(حديث مرفوع) حدثنا ابو احمد محمد بن عبد الله بن الزبير ، حدثنا سفيان ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن ابي ربيعة ، عن زيد بن علي ، عن ابيه ، عن عبيد الله بن ابي رافع ، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة، فقال:" هذا الموقف، وعرفة كلها موقف"، وافاض حين غابت الشمس، ثم اردف اسامة، فجعل يعنق على بعيره، والناس يضربون يمينا وشمالا، يلتفت إليهم، ويقول:" السكينة ايها الناس"، ثم اتى جمعا فصلى بهم الصلاتين: المغرب والعشاء، ثم بات حتى اصبح، ثم اتى قزح، فوقف على قزح، فقال:" هذا الموقف، وجمع كلها موقف"، ثم سار حتى اتى محسرا، فوقف عليه، فقرع ناقته، فخبت حتى جاز الوادي، ثم حبسها، ثم اردف الفضل، وسار حتى اتى الجمرة فرماها، ثم اتى المنحر، فقال:" هذا المنحر، ومنى كلها منحر"، قال: واستفتته جارية شابة من خثعم، فقالت: إن ابي شيخ كبير قد افند، وقد ادركته فريضة الله في الحج، فهل يجزئ عنه ان اؤدي عنه؟ قال:" نعم، فادي عن ابيك"، قال: وقد لوى عنق الفضل، فقال له العباس: يا رسول الله، لم لويت عنق ابن عمك؟ قال:" رايت شابا وشابة فلم آمن الشيطان عليهما"، قال: ثم جاءه رجل، فقال: يا رسول الله، حلقت قبل ان انحر؟ قال:" انحر ولا حرج"، ثم اتاه آخر، فقال: يا رسول الله، إني افضت قبل ان احلق؟ قال:" احلق، او قصر ولا حرج"، ثم اتى البيت فطاف به، ثم اتى زمزم، فقال:" يا بني عبد المطلب، سقايتكم، ولولا ان يغلبكم الناس عليها لنزعت بها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ"، وَأَفَاضَ حِينَ غَابَتْ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَرْدَفَ أُسَامَةَ، فَجَعَلَ يُعْنِقُ عَلَى بَعِيرِهِ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، ثُمَّ أَتَى جَمْعًا فَصَلَّى بِهِمْ الصَّلَاتَيْنِ: الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، ثُمَّ بَاتَ حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ أَتَى قُزَحَ، فَوَقَفَ عَلَى قُزَحَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ"، ثُمَّ سَارَ حَتَّى أَتَى مُحَسِّرًا، فَوَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَرَعَ نَاقَتَهُ، فَخَبَّتْ حَتَّى جَازَ الْوَادِيَ، ثُمَّ حَبَسَهَا، ثُمَّ أَرْدَفَ الْفَضْلَ، وَسَارَ حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا، ثُمَّ أَتَى الْمَنْحَرَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَنْحَرُ، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ"، قَالَ: وَاسْتَفْتَتْهُ جَارِيَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ قَدْ أَفْنَدَ، وَقَدْ أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ، فَهَلْ يُجْزِئُ عَنْهُ أَنْ أُؤَدِّيَ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ، فَأَدِّي عَنْ أَبِيكِ"، قَالَ: وَقَدْ لَوَى عُنُقَ الْفَضْلِ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ:" رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنْ الشَّيْطَانَ عَلَيْهِمَا"، قَالَ: ثُمَّ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ؟ قَالَ:" انْحَرْ وَلَا حَرَجَ"، ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ؟ قَالَ:" احْلِقْ، أَوْ قَصِّرْ وَلَا حَرَجَ"، ثُمَّ أَتَى الْبَيْتَ فَطَافَ بِهِ، ثُمَّ أَتَى زَمْزَمَ، فَقَالَ:" يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، سِقَايَتَكُمْ، وَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمْ النَّاسُ عَلَيْهَا لَنَزَعْتُ بِهَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا: کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اپنے پیچھے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو۔ پھر آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور رات بھر وہیں رہے صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے، وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے، اتنی دیر میں بنوخثعم کی ایک نوجوان عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں وہ تقریباً ختم ہو چکے ہیں لیکن ان پر حج بھی فرض ہے کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کر سکتی ہو“، یہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی گردن موڑ دی (کیونکہ وہ اس عورت کو دیکھنے لگے تھے)۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی گردن کس حکمت کی بنا پر موڑی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ دونوں نوجوان ہیں، مجھے ان کے بارے شیطان سے امن نہ ہوا اس لئے دونوں کا رخ پھیر دیا“، بہرحال تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں نے قربانی کرنے سے پہلے بال کٹوا لیے، اب کیا کروں؟ فرمایا: ”اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں“، ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے حلق سے پہلے طواف زیارت کر لیا، فرمایا: ”کوئی بات نہیں اب حلق یا قصر کرلو۔“ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت کے لئے حرم شریف پہنچے، طواف کیا، زمزم پیا اور فرمایا: ”بنو عبدالمطلب! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہو اگر لوگ تم پر غالب نہ آ جاتے تو میں بھی اس میں سے ڈول کھینچ کھینچ کر نکالتا۔“