مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
7. مسنَدِ عَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 783
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانَ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيُّ ، قَالَ: كَانَ أَبِي الْحَارِثُ عَلَى أَمْرٍ مِنْ أُمُرِ مَكَّةَ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ، فَأَقْبَلَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى مَكَّةَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ: فَاسْتَقْبَلْتُ عُثْمَانَ بِالنُّزُلِ بِقُدَيْدٍ، فَاصْطَادَ أَهْلُ الْمَاءِ حَجَلًا، فَطَبَخْنَاهُ بِمَاءٍ وَمِلْحٍ، فَجَعَلْنَاهُ عُرَاقًا لِلثَّرِيدِ، فَقَدَّمْنَاهُ إِلَى عُثْمَانَ وَأَصْحَابِهِ، فَأَمْسَكُوا، فَقَالَ عُثْمَانُ: صَيْدٌ لَمْ أَصْطَدْهُ، وَلَمْ نآمُرْ بِصَيْدِهِ، اصْطَادَهُ قَوْمٌ حِلٌّ فَأَطْعَمُونَاهُ، فَمَا بَأْسٌ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ مَنْ يَقُولُ فِي هَذَا؟ فَقَالُوا: عَلِيٌّ، فَبَعَثَ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَجَاءَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى عَلِيٍّ حِينَ جَاءَ وَهُوَ يَحُتُّ الْخَبَطَ عَنْ كَفَّيْهِ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: صَيْدٌ لَمْ نَصْطَدْهُ وَلَمْ نَأْمُرْ بِصَيْدِهِ، اصْطَادَهُ قَوْمٌ حِلٌّ، فَأَطْعَمُونَاهُ، فَمَا بَأْسٌ؟ قَالَ: فَغَضِبَ عَلِيٌّ ، وَقَالَ: أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُتِيَ بِقَائِمَةِ حِمَارِ وَحْشٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّا قَوْمٌ حُرُمٌ، فَأَطْعِمُوهُ أَهْلَ الْحِلِّ"، قَالَ: فَشَهِدَ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ عَلِيٌّ أُشْهِدُ اللَّهَ رَجُلًا شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُتِيَ بِبَيْضِ النَّعَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّا قَوْمٌ حُرُمٌ، أَطْعِمُوهُ أَهْلَ الْحِلِّ"، قَالَ: فَشَهِدَ دُونَهُمْ مِنَ الْعِدَّةِ مِنَ الِاثْنَيْ عَشَرَ، قَالَ: فَثَنَى عُثْمَانُ وَرِكَهُ عَنِ الطَّعَامِ، فَدَخَلَ رَحْلَهُ، وَأَكَلَ ذَلِكَ الطَّعَامَ أَهْلُ الْمَاءِ.
عبداللہ بن الحارث کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں میرے والد حارث مکہ مکرمہ میں کسی عہدے پر فائز تھے، ایک مرتبہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو - بقول عبداللہ بن حارث کے - میں نے قدید نامی جگہ کے پڑاؤ میں ان کا استقبال کیا، اہل ماء نے ایک گھوڑا شکار کیا، ہم نے اسے پانی اور نمک ملا کر پکایا، اور اس کا گوشت ہڈیوں سے الگ کر کے اس کا ثرید تیار کیا، اس کے بعد ہم نے وہ کھانا سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے سامنے پیش کیا، لیکن ان کے ساتھیوں نے اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ نہ تو میں نے اس شکار کو پکڑ کر شکار کیا، اور نہ ہی اسے شکار کرنے کا حکم دیا، ایک غیر محرم جماعت نے اسے شکار کیا اور وہ اسے ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں، تو اس میں کیا حرج ہے؟ اسے کون ناجائز کہتا ہے؟ لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام لگا دیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے انہیں بلاوا بھیجا، عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ وہ منظر میری نگاہوں میں اب بھی محفوظ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے گرد و غبار جھاڑتے ہوئے آرہے تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے بھی یہی فرمایا کہ نہ تو ہم نے اسے شکار کیا ہے، اور نہ ہی شکار کرنے کا حکم دیا ہے، ایک غیر محرم جماعت نے اسے شکار کر کے ہمارے سامنے کھانے کے لئے پیش کر دیا تو اس میں کیا حرج ہے؟ یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کچھ تردد کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں ہر اس شخص کو قسم دے کر کہتا ہوں جو اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنگلی گدھے کے پائے لائے گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ہم محرم لوگ ہیں، یہ اہل حل کو کھلا دو۔“ کیا ایسا ہے یا نہیں؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ صحابہ رضی اللہ عنہم کھڑے ہوگئے جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شتر مرغ کے انڈے لائے گئے، اس موقع پر موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو میں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ”ہم محرم لوگ ہیں، یہ غیر محرم لوگوں کو کھلا دو؟“ اس پر بارہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کھڑے ہوگئے، یہ دیکھ کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ دستر خوان سے اٹھ کر اپنے خیمے میں چلے گئے اور وہ کھانا اہل ماء ہی نے کھا لیا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لعلي بن زيد جدعان ، وثبت جواز أكل الصيد للمحرم إذا صاده الحلال وأهداه للمحرم في صحيح البخاري: 1821