قال: حدثنا عباد بن عباد ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن قتل حيات البيوت إلا الابتر، وذو الطفيتين فإنهما يختطفان او قال: يطمسان الابصار، ويطرحان الحمل من بطون النساء، ومن تركهما فليس منا" .قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم " نَهَى عَنْ قَتْلِ حَيَّاتِ الْبُيُوتِ إِلَّا الْأَبْتَََرَ، وَذَو الطُّفْيَتَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَخْتَطِفَانِ أَوْ قَالَ: يَطْمِسَانِ الْأَبْصَارَ، وَيَطْرَحَانِ الْحَمْلَ مِنْ بُطُونِ النِّسَاء، وَمَنْ تَرَكَهُمَا فَلَيْسَ مِنَّا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے سانپوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، سوائے ان سانپوں کے جو دم کٹے ہوں یا دو دھاری ہوں کیونکہ ایسے سانپ بینائی کو زائل کردیتے ہیں اور عورتوں کے پیٹ سے حمل ضائع کردیتے ہیں اور جو شخص ان سانپوں کو چھوڑ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
حدثنا عباد بن عباد ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت " كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش في الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه، فلما قدم المدينة صامه وامر بصيامه، فلما نزلت فريضة شهر رمضان، كان رمضان هو الذي يصومه، وترك يوم عاشوراء، فمن شاء صامه، ومن شاء افطره" .حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت " كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا نَزَلَتْ فَرِيضَةُ شَهْرِ رَمَضَانَ، كَانَ رَمَضَانُ هُوَ الَّذِي يَصُومُهُ، وَتَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ دور جاہلیت میں قریش کے لوگ دس محرم کا روزہ رکھتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے، مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ روزہ رکھتے رہے اور صحابہ رضی اللہ عنہ کو یہ روزہ رکھنے کا حکم دیتے رہے، پھر جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان ہی کے روزے رکھنے لگے اور عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا، اب جو چاہے وہ روزہ رکھ لے اور جو چاہے نہ رکھے۔
حدثنا عباد بن عباد ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول لها: " إني اعرف غضبك إذا غضبت، ورضاك إذا رضيت"، قالت: وكيف تعرف ذلك يا رسول الله؟ قال:" إذا غضبت قلت: يا محمد، وإذا رضيت قلت: يا رسول الله" .حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ لَهَا: " إِنِّي أَعْرِفُ غَضَبَكِ إِذَا غَضِبْتِ، وَرِضَاكِ إِذَا رَضِيتِ"، قَالَتْ: وَكَيْفَ تَعْرِفُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" إِذَا غَضِبْتِ قُلْتِ: يَا مُحَمَّدُ، وَإِذَا رَضِيتِ قُلْتِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرمایا کرتے تھے جب تم ناراض ہوتی ہو تو مجھے تمہاری ناراضگی کا پتہ چل جاتا ہے اور جب تم راضی ہوتی ہو تو مجھے اس کا بھی پتہ چل جاتا ہے، انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ کو اس کا کیسے پتہ چل جاتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم ناراض ہوتی ہو تو تم " یامحمد " کہتی ہو اور جب تم راضی ہو تو تم " یارسول اللہ " کہتی ہو۔
حكم دارالسلام: حديث غير محفوظ بهذه السياقة والصحيح ما فى الصحيحين، خ: 5228، م: 2439
حدثنا هشيم ، قال: اخبرنا عمر بن ابي سلمة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: " لما نزل عذري من السماء، جاءني النبي صلى الله عليه وسلم فاخبرني بذلك، فقلت: نحمد الله عز وجل لا نحمدك" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " لَمَّا نَزَلَ عُذْرِي مِنَ السَّمَاءِ، جَاءَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَنِي بِذَلِكَ، فَقُلْتُ: نَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا نَحْمَدُكَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب آسمان سے میری برأت کا حکم نازل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور مجھے اس کی اطلاع دی تو میں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں، آپ کا شکریہ ادا نہیں کرتے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عمر ابن أبى سلمة وقد خالف الثقات والحديث صحيح دون قوله: جاءني النبى صلى الله عليه وسلم فأخبرني بذلك
