مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
7. مسنَدِ عَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 656
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عِيَاضِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِيِّ ، قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، وَنَحْنُ عِنْدَهَا جُلُوسٌ، مَرْجِعَهُ مِنَ الْعِرَاقِ لَيَالِيَ قُتِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَتْ لَهُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ، هَلْ أَنْتَ صَادِقِي عَمَّا أَسْأَلُكَ عَنْهُ؟ تُحَدِّثُنِي عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَمَا لِي لَا أَصْدُقُكِ؟ قَالَتْ: فَحَدِّثْنِي عَنْ قِصَّتِهِمْ، قَالَ: فَإِنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ، وَحَكَمَ الْحَكَمَانِ، خَرَجَ عَلَيْهِ ثَمَانِيَةُ آلَافٍ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ، فَنَزَلُوا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا: حَرُورَاءُ، مِنْ جَانِبِ الْكُوفَةِ، وَإِنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَيْهِ، فَقَالُوا: انْسَلَخْتَ مِنْ قَمِيصٍ أَلْبَسَكَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَاسْمٍ سَمَّاكَ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ، ثُمَّ انْطَلَقْتَ فَحَكَّمْتَ فِي دِينِ اللَّهِ، فَلَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ تَعَالَى، فَلَمَّا أَنْ بَلَغَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا عَتَبُوا عَلَيْهِ، وَفَارَقُوهُ عَلَيْهِ، فَأَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ: أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَّا رَجُلٌ قَدْ حَمَلَ الْقُرْآنَ، فَلَمَّا أَنْ امْتَلَأَتْ الدَّارُ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ، دَعَا بِمُصْحَفٍ إِمَامٍ عَظِيمٍ، فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَصُكُّهُ بِيَدِهِ وَيَقُولُ: أَيُّهَا الْمُصْحَفُ، حَدِّثْ النَّاسَ، فَنَادَاهُ النَّاسُ، فَقَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا تَسْأَلُ عَنْهُ إِنَّمَا هُوَ مِدَادٌ فِي وَرَقٍ، وَنَحْنُ نَتَكَلَّمُ بِمَا رُوِينَا مِنْهُ، فَمَاذَا تُرِيدُ؟ قَالَ: أَصْحَابُكُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ خَرَجُوا، بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ كِتَابُ اللَّهِ عز وجل، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فِي امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا سورة النساء آية 35، فَأُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ دَمًا وَحُرْمَةً مِنَ امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ، وَنَقَمُوا عَلَيَّ أَنْ كَاتَبْتُ مُعَاوِيَةَ: كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَقَدْ جَاءَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ، حِينَ صَالَحَ قَوْمَهُ قُرَيْشًا، فَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، فَقَالَ سُهَيْلٌ: لَا تَكْتُبْ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، فَقَالَ:" كَيْفَ نَكْتُبُ؟"، فَقَالَ: اكْتُبْ: بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَاكْتُبْ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ"، فَقَالَ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ أُخَالِفْكَ، فَكَتَبَ: هَذَا مَا صَالَحَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قُرَيْشًا، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ سورة الأحزاب آية 21، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ عَلِيٌّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَخَرَجْتُ مَعَهُ، حَتَّى إِذَا تَوَسَّطْنَا عَسْكَرَهُمْ، قَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: يَا حَمَلَةَ الْقُرْآنِ، إِنَّ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُهُ فَأَنَا أُعَرِّفُهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا يَعْرِفُهُ بِهِ، هَذَا مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ وَفِي قَوْمِهِ: قَوْمٌ خَصِمُونَ سورة الزخرف آية 58، فَرُدُّوهُ إِلَى صَاحِبِهِ، وَلَا تُوَاضِعُوهُ كِتَابَ اللَّهِ، فَقَامَ خُطَبَاؤُهُمْ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ لَنُوَاضِعَنَّهُ كِتَابَ اللَّهِ، فَإِنْ جَاءَ بِحَقٍّ نَعْرِفُهُ لَنَتَّبِعَنَّهُ، وَإِنْ جَاءَ بِبَاطِلٍ لَنُبَكِّتَنَّهُ بِبَاطِلِهِ، فَوَاضَعُوا عَبْدَ اللَّهِ الْكِتَابَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَرَجَعَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ آلَافٍ كُلُّهُمْ تَائِبٌ، فِيهِمْ ابْنُ الْكَوَّاءِ، حَتَّى أَدْخَلَهُمْ عَلَى عَلِيٍّ الْكُوفَةَ، فَبَعَثَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى بَقِيَّتِهِمْ، فَقَالَ: قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِنَا وَأَمْرِ النَّاسِ مَا قَدْ رَأَيْتُمْ، فَقِفُوا حَيْثُ شِئْتُمْ، حَتَّى تَجْتَمِعَ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا تَسْفِكُوا دَمًا حَرَامًا، أَوْ تَقْطَعُوا سَبِيلًا، أَوْ تَظْلِمُوا ذِمَّةً، فَإِنَّكُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ، فَقَدْ نَبَذْنَا إِلَيْكُمْ الْحَرْبَ عَلَى سَوَاءٍ، إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: يَا ابْنَ شَدَّادٍ، فَقَدْ قَتَلَهُمْ! فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا بَعَثَ إِلَيْهِمْ حَتَّى قَطَعُوا السَّبِيلَ، وَسَفَكُوا الدَّمَ، وَاسْتَحَلُّوا أَهْلَ الذِّمَّةِ 59، فَقَالَتْ: آللَّهِ؟ قَالَ: آللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كَانَ، قَالَتْ: فَمَا شَيْءٌ بَلَغَنِي عَنْ أَهْلِ العراقِ يَتَحَدَّثُونَهُ؟ يَقُولُونَ: ذُو الثُّدَيِّ، وَذُو الثُّدَيِّ، قَالَ: قَدْ رَأَيْتُهُ، وَقُمْتُ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَيْهِ فِي الْقَتْلَى، فَدَعَا النَّاسَ، فَقَالَ: أَتَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَمَا أَكْثَرَ مَنْ جَاءَ يَقُولُ: قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي، وَرَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي، وَلَمْ يَأْتُوا فِيهِ بِثَبَتٍ يُعْرَفُ إِلَّا ذَلِكَ، قَالَتْ: فَمَا قَوْلُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ قَامَ عَلَيْهِ كَمَا يَزْعُمُ أَهْلُ الْعِرَاقِ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، قَالَتْ: هَلْ سَمِعْتَ مِنْهُ أَنَّهُ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ لَا، قَالَتْ: أَجَلْ، صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، يَرْحَمُ اللَّهُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِنَّهُ كَانَ مِنْ كَلَامِهِ لَا يَرَى شَيْئًا يُعْجِبُهُ إِلَّا قَالَ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَيَذْهَبُ أَهْلُ الْعِرَاقِ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ، وَيَزِيدُونَ عَلَيْهِ فِي الْحَدِيثِ.
عبیداللہ بن عیاض کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چند روز بعد سیدنا عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ عراق سے واپس آ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت ہم لوگ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا: عبداللہ! میں تم سے جو پوچھوں گی، اس کا صحیح جواب دوگے؟ کیا تم مجھے ان لوگوں کے بارے بتا سکتے ہو جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے سچ کیوں نہیں بولوں گا، فرمایا کہ پھر مجھے ان کا قصہ سناؤ۔ سیدنا عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت شروع کی اور دونوں ثالثوں نے اپنا اپنا فیصلہ سنا دیا، تو آٹھ ہزار لوگ جنہیں قراء کہا جاتا تھا، نکل کر کوفہ کے ایک طرف حروراء نامی علاقے میں چلے گئے، وہ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہو گئے تھے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ اللہ نے آپ کو جو قمیص پہنائی تھی، آپ نے اسے اتار دیا اور اللہ نے آپ کو جو نام عطاء کیا تھا، آپ نے اسے اپنے آپ سے دور کر دیا، پھر آپ نے جا کر دین کے معاملے میں ثالث کو قبول کر لیا، حالانکہ حکم تو صرف اللہ کا ہی چلتا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ لوگ ان سے ناراض ہو کر جدا ہو گئے ہیں تو انہوں نے منادی کو یہ نداء لگانے کا حکم دیا کہ امیر المؤمنین کے پاس صرف وہی شخص آئے جس نے قرآن کریم اٹھا رکھا ہو، جب ان کا گھر قرآن پڑھنے والوں سے بھر گیا، تو انہوں نے قرآن کریم کا ایک بڑا نسخہ منگوا کر اپنے سامنے رکھا اور اسے اپنے ہاتھ سے ہلاتے ہوئے کہنے لگے، اے قرآن! لوگوں کو بتا، یہ دیکھ کر لوگ کہنے لگے، امیر المؤمنین! آپ اس نسخے سے کیا پوچھ رہے ہیں؟ یہ تو کاغذ میں روشنائی ہے، ہاں! اس کے حوالے ہم تک جو احکام پہنچے ہیں وہ ہم ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں، آپ کا اس سے مقصد کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے یہ ساتھی جو ہم سے جدا ہو کر چلے گئے ہیں، میرے اور ان کے درمیان قرآن کریم ہی فیصلہ کرے گا، اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں میاں بیوی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک ثالث مرد کی طرف سے اور ایک ثالث عورت کے اہل خانہ کی طرف سے بھیجو، اگر ان کی نیت محض اصلاح کی ہوئی، تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، میرا خیال ہے کہ ایک آدمی اور ایک عورت کی نسبت پوری امت کا خون اور حرمت زیادہ اہم ہے (اس لئے اگر میں نے اس معاملہ میں ثالثی کو قبول کیا تو کون سا گناہ کیا؟) اور انہیں اس بات پر جو غصہ ہے کہ میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خط و کتاب کی ہے (تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تو پھر مسلمان اور صحابی ہیں)، جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں تھے اور سہیل بن عمرو ہمارے پاس آیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم قریش سے صلح کی تھی، تو اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا، «بسم الله الرحمن الرحيم»، اس پر سہیل نے کہا: کہ آپ اس طرح مت لکھوائیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر کس طرح لکھوائیں؟