(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثنا سويد بن سعيد ، في سنة ست وعشرين ومائتين، حدثنا مسلم بن خالد الزنجي ، قال ابو عبد الرحمن: قلت لسويد: ولم سمي الزنجي؟ قال: كان شديد السواد، عن عبد الرحمن بن الحارث ، عن زيد بن علي بن الحسين ، عن ابيه ، عن عبيد الله بن ابي رافع ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف بعرفة، وهو مردف اسامة بن زيد، فقال:" هذا موقف، وكل عرفة موقف"، ثم دفع، فجعل يسير العنق، والناس يضربون يمينا وشمالا، وهو يلتفت ويقول:" السكينة ايها الناس، السكينة ايها الناس"، حتى جاء المزدلفة، فجمع بين الصلاتين، ثم وقف بالمزدلفة، فاردف الفضل بن عباس، ثم وقف على قزح، فقال:" هذا الموقف، وكل المزدلفة موقف"، ثم دفع، فجعل يسير العنق، والناس يضربون يمينا وشمالا، وهو يلتفت، ويقول:" السكينة ايها الناس، السكينة ايها الناس"، فلما وقف على محسر، قرع راحلته فخبت به، حتى خرجت من الوادي، ثم سار سيرته، حتى اتى الجمرة، ثم دخل المنحر، فقال:" هذا المنحر، وكل منى منحر"، فذكر مثل حديث احمد بن عبدة، عن المغيرة بن عبد الرحمن، مثله، او نحوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، فِي سَنَةِ سِتٍّ وَعِشْرِينَ وَمِائَتَيْنِ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ ، قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: قُلْتُ لِسُوَيْدٍ: وَلِمَ سُمِّيَ الزَّنْجِيَّ؟ قَالَ: كَانَ شَدِيدَ السَّوَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبي رَافِعٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ بِعَرَفَةَ، وَهُوَ مُرْدِفٌ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَقَالَ:" هَذَا مَوْقِفٌ، وَكُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ"، ثُمَّ دَفَعَ، فَجَعَلَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، وَهُوَ يَلْتَفِتُ وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، حَتَّى جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ، فَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ، ثُمَّ وَقَفَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ، ثُمَّ وَقَفَ عَلَى قُزَحَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ"، ثُمَّ دَفَعَ، فَجَعَلَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، وَهُوَ يَلْتَفِتُ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، فَلَمَّا وَقَفَ عَلَى مُحَسِّرٍ، قَرَعَ رَاحِلَتَهُ فَخَبَّتْ بِهِ، حَتَّى خَرَجَتْ مِنَ الْوَادِي، ثُمَّ سَارَ سِيرَتَهُ، حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَنْحَرَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَنْحَرُ، وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ"، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مِثْلَهُ، أَوْ نَحْوَهُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اپنے پیچھے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو۔ پھر آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور رات بھر وہیں رہے، صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے، وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے، وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، سويد بن سعيد و مسلم بن خالد قد توبعا