حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کے گھر میں کسی چور نے چوری کی، انہوں نے اسے بد دعائیں دیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تم اس کا گناہ ہلکا نہ کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف إبراهيم النخعي لم يثبت له سماع من عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذی الحجہ کے دن طواف زیارت کو رات تک کے لئے مؤخر کردیا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے چاند دکھایا جو طلوع ہو رہا تھا اور فرمایا اس اندھیری رات کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو جب وہ چھا جایا کرے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے متعلق فرمایا " جو ایام سے پاکیزگی حاصل ہونے کے بعد کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے شک میں مبتلا کر دے " کہ یہ رگ کا خون ہوتا ہے۔
حدثنا عبد الملك بن عمرو , وقال: حدثنا علي , عن يحيى , قال: حدثني ابو قلابة , ان عبد الرحمن بن شيبة ، خازن البيت , اخبره، ان عائشة اخبرته، ان النبي صلى الله عليه وسلم طرقه وجع , فجعل يشتكي ويتقلب على فراشه , فقالت له عائشة: لو فعل هذا بعضنا لوجدت عليه , فقال: " إن المؤمنين يشدد عليهم فإنه ليس من مؤمن يصيبه نكبة شوكة ولا وجع إلا رفع الله عز وجل له بها درجة وحط بها عنه خطيئة" او كالذي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو , وَقَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيٌ , عَنْ يَحْيَى , قَال: حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ , أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شَيْبَةَ ، خَازِنَ الْبَيْتِ , أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَجَعٌ , فَجَعَلَ يَشْتَكِي وَيَتَقَلَّبُ عَلَى فِرَاشِه , فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَة: لَوْ فَعَلَ هَذَا بَعْضُنَا لَوَجِدْتَ عَلَيْه , فَقَال: " إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ يُشَدَّدُ عَلَيْهِمْ فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ مُؤْمِنٍ يُصِيبُهُ نَكْبَةٌ شَوْكَةٌ وَلَا وَجَعٌ إِلَّا رَفَعَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بِهَا دَرَجَةً وَحَطَّ بِهَا عَنْهُ خَطِيئَةً" أَوْ كَالَّذِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت بیمار تھے، اس لئے بستر پر لیٹے لیٹے باربار کروٹیں بدلنے لگے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص اس طرح کرتا تو آپ اس سے ناراض ہوتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیک لوگوں پر سختیاں آتی رہتی ہیں اور کسی مسلمان کو کانٹے یا اس سے بھی کم درجے چیز سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کا ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے اور ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے۔
حدثنا عبد الملك بن عمرو , حدثنا ابن ابي ذئب , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت:" كان رسول الله يصلي ما بين ان يفرغ من صلاة العشاء وهي التي تسمون او تدعون العتمة إلى الفجر إحدى عشرة سجدة , يسلم بين كل سجدتين ويوتر بواحدة , ويسجد في سبحته بقدر ما يقرا احدكم خمسين آية قبل ان يرفع راسه فإذا سكت المؤذن بالاولى من صلاة الصبح , ركع ركعتين خفيفتين , ثم اضطجع على شقه الايمن فياتيه المؤذن فيخرج معه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْب , عَنْ الزُّهْرِي ، عَنْ عُرْوَة , عَنْ عَائِشَة , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ يُصَلِّي مَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ وَهِيَ الَّتِي تُسَمُّونَ أَوْ تَدْعُونَ الْعَتَمَةَ إِلَى الْفَجْر إِحْدَى عَشْرَةَ سَجْدَةً , يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ سَجْدَتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَة , وَيَسْجُدُ فِي سُبْحَتِهِ بِقَدْرِ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ بِالْأُولَى مِنْ صَلَاةِ الصُّبْح , رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْن , ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ فَيَأْتِيهِ الْمُؤَذِّنُ فَيَخْرُجُ مَعَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء اور فجر کے درمیان گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ہر دو رکعت پر سلام پھیر دیتے تھے اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، نوافل میں اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ ان کے سر اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی شخص پچاس آیتیں پڑھ لے، جب مؤذن پہلی اذان دے کر فارغ ہوتا تو وہ مختصر پڑھتے، پھر دائیں پہلو پر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ مؤذن آجاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دیتا۔
حدثنا عبد الملك بن عمرو , قال: حدثنا ابن ابي ذئب , عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم اعتم بصلاة العشاء ذات ليلة , فقال عمر: يا رسول الله , نام النساء والصبيان , فخرج النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: " ما من الناس من احد ينتظر هذه الصلاة غيركم" , قال: وذاك قبل ان يفشو الإسلام في الناس..حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو , قَال: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَمَ بِصَلَاةِ الْعِشَاءِ ذَاتَ لَيْلَة , فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ , فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم , فَقَال: " مَا مِنَ النَّاسِ مِنْ أَحَدٍ يَنْتَظِرُ هَذِهِ الصَّلَاةَ غَيْرَكُمْ" , قَالَ: وَذَاكَ قَبْلَ أَنْ يَفْشُوَ الْإِسْلَامُ فِي النَّاس..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء میں تاخیر کردی، حتیٰ کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے اور فرمایا اہل زمین میں سے اس وقت کوئی بھی آدمی ایسا نہیں ہے جو تمہارے علاوہ یہ نماز پڑھ رہا ہو، یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگوں میں اسلام نہیں پھیلا تھا۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
دقرہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ طواف کر رہے تھے کہ ان کے پاس ان کے اہل خانہ میں سے کوئی آیا اور کہنے لگا کہ آپ کو پسینہ آرہا ہے، کپڑے بدل لیجئے، چنانچہ انہوں نے اوپر کے کپڑے اتار دیئے، میں نے ان کے سامنے اپنی چادر پیش کی چس پر صیلب کا نشان بنا ہوا تھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کپڑے پر صلیب کا نشان دیکھتے تو اسے ختم کردیتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہ چادر نہیں اوڑھی۔
حدثنا إسماعيل , قال: اخبرنا ايوب , عن عكرمة بن خالد , عن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث ، قال: إني لاعلم الناس بهذا الحديث , قال بلغ مروان، ان ابا هريرة يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه من ادركه الصبح وهو جنب , فلا يصومن يومئذ , فارسل إلى عائشة يسالها عن ذاك؟ فانطلقت معه , فسالها، فقالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبح جنبا من غير احتلام , ثم يصوم" فرجع إلى مروان , فحدثه , فقال: الق ابا هريرة , فحدثه , قال: إنه لجاري , وإني لاكره ان استقبله بما يكره , فقال: اعزم عليك لتلقينه , قال: فلقيه , فقال: يا ابا هريرة والله إن كنت لاكره ان استقبلك بما تكره , ولكن الامير عزم علي , قال: فحدثته , فقال: حدثنيه الفضل.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ , عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِد , عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِث ، قَالَ: إِنِّي لَأَعْلَمُ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ , قَالَ بَلَغَ مَرْوَانُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَنْ أَدْرَكَهُ الصُّبْحُ وَهُوَ جُنُب , فَلَا يَصُومَنَّ يَوْمَئِذ , فَأَرْسَلَ إِلَى عَائِشَةَ يَسْأَلُهَا عَنْ ذَاكَ؟ فَانْطَلَقَتْ مَعَه , فَسَأَلَهَا، فَقَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَيْرِ احْتِلَام , ثُمَّ يَصُومُ" فَرَجَعَ إِلَى مَرْوَانَ , فَحَدَّثَهُ , فَقَال: َالْقَ أَبَا هُرَيْرَةَ , فَحَدِّثْه , َقَالَ: إِنَّهُ لَجَارِي , وَإِنِّي لَأَكْرَهُ أَنْ أَسْتَقْبِلَهُ بِمَا يَكْرَهُ , فَقَال: َأَعْزِمُ عَلَيْكَ لَتَلْقَيَنَّهُ , قَال: َفَلَقِيَهُ , فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَكْرَهُ أَنْ أَسْتَقْبِلَكَ بِمَا تَكْرَهُ , وَلَكِنَّ الْأَمِيرَ عَزَمَ عَلَيَّ , قَالَ: فَحَدَّثْتُهُ , فَقَال: َحَدَّثَنِيهِ الْفَضْلُ.
ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ جو آدمی صبح کے وقت جنبی ہو، اس کا روزہ نہیں ہوتا، مروان کو پتہ چلا تو ایک مرتبہ اس نے ایک آدمی کے ساتھ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پوچھنے کے لئے بھیجا کہ اگر کوئی آدمی رمضان کے مہینے میں اس حال میں صبح کرے کہ وہ جنبی ہو اور اس نے اب تک غسل نہ کیا ہو تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھے بغیر اختیاری طور پر صبح کے وقت حالت جنابت میں ہوتے اور اپنا روزہ مکمل کرلیتے تھے، ہم دونوں نے واپس آکر مروان کو یہ بات بتائی، مروان نے مجھ سے کہا کہ یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بتادو، میں نے اس سے کہا کہ وہ میرے پڑوسی ہیں، میں اس چیز کو اچھا نہیں سمجھتا کہ ان کے سامنے کوئی ناگوار بات رکھوں، اس نے مجھے قسم دے دی، چنانچہ میں نے اس سے ملاقات کی اور انہیں بتادیا کہ میں تو آپ کے سامنے اسے بیان نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن گورنر صاحب نے مجھے قسم دے دی تھی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ بات مجھ سے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی عورت کی چھاتی سے ایک دو مرتبہ دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه لأن سليمان بن موسى لم يدرك عائشة
حدثنا إسماعيل , عن يونس , عن الحسن , قال: سئلت عائشة ، عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقالت: " كان خلقه القرآن" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , عَنْ يُونُسَ , عَنِ الْحَسَنِ , قَال: سُئِلَتْ عَائِشَةُ ، عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم , فَقَالَت: " كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ" .
حسن کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تو قرآن تھا۔
حدثنا إسماعيل , قال: اخبرنا محمد بن عمرو , عن ابي سلمة ، قال: قلت لعائشة : اي امه اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينام وهو جنب؟ قالت: " نعم، لم يكن ينام حتى يغسل فرجه ويتوضا وضوءه للصلاة" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَة ، قَال: قُلْتُ لِعَائِشَة : َأَيْ أُمَّهْ أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنَامُ وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَت: " نَعَمْ، لَمْ يَكُنْ يَنَامُ حَتَّى يَغْسِلَ فَرْجَهُ وَيَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاة" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وجوبِ غسل کی حالت میں سونا چاہتے تو شرمگاہ کو دھو کر نماز جیسا وضو فرما لیتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل محمد ابن عمرو
حدثنا إسماعيل , قال: اخبرنا ابن عون , عن إبراهيم , عن الاسود ، ومسروق ، قال: اتينا عائشة لنسالها عن المباشرة للصائم , فاستحينا فقمنا قبل ان نسالها فمشينا لا ادري كم , ثم قلنا: جئنا لنسالها عن حاجة , ثم نرجع قبل ان نسالها , فرجعنا , فقلنا: يا ام المؤمنين إنا جئنا لنسالك عن شيء , فاستحينا فقمنا , فقالت: ما هو؟ سلا عما بدا لكما , قلنا: اكان النبي صلى الله عليه وسلم يباشر وهو صائم؟ قالت: " قد كان يفعل ذلك ولكنه كان املك لإربه منكم" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَال: َأَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ ، وَمَسْرُوق ، قَال: أَتَيْنَا عَائِشَةَ لِنَسْأَلَهَا عَنِ الْمُبَاشَرَةِ لِلصَّائِم , فَاسْتَحَيْنَا فَقُمْنَا قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهَا فَمَشَيْنَا لَا أَدْرِي كَمْ , ثُمَّ قُلْنَا: جِئْنَا لِنَسْأَلَهَا عَنْ حَاجَةٍ , ثُمَّ نَرْجِعُ قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهَا , فَرَجَعْنَا , فَقُلْنَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّا جِئْنَا لِنَسْأَلَكِ عَنْ شَيْءٍ , فَاسْتَحَيْنَا فَقُمْنَا , فَقَالَتْ: مَا هُوَ؟ سَلَا عَمَّا بَدَا لَكُمَا , قُلْنَا: أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ؟ قَالَت: " قَدْ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ وَلَكِنَّهُ كَانَ أَمْلَكَ لِإِرْبِهِ مِنْكُمْ" .
اسود اور مسروق کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے " مباشرتِ صائم " کا حکم پوچھنے لگے، لیکن ان سے پوچھتے ہوئے شرم آئی اس لئے ان سے پوچھے بغیر ہی کھڑے ہوگئے، تھوڑی دور ہی چل کر گئے تھے " جس کی مسافت مجھے یاد نہیں " کہ ہمارے دل میں خیال آیا کہ ہم ان سے ایک ضروری بات پوچھنے کے لئے گئے تھے اور بغیر پوچھے واپس آگئے، یہ سوچ کر ہم واپس آگئے اور عرض کیا ام المومنین! ہم آپ کے پاس ایک مسئلہ پوچھنے کے لئے آئے تھے لیکن شرم کی وجہ سے پوچھے بغیر ہی چلے گئے تھے، انہوں نے فرمایا جو چاہو پوچھ سکتے ہو، ہم نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا باجودیکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش پر تم سے زیادہ قابو رکھتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے جسم سے اپنا جسم لگا لیتے تھے۔
حدثنا إسماعيل , حدثنا يونس , عن الحسن , قال: قال رجل : قلت لعائشة : ما كان يقضي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم غسله من الجنابة , قال: " فدعت بإناء حزرته صاعا بصاعكم هذا" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنَا يُونُسُ , عَنْ الْحَسَنِ , قَال: َقَالَ رَجُلٌ : قُلْتُ لِعَائِشَة : َمَا كَانَ يَقْضِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلَهُ مِنَ الْجَنَابَةِ , قَال: َ" فَدَعَتْ بِإِنَاءٍ حَزَرَتْهُ صَاعًا بِصَاعِكُمْ هَذَا" .
ایک صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ غسل جنابت کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنا پانی کفایت کرجاتا تھا؟ اس پر انہوں نے ایک برتن منگوایا، میں نے اس کا اندازہ کیا تو وہ موجودہ صاع کے برابر ایک صاع تھا۔
حدثنا حدثنا إسماعيل , حدثنا ايوب , قال: سمعت القاسم , يقول: قالت عائشة " طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم لحله ولحرمه" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنَا أَيُّوبُ , قَال: َسَمِعْتُ الْقَاسِمَ , يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَة ُ" طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحِلِّهِ وَلِحُرْمِهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام پر خوشبو لگائی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھتے تھے اور طوافِ زیارت سے قبل حلال ہونے کے بعد بھی خوشبو لگائی ہے۔
حدثنا إسماعيل , حدثنا ايوب , قال: سمعت القاسم بن محمد يحدث , عن عائشة , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يبعث بالهدي , فافتل قلائدها بيدي , ثم لا يمسك عن شيء لا يمسك عنه الحلال" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنَا أَيُّوبُ , قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ يُحَدِّثُ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْعَثُ بِالْهَدْيِ , فَأَفْتِلُ قَلَائِدَهَا بِيَدَيَّ , ثُمَّ لَا يُمْسِكُ عَنْ شَيْءٍ لَا يُمْسِكُ عَنْهُ الْحَلَالُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانوروں کا قلادہ اپنے ہاتھوں سے بٹا کرتی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے روانہ کردیتے اور جو کام پہلے کرتے تھے، ان میں سے کوئی کام نہ چھوڑتے تھے۔
حدثنا إسماعيل , قال: اخبرنا خالد , عن عبد الله بن شقيق , قال: سالت عائشة ، عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت:" كان يصلي اربعا قبل الظهر , وثنتين بعدها , وثنتين قبل العصر , وثنتين بعد المغرب , وثنتين بعد العشاء , ثم يصلي من الليل تسعا" , قلت: اقائما او قاعدا؟ قالت:" يصلي ليلا طويلا قائما , وليلا طويلا قاعدا" , قلت: كيف يصنع إذا كان قائما؟ وكيف يصنع إذا كان قاعدا؟ قالت:" إذا قرا قائما , ركع قائما , وإذا قرا قاعدا , ركع قاعدا , وركعتين قبل صلاة الصبح" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَال: َأَخْبَرَنَا خَالِدٌ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ , قَال: سَأَلْتُ عَائِشَةَ ، عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ:" كَانَ يُصَلِّي أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ , وَثِنْتَيْنِ بَعْدَهَا , وَثِنْتَيْنِ قَبْلَ الْعَصْرِ , وَثِنْتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ , وَثِنْتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ , ثُمَّ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ تِسْعًا" , قُلْتُ: أَقَائِمًا أَوْ قَاعِدًا؟ قَالَتْ:" يُصَلِّي لَيْلًا طَوِيلًا قَائِمًا , وَلَيْلًا طَوِيلًا قَاعِدًا" , قُلْت: ُكَيْفَ يَصْنَعُ إِذَا كَانَ قَائِمًا؟ وَكَيْفَ يَصْنَعُ إِذَا كَانَ قَاعِدًا؟ قَالَت:" إِذَا قَرَأَ قَائِمًا , رَكَعَ قَائِمًا , وَإِذَا قَرَأَ قَاعِدًا , رَكَعَ قَاعِدًا , وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الصُّبْح" .
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نمازوں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز سے پہلے میرے گھر میں چار رکعتیں پڑھتے تھے، پھر باہر جا کر لوگوں کو نماز پڑھاتے اور میرے گھر واپس آکر دو رکعتیں پڑھتے، پھر لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھا کر گھر تشریف لاتے اور دو رکعتیں پڑھتے، پھر عشاء کی نماز پڑھاتے اور میرے گھر تشریف لا کردو رکعتیں پڑھتے، رات کے وقت نو رکعتیں پڑھتے جن میں وتر بھی شامل ہوتے، رات کی نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم طویل قیام فرماتے اور کافی دیر تک بیٹھتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر بھی تلاوت اور رکوع و سجود فرماتے تھے اور بیٹھ کر بھی تلاوت اور رکوع و سجود فرماتے تھے اور جب طلوع صبح صادق ہوجاتی تو دو رکعتیں پڑھتے، پھر باہر جا کر لوگوں کو نماز فجر پڑھاتے تھے۔
حدثنا إسماعيل , قال: حدثنا داود , عن الشعبي ، قال: قالت عائشة لابن ابي السائب قاص اهل المدينة " ثلاثا لتبايعني عليهن او لاناجزنك؟" فقال ما هن؟ بل انا ابايعك يا ام المؤمنين , قالت:" اجتنب السجع من الدعاء فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه كانوا لا يفعلون ذلك" , وقال إسماعيل مرة , فقالت:" إني عهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه وهم لا يفعلون ذاك" , وقص على الناس في كل جمعة مرة , فإن ابيت فثنتين , فإن ابيت فثلاثا , فلا تمل الناس هذا الكتاب ولا الفينك تاتي القوم وهم في حديث من حديثهم , فتقطع عليهم حديثهم ولكن اتركهم , فإذا جرءوك عليه وامروك به فحدثهم .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ , عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَال: َقَالَتْ عَائِشَةُ لِابْنِ أَبِي السَّائِبِ قَاصِّ أَهْلِ الْمَدِينَة ِ" ثَلَاثًا لَتُبَايِعَنِّي عَلَيْهِنَّ أَوْ لَأُنَاجِزَنَّكَ؟" فَقَالَ مَا هُنَّ؟ بَلْ أَنَا أُباِيعُكِ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , قَالَتْ:" اجْتَنِبْ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَاءِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ كَانُوا لَا يَفْعَلُونَ ذَلِك" , وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً , فَقَالَتْ:" إِنِّي عَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ وَهُمْ لَا يَفْعَلُونَ ذَاكَ" , وَقُصَّ عَلَى النَّاسِ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّةً , فَإِنْ أَبَيْتَ فَثِنْتَيْنِ , فَإِنْ أَبَيْتَ فَثَلَاثًا , فَلَا تَمَلُّ النَّاسُ هَذَا الْكِتَابَ وَلَا أَلْفيَنَّكَ تَأْتِي الْقَوْمَ وَهُمْ فِي حَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِهِمْ , فَتَقْطَعُ عَلَيْهِمْ حَدِيثَهُمْ وَلَكِنْ اتْرُكْهُمْ , فَإِذَا جَرَّءُوكَ عَلَيْهِ وَأَمَرُوكَ بِهِ فَحَدِّثْهُمْ .
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مدینہ منورہ کے ایک واعظ " جس کا نام ابن ابی السائب تھا " سے فرمایا کہ تین باتیں ہیں جنہیں میرے سامنے ماننے کا اقرار کرو، ورنہ میں تم سے جنگ کروں گی، اس نے پوچھا وہ کیا؟ اے ام المومنین! میں آپ کے سامنے ان کو تسلیم کرنے کا اقرار کرتا ہوں، انہوں نے فرمایا کہ دعا میں الفاظ کی تک بندی سے اجتناب کیا کرو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہ ایسا نہیں کرتے تھے، دوسرے یہ کہ جمعہ میں لوگوں کے سامنے صرف ایک مرتبہ وعظ کہا کرو، اگر نہ مانو تو دو مرتبہ ورنہ تین مرتبہ، تم اس کتاب سے لوگوں کو اکتاہٹ میں مبتلا نہ کرو اور تیسرے یہ کہ میں تمہیں کبھی اس طرح نہ پاؤں کہ تم لوگوں کے پاس پہنچو، وہ اپنی باتوں میں مشغول ہوں اور تم ان کے درمیان قطع کلامی کرنے لگو، بلکہ انہیں چھوڑے رکھو، اگر وہ تمہیں آگے بڑھنے دیں اور گفتگو میں شریک ہونے کا حکم دیں تب ان کی گفتگو میں شریک ہوا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه لأن الشعبي لم يسمع من عائشة
حدثنا إسماعيل , عن خالد , قال: حدثني رجل , عن ابي العالية , عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم , كان يقول في سجود القرآن بالليل , يقوله في السجدة مرارا: " سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , عَنْ خَالِدٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ , عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , كَانَ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ , يَقُولُهُ فِي السَّجْدَةِ مِرَارًا: " سَجَدَ وَجْهِيَ لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ تلاوت میں فرمایا کرتے تھے " میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا جس نے اسے پیدا کیا اور اسے قوت شنوائی و گویائی عطاء فرمائی اور یہ سجدہ بھی اس کی توفیق اور مدد سے ہوا ہے "۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف الإبهام الرجل بن خالد و أبى العالية
حدثنا إسماعيل , قال: حدثنا عباد بن منصور , قال: قلت للقاسم بن محمد : امراة ابي ارضعت جارية من عرض الناس بلبن اخوي , افترى اني اتزوجها؟ فقال: لا ابوك ابوها , قال: ثم حدث حديث ابي القعيس , فقال: إن ابا القعيس اتى عائشة يستاذن عليها , فلم تاذن , له فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: يا رسول الله إن ابا قعيس جاء يستاذن علي , فلم آذن له , فقال: " هو عمك فليدخل عليك" فقلت: إنما ارضعتني المراة , ولم يرضعني الرجل , فقال: " هو عمك فليدخل عليك" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَال: َحَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ , قَال: َقُلْتُ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ : امْرَأَةُ أَبِي أَرْضَعَتْ جَارِيَةً مِنْ عُرْضِ النَّاسِ بِلَبَنِ أَخَوَيَّ , أَفَتَرَى أَنِّي أَتَزَوَّجُهَا؟ فَقَال: َلَا أَبُوكَ أَبُوهَا , قَال: َثُمَّ حَدَّثَ حَدِيثَ أَبِي الْقُعَيْسِ , فَقَال: َإِنَّ أَبَا الْقُعَيْسِ أَتَى عَائِشَةَ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَا , فَلَمْ تَأْذَنْ , لَهُ فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَت: ْيَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا قُعَيْسٍ جَاءَ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ , فَلَمْ آذَنْ لَهُ , فَقَالَ: " هُوَ عَمُّكِ فَلْيَدْخُلْ عَلَيْكِ" فَقُلْتُ: إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ , وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ , فَقَال: َ" هُوَ عَمُّكَ فَلْيَدْخُلْ عَلَيْكِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابوقیس کے بھائی " افلح " نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نامحرم سمجھ کر اجازت دینے سے انکار کردیا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو ان سے ذکر کردیا کہ یار سول اللہ! ابوقیس کے بھائی افلح نے مجھ سے گھر میں آنے کی اجازت مانگی تھی لیکن میں نے اجازت دینے سے انکار کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اجازت دے دیا کرو، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے تو دودھ نہیں پلایا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تمہارے چچا ہیں، انہیں اجازت دے دیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عباد بن منصور، خ: 4796، م: 1445
حدثنا إسماعيل , قال: حدثني سليمان بن المغيرة , عن حميد بن هلال , قال: قالت عائشة " بعث إلينا آل ابي بكر بقائمة شاة ليلا , فامسك رسول الله صلى الله عليه وسلم وقطعت , او امسكت وقطع , فقال: الذي تحدثه: اعلى غير مصباح؟ فقالت: لو كان عندنا مصباح لائتدمنا به , إن كان لياتي على آل محمد صلى الله عليه وسلم الشهر ما يختبزون خبزا , ولا يطبخون قدرا" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَال: َحَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ الْمغِيرَةِ , عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ , قَال: َقَالَتْ عَائِشَة " بَعَثَ إِلَيْنَا آلُ أَبِي بَكْرٍ بِقَائِمَةِ شَاةٍ لَيْلًا , فَأَمْسَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَطَعْتُ , أَوْ أَمْسَكْتُ وَقَطَعَ , فَقَالَ: الَّذِي تُحَدِّثُه: ُأَعَلَى غَيْرِ مِصْبَاحٍ؟ فَقَالَتْ: لَوْ كَانَ عِنْدَنَا مِصْبَاحٌ لَائْتَدَمْنَا بِهِ , إِنْ كَانَ لَيَأْتِي عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهْرُ مَا يَخْتَبِزُونَ خُبْزًا , وَلَا يَطْبُخُونَ قِدْرًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر والوں نے ہمارے یہاں بکری کا ایک پایہ بھیجا، میں نے اسے پکڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے توڑا اور یہ کام چراغ کے بغیر ہو، اگر ہمارے پاس چراغ ہوتا تو اسی کے ذریعے سالن حاصل کرلیتے اور بعض اوقات آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ایک مہینہ اس طرح گزر جاتا تھا کہ وہ کوئی روٹی پکارتے تھے اور نہ کوئی ہنڈیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه لأن حميدا لم يسمع من عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن مبارک جب بھاری ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر ہی " جتنی اللہ کو منظور ہوتی " نماز پڑھ لیتے تھے اور جب اس سورت کی تیس یا چالیس آیات رہ جاتیں تو کھڑے ہوجاتے، پھر ان کی تلاوت کر کے رکوع میں جاتے تھے۔
حدثنا إسماعيل , قال: اخبرنا ايوب , عن نافع , ان امراة دخلت على عائشة , فإذا رمح منصوب , فقالت: ما هذا الرمح؟ فقالت: نقتل به الاوزاغ , ثم حدثت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم " ان إبراهيم لما القي في النار جعلت الدواب كلها تطفئ عنه إلا الوزغ فإنه جعل ينفخها عليه" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَال: َأَخْبَرَنَا أَيُّوبُ , عَنْ نَافِعٍ , أَنَّ امْرَأَةً دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ , فَإِذَا رُمْحٌ مَنْصُوبٌ , فَقَالَت: ْمَا هَذَا الرُّمْحُ؟ فَقَالَت: ْنَقْتُلُ بِهِ الْأَوْزَاغَ , ثُمَّ حَدَّثَتْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّ إِبْرَاهِيمَ لَمَّا أُلْقِيَ فِي النَّارِ جَعَلَتْ الدَّوَابُّ كُلُّهَا تُطْفِئُ عَنْهُ إِلَّا الْوَزَغَ فَإِنَّهُ جَعَلَ يَنْفُخُهَا عَلَيْهِ" .
ایک خاتون کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی تو ان کے گھر میں ایک نیزہ رکھا ہوا دیکھا، میں نے ان سے پوچھا کہ اے ام المومنین! آپ اس نیزے کا کیا کرتی ہیں؟ انہوں نے فرمایا یہ ان چھپکلیوں کے لئے رکھا ہوا ہے اور اس سے مارتی ہوں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو زمین میں کوئی جانور ایسا نہ تھا جو آگ کو بجھا نہ رہا ہو سوائے اس چھپکلی کے کہ یہ اس میں پھونکیں مار رہی تھی۔
حدثنا إسماعيل , قال: اخبرنا داود , عن الشعبي , قال: قالت عائشة : يا رسول الله ارايت إذا بدلت الارض غير الارض , والسموات , وبرزوا لله الواحد القهار , اين الناس يومئذ؟ قال: " الناس يومئذ على الصراط" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَال: َأَخْبَرَنَا دَاوُدُ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِذَا بُدِّلَتْ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ , وَالسَّمَوَاتُ , وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ , أَيْنَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ؟ قَال: " النَّاسُ يَوْمَئِذٍ عَلَى الصِّرَاطِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اس آیت " یوم تبدل الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ " کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے پہلے سوال پوچھنے والی میں ہی تھی، میں نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ! (جب زمین بدل دی جائے گی تو) اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پل صراط پر۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد فيه انقطاع بين الشعبي وعائشة
حدثنا إسماعيل , ويزيد المعنى , قالا: انا الجريري ، عن عبد الله بن شقيق , قال: قلت لعائشة اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقرا السور؟ قالت: " المفصل" قلت: اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قاعدا؟ قالت:" نعم بعدما حطمه الناس" قلت: اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى , قالت:" لا إلا ان يجيء من مغيبه" قلت: اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم شهرا سوى رمضان؟ قالت: لا والله إن صام شهرا تاما سوى رمضان , ولا افطره كله حتى يصوم منه شيئا , قلت: اي اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كان احب إليه؟ قالت:" ابو بكر" , قلت: ثم من؟ قالت:" ثم عمر" , قلت: ثم من؟ قالت:" ابو عبيدة بن الجراح" قال: يزيد , قلت: ثم من؟ قال: فسكتت .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , وَيَزِيدُ الْمَعْنَى , قَالَا: أَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ , قَال: قُلْتُ لِعَائِشَة َأَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقْرَأُ السُّوَرَ؟ قَالَتْ: " الْمُفَصّلَ" قُلْتُ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا؟ قَالَت:" نَعَمْ بَعْدَمَا حَطَمَهُ النَّاسُ" قُلْتُ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى , قَالَتْ:" لَا إِلَّا أَنْ يَجِيءَ مِنْ مَغِيبِهِ" قُلْتُ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرًا سِوَى رَمَضَانَ؟ قَالَت: ْلَا وَاللَّهِ إِنْ صَامَ شَهْرًا تَامًّا سِوَى رَمَضَانَ , وَلَا أَفْطَرَهُ كُلَّهُ حَتَّى يَصُومَ مِنْهُ شَيْئًا , قُلْت: ُأَيُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ؟ قَالَت:" أَبُو بَكْرٍ" , قُلْت: ُثُمَّ مَنْ؟ قَالَت:" ثُمَّ عُمَرُ" , قُلْتُ: ثُمَّ مَن؟ قَالَت:" أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ" قَال: َيَزِيدُ , قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَال: َفَسَكَتَتْ .
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت میں کئی سورتیں پڑھ لیتے تھے؟ انہوں نے فرمایا مفصلات۔ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے، انہوں نے فرمایا لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کے بعد پڑھنے لگے تھے۔ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا نہیں، الاّ یہ کہ وہ کسی سفر سے واپس آئے ہوں۔ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے کے پورے روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے رمضان کے علاوہ کوئی ایسا مہینہ معلوم نہیں ہے جس کے پورے روزے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھے ہوں اور مجھے کوئی ایسا مہنیہ بھی معلوم نہیں ہے جس میں کوئی روزہ نہ رکھا ہو۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ اکرام میں سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ انہوں نے فرمایا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں نے پوچھا اس کے بعد؟ انہوں نے فرمایا عمر، میں نے پوچھا اس کے بعد؟ انہوں نے فرمایا ابوعبیدہ بن جراح، میں نے پوچھا اس کے بعد؟ تو وہ خاموش رہے۔
حدثنا إسماعيل , قال: اخبرنا خالد , قال: ذكروا عند ابي قلابة خروج النساء في العيد , قال: قالت عائشة " كانت الكعاب تخرج لرسول الله صلى الله عليه وسلم من خدرها" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَال: َأَخْبَرَنَا خَالِدٌ , قَالَ: ذَكَرُوا عِنْدَ أَبِي قِلَابَةَ خُرُوجَ النِّسَاءِ فِي الْعِيدِ , قَال: َقَالَتْ عَائِشَةُ " كَانَتْ الْكِعَابُ تَخْرُجُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خِدْرِهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ عیدین کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی (دعائیں حاصل کرنے کی نیت اور) بناء پر کنواری لڑکیوں کو بھی ان کی پردہ نشینی کے باوجود عیدگاہ لے جایا جاتا تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو قلابة كثير الإرسال
حدثنا إسماعيل , عن يونس , عن الحسن , عن عائشة , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من احب لقاء الله احب الله لقاءه , ومن كره لقاء الله عز وجل كره الله لقاءه" , فقالت عائشة: يا رسول الله كراهية لقاء الله ان يكره الموت؟ فوالله إنا لنكرهه , فقال: " لا ليس بذاك ولكن المؤمن إذا قضى الله عز وجل قبضه , فرج له عما بين يديه من ثواب الله عز وجل وكرامته , فيموت حين يموت وهو يحب لقاء الله عز وجل , والله يحب لقاءه , وإن الكافر والمنافق إذا قضى الله عز وجل قبضه , فرج له عما بين يديه من عذاب الله عز وجل وهوانه , فيموت حين يموت وهو يكره لقاء الله , والله يكره لقاءه" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , عَنْ يُونُسَ , عَنِ الْحَسَنِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: َ" مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ , وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ" , فَقَالَتْ عَائِشَة: ُيَا رَسُولَ اللَّهِ كَرَاهِيَةُ لِقَاءِ اللَّهِ أَنْ يَكْرَهَ الْمَوْتَ؟ فَوَاللَّهِ إِنَّا لَنَكْرَهُهُ , فَقَال: َ" لَا لَيْسَ بِذَاكَ وَلَكِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا قَضَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَبْضَهُ , فَرَّجَ لَهُ عَمَّا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ ثَوَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَكَرَامَتِهِ , فَيَمُوتُ حِينَ يَمُوتُ وَهُوَ يُحِبُّ لِقَاءَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَاللَّهُ يُحِبُّ لِقَاءَهُ , وَإِنَّ الْكَافِرَ وَالْمُنَافِقَ إِذَا قَضَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَبْضَهُ , فَرَّجَ لَهُ عَمَّا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَهَوَانِهِ , فَيَمُوتُ حِينَ يَمُوتُ وَهُوَ يَكْرَهُ لِقَاءَ اللَّهِ , وَاللَّهُ يَكْرَهُ لِقَاءَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ سے ملنے کو پسند کرتا ہے، اللہ اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ سے ناملنے کی ناپسندیدگی کا مطلب اگر موت سے نفرت ہے تو ہم میں واللہ ہر ایک موت کو ناپسند کرتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، یہ مراد نہیں بلکہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ مومن کی روح قبض کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس نے اپنے یہاں اس کے لئے جو ثواب اور عزت تیار کر رکھی ہوتی ہے وہ اس کے سامنے منکشف فرما دیتا ہے چنانچہ جس وقت وہ مرتا ہے تو اسے اللہ سے ملنے کی چاہت ہوتی ہے اور اللہ اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی کافر کی روح قبض کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس نے اپنے یہاں اس کے لئے جو عذاب اور ذلت تیار کر رکھی ہوتی ہے، وہ اس کے سامنے منکشف فرما دیتا ہے چنانچہ جس وقت وہ مرتا ہے تو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد فيه عنعنة الحسن وفي سماعه من عائشة نظر
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانور یعنی بکری کے قلادہ بٹا کرتی تھی، اس کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے اپنے آپ کو نہیں روکتے تھے (جن سے محرم بچتے تھے) یہاں تک کہ حاجی واپس آجاتے۔
حدثنا بهز , حدثنا حماد , عن علي بن زيد , عن امية , انها سالت عائشة عن هذه الآية إن تبدوا ما في انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله سورة البقرة آية 284 وعن هذه الآية من يعمل سوءا يجز به سورة النساء آية 123 , فقالت: ما سالني عنهما احد منذ سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عنهما , فقال: " يا عائشة هذه متابعة الله عز وجل العبد بما يصيبه من الحمة والنكبة والشوكة , حتى البضاعة يضعها في كمه , فيفقدها , فيفزع لها , فيجدها في ضبنه , حتى إن المؤمن ليخرج من ذنوبه كما يخرج التبر الاحمر من الكير" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ , عَنْ أُمَيَّةَ , أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ عَنْ هَذِهِ الْآيَة إِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ سورة البقرة آية 284 وَعَنْ هَذِهِ الْآيَةِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ سورة النساء آية 123 , فَقَالَتْ: مَا سَأَلَنِي عَنْهُمَا أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمَا , فَقَالَ: " يَا عَائِشَةُ هَذِهِ مُتَابَعَةُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ الْعَبْدَ بِمَا يُصِيبُهُ مِنَ الْحُمَّةِ وَالنَّكْبَةِ وَالشَّوْكَةِ , حَتَّى الْبِضَاعَةُ يَضَعُهَا فِي كُمِّهِ , فَيَفْقِدُهَا , فَيَفْزَعُ لَهَا , فَيَجِدُهَا فِي ضِبْنِهِ , حَتَّى إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِهِ كَمَا يَخْرُجُ التِّبْرُ الْأَحْمَرُ مِنَ الْكِيرِ" .
امیر سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان دو آیتوں کا مطلب پوچھا " اگر تم اپنے دلوں کی باتوں کو ظاہر کردیا یا چھپاؤ، دونوں صورتوں میں اللہ تم سے اس کا محاسبہ کرے گا " اور یہ کہ جو " شخص کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کا بد لہ دیا جائے گا " تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان آیتوں کے متعلق پوچھا ہے آج تک کسی نے مجھ سے ان کے متعلق نہیں پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اس سے مراد وہ پے درپے آنے والی مصیبتیں ہیں جو اللہ اپنے بندے پر مسلط کرتا ہے، مثلاً کسی جانور کا ڈس لینا، تکلیف پہنچ جانا اور کانٹا چبھ جانا، یا وہ سامان جو آدمی آستین میں رکھے اور اسے گم کر بیٹھے، پھر گھبرا کر تلاش کرے تو اسے اپنے پہلو کے درمیان پائے حتیٰ کہ مومن اپنے گناہوں سے اس طرح نکل آتا ہے، جیسے بھٹی سے سرخ سونے کی ڈلی نکل آتی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة لضعف على بن زيد ولجهالة أمية
حدثنا بهز , قال: حدثنا حماد بن سلمة , حدثنا خالد الحذاء , عن خالد بن ابي الصلت , قال: ذكروا عند عمر بن عبد العزيز رحمه الله استقبال القبلة بالفروج , فقال عراك بن مالك ، قالت عائشة : ذكروا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ان قوما يكرهون ذلك , قال: فقال: " قد فعلوها؟ حولوا مقعدتي نحو القبلة" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ , عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ , قَال: َذَكَرُوا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَحِمَهُ اللَّهُ اسْتِقْبَالَ الْقِبْلَةِ بِالْفُرُوجِ , فَقَالَ عِرَاكُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَتْ عَائِشَة ُ : ذَكَرُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ قَوْمًا يَكْرَهُونَ ذَلِكَ , قَال: َفَقَالَ: " قَدْ فَعَلُوهَا؟ حَوِّلُوا مَقْعَدَتِي نَحْوَ الْقِبْلَةِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ تذکرہ ہوا کہ کچھ لوگ اپنی شرمگاہ کا رخ قبلہ کی جانب کرنے کو ناپسند کرتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ایسا کرتے ہیں؟ بیت الخلاء میں میرے بیٹھنے کی جگہ کا رخ قبلہ کی جانب کردو۔
حدثنا بهز , حدثنا حماد بن سلمة , عن عبد الرحمن بن القاسم , عن ابيه , عن عائشة , قالت: لبينا بالحج حتى إذا كنا بسرف حضت , فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي , فقال: " ما يبكيك يا عائشة؟" قلت: حضت , ليتني لم اكن حججت , قال:" سبحان الله , إنما ذاك شيء كتبه الله عز وجل على بنات آدم , انسكي المناسك كلها , غير ان لا تطوفي بالبيت" , قالت: فلما دخلنا مكة , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من شاء ان يجعلها عمرة , فليجعلها عمرة إلا من كان معه الهدي" , قالت: وذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نسائه البقر يوم النحر , فلما كانت ليلة البطحاء طهرت , فقالت: قلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم , اترجع صواحبي بحجة وعمرة , وارجع انا بحجة؟ , فامر عبد الرحمن بن ابي بكر , فذهب بي إلى التنعيم , فلبيت بعمرة .حَدَّثَنَا بَهْزٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: لَبَّيْنَا بِالْحَجِّ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفٍ حِضْتُ , فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي , فَقَالَ: " مَا يُبْكِيكِ يَا عَائِشَةُ؟" قُلْتُ: حِضْتُ , لَيْتَنِي لَمْ أَكُنْ حَجَجْتُ , قَالَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ , إِنَّمَا ذَاكَ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ , انْسُكِي الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا , غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ" , قَالَتْ: فَلَمَّا دَخَلْنَا مَكَّةَ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ شَاءَ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً , فَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً إِلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ" , قَالَتْ: وَذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ يَوْمَ النَّحْرِ , فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةَ الْبَطْحَاءِ طَهُرَتْ , فَقَالَتْ: قُلْت: ُيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَتَرْجِعُ صَوَاحِبِي بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ , وَأَرْجِعُ أَنَا بِحَجَّةٍ؟ , فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ , فَذَهَبَ بِي إِلَى التَّنْعِيمِ , فَلَبَّيْتُ بِعُمْرَةٍ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم نے حج کا تلبیہ پڑھا، جب سرف کے مقام پر پہنچے تو میرے " ایام " شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں رو رہی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میرے " ایام " شروع ہوگئے ہیں، کاش! میں حج ہی نہ کرنے آتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! یہ تو وہ چیز ہے جو اللہ نے آدم علیہ السلام کی ساری بیٹیوں پر لکھ دی ہے، تم سارے مناسک ادا کرو، البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا، جب ہم مکہ مکرمہ میں داخل ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے احرام کو عمرے کا احرام بنانا چاہے، وہ ایسا کرسکتا ہے، الاّ یہ کہ اس کے پاس ہدی کا جانور ہو۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذی الحجہ کو اپنی ازواج کی طرف سے گائے ذبح کی تھی، شب بطحاء کو میں " پاک " ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میری سہلیاں حج اور عمرہ دونوں کے ساتھ اور میں حج کے ساتھ واپس جاؤں گی؟ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو حکم دیا اور وہ مجھے تنعیم لے گئے جہاں سے میں نے عمرے کا احرام باندھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی طرح تخلیق کرنے میں مشابہت اختیار کرتے ہیں۔
حدثنا بهز , قال: حدثنا همام , قال: حدثنا قتادة , عن مطرف , عن عائشة , انها " جعلت للنبي صلى الله عليه وسلم بردة من صوف سوداء , فلبسها , فلما عرق , فوجد ريح الصوف , فقذفها , قال: واحسبه قال: وكان يعجبه الريح الطيبة" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ , عَنْ مُطَرِّفٍ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا " جَعَلَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُرْدَةً مِنْ صُوفٍ سَوْدَاءَ , فَلَبِسَهَا , فَلَمَّا عَرِقَ , فَوَجَدَ رِيحَ الصُّوفِ , فَقَذَفَهَا , قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: وَكَانَ يُعْجِبُهُ الرِّيحُ الطَّيِّبَةُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اون کی ایک سیاہ چادر بنائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہن لیا، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا اور اون کی بو اس میں محسوس ہونے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار دیا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اچھی مہک کو پسند فرماتے تھے۔
حدثنا بهز , قال: حدثنا حماد بن سلمة , قال: اخبرني ابو عمران الجوني ، عن يزيد بن بابنوس , قال: ذهبت انا وصاحب لي إلى عائشة , فاستاذنا عليها , فالقت لنا وسادة وجذبت إليها الحجاب , فقال صاحبي: يا ام المؤمنين ما تقولين في العراك، قالت: وما العراك؟ وضربت منكب صاحبي , فقالت: مه آذيت اخاك , ثم قالت: ما العراك؟ المحيض؟ قولوا: ما قال الله المحيض , ثم قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوشحني وينال من راسي , وبيني وبينه ثوب وانا حائض" . ثم قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا مر ببابي مما يلقي الكلمة ينفع الله عز وجل بها , فمر ذات يوم , فلم يقل شيئا , ثم مر ايضا فلم يقل شيئا مرتين او ثلاثا , قلت: يا جارية ضعي لي وسادة على الباب , وعصبت راسي , فمر بي , فقال: " يا عائشة ما شانك" , فقلت: اشتكي راسي , فقال:" انا وا راساه" , فذهب فلم يلبث إلا يسيرا حتى جيء به محمولا في كساء , فدخل علي وبعث إلى النساء , فقال:" إني قد اشتكيت , وإني لا استطيع ان ادور بينكن , فائذن لي فلاكن عند عائشة , او صفية , ولم امرض احدا قبله , فبينما راسه ذات يوم على منكبي إذ مال راسه نحو راسي , فظننت انه يريد من راسي حاجة , فخرجت من فيه نطفة باردة , فوقعت على ثغرة نحري , فاقشعر لها جلدي , فظننت انه غشي عليه , فسجيته ثوبا , فجاء عمر والمغيرة بن شعبة , فاستاذنا , فاذنت لهما , وجذبت إلي الحجاب , فنظر عمر إليه , فقال: واغشياه , ما اشد غشي رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم قاما , فلما دنوا من الباب , قال المغيرة: يا عمر , مات رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: كذبت , بل انت رجل تحوسك فتنة , إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يموت حتى يفني الله عز وجل المنافقين , ثم جاء ابو بكر , فرفعت الحجاب , فنظر إليه , فقال: إنا لله وإنا إليه راجعون , مات رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم اتاه من قبل راسه , فحدر فاه , وقبل جبهته , ثم قال: وانبياه , ثم رفع راسه , ثم حدر فاه , وقبل جبهته , ثم قال: واصفياه , ثم رفع راسه , وحدر فاه , وقبل جبهته , وقال: واخليلاه , مات رسول الله صلى الله عليه وسلم , فخرج إلى المسجد وعمر يخطب الناس ويتكلم , ويقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يموت , حتى يفني الله عز وجل المنافقين , فتكلم ابو بكر , فحمد الله واثنى عليه , ثم قال: إن الله عز وجل يقول إنك ميت وإنهم ميتون سورة الزمر آية 30 , حتى فرغ من الآية وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل افإن مات او قتل انقلبتم على اعقابكم سورة آل عمران آية 144 حتى فرغ من الآية , فمن كان يعبد الله عز وجل , فإن الله حي , ومن كان يعبد محمدا , فإن محمدا قد مات , فقال عمر: وإنها لفي كتاب الله؟ ما شعرت انها في كتاب الله , ثم قال عمر: يا ايها الناس , هذا ابو بكر , وهو ذو شيبة المسلمين فبايعوه , فبايعوه" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ , قَال: َحَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ بَابَنُوسَ , قَالَ: ذَهَبْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي إِلَى عَائِشَةَ , فَاسْتَأْذَنَّا عَلَيْهَا , فَأَلْقَتْ لَنَا وَسَادَةً وَجَذَبَتْ إِلَيْهَا الْحِجَابَ , فَقَالَ صَاحِبِي: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ مَا تَقُولِينَ فِي الْعِرَاكِ، قَالَتْ: وَمَا الْعِرَاكُ؟ وَضَرَبْتُ مَنْكِبَ صَاحِبِي , فَقَالَت: مَهْ آذَيْتَ أَخَاكَ , ثُمّ قَالَتْ: مَا الْعِرَاكُ؟ الْمَحِيضُ؟ قُولُوا: مَا قَالَ اللَّهُ الْمَحِيضُ , ثُمّ قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَشَّحُنِي وَيَنَالُ مِنْ رَأْسِي , وَبَيْنِي وَبَيْنَهُ ثَوْبٌ وَأَنَا حَائِضٌ" . ثُمَّ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَرَّ بِبَابِي مِمَّا يُلْقِي الْكَلِمَةَ يَنْفَعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا , فَمَرَّ ذَاتَ يَوْمٍ , فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا , ثُمَّ مَرَّ أَيْضًا فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا , قُلْتُ: يَا جَارِيَةُ ضَعِي لِي وِسَادَةً عَلَى الْبَابِ , وَعَصَبْتُ رَأْسِي , فَمَرَّ بِي , فَقَالَ: " يَا عَائِشَةُ مَا شَأْنُكِ" , فَقُلْتُ: أَشْتَكِي رَأْسِي , فَقَالَ:" أَنَا وَا رَأْسَاهْ" , فَذَهَبَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى جِيءَ بِهِ مَحْمُولًا فِي كِسَاءٍ , فَدَخَلَ عَلَيَّ وَبَعَثَ إِلَى النِّسَاءِ , فَقَالَ:" إِنِّي قَدْ اشْتَكَيْتُ , وَإِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَدُورَ بَيْنَكُنَّ , فَائْذَنَّ لِي فَلْأَكُنْ عِنْدَ عَائِشَةَ , أَوْ صَفِيَّةَ , وَلَمْ أُمَرِّضْ أَحَدًا قَبْلَهُ , فَبَيْنَمَا رَأْسُهُ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى مَنْكِبَيَّ إِذْ مَالَ رَأْسُهُ نَحْوَ رَأْسِي , فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُ مِنْ رَأْسِي حَاجَةً , فَخَرَجَتْ مِنْ فِيهِ نُطْفَةٌ بَارِدَةٌ , فَوَقَعَتْ عَلَى ثُغْرَةِ نَحْرِي , فَاقْشَعَرَّ لَهَا جِلْدِي , فَظَنَنْتُ أَنَّهُ غُشِيَ عَلَيْهِ , فَسَجَّيْتُهُ ثَوْبًا , فَجَاءَ عُمَرُ وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ , فَاسْتَأْذَنَا , فَأَذِنْتُ لَهُمَا , وَجَذَبْتُ إِلَيَّ الْحِجَابَ , فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَيْهِ , فَقَالَ: وَاغَشْيَاهْ , مَا أَشَدُّ غَشْيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ قَامَا , فَلَمَّا دَنَوَا مِنَ الْبَابِ , قَالَ الْمُغِيرَةُ: يَا عُمَرُ , مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: كَذَبْتَ , بَلْ أَنْتَ رَجُلٌ تَحُوسُكَ فِتْنَةٌ , إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَمُوتُ حَتَّى يُفْنِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُنَافِقِينَ , ثُمَّ جَاءَ أَبُو بَكْرٍ , فَرَفَعْتُ الْحِجَابَ , فَنَظَرَ إِلَيْهِ , فَقَالَ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ , مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ أَتَاهُ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ , فَحَدَرَ فَاهُ , وَقَبَّلَ جَبْهَتَهُ , ثُمَّ قَالَ: وَانَبِيَّاهْ , ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ , ثُمَّ حَدَرَ فَاهُ , وَقَبَّلَ جَبْهَتَهُ , ثُمَّ قَالَ: وَاصَفِيَّاهْ , ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ , وَحَدَرَ فَاهُ , وَقَبَّلَ جَبْهَتَهُ , وَقَالَ: وَاخَلِيلَاهْ , مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَعُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ وَيَتَكَلَّمُ , وَيَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَمُوتُ , حَتَّى يُفْنِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُنَافِقِينَ , فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ , فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ , ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ سورة الزمر آية 30 , حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْآيَةِ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ سورة آل عمران آية 144 حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْآيَةِ , فَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ , فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ , وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا , فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ , فَقَالَ عُمَرُ: وَإِنَّهَا لَفِي كِتَابِ اللَّهِ؟ مَا شَعَرْتُ أَنَّهَا فِي كِتَابِ اللَّهِ , ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ , هَذَا أَبُو بَكْرٍ , وَهُوَ ذُو شَيْبَةِ الْمُسْلِمِينَ فَبَايِعُوهُ , فَبَايَعُوهُ" .
یزید بن بابنوس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے ساتھی کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اجازت طلب کی، انہوں نے ہمارے لئے تکیہ رکھا اور خود اپنی طرف پردہ کھینچ لیا، پھر میرے ساتھی نے پوچھا کہ اے ام المومنین! " عراک " کے متعلق آپ کیا فرماتی ہیں! انہوں نے فرمایا عراک کیا ہوتا ہے؟ میں نے اپنے ساتھی کے کندھے پر ہاتھ مارا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روکتے ہوئے فرمایا تم نے اپنے بھائی کو ایذا پہنچائی، پھر فرمایا عراک سے کیا مراد ہے؟ حیض، تو سیدھا سیدھا وہ لفظ بولو جو اللہ نے استعمال کیا ہے، یعنی حیض، بعض اوقات میں حائضہ ہوتی تھی لیکن پھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ڈھانپ لیتے تھے اور میرے سر کو بوسہ دے دیا کرتے تھے اور میرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان پردہ حائل ہوتا تھا۔ پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب میرے گھر کے دروازے سے گزرتے تھے تو کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ دیتے تھے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے فائدہ پہنچا دیتے تھے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے تو کچھ نہیں کہا، دو تین مرتبہ جب اسی طرح ہوا تو میں نے اپنی باندی سے کہا کہ میرے لئے دروازے پر تکیہ لگا دو اور میں اپنے سر پر پٹی باندھ کر وہاں بیٹھ گئی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے تو فرمایا عائشہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا میرے سر میں درد ہو رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بھی سر میں درد ہو رہا ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے، تھوڑی دیر گزری تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ چادر میں لپیٹ کر اٹھائے چلے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں رہے اور دیگر ازواج کے پاس یہ پیغام بھجوا دیا کہ میں بیمار ہوں اور تم میں سے ہر ایک کے پاس باری باری آنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے اس لئے تم اگر مجھے اجازت دے دو تو میں عائشہ کے یہاں رک جاؤں؟ ان سب نے اجازت دے دی اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمارداری کرنے لگی حالانکہ اس سے پہلے میں نے کبھی کسی کی تیماداری نہیں کی تھی۔ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک میرے کندھے پر رکھا ہوا تھا کہ اچانک سر مبارک میرے سر کی جانب ڈھک گیا میں سمجھی کہ شاید آپ میرے سر کو بوسہ دینا چاہتے ہیں، لیکن اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے لعاب کا ایک قطرہ نکلا اور میرے سینے پر آٹپکا، میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں سمجھی کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہوگئی ہے چنانچہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چادر اوڑھا دی، اسی دوران حضرت عمر اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ آگئے، انہوں نے اجازت طلب کی، میں نے انہیں اجازت دے دی اور اپنی طرف پردہ کھینچ لیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہا ہائے غشی! نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی کی شدت کتنی ہے، تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے جب وہ دونوں دروازے کے قریب پہنچے تو مغیرہ بن شعبہ کہنے لگے اے عمر! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم غلط کہتے ہو، بلکہ تم فتنہ پرور آدمی ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ منافقین کی ختم نہ کر دے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی آگئے، میں نے حجاب اٹھا دیا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر " اناللہ وانا الیہ راجعون " پڑھا اور کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے۔ پھر سرہانے کی جانب سے آئے اور منہ مبارک پر جھک کر پیشانی کو بوسہ دیا اور کہنے لگے ہائے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تین مرتبہ اسی طرح کیا اور دوسری مرتبہ ہائے میرے دوست اور تیسری مرتبہ ہائے میرے خلیل کہا، پھر مسجد کی طرف نکلے، اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے سامنے تقریر اور گفتگو کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک اللہ تعالیٰ منافقین کو ختم نہ فرما دے۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی اور اللہ کی حمدوثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " آپ بھی دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ " محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے رسول ہیں جن سے پہلے بھی بہت رسول گذر چکے ہیں، کیا اگر وہ فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو تم ایڑیوں کے بل لوٹ جاؤ گے "۔۔۔۔۔ سو جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ وہ فوت ہوگئے ہیں، مذکورہ آیات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا یہ آیات کتاب اللہ میں موجود ہیں؟ میرا شعور ہی اس طرف نہیں جاسکا کہ یہ آیت بھی کتاب اللہ میں ہی موجود ہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو! یہ ابوبکر ہیں اور مسلمانوں کے بزرگ ہیں اس لئے ان کی بیعت کرلو، چنانچہ لوگوں نے ان کی بیعت کر لی۔
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بیدار ہو کر نماز پڑھتے تو لحاف کا ایک کونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ہوتا اور دوسرا کونا عائشہ صدیقہ پر ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے رہتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو مینڈھے خریدتے جو خوب موٹے تازے، صحت مند، سینگدار، خوبصورت اور خصی ہوتے تھے اور ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح فرماتے جو توحید کے اقرار پر قائم ہوئے اور اس بات کی گواہی دیتے ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام الٰہی پہنچا دیا اور دوسرا جانور محمد صلی اللہ علیہ وسلم و آل محمد کر طرف سے قربان کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد فيه ضعف لاضطراب عبدالله بن محمد بن عقيل فيه
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی چیز کی طرف اور کسی غنیمت کی تلاش میں اتنی تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے نہیں دیکھا جتنا نماز فجر سے پہلے کی دو رکعتوں کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انسان سب سے پاکیزہ چیز کو کھاتا ہے، وہ اس کی اپنی کمائی ہوتی ہے اور انسان کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی ازواج کو بوسہ دیدیا کرتے تھے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك، م: 1106
حدثنا حجاج , قال: قال ابن جريج زعم عطاء انه، سمع عبيد بن عمير , يخبر، قال: سمعت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم , تخبر ان النبي صلى الله عليه وسلم , كان يمكث عند زينب بنت جحش , ويشرب عندها عسلا , فتواصيت انا وحفصة , ان ايتنا ما دخل عليها النبي صلى الله عليه وسلم فلتقل إني اجد منك ريح مغافير , اكلت مغافير؟ فدخل على إحداهما , فقالت: ذلك له , فقال: " بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن اعود له" , فنزلت لم تحرم ما احل الله لك سورة التحريم آية 1 , إن تتوبا سورة التحريم آية 4 لعائشة، وحفصة وإذ اسر النبي إلى بعض ازواجه سورة التحريم آية 3 لقوله:" بل شربت عسلا" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ زَعَمَ عَطَاءٌ أَنَّهُ، سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ , يُخْبِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , تُخْبِرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ , وَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا , فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ , أَنَّ أَيَّتَنَا مَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْتَقُلْ إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ , أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا , فَقَالَتْ: ذَلِكَ لَهُ , فَقَالَ: " بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَلَنْ أَعُودَ لَهُ" , فَنَزَلَتْ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ سورة التحريم آية 1 , إِنْ تَتُوبَا سورة التحريم آية 4 لِعَائِشَةَ، وَحَفْصَةَ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ سورة التحريم آية 3 لِقَوْلِهِ:" بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات زینب بنت جحش کے پاس رک کر ان کے یہاں شہد پیتے تھے، میں نے اور حفصہ نے یہ معاہدہ کرلیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئیں، وہ یہ کہہ دے کہ مجھے آپ سے مغافیر کی بو آرہی ہے، آپ نے مغافیر کھایا ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ایک کے پاس جب گئے تو اس نے یہ بات کہہ دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے زینب کے یہاں شہد پیا تھا اور آئندہ کبھی نہیں پیوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ " آپ اپنے اوپر ان چیزوں کو کیوں حرام کرتے ہیں جنہیں اللہ نے حلال قرار دے رکھا ہے۔۔۔۔۔ " اگر تم دونوں (عائشہ اور حفصہ) توبہ کرلو۔۔۔۔۔۔۔۔
حدثنا حجاج , عن شريك , عن ابي إسحاق ، عن الاسود , عن عائشة , قالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يخرج إلى صلاة الفجر وراسه يقطر من غسل الجنابة , ثم يتم صومه ذلك اليوم" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , عَنْ شَرِيكٍ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ إِلَى صَلَاةِ الْفَجْرِ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ مِنْ غُسْلِ الْجَنَابَةِ , ثُمَّ يُتِمُّ صَوْمَهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات صبح کے وقت جنبی ہوتے تو غسل فرماتے اور مسجد کی طرف چل پڑتے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرات ٹپک رہے ہوتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کے روزے کی نیت فرما لیتے تھے۔
حدثنا حماد بن خالد , قال: حدثنا افلح , عن القاسم , عن عائشة , قالت: " وقع رسول الله صلى الله عليه وسلم على بعض نسائه ثم نام وهو جنب حتى اصبح , ثم اغتسل وصام يومه" .حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَفْلَحُ , عَنْ الْقَاسِمِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " وَقَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ ثُمَّ نَامَ وَهُوَ جُنُبٌ حَتَّى أَصْبَحَ , ثُمَّ اغْتَسَلَ وَصَامَ يَوْمَه" .
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کے ساتھ رات کو " تخلیہ " کیا اور وجوب غسل کی حالت میں ہی سو گئے جب صبح ہوئی تو غسل کرلیا اور اس دن کا روزہ رکھ لیا۔
حدثنا حجاج , اخبرنا ابن جريج , قال: حدثني عبد الله رجل من قريش , انه سمع محمد بن قيس بن مخرمة بن المطلب انه قال يوما: الا احدثكم عني وعن امي؟ , فظننا انه يريد امه التي ولدته , قال: قالت عائشة : الا احدثكم عني وعن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلت: بلى , قال: قالت: لما كانت ليلتي التي النبي صلى الله عليه وسلم فيها عندي , انقلب , فوضع رداءه , وخلع نعليه , فوضعهما عند رجليه , وبسط طرف إزاره على فراشه , فاضطجع , فلم يلبث إلا ريثما ظن اني قد رقدت , فاخذ رداءه رويدا , وانتعل رويدا , وفتح الباب , فخرج , ثم اجافه رويدا , فجعلت درعي في راسي , واختمرت وتقنعت إزاري , ثم انطلقت على اثره , حتى جاء البقيع , فقام , فاطال القيام , ثم رفع يديه ثلاث مرات , ثم انحرف , فاسرع , فاسرعت فهرول فهرولت , فاحضر فاحضرت , فسبقته , فدخلت , فليس إلا ان اضطجعت , فدخل , فقال: " ما لك يا عائش حشياء رائبة" قالت: قلت: لا شيء يا رسول الله , قال:" لتخبرنني او ليخبرني اللطيف الخبير" , قالت: قلت: يا رسول الله , بابي انت وامي , فاخبرته , قال:" فانت السواد الذي رايت امامي؟" قلت: نعم فلهزني في ظهري لهزة فاوجعتني , وقال:" اظننت ان يحيف عليك الله ورسوله؟" قالت: مهما يكتم الناس يعلمه الله , قال:" نعم , فإن جبريل عليه السلام اتاني حين رايت , فناداني , فاخفاه منك , فاجبته , فاخفيته منك , ولم يكن ليدخل عليك وقد وضعت ثيابك , وظننت انك قد رقدت , فكرهت ان اوقظك , وخشيت ان تستوحشي , فقال: إن ربك عز وجل يامرك ان تاتي اهل البقيع , فتستغفر لهم" , قالت: فكيف اقول يا رسول الله؟ فقال:" قولي السلام على اهل الديار من المؤمنين والمسلمين , ويرحم الله المستقدمين منا والمستاخرين , وإنا إن شاء الله للاحقون" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ , أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي؟ , فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ , قال: قَالَتْ عَائِشَةُ : أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى , قَالَ: قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي , انْقَلَبَ , فَوَضَعَ رِدَاءَهُ , وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ , فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ , وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ , فَاضْطَجَعَ , فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ , فَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا , وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا , وَفَتَحَ الْبَابَ , فَخَرَجَ , ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا , فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي , وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي , ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَى أَثَرِهِ , حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ , فَقَامَ , فَأَطَالَ الْقِيَامَ , ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , ثُمَّ انْحَرَفَ , فَأَسْرَعَ , فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ , فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ , فَسَبَقْتُهُ , فَدَخَلْتُ , فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ , فَدَخَلَ , فَقَالَ: " مَا لَكِ يَا عَائِشُ حَشْيَاءَ رَائِبَةً" قَالَتْ: قُلْتُ: لَا شَيْءَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" لَتُخْبِرِنَّنِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ" , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي , فَأَخْبَرَتْهُ , قَالَ:" فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي؟" قُلْتُ: نَعَمْ فَلَهَزَنِي فِي ظَهْرِي لَهْزَةً فَأَوْجَعَتْنِي , وَقَالَ:" أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ عَلَيْكِ اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟" قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ , قَالَ:" نَعَمْ , فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ , فَنَادَانِي , فَأَخْفَاهُ مِنْكِ , فَأَجَبْتُهُ , فأخُفْيَتَهُ مِنْكِ , وَلَمْ يَكُنْ لِيَدْخُلَ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ , وَظَنَنْتُ أَنَّكِ قَدْ رَقَدْتِ , فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ , وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي , فَقَالَ: إِنَّ رَبَّكَ عزَّ وجلَّ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ , فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ" , قَالَتْ: فَكَيْفَ أَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ:" قُولِي السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ , وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ , وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَلَاحِقُونَ" .