“ اس نے کہا کہ آپ «باسمك اللهم» لکھیں۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نام «محمد رسول الله» لکھوایا تو اس نے کہا کہ اگر میں آپ کو اللہ کا پیغمبر مانتا تو کبھی آپ کی مخالفت نہ کرتا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ لکھوائے «هذا ما صالح محمد بن عبدالله قريشا» اور اللہ فرماتا ہے کہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے (میں نے تو اس نمونے کی پیروی کی ہے)۔ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے پاس سمجھانے کے لئے بھیجا، راوی کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ گیا تھا، جب ہم ان کے وسط لشکر میں پہنچے تو ابن الکواء نامی ایک شخص لوگوں کے سامنے تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے حاملین قرآن! یہ عبداللہ بن عباس آئے ہیں، جو شخص انہیں نہ جانتا ہو، میں اس کے سامنے ان کا تعارف قرآن کریم سے پیش کر دیتا ہوں، یہ وہی ہیں کہ ان کے اور ان کی قوم کے بارے میں قرآن کریم میں «قوم خصمون»، یعنی جھگڑالو قوم کا لفظ وارد ہوا ہے، اس لئے انہیں ان کے ساتھی یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس واپس بھیج دو اور کتاب اللہ کو ان کے سامنے مت بچھاؤ۔ یہ سن کر ان کے خطباء کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ بخدا! ہم تو ان کے سامنے کتاب اللہ کو پیش کریں گے، اگر یہ حق بات لے کر آئے ہیں تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور اگر یہ باطل لے کر آئے ہیں تو ہم اس باطل کو خاموش کرا دیں گے، چنانچہ تین دن تک وہ لوگ کتاب اللہ کو سامنے رکھ کر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مناظرہ کرتے رہے، جس کے نتیجے میں ان میں سے چار ہزار لوگ اپنے عقائد سے رجوع کر کے توبہ تائب ہو کر واپس آ گئے، جن میں خود ابن الکواء بھی شامل تھا، اور یہ سب کے سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کوفہ حاضر ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بقیہ افراد کی طرف قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوا دیا کہ ہمارا اور ان لوگوں کا جو معاملہ ہواوہ تم نے دیکھ لیا، اب تم جہاں چاہو ٹھرو، تا آنکہ امت مسلمہ متفق ہو جائے، ہمارے اور تمہارے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ تم ناحق کسی کا خون نہ بہاؤ، ڈاکے نہ ڈالو اور ذمیوں پر ظلم وستم نہ ڈھاؤ، اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تم پر جنگ مسلط کر دیں گے کیونکہ اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ یہ سارئ روئیداد سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ابن شداد! کیا انہوں نے پھر قتال کیا ان لوگوں سے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس وقت تک ان کے پاس اپنا کوئی لشکر نہیں بھیجا جب تک انہوں نے مذکورہ معاہدے کو ختم نہ کر دیا، انہوں نے ڈاکے ڈالے، لوگوں کا خون ناحق بہایا، اور ذمیوں پر دست درازی کو حلال سمجھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا: کیا بخدا! ایسا ہی ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! اس خدا کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، ایسا ہی ہوا ہے۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ اس بات کی کیا حقیقت ہے جو مجھے تک اہل عراق کے ذریعے پہنچی ہے کہ ”ذوالثدی“ نامی کوئی شخص تھا؟ حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے خود اس شخص کو دیکھا ہے اور مقتولین میں اس کی لاش پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا بھی ہوا ہوں، اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بلا کر پوچھا تھا، کیا تم اس شخص کو جانتے ہو؟ اکثر لوگوں نے یہی کہا کہ میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، کوئی مضبوط بات جس سے اس کی چھان ہو سکتی، وہ لوگ نہ بتا سکے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کی لاش کے پاس کھڑے تھے تو انہوں نے کیا وہی بات کہی تھی، جو اہل عراق بیان کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ نے اس کے علاوہ بھی ان کے منہ سے کوئی بات سنی؟ انہوں نے کہا: بخدا! نہیں، فرمایا: اچھا ٹھیک ہے، اللہ علی پر رحم فرمائے، یہ ان کا تکیہ کلام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں جب بھی کوئی چیز اچھی یا تعجب خیز معلوم ہوتی ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا، اور اہل عراق ان کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر بات کو پیش کر تے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن