حدثنا روح , حدثنا صالح بن رستم , عن ابن ابي مليكة , قال: قالت عائشة دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم وانا بسرف وانا ابكي , فقال: " ما يبكيك يا عائشة؟" فقالت: قلت: يرجع الناس بنسكين , وانا ارجع بنسك واحد! قال:" ولم ذاك؟" قالت: قلت: إني حضت , قال:" ذاك شيء كتبه الله على بنات آدم , اصنعي ما يصنع الحاج" , قالت: فقدمنا مكة , ثم ارتحلنا إلى منى , ثم ارتحلنا إلى عرفة , ثم وقفنا مع الناس , ثم وقفت بجمع , ثم رميت الجمرة يوم النحر , ثم رميت الجمار مع الناس تلك الايام , قالت: ثم ارتحل حتى نزل الحصبة , قالت: والله ما نزلها إلا من اجلي , او قال ابن ابي مليكة عنها إلا من اجلها , ثم ارسل إلى عبد الرحمن , فقال:" احملها خلفك حتى تخرجها من الحرم" , فوالله ما قال: فتخرجها إلى الجعرانة , ولا إلى التنعيم , فلتهل بعمرة , قالت: فانطلقنا , وكان ادنى إلى الحرم التنعيم , فاهللت منه بعمرة , ثم اقبلت فاتيت البيت , فطفت به , وطفت بين الصفا، والمروة , ثم اتيته فارتحل , قال ابن ابي مليكة وكانت عائشة تفعل ذلك بعد .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ رُسْتُمَ , عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ دَخَلَ عَلَيّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِسَرِفَ وَأَنَا أَبْكِي , فَقَالَ: " مَا يُبْكِيكِ يَا عَائِشَةُ؟" فَقَالَتْ: قُلْتُ: يَرْجِعُ النَّاسُ بِنُسُكَيْنِ , وَأَنَا أَرْجِعُ بِنُسُكٍ وَاحِدٍ! قَالَ:" وَلِمَ ذَاكَ؟" قَالَتْ: قُلْتُ: إِنِّي حِضْتُ , قَالَ:" ذَاكَ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ , اصْنَعِي مَا يَصْنَعُ الْحَاجُّ" , قَالَتْ: فَقَدِمْنَا مَكَّةَ , ثُمَّ ارْتَحَلْنَا إِلَى مِنًى , ثُمَّ ارْتَحَلْنَا إِلَى عَرَفَةَ , ثُمَّ وَقَفْنَا مَعَ النَّاسِ , ثُمَّ وَقَفْتُ بِجَمْعٍ , ثُمَّ رَمَيْتُ الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ , ثُمَّ رَمَيْتُ الْجِمَارَ مَعَ النَّاسِ تِلْكَ الْأَيَّامَ , قَالَتْ: ثُمَّ ارْتَحَلَ حَتَّى نَزَلَ الْحَصْبَةَ , قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا نَزَلَهَا إِلَّا مِنْ أَجْلِي , أَوْ قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْهَا إِلَّا مِنْ أَجْلِهَا , ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ , فَقَالَ:" احْمِلْهَا خَلْفَكَ حَتَّى تُخْرِجَهَا مِنَ الْحَرَمِ" , فَوَاللَّهِ مَا قَالَ: فَتُخْرِجُهَا إِلَى الْجِعِرَّانَةِ , وَلَا إِلَى التَّنْعِيمِ , فَلْتُهِلَّ بِعُمْرَةٍ , قَالَتْ: فَانْطَلَقْنَا , وَكَانَ أَدْنَى إِلَى الْحَرَمِ التَّنْعِيمُ , فَأَهْلَلْتُ مِنْهُ بِعُمْرَةٍ , ثُمَّ أَقْبَلْتُ فَأَتَيْتُ الْبَيْتَ , فَطُفْتُ بِهِ , وَطُفْتُ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ , ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَارْتَحَلَ , قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَفْعَلُ ذَلِكَ بَعْدُ .
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم نے حج کا تلبیہ پڑھا، جب سرف کے مقام پر پہنچے تو میرے " ایام " شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں رو رہی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میرے " ایام " شروع ہوگئے ہیں، کاش! میں حج ہی نہ کرنے آتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! یہ تو وہ چیز ہے جو اللہ نے آدم علیہ السلام کی ساری بیٹیوں پر لکھ دی ہے، تم سارے مناسک ادا کرو، البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا، جب ہم مکہ مکرمہ میں داخل ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے احرام کو عمرے کا احرام بنانا چاہے، وہ ایسا کرسکتا ہے، الاّ یہ کہ اس کے پاس ہدی کا جانور ہو۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذی الحجہ کوا پنی ازواج کی طرف سے گائے ذبح کی تھی، شب بطحاء کو میں " پاک " ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میری سہلیاں حج اور عمرہ دونوں کے ساتھ واپس جائیں اور میں صرف حج کے ساتھ واپس جاؤں گی؟ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو حکم دیا اور وہ مجھے تنعیم لے گئے جہاں سے میں نے عمرے کا احرام باندھا۔