حضرت محمد بن قیس بن مخرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن کہا: کیا میں آپ کو اپنی اور اپنی ماں کے ساتھ بیتی ہوئی بات نہ سناؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں۔ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس میری باری کی رات میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کروٹ لی اور اپنی چادر اوڑھ لی اور جوتے اتارے اور ان کو اپنے پاؤں کے پاس رکھ دیا اور اپنی چادر کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا اور لیٹ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر ٹھہرے کہ آپ نے گمان کرلیا کہ میں سو چکی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکلے پھر اس کو اہستہ سے بند کردیا۔ میں نے اپنی چادر اپنے سر پر اوڑھی اور اپنا ازار پہنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہونے کو طویل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار اٹھایا۔ پھر واپس لوٹے اور میں بھی لوٹی آپ تیز چلے تو میں بھی تیز چلنے لگی۔ آپ دوڑے تو میں بھی دوڑی۔ آپ پہنچے تو میں بھی پہنچی۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سبقت لے گئی اور داخل ہوتے ہی لیٹ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا: اے عائشہ! تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے۔ میں نے کہا کچھ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بتادو ورنہ مجھے باریک بین خبردار یعنی اللہ تعالیٰ خبر دے دے گا۔ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ پھر پورے قصہ کی خبر میں نے آپ کو دے دی۔ فرمایا میں اپنے آگے جو سیاہ سی چیز دیکھ رہا تھا وہ تو تھی۔ میں نے عرض کیا جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ پر (از راہ محبت) مارا جس کی مجھے تکلیف ہوئی پھر فرمایا تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق دبا لے گا۔ فرماتی ہیں جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں تو اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے جب تو نے دیکھا تو مجھے پکارا اور تجھ سے چھپایا تو میں نے بھی تم سے چھپانے ہی کو پسند کیا اور وہ تمہارے پاس لئے نہیں آئے کہ تو نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھے اور میں نے گمان کیا کہ تو سو چکی ہے اور میں نے تجھے بیدار کرنا پسند نہ کیا میں نے یہ بھی خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گی۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ بقیع تشریف لے جائیں اور ان کے لئے مغفرت مانگیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو: " اللہ ہم سے جانے والوں پر رحمت فرمائے اور پیچھے جانے والوں پر، ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں "۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه فى السلام على أهل البقيع صحيح، وهذا إسناد ضعيف، م: 974
حدثنا حجاج , قال: حدثنا ليث , حدثني يزيد بن ابي حبيب , عن ابي بكر بن إسحاق بن يسار ، عن عبد الله بن عروة , عن عروة , عن عائشة , انها قالت: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة , اشتكى اصحابه , واشتكى ابو بكر وعامر بن فهيرة مولى ابي بكر وبلال , فاستاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم عائشة في عيادتهم , فاذن لها , فقالت لابي بكر: كيف تجدك؟ فقال: كل امرئ مصبح في اهله والموت ادنى من شراك نعله , وسالت عامرا , فقال: إني وجدت الموت قبل ذوقه إن الجبان حتفه من فوقه , وسالت بلالا , فقال: الا ليت شعري هل ابيتن ليلة بفج وحولي إذخر وجليل , فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته بقولهم , فنظر إلى السماء ثم قال: " اللهم حبب إلينا المدينة كما حببت إلينا مكة واشد , وبارك لنا في صاعها ومدها , وانقل وباءها إلى مهيعة" , وهي الجحفة كما زعموا .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ , اشْتَكَى أَصْحَابُهُ , وَاشْتَكَى أَبُو بَكْرٍ وَعَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ وَبِلَالٌ , فَاسْتَأْذَنَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةُ فِي عِيَادَتِهِمْ , فَأَذِنَ لَهَا , فَقَالَتْ لِأَبِي بَكْرٍ: كَيْفَ تَجِدُكَ؟ فَقَالَ: كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ , وَسَأَلْتُ عَامِرًا , فَقَالَ: إني وَجَدْتُ الْمَوْتَ قَبْلَ ذَوْقِهِ إِنَّ الْجَبَانَ حَتْفُهُ مِنْ فَوْقِهِ , وَسَأَلْتُ بِلَالًا , فَقَالَ: أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِفَجٍّ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ , فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ بِقَوْلِهِمْ , فَنَظَرَ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَمَا حَبَّبْتَ إِلَيْنَا مَكَّةَ وَأَشَدَّ , وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا وَمُدِّهَا , وَانْقُلْ وَبَاءَهَا إِلَى مَهْيَعَةٍ" , وَهِيَ الْجُحْفَةُ كَمَا زَعَمُوا .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان کے آزاد کردہ غلام فہیرہ اور بلال بھی بیمار ہوگئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان لوگوں کی عیادت کے لئے جانے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، انہوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ اپنی صحت کیسی محسوس کر رہے ہیں؟ انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " ہر شخص اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے جبکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتی ہے "۔ پھر میں نے عامر سے پوچھا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا " کہ موت کا مزہ چکھنے سے پہلے موت کو محسوس کر رہا ہوں اور قبرستان منہ کے قریب آگیا ہے۔ " پھر میں بلال سے ان کی طبیعت پوچھی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " ہائے! مجھے کیا خبر کہ میں دوبارہ " فح " میں رات گزار سکوں گا اور میرے آس پاس " اذخر " اور " جلیل " نامی گھاس ہوگی۔ " حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئیں اور ان لوگوں کی باتیں بتائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا اے اللہ! مدینہ منورہ کو ہماری نگاہوں میں اس طرح محبوب بنا جیسے مکہ کو بنایا تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اس سے بھی زیادہ، اے اللہ! مدینہ کے صاع اور مد میں برکتیں عطاء فرما اور اس کی وباء کو حجفہ کی طرف منتقل فرما۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى بكر ابن إسحاق بن يسار
حدثنا حجاج , قال: حدثنا ليث , قال: حدثني يزيد بن ابي حبيب , عن جعفر بن ربيعة , عن ابي سلمة ، انه سمع عائشة تقول:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي كل ليلة ثلاث عشرة ركعة , تسعا قائما , وركعتين وهو جالس , ثم يمهل حتى يؤذن بالاولى من الصبح , فيركع ركعتين" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ , قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ تَقُولُ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي كُلَّ لَيْلَةٍ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً , تِسْعًا قَائِمًا , وَرَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ , ثُمَّ يُمْهِلُ حَتَّى يُؤَذَّنَ بِالْأُولَى مِنَ الصُّبْحِ , فَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، پہلے آٹھ رکعتیں، پھر وتر، پھر بیٹھ کردو رکعتیں پڑھتے اور جب رکوع میں جانا چاہتے تو کھڑے ہو کر رکوع کرتے، پھر فجر کی اذان اور نماز کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه لأن جعفر بن ربيعة لم يسمع من أبى سلمة
حدثنا حجاج , قال: حدثنا ليث , عن يزيد بن ابي حبيب , عن جعفر بن ربيعة , عن عراك , عن عروة , عن عائشة , قالت: إن ام حبيبة سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدم , فقالت عائشة: قد رايت مركنها ملآنا دما , فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: " امكثي قدر ما كانت تحبسك حيضتك , ثم اغتسلي وصلي" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ , عَنْ عِرَاكٍ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: إِنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّمِ , فَقَالَتْ عَائِشَةُ: قَدْ رَأَيْتُ مِرْكَنَهَا مَلْآنًا دَمًا , فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " امْكُثِي قَدْرَ مَا كَانَتْ تَحْبِسُكِ حَيْضَتُكِ , ثُمَّ اغْتَسِلِي وَصَلِّي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک مرتبہ فاطمہ بنت ابی حبیش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میرا دم حیض ہمیشہ جاری رہتا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ان کا ٹب خون سے بھرا ہوا دیکھا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایام حیض تک تو نماز چھوڑ دیا کرو، اس کے بعد غسل کر کے ہر نماز کے وقت وضو کرلیا کرو اور نماز پڑھا کرو خواہ چٹائی پر خون کے قطرے ٹپکنے لگیں۔
حدثنا حجاج , قال: اخبرنا شريك , عن قيس بن وهب , عن شيخ من بني سراة , قال: سالت عائشة , فقلت: اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اجنب يغسل راسه بغسل يجتزئ بذلك , ام يفيض الماء على راسه , قالت: " بل يفيض الماء على راسه" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَال: َأَخْبَرَنَا شَرِيكٌ , عَنْ قيسِ بْنِ وَهْبٍ , عَنْ شَيْخٍ مِنْ بَنِي سَرَاةَ , قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ , فَقُلْتُ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَجْنَبَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ بِغُسْلٍ يَجْتَزِئُ بِذَلِكَ , أَمْ يُفِيضُ الْمَاءَ عَلَى رَأْسِهِ , قَالَتْ: " بَلْ يُفِيضُ الْمَاءَ عَلَى رَأْسِهِ" .
بنو سوارہ کے ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اختیاری طور پر ناپاکی سے غسل فرماتے تھے، تو جسم پر پانی ڈالتے وقت سر پر جو پانی پڑتا تھا اسے کافی سمجھتے تھے یا سر پر نئے سرے سے پانی ڈالتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں بلکہ نئے سرے سے سر پر پانی ڈالتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الشيخ من بني سواءة ولضعف شريك
حدثنا حجاج , قال: اخبرنا شريك , عن العباس بن ذريح , عن البهي , عن عائشة , ان اسامة بن زيد عثر باسكفة , او عتبة الباب , فشج في جبهته , فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اميطي عنه , او نحي عنه الاذى" قالت: فتقذرته , قالت: فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمصه , ثم يمجه , وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو كان اسامة جارية , لكسوته , وحليته , حتى انفقه" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ , عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ ذَرِيحٍ , عَنِ الْبَهِيِّ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ عَثَرَ بِأُسْكُفَّةِ , أَوْ عَتَبَةِ الْبَابِ , فَشُجَّ فِي جَبْهَتِهِ , فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمِيطِي عَنْهُ , أَوْ نَحِّي عَنْهُ الْأَذَى" قَالَتْ: فَتَقَذَّرْتُهُ , قَالَتْ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمُصُّهُ , ثُمَّ يَمُجُّهُ , وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ كَانَ أُسَامَةُ جَارِيَةً , لَكَسَوْتُهُ , وَحَلَّيْتُهُ , حَتَّى أُنفِِّقَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسامہ بن زید دروازے کی چوکھٹ پر لڑکھڑا کر گر پڑھے اور ان کے خون نکل آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اس کی گندگی صاف کردو، مجھے وہ کام اچھا نہ لگا تو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چوسنے اور فرمانے لگے لڑکی ہوتی تو میں اسے خوب زیورات اور عمدہ کپڑے پہناتا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن بطرقه، وهذا إسناد ضعيف لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
حدثنا حجاج , قال: حدثنا شريك , عن المقدام بن شريح , عن ابيه , قال: قلت لعائشة : هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتمثل الشعر؟ قالت: " ربما تمثل شعر ابن رواحة , ويقول: وياتيك بالاخبار من لم تزود" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ : هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَمَثَّلُ الشِّعْرَ؟ قَالَتْ: " رُبَّمَا تَمَثَّلَ شِعْرَ ابْنِ رَوَاحَةَ , وَيَقُولُ: وَيَأْتِيكَ بِالْأَخْبَارِ مِنْ لَمْ تُزَوِّدِ" .
شریخ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شعر پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! حضرت عبداللہ بن رواحہ کا یہ شعر کبھی کبھی پڑھتے تھے۔ " اور تمہارے پاس وہ شخص خبریں لے کر آئے گا جسے تم نے زاد راہ نہ دیا ہوگا "۔
حكم دارالسلام: تمثل النبى ﷺ بشعر ابن واحة صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لضعف شريك
حدثنا حجاج وابن نمير ، قالا: حدثنا شريك , عن المقدام بن شريح , قال ابن نمير الحارثي , عن ابيه , قال: سالت عائشة هل كان النبي صلى الله عليه وسلم يبدو؟ قالت: نعم , إلى هذه التلاع , قالت: فبدا مرة , فبعث إلي نعم الصدقة , فاعطاني ناقة محرمة , قال حجاج: لم تركب , وقال:" يا عائشة عليك بتقوى الله عز وجل والرفق , فإن الرفق لم يك في شيء إلا زانه , ولم ينزع الرفق من شيء إلا شانه" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ , قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ الْحَارِثِيُّ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ هَلْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْدُو؟ قَالَتْ: نَعَمْ , إِلَى هَذِهِ التِّلَاعِ , قَالَتْ: فَبَدَا مَرَّةً , فَبَعَثَ إِلَيَّ نَعَمَ الصَّدَقَةِ , فَأَعْطَانِي نَاقَةً مُحَرَّمَةً , قَالَ حَجَّاجٌ: لَمْ تُرْكَبْ , وَقَالَ:" يَا عَائِشَةُ عَلَيْكِ بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالرِّفْقِ , فَإِنَّ الرِّفْقَ لَمْ يَكُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ , وَلَمْ يُنْزَعْ الرِّفْقُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ" .
شریخ حارثی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیہات میں جاتے تھے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان ٹیلوں تک جاتے تھے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دیہات (جنگل) میں جانے کا ارادہ کیا تو صدقہ کے جانوروں میں ایک قاصد کو بھیجا اور اس میں سے ایک ایسی اوٹنی عطا فرمائی جس پر ابھی تک کسی نے سواری نہ کی تھی، پھر مجھ سے فرمایا عائشہ! اللہ سے ڈرنا اور نرمی کرنا اپنے اوپر لازم کرلو، کیونکہ نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اس باعث زینت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے بھی کھینچی جاتی ہے، اسے بدنما اور عیب دار کرتی ہے۔
حدثنا حجاج , قال: اخبرنا شريك , عن المقدام بن شريح , عن ابيه , عن عائشة , قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا راى ناشئا في السماء سحابا , او ريحا , استقبله من حيث كان , وإن كان في الصلاة يتعوذ بالله عز وجل من شره , فإذا امطرت , قال: " اللهم صيبا نافعا" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ , عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَى نَاشِئًا فِي السَّمَاءِ سَحَابًا , أَوْ رِيحًا , اسْتَقْبَلَهُ مِنْ حَيْثُ كَانَ , وَإِنْ كَانَ فِي الصَّلَاةِ يَتَعَوَّذُ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ شَرِّه , فَإِذَا أَمْطَرَتْ , قَالَ: " اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب آسمان کے کنارے پر کوئی بادل دیکھتے تو ہر کام چھوڑ دیتے اگرچہ نماز ہی میں ہوتے اور یہ دعاء کرتے کہ اے اللہ! میں اس کے شر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، جب وہ کھل جاتا تو شکر ادا کرتے اور جب بارش ہوتے ہوئے دیکھتے تو فرماتے اے اللہ! موسلا دھار ہو اور نفع بخش۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لأجل شريك، وقوله: اللهم صيبا…... سلف باسناد صحيح برقم: 24144
حدثنا حجاج , اخبرنا ليث بن سعد , قال: حدثني عقيل بن خالد , قال: وقال محمد بن مسلم ، سمعت عروة بن الزبير ، يقول: قالت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم فرجع إلى خديجة يرجف فؤاده , فدخل , فقال:" زملوني زملوني" فزمل , فلما سري عنه , قال:" يا خديجة , لقد اشفقت على نفسي بلاء , لقد اشفقت على نفسي بلاء" , قالت خديجة: ابشر , فوالله لا يخزيك الله ابدا , إنك لتصدق الحديث , وتصل الرحم , وتحمل الكل , وتقري الضيف , وتعين على نوائب الحق , فانطلقت بي خديجة إلى ورقة بن نوفل بن اسد , وكان رجلا قد تنصر , شيخا اعمى يقرا الإنجيل بالعربية , فقالت له خديجة: اي عم , اسمع من ابن اخيك , فقال له ورقة: يا ابن اخي , ماذا ترى؟ فاخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم بالذي راى من ذلك , فقال له ورقة: هذا الناموس الذي نزل على موسى , يا ليتني فيها جذعا , يا ليتني اكون حيا حين يخرجك قومك , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" او مخرجي هم" , قال: نعم , لم يات رجل بمثل ما جئت به قط إلا عودي , وإن يدركني يومك , انصرك نصرا مؤزرا .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , أَخْبَرَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ , قَالَ: وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ ، يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَجَعَ إِلَى خَدِيجَةَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ , فَدَخَلَ , فَقَالَ:" زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي" فَزُمِّلَ , فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ , قَالَ:" يَا خَدِيجَةُ , لَقَدْ أَشْفَقْتُ عَلَى نَفْسِي بَلَاءً , لَقَدْ أَشْفَقْتُ عَلَى نَفْسِي بَلَاءً" , قَالَتْ خَدِيجَةُ: أَبْشِرْ , فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا , إِنَّكَ لَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ , وَتَصِلُ الرَّحِمَ , وَتَحْمِلُ الْكَلَّ , وَتَقْرِي الضَّيْفَ , وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ , فَانْطَلَقَتْ بِي خَدِيجَةُ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدٍ , وَكَانَ رَجُلًا قَدْ تَنَصَّرَ , شَيْخًا أَعْمَى يَقْرَأُ الْإِنْجِيلَ بِالْعَرَبِيَّةِ , فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: أَيْ عَمِّ , اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ , فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي , مَاذَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالَّذِي رَأَى مِنْ ذَلِكَ , فَقَالَ لَهُ وَرَقَة: ُهَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَلَ عَلَى مُوسَى , يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا , يَا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ" , قَالَ: نَعَمْ , لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ قَطُّ إِلَّا عُودِيَ , وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ , أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ پہلی وحی نازل ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی فرمایا مجھے کوئی چیز اوڑھا دو، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کمبل اوڑھا دیا گیا، جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدیجہ! مجھے تو اپنے اوپر کسی مصیبت کے نازل ہونے کا خطرہ ہونے لگا تھا، دو مرتبہ فرمایا: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ بشارت قبول کیجئے واللہ آپ کو اللہ کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں کا بوجھ بٹاتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے معاملات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، انہوں نے عیسائیت قبول کرلی تھی اور بہت بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے اور عربی زبان میں انجیل پڑھ چکے تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ چچا جان! اپنے بھتیجے کی بات سنیئے، ورقہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بھتیجے! آپ کیا دیکھتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام چیزیں بیان کردیں جو انہوں نے دیکھی تھیں، روقہ نے کہا کہ یہ تو وہی ناموس ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا، اے کاش! اس وقت مجھ میں طاقت ہو اور میں زندہ ہوں جبکہ آپ کو آپ کی قوم نکال دے گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا جی ہاں! جو شخص بھی آپ جیسی دعوت لے کر آیا لوگوں نے اس سے عداوت کی اور اگر مجھے آپ کا زمانہ ملا تو میں آپ کی مضبوط مدد کروں گا۔
حدثنا حجاج , قال: حدثنا ليث , قال: حدثني عقيل , عن ابن شهاب , عن عروة بن الزبير , عن عائشة , " ان ازواج النبي صلى الله عليه وسلم كن يخرجن بالليل إذا تبرزن إلى المناصع , وهو صعيد افيح , وكان عمر بن الخطاب يقول لرسول الله صلى الله عليه وسلم: احجب نساءك , فلم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل , فخرجت سودة بنت زمعة زوج النبي صلى الله عليه وسلم ليلة من الليالي عشاء , وكانت امراة طويلة , فناداها عمر الا قد عرفناك يا سودة وحرصا على ان ينزل الحجاب , قالت عائشة فانزل الحجاب" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ , قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ , عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ , " أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ يَخْرُجْنَ بِاللَّيْلِ إِذَا تَبَرَّزْنَ إِلَى الْمَنَاصِعِ , وَهُوَ صَعِيدٌ أَفْيَحُ , وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْجُبْ نِسَاءَكَ , فَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ , فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي عِشَاءً , وَكَانَتْ امْرَأَةً طَوِيلَةً , فَنَادَاهَا عُمَرُ أَلَا قَدْ عَرَفْنَاكِ يَا سَوْدَةُ وحِرْصًا عَلَى أَنْ يُنْزَلَ الْحِجَابُ , قَالَتْ عَائِشَةُ فَأُنْزِلَ الْحِجَابُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات قضاء حاجت کے لئے خالی میدانوں کی طرف رات کے وقت نکلا کرتی تھیں، ایک مرتبہ حضرت سودہ قضاء حاجت کیلئے نکلیں چونکہ ان کا قد لمبا اور جسم بھاری تھا (اس لئے لوگ انہیں پہچان لیتے تھے) راستے میں انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے حضرت سودہ کو دیکھ کر دور ہی سے پکارا سودہ! ہم نے تمہیں پہچان لیا اور یہ بات انہوں نے حجاب کا حکم نازل ہونے کی امید میں کہی تھی، چنانچہ آیت حجاب نازل ہوگئی۔
حدثنا حجاج , قال: حدثنا ليث , قال: حدثني نافع , عن القاسم بن محمد , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن اصحاب هذه الصور يعذبون يوم القيامة , ويقال لهم احيوا ما خلقتم" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ , قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ , عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ أَصْحَابَ هَذِهِ الصُّوَرِ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَيُقَالُ لَهُمْ أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان تصویروں والوں کو قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو چیزیں تم نے تخلیق کی تھیں، انہیں زندگی بھی دو۔
حدثنا حجاج , قال: حدثنا ليث , قال: حدثني عقيل بن خالد , عن ابن شهاب , قال: اخبرني عروة بن الزبير , ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم كانت تقول:" ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسبح سبحة الضحى , وكانت عائشة تسبحها , وكانت تقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك كثيرا من العمل خشية ان يستن الناس به فيفرض عليهم" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ , قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ تَقُولُ:" مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبِّحُ سُبْحَةَ الضُّحَى , وَكَانَتْ عَائِشَةُ تُسَبِّحُهَا , وَكَانَتْ تَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ كَثِيرًا مِنَ الْعَمَلِ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَنَّ النَّاسُ بِهِ فَيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز کبھی نہیں پڑھی، البتہ وہ پڑھتی تھیں اور کہتی تھیں کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی عمل کو محبوب رکھنے کے باوجود اس وجہ سے اسے ترک فرما دیتے تھے کہ کہیں لوگ اس پر عمل نہ کرنے لگیں جس کے نتیجے میں وہ عمل ان پر فرض ہوجائے (اور پھر وہ نہ کرسکیں) اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ لوگوں پر فرائض میں تخفیف ہونا زیادہ بہتر ہے۔
حدثنا حجاج , قال: حدثنا ليث , قال: حدثني عقيل , عن ابن شهاب , عن عروة بن الزبير , عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم انها قالت: " والله ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين امرين قط , إلا اخذ ايسرهما ما لم ياثم , فإذا كان الإثم , كان ابعدهم منه , والله ما انتقم لنفسه في شيء يؤتى إليه قط , حتى تنتهك حرمات الله عز وجل , فينتقم لله عز وجل" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ , قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا قَالَتْ: " وَاللَّهِ مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَطُّ , إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَأْثَمْ , فَإِذَا كَانَ الْإِثْمُ , كَانَ أَبْعَدَهُمْ مِنْهُ , وَاللَّهِ مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ يُؤْتَى إِلَيْهِ قَطُّ , حَتَّى تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو چیزیں پیش کی جاتیں اور ان میں سے ایک چیز زیادہ آسان ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کو اختیار فرما لیتے تھے، الاّ یہ کہ وہ گناہ ہو، کیونکہ اگر وہ گناہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں لوگوں کو اس نسبت سے زیادہ دور ہوتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بھی گستاخی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی سے کبھی انتقام نہیں لیتے تھے البتہ اگر محارم الٰہی کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لئے انتقام لیا کرتے تھے۔
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قالت: " ربما فتلت القلائد لهدي رسول الله صلى الله عليه وسلم , فيقلد هديه , ثم يبعث به , ثم يقيم لا يجتنب شيئا مما يجتنب المحرم" ..حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " رُبَّمَا فَتَلْتُ الْقَلَائِدَ لِهَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَيُقَلِّدُ هَدْيَهُ , ثُمَّ يَبْعَثُ بِهِ , ثُمَّ يُقِيمُ لَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہدی کا جانور مکہ مکرمہ بھیجتے تھے اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانور یعنی بکری کے قلادے بٹا کرتی تھی، اس کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے اپنے آپ کو نہیں روکتے تھے (جن سے محرم بچتے تھے)
گزشتہ حدیث اور دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور گویا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ میں حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
حدثنا ابو معاوية , قال: حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قالت: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم صفية , قالت: فقلنا: قد حاضت , قالت: فقال: " عقرى حلقى , ما اراها إلا حابستنا" قالت: فقلنا: يا رسول الله , إنها قد طافت يوم النحر , قال:" فلا إذا , مروها فلتنفر" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفِيَّةَ , قَالَتْ: فَقُلْنَا: قَدْ حَاضَتْ , قَالَتْ: فَقَالَ: " عَقْرَى حَلْقَى , مَا أُرَاهَا إِلَّا حَابِسَتَنَا" قَالَتْ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّهَا قَدْ طَافَتْ يَوْمَ النَّحْرِ , قَالَ:" فَلَا إِذًا , مُرُوهَا فَلْتَنْفِرْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا تو ہم نے بتایا کہ ان کے " ایام " شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ عورتیں تو کاٹ دیتی ہیں اور مونڈ دیتی ہیں، وہ ٹھہرنے پر مجبور کر دے گی؟ ہم نے کہا یاسول اللہ! اس نے دس ذی الحجہ کو طواف زیارت کیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس پھر کوئی حرج نہیں، اب روانہ ہوجاؤ۔
حدثنا ابو معاوية , قال: حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قالت: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم , جاء بلال يؤذنه بالصلاة , فقال: " مروا ابا بكر فليصل بالناس" , قالت: فقلت: يا رسول الله , إن ابا بكر رجل اسيف , وإنه متى يقوم مقامك لا يسمع الناس , فلو امرت عمر , فقال:" مروا ابا بكر فليصل بالناس" , قالت: فقلت لحفصة: قولي له , فقالت له حفصة: يا رسول الله , إن ابا بكر رجل اسيف , وإنه متى يقوم مقامك لا يسمع الناس , فلو امرت عمر , فقال:" إنكن لانتن صواحب يوسف , مروا ابا بكر فليصل بالناس , قالت فامروا ابا بكر يصلي بالناس , فلما دخل في الصلاة , وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم من نفسه خفة , فقالت: فقام يهادى بين رجلين , ورجلاه تخطان في الارض , حتى دخل المسجد , فلما سمع ابو بكر حسه , ذهب ليتاخر , فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان قم كما انت , فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى جلس عن يسار ابي بكر , وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس قاعدا , وابو بكر قائما يقتدي ابو بكر بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم , والناس يقتدون بصلاة ابي بكر .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , جَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ , فَقَالَ: " مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" , قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ , وَإِنَّهُ مَتَى يَقُومُ مَقَامَكَ لَا يُسْمِعُ النَّاسَ , فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ , فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" , قَالَتْ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ , فَقَالَتْ لَهُ حَفْصَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ , وَإِنَّهُ مَتَى يَقُومُ مَقَامَكَ لَا يُسْمِعُ النَّاسَ , فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ , فَقَالَ:" إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ , مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ , قَالَتْ فَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ , فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ , وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً , فَقَالَتْ: فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ , وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ , حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ , فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ , ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ , فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ قُمْ كَمَا أَنْتَ , فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ , وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ قَاعِدًا , وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالنَّاسُ يَقْتَدُونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ انہیں نماز کی اطلاع دینے کے لئے حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر سے کہہ دو کہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابوبکر رقیق القلب آدمی ہیں، جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے اور اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے، اس لئے آپ عمر کو اس کا حکم دے دیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی حکم دیا، ہم نے بھی اپنی بات دہرا دی، تیسری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر سے کہہ دو کہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، تم تو یوسف والیاں ہو، چنانچہ میں نے والد صاحب کے پاس پیغام بھیج دیا۔ کچھ دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مرض میں تحفیف محسوس ہوئی اور وہ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر اس طرح نکلے کہ ان کے پاؤں زمین پر لکیر بناتے جا رہے تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب محسوس ہوا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ اپنی جگہ ہی رہو۔ اور خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ایک جانب بیٹھ گئے۔ اب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کسی کام کی منت مانی ہو، اسے اللہ کی اطاعت کرنی چاہئیے اور جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی منت مانی ہو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا عبد الله بن إدريس , قال: سمعت عبيد الله بن عمر , واخبرنا مالك بن انس , عن طلحة بن عبد الملك , عن القاسم , عن عائشة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , مثله , قال ابو عبد الرحمن: حديث غريب من حديث يحيى بن سعيد , ما سمعته إلا من ابي , عن ابن نمير وطلحة بن عبد الملك , رجل من اهل ايلة , قال ابو عبد الرحمن: قال اصحاب الحديث ليس هذا بالكوفة , إنما هذا عن ابن نمير , عن عبيد الله , يعني العمري , فقلت لهم: امضوا إلى ابي خيثمة , فإن سماعهم بالكوفة واحد من ابن نمير , فذهبوا فاصابوه.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ , قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ , وَأَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ , عَنْ الْقَاسِمِ , عَنْ عَائِشَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , مِثْلَهُ , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ , مَا سَمِعْتُهُ إِلَّا مِنْ أَبِي , عَنِ ابْنِ نُمَيْرٍ وَطَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ , رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ أَيْلَةَ , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قَالَ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ لَيْسَ هَذَا بِالْكُوفَةِ , إِنَّمَا هَذَا عَنِ ابْنِ نُمَيْرٍ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , يَعْنِي الْعُمَرِيّ , فَقُلْتُ لَهُمْ: امْضُوا إِلَى أَبِي خَيْثَمَةَ , فَإِنَّ سَمَاعَهُمْ بِالْكُوفَةِ وَاحِدٌ مِنَ ابْنِ نُمَيْرٍ , فَذَهَبُوا فَأَصَابُوهُ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غسل واجب ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پانی کو ہاتھ لگائے بغیر سو جاتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف حجاج
حدثنا يعلى , قال: حدثنا زكريا , عن عامر , عن ابي سلمة بن عبد الرحمن , ان عائشة حدثته , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لها: " إن جبريل عليه السلام يقرا عليك السلام" , قالت: فقلت: وعليه السلام ورحمة الله .حَدَّثَنَا يَعْلَى , قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا , عَنْ عَامِرٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا: " إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ" , قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک مرتبہ فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، انہوں نے جواب دیا۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا هشام يعني ابن حسان , عن ابن سيرين , عن دقرة , قالت: كنت امشي مع عائشة في نسوة بين الصفا والمروة , فرايت امراة عليها خميصة فيها صلب , فقالت لها عائشة " انزعي هذا من ثوبك , فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رآه في ثوب قضبه" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ حَسَّانَ , عَنْ ابْنِ سِيرِينَ , عَنْ دِقْرَةَ , قَالَتْ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ عَائِشَةَ فِي نِسْوَةٍ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ , فَرَأَيْتُ امْرَأَةً عَلَيْهَا خَمِيصَةٌ فِيهَا صُلُبٌ , فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ " انْزَعِي هَذَا مِنْ ثَوْبِكِ , فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَآهُ فِي ثَوْبٍ قَضَبَهُ" .
دقرہ ام عبدالرحمن کہتی ہیں کہ ہم لوگ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ طواف کر رہے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک عورت کے جسم پر صلیب کی تصویر والی ایک چادر دیکھی، تو اس سے فرمایا کہ اسے اتارو، اتارو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ایسی چیز دیکھتے تو اسے ختم کردیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہرن کے گوشت کی بوٹیاں پیش کی گئیں، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں تھے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول نہیں فرمایا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن ثبت سماع حسن بن محمد من عائشة
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا إسرائيل , عن سماك , عن عكرمة , عن عائشة , قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرفع يديه يدعو , حتى إني لاسام له مما يرفعهما يدعو " اللهم فإنما انا بشر , فلا تعذبني بشتم رجل شتمته او آذيته" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ يَدْعُو , حَتَّى إِنِّي لَأَسْأَمُ لَهُ مِمَّا يَرْفَعُهُمَا يَدْعُو " اللَّهُمَّ فَإِنَّمَا أَنَا بَشْرٌ , فَلَا تُعَذِّبْنِي بِشَتْمِ رَجُلٍ شَتَمْتُهُ أَوْ آذَيْتُهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ پھیلا کر دعا کی کہ اے اللہ! میں بھی انسان ہوں اس لئے آپ کے جس بندے کو میں نے مارا ہو یا ایذاء پہنچائی ہو تو اس پر مجھ سے مواخذہ نہ کیجئے گا۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف بهذه السياقة. رواية سماك عن عكرمة مضطربة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سو رہی ہوتی تھی اور میرے پاؤں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلے کی سمت میں ہوتے تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جانے لگتے تو مجھے چٹکی بھر دیتے اور میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی، جب وہ کھڑے ہوجاتے تو میں انہیں پھیلا لیتی تھی اور اس زمانے میں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔
حدثنا عبد الرزاق , قال: اخبرنا معمر , قال: قال الزهري ، واخبرني عروة , عن عائشة " انها لم تكن تفعل ذلك , وقالت: إنما نزله رسول الله صلى الله عليه وسلم لانه كان منزلا اسمح لخروجه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ ، وَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ , عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّهَا لَمْ تَكُنْ تَفْعَلُ ذَلِكَ , وَقَالَتْ: إِنَّمَا نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَنَّهُ كَانَ مَنْزِلًا أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ" .
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ مقام " ابطح " میں پڑاؤ کرنا سنت نہیں ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں صرف اس لئے پڑاؤ کیا تھا کہ اس طرف سے نکلنا زیادہ آسان تھا۔
حدثنا عبد الرزاق , قال: اخبرنا الثوري ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل , عن ابي سلمة ، عن عائشة , او عن ابي هريرة , ان النبي صلى الله عليه وسلم" كان إذا اراد ان يضحي , اشترى كبشين عظيمين سمينين املحين اقرنين موجوءين , فيذبح احدهما عن امته ممن شهد بالتوحيد , وشهد له بالبلاغ , وذبح الآخر عن محمد صلى الله عليه وسلم وآل محمد" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ , أَوْ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ , اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ مَوْجُوءيْنِ , فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ شَهِدَ بِالتَّوْحِيدِ , وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ , وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَآلِ مُحَمَّدٍ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو مینڈھے خریدتے جو خوب موٹے تازے، صحت مند، سینگدار، خوب صورت اور خصی ہوتے تھے اور ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح فرماتے جو توحید کے اقرار پر قائم ہوئے اور اس بات کی گواہی دیتے ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام الٰہی پہنچا دیا اور دوسرا جانور محمد صلی اللہ علیہ وسلم و آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربان کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد فيه ضعف لاضطراب عبدالله
حدثنا عبد الرزاق , قال: حدثنا معمر , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: " كنت افتل قلائد هدي النبي صلى الله عليه وسلم ثم يبعث بها , فما يجتنب شيئا مما يجتنب المحرم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَبْعَثُ بِهَا , فَمَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہدی کا جانور مکہ مکرمہ بھیجتے تھے اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانور یعنی بکری کے قلادے بٹا کرتی تھی، اس کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے اپنے آپ کو نہیں روکتے تھے (جن سے محرم بچتے تھے)۔
حدثنا عبد الرزاق , قال: حدثنا معمر , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: جاءت هند إلى النبي صلى الله عليه وسلم , فقالت: يا رسول الله , ما كان على ظهر الارض خباء احب إلي ان يذلهم الله عز وجل من اهل خبائك , وما على ظهر الارض اليوم اهل خباء احب إلي ان يعزهم الله عز وجل من اهل خبائك , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وايضا والذي نفسي بيده" , ثم قالت: يا رسول الله، وإن ابا سفيان رجل ممسك , فهل علي حرج ان انفق على عياله من ماله بغير إذنه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا حرج عليك ان تنفقي عليهم بالمعروف" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: جَاءَتْ هِنْدٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ خِبَاءٌ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُذِلَّهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ , وَمَا عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ الْيَوْمَ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُعِزَّهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ" , ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وإِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مُمْسِكٌ , فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أُنْفِقَ عَلَى عِيَالِهِ مِنْ مَالِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَرَجَ عَلَيْكِ أَنْ تُنْفِقِي عَلَيْهِمْ بِالْمَعْرُوفِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہند بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! قبول اسلام سے پہلے روئے زمین پر آپ کے خیموں والوں سے زیادہ کسی کو ذلیل کرنا مجھے پسند نہ تھا اور اب آپ کے خیمے والوں سے زیادہ کسی کو عزت دینا مجھے پسند نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، بات اسی طرح ہے، پھر ہند نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابوسفیان مال خرچ کرنے میں ہاتھ تنگ رکھتے ہیں، اگر میں ان کے مال سے ان ہی کے بچوں پر ان کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ کرلیا کروں تو کیا مجھ پر گناہ ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھلے طریقے سے ان پر خرچ کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعتوں پر وتر بناتے تھے، پھر جب عمر مبارک زیادہ ہوگئی اور جسم مبارک بھاری ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سات رکعتوں پر وتر بنانے لگے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على الأعمش
حدثنا عبد الرزاق , قال: اخبرنا هشام , عن محمد , عن عائشة , قالت: " اسر , تعني النبي صلى الله عليه وسلم القراءة في ركعتي الفجر , وقرا فيهما قل يا ايها الكافرون و قل هو الله احد" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنْ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " أَسَرَّ , تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِرَاءَةَ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ , وَقَرَأَ فِيهِمَا قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں میں سورت کافروں اور سورت اخلاص پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قولها: أسر النبى ﷺ ، وهذا إسناد فيه انقطاع بين محمد ابن سيرين و عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شہد کی نیند کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ مشروب جو نشہ آور ہو، وہ حرام ہے۔
حدثنا عبد الرزاق , قال: حدثنا معمر , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , ان رفاعة القرظي طلق امراته , فبت طلاقها , فتزوجها بعده عبد الرحمن بن الزبير , فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم , فقالت: يا نبي الله , إنها كانت عند رفاعة , وطلقها آخر ثلاث تطليقات , فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير , وإنه والله ما معه يا رسول الله إلا مثل هذه الهدبة , فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم قال لها: " لعلك تريدين ان ترجعي إلى رفاعة , لا , حتى تذوقي عسيلته , ويذوق عسيلتك" , قالت وابو بكر جالس عند النبي صلى الله عليه وسلم , وخالد بن سعيد جالس بباب الحجرة , لم يؤذن له , فطفق خالد ينادي ابا بكر يقول يا ابا بكر , الا تزجر هذه عما تجهر به عند رسول الله صلى الله عليه وسلم؟.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيَّ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ , فَبَتَّ طَلَاقَهَا , فَتَزَوَّجَهَا بَعْدَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الزُّبَيْرِ , فَجَاءَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , إِنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ رِفَاعَةَ , وَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ , فَتَزَوَّجَتْ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ , وَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا مَعَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا مِثْلَ هَذِهِ الْهُدْبَةِ , فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ قَالَ لَهَا: " لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ , لَا , حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ , وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ" , قَالَتْ وَأَبُو بَكْرٍ جَالِسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ جَالِسٌ بِبَابِ الْحُجْرَةِ , لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ , فَطَفِقَ خَالِدٌ يُنَادِي أَبَا بَكْرٍ يَقُولُ يَا أَبَا بَكْرٍ , أَلَا تَزْجُرُ هَذِهِ عَمَّا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رفاعہ قرظی کی بیوی آئی، میں اور حضرت ابوبکر بھی وہاں موجود تھے، اس نے کہا مجھے رفاعہ نے طلاق بتہ دے دی ہے، جس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر نے مجھ سے نکاح کرلیا، پھر اس نے اپنی چادر کا ایک کونا پکڑ کر کہا کہ اس کے پاس تو صرف اس طرح کا ایک کونا ہے، اس وقت گھر کے دروازے پر خالد بن سعید بن عاص موجود تھے، انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں ملی تھی اس لئے انہوں نے باہر سے ہی کہا کہ ابوبکر! آپ اس عورت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح باتیں بڑھ چڑھ کر بیان کرنے سے کیوں نہیں روکتے؟ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مسکرانے پر ہی اکتفاء کیا اور پھر شاید تم رفاعہ کے پاس جانے کی خواہش رکھتی ہو؟ لیکن یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم اس کا شہد نہ چکھ لو اور وہ تمہارا شہد نہ چکھ لے۔
حدثنا عبد الرزاق , قال: حدثنا معمر , عن الزهري ، عن عروة , قال: دخلت امراة عثمان بن مظعون , احسب اسمها خولة بنت حكيم , على عائشة , وهي باذة الهيئة , فسالتها ما شانك؟ , فقالت: زوجي يقوم الليل ويصوم النهار , فدخل النبي صلى الله عليه وسلم , فذكرت عائشة ذلك له , فلقي رسول الله صلى الله عليه وسلم عثمان , فقال:" يا عثمان , إن الرهبانية لم تكتب علينا , افما لك في اسوة؟ فوالله إني اخشاكم لله , واحفظكم لحدوده" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , قَالَ: دَخَلَتْ امْرَأَةُ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ , أَحْسِبُ اسْمَهَا خَوْلَةَ بِنْتَ حَكِيمٍ , عَلَى عَائِشَةَ , وَهِيَ بَاذَّةُ الْهَيْئَةِ , فَسَأَلْتُهَا مَا شَأْنُكِ؟ , فَقَالَتْ: زَوْجِي يَقُومُ اللَّيْلَ وَيَصُومُ النَّهَارَ , فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرَتْ عَائِشَةُ ذَلِكَ لَهُ , فَلَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ , فَقَالَ:" يَا عُثْمَانُ , إِنَّ الرَّهْبَانِيَّةَ لَمْ تُكْتَبْ عَلَيْنَا , أَفَمَا لَكَ فِيَّ أُسْوَةٌ؟ فَوَاللَّهِ إِنِّي أَخْشَاكُمْ لِلَّهِ , وَأَحْفَظُكُمْ لِحُدُودِهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن معظون کی اہلیہ مہندی لگاتی تھیں اور خوشبو سے مہکتی تھیں لیکن ایک دم انہوں نے یہ سب چیزیں چھوڑ دیں، ایک دن وہ میرے پاس پراگندہ حالت میں آئیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی کیا حالت ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے شوہر شب بیدار اور صائم النہار ہیں، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں نے ان سے یہ بات ذکر کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملے اور فرمایا اے عثمان! ہم پر رھبانیت فرض نہیں کی گئی، کیا میری ذات میں تمہارے لئے اسوہ حسنہ نہیں ہے؟ واللہ تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کی حدود کی حفاظت کرنے والا میں ہوں۔
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , ان عتبة بن ابي وقاص قال لاخيه سعد اتعلم ان ابن جارية زمعة ابني؟ قالت عائشة: فلما كان يوم الفتح , راى سعد الغلام , فعرفه بالشبه , واحتضنه إليه , وقال ابن اخي: ورب الكعبة , فجاء عبد بن زمعة , فقال: بل هو اخي , وولد على فراش ابي من جاريته , فانطلقا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال سعد: يا رسول الله , هذا ابن اخي , انظر إلى شبهه بعتبة , قالت عائشة: فراى رسول الله صلى الله عليه وسلم شبها , لم ير الناس شبها ابين منه بعتبة , فقال عبد بن زمعة: يا رسول الله , بل هو اخي , ولد على فراش ابي من جاريته , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الولد للفراش , واحتجبي عنه يا سودة" , قالت عائشة: فوالله ما رآها حتى ماتت .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ عُتْبَةَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ لِأَخِيهِ سَعْدٍ أَتَعْلَمُ أَنَّ ابْنَ جَارِيَةِ زَمْعَةَ ابْنِي؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْفَتْحِ , رَأَى سَعْدٌ الْغُلَامَ , فَعَرَفَهُ بِالشَّبَهِ , وَاحْتَضَنَهُ إِلَيْهِ , وَقَالَ ابْنُ أَخِي: وَرَبِّ الْكَعْبَةِ , فجاء عبد بن زمعة , فقال: بل هو أخي , وولد على فراش أبي من جاريته , فانطلقا إلى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا ابْنُ أَخِي , انْظُرْ إِلَى شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ , قَالَتْ عَائِشَةُ: فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَهًا , لَمْ يَرَ النَّاسُ شَبَهًا أَبْيَنَ مِنْهُ بِعُتْبَةَ , فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , بَلْ هُوَ أَخِي , وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي مِنْ جَارِيَتِهِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ , وَاحْتَجِبِي عَنْهُ يَا سَوْدَةُ" , قَالَتْ عَائِشَةُ: فَوَاللَّهِ مَا رَآهَا حَتَّى مَاتَتْ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ زمعہ کی باندی کے بیٹے کے سلسلے میں عبد زمعہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص اپنا جھگڑا لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبد بن زمعہ کا کہنا تھا کہ یا رسول اللہ! یہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے اور حضرت سعد یہ کہہ رہے تھے کہ میرے بھائی نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب تم مکہ مکرمہ پہنچو تو زمعہ کی باندی کے بیٹے کو اپنے قبضے میں لے لینا کیونکہ وہ میرا بیٹا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو دیکھا تو اس میں عتبہ کے ساتھ واضح شباہت نظر آئی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبد! یہ بچہ تمہارا ہے، بدکار کے لئے پتھر ہیں اور اے سودہ! تم اس سے پردہ کرنا۔
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن الزهري ، عن عروة , قال: دخل النبي صلى الله عليه وسلم على عائشة مسرورا , فقال: " الم تسمعي ما قال المدلجي؟" وراى اسامة وزيدا نائمين في ثوب , او في قطيفة , وقد خرجت اقدامهما , فقال:" إن هذه الاقدام بعضها من بعض" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَائِشَةَ مَسْرُورًا , فَقَالَ: " أَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ الْمُدْلِجِيُّ؟" وَرَأَى أُسَامَةَ وَزَيْدًا نَائِمَيْنِ فِي ثَوْبٍ , أَوْ فِي قَطِيفَةٍ , وَقَدْ خَرَجَتْ أَقْدَامُهُمَا , فَقَالَ:" إِنَّ هَذِهِ الْأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش و خرم تشریف لائے اور فرمایا دیکھو تو سہی؟ ابھی مجزز آیا تھا، اس نے دیکھا کہ زید اور اسامہ ایک چادر اوڑھے ہوئے ہیں، ان کے سر ڈھکے ہوئے ہیں اور پاؤں کھلے ہوئے ہیں تو اس نے کہا کہ ان پاؤں والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کوئی رشتہ ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن كان صورة سياقة الإرسال غير أن عروة إنما سمعه من عائشة، خ: 6771، م: 1459
حدثنا يعلى بن عبيد ، قال: حدثنا يحيى , عن عمرة , عن عائشة , قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان يعتكف , صلى الصبح , ثم دخل في المكان الذي يريد ان يعتكف فيه , فاراد ان يعتكف العشر الاواخر من رمضان , فامر , فضرب له خباء , وامرت عائشة , فضرب لها خباء , وامرت حفصة , فضرب لها خباء , فلما رات زينب خباءهما , امرت , فضرب لها خباء , فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك قال: " البر تردن؟" , فلم يعتكف في رمضان واعتكف عشرا من شوال .حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ عَمْرَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ , صَلَّى الصُّبْحَ , ثُمَّ دَخَلَ فِي الْمَكَانِ الَّذِي يُرِيدُ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيهِ , فَأَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ , فَأَمَرَ , فَضُرِبَ لَهُ خِبَاءٌ , وَأَمَرَتْ عَائِشَةُ , فَضُرِبَ لَهَا خِبَاءٌ , وَأَمَرَتْ حَفْصَةُ , فَضُرِبَ لَهَا خِبَاءٌ , فَلَمَّا رَأَتْ زَيْنَبُ خِبَاءَهُمَا , أَمَرَتْ , فَضُرِبَ لَهَا خِبَاءٌ , فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ قَالَ: " الْبِرُّ تُرِدْنَ؟" , فَلَمْ يَعْتَكِفْ فِي رَمَضَانَ وَاعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو صبح کی نماز پڑھ کی ہی اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوجاتے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کے ارادے کا ذکر فرمایا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے اعتکاف کی اجازت مانگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنا خیمہ لگانے کا حکم دیا اور وہ لگا دیا گیا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے حکم پر ان کا خیمہ بھی لگا دیا گیا، یہ دیکھ کر حضرت زینب رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا خیمہ لگانے کو حکم دے دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن مسجد میں بہت سارے خیمے دیکھے تو فرمایا کیا تم اس سے نیکی حاصل کرنا چاہتی ہو؟ میں اعتکاف ہی نہیں کرتا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آگئے اور عید گزرنے کے بعد شوال کے دس دن کا اعتکاف فرمایا۔
حدثنا محمد بن عبيد ، قال: حدثني وائل بن داود , قال: سمعت البهي يحدث , عن عائشة , قالت: " ما بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن حارثة في جيش قط إلا امره عليهم , ولو بقي بعده استخلفه" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ دَاوُدَ , قَالَ: سَمِعْتُ الْبَهِيَّ يُحَدِّثُ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " مَا بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ فِي جَيْشٍ قَطُّ إِلَّا أَمَّرَهُ عَلَيْهِمْ , وَلَوْ بَقِيَ بَعْدَهُ اسْتَخْلَفَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی لشکر میں حضرت زید بن حارثہ کو بھیجا تو انہی کو اس لشکر کا امیر مقرر فرمایا: اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہی کو اپنا خلیفہ مقرر فرماتے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن إن صح سماع البهي من عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ تذکرہ ہوا کہ کچھ لوگ اپنی شرمگاہ کا رخ قبلہ کی جانب کرنے کو ناپسند کرتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا وہ ایسا کرتے ہیں؟ بیت الخلاء میں میرے بیٹھنے کی جگہ کا رخ قبلہ کی جانب کردو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف على نكارة فى متنه، خالد بن أبى الصلت لم يسمع من عراك وهو ضعيف أيضا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعتوں پر وتر بناتے تھے، پھر جب عمر مبارک زیادہ ہوگئی اور جسم مبارک بھاری ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سات رکعتوں پر وتر بنانے لگے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھ لیتے تھے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا ابو كامل ، حدثنا زهير , حدثنا إبراهيم بن مهاجر البجلي , عن مجاهد , ان السائب سال عائشة , فقال: إني لا استطيع ان اصلي إلا جالسا , فكيف ترين؟ قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " صلاة الرجل جالسا مثل نصف صلاته قائما" .حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُهَاجِرٍ الْبَجَلِيُّ , عَنْ مُجَاهِدٍ , أَنَّ السَّائِبَ سَأَلَ عَائِشَةَ , فَقَالَ: إِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أُصَلِّيَ إِلَّا جَالِسًا , فَكَيْفَ تَرَيْنَ؟ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " صَلَاةُ الرَّجُلِ جَالِسًا مِثْلُ نِصْفِ صَلَاتِهِ قَائِمًا" .
مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سائب نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ میں صرف بیٹھ کر ہی نماز پڑھ سکتا ہوں تو آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کے نصف ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، إبراهيم بن مهاجر فيه ضعف وقد اختلف عليه
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر قرأت کرتے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب قراءت بیٹھ کر کرتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے تھے۔
حدثنا ابو كامل ، حدثنا إبراهيم , حدثنا ابن شهاب , عن عروة , قال: قلت لعائشة : ارايت قول الله عز وجل إن الصفا، والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما سورة البقرة آية 158 فوالله ما على احد جناح ان لا يطوف بهما , قالت: " بئسما قلت يا ابن اختي , إنها لو كانت كما اولتها عليه كانت فلا جناح عليه ان لا يطوف بهما إنما انزلت ان هذا الحي من الانصار كانوا قبل ان يسلموا , يهلوا لمناة الطاغية التي كانوا يعبدون عند المشلل , وكان من اهل لها يتحرج ان يطوف بالصفا والمروة , فسالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك , فانزل الله عز وجل إن الصفا، والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما سورة البقرة آية 158 , قالت: ثم قد سن رسول الله صلى الله عليه وسلم الطواف بهما , فليس ينبغي لاحد ان يدع الطواف بهما" .حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ , حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ , عَنْ عُرْوَةَ , قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ : أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 فوَاللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ جُنَاحٌ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا , قَالَتْ: " بِئْسَمَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي , إِنَّهَا لَوْ كَانَتْ كَمَا أَوَّلْتَهَا عَلَيْهِ كَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا إِنَّمَا أُنْزِلَتْ أَنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنَ الْأَنْصَارِ كَانُوا قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا , يُهِلُّوا لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَ عِنْدَ الْمُشَلَّلِ , وَكَانَ مَنْ أَهَلَّ لَهَا يَتَحَرَّجُ أَنْ يَطَّوَّفَ بِالصَّفَا والْمَرْوَةِ , فَسَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 , قَالتَ: ثُمَّ قَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بِهِمَا , فَلَيْسَ يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَدَعَ الطَّوَافَ بِهِمَا" .
عروہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے " إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا " اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی صفا مروہ کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا بھانجھے! یہ تم نے غلط بات کہی، اگر اس آیت کا وہ مطلب ہوتا جو تم نے بیان کیا ہے پھر آیت اس طرح ہوتی " فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا " دراصل اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے کے لوگ " مناۃ " کے لئے احرام باندھتے تھے اور مشل کے قریب اس کی پوجا کرتے تھے اور جو شخص احرام باندھتا، وہ صفا مروہ کی سعی کو گناہ سمجھتا تھا، پھر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا یا رسول اللہ! لوگ زمانہ جاہلیت میں صفا مروہ کی سعی کو گناہ سمجھتے تھے، اب اس کا کیا حکم ہے؟ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا مروہ کی سعی کا ثبوت اپنی سنت سے پیش کیا لہذا اب کسی کے لئے صفا مروہ کی سعی چھوڑنا صحیح نہیں ہے۔
حدثنا محمد بن سلمة , عن خصيف , عن عبد العزيز بن جريج , قال: سالت عائشة ام المؤمنين باي شيء كان يوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: " كان يقرا في الركعة الاولى ب سبح اسم ربك الاعلى , وفي الثانية ب قل يا ايها الكافرون , وفي الثالثة ب قل هو الله احد , و المعوذتين" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ خُصَيْفٍ , عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ , قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يُوتِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: " كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى , وَفِي الثَّانِيَةَ بِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ , وَفِي الثَّالِثَةِ بِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ , و َالْمُعَوِّذَتَيْنِ" .
عبدالعزیز بن جریخ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتروں میں کون سی سورتیں پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا پہلی رکعت میں " سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" دوسری میں " قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ " اور تیسری میں " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " اور معوذتین کی تلاوت فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: والمعوذتين، وهذا إسناد ضعيف عبدالعزيز بن جريج، ثم إنه لم يسمع من عائشة
حدثنا محمد بن سلمة , عن هشام , عن محمد بن سيرين , عن عبد الله بن شقيق , قال: سالت عائشة عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: " كان يطيل الصلاة قائما وقاعدا , وكان إذا صلى قائما , ركع قائما , وإذا صلى قاعدا , ركع قاعدا" , وسالتها عن صيام رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول قد صام , قد صام , قد صام , ويفطر حتى نقول قد افطر , قد افطر , قد افطر , ولم يصم شهرا تاما منذ اتى المدينة إلا ان يكون شهر رمضان" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ هِشَامٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ , قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: " كَانَ يُطِيلُ الصَّلَاةَ قَائِمًا وَقَاعِدًا , وَكَانَ إِذَا صَلَّى قَائِمًا , رَكَعَ قَائِمًا , وَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا , رَكَعَ قَاعِدًا" , وَسَأَلْتُهَا عَنْ صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ صَامَ , قَدْ صَامَ , قَدْ صَامَ , وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ أَفْطَرَ , قَدْ أَفْطَرَ , قَدْ أَفْطَرَ , وَلَمْ يَصُمْ شَهْرًا تَامًّا مُنْذُ أَتَى الْمَدِينَةَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ شَهْرَ رَمَضَانَ" .
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نمازوں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر طویل نماز پڑھتے تھے، جب کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو کھڑے ہو کر ہی رکوع کرتے اور بیٹھ کر نماز پڑھتے تو رکوع بھی بیٹھ کر ہی کرتے، پھر میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفلی روزوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے روزے رکھتے کہ ہم اس کا تذکرہ کرنے لگتے اور بعض اوقات ناغے کرتے کہ ہم اس کا تذکرہ کرنے لگتے اور مدینہ منورہ آنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کے علاوہ کسی مہینے کے پورے روزے نہیں رکھے۔
حدثنا محمد بن سلمة , عن محمد بن إسحاق , عن يعقوب بن عتبة , عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله , عن عائشة , قالت: رجع إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم من جنازة بالبقيع , وانا اجد صداعا في راسي , وانا اقول: وا راساه , قال: " بل انا وا راساه" , قال:" ما ضرك لو مت قبلي , فغسلتك وكفنتك , ثم صليت عليك , ودفنتك" , قلت: لكني , او لكاني بك والله لو فعلت ذلك لقد رجعت إلى بيتي , فاعرست فيه ببعض نسائك , قالت: فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم بدئ بوجعه الذي مات فيه .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ , عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: رَجَعَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ جَنَازَةٍ بِالْبَقِيعِ , وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا فِي رَأْسِي , وَأَنَا أَقُولُ: وَا رَأْسَاهْ , قَالَ: " بَلْ أَنَا وَا رَأْسَاهْ" , قَالَ:" مَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِي , فَغَسَّلْتُكِ وَكَفَّنْتُكِ , ثُمَّ صَلَّيْتُ عَلَيْكِ , وَدَفَنْتُكِ" , قُلْتُ: لَكِنِّي , أَوْ لَكَأَنِّي بِكَ وَاللَّهِ لَوْ فَعَلْتَ ذَلِكَ لَقَدْ رَجَعْتَ إِلَى بَيْتِي , فَأَعْرَسْتَ فِيهِ بِبَعْضِ نِسَائِكَ , قَالَتْ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ بُدِئَ بِوَجَعِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کی ابتداء ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع سے میرے یہاں تشریف لائے، میرے سر میں درد ہو رہا تھا اس لئے میں نے کہا ہائے میرا سر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاق میں فرمایا میری خواہش ہے کہ جو ہونا ہے وہ میری زندگی میں ہوجائے تو میں اچھی طرح تمہیں تیار کر کے دفن کر دوں، میں نے کہا کہ آپ کا مقصد کچھ اور ہے، آپ اسی دن کسی اور عورت کے ساتھ دولہا بن کر شب باشی کریں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے، پھر مرض الوفات شروع ہوگیا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، محمد بن إسحاق صرح بالتحديث فى بعض الطرق فانتفت شبهة تدليسه
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے، یہ بیمار ہوگئی ہے اور اس کے سر کے بال جھڑ رہے ہیں، کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگوا سکتی ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل ابن إسحاق وقد صرح بالتحديث عنه الحافظ فى التغليق وقد توبع
عبادہ بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ذیقعدہ میں ہی عمرہ کیا تھا اور انہوں نے تین عمرے کئے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لتدليس ابن إسحاق وقد عنعن
حدثنا معمر بن سليمان , عن خصيف , عن مجاهد , عن عائشة , قالت:" نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن خمس لبس الحرير والذهب , والشرب في آنية الذهب والفضة , والميثرة الحمراء , ولبس القسي" , فقالت عائشة يا رسول الله , شيء رقيق من الذهب , يربط به المسك , او يربط به قال:" لا , اجعليه فضة , وصفريه بشيء من زعفران" ..حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ خُصَيْفٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ خَمْسٍ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالذَّهَبِ , وَالشُّرْبِ فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ , وَالْمِيثَرَةِ الْحَمْرَاءِ , وَلُبْسِ الْقَسِّيِّ" , فَقَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ , شَيْءٌ رَقِيقٌ مِنَ الذَّهَبِ , يُرْبَطُ بِهِ الْمِسْكُ , أَوْ يُرْبَطُ بِهِ قَالَ:" لَا , اجْعَلِيهِ فِضَّةً , وَصَفِّرِيهِ بِشَيْءٍ مِنْ زَعْفَرَانٍ" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پانچ چیزوں سے منع فرمایا ہے، ریشم اور سونا پہننے سے، سونے اور چاندی کے برتن میں پینے سے، سرخ زین پوش سے اور ریشمی لباس سے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر تھوڑا سا سونا مشک کے ساتھ ملا لیا جائے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، تم اسے چاندی کے ساتھ ملا لیا کرو، پھر اسے زعفران کے ساتھ خلط ملط کرلیا کرو۔ عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نمازوں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف خصيف والنهي عن بعض اشياء الورادة فى هذا الحديث ثابت بالاحاديث الصحيحة
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: جاءت سهلة بنت سهيل إلى النبي صلى الله عليه وسلم , فقالت: إن سالما كان يدعى لابي حذيفة , وإن الله عز وجل قد انزل كتابه ادعوهم لآبائهم سورة الاحزاب آية 5 فكان يدخل علي , وانا فضل , ونحن في منزل ضيق , فقال: " ارضعي سالما تحرمي عليه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: إِنَّ سَالِمًا كَانَ يُدْعَى لِأَبِي حُذَيْفَةَ , وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَنْزَلَ كِتَابَهُ ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ سورة الأحزاب آية 5 فَكَانَ يَدْخُلُ عَلَيَّ , وَأَنَا فُضُلٌ , وَنَحْنُ فِي مَنْزِلٍ ضَيِّقٍ , فَقَالَ: " أَرْضِعِي سَالِمًا تَحْرُمِي عَلَيْهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن حضرت سہلہ آئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ! ہم سالم کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے، وہ میرے اور ابوحذیفہ کے ساتھ رہتا تھا اور میری پردہ کی باتیں دیکھتا تھا، اب اللہ نے منہ بولے بیٹوں کے متعلق حکم نازل کردیا ہے، جو آپ بھی جانتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اپنا دودھ پلا دو، تم اس پر حرام ہوجاؤ گی۔
حدثنا عبد الرزاق , عن معمر , قال: قال الزهري ، واخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة , ان عائشة اخبرته , قالت:" اول ما اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيت ميمونة , فاستاذن ازواجه ان يمرض في بيتها , فاذن له , قالت: فخرج ويد له على الفضل بن عباس , ويد له على رجل آخر , وهو يخط برجليه في الارض , قال عبيد الله فحدثت به ابن عباس , فقال: اتدرون من الرجل الآخر الذي لم تسم عائشة؟ هو علي , ولكن عائشة لا تطيب له نفسا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , عَنْ مَعْمَرٍ , قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ ، وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ , أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ , قَالَتْ:" أَوَّلُ مَا اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ , فَاسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِهَا , فَأَذِنَّ لَهُ , قالت: فَخَرَجَ وَيَدٌ لَهُ عَلَى الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ , وَيَدٌ لَهُ عَلَى رَجُلٍ آخَرَ , وَهُوَ يَخُطُّ بِرِجْلَيْهِ فِي الْأَرْضِ , قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ , فَقَالَ: أَتَدْرُونَ مَنْ الرَّجُلُ الْآخَرُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ؟ هُوَ عَلِيٌّ , وَلَكِنَّ عَائِشَةَ لَا تَطِيبُ لَهُ نَفْسًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا آغاز حضرت میمونہ کے گھر میں ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے بیماری کے ایام میرے گھر میں گزارنے کی اجازت طلب کی تو سب نے اجازت دے دی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس اور ایک دوسرے آدمی (بقول راوی وہ حضرت علی تھے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کا نام ذکر کرنا ضروری نہ سمجھا) کے سہارے پر وہاں سے نکلے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک زمین پر گھستے ہوئے جا رہے تھے۔
قال قال الزهري : فاخبرني عروة , او عمرة , عن عائشة , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه: " صبوا علي من سبع قرب لم تحلل اوكيتهن , لعلي استريح , فاعهد إلى الناس" , قالت عائشة فاجلسناه في مخضب لحفصة من نحاس , وسكبنا عليه الماء منهن حتى طفق يشير إلينا ان قد فعلتن , ثم خرج .قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ : فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ , أَوْ عَمْرَةُ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: " صُبُّوا عَلَيَّ مِنْ سَبْعِ قِرَبٍ لَمْ تُحْلَلْ أَوْكِيَتُهُنّ , لَعَلِّي أَسْتَرِيحُ , فَأَعْهَدَ إِلَى النَّاسِ" , قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَجْلَسْنَاهُ فِي مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ مِنْ نُحَاسٍ , وَسَكَبْنَا عَلَيْهِ الْمَاءَ مِنْهُنَّ حَتَّى طَفِقَ يُشِيرُ إِلَيْنَا أَنْ قَدْ فَعَلْتُنّ , ثُمَّ خَرَجَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الوفات میں فرمایا مجھ پر سات ایسے مشکیزوں کا پانی ڈالو جن کا منہ نہ کھولا گیا ہو، شاید مجھے کچھ آرام ہوجائے، تو میں لوگوں کو نصیحت کر دوں، چنانچہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس موجود پیتل کے ایک ٹب میں بٹھایا اور ان مشکیزوں کا پانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالنے لگے حتیٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اشارے سے کہنے لگے بس کرو، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔
قال قال الزهري : واخبرني عبيد الله بن عبد الله , قال: اخبرتني عائشة وابن عباس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم حين نزل به , جعل يلقي خميصة له على وجهه , فإذا اغتم , كشفها عن وجهه وهو يقول: " لعنة الله على اليهود والنصارى , اتخذوا قبور انبيائهم مساجد" , قال: تقول عائشة يحذر مثل الذي صنعوا .قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ : وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ وَابْنُ عَبَّاسٍ ، أن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ نَزَلَ بِهِ , جَعَلَ يُلْقِي خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ , فَإِذَا اغْتَمَّ , كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ وَهُوَ يَقُولُ: " لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى , اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ" , قَالَ: تَقُولُ عَائِشَةُ يُحَذِّرُ مِثْلَ الَّذِي صَنَعُوا .
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو بار بار اپنے رخ انور پر چادر ڈال لیتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ ہوتی تو وہ چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرے سے ہٹا دیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ یہودونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس عمل سے لوگوں کو تنبیہ فرما رہے تھے تاکہ وہ اس میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
قال قال الزهري : فاخبرني حمزة بن عبد الله بن عمر , عن عائشة , لما دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم بيتي , قال: " مروا ابا بكر فليصل بالناس" , قالت: فقلت: يا رسول الله إن ابا بكر رجل رقيق , إذا قرا القرآن لا يملك دمعه , فلو امرت غير ابي بكر , قالت: والله ما بي إلا كراهية ان يتشاءم الناس باول من يقوم في مقام رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت فراجعته مرتين او ثلاثا , فقال:" ليصل بالناس ابو بكر , فإنكن صواحب يوسف" .قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ : فَأَخْبَرَنِي حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ عَائِشَةَ , لَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي , قَالَ: " مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" , قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ , إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ لَا يَمْلِكُ دَمْعَهُ , فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَ أَبِي بَكْرٍ , قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا بِي إِلَّا كَرَاهِيَةُ أَنْ يَتَشَاءَمَ النَّاسُ بِأَوَّلِ مَنْ يَقُومُ فِي مَقَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ فَرَاجَعْتُهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا , فَقَالَ:" لِيُصَلِّ بِالنَّاسِ أَبُو بَكْرٍ , فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے گھر آگئے تو فرمایا ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابورقیق القلب آدمی ہیں، وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکیں گیں، کیونکہ حضرت ابوبکر جب بھی قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو رونے لگتے تھے اور میں نے یہ بات صرف اس لئے کہی تھی کہ کہیں لوگ حضرت ابوبکر کے متعلق یہ نہ کہنا شروع کردیں کہ یہ ہے وہ پہلا آدمی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑا ہوا تھا اور گنہگا بن جائیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، جب میں نے تکرار کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا اور فرمایا تم یوسف علیہ السلام پر فریفتہ ہونے والی عورتوں کی طرح ہو (جو دل میں کچھ رکھتی تھیں اور زبان سے کچھ ظاہر کرتی تھیں)
حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش ، عن عمارة , عن ابي عطية , عن عائشة , قالت: كانت تلبية النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا يقول: " لبيك اللهم لبيك , لبيك لا شريك لك لبيك , إن الحمد والنعمة لك" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ , عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَتْ تَلْبِيَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا يَقُولُ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ , لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ , إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تین مرتبہ تلبیہ کہتے تھے لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ مسجد سے چٹائی اٹھا کر مجھے دینا، میں نے عرض کیا کہ میں تو ایام سے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔
حدثنا ابو معاوية , حدثنا هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت: طلق رجل امراته , فتزوجت زوجا غيره , فدخل بها , وكان معه مثل الهدبة , فلم يقربها إلا هبة واحدة , لم يصل منها إلى شيء , فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم , فقالت ااحل لزوجي الاول؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تحلي لزوجك الاول حتى يذوق الآخر عسيلتك , وتذوقي عسيلته" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ , فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ , فَدَخَلَ بِهَا , وَكَانَ مَعَهُ مِثْلُ الْهُدْبَةِ , فَلَمْ يَقْرَبْهَا إِلَّا هَبَّةً وَاحِدَةً , لَمْ يَصِلْ مِنْهَا إِلَى شَيْءٍ , فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ أأَحِلُّ لِزَوْجِي الْأَوَّلِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَحِلِّي لِزَوْجِكِ الْأَوَّلِ حَتَّى يَذُوقَ الْآخَرُ عُسَيْلَتَكِ , وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ سوال پیش کیا گیا کہ آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اس نے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلیا، اس شخص نے اس کے ساتھ خلوت تو کی لیکن مباشرت سے قبل ہی اسے طلاق دے دی تو کیا وہ اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ پہلے شخص کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک دوسرا شوہر اس کا شہد اور وہ اس کا شہد نہ چکھ لے۔
حدثنا ابو معاوية , قال: حدثنا هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم من سفر , قالت: فعلقت على بابي قراما فيه الخيل اولات الاجنحة , قالت: فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" انزعيه" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ , قَالَتْ: فَعَلَّقْتُ عَلَى بَابِي قِرَامًا فِيهِ الْخَيْلُ أُولَاتُ الْأَجْنِحَةِ , قَالَتْ: فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" انْزِعِيهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر سے واپس آئے تو دیکھا کہ میں نے گھر کے دروازے پر ایک پردہ لٹکا رکھا ہے، جس پر ایک پروں والے گھوڑے کی تصویر بنی ہوئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ اسے اتار دو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت حالت جنابت میں ہوتے، پھر غسل کرلیتے اور بقیہ دن کا روزہ مکمل کرلیتے تھے۔
حدثنا ابو معاوية , قال: حدثنا هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت: " ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضرب خادما له قط , ولا امراة له قط , ولا ضرب بيده شيئا قط إلا ان يجاهد في سبيل الله , ولا نيل منه شيء قط , فينتقمه من صاحبه إلا ان يكون لله عز وجل , فإن كان لله انتقم له , ولا عرض عليه امران إلا اخذ بالذي هو ايسر , إلا ان يكون إثما , فإن كان إثما , كان ابعد الناس منه" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ خَادِمًا لَهُ قَطُّ , وَلَا امْرَأَةً لَهُ قَطُّ , وَلَا ضَرَبَ بِيَدِهِ شَيْئًا قَطُّ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَلَا نِيلَ مِنْهُ شَيْءٌ قَطُّ , فَيَنْتَقِمَهُ مِنْ صَاحِبِهِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , فَإِنْ كَانَ لِلَّهِ انْتَقَمَ لَهُ , وَلَا عُرِضَ عَلَيْهِ أَمْرَانِ إِلَّا أَخَذَ بِالَّذِي هُوَ أَيْسَرُ , إِلَّا أَنْ يَكُونَ إِثْمًا , فَإِنْ كَانَ إِثْمًا , كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی خادم یا کسی بیوی کو کبھی نہیں مارا اور اپنے ہاتھ سے کبھی کسی پر ضرب نہیں لگائی الاّ یہ کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کر رہے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بھی گستاخی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی سے کبھی انتقام نہیں لیتے تھے البتہ اگر محارم الٰہی کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لئے انتقام لیا کرتے تھے اور جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو چیزیں پیش کی جاتیں اور ان میں سے ایک چیز زیادہ آسان ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آسان چیز کو اختیار فرماتے تھے، الاّ یہ کہ وہ گناہ ہو، کیونکہ اگر وہ گناہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں لوگوں کی نسبت اس سے زیادہ سے زیادہ دور ہوتے تھے۔
حدثنا ابو معاوية وابن نمير ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن مسلم , عن مسروق , عن عائشة , قالت: اتى النبي صلى الله عليه وسلم ناس من اليهود , فقالوا: السام عليك يا ابا القاسم , فقال:" وعليكم" , قالت عائشة: فقلت: وعليكم السام والذام , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عائشة , لا تكوني فاحشة" , قالت: فقلت: يا رسول الله , اما سمعت ما قالوا: السام عليك , قال:" اليس قد رددت عليهم الذي قالوا , قلت وعليكم" , قال ابن نمير , يعني في حديث عائشة إن الله عز وجل لا يحب الفحش ولا التفحش , وقال ابن نمير في حديثه فنزلت هذه الآية وإذا جاءوك حيوك بما لم يحيك به الله سورة المجادلة آية 8 حتى فرغ .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ , عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسٌ مِنَ الْيَهُودِ , فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ , فَقَالَ:" وَعَلَيْكُمْ" , قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: وَعَلَيْكُمْ السَّامُ وَالذَّامُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَائِشَةُ , لَا تَكُونِي فَاحِشَةً" , قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَمَا سَمِعْتَ مَا قَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ , قَالَ:" أَلَيْسَ قَدْ رَدَدْتُ عَلَيْهِمْ الَّذِي قَالُوا , قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ" , قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ , يَعْنِي فِي حَدِيثِ عَائِشَةَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ , وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ سورة المجادلة آية 8 حَتَّى فَرَغَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ یہودیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں آنے کی اجازت چاہی اور السام علیک کہا، (جس کا مطلب یہ ہے کہ تم پر موت طاری ہو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وعلیکم، یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ تم پر ہی موت اور لعنت طاری ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! اتنی کھلی بات کرنے والی نہ بنو، میں نے عرض کیا کہ کیا آپ نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے انہیں جواب دیدیا ہے، وعلیکم (تم پر ہی موت طاری ہو)
حدثنا ابو معاوية , قال: حدثنا هشام , عن ابيه , عن عائشة , قالت: " إن نزول الابطح ليس بسنة , إنما نزله رسول الله صلى الله عليه وسلم لانه كان اسمح لخروجه صلى الله عليه وسلم" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " إِنَّ نُزُولَ الْأَبْطَحِ لَيْسَ بِسُنَّةٍ , إِنَّمَا نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَنَّهُ كَانَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مقام " ابطح " میں پڑاؤ کرنا سنت نہیں ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں صرف اس لئے پڑاؤ کیا تھا کہ اس طرف سے نکلنا زیادہ آسان تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معتکف ہوتے اور مسجد سے اپنا سر باہر نکال دیتے، میں اسے دھو دیتی حالانکہ میں ایام سے ہوتی تھی۔
حدثنا ابن نمير , عن الاعمش ، ويعلى , حدثنا الاعمش ، عن مسلم , عن مسروق , عن عائشة , قالت: لما انزلت إذا جاء نصر الله والفتح سورة النصر آية 1 إلى آخرها , ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلاة إلا قال: " سبحانك اللهم وبحمدك , اللهم اغفر لي" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , عَنْ الْأَعْمَشِ ، وَيَعْلَى , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ , عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: لَمَّا أُنْزِلَتْ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1 إِلَى آخِرِهَا , مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةً إِلَّا قَالَ: " سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ , اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سورت نصر کے نزول کے بعد میں نے جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہی کہتے تھے " سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي "
حدثنا ابن نمير , حدثنا الاعمش ، عن مسلم , عن مسروق , عن عائشة , وحدثنا عن الاعمش عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قال: بلغها ان ناسا يقولون: يقطع الصلاة الكلب والحمار والمراة , فقالت عائشة :" عدلتمونا بالكلاب والحمير! لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي مقابل السرير , وانا عليه بينه وبين القبلة , فتكون لي الحاجة , فانسل من قبل رجل السرير , كراهية ان استقبله" ..حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ , عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ , وَحَدَّثَنَاُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَ: بَلَغَهَا أَنَّ نَاسًا يَقُولُونَ: يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْكَلْبُ وَالْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ , فَقَالَتْ عَائِشَةُ :" عَدَلْتُمُونَا بِالْكِلَابِ وَالْحَمِيرِ! لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مُقَابِلَ السَّرِيرِ , وَأَنَا عَلَيْهِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ , فَتَكُونُ لِي الْحَاجَةُ , فَأَنْسَلُّ مِنْ قِبَلِ رِجْلِ السَّرِيرِ , كَرَاهِيَةَ أَنْ أَسْتَقْبِلَهُ" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک مرتبہ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کتا، گدھا اور عورت کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے نمازی کی نماز ٹوٹ جاتی ہیں تو انہوں نے فرمایا میرا خیال تو یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کردیا ہے، حالانکہ کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو میں ان کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھی، مجھے کوئی کام ہوتا تو چار پائی کی پائنتی کی جانب کھسک جاتی تھی، کیونکہ میں سامنے سے جانا اچھا نہ سمجھتی تھی۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا ابن نمير , عن عبد الملك , عن عطاء , عن عائشة , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم تصيبه الجنابة من الليل وهو يريد الصيام , فينام ويستيقظ , ويصبح جنبا , فيفيض عليه من الماء , ثم يتوضا" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ مِنَ اللَّيْلِ وَهُوَ يُرِيدُ الصِّيَامَ , فَيَنَامُ وَيَسْتَيْقِظُ , وَيُصْبِحُ جُنُبًا , فَيُفِيضُ عَلَيْهِ مِنَ الْمَاءِ , ثُمَّ يَتَوَضَّأُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رات کی غسل واجب ہوجاتا اور ان کا ارادہ روزہ رکھنے کا ہوتا تو وہ سو جاتے اور جب بیدار ہوتے تو اپنے جسم پر پانی بہاتے اور وضو فرما لیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی ازواج کو بوسہ دیدیا کرتے تھے اور ان کے جسم سے اپنا جسم ملا لیتے تھے البتہ وہ تم سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور گو یا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ میں حالت ِاحرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
حدثنا ابن نمير , قال: اخبرنا الاعمش ، عن عمارة , عن ابي عطية ، عن عائشة , قالت: إني لاعلم كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي , قال: فكانت تلبي بهؤلاء الكلمات " لبيك اللهم لبيك , لبيك لا شريك لك لبيك , إن الحمد والنعمة لك" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , قَالَ: أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ , عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: إِنِّي لَأَعْلَمُ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي , قَالَ: فَكَانَتْ تُلَبِّي بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ , لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ , إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سب سے زیادہ جانتی ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح تلبیہ کہتے تھے، پھر انہوں نے تلبیہ کے یہ الفاظ دہرائے " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ "
حدثنا ابن نمير , قال: حدثنا هشام , عن ابيه , عن عائشة , قالت:" كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل ثلاث عشرة ركعة , يوتر من ذلك بخمس , لا يجلس في شيء منها إلا في آخرها , فإذا اذن المؤذن قام , فصلى ركعتين خفيفتين" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً , يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ , لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنْهَا إِلَّا فِي آخِرِهَا , فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ قَامَ , فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے اور پانچویں جوڑے پر وتر بناتے تھے اور اسی پر بیٹھ کر سلام پھیرتے تھے۔
حدثنا ابن نمير , حدثنا هشام , عن ابيه , عن عائشة " ان النبي صلى الله عليه وسلم حك من القبلة مخاطا او بصاقا او نخامة" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَكَّ مِنَ الْقِبْلَةِ مُخَاطًا أَوْ بُصَاقًا أَوْ نُخَامَةً" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں تھوک کو مٹی میں مل دیا۔
حدثنا ابن نمير , قال: اخبرنا هشام , عن ابيه , عن عائشة , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقتلوا ذا الطفيتين , فإنه يلتمس البصر ويصيب الحبل" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْتُلُوا ذَا الطُّفْيَتَيْنِ , فَإِنَّهُ يَلْتَمِسُ الْبَصَرَ وَيُصِيبُ الْحَبَلَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سانپوں کو دودھاری ہوں قتل کردیا کرو، کیونکہ ایسے سانپ بینائی کو زائل کردیتے ہیں اور عورتوں کے پیٹ سے حمل ضائع کردیتے ہیں۔
حدثنا ابن نمير , حدثنا هشام , عن ابيه , عن عائشة , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يقولن احدكم خبثت نفسي , ولكن ليقل لقست نفسي" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ خَبُثَتْ نَفْسِي , وَلَكِنْ لِيَقُلْ لَقِسَتْ نَفْسِي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میرا نفس خبیث ہوگیا ہے، البتہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا دل سخت ہوگیا ہے۔
حدثنا ابن نمير , قال: حدثنا هشام , عن ابيه , عن عائشة , قالت:" ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا في شيء من صلاة الليل جالسا حتى دخل في السن , فكان يجلس فيقرا , حتى إذا غبر من السورة ثلاثون او اربعون آية قام , فقرا بها , ثم ركع" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ جَالِسًا حَتَّى دَخَلَ فِي السِّنِّ , فَكَانَ يَجْلِسُ فَيَقْرَأُ , حَتَّى إِذَا غَبَرَ مِنَ السُّورَةِ ثَلَاثُونَ أَوْ أَرْبَعُونَ آيَةً قَامَ , فَقَرَأَ بِهَا , ثُمَّ رَكَعَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی نماز بیٹھ کر پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن مبارک جب بھاری ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر ہی " جتنی اللہ کو منظور ہوتی " نماز پڑھ لیتے تھے اور جب اس سورت کی تیس یا چالیس آیات رہ جاتیں تو کھڑے ہوجاتے، پھر ان کی تلاوت کر کے رکوع میں جاتے تھے۔
حدثنا ابن نمير , قال: حدثنا هشام , عن ابيه , عن عائشة , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وانا معترضة بينه وبين القبلة على الفراش الذي يرقد عليه هو واهله , فإذا اراد ان يوتر , ايقظني , فاوترت" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ عَلَى الْفِرَاشِ الَّذِي يَرْقُدُ عَلَيْهِ هُوَ وَأَهْلُهُ , فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ , أَيْقَظَنِي , فَأَوْتَرْتُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو میں ان کے اور قبلے کے درمیان لیٹی ہوتی تھی اور جب وہ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بھی جگا دیتے تھے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی تھی۔
حدثنا ابن نمير , قال: حدثنا هشام , عن ابيه , عن عائشة , قالت: " امر رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا بكر ان يصلي للناس في مرضه , فكان يصلي لهم" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ لِلنَّاسِ فِي مَرَضِهِ , فَكَانَ يُصَلِّي لَهُمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الوفات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ وہی لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔
حدثنا ابن نمير , عن هشام , عن ابيه , عن عائشة ، قالت: إن النبي صلى الله عليه وسلم ذكر صفية , فقيل إنها حائض , فقال: " لعلها حابستنا" , قيل يا رسول الله , إنها قد افاضت , قال" فلا إذا" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , عَنْ هِشَامٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ صَفِيَّةَ , فَقِيلَ إِنَّهَا حَائِضٌ , فَقَالَ: " لَعَلَّهَا حَابِسَتُنَا" , قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ , قَالَ" فَلَا إِذًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ طوافِ زیارت کے بعد حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کو ایام آنا شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ ہمیں روک دے گی؟ میں نے عرض کیا انہیں طوافِ زیارت کے بعد ایام آنے لگے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر نہیں۔
حدثنا ابن نمير , عن هشام , عن ابيه , عن عائشة , قالت: كان عندها امراة من بني اسد , فدخل النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" من هذه؟" , قالت: هذه فلانة لا تنام , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " عليكم بما تطيقون , فوالله لا يمل الله حتى تملوا , احب الدين إلى الله عز وجل الذي يداوم عليه صاحبه" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , عَنْ هِشَامٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَ عِنْدَهَا امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ , فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مَنْ هَذِهِ؟" , قَالَتْ: هَذِهِ فُلَانَةُ لَا تَنَامُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَيْكُمْ بِمَا تُطِيقُونَ , فَوَاللَّهِ لَا يَمَلُّ اللَّهُ حَتَّى تَمَلُّوا , أَحَبُّ الدِّينِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ الَّذِي يُدَاوِمُ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک عورت آتی تھی جو عبادات میں محنت و مشقت برداشت کرنے کے لئے حوالے سے مشہور تھی، انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رک جاؤ اور اپنے اوپر ان چیزوں کو لازم کیا کرو جن میں طاقت بھی ہو، واللہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتائے گا بلکہ تم ہی اکتا جاؤ گے، اللہ کے نزدیک دین کا سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو دائمی ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے رخصتی میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے واقع ہوئی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اے اللہ! مجھے معاف فرما دے، مجھ پر رحم فرما دے اور رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملا دے۔
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , انها" كانت ترجل النبي صلى الله عليه وسلم وهو معتكف , يناولها راسه وهي في حجرتها , والنبي صلى الله عليه وسلم في المسجد" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا" كَانَتْ تُرَجِّلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ , يُنَاوِلُهَا رَأْسَهُ وَهِيَ فِي حُجْرَتِهَا , وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں متعکف ہوتے اور وہ اپنے حجرے میں ہوتیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر ان کے قریب کردیتے اور وہ اسے کنگھی کردیتی تھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جس مسلمان میت پر مسلمانوں کی ایک جماعت نماز جنازہ پڑھ لے اور اس کے حق میں سفارش کر دے، اس کے حق میں ان لوگوں کی سفارش قبول کرلی جاتی ہے۔
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن عاصم الاحول , عن معاذة , قالت: سالت عائشة , فقلت: ما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاة؟ , فقالت:" احرورية انت؟" قالت: قلت: لست بحرورية , ولكني اسال , قالت:" قد كان يصيبنا ذلك مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيامر بقضاء الصوم ولا يامر بقضاء الصلاة" , قال معمر : واخبرني ايوب , عن ابي قلابة , عن معاذة , عن عائشة , مثله.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ , عَنْ مُعَاذَةَ , قَالَتْ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ , فَقُلْتُ: مَا بَالُ الْحَائِضِ تَقْضِي الصَّوْمَ وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ؟ , فَقَالَتْ:" أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ؟" قَالَتْ: قُلْتُ: لَسْتُ بِحَرُورِيَّةٍ , وَلَكِنِّي أَسْأَلُ , قَالَتْ:" قَدْ كَانَ يُصِيبُنَا ذَلِكَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيأمرُ بِقَضَاءِ الصَّوْمِ وَلَا يَأْمُرُ بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ" , قَالَ مَعْمَرٌ : وَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ , عَنْ أَبِي قِلَابَةَ , عَنْ مُعَاذَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , مِثْلَهُ.
معاذہ رحمہ اللہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا حائضہ عورت نمازوں کی قضاء کرے گی؟ انہوں نے فرمایا کیا تو خارجی ہوگئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب ہمارے " ایام " آتے تھے تو ہم قضاء کرتے تھے اور نہ ہی ہمیں قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة في المسجد في شهر رمضان ومعه ناس , ثم صلى الثانية , فاجتمع تلك الليلة اكثر من الاولى , فلما كانت الثالثة او الرابعة امتلا المسجد حتى اغتص باهله , فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فجعل الناس ينادونه الصلاة , فلم يخرج , فلما اصبح , قال له عمر بن الخطاب ما زال الناس ينتظرونك البارحة يا رسول الله؟ قال: " اما إنه لم يخف علي امرهم , ولكني خشيت ان تكتب عليهم" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَمَعَهُ نَاسٌ , ثُمَّ صَلَّى الثَّانِيَةَ , فَاجْتَمَعَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ أَكْثَرُ مِنَ الْأُولَى , فَلَمَّا كَانَتْ الثَّالِثَةُ أَوْ الرَّابِعَةُ امْتَلَأَ الْمَسْجِدُ حَتَّى اغْتَصَّ بِأَهْلِهِ , فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ النَّاسُ يُنَادُونَهُ الصَّلَاةَ , فَلَمْ يَخْرُجْ , فَلَمَّا أَصْبَحَ , قَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَا زَالَ النَّاسُ يَنْتَظِرُونَكَ الْبَارِحَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ أَمْرُهُمْ , وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْهِمْ" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم درمیان رات میں گھر سے نکلے اور مسجد میں جا کر نماز پڑھنے لگے، لوگ جمع ہوئے اور وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں شریک ہوگئے، اگلی رات کو پہلے سے زیادہ تعداد میں لوگ جمع ہوگئے، تیسرے دن بھی یہی ہوا، چوتھے دن بھی لوگ اتنے جمع ہوگئے کہ مسجد میں کسی آدمی کے آنے کی گنجائش نہ رہی لیکن اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں بیٹھے رہے اور باہر نہیں نکلے حتیٰ کہ میں بعض لوگوں کو " نماز ' نماز " کہتے ہوئے سنا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نہیں نکلے، پھر جب فجر کی نماز پڑھائی تو سلام پھیر کر لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے، توحید و رسالت کو گواہی دی اور اما بعد کہہ کر فرمایا تمہاری آج رات کی حالت مجھ سے پوشیدہ نہیں ہے، لیکن مجھے اس بات کا اندیشہ ہو چلا تھا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے اور پھر تم اس سے عاجز آجاؤ۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: " ما ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده خادما له قط , ولا امراة , ولا ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده شيئا قط , إلا ان يجاهد في سبيل الله , ولا خير بين امرين قط إلا كان احبهما إليه ايسرهما حتى يكون إثما , فإذا كان إثما كان ابعد الناس من الإثم , ولا انتقم لنفسه من شيء يؤتى إليه حتى تنتهك حرمات الله عز وجل , فيكون هو ينتقم لله عز وجل" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ خَادِمًا لَهُ قَطُّ , وَلَا امْرَأَةً , وَلَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ شَيْئًا قَطُّ , إِلَّا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَلَا خُيِّرَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَطُّ إِلَّا كَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ أَيْسَرُهُمَا حَتَّى يَكُونَ إِثْمًا , فَإِذَا كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ الْإِثْمِ , وَلَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ مِنْ شَيْءٍ يُؤْتَى إِلَيْهِ حَتَّى تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , فَيَكُونَ هُوَ يَنْتَقِمُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی خادم یا کسی بیوی کو کبھی نہیں مارا اور اپنے ہاتھ سے کسی پر ضرب نہیں لگائی الاّ یہ کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کر رہے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی سے کبھی انتقام نہیں لیتے تھے البتہ اگر محارم خداوندی کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لئے انتقام لیا کرتے تھے۔ اور جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو چیزیں پیش کی جاتیں اور ان میں سے ایک چیز زیادہ آسان ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آسان چیز کو اختیار فرماتے تھے، الاّ یہ کہ وہ گناہ ہو، کیونکہ وہ گناہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگوں کی نسبت اس سے زیادہ سے زیادہ دور ہوتے تھے۔
حدثنا عبد الرزاق , قال: حدثنا معمر , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث ابا جهم بن حذيفة مصدقا فلاجه رجل في صدقته , فضربه ابو جهم فشجه , فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: القود يا رسول الله , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لكم كذا وكذا" , فلم يرضوا , قال:" فلكم كذا وكذا" , فلم يرضوا , قال:" فلكم كذا وكذا" , فرضوا , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم" , قالوا: نعم , فخطب النبي صلى الله عليه وسلم , فقال:" إن هؤلاء الليثيين اتوني يريدون القود , فعرضت عليهم كذا وكذا فرضوا , ارضيتم؟" , قالوا: لا , فهم المهاجرون بهم , فامر النبي صلى الله عليه وسلم ان يكفوا , فكفوا , ثم دعاهم فزادهم , وقال:" ارضيتم؟" , قالوا: نعم , قال:" فإني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم" , قالوا: نعم , فخطب النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال:" ارضيتم؟" , قالوا: نعم .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا جَهْمِ بْنِ حُذَيْفَةَ مُصَدِّقًا فَلَاجَهُ رَجُلٌ فِي صَدَقَتِهِ , فَضَرَبَهُ أَبُو جَهْمٍ فَشَجَّهُ , فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: الْقَوَدَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَكُمْ كَذَا وَكَذَا" , فَلَمْ يَرْضَوْا , قَالَ:" فَلَكُمْ كَذَا وَكَذَا" , فَلَمْ يَرْضَوْا , قَالَ:" فَلَكُمْ كَذَا وَكَذَا" , فَرَضُوا , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ" , قَالُوا: نَعَمْ , فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" إِنَّ هَؤُلَاءِ اللَّيْثِيِّينَ أَتَوْنِي يُرِيدُونَ الْقَوَدَ , فَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ كَذَا وَكَذَا فَرَضُوا , أرَضِيتُمْ؟" , قَالُوا: لَا , فَهَمَّ الْمُهَاجِرُونَ بِهِمْ , فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُفُّوا , فَكَفُّوا , ثُمَّ دَعَاهُمْ فَزَادَهُمْ , وَقَالَ:" أَرَضِيتُمْ؟" , قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ:" فَإِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ" , قَالُوا: نَعَمْ , فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:" أَرَضِيتُمْ؟" , قَالُوا: نَعَمْ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے ایک علاقے میں بھیجا، وہاں ایک آدمی نے زکوٰۃ کی ادائیگی میں ابوجہم سے جھگڑا کیا، ابوجہم نے اسے مارا اور زخمی ہوگیا، اس قبیلے کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! ہمیں قصاص دلوائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم قصاص کا مطالبہ چھوڑ دو، میں تمہیں اتنا مال دوں گا، لیکن وہ لوگ راضی نہ ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مقدار میں مزید اضافہ کیا، لیکن وہ پھر بھی راضی نہ ہوئے، البتہ تیسری مرتبہ اضافہ کرنے پر وہ لوگ راضی ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں لوگوں سے مخاطب ہو کر انہیں تمہاری رضا مندی کے متعلق بتادوں؟ انہوں نے کہا جی ضرور۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ قبیلہ کے یہ لوگ میرے پاس قصاص کی درخواست لے کر آئے تھے، میں نے انہیں اتنے مال کی پیشکش کی ہے اور یہ راضی ہوگئے ہیں، پھر ان سے فرمایا کیا تم راضی ہوگئے؟ انہوں نے انکار کردیا، اس پر مہاجرین کو بہت غصہ آیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رکنے کا حکم دے دیا، وہ رک گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر مقررہ مقدار میں مزید اضافہ کردیا اور فرمایا اب تو راضی ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں لوگوں سے مخاطب ہو کر انہیں تمہاری رضامندی کے متعلق بتادوں؟ انہوں نے کہا جی ضرور، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ان سے پوچھا کیا تم راضی ہوگئے؟ انہوں نے کہا جی ہاں!
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن الزهري , فذكر حديثا ثم، قال , قال: الزهري ، فاخبرني عروة , عن عائشة , انها قالت: اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم , وكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح , ثم حبب إليه الخلاء , فكان ياتي حراء , فيتحنث فيه , وهو التعبد الليالي ذوات العدد , ويتزود لذلك , ثم يرجع إلى خديجة فتزوده لمثلها , حتى فجئه الحق وهو في غار حراء , فجاءه الملك فيه , فقال: " اقرا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت:" ما انا بقارئ" قال:" فاخذني , فغطني حتى بلغ مني الجهد , ثم ارسلني , فقال: اقرا , فقلت:" ما انا بقارئ" فاخذني , فغطني الثانية , حتى بلغ مني الجهد , ثم ارسلني , فقال: اقرا , فقلت:" ما انا بقارئ" , فاخذني , فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد , ثم ارسلني , فقال: اقرا باسم ربك الذي خلق سورة العلق آية 1 , حتى بلغ ما لم يعلم سورة العلق آية 5 , قال: فرجع بها ترجف بوادره , حتى دخل على خديجة , فقال:" زملوني زملوني" , فزملوه حتى ذهب عنه الروع , فقال:" يا خديجة مالي؟" فاخبرها الخبر , قال:" وقد خشيت علي" , فقالت: له كلا ابشر , فوالله لا يخزيك الله ابدا , إنك لتصل الرحم , وتصدق الحديث , وتحمل الكل , وتقري الضيف , وتعين على نوائب الحق , ثم انطلقت به خديجة حتى اتت به ورقة بن نوفل بن اسد بن عبد العزى بن قصي , وهو ابن عم خديجة اخي ابيها , وكان امرا تنصر في الجاهلية , وكان يكتب الكتاب العربي , فكتب بالعربية من الإنجيل ما شاء الله ان يكتب , وكان شيخا كبيرا قد عمي , فقالت خديجة: اي ابن عم , اسمع من ابن اخيك , فقال ورقة ابن اخي , ما ترى؟ فاخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم ما راى , فقال ورقة: هذا الناموس الذي انزل على موسى عليه السلام , يا ليتني فيها جذعا , اكون حيا حين يخرجك قومك , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" او مخرجي هم" , فقال ورقة: نعم , لم يات رجل قط بما جئت به إلا عودي , وإن يدركني يومك , انصرك نصرا مؤزرا , ثم لم ينشب ورقة ان توفي , وفتر الوحي فترة حتى حزن رسول الله صلى الله عليه وسلم , فيما بلغنا حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رءوس شواهق الجبال , فكلما اوفى بذروة جبل لكي يلقي نفسه منه , تبدى له جبريل عليه السلام , فقال له: يا محمد إنك رسول الله حقا , فيسكن ذلك جاشه , وتقر نفسه عليه الصلاة والسلام , فيرجع , فإذا طالت عليه , وفتر الوحي , غدا لمثل ذلك , فإذا اوفى بذروة جبل , تبدى له جبريل عليه السلام , فقال له: مثل ذلك .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , فَذَكَرَ حَدِيثًا ثُمَّ، قَالَ , قَالَ: الزُّهْرِيُّ ، فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ , وَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ , ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ , فَكَانَ يَأْتِي حِرَاءَ , فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ , وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ , وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ , ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَتُزَوِّدُهُ لِمِثْلِهَا , حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءَ , فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فِيهِ , فَقَالَ: " اقْرَأْ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فقلت:" مَا أَنَا بِقَارِئٍ" قَالَ:" فَأَخَذَنِي , فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ , ثُمَّ أَرْسَلَنِي , فَقَالَ: اقْرَأْ , فَقُلْتُ:" مَا أَنَا بِقَارِئ" فَأَخَذَنِي , فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ , حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ , ثُمَّ أَرْسَلَنِي , فَقَالَ: اقْرَأْ , فَقُلْتُ:" مَا أَنَا بِقَارِئٍ" , فَأَخَذَنِي , فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ , ثُمَّ أَرْسَلَنِي , فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1 , حَتَّى بَلَغَ مَا لَمْ يَعْلَمْ سورة العلق آية 5 , قَالَ: فَرَجَعَ بِهَا تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ , حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ , فَقَالَ:" زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي" , فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ , فَقَالَ:" يَا خَدِيجَةُ مَالِي؟" فَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ , قَالَ:" وَقَدْ خَشِيتُ عَلَيَّ" , فَقَالَتْ: لَهُ كَلَّا أَبْشِرْ , فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا , إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ , وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ , وَتَحْمِلُ الْكَلَّ , وَتَقْرِي الضَّيْفَ , وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ , ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ , وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا , وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ , فَكَتَبَ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الْإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ , وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ , فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: أَيْ ابْنَ عَمِّ , اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ , فَقَالَ وَرَقَةُ ابْنَ أَخِي , مَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى , فَقَالَ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام , يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا , أَكُونَ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ" , فَقَالَ وَرَقَةُ: نَعَمْ , لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ , وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ , أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا , ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ , وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ , فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ نَفْسَهُ مِنْهُ , تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , فَقَالَ لَهُ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا , فَيُسْكِنُ ذَلِكَ جَأْشَهُ , وَتَقَرُّ نَفْسُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ , فَيَرْجِعُ , فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ , وَفَتَرَ الْوَحْيُ , غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ , فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ , تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , فَقَالَ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ .
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اول سچی خوابوں سے وحی کا نزول شروع ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب دیکھتے وہ بالکل صبح روشن کی طرح ٹھیک پڑتا تھا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم خلوت پسند ہوگئے تھے اور غار حرا میں جا کر گوشہ گیری اختیار کرلی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی روز تک وہیں پر عبادت میں مشغول رہتے تھے، اسی اثناء میں گھر پر بالکل نہ آتے تھے لیکن جس وقت کھانے پینے کا سامان ختم ہوجاتا تھا تو پھر اتنے ہی دنوں کا کھانا لے کر چلتے تھے، آخر کار اسی غار حرا میں نزول وحی ہوا۔ ایک فرشتہ نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا پڑھئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں) یہ سن کر اس فرشتہ نے مجھ کو پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں بےطاقت ہوگیا، پھر اس فرشتہ نے مجھ کو چھوڑ کر کہا پڑھئے! میں نے کہا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس نے دوبارہ مجھ کو پکڑ کر اس قدر دبوچا کہ مجھ میں طاقت نہیں رہی اور پھر چھوڑ کر مجھ سے کہا پڑھئے میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ تیسری بار اس نے مجھ کو اس قدر زور سے دبایا کہ میں بےبس ہوگیا اور آخر کار مجھ کو چھوڑ کر کہا! کہ " پڑھ " اپنے رب کے نام کی برکت سے جس نے (ہر شئ کو) پیدا کیا (اور) انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا پڑھ اور تیرا رب بڑے کرم والا ہے "۔ (ام المومنین فرماتی ہیں) آپ یہ بات پڑھتے ہوئے گھر تشریف لائے تو اس وقت آپ کا دل دھڑک رہا تھا، چنانچہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر آپ نے فرمایا مجھے کمبل اڑھاؤ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو کپڑا اوڑھایا، جب آپ کی بےقراری دور ہوئی اور دل ٹھکانے ہوا تو ساری کیفیت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے بیان فرمائی اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ کی قسم! یہ ہرگز نہیں ہوسکتا، آپ کو بالکل فکر نہ کرنی چاہیے، خدائے تعالیٰ آپ کو ضائع نہ کرے گا کیونکہ آپ تو برادر پرور ہیں محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، کمزوروں کا کام کرتے ہیں، مہمان نوازی فرماتے ہیں اور جائز ضرورتوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ نے دور جاہلیت میں عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا اور انجیل کا (سریانی زبان سے) عبرانی میں ترجمہ کر کے لکھا کرتے تھے، بہت ضعیف العمر اور نابینا بھی تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے اس کے پاس پہنچ کر کہا ابن عم ذرا اپنے بھتیجے کی حالت تو سنئے! ورقہ بولا کیوں بھتیجے کیا کیفیت ہے؟ آپ نے جو کچھ دیکھا تھا ورقہ سے بیان کردیا جب ورقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سب حال سن چکے تو بولے یہ فرشتہ وہی ناموس ہے، جس کو خدائے تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا کاش! میں عہد نبوت میں جوان ہوتا کاش! میں اس زمانہ میں زندہ ہوتا جب کہ آپ کو قوم والے (وطن سے) نکالیں گے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ بولے جی ہاں! جو شخص بھی آپ کی طرح دین الٰہی لایا ہے اس سے عداوت کی گئی ہے، اگر میں آپ کے عہد نبوت میں موجود ہوا تو کافی امداد کروں گا، لیکن اس کے کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا اور سلسلہ وحی بند گیا، فترتِ وحی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ کئی مرتبہ پہاڑ کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو نیچے گرانے کا ارادہ کیا، لیکن جب بھی وہ اس ارادے سے کسی پہاڑی کی چوٹی پر پہنچتے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سامنے آجاتے اور عرض کرتے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ کے برحق رسول ہیں، اسے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جوش ٹھنڈا اور دل پر سکون ہوجاتا تھا اور وہ واپس آجاتے، پھر جب زیادہ عرصہ گذر جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر اسی طرح کرتے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام انہیں تسلی دیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عید کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ حبشی کرتب دکھا رہے تھے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سر رکھ کر انہیں جھانک کر دیکھنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کندھے میرے لئے جھکا دیئے، میں انہیں دیکھتی رہی اور جب دل بھر گیا تو واپس آگئی۔
حدثنا محمد بن بشر , قال: حدثنا هشام , عن ابيه , عن عائشة " انها كانت تلعب بالبنات , فكان النبي صلى الله عليه وسلم ياتي بصواحبي يلعبن معي" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّهَا كَانَتْ تَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ , فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي بِصَوَاحِبِي يَلْعَبْنَ مَعِي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں گڑیوں کے ساتھ کھیلتی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری سہلیوں کو میرے پاس بھیج دیتے اور وہ میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہودیوں کو جان لینا چاہیے کہ ہمارے دین میں بڑی گنجائش ہے اور مجھے خالص ملت حنیفی بھیجا گیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو اس پر دوام بھی فرماتے تھے اور انہیں سب سے زیادہ پسند بھی وہی نماز تھی جس پر دوام ہو، اگرچہ اس کی مقدار تھوڑی ہو اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تو نہیں اکتائے گا البتہ تم ضرور اکتا جاؤ گے۔
حدثنا سويد بن عمرو , قال: حدثنا ابان , حدثنا يحيى , عن ابي سلمة ، عن عائشة , قالت: " كان اكثر صوم رسول الله صلى الله عليه وسلم من شهر من السنة من شعبان , فإنه كان يصومه كله" .حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ , حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " كَانَ أَكْثَرُ صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ شَهْرٍ مِنَ السَّنَةِ مِنْ شَعْبَانَ , فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُهُ كُلَّهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے کثرت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان میں روزے رکھتے ہوئے دیکھا ہے، کسی اور مہینے میں نہیں دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے صرف چند دن کو چھوڑ کر تقریباً پورا مہینہ ہی روزہ رکھتے تھے۔
حدثنا يحيى بن آدم , قال: حدثنا إسرائيل , عن منصور , عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قالت: " لما كانت ليلة النفر , قلت يا رسول الله , يرجعون بعمرة وحجة وارجع بحجة؟ فبعث معي اخي , فاعتمرت , فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم مصعدا مدلجا على اهل المدينة , وانا مدلجة على اهل مكة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " لَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ النَّفْرِ , قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ , يَرْجِعُونَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ وَأَرْجِعُ بِحَجَّةٍ؟ فَبَعَثَ مَعِي أَخِي , فَاعْتَمَرْتُ , فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصْعِدًا مُدْلِجًا عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ , وَأَنَا مُدْلِجَةٌ عَلَى أَهْلِ مَكَّةَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم لوگ مناسک حج ادا کر کے جب کوچ کرنے کے لئے مقام حصبہ پر پہنچے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ کے صحابہ حج اور عمرہ دونوں کے ساتھ اور میں صرف حج کے ساتھ واپس جاؤں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ میرے بھائی کو بھیج دیا اور میں نے عمرہ کرلیا، پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کے وقت ملی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے بالائی حصے پر چڑھ رہے تھے اور میں نیچے اتر رہی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابتداء نماز کی دو رکعتیں فرض ہوئی تھیں، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم الٰہی کے مطابق حضر کی نماز میں اضافہ کردیا اور سفر کی نماز کو اسی حالت پر دو رکعتیں ہی رہنے دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة لأجل أسامة بن زيد الليثي
حدثنا يحيى بن سعيد الاموي , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة قالت:" كنت العب بالبنات على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم , وكان ياتي بصواحبي , فكن إذا راين رسول الله صلى الله عليه وسلم ينقمعن منه , فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسربهن إلي يلعبن معي" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:" كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَكَانَ يَأْتِي بِصَوَاحِبِي , فَكُنَّ إِذَا رَأَيْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْقَمِعْنَ مِنْهُ , فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ يَلْعَبْنَ مَعِي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں گڑیوں کے ساتھ کھیلتی تھی، میری سہیلیاں آجاتیں اور میرے ساتھ کھیل کود میں شریک ہوجاتیں اور جوں ہی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے ہوئے دیکھتیں تو چھپ جاتیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پھر میرے پاس بھیج دیتے اور وہ میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے، یہ بیمار ہوگئی ہے اور اس کے سر کے بال جھڑ رہے ہیں، کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگوا سکتی ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات گھر میں نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور دروازہ بند ہوتا تھا، میں آجاتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے آتے، میرے لئے دروازہ کھولتے اور پھر اپنی جگہ پر جا کر کھڑے ہوجاتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی بتایا کہ دروازہ قبلہ کی جانب تھا۔
حدثنا عبد الاعلى , عن معمر , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة ، انها" كانت ترجل النبي صلى الله عليه وسلم وهي حائض , وهو معتكف في المسجد , فيناولها راسه وهي في حجرتها" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا" كَانَتْ تُرَجِّلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ حَائِضٌ , وَهُوَ مُعْتَكِفٌ فِي الْمَسْجِدِ , فَيُنَاوِلُهَا رَأْسَهُ وَهِيَ فِي حُجْرَتِهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معتکف ہوتے اور مسجد سے اپنا سر باہر نکال دیتے، میں اسے کنگھی کردیتی حلان کہ میں ایام سے ہوتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد کے قریب پانی سے وضو فرما لیتے تھے اور صاع کے قریب پانی سے غسل فرما لیتے تھے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا عبد الواحد الحداد , حدثنا القاسم بن الفضل , عن محمد بن علي , ان عائشة كانت تدان , فقيل لها ما يحملك على الدين , ولك عنه مندوحة؟ قالت: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما من عبد يدان وفي نفسه اداؤه , إلا كان معه من الله عون" , فانا التمس ذلك العون .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ الْحَدَّادُ , حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ , أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ تَدَّانُ , فَقِيلَ لَهَا مَا يَحْمِلُكِ عَلَى الدَّيْنِ , وَلَكِ عَنْهُ مَنْدُوحَةٌ؟ قَالَتْ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يُدَانُ وَفِي نَفْسِهِ أَدَاؤُهُ , إِلَّا كَانَ مَعَهُ مِنَ اللَّهِ عَوْنٌ" , فَأَنَا أَلْتَمِسُ ذَلِكَ الْعَوْنَ .
محمد بن علی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں سے قرض لیتی رہتی تھیں، کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ قرض کیوں لیتی ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص کی نیت قرض ادا کرنے کی ہو تو اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال رہتی ہے، میں وہی مدد حاصل کرنا چاہتی ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه لأن محمد بن على لم يسمع من عائشة
حدثنا يزيد بن هارون , قال: اخبرنا عاصم الاحول , عن ابي الوليد ، عن عائشة , قالت: ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يجلس بعد صلاته إلا قدر ما يقول: " اللهم انت السلام ومنك السلام , تباركت يا ذا الجلال والإكرام" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ , عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ بَعْدَ صَلَاتِهِ إِلَّا قَدْرَ مَا يَقُولُ: " اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ , تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر صرف اتنی دیر بیٹھتے تھے جتنی دیر میں یہ کہہ سکیں اے اللہ! تو ہی سلامتی والا ہے، تجھ سے سلامتی ملتی ہے، اے بزرگی اور عزت والے! تو بہت بابرکت ہے۔
حدثنا يزيد , اخبرنا الحجاج , عن عبد الرحمن بن الاسود , عن ابيه , عن عائشة , قالت" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان يباشر إحدانا وهي حائض امرها فاتزرت , فإذا اراد ان ينام وهو جنب , توضا وضوءه للصلاة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُبَاشِرَ إِحْدَانَا وَهِيَ حَائِضٌ أَمَرَهَا فَاتَّزَرَتْ , فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ وَهُوَ جُنُبٌ , تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہم میں سے کسی سے مباشرت کرنا چاہتے اور وہ ایام کی حالت میں ہوتیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تہبند کے اوپر سے اپنی ازواج سے مباشرت فرمایا کرتے تھے اور جب وجوبِ غسل کی حالت میں سونا چاہتے تو نماز جیسا وضو فرما لیتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لأجل حجاج
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا يحيى , عن عمرة , عن عائشة , قالت: " لو راى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما احدث النساء , لمنعهن المسجد , كما منعت نساء بني إسرائيل" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى , عَنْ عَمْرَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " لَوْ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ , لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ , كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر آج کی عورتوں کے حالات دیکھ لیتے تو انہیں ضرور مسجدوں میں آنے سے منع فرما دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کردیا گیا تھا۔
حدثنا يزيد , اخبرنا يحيى , ان محمد بن عبد الرحمن بن اخي عمرة , اخبره، عن عمرة , انها سمعت عائشة تقول:" إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي الركعتين اللتين قبل الفجر , فيخففهما حتى إن كنت لاقول هل قرا فيهما بام القرآن؟" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , أَخْبَرَنَا يَحْيَى , أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَخِي عَمْرَةَ , أَخْبَرَهُ، عَنْ عَمْرَةَ , أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ تَقُولُ:" إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ , فَيُخَفِّفُهُمَا حَتَّى إِنْ كُنْتُ لَأَقُولُ هَلْ قَرَأَ فِيهِمَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ؟" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (فجر کی سنتیں) اتنی مختصر پڑھتے تھے کہ میں کہتی " نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت فاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں "۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا سفيان , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم معتكفا , وكان لا يدخل البيت إلا لحاجة الإنسان , قالت: فغسلت راسه , وإن بيني وبينه لعتبة الباب" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا , وَكَانَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ , قَالَتْ: فَغَسَلْتُ رَأْسَهُ , وَإِنَّ بَيْنِي وَبَيْنَهُ لَعَتَبَةُ الْبَابِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معتکف ہوتے تو صرف انسانی ضرورت کی بناء پر ہی گھر میں آتے تھے اور مسجد سے اپنا سر باہر نکال دیتے، میں اسے دھو دیتی جبکہ میرے اور ان کے درمیان دروازے کی چوکھٹ حائل ہوتی تھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سفيان بن حسين ضعيف فى روايته عن الزهري ولكن توبع
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا عمرو بن ميمون , قال: اخبرني سليمان بن يسار , قال: اخبرتني عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان إذا اصاب ثوبه المني , غسل ما اصاب من ثوبه , ثم خرج إلى الصلاة , وانا انظر إلى بقعة في ثوبه ذلك من اثر الغسل" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ , قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا أَصَابَ ثَوْبَهُ الْمَنِيُّ , غَسَلَ مَا أَصَابَ مِنْ ثَوْبِهِ , ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ , وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى بُقْعَةٍ فِي ثَوْبِهِ ذَلِكَ مِنْ أَثَرِ الْغُسْلِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں پر لگنے والے مادہ منویہ کو دھو دیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے چلے گئے تھے اور مجھے ان کے کپڑوں پر پانی کے نشانات نظر آرہے تھے۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا هشام , عن الحسن , عن سعد بن هشام , قال: قدمت المدينة , فدخلت على عائشة , فقالت لي: من انت؟ فقلت: سعد بن هشام بن عامر , قالت: رحم الله اباك , قال: قلت: اخبريني عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقرا , فقلت: اجل , ولكن اخبريني , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس عشاء الآخرة , ثم ياوي إلى فراشه , فإذا كان من جوف الليل قام إلى طهوره , فتوضا , ثم دخل المسجد , فصلى ثماني ركعات يسوي بين القراءة فيهن والركوع والسجود , ثم يوتر بركعة , ثم يصلي ركعتين وهو جالس , ثم يضع راسه , فربما جاء بلال فآذنه بالصلاة قبل ان يغفي , وربما شككت اغفى او لم يغف , حتى يؤذنه بالصلاة , قالت: فكانت تلك صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اسن ولحم , وكان يصلي بالناس العشاء , ثم ياوي إلى فراشه , فإذا كان في جوف الليل قام إلى طهوره , فتوضا , ثم دخل المسجد , فصلى ست ركعات , يسوي بينهن في الركوع والسجود والقراءة , ثم يوتر بركعة , ثم يصلي ركعتين وهو جالس , فربما لم يغف حتى يجيء بلال , فيؤذنه بالصلاة , وربما شككت اغفى او لم يغف" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنِ الْحَسَنِ , عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ , قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ , فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ , فَقَالَتْ لِي: مَنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: سَعْدُ بْنُ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ , قَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ أَبَاكَ , قَالَ: قُلْتُ: أَخْبِرِينِي عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ , فَقُلْتُ: أَجَلْ , وَلَكِنْ أَخْبِرِينِي , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ عِشَاءَ الْآخِرَةِ , ثُمَّ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ , فَإِذَا كَانَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ قَامَ إِلَى طَهُورِهِ , فَتَوَضَّأَ , ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ , فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ يُسَوِّي بَيْنَ الْقِرَاءَةِ فِيهِنَّ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ , ثُمَّ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ , ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ , ثُمَّ يَضَعُ رَأْسَهُ , فَرُبَّمَا جَاءَ بِلَالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ أَنْ يُغْفِيَ , وَرُبَّمَا شَكَكْتُ أَغْفَى أَوْ لَمْ يُغْفِ , حَتَّى يُؤْذِنَهُ بِالصَّلَاةِ , قَالَتْ: فَكَانَتْ تِلْكَ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسَنَّ وَلَحُمَ , وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ , ثُمَّ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ , فَإِذَا كَانَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ قَامَ إِلَى طَهُورِهِ , فَتَوَضَّأَ , ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ , فَصَلَّى سِتَّ رَكَعَاتٍ , يُسَوِّي بَيْنَهُنَّ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَالْقِرَاءَةِ , ثُمَّ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ , ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ , فَرُبَّمَا لَمْ يُغْفِ حَتَّى يَجِيءَ بِلَالٌ , فَيُؤْذِنَهُ بِالصَّلَاةِ , وَرُبَّمَا شَكَكْتُ أَغْفَى أَوْ لَمْ يُغْفِ" .
سعد بن ہشام رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے مجھ سے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا سعد بن ہشام، انہوں نے فرمایا اللہ تمہارے والد پر اپنی رحمتیں نازل کرے، میں نے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی نماز) قیام کے بارے میں بتائے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز عشاء پڑھا کر اپنے بستر پر آتے، درمیان رات میں بیدار ہو کر وضو کرتے، مسجد میں داخل ہوتے اور آٹھ رکعتیں مساوی قرأت، رکوع اور سجود کے ساتھ پڑھتے، پھر ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے اور سر رکھ کر لیٹے رہتے اور ان کے اونگھنے سے پہلے ہی بعض اوقات حضرت بلال رضی اللہ عنہ آکر نماز کی اطلاع دے جاتے، یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، حتیٰ کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک بھاری اور عمر زیادہ ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ معمول میں آٹھ کی بجائے چھ رکعتیں کردیں، باقی معمول وہی رہا۔
حدثنا يزيد , قال: حدثنا بهز بن حكيم , وقال مرة: اخبرنا , قال: سمعت زرارة بن اوفى ، يقول: سئلت عائشة عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل؟ , فقالت:" كان يصلي العشاء , ثم يصلي بعدها ركعتين , ثم ينام , فإذا استيقظ وعنده وضوءه مغطى وسواكه استاك , ثم توضا , فقام فصلى ثمان ركعات , يقرا فيهن بفاتحة الكتاب وما شاء من القرآن , وقال مرة: ما شاء الله من القرآن , فلا يقعد في شيء منهن إلا في الثامنة , فإنه يقعد فيها , فيتشهد , ثم يقوم ولا يسلم , فيصلي ركعة واحدة , ثم يجلس , فيتشهد ويدعو , ثم يسلم تسليمة واحدة: السلام عليكم , يرفع بها صوته حتى يوقظنا , ثم يكبر وهو جالس , فيقرا , ثم يركع ويسجد وهو جالس , فيصلي جالسا ركعتين , فهذه إحدى عشرة ركعة , فلما كثر لحمه وثقل , جعل التسع سبعا لا يقعد إلا كما يقعد في الاولى , ويصلي الركعتين قاعدا , فكانت هذه صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى قبضه الله" ..حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ , وَقَالَ مَرَّةً: أَخْبَرَنَا , قَالَ: سَمِعْتُ زُرَارَةَ بْنَ أَوْفَى ، يَقُولُ: سُئِلَتْ عَائِشَةُ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ؟ , فَقَالَتْ:" كَانَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ , ثُمَّ يُصَلِّي بَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ يَنَامُ , فَإِذَا اسْتَيْقَظَ وَعِنْدَهُ وَضُوءُهُ مُغَطًّى وَسِوَاكُهُ اسْتَاكَ , ثُمَّ تَوَضَّأَ , فَقَامَ فَصَلَّى ثَمَانِ رَكَعَاتٍ , يَقْرَأُ فِيهِنَّ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَا شَاءَ مِنَ الْقُرْآنِ , وَقَالَ مَرَّةً: مَا شَاءَ اللَّهُ مِنَ الْقُرْآنِ , فَلَا يَقْعُدُ فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ , فَإِنَّهُ يَقْعُدُ فِيهَا , فَيَتَشَهَّدُ , ثُمَّ يَقُومُ وَلَا يُسَلِّمُ , فَيُصَلِّيَ رَكْعَةً وَاحِدَةً , ثُمَّ يَجْلِسُ , فَيَتَشَهَّدُ وَيَدْعُو , ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ , يَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ حَتَّى يُوقِظَنَا , ثُمَّ يُكَبِّرُ وَهُوَ جَالِسٌ , فَيَقْرَأُ , ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَسْجُدُ وَهُوَ جَالِسٌ , فَيُصَلِّي جَالِسًا رَكْعَتَيْنِ , فَهَذِهِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً , فَلَمَّا كَثُرَ لَحْمُهُ وَثَقُلَ , جَعَلَ التِّسْعَ سَبْعًا لَا يَقْعُدُ إِلَّا كَمَا يَقْعُدُ فِي الْأُولَى , وَيُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ قَاعِدًا , فَكَانَتْ هَذِهِ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھ کر سو جاتے تھے، پھر بیدار ہوتے تو وضو کا پانی ڈھکا ہوا اور مسواک ان کے قریب ہی ہوتی، آپ مسواک فرماتے اور وضو فرماتے اور آٹھ رکعات نماز پڑھتے۔ ان رکعتوں میں نہ بیٹھتے سوائے آٹھویں رکعت کے بعد اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد کرتے اور اس سے دعا مانگتے پھر آپ اٹھتے اور سلام نہ پھیرتے پھر کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے پھر آپ بیٹھتے، اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد بیان فرماتے اور اس سے دعا مانگتے پھر آپ سلام پھیرتے، سلام پھیرنا ہمیں سنا دیتے پھر آپ سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعات نماز پڑھتے تو یہ گیارہ رکعتیں ہوگئیں پھر جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک زیادہ ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر گوشت آگیا تو سات رکعتیں وتر کی پڑھنے لگے اور دو رکعتیں اسی طرح پڑھتے جس طرح پہلے بیان کیا تو یہ نو رکعتیں ہوئیں اور وفات تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اسی طرح رہی۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا يونس , قال: حدثنا عمران بن يزيد العطار , عن بهز بن حكيم , عن زرارة بن اوفى , عن سعد بن هشام , قال: قلت لام المؤمنين عائشة كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليل؟ قالت:" كان يصلي العشاء , فذكر الحديث , ويصلي ركعتين قائما يرفع صوته كانه يوقظنا , بل يوقظنا , ثم يدعو بدعاء يسمعنا , ثم يسلم تسليمة ثم يرفع بها صوته".حَدَّثَنَا يُونُسُ , قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ , عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ , عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى , عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ , قَالَ: قُلْتُ لِأُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ؟ قَالَتْ:" كَانَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ , فَذَكَرَ الْحَدِيثَ , وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ قَائِمًا يَرْفَعُ صَوْتَهُ كَأَنَّهُ يُوقِظُنَا , بَلْ يُوقِظُنَا , ثُمَّ يَدْعُو بِدُعَاءٍ يُسْمِعُنَا , ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً ثُمَّ يَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ".
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا زكريا , عن عامر , عن شريح بن هانئ , عن عائشة , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من احب لقاء الله , احب الله لقاءه , ومن كره لقاء الله , كره الله لقاءه , والموت قبل لقاء الله" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا , عَنْ عَامِرٍ , عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ , عَنْ عَائِشَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ , أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ , وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ , كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ , وَالْمَوْتُ قَبْلَ لِقَاءِ اللَّهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اور جو اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ سے ملاقات ہونے سے پہلے موت ہوتی ہے۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا زكريا , عن ابي إسحاق ، قال: حدثني ابو عبد الله الجدلي , قال: قلت لعائشة كيف كان خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم في اهله؟ , قالت: " كان احسن الناس خلقا , لم يكن فاحشا ولا متفحشا ولا سخابا بالاسواق , ولا يجزئ بالسيئة مثلها , ولكن يعفو ويصفح" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيُّ , قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ كَيْفَ كَانَ خُلُقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَهْلِهِ؟ , قَالَتْ: " كَانَ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا , لَمْ يَكُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا سَخَّابًا بِالْأَسْوَاقِ , وَلَا يُجْزِئُ بِالسَّيِّئَةِ مِثْلَهَا , وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے، کوئی بیہودہ کام یا گفتگو کرنے والے یا بازاروں میں شور مچانے والے نہیں تھے اور وہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ معاف اور درگذر فرماتے تھے۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا زكريا , عن ابي إسحاق ، عن الاسود , عن عائشة , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان يحرم ادهن باطيب دهن يجده , حتى إني لارى بصيص الدهن في شعره , ولقد كنت افتل قلائد الهدي لرسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم يبعث به فما يعتزل منا امراة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُحْرِمَ ادَّهَنَ بِأَطْيَبِ دُهْنٍ يَجِدُهُ , حَتَّى إِنِّي لَأَرَى بَصِيصَ الدُّهْنِ فِي شَعَرِهِ , وَلَقَدْ كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ الْهَدْيِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ يَبْعَثُ بِهِ فَمَا يَعْتَزِلُ مِنَّا امْرَأَةً" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور گویا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔ اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جانور یعنی بکری کے قلادے بٹا کرتی تھی اور اسے بھیج کر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی عورت سے اپنے آپ کو نہیں روکتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى إسحاق
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا حميد , عن عبد الله بن شقيق , قال: قلت لعائشة اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قاعدا؟ قالت:" كان يصلي من الليل طويلا قاعدا , ويصلي من الليل طويلا قائما , فإذا قرا قائما ركع قائما , وإذا قرا قاعدا ركع قاعدا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ , قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا؟ قَالَتْ:" كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ طَوِيلًا قَاعِدًا , وَيُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ طَوِيلًا قَائِمًا , فَإِذَا قَرَأَ قَائِمًا رَكَعَ قَائِمًا , وَإِذَا قَرَأَ قَاعِدًا رَكَعَ قَاعِدًا" .
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نمازوں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ رات کی نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم طویل قیام فرماتے اور کافی دیر تک بیٹھتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر بھی تلاوت اور رکوع و سجود فرماتے تھے اور بیٹھ کر بھی تلاوت اور رکوع و سجود فرماتے تھے۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا داود , عن عامر , عن مسروق , قال: كنت متكئا عند عائشة , فقالت: يا ابا عائشة , انا اول من سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن هذه , قال: " ذلك جبريل , لم اره في صورته التي خلق فيها إلا مرتين , رايته منهبطا من السماء , سادا عظم خلقه ما بين السماء والارض" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا دَاوُدُ , عَنْ عَامِرٍ , عَنْ مَسْرُوقٍ , قَالَ: كُنْتُ مُتَّكِئًا عِنْدَ عَائِشَةَ , فَقَالَتْ: يَا أَبَا عَائِشَةَ , أَنَا أَوَّلُ مَنْ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ , قَالَ: " ذَلِكَ جِبْرِيلُ , لَمْ أَرَهُ فِي صُورَتِهِ الَّتِي خُلِقَ فِيهَا إِلَّا مَرَّتَيْنِ , رَأَيْتُهُ مُنْهَبِطًا مِنَ السَّمَاءِ , سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ" .
مسروق کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا، (میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا " تحقیق پیغمبر نے اسے آسمان کے کنارے پر واضح طور پر دیکھا ہے " اور یہ کہ " پیغمبر نے اسے ایک اور مرتبہ اترتے ہوئے بھی دیکھا ہے؟ '') انہوں نے فرمایا اے ابو عائشہ! اس کے متعلق سب سے پہلے میں نے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا اور انہوں نے فرمایا تھا کہ اس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں، جنہیں میں نے ان کی اصلی صورت میں صرف دو مرتبہ دیکھا ہے، میں نے ایک مرتبہ انہیں آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا تو ان کی عظیم جسمانی ہیئت نے آسمان و زمین کے درمیان کی فضاء کو پر کیا ہوا تھا۔
حدثنا يزيد , اخبرنا سعيد , عن قتادة , عن معاذة , عن عائشة قالت: " مرن ازواجكن ان يغسلوا عنهم اثر الغائط والبول فإني استحييهم , وإن النبي صلى الله عليه وسلم قد كان يفعله" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ مُعَاذَةَ , عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: " مُرْنَ أَزْوَاجَكُنَّ أَنْ يَغْسِلُوا عَنْهُمْ أَثَرَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ فَإِنِّي أَسْتَحْيِيهِمْ , وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بصرہ کی کچھ خواتین ان کے پاس حاضر ہوئیں تو انہوں نے انہیں پانی سے استنجاء کرنے کا حکم دیا اور فرمایا اپنے شوہر کو بھی اس کا حکم دو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پانی سے ہی استنجاء کرتے تھے۔
حدثنا يزيد , اخبرنا عروة ابو عبد الله البزاز , عن الشعبي ، عن عائشة , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اغتسل من الجنابة بدا فتوضا وضوءه للصلاة , وغسل فرجه وقدميه , ومسح يده بالحائط , ثم افاض عليه الماء , فكاني ارى اثر يده في الحائط" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , أَخْبَرَنَا عُرْوَةُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ , عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ بَدَأَ فَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ , وَغَسَلَ فَرْجَهُ وَقَدَمَيْهِ , وَمَسَحَ يَدَهُ بِالْحَائِطِ , ثُمَّ أَفَاضَ عَلَيْهِ الْمَاءَ , فَكَأَنِّي أَرَى أَثَرَ يَدِهِ فِي الْحَائِطِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غسل کی تفصیل یوں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے نماز جیسا وضو فرماتے تھے، پھر شرمگاہ اور پاؤں دھوتے، ہاتھ کو دیوار پر ملتے اور اس پر پانی بہاتے، گویا ان کے ہاتھ کا دیوار اوپر نشان میں اب تک دیکھ رہی ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، الشعبي لم يسمع من عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کوئی ایسا کپڑا نہیں چھوڑتے تھے جس میں صلیب کا نشان بنا ہوا ہو، یہاں تک کہ اسے ختم کردیتے۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا شريك , عن المقدام , عن ابيه , قال: قلت لعائشة يا امه , باي شيء كان يبدا النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل عليك بيتك , وباي شيء كان يختم؟ , قالت:" كان يبدا بالسواك، ويختم بركعتي الفجر" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ , عَنِ الْمِقْدَامِ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ يَا أُمَّهْ , بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يَبْدَأُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ بَيْتَكِ , وَبِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يَخْتِمُ؟ , قَالَتْ:" كَانَ يَبْدَأُ بِالسِّوَاكِ، وَيَخْتِمُ بِرَكْعَتَيْ الْفَجْرِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے تو سب سے پہلے مسواک فرماتے تھے اور جب گھر سے نکلتے تھے تو سب سے آخر میں فجر سے پہلے کی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے چاند دکھایا جو طلوع ہو رہا تھا اور فرمایا اس اندھیری رات کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو جب وہ چھا جایا کرے۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا محمد بن إسحاق , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعبد بن زمعة: " الولد للفراش وللعاهر الحجر" , ثم امر رسول الله صلى الله عليه وسلم سودة بنت زمعة ان تحتجب منه لما راى من شبهه بعتبة , فما رآها حتى لقي الله .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ بْنِ زَمْعَةَ: " الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ" , ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ أَنْ تَحْتَجِبَ مِنْهُ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ , فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد بن زمعہ سے فرمایا بچہ صاحب فراش کا ہوتا ہے اور بدکار کے لئے پتھر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو دیکھا تو اس میں عتبہ کے ساتھ واضح شباہت نظر آئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سودہ! تم اس سے پردہ کرنا چنانچہ وہ ان کے انتقال تک انہیں دیکھ نہیں سکا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، محمد بن إسحاق توبع، خ: 2218، م: 1457
علقمہ بن وقاص لیثی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کردو رکعتیں کس طرح پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرأت تو بیٹھ کر کرتے تھے لیکن جب رکوع کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہوجاتے اور پھر رکوع فرماتے تھے۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا محمد , عن ابي سلمة ، قال: سالت عائشة هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينام وهو جنب؟ قالت: " نعم , ولكنه كان لا ينام حتى يغسل فرجه , ويتوضا وضوءه للصلاة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنَامُ وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَتْ: " نَعَمْ , وَلَكِنَّهُ كَانَ لَا يَنَامُ حَتَّى يَغْسِلَ فَرْجَهُ , وَيَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وجوبِ غسل کی حالت میں سونا چاہتے تو شرمگاہ کو دھو کر نماز جیسا وضو فرما لیتے تھے۔
حدثنا حدثنا يزيد , قال: اخبرنا محمد , عن ابي سلمة ، عن عائشة , قالت: " لقد كان ياتي على آل محمد صلى الله عليه وسلم الشهر ما يرى في بيت من بيوته الدخان , قال: قلت: يا امه , فما كان طعامهم؟ قالت:" الاسودان الماء والتمر , غير انه كان له جيران صدق من الانصار، وكانت لهم ربائب , فكانوا يبعثون إليه من البانها" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " لَقَدْ كَانَ يَأْتِي عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهْرُ مَا يُرَى فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِهِ الدُّخَانُ , قَالَ: قُلْتُ: يَا أُمَّهْ , فَمَا كَانَ طَعَامُهُمْ؟ قَالَتْ:" الْأَسْوَدَانِ الْمَاءُ وَالتَّمْرُ , غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ لَهُ جِيرَانُ صِدْقٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَكَانَتْ لَهُمْ رَبَائِبُ , فَكَانُوا يَبْعَثُونَ إِلَيْهِ مِنْ أَلْبَانِهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض اوقات ایک ایک مہینہ اس طرح گذر جاتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی گھر میں آگ نہیں جلتی تھی، الاّ یہ کہ کہیں سے تھوڑا بہت گوشت آجائے اور ہمارے گذارے کے لئے صرف دو ہی چیزیں ہوتی تھیں یعنی پانی اور کجھور، البتہ ہمارے آس پاس انصار کے کچھ گھرانے آباد تھے، اللہ انہیں ہمیشہ جزائے خیر دے، کہ وہ روزانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بکری کا دودھ بھیج دیا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نوش فرما لیا کرتے تھے۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا محمد يعني ابن إسحاق , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة " ان زينب بنت جحش استحيضت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم , فامرها رسول الله صلى الله عليه وسلم بالغسل لكل صلاة , فإن كانت لتدخل المركن مملوءا ماء , فتغتمس فيه , ثم تخرج منه , وإن الدم لغالبه , فتخرج فتصلي" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ اسْتُحِيضَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْغُسْلِ لِكُلِّ صَلَاةٍ , فَإِنْ كَانَتْ لَتَدْخُلُ الْمِرْكَنَ مَمْلُوءًا مَاءً , فَتَغْتَمِسُ فِيهِ , ثُمَّ تَخْرُجُ مِنْهُ , وَإِنَّ الدَّمَ لَغَالِبُهُ , فَتَخْرُجُ فَتُصَلِّي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ زینب بنت جحش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میرا دم حیض ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایام حیض تک تو نماز چھوڑ دیا کرو، اس کے بعد غسل کر کے ہر نماز کے وقت وضو کرلیا کرو اور نماز پڑھا کرو خواہ چٹائی پر خون کے قطرے ٹپکنے لگیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتدليس محمد بن إسحاق وقد عنعن
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے اپنے ان دونوں ہاتھوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام پر خوشبو لگائی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھتے تھے اور طوافِ زیارت سے قبل حلال ہونے کے بعد بھی خوشبو لگائی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد محتمل للتحسين، خ: 1754، م: 1189
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا سفيان يعني ابن حسين , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: اهديت لحفصة شاة ونحن صائمتان , فافطرتني , وكانت ابنة ابيها , فدخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرنا ذلك له , فقال: " ابدلا يوما مكانه" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ يَعْنِي ابْنَ حُسَيْنٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: أُهْدِيَتْ لِحَفْصَةَ شَاةٌ وَنَحْنُ صَائِمَتَانِ , فَأَفْطَرَتْنِي , وَكَانَتْ ابْنَةُ أَبِيهَا , فَدَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ , فَقَالَ: " أَبْدِلَا يَوْمًا مَكَانَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس کہیں سے ایک بکری ہدیئے میں آئی، ہم دونوں اس دن روزے سے تھیں، انہوں نے میرا روزہ اس سے کھلوا دیا، وہ اپنے والد کی بیٹی تھیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اس کے بدلے میں کسی اور دن کا روزہ رکھ لینا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، سفيان - هو ابن حسين - ضعيف فى الزهري
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا سفيان , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قال: سالتها امراة يهودية فاعطتها , فقالت لها: اعاذك الله من عذاب القبر , فانكرت عائشة ذلك , فلما رات النبي صلى الله عليه وسلم قالت له , فقال:" لا" قالت عائشة: ثم قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك: " إنه اوحي إلي انكم تفتنون في قبوركم" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَ: سَأَلَتْهَا امْرَأَةٌ يَهُودِيَّةٌ فَأَعْطَتْهَا , فَقَالَتْ لَهَا: أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ , فَأَنْكَرَتْ عَائِشَةُ ذَلِكَ , فَلَمَّا رَأَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَهُ , فَقَالَ:" لَا" قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ: " إِنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي قُبُورِكُمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودیہ عورت نے ان سے کچھ مانگا، انہوں نے اسے وہ دے دیا، اس نے کہا کہ اللہ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے، انہیں اس پر تعجب ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے ان سے اس کا ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، کچھ عرصہ گذرنے کے بعد ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ مجھ پر یہ وحی آگئی ہے کہ تمہیں قبروں میں آزمایا جائے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانوروں کا قلادہ اپنے ہاتھ سے بٹا کرتی تھی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے بھیج کر ہمارے درمیان غیر محرم ہو کر مقیم رہتے تھے اور کوئی چیز نہ چھوڑتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک تھیلی لائی گئی جس میں نگینے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نگینے آزاد اور غلام عورتوں میں تقسیم کردیئے اور میرے والد بھی غلام اور آزاد میں اسے تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سانپ نافرمان جانور ہوتا ہے، اسی طرح بچھو، کوا اور چوہا بھی نافرمان ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتے رہے، حتیٰ کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا هشام , عن محمد , ان عائشة سئلت عن القراءة في الركعتين قبل صلاة الفجر؟ فقالت" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسر القراءة فيهما , وذكرت قل يا ايها الكافرون و قل هو الله احد" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنْ مُحَمَّدٍ , أَنَّ عَائِشَةَ سُئِلَتْ عَنِ الْقِرَاءَةِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ؟ فَقَالَتْ" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسِرُّ الْقِرَاءَةَ فِيهِمَا , وَذَكَرَتْ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ و قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ" .
محمد کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فجر کی سنتون میں قرأت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سری قرأت فرماتے تھے اور میرا خیال ہے کہ اس میں سورت کافروں اور سورت اخلاص جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه لأن محمدا لم يدرك عائشة والحديث صحيح دون قوله: "يسر القراءة."
