مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
7. مسنَدِ عَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 754
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ حُرَيْثٍ عَادَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: أَتَعُودُ الْحَسَنَ وَفِي نَفْسِكَ مَا فِيهَا؟ فَقَالَ لَهُ عَمْرٌو: إِنَّكَ لَسْتَ بِرَبِّي فَتَصْرِفَ قَلْبِي حَيْثُ شِئْتَ، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَمَا إِنَّ ذَلِكَ لَا يَمْنَعُنَا أَنْ نُؤَدِّيَ إِلَيْكَ النَّصِيحَةَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا مِنْ مُسْلِمٍ عَادَ أَخَاهُ، إِلَّا ابْتَعَثَ اللَّهُ لَهُ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يُصَلُّونَ عَلَيْهِ مِنْ أَيِّ سَاعَاتِ النَّهَارِ كَانَ حَتَّى يُمْسِيَ، وَمِنْ أَيِّ سَاعَاتِ اللَّيْلِ كَانَ حَتَّى يُصْبِحَ"، قَالَ لَهُ عَمْرٌو: كَيْفَ تَقُولُ فِي الْمَشْيِ مَعَ الْجِنَازَةِ: بَيْنَ يَدَيْهَا أَوْ خَلْفَهَا؟ فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ فَضْلَ الْمَشْيِ مِنْ خَلْفِهَا عَلَى بَيْنِ يَدَيْهَا، كَفَضْلِ صَلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ فِي جَمَاعَةٍ عَلَى الْوَحْدَةِ، قَالَ عَمْرٌو: فَإِنِّي رَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَمْشِيَانِ أَمَامَ الْجِنَازَةِ، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّهُمَا كَرِهَا أَنْ يُحْرِجَا النَّاسَ.
عبداللہ بن یسار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عمرو بن حریث سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: یوں تو آپ حسن کی بیمار پرسی کے لئے آئے ہیں اور اپنے دل میں جو کچھ چھپا رکھا ہے اس کا کیا ہوگا؟ عمرو نے کہا کہ آپ میرے رب نہیں ہیں کہ جس طرح چاہیں میرے دل میں تصرف کرنا شروع کر دیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لیکن اس کے باوجود ہم تم سے نصیحت کی بات کہنے سے نہیں رکیں گے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے جاتا ہے، اللہ اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دیتا ہے جو شام تک دن کے ہر لمحے میں اس کے لئے دعا مغفرت کرتے رہتے ہیں، اور اگر شام کو گیا ہو تو صبح تک رات کی ہر گھڑی اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔“ عمرو بن حریث نے پوچھا کہ جنازے کے ساتھ چلنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، جنازے کے آگے چلنا چاہئے یا پیچھے؟ فرمایا کہ آگے چلنے پر پیچھے چلنا اسی طرح افضل ہے جیسے فرض نماز باجماعت پڑھنے کی فضیلت تنہا پڑھنے پر ہے، عمرو نے کہا کہ میں نے تو خود سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کو جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا ہے؟ فرمایا: وہ دونوں لوگوں کو اپنی وجہ سے تنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن يسار