مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
7. مسنَدِ عَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنه
حدیث نمبر: 564
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن احمد، قال: حدثني احمد بن عبدة البصري ، حدثنا المغيرة بن عبد الرحمن بن الحارث المخزومي ، حدثني ابي عبد الرحمن بن الحارث ، عن زيد بن علي بن حسين بن علي ، عن ابيه علي بن حسين ، عن عبيد الله بن ابي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم وقف بعرفة وهو مردف اسامة بن زيد، فقال:" هذا الموقف، وكل عرفة موقف"، ثم دفع يسير العنق، وجعل الناس يضربون يمينا وشمالا، وهو يلتفت، ويقول:" السكينة ايها الناس، السكينة ايها الناس"، حتى جاء المزدلفة وجمع بين الصلاتين، ثم وقف بالمزدلفة، فوقف على قزح، واردف الفضل بن عباس، وقال:" هذا الموقف، وكل المزدلفة موقف"، ثم دفع وجعل يسير العنق، والناس يضربون يمينا وشمالا، وهو يلتفت، ويقول:" السكينة، السكينة ايها الناس"، حتى جاء محسرا، فقرع راحلته، فخبت حتى خرج، ثم عاد لسيره الاول، حتى رمى الجمرة، ثم جاء المنحر، فقال:" هذا المنحر، وكل منى منحر"، ثم جاءته امراة شابة من خثعم، فقالت: إن ابي شيخ كبير، وقد افند، وادركته فريضة الله في الحج، ولا يستطيع اداءها، فيجزئ عنه ان اؤديها عنه؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم"، وجعل يصرف وجه الفضل بن العباس عنها، ثم اتاه رجل، فقال: إني رميت الجمرة، وافضت، ولبست ولم احلق؟ قال:" فلا حرج، فاحلق"، ثم اتاه رجل آخر، فقال: إني رميت، وحلقت، ولبست ولم انحر؟ فقال:" لا حرج، فانحر"، ثم افاض رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدعا بسجل من ماء زمزم، فشرب منه وتوضا، ثم قال:" انزعوا يا بني عبد المطلب، فلولا ان تغلبوا عليها لنزعت"، قال العباس: يا رسول الله، إني رايتك تصرف وجه ابن اخيك؟ قال:" إني رايت غلاما شابا، وجارية شابة، فخشيت عليهما الشيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد، قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ بِعَرَفَةَ وَهُوَ مُرْدِفٌ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَكُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ"، ثُمَّ دَفَعَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، وَجَعَلَ النَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، وَهُوَ يَلْتَفِتُ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، حَتَّى جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ وَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ، ثُمَّ وَقَفَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَوَقَفَ عَلَى قُزَحَ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ، وَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ"، ثُمَّ دَفَعَ وَجَعَلَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا، وَهُوَ يَلْتَفِتُ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، حَتَّى جَاءَ مُحَسِّرًا، فَقَرَعَ رَاحِلَتَهُ، فَخَبَّتْ حَتَّى خَرَجَ، ثُمَّ عَادَ لِسَيْرِهِ الْأَوَّلِ، حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ، ثُمَّ جَاءَ الْمَنْحَرَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَنْحَرُ، وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ"، ثُمَّ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ، وَقَدْ أَفْنَدَ، وَأَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ، وَلَا يَسْتَطِيعُ أَدَاءَهَا، فَيُجْزِئُ عَنْهُ أَنْ أُؤَدِّيَهَا عَنْهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ"، وَجَعَلَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ عَنْهَا، ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنِّي رَمَيْتُ الْجَمْرَةَ، وَأَفَضْتُ، وَلَبِسْتُ وَلَمْ أَحْلِقْ؟ قَالَ:" فَلَا حَرَجَ، فَاحْلِقْ"، ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: إِنِّي رَمَيْتُ، وَحَلَقْتُ، وَلَبِسْتُ وَلَمْ أَنْحَرْ؟ فَقَالَ:" لَا حَرَجَ، فَانْحَرْ"، ثُمَّ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا بِسَجْلٍ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، فَشَرِبَ مِنْهُ وَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَالَ:" انْزِعُوا يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَوْلَا أَنْ تُغْلَبُوا عَلَيْهَا لَنَزَعْتُ"، قَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَأَيْتُكَ تَصْرِفُ وَجْهَ ابْنِ أَخِيكَ؟ قَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ غُلَامًا شَابًّا، وَجَارِيَةً شَابَّةً، فَخَشِيتُ عَلَيْهِمَا الشَّيْطَانَ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اپنے پیچھے سیدنا اسامہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو، پھر آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور رات بھر وہیں رہے صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے، اتنی دیر میں بنوخثعم کی ایک نوجوان عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ تقریباً ختم ہو چکے ہیں لیکن ان پر حج بھی فرض ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کرسکتی ہو، یہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی گردن موڑ دی (کیونکہ وہ اس عورت کو دیکھنے لگے تھے)۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، طواف زیارت کر لیا، کپڑے پہن لئے لیکن حلق نہیں کروا سکا اب کیا کروں؟ فرمایا: اب حلق کرلو، کوئی حرج نہیں، ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، حلق کروا لیا، کپڑے پہن لئے؟ فرمایا: کوئی بات نہیں، اب قربانی کرلو۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت کے لئے حرم شریف پہنچے، طواف کیا، زمزم پیا اور فرمایا: بنو عبدالمطلب! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہو، اگر لوگ تم پر غالب نہ آ جاتے تو میں بھی اس میں سے ڈول کھینچ کھینچ کر نکالتا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اپنے بھتیجے کی گردن کس حکمت کی بناء پر موڑی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ دونوں نوجوان ہیں، مجھے ان کے بارے شیطان سے امن نہ ہوا اس لئے دونوں کا رخ پھیر دیا۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.