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا هشام , عن محمد , ان عائشة نزلت على ام طلحة الطلحات , فرات بناتها يصلين بغير خمر , فقالت: إني لارى بناتك قد حضن او حاض بعضهن , قالت: اجل , قالت: فلا تصلين جارية منهن وقد حاضت إلا وعليها خمار , فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل علي وعندي فتاة , فالقى إلي حقوه , فقال: " شقيه بين هذه وبين الفتاة التي عند ام سلمة , فإني لا اراهما إلا قد حاضتا , او لا اراها إلا قد حاضت" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنْ مُحَمَّدٍ , أَنَّ عَائِشَةَ نَزَلَتْ عَلَى أُمِّ طَلْحَةَ الطَّلْحَاتِ , فَرَأَتْ بَنَاتِهَا يُصَلِّينَ بِغَيْرِ خُمُرٍ , فَقَالَتْ: إِنِّي لَأَرَى بَنَاتِكِ قَدْ حِضْنَ أَوْ حَاضَ بَعْضُهُنَّ , قَالَتْ: أَجَلْ , قَالَتْ: فَلَا تُصَلِّيَنَّ جَارِيَةٌ مِنْهُنَّ وَقَدْ حَاضَتْ إِلَّا وَعَلَيْهَا خِمَارٌ , فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيَّ وَعِنْدِي فَتَاةٌ , فَأَلْقَى إِلَيَّ حَقْوَهُ , فَقَالَ: " شُقِّيهِ بَيْنَ هَذِهِ وَبَيْنَ الْفَتَاةِ الَّتِي عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ , فَإِنِّي لَا أُرَاهُمَا إِلَّا قَدْ حَاضَتَا , أَوْ لَا أُرَاهَا إِلَّا قَدْ حَاضَتْ" .
محمد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صفیہ ام طلحہ الطلحات کے یہاں قیام کیا تو دیکھا کہ کچھ بچیاں جو بالغ ہونے کے باوجود بغیر دوپٹوں کے نماز پڑھ رہی ہیں، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کوئی بچی دوپٹے کے بغیر نماز نہ پڑھے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے، اس وقت میری پرورش میں ایک بچی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر مجھے دی اور فرمایا کہ اس کے دو حصے کر کے اس بچی اور ام سلمہ کے پرورش میں جو بچی ہے ان کے درمیان تقسیم کردو کیونکہ میرے خیال میں یہ دونوں بالغ ہوچکی ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد فيه انقطاع بين محمد وعائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے اپنے ان دونوں ہاتھوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام پر خوشبو لگائی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھتے تھے اور طوافِ زیارت سے قبل حلال ہونے کے بعد بھی خوشبو لگائی ہے۔
حدثنا يزيد بن هارون , قال: اخبرنا الحجاج بن ارطاة , عن يحيى بن ابي كثير , عن عروة , عن عائشة , قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة , فخرجت فإذا هو بالبقيع رافع راسه إلى السماء , فقال لي: " اكنت تخافين ان يحيف الله عليك ورسوله؟" قالت: قلت: يا رسول الله , ظننت انك اتيت بعض نسائك , فقال:" إن الله عز وجل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا , فيغفر لاكثر من عدد شعر غنم كلب" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ , فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ رَافِعٌ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ , فَقَالَ لِي: " أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ؟" قَالَتْ: قُلْتُ: يا رسول الله , ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ , فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا , فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ كَلْبٍ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، میں نکلی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں آسمان کی طرف سر اٹھائے دعا فرما رہے تھے، مجھے دیکھ کر فرمایا کیا تمہیں اس بات کا اندیشہ ہوگیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں سمجھی تھی کہ شاید آپ اپنی کسی زوجہ کے پاس گئے ہوں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کو معاف فرماتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں شامل فرما جو نیکی کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور اگر گناہ کر بیٹھیں تو استغفار کرتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لأجل على بن زيد بن جدعان
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا الجريري ، عن عبد الله بن شقيق , عن عائشة , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي اربعا قبل الظهر , وقال يزيد مرة: ركعتين بعدها , وركعتين قبل الفجر , وكان يقول: نعم السورتان هما يقرءونهما في الركعتين قبل الفجر قل يا ايها الكافرون و قل هو الله احد" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ , وَقَالَ يَزِيدُ مَرَّةً: رَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا , وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ , وَكَانَ يَقُولُ: نِعْمَ السُّورَتَانِ هُمَا يَقْرَءُونَهُمَا فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ و َقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ دو سورتیں کتنی اچھی ہیں " قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ " اور " وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے کی دو رکعتوں میں پڑھا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے پاس رہنے یا دنیا لینے کا اختیار دیا، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرلیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم پر کوئی طلاق شمار نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على الثوري
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میرے دو پڑوسی ہوں تو ہدیہ کسے بھیجوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ تذکرہ ہوا کہ کچھ لوگ اپنی شرمگاہ کا رخ قبلہ کی جانب کرنے کو ناپسند کرتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا وہ ایسا کرتے ہیں؟ بیت الخلاء میں میرے بیٹھنے کی جگہ کا رخ قبلہ کی جانب کردو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف خالد بن أبى الصلت على نكارة فى متنه
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص قرآن کریم مہارت کے ساتھ پڑھتا ہے، وہ نیک اور معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص مشقت برداشت کر کے تلاوت کرے اسے دہرا اجر ملے گا۔
حدثنا يزيد بن هارون , قال: اخبرنا جرير بن حازم , قال: حدثنا يزيد بن رومان , عن عروة ، عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لها:" يا عائشة , لولا ان قومك حديث عهد بجاهلية لامرت بالبيت فهدم , فادخلت فيه ما اخرج منه , والزقته بالارض , وجعلت له بابين بابا شرقيا , وبابا غربيا , فإنهم عجزوا عن بنائه , فبلغت به اساس إبراهيم عليه السلام" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ , عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا:" يَا عَائِشَةُ , لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ لَأَمَرْتُ بِالْبَيْتِ فَهُدِمَ , فَأَدْخَلْتُ فِيهِ مَا أُخْرِجَ مِنْهُ , وَأَلْزَقْتُهُ بِالْأَرْضِ , وَجَعَلْتُ لَهُ بَابَيْنِ بَابًا شَرْقِيًّا , وَبَابًا غَرْبِيًّا , فَإِنَّهُمْ عَجَزُوا عَنْ بِنَائِهِ , فَبَلَغْتُ بِهِ أَسَاسَ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر کے قریب نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو شہید کر کے اسے حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر تعمیر کرتا کیونکہ قریش نے جب اسے تعمیر کیا تھا تو اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیا تھا اور میں اسے زمین سے ملا کر اس کے مشرقی اور مغربی دو دروازے بناتا۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا عبد العزيز بن عبد الله بن ابي سلمة , عن عبد الرحمن بن الحارث بن عبد الله بن عياش بن ابي ربيعة , عن عائشة , قالت: قدمنا المدينة , وهي انجال وغرقد , فاشتكى آل ابي بكر , فاستاذنت النبي صلى الله عليه وسلم في عيادة ابي , فاذن لي , فاتيته , فقلت: يا ابت , كيف تجدك؟ قال: كل امرئ مصبح في اهله , والموت ادنى من شراك نعله , قالت: قلت: هجر والله ابي , ثم اتيت عامر بن فهيرة , فقلت: اي عامر , كيف تجدك؟ قال: إني وجدت الموت قبل ذوقه , إن الجبان حتفه من فوقه , قالت: فاتيت بلالا , فقلت: يا بلال , كيف تجدك؟ فقال: الا ليت شعري هل ابيتن ليلة , بفخ وحولي إذخر وجليل , قال: فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته , قال: " اللهم بارك لنا في صاعنا , وبارك لنا في مدنا , وحبب إلينا المدينة , كما حببت إلينا مكة , وانقل وباءها إلى خم، ومهيعة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ , وَهِيَ أَنْجَالٌ وَغَرْقَدٌ , فَاشْتَكَى آلُ أَبِي بَكْرٍ , فَاسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عِيَادَةِ أَبِي , فَأَذِنَ لِي , فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ , كَيْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَ: كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ , وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ , قَالَتْ: قُلْتُ: هَجَرَ وَاللَّهِ أَبِي , ثُمَّ أَتَيْتُ عَامِرَ بْنَ فُهَيْرَةَ , فَقُلْتُ: أَيْ عَامِرُ , كَيْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَ: إِنِّي وَجَدْتُ الْمَوْتَ قَبْلَ ذَوْقِهِ , إِنَّ الْجَبَانَ حَتْفُهُ مِنْ فُوقِهِ , قَالَتْ: فَأَتَيْتُ بِلَالًا , فَقُلْتُ: يَا بِلَالُ , كَيْفَ تَجِدُكَ؟ فَقَالَ: أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً , بِفَخٍّ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ , قَالَ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ , قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا , وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا , وَحَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ , كَمَا حَبَّبْتَ إِلَيْنَا مَكَّةَ , وَانْقُلْ وَبَاءَهَا إِلَى خُمٍّ، وَمَهْيَعَةَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ اور بلال رضی اللہ عنہ بھی بیمار ہوگئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان لوگوں کی عیادت کے لئے جانے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، انہوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ اپنی صحت کیسی محسوس کر رہے ہیں؟ انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " ہر شخص اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے جبکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتی ہے "۔ پھر میں نے عامر سے پوچھا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " کہ موت کا مزہ چکھنے سے پہلے موت کو محسوس کر رہا ہوں اور قبرستان منہ کے قریب آگیا ہے۔ " پھر میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے ان کی طبیعت پوچھی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " ہائے مجھے کیا خبر کہ میں دوبارہ " فخ " میں رات گذار سکوں گا اور میرے آس پاس " اذخر " اور " جلیل " نامی گھاس ہوگی "۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئیں اور ان لوگوں کی باتیں بتائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا اے اللہ! مدینہ منورہ ہماری نگاہوں میں اسی طرح محبوب رکھ جیسے مکہ کو بنایا تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اس سے بھی زیادہ، اے اللہ! مدینہ کے صاع اور مد میں برکتیں عطاء فرما اور اس کی وباء کو حجفہ کی طرف منتقل فرما۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد فيه ضعف وانقطاع لان عبدالرحمن بن الحارث ضعيف ولم يدرك عائشة
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا صدقة بن موسى , قال: حدثنا ابو عمران الجوني ، عن يزيد بن بابنوس , عن عائشة , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الدواوين عند الله عز وجل ثلاثة ديوان لا يعبا الله به شيئا , وديوان لا يترك الله منه شيئا , وديوان لا يغفره الله , فاما الديوان الذي لا يغفره الله فالشرك بالله , قال الله عز وجل إنه من يشرك بالله فقد حرم الله عليه الجنة سورة المائدة آية 72 واما الديوان الذي لا يعبا الله به شيئا فظلم العبد نفسه فيما بينه وبين ربه من صوم يوم تركه او صلاة تركها , فإن الله عز وجل يغفر ذلك ويتجاوز إن شاء , واما الديوان الذي لا يترك الله منه شيئا فظلم العباد بعضهم بعضا , القصاص لا محالة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ بَابَنُوسَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدَّوَاوِينُ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثَةٌ دِيوَانٌ لَا يَعْبَأُ اللَّهُ بِهِ شَيْئًا , وَدِيوَانٌ لَا يَتْرُكُ اللَّهُ مِنْهُ شَيْئًا , وَدِيوَانٌ لَا يَغْفِرُهُ اللَّهُ , فَأَمَّا الدِّيوَانُ الَّذِي لَا يَغْفِرُهُ اللَّهُ فَالشِّرْكُ بِاللَّهِ , قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ سورة المائدة آية 72 وَأَمَّا الدِّيوَانُ الَّذِي لَا يَعْبَأُ اللَّهُ بِهِ شَيْئًا فَظُلْمُ الْعَبْدِ نَفْسَهُ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّهِ مِنْ صَوْمِ يَوْمٍ تَرَكَهُ أَوْ صَلَاةٍ تَرَكَهَا , فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَغْفِرُ ذَلِكَ وَيَتَجَاوَزُ إِنْ شَاءَ , وَأَمَّا الدِّيوَانُ الَّذِي لَا يَتْرُكُ اللَّهُ مِنْهُ شَيْئًا فَظُلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا , الْقِصَاصُ لَا مَحَالَةَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے یہاں تین قسم کے دفتر ہوں گے، ایک قسم کے دفتر (رجسڑ) تو ایسے ہوں گے جن کی اللہ کوئی پرواہ نہیں کرے گا، ایک قسم کے رجسڑ ایسے ہوں گے جن میں سے اللہ کچھ بھی نہیں چھوڑے گا اور ایک قسم کے رجسڑ ایسے ہوں گے جنہیں اللہ کبھی معاف نہیں فرمائے گا، ایسے رجسڑ جنہیں اللہ کبھی معاف نہیں فرمائے گا تو وہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے " جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، اللہ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے اور وہ رجسڑ جن میں سے اللہ کچھ بھی نہیں چھوڑے گا، وہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم کرنا ہے جن کا بہر صورت بدلہ لیا جائے گا۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا إبراهيم بن سعد , قال: حدثني ابي , عن عروة بن الزبير , عن عائشة , قالت:" لما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم دعا ابنته فاطمة فسارها، فبكت , ثم سارها، فضحكت , فسالتها عن ذلك؟ فقالت: اما حيث بكيت , فإنه اخبرني انه ميت فبكيت , ثم اخبرني اني اول اهله لحوقا به , فضحكت" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا ابْنَتَهُ فَاطِمَةَ فَسَارَّهَا، فَبَكَتْ , ثُمَّ سَارَّهَا، فَضَحِكَتْ , فَسَأَلْتُهَا عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَتْ: أَمَّا حَيْثُ بَكَيْتُ , فَإِنَّهُ أَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَيِّتٌ فَبَكَيْتُ , ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ أَهْلِهِ لُحُوقًا بِهِ , فَضَحِكْتُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہ کو بلایا، ان کے ساتھ سر گوشی میں باتیں کرنے لگے، اس دوران حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہ رونے لگیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں، تو بعد میں حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہ سے میں نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا سرگوشی کی تھی جس پر تم رونے لگیں اور دوبارہ سرگوشی کی تو تم ہنسنے لگی تھیں؟ انہوں نے بتایا کہ پہلی مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھ سے سرگوشی کی تو مجھے اپنی وفات کی خبر دی تو میں رونے لگی اور دوبارہ سرگوشی کی تو یہ بتایا کہ ان کے اہل خانہ میں سے سب سے پہلے میں ہی ان سے جا کر ملوں گی تو میں ہنسنے لگی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ہمارے اس طریقے کے علاوہ کوئی اور طریقہ ایجاد کرتا ہے تو وہ مردود ہے۔
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا همام بن يحيى , عن قتادة , عن ابي حسان ، قال: دخل رجلان من بني عامر على عائشة , فاخبراها، ان ابا هريرة يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:" الطيرة من الدار والمراة والفرس" , فغضبت , فطارت شقة منها في السماء , وشقة في الارض , وقالت: والذي انزل الفرقان على محمد , ما قالها رسول الله صلى الله عليه وسلم قط , إنما قال: " كان اهل الجاهلية يتطيرون من ذلك" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، قَالَ: دَخَلَ رَجُلَانِ مِنْ بَنِي عَامِرٍ عَلَى عَائِشَةَ , فَأَخْبَرَاهَا، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" الطِّيَرَةُ مِنَ الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ" , فَغَضِبَتْ , فَطَارَتْ شِقَّةٌ مِنْهَا فِي السَّمَاءِ , وَشِقَّةٌ فِي الْأَرْضِ , وَقَالَتْ: وَالَّذِي أَنْزَلَ الْفُرْقَانَ عَلَى مُحَمَّدٍ , مَا قَالَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ , إِنَّمَا قَالَ: " كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَتَطَيَّرُونَ مِنْ ذَلِكَ" .
ابو حسان کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نحوست عورت، گھر اور سواری کے جانور میں ہوتی ہے تو وہ سخت غصے میں آئیں، پھر اس آدمی نے کہا کہ اس کا ایک حصہ آسمان کی طرف اڑ جاتا ہے اور ایک حصہ زمین پر رہ جاتا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اس سے تو اہل جاہلیت بدشگونی لیا کرتے تھے (اسلام نے ایسی چیزوں کو بےاصل قرار دیا ہے)
حدثنا يزيد , قال: اخبرنا جعفر بن برد , عن ام سالم الراسبية ، قالت: سمعت عائشة ، تقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي نفس محمد بيده , لخلوف فم الصائم اطيب عند الله من ريح المسك" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْدٍ , عَنْ أُمِّ سَالِمٍ الرَّاسِبِيَّةِ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ , لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بھبک اللہ کے نزدیک مشک کی مہک سے بھی زیادہ عمدہ ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أم السائب الراسبية
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے پاس رہنے یا دنیا لینے کا اختیار دیا، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرلیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم پر کوئی طلاق شمار نہیں کیا۔
حدثنا معاذ , حدثنا ابن جريج , عن عطاء , عن عائشة , قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا راى مخيلة يعني الغيم , تلون وجهه , وتغير , ودخل , وخرج , واقبل , وادبر , فإذا مطرت سري عنه , قالت: فذكرت له عائشة بعض ما رات منه , فقال: " وما يدريني لعله كما قال قوم عاد فلما راوه عارضا مستقبل اوديتهم قالوا هذا عارض ممطرنا بل هو ما استعجلتم به ريح فيها عذاب اليم سورة الاحقاف آية 24" .حَدَّثَنَا مُعَاذٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَى مَخِيلَةً يَعْنِي الْغَيْمَ , تَلَوَّنَ وَجْهُهُ , وَتَغَيَّرَ , وَدَخَلَ , وَخَرَجَ , وَأَقْبَلَ , وَأَدْبَرَ , فَإِذَا مَطَرَتْ سُرِّيَ عَنْهُ , قَالَتْ: فَذَكَرَتْ لَهُ عَائِشَةُ بَعْضَ مَا رَأَتْ مِنْهُ , فَقَالَ: " وَمَا يُدْرِينِي لَعَلَّهُ كَمَا قَالَ قَوْمُ عَادٍ فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ سورة الأحقاف آية 24" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب بادل یا آندھی آتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے مبارک پر تفکرات کے آثار نظر آنے لگتے تھے اور وہ اندر باہر اور آگے پیچھے ہونے لگتے، جب وہ برس جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت ختم ہوجاتی، ایک مرتبہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! لوگ بادل کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور انہیں یہ امید ہوتی ہے کہ اب بارش ہوگی اور میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ بادلوں کو دیکھ کر آپ کے چہرے کے تفکرات کے آثار نظر آنے لگتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! مجھے اس چیز سے اطمینان نہیں ہوتا کہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو، کیونکہ اس سے پہلے ایک قوم پر آندھی کا عذاب ہوچکا ہے، جب ان لوگوں نے عذاب کو دیکھا تھا تو اسے بادل سمجھ کر یہ کہہ رہے تھے کہ یہ بادل ہم پر بارش برسائے گا لیکن اس میں عذاب تھا۔
حدثنا معاذ , قال: اخبرنا محمد بن عمرو , عن ابي سلمة ، عن عائشة , قالت: كانت لنا حصيرة نبسطها بالنهار , ونحتجرها بالليل , فصلى فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة , فسمع المسلمون قراءته , فصلوا بصلاته , فلما كانت الليلة الثانية كثروا , فاطلع إليهم , فقال: " اكلفوا من الاعمال ما تطيقون , فإن الله لا يمل حتى تملوا" وكان احب العمل إليه ادومه , وإن قل , قالت: وكان إذا صلى صلاة اثبتها .حَدَّثَنَا مُعَاذٌ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَتْ لَنَا حَصِيرَةٌ نَبْسُطُهَا بِالنَّهَارِ , وَنَحْتَجِرُهَا بِاللَّيْلِ , فَصَلَّى فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ , فَسَمِعَ الْمُسْلِمُونَ قِرَاءَتَهُ , فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ , فَلَمَّا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الثَّانِيَةُ كَثُرُوا , فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ , فَقَالَ: " اكْلَفُوا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ , فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا" وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ أَدْوَمَهُ , وَإِنْ قَلَّ , قَالَتْ: وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَثْبَتَهَا .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمارے پاس ایک چٹائی تھی جسے دن کو ہم لوگ بچھا لیا کرتے تھے اور رات کے وقت اسی کو اوڑھ لیتے تھے، ایک مرتبہ رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، مسجد والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے اگلے دن لوگوں سے اس کا ذکر کردیا، چنانچہ اگلی رات کو بہت سے لوگ جمع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا اپنے آپ کو اتنے اعمال کا مکلف بناؤ جتنے کی تم طاقت رکھتے ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو نہیں اکتائے گا البتہ تم ضرور اکتا جاؤ گے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کسی وقت نماز شروع کرتے تو اس پر ثابت قدم رہتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ عمل وہ ہوتا تھا جو دائمی ہوتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن لأجل محمد بن عمرو وقد توبع
حدثنا معاذ , قال: حدثنا حميد الطويل , عن عبد الله بن شقيق العقيلي , قال: سالت عائشة ، عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل؟ فقالت:" كان يصلي ليلا طويلا قائما , وليلا طويلا قاعدا , وكان إذا قرا قائما , ركع قائما , وإذا قرا جالسا , ركع جالسا" .حَدَّثَنَا مُعَاذٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ , قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ ، عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ؟ فَقَالَتْ:" كَانَ يُصَلِّي لَيْلًا طَوِيلًا قَائِمًا , وَلَيْلًا طَوِيلًا قَاعِدًا , وَكَانَ إِذَا قَرَأَ قَائِمًا , رَكَعَ قَائِمًا , وَإِذَا قَرَأَ جَالِسًا , رَكَعَ جَالِسًا" .
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نمازوں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ رات کی نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم طویل فرماتے اور کافی دیر تک بیٹھتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر تلاوت اور رکوع و سجود فرماتے تھے اور بیٹھ کر بھی تلاوت اور رکوع و سجود فرماتے تھے۔
حدثنا محمد بن ابي عدي , عن داود , عن الشعبي ، عن مسروق , قال: كنت عند عائشة , قال: قلت اليس الله يقول: ولقد رآه بالافق المبين سورة التكوير آية 23 , ولقد رآه نزلة اخرى سورة النجم آية 13 قالت: انا اول هذه الامة سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عنهما , فقال: " إنما ذاك جبريل" , لم يره في صورته التي خلق عليها إلا مرتين رآه منهبطا من السماء إلى الارض , سادا عظم خلقه ما بين السماء والارض .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ دَاوُدَ , عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ , قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَائِشَةَ , قَالَ: قُلْتُ أَلَيْسَ اللَّهُ يَقُولُ: وَلَقَدْ رَآهُ بِالأُفُقِ الْمُبِينِ سورة التكوير آية 23 , وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى سورة النجم آية 13 قَالَتْ: أَنَا أَوَّلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمَا , فَقَالَ: " إِنَّمَا ذَاكِ جِبْرِيلُ" , لَمْ يَرَهُ فِي صُورَتِهِ الَّتِي خُلِقَ عَلَيْهَا إِلَّا مَرَّتَيْنِ رَآهُ مُنْهَبِطًا مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ , سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ .
مسروق کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا " تحقیق پیغمبر نے اسے آسمان کے کنارے پر واضح طور پر دیکھا ہے " اور یہ کہ " پیغمبر نے اسے ایک اور مرتبہ اترتے ہوئے بھی دیکھا ہے؟ " انہوں نے فرمایا اس کے متعلق سب سے پہلے میں نے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا اور انہوں نے فرمایا تھا کہ اس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں، جنہیں میں نے ان کی اصلی صورت میں صرف دو مرتبہ دیکھا ہے، میں نے ایک مرتبہ انہیں آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا تو ان کی عظیم جسمانی ہیئت نے آسمان و زمین کے درمیان کی فضاء کو پر کیا ہوا تھا۔
حدثنا ابن ابي عدي , عن داود , عن عامر , قال: قالت عائشة : " لو كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كاتما شيئا مما انزل الله عليه , لكتم هذه الآيات على نفسه وإذ تقول للذي انعم الله عليه وانعمت عليه امسك عليك زوجك واتق الله وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس والله احق ان تخشاه سورة الاحزاب آية 37 إلى قوله وكان امر الله مفعولا سورة النساء آية 47" .حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ دَاوُدَ , عَنْ عَامِرٍ , قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : " لَوْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ , لَكَتَمَ هَذِهِ الْآيَاتِ عَلَى نَفْسِهِ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ سورة الأحزاب آية 37 إِلَى قَوْلِهِ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولا سورة النساء آية 47" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی میں سے کوئی آیت چھپانا ہوتی تو یہ آیت " جو ان کی اپنی ذات سے متعلق تھی " چھپاتے " اس وقت کو یاد کیجئے جب آپ اس شخص سے فرما رہے تھے جس پر اللہ نے بھی احسان کیا تھا اور آپ نے بھی احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو اور اللہ سے ڈرو، جبکہ آپ اپنے ذہن میں ایسے وسوسے پوشیدہ رکھے ہوئے تھے جن کا حکم بعد میں اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا اور آپ لوگوں کے طعنوں کا خوف کر رہے تھے۔ حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور اللہ کا حکم پورا ہو کر رہتا ہے "۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع لأن عامرا لم يسمع من عائشة، م: 177
حدثنا محمد بن ابي عدي , عن داود , عن الشعبي , ان عائشة , قالت: " قد فرضت الصلاة ركعتين ركعتين بمكة , فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة زاد مع كل ركعتين ركعتين إلا المغرب , فإنها وتر النهار , وصلاة الفجر , لطول قراءتهما , قال: وكان إذا سافر صلى الصلاة الاولى" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ دَاوُدَ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , أَنَّ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " قَدْ فُرِضَتْ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ بِمَكَّةَ , فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ زَادَ مَعَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ إِلَّا الْمَغْرِبَ , فَإِنَّهَا وِتْرُ النَّهَارِ , وَصَلَاةَ الْفَجْرِ , لِطُولِ قِرَاءَتِهِمَا , قَالَ: وَكَانَ إِذَا سَافَرَ صَلَّى الصَّلَاةَ الْأُولَى" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مکہ مکرمہ میں نماز کی ابتدائی فرضیت دو دو رکعتوں کی صورت میں ہوئی تھی، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے تو حکم الٰہی کے مطابق ہر دو رکعتوں کے ساتھ دو رکعتوں کا اضافہ کردیا، سوائے نماز مغرب کے کہ وہ دن کے وتر ہیں اور نماز فجر کے کہ اس میں قرأت لمبی ہوجاتی ہے، البتہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر جاتے تو ابتدائی طریقے کے مطابق دو دو رکعتیں ہی پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة ، الشعبي لم يسمع من عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمارے پاس ایک پردہ تھا جس پر کسی پرندے کی تصویر بنی ہوئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا عائشہ! اس پردے کو بدل دو، میں جب بھی گھر میں آتا ہوں اور اس پر میری نظر پڑتی ہے تو مجھے دنیا یاد آجاتی ہے، اسی طرح کی ہمارے پاس ایک چادر تھی جس کے متعلق ہم یہ کہتے تھے کہ اس کے نقش و نگار ریشم کے ہیں۔
مسروق کہتے ہیں کہ مجھ سے صدیقہ بنت صدیق، حبیب اللہ علیہ السلام کی چہیتی اور ہر تہمت سے مبرا ہستی نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے، اس لئے میں ان کی تکذیب نہیں کرسکتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد اختلف فيه على مسعر، خ: 593، م: 835
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ کس سے محبت تھی؟ انہوں نے بتایا عائشہ سے کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ مردوں میں سے؟ انہوں نے فرمایا عائشہ کے والد سے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد اختلف فيه على عبدالله
حدثنا عبدة , قال: حدثنا هشام بن عروة , عن رجل ، قال: سالت عائشة ، ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع في بيته؟ قالت: " كان يرقع الثوب , ويخصف النعل , او نحو هذا" .حَدَّثَنَا عَبْدَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ ، مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ فِي بَيْتِهِ؟ قَالَتْ: " كَانَ يُرَقِّعُ الثَّوْبَ , وَيَخْصِفُ النَّعْلَ , أَوْ نَحْوَ هَذَا" .
عروہ کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا جیسے تم میں سے ہر کوئی کرتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتی خود سی لیتے تھے اور کپڑوں پر خود پیوند لگا لیتے تھے۔
حدثنا حدثنا عبدة , قال: حدثنا محمد بن إسحاق , عن فاطمة بنت محمد , عن عمرة , عن عائشة , قالت: " ما علمنا اين يدفن رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى سمعنا صوت المساحي , من آخر الليل ليلة الاربعاء" , قال ابن إسحاق: والمساحي: المرور.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ , عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَمْرَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " مَا عَلِمْنَا أَيْنَ يُدْفَنُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعْنَا صَوْتَ الْمَسَاحِي , مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَيْلَةِ الْأَرْبِعَاءِ" , قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَالْمَسَاحِي: الْمُرُورُ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم عورتوں کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کسی جگہ عمل میں آئے گی، یہاں تک کہ ہم نے منگل کی رات شروع ہونے کے بعد رات کے آخری پہر میں لوگوں کے گزرنے کی آوازیں سنیں۔
حدثنا روح , حدثنا ايمن بن نابل , قال: حدثتني فاطمة بنت ابي ليث , عن ام كلثوم بنت عمرو بن ابي عقرب ، قالت: سمعت عائشة ، تقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " عليكم بالتلبين البغيض النافع , والذي نفسي بيده , إنه يغسل بطن احدكم كما يغسل احدكم وجهه بالماء من الوسخ" , وقالت: كان إذا اشتكى من اهله إنسان , لا تزال البرمة على النار حتى ياتي عليه احد طرفيه , وقال: يعني روح ببغداد , كان إذا اشتكى احد من اهله شيئا لا تزال.حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا أَيْمَنُ بْنُ نَابِلٍ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي لَيْثٍ , عَنْ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَقْرَبٍ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " عَلَيْكُمْ بِالتَّلْبِينِ الْبَغِيضِ النَّافِعِ , وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , إِنَّهُ يَغْسِلُ بَطْنَ أَحَدِكُمْ كَمَا يَغْسِلُ أَحَدُكُمْ وَجْهَهُ بِالْمَاءِ مِنَ الْوَسَخِ" , وَقَالَتْ: كَانَ إِذَا اشْتَكَى مِنْ أَهْلِهِ إِنْسَانٌ , لَا تَزَالُ الْبُرْمَةُ عَلَى النَّارِ حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيْهِ أَحَدُ طَرَفَيْهِ , وَقَالَ: يَعْنِي رَوْحٌ بِبَغْدَادَ , كَانَ إِذَا اشْتَكَى أَحَدٌ مِنْ أَهْلِهِ شَيْئًا لَا تَزَالُ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جاتا کہ فلاں شخص بیمار ہے اور کچھ نہیں کھا رہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ دلیا اختیار کرو جو اگرچہ طبیعت کو اچھا نہیں لگتا لیکن نفع بہت دیتا ہے اور وہ اسے کھلاؤ، اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، یہ تمہارے پیٹ کو اس طرح دھو دیتا ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے چہرہ کو پانی سے دھو کر میل کچیل سے صاف کرلیتا ہے نیز اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کے کوئی بیمار ہوجاتا تو آگ پر ہنڈیا مسلسل چڑھی رہتی، یہاں تک کہ دو میں سے کوئی ایک کام (موت یا صحت مند) ہوجاتا۔
حدثنا روح , قال: ابن جريج ، قال: اخبرني عطاء , انه سمع عبيد بن عمير والضحاك , قال: حدثنا ابن جريج ، عن عطاء , عن عبيد بن عمير , يقول: اخبرتني عائشة انها قالت للعابين: " وددت اني اراهم , قالت فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على الباب , وقمت وراءه انظر فيما بين اذنيه وعاتقه , وهم يلعبون في المسجد" , قال عطاء: فرس او حبش , وقال ابن عمير: هم حبش.حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ , أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ وَالضَّحَّاكُ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ , يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّهَا قَالَتْ لِلَعَّابِينَ: " وَدِدْتُ أَنِّي أَرَاهُمْ , قَالَتْ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْبَابِ , وَقُمْتُ وَرَاءَهُ أَنْظُرُ فِيمَا بَيْنَ أُذُنَيْهِ وَعَاتِقِهِ , وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ" , قَالَ عَطَاءٌ: فُرْسٌ أَوْ حَبَشٌ , وقَالَ ابْنُ عُمَيْرٍ: هُمْ حَبَشٌ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عید کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ حبشی کرتب دکھا رہے تھے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سر رکھ کر انہیں جھانک کر دیکھنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کندھے میرے لئے جھکا دیئے، میں انہیں دیکھتی رہی اور جب دل بھر گیا تو واپس آگئی۔
حدثنا روح , قال: حدثنا ابن جريج , عن بنانة مولاة عبد الرحمن بن حيان الانصاري , عن عائشة ام المؤمنين , قالت: بينا هي عندها إذ دخل عليها بجارية عليها جلاجل يصوتن , فقالت: لا تدخلوها علي إلا ان تقطعوا جلاجلها , فسالتها بنانة عن ذلك؟ فقالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا تدخل الملائكة بيتا فيه جرس , ولا تصحب رفقة فيها جرس" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , عَنْ بُنَانَةَ مَوْلَاةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَيَّانَ الْأَنْصَارِيِّ , عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ , قَالَتْ: بَيْنَا هِيَ عِنْدَهَا إِذْ دُخِلَ عَلَيْهَا بِجَارِيَةٍ عَلَيْهَا جَلَاجِلُ يُصَوِّتْنَ , فَقَالَتْ: لَا تُدْخِلُوهَا عَلَيَّ إِلَّا أَنْ تَقْطَعُوا جَلَاجِلَهَا , فَسَأَلَتْهَا بُنَانَةُ عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ جَرَسٌ , وَلَا تَصْحَبُ رُفْقَةً فِيهَا جَرَسٌ" .
بنانہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر تھیں کہ ان کے یہاں ایک بچی آئی جس کے پاؤں میں گھونگھرو تھے اور ان کی بجنے کی آواز آرہی تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میرے پاس اس بچی کو نہ لاؤ، الاّ یہ کہ اس کے گھنگھرو اتار دو، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، بنانہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں گھنٹیاں ہوں اور ایسے قافلے کے ساتھ بھی فرشتے نہیں جاتے جس میں گھنٹیاں ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتدليس ابن جريج ولجهالة بنانة
حدثنا روح , قال: حدثنا مالك , عن ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله , عن ابي سلمة ، عن عائشة , انها قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول لا يفطر , ويفطر حتى نقول لا يصوم , وما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر قط إلا رمضان , وما رايته في شهر قط اكثر صياما منه في شعبان" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ , عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ لَا يُفْطِرُ , وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ لَا يَصُومُ , وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ , وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ قَطُّ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے روزے رکھتے تھے کہ ہم کہتے تھے اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے ہی رکھتے رہیں گے اور بعض اوقات اتنے ناغے کرتے کہ ہم کہتے تھے اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناغے ہی کرتے رہیں گے اور میں نے جس کثرت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان میں روزے رکھتے ہوئے دیکھا ہے، کسی مہینے میں نہیں دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے صرف چند دن کو چھوڑ کر تقریباً پورا مہینہ ہی روزہ رکھتے تھے۔
حدثنا روح , قال: حدثنا شعبة , عن ابي بكر عاصم مولى لقريبة بنت محمد بن ابي بكر , عن قريبة , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الوصال في الصوم , فقلت له: إنك تواصل؟ قال: " انا لست كاحد منكم , إني ابيت اطعم واسقى" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي بَكْرٍ عَاصِمٍ مَوْلًى لِقُرَيْبَةَ بِنْتِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ , عَنْ قُرَيْبَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْوِصَالِ فِي الصَّوْمِ , فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّكَ تُوَاصِلُ؟ قَالَ: " أَنَا لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ , إِنِّي أَبِيتُ أُطْعَمُ وَأُسْقَى" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال سے منع فرمایا ہے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ تو اسی طرح روزے رکھتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں، میں تو اس حال میں رات گذارتا ہوں کہ مجھے کھلا پلا دیا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف الجهالة قريبة وعاصم
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وباء، حنتم، نقیر اور مزفت میں نبیذ نہ بنایا کرو، کشمش اور کجھور کو ملا کر یا کچی اور پکی کجھور کو ملا کر نبیذ نہ بنایا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: "ولا تنتبذوا الزبيب ..." فصحيح لغيره وهذا اسناد ضعيف لجهالة ثمامة بن كلاب
حدثنا روح , قال: حدثنا ابن جريج , قال: اخبرني زياد , ان ابا نهيك اخبره , ان ابا الدرداء كان يخطب الناس ان لا وتر لمن ادرك الصبح , فانطلق رجال من المؤمنين إلى عائشة , فاخبروها , فقالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبح , فيوتر" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي زِيَادٌ , أَنَّ أَبَا نَهِيكٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ كَانَ يَخْطُبُ النَّاسَ أَنْ لَا وَتْرَ لِمَنْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ , فَانْطَلَقَ رِجَالٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى عَائِشَةَ , فَأَخْبَرُوهَا , فَقَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْبِحُ , فَيُوتِرُ" .
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ لوگوں سے تقریر کے دوران فرمایا کرتے تھے کہ جس شخص کو صبح کا وقت ہوجائے اور اس نے وتر نہ پڑھے ہوں تو اب اس کے وتر نہیں ہوں گے، کچھ لوگوں نے یہ بات جا کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو بعض اوقات صبح ہونے پر بھی وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن من أجل أبى نهيك إن ثبت سماعه من عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات اپنے کپڑوں سے مادہ منویہ کو " اذخر " گھاس کے عرق سے دھو لیا کرتے تھے اور پھر انہی کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے تھے اور اگر وہ مادہ خشک ہوگیا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے کھرچ دیتے تھے اور پھر انہی کپڑوں میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قولها: "بعرق الإذخر" وهذا إسناد فيه عبدالله بن عبيد بن عمير لم يسمع من عائشة
حدثنا روح , قال: محمد بن ابي حفصة ، عن ابن شهاب , عن ابن حزم , عن عروة , عن عائشة , قالت: دخلت علي امراة معها ابنتان لها , فاطعمتها تمرة , فشقتها بينهما , ولم تاكل منها شيئا فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت له ذلك , فقال: " من ابتلي من البنات بشيء , فاحسن صحبتهن , كن له سترا من النار" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , عَنِ ابْنِ حَزْمٍ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا , فَأَطْعَمْتُهَا تَمْرَةً , فَشَقَّتْهَا بَيْنَهُمَا , وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا شَيْئًا فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ لَهُ ذَلِكَ , فَقَالَ: " مَنْ ابْتُلِيَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَيْءٍ , فَأَحْسَنَ صُحْبَتَهُنَّ , كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک عورت ان کے پاس آئی، اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں، انہوں نے اس عورت کو ایک کجھور دی، اس نے کجھور کے دو ٹکڑے کر کے ان دونوں بچیوں میں اسے تقسیم کردیا (اور خود کچھ نہ کھایا) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعے کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کی ان بچیوں سے آزمائش کی جائے اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو یہ اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، محمد بن أبى حفصة فيه ضعف ولكن توبع
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن سليمان , قال: سمعت خيثمة يحدث، عن ابي عطية ، عن عائشة , انها قالت: إني لاعلم كيف كانت تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم سمعتها لبت " لبيك اللهم لبيك , لبيك لا شريك لك لبيك , إن الحمد والنعمة لك" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ سُلَيْمَانَ , قَالَ: سَمِعْتُ خَيْثَمَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ ، عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: إِنِّي لَأَعْلَمُ كَيْفَ كَانَتْ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ سَمِعْتُهَا لَبَّتْ " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ , لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ , إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سب سے زیادہ جانتی ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح تلبیہ کہتے تھے، پھر انہوں نے تلبیہ کے یہ الفاظ دہرائے " لَبَّتْ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ "
حدثنا روح , حدثنا شعبة , قال: حدثنا سليمان , عن خيثمة , عن ابي عطية ، قال: سمعت عائشة ، تقول: إني لاعلم كيف كانت تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: ثم سمعتها تلبي بعد ذلك " لبيك اللهم لبيك , لبيك لا شريك لك لبيك , إن الحمد والنعمة لك" , قال ابي: ابو عطية اسمه مالك بن حمزة.حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ , عَنْ خَيْثَمَةَ , عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: إِنِّي لَأَعْلَمُ كَيْفَ كَانَتْ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: ثُمَّ سَمِعْتُهَا تُلَبِّي بَعْدَ ذَلِكَ " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ , لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ , إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ" , قَالَ أَبِي: أَبُو عَطِيَّةَ اسْمُهُ مَالِكُ بْنُ حَمْزَةَ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سب سے زیادہ جانتی ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح تلبیہ کہتے تھے، پھر انہوں نے تلبیہ کے یہ الفاظ دہرائے " لَبَّتْ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ "
حدثنا روح , قال: حدثنا صالح بن ابي الاخضر , قال: اخبرنا ابن شهاب , ان عروة اخبره , ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج والعمرة في حجة الوداع , وساق معه الهدي , واهل ناس معه بالعمرة وساقوا الهدي , واهل ناس بالعمرة ولم يسوقوا هديا , قالت عائشة: فكنت ممن اهل بالعمرة ولم اسق هديا , فلما قدم النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من كان منكم اهل بالعمرة فساق معه الهدي , فليطف بالبيت وبالصفا والمروة , ولا يحل منه شيء حرم منه حتى يقضي حجه وينحر هديه يوم النحر , ومن كان منكم اهل بالعمرة ولم يسق معه هديا , فليطف بالبيت وبالصفا والمروة , ثم ليفض وليحل , ثم ليهل بالحج وليهد , فمن لم يجد فصيام ثلاثة ايام في الحج وسبعة إذا رجع إلى اهله" , قالت عائشة: فقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم الحج الذي خاف فوته , واخر العمرة .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ , قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ , أَنَّ عُرْوَةَ أَخْبَرَهُ , أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ , وَسَاقَ مَعَهُ الْهَدْيَ , وَأَهَلَّ نَاسٌ مَعَهُ بِالْعُمْرَةِ وَسَاقُوا الْهَدْيَ , وَأَهَلَّ نَاسٌ بِالْعُمْرَةِ وَلَمْ يَسُوقُوا هَدْيًا , قَالَتْ عَائِشَةُ: فَكُنْتُ مِمَّنْ أَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ وَلَمْ أَسُقْ هَدْيًا , فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ كَانَ مِنْكُمْ أَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ فَسَاقَ مَعَهُ الْهَدْيَ , فَلْيَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ , وَلَا يَحِلُّ مِنْهُ شَيْءٌ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَجَّهُ وَيَنْحَرَ هَدْيَهُ يَوْمَ النَّحْرِ , وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ أَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ وَلَمْ يَسُقْ مَعَهُ هَدْيًا , فَلْيَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ , ثُمَّ لِيُفِضْ وَلْيَحِلَّ , ثُمَّ لِيُهِلَّ بِالْحَجِّ وَلْيُهْدِ , فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ" , قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجَّ الَّذِي خَافَ فَوْتَهُ , وَأَخَّرَ الْعُمْرَةَ .
ام المو منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا اور اپنے ساتھ ہدی کا جانور لے گئے تھے، جبکہ کچھ لوگوں نے عمرے کا احرام باندھا اور ہدی ساتھ لے گئے اور کچھ لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا لیکن ہدی ساتھ نہیں لے کر گئے، میں اس آخری قسم کے لوگوں میں شامل تھی، مکہ مکرمہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو شخص عمرے کا احرام باندھ کر ہدی ساتھ لایا ہے، اسے چاہیے کہ بیت اللہ کا طواف اور صفاء مروہ کی سعی کرلے اور دس ذی الحجہ کو قربانی کرنے اور حج مکمل ہونے تک اپنے اوپر کوئی چیز محرمات میں سے حلال نہ سمجھے اور جو ہدی نہیں لایا وہ طواف اور سعی کر کے حلال ہوجائے، بعد میں حج کا احرام باندھ کر ہدی لے جائے، جس شخص کو قربانی کا جانور نہ ملے، وہ حج کے ایام میں تین اور گھر واپس آنے کے بعد سات روزے رکھ لے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج کو " جس کے فوت ہونے کا اندیشہ تھا " مقدم کر کے عمرے کو مؤخر کردیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قول عائشة: "فقدم رسول الله ﷺ..." صالح بن أبى الأخضر ضعيف ولكن توبع
حدثنا روح , قال: حدثنا ابو عامر الخزاز ، عن عبد الله بن ابي مليكة , عن عائشة , قالت: دخل علي لتسع وعشرين , فقلت: إني ما خفيت علي منهن ليلة , إنما مضت تسع وعشرون ليلة , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عائشة , إن الشهر تسع وعشرون" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْخَزَّازُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ , فَقُلْتُ: إِنِّي مَا خَفِيَتْ عَلَيَّ مِنْهُنَّ لَيْلَةٌ , إِنَّمَا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَائِشَةُ , إِنَّ الشَّهْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ" .
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھالی کہ ایک ماہ تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہیں جائیں گے، ٢٩ دن گذرنے کے بعد سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ میری شمار کے مطابق تو آج ٢٩ دن ہوئے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہینہ بعض اوقات ٩ ٢ کا بھی ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على ابن أبى مليكة
حدثنا روح , حدثنا ابن جريج , قال: اخبرني عبد الله بن ابي مليكة , عن رجل من بني تميم لا نكذبه , قال: اخبرت عائشة، ان ابن عمر يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الشهر تسع وعشرون" , فانكرت عائشة , وقالت: يغفر الله لابي عبد الرحمن , ليس كذلك قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ولكنه قال: " الشهر يكون تسعا وعشرين" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ لَا نُكَذِّبُهُ , قَالَ: أَخْبَرْتُ عَائِشَةَ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ" , فَأَنْكَرَتْ عَائِشَةُ , وَقَالَتْ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , لَيْسَ كَذَلِكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنَّهُ قَالَ: " الشَّهْرُ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ" .
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ مہینہ ٢٩ کا ہوتا ہے، انہوں نے اس پر نکیر کرتے ہوئے فرمایا کہ عبدالرحمن کی اللہ بخشش فرمائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا، انہوں نے تو یہ فرمایا تھا کہ مہینہ بعض اوقات ٢٩ کا ہوتا ہے۔
حدثنا روح , قال: حدثنا محمد بن ابي حفصة , قال: حدثنا ابن شهاب , عن عروة , عن عائشة , قالت: كانوا يصومون يوم عاشوراء قبل ان يفرض رمضان , وكان يوم فيه تستر الكعبة , فلما فرض الله عز وجل رمضان , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من شاء ان يصومه فليصمه , ومن شاء ان يتركه فليتركه" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانُوا يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ , وَكَانَ يَوْمٌ فِيهِ تُسْتَرُ الْكَعْبَةُ , فَلَمَّا فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رَمَضَانَ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ , وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتْرُكَهُ فَلْيَتْرُكْهُ" .
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ دور جاہلیت میں قریش کے لوگ دس محرم کا روزہ رکھتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے، مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ روزہ رکھتے رہے اور صحابہ رضی اللہ عنہ کو یہ روزہ رکھنے کا حکم دیتے رہے، پھر جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان ہی کے روزے رکھنے لگے اور عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا، اب جو چاہے وہ روزہ رکھ لے اور جو چاہے نہ رکھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، محمد بن أبى حفصة ضعيف يعتبر به وقد توبع هنا، خ: 1592
حدثنا روح , قال: اخبرني عطاء , عن ابي صالح الزيات ، انه سمع ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان يوم صوم احدكم , فلا يرفث يومئذ , ولا يصخب , فإن سابه احد او قاتله احد , فليقل إني امرؤ صائم" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ الزَّيَّاتِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ , فَلَا يَرْفُثْ يَوْمَئِذٍ , وَلَا يَصْخَبْ , فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ أَحَدٌ , فَلْيَقُلْ إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ" .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص روزے سے ہو تو اس دن بیہودہ گوئی اور شورو غل نہ کرے، اگر کوئی شخص اسے گالی دینا یا لڑنا چاہے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔
حدثنا روح , قال: حدثنا شعبة , قال: سمعت قتادة , قال: سمعت مطرف بن عبد الله , عن عائشة , قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في ركوعه: " سبوح قدوس , رب الملائكة والروح" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: " سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ , رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی رکوع و سجود میں یہ پڑھتے تھے " سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ "
حدثنا روح , قال: حدثنا شعبة , قال: حدثنا مالك بن عرفطة , قال ابي: وإنما هو خالد بن علقمة , قال: سمعت عبد خير يحدث , عن عائشة , عن النبي صلى الله عليه وسلم انه" نهى عن الدباء والحنتم والمزفت" , قال ابو عبد الرحمن: قال ابي: إنما هو خالد بن علقمة الهمداني , وهم شعبة.حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ عُرْفُطَةَ , قَالَ أَبِي: وَإِنَّمَا هُوَ خَالِدُ بْنُ عَلْقَمَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ خَيْرٍ يُحَدِّثُ , عَنْ عَائِشَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ" نَهَى عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قَالَ أَبِي: إِنَّمَا هُوَ خَالِدُ بْنُ عَلْقَمَةَ الْهَمْدَانِيُّ , وَهِمَ شُعْبَةُ.
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وباء حنتم اور مزفت نامی برتنوں کو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حدثنا روح , قال: حدثنا هشام , عن شميسة انها كانت عند عائشة , فقام إليها إنسان , فقال: يا ام المؤمنين ما تقولين في نبيذ الجر؟ فقالت:" نهى نبي الله صلى الله عليه وسلم عن نبيذ الجر" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنِ شُمَيْسَةَ أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ , فَقَامَ إِلَيْهَا إِنْسَانٌ , فَقَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ مَا تَقُولِينَ فِي نَبِيذِ الْجَرِّ؟ فَقَالَتْ:" نَهَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نیند سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة شميسة ولكن توبعت
حدثنا روح , حدثنا صالح بن ابي الاخضر , قال: حدثنا ابن شهاب , عن عروة , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يتعوذ في صلاته من المغرم والماثم , فقال قائل: يا رسول الله ما اكثر ما تعوذ من المغرم؟ فقال: " إن الرجل إذا غرم , حدث فكذب , ووعد فاخلف" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَعَوَّذُ فِي صَلَاتِهِ مِنَ الْمَغْرَمِ وَالْمَأْثَمِ , فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَكْثَرَ مَا تَعَوَّذُ مِنَ الْمَغْرَمِ؟ فَقَالَ: " إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ , حَدَّثَ فَكَذَبَ , وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا مانگتے تھے، اے اللہ! میں گناہوں اور تاوان سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، ایک مرتبہ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ اتنی کثرت سے تاوان سے پناہ کیوں مانگتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان پر جب تاوان آتا ہے (اور وہ مقروض ہوتا ہے) تو بات کرتے ہوئے جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، صالح بن أبى الأخضر ضعيف ولكن توبع
حدثنا روح , حدثنا هشام بن ابي عبد الله , عن يحيى بن ابي كثير , عن ابي سلمة , ان عائشة حدثته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " خذوا من العمل ما تطيقون , فإن الله عز وجل لا يمل حتى تملوا" , وكان احب الصلاة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما داوم عليها وإن قلت , وكان إذا صلى صلاة داوم عليها .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خُذُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ , فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا" , وَكَانَ أَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا دَاوَمَ عَلَيْهَا وَإِنْ قَلَّتْ , وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً دَاوَمَ عَلَيْهَا .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سال کے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے، کہ وہ تقریباً شعبان کا پورا مہینہ ہی روزہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ اتنا عمل کیا کرو جتنے کی تم میں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تو نہیں اکتائے گا، البتہ تم ضرور اکتا جاؤگے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نماز وہ ہوتی تھی جس پر دوام ہوسکے اگرچہ اس کی مقدار تھوڑی ہی ہو اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو اسے ہمیشہ پڑھتے تھے۔
حدثنا روح , قال: حدثنا هشام , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت:" والله لقد كان ياتي على آل محمد شهر ما نختبز فيه" , قال: فقلت: يا ام المؤمنين , فما كان ياكل رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: " كان لنا جيران من الانصار , جزاهم الله خيرا , كان لهم شيء من لبن يهدون منه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ يَأْتِي عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ شَهْرٌ مَا نَخْتَبِزُ فِيهِ" , قَالَ: فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , فَمَا كَانَ يَأْكُلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: " كَانَ لَنَا جِيرَانٌ مِنَ الْأَنْصَارِ , جَزَاهُمْ اللَّهُ خَيْرًا , كَانَ لَهُمْ شَيْءٌ مِنْ لَبَنٍ يُهْدُونَ مِنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ واللہ آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض اوقات ایک ایک مہینہ اس طرح گذر جاتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی گھر میں آگ نہیں جلتی تھی، الاّ یہ کہ کہیں سے تھوڑا بہت گوشت آجائے اور ہمارے گذارے کے لئے صرف دوہی چیزیں ہوتی تھیں یعنی پانی اور کجھور، البتہ ہمارے آس پاس انصار کے کچھ گھرانے آباد تھے، اللہ انہیں جزائے خیر دے، کہ وہ روزانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی بکری کا دودھ بھیج دیا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نوش فرمالیا کرتے تھے۔
حدثنا روح , حدثنا ابن جريج , اخبرني عمر بن عبد الله بن عروة , انه سمع عروة والقاسم يخبران , عن عائشة ، قالت: " طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدي بذريرة لحجة الوداع للحل والإحرام حين احرم , وحين رمى جمرة العقبة يوم النحر قبل ان يطوف بالبيت" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ , أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ وَالْقَاسِمَ يُخْبِرَانِ , عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ بِذَرِيرَةٍ لِحَجَّةِ الْوَدَاعِ لِلْحِلِّ وَالْإِحْرَامِ حِينَ أَحْرَمَ , وَحِينَ رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر میں اپنے دونوں ہاتھوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام پر " ذریرہ " خوشبو لگائی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھتے تھے اور طوافِ زیارت سے قبل حلال ہونے کے بعد بھی خوشبو لگائی ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام پر عمدہ سے عمدہ خوشبو لگائی ہے جو میرے پاس دستیاب ہوتی تھی۔
حدثنا روح , حدثنا شعبة , قال: اخبرنا الحكم ، وحماد ، ومنصور ، وسليمان ، عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , انها قالت: " كانما انظر إلى وبيص الطيب في مفرق رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو محرم" , قال سليمان: في شعر , وقال منصور: في اصول شعره , وقال الحكم وحماد في مفرق .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ ، وَحَمَّادٍ ، وَمَنْصُورٍ ، وَسُلَيْمَانَ ، عَنِ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: " كَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الطِّيبِ فِي مَفْرِقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ" , قَالَ سُلَيْمَانُ: فِي شَعْرِ , وَقَالَ مَنْصُورٌ: فِي أُصُولِ شَعْرِهِ , وَقَالَ الْحَكَمُ وَحَمَّادٌ فِي مَفْرِقِ .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ (میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور) گویا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ میں حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ (میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور) گویا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ میں حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
حدثنا روح , حدثنا سعيد , عن قتادة , عن عبد ربه , عن ابي عياض ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام , ان مروان بن الحكم بعثه إلى ام سلمة وعائشة , فقال: اتيت غلام ام سلمة نافعا , فارسلته إليها , فرجع إلي فاخبرني ان ام سلمة , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبح جنبا من غير احتلام , ثم يصبح صائما" , قال: ثم لقي غلام عائشة، ذكوان ابا عمرو , فبعثه إليها , فسالها عن ذلك , فاخبرته، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم" كان يصبح جنبا من غير احتلام , ثم يصبح صائما" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا سَعِيدٌ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ , عَنْ أَبِي عِيَاضٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ , أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ بَعَثَهُ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَعَائِشَةَ , فَقَالَ: أَتَيْتُ غُلَامَ أُمِّ سَلَمَةَ نَافِعًا , فَأَرْسَلْتُهُ إِلَيْهَا , فَرَجَعَ إِلَيَّ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَيْرِ احْتِلَامٍ , ثُمَّ يُصْبِحُ صَائِمًا" , قَالَ: ثُمَّ لَقِيَ غُلَامَ عَائِشَةَ، ذَكْوَانَ أَبَا عَمْرٍو , فَبَعَثَهُ إِلَيْهَا , فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ , فَأَخْبَرَتْهُ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَيْرِ احْتِلَامٍ , ثُمَّ يُصْبِحُ صَائِمًا" .
عبد الرحمن بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مروان بن حکم نے ایک آدمی کے ساتھ مجھے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ اگر کوئی آدمی رمضان کے مہینے میں اس حال میں صبح کرے کہ وہ جنبی ہو اور اس نے اب تک غسل نہ کیا ہو تو کیا حکم ہے؟ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت اختیاری طور پر حالت جنابت میں ہوتے، پھر غسل کرلیتے اور بقیہ دن کا روزہ مکمل کرلیتے تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھے بغیر اختیاری طور پر صبح کے وقت حالت جنابت میں ہوتے اور اپنا روزہ مکمل کرلیتے تھے۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا اسناد ضعيف لجهالة عبد ربه
حدثنا روح , قال: حدثني مالك , عن عبيد الله بن عبد الرحمن بن معمر الانصاري , عن ابي يونس مولى عائشة , عن عائشة ، ان رجلا قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم وهو واقف على الباب: يا رسول الله إني اصبح جنبا وانا اريد الصيام , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وانا اصبح جنبا وانا اريد الصيام , ثم اغتسل فاصوم" , قال الرجل: إنك لست مثلنا , إنك قد غفر لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر , فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال:" والله , إني لارجو ان اكون اخشاكم لله , واعلم بما اتقي" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ الْأَنْصَارِيِّ , عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى الْبَابِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُصْبِحُ جُنُبًا وَأَنَا أُرِيدُ الصِّيَامَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَأَنَا أُصْبِحُ جُنُبًا وَأَنَا أُرِيدُ الصِّيَامَ , ثُمَّ أَغْتَسِلُ فَأَصُومُ" , قَالَ الرَّجُلُ: إِنَّكَ لَسْتَ مِثْلَنَا , إِنَّكَ قَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ , فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" وَاللَّهِ , إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَخْشَاكُمْ لِلَّهِ , وَأَعْلَمَ بِمَا أَتَّقِي" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! اگر نماز کا وقت آجائے، مجھ پر غسل واجب ہو اور میں روزہ بھی رکھنا چاہتا ہوں تو کیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے ساتھ ایسی کیفیت پیش آجائے تو میں غسل کر کے روزہ رکھ لیتا ہوں، وہ کہنے لگا، ہم آپ کی طرح نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرما دیئے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے اور غصے کے آثار چہرہ مبارک پر نظر آنے لگے اور فرمایا واللہ مجھے امید ہے کہ تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کے متعلق جاننے والا میں ہی ہوں۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ مسجد سے چٹائی اٹھا کر مجھے دینا، میں نے عرض کیا کہ میں تو ایام سے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔
حدثنا روح , حدثنا صالح بن رستم , عن ابن ابي مليكة , قال: قالت عائشة دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم وانا بسرف وانا ابكي , فقال: " ما يبكيك يا عائشة؟" فقالت: قلت: يرجع الناس بنسكين , وانا ارجع بنسك واحد! قال:" ولم ذاك؟" قالت: قلت: إني حضت , قال:" ذاك شيء كتبه الله على بنات آدم , اصنعي ما يصنع الحاج" , قالت: فقدمنا مكة , ثم ارتحلنا إلى منى , ثم ارتحلنا إلى عرفة , ثم وقفنا مع الناس , ثم وقفت بجمع , ثم رميت الجمرة يوم النحر , ثم رميت الجمار مع الناس تلك الايام , قالت: ثم ارتحل حتى نزل الحصبة , قالت: والله ما نزلها إلا من اجلي , او قال ابن ابي مليكة عنها إلا من اجلها , ثم ارسل إلى عبد الرحمن , فقال:" احملها خلفك حتى تخرجها من الحرم" , فوالله ما قال: فتخرجها إلى الجعرانة , ولا إلى التنعيم , فلتهل بعمرة , قالت: فانطلقنا , وكان ادنى إلى الحرم التنعيم , فاهللت منه بعمرة , ثم اقبلت فاتيت البيت , فطفت به , وطفت بين الصفا، والمروة , ثم اتيته فارتحل , قال ابن ابي مليكة وكانت عائشة تفعل ذلك بعد .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ رُسْتُمَ , عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ دَخَلَ عَلَيّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِسَرِفَ وَأَنَا أَبْكِي , فَقَالَ: " مَا يُبْكِيكِ يَا عَائِشَةُ؟" فَقَالَتْ: قُلْتُ: يَرْجِعُ النَّاسُ بِنُسُكَيْنِ , وَأَنَا أَرْجِعُ بِنُسُكٍ وَاحِدٍ! قَالَ:" وَلِمَ ذَاكَ؟" قَالَتْ: قُلْتُ: إِنِّي حِضْتُ , قَالَ:" ذَاكَ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ , اصْنَعِي مَا يَصْنَعُ الْحَاجُّ" , قَالَتْ: فَقَدِمْنَا مَكَّةَ , ثُمَّ ارْتَحَلْنَا إِلَى مِنًى , ثُمَّ ارْتَحَلْنَا إِلَى عَرَفَةَ , ثُمَّ وَقَفْنَا مَعَ النَّاسِ , ثُمَّ وَقَفْتُ بِجَمْعٍ , ثُمَّ رَمَيْتُ الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ , ثُمَّ رَمَيْتُ الْجِمَارَ مَعَ النَّاسِ تِلْكَ الْأَيَّامَ , قَالَتْ: ثُمَّ ارْتَحَلَ حَتَّى نَزَلَ الْحَصْبَةَ , قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا نَزَلَهَا إِلَّا مِنْ أَجْلِي , أَوْ قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْهَا إِلَّا مِنْ أَجْلِهَا , ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ , فَقَالَ:" احْمِلْهَا خَلْفَكَ حَتَّى تُخْرِجَهَا مِنَ الْحَرَمِ" , فَوَاللَّهِ مَا قَالَ: فَتُخْرِجُهَا إِلَى الْجِعِرَّانَةِ , وَلَا إِلَى التَّنْعِيمِ , فَلْتُهِلَّ بِعُمْرَةٍ , قَالَتْ: فَانْطَلَقْنَا , وَكَانَ أَدْنَى إِلَى الْحَرَمِ التَّنْعِيمُ , فَأَهْلَلْتُ مِنْهُ بِعُمْرَةٍ , ثُمَّ أَقْبَلْتُ فَأَتَيْتُ الْبَيْتَ , فَطُفْتُ بِهِ , وَطُفْتُ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ , ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَارْتَحَلَ , قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَفْعَلُ ذَلِكَ بَعْدُ .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم نے حج کا تلبیہ پڑھا، جب سرف کے مقام پر پہنچے تو میرے " ایام " شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں رو رہی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میرے " ایام " شروع ہوگئے ہیں، کاش! میں حج ہی نہ کرنے آتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! یہ تو وہ چیز ہے جو اللہ نے آدم علیہ السلام کی ساری بیٹیوں پر لکھ دی ہے، تم سارے مناسک ادا کرو، البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا، جب ہم مکہ مکرمہ میں داخل ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے احرام کو عمرے کا احرام بنانا چاہے، وہ ایسا کرسکتا ہے، الاّ یہ کہ اس کے پاس ہدی کا جانور ہو۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذی الحجہ کوا پنی ازواج کی طرف سے گائے ذبح کی تھی، شب بطحاء کو میں " پاک " ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میری سہلیاں حج اور عمرہ دونوں کے ساتھ واپس جائیں اور میں صرف حج کے ساتھ واپس جاؤں گی؟ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو حکم دیا اور وہ مجھے تنعیم لے گئے جہاں سے میں نے عمرے کا احرام باندھا۔
حدثنا روح , قال: حدثنا ابن ابي ذئب , عن ابن شهاب , عن عروة , عن عائشة , قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع , فنزلنا الشجرة , فقال: " من شاء فليهل بعمرة ومن شاء فليهل بحجة" , قالت عائشة: فاهل منهم بعمرة , واهل منهم بحجة , قالت: وكنت انا ممن اهل بعمرة , فادركني يوم عرفة وانا حائض , فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم" انقضي راسك , وامتشطي , وذري عمرتك واهلي بالحج" , فلما كان ليلة الحصبة , امرني , فاعتمرت مكان عمرتي التي تركت .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ , عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ , فَنَزَلْنَا الشَّجَرَةَ , فَقَالَ: " مَنْ شَاءَ فَلْيُهِلَّ بِعُمْرَةٍ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُهِلَّ بِحَجَّةٍ" , قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَهَلَّ مِنْهُمْ بِعُمْرَةٍ , وَأَهَلَّ مِنْهُمْ بِحَجَّةٍ , قَالَتْ: وَكُنْتُ أَنَا مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ , فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ وَأَنَا حَائِضٌ , فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" انْقُضِي رَأْسَكِ , وَامْتَشِطِي , وَذَرِي عُمْرَتَكِ وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ" , فَلَمَّا كَانَ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ , أَمَرَنِي , فَاعْتَمَرْتُ مَكَانَ عُمْرَتِي الَّتِي تَرَكْتُ .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، میں نے عمرے کا احرام باندھ لیا، میرے ساتھ ہدی کا جانور نہیں تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا کہ جس کے ساتھ ہدی کے جانور ہوں تو وہ اپنے عمرے کے ساتھ حج کا احرام بھی باندھ لے اور دونوں کا احرام اکٹھا ہی کھولے، میں ایام سے تھی، شب عرفہ کو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے عمرے کا احرام باندھا تھا، اب حج میں کیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سر کے بال کھول کر کنگھی کرلو، عمرہ چھوڑ کر حج کرلو، جب میں نے حج مکمل کرلیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن کو حکم دیا تو اس نے مجھے پہلے عمرے کی جگہ تنعیم سے عمرہ کروا دیا۔
حدثنا روح , حدثنا كهمس , عن عبد الله بن شقيق , قال: سالت عائشة اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم شهرا كله؟ قالت: " ما علمته صام شهرا كله حتى يفطر منه إلا رمضان , ولا افطر شهرا كله حتى يصوم منه حتى مضى لوجهه , او لسبيله صلى الله عليه وسلم" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ , قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرًا كُلَّهُ؟ قَالَتْ: " مَا عَلِمْتُهُ صَامَ شَهْرًا كُلَّهُ حَتَّى يُفْطِرَ مِنْهُ إِلَّا رَمَضَانَ , وَلَا أَفْطَرَ شَهْرًا كُلَّهُ حَتَّى يَصُومَ مِنْهُ حَتَّى مَضَى لِوَجْهِهِ , أَوْ لِسَبِيلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" .
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفلی روزوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ رمضان کے علاوہ مجھے کوئی ایسا مہینہ معلوم نہیں ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا ہو، ناغہ کیا ہو تو روزہ نہ رکھا ہو، تاآنکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوگئے۔
حدثنا روح , حدثنا سعيد , عن قتادة , عن ابي حسان الاعرج , ان رجلين دخلا على عائشة , فقالا: إن ابا هريرة يحدث، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يقول:" إنما الطيرة في المراة والدابة والدار" , قال: فطارت شقة منها في السماء , وشقة في الارض , فقالت: والذي انزل القرآن على ابي القاسم ما هكذا كان يقول , ولكن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: " كان اهل الجاهلية يقولون: الطيرة في المراة والدار والدابة" , ثم قرات عائشة ما اصاب من مصيبة في الارض ولا في انفسكم إلا في كتاب سورة الحديد آية 22 إلى آخر الآية .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا سَعِيدٌ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ , أَنَّ رَجُلَيْنِ دَخَلَا عَلَى عَائِشَةَ , فَقَالَا: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" إِنَّمَا الطِّيَرَةُ فِي الْمَرْأَةِ وَالدَّابَّةِ وَالدَّارِ" , قَالَ: فَطَارَتْ شِقَّةٌ مِنْهَا فِي السَّمَاءِ , وَشِقَّةٌ فِي الْأَرْضِ , فَقَالَتْ: وَالَّذِي أَنْزَلَ الْقُرْآنَ عَلَى أَبِي الْقَاسِمِ مَا هَكَذَا كَانَ يَقُولُ , وَلَكِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: " كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ: الطِّيَرَةُ فِي الْمَرْأَةِ وَالدَّارِ وَالدَّابَّةِ" , ثُمَّ قَرَأَتْ عَائِشَةُ مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الأَرْضِ وَلا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلا فِي كِتَابٍ سورة الحديد آية 22 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ .
ابو حسان کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نحوست عورت، گھر اور سواری کے جانور میں ہوتی ہے تو وہ سخت غصے میں آئیں، پھر اس آدمی نے کہا کہ اس کا ایک حصہ آسمان کی طرف اڑ جاتا ہے اور ایک حصہ زمین پر رہ جاتا ہے، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اس سے تو اہل جاہلیت بد شگونی لیا کرتے تھے (اسلام نے ایسی چیزوں کو بےاصل قرار دیا ہے)
حدثنا روح , قال: حدثنا هشام بن ابي عبد الله , عن بديل , عن عبد الله بن عبيد بن عمير الليثي , عن امراة منهم يقال لها: ام كلثوم , عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ياكل في ستة من اصحابه , فجاء اعرابي جائع فاكل بلقمتين , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اما إنه لو ذكر اسم الله لكفاكم , فإذا اكل احدكم فليذكر اسم الله , فإن نسي ان يسمي الله في اوله , فليقل بسم الله في اوله وآخره" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ بُدَيْلٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ , عَنِ امْرَأَةٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهَا: أُمُّ كُلْثُومٍ , عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْكُلُ فِي سِتَّةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ , فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ جَائِعٌ فَأَكَلَ بِلُقْمَتَيْنِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا إِنَّهُ لَوْ ذَكَرَ اسْمَ اللَّهِ لَكَفَاكُمْ , فَإِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ , فَإِنْ نَسِيَ أَنْ يُسَمِّيَ اللَّهَ فِي أَوَّلِهِ , فَلْيَقُلْ بِسْمِ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ وَآخِرِهِ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چھ صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ ایک دیہاتی آیا اور دو لقموں میں ہی سارا کھانا کھا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بسم اللہ پرھ لیتا تو یہ کھانا تم سب کو کفایت کرجاتا، اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اسے اس پر بسم اللہ پڑھ لینی چاہیے، اگر وہ شروع میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو یاد آنے پر یہ پڑھ لیا کرے " بِسْمِ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ وَآخِرِهِ "
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال أم كلثوم
حدثنا روح , حدثنا مالك بن انس , عن نافع , عن القاسم بن محمد , عن عائشة , انها اخبرته انها اشترت نمرقة فيها تصاوير , فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم , قام على الباب , فلم يدخل , فعرفت في وجهه الكراهية , فقلت: يا رسول الله , اتوب إلى الله وإلى رسوله , ما اذنبت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما بال هذه النمرقة؟" فقلت: اشتريتها لتقعد عليها ولتوسدها , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن اصحاب هذه الصور يعذبون بها , يقال لهم احيوا ما خلقتم" , وقال:" إن البيت الذي فيه الصورة لا تدخله الملائكة" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , عَنْ نَافِعٍ , عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا اشْتَرَتْ نُمْرُقَةً فِيهَا تَصَاوِيرُ , فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَامَ عَلَى الْبَابِ , فَلَمْ يَدْخُلْ , فَعَرَفْتُ فِي وَجْهِهِ الْكَرَاهِيَةَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ , مَا أَذْنَبْتُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا بَالُ هَذِهِ النُّمْرُقَةِ؟" فَقُلْتُ: اشْتَرَيْتُهَا لِتَقْعُدَ عَلَيْهَا وَلِتَوَسَّدَهَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَصْحَابَ هَذِهِ الصُّورِ يُعَذَّبُونَ بِهَا , يُقَالُ لَهُمْ أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ" , وَقَالَ:" إِنَّ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ الصُّورَةُ لَا تَدْخُلُهُ الْمَلَائِكَةُ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے ایک تصویر والی چادر لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو دورازے پر ہی کھڑے رہے، اندر نہ آئے، میں نے ان کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اللہ اور اس کے رسول کے سامنے توبہ کرتی ہوں، مجھ سے کیا غلطی ہوئی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا یہ چادر کیسی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے یہ آپ کے بیٹھنے اور ٹیک لگانے کے لئے خریدی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان تصویروں والوں کو قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو چیزیں تم نے تخلیق کی تھیں، انہیں زندگی بھی دو اور فرمایا جس گھر میں تصویریں ہوں، اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
حدثنا روح , حدثنا شعبة , قال: حدثنا ابو إسحاق ، قال: سمعت ابا عبد الله يعني الجدلي , يقول: سالت ام المؤمنين عائشة عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: " لم يك فاحشا ولا متفحشا ولا صخابا في الاسواق , ولكن يعفو ويصفح" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي الْجَدَلِيَّ , يَقُولُ: سَأَلْتُ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: " لَمْ يَكُ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا صَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ , وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بیہودہ کام یا گفتگو کرنے والے یا بازاروں میں شور مچانے والے نہیں تھے اور وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ معاف اور در گذر فرماتے تھے۔
حدثنا الضحاك بن مخلد , قال: حدثني ابي , قال: حدثني الزبير بن عبيد ، عن نافع , قال: يعني: ابا عاصم , قال ابي: ولا ادري من هو , يعني: نافع هذا , قال: كنت اتجر إلى الشام , او إلى مصر , قال: فتجهزت إلى العراق , فدخلت على عائشة ام المؤمنين , فقلت: يا ام المؤمنين , إني قد تجهزت إلى العراق , فقالت: ما لك ولمتجرك , إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا كان لاحدكم رزق في شيء , فلا يدعه حتى يتغير له , او يتنكر له" فاتيت العراق , ثم دخلت عليها , فقلت: يا ام المؤمنين , والله ما رددت الراس مال , فاعادت عليه الحديث , او قالت الحديث كما حدثتك.حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّبَيْرُ بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ , قَالَ: يَعْنِي: أَبَا عَاصِمٍ , قَالَ أَبِي: وَلَا أَدْرِي مَنْ هُوَ , يَعْنِي: نَافِعٌ هَذَا , قَالَ: كُنْتُ أَتَّجِرُ إِلَى الشَّامِ , أَوْ إِلَى مِصْرَ , قَالَ: فَتَجَهَّزْتُ إِلَى الْعِرَاقِ , فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ , فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , إِنِّي قَدْ تَجَهَّزْتُ إِلَى الْعِرَاقِ , فَقَالَتْ: مَا لَكَ وَلِمَتْجَرِكَ , إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا كَانَ لِأَحَدِكُمْ رِزْقٌ فِي شَيْءٍ , فَلَا يَدَعْهُ حَتَّى يَتَغَيَّرَ لَهُ , أَوْ يَتَنَكَّرَ لَهُ" فَأَتَيْتُ الْعِرَاقَ , ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَيْهَا , فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , وَاللَّهِ مَا رَدَدْتُ الرَّأْسَ مَالٍ , فَأَعَادَتْ عَلَيْهِ الْحَدِيثَ , أَوْ قَالَتْ الْحَدِيثُ كَمَا حَدَّثْتُكَ.
نافع کہتے ہیں کہ میں شام یا مصر میں تجارت کیا کرتا تھا، ایک مرتبہ میں نے عراق جانے کی تیاری کرلی لیکن روانگی سے پہلے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ اے ام المومنین! میں عراق جانے کی تیاری کرچکا ہوں، انہوں نے فرمایا کہ تم اپنی تجارت کی جگہ چھوڑ کر کیوں جا رہے ہو؟ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم میں سے کسی شخص کا کسی چیز کے ساتھ رزق وابستہ ہو تو وہ اسے ترک نہ کرے الاّ یہ کہ اس میں کوئی تبدیلی پیدا ہوجائے یا وہ بگڑ جائے، تاہم میں پھر بھی عراق چلا گیا، واپسی پر ام المومنین کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا اور عرض کیا اے ام المومنین! واللہ مجھے اصل سرمایہ بھی واپس نہیں مل سکا، انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو تمہیں پہلی ہی حدیث سنا دی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مخلد بن الضحاك ولجهالة الزبير ونافع
حدثنا عثمان بن عمر , قال: اخبرنا يونس , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لو استقبلت من امري ما استدبرت ما سقت الهدي , ولاحللت مع الذين حلوا من العمرة" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْهَدْيَ , وَلَأَحْلَلْتُ مَعَ الَّذِينَ حَلُّوا مِنَ الْعُمْرَةِ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر مجھے اس معاملے کا پہلے پتہ چل جاتا جس کا علم بعد میں ہوا تو میں اپنے ساتھ ہدی کا جانور کبھی نہ لاتا اور ان لوگوں کے ساتھ ہی احرام کھول دیتا جنہوں نے عمرہ کر کے احرام کھول دیا ہے۔
حدثنا عثمان بن عمر , قال: حدثنا يونس , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , ان الحولاء بنت تويت مرت على عائشة , وعندها رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت: فقلت: يا رسول الله , هذه الحولاء , وزعموا انها لا تنام الليل؟ فقال: " لا تنام الليل! خذوا من العمل ما تطيقون , فوالله لا يسام الله حتى تساموا" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ الْحَوْلَاءَ بِنْتَ تُوَيْتٍ مَرَّتْ عَلَى عَائِشَةَ , وَعِنْدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذِهِ الْحَوْلَاءُ , وَزَعَمُوا أَنَّهَا لَا تَنَامُ اللَّيْلَ؟ فَقَالَ: " لَا تَنَامُ اللَّيْلَ! خُذُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ , فَوَاللَّهِ لَا يَسْأَمُ اللَّهُ حَتَّى تَسْأَمُوا" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک عورت " حولاء " آتی تھی جو عبادات میں محنت و مشقت برداشت کرنے کے لئے حوالے سے مشہور تھی، میں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتنا عمل کیا کرو جتنی طاقت تم میں ہے، واللہ اللہ تعالیٰ تو نہیں اکتائے گا البتہ تم ضرور اکتا جاؤ گے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی نافرمانی میں کوئی منت نہیں ہوتی اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه لأن محمدا لم يسمع هذا الحديث من أبى سلمة
حدثنا عثمان , قال: حدثنا يونس , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا نذر في معصية الله , وكفارته كفارة يمين" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ , قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ , وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ" .
ہمارے پاس دستیاب نسخے میں یہاں لفظ " حدثنا " لکھا ہوا ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی عورت کی چھاتی سے ایک دو مرتبہ دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
حدثنا عثمان بن عمر , قال: حدثنا مالك بن انس , عن الزهري ، عن سالم عن عبد الله بن محمد بن ابي بكر , اخبر عبد الله بن عمر , عن عائشة , ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لها: " الم تري ان قومك حين بنوا الكعبة استقصروا على قواعد إبراهيم؟" فقلت: يا رسول الله , افلا تردها على قواعد إبراهيم؟ فقال:" لولا حدثان قومك بالكفر" فقال ابن عمر: إن كانت عائشة سمعت هذا الحديث من رسول الله صلى الله عليه وسلم , فلا ارى رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك استلام الركنين اللذين يليان الحجر إلا ان البيت لم يتم على قواعد إبراهيم .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ , أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا: " أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ حِينَ بَنَوْا الْكَعْبَةَ اسْتَقْصَرُوا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ؟" فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَفَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ؟ فَقَالَ:" لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ" فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ سَمِعَتْ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلَا أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ إِلَّا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری قوم نے جب خانہ کعبہ کی تعمیر نو کی تھی تو اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں سے کم کردیا تھا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر آپ اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر کیوں لوٹا نہیں دیتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر نہ ہوتا تو ایسا ہی کرتا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سن کر فرمایا واللہ اگر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میرا خیال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حطیم سے ملے ہوئے دونوں کونوں کا استلام اسی لئے نہیں فرماتے تھے کہ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر مکمل نہیں ہوئی تھی۔
حدثنا عثمان بن عمر , قال: حدثنا يونس , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: " لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوم على باب حجرتي , والحبشة يلعبون بحرابهم , يسترني بردائه لكي انظر إلى لعبهم , ثم يقوم حتى اكون انا التي انصرف" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ عَلَى بَابِ حُجْرَتِي , وَالْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ بِحِرَابِهِمْ , يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ لِكَيْ أَنْظُرَ إِلَى لَعِبِهِمْ , ثُمَّ يَقُومُ حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّتِي أَنْصَرِفُ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عید کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ حبشی کرتب دکھا رہے تھے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سر رکھ کر انہیں جھانک کر دیکھنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کندھے میرے لئے جھکا دیئے، میں انہیں دیکھتی رہی اور جب دل بھر گیا تو واپس آگئی۔
حدثنا عثمان بن عمر , قال: اخبرنا يونس , عن الزهري ، عن عروة , ان عائشة , قالت: " وإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدخل علي راسه , وهو في المسجد , فارجله , وكان لا يدخل البيت إلا لحاجة إلا إذا اراد الوضوء وهو معتكف" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , أَنَّ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " وَإِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُدْخِلُ عَلَيَّ رَأْسَهُ , وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ , فَأُرَجِّلُهُ , وَكَانَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةٍ إِلَّا إِذَا أَرَادَ الْوُضُوءَ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معتکف ہوتے اور مسجد سے اپنا سر نکال دیتے، میں اسے کنگھی کردیتی اور وہ گھر میں صرف وضو کے لئے ہی آتے تھے۔
حدثنا عثمان بن عمر , قال: حدثنا اسامة , عن عبد الرحمن بن القاسم , عن امه اسماء بنت عبد الرحمن , عن عائشة , قالت: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم من سفر وقد اشتريت نمطا فيه صورة , فسترته على سهوة بيتي , فلما دخل , كره ما صنعت , وقال: " اتسترين الجدر يا عائشة؟" فطرحته فقطعته مرفقتين , فقد رايته متكئا على إحداهما , وفيها صورة .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: حَدَّثَنَا أُسَامَةُ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ وَقَدْ اشْتَرَيْتُ نَمَطًا فِيهِ صُورَةٌ , فَسَتَرْتُهُ عَلَى سَهْوَةِ بَيْتِي , فَلَمَّا دَخَلَ , كَرِهَ مَا صَنَعْتُ , وَقَالَ: " أَتَسْتُرِينَ الْجُدُرَ يَا عَائِشَةُ؟" فَطَرَحْتُهُ فَقَطَعْتُهُ مِرْفَقَتَيْنِ , فَقَدْ رَأَيْتُهُ مُتَّكِئًا عَلَى إِحْدَاهُمَا , وَفِيهَا صُورَةٌ .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر سے واپس آئے، میں نے ایک تصویروں والا پردہ خریدا ہوا تھا جسے میں نے اپنے گھر کے صحن میں لٹکا لیا تھا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو میرے اس کارنامے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایا اے عائشہ! دیواروں کو پردوں سے ڈھانپ رہی ہو؟ چنانچہ میں نے اسے اتار کر اسے کاٹا اور دو تکئے بنا لئے اور تصویر کی موجودگی میں ہی میں نے اس پر اپنے آپ کو ٹیک لگائے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد فيه أسامة الليثي متكلم فيه واسماء بنت عبدالرحمن مجهولة
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بھی کم درجے کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے بدلے اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل حمزة
حدثنا عثمان بن عمر , قال: اخبرنا يونس , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها وعندها امراة من اليهود , وهي تقول: اشعرت انكم تفتنون في القبور؟ فارتاع رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: " إنما تفتن يهود" , قالت عائشة: فلبثنا ليالي , ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اشعرت انه اوحي إلي انكم تفتنون في القبور" , وقالت عائشة: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد يستعيذ من عذاب القبر .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا امْرَأَةٌ مِنْ الْيَهُودِ , وَهِيَ تَقُولُ: أُشْعِرْتُ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ؟ فَارْتَاعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: " إِنَّمَا تُفْتَنُ يَهُوَدُ" , قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ , ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُشْعِرْتُ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ" , وَقَالَتْ عَائِشَةُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ يَسْتَعِيذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو ایک یہودی عورت میرے یہاں بیٹھی تھی اور وہ کہہ رہی تھی کیا معلوم ہے کہ قبروں میں تمہاری آزمائش کی جائے گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا یہودیوں کو ہی آزمائش میں مبتلا کیا جائے گا، کچھ عرصہ گذرنے کے بعد ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کیا تمہیں پتہ چلا کہ مجھ پر وحی آگئی ہے کہ تمہیں قبروں میں آزمایا جائے گا؟ اس کے بعد میں نے ہمیشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ہے۔
حدثنا عثمان بن عمر , قال: اخبرنا يونس , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , انها قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل إحدى عشرة ركعة , فكانت تلك صلاته , يسجد في السجدة من ذلك قدر ما يقرا احدكم خمسين آية قبل ان يرفع راسه , ويركع ركعتين قبل الفجر , ثم يضطجع على شقه الايمن حتى ياتيه المؤذن" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً , فَكَانَتْ تِلْكَ صَلَاتُهُ , يَسْجُدُ فِي السَّجْدَةِ مِنْ ذَلِكَ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ , وَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ , ثُمَّ يَضْطَجِعُ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء اور فجر کے درمیان گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ہر دو رکعت پر سلام پھر دیتے تھے اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، نوافل میں اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ ان کے سر اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی شخص پچاس آیتیں پڑھ لے، جب مؤذن اذان دے کر فارغ ہوتا تو دو مختصر رکعتیں پڑھتے، پھر دائیں پہلو پر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ مؤذن آجاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دیتا۔
حدثنا عثمان بن عمر , قال: اخبرنا يونس , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , ان النبي صلى الله عليه وسلم" كان يامر بصيام عاشوراء قبل ان ينزل رمضان , فلما فرض رمضان كان من شاء صام , ومن شاء افطر" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَأْمُرُ بِصِيَامِ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ رَمَضَانُ , فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ مَنْ شَاءَ صَامَ , وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہ کو دس محرم کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے رہے، پھر جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان ہی کے روزے رکھنے لگے اور عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا، اب جو چاہے وہ روزہ رکھ لے اور جو چاہے نہ رکھے۔
حدثنا عثمان , قال: اخبرنا يونس , عن الزهري ، عن ابي سلمة , ان عائشة , قالت: لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بتخيير ازواجه , بدا بي , فقال:" يا عائشة , إني اذكر لك امرا , ولا عليك ان لا تستعجلي حتى تذاكري ابويك" , قالت: وقد علم ان ابوي لم يكونا ليامراني بفراقه , ثم قال:" إن الله عز وجل يقول يايها النبي قل لازواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها سورة الاحزاب آية 28 حتى بلغ اعد للمحسنات منكن اجرا عظيما سورة الاحزاب آية 29 فقلت: في اي هذا استامر ابوي؟ فإني قد اخترت الله ورسوله والدار الآخرة , قالت: ثم فعل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ما فعلت .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , أَنَّ عَائِشَةَ , قَالَتْ: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ , بَدَأَ بِي , فَقَالَ:" يَا عَائِشَةُ , إِنِّي أَذْكُرُ لَكِ أَمْرًا , وَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَسْتَعْجِلِي حَتَّى تُذَاكِرِي أَبَوَيْكِ" , قَالَتْ: وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ , ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا سورة الأحزاب آية 28 حَتَّى بَلَغَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 29 فَقُلْتُ: فِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ؟ فَإِنِّي قَدْ اخْتَرْتُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ , قَالَتْ: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا فَعَلْتُ .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب آیت تخییر نازل ہوئی سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا اے عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک بات ذکر کرنا چاہتا ہوں، تم اس میں اپنے والدین سے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کرنا، میں نے عرض کیا ایسی کیا بات ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا کر یہ آیت تلاوت فرمائی " اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو چاہتی ہو " يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا حَتَّى بَلَغَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا " میں نے عرض کیا کہ کیا میں اس معاملے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں گی؟ میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے۔
حدثنا عثمان , حدثنا يونس , عن الزهري ، وجدت في موضع عن عروة , وموضع آخر , عن عمرة , كلاهما قاله عثمان , عن عائشة " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نحر عن ازواجه بقرة في حجة الوداع" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ , حَدَّثَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، وَجَدْتُ فِي مَوْضِعٍ عَنْ عُرْوَةَ , وَمَوْضِعٍ آخَرَ , عَنْ عَمْرَةَ , كِلَاهُمَا قَالَهُ عُثْمَانُ , عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحَرَ عَنْ أَزْوَاجِهِ بَقَرَةً فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی۔
حدثنا عثمان بن عمر , حدثنا يونس , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , " ان نساء من المؤمنات كن يشهدن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح , ثم ينقلبن متلفعات بمروطهن إلى بيوتهن , ما يعرفن من الغلس" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , " أَنَّ نِسَاءً مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ كُنَّ يَشْهَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ , ثُمَّ يَنْقَلِبْنَ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ إِلَى بُيُوتِهِنَّ , مَا يُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز فجر میں خواتین بھی شریک ہوتی تھیں، پھر اپنی چادروں میں اس طرح لپٹ کر نکلتی تھیں کہ انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔
حدثنا عثمان بن عمر , حدثنا يونس , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي على خمرة , فقال:" يا عائشة , ارفعي عنا حصيرك هذا , فقد خشيت ان يكون يفتن الناس" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عَلَى خُمْرَةٍ , فَقَالَ:" يَا عَائِشَةُ , ارْفَعِي عَنَّا حَصِيرَكِ هَذَا , فَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يكونَ يَفْتِنَ النَّاسَ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ چٹائی پر نماز پڑھ رہے تھے، نماز سے فارغ ہو کر فرمایا عائشہ! اس چٹائی کو ہمارے پاس سے اٹھا لو، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ فتنے میں نہ پڑھ جائیں۔
حدثنا عثمان بن عمر , حدثنا يونس , حدثنا ابو شداد ، عن مجاهد , قال: قالت عائشة ، خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم , فلما كنا بالحز , انصرفنا وانا على جمل , وكان آخر العهد منهم , وانا اسمع صوت النبي صلى الله عليه وسلم وهو بين ظهري ذلك السمر , وهو يقول: " وا عروساه" قالت: فوالله إني لعلى ذلك إذ نادى مناد ان القي الخطام , فالقيته , فاعلقه الله بيده .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا يُونُسُ , حَدَّثَنَا أَبُو شَدَّادٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ , قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ ، خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلَمَّا كُنَّا بِالْحَزِّ , انْصَرَفْنَا وَأَنَا عَلَى جَمَلٍ , وَكَانَ آخِرُ الْعَهْدِ مِنْهُمْ , وَأَنَا أَسْمَعُ صَوْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بَيْنَ ظَهْرَيْ ذَلِكَ السَّمُرِ , وَهُوَ يَقُولُ: " وَا عَرُوسَاهْ" قَالَتْ: فَوَاللَّهِ إِنِّي لَعَلَى ذَلِكَ إِذْ نَادَى مُنَادٍ أَنْ أَلْقِي الْخِطَامَ , فَأَلْقَيْتُهُ , فَأَعْلَقََهُ اللَّهُ بِيَدِهِ .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر پر روانہ ہوئے، حر کے پاس پہنچ کر ہم واپس روانہ ہوئے، میں اپنے اونٹ پر سوار تھی، جو سب سے آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ببول کے درختوں کے درمیان تھے اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن رہی تھی، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں ہائے میری دلہن! واللہ میں ابھی اسی اونٹ پر تھی کہ ایک منادی نے پکار کر کہا کہ اس کی لگام پھنک دو، میں نے اس کی لگام پھنک دی تو اللہ نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دیا۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مرض الوفات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے اور لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھے۔
حدثنا سليمان بن داود , قال: اخبرنا شعبة , عن يزيد بن خمير , قال: سمعت عبد الله بن ابي موسى , قال احمد ابن ابي قيس وهو الصواب , مولى لبني نصر بن معاوية , قال: قالت لي عائشة : " لا تدع قيام الليل , فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان لا يدعه , وكان إذا مرض او كسل , صلى قاعدا" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُوسَى , قَالَ أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي قَيْسٍ وَهُوَ الصَّوَابُ , مَوْلَى لِبَنِي نَصْرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ , قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ : " لَا تَدَعْ قِيَامَ اللَّيْلِ , فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَدَعُهُ , وَكَانَ إِذَا مَرِضَ أَوْ كَسِلَ , صَلَّى قَاعِدًا" .
عبداللہ بن ابی موسیٰ (اور زیادہ صحیح رائے کے مطابق عبداللہ بن ابی قیس) " جو کہ بنو نصر بن معاویہ کے آزاد کردہ غلام تھے " سے مروی ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا ہے قیام اللیل کو کبھی نہ چھوڑنا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے کبھی ترک نہیں فرماتے تھے، حتیٰ کہ اگر بیمار ہوتے یا طبیعت میں چستی نہ ہوتی تو بھی بیٹھ کر پڑھ لیتے تھے۔
حدثنا محمد بن بكر البرساني , قال: اخبرنا عبيد الله بن ابي زياد , عن القاسم بن محمد , عن عائشة اتت سهلة ابنة سهيل بن عمرو , فقالت: يا رسول الله , إن سالما كان يدخل علي وانا واضعة ثوبي , ثم إنه يدخل علي الآن بعدما شب وكبر , فاجد في نفسي من ذلك , قال: " فارضعيه , فإن ذلك يذهب بالذي تجدين في نفسك" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ , قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ , عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَائِشَةَ أَتَتْ سَهْلَةُ ابْنَةُ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ سَالِمًا كَانَ يَدْخُلُ عَلَيَّ وَأَنَا وَاضِعَةٌ ثَوْبِي , ثُمَّ إِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيَّ الْآنَ بَعْدَمَا شَبَّ وَكَبِرَ , فَأَجِدُ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ , قَالَ: " فَأَرْضِعِيهِ , فَإِنَّ ذَلِكَ يَذْهَبُ بِالَّذِي تَجِدِينَ فِي نَفْسِكِ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سہلہ بنت سہیل ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! سالم میرے یہاں آتا تھا، میں اپنا دوپٹہ وغیرہ اتارے رکھتی تھی، لیکن اب جب وہ بڑی عمر کا ہوگیا ہے اور اس کے بال بھی سفید ہوگئے تو اس کے آنے پر میرے دل میں بوجھ ہوتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے دودھ پلا دو، یہ بوجھ دور ہوجائے گا۔
حدثنا عبد الصمد , حدثنا همام , حدثنا قتادة , عن مطرف , عن عائشة " انها صنعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم حلة من صوف سوداء , فلبسها , فلما عرق وجد ريح الصوف فقذفها , قال: واحسبه قال: وكانت تعجبه الريح الطيبة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , حَدَّثَنَا قَتَادَةُ , عَنْ مُطَرِّفٍ , عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّهَا صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةً مِنْ صُوفٍ سَوْدَاءَ , فَلَبِسَهَا , فَلَمَّا عَرِقَ وَجَدَ رِيحَ الصُّوفِ فَقَذَفَهَا , قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ الرِّيحُ الطَّيِّبَةُ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اون کی ایک سیاہ چادر بنائی، اس چادر کی سیاہی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رنگت کے اجلا پن اور سفیدی کا تذکرہ ہونے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہن لیا، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا اور ان کی بو اس میں محسوس ہونے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار دیا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اچھی مہک کو پسند فرماتے تھے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار ہو کر نماز پڑھتے تو لحاف کا ایک کونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ہوتا اور دوسرا کونا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے رہتے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد کے قریب پانی سے وضو فرما لیتے تھے اور ایک صاع کے قریب پانی سے غسل فرما لیتے تھے۔
حدثنا عبد الصمد , قال: حدثنا سليمان بن كثير , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث إلا على زوج" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو عورت اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، شوہر کے علاوہ کسی اور میت پر اس کیلئے تین دن سے سوگ منانا حلال نہیں ہے۔
حدثنا عبد الصمد , وابو عامر , قالا: حدثنا هشام , عن يحيى , عن ابي سلمة ، قال: سالت عائشة عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل؟ فقالت:" كان يصلي ثلاث عشرة ركعة , يصلي ثمان ركعات , ثم يوتر , ثم يصلي ركعتين وهو جالس , فإذا اراد ان يركع قام فركع , ويصلي ركعتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , وَأَبُو عَامِرٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ يَحْيَى , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ؟ فَقَالَتْ:" كَانَ يُصَلِّي ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً , يُصَلِّي ثَمَانِ رَكَعَاتٍ , ثُمَّ يُوتِرُ , ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ , فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَرَكَعَ , وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، پہلے آٹھ رکعتیں، پھر وتر، پھر بیٹھ کردو رکعتیں پڑھتے اور جب رکوع میں جانا چاہتے تو کھڑے ہو کر رکوع کرتے، پھر فجر کی اذان اور نماز کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
حدثنا عبد الصمد وابو عامر المعنى، قالا: حدثنا هشام , عن يحيى , عن ابي سلمة ، قال: قالت عائشة : لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم من السنة اكثر من صيامه من شعبان , فإنه كان يصوم شعبان كله , وكان يقول: " خذوا من العمل ما تطيقون , فإن الله لا يمل حتى تملوا" , وإنه كان احب العمل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما داوم عليه وإن قل , كان إذا صلى صلاة داوم عليها .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ وَأَبُو عَامِرٍ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ يَحْيَى , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ مِنَ السَّنَةِ أَكْثَرَ مِنْ صِيَامِهِ مِنْ شَعْبَانَ , فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ , وَكَانَ يَقُولُ: " خُذُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ , فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا" , وَإِنَّهُ كَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّ , كَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً دَاوَمَ عَلَيْهَا .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سال کے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے، کہ وہ تقریباً شعبان کا پورا مہینہ ہی روزہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ اتنا عمل کیا کرو جتنے کی تم میں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تو نہیں اکتائے گا، البتہ تم ضرور اکتا جاؤ گے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نماز وہ ہوتی تھی جس پر دوام ہو سکے اگرچہ اس کی مقدار تھوڑی ہی ہو اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو اسے ہمیشہ پڑھتے تھے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانور یعنی بکری کے قلادے بٹا کرتی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے بھیج کر بھی کسی چیز سے اپنے آپ کو نہیں روکتے تھے (جن سے محرم بچتے تھے)۔
حدثنا عبد الصمد , قال: حدثني ابي , حدثنا يزيد يعني الرشك , عن معاذة , قالت: سالت امراة عائشة وانا شاهدة عن وصل صيام رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقالت لها: " اتعملين كعمله؟ فإنه قد كان غفر له ما تقدم من ذنبه وما تاخر , وكان عمله نافلة له" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي الرِّشْكَ , عَنْ مُعَاذَةَ , قَالَتْ: سَأَلَتْ امْرَأَةٌ عَائِشَةَ وَأَنَا شَاهِدَةٌ عَنْ وَصْلِ صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ لَهَا: " أَتَعْمَلِينَ كَعَمَلِهِ؟ فَإِنَّهُ قَدْ كَانَ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ , وَكَانَ عَمَلُهُ نَافِلَةً لَهُ" .
معاذہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر تھی کہ ایک عورت نے ان سے نبی کے صوم وصال کے متعلق دریافت کیا، انہوں نے فرمایا کیا تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے اعمال کرسکتی ہو، ان کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے گئے تھے اور ان کے اعمال تو نفلی تھے۔
حدثنا عبد الصمد , قال: حدثني ابي , قال: حدثتني ام الحسن , قال عبد الصمد: وهي جدة ابي بكر العتكي , عن معاذة , قالت: سالت عائشة عن الحائض يصيب ثوبها الدم؟ فقالت: " لقد كنت احيض عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث حيض جميعا , لا اغسل لي ثوبا , وقالت: لقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وعلي ثوب , عليه بعضه وعلي بعضه , وانا حائض نائمة قريبا منه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ الْحَسَنِ , قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ: وَهِيَ جَدَّةُ أَبِي بَكْرٍ الْعَتَكِيِّ , عَنْ مُعَاذَةَ , قَالَتْ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنِ الْحَائِضِ يُصِيبُ ثَوْبَهَا الدَّمُ؟ فَقَالَتْ: " لَقَدْ كُنْتُ أَحِيضُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ حِيَضٍ جَمِيعًا , لَا أَغْسِلُ لِي ثَوْبًا , وَقَالَتْ: لَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَعَلَيَّ ثَوْبٌ , عَلَيْهِ بَعْضُهُ وَعَلَيَّ بَعْضُهُ , وَأَنَا حَائِضٌ نَائِمَةٌ قَرِيبًا مِنْهُ" .
معاذہ کہتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس حائضہ عورت کے متعلق پوچھا جس کے کپڑوں کو دم حیض لگ جائے، تو انہوں نے فرمایا کہ بعض اوقات مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں تین مرتبہ مسلسل ایام آتے اور میں اپنے کپڑے نہ دھو پاتی تھی اور بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور میرے جسم پر جو کپڑا ہوتا تھا، اس کا کچھ حصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا تھا اور میں ایام کی حالت میں ان کے قریب سو رہی ہوتی تھی۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح، وهذا اسناد ضعيف لجهالة ام الحسن
حدثنا عبد الصمد , حدثنا القاسم يعني ابن الفضل , حدثنا محمد بن علي , عن عائشة , انها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من داين الناس بدين يعلم الله منه انه حريص على ادائه , كان معه من الله عون وحافظ" , وانا التمس ذلك العون .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ دَايَنَ النَّاسَ بِدَيْنٍ يَعْلَمُ اللَّهُ مِنْهُ أَنَّهُ حَرِيصٌ عَلَى أَدَائِهِ , كَانَ مَعَهُ مِنَ اللَّهِ عَوْنٌ وَحَافِظٌ" , وَأَنَا أَلْتَمِسُ ذَلِكَ الْعَوْنَ .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص کی نیت قرض ادا کرنے کی ہو تو اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال رہتی ہے، میں وہی مدد حاصل کرنا چاہتی ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه لأن محمد بن على لم يسمع من عائشة
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے کو مل دل کر صاف کرنے والی، جسم گودنے والی اور گودوانے والی، بال ملانے اور ملوانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قولها: "كان رسول الله ﷺ يلعن القاشرة والمقشورة" وهذا إسناد ضعيف لأجل آمنة بنت عبدالله
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور گویا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
حدثنا عبد الصمد , قال: حدثتني فاطمة بنت عبد الرحمن , قالت: حدثتني امي , انها قالت: سالت عائشة , وارسلها عمها , فقال: إن احد بنيك يقرئك السلام , ويسالك عن عثمان بن عفان , فإن الناس قد شتموه؟ فقالت: لعن الله من لعنه , فوالله لقد كان قاعدا عند نبي الله صلى الله عليه وسلم , وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لمسند ظهره إلي , وإن جبريل ليوحي إليه القرآن , وإنه ليقول له: " اكتب يا عثيم" , فما كان الله لينزله تلك المنزلة إلا كريما على الله ورسوله .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أُمِّي , أَنَّهَا قَالَتْ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ , وَأَرْسَلَهَا عَمُّهَا , فَقَالَ: إِنَّ أَحَدَ بَنِيكِ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ , وَيَسْأَلُكِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ شَتَمُوهُ؟ فَقَالَتْ: لَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَهُ , فَوَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ قَاعِدًا عِنْدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَيَّ , وَإِنَّ جِبْرِيلَ لَيُوحِي إِلَيْهِ الْقُرْآنَ , وَإِنَّهُ لَيَقُولُ لَهُ: " اكْتُبْ يَا عُثَيْمُ" , فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُنْزِلَهُ تِلْكَ الْمَنْزِلَةَ إِلَّا كَرِيمًا عَلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ .
فاطمہ بنت عبدالرحمن اپنی والدہ کے حوالے سے نقل کرتی ہیں کہ انہیں ان کے چچا نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ کا ایک بیٹا آپ کو سلام کہہ رہا ہے اور آپ سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھ رہا ہے، کیونکہ لوگ ان کی شان میں گستاخی کرنے لگے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ جو ان پر لعنت کرے، اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو، واللہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پشت مبارک میرے ساتھ لگائے ہوتے تھے اور اسی دوران حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آجاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے تھے اے عثیم! لکھو اللہ یہ مرتبہ اسی کو دے سکتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی نگاہوں میں معزز ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة فاطمة بنت عبدالرحمن وأمها
حدثنا عبد الصمد , قال: حدثنا عمر بن ابي زائدة , عن ابي إسحاق ، عن الاسود , عن عائشة , قالت: " كان اكثر صلاة النبي صلى الله عليه وسلم جالسا إلا الصلاة المكتوبة , وكان احب الاعمال إليه ما داوم عليه الإنسان , وإن كان يسيرا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " كَانَ أَكْثَرُ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ , وَكَانَ أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَيْهِ مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ الْإِنْسَانُ , وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر نماز بیٹھ کر ہوتی تھی، سوائے فرض نمازوں کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہوتا تھا جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔
حدثنا عبد الصمد , حدثنا زيد يعني ابن مرة ابو المعلى , عن الحسن , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " احل من قتل الدواب والرجل محرم ان يقتل الحية , والعقرب , والكلب العقور , والغراب الابقع , والحديا , والفارة , ولدغ رسول الله صلى الله عليه وسلم عقرب , فامر بقتلها وهو محرم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ مُرَّةَ أَبُو الْمُعَلَّى , عَنِ الْحَسَنِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَحَلَّ مِنْ قَتْلِ الدَّوَابِّ وَالرَّجُلُ مُحْرِمٌ أَنْ يَقْتُلَ الْحَيَّةَ , وَالْعَقْرَبَ , وَالْكَلْبَ الْعَقُورَ , وَالْغُرَابَ الْأَبْقَعَ , وَالْحُدَيَّا , وَالْفَأْرَةَ , وَلَدَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقْرَبٌ , فَأَمَرَ بِقَتْلِهَا وَهُوَ مُحْرِمٌ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا محرم ان چیزوں کو مار سکتا ہے، بچھو، چوہا، چیل، باؤلا کتا اور کوا، ایک مرتبہ حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بچھو نے ڈس لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مارنے کا حکم دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قولها: "ولدغ رسول الله ﷺ عقرب" وهذا إسناد ضعيف لتدليس الحسن البصري وقد عنعن
حدثنا عبد الصمد وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة , قال: حدثنا علي بن زيد , عن ام محمد ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكثر ان يقول: " يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك وطاعتك" فقيل له: يا رسول الله، قال عفان: فقالت له عائشة: إنك تكثر ان تقول:" يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك وطاعتك" قال:" وما يؤمنني , وإنما قلوب العباد بين اصبعي الرحمن , إنه إذا اراد ان يقلب قلب عبد قلبه"، قال عفان: بين اصبعين من اصابع الله عز وجل .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ أُمِّ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ: " يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ وَطَاعَتِكَ" فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ عَفَّانُ: فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: إِنَّكَ تُكْثِرُ أَنْ تَقُولَ:" يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ وَطَاعَتِكَ" قَالَ:" وَمَا يُؤْمِنُنِي , وَإِنَّمَا قُلُوبُ الْعِبَادِ بَيْنَ أُصْبُعَيْ الرَّحْمَنِ , إِنَّهُ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُقَلِّبَ قَلْبَ عَبْدٍ قَلَّبَهُ"، قَالَ عَفَّانُ: بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کچھ دعائیں ایسی ہیں، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت فرمایا کرتے تھے اے مقلب القلوب! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم فرما، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ اکثر یہ دعائیں کیوں کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے، اگر وہ چاہے تو اسے ٹیڑھا کر دے اور اگر چاہے تو سیدھا رکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ لڑکے کی طرف سے عقیقے میں دو بکریاں برابر کی ہوں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری نیز یہ حکم بھی دیا ہے کہ ہر پانچ میں سے ایک بکری قربان کردیں۔
حكم دارالسلام: حديث العقيقة صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف
حدثنا عبد الصمد , قال: حدثنا حماد , عن ثابت ، عن القاسم بن محمد , عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله ليربي لاحدكم التمرة واللقمة كما يربي احدكم فلوه او فصيله , حتى يكون مثل احد" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ ثَابِتٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَيُرَبِّي لِأَحَدِكُمْ التَّمْرَةَ وَاللُّقْمَةَ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ أَوْ فَصِيلَهُ , حَتَّى يَكُونَ مِثْلَ أُحُدٍ" .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری ایک کجھور اور لقمہ کی اس پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنی بکری کے بچے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ احد پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بیدار ہو کر نماز پڑھتے تو لحاف کا ایک کونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ہوتا اور دوسرا کونا مجھ پر ہوتا۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي , قال: حدثنا زائدة , عن موسى بن ابي عائشة , عن عبيد الله بن عبد الله , قال: دخلت على عائشة , فقلت: الا تحدثيني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: بلى، ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " اصلى الناس؟" فقلنا: لا , هم ينتظرونك يا رسول الله , قال:" ضعوا لي ماء في المخضب" ففعلنا , فاغتسل , ثم ذهب لينوء فاغمي عليه , ثم افاق فقال:" اصلى الناس؟" فقلنا: لا , هم ينتظرونك يا رسول الله , فقال:" ضعوا لي ماء في المخضب" ففعلنا , فاغتسل , ثم ذهب لينوء فاغمي عليه , ثم افاق , فقال:" اصلى الناس؟" فقلنا: لا , هم ينتظرونك يا رسول الله , قالت: والناس عكوف في المسجد ينتظرون رسول الله صلى الله عليه وسلم لصلاة العشاء , فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابي بكر ان يصلي بالناس , وكان ابو بكر رجلا رقيقا , فقال: يا عمر , صل بالناس , فقال: انت احق بذلك , فصلى بهم ابو بكر تلك الايام , ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد خفة , فخرج بين رجلين احدهما العباس لصلاة الظهر , فلما رآه ابو بكر ذهب ليتاخر , فاوما إليه ان لا تتاخر , وامرهما , فاجلساه إلى جنبه , فجعل ابو بكر يصلي قائما , ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قاعدا , فدخلت على ابن عباس , فقلت: الا اعرض عليك ما حدثتني عائشة عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال هات , فحدثته , فما انكر منه شيئا , غير انه قال اسمت لك الرجل الذي كان مع العباس؟ قلت لا , قال هو علي .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ , عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ , فَقُلْتُ: أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: بَلَى، ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " أَصَلَّى النَّاسُ؟" فَقُلْنَا: لَا , هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ" فَفَعَلْنَا , فَاغْتَسَلَ , ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ , ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ:" أَصَلَّى النَّاسُ؟" فَقُلْنَا: لَا , هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ:" ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ" فَفَعَلْنَا , فَاغْتَسَلَ , ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ , ثُمَّ أَفَاقَ , فَقَالَ:" أَصَلَّى النَّاسُ؟" فَقُلْنَا: لَا , هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَتْ: وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ , فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ , وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا رَقِيقًا , فَقَالَ: يَا عُمَرُ , صَلِّ بِالنَّاسِ , فَقَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ , فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الْأَيَّامَ , ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ خِفَّةً , فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ , فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ , فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ لَا تَتَأَخَّرَ , وَأَمَرَهُمَا , فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِهِ , فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا , وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا , فَدَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ , فَقُلْتُ: أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ هَاتِ , فَحَدَّثْتُهُ , فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا , غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ؟ قُلْتُ لَا , قَالَ هُوَ عَلِيٌّ .
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کے بارے کچھ بتائیں گی؟ فرمایا کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت جب بوجھل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے کہا نہیں، یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لئے ایک ٹب میں پانی رکھو، ہم نے ایسے ہی کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور جانے کے لئے کھڑے ہونے ہی لگے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بےہوشی طاری ہوگئی، جب افاقہ ہوا تو پھر یہی سوال پوچھا کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے حسب سابق وہی جواب دیا اور تین مرتبہ اسی طرح ہوا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ نماز عشاء کے لئے مسجد میں بیٹھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے رقیق القلب آدمی تھے، کہنے لگے اے عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، انہوں نے کہا اس کے حقدار تو آپ ہی ہیں، چنانچہ ان دنوں میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کے وقت دو آدمیوں کے درمیان نکلے جن میں سے ایک حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹیں اور اپنے ساتھ آنے والے دونوں صاحبوں کو حکم دیا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے۔ عبیداللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سماعت کے بعد ایک مرتبہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے یہاں آیا ہوا تھا، میں نے ان سے کہا کہ کیا میں آپ کے سامنے وہ حدیث پیش کروں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کے حوالے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے سنائی ہے؟ انہوں نے کہا ضرور بیان کرو، چنانچہ میں نے ان سے ساری حدیث بیان کردی، انہوں نے اس کے کسی حصے پر نکیر نہیں فرمائی، البتہ اتنا ضرور پوچھا کہ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو اس آدمی کا نام بتایا جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا؟ میں نے کہا نہیں، انہوں نے فرمایا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، اللہ کی رحمتیں ان پر نازل ہوں۔
حدثنا عبد الصمد , ومعاوية بن عمرو , قالا: حدثنا زائدة , حدثنا موسى بن ابي عائشة , عن عبيد الله بن عبد الله , قال: دخلت على عائشة , فقلت لها: الا تحدثيني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: بلى , ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم , فذكر الحديث , وقال: فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا تاخر , قال معاوية يتاخر , وقال لهما:" اجلساني إلى جنبه" فاجلساه إلى جنبه , قالت فجعل ابو بكر يصلي وهو قائم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم , والناس يصلون بصلاة ابي بكر , والنبي صلى الله عليه وسلم قاعد.حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , وَمُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو , قَالَا: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ , حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ , فَقُلْتُ لَهَا: أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: بَلَى , ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرَ الْحَدِيثَ , وَقَالَ: فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَأَخَّرَ , قَالَ مُعَاوِيَةُ يتَأَخَّرْ , وَقَالَ لَهُمَا:" أَجْلِسَانِي إِلَى جَنْبِهِ" فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِهِ , قَالَتْ فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي وَهُوَ قَائِمٌ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ , وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ.
حدثنا عبد الصمد , حدثنا داود يعني ابن ابي الفرات ، قال: حدثنا عبد الله بن بريدة , عن يحيى بن يعمر , عن عائشة , انها قالت: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الطاعون؟ فاخبرني رسول الله صلى الله عليه وسلم " انه كان عذابا يبعثه الله على من يشاء , فجعله رحمة للمؤمنين , فليس من رجل يقع الطاعون , فيمكث في بيته صابرا محتسبا يعلم انه لا يصيبه إلا ما كتب الله له , إلا كان له مثل اجر الشهيد" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْفُرَاتِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ , عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ؟ فَأَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّهُ كَانَ عَذَابًا يَبْعَثُهُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ , فَجَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ , فَلَيْسَ مِنْ رَجُلٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ , فَيَمْكُثُ فِي بَيْتِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ , إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الشَّهِيدِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے " طاعون " کے متعلق دریافت کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ یہ ایک عذاب تھا جو اللہ جس پر چاہتا تھا بھیج دیتا تھا، لیکن اس امت کے مسلمانوں پر اللہ نے اسے رحمت بنادیا ہے، اب جو شخص طاعون کی بیماری میں مبتلا ہو اور اس شہر میں ثواب کی نیت سے صبر کرتے ہوئے رکا رہے اور یقین رکھتا ہو کہ اسے صرف وہی مصیبت آسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دی ہے، تو اسے شہید کے برابر اجر ملے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کی تفصیل یوں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے نماز جیسا وضو فرماتے تھے، پھر سر کے بالوں کی جڑوں کا خلال فرماتے تھے اور تین مرتبہ پانی بہاتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، قتادة لم يسمع من عروة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کوئی ایسا کپڑا نہیں چھوڑتے تھے جس میں صلیب کا نشان بنا ہوا ہو، یہاں تک کہ اسے ختم کردیتے۔
حدثنا عبد الصمد , حدثنا حرب , قال: حدثني يحيى , عن محمد بن إبراهيم , ان ابا سلمة حدثه، وكان بينه وبين قومه خصومة في ارض , انه دخل على عائشة , فذكر ذلك لها , فقالت: يا ابا سلمة , اجتنب الارض , فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من ظلم قيد شبر من الارض , طوقه من سبع ارضين" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا حَرْبٌ , قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ , أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ حَدَّثَهُ، وَكَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمِهِ خُصُومَةٌ فِي أَرْضٍ , أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ , فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهَا , فَقَالَتْ: يَا أَبَا سَلَمَةَ , اجْتَنِبْ الْأَرْضَ , فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ ظَلَمَ قِيدَ شِبْرٍ مِنَ الْأَرْضِ , طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ" .
ابو سلمہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس زمین کا ایک جھگڑا لے کر حاضر ہوئے، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا اے ابو سلمہ! زمین چھوڑ دو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص ایک بالشت بھر زمین بھی کسی سے ظلماً لیتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گلے میں سات زمینوں کا وہ حصہ طوق بنا کر ڈالے گا۔
ابو سعید رقاشی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے پردہ کے پیچھے سے مجھے ایک مٹکا دکھایا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس جیسے مٹکے بنانے سے منع فرماتے تھے اور اسے ناپسند کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى سعيد
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے چاند دکھایا جو طلوع ہو رہا تھا اور فرمایا عائشہ! اس اندھیری رات کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو جب وہ چھا جایا کرے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ضرورت سے زائد پانی یا کنوئیں میں بچ رہنے والے پانی کے استعمال سے کسی کو روکا نہ جائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع اور وہاں مدفون مسلمانوں کے لئے دعا فرماتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے ان کیلئے دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه لأن أبا بكر لم يسمع من عائشة
حدثنا عبد الله بن بكر السهمي , حدثنا حاتم بن ابي صغيرة , عن ابي قزعة ، ان عبد الملك بينما هو يطوف بالبيت إذ قال: قاتل الله ابن الزبير حيث يكذب على ام المؤمنين , يقول: سمعتها وهي تقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يا عائشة , لولا حدثان قومك بالكفر لنقبت البيت" قال ابي: قال الانصاري: لنقضت البيت حتى ازيد فيه من الحجر , فإن قومك قصروا عن البناء , فقال الحارث بن عبد الله بن ابي ربيعة: لا تقل هذا يا امير المؤمنين , فانا سمعت ام المؤمنين تحدث هذا , فقال: لو كنت سمعت هذا قبل ان اهدمه , لتركته على بناء ابن الزبير .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ , حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ , عَنْ أَبِي قَزَعَةَ ، أَنَّ عَبْدَ الْمَلِكِ بَيْنَمَا هُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ إِذْ قَالَ: قَاتَلَ اللَّهُ ابْنَ الزُّبَيْرِ حَيْثُ يَكْذِبُ عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ , يَقُولُ: سَمِعْتُهَا وَهِيَ تَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَا عَائِشَةُ , لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَبْتُ الْبَيْتَ" قَالَ أَبِي: قَالَ الْأَنْصَارِيُّ: لَنَقَضْتُ الْبَيْتَ حَتَّى أَزِيدَ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ , فَإِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرُوا عَنِ الْبِنَاءِ , فَقَالَ الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ: لَا تَقُلْ هَذَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , فَأَنَا سَمِعْتُ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ تُحَدِّثُ هَذَا , فَقَالَ: لَوْ كُنْتُ سَمِعْتُ هَذَا قَبْلَ أَنْ أَهْدِمَهُ , لَتَرَكْتُهُ عَلَى بِنَاءِ ابْنِ الزُّبَيْرِ .
ابو قزعہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ خلیفہ عبدالملک بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا، دوران طواف وہ کہنے لگا کہ ابن زبیر پر اللہ کی مار ہو، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف جھوٹی نسبت کر کے کہتا ہے کہ میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر کے قریب نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کو شہید کر کے حطیم کا حصہ بھی اس میں شامل کردیتا کیونکہ تمہاری قوم نے بیت اللہ کی عمارت میں سے اسے چھوڑ دیا تھا، اس پر حارث بن عبداللہ بن ابی ربیعہ نے کہا امیر المومنین! یہ بات نہ کہیں کیونکہ یہ حدیث تو میں نے بھی ام المومنین سے سنی ہے، تو عبدالملک نے کہا کہ اگر میں نے اسے شہید کرنے سے پہلے یہ حدیث سنی ہوتی تو میں اسے ابن زبیر کی تعمیر پر برقرار رہنے دیتا۔
حدثنا يحيى بن آدم , قال: حدثنا حسن بن عياش اليس ذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم" انه كان يصبح وهو جنب فيغتسل ويصوم؟" , فقال سفيان: حدثنيه حماد , عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَيَّاشٍ أَلَيْسَ ذُكِرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنَّهُ كَانَ يُصْبِحُ وَهُوَ جُنُبٌ فَيَغْتَسِلُ وَيَصُومُ؟" , فَقَالَ سُفْيَانُ: حَدَّثَنِيهِ حَمَّادٌ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت حالت جنابت میں ہوتے تو غسل کر کے روزہ رکھ لیتے تھے۔
حدثنا يحيى بن آدم , ، قال: حدثنا إسرائيل , عن منصور , عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قالت: " خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه لا يرون إلا انه الحج , فلما طاف بالبيت , وامر اصحابه فطافوا , امرهم فحلوا , قالت: وكنت قد حضت , فوقفت المواقف كلها إلا الطواف بالبيت , فقلت: يرجعون بعمرة وحجة وارجع بحجة؟ قالت: فارسل معي اخي , فلقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم مصعدا مدلجا على اهل المدينة , وانا مدلجة على اهل مكة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ لَا يَرَوْنَ إِلَّا أَنَّهُ الْحَجُّ , فَلَمَّا طَافَ بِالْبَيْتِ , وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ فَطَافُوا , أَمَرَهُمْ فَحَلُّوا , قَالَتْ: وَكُنْتُ قَدْ حِضْتُ , فَوَقَفْتُ الْمَوَاقِفَ كُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ , فَقُلْتُ: يَرْجِعُونَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ وَأَرْجِعُ بِحَجَّةٍ؟ قَالَتْ: فَأَرْسَلَ مَعِي أَخِي , فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصْعِدًا مُدْلِجًا عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ , وَأَنَا مُدْلِجَةٌ عَلَى أَهْلِ مَكَّةَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، ہماری نیت صرف حج کرنا تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ پہنچے اور بیت اللہ کا طواف کیا لیکن احرام نہیں کھولا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہدی کا جانور تھا، آپ کو ازواج مطہرات اور صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی طواف و سعی کی اور ان تمام لوگوں نے احرام کھول لیا جن کے ساتھ نہیں تھا۔ میں ایام سے تھی، ہم لوگ اپنے مناسک حج ادا کر کے جب کوچ کرنے کے لئے مقام حصبہ پر پہنچے تو میں نے عرض کے یا رسول اللہ! کیا آپ کے صحابہ حج اور عمرہ دونوں کے ساتھ اور میں صرف حج کے ساتھ واپس جاؤں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تھے تو کیا تم نے ان دونوں میں طواف نہیں کیا تھا؟ میں نے عرض کیا نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ میرے بھائی کو بھیج دیا، پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کے وقت ملی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے بالائی حصے پر چڑھ رہے تھے اور میں نیچے اتر رہی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانور یعنی بکری کے قلادے بٹا کرتی تھی، اس کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے اپنے آپ کو نہیں روکتے تھے (جن سے محرم بچتے تھے)۔
حدثنا يحيى بن آدم , حدثنا مفضل , عن منصور , عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قالت: خرجنا نريد الحج , فلم اطف , فقلت: يرجعون يا رسول الله بعمرة وحجة وارجع بحجة؟ قالت صفية: ما اراني إلا حابستكم , قال: " عقرى حلقى" , قال:" طفت يوم النحر؟" , قالت: نعم , قالت: فامرها فنفرت .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: خَرَجْنَا نُرِيدُ الْحَجَّ , فَلَمْ أَطُفْ , فَقُلْتُ: يَرْجِعُونَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ وَأَرْجِعُ بِحَجَّةٍ؟ قَالَتْ صَفِيَّةُ: مَا أُرَانِي إِلَّا حَابِسَتَكُمْ , قَالَ: " عَقْرَى حَلْقَى" , قَالَ:" طُفْتِ يَوْمَ النَّحْرِ؟" , قَالَتْ: نَعَمْ , قَالَتْ: فَأَمَرَهَا فَنَفَرَتْ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، ہماری نیت صرف حج کرنا تھی، میں نے عرض کیا یار سول اللہ! کیا آپ کے صحابہ حج اور عمرہ دونوں کے ساتھ اور میں صرف حج کے ساتھ واپس جاؤنگی؟ اسی دوران حضرت صفیہ کے " ایام " شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ عورتیں تو کاٹ دیتی ہیں اور مونڈ دیتی ہیں، تم ہمیں ٹھہرنے پر مجبور کر دوگی، کیا تم نے دس ذی الحجہ کو طواف زیارت نہیں کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس پھر کوئی حرج نہیں، اب روانہ ہوجاؤ۔
حدثنا يحيى بن آدم , حدثنا مفضل , عن الاعمش ، عن مسلم , عن مسروق , عن عائشة , قالت: ما رايت النبي صلى الله عليه وسلم منذ نزلت عليه إذا جاء نصر الله والفتح يصلي صلاة إلا دعا , وقال: " سبحانك ربي وبحمدك , اللهم اغفر لي" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ , عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ , عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ نَزَلَتْ عَلَيْهِ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ يُصَلِّي صَلَاةً إِلَّا دَعَا , وَقَالَ: " سُبْحَانَكَ رَبِّي وَبِحَمْدِكَ , اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سورت نصر کے نزول کے بعد میں نے جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء کر کے یہ ضرور کہا " سُبْحَانَكَ رَبِّي وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي "
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ (میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور گویا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور گویا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ میں حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
حدثنا يحيى بن آدم , قال: حدثنا سفيان , عن منصور , عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة ، ان صفية حاضت قبل النفر , فسالت النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: " كنت طفت طواف يوم النحر؟" قالت: نعم , فامرها ان تنفر , فنفرت .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ صَفِيَّةَ حَاضَتْ قَبْلَ النَّفْرِ , فَسَأَلَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: " كُنْتِ طُفْتِ طَوَافَ يَوْمِ النَّحْرِ؟" قَالَتْ: نَعَمْ , فَأَمَرَهَا أَنْ تَنْفِرَ , فَنَفَرَتْ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رونگی سے پہلے حضرت صفیہ کے " ایام " شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ہمیں ٹھہرنے پر مجبور کر دوگی، کیا تم نے دس ذی الحجہ کو طواف زیارت نہیں کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس پھر کوئی حرج نہیں، اب روانہ ہوجاؤ۔
حدثنا يحيى بن آدم , قال: حدثنا شريك , عن خصيف , قال: حدثني رجل منذ ثلاثين سنة , عن عائشة , قالت: اجمرت شعري إجمارا شديدا , فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عائشة , اما علمت ان على كل شعرة جنابة؟" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ خَصِيفٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مُنْذُ ثَلَاثِينَ سَنَةً , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: أَجْمَرْتُ شَعْرِي إِجْمَارًا شَدِيدًا , فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَائِشَةُ , أَمَا عَلِمْتِ أَنَّ عَلَى كُلِّ شَعَرَةٍ جَنَابَةً؟" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے سر کے بالوں کا بڑا مضبوط جوڑا باندھ لیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ جنابت کا اثر ہر بال تک پہنچتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الرجل الراوي عن عائشة ولضعف شريك
شریح کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ ظہر کی نماز پڑھتے تھے اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
حدثنا مصعب بن المقدام , قال: حدثنا إسرائيل , عن المقدام , عن ابيه , انه سال عائشة ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع قبل ان يخرج؟ قالت:" كان يصلي الركعتين قبل الفجر , ثم يخرج إلى الصلاة , فإذا دخل تسوك" .حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ , قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ , عَنِ الْمِقْدَامِ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ؟ قَالَتْ:" كَانَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ , ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ , فَإِذَا دَخَلَ تَسَوَّكَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے تو سب سے پہلے مسواک فرماتے تھے اور جب گھر سے نکلتے تھے تو سب سے آخر میں فجر سے پہلے کی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
حدثنا اسباط بن محمد , قال: حدثنا مطرف , عن الشعبي ، عن مسروق , عن عائشة , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يبيت جنبا فياتيه بلال , فيؤذنه بالصلاة , فيقوم فيغتسل , فانظر إلى تحادر الماء في شعره وجلده , ثم يخرج , فاسمع صوته في صلاة الفجر , ثم يظل صائما" .حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ , عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبِيتُ جُنُبًا فَيَأْتِيهِ بِلَالٌ , فَيُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ , فَيَقُومُ فَيَغْتَسِلُ , فَأَنْظُرُ إِلَى تَحَادُرِ الْمَاءِ فِي شَعْرِهِ وَجِلْدِهِ , ثُمَّ يَخْرُجُ , فَأَسْمَعُ صَوْتَهُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ , ثُمَّ يَظَلُّ صَائِمًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات صبح کے وقت اختیاری طور پر ناپاک ہوتے تو غسل فرماتے، ان کے بالوں اور جسم سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوتے تھے اور وہ نماز کیلئے چلے جاتے اور میں ان کی قرأت سنتی تھی اور اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على عامر
حدثنا اسباط , حدثنا مطرف , عن عامر , عن مسروق , عن عائشة , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يظل صائما , ما يبالي ما قبل من وجهي حتى يفطر" .حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ , حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ , عَنْ عَامِرٍ , عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَظَلُّ صَائِمًا , مَا يُبَالِي مَا قَبَّلَ مِنْ وَجْهِي حَتَّى يُفْطِرَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مجھے بوسہ دے دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔
حدثنا محمد بن عبيد , قال: حدثنا وائل , قال: سمعت البهي يحدث، ان عائشة قالت: " ما بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن حارثة في جيش قط إلا امره عليهم , وإن بقي بعده استخلفه" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا وَائِلٌ , قَالَ: سَمِعْتُ الْبَهِيَّ يُحَدِّثُ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: " مَا بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ فِي جَيْشٍ قَطُّ إِلَّا أَمَّرَهُ عَلَيْهِمْ , وَإِنْ بَقِيَ بَعْدَهُ اسْتَخْلَفَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کبھی لشکر میں حضرت زید بن حارثہ کو بھیجا تو انہی کو اس لشکر کا امیر مقرر فرمایا: اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہی کو اپنا خلیفہ مقرر فرماتے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن إن صح سماع البهي عن عائشة
حدثنا محمد بن عبيد , قال: حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم , عن الاسود , قال: اعتلج ناس , فاصاب طنب الفسطاط عين رجل منهم , فضحكوا , فقالت عائشة : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما من مؤمن تشوكه شوكة , فما فوقها , إلا حط الله عنه خطيئة , ورفع له بها درجة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , قَالَ: اعْتَلَجَ نَاسٌ , فَأَصَابَ طُنُبُ الْفُسْطَاطِ عَيْنَ رَجُلٍ مِنْهُمْ , فَضَحِكُوا , فَقَالَتْ عَائِشَةُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ مُؤْمِنٍ تَشُوكُهُ شَوْكَةٌ , فَمَا فَوْقَهَا , إِلَّا حَطَّ اللَّهُ عَنْهُ خَطِيئَةً , وَرَفَعَ لَهُ بِهَا دَرَجَةً" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بھی کم درجے کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔
حدثنا عارم بن الفضل , حدثنا ابو عوانة ، عن هلال بن ابي حميد , عن عروة بن الزبير , عن عائشة , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي لم يقم منه: " لعن الله اليهود، والنصارى , فإنهم اتخذوا قبور انبيائهم مساجد" قال: وقالت عائشة: لولا ذلك ابرز قبره , ولكنه خشي ان يتخذ مسجدا .حَدَّثَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ , حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي لَمْ يَقُمْ مِنْهُ: " لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى , فإنهم اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ" قَالَ: وَقَالَتْ عَائِشَةُ: لَوْلَا ذَلِكَ أَبْرَزَ قَبْرَهُ , وَلَكِنَّهُ خَشِيَ أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس مرض میں " جس سے آپ جانبر نہ ہو سکے " ارشاد فرمایا کہ یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت نازل ہو، انہوں نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف یہ اندیشہ تھا کہ ان کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنایا جائے ورنہ قبر مبارک کو کھلا رکھنے میں کوئی حرج نہ تھا۔
حدثنا عثمان بن عمر , قال: اخبرنا مالك , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " امر امراة ابي حذيفة فارضعت سالما خمس رضعات , فكان يدخل عليها بتلك الرضاعة" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَمَرَ امْرَأَةَ أَبِي حُذَيْفَةَ فَأَرْضَعَتْ سَالِمًا خَمْسَ رَضَعَاتٍ , فَكَانَ يَدْخُلُ عَلَيْهَا بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو حذیفہ کی بیوی کو حکم دیا کہ سالم کو پانچ گھونٹ دودھ پلا دے، پھر وہ اس رضاعت کی وجہ سے ان کے یہاں چلا جاتا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودیہ عورت کے متعلق فرمائی تھی کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رو رہی تھی اور میرے پاؤں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلے کی سمت میں ہوتے تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جانے لگتے تو مجھے چٹکی بھر دیتے اور میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی، جب وہ کھڑے ہوجاتے تو میں انہیں پھیلا لیتی تھی اور اس زمانے میں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔
حدثنا يحيى بن إسحاق , قال: اخبرني جعفر بن كيسان , قال: حدثتني معاذة ، قالت: سمعت عائشة ، تقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فناء امتي بالطعن والطاعون" , قالت: فقلت: يا رسول الله , هذا الطعن قد عرفناه , فما الطاعون؟ قال:" غدة كغدة الإبل , المقيم فيها كالشهيد , والفار منها كالفار من الزحف" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ , قَالَ: أَخْبَرَنِي جَعْفَرُ بْنُ كَيْسَانَ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي مُعَاذَةُ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَنَاءُ أُمَّتِي بِالطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ" , قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا الطَّعْنُ قَدْ عَرَفْنَاهُ , فَمَا الطَّاعُونُ؟ قَالَ:" غُدَّةٌ كَغُدَّةِ الْإِبِلِ , الْمُقِيمُ فِيهَا كَالشَّهِيدِ , وَالْفَارُّ مِنْهَا كَالْفَارِّ مِنَ الزَّحْفِ" .
معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے میری امت صرف نیزہ بازی اور طاعون سے ہی ہلاک ہوگی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! نیزہ بازی کا مطلب تو ہم سمجھ گئے، یہ طاعون سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ ایک گلٹی ہوتی ہے جو اونٹ کی گلٹی کے مشابہ ہوتی ہے، اس میں ثابت قدم والا شہید کی طرح ہوگا اور اس سے راہ فرار اختیار کرنے والا میدان جنگ سے بھاگنے والے کی طرح ہوگا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا طاعون سے بچ کر راہ فرار اختیار کرنے والا ایسے ہے جیسے میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے والا۔
حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم , حدثنا طلحة , قال: حدثتني ورقاء ، ان عائشة قالت: سمعت ابا القاسم صلى الله عليه وسلم يقول: " من كان عليه دين همه قضاؤه , او هم بقضائه , لم يزل معه من الله حارس" .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ , حَدَّثَنَا طَلْحَةُ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي وَرْقَاءُ ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ هَمَّهُ قَضَاؤُهُ , أَوْ هَمَّ بِقَضَائِهِ , لَمْ يَزَلْ مَعَهُ مِنَ اللَّهِ حَارِسٌ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص پر کوئی قرض ہو اور وہ اس کی ادائیگی کی فکر میں ہو تو اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے مسلسل ایک محافظ لگا رہتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان کے عشرہ اخیرہ میں جتنی محنت فرماتے تھے کسی اور موقع پر اتنی محنت نہیں فرماتے تھے۔
حدثنا حماد بن خالد , قال: حدثنا مالك , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" كان إذا مرض قرا على نفسه بالمعوذتين وينفث , قالت عائشة فلما ثقل جعلت انفث عليه بهما , وامسح بيمينه التماس بركتها" .حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا مَرِضَ قَرَأَ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ وَيَنْفُثُ , قَالَتْ عَائِشَةُ فَلَمَّا ثَقُلَ جَعَلْتُ أَنْفُثُ عَلَيْهِ بِهِمَا , وَأَمْسَحُ بِيَمِينِهِ الْتِمَاسَ بَرَكَتِهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر بیمار ہوجاتے تو معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیتے تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو ان کا دست مبارک پکڑتی تو یہ کلمات پڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ان کے جسم پر پھر دیتی، تاکہ ان کے ہاتھ کی برکت حاصل ہوجائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ہمارے اس طریقے کے علاوہ کوئی اور طریقہ ایجاد کرتا ہے تو وہ مردود ہے۔
حدثنا حماد , حدثنا افلح , عن القاسم , عن عائشة , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبح وهو جنب , فيغتسل ويصوم يومه" .حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , حَدَّثَنَا أَفْلَحُ , عَنِ الْقَاسِمِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْبِحُ وَهُوَ جُنُبٌ , فَيَغْتَسِلُ وَيَصُومُ يَوْمَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وجوبِ غسل کی حالت میں ہی سو گئے جب صبح ہوئی تو غسل کرلیا اور اس دن کا روزہ رکھ لیا۔
حدثنا حدثنا حماد وابو المنذر ، قالا: حدثنا عبد الواحد مولى عروة , عن عروة , عن عائشة , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قال الله عز وجل: من اذل لي وليا , فقد استحل محاربتي , وما تقرب إلي عبدي بمثل اداء الفرائض , وما يزال العبد يتقرب إلي بالنوافل حتى احبه , إن سالني اعطيته , وإن دعاني اجبته , ما ترددت عن شيء انا فاعله ترددي عن وفاته , لانه يكره الموت , واكره مساءته" , قال ابي: وقال ابو المنذر: قال حدثني عروة , قال: حدثتني عائشة , وقال ابو المنذر آذى لي.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَأَبُو الْمُنْذِرِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ مَوْلَى عُرْوَةَ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَنْ أَذَلَّ لِي وَلِيًّا , فَقَدْ اسْتَحَلَّ مُحَارَبَتِي , وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِمِثْلِ أَدَاءِ الْفَرَائِضِ , وَمَا يَزَالُ الْعَبْدُ يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ , إِنْ سَأَلَنِي أَعْطَيْتُهُ , وَإِنْ دَعَانِي أَجَبْتُهُ , مَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ وَفَاتِهِ , لِأَنَّهُ يَكْرَهُ الْمَوْتَ , وَأَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ" , قَالَ أَبِي: وَقَالَ أَبُو الْمُنْذِرِ: قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ , وَقَالَ أَبُو الْمُنْذِرِ آذَى لِي.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص میرے کسی دوست کی تذلیل کرتا ہے وہ مجھ سے جنگ کو حلال کرلیتا ہے اور فرائض کی ادائیگی سے زیادہ بندہ کسی چیز سے میرا قرب حاصل نہیں کرتا اور بندہ میرا قرب حاصل کرنے کے لئے مسلسل نوافل پڑھتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پھر اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اسے عطاء کرتا ہوں اور اگر دعاء کرتا ہے تو اسے قبول کرتا ہوں اور مجھے اپنے کسی کام میں ایسا تردد نہیں ہوتا جیسا اپنے بندے کی موت پر ہوتا ہے کیونکہ وہ موت کو پسند نہیں کرتا اور میں اسے تنگ کرنے کو اچھا نہیں سمجھتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالواحد مولي عروة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے سوال پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ہوتے تو کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک بشر تھے، وہ اپنے کپڑوں کو صاف کرلیتے تھے، بکری کا دودھ دو لیتے تھے اور اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرلیتے تھے۔
حدثنا حماد بن خالد , عن عبد الله , عن اخيه عبيد الله , عن القاسم , عن عائشة , قالت: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل يجد البلل , ولا يذكر احتلاما , قال: " يغتسل" وعن الرجل يرى انه قد احتلم , ولا يرى بللا , قال:" لا غسل عليه" فقالت ام سليم: هل على المراة ترى ذلك شيء؟ قال:" نعم , إنما النساء شقائق الرجال" .حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ أَخِيهِ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنِ الْقَاسِمِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَجِدُ الْبَلَلَ , وَلَا يَذْكُرُ احْتِلَامًا , قَالَ: " يَغْتَسِلُ" وَعَنِ الرَّجُلِ يَرَى أَنَّهُ قَدْ احْتَلَمَ , وَلَا يَرَى بَلَلًا , قَالَ:" لَا غُسْلَ عَلَيْهِ" فَقَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: هَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ تَرَى ذَلِك شَيْءٌ؟ قَالَ:" نَعَمْ , إِنَّمَا النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کا حکم پوچھا جو تری دیکھتا ہے لیکن اسے خواب یاد نہیں ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ غسل کرے گا، سائل نے پوچھا کہ جو آدمی سمجھتا ہو کہ اس نے خواب دیکھا ہے لیکن اسے تری نہ آئے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر غسل نہیں ہے، حضرت ام سلیم نے عرض کیا اگر عورت ایسی کوئی چیز دیکھتی ہے تو اس پر بھی غسل واجب ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! کیونکہ عورتیں مردوں کا جوڑا ہی تو ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله العمري
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي , قال: حدثنا يزيد بن إبراهيم , عن ابن ابي مليكة , عن القاسم بن محمد , عن عائشة , ان النبي صلى الله عليه وسلم تلا هذه الآية هو الذي انزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن ام الكتاب واخر متشابهات فاما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تاويله وما يعلم تاويله إلا الله سورة آل عمران آية 7 فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فإذا رايتم الذين يتبعون ما تشابه منه , فاولئك الذين سمى الله , او فهم , فاحذروهم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلا اللَّهُ سورة آل عمران آية 7 فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِذَا رَأَيْتُمْ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ , فَأُولَئِكَ الَّذِينَ سَمَّى اللَّهُ , أَوْ فَهُمْ , فَاحْذَروْهُمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی اللہ وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی ہے جس کی بعض آیتیں محکم ہیں، ایسی آیات ہی اس کتاب کی اصل ہیں اور کچھ آیات متشابہات میں سے بھی ہیں، جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہوتی ہے، وہ تو متشابہات کے پیچھے چل پڑتے ہیں تاکہ فتنہ پھیلائیں اور اس کی تاویل حاصل کرنے کی کوشش کریں، حالانکہ ان کی تاویل اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور علمی مضبوطی رکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت تو عقلمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔ اور فرمایا کہ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو قرآنی آیات میں جھگڑ رہے ہیں تو یہ وہی لوگ ہوں گے جو اللہ کی مراد ہیں، لہذا ان سے بچو۔
قرات على عبد الرحمن ، مالك , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت: إن الحارث بن هشام سال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، كيف ياتيك الوحي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " احيانا ياتيني في مثل صلصلة الجرس , وهو اشده علي , فيفصم عني وقد وعيت ما قال , واحيانا ياتيني , يتمثل لي الملك رجلا , فيكلمني , فاعي ما يقول" , قالت عائشة: ولقد رايته ينزل عليه في اليوم الشديد البرد , فيفصم عنه , وإن جبينه ليتفصد عرقا .قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، مَالِكٌ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: إِنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَحْيَانًا يَأْتِينِي فِي مِثْلِ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ , وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ , فَيَفْصِمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ مَا قَالَ , وَأَحْيَانًا يَأْتِينِي , يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا , فَيُكَلِّمُنِي , فَأَعِي مَا يَقُولُ" , قَالَتْ عَائِشَةُ: وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ , فَيَفْصِمُ عَنْهُ , وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بعض اوقات مجھ پر گھنٹی کی سنسناہٹ کی سی آواز میں وحی آتی ہے، یہ صورت مجھ پر سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے، لیکن جب یہ کیفیت مجھ سے دور ہوتی ہے تو میں پیغام الٰہی سمجھ چکا ہوتا ہوں اور بعض اوقات فرشتہ میرے پاس انسانی شکل میں آتا ہے اور وہ جو کہتا ہے میں اسے محفوظ کرلیتا ہوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور انہیں مشقت میں مبتلا کر دے تو یا اللہ اس پر مشقت فرما اور جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان پر نرمی کرے تو تو اس پر نرمی فرما۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کے ساتھ رات کو " تخلیہ " کیا اور وجوب غسل کی حالت میں ہی سو گئے جب صبح ہوئی تو غسل کرلیا اور اس دن کا روزہ رکھ لیا۔
حدثنا محمد بن إسماعيل , قال: حدثنا الضحاك , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن احدكم ياتيه الشيطان فيقول: من خلقك؟ فيقول: الله , فيقول: فمن خلق الله؟ فإذا وجد ذلك احدكم , فليقرا: آمنت بالله ورسله , فإن ذلك يذهب عنه" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ أَحَدَكُمْ يَأْتِيهِ الشَّيْطَانُ فَيَقُولُ: مَنْ خَلَقَكَ؟ فَيَقُولُ: اللَّهُ , فَيَقُولُ: فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَإِذَا وَجَدَ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ , فَلْيَقْرَأْ: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ , فَإِنَّ ذَلِكَ يُذْهِبُ عَنْهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کے پاس شیطان آکر یوں کہے کہ تمہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ اور وہ جواب دے کہ اللہ نے، پھر وہ یہ سوال کرے کہ اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے تو ایسی صورت میں اسے یوں کہنا چاہیے " آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ " اس سے وہ دور ہوجائے گا۔
حدثنا حجاج , قال: اخبرنا شريك , عن ابي إسحاق ، عن فروة بن نوفل , قال: قلت لعائشة اخبريني ببعض دعاء النبي صلى الله عليه وسلم؟ قالت: كان يقول: " اللهم إني اعوذ بك من شر ما عملت , ومن شر ما لم اعمل" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ فَرْوَةَ بْنِ نَوْفَلٍ , قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ أَخْبِرِينِي بِبَعْضِ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: كَانَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ , وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے، اے اللہ! میں ان چیزوں کے شر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں جو میرے نفس نے کی ہیں یا نہیں کیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لأجل شريك
حدثنا روح , قال: حدثنا ابان بن صمعة , قال: حدثتني امي , قالت: سمعت عائشة تقول: كان نبي الله صلى الله عليه وسلم " ينهى عن الواشمة , والواصلة والمتواصلة , والنامصة والمتنمصة" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ صَمْعَةَ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمِّي , قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَنْهَى عَنِ الْوَاشِمَةِ , وَالْوَاصِلَةِ وَالْمُتَوَاصِلَةِ , وَالنَّامِصَةِ وَالْمُتَنَمِّصَةِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے کو مل دل کرنے صاف کرنے، جسم گودنے اور گودوانے، بال ملانے اور ملوانے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة والدة أبان، والنهي عن الأمور الواردة ثابت بالأحاديث الصحيحة
حدثنا روح , قال: حدثنا هشام بن حسان , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , انها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما يضر امراة نزلت بين بيتين من الانصار , او نزلت بين ابويها" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يَضُرُّ امْرَأَةً نَزَلَتْ بَيْنَ بَيْتَيْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ , أَوْ نَزَلَتْ بَيْنَ أَبَوَيْهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر کوئی عورت انصار کے دو گھروں کے درمیان یا اپنے والدین کے یہاں مہمان بنے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بھی کم درجے کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
حدثنا روح , قال: حدثنا اسامة بن زيد , قال: حدثنا ابن شهاب , عن عروة , عن عائشة , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يسرد سردكم هذا , يتكلم بكلام بينه فصل , يحفظه من سمعه" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَسْرُدُ سَرْدَكُمْ هَذَا , يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ بَيْنَهُ فَصْلٌ , يَحْفَظُهُ مَنْ سَمِعَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح احادیث بیان نہیں فرمایا کرتے تھے جس طرح تم بیان کرتے ہو، وہ اس طرح واضح گفتگو فرماتے تھے کہ اسے ہر سننے والا محفوظ کرلیتا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن لأجل أسامة بن زيد الليثي
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھیں، اس دوران انہوں نے اپنے اونٹ پر لعنت بھیجی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس بھیج دینے کا حکم دیا اور فرمایا میرے ساتھ کوئی ملعون چیز نہیں جانی چاہیے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال سے منع فرمایا ہے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ تو اسی طرح روزے رکھتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں، میں تو اس حال میں رات گذارتا ہوں کہ مجھے کھلا پلا دیا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة قريبة وعاصم
حدثنا وهب بن جرير , قال: حدثني ابي , قال: سمعت حرملة المصري يحدث، عن عبد الرحمن بن شماسة المهري , قال: دخلت على عائشة , فقالت: من انت؟ فقلت: انا رجل من اهل مصر , فذكر قصة , فقالت: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اللهم من ولي من امر امتي فرفق بهم , فارفق به , ومن شق عليهم , فاشقق عليه" .حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: سَمِعْتُ حَرْمَلَةَ الْمِصْرِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ , فَقَالَتْ: مَنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: أَنَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ , فَذَكَرَ قِصَّةً , فَقَالَتْ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي فَرَفَقَ بِهِمْ , فَارْفُقْ بِهِ , وَمَنْ شَقَّ عَلَيْهِمْ , فَاشْقُقْ عَلَيْهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور انہیں مشقت میں مبتلا کر دے تو یا اللہ تو اس پر مشقت فرما اور جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ بنے اور ان پر نرمی کرے تو تو اس پر نرمی فرما۔
حدثنا هاشم , عن ابن ابي ذئب , عن عمران بن بشير , عن سالم سبلان , قال: خرجنا مع عائشة إلى مكة , فكانت تخرج بابي يحيى التيمي يصلي لها , فادركنا عبد الرحمن بن ابي بكر فاساء الوضوء , فقالت له عائشة: يا عبد الرحمن , اسبغ الوضوء , فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ويل للاعقاب من النار" .حَدَّثَنَا هَاشِمٌ , عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ , عَنْ عِمْرَانَ بْنِ بَشِيرٍ , عَنْ سَالِمٍ سَبَلَانَ , قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ عَائِشَةَ إِلَى مَكَّةَ , فَكَانَتْ تَخْرُجُ بِأَبِي يَحْيَى التَّيْمِيِّ يُصَلِّي لَهَا , فَأَدْرَكَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ فَأَسَاءَ الْوُضُوءَ , فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ , أَسْبِغْ الْوُضُوءَ , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ" .
ابو سلمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں وضو کیا تو انہوں نے فرمایا عبدالرحمن! اچھی طرح اور مکمل وضو کرو، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ سے ہلاکت ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عمران بن بشير مجهول ولكن تابعه يحيى بن أبى كثير
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا اے اللہ کے نبی! یہ بتائیے کہ اگر مجھے شب قدر حاصل ہوجائے تو میں اس میں کیا دعا مانگوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یہ دعا مانگا کرو کہ اے اللہ! تو خوب معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند بھی کرتا ہے، لہذا مجھے بھی معاف فرما دے۔
عمرو بن میمون رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روزے کی حالت میں بیوی کو بوسہ دینے کا حکم پوچھا، تو انہوں نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی ازواج کو بوسہ دیدیا کرتے تھے۔
حدثنا عفان , قال: حدثنا ابو عوانة ، عن سماك , عن عكرمة , عن عائشة , زعم انه سمعه منها , انها رات النبي صلى الله عليه وسلم يدعو رافعا يديه يقول: " اللهم إني بشر , فلا تعاقبني ايما رجل من المؤمنين آذيته وشتمته فلا تعاقبني فيه" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , زَعَمَ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْهَا , أَنَّهَا رَأَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو رَافِعًا يَدَيْهِ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي بَشَرٌ , فَلَا تُعَاقِبْنِي أَيُّمَا رَجُلٍ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ آذَيْتُهُ وَشَتَمْتُهُ فَلَا تُعَاقِبْنِي فِيهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے ہاتھ پھیلا کر دعا کی کہ اے اللہ! میں بھی انسان ہوں اس لئے آپ کے جس بندے کو میں نے مارا ہو یا ایذاء پہنچائی ہو تو اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کیجئے گا۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف بهذه السياقة لأن رواية سماك عن عكرمة مضطربة
حدثنا عفان , قال: حدثنا همام , حدثنا قتادة , عن زرارة بن اوفى , ان سعد بن هشام ، حدثه، عن عائشة , سمعه منها , قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فاته القيام من الليل , غلبته عيناه بنوم او وجع صلى ثنتي عشرة ركعة من النهار" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , حَدَّثَنَا قَتَادَةُ , عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى , أَنَّ سَعْدَ بْنَ هِشَامٍ ، حَدَّثَهُ، عَنْ عَائِشَةَ , سَمِعَهُ مِنْهَا , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَاتَهُ الْقِيَامُ مِنَ اللَّيْلِ , غَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ بِنَوْمٍ أَوْ وَجَعٍ صَلَّى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ النَّهَارِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی دن نیند کے غلبے یا بیماری کی وجہ سے تہجد کی نماز چھوٹ جاتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت بارہ رکعتیں پڑھ لیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری گود کے ساتھ ٹیک لگا کر قرآن کریم کی تلاوت فرما لیا کرتے تھے حالانکہ میں ایام سے ہوتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز فجر میں خواتین بھی شریک ہوتی تھیں، پھر اپنی چادروں میں اس طرح لپٹ کر نکلتی تھیں کہ انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔
حدثنا يونس , قال: حدثنا يزيد بن زريع , قال: حدثنا معمر , عن الزهري , عن عروة , عن عائشة , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خمس فواسق يقتلن في الحرم الفارة , والعقرب , والغراب , والحديا , والكلب العقور" .حَدَّثَنَا يُونُسُ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ الْفَأْرَةُ , وَالْعَقْرَبُ , وَالْغُرَابُ , وَالْحُدَيَّا , وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پانچ چیزیں " فواسق " میں سے ہیں جنہیں حرم میں قتل کیا جاسکتا ہے، بچھو، چوہا، چیل، باؤلا کتا اور کوا۔
حدثنا يونس , قال: حدثنا ابان , عن يحيى , عن ابي سلمة بن عبد الرحمن , انه دخل على عائشة وهو يخاصم في دار , فقالت عائشة : يا ابا سلمة , اجتنب الارض , فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من ظلم شبرا من الارض طوقه يوم القيامة من سبع ارضين" .حَدَّثَنَا يُونُسُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ , عَنْ يَحْيَى , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ وَهُوَ يُخَاصِمُ فِي دَارٍ , فَقَالَتْ عَائِشَةُ : يَا أَبَا سَلَمَةَ , اجْتَنِبْ الْأَرْضَ , فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ ظَلَمَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ طُوِّقَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ" .
ابو سلمہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس زمین کا ایک جھگڑا لے کر حاضر ہوئے، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا اے ابوسلمہ! زمین چھوڑ دو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص ایک بالشت بھر زمین بھی کسی سے ظلماً لیتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گلے میں سات زمینوں کا وہ حصہ طوق بنا کر ڈالے گا۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع لأن يحيى لم يسمع هذا الحديث من أبى سلمة
حدثنا يونس وحسن بن موسى ، قالا: حدثنا حماد يعني ابن سلمة , عن علي بن زيد , عن الحسن , ان ام سلمة ،: قال حسن: عن ام سلمة، قالت: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم مضطجعا في بيتي , إذ احتفز جالسا وهو يسترجع , فقلت: بابي انت وامي , ما شانك يا رسول الله تسترجع؟ قال: " جيش من امتي يجيئون من قبل الشام , يؤمون البيت لرجل يمنعه الله منهم , حتى إذا كانوا بالبيداء من ذي الحليفة , خسف بهم , ومصادرهم شتى" , فقلت: يا رسول الله , كيف يخسف بهم جميعا , ومصادرهم شتى؟ فقال:" إن منهم من جبر , إن منهم من جبر ," ثلاثا .حَدَّثَنَا يُونُسُ وَحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ , عَنِ الْحَسَنِ , أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ ،: قَالَ حَسَنٌ: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِي , إِذْ احْتَفَزَ جَالِسًا وَهُوَ يَسْتَرْجِعُ , فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي , مَا شَأْنُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَسْتَرْجِعُ؟ قَالَ: " جَيْشٌ مِنْ أُمَّتِي يَجِيئُونَ مِنْ قِبَلِ الشَّامِ , يَؤُمُّونَ الْبَيْتَ لِرَجُلٍ يَمْنَعُهُ اللَّهُ مِنْهُمْ , حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ , خُسِفَ بِهِمْ , وَمَصَادِرُهُمْ شَتَّى" , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَيْفَ يُخْسَفُ بِهِمْ جَمِيعًا , وَمَصَادِرُهُمْ شَتَّى؟ فَقَالَ:" إِنَّ مِنْهُمْ مَنْ جُبِرَ , إِنَّ مِنْهُمْ مَنْ جُبِرَ ," ثَلَاثًا .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے اور انا للہ پڑھنے لگے، میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ! کیا بات ہے کہ آپ انا للہ پڑھ رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امت کا ایک لشکر شام کی جانب سے آئے گا اور ایک آدمی کو گرفتار کرنے کے لئے بیت اللہ کا قصد کرے گا، اللہ اس آدمی کی اس لشکر سے حفاظت فرمائے گا اور جب وہ لوگ ذوالحلیفہ سے مقام بیداء کے قریب پہنچیں گے تو ان سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور انہیں مختلف جگہوں سے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا، میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیا بات ہوئی کہ ان سب کو دھنسایا تو اکٹھے جائے گا اور اٹھایا مختلف جگہوں سے جائے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ اس لشکر میں بعض لوگوں کو زبر دستی شامل کرلیا گیا ہوگا۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة لاضطراب حماد فيه
حدثنا يعقوب , وقال: حدثنا ابن اخي ابن شهاب , عن عمه , قال: اخبرني عروة بن الزبير , انه سمع عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، تقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " خمس من الدواب كلهن فاسق , يقتلن في الحرم الغراب , والحية , والعقرب , والكلب العقور , والحداة" وفي كتاب يعقوب في موضع آخر مكان الحية الفارة.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , وَقَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عَمِّهِ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ كُلُّهُنَّ فَاسِقٌ , يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ الْغُرَابُ , وَالْحَيَّةُ , وَالْعَقْرَبُ , وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ , وَالْحِدَأَةُ" وَفِي كِتَابِ يَعْقُوبَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مَكَانَ الْحَيَّةِ الْفَأْرَةُ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پانچ چیزیں " فواسق " میں سے ہیں جنہیں حرم میں قتل کیا جاسکتا ہے، بچھو، چوہا، چیل، باؤلا کتا اور کوا۔
حدثنا يونس , قال: حدثنا حماد يعني ابن سلمة , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: " إذا وجد احدكم النوم وهو يصلي , فليرقد حتى يذهب نومه , إن احدكم عسى ان يذهب يستغفر الله فيسب نفسه" .حَدَّثَنَا يُونُسُ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ النَّوْمَ وَهُوَ يُصَلِّي , فَلْيَرْقُدْ حَتَّى يَذْهَبَ نَوْمُهُ , إِنَّ أَحَدَكُمْ عَسَى أَنْ يَذْهَبَ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فَيَسُبُّ نَفْسَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو اونگھ آئے تو اسے سو جانا چاہیے، یہاں تک کہ اس کی نیند پوری ہوجائے، کیونکہ اگر وہ اسی اونگھ کی حالت میں نماز پڑھنے لگے تو ہوسکتا ہے کہ استغفار کرنے لگے اور بیخبر ی میں اپنے آپ کو گالیاں دینے لگے۔
حدثنا يونس , حدثنا حماد , عن سماك , عن عكرمة , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل علي بيتي في إزار ورداء , فاستقبل القبلة , وبسط يده , ثم قال: " اللهم إنما انا بشر، فاي عبد من عبادك شتمت , او آذيت , فلا تعاقبني فيه" .حَدَّثَنَا يُونُسُ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيَّ بَيْتِي فِي إِزَارٍ وَرِدَاءٍ , فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ , وَبَسَطَ يَدَهُ , ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، فَأَيُّ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِكَ شَتَمْتُ , أَوْ آذَيْتُ , فَلَا تُعَاقِبْنِي فِيهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک تہبند اور ایک چادر میں تشریف لائے، قبلہ کی جانب رخ کیا اور اپنے ہاتھ پھیلا کر دعا کی کہ اے اللہ! میں بھی ایک انسان ہوں اس لئے آپ کے جس بندے کو میں نے مارا ہو یا ایذا پہنچائی ہو تو اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کیجئے گا۔
حكم دارالسلام: ضعيف بهذه السياقة ورواية سماك عن عكرمة مضطربة
حدثنا يونس , قال: حدثنا ليث , عن يزيد يعني ابن الهاد , عن عمرو , عن المطلب , ان عبد الله بن عامر، بعث إلى عائشة بنفقة وكسوة , فقالت لرسوله: يا بني , إني لا اقبل من احد شيئا , فلما خرج قالت: ردوه علي , فردوه , فقالت: إني ذكرت شيئا قاله لي رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يا عائشة , من اعطاك عطاء بغير مسالة , فاقبليه , فإنما هو رزق عرضه الله لك" .حَدَّثَنَا يُونُسُ , قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ , عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْهَادِ , عَنْ عَمْرٍو , عَنِ الْمُطَّلِبِ , أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرٍ، بَعَثَ إِلَى عَائِشَةَ بِنَفَقَةٍ وَكِسْوَةٍ , فَقَالَتْ لِرَسُولِهِ: يَا بُنَيَّ , إِنِّي لَا أَقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ شَيْئًا , فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ: رُدُّوهُ عَلَيَّ , فَرَدُّوهُ , فَقَالَتْ: إِنِّي ذَكَرْتُ شَيْئًا قَالَهُ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَا عَائِشَةُ , مَنْ أَعْطَاكِ عَطَاءً بِغَيْرِ مَسْأَلَةٍ , فَاقْبَلِيهِ , فَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ عَرَضَهُ اللَّهُ لَكِ" .
مطلب بن حطیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عامر رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں کچھ نفقہ اور کپڑے بھجوائے، انہوں نے قاصد سے فرمایا بیٹا! میں کسی کی کوئی چیز قبول نہیں کرتی، جب وہ جانے لگا تو انہوں نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لاؤ۔ لوگ اسے بلا لائے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھے ایک بات یاد آگئی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سے فرمائی تھی کہ اے عائشہ! جو شخص تمہیں بن مانگے کوئی ہدیہ پیش کرے تو اسے قبول کرلیا کرو، کیونکہ وہ رزق ہے جو اللہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، المطلب لم يدرك عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو میں ان کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھی، جب وہ وتر پڑھنا چاہتے تو میرے پاؤں کو چھو دیتے، میں سمجھ جاتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھنے لگے ہیں لہذا میں پیچھے ہٹ جاتی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر کوئی عورت اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح نہیں ہوا اور بادشاہ اس کا ولی ہوگا جس کا کوئی ولی نہ ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف حجاج
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! جو شخص میری امت پر نرمی کرے تو اس پر نرمی فرما اور جو ان پر سختی کرے تو اس پر سختی فرما۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على جعفر بن برقان
حدثنا يونس وحسن , قالا: حدثنا مهدي , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , انها سئلت ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يعمل في بيته؟ قالت:" كان يخيط ثوبه , ويخصف نعله , قالت: وكان يعمل ما يعمل الرجال في بيوتهم" .حَدَّثَنَا يُونُسُ وَحَسَنٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا سُئِلَتْ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ فِي بَيْتِهِ؟ قَالَتْ:" كَانَ يَخِيطُ ثَوْبَهُ , وَيَخْصِفُ نَعْلَهُ , قَالَتْ: وَكَانَ يَعْمَلُ مَا يَعْمَلُ الرِّجَالُ فِي بُيُوتِهِمْ" .
عروہ کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا جیسے تم میں سے کوئی آدمی کرتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتی خود سی لیتے تھے اور اپنے کپڑوں پر خود ہی پیوند لگا لیتے تھے۔
حدثنا يونس , حدثنا حماد يعني ابن زيد , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وهي وبيئة , ذكر ان الحمى صرعتهم , فمرض ابو بكر , وكان إذا اخذته الحمى يقول: كل امرئ مصبح في اهله والموت ادنى من شراك نعله قالت: وكان بلال إذا اخذته الحمى يقول: الا ليت شعري هل ابيتن ليلة بواد وحولي إذخر وجليل وهل اردن يوما مياه مجنة وهل يبدون لي شامة وطفيل اللهم العن عتبة بن ربيعة , وشيبة بن ربيعة , وامية بن خلف , كما اخرجونا من مكة , فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لقوا قال: " اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة , او اشد , اللهم صححها وبارك لنا في صاعها ومدها , وانقل حماها إلى الجحفة" قال: فكان المولود يولد بالجحفة , فما يبلغ الحلم حتى تصرعه الحمى .حَدَّثَنَا يُونُسُ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهِيَ وَبِيئَةٌ , ذُكِرَ أَنَّ الْحُمَّى صَرَعَتْهُمْ , فَمَرِضَ أَبُو بَكْرٍ , وَكَانَ إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى يَقُولُ: كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ قَالَتْ: وَكَانَ بِلَالٌ إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى يَقُولُ: أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدْنَ يَوْمًا مِيَاهَ مِجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ اللَّهُمَّ الْعَنْ عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ , وَشَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ , وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ , كَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ مَكَّةَ , فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَقُوا قَالَ: " اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ , أَوْ أَشَدَّ , اللَّهُمَّ صَحِّحْهَا وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا وَمُدِّهَا , وَانْقُلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ" قَالَ: فَكَانَ الْمَوْلُودُ يُولَدُ بِالْجُحْفَةِ , فَمَا يَبْلُغُ الْحُلُمَ حَتَّى تَصْرَعَهُ الْحُمَّى .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ اور بلال بھی بیمار ہوگئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان لوگوں کی عیادت کے لئے جانے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، انہوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ اپنی صحت کیسی محسوس کر رہے ہیں؟ انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " ہر شخص اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے جبکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتی ہے۔ " پھر میں نے عامر سے پوچھا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا " کہ موت کا مزہ چکھنے سے پہلے موت کو محسوس کر رہا ہوں اور قبرستان منہ کے قریب آگیا ہے۔ " پھر میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے ان کی طبیعت پوچھی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " ہائے! مجھے کیا خبر کہ میں دوبارہ " فخ " میں رات گزار سکوں گا اور میرے آس پاس " اذخر " اور " جلیل " نامی گھاس ہوگی اور کیا شامہ اور طفیل میرے سامنے واضح ہو سکیں گے؟ اے اللہ! عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت فرما جیسے انہوں نے ہمیں مکہ مکرمہ سے نکال دیا " حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئیں اور ان لوگوں کی باتیں بتائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا اے اللہ! مدینہ منورہ کو ہماری نگاہوں میں اسی طرح محبوب بنا جیسے مکہ کو بنایا تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اس سے بھی زیادہ، اے اللہ! مدینہ کے صاع اور مد میں برکتیں عطاء فرما اور اس کی وباء حجفہ کی طرف منتقل فرما۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا إسحاق بن عيسى , قال: اخبرني مالك , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , انها قالت: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة , وعك ابو بكر وبلال , فذكر الحديث , يعني حديث حماد , إلا انه لم يذكر قصة المولود.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى , قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكٌ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ , وُعِكَ أَبُو بَكْرٍ وَبِلَالٌ , فَذَكَرَ الْحَدِيثَ , يَعْنِي حَدِيثَ حَمَّادٍ , إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ قِصَّةَ الْمَوْلُودِ.
حدثنا يونس , قال: حدثنا حماد يعني ابن زيد , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة ، انها قالت: يا رسول الله , كل صواحبي لها كنية غيري , قال: " فاكتني بابنك عبد الله بن الزبير" , فكانت تدعى بام عبد الله حتى ماتت .حَدَّثَنَا يُونُسُ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كُلُّ صَوَاحِبِي لَهَا كُنْيَةٌ غَيْرِي , قَالَ: " فَاكْتَنِي بِابْنِكِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ" , فَكَانَتْ تُدْعَى بِأُمِّ عَبْدِ اللَّهِ حَتَّى مَاتَتْ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! میرے علاوہ آپ کی ہر بیوی کی کوئی نہ کوئی کنیت ضرور ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے بیٹے (بھانجے) عبداللہ کے نام پر اپنی کنیت رکھ لو چنانچہ انتقال تک انہیں " ام عبداللہ " کہہ کر پکارا جاتا رہا۔
حدثنا يونس , حدثنا حماد يعني ابن زيد , عن عمرو يعني ابن مالك , عن ابي الجوزاء , ان عائشة , قالت: كنت اعوذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بدعاء إذا مرض , كان جبريل يعيذه به , ويدعو له به إذا مرض , قالت فذهبت اعوذه به: " اذهب الباس رب الناس , بيدك الشفاء , لا شافي إلا انت , اشف شفاء لا يغادر سقما" , قالت: فذهبت ادعو له به في مرضه الذي توفي فيه , فقال:" ارفعي عني" قال:" فإنما كان ينفعني في المدة" .حَدَّثَنَا يُونُسُ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ , عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ مَالِكٍ , عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ , أَنَّ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كُنْتُ أُعَوِّذُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدُعَاءٍ إِذَا مَرِضَ , كَانَ جِبْرِيلُ يُعِيذُهُ بِهِ , وَيَدْعُو لَهُ بِهِ إِذَا مَرِضَ , قَالَتْ فَذَهَبْتُ أُعَوِّذُهُ بِهِ: " أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ , بِيَدِكَ الشِّفَاءُ , لَا شَافِيَ إِلَّا أَنْتَ , اشْفِ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا" , قَالَتْ: فَذَهَبْتُ أَدْعُو لَهُ بِهِ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ , فَقَالَ:" ارْفَعِي عَنِّي" قَالَ:" فَإِنَّمَا كَانَ يَنْفَعُنِي فِي الْمُدَّةِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو میں ان پر وہی کلمات پڑھ کر دم کرنے لگی جن سے حضرت جبرائیل علیہ السلام انہیں دم کرے تھے " اے لوگوں کے رب! اس کی تکلیف کو دور فرما۔ اسے شفاء عطا فرما کیونکہ تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے علاوہ کہیں سے شفاء نہیں مل سکتی، ایسی شفاء دے دے کہ جو بیماری کا نام نشان بھی نہ چھوڑے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو میں ان کا دست مبارک پکڑ کر یہ دعاء پڑھنے لگی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنا ہاتھ اٹھا لو، یہ ایک خاص وقت تک ہی مجھے نفع دے سکتی تھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: أرفعي عني، فإنما... فقد تفرد بها عمرو بن مالك، قال ابن حجر عنه: صدوق له اوهام
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پانچ چیزیں " فواسق " میں سے ہیں جنہیں حرم میں قتل کیا جاسکتا ہے، بچھو، چوہا، چیل، باؤلا کتا اور کوا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بھی کم درجے کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے بدلے اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد فيه كلام، خ: 5640، م: 2572
حدثنا يونس , حدثنا عمر بن إبراهيم اليشكري , قال: سمعت امي , تحدث، ان امها انطلقت إلى البيت حاجة , والبيت يومئذ له بابان , قالت: فلما قضيت طوافي دخلت على عائشة , قالت: قلت: يا ام المؤمنين , إن بعض بنيك بعث يقرئك السلام , وإن الناس قد اكثروا في عثمان , فما تقولين فيه؟ قالت: لعن الله من لعنه , لا احسبها إلا قالت: ثلاث مرار , لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مسند فخذه إلى عثمان , وإني لامسح العرق عن جبين رسول الله صلى الله عليه وسلم , وإن الوحي ينزل عليه , ولقد زوجه ابنتيه إحداهما على إثر الاخرى , وإنه ليقول: " اكتب عثمان" قالت: ما كان الله لينزل عبدا من نبيه بتلك المنزلة إلا عبدا عليه كريما .حَدَّثَنَا يُونُسُ , حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْيَشْكُرِيُّ , قَالَ: سَمِعْتُ أُمِّي , تُحَدِّثُ، أَنَّ أُمَّهَا انْطَلَقَتْ إِلَى الْبَيْتِ حَاجَّةً , وَالْبَيْتُ يَوْمَئِذٍ لَهُ بَابَانِ , قَالَتْ: فَلَمَّا قَضَيْتُ طَوَافِي دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , إِنَّ بَعْضَ بَنِيكِ بَعَثَ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ , وَإِنَّ النَّاسَ قَدْ أَكْثَرُوا فِي عُثْمَانَ , فَمَا تَقُولِينَ فِيهِ؟ قَالَتْ: لَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَهُ , لَا أَحْسِبُهَا إِلَّا قَالَتْ: ثَلَاثَ مِرَارٍ , لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسْنِدٌ فَخِذَهُ إِلَى عُثْمَانَ , وَإِنِّي لَأَمْسَحُ الْعَرَقَ عَنْ جَبِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِنَّ الْوَحْيَ يَنْزِلُ عَلَيْهِ , وَلَقَدْ زَوَّجَهُ ابْنَتَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى إِثْرِ الْأُخْرَى , وَإِنَّهُ لَيَقُولُ: " اكْتُبْ عُثْمَانُ" قَالَتْ: مَا كَانَ اللَّهُ لِيُنْزِلَ عَبْدًا مِنْ نَبِيِّهِ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ إِلَّا عَبْدًا عَلَيْهِ كَرِيمًا .
فاطمہ بنت عبدالرحمن اپنی والدہ کے حوالے سے نقل کرتی ہیں کہ ان کے چچا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ کا ایک بیٹا آپ کو سلام کہہ رہا ہے اور آپ سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھ رہا ہے، کیونکہ لوگ ان کی شان میں گستاخی کرے لگے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ جو لعنت کرے، اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو، واللہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پشت مبارک میرے ساتھ لگائے ہوتے تھے اور اسی دوران حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آجاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے تھے! عثمان! لکھو، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیوں سے ان کا نکاح کیا تھا، اللہ یہ مرتبہ اسی کو دے سکتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی نگاہوں میں معزز ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لأجل عمر بن إبراهيم اليشكري
حدثنا يونس , حدثنا حماد , عن حماد , عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قالت: " كان النبي صلى الله عليه وسلم معتكفا في المسجد , فيخرج راسه , فاغسله بالخطمي وانا حائض" .حَدَّثَنَا يُونُسُ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ حَمَّادٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا فِي الْمَسْجِدِ , فَيُخْرِجُ رَأْسَهُ , فَأَغْسِلُهُ بِالْخِطْمِيِّ وَأَنَا حَائِضٌ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معتکف ہوتے اور مسجد سے اپنا سر باہر نکال دیتے، میں اسے خطمی سے دھو دیتی حالانکہ میں ایام سے ہوتی تھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل حماد وقد توبع
حدثنا يونس وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة , عن علي بن زيد , عن ام محمد ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اهديت له قلادة جزع , فقال: " لادفعنها إلى احب اهلي إلي" , فقالت النساء: ذهبت بها ابنة ابي قحافة , فعلقها في عنق امامة بنت زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا يُونُسُ وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ , عَنْ أُمِّ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُهْدِيَتْ لَهُ قِلَادَةُ جَزْعٍ , فَقَالَ: " لَأَدْفَعَنَّهَا إِلَى أَحَبِّ أَهْلِي إِلَيَّ" , فَقَالَتْ النِّسَاءُ: ذَهَبَتْ بِهَا ابْنَةُ أَبِي قُحَافَةَ , فَعَلَّقَهَا فِي عُنُقِ أُمَامَةَ بِنْتِ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے ہدیہ آیا جس پر مہرہ کا ایک ہار بھی تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ہار میں اسے دوں گا جو مجھے اپنے اہل خانہ میں سے سب سے زیادہ محبوب ہو، عورتیں یہ سن کر کہنے لگیں کہ یہ ہار ابو قحافہ کی بیٹی لے گئی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امامہ بنت زینب کو بلایا اور ان کے گلے میں یہ ہار ڈال دیا۔
حدثنا يونس , حدثنا حماد يعني ابن سلمة , عن ثابت ، عن شميسة , عن عائشة ان بعيرا لصفية اعتل , وعند زينب فضل من الإبل , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لزينب: " إن بعير صفية قد اعتل , فلو انك اعطيتيها بعيرا" , قالت: انا اعطي تلك اليهودية , فتركها , فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم شهرين , او ثلاثا , حتى رفعت سريرها , وظنت انه لا يرضى عنها , قالت: فإذا انا بظله يوما بنصف النهار , فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعادت سريرها .حَدَّثَنَا يُونُسُ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ , عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ شُمَيْسَةَ , عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ بَعِيرًا لِصَفِيَّةَ اعْتَلَّ , وَعِنْدَ زَيْنَبَ فَضْلٌ مِنَ الْإِبِلِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِزَيْنَبَ: " إِنَّ بَعِيرَ صَفِيَّةَ قَدْ اعْتَلَّ , فَلَوْ أَنَّكِ أَعْطَيْتِيهَا بَعِيرًا" , قَالَتْ: أَنَا أُعْطِي تِلْكَ الْيَهُودِيَّةَ , فَتَرَكَهَا , فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرَيْنِ , أَوْ ثَلَاثًا , حَتَّى رَفَعَتْ سَرِيرَهَا , وَظَنَّتْ أَنَّهُ لَا يَرْضَى عَنْهَا , قَالَتْ: فَإِذَا أَنَا بِظِلِّهِ يَوْمًا بِنِصْفِ النَّهَارِ , فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعَادَتْ سَرِيرَهَا .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں تھے، دوران سفر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کا اونٹ بیمار ہوگیا، حضرت زینب رضی اللہ عنہ کے پاس اونٹ میں گنجائش موجود تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ صفیہ رضی اللہ عنہ کا اونٹ بیمار ہوگیا ہے، اگر تم انہیں اپنا ایک اونٹ دے دو تو ان کے لئے آسانی ہوجائے گی، انہوں نے کہا کہ میں اس یہودیہ کو اپنا اونٹ دوں گی؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ذوالحجہ اور محرم دو یا تین ماہ تک چھوڑے رکھا، ان کے پاس جاتے ہی نہ تھے، وہ خود کہتی ہیں کہ بالآخر میں ناامید ہوگئی اور اپنی چار پائی کی جگہ بدل لی، اچانک ایک دن نصف النہار کے وقت مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ سامنے سے آتا ہوا محسوس ہوا (اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے راضی ہوگئے)
حدثنا حدثنا يونس , قال: حدثنا حماد بن سلمة , عن هشام بن عروة , عن عروة , عن عائشة , قالت: لما نزلت هذه الآيات ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء سورة الاحزاب آية 51 قالت عائشة: فقلت: " يا رسول الله , ما ارى ربك إلا يسارع في هواك" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يُونُسُ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَاتُ تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ سورة الأحزاب آية 51 قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا أَرَى رَبَّكَ إِلَّا يُسَارِعُ فِي هَوَاكَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی آپ اپنی بیویوں میں سے جسے چاہیں مؤخر کردیں اور جسے چاہیں اپنے قریب کرلیں، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں تو یہی دیکھتی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی خواہشات پوری کرنے میں بڑی جلدی کرتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے لئے نکلتے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوتے تھے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غسل کا وجوب اختیاری طور پر ہوتا تھا، غیر اختیاری طور پر نہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن من أجل عاصم ابن بهدلة، خ: 1930، م: 1109
حدثنا علي بن هاشم بن البريد في سنة سبع وسبعين , عن الاعمش ، عن حبيب , عن عروة , عن عائشة , قالت: اتت فاطمة بنت ابي حبيش النبي فقالت: يا رسول الله , إني استحضت؟ قال: " دعي الصلاة ايام حيضك , ثم اغتسلي وتوضئي عند كل صلاة وإن قطر على الحصير" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمِ بْنِ الْبَرِيدِ فِي سَنَةِ سَبْعٍ وَسَبْعِينَ , عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِيبٍ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: أَتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ النَّبِيَّ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي اسْتُحِضْتُ؟ قَالَ: " دَعِي الصَّلَاةَ أَيَّامَ حَيْضِكِ , ثُمَّ اغْتَسِلِي وَتَوَضَّئِي عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ وَإِنْ قَطَرَ عَلَى الْحَصِيرِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ فاطمہ بنت ابی حبیش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میرا دم حیض ہمیشہ جاری رہتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایام حیض تک تو نماز چھوڑ دیا کرو، اس کے بعد غسل کر کے ہر نماز کے وقت وضو کرلیا کرو اور نماز پڑھا کرو خواہ چٹائی پر خون کے قطرے ٹپکنے لگیں۔
حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري , قال: حدثنا ابو يونس القشيري ، قال: حدثني ابو قزعة ان عبد الملك بن مروان بينما هو يطوف بالبيت , إذ قال: قاتل الله ابن الزبير , كيف يكذب على ام المؤمنين , ويزعم انه سمعها وهي تقول إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يا عائشة , لولا حدثان قومك بالكفر نقضت البيت حتى ازيد فيه من الحجر , إن قومك قصروا في البناء" , قال: فقال له الحارث بن عبد الله: لا تقل هذا يا امير المؤمنين , فانا سمعت عائشة تقول , قال: انت سمعته؟ قال: انا سمعته , قال: لو سمعت هذا قبل ان انقضه لتركته على ما بنى ابن الزبير.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ الْقُشَيْرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قَزَعَةَ أَنَّ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ بَيْنَمَا هُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ , إِذْ قَالَ: قَاتَلَ اللَّهُ ابْنَ الزُّبَيْرِ , كَيْفَ يَكْذِبُ عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ , وَيَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَهَا وَهِيَ تَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَا عَائِشَةُ , لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ نَقَضْتُ الْبَيْتَ حَتَّى أَزِيدَ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ , إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرُوا فِي الْبِنَاءِ" , قَالَ: فَقَالَ لَهُ الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: لَا تَقُلْ هَذَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , فَأَنَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ , قَالَ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: أَنَا سَمِعْتُهُ , قَالَ: لَوْ سَمِعْتُ هَذَا قَبْلَ أَنْ أَنْقُضَهُ لَتَرَكْتُهُ عَلَى مَا بَنَى ابْنُ الزُّبَيْرِ.
ابوقزعہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ خلیفہ عبدالملک بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا، دوران طواف وہ کہنے لگا کہ ابن زبیر پر اللہ کی مار ہو، وہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف جھوٹی نسبت کر کے کہتا ہے کہ میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر کے قریب نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کو شہید کر کے حطیم کا حصہ بھی اس کی تعمیر میں شامل کردیتا کیونکہ تمہاری قوم نے بیت اللہ کی عمارت میں سے اسے چھوڑ دیا تھا، اس پر حارث بن عبداللہ بن ابی ربیعہ نے کہا امیر المومنین! یہ بات نہ کہیں کیونکہ یہ حدیث تو میں نے بھی ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے، تو عبد الملک نے کہا کہ اگر میں نے اسے شہید کرنے سے پہلے یہ حدیث سنی ہوتی تو میں اسے ابن زبیر کی تعمیر پر بر قرار رہنے دیتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر بھی نماز پڑھتے تھے اور بیٹھ کر بھی نماز پڑھتے تھے جب کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر فرماتے اور جب نماز بیٹھ کر پڑھتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے تھے۔
حدثنا حسن بن موسى ، قال: حدثنا مطيع بن ميمون العنبري يكنى ابا سعيد , قال: حدثتني صفية بنت عصمة , عن عائشة ام المؤمنين، قالت: مدت امراة من وراء الستر بيدها كتابا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقبض النبي صلى الله عليه وسلم يده , وقال: " ما ادري ايد رجل او يد امراة؟" فقالت: بل امراة , فقال:" لو كنت امراة غيرت اظفارك بالحناء" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُطِيعُ بْنُ مَيْمُونٍ الْعَنْبَرِيُّ يُكْنَى أبَا سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي صَفِيَّةُ بِنْتُ عِصْمَةَ , عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: مَدَّتْ امْرَأَةٌ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ بِيَدِهَا كِتَابًا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَبَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ , وَقَالَ: " مَا أَدْرِي أَيَدُ رَجُلٍ أَوْ يَدُ امْرَأَةٍ؟" فَقَالَتْ: بَلْ امْرَأَةٌ , فَقَالَ:" لَوْ كُنْتِ امْرَأَةً غَيَّرْتِ أَظْفَارَكِ بِالْحِنَّاءِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مرتبہ پردے کے پیچھے سے ایک عورت نے ہاتھ بڑھا کر ایک تحریر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا اور فرمایا مجھے کیا خبر کہ یہ کسی مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا؟ اس عورت نے جواب دیا کہ میں عورت ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم عورت ہو تو اپنے ناخنوں کو مہندی سے رنگ لو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مطبع بن ميمون العنبري
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میری نظروں کے سامنے اب بھی وہ منظر موجود ہے، جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانور یعنی بکری کے قلادے بٹا کرتی تھی، اس کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے اپنے آپ کو نہیں روکتے تھے (جن سے محرم بچتے تھے)
حدثنا إسحاق بن عيسى , قال: اخبرنا مالك , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة ، ان ازواج النبي صلى الله عليه وسلم حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم اردن ان يرسلن عثمان إلى ابي بكر يسالنه ميراثهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت لهن عائشة: اوليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا نورث ما تركناه فهو صدقة" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى , قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَدْنَ أَنْ يُرْسِلْنَ عُثْمَانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ مِيرَاثَهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ: أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ فَهُوَ صَدَقَةٌ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ازواج مطہرات نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وراثت میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجنا چاہا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم وراثت میں کچھ نہیں چھوڑتے، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں تو وہ صدقہ ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معتکف ہوتے اور مسجد سے اپنا سر باہر نکال دیتے، میں اسے دھو دیتی حالانکہ میں ایام سے ہوتی تھی اور وہ گھر میں صرف انسانی ضرورت کی بناء پر ہی آتے تھے۔
حدثنا إسحاق , اخبرنا مالك , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: " ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين امرين إلا اخذ ايسرهما ما لم يكن إثما , فإذا كان إثما كان ابعد الناس منه , وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا ان يكون تنتهك حرمة الله , فينتقم لله عز وجل" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ , أخبرنا مَالِكٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا , فَإِذَا كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ , وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ تُنْتَهَكُ حُرْمَةُ اللَّهِ , فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بھی گستاخی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی سے کبھی انتقام نہ لیتے تھے البتہ اگر محارم الٰہی کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لئے انتقام لیا کرتے تھے اور جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو چیزیں پیش کی جاتیں اور ان میں سے ایک چیز زیادہ آسان ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آسان چیز کو اختیار فرماتے تھے، الاّ یہ کہ وہ گناہ ہو، کیونکہ اگر وہ گناہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں لوگوں کی نسبت اس سے زیادہ دور ہوتے تھے۔
حدثنا إسحاق بن عيسى , قال: اخبرنا مالك , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان إذا اشتكى يقرا على نفسه بالمعوذات وينفث , فلما اشتد وجعه كنت اقرا عليه , وامسح عنه بيده رجاء بركتها" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى , قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا اشْتَكَى يَقْرَأُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَيَنْفُثُ , فَلَمَّا اشْتَدَّ وَجَعُهُ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَيْهِ , وَأَمْسَحُ عَنْهُ بِيَدِهِ رَجَاءَ بَرَكَتِهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر بیمار ہوجاتے تو معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیتے تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو میں ان کا دست مبارک پکڑتی تو یہ کلمات پڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ان کے جسم پر پھیر دیتی، تاکہ ان کے ہاتھ کی برکت حاصل ہوجائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی کی چادر پر مادہ منویہ کے اثرات دیکھتے تو اسے کھرچ دیتے تھے اور اس دور میں ان کی چادریں اون کی ہوتی تھیں۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف بهذا اللفظ ، تفرد به جعفر بن برقان
حدثنا حدثنا ابو قطن ، قال: حدثنا عباد بن منصور , عن القاسم بن محمد , عن عائشة , قالت: " كنت افرك المني من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم ما اغسل" , قال ابو قطن قالت مرة: اثره , وقالت مرة: مكانه.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ , عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " كُنْتُ أَفْرُكُ الْمَنِيَّ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ مَا أَغْسِلُ" , قَالَ أَبُو قَطَنٍ قَالَتْ مَرَّةً: أَثَرَهُ , وَقَالَتْ مَرَّةً: مَكَانَهُ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں سے مادہ منویہ کو کھرچ دیتی تھی اور کپڑے کو دھوتی نہیں تھی۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عباد بن منصور
حدثنا كثير بن هشام , قال: حدثنا جعفر بن برقان , قال: حدثنا الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: كنت انا وحفصة صائمتين , فعرض لنا طعام اشتهيناه , فاكلنا منه , فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فبدرتني إليه حفصة , وكانت بنت ابيها , قالت: يا رسول الله , إنا كنا صائمتين اليوم فعرض لنا طعام اشتهيناه , فاكلنا منه , فقال: " اقضيا يوما آخر" .حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ , قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كُنْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ صَائِمَتَيْنِ , فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ , فَأَكَلْنَا مِنْهُ , فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَدَرَتْنِي إِلَيْهِ حَفْصَةُ , وَكَانَتْ بِنْتَ أَبِيهَا , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا كُنَّا صَائِمَتَيْنِ الْيَوْمَ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ , فَأَكَلْنَا مِنْهُ , فَقَالَ: " اقْضِيَا يَوْمًا آخَرَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس کہیں سے ایک بکری ہدئے میں آئی، ہم دونوں اس دن روزے سے تھیں، انہوں نے میرا روزہ اس سے کھلوا دیا، وہ اپنے والد کی بیٹی تھیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اس کے بدلے میں کسی اور دن کا روزہ رکھ لینا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لأن جعفر بن برقان ضعيف فى الزهري خاصة
حدثنا ابو احمد محمد بن عبد الله بن الزبير , قال: حدثنا مسعر , عن عبيد بن حسن , عن ابن معقل , عن عائشة " انها كان عليها رقبة من ولد إسماعيل , فجاء سبي من اليمن من خولان , فارادت ان تعتق منهم , فنهاني النبي صلى الله عليه وسلم , ثم جاء سبي من مضر من بني العنبر , فامرها النبي صلى الله عليه وسلم ان تعتق منهم" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ , عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حَسَنٍ , عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ , عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّهَا كَانَ عَلَيْهَا رَقَبَةٌ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ , فَجَاءَ سَبْيٌ مِنَ الْيَمَنِ مِنْ خَوْلَانَ , فَأَرَادَتْ أَنْ تَعْتِقَ مِنْهُمْ , فَنَهَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ جَاءَ سَبْيٌ مِنْ مُضَرَ مِنْ بَنِي الْعَنْبَرِ , فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَعْتِقَ مِنْهُمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے اولاد اسماعیل میں سے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مان رکھی تھی، اس دوران یمن کے قبیلہ خولان سے کچھ قیدی آئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان میں سے ایک غلام کو آزاد کرنا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا، پھر جب مضر کے قیبلہ بنو عنبر کے قیدی آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ ان میں سے کسی کو آزاد کردیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبن معقل
حدثنا علي بن عاصم , عن سعيد بن إياس الجريري , عن ابي عبد الله الجسري ، قال: دخلت على عائشة , وعندها حفصة بنت عمر , فقالت لي: إن هذه حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم , ثم اقبلت عليها , فقالت: انشدك الله ان تصدقيني بكذب قلته او تكذبيني بصدق قلته , تعلمين اني كنت انا وانت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فاغمي عليه , فقلت لك اترينه قد قبض؟ وقلت: لا ادري , فافاق , فقال: " افتحوا له الباب" , ثم اغمي عليه , فقلت: لك اترينه قد قبض؟ قلت: لا ادري , ثم افاق , فقال:" افتحوا له الباب" , فقلت لك: ابي او ابوك؟ قلت: لا ادري , ففتحنا الباب , فإذا عثمان بن عفان , فلما ان رآه النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ادنه" , فاكب عليه , فساره بشيء لا ادري انا وانت ما هو , ثم رفع راسه , فقال:" افهمت ما قلت لك؟" , قال: نعم , قال:" ادنه" , فاكب عليه اخرى مثلها , فساره بشيء لا ندري , ما هو , ثم رفع راسه فقال:" افهمت ما قلت لك؟" قال: نعم , قال:" ادنه" , فاكب عليه إكبابا شديدا , فساره بشيء , ثم رفع راسه , فقال:" افهمت ما قلت لك؟" قال: نعم , سمعته اذني ووعاه قلبي , فقال له:" اخرج" , فقال: قالت حفصة: اللهم نعم , او قالت: اللهم صدق .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيِّ , عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَسْرِيِّ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ , وَعِنْدَهَا حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ , فَقَالَتْ لِي: إِنَّ هَذِهِ حَفْصَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَيْهَا , فَقَالَتْ: أَنْشُدُكِ اللَّهَ أَنْ تُصَدِّقِينِي بِكَذِبٍ قُلْتُهُ أَوْ تُكَذِّبِينِي بِصِدْقٍ قُلْتُهُ , تَعْلَمِينَ أَنِّي كُنْتُ أَنَا وَأَنْتِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ , فَقُلْتُ لَكِ أَتَرَيْنَهُ قَدْ قُبِضَ؟ وقُلْتِ: لَا أَدْرِي , فَأَفَاقَ , فَقَالَ: " افْتَحُوا لَهُ الْبَابَ" , ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ , فَقُلْتُ: لَكِ أَتَرَيْنَهُ قَدْ قُبِضَ؟ قُلْتِ: لَا أَدْرِي , ثُمَّ أَفَاقَ , فَقَالَ:" افْتَحُوا لَهُ الْبَابَ" , فَقُلْتُ لَكِ: أَبِي أَوْ أَبُوكِ؟ قُلْتِ: لَا أَدْرِي , فَفَتَحْنَا الْبَابَ , فَإِذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ , فَلَمَّا أَنْ رَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" ادْنُهْ" , فَأَكَبَّ عَلَيْهِ , فَسَارَّهُ بِشَيْءٍ لَا أَدْرِي أَنَا وَأَنْتِ مَا هُوَ , ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ , فَقَالَ:" أَفَهِمْتَ مَا قُلْتُ لَكَ؟" , قَالَ: نَعَمْ , قَالَ:" ادْنُهْ" , فَأَكَبَّ عَلَيْهِ أُخْرَى مِثْلَهَا , فَسَارَّهُ بِشَيْءٍ لَا نَدْرِي , مَا هُوَ , ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ:" أَفَهِمْتَ مَا قُلْتُ لَكَ؟" قَالَ: نَعَمْ , قَالَ:" ادْنُهُ" , فَأَكَبَّ عَلَيْهِ إِكْبَابًا شَدِيدًا , فَسَارَّهُ بِشَيْءٍ , ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ , فَقَالَ:" أَفَهِمْتَ مَا قُلْتُ لَكَ؟" قَالَ: نَعَمْ , سَمِعَتْهُ أُذُنَيَّ وَوَعَاهُ قَلْبِي , فَقَالَ لَهُ:" اخْرُجْ" , فقَالَ: قَالَتْ حَفْصَةُ: اللَّهُمَّ نَعَمْ , أَوْ قَالَتْ: اللَّهُمَّ صِدْقٌ .
ابو عبداللہ جسری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے پاس حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا کہ یہ حفصہ رضی اللہ عنہ ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ، پھر ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا میں آپ کی قسم دیکھ کر پوچھتی ہوں، اگر میں غلط کہوں تو آپ میری تصدیق نہ کریں اور صحیح کہوں تو تکذیب نہ کریں، آپ کو معلوم ہے کہ ایک مرتبہ میں اور آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بےہوشی طاری ہوگئی، میں نے آپ سے پوچھا کیا خیال ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا؟ آپ نے کہا مجھے کچھ معلوم نہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہوگیا اور انہوں نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو، میں نے آپ سے پوچھا کہ میرے والد آئے ہیں یا آپ کے؟ آپ نے جواب دیا مجھے کچھ معلوم نہیں ہم نے دروازہ کھولا تو وہاں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا میرے قریب آجاؤ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر جھک گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سرگوشی میں کچھ باتیں کیں جو آپ کو معلوم ہیں اور نہ مجھے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر فرمایا میری بات سمجھ گئے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا جی ہاں! تین مرتبہ اس طرح سرگوشی اور اس کے بعد یہ سوال جواب ہوئے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اب تم جاسکتے ہو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ اسی طرح ہے اور یہ بات سچی ہے۔
حدثنا كثير بن هشام , قال: حدثنا جعفر , قال: سالت الزهري عن الرجل يخير امراته , فتختاره , قال: حدثني عروة بن الزبير , عن عائشة , قالت: اتاني نبي الله صلى الله عليه وسلم فقال: " إني ساعرض عليك امرا , فلا عليك ان لا تعجلي حتى تشاوري ابويك" فقلت: وما هذا الامر؟ قالت: فتلا علي يايها النبي قل لازواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين امتعكن واسرحكن سراحا جميلا وإن كنتن تردن الله ورسوله والدار الآخرة فإن الله اعد للمحسنات منكن اجرا عظيما سورة الاحزاب آية 28 - 29 قالت: فقلت: وفي اي ذلك تامرني ان اشاور ابوي؟ بل اريد الله ورسوله والدار الآخرة , قالت: فسر بذلك النبي صلى الله عليه وسلم واعجبه , وقال:" ساعرض على صواحبك ما عرضت عليك" , فكان يقول لهن كما قال لعائشة , ثم يقول:" قد اختارت عائشة الله ورسوله والدار الآخرة" , قالت عائشة فقد خيرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم نر ذلك طلاقا .حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ , قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ عَنِ الرَّجُلِ يُخَيِّرُ امْرَأَتَهُ , فَتَخْتَارُهُ , قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: أَتَانِي نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " إِنِّي سَأَعْرِضُ عَلَيْكِ أَمْرًا , فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّى تُشَاوِرِي أَبَوَيْكِ" فَقُلْتُ: وَمَا هَذَا الْأَمْرُ؟ قَالَتْ: فَتَلَا عَلَيَّ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 28 - 29 قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَفِي أَيِّ ذَلِكَ تَأْمُرُنِي أَنْ أُشَاوِرَ أَبَوَيَّ؟ بَلْ أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ , قَالَتْ: فَسُرَّ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَعْجَبَهُ , وَقَالَ:" سَأَعْرِضُ عَلَى صَوَاحِبِكِ مَا عَرَضْتُ عَلَيْكِ" , فَكَانَ يَقُولُ لَهُنَّ كَمَا قَالَ لِعَائِشَةَ , ثُمَّ يَقُولُ:" قَدْ اخْتَارَتْ عَائِشَةُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ" , قَالَتْ عَائِشَةُ فَقَدْ خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نَرَ ذَلِكَ طَلَاقًا .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب آیت تخییر نازل ہوئی تو سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا اے عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک بات ذکر کرنا چاہتا ہوں، تم اس میں اپنے والدین سے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کرنا، میں نے عرض کیا ایسی کیا بات ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا کر یہ آیت تلاوت فرمائی " اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو چاہتی ہو الخ۔ " میں نے عرض کیا کہ کیا میں اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں گی؟ میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا میں تمہاری سہیلیوں کے سامنے بھی یہی بات رکھوں گا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب بھی بتا دیتے تھے، کہ عائشہ نے اللہ اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کرلیا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو اختیار دیا، ہم نے اسے طلاق شمار نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، جعفر بن برقان ضعيف فى الزهري ولكن توبع
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ (میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور) گویا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ تین دن کے بعد میں حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن من أجل عطاء، وسلف بإسناد صحيح دون قوله: بعد ثلاث، برقم: 24107
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ (میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور گویا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر بھی نماز پڑھتے تھے اور بیٹھ کر بھی نماز پڑھتے تھے جب کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر فرماتے اور جب نماز بیٹھ کر پڑھتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث بن أبى سليم
حدثنا شجاع بن الوليد , عن سعد بن سعيد اخي يحيى بن سعيد , عن عمرة , عن عائشة , قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن كسر عظم المؤمن ميتا مثل كسر عظمه حيا" .حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ , عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ أَخِي يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ عَمْرَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ كَسْرَ عَظْمِ الْمُؤْمِنِ مَيْتًا مِثْلُ كَسْرِ عَظْمِهِ حَيًّا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی فوت شدہ مسلمان کی ہڈی توڑنا ایسے ہی ہے جیسے کسی زندہ آدمی کی ہڈی توڑنا۔
حدثنا عمر ابو حفص المعيطي , قال: حدثنا هشام , عن ابيه , عن عائشة , قالت: خرجت مع النبي صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره وانا جارية لم احمل اللحم ولم ابدن , فقال للناس: " تقدموا" فتقدموا , ثم قال لي:" تعالي حتى اسابقك" فسابقته فسبقته , فسكت عني , حتى إذا حملت اللحم وبدنت ونسيت , خرجت معه في بعض اسفاره , فقال للناس:" تقدموا" فتقدموا , ثم قال:" تعالي حتى اسابقك" فسابقته , فسبقني , فجعل يضحك , وهو يقول:" هذه بتلك" .حَدَّثَنَا عُمَرُ أَبُو حَفْصٍ الْمُعَيْطِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَأَنَا جَارِيَةٌ لَمْ أَحْمِلْ اللَّحْمَ وَلَمْ أَبْدُنْ , فَقَالَ لِلنَّاسِ: " تَقَدَّمُوا" فَتَقَدَّمُوا , ثُمَّ قَالَ لِي:" تَعَالَيْ حَتَّى أُسَابِقَكِ" فَسَابَقْتُهُ فَسَبَقْتُهُ , فَسَكَتَ عَنِّي , حَتَّى إِذَا حَمَلْتُ اللَّحْمَ وَبَدُنْتُ وَنَسِيتُ , خَرَجْتُ مَعَهُ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ , فَقَالَ لِلنَّاسِ:" تَقَدَّمُوا" فَتَقَدَّمُوا , ثُمَّ قَالَ:" تَعَالَيْ حَتَّى أُسَابِقَكِ" فَسَابَقْتُهُ , فَسَبَقَنِي , فَجَعَلَ يَضْحَكُ , وَهُوَ يَقُولُ:" هَذِهِ بِتِلْكَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا، اس مقابلے میں میں آگے نکل گئی، کچھ عرصے بعد جب میرے جسم پر گوشت چڑھ گیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ دوڑ کا مقابلہ کیا، اس مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور فرمایا یہ اس مرتبہ کے مقابلے کا بدلہ ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معتکف ہوتے تو صرف انسانی ضرورت کی بناء پر ہی گھر میں آتے تھے اور مسجد سے اپنا سر باہر نکال دیتے، میں اسے دھو دیتی جبکہ میرے اور ان کے درمیان دروازے کی چوکھٹ حائل ہوتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ واقعہ افک کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے عائشہ! اگر تم سے گناہ کا ارادہ ہوگیا ہو تو اللہ سے استغفار کیا کرو کیونکہ گناہ سے توبہ ندامت اور استغفار ہی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله فى حديث الإفك: فإن التوبة من الذنب الندم والاستغفار
حدثنا عبد الوهاب بن عطاء , عن داود بن ابي هند , عن الشعبي ، عن عائشة , قالت: " فرضت الصلاة ركعتين ركعتين إلا المغرب فرضت ثلاثا لانها وتر , قالت وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سافر صلى الصلاة الاولى إلا المغرب , فإذا اقام زاد مع كل ركعتين ركعتين إلا المغرب , لانها وتر , والصبح , لانه يطول فيها القراءة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ , عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ , عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " فُرِضَتْ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ إِلَّا الْمَغْرِبَ فُرِضَتْ ثَلَاثًا لِأَنَّهَا وِتْرٌ , قَالَتْ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَافَرَ صَلَّى الصَّلَاةَ الْأُولَى إِلَّا الْمَغْرِبَ , فَإِذَا أَقَامَ زَادَ مَعَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ إِلَّا الْمَغْرِبَ , لِأَنَّهَا وَتْرٌ , وَالصُّبْحَ , لِأَنَّهُ يُطَوِّلُ فِيهَا الْقِرَاءَةَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مکہ مکرمہ میں نماز کی ابتدائی فرضیت نماز مغرب کے علاوہ دو دو رکعتوں کی صورت میں ہوئی تھی، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے تو حکم الٰہی کے مطابق ہر دو رکعتوں کے ساتھ دو رکعتوں کا اضافہ کردیا، سوائے نماز مغرب کے کہ وہ دن کے وتر ہیں اور نماز فجر کے کہ اس میں قرأت لمبی کی جاتی ہے، البتہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر جاتے تھے تو ابتدائی طریقے کے مطابق دو رکعتیں ہی پڑھتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لأن الشعبي لم يدرك عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا داہنا ہاتھ کھانے اور ذکر اذکار کے لئے تھا اور بایاں ہاتھ دیگر کاموں کے لئے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن بطرقه وشاهده، وهذا إسناد ضعيف
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر سے پہلے کی دو رکعتوں کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ دو رکعتیں ساری دنیا سے زیادہ بہتر ہیں۔
حدثنا عبد الوهاب , عن سعيد , عن قتادة , عن عبد الله بن رباح , انه دخل على عائشة , فقال: إني اريد ان اسالك عن شيء وإني استحييك , فقالت:" سل ما بدا لك , فإنما انا امك" , فقلت: يا ام المؤمنين ما يوجب الغسل؟ فقالت:" إذا اختلف الختانان وجبت الجنابة" , فكان قتادة يتبع هذا الحديث ان عائشة , قالت: " قد فعلت انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم فاغتسلنا" , فلا ادري اشيء في هذا الحديث ام كان قتادة يقوله؟ .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ , عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ , أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ , فَقَالَ: إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكِ عَنْ شَيْءٍ وَإِنِّي أَسْتَحْيِيكِ , فَقَالَتْ:" سَلْ مَا بَدَا لَكَ , فَإِنَّمَا أَنَا أُمُّكَ" , فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ؟ فَقَالَتْ:" إِذَا اخْتَلَفَ الْخِتَانَانِ وَجَبَتْ الْجَنَابَةُ" , فَكَانَ قَتَادَةُ يُتْبِعُ هَذَا الْحَدِيثَ أَنَّ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " قَدْ فَعَلْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاغْتَسَلْنَا" , فَلَا أَدْرِي أَشَيْءٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَمْ كَانَ قَتَادَةُ يَقُولُهُ؟ .