حدثنا هشيم ، قال: انبانا يحيى بن سعيد ، عن عمرة ، عن عائشة ، قالت: " صلى النبي صلى الله عليه وسلم في حجرتي والناس ياتمون به من وراء الحجرة يصلون بصلاته" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حُجْرَتِي وَالنَّاسُ يَأْتَمُّونَ بِهِ مِنْ وَرَاءِ الْحُجْرَةِ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حجرے میں نماز پڑھی اور لوگ حجرے کے باہر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کررہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں شریک تھے۔
حدثنا هشيم ، قال: انبانا مغيرة ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " رخص لاهل بيت من الانصار في الرقية من كل ذي حمة" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُغِيرَةُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَخَّصَ لِأَهْلِ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فِي الرُّقْيَةِ مِنْ كُلِّ ذِي حُمَةٍ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ایک گھرانے کو ہر ڈنک والی چیز سے جھاڑ پھونک کرنے کی اجازت دی تھی۔
حدثنا هشيم ، قال: انبانا خالد ، عن عبد الله بن شقيق ، قال: سالت عائشة عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من التطوع؟ فقالت: " كان يصلي قبل الظهر اربعا في بيتي، ثم يخرج فيصلي بالناس، ثم يرجع إلى بيتي فيصلي ركعتين، وكان يصلي بالناس المغرب، ثم يرجع إلى بيته، فيصلي ركعتين، وكان يصلي بهم العشاء، ثم يدخل بيتي، فيصلي ركعتين، وكان يصلي من الليل تسع ركعات فيهن الوتر، وكان يصلي ليلا طويلا قائما، وليلا طويلا جالسا، فإذا قرا وهو قائم ركع وسجد وهو قائم، وإذا قرا وهو قاعد ركع وسجد وهو قاعد، وكان إذا طلع الفجر صلى ركعتين، ثم يخرج فيصلي بالناس صلاة الفجر" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا خَالِدٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ التَّطَوُّعِ؟ فَقَالَتْ: " كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا فِي بَيْتِي، ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى بَيْتِي فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى بَيْتِهِ، فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ يُصَلِّي بِهِمْ الْعِشَاءَ، ثُمَّ يَدْخُلُ بَيْتِي، فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ فِيهِنَّ الْوَتْرُ، وَكَانَ يُصَلِّي لَيْلًا طَوِيلًا قَائِمًا، وَلَيْلًا طَوِيلًا جَالِسًا، فَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَاعِدٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَاعِدٌ، وَكَانَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ صَلَاةَ الْفَجْرِ" .
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نمازوں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز سے پہلے میرے گھر میں چار رکعتیں پڑھتے تھے، پھر باہر جا کر لوگوں کو نماز پڑھاتے اور میرے گھر واپس آکر دو رکعتیں پڑھتے، پھر لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھا کر گھر تشریف لاتے اور دو رکعتیں پڑھتے، پھر عشاء کی نماز پڑھاتے اور میرے گھر تشریف لا کردو رکعتیں پڑھتے، رات کے وقت نو رکعتیں پڑھتے جن میں وتر بھی شامل ہوتے، رات کی نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم طویل قیام فرماتے اور کافی دیر تک بیٹھتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر بھی تلاوت اور رکوع و سجود فرماتے تھے اور بیٹھ کر بھی تلاوت اور رکوع و سجود فرماتے تھے اور جب طلوع صبح صادق ہوجاتی تو دو رکعتیں پڑھتے، پھر باہر جاکر لوگوں کو نماز فجر پڑھاتے تھے۔
حدثنا حدثنا هشيم ، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد ، عن الشعبي ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: " كنت افتل قلائد هدي رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدي"، قال مسروق: فسمعت تصفيقها بيديها من وراء الحجاب وهي تحدث بذلك،" ثم يقيم فينا حلالا" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ"، قَالَ مَسْرُوقٌ: فَسَمِعْتُ تَصْفِيقَهَا بِيَدَيْهَا مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ وَهِيَ تُحَدِّثُ بِذَلِكَ،" ثُمَّ يُقِيمُ فِينَا حَلَالًا" .
