مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
7. مسنَدِ عَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنه
حدیث نمبر: 1348
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا سفيان ، عن عبد الرحمن بن عياش ، عن زيد بن علي ، عن ابيه ، عن عبيد الله بن ابي رافع ، عن علي رضي الله عنه، قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة، فقال:" هذا الموقف، وعرفة كلها موقف"، ثم اردف اسامة، فجعل يعنق على ناقته، والناس يضربون الإبل يمينا وشمالا، لا يلتفت إليهم، ويقول:" السكينة ايها الناس"، ودفع حين غابت الشمس، فاتى جمعا، فصلى بها الصلاتين، يعني: المغرب والعشاء، ثم بات، بها فلما اصبح وقف على قزح، فقال:" هذا قزح، وهو الموقف، وجمع كلها موقف"، قال: ثم سار، فلما اتى محسرا قرعها فخبت، حتى جاز الوادي، ثم حبسها واردف الفضل، ثم سار حتى اتى الجمرة فرماها، ثم اتى المنحر، فقال:" هذا المنحر، ومنى كلها منحر"، ثم اتته امراة شابة من خثعم، فقالت: إن ابي شيخ قد افند، وقد ادركته فريضة الله في الحج، فهل يجزئ ان احج عنه؟ قال:" نعم، فادي عن ابيك"، قال: ولوى عنق الفضل، فقال له العباس: يا رسول الله، ما لك لويت عنق ابن عمك؟ قال:" رايت شابا وشابة، فخفت الشيطان عليهما"، قال: واتاه رجل، فقال: افضت قبل ان احلق؟ قال:" فاحلق، او قصر، ولا حرج"، قال: واتى زمزم، فقال:" يا بني عبد المطلب، سقايتكم، لولا ان يغلبكم الناس عليها لنزعت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَوْقِفُ، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ"، ثُمَّ أَرْدَفَ أُسَامَةَ، فَجَعَلَ يُعْنِقُ عَلَى نَاقَتِهِ، وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ الْإِبِلَ يَمِينًا وَشِمَالًا، لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ، وَيَقُولُ:" السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ"، وَدَفَعَ حِينَ غَابَتْ الشَّمْسُ، فَأَتَى جَمْعًا، فَصَلَّى بِهَا الصَّلَاتَيْنِ، يَعْنِي: الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، ثُمَّ بَاتَ، بِهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ وَقَفَ عَلَى قُزَحَ، فَقَالَ:" هَذَا قُزَحُ، وَهُوَ الْمَوْقِفُ، وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ"، قَالَ: ثُمَّ سَارَ، فَلَمَّا أَتَى مُحَسِّرًا قَرَعَهَا فَخَبَّتْ، حَتَّى جَازَ الْوَادِيَ، ثُمَّ حَبَسَهَا وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ، ثُمَّ سَارَ حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا، ثُمَّ أَتَى الْمَنْحَرَ، فَقَالَ:" هَذَا الْمَنْحَرُ، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ"، ثُمَّ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ قَدْ أَفْنَدَ، وَقَدْ أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ، فَهَلْ يُجْزِئُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ، فَأَدِّي عَنْ أَبِيكِ"، قَالَ: وَلَوَى عُنُقَ الْفَضْلِ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ:" رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً، فَخِفْتُ الشَّيْطَانَ عَلَيْهِمَا"، قَالَ: وَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ؟ قَالَ:" فَاحْلِقْ، أَوْ قَصِّرْ، وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: وَأَتَى زَمْزَمَ، فَقَالَ:" يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، سِقَايَتَكُمْ، لَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمْ النَّاسُ عَلَيْهَا لَنَزَعْتُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا: یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے۔ پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے، اپنے پیچھے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے: لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں، اور رات بھر وہیں رہے، صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے، وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے، وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا، اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں، پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے۔ اتنی دیر میں بنو خثعم کی ایک نوجوان عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ تقریبا ختم ہو چکے ہیں لیکن ان پر حج بھی فرض ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کر سکتی ہو۔ یہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی گردن موڑ دی (کیونکہ وہ اس عورت کو دیکھنے لگے تھے)۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی گردن کس حکمت کی بنا پر موڑی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ دونوں نوجوان ہیں، مجھے ان کے بارے شیطان سے امن نہ ہوا، اس لئے دونوں کا رخ پھیر دیا۔ بہرحال! تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں نے قربانی کرنے سے پہلے بال کٹوا لئے، اب کیا کروں؟ فرمایا: اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے حلق سے پہلے طواف زیارت کر لیا، فرمایا: کوئی بات نہیں، اب حلق یا قصر کر لو۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت کے لئے حرم شریف پہنچے، طواف کیا، زمزم پیا، اور فرمایا: بنو عبدالمطلب! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہو، اگر لوگ تم پر غالب نہ آجاتے تو میں بھی اس میں سے ڈول کھینچ کھینچ کر نکالتا۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.