُ؟ فَجَعَلَ النَّاسُ يَقُولُونَ: هَذَا مَالِكٌ، هَذَا مَالِكٌ، يَقُولُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ابْنُ مَنْ هُوَ؟.
ابوالوضی کہتے ہیں کہ ہم کوفہ کے ارادے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے، جب ہم حروراء نامی جگہ سے دو یا تین راتوں کے فاصلے کے برابر رہ گئے تو ہم سے بہت سارے لوگ جدا ہو کر چلے گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ہم نے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم گھبراؤ مت، عنقریب یہ لوگ واپس لوٹ آئیں گے۔ اس کے بعد راوی نے مکمل حدیث ذکر کی اور آخر میں کہا کہ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا تھا کہ ان لوگوں کا قائد ایک ایسا آدمی ہوگا جس کا ہاتھ نامکمل ہوگا، اور اس کے ہاتھ پر عورت کی چھاتی جیسی گھنڈی بھی ہوگی جس پر اس طرح کے بال ہوں گے جیسے جنگلی چوہے کی دم ہوتی ہے، تم مقتولین میں اس کی لاش تلاش کرو۔ لوگوں نے اس کی تلاش شروع کی لیکن نہ مل سکی، ہم نے آ کر عرض کر دیا کہ ہمیں تو اس کی لاش نہیں مل رہی، تین مرتبہ اسی طرح ہوا، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ خود بنفس نفیس اسے تلاش کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: اسے پلٹو، اسے پلٹو، اتنی دیر میں کوفہ کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یہ رہا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کا باپ کون ہے؟ لوگ کہنے لگے کہ اس کا نام مالک ہے، اس کا نام مالک ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کس کا بیٹا ہے؟ (تو اس کا کوئی جواب نہ مل سکا)۔