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانوروں کا قلادہ اپنے ہاتھ سے بٹا کرتی تھی، جس وقت وہ یہ حدیث بیان کر رہی تھیں میں نے پردے کے پیچھے سے ان کے ہاتھوں کی آواز سنی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان غیر محرم ہو کر مقیم رہتے تھے۔
حدثنا هشيم ، قال: انبانا يزيد بن ابي زياد ، عن مجاهد ، عن عائشة ، قالت: " كان الركبان يمرون بنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم محرمات، فإذا حاذوا بنا اسدلت إحدانا جلبابها من راسها على وجهها، فإذا جاوزنا كشفناه" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا أَسْدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا، فَإِذَا جَاوَزَنَا كَشَفْنَاهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام کی حالت میں تھیں اور سوار ہمارے سامنے سے گذر رہے تھے، جب وہ ہمارے قریب آتے تو ہم اپنے سر سے چادر سرکا کر اپنے چہرے پر لٹکا لیتے اور جب وہ گذر جاتے تو ہم اسے ہٹا دیتے تھے۔
حدثنا هشيم ، قال: حدثنا خالد ، عن رجل ، عن ابي العالية ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول في سجود القرآن: " سجد وجهي لمن خلقه، وشق سمعه وبصره، بحوله وقوته" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ: " سَجَدَ وَجْهِي لِمَنْ خَلَقَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ تلاوت میں فرمایا کرتے تھے " میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا جس نے اسے پیدا کیا اور اسے قوت شنوائی و گویائی عطاء فرمائی اور یہ سجدہ بھی اسی کی تو فیق اور مدد سے ہوا ہے "۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد ضعيف، خالد لم يسمع من أبى العالية وبينهما رجل مبهم
حدثنا هشيم ، قال: انبانا مغيرة ، عن الشعبي ، عن عائشة ، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استراث الخبر، تمثل فيه ببيت طرفة، وياتيك بالاخبار من لم تزود" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُغِيرَةُ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَرَاثَ الْخَبَرَ، تَمَثَّلَ فِيهِ بِبَيْتِ طَرَفَةَ، وَيَأْتِيكَ بِالْأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوِّدِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی خبر کا انتظار ہوتا اور اس میں تاخیر ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر طرفہ کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے کہ " تیرے پاس وہ شخص خبریں لے کر آئے گا جسے تو نے زادراہ نہ دیا ہوگا۔ "
حكم دارالسلام: حديث حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه بين الشعبي وعائشة
حدثنا معتمر ، قال: سمعت خالدا ، عن عبد الله بن شقيق ، عن عائشة ، قالت: " ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصل الضحى إلا ان يقدم من سفر فيصلي ركعتين" .حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ خَالِدًا ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّ الضُّحَى إِلَّا أَنْ يَقْدَمَ مِنْ سَفَرٍ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، الاّ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر سے واپس آئے ہوں تو دو رکعتیں پڑھ لیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی عورت کی چھاتی سے ایک دو مرتبہ دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
