(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا علي بن زيد ، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، ان عثمان بن عفان رضي الله عنه نزل قديدا، فاتي بالحجل في الجفان شائلة بارجلها، فارسل إلى علي رضي الله عنه وهو يضفز بعيرا له، فجاء والخبط يتحات من يديه، فامسك علي، وامسك الناس، فقال علي : من ها هنا من اشجع؟ هل تعلمون ان النبي صلى الله عليه وسلم جاءه اعرابي ببيضات نعام، وتتمير وحش، فقال:" اطعمهن اهلك، فإنا حرم"؟ قالوا: بلى، فتورك عثمان عن سريره، ونزل، فقال: خبثت علينا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَزَلَ قُدَيْدًا، فَأُتِيَ بِالْحَجَلِ فِي الْجِفَانِ شَائِلَةً بِأَرْجُلِهَا، فَأَرْسَلَ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَضْفِزُ بَعِيرًا لَهُ، فَجَاءَ وَالْخَبَطُ يَتَحَاتُّ مِنْ يَدَيْهِ، فَأَمْسَكَ عَلِيٌّ، وَأَمْسَكَ النَّاسُ، فَقَالَ عَلِيٌّ : مَنْ هَا هُنَا مِنْ أَشْجَعَ؟ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ بِبَيْضَاتِ نَعَامٍ، وَتَتْمِيرِ وَحْشٍ، فَقَالَ:" أَطْعِمْهُنَّ أَهْلَكَ، فَإِنَّا حُرُمٌ"؟ قَالُوا: بَلَى، فَتَوَرَّكَ عُثْمَانُ عَنْ سَرِيرِهِ، وَنَزَلَ، فَقَالَ: خَبَّثْتَ عَلَيْنَا.
عبداللہ بن الحارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو قدید نامی جگہ میں پڑاؤ کیا، ان کی خدمت میں بڑی ہانڈیوں کے اندر گھوڑے کا گوشت لایا گیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلایا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے گرد و غبار جھاڑتے ہوئے آئے لیکن انہوں نے وہ کھانا نہیں کھایا، لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ روک لئے، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قبیلہ اشجع کا کوئی آدمی یہاں موجود ہے؟ کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی آدمی نے شتر مرغ کے کچھ انڈے اور ایک وحشی جانور کا خشک کیا ہوا گوشت پیش کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اپنے گھر والوں کو کھلا دو، کیونکہ ہم محرم ہیں۔“ لوگوں نے کہا کیوں نہیں۔ یہ دیکھ کر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ دستر خوان سے اٹھ کر اپنے خیمے میں چلے گئے اور کہنے لگے کہ اب اس میں ہمارے لئے بھی ناپسندیدگی پیدا ہوگئی ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد ابن جدعان، أكل الصيد للمحرم إذا صاده الحلال وأهداه للمحرم فى صحيح البخاري : 1821