مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
7. مسنَدِ عَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنه
حدیث نمبر: 827
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا حصين ، حدثني سعد بن عبيدة ، قال: تنازع ابو عبد الرحمن السلمي وحبان بن عطية، فقال ابو عبد الرحمن لحبان: قد علمت ما الذي جرا صاحبك، يعني: عليا رضي الله عنه، قال: فما هو لا ابا لك؟ قال: قول سمعته يقوله، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم والزبير وابا مرثد، وكلنا فارس، قال:" انطلقوا حتى تبلغوا روضة خاخ، فإن فيها امراة معها صحيفة من حاطب بن ابي بلتعة إلى المشركين، فاتوني بها"، فانطلقنا على افراسنا حتى ادركناها حيث قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، تسير على بعير لها، قال: وكان كتب إلى اهل مكة بمسير رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا لها: اين الكتاب الذي معك؟ قالت: ما معي كتاب، فانخنا بها بعيرها، فابتغينا في رحلها، فلم نجد فيه شيئا، فقال صاحباي: ما نرى معها كتابا، فقلت: لقد علمتما ما كذب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم حلفت: والذي احلف به لئن لم تخرجي الكتاب لاجردنك، فاهوت إلى حجزتها وهي محتجزة بكساء فاخرجت الصحيفة، فاتوا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، قد خان الله ورسوله والمؤمنين، دعني اضرب عنقه، قال:" يا حاطب، ما حملك على ما صنعت؟"، قال: يا رسول الله، والله ما بي ان لا اكون مؤمنا بالله ورسوله، ولكني اردت ان تكون لي عند القوم يد يدفع الله بها عن اهلي ومالي، ولم يكن احد من اصحابك إلا له هناك من قومه من يدفع الله تعالى به عن اهله وماله، قال" صدقت، فلا تقولوا له إلا خيرا"، فقال عمر: يا رسول الله، إنه قد خان الله ورسوله والمؤمنين، دعني اضرب عنقه، قال:" اوليس من اهل بدر؟ وما يدريك، لعل الله عز وجل اطلع عليهم فقال: اعملوا ما شئتم، فقد وجبت لكم الجنة"، فاغرورقت عينا عمر رضي الله عنه، وقال: الله تعالى ورسوله اعلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ ، حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ عُبَيْدَةَ ، قَالَ: تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ لِحِبَّانَ: قَدْ عَلِمْتُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ، يَعْنِي: عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فَمَا هُوَ لَا أَبَا لَكَ؟ قَالَ: قَوْلٌ سَمِعْتُهُ يَقُولُهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ وَأَبَا مَرْثَدٍ، وَكُلُّنَا فَارِسٌ، قَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَبْلُغُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ فِيهَا امْرَأَةً مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ، فَأْتُونِي بِهَا"، فَانْطَلَقْنَا عَلَى أَفْرَاسِنَا حَتَّى أَدْرَكْنَاهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا، قَالَ: وَكَانَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِمَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهَا: أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ؟ قَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَأَنَخْنَا بِهَا بَعِيرَهَا، فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا، فَلَمْ نَجِدْ فِيهِ شَيْئًا، فَقَالَ صَاحِبَايَ: مَا نَرَى مَعَهَا كِتَابًا، فَقُلْتُ: لَقَدْ عَلِمْتُمَا مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ حَلَفْتُ: وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ لَئِنْ لَمْ تُخْرِجِي الْكِتَابَ لَأُجَرِّدَنَّكِ، فَأَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ فَأَخْرَجَتْ الصَّحِيفَةَ، فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ:" يَا حَاطِبُ، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا بِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَلَكِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي، وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ إِلَّا لَهُ هُنَاكَ مِنْ قَوْمِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، قَالَ" صَدَقْتَ، فَلَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا"، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ:" أَوَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ؟ وَمَا يُدْرِيكَ، لَعَلَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمْ الْجَنَّةُ"، فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَا عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ: اللَّهُ تَعَالَى وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر اور سیدنا ابومرثد رضی اللہ عنہما - کہ ہم میں سے ہر ایک شہسوار تھا - کو ایک جگہ بھیجتے ہوئے فرمایا: تم لوگ روانہ ہو جاؤ، جب تم روضہ خاخ میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہوگا، جو حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے نام ہوگا، تم اس سے وہ خط لے کر واپس آجانا۔ چنانچہ ہم لوگ روانہ ہو گئے، ہمارے گھوڑے ہمارے ہاتھوں سے نکلے جاتے تھے، یہاں تک کہ ہم روضہ خاخ جا پہنچے، وہاں ہمیں واقعۃ ایک عورت ملی جو اپنے اونٹ پر چلی جا رہی تھی، اس خط میں اہل مکہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی اطلاع دی گئی تھی، ہم نے اس سے کہا کہ تیرے پاس جو خط ہے وہ نکال دے، اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے، ہم نے اس کا اونٹ بٹھایا، اس کے کجاوے کی تلاشی لی لیکن کچھ نہ ملا، میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ اس کے پاس تو ہمارے خیال میں کوئی خط نہیں ہے، میں نے کہا: آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، پھر میں نے قسم کھا کر کہا کہ یا تو تو خود ہی خط نکال دے ورنہ ہم تجھے برہنہ کر دیں گے۔ مجبور ہو کر اس نے اپنے بالوں کی چوٹی میں سے ایک خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا، ہم وہ خط لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، لوگ کہنے لگے: یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے، مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں، بات یہ ہے کہ میں قریش سے تعلق نہیں رکھتا، البتہ ان میں شامل ہو گیا ہوں، آپ کے ساتھ جتنے بھی مہاجرین ہیں، ان کے مکہ مکرمہ میں رشتہ دار موجود ہیں جن سے وہ اپنے اہل خانہ کی حفاظت کروا لیتے ہیں، میں نے سوچا کہ میرا وہاں کوئی نسبی رشتہ دار تو موجود نہیں ہے، اس لئے ان پر ایک احسان کر دوں تاکہ وہ اس کے عوض میرے رشتہ داروں کی حفاظت کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے سچ بیان کیا، ان کے متعلق اچھی بات ہی کہنا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر فرمایا: یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن اڑا دوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ غزوہ بدر میں شریک ہو چکے ہیں، اور تمہیں کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا: تم جو کچھ کرتے رہو، میں تمہارے لئے جنت کو واجب کر چکا۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور وہ فرمانے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح. خ: 3081، م: 2494


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.