حدثنا يونس , حدثنا حماد يعني ابن زيد , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وهي وبيئة , ذكر ان الحمى صرعتهم , فمرض ابو بكر , وكان إذا اخذته الحمى يقول: كل امرئ مصبح في اهله والموت ادنى من شراك نعله قالت: وكان بلال إذا اخذته الحمى يقول: الا ليت شعري هل ابيتن ليلة بواد وحولي إذخر وجليل وهل اردن يوما مياه مجنة وهل يبدون لي شامة وطفيل اللهم العن عتبة بن ربيعة , وشيبة بن ربيعة , وامية بن خلف , كما اخرجونا من مكة , فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لقوا قال: " اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة , او اشد , اللهم صححها وبارك لنا في صاعها ومدها , وانقل حماها إلى الجحفة" قال: فكان المولود يولد بالجحفة , فما يبلغ الحلم حتى تصرعه الحمى .حَدَّثَنَا يُونُسُ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهِيَ وَبِيئَةٌ , ذُكِرَ أَنَّ الْحُمَّى صَرَعَتْهُمْ , فَمَرِضَ أَبُو بَكْرٍ , وَكَانَ إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى يَقُولُ: كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ قَالَتْ: وَكَانَ بِلَالٌ إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى يَقُولُ: أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدْنَ يَوْمًا مِيَاهَ مِجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ اللَّهُمَّ الْعَنْ عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ , وَشَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ , وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ , كَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ مَكَّةَ , فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَقُوا قَالَ: " اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ , أَوْ أَشَدَّ , اللَّهُمَّ صَحِّحْهَا وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا وَمُدِّهَا , وَانْقُلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ" قَالَ: فَكَانَ الْمَوْلُودُ يُولَدُ بِالْجُحْفَةِ , فَمَا يَبْلُغُ الْحُلُمَ حَتَّى تَصْرَعَهُ الْحُمَّى .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ اور بلال بھی بیمار ہوگئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان لوگوں کی عیادت کے لئے جانے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، انہوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ اپنی صحت کیسی محسوس کر رہے ہیں؟ انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " ہر شخص اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے جبکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتی ہے۔ " پھر میں نے عامر سے پوچھا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا " کہ موت کا مزہ چکھنے سے پہلے موت کو محسوس کر رہا ہوں اور قبرستان منہ کے قریب آگیا ہے۔ " پھر میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے ان کی طبیعت پوچھی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " ہائے! مجھے کیا خبر کہ میں دوبارہ " فخ " میں رات گزار سکوں گا اور میرے آس پاس " اذخر " اور " جلیل " نامی گھاس ہوگی اور کیا شامہ اور طفیل میرے سامنے واضح ہو سکیں گے؟ اے اللہ! عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت فرما جیسے انہوں نے ہمیں مکہ مکرمہ سے نکال دیا " حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئیں اور ان لوگوں کی باتیں بتائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا اے اللہ! مدینہ منورہ کو ہماری نگاہوں میں اسی طرح محبوب بنا جیسے مکہ کو بنایا تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اس سے بھی زیادہ، اے اللہ! مدینہ کے صاع اور مد میں برکتیں عطاء فرما اور اس کی وباء حجفہ کی طرف منتقل فرما۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