انبانا بشر بن المفضل ، حدثنا برد ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في البيت والباب عليه مغلق، فجئت، فمشى حتى فتح لي، ثم رجع إلى مقامه، ووصفت ان الباب في القبلة" .أَنْبَأَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا بُرْدٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي الْبَيْتِ وَالْبَابُ عَلَيْهِ مُغْلَقٌ، فَجِئْتُ، فَمَشَى حَتَّى فَتَحَ لِي، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مَقَامِهِ، وَوَصَفَتْ أَنَّ الْبَابَ فِي الْقِبْلَةِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات گھر میں نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور دروازہ بند ہوتا تھا، میں آجاتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے آتے، میرے لئے دروازہ کھولتے اور پھر اپنی جگہ جا کر کھڑے ہوجا تے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی بتایا کہ دروازہ قبلہ کی جانب تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لڑکے کی طرف سے عقیقے میں دو بکریاں برابر کی ہوں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد حسن من أجل عبدالله بن عثمان
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آئے اور اپنا منہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان رکھ دیا اور اپنے ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کنپٹیوں پر رکھ دیئے اور کہنے لگے ہائے میرے نبی، ہائے میرے خلیل، ہائے میرے دوست۔
حدثنا إسحاق يعني الازرق ، ويحيى بن سعيد ، قال: إسحاق : حدثنا حسين بن المكتب ، عن بديل ، عن ابي الجوزاء ، عن عائشة ، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفتتح الصلاة بالتكبير والقراءة ب الحمد لله رب العالمين، وكان إذا ركع لم يرفع راسه"، وقال يحيى:" يشخص راسه ولم يصوبه، ولكن بين ذلك، وكان إذا رفع راسه من الركوع لم يسجد حتى يستوي قائما، وإذا رفع راسه من السجود لم يسجد حتى يستوي جالسا"، قالت:" وكان يقول في كل ركعتين التحية، وكان ينهى عن عقب الشيطان، وكان يفرش رجله اليسرى، وينصب رجله اليمنى، وكان ينهى ان يفترش احدنا ذراعيه كالكلب، وكان يختم الصلاة بالتسليم"، قال يحيى:" وكان يكره ان يفترش ذراعيه افتراش السبع" ..حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي الْأَزْرَقَ ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: إِسْحَاقُ : حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ الْمُكْتَبِ ، عَنْ بُدَيْلٍ ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يَرْفَعْ رَأْسَهُ"، وَقَالَ يَحْيَى:" يُشْخِصُ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ، وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا"، قَالَتْ:" وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ، وَكَانَ يَفَْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى، وَكَانَ يَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ أَحَدُنَا ذِرَاعَيْهِ كَالْكَلْبِ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ"، قَالَ يَحْيَى:" وَكَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَفْتَرِشَ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا آغاز تکبیر سے کرتے تھے اور قرأت کا آغاز سورت فاتحہ سے فرماتے تھے، جب رکوع میں جاتے تھے تو سر کو اونچا رکھتے تھے اور نہ ہی جھکا کر رکھتے بلکہ درمیان میں رکھتے تھے، جب رکوع اٹھاتے تو دوسرا سجدہ اس وقت تک نہ کرتے جب تک سیدھے بیٹھ نہ جاتے اور ہر دو رکعتوں پر " التحیات " پڑھتے تھے اور شیطان کی طرح ایڑیوں کو کھڑا رکھنے سے منع فرماتے تھے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر دائیں پاؤں کو کھڑا کرلیتے تھے اور اس بات سے بھی منع فرماتے تھے کہ ہم میں سے کوئی شخص کتے کی طرح اپنے بازوؤں کو بچھا لے اور نماز کا اختتام سلام سے فرماتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انسان سب سے پاکیزہ چیز جو کھاتا ہے، وہ اس کی اپنی کمائی ہوتی ہے اور انسان کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمة عمارة
فروہ بن نوفل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے، اے اللہ! میں ان چیزوں کے شر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں جو میرے نفس نے کی ہیں۔
حدثنا محمد بن عبد الرحمن الطفاوي ، قال: حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: " ما ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم خادما له قط ولا امراة له قط، ولا ضرب بيده إلا ان يجاهد في سبيل الله، وما نيل منه شيئا فانتقمه من صاحبه إلا ان تنتهك محارم الله عز وجل فينتقم لله عز وجل، وما عرض عليه امران احدهما ايسر من الآخر إلا اخذ بايسرهما، إلا ان يكون ماثما، فإن كان ماثما كان ابعد الناس منه" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَادِمًا لَهُ قَطُّ وَلَا امْرَأَةً لَهُ قَطُّ، وَلَا ضَرَبَ بِيَدِهِ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَا نِيلَ مِنْهُ شَيئًا فَانْتَقَمَهُ مِنْ صَاحِبِهِ إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ مَحَارِمُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَا عُرِضَ عَلَيْهِ أَمْرَانِ أَحَدُهُمَا أَيْسَرُ مِنَ الْآخَرِ إِلَّا أَخَذَ بِأَيْسَرِهِمَا، إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَأْثَمًا، فَإِنْ كَانَ مَأْثَمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی خادم یا کسی بیوی کو کبھی نہیں مارا اور اپنے ہاتھ سے کسی پر ضرب نہیں لگائی الاّ یہ کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کر رہے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بھی گستاخی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی سے کبھی انتقام نہیں لیتے تھے البتہ اگر محارم الٰہی کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لئے انتقام لیا کرتے تھے اور جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو چیزیں پیش کی جاتیں اور ان میں سے ایک چیز زیادہ آسان ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آسان چیز کو اختیار فرماتے تھے، الاّ یہ کہ وہ گناہ ہو، کیونکہ اگر وہ گناہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگوں کی نسبت اس سے زیادہ سے زیادہ دور ہوتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد حسن من أجل محمد بن عبدالرحمن، م: 2328
حدثنا إسماعيل يعني ابن علية ، حدثنا محمد بن السائب ، عن امه ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اخذ اهله الوعك امر بالحساء فصنع، ثم امرهم فحسوا منه، ثم يقول:" إنه، يعني ليرتو فؤاد الحزين ويسرو عن فؤاد السقيم، كما تسرو إحداكن الوسخ بالماء عن وجهها" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ أَهْلَهُ الْوَعْكُ أَمَرَ بِالْحَسَاءِ فَصُنِعَ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ فَحَسَوْا مِنْهُ، ثُمَّ يَقُولُ:" إِنَّهُ، يَعْنِي لَيَرْتُو فُؤَادَ الْحَزِينِ وَيَسْرُو عَنْ فُؤَادِ السَّقِيمِ، كَمَا تَسْرُو إِحْدَاكُنَّ الْوَسَخَ بِالْمَاءِ عَنْ وَجْهِهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ میں سے اگر کسی کو بخار ہوجاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دلیا بنانے کا حکم دیتے تھے، جب وہ تیار ہوجاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ کھانے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ غمگین آدمی کے دل کو تقویت پہنچاتا ہے اور بیمار آدمی کے دل کی پریشانیوں کو اس طرح دور کردیتا ہے جیسے تم میں سے کوئی عورت اپنے چہرے سے میل کچیل کو پانی کے ذریعے کردیتی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة والدة محمد بن السائب
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن معاذة ، قالت: سالت امراة عائشة اتقضي الحائض الصلاة؟ فقالت: احرورية انت؟ " قد كنا نحيض عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فلا نقضي، ولا نؤمر بقضاء" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ مُعَاذَةَ ، قَالَتْ: سَأَلَتْ امْرَأَةٌ عَائِشَةَ أَتَقْضِي الْحَائِضُ الصَّلَاةَ؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ؟ " قَدْ كُنَّا نَحِيضُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا نَقْضِي، وَلَا نُؤْمَرُ بِقَضَاءٍ" .
