(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا إسرائيل ، حدثنا سماك ، عن حنش ، عن علي رضي الله عنه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فانتهينا إلى قوم قد بنوا زبية للاسد، فبينا هم كذلك يتدافعون، إذ سقط رجل، فتعلق بآخر، ثم تعلق رجل بآخر، حتى صاروا فيها اربعة، فجرحهم الاسد، فانتدب له رجل بحربة فقتله، وماتوا من جراحتهم كلهم، فقاموا اولياء الاول إلى اولياء الآخر، فاخرجوا السلاح ليقتتلوا، فاتاهم علي رضي الله عنه على تفيئة ذلك، فقال: تريدون ان تقاتلوا ورسول الله صلى الله عليه وسلم حي؟ إني اقضي بينكم قضاء، إن رضيتم فهو القضاء، وإلا حجز بعضكم عن بعض، حتى تاتوا النبي صلى الله عليه وسلم فيكون هو الذي يقضي بينكم، فمن عدا بعد ذلك، فلا حق له، اجمعوا من قبائل الذين حفروا البئر ربع الدية، وثلث الدية، ونصف الدية، والدية كاملة، فللاول الربع، لانه هلك من فوقه، وللثاني ثلث الدية، وللثالث نصف الدية، فابوا ان يرضوا، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم، وهو عند مقام إبراهيم، فقصوا عليه القصة، فقال:" انا اقضي بينكم"، واحتبى، فقال رجل من القوم: إن عليا قضى فينا، فقصوا عليه القصة، فاجازه رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ ، عَنْ حَنَشٍ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى قَوْمٍ قَدْ بَنَوْا زُبْيَةً لِلْأَسَدِ، فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ يَتَدَافَعُونَ، إِذْ سَقَطَ رَجُلٌ، فَتَعَلَّقَ بِآخَرَ، ثُمَّ تَعَلَّقَ رَجُلٌ بِآخَرَ، حَتَّى صَارُوا فِيهَا أَرْبَعَةً، فَجَرَحَهُمْ الْأَسَدُ، فَانْتَدَبَ لَهُ رَجُلٌ بِحَرْبَةٍ فَقَتَلَهُ، وَمَاتُوا مِنْ جِرَاحَتِهِمْ كُلُّهُمْ، فَقَامُوا أَوْلِيَاءُ الْأَوَّلِ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْآخِرِ، فَأَخْرَجُوا السِّلَاحَ لِيَقْتَتِلُوا، فَأَتَاهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى تَفِيئَةِ ذَلِكَ، فَقَالَ: تُرِيدُونَ أَنْ تَقَاتَلُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ؟ إِنِّي أَقْضِي بَيْنَكُمْ قَضَاءً، إِنْ رَضِيتُمْ فَهُوَ الْقَضَاءُ، وَإِلَّا حَجَزَ بَعْضُكُمْ عَنْ بَعْضٍ، حَتَّى تَأْتُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَكُونَ هُوَ الَّذِي يَقْضِي بَيْنَكُمْ، فَمَنْ عَدَا بَعْدَ ذَلِكَ، فَلَا حَقَّ لَهُ، اجْمَعُوا مِنْ قَبَائِلِ الَّذِينَ حَفَرُوا الْبِئْرَ رُبُعَ الدِّيَةِ، وَثُلُثَ الدِّيَةِ، وَنِصْفَ الدِّيَةِ، وَالدِّيَةَ كَامِلَةً، فَلِلْأَوَّلِ الرُّبُعُ، لِأَنَّهُ هَلَكَ مَنْ فَوْقَهُ، وَلِلثَّانِي ثُلُثُ الدِّيَةِ، وَلِلثَّالِثِ نِصْفُ الدِّيَةِ، فَأَبَوْا أَنْ يَرْضَوْا، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ عِنْدَ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَصُّوا عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ:" أَنَا أَقْضِي بَيْنَكُمْ"، وَاحْتَبَى، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: إِنَّ عَلِيًّا قَضَى فِينَا، فَقَصُّوا عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَأَجَازَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا، میں ایک ایسی قوم کے پاس پہنچا جنہوں نے شیر کو شکار کرنے کے لئے ایک گڑھا کھود کر اسے ڈھانپ رکھا تھا (شیر آیا اور اس میں گر پڑا) ابھی وہ یہ کام کر رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی اس گڑھے میں گر پڑا، اس کے پیچھے دوسرا، تیسرا حتی کہ چار آدمی گر پڑے، اس گڑھے میں موجود شیر نے ان سب کو زخمی کر دیا، یہ دیکھ کر ایک آدمی نے جلدی سے نیزہ پکڑا اور شیر کو دے مارا، شیر ہلاک ہو گیا اور وہ چاروں آدمی بھی اپنے اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے چل بسے۔ مقتولین کے اولیاء اسلحہ نکال کر جنگ کے لئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے، اتنی دیر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ آ پہنچے اور کہنے لگے کہ ابھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں تم ان کی حیات میں باہمی قتل و قتال کرو گے؟ میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں، اگر تم اس پر راضی ہو گئے تو سمجھو کہ فیصلہ ہو گیا اور اگر تم سمجھتے ہو کہ اس سے تمہاری تشفی نہیں ہوئی تو تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اس کا فیصلہ کروا لینا، وہ تمہارے درمیان اس کا فیصلہ کر دیں گے، اس کے بعد جو حد سے تجاوز کرے گا وہ حق پر نہیں ہو گا۔ فیصلہ یہ ہے کہ ان قبیلوں کے لوگوں نے اس گڑھے کی کھدائی میں حصہ لیا ہے ان سے چوتھائی دیت، تہائی دیت، نصف دیت اور کامل دیت لے کر جمع کرو اور جو شخص پہلے گر کر گڑھے میں شیر کے ہاتھوں زخمی ہوا، اس کے ورثاء کو چوتھائی دیت دے دو، دوسرے کو تہائی اور تیسرے کو نصف دیت دے دو، ان لوگوں نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا (کیونکہ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا) چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم کے پاس تھے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا قصہ سنایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں“، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوٹ مار کر بیٹھ گئے، اتنی دیر میں ایک آدمی کہنے لگا، یا رسول اللہ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان یہ فیصلہ فرمایا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو نافذ کر دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف حنش، وهو ابن المعتمر