عبداللہ بن رباح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں لیکن مجھے حیاء آتی ہے؟ انہوں نے فرمایا جو چاہو پوچھ سکتے ہو کہ میں تمہاری ماں ہوں، میں نے عرض کیا ام المومنین! غسل کس چیز سے واجب ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جب شرمگاہیں ایک دوسرے سے مل جائیں تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد قتادہ یہ بھی کہتے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے تو ہم غسل کرتے تھے، اب مجھے معلوم نہیں ہے کہ یہ جملہ حدیث کا حصہ یہ یا قتادہ کا قول ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع لأن عبد الله بن رباح لم يسمع هذا الحديث من عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر بھی نماز پڑھتے تھے اور بیٹھ کر بھی نماز پڑھتے تھے جب کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو رکوع کھڑے ہو کر فرماتے اور جب نماز بیٹھ کر پڑھتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے سر کا بوسہ لیتے تھے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے۔
حدثنا عبد الوهاب , قال: اخبرنا هشام يعني ابن ابي عبد الله , عن بديل , عن عبد الله بن عبيد بن عمير , ان امراة منهم , يقال لها: ام كلثوم حدثته , عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ياكل طعاما في ستة من اصحابه , فجاء اعرابي جائع فاكله بلقمتين , فقال: " اما إنه لو ذكر اسم الله عز وجل لكفاكم , فإذا اكل احدكم , فليذكر اسم الله , فإن نسي بسم الله في اوله , فليقل: بسم الله في اوله وآخره" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ , قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ بُدَيْلٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ , أَنَّ امْرَأَةً مِنْهُمْ , يُقَالُ لَهَا: أُمُّ كُلْثُومٍ حَدَّثَتْهُ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْكُلُ طَعَامًا فِي سِتَّةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ , فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ جَائِعٌ فَأَكَلَهُ بِلُقْمَتَيْنِ , فَقَالَ: " أَمَا إِنَّهُ لَوْ ذَكَرَ اسْمَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَكَفَاكُمْ , فَإِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ , فَلْيَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ , فَإِنْ نَسِيَ بِسْمِ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ , فَلْيَقُلْ: بِسْمِ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ وَآخِرِهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چھ صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ ایک دیہاتی آیا اور دو لقموں میں ہی سارا کھانا کھا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بسم اللہ پڑھ لیتا تو یہ کھانا تم سب کو کفایت کرجاتا، اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اس پر بسم اللہ پڑھ لینی چاہیے، اگر وہ شروع میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو یاد آنے پر یہ پڑھ لے بِسْمِ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ وَآخِرِهِ
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال أم كلثوم
حدثنا عبد الوهاب , قال: سئل سعيد ما يقول الرجل في ركوعه؟ فاخبرنا، عن قتادة , عن مطرف بن عبد الله , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول في ركوعه وسجوده: " سبوح قدوس , رب الملائكة والروح" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ , قَالَ: سُئِلَ سَعِيدٌ مَا يَقُولُ الرَّجُلُ فِي رُكُوعِهِ؟ فَأَخْبَرَنَا، عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ: " سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ , رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں یہ پڑھتے تھے سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص کسی مسلمان کی طرف کسی دھاری دار آلے سے اشارہ کرتا ہے اور قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے قتل کرنا جائز ہے۔
حدثنا عبد الوهاب , عن داود , عن عامر , عن عائشة , قالت: " لو كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كاتما شيئا , لكتم هذه الآية وإذ تقول للذي انعم الله عليه وانعمت عليه امسك عليك زوجك واتق الله , وتخفي في نفسك ما الله مبديه سورة الاحزاب آية 37" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ , عَنْ دَاوُدَ , عَنْ عَامِرٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " لَوْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا , لَكَتَمَ هَذِهِ الْآيَةَ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ , وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ سورة الأحزاب آية 37" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی میں سے کوئی آیت چھپانا ہوتی تو یہ آیت " جو ان کی اپنی ذات سے متعلق تھی " چھپاتے " اس وقت کو یاد کیجئے جب آپ اس شخص سے فرما رہے تھے جس پر اللہ نے بھی احسان کیا تھا اور آپ کے بھی احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو اور اللہ سے ڈرو، جبکہ آپ اپنے ذہن میں ایسے وسوسے پوشیدہ رکھے ہوئے تھے جن کا حکم بعد میں اللہ ظاہر کرنے والا تھا "۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد فيه انقطاع، لأن الشعبي لم يسمع من عائشة، م: 177
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص قرآن کریم مہارت کے ساتھ پڑھتا ہے، وہ نیک اور معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص مشقت برداشت کر کے تلاوت کرے اسے دہرا اجر ملے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنڈیا کے پاس سے گزرتے تو اس میں سے ہڈی والی بوٹی نکالتے اور اسے تناول فرماتے، پھر پانی کو ہاتھ لگائے بغیر اور نیا وضو کئے بغیر نماز پڑھ لیتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد فيه انقطاع عكرمة لم يسمع هذا الحديث من عائشة
حدثنا عبيدة , قال: حدثني منصور , عن مجاهد , عن ابي بكر بن عبد الرحمن ، قال: قال ابو هريرة من اصبح جنبا فلا صوم له , فارسل مروان عبد الرحمن إلى عائشة يسالها , فقال لها: إن ابا هريرة، يقول: من اصبح جنبا فلا صوم له؟ فقالت عائشة :" قد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجنب , ثم يتم صومه" , فارسل إلى ابي هريرة , فاخبره ان عائشة قالت:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجنب ثم يتم صومه" , فكف ابو هريرة.حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ , قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا فَلَا صَوْمَ لَهُ , فَأَرْسَلَ مَرْوَانُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ إِلَى عَائِشَةَ يَسْأَلُهَا , فَقَالَ لَهَا: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا فَلَا صَوْمَ لَهُ؟ فَقَالَتْ عَائِشَةُ :" قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجْنِبُ , ثُمَّ يُتِمُّ صَوْمَهُ" , فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ , فَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُجْنِبُ ثُمَّ يُتِمُّ صَوْمَهُ" , فَكَفَّ أَبُو هُرَيْرَةَ.
ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ جو آدمی صبح کے وقت جنبی ہو، اس کا روزہ نہیں ہوتا، ایک مرتبہ مروان بن حکم نے مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ اگر کوئی رمضان کے مہینے میں اس حال میں صبح کرے کہ وہ جنبی ہو اور اس نے اب تک غسل نہ کیا ہو تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کا روزہ نہ ہوا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت حالت جنابت میں ہوتے، پھر غسل کرلیتے اور بقیہ دن کا روزہ مکمل کرلیتے تھے، مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث کہلوا بھیجی اور وہ اپنی رائے بیان کرنے سے رک گئے۔
حدثنا عبيدة , حدثنا منصور , عن إبراهيم , عن علقمة , عن عائشة , قال: بعضنا إن هذا اخبرنا عنك انك قلت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يباشر وهو صائم , قالت: " اجل , ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم املككم لإربه" .حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ , حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ عَلْقَمَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَ: بَعْضُنَا إِنَّ هَذَا أَخْبَرَنَا عَنْكِ أَنَّكِ قُلْتِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ , قَالَتْ: " أَجَلْ , وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْلَكُكُمْ لِإِرْبِهِ" .
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ہمیں آپ کے حوالے سے یہ حدیث معلوم ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی ازواج کے جسم سے اپنا جسم ملا لیتے تھے؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش پر تم سے زیادہ قابو رکھتے تھے۔
حدثنا عبيدة بن حميد , عن منصور بن المعتمر , عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى إلا انه الحج , قالت: فلما قدمنا طافوا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليحل من لم يكن معه هدي" , قالت: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم معه هدي , قالت: وكنت حائضا فلم استطع ان اطوف , فلما كانت ليلة الحصبة قلت يا رسول الله , يرجع نساؤك بحجة وعمرة , وانا ارجع بحجة؟ فقال لي:" انطلقي مع اخيك عبد الرحمن إلى التنعيم , ثم ميعاد ما بيني وبينك كذا وكذا" , قالت: فلقيته بليل وهو مهبط او مصعد , قالت: وقالت بنت حيي: ما اراني إلا حابستكم , فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عقرى حلقى , ما اراني إلا حابستكم! اليس قد طفت يوم النحر؟" قالت: بلى , فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فانفري" .حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ , عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى إِلَّا أَنَّهُ الْحَجُّ , قَالَتْ: فَلَمَّا قَدِمْنَا طَافُوا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِيَحِلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ" , قَالَتْ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ هَدْيٌ , قَالَتْ: وَكُنْتُ حَائِضًا فَلَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَطُوفَ , فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ , يَرْجِعُ نِسَاؤُكَ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ , وَأَنَا أَرْجِعُ بِحَجَّةٍ؟ فَقَالَ لِي:" انْطَلِقِي مَعَ أَخِيكِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَى التَّنْعِيمِ , ثُمَّ مِيعَادُ مَا بَيْنِي وَبَيْنِكِ كَذَا وَكَذَا" , قَالَتْ: فَلَقِيتُهُ بِلَيْلٍ وَهُوَ مُهْبِطٌ أَوْ مُصْعِدٌ , قَالَتْ: وَقَالَتْ بِنْتُ حُيَيٍّ: مَا أُرَانِي إِلَّا حَابِسَتَكُمْ , فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَقْرَى حَلْقَى , مَا أُرَانِي إِلَّا حَابِسَتَكُمْ! أَلَيْسَ قَدْ طُفْتِ يَوْمَ النَّحْرِ؟" قَالَتْ: بَلَى , فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَانْفِرِي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، ہماری نیت صرف حج کرنا تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ پہنچ کر بیت اللہ کا طواف کیا لیکن احرام نہیں کھولا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہدی کا جانور تھا، آپ کی ازواج مطہرات اور صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی طواف و سعی کی اور ان تمام لوگوں نے احرام کھول لیا جن کے ساتھ ہدی کا جانور نہیں تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایام سے تھیں، ہم لوگ اپنے مناسک حج ادا کر کے جب کوچ کرنے کے لئے مقام حصبہ پر پہنچے تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا آپ کے صحابہ حج اور عمرہ کے ساتھ اور میں صرف حج کے ساتھ واپس جاؤں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تھے تو کیا تم نے ان دونوں میں طواف نہیں کیا تھا؟ میں نے عرض کیا نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم چلی جاؤ اور عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کر آؤ اور فلاں جگہ پر ہم سے ملنا۔ اسی دوران حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کے " ایام " شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ عورتیں تو کاٹ دیتی ہیں اور مونڈ دیتی ہیں، تم ہمیں ٹھہرنے پر مجبور کردو گی، کیا تم نے دس ذی الحجہ کو طواف زیارت نہیں کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس پھر کوئی حرج نہیں، اب روانہ ہوجاؤ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کے وقت ملی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے بالائی حصے پر چڑھ رہے تھے اور میں نیچے اتر رہی تھی، یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اتر رہے تھے اور میں چڑھ رہی تھی۔
حدثنا عبيدة , قال: حدثني منصور , عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قال: قالت:" قد عدلتمونا بالكلب والحمار! لقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوسط السرير , فيصلي وانا في لحافي , فاكره ان اسنحه , فانسل من تلقاء رجليه" .حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ , قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَ: قَالَتْ:" قَدْ عَدَلْتُمُونَا بِالْكَلْبِ وَالْحِمَارِ! لَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَسَّطُ السَّرِيرَ , فَيُصَلِّي وَأَنَا فِي لِحَافِي , فَأَكْرَهُ أَنْ أَسْنَحَهُ , فَأَنْسَلُّ مِنْ تِلْقَاءِ رِجْلَيْهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک مرتبہ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کتا، گدھا اور عورت کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے نمازی کی نماز ٹوٹ جاتی ہے تو انہوں نے فرمایا میرا خیال تو یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کردیا ہے، حالانکہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو میں ان کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھی، مجھے کوئی کام ہوتا تو چارپائی کی پائنتی کی جانب سے کھسک جاتی تھی، کیونکہ میں سامنے سے جانا اچھا نہ سمجھتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ (میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور) گویا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
حدثنا عبيدة , قال: حدثني يزيد بن ابي زياد , عن عطاء بن ابي رباح , قال: اتين نسوة من اهل حمص عائشة , فقالت لهن عائشة: لعلكن من النساء اللواتي يدخلن الحمامات؟ فقلن لها: إنا لنفعل , فقالت لهن عائشة : اما إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ايما امراة وضعت ثيابها في غير بيت زوجها , هتكت ما بينها وبين الله" .حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ , قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ , قَالَ: أَتَيْنَ نِسْوَةٌ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ عَائِشَةَ , فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ: لَعَلَّكُنَّ مِنَ النِّسَاءِ اللَّواتِي يَدْخُلْنَ الْحَمَّامَاتِ؟ فَقُلْنَ لَهَا: إِنَّا لَنَفْعَلُ , فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ : أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَيُّمَا امْرَأَةٍ وَضَعَتْ ثِيَابَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِ زَوْجِهَا , هَتَكَتْ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اپنے شوہر کے گھر کے علاوہ کسی اور جگہ پر اپنے کپڑے اتارتی ہے وہ اپنے اور اپنے رب کے درمیان حائل پردے کو چاک کردیتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم علیہ السلام اٹھارہ ماہ کی عمر میں فوت ہوئے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، محمد بن إسحاق مدلس ولكن صرح بالتحديث
حدثنا يعقوب , حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني يحيي بن عباد بن عبد الله بن الزبير , عن ابيه , عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: " لما ارادوا غسل رسول الله صلى الله عليه وسلم اختلفوا فيه , فقالوا: والله ما نرى كيف نصنع , انجرد رسول الله صلى الله عليه وسلم كما نجرد موتانا ام نغسله وعليه ثيابه؟ قالت: فلما اختلفوا ارسل الله عليهم السنة حتى والله ما من القوم من رجل إلا ذقنه في صدره نائما , قالت: ثم كلمهم من ناحية البيت , لا يدرون من هو , فقال: اغسلوا النبي صلى الله عليه وسلم وعليه ثيابه , قالت: فثاروا إليه , فغسلوا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في قميصه يفاض عليه الماء والسدر , ويدلكه الرجال بالقميص , وكانت تقول: لو استقبلت من الامر ما استدبرت ما غسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا نساؤه" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَي بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: " لَمَّا أَرَادُوا غُسْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِيهِ , فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا نَرَى كَيْفَ نَصْنَعُ , أَنُجَرِّدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا نُجَرِّدُ مَوْتَانَا أَمْ نُغَسِّلُهُ وَعَلَيْهِ ثِيَابُهُ؟ قَالَتْ: فَلَمَّا اخْتَلَفُوا أَرْسَلَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ السِّنَةَ حَتَّى وَاللَّهِ مَا مِنَ الْقَوْمِ مِنْ رَجُلٍ إِلَّا ذَقْنُهُ فِي صَدْرِهِ نَائِمًا , قَالَتْ: ثُمَّ كَلَّمَهُمْ مِنْ نَاحِيَةِ الْبَيْتِ , لَا يَدْرُونَ مَنْ هُوَ , فَقَالَ: اغْسِلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثِيَابُهُ , قَالَتْ: فَثَارُوا إِلَيْهِ , فَغَسَّلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي قَمِيصِهِ يُفَاضُ عَلَيْهِ الْمَاءُ وَالسِّدْرُ , وَيُدَلِّكُهُ الرِّجَالُ بِالْقَمِيصِ , وَكَانَتْ تَقُولُ: لَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنَ الْأَمْرِ مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا غَسَّلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا نِسَاؤُهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل کا ارادہ کیا تو لوگوں کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا اور وہ کہنے لگے بخدا! ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں، عام مردوں کی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو کپڑوں سے خالی کریں یا کپڑوں سمیت غسل دے دیں؟ اس اثناء میں اللہ نے ان پر اونگھ طاری کردی اور واللہ ایک آدمی ایسا نہ رہا جس کی ٹھوڑی اس کے سینے پر نہ ہو اور وہ سو گیا، پھر گھر کے کسی کونے سے کسی آدمی کی باتوں کی آواز آئی جسے وہ نہیں جانتے تھے اور وہ کہنے لگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کپڑوں سمیت ہی غسل دو، چنانچہ لوگ آگے بڑھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں سمیت غسل دینے لگے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر بیری کا پانی انڈیلا جانے لگا اور قمیص کے اوپر سے ہی جسم مبارک کو ملا جانے لگا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر مجھے پہلے ہی وہ بات سمجھ میں آجاتی تو جو بعد میں سمجھ آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل ان کی ازواج مطہرات ہی دیتیں۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، محمد بن إسحاق مدلس صرح بالتحديث
حدثنا يعقوب , فقال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي , عن ابي سلمة بن عبد الرحمن بن عوف ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: كان الناس يصلون في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان بالليل اوزاعا , يكون مع الرجل شيء من القرآن , فيكون معه النفر الخمسة او الستة او اقل من ذلك او اكثر , فيصلون بصلاته , قالت: فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة من ذلك ان انصب له حصيرا على باب حجرتي , ففعلت , فخرج إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ان صلى العشاء الآخرة , قالت: فاجتمع إليه من في المسجد , فصلى بهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلا طويلا , ثم انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم , فدخل وترك الحصير على حاله , فلما اصبح الناس تحدثوا بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بمن كان معه في المسجد تلك الليلة , قالت: وامسى المسجد راجا بالناس , فصلى بهم رسول الله صلى الله عليه وسلم العشاء الآخرة , ثم دخل بيته وثبت الناس , قالت: فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما شان الناس يا عائشة؟" قالت: فقلت له: يا رسول الله , سمع الناس بصلاتك البارحة بمن كان في المسجد , فحشدوا لذلك لتصلي بهم , قالت فقال:" اطو عنا حصيرك يا عائشة" , قالت: ففعلت , وبات رسول الله صلى الله عليه وسلم غير غافل , وثبت الناس مكانهم حتى خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الصبح , فقالت فقال:" ايها الناس , اما والله ما بت والحمد لله ليلتي هذه غافلا , وما خفي علي مكانكم , ولكني تخوفت ان يفترض عليكم فاكلفوا من الاعمال ما تطيقون , فإن الله لا يمل حتى تملوا" , قال: وكانت عائشة تقول: إن احب الاعمال إلى الله ادومها وإن قل .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , فقَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ أَوْزَاعًا , يَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ شَيْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ , فَيَكُونُ مَعَهُ النَّفَرُ الْخَمْسَةُ أَوْ السِّتَّةُ أَوْ أَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرُ , فَيُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ , قَالَتْ: فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنْ ذَلِكَ أَنْ أَنْصِبَ لَهُ حَصِيرًا عَلَى بَابِ حُجْرَتِي , فَفَعَلْتُ , فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ , قَالَتْ: فَاجْتَمَعَ إِلَيْهِ مَنْ فِي الْمَسْجِدِ , فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا طَوِيلًا , ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَدَخَلَ وَتَرَكَ الْحَصِيرَ عَلَى حَالِهِ , فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ تَحَدَّثُوا بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْ كَانَ مَعَهُ فِي الْمَسْجِدِ تِلْكَ اللَّيْلَةَ , قَالَتْ: وَأَمْسَى الْمَسْجِدُ رَاجًّا بِالنَّاسِ , فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ , ثُمَّ دَخَلَ بَيْتَهُ وَثَبَتَ النَّاسُ , قَالَتْ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا شَأْنُ النَّاسِ يَا عَائِشَةُ؟" قَالَتْ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , سَمِعَ النَّاسُ بِصَلَاتِكَ الْبَارِحَةَ بِمَنْ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ , فَحَشَدُوا لِذَلِكَ لِتُصَلِّيَ بِهِمْ , قَالَتْ فَقَالَ:" اطْوِ عَنَّا حَصِيرَكِ يَا عَائِشَةُ" , قَالَتْ: فَفَعَلْتُ , وَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ غَافِلٍ , وَثَبَتَ النَّاسُ مَكَانَهُمْ حَتَّى خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصُّبْحِ , فَقَالَتْ فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ , أَمَا وَاللَّهِ مَا بِتُّ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ لَيْلَتِي هَذِهِ غَافِلًا , وَمَا خَفِيَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ , وَلَكِنِّي تَخَوَّفْتُ أَنْ يُفْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَاكْلَفُوا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ , فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا" , قَالَ: وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: إِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رمضان المبارک میں لوگ رات کے وقت مسجد نبوی میں مختلف ٹولیوں میں نماز پڑھا کرتے تھے، جس آدمی کو تھوڑا سا قرآن یاد ہوتا اس کے ساتھ کم و بیش چھ آدمی کھڑے ہوجاتے اور اس کے ساتھ نماز پڑھتے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حجرے کے دروازے پر چٹائی بچھانے کا حکم دیا، میں نے اسی طرح کیا، پھر نماز عشاء کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم درمیان رات میں گھر سے نکلے اور مسجد میں جا کر نماز پڑھنے لگے، لوگ جمع ہوئے اور وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں شریک ہوگئے، صبح ہوئی تو لوگوں نے ایک دوسرے سے اس بات کا تذکرہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نصف رات کو گھر سے نکلے تھے اور انہوں نے مسجد میں نماز پڑھی تھی، چنانچہ اگلی رات کو پہلے سے زیادہ تعداد میں لوگ جمع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسب سابق باہر تشریف لائے اور نماز پڑھنے لگے، لوگ بھی ان کے ساتھ شریک ہوگئے، تیسرے دن بھی یہی ہوا، چوتھے دن بھی لوگ اتنے جمع ہوگئے کہ مسجد میں مزید کسی آدمی کے آنے کی گنجائش نہ رہی لیکن اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں بیٹھے رہے اور باہر نہیں نکلے، حتیٰ کہ میں نے بعض لوگوں کو " نماز ' نماز " کہتے ہوئے سنا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نہیں نکلے، پھر جب فجر کی نماز پڑھائی تو سلام پھیر کر لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے، توحید و رسالت کی گواہی دی اور اما بعد کہہ کر فرمایا تمہاری آج رات کی حالت مجھ سے پوشیدہ نہیں ہے، لیکن مجھے اس بات کا اندیشہ ہو چلا تھا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے اور پھر تم اس سے عاجز آجاؤ لہٰذا اتنا عمل کیا کرو جتنے کی تم میں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتائے گا، البتہ تم ضرور اکتا جاؤ گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن من أجل ابن إسحاق وقد صرح بالتحديث
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: دخلت علي خويلة بنت حكيم بن امية بن حارثة بن الاوقص السلمية , وكانت عند عثمان بن مظعون , قالت: فراى رسول الله صلى الله عليه وسلم بذاذة هيئتها , فقال لي: " يا عائشة , ما ابذ هيئة خويلة؟" قالت: فقلت: يا رسول الله , امراة لا زوج لها يصوم النهار ويقوم الليل فهي كمن لا زوج لها , فتركت نفسها واضاعتها , قالت: فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عثمان بن مظعون فجاءه , فقال:" يا عثمان , ارغبة عن سنتي؟" قال: فقال: لا والله يا رسول الله , ولكن سنتك اطلب , قال:" فإني انام واصلي , واصوم وافطر , وانكح النساء , فاتق الله يا عثمان , فإن لاهلك عليك حقا , وإن لضيفك عليك حقا , وإن لنفسك عليك حقا , فصم وافطر , وصل ونم" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ خُوَيْلَةُ بِنْتُ حَكِيمِ بْنِ أُمَيَّةَ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ الْأَوْقَصِ السُّلَمِيَّةُ , وَكَانَتْ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ , قَالَتْ: فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَذَاذَةَ هَيْئَتِهَا , فَقَالَ لِي: " يَا عَائِشَةُ , مَا أَبَذَّ هَيْئَةَ خُوَيْلَةَ؟" قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , امْرَأَةٌ لَا زَوْجَ لَهَا يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ فَهِيَ كَمَنْ لَا زَوْجَ لَهَا , فَتَرَكَتْ نَفْسَهَا وَأَضَاعَتْهَا , قَالَتْ: فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ فَجَاءَهُ , فَقَالَ:" يَا عُثْمَانُ , أَرَغْبَةً عَنْ سُنَّتِي؟" قَالَ: فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَلَكِنْ سُنَّتَكَ أَطْلُبُ , قَالَ:" فَإِنِّي أَنَامُ وَأُصَلِّي , وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ , وَأَنْكِحُ النِّسَاءَ , فَاتَّقِ اللَّهَ يَا عُثْمَانُ , فَإِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا , وَإِنَّ لِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا , وَإِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا , فَصُمْ وَأَفْطِرْ , وَصَلِّ وَنَمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون کی اہلیہ خویلہ بنت حکیم پہلے مہندی لگاتی تھیں اور خوشبو سے مہکتی تھیں لیکن ایک دم انہوں نے یہ سب چیزیں چھوڑ دیں، ایک دن وہ میرے پاس پراگندہ حال آئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سے فرمایا عائشہ! خویلہ کی یہ خراب حالت کیوں؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ ایسی عورت ہے جس کا شوہر نہیں کیونکہ وہ سارا دن روزہ رکھتا ہے اور ساری رات نماز پڑھتا ہے تو یہ ایسے ہی جیسے کسی کا شوہر نہ ہو، اس لئے انہوں نے اپنے آپ کو اسی حال میں چھوڑ دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملے اور فرمایا اے عثمان! کیا تم میری سنت سے اعراض کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا نہیں واللہ یا رسول اللہ! آپ کی سنت کا تو میں متلاشی ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر میں سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں اس لئے اے عثمان! اللہ سے ڈرو، کہ تمہارے اہل خانہ، مہمان اور خود تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے لہٰذا روزہ بھی رکھا کرو اور ناغہ بھی کیا کرو، نماز بھی پڑھا کرو اور سویا بھی کرو۔
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: مرت برسول الله صلى الله عليه وسلم الحولاء بنت تويت , فقيل له: يا رسول الله , إنها تصلي بالليل صلاة كثيرة , فإذا غلبها النوم ارتبطت بحبل , فتعلقت به , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فلتصل ما قويت على الصلاة , فإذا نعست فلتنم" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: مَرَّتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَوْلَاءُ بِنْتُ تُوَيْتٍ , فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّهَا تُصَلِّي بِاللَّيْلِ صَلَاةً كَثِيرَةً , فَإِذَا غَلَبَهَا النَّوْمُ ارْتَبَطَتْ بِحَبْلٍ , فَتَعَلَّقَتْ بِهِ , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلْتُصَلِّ مَا قَوِيَتْ عَلَى الصَّلَاةِ , فَإِذَا نَعَسَتْ فَلْتَنَمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے حولاء بنت تویت نامی عورت گذری، کسی نے بتایا کہ یا رسول اللہ! یہ عورت رات بھر نماز پڑھتی ہے اور جب اس پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے تو رسی باندھ کر اس سے لٹک جاتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے چاہیے کہ جب تک طاقت ہو، نماز پڑھتی رہے اور جب اونگھنے لگے تو سو جائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے جس کثرت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان میں روزے رکھتے ہوئے دیکھا ہے، کسی اور مہینے میں نہیں دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے صرف چند دن کو چھوڑ کر تقریباً پورا مہینہ روزہ رکھتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل ابن إسحاق، م: 1156
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ضرورت سے زائد پانی یا کنوئیں میں بچ رہنے والے پانی کے استعمال سے کسی کو نہ روکا جائے۔
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت: ابتاع رسول الله صلى الله عليه وسلم من رجل من الاعراب جزورا , او جزائر , بوسق من تمر الذخرة , وتمر الذخرة العجوة , فرجع به رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بيته , والتمس له التمر , فلم يجده , فخرج إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له: " يا عبد الله , إنا قد ابتعنا منك , جزورا او جزائر , بوسق من تمر الذخرة , فالتمسناه , فلم نجده" , قال: فقال الاعرابي: واغدراه. قالت: فنهمه الناس , وقالوا: قاتلك الله , ايغدر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟! قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" دعوه , فإن لصاحب الحق مقالا" , ثم عاد له رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" يا عبد الله , إنا ابتعنا منك جزائرك ونحن نظن ان عندنا ما سمينا لك , فالتمسناه , فلم نجده" , فقال الاعرابي: واغدراه , فنهمه الناس , وقالوا: قاتلك الله ايغدر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" دعوه , فإن لصاحب الحق مقالا" , فردد ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم مرتين , او ثلاثا , فلما رآه لا يفقه عنه , قال لرجل من اصحابه:" اذهب إلى خويلة بنت حكيم بن امية , فقل لها رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لك: إن كان عندك وسق من تمر الذخرة , فاسلفيناه حتى نؤديه إليك إن شاء الله" , فذهب إليها الرجل , ثم رجع الرجل , فقال: قالت: نعم , هو عندي يا رسول الله , فابعث من يقبضه , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للرجل:" اذهب به , فاوفه الذي له" , قال فذهب به , فاوفاه الذي له , قالت: فمر الاعرابي برسول الله صلى الله عليه وسلم وهو جالس في اصحابه , فقال: جزاك الله خيرا , فقد اوفيت واطيبت , قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اولئك خيار عباد الله عند الله يوم القيامة الموفون المطيبون" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: ابْتَاعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَعْرَابِ جَزُورًا , أَوْ جَزَائِرَ , بِوَسْقٍ مِنْ تَمْرِ الذَّخِرَةِ , وَتَمْرُ الذَّخِرَةِ الْعَجْوَةُ , فَرَجَعَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَيْتِهِ , وَالْتَمَسَ لَهُ التَّمْرَ , فَلَمْ يَجِدْهُ , فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ , إِنَّا قَدْ ابْتَعْنَا مِنْكَ , جَزُورًا أَوْ جَزَائِرَ , بِوَسْقٍ مِنْ تَمْرِ الذَّخْرَةِ , فَالْتَمَسْنَاهُ , فَلَمْ نَجِدْهُ" , قَالَ: فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: وَاغَدْرَاهُ. قَالَتْ: فَنَهَمَهُ النَّاسُ , وَقَالُوا: قَاتَلَكَ اللَّهُ , أَيَغْدِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعُوهُ , فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا" , ثُمَّ عَادَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا عَبْدَ اللَّه , إِنَّا ابْتَعْنَا مِنْكَ جَزَائِرَكَ وَنَحْنُ نَظُنُّ أَنَّ عِنْدَنَا مَا سَمَّيْنَا لَكَ , فَالْتَمَسْنَاهُ , فَلَمْ نَجِدْهُ" , فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: وَاغَدْرَاهُ , فَنَهَمَهُ النَّاسُ , وَقَالُوا: قَاتَلَكَ اللَّهُ أَيَغْدِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعُوهُ , فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا" , فَرَدَّدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتَيْنِ , أَوْ ثَلَاثًا , فَلَمَّا رَآهُ لَا يَفْقَهُ عَنْهُ , قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِهِ:" اذْهَبْ إِلَى خُوَيْلَةَ بِنْتِ حَكِيمِ بْنِ أُمَيَّةَ , فَقُلْ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَكِ: إِنْ كَانَ عِنْدَكِ وَسْقٌ مِنْ تَمْرِ الذَّخِرَةِ , فَأَسْلِفِينَاهُ حَتَّى نُؤَدِّيَهُ إِلَيْكِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ" , فَذَهَبَ إِلَيْهَا الرَّجُلُ , ثُمَّ رَجَعَ الرَّجُلُ , فَقَالَ: قَالَتْ: نَعَمْ , هُوَ عِنْدِي يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَابْعَثْ مَنْ يَقْبِضُهُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلرَّجُلِ:" اذْهَبْ بِهِ , فَأَوْفِهِ الَّذِي لَهُ" , قَالَ فَذَهَبَ بِهِ , فَأَوْفَاهُ الَّذِي لَهُ , قَالَتْ: فَمَرَّ الْأَعْرَابِيُّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي أَصْحَابِهِ , فَقَالَ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا , فَقَدْ أَوْفَيْتَ وَأَطْيَبْتَ , قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُولَئِكَ خِيَارُ عِبَادِ اللَّهِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمُوفُونَ الْمُطِيبُونَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے ایک یا کئی اونٹ خریدے اور اس کا بدلہ ایک وسق ذخیرہ کھجور (عجوہ) قرار دی اور اسے لے کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کجھوریں تلاش کیں تو نہیں مل سکیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس باہر آئے اور فرمایا اے اللہ کے بندے! میں نے تم سے ایک وسق ذخیرہ کجھور کے عوض اونٹ خریدے ہیں لیکن میرے پاس اس وقت کجھوریں نہیں ہیں، وہ اعرابی کہنے لگا ہائے! میرے ساتھ دھوکہ ہوگیا لوگوں نے اسے ڈانٹا اور کہنے لگے تجھ پر اللہ کی مار ہو، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم دھوکہ دیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے چھوڑ دو، کیونکہ حقدار بات کہہ سکتا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تین مرتبہ اپنی بات دہرائی اور ہر مرتبہ اس نے یہی کہا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے ڈانٹا، بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ وہ بات سمجھ نہیں پا رہا تو اپنے کسی صحابی سے فرمایا خویلہ بنت حکیم کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں اگر تمہارے پاس ایک وسق ذخیرہ کجھور ہوں تو ہمیں ادھار دے دو، ہم تہ میں واپس لوٹا دیں گے، ان شاء اللہ۔ وہ صحابی چلے گئے، پھر واپس آکر بتایا کہ وہ کہتی ہیں یا رسول اللہ! میرے پاس کجھوریں موجود ہیں، آپ کسی آدمی کو بھیج دیجئے جو آکر لے جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے جاؤ اور پوری کر کے دے دو، وہ صحابی اس اعرابی کو لے گئے اور اسے پوری پوری کجھوریں دے دیں، پھر اس اعرابی کا گذر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہوا جو صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے تھے تو وہ کہنے لگا " جزاک اللہ خیرا " آپ نے پورا پورا ادا کردیا اور خوب عمدہ ادا کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین بندے وہی پورا کرنے والے اور عمدہ طریقے سے ادا کرنے والے ہی ہوں گے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میری پرورش میں ایک انصاری بچی تھی، میں نے اس کا نکاح کردیا اس کی شادی والے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو کوئی کھیل کود کی آواز نہ سنی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! انصار کا یہ قبیلہ فلاں چیز کو پسند کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة إسحاق بن سهل، خ: 5162
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کے ارادے سے روانہ ہونے لگے تو اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے، ان میں سے جس کے نام نکل آتا، اسے اپنے ساتھ سفر پر لے جاتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل ابن إسحاق
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: اتت سهلة بنت سهيل رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقالت له: يا نبي الله , إن سالما كان منا حيث قد علمت , انا كنا نعده ولدا , فكان يدخل علي كيف شاء لا نحتشم منه , فلما انزل الله فيه وفي اشباهه ما انزل انكرت وجه ابي حذيفة إذا رآه يدخل علي , قال: " فارضعيه عشر رضعات , ثم ليدخل عليك كيف شاء , فإنما هو ابنك" , فكانت عائشة تراه عاما للمسلمين , وكان من سواها من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم يرى انها كانت خاصة لسالم مولى ابي حذيفة الذي ذكرت سهلة من شانه رخصة له.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: أَتَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ لَهُ: يَا نبيَّ اللَّهِ , إِنَّ سَالِمًا كَانَ مِنَّا حَيْثُ قَدْ عَلِمْتَ , أَنَّا كُنَّا نَعُدُّهُ وَلَدًا , فَكَانَ يَدْخُلُ عَلَيَّ كَيْفَ شَاءَ لَا نَحْتَشِمُ مِنْهُ , فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ وَفِي أَشْبَاهِهِ مَا أَنْزَلَ أَنْكَرْتُ وَجْهَ أَبِي حُذَيْفَةَ إِذَا رَآهُ يَدْخُلُ عَلَيَّ , قَالَ: " فَأَرْضِعِيهِ عَشْرَ رَضَعَاتٍ , ثُمَّ لِيَدْخُلْ عَلَيْكِ كَيْفَ شَاءَ , فَإِنَّمَا هُوَ ابْنُكِ" , فَكَانَتْ عَائِشَةُ تَرَاهُ عَامًّا لِلْمُسْلِمِينَ , وَكَانَ مَنْ سِوَاهَا مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرَى أَنَّهَا كَانَتْ خَاصَّةً لِسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ الَّذِي ذَكَرَتْ سَهْلَةُ مِنْ شَأْنِهِ رُخْصَةً لَهُ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن حضرت سہلہ آئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ! ہم سالم کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے، وہ میرے اور ابوحذیفہ کے ساتھ رہتا تھا اور میری پردہ کی باتیں دیکھتا تھا، اب اللہ نے منہ بولے بیٹے کے متعلق حکم نازل کردیا ہے، جو آپ بھی جانتے ہیں، جس کی وجہ سے اب مجھے ابوحذیفہ کے چہرے پر ناگواری کے اثرات نظر آتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے دس گھونٹ اپنا دودھ پلا دو، چنانچہ اس کے بعد سالم ان کے رضاعی بیٹے جیسے بن گئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کی روشنی میں یہ سمجھتی تھیں کہ یہ حکم سب مسلمانوں کے لئے عام ہے اور دیگر ازواج مطہرات اسے سالم مولیٰ ابی حذیفہ کے ساتھ خاص سمجھتی تھیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: فأرضعيه عشر رضعات فقد انفرد فيه ابن إسحاق عن الزهري مخالفا الرواة عنه، خ: 5088، م: 1453
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آیت رجم نازل ہوئی تھی اور بڑی عمر کے آدمی کو دس گھونٹ دودھ پلانے سے رضاعت کے ثبوت کی آیت نازل ہوئی تھی، جو میرے گھر میں چار پائی کے نیچے ایک کاغذ میں لکھی پڑی ہوئی تھی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور ہم ان کی طرف مشغول ہوگئے تو ایک بکری آئی اور اسے کھا گئی۔
فائدہ: ہر ذی شعور آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد ابن إسحاق وفي متنه نكارة
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابيه , عن عروة , عن عائشة , قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة" , قالت: فلما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم المرض الذي قبض فيه اخذته بحة , فسمعته يقول مع الذين انعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين سورة النساء آية 69 قالت فعلمت انه خير .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ" , قَالَتْ: فَلَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرَضَ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ , فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ سورة النساء آية 69 قَالَتْ فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے جس نبی کی روح قبض ہونے کا وقت آتا تھا، ان کی روح قبض ہونے کے بعد انہیں ان کا ثواب دکھایا جاتا تھا پھر واپس لوٹا کر انہیں اس بات کا اختیار دیا جاتا تھا کہ انہیں اس ثواب کی طرف لوٹا کر اس سے ملا دیا جائے (یا دنیا میں بھیج دیا جائے) میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الوفات میں دیکھا کہ آپ کی گردن ڈھلک گئی ہے، میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا " ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام فرمایا مثلا انبیاء کرام (علیہم السلام) اور صدیقین، شہداء اور صالحین اور ان کی رفاقت کیا خوب ہے، میں سمجھ گئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت اختیار دیا گیا ہے۔ "
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بوسہ دینے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی روزے سے ہوں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف ہاتھ بڑھا کر مجھے بوسہ دیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بوسہ دینے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی روزے سے ہوں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف ہاتھ بڑھا کر مجھے بوسہ دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل ابن إسحاق
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابيه , انه سمع عروة بن الزبير , يقول: قالت عائشة : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في شكواه: " مروا ابا بكر فليصل للناس" قالت: فقلت: يا رسول الله , إن ابا بكر رجل رقيق , وإنه إن قام في مصلاك بكى , فمر عمر بن الخطاب فليصل بهم , قالت: فقال:" مهلا , مروا ابا بكر فليصل للناس" , قالت: فعدت له فقال:" مهلا , مروا ابا بكر فليصل للناس" , قالت: فعدت له , فقال:" مروا ابا بكر فليصل للناس , إنكن صواحب يوسف" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ , يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَكْوَاهُ: " مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ" قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ , وَإِنَّهُ إِنْ قَامَ فِي مُصَلَّاكَ بَكَى , فَمُرْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَلْيُصَلِّ بِهِمْ , قَالَتْ: فَقَالَ:" مَهْلًا , مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ" , قَالَتْ: فَعُدْتُ لَهُ فَقَالَ:" مَهْلًا , مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ" , قَالَتْ: فَعُدْتُ لَهُ , فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ , إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الوفات میں فرمایا ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رقیق القلب آدمی ہیں، وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکیں گے اور لوگوں کو ان کی آواز سنائی نہ دے گی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ابوبکر سے کہہ دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، جب میں نے تکرار کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا اور فرمایا تم تو یوسف علیہ السلام پر فریفتہ ہونے والی عورتوں کی طرح ہو (جو دل میں کچھ رکھتی تھیں اور زبان سے کچھ ظاہر کرتی تھیں)
حدثنا حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابيه , عن عروة , ان عائشة قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجري حين نزل به الموت" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عُرْوَةَ , أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِي حِينَ نَزَلَ بِهِ الْمَوْتُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا ہے تو ان کا سر میری گود میں تھا۔
حدثنا يعقوب , حدثنا ابن اخي ابن شهاب , فذكر بعض حديث الحديبية , قال: قال محمد بن مسلم , فاخبرني عروة بن الزبير , ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمتحن من هاجر إليه من المؤمنات بهذه الآية بقول الله تعالى يايها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك على ان لا يشركن بالله شيئا ولا يسرقن ولا يزنين ولا يقتلن اولادهن ولا ياتين ببهتان يفترينه بين ايديهن وارجلهن ولا يعصينك في معروف فبايعهن واستغفر لهن الله إن الله غفور رحيم سورة الممتحنة آية 12 قال عروة بن الزبير: قالت عائشة: فمن اقر بهذا الشرط من المؤمنات , قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد بايعتك كلاما" ولا والله ما مست يده يد امراة قط في المبايعة , ما بايعهن إلا بقوله:" قد بايعتك على ذلك" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ , فَذَكَرَ بَعْضَ حَدِيثِ الْحُدَيْبِيَةِ , قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ , فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْتَحِنُ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ بِهَذِهِ الْآيَةِ بِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلا يَسْرِقْنَ وَلا يَزْنِينَ وَلا يَقْتُلْنَ أَوْلادَهُنَّ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة الممتحنة آية 12 قَالَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ: قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ , قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ بَايَعْتُكِ كَلَامًا" وَلَا وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِي الْمُبَايَعَةِ , مَا بَايَعَهُنَّ إِلَّا بِقَوْلِهِ:" قَدْ بَايَعْتُكِ عَلَى ذَلِكَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں سے اس آیت کی شرائط پر امتحان لیا کرتے تھے جس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ کے پاس مومن عورتیں ان شرائط پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی، چوری اور بدکاری نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی نیکی کے کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی تو آپ انہیں بیعت کرلیا کریں اور اللہ سے ان کے لئے بخشش کی دعا کیا کریں، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے " حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جو مومن عورت ان شرائط کا اقرار کرلیتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم زبان سے کہہ دیتے کہ میں نے تمہیں بیعت کرلیا ہے، واللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کے ہاتھ کو ہاتھ لگا کر بیعت نہیں لی، بلکہ صرف یہی کہہ کر بیعت فرما لیتے تھے کہ میں نے تمہیں بیعت کرلیا ہے۔
حدثنا يعقوب , حدثنا ابي , عن صالح , قال ابن شهاب ، اخبرني عروة بن الزبير ، ان عائشة , قالت: " والله لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوم على باب حجرتي والحبشة يلعبون في المسجد , ورسول الله صلى الله عليه وسلم يسترني بردائه لكي انظر إلى لعبهم , ثم يقوم من اجلي حتى اكون انا التي انصرف , فاقدروا قدر الجارية الحديثة السن , الحريصة على اللهو" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ صَالِحٍ , قَالَ ابْنُ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ عَلَى بَابِ حُجْرَتِي وَالْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ , وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ لِكَيْ أَنْظُرَ إِلَى لَعِبِهِمْ , ثُمَّ يَقُومُ مِنْ أَجْلِي حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّتِي أَنْصَرِفُ , فَاقْدُرُوا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْحَدِيثَةِ السِّنِّ , الْحَرِيصَةِ عَلَى اللَّهْوِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ واللہ میں نے وہ وقت دیکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حبشی صحن میں کرتب دکھا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وہ کرتب دکھانے کے لئے اپنی چادر سے پردہ کرنے لگے، میں ان کے کانوں اور کندھے کے درمیان تھی، پھر وہ میری وجہ سے کھڑے رہے حتیٰ کہ میں واپس چلی گئیں، اب تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ ایک نو عمر لڑکی کو کھیل کود کی کتنی رغبت ہوگی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ہمارے اس طریقے کے علاوہ کوئی اور طریقہ ایجاد کرتا ہے تو وہ مردود ہے۔
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابن اخي ابن شهاب , عن عمه , قال: اخبرني عروة بن الزبير , عن عائشة , قالت: اتت سهلة بنت سهيل بن عمرو , وكانت تحت ابي حذيفة بن عتبة , رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: إن سالما مولى ابي حذيفة يدخل علينا وإنا فضل , وإنا كنا نراه ولدا , وكان ابو حذيفة تبناه كما تبنى رسول الله صلى الله عليه وسلم زيدا , فانزل الله ادعوهم لآبائهم هو اقسط عند الله سورة الاحزاب آية 5 " فامرها رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك ان ترضع سالما" , فارضعته خمس رضعات وكان بمنزلة ولدها من الرضاعة , فبذلك كانت عائشة تامر اخواتها وبنات اخواتها ان يرضعن من احبت عائشة ان يراها ويدخل عليها , وإن كان كبيرا خمس رضعات , ثم يدخل عليها , وابت ام سلمة وسائر ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ان يدخلن عليهن بتلك الرضاعة احدا من الناس حتى يرضع في المهد , وقلن لعائشة والله ما ندري لعلها كانت رخصة من رسول الله صلى الله عليه وسلم لسالم من دون الناس .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عَمِّهِ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: أَتَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو , وَكَانَتْ تَحْتَ أَبِي حُذَيْفَةَ بْنِ عُتْبَةَ , رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ سَالِمًا مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ يَدْخُلُ عَلَيْنَا وَإِنَّا فُضُلٌ , وَإِنَّا كُنَّا نَرَاهُ وَلَدًا , وَكَانَ أَبُو حُذَيْفَةَ تَبَنَّاهُ كَمَا تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا , فَأَنْزَلَ اللَّهُ ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5 " فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ أَنْ تُرْضِعَ سَالِمًا" , فَأَرْضَعَتْهُ خَمْسَ رَضَعَاتٍ وَكَانَ بِمَنْزِلَةِ وَلَدِهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ , فَبِذَلِكَ كَانَتْ عَائِشَةُ تَأْمُرُ أَخَوَاتِهَا وَبَنَاتِ أَخَوَاتِهَا أَنْ يُرْضِعْنَ مَنْ أَحَبَّتْ عَائِشَةُ أَنْ يَرَاهَا وَيَدْخُلَ عَلَيْهَا , وَإِنْ كَانَ كَبِيرًا خَمْسَ رَضَعَاتٍ , ثُمَّ يَدْخُلُ عَلَيْهَا , وَأَبَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَسَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُدْخِلْنَ عَلَيْهِنَّ بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَرْضَعَ فِي الْمَهْدِ , وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ وَاللَّهِ مَا نَدْرِي لَعَلَّهَا كَانَتْ رُخْصَةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسَالِمٍ مِنْ دُونِ النَّاسِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت ابوحذیفہ سے سالم کو " جو ایک انصاری خاتون کے آزاد کردہ غلام تھے " اپنا منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کو بنا لیا تھا، زمانہ جاہلیت میں لوگ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھتے تھے اور اسے وراثت کا حق دار بھی قرار دیتے تھے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی انہیں ان کی آباؤ اجداد کی طرف منسوب کر کے بلایا کرو، یہی بات اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف پر مبنی ہے "۔ اسی پس منظر میں ایک دن حضرت سہلہ آئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ! ہم سالم کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے، وہ میرے اور ابوحذیفہ کے ساتھ رہتا تھا اور میری پردہ کی باتیں دیکھتا تھا، اب اللہ نے منہ بولے بیٹوں کے متعلق حکم نازل کردیا ہے، جو آپ بھی جانتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے پانچ گھونٹ اپنا دودھ پلادو، چنانچہ اس کے بعد سالم ان کے رضاعی بیٹے جیسے بن گئے، اس وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جس شخص کو " خواہ وہ بڑی عمر کا ہوتا " اپنے گھر آنے کی اجازت دینا مناسب سمجھتیں تو اپنی کسی بہن یا بھانجی سے اسے دودھ پلوا دیتیں اور وہ ان کے یہاں آتا جاتا، لیکن حضرت ام سلمہ اور دیگر ازواجِ مطہرات اس رضاعت سے کسی کو اپنے یہاں آنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہتی تھیں کہ ہمیں معلوم نہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ رخصت صرف سالم کے لئے ہو۔
حدثنا يعقوب , حدثنا ابي , عن صالح بن كيسان , قال ابن شهاب : اخبرني عروة بن الزبير ، ان عائشة , قالت: " كان عمر بن الخطاب يقول لرسول الله صلى الله عليه وسلم: احجب نساءك , قالت: فلم يفعل , قالت: وكان ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرجن ليلا إلى ليل قبل المناصع , فخرجت سودة بنت زمعة , وكانت امراة طويلة , فرآها عمر وهو في المسجد , فقال: قد عرفتك يا سودة , حرصا على ان ينزل الحجاب , قالت: فانزل الله عز وجل الحجاب .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ , قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْجُبْ نِسَاءَكَ , قَالَتْ: فَلَمْ يَفْعَلْ , قَالَتْ: وَكَانَ أَزْوَاجُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجْنَ لَيْلًا إِلَى لَيْلٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ , فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ , وَكَانَتْ امْرَأَةً طَوِيلَةً , فَرَآهَا عُمَرُ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ , فَقَالَ: قَدْ عَرَفْتُكِ يَا سَوْدَةُ , حِرْصًا عَلَى أَنْ يُنْزَلَ الْحِجَابُ , قَالَتْ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْحِجَابَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات قضاء حاجت کے لئے خالی میدانوں کی طرف رات کے وقت نکلا کرتی تھیں، ایک مرتبہ حضرت سودہ قضاء حاجت کے لئے نکلیں، چونکہ ان کا قد لمبا اور جسم بھاری تھا (اس لئے لوگ انہیں پہچان لیتے تھے) راستے میں انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے حضرت سودہ کو دیکھ کر دور سے ہی پکارا سودہ! ہم نے تمہیں پہچان لیا اور یہ بات انہوں نے حجاب کا حکم نازل ہونے کی امید میں کہی تھی، چنانچہ آیت حجاب نازل ہوگئی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کو نقصان دہ قرار دیا ہے، لیکن میں نے انہیں چھپکلی کو مارنے کا حکم دیتے ہوئے نہیں سنا۔
حدثنا يعقوب , حدثنا ابن اخي ابن شهاب , عن عمه , قال: اخبرني عروة بن الزبير , انه سمع عائشة ، تقول: دخلت علي يهودية , فقالت: شعرت انكم تفتنون في القبور , قالت: فسمع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم , فارتاع , ثم قال:" إنما يفتن اليهود" فقالت عائشة: فلبثت بعد ذلك ليالي , ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هل شعرت انه اوحي إلي انكم تفتنون في القبور؟" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عَمِّهِ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: دَخَلَتْ عَلَيَّ يَهُودِيَّةٌ , فَقَالَتْ: شَعَرْتُ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ , قَالَتْ: فَسَمِعَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَارْتَاعَ , ثُمَّ قَالَ:" إِنَّمَا يُفْتَنُ الْيَهُودُ" فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَبِثْتُ بَعْدَ ذَلِكَ لَيَالِيَ , ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ؟" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو ایک یہودی عورت میرے یہاں بیٹھی تھی اور وہ یہ کہہ رہی تھی کیا تمہیں معلوم ہے کہ قبروں میں تمہاری آزمائش کی جائے گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا یہودیوں کو ہی آزمائش میں مبتلا کیا جائے گا، کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کیا تمہیں پتہ چلا کہ مجھ پر یہ وحی آگئی ہے کہ تمہیں قبروں میں آزمایا جائے گا؟ اس کے بعد میں نے ہمیشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ہے۔
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابن اخي ابن شهاب , عن عمه , قال: اخبرني عروة بن الزبير , ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته، انه جاءها افلح اخو ابي القعيس , وابو القعيس ارضع عائشة , فجاءها يستاذن عليها , فابت ان تاذن له , حتى ذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم , فقالت: يا رسول الله , إن افلح اخا ابي القعيس , جاء يستاذن علي , فلم آذن له؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وما يمنعك ان تاذني لعمك؟" قلت: يا رسول الله , إن ابا قعيس ليس هو ارضعني , إنما ارضعتني امراته؟ فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ائذني له حين ياتيك , فإنه عمك" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عَمِّهِ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهُ جَاءَهَا أَفْلَحُ أَخُو أَبِي الْقُعَيْسِ , وَأَبُو الْقُعَيْسِ أَرْضَعَ عَائِشَةَ , فَجَاءَهَا يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَا , فَأَبَتْ أَنْ تَأْذَنَ لَهُ , حَتَّى ذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَفْلَحَ أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ , جَاءَ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ , فَلَمْ آذَنْ لَهُ؟ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَمَا يَمْنَعُكِ أَنْ تَأْذَنِي لِعَمِّكِ؟" قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَبَا قُعَيْسٍ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي , إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي امْرَأَتُهُ؟ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ائْذَنِي لَهُ حِينَ يَأْتِيكِ , فَإِنَّهُ عَمُّكِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابوقیس کے بھائی " افلح " نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے گھر میں داخل ہو نیکی اجازت مانگی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نامحرم سمجھ کر اجازت دینے سے انکار کردیا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو ان سے ذکر کردیا کہ یا رسول اللہ! ابوقیس کے بھائی افلح نے مجھ سے گھر میں آنے کی اجازت مانگی تھی لیکن میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اجازت دے دیا کرو، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے تو دودھ نہیں پلایا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں، وہ تمہارے چچا ہیں، انہیں اجازت دے دیا کرو۔
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابن اخي ابن شهاب , عن عمه , قال: اخبرني عروة بن الزبير , ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم , اخبرته، ان بريرة دخلت عليها تستعينها في كتابتها , فقالت لها عائشة: ونفست فيها ارايت إن عديت لاهلك الذي عليك عدة واحدة , ايفعلن ذلك واعتقك فتكوني مولاتي؟ فذهبت بريرة إلى اهلها , فعرضت ذلك عليهم , فقالوا: لا , إلا ان يكون ولاؤك لنا , قالت عائشة: فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت له ذلك , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اشتري فاعتقي , فإن الولاء لمن اعتق" ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم عشية , فقال:" ما بال رجال يشترطون شروطا ليست في كتاب الله , الا من اشترط شرطا ليس في كتاب الله فليس له , وإن اشترط مائة مرة شرط الله احق واوثق" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عَمِّهِ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ بَرِيرَةَ دَخَلَتْ عَلَيْهَا تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا , فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: وَنَفِسَتْ فِيهَا أَرَأَيْتِ إِنْ عَدَّيْتُ لِأَهْلِكِ الَّذِي عَلَيْكِ عَدَّةً وَاحِدَةً , أَيَفْعَلُنَّ ذَلِكَ وَأُعْتِقُكِ فَتَكُونِي مَوْلَاتِي؟ فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا , فَعَرَضَتْ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ , فَقَالُوا: لَا , إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَلَاؤُكَ لَنَا , قَالَتْ عَائِشَةُ: فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ لَهُ ذَلِكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اشْتَرِي فَأَعْتِقِي , فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ" ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةً , فَقَالَ:" مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ , أَلَا مَنْ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَيْسَ لَهُ , وَإِنْ اشْتَرَطَ مِائَةَ مَرَّةٍ شَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بریرہ ان کے پاس آئی، وہ مکاتبہ تھی اور اپنے بدل کتابت کی ادائیگی کے سلسلے میں مدد کی درخواست لے کر آئی تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا کیا تمہارے مالک تمہیں بیچنا چاہتے ہیں؟ اگر وہ چاہیں تو میں تمہارا بدل کتابت ادا کردیتی ہوں لیکن تمہاری ولاء مجھے ملے گی، وہ اپنے مالک کے پاس آئی اور ان سے ذکر کیا، وہ کہنے لگے کہ اس وقت تک نہیں جب تک وہ یہ شرط تسلیم نہ کرلیں کہ تمہاری وراثت ہمیں ملے گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تم اسے خرید کر آزاد کردو، کیونکہ ولاء یعنی غلام کی وراثت تو اسی کا حق ہے جو غلام کو آزاد کرے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں موجود نہیں ہیں، جو شخص کوئی ایسی شرط لگائے جس کی اجازت کتاب اللہ میں موجود نہ ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں اگرچہ سینکڑوں مرتبہ شرط لگا لے، اللہ تعالیٰ کی شرط ہی زیادہ حقدار اور مضبوط ہوتی ہے۔
حدثنا يعقوب , قال: اخبرنا ابن اخي ابن شهاب , عن عمه , قال: اخبرني عروة , عن عائشة , انها قالت: " إنها كانت ترجل رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي طامث , ورسول الله صلى الله عليه وسلم عاكف في المسجد , فيتكئ إلى اسكفة باب عائشة , فتغسل راسه وهي في حجرتها" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عَمِّهِ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: " إِنَّهَا كَانَتْ تُرَجِّلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ طَامِثٌ , وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَاكِفٌ فِي الْمَسْجِدِ , فَيَتَّكِئُ إِلَى أُسْكُفَّةِ بَابِ عَائِشَةَ , فَتَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهِيَ فِي حُجْرَتِهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معتکف ہوتے اور مسجد سے اپنا سر باہر نکال دیتے، میں اپنے حجرے ہی میں بیٹھ کر اسے دھو دیتی حالانکہ میں ایام سے ہوتی تھی۔
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابن اخي ابن شهاب , عن عمه , قال: اخبرني عروة بن الزبير , ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتم ليلة من الليالي بصلاة العشاء , وهي التي يقول الناس لها: صلاة العتمة , قالت: فلم يخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى قال عمر: الصلاة , قد نام النساء والصبيان , فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لاهل المسجد حين خرج عليهم: " ما ينتظرها احد من اهل الارض غيركم" , وذلك قبل ان يفشو الإسلام في الناس .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عَمِّهِ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَمَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي بِصَلَاةِ الْعِشَاءِ , وَهِيَ الَّتِي يَقُولُ النَّاسُ لَهَا: صَلَاةُ الْعَتَمَةِ , قَالَتْ: فَلَمْ يَخْرُجْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَالَ عُمَرُ: الصَّلَاةَ , قَدْ نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ , فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِأَهْلِ الْمَسْجِدِ حِينَ خَرَجَ عَلَيْهِمْ: " مَا يَنْتَظِرُهَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ غَيْرَكُمْ" , وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَفْشُوَ الْإِسْلَامُ فِي النَّاسِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء میں تاخیر کردی، حتیٰ کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے اور فرمایا اہل زمین میں سے اس وقت کوئی بھی آدمی ایسا نہیں ہے جو تمہارے علاوہ یہ نماز پڑھ رہا ہو اور اس وقت اہل مدینہ کے علاوہ یہ نماز کوئی نہیں پڑھ رہا یہ اسلام پھیلنے سے پہلے کی بات ہے۔
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني صالح بن كيسان , عن عروة بن الزبير , عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم , قال: قالت: " كان اول ما افترض على رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة ركعتان ركعتان , إلا المغرب , فإنها كانت ثلاثا , ثم اتم الله الظهر والعصر والعشاء الآخرة اربعا في الحضر , واقر الصلاة على فرضها الاول في السفر" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: قَالَتْ: " كَانَ أَوَّلَ مَا افْتُرِضَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةُ رَكْعَتَانِ رَكْعَتَانِ , إِلَّا الْمَغْرِبَ , فَإِنَّهَا كَانَتْ ثَلَاثًا , ثُمَّ أَتَمَّ اللَّهُ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْعِشَاءَ الْآخِرَةَ أَرْبَعًا فِي الْحَضَرِ , وَأَقَرَّ الصَّلَاةَ عَلَى فَرْضِهَا الْأَوَّلِ فِي السَّفَرِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مکہ مکرمہ میں نماز کی ابتدائی فرضیت دو دو رکعتوں کی صورت میں ہوئی تھی، سوائے مغرب کے کہ اس کی تین رکعتیں ہی تھیں، پھر اللہ نے حضر میں ظہر اور عشاء کو مکمل کردیا اور سفر میں ابتدائی فرضیت کو برقرار رکھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن، خ: 350، م: 685
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: اتت سلمى مولاة رسول الله صلى الله عليه وسلم , او امراة ابي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم , إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تستاذنه على ابي رافع قد ضربها , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابي رافع: " ما لك ولها يا ابا رافع؟" قال: تؤذيني يا رسول الله , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بم آذيتيه يا سلمى؟" قالت: يا رسول الله , ما آذيته بشيء , ولكنه احدث وهو يصلي , فقلت له: يا ابا رافع , إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد امر المسلمين إذا خرج من احدهم الريح ان يتوضا , فقام فضربني , فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك ويقول:" يا ابا رافع , إنها لم تامرك إلا بخير" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: أَتَتْ سَلْمَى مَوْلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَوْ امْرَأَةُ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْتَأْذِنُهُ عَلَى أَبِي رَافِعٍ قَدْ ضَرَبَهَا , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي رَافِعٍ: " مَا لَكَ وَلَهَا يَا أَبَا رَافِعٍ؟" قَالَ: تُؤْذِينِي يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِمَ آذَيْتِيهِ يَا سَلْمَى؟" قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا آذَيْتُهُ بِشَيْءٍ , وَلَكِنَّهُ أَحْدَثَ وَهُوَ يُصَلِّي , فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا رَافِعٍ , إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ الْمُسْلِمِينَ إِذَا خَرَجَ مِنْ أَحَدِهِمْ الرِّيحُ أَنْ يَتَوَضَّأَ , فَقَامَ فَضَرَبَنِي , فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ وَيَقُولُ:" يَا أَبَا رَافِعٍ , إِنَّهَا لَمْ تَأْمُرْكَ إِلَّا بِخَيْرٍ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آزاد کردہ باندی سلمی " جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ابو رافع کی بیوی تھی " نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ ابو رافع نے اسے مارا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع سے پوچھا کہ اے ابو رافع! تمہارا ان کے ساتھ جھگڑا ہوگیا؟ ابو رافع نے کہا یا رسول اللہ! اس نے مجھے ایذاء پہنچائی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سلمی! تم نے اسے کیا تکلیف پہنچائی ہے؟ سلمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچائی، البتہ نماز پڑھتے پڑھتے ان کا وضو ٹوٹ گیا تھا تو میں نے ان سے کہہ دیا کہ اے ابو رافع! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دے رکھا ہے کہ اگر کسی کی ہوا خارج ہوجائے تو وہ وضو کرے، بس اتنی بات پر یہ کھڑے ہو کر مجھے مارنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنسنے لگے اور فرمایا اے ابو رافع! اس نے تو تمہیں خیر کی ہی بات بتائی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن من أجل ابن إسحاق وقد صرح بسماعه من هشام
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسواک کے ساتھ نماز کی فضیلت مسواک کے بغیر پڑھے جانے والی نماز پر ستر گناہ زیادہ ہے۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف، وهذا إسناد منقطع لأن ابن إسحاق لم يسمع هذا الحديث من الزهري
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , حدثني يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير , عن ابيه , عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: " اقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره حتى إذا كنا بتربان , بلد بينه وبين المدينة بريد واميال , وهو بلد لا ماء به , وذلك من السحر , انسلت قلادة لي من عنقي , فوقعت , فحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم لالتماسها حتى طلع الفجر , وليس مع القوم ماء , قالت: فلقيت من ابي ما الله به عليم من التعنيف والتافيف , وقال: في كل سفر للمسلمين منك عناء وبلاء؟ قالت: فانزل الله الرخصة بالتيمم , قالت: فتيمم القوم وصلوا , قالت: يقول ابي: حين جاء من الله ما جاء من الرخصة للمسلمين والله ما علمت يا بنية , إنك لمباركة , ماذا جعل الله للمسلمين في حبسك إياهم من البركة واليسر؟" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: " أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِتُرْبَانَ , بَلَدٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْمَدِينَةِ بَرِيدٌ وَأَمْيَالٌ , وَهُوَ بَلَدٌ لَا مَاءَ بِهِ , وَذَلِكَ مِنَ السَّحَرِ , انْسَلَّتْ قِلَادَةٌ لِي مِنْ عُنُقِي , فَوَقَعَتْ , فَحُبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِالْتِمَاسِهَا حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ , وَلَيْسَ مَعَ الْقَوْمِ مَاءٌ , قَالَتْ: فَلَقِيتُ مِنْ أَبِي مَا اللَّهُ بِهِ عَلِيمٌ مِنَ التَّعْنِيفِ وَالتَّأْفِيفِ , وَقَالَ: فِي كُلِّ سَفَرٍ لِلْمُسْلِمِينَ مِنْكِ عَنَاءٌ وَبَلَاءٌ؟ قَالَتْ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ الرُّخْصَةَ بِالتَّيَمُّمِ , قَالَتْ: فَتَيَمَّمَ الْقَوْمُ وَصَلَّوْا , قَالَتْ: يَقُولُ أَبِي: حِينَ جَاءَ مِنَ اللَّهِ مَا جَاءَ مِنَ الرُّخْصَةِ لِلْمُسْلِمِينَ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ يَا بُنَيَّةُ , إِنَّكِ لَمُبَارَكَةٌ , مَاذَا جَعَلَ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ فِي حَبْسِكِ إِيَّاهُمْ مِنَ الْبَرَكَةِ وَالْيُسْرِ؟" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی سفر سے واپس آرہے تھے، جب مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر ایک علاقے " تربان " جہاں پانی نہیں ہوتا " تو سحری کے وقت میرے گلے سے ہار ٹوٹ کر گرپڑا، اسے تلاش کرنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے، یہاں صبح صادق ہوگئی اور لوگوں کے پاس پانی تھا نہیں، مجھے اپنے والد صاحب کی طرف سے جو طعنے سننے کو ملے وہ اللہ ہی جانتا ہے کہ مسلمان کو ہر سفر میں تمہاری وجہ سے ہی تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچھ دیر بعد اللہ نے تیمم کی رخصت نازل فرما دی اور لوگوں نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، یہ رخصت دیکھ کر والد صاحب نے مجھ سے کہا بیٹا! واللہ مجھے معلوم نہ تھا کہ تو اتنی مبارک ہے، اللہ نے تیرے رکنے کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے کتنی آسانی اور برکت نازل فرما دی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل ابن إسحاق
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سیدھی بات کہا کرو، لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا کرو اور خوشخبریاں دیا کرو، یاد رکھو! تم سب سے کسی شخص کو اس کے اعمال جنت میں نہیں لے جاسکیں گے اور جان رکھو کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو دائمی ہو، اگرچہ تھوڑا ہو۔
حدثنا هاشم بن القاسم , قال: حدثنا عبد العزيز يعني ابن عبد الله بن ابي سلمة , عن عبد الرحمن بن القاسم , عن ابيه , قال: كانت عائشة ، تقول: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نذكر إلا الحج , فلما قدمنا سرف طمثت , فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي , فقال:" ما يبكيك؟" قلت: وددت اني لم اخرج العام , قال:" لعلك نفست" يعني حضت , قالت: قلت: نعم , قال: " إن هذا شيء كتبه الله على بنات آدم , فافعلي ما يفعل الحاج غير ان لا تطوفي بالبيت حتى تطهري" , فلما قدمنا مكة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحابه:" اجعلوها عمرة" , فحل الناس إلا من كان معه هدي , وكان الهدي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر، وعمر وذوي اليسارة , قالت: ثم راحوا مهلين بالحج , فلما كان يوم النحر طهرت , فارسلني رسول الله فافضت , يعني طفت , قالت فاتينا بلحم بقر , فقلت ما هذا؟ قالوا: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذبح عن نسائه البقر , قالت: فلما كانت ليلة الحصبة , قلت: يا رسول الله , يرجع الناس بحجة وعمرة وارجع بحجة , فامر عبد الرحمن بن ابي بكر , فاردفني على جمله , قالت: فإني لاذكر وانا جارية حديثة السن , اني انعس , فتضرب وجهي مؤخرة الرحل , حتى جاء بي التنعيم , فاهللت بعمرة جزاء لعمرة الناس التي اعتمروا .حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: كَانَتْ عَائِشَةُ ، تَقُولُ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَذْكُرُ إِلَّا الْحَجَّ , فَلَمَّا قَدِمْنَا سَرِفَ طَمِثْتُ , فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي , فَقَالَ:" مَا يُبْكِيكِ؟" قُلْتُ: وَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَخْرُجْ الْعَامَ , قَالَ:" لَعَلَّكِ نَفِسْتِ" يَعْنِي حِضْتِ , قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ: " إِنَّ هَذَا شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ , فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي" , فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ:" اجْعَلُوهَا عُمْرَةً" , فَحَلَّ النَّاسُ إِلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ , وَكَانَ الْهَدْيُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ وَذَوِي الْيَسَارَةِ , قَالَتْ: ثُمَّ رَاحُوا مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ , فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ طَهُرْتُ , فَأَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ فَأَفَضْتُ , يَعْنِي طُفْتُ , قَالَتْ فَأُتِينَا بِلَحْمِ بَقَرٍ , فَقُلْتُ مَا هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَبَحَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ , قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , يَرْجِعُ النَّاسُ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ وَأَرْجِعُ بِحَجَّةٍ , فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ , فَأَرْدَفَنِي عَلَى جَمَلِهِ , قَالَتْ: فَإِنِّي لَأَذْكُرُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ , أَنِّي أَنْعَسُ , فَتَضْرِبُ وَجْهِي مُؤَخِّرَةُ الرَّحْلِ , حَتَّى جَاءَ بِي التَّنْعِيمَ , فَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ جَزَاءً لِعُمْرَةِ النَّاسِ الَّتِي اعْتَمَرُوا .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم نے حج کا تلبیہ پڑھا، جب سرف کے مقام پر پہنچے تو میرے " ایام " شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں رو رہی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میرے " ایام " شروع ہوگئے ہیں، کاش! میں حج ہی نہ کرنے آتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! یہ تو وہ چیز ہے جو اللہ نے آدم علیہ السلام کی ساری بیٹیوں پر لکھ دی ہے، تم سارے مناسک ادا کرو، البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا، جب ہم مکہ مکرمہ میں داخل ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے احرام کو عمرے کا احرام بنانا چا ہے، وہ ایسا کرسکتا ہے، الاّ یہ کہ اس کے پاس ہدی کا جانور ہو۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذی الحجہ کو اپنی ازواج کی طرف سے گائے ذبح کی تھی، شب بطحاء کو میں " پاک " ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میری سہیلیاں حج اور عمرہ کے ساتھ اور میں صرف حج کے ساتھ واپس جاؤں گی؟ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو حکم دیا اور وہ مجھے تنعیم لے گئے جہاں سے میں عمرے کا احرام باندھا۔
حدثنا يعقوب , حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: فحدثني عبد الرحمن بن القاسم , عن ابيه القاسم بن محمد , عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الحج لخمس ليال بقين من ذي القعدة , ولا يذكر الناس إلا الحج , حتى إذا كان بسرف , وقد ساق رسول الله صلى الله عليه وسلم معه الهدي , واشراف من الناس , امر الناس ان يحلوا بعمرة إلا من ساق الهدي , وحضت ذلك اليوم , فدخل علي وانا ابكي , فقال: " ما لك يا عائشة لعلك نفست؟" قالت: قلت: نعم , والله لوددت اني لم اخرج معكم عامي هذا في هذا السفر , قال:" لا تفعلي , لا تقولي ذلك , فإنك تقضين كل ما يقضي الحاج إلا انك لا تطوفين بالبيت"، قالت فمضيت على حجتي ودخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة , فحل كل من كان لا هدي معه , وحل نساؤه بعمرة , فلما كان يوم النحر اتيت بلحم بقر كثير , فطرح في بيتي , فقلت: ما هذا؟ قالوا: ذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نسائه البقر , حتى إذا كانت ليلة الحصبة بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم مع اخي عبد الرحمن بن ابي بكر , فاعمرني من التنعيم , مكان عمرتي التي فاتتني وحدثنا يعقوب في موضع آخر في الحج: وامر رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه فحللن بعمرة , وامر رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس ان يحل من لم يكن معه هدي , وامر من كان معه هدي من اشراف الناس ان يثبت على حرمه .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: فَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِيهِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْحَجِّ لِخَمْسِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ , وَلَا يَذْكُرُ النَّاسُ إِلَّا الْحَجَّ , حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرِفَ , وَقَدْ سَاقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ الْهَدْيَ , وَأَشْرَافٌ مِنَ النَّاسِ , أَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَحِلُّوا بِعُمْرَةٍ إِلَّا مَنْ سَاقَ الْهَدْيَ , وَحِضْتُ ذَلِكَ الْيَوْمَ , فَدَخَلَ عَلَيَّ وَأَنَا أَبْكِي , فَقَالَ: " مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ لَعَلَّكِ نَفِسْتِ؟" قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ , وَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَخْرُجْ مَعَكُمْ عَامِي هَذَا فِي هَذَا السَّفَرِ , قَالَ:" لَا تَفْعَلِي , لَا تَقُولِي ذَلِكَ , فَإِنَّكِ تَقْضِينَ كُلَّ مَا يَقْضِي الْحَاجُّ إِلَّا أَنَّكِ لَا تَطُوفِينَ بِالْبَيْتِ"، قَالَتْ فَمَضَيْتُ عَلَى حَجَّتِي وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ , فَحَلَّ كُلُّ مَنْ كَانَ لَا هَدْيَ مَعَهُ , وَحَلَّ نِسَاؤُهُ بِعُمْرَةٍ , فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ أُتِيتُ بِلَحْمِ بَقَرٍ كَثِيرٍ , فَطُرِحَ فِي بَيْتِي , فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ , حَتَّى إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَخِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ , فَأَعْمَرَنِي مِنَ التَّنْعِيمِ , مَكَانَ عُمْرَتِي الَّتِي فَاتَتْنِي وحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ فِي الْحَجِّ: وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ فَحَلَلْنَ بِعُمْرَةٍ , وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ أَنْ يَحِلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ , وَأَمَرَ مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ مِنْ أَشْرَافِ النَّاسِ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى حُرْمِهِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم نے حج کا تلبیہ پڑھا، جب سرف کے مقام پر پہنچے تو میرے " ایام " شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں رو رہی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میرے " ایام " شروع ہوگئے ہیں، کاش! میں حج ہی نہ کرنے آتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! یہ تو وہ چیز ہے جو اللہ نے آدم علیہ السلام کی ساری بیٹیوں پر لکھ دی ہے، تم سارے مناسک ادا کرو، البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا، جب ہم مکہ مکرمہ میں داخل ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے احرام کو عمرے کا احرام بنانا چا ہے، وہ ایسا کرسکتا ہے، الاّ یہ کہ اس کے پاس ہدی کا جانور ہو۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذی الحجہ کو اپنی ازواج کی طرف سے گائے ذبح کی تھی، شب بطحاء کو میں " پاک " ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میری سہلیاں حج اور عمرہ کے ساتھ اور میں صرف حج کے ساتھ واپس جاؤں گی؟ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو حکم دیا اور وہ مجھے تنعیم لے گئے جہاں سے میں عمرے کا احرام باندھا۔
حدثنا حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن محمد بن إسحاق , قال: حدثني محمد بن جعفر بن الزبير , عن عروة بن الزبير , ان عائشة حدثته، انه قال حين قالوا: " خشينا ان يكون به ذات الجنب , إنها من الشيطان ولم يكن الله ليسلطه علي" : قال قال ابن إسحاق : قال ابن شهاب : حدثني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة , عن عائشة , قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كثيرا ما اسمعه يقول: " إن الله لم يقبض نبيا حتى يخيره" قالت: فلما حضر رسول الله صلى الله عليه وسلم كان آخر كلمة سمعتها منه وهو يقول:" بل الرفيق الاعلى من الجنة" قالت: قلت: إذا والله لا يختارنا , وقد عرفت انه الذي كان يقول لنا:" إن نبيا لا يقبض حتى يخير" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنَّهُ قَالَ حِينَ قَالُوا: " خَشِينَا أَنْ يَكُونَ بِهِ ذَاتُ الْجَنْبِ , إِنَّهَا مِنَ الشَّيْطَانِ وَلَمْ يَكُنْ اللَّهُ لِيُسَلِّطَهُ عَلَيَّ" : قَالَ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ : قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرًا مَا أَسْمَعُهُ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَقْبِضْ نَبِيًّا حَتَّى يُخَيِّرَهُ" قَالَتْ: فَلَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ آخِرُ كَلِمَةٍ سَمِعْتُهَا مِنْهُ وَهُوَ يَقُولُ:" بَلْ الرَّفِيقُ الْأَعْلَى مِنَ الْجَنَّةِ" قَالَتْ: قُلْتُ: إِذًا وَاللَّهِ لَا يَخْتَارُنَا , وَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ الَّذِي كَانَ يَقُولُ لَنَا:" إِنَّ نَبِيًّا لَا يُقْبَضُ حَتَّى يُخَيَّرَ" .
عروہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا لوگ بھی خوفزدہ ہوگئے اور ہمارے خیال کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو " ذات الجنب " کی شکایت تھی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا خیال یہ ہے کہ اللہ نے مجھ پر اس بیماری کو مسلط کیا ہے، حالانکہ اللہ اسے مجھ پر کبھی بھی مسلط نہیں کرے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کرتے تھے جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روح قبض ہونے کا وقت آتا تھا، ان کی روح قبض ہونے کے بعد انہیں ان کا ثواب دکھایا جاتا تھا پھر واپس لوٹا کر انہیں اس بات کا اختیار دیا جاتا تھا کہ انہیں اس ثواب کی طرف لوٹا کر ملا دیا جائے (یا دنیا میں بھیج دیا جائے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت وصال جب قریب آیا تو میں نے ان کے منہ سے آخری کلمہ جو سنا وہ یہ تھا " رفیق اعلیٰ کے ساتھ جنت میں " مجھے وہ بات یاد آگئی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور میں سمجھ گئی کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی صورت ہمیں ترجیح نہ دیں گے۔
حكم دارالسلام: هذا حديث له اسنادان: الاسناد الاول حسن لتصريح تحديث ابن اسحاق، والاسناد الثاني ضعيف لتدليس ابن اسحاق وعدم يصريح التحديث
حدثنا يعقوب , حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني يعقوب بن عتبة , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك اليوم حين دخل من المسجد , فاضطجع في حجري , فدخل علي رجل من آل ابي بكر , وفي يده سواك اخضر , قالت: فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إليه في يده نظرا عرفت انه يريده , قالت: فقلت: يا رسول الله , تحب ان اعطيك هذا السواك؟ قال:" نعم" , قالت: فاخذته فمضغته له حتى النته واعطيته إياه , قالت: فاستن به كاشد ما رايته يستن بسواك قبله , ثم وضعه , ووجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم يثقل في حجري , قالت فذهبت انظر في وجهه فإذا بصره قد شخص , وهو يقول: " بل الرفيق الاعلى من الجنة" , فقلت: خيرت فاخترت والذي بعثك بالحق , قالت: وقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ عُتْبَةَ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ حِينَ دَخَلَ مِنَ الْمَسْجِدِ , فَاضْطَجَعَ فِي حِجْرِي , فَدَخَلَ عَلَيَّ رَجُلٌ مِنْ آلِ أَبِي بَكْرٍ , وَفِي يَدِهِ سِوَاكٌ أَخْضَرُ , قَالَتْ: فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ فِي يَدِهِ نَظَرًا عَرَفْتُ أَنَّهُ يُرِيدُهُ , قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , تُحِبُّ أَنْ أُعْطِيَكَ هَذَا السِّوَاكَ؟ قَالَ:" نَعَمْ" , قَالَتْ: فَأَخَذْتُهُ فَمَضَغْتُهُ لَهُ حَتَّى أَلَنْتُهُ وَأَعْطَيْتُهُ إِيَّاهُ , قَالَتْ: فَاسْتَنَّ بِهِ كَأَشَدِّ مَا رَأَيْتُهُ يَسْتَنُّ بِسِوَاكٍ قَبْلَهُ , ثُمَّ وَضَعَهُ , وَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَثْقُلُ فِي حِجْرِي , قَالَتْ فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فِي وَجْهِهِ فَإِذَا بَصَرُهُ قَدْ شَخَصَ , وَهُوَ يَقُولُ: " بَلْ الرَّفِيقُ الْأَعْلَى مِنَ الْجَنَّةِ" , فَقُلْتُ: خُيِّرْتَ فَاخْتَرْتَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ , قَالَتْ: وَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وصال کے دن مسجد سے واپس آکر میری گود میں لیٹ گئے، اسی دوران حضرت صدیق اکبر کے گھر کا کوئی فرد ہاتھ میں سبز مسواک لئے ہوئے آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اس طرح دیکھا کہ میں سمجھ گئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرنا چاہتے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں یہ مسواک آپ کو دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! میں نے اسے لے کر چبا کر نرم کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح عمدگی سے مسواک کی جس طرح میں انہیں پہلے کرتے ہوئے دیکھتی تھی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھ دیا، میں نے محسوس کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم بھاری ہو رہا ہے، میں نے ان کے چہرے پر نظر ڈالی تو ان کی نگاہیں اوپر اٹھی ہوئی تھیں اور وہ کہہ رہے تھے " جنت میں رفیق اعلیٰ کے ساتھ " میں نے کہا آپ کو اختیار دیا گیا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، آپ نے اسے اختیار کرلیا اور اسی دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن من أجل ابن إسحاق لأنه صرح بالتحديث
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير , عن ابيه عباد , قال:: سمعت عائشة تقول: " مات رسول الله صلى الله عليه وسلم بين سحري ونحري وفي دولتي , لم اظلم فيه احدا , فمن سفهي وحداثة سني ان رسول الله قبض وهو في حجري , ثم وضعت راسه على وسادة , وقمت التدم مع النساء , واضرب وجهي" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ أَبِيهِ عَبَّادٍ , قَالَ:: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: " مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي وَفِي دَوْلَتِي , لَمْ أَظْلِمْ فِيهِ أَحَدًا , فَمِنْ سَفَهِي وَحَدَاثَةِ سِنِّي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قُبِضَ وَهُوَ فِي حِجْرِي , ثُمَّ وَضَعْتُ رَأْسَهُ عَلَى وِسَادَةٍ , وَقُمْتُ أَلْتَدِمُ مَعَ النِّسَاءِ , وَأَضْرِبُ وَجْهِي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال میری گردن اور سینہ کے درمیان اور میری باری کے دن میں ہوا تھا، اس میں میں نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا، لیکن یہ میری بیوقوفی اور نوعمری تھی کہ میری گود میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور پھر میں نے ان کا سر اٹھا کر تکیہ پر رکھ دیا اور خود عورتوں کے ساتھ مل کر رونے اور اپنے چہرے پر ہاتھ مارنے لگی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم عورتوں کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کسی جگہ عمل میں آئے گی، یہاں تک کہ ہم نے منگل کی رات شروع ہونے کے بعد رات کے آخری پہر میں لوگوں کے گزرنے کی آوازیں سنیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو باربار اپنے رخ انور پر چادر ڈال لیتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ ہوتی تو ہم وہ چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے ہٹا دیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس عمل سے لوگوں کو تنبیہ فرما رہے تھے تاکہ وہ اس میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، خ: 435 ، م: 531
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت یہ تھی کہ جزیرہ عرب میں دو دینوں کو نہ رہنے دیا جائے (صرف ایک دین ہو اور وہ اسلام ہو)۔
حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو بار بار اپنے رخ انور پر چادر ڈال لیتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ ہوتی تو ہم وہ چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے ہٹا دیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ یہود و انصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس عمل سے لوگوں کو تنبیہ فرما رہے تھے تاکہ وہ اس میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق ، قال: وحدثني محمد بن جعفر بن الزبير , عن عروة بن الزبير , عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: " صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس صلاة الخوف بذات الرقاع , من نخل قالت: فصدع رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس صدعين , فصفت طائفة وراءه , وقامت طائفة تجاه العدو , قالت: فكبر رسول الله صلى الله عليه وسلم , وكبرت الطائفة الذين صفوا خلفه , ثم ركع وركعوا , ثم سجد فسجدوا , ثم رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه , فرفعوا معه , ثم مكث رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا وسجدوا لانفسهم السجدة الثانية , ثم قاموا , فنكصوا على اعقابهم يمشون القهقرى حتى قاموا من ورائهم , قالت: فاقبلت الطائفة الاخرى , فصفوا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبروا , ثم ركعوا لانفسهم , ثم سجد رسول الله صلى الله عليه وسلم سجدته الثانية , فسجدوا معه , ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في ركعته , وسجدوا هم لانفسهم السجدة الثانية , ثم قامت الطائفتان جميعا , فصفوا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فركع بهم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فركعوا جميعا , ثم سجد , فسجدوا جميعا , ثم رفع راسه ورفعوا معه , كل ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم سريعا جدا لا يالو ان يخفف ما استطاع , ثم سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فسلموا , فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد شركه الناس في الصلاة كلها" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ صَلَاةَ الْخَوْفِ بِذَاتِ الرِّقَاعِ , مِنْ نَخْلٍ قَالَتْ: فَصَدَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ صِدْعَيْنِ , فَصَفَّتْ طَائِفَةٌ وَرَاءَهُ , وَقَامَتْ طَائِفَةٌ تُجَاهَ الْعَدُوِّ , قَالَتْ: فَكَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَكَبَّرَتْ الطَّائِفَةُ الَّذِينَ صَفُّوا خَلْفَهُ , ثُمَّ رَكَعَ وَرَكَعُوا , ثُمَّ سَجَدَ فَسَجَدُوا , ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ , فَرَفَعُوا مَعَهُ , ثُمَّ مَكَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا وَسَجَدُوا لِأَنْفُسِهِمْ السَّجْدَةَ الثَّانِيَةَ , ثُمَّ قَامُوا , فَنَكَصُوا عَلَى أَعْقَابِهِمْ يَمْشُونَ الْقَهْقَرَى حَتَّى قَامُوا مِنْ وَرَائِهِمْ , قَالَتْ: فَأَقْبَلَتْ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى , فَصَفُّوا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرُوا , ثُمَّ رَكَعُوا لِأَنْفُسِهِمْ , ثُمَّ سَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجْدَتَهُ الثَّانِيَةَ , فَسَجَدُوا مَعَهُ , ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَكْعَتِهِ , وَسَجَدُوا هُمْ لِأَنْفُسِهِمْ السَّجْدَةَ الثَّانِيَةَ , ثُمَّ قَامَتْ الطَّائِفَتَانِ جَمِيعًا , فَصَفُّوا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَكَعَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَرَكَعُوا جَمِيعًا , ثُمَّ سَجَدَ , فَسَجَدُوا جَمِيعًا , ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَرَفَعُوا مَعَهُ , كُلُّ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيعًا جِدًّا لَا يَأْلُو أَنْ يُخَفِّفَ مَا اسْتَطَاعَ , ثُمَّ سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَسَلَّمُوا , فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَرَكَهُ النَّاسُ فِي الصَّلَاةِ كُلِّهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ذات کے موقع پر لوگوں کو نماز خوف پڑھائی اور وہ اس طرح کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا، ایک گروہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بندی کی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے جا کر کھڑا ہوگیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور جو لوگ پیچھے کھڑے تھے انہوں نے بھی تکبیر کہی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو انہوں نے بھی رکوع کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو انہوں نے بھی سجدہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا تو انہوں نے بھی سر اٹھایا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر رکے رہے اور مقتدیوں نے دوسرا سجدہ خود ہی کرلیا اور کھڑے ہو کر ایڑیوں کے بل الٹے چلتے ہوئے پہلے گروہ کی جگہ جا کر کھڑے ہوگئے اور اس گروہ نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنالی، تکبیر کہی اور خود ہی رکوع کیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا سجدہ کہا تو انہوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے دوسرا سجدہ خود ہی کیا۔ اس کے بعد دونوں گروہ اکٹھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بستہ ہوگئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ساتھ لے کر رکوع کیا، پھر سب نے اکٹھا سجدہ کیا اور اکٹھے سر اٹھایا اور ان میں سے ہر رکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیزی کے ساتھ ادا کیا اور حتی الامکان اسے مختصر کرنے میں کوئی کمی نہیں کی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو لوگوں نے بھی سلام پھیر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے، اس طرح تمام لوگ مکمل نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوگئے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن، ابن إسحاق مدلس ولكن صرح بالتحديث
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر تیل لگاتی تھی تو مانگ سر کے اوپر سے نکالتی تھی اور پیشانی کو چھوڑ دیتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورت فاتحہ بھی نہ پڑھے تو وہ ناقص ہوتی ہے۔
حدثنا يعقوب , حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني محمد بن جعفر بن الزبير , قال: حدث عروة بن الزبير عمر بن عبد العزيز وهو امير على المدينة , عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يصلي إليها وهي معترضة بين يديه" , قال: فقال ابو امامة بن سهل وكان عند عمر فلعلها يا ابا عبد الله، قالت: وانا إلى جنبه , قال: فقال عروة: اخبرك باليقين , وترد علي بالظن , بل معترضة بين يديه اعتراض الجنازة.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزَّبِيرِ , قَالَ: حَدَّثَ عُرْوَةُ بْنُ الزَّبِيرِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ أَمِيرٌ عَلَى الْمَدِينَةِ , عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصَلِّي إِلَيْهَا وَهِيَ مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَ يَدَيْهِ" , قَالَ: فَقَالَ أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلٍ وَكَانَ عِنْدَ عُمَرَ فَلَعَلَّهَا يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، قَالَتْ: وَأَنَا إِلَى جَنْبِهِ , قَالَ: فَقَالَ عُرْوَةُ: أُخْبِرُكَ بِالْيَقِينِ , وَتَرُدُّ عَلَيَّ بِالظَّنِّ , بَلْ مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَ يَدَيْهِ اعْتِرَاضَ الْجِنَازَةِ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو میں ان کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھی۔ ابو امامہ " جو اس مجلس میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے " کہنے لگے اے ابو عبداللہ! شاید انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں ہوتی تھی، عروہ نے کہا کہ میں آپ کو یقینی بات بتارہا ہوں اور آپ شک کی بناء پر اسے رد کر رہے ہیں، انہوں نے یہی فرمایا تھا کہ میں ان کے سامنے جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، ان میں سے چھ رکعتیں دو دو کر کے ہوتی تھیں اور پانچوں جوڑے پر وتر بناتے تھے اور اسی پر بیٹھ کر سلام پھیرتے تھے۔
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني محمد بن جعفر بن الزبير , ان عباد بن عبد الله بن الزبير حدثه , ان عائشة حدثته , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو جالس في ظل فارع اجم حسان , جاءه رجل، فقال: احترقت يا رسول الله , قال: " ما شانك؟" قال: وقعت على امراتي وانا صائم , قالت: وذاك في رمضان , فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اجلس" فجلس في ناحية القوم , فاتى رجل بحمار عليه غرارة فيها تمر , قال: هذه صدقتي يا رسول الله , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اين المحترق آنفا؟" فقال: ها هو ذا انا يا رسول الله , قال:" خذ هذا فتصدق به" قال: واين الصدقة يا رسول الله إلا علي ولي , فوالذي بعثك بالحق ما اجد انا وعيالي شيئا , قال:" فخذها" فاخذها .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ , أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ , أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنمَا هُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ فَارِعِ أُجُمِ حَسَّانَ , جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: احْتَرَقْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: " مَا شَأْنُكَ؟" قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ , قَالَتْ: وَذَاكَ فِي رَمَضَانَ , فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اجْلِسْ" فَجَلَسَ فِي نَاحِيَةِ الْقَوْمِ , فَأَتَى رَجُلٌ بِحِمَارٍ عَلَيْهِ غِرَارَةٌ فِيهَا تَمْرٌ , قَالَ: هَذِهِ صَدَقَتِي يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ آنِفًا؟" فَقَالَ: هَا هُوَ ذَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" خُذْ هَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ" قَالَ: وَأَيْنَ الصَّدَقَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا عَلَيَّ وَلِي , فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ أَنَا وَعِيَالِي شَيْئًا , قَالَ:" فَخُذْهَا" فَأَخَذَهَا .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم " ام حسان " کے سائے میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی بارگاہ نبوت میں آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں جل گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ہوا؟ اس نے بتایا کہ میں رمضان کے مہینے میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے قربت کر بیٹھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھ جاؤ، وہ ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا، اسی ثناء میں میں ایک آدمی گدھے پر سوار ہو کر آیا، اس کے پاس کجھوروں کا ایک ٹو کرا تھا، وہ کہنے لگا یا رسول اللہ! یہ میرا صدقہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جل جانے والا کہاں ہے؟ وہ کھڑا ہو کر کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہاں موجود ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لے لو اور اسے صدقہ کردو، اس نے کہا یا رسول اللہ! میرے علاوہ اور کس پر صدقہ ہوسکتا ہے؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے کچھ نہیں پاتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم ہی یہ لے جاؤ، چنانچہ اس نے وہ لے لیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن، خ: 1935، م: 1112
محمد بن ابی عبید کہتے ہیں کہ میں نے عدی بن عدی کندی کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے مجھے خانہ کعبہ کے کلید بردار شیبہ بن عثمان کی صاحبزادی صفیہ کے پاس کچھ چیزیں پوچھنے کے لئے بھیجا جو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہوئی تھیں، تو صفیہ رضی اللہ عنہ نے مجھے جو حدیثیں سنائیں، ان میں ایک حدیث یہ بھی تھی کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد بیان کرتے ہوئے سنا ہے زبر دستی مجبور کرنے پر دی جانے والی طلاق یا آزادی واقع نہیں ہوتی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف محمد بن عبيد بن أبى صالح
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق ، قال: حدثني يزيد بن رومان , عن عروة , عن عائشة , قالت: امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقتلى ان يطرحوا في القليب , فطرحوا فيه , إلا ما كان من امية بن خلف , فإنه انتفخ في درعه فملاها , فذهبوا يحركوه , فتزايل , فاقروه والقوا عليه ما غيبه من التراب والحجارة , فلما القاهم في القليب , وقف عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " يا اهل القليب , هل وجدتم ما وعد ربكم حقا؟ فإني قد وجدت ما وعدني ربي حقا؟" قال: فقال له اصحابه: يا رسول الله , اتكلم قوما موتى؟! قال: فقال لهم:" لقد علموا ان ما وعدتهم حق" , قالت عائشة: والناس يقولون: لقد سمعوا ما قلت لهم، وإنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لقد علموا" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقَتْلَى أَنْ يُطْرَحُوا فِي الْقَلِيبِ , فَطُرِحُوا فِيهِ , إِلَّا مَا كَانَ مِنْ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ , فَإِنَّهُ انْتَفَخَ فِي دِرْعِهِ فَمَلَأَهَا , فَذَهَبُوا يُحَرِّكُوهُ , فَتَزَايَلَ , فَأَقَرُّوهُ وَأَلْقَوْا عَلَيْهِ مَا غَيَّبَهُ مِنَ التُّرَابِ وَالْحِجَارَةِ , فَلَمَّا أَلْقَاهُمْ فِي الْقَلِيبِ , وَقَفَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: " يَا أَهْلَ الْقَلِيبِ , هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا؟" قال: فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَتُكَلِّمُ قَوْمًا مَوْتَى؟! قَالَ: فَقَالَ لَهُمْ:" لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ مَا وَعَدْتُهُمْ حَقٌّ" , قَالَتْ عَائِشَةُ: وَالنَّاسُ يَقُولُونَ: لَقَدْ سَمِعُوا مَا قُلْتَ لَهُمْ، وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ عَلِمُوا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے مقتولین قریش کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں ایک گڑھے میں پھینک دیا جائے، چنانچہ انہیں پھینک دیا گیا، سوائے امیہ بن خلف کے کہ اس کا جسم اپنی زرہ میں پھول گیا تھا، صحابہ رضی اللہ عنہ نے اسے ہلانا چاہا لیکن مشکل پیش آئی تو اسے وہیں رہنے دیا اور اس پر مٹی اور پتھر وغیرہ ڈال کر اسے چھپا دیا اور گڑھے میں باقی سب کو پھینکنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس جا کھڑے ہوئے اور فرمایا اے اہل قلیب! تمہارے رب نے تم سے جو وعدہ کیا تھا تم نے اسے سچا پایا؟ کیونکہ میں نے تو اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ مردوں سے بات کر رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا واللہ یہ جانتے ہیں کہ میں نے ان سے سچا وعدہ کیا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ یہ جانتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ نہیں سنتے ہیں۔
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق ، قال: حدثني يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير , عن ابيه عباد , عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت لما بعث اهل مكة في فداء اسراهم , بعثت زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم في فداء ابي العاص بن الربيع بمال , وبعثت فيه بقلادة لها كانت لخديجة , ادخلتها بها على ابي العاص حين بنى عليها , قالت: فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم , رق لها رقة شديدة , وقال: " إن رايتم ان تطلقوا لها اسيرها , وتردوا عليها الذي لها , فافعلوا" , فقالوا: نعم يا رسول الله , فاطلقوه , وردوا عليها الذي لها .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ أَبِيهِ عَبَّادٍ , عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَكَّةَ فِي فِدَاءِ أَسْرَاهُمْ , بَعَثَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فِدَاءِ أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ بِمَالٍ , وَبَعَثَتْ فِيهِ بِقِلَادَةٍ لَهَا كَانَتْ لِخَدِيجَةَ , أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَى أَبِي الْعَاصِ حِينَ بَنَى عَلَيْهَا , قَالَتْ: فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيدَةً , وَقَالَ: " إِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا لَهَا أَسِيرَهَا , وَتَرُدُّوا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا , فَافْعَلُوا" , فَقَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَأَطْلَقُوهُ , وَرَدُّوا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لئے فدیہ بھیجا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے شوہر ابوالعاص بن ربیع کے لئے مال بھیجا، جس میں وہ ہار بھی شامل تھا، جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کا تھا اور انہوں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہ کی ابوالعاص سے شادی کے موقع پر دیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس ہار کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید رقت طاری ہوگئی اور فرمایا اگر تم مناسب سمجھو تو زینب کے قیدی چھوڑ دو اور اس کا بھیجا ہوا مال اسے واپس لوٹا دو، لوگوں نے عرض کیا ٹھیک ہے، یا رسول اللہ! چنانچہ انہوں نے ابوالعاص کو چھوڑ دیا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہ کا ہار بھی واپس لوٹا دیا۔
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني عبد الرحمن بن القاسم بن محمد , عن ابيه , عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم , قالت: لما اتى قتل جعفر , عرفنا في رسول الله صلى الله عليه وسلم الحزن , قالت: فدخل عليه رجل , فقال: يا رسول الله , إن النساء قد غلبننا وفتننا , قال: " فارجع إليهن فاسكتهن" , قال: فذهب , ثم رجع , فقال له: مثل ذلك , قال: يقول: وربما ضر التكلف اهله , قال:" فاذهب فاسكتهن , فإن ابين , فاحث في افواههن التراب" , قالت: قلت في نفسي: ابعدك الله , فوالله ما تركت نفسك , وما انت بمطيع رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: عرفت انه لا يقدر على ان يحثو في افواههن التراب .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: لَمَّا أَتَى قَتْلُ جَعْفَرٍ , عَرَفْنَا فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحُزْنَ , قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ النِّسَاءَ قَدْ غَلَبْنَنَا وَفَتَنَّنَا , قَالَ: " فَارْجِعْ إِلَيْهِنَّ فَأَسْكِتْهُنَّ" , قَالَ: فَذَهَبَ , ثُمَّ رَجَعَ , فَقَالَ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ , قَالَ: يَقُولُ: وَرُبَّمَا ضَرَّ التَّكَلُّفُ أَهْلَهُ , قَالَ:" فَاذْهَبْ فَأَسْكِتْهُنَّ , فَإِنْ أَبْيَنَ , فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ" , قَالَتْ: قُلْتُ فِي نَفْسِي: أَبْعَدَكَ اللَّهُ , فَوَاللَّهِ مَا تَرَكْتَ نَفْسَكَ , وَمَا أَنْتَ بِمُطِيعٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: عَرَفْتُ أَنَّهُ لَا يَقْدِرُ عَلَى أَنْ يَحْثُوَ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت زید بن حارثہ اور عبدالرحمن بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آئی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے اور روئے انور سے غم کے آثار ہویدا تھے، میں دروازے کے سوراخ سے جھانک رہی تھی کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! جعفر کی عورتیں رو رہی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ انہیں منع کردو، وہ آدمی چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور کہنے لگا میں نے انہیں منع کیا ہے لیکن وہ میری بات نہیں مانتیں، تین مرتبہ اس طرح ہوا، بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ جا کر ان کے منہ میں مٹی بھر دو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے فرمایا اللہ تجھے خاک آلود کرے، واللہ تو وہ کرتا ہے جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجھے حکم دیتے اور نہ ہی ان کی جان چھوڑتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل محمد ابن إسحاق، خ: 1299، م: 935
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني محمد بن جعفر بن الزبير , عن عروة بن الزبير , عن عائشة ام المؤمنين , قالت: " لم يقتل من نسائهم إلا امراة واحدة , قالت: والله إنها لعندي تحدث معي , تضحك ظهرا وبطنا , ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقتل رجالهم بالسوق , إذ هتف هاتف باسمها اين فلانة؟ قالت: انا والله , قالت: قلت: ويلك , وما لك؟ قالت: اقتل , قالت: قلت: ولم؟ قالت: حدثا احدثته , قالت: فانطلق بها , فضربت عنقها , وكانت عائشة تقول والله ما انسى عجبي من طيب نفسها , وكثرة ضحكها وقد عرفت انها تقتل" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ , قَالَتْ: " لَمْ يَقْتُلْ مِنْ نِسَائِهِمْ إِلَّا امْرَأَةً وَاحِدَةً , قَالَتْ: وَاللَّهِ إِنَّهَا لَعِنْدِي تَحَدَّثُ مَعِي , تَضْحَكُ ظَهْرًا وَبَطْنًا , وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ رِجَالَهُمْ بِالسُّوقِ , إِذْ هَتَفَ هَاتِفٌ بِاسْمِهَا أَيْنَ فُلَانَةُ؟ قَالَتْ: أَنَا وَاللَّهِ , قَالَتْ: قُلْتُ: وَيْلَكِ , وَمَا لَكِ؟ قَالَتْ: أُقْتَلُ , قَالَتْ: قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَتْ: حَدَثًا أَحْدَثْتُهُ , قَالَتْ: فَانْطُلِقَ بِهَا , فَضُرِبَتْ عُنُقُهَا , وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ وَاللَّهِ مَا أَنْسَى عَجَبِي مِنْ طِيبِ نَفْسِهَا , وَكَثْرَةِ ضَحِكِهَا وَقَدْ عَرَفَتْ أَنَّهَا تُقْتَلُ" .
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بنو قریظہ کی صرف ایک عورت کے علاوہ کسی کو قتل نہیں کیا گیا، وہ بھی میرے پاس بیٹھی ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی، جبکہ باہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قوم کے مردوں کو قتل کر رہے تھے، اچانک ایک آدمی نے اس کا نام لے کر کہا کہ فلاں عورت کہاں ہے؟ وہ کہنے لگا واللہ! یہ تو میں ہوں، میں نے اس سے کہا افسوس! یہ کیا معاملہ ہے؟ وہ کہنے لگی کہ مجھے قتل کردیا جائے گا، میں نے اس سے پوچھا وہ کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے ایک حرکت ایسی کی ہے، چنانچہ اسے لیجا کر اس کی گردن اڑا دی گئی، واللہ میں اپنے تعجب کو کبھی بھلا نہیں سکتی کہ وہ کتی ہشاش بشاش تھی اور ہنس رہی تھی جبکہ اسے معلوم تھا کہ اسے قتل کردیا جائے گا۔
حدثنا يعقوب , قال: حدثنا ابي , عن ابن إسحاق , قال: حدثني محمد بن جعفر بن الزبير , عن عروة بن الزبير , عن عائشة ام المؤمنين قالت: لما قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم سبايا بني المصطلق , وقعت جويرية بنت الحارث في السهم لثابت بن قيس بن الشماس , او لابن عم له , وكاتبته على نفسها , وكانت امراة حلوة ملاحة لا يراها احد إلا اخذت بنفسه , فاتت رسول الله صلى الله عليه وسلم تستعينه في كتابتها , قالت: فوالله ما هو إلا ان رايتها على باب حجرتي فكرهتها , وعرفت انه سيرى منها ما رايت , فدخلت عليه , فقالت: يا رسول الله , انا جويرية بنت الحارث بن ابي ضرار سيد قومه , وقد اصابني من البلاء ما لم يخف عليك , فوقعت في السهم لثابت بن قيس بن الشماس , او لابن عم له , فكاتبته على نفسي , فجئتك استعينك على كتابتي , قال: " فهل لك في خير من ذلك؟" قالت: وما هو يا رسول الله؟ قال:" اقضي كتابتك واتزوجك" قالت: نعم يا رسول الله , قال:" قد فعلت" , قالت: وخرج الخبر إلى الناس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوج جويرية بنت الحارث , فقال الناس اصهار رسول الله صلى الله عليه وسلم! فارسلوا ما بايديهم , قالت: فلقد اعتق بتزويجه إياها مائة اهل بيت من بني المصطلق , فما اعلم امراة كانت اعظم بركة على قومها منها .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ , قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَايَا بَنِي الْمُصْطَلِقِ , وَقَعَتْ جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ فِي السَّهْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ الشِمَاسٍ , أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَهُ , وَكَاتَبَتْهُ عَلَى نَفْسِهَا , وَكَانَتْ امْرَأَةً حُلْوَةً مُلَاحَةً لَا يَرَاهَا أَحَدٌ إِلَّا أَخَذَتْ بِنَفْسِهِ , فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْتَعِينُهُ فِي كِتَابَتِهَا , قَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُهَا عَلَى بَابِ حُجْرَتِي فَكَرِهْتُهَا , وَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَرَى مِنْهَا مَا رَأَيْتُ , فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَنَا جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي ضِرَارٍ سَيِّدِ قَوْمِهِ , وَقَدْ أَصَابَنِي مِنَ الْبَلَاءِ مَا لَمْ يَخْفَ عَلَيْكَ , فَوَقَعْتُ فِي السَّهْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ الشَّمَّاسِ , أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَهُ , فَكَاتَبْتُهُ عَلَى نَفْسِي , فَجِئْتُكَ أَسْتَعِينُكَ عَلَى كِتَابَتِي , قَالَ: " فَهَلْ لَكِ فِي خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ؟" قَالَتْ: وَمَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" أَقْضِي كِتَابَتَكِ وَأَتَزَوَّجُكِ" قَالَتْ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" قَدْ فَعَلْتُ" , قَالَتْ: وَخَرَجَ الْخَبَرُ إِلَى النَّاسِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ جُوَيْرِيَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ , فَقَالَ النَّاسُ أَصْهَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! فَأَرْسَلُوا مَا بِأَيْدِيهِمْ , قَالَتْ: فَلَقَدْ أَعْتَقَ بِتَزْوِيجِهِ إِيَّاهَا مِائَةَ أَهْلِ بَيْتٍ مِنْ بَنِي الْمُصْطَلِقِ , فَمَا أَعْلَمُ امْرَأَةً كَانَتْ أَعْظَمَ بَرَكَةً عَلَى قَوْمِهَا مِنْهَا .
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بنو مصطلق کے قیدیوں کو تقسیم کیا تو حضرت جویریہ بنت حارث، ثابت بن قیس بن شماس یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آگئیں، حضرت جویریہ نے ان کے مکاتبت کرلی، وہ بڑی حسین و جمیل خاتون تھیں، جو بھی انہیں دیکھتا تھا، اس کی نظر ان پر جم جاتی تھی، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بدل کتابت کی ادائیگی میں تعاون کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں، واللہ جب میں نے انہیں اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا تو مجھے طبیعت پر بوچھ محسوس ہوا اور میں سمجھ گئی کہ میں نے ان کا حسن و جمال دیکھا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس پر ضرور توجہ فرمائیں گے، چنانچہ وہ اندر آئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ! میں جویریہ بنت حارث ہوں، جو اپنی قوم کا سردار تھا، میرے اوپر جو مصیبت آئی ہے وہ آپ پر مخفی نہیں ہے، میں ثابت بن قیس یا اس کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی ہوں، میں نے اس سے اپنے حوالے سے مکاتبت کرلی ہے اور اب آپ کے پاس کتابت کی ادائیگی میں تعاون کی درخواست لے کر آئی ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! وہ کیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا بدل کتابت کر کے میں تم سے نکاح کرلوں، انہوں نے حامی بھر لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا، ادھر لوگوں میں خبر پھیل گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ سے شادی کرلی ہے، لوگ کہنے لگے کہ یہ سسرال والے بن گئے، چنانچہ انہوں نے اپنے اپنے غلام آزاد کردیئے، یوں اس شادی کی برکت سے بنی مصطلق کے سو گھرانوں کو آزادی نصیب ہوگئی، اپنی قوم کے لئے اس سے عظیم برکت والی عورت میرے علم میں نہیں۔
حدثنا سريج بن النعمان , قال: حدثنا عبد الواحد , عن افلت بن خليفة , قال ابي: سفيان يقول: فليت عن جسرة بنت دجاجة , عن عائشة , قالت: بعثت صفية إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بطعام قد صنعته له وهو عندي , فلما رايت الجارية , اخذتني رعدة حتى استقلني افكل , فضربت القصعة , فرميت بها , قالت: فنظر إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم , فعرفت الغضب في وجهه , فقلت: اعوذ برسول الله ان يلعنني اليوم , قالت: قال: " اولى" , قالت: قلت: وما كفارته يا رسول الله؟ قال:" طعام كطعامها , وإناء كإنائها" .حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ , عَنْ أَفْلَتَ بْنِ خَلِيفَةَ , قَالَ أَبِي: سُفْيَانُ يَقُولُ: فُلَيْتٌ عَنْ جَسْرَةَ بِنْتِ دَجَاجَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: بَعَثَتْ صَفِيَّةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَعَامٍ قَدْ صَنَعَتْهُ لَهُ وَهُوَ عِنْدِي , فَلَمَّا رَأَيْتُ الْجَارِيَةَ , أَخَذَتْنِي رِعْدَةٌ حَتَّى اسْتَقَلَّنِي أَفْكَلُ , فَضَرَبْتُ الْقَصْعَةَ , فَرَمَيْتُ بِهَا , قَالَتْ: فَنَظَرَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَعَرَفْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ , فَقُلْتُ: أَعُوذُ بِرَسُولِ اللَّهِ أَنْ يَلْعَنَنِي الْيَوْمَ , قَالَتْ: قَالَ: " أَوْلَى" , قَالَتْ: قُلْتُ: وَمَا كَفَّارَتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" طَعَامٌ كَطَعَامِهَا , وَإِنَاءٌ كَإِنَائِهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ عمدہ کھانے پکانے والی عورت نہیں دیکھی، ایک مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن بھیجا جس میں کھانا تھا، میں اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکی اور اس برتن کو توڑ ڈالا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا تو مجھے روئے انور پر غصے کے آثار نظر آئے، میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ وہ آج مجھ پر لعنت کریں پھر میں نے عرض کے یا رسول اللہ! اس کا کفارہ کیا ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا برتن جیسا برتن اور کھانے جیسا کھانا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تین دن تک مسلسل پیٹ بھر کر گندم کی روٹی نہیں کھائی، حتیٰ کہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔
حدثنا حسين ، قال: حدثنا شيبان , عن منصور , عن هلال بن يساف , عن فروة بن نوفل , انه قال: سالت عائشة , قلت: اخبريني بشيء كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو به لعلي ادعو الله به , فينفعني الله به , قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكثر ان يقول: " اللهم إني اعوذ بك من شر ما عملت , ومن شر ما لم اعمل" .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ هِلَالِ بْنِ يِسَافٍ , عَنْ فَرْوَةَ بْنِ نَوْفَلٍ , أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ , قُلْتُ: أَخْبِرِينِي بِشَيْءٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو بِهِ لَعَلِّي أَدْعُو اللَّهَ بِهِ , فَيَنْفَعَنِي اللَّهُ بِهِ , قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ , وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ" .
فروہ بن نوفل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے، اے اللہ! میں ان چیزوں کے شر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں جو میرے نفس نے کی ہیں اور جو نہیں کی ہیں۔
حدثنا حسين ، قال: حدثنا شيبان , عن منصور , عن إبراهيم , عن مسروق , عن عائشة , انها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اتي بالمريض , قال: " اذهب الباس رب الناس , واشف انت الشافي , لا شفاء إلا شفاؤك , شفاء لا يغادر سقما" .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِالْمَرِيضِ , قَالَ: " أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ , وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي , لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ , شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کسی مریض کو لایا جاتا تو یہ دعا پڑھتے " اے لوگوں کے رب! اس کی تکلیف کو دور فرما۔ اسے شفاء عطا فرما کیونکہ تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے علاوہ کہیں سے شفاء نہیں مل سکتی، ایسی شفاء دے دے کہ جو بیماری کا نام و نشان بھی نہ چھوڑے۔
حدثنا حسين ، حدثنا شيبان , عن منصور , عن شقيق بن سلمة , عن مسروق , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا انفقت المراة من طعام بيتها غير مفسدة , كان لها اجرها بما انفقت , ولزوجها اجره بما اكتسب , وللخازن مثل ذلك , لا ينقص اجرهم من اجر بعض شيئا" .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ , عَنِ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا أَنْفَقَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ بَيْتِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ , كَانَ لَهَا أَجْرُهَا بِمَا أَنْفَقَتْ , وَلِزَوْجِهَا أَجْرُهُ بِمَا اكْتَسَبَ , وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ , لَا يَنْقُصُ أَجْرُهُمْ مِنْ أَجْرِ بَعْضٍ شَيْئًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے کوئی چیز خرچ کرتی ہے اور فساد کی نیت نہیں رکھتی تو اس عورت کو بھی اس کا ثواب ملے گا اور اس کے شوہر کو بھی اس کی کمائی کا ثواب ملے گا، عورت کو خرچ کرنے کا ثواب ملے گا اور خزانچی کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا اور ان کے ثواب میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔
فروہ بن نوفل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے، اے اللہ میں ان چیزوں کے شر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں جو میرے نفس نے کی ہیں اور جو نہیں کی ہیں۔
حدثنا زياد بن عبد الله , قال: حدثنا منصور , عن مجاهد , عن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، عن ابي هريرة، قال: من ادركته الصلاة جنبا لم يصم , قال: فذكرت ذلك لعائشة , فقالت: " إنه لا يقول شيئا , قد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبح فينا جنبا , ثم يقوم فيغتسل , فياتيه بلال فيؤذنه بالصلاة , فيخرج , فيصلي بالناس والماء ينحدر في جلده , ثم يظل يومه ذلك صائما" .حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَنْ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ جُنُبًا لَمْ يَصُمْ , قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ , فَقَالَتْ: " إِنَّهُ لَا يَقُولُ شَيْئًا , قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْبِحُ فِينَا جُنُبًا , ثُمَّ يَقُومُ فَيَغْتَسِلُ , فَيَأْتِيهِ بِلَالٌ فَيُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ , فَيَخْرُجُ , فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ وَالْمَاءُ يَنْحَدِرُ فِي جِلْدِهِ , ثُمَّ يَظَلُّ يَوْمَهُ ذَلِكَ صَائِمًا" .
ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ جو آدمی صبح کے وقت جنبی ہو، اس کا روزہ نہیں ہوتا، میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکر کیا، انہوں نے فرمایا ان کی بات کی کوئی اصلیت نہیں، بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت حالت جنابت میں ہوتے، پھر غسل کرلیتے اور بقیہ دن کا روزہ مکمل کرلیتے، پھر بلال آکر نماز کی اطلاع دیتے، وہ باہر جا کر لوگوں کو نماز پڑھا دیتے اور پانی ان کے جسم پر ٹپک رہا ہوتا تھا۔
حدثنا زياد بن عبد الله , قال: حدثنا منصور , عن إبراهيم , عن الاسود , قال: سالت عائشة ما كان ينهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ينتبذ فيه؟ قالت: " كان ينهى عن الدباء والمزفت , قال: قلت: فالسعن؟ قالت:" إنما احدثك ما سمعت , ولا احدثك بما لم اسمع" .حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ مَا كَانَ يَنْهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنْتَبَذَ فِيهِ؟ قَالَتْ: " كَانَ يَنْهَى عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْمُزَفَّتِ , قَالَ: قُلْتُ: فَالسُّعُن؟ قَالَتْ:" إِنَّمَا أُحَدِّثُكَ مَا سَمِعْتُ , وَلَا أُحَدِّثُكَ بِمَا لَمْ أَسْمَعْ" .
ابراہیم کہتے ہیں کہ میں نے اسود سے پوچھا کیا آپ نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ پوچھا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس چیز میں نبیذ بنانے کو ناپسند فرماتے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں! میں نے ان سے یہ سوال پوچھا تھا اور انہوں نے جواب دیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء اور مزفت سے منع فرمایا ہے، میں نے " سفن " کے متعلق پوچھا تو فرمایا جو سنا وہ بیان کردیا اور جو نہیں سنا، وہ بیان نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا اسناد ضعيف لاجل زياد بن عبدالله
حدثنا زياد بن عبد الله , قال: حدثنا منصور , عن إبراهيم , عن علقمة , قال: سالت عائشة كيف كان عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم , كان يخص شيئا من الايام , قالت: " لا , وايكم يطيق ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعمل" .حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ عَلْقَمَةَ , قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَ عَمَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , كَانَ يَخُصُّ شَيْئًا مِنَ الْأَيَّامِ , قَالَتْ: " لَا , وَأَيُّكُمْ يُطِيقُ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ" .
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نفلی نمازوں کے متعلق پوچھا انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو طاقت تھی، وہ تم میں سے کس میں ہوسکتی ہے؟ البتہ یہ یاد رکھو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل دائمی ہوتا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لأجل زياد بن عبدالله، خ: 6466، م: 783
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب سورت بقرہ کی آخری آیات " جو سود سے متعلق ہیں " نازل ہوئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اس کی تلاوت فرمائی اور شراب کی تجارت کو بھی حرام قرار دے دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لأجل زياد بن عبدالله فى الروايات الصحيحة "فى الربا" مكان "فى الخمر"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بھی کم درجے کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے بدلے اللہ اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور ایک گناہ معاف کردیتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات کوئی بکری ذبح کرتے تو اسے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی سہیلیوں کے پاس ہدیہ میں بھیجتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا لأجل عامر بن صالح
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کو جنت میں لکڑی کے ایک عظیم الشان مکان کی خوشخبری دے دوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا كسابقه
حدثنا عامر بن صالح , قال: حدثنا يونس بن يزيد , عن ابن شهاب , عن ابي سلمة , ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " كان إذا اراد ان ينام وهو جنب , يتوضا وضوءه للصلاة , وإذا اراد ان ياكل , او يشرب , غسل يده , ثم اكل وشرب" .حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ , عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ وَهُوَ جُنُبٌ , يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ , وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْكُلَ , أَوْ يَشْرَبَ , غَسَلَ يَدَهُ , ثُمَّ أَكَلَ وَشَرِبَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وجوبِ غسل کی حالت میں سونا یا کچھ پینا چاہتے تو نماز جیسا وضو فرما لیتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا لأجل عامر بن صالح
حدثنا عامر بن صالح , قال: حدثني هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " المراة كالضلع , إن اقمتها كسرتها , وهي يستمتع بها على عوج فيها" .حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْمَرْأَةُ كَالضِّلَعِ , إِنْ أَقَمْتَهَا كَسَرْتَهَا , وَهِيَ يُسْتَمْتَعُ بِهَا عَلَى عِوَجٍ فِيهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عورت تو پسلی کی طرح ہوتی ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ دو گے، اس سے تو اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف جدا كسابقه
حدثنا عامر بن صالح , قال: حدثني هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يصيب المؤمن شوكة فما فوقها إلا قص الله بها عنه خطيئة" .حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا إِلَّا قَصَّ اللَّهُ بِهَا عَنْهُ خَطِيئَةً" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بھی کم درجے کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے بدلے اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا لأجل عامر، خ: 5640، م: 2572
حدثنا عامر بن صالح , قال: حدثني هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت: " ما غرت على امراة لرسول الله صلى الله عليه وسلم ما غرت على خديجة , وذلك بما كنت اسمع من ذكره إياها" .حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ , وَذَلِكَ بِمَا كُنْتُ أَسْمَعُ مِنْ ذِكْرِهِ إِيَّاهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مجھے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں آیا جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ پر آیا اور اس رشک کی وجہ یہ تھی کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا بکثرت ذکر کرتے ہوئے سنتی تھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا لأجل عامر بن صالح، خ: 6004، م: 2435
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے متعلق فرمایا " جو ایام سے پاکیزگی حاصل ہونے کے بعد کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے شک میں مبتلا کر دے " کہ یہ رگ کا خون ہوتا ہے۔
حدثنا حسن بن موسى , وهاشم , وحسين بن محمد , قالوا: حدثنا شيبان , عن يحيى , قال: اخبرني ابو سلمة ، وقال هاشم، عن ابي سلمة، ان عائشة , وقال هاشم، عن عائشة اخبرته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يصلي الركعتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى , وَهَاشِمٌ , وحسين بن محمد , قَالُوا: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ , عَنْ يَحْيَى , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، وَقَالَ هَاشِمٌ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ , وَقَالَ هَاشِمٌ، عَنْ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی اذان اور نماز کے درمیان در رکعتیں پڑھتے تھے۔
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا تھا؟ انہوں نے فرمایا جو ہمیشہ کیا جائے، میں نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو کس وقت قیام فرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا جب مرغ کی آواز سن لیتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کے ساتھ رات کو " تخلیہ " کیا اور وجوب غسل کی حالت میں ہی سو گئے جب صبح ہوئی تو غسل کرلیا اور اس دن کا روزہ رکھ لیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف الضعف الفضل بن سليمان، خ: 1930، م: 1109
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ (میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور گویا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
حدثنا حسن بن موسى ، قال: حدثنا حماد بن سلمة , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت: " تزوجني رسول الله صلى الله عليه وسلم متوفى خديجة , قبل مخرجه إلى المدينة بسنتين او ثلاث , وانا بنت سبع سنين , فلما قدمنا المدينة جاءتني نسوة وانا العب في ارجوحة , وانا مجممة , فذهبن بي , فهيانني وصنعنني , ثم اتين بي رسول الله صلى الله عليه وسلم , فبنى بي وانا بنت تسع سنين" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَفَّى خَدِيجَةَ , قَبْلَ مَخْرَجِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ بِسَنَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثٍ , وَأَنَا بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ , فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ جَاءَتْنِي نِسْوَةٌ وَأَنَا أَلْعَبُ فِي أُرْجُوحَةٍ , وَأَنَا مُجَمَّمَةٌ , فَذَهَبْنَ بِي , فَهَيَّأْنَنِي وَصَنَعْنَنِي , ثُمَّ أَتَيْنَ بِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَبَنَى بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اور مدینہ منورہ ہجرت سے دو تین سال پہلے مجھ سے نکاح فرمایا جبکہ میری عمر سات سال کی تھی، جب ہم مدینہ منورہ آئے تو ایک دن کچھ عورتیں میرے پاس آئیں، میں اس وقت جھولا جھول رہی تھی اور بخار کی شدت سے میرے بہت سے بال جھڑ کر تھوڑے ہی رہ گئے تھے، وہ مجھے لے گئیں اور مجھے تیار کرنے لگیں اور بناؤ سنگھار کر کے مجھے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے تخلیہ فرمایا: اس وقت میری عمر نو سال تھی۔
حدثنا حسن ، قال: حدثنا حماد بن سلمة , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما فرغ من الاحزاب , دخل المغتسل يغتسل , وجاء جبريل , فرايته من خلل الباب قد عصب راسه الغبار , فقال: يا محمد , اوضعتم اسلحتكم؟ فقال: " ما وضعنا اسلحتنا بعد , انهد إلى بني قريظة" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا فَرَغَ مِنَ الْأَحْزَابِ , دَخَلَ الْمُغْتَسَلَ يَغْتَسِلُ , وَجَاءَ جِبْرِيلُ , فَرَأَيْتُهُ مِنْ خَلَلِ الْبَابِ قَدْ عَصَبَ رَأْسَهُ الْغُبَارُ , فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ , أَوَضَعْتُمْ أَسْلِحَتَكُمْ؟ فَقَالَ: " مَا وَضَعْنَا أَسْلِحَتَنَا بَعْدُ , انْهَدْ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احزاب سے فارغ ہوگئے تو غسل کرنے کے لئے غسل خانے میں چلے گئے، اتنی دیر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آگئے، میں نے دروازے کے سوراخ سے انہیں دیکھا کہ ان کے سر پر گردوغبار ہے اور وہ کہنے لگے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے اسلحہ اتار دیا؟ ہم نے تو اب تک اپنا اسلحہ نہیں اتارا، آپ بنی قریظہ کی طرف روانہ ہوجائیے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر بد سے یوں دم کرتی تھی " اے لوگوں کے رب! اس کی تکلیف کو دور فرما۔ اسے شفاء عطا فرما کیونکہ تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے علاوہ کہیں سے شفاء نہیں مل سکتی "۔
حدثنا ابو نوح قراد , قال: اخبرنا ليث بن سعد , عن مالك بن انس , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , وعن بعض شيوخهم ان زيادا مولى عبد الله بن عباد بن ابي ربيعة , حدثهم عمن حدثه، عن النبي صلى الله عليه وسلم ان رجلا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم جلس بين يديه , فقال: يا رسول الله , إن لي مملوكين , يكذبونني ويخونونني ويعصونني , واضربهم واسبهم , فكيف انا منهم؟ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بحسب ما خانوك وعصوك ويكذبونك وعقابك إياهم , إن كان دون ذنوبهم كان فضلا لك عليهم , وإن كان عقابك إياهم بقدر ذنوبهم كان كفافا , لا لك ولا عليك , وإن كان عقابك إياهم فوق ذنوبهم , اقتص لهم منك الفضل الذي بقي قبلك" فجعل الرجل يبكي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم ويهتف , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما له؟ ما يقرا كتاب الله ونضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئا وإن كان مثقال حبة من خردل اتينا بها وكفى بنا حاسبين سورة الانبياء آية 47 فقال الرجل: يا رسول الله , ما اجد شيئا خيرا من فراق هؤلاء , يعني عبيده , إني اشهدك انهم احرار كلهم .حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ , قَالَ: أَخْبَرَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وعَنْ بَعْضِ شُيُوخِهِمْ أَنَّ زِيَادًا مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ , حَدَّثَهُمْ عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْهِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ لِي مَمْلُوكِينَ , يُكَذِّبُونَنِي وَيَخُونُونَنِي وَيَعْصُونَنِي , وَأَضْرِبُهُمْ وَأَسُبُّهُمْ , فَكَيْفَ أَنَا مِنْهُمْ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بِحَسْبِ مَا خَانُوكَ وَعَصَوْكَ وَيُكَذِّبُونَكَ وَعِقَابُكَ إِيَّاهُمْ , إِنْ كَانَ دُونَ ذُنُوبِهِمْ كَانَ فَضْلًا لَكَ عَلَيْهِمْ , وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ بِقَدْرِ ذُنُوبِهِمْ كَانَ كَفَافًا , لَا لَكَ وَلَا عَلَيْكَ , وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ فَوْقَ ذُنُوبِهِمْ , اقْتُصَّ لَهُمْ مِنْكَ الْفَضْلُ الَّذِي بَقِيَ قِبَلَكَ" فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَبْكِي بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَهْتِفُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَهُ؟ مَا يَقْرَأُ كِتَابَ اللَّهِ وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ سورة الأنبياء آية 47 فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا أَجِدُ شَيْئًا خَيْرًا مِنْ فِرَاقِ هَؤُلَاءِ , يَعْنِي عَبِيدَهُ , إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنَّهُمْ أَحْرَارٌ كُلُّهُمْ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر سامنے بیٹھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! میرے کچھ غلام ہیں، وہ مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں، خیانت بھی کرتے ہیں اور میرا کہا بھی نہیں مانتے، پھر میں انہیں مارتا ہوں اور برا بھلا کہتا ہوں، میرا ان کے ساتھ کیا معاملہ رہے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی خیانت، جھوٹ اور نافرمانی اور تمہاری سزا کا حساب لگایا جائے گا، اگر تمہاری سزا ان کے جرائم سے کم ہوئی تو وہ تمہارے حق میں بہتر ہوگی اور اگر تمہاری سزا ان کے گناہوں کے برابر نکلی تو معاملہ برابر برابر ہوجائیگا، تمہارے حق میں ہوگا اور نہ تمہارے خلاف اور اگر سزا ان کے گناہوں سے زیادہ ہوئی تو اس اضافے کا تم سے بدلہ لیا جائے گا، اس پر وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی رونے لگا اور چلانے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کیا ہوا؟ کیا یہ قرآن کریم میں یہ آیت نہیں پڑھتا اور قیامت کے دن ہم انصاف کے ترازو قائم کریں گے، لہٰذا کسی پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہوگا اور وہ رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کے لئے کافی ہیں، اس آدمی نے کہا یا رسول اللہ! میں اس سے بہتر کوئی حل نہیں پاتا کہ ان سب غلاموں کو اپنے سے جدا کر دوں، اس لئے میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ وہ سب آزاد ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف لأجل تفرد أبى نوح قراد هو عبدالرحمن فى السند الأول، والاسناد الثاني أيضا ضعيف لإبهام بعض رواته ولانقطاعه
ابو عبیدہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ " کوثر " سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک نہر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو " بطنانِ جنت " میں دی گئی ہے، میں نے پوچھا کہ " بطنانِ جنت " سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا وسط جنت اور اس کے دونوں کنارے پر جوف دار موتی لگے ہوں گے۔
عبد الله: وجدت هذه الاحاديث من هاهنا إلى آخرها في كتاب ابي بخط يده قال: حدثنا عامر بن صالح , قال: حدثنا هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت: " ما ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده امراة له قط ولا خادما , ولا ضرب بيده شيئا قط إلا ان يجاهد في سبيل الله" , قالت:" ما نيل من رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا فانتقمه إلا ان تنتهك محارم الله , فينتقم لله" , قالت:" ما عرض على رسول الله صلى الله عليه وسلم امران , احدهما ايسر من الآخر , إلا اخذ الذي هو الايسر إلا ان يكون إثما , فإن كان إثما كان ابعد الناس منه" .عبد الله: وَجَدْتُ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ مِنْ هَاهُنَا إِلَى آخِرِهَا فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ قال: حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ امْرَأَةً لَهُ قَطُّ وَلَا خَادِمًا , وَلَا ضَرَبَ بِيَدِهِ شَيْئًا قَطُّ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" , قَالَتْ:" مَا نِيلَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَانْتَقَمَهُ إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ مَحَارِمُ اللَّهِ , فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ" , قَالَتْ:" مَا عُرِضَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَانِ , أَحَدُهُمَا أَيْسَرُ مِنَ الْآخَرِ , إِلَّا أَخَذَ الَّذِي هُوَ الْأَيْسَرُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ إِثْمًا , فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ" .
عبداللہ کہتے ہیں کہ آگے کی بقیہ تمام احادیث میں نے اپنے والد کے مسودے میں ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی پائی ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی خادم یا کسی بیوی کو کبھی نہیں مارا اور اپنے ہاتھ سے کسی پر ضرب نہیں لگائی الاّ یہ کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کر رہے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی سے کبھی بھی انتقام نہیں لیتے تھے البتہ اگر محارم الٰہی کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لئے انتقام لیا کرتے تھے اور جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو چیزیں پیش کی جاتیں اور ان میں سے ایک چیز زیادہ آسان ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آسان چیز کو اختیار فرماتے، الاّ یہ کہ وہ گناہ ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں لوگوں کی نسبت اس سے زیادہ سے زیادہ دور ہوتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا لأجل عامر بن صالح، م: 2328
وجدت في كتاب ابي: حدثنا عامر بن صالح , قال: حدثني هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , انها اخبرته " انها كانت هي ورسول الله صلى الله عليه وسلم يغتسلان من إناء واحد , كلاهما يغترف منه" .وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي: حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ " أَنَّهَا كَانَتْ هِيَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْتَسِلَانِ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ , كِلَاهُمَا يَغْتَرِفُ مِنْهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن کے پانی سے غسل جنابت کرلیا کرتے تھے اور اس سے چلو بھرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف كسابقه، خ: 273، م: 321
وجدت في كتاب ابي: حدثني عامر بن صالح , قال: حدثنا هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يقولن احدكم خبثت نفسي , ولكن ليقل لقست نفسي" .وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي: حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ خَبُثَتْ نَفْسِي , وَلَكِنْ لِيَقُلْ لَقِسَتْ نَفْسِي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میرا نفس خبیث ہوگیا ہے، البتہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا دل سخت ہوگیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد كسابقه، خ: 6179، م: 2250
وجدت في كتاب ابي: حدثنا عامر بن صالح , قال: حدثني هشام , عن ابيه , عن عائشة " انها سترت على بابها درنوكا فيه خيل اولات اجنحة , فقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم من سفر , فامرها فنزعته" .وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي: حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّهَا سَتَرَتْ عَلَى بَابِهَا دُرْنُوكًا فِيهِ خَيْلٌ أُولَاتُ أَجْنِحَةٍ , فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ , فَأَمَرَهَا فَنَزَعَتْهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر سے واپس آئے تو دیکھا کہ میں نے گھر کے دروازے پر ایک پردہ لٹکا رکھا ہے، جس پر ایک پروں والے گھوڑے کی تصویر بنی ہوئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتارنے کا حکم دیا تو انہوں نے اسے اتار دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا لأجل عامر، خ: 5955، م: 2107
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس بات کا ذکر کیا کہ وہ اپنے والد کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اشارہ نقل کرتے ہیں کہ میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں کہ انہیں وہم ہوگیا ہے، واللہ وہ جھوٹ بولنے والے نہیں، انہیں غلط بات بھی نہیں بتائی گئی اور نہ انہوں نے دین میں اضافہ کرلیا، در اصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک یہودی کی قبر پر گزر ہوا تو اس کے متعلق یہ فرمایا تھا کہ اس وقت اسے عذاب ہو رہا ہے اور اس کے اہل خانہ اس پر رو رہے ہیں۔
وجدت في كتاب ابي: حدثنا سعيد بن محمد الوراق , قال: حدثنا وائل بن داود , عن البهي ، عن عائشة , قالت: " ما بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن حارثة في جيش قط إلا امره عليهم , ولو بقي بعده لاستخلفه" .وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَرَّاقُ , قَالَ: حَدَّثَنَا وَائِلُ بْنُ دَاوُدَ , عَنِ الْبَهِيِّ ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " مَا بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ فِي جَيْشٍ قَطُّ إِلَّا أَمَّرَهُ عَلَيْهِمْ , وَلَوْ بَقِيَ بَعْدَهُ لَاسْتَخْلَفَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کبھی کسی لشکر میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا تو انہی کو اس لشکر کا امیر مقرر فرمایا: اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی زندہ رہتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہی کو اپنا خلیفہ مقرر فرماتے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن إن صح سماع البهي من عائشة
حدثنا عبد الصمد , قال: حدثنا سليمان بن كثير , قال: حدثنا الزهري ، عن عروة , عن عائشة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر ان تحد فوق ثلاثة ايام إلا على زوجها" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ إِلَّا عَلَى زَوْجِهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو عورت اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، شوہر کے علاوہ کسی اور میت پر اس کے لئے تین دن سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ دے دیا کرتے تھے۔
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانوروں کا قلادہ اپنے ہاتھ سے بٹا کرتی تھی، جبکہ وہ محرم ہوتے تھے۔