معاذہ رحمہ اللہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پو چھا کہ کیا حائضہ عورت نمازوں کی قضاء کرے گی؟ انہوں نے فرمایا کیا تو خارجی ہوگئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب ہمارے " ایام " آتے تھے تو ہم قضاء کرتے تھے اور نہ ہی ہمیں قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔
ابوبردہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمارے سامنے ایک چادر " جسے ملبدہ کہا جاتا ہے " اور ایک موٹا تہبند نکالا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہی دو کپڑوں میں دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن عبد الله ابن يزيد رضيعا كان لعائشة، عن عائشة رضي الله عنها، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يموت احد من المسلمين، فيصلي عليه امة من الناس يبلغون ان يكونوا مئة، فيشفعوا له إلا شفعوا فيه" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ يَزِيدَ رَضِيعًا كَانَ لِعَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَمُوتُ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَيُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ النَّاسِ يَبْلُغُونَ أَنْ يَكُونُوا مِئَةً، فَيَشْفَعُوا لَهُ إِلَّا شُفِّعُوا فِيهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جس مسلمان میت پر سو کے قریب مسلمانوں کی ایک جماعت نماز جنازہ پڑھ لے اور اس کے حق میں سفارش کردے، اس کے حق میں ان لوگوں کی سفارش قبول کرلی جاتی ہے۔
حدثنا حدثنا إسماعيل ، عن ابن عون ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، قال: ذكروا عند عائشة ان عليا كان وصيا، فقالت: " متى اوصى إليه؟ فقد كنت مسندته إلى صدري، او قالت: في حجري، فدعا بالطست، فلقد انخنث في حجري وما شعرت انه مات، فمتى اوصى إليه؟" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: ذَكَرُوا عِنْدَ عَائِشَةَ أَنَّ عَلِيًّا كَانَ وَصِيًّا، فَقَالَتْ: " مَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ؟ فَقَدْ كُنْتُ مُسْنِدَتَهُ إِلَى صَدْرِي، أَوْ قَالَتْ: فِي حِجْرِي، فَدَعَا بِالطَّسْتِ، فَلَقَدْ انْخَنَثَ فِي حِجْرِي وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُ مَاتَ، فَمَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ؟" .
اسود کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے ذکر کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کب اپنا وصی مقرر فرمایا؟ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے سہارا دیا ہوا تھا، انہوں نے ایک طشت منگوایا، بالآخر میری گود میں ہی ان کی روح نے پرواز کیا اور مجھے معلوم بھی نہ ہوسکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوچکا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا وصی کب مقرر فرما دیا؟
حدثنا محمد بن فضيل ، قال: حدثنا الاعمش ، عن عمارة بن عمير ، عن ابي عطية ، قال: قالت عائشة : إني لاعلم كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي، قال: ثم سمعتها تلبي تقول: " لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : إِنِّي لَأَعْلَمُ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي، قَالَ: ثُمَّ سَمِعْتُهَا تُلَبِّي تَقُولُ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سب سے زیادہ جانتی ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح تلبیہ کہتے تھے، پھر انہوں نے تلبیہ کے یہ الفاظ دہرائے " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ "۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معتکف ہوتے اور مسجد سے اپنا سر باہر نکال دیتے، میں اسے دھو دیتی حالانکہ میں ایام سے ہوتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعتوں پر وتر بناتے تھے، پھر جب عمر مبارک زیادہ ہوگئی اور جسم مبارک بھاری ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سات رکعتوں پر وتر بنانے لگے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على الأعمش
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پو چھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے پسند یدہ عمل کون سا تھا؟ انہوں نے فرمایا جو ہمیشہ ہو، اگرچہ تھوڑا ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بیدار ہو کر نماز پڑھتے تو لحاف کا ایک کو نا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ہوتا اور دوسرا کونا عائشہ پر ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے رہتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه، اضطرب فيه يونس بن عمرو، م: 514
حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، انها قالت: " انكسفت الشمس، فصلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاطال القيام، ثم ركع، فاطال الركوع، ثم رفع قبل ان يسجد، فاطال القيام، وهو دون القيام الاول، ثم ركع، فاطال دون الركوع الاول، ثم سجد، ثم قام الثانية، ثم فعل مثل ما فعل في الركعة الاولى، غير ان اول قيامه اطول من آخره، واول ركوعه اطول من آخره، فقضى صلاته وقد تجلت الشمس" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّها قَالَتْ: " انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّل، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ الثَّانِيَةَ، ثُمَّ فَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى، غَيْرَ أَنَّ أَوَّلَ قِيَامِهِ أَطْوَلُ مِنْ آخِرِهِ، وَأَوَّلَ رُكُوعِهِ أَطْوَلُ مِنْ آخِرِهِ، فَقَضَى صَلَاتَهُ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سورج گرہن ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے لگے اور طویل قیام کیا، پھر رکوع کیا اور طویل رکوع کیا، پھر سجدے میں جانے سے پہلے سر اٹھا کر طویل قیام کیا، البتہ یہ پہلے قیام سے مختصر تھا، پھر رکوع کیا اور طویل رکوع سے مختصر تھا، پھر سجدہ کیا، پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوئے پھر وہی کیا جو پہلی رکعت میں کیا تھا، البتہ اس رکعت میں پہلے قیام کو دوسرے کی نسبت لمبا رکھا اور پہلا رکوع دوسرے کی نسبت زیادہ لمبا تھا، اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کی جبکہ سورج گرہن ختم ہوگیا تھا۔
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ایام کی حالت میں ہو تیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تہبند کے اوپر سے اپنی ازواج سے مباشرت فرمایا کرتے تھے۔
حدثنا محمد بن سلمة ، عن خصيف ، ومروان بن شجاع ، قال: حدثني خصيف ، عن مجاهد ، عن عائشة ، وقال: مروان، سمعت عائشة، تقول قالت: لما نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لبس الذهب، قلنا: يا رسول الله، الا نربط المسك بشيء من ذهب؟ قال: " افلا تربطونه بالفضة، ثم تلطخونه بزعفران، فيكون مثل الذهب؟" ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ خُصَيْفٍ ، وَمَرْوَانَ بْنِ شُجَاعٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُصَيْفٌ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، وَقَالَ: مَرْوَانُ، سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ قَالَتْ: لَمَّا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَرْبِطُ الْمِسْكَ بِشَيْءٍ مِنْ ذَهَبٍ؟ قَالَ: " أَفَلَا تَرْبِطُونَهُ بِالْفِضَّةِ، ثُمَّ تَلْطَخُونَهُ بِزَعْفَرَانَ، فَيَكُونَ مِثْلَ الذَّهَبِ؟" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم تھوڑا سا سونا لے کر اس میں مشک نہ ملا لیا کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے چاندی کے ساتھ کیوں نہیں ملاتیں، پھر اسے زعفران کے ساتھ خلط ملط کرلیا کرو، جس سے وہ چاندی بھی سونے کی طرح ہوجائے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لسوء حفظ خصيف وهو مضطرب أيضا
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا معمر ، قال: انبانا ابن شهاب ، عن عروة ، عن عائشة ان ابا بكر دخل عليها وعندها جاريتان تضربان بدفين، فانتهرهما ابو بكر، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " دعهن، فإن لكل قوم عيدا" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا جَارِيَتَانِ تَضْرِبَانِ بِدُفَّيْنِ، فَانْتَهَرَهُمَا أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعْهُنَّ، فَإِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان کے ہاں آئے تو وہاں دو بچیاں دف بجا رہی تھیں، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا انہیں چھوڑ دو، کہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے۔
حدثنا عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ، انها قالت: اقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا يدخل على نسائه شهرا، قالت: فلبث تسعا وعشرين، قالت: فكنت اول من بدا به، فقلت للنبي صلى الله عليه وسلم: اليس كنت اقسمت شهرا؟ فعدت الايام تسعا وعشرين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " الشهر تسع وعشرون" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَقْسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى نِسَائِهِ شَهْرًا، قَالَتْ: فَلَبِثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، قَالَتْ: فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ بَدَأَ بِهِ، فَقُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَيْسَ كُنْتَ أَقْسَمْتَ شَهْرًا؟ فَعَدَّتْ الْأَيَّامُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھالی کہ ایک ماہ تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہیں جائیں گے، ٢٩ دن ہوئے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہینہ بعض اوقات ٢٩ کا بھی ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز فجر میں خواتین بھی شریک ہوتی تھیں، پھر اپنی چادروں میں اس طرح لپٹ کر نکلتی تھیں کہ انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پانچ چیزیں " فواسق " میں سے ہیں جنہیں حرم میں قتل کیا جاسکتا ہے، بچھو، چوہا، چیل، باؤلا کتا اور کوا۔
حدثنا عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ان بريرة اتتها تستعينها وكانت مكاتبة، فقالت لها عائشة: ايبيعك اهلك؟ فاتت اهلها، فذكرت ذلك لهم، فقالوا: لا إلا ان تشترط لنا ولاءها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اشتريها فاعتقيها، فإنما الولاء لمن اعتق" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ بَرِيرَةَ أَتَتْهَا تَسْتَعِينُهَا وَكَانَتْ مُكَاتَبَةً، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: أَيَبِيعُكِ أَهْلُكِ؟ فَأَتَتْ أَهْلَهَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُمْ، فَقَالُوا: لَا إِلَّا أَنْ تَشْتَرِطَ لَنَا وَلَاءَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اشْتَرِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بریرہ ان کے پاس آئی، وہ مکاتبہ تھی اور اپنے بدل کتابت کی ادائیگی کے سلسلے میں مدد کی درخواست لے کر آئی تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا کیا تمہارے مالک تمہیں بیچنا چاہتے ہیں؟ وہ اپنے مالک کے پاس آئی اور ان سے اس کا ذکر کیا، وہ کہنے لگے کہ اس وقت تک نہیں جب تک وہ یہ شرط تسلیم نہ کرلیں کہ تمہاری وراثت ہمیں ملے گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تم اسے خرید کر آزاد کردو، کیونکہ ولاء یعنی غلام کی وراثت تو اسی کا حق ہے جو غلام کو آزاد کرے۔
حدثنا عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ان افلح اخا ابي قعيس استاذن على عائشة، فابت ان تاذن له، فلما ان جاء النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: يا رسول الله، إن افلح اخا ابي قعيس استاذن علي، فابيت ان آذن له؟ فقال:" ائذني له"، قالت يا رسول الله، إنما ارضعتني المراة، ولم يرضعني الرجل، قال: " ائذني له، فإنه عمك، تربت يمينك" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَفْلَحَ أَخَا أَبِي قُعَيْسٍ اسْتَأْذَنَ عَلَى عَائِشَةَ، فَأَبَتْ أَنْ تَأْذَنَ لَهُ، فَلَمَّا أَنْ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَفْلَحَ أَخَا أَبِي قُعَيْسٍ اسْتَأْذَنَ عَلَيَّ، فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ؟ فَقَالَ:" ائْذَنِي لَهُ"، قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ، وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، قَالَ: " ائْذَنِي لَهُ، فَإِنَّهُ عَمُّكِ، تَرِبَتْ يَمِينُكِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابوقیس کے بھائی " افلح " نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نامحرم سمجھ کر اجازت دینے سے انکار کردیا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو ان سے ذکر کردیا کہ یا رسول اللہ! ابوقیس کے بھائی افلح نے مجھ سے گھر میں آنے کی اجازت مانگی تھی لیکن میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اجازت دے دیا کرو، انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے تو دودھ نہیں پلایا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں، وہ تمہارے چچا ہیں، انہیں اجازت دے دیا کرو۔
حدثنا عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ان امراة دخلت عليها ومعها ابنتان لها، فاعطيتها تمرة، فشقتها بينهما، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " من ابتلي بشيء من هذه البنات، فاحسن إليهن، كن له سترا من النار" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ امْرَأَةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا وَمَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا، فَأَعْطَيْتُهَا تَمْرَةً، فَشَقَّتْهَا بَيْنَهُمَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَنْ ابْتُلِيَ بِشَيْءٍ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ، فَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ، كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک عورت ان کے پاس آئی، اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں، انہوں نے اس عورت کو ایک کھجور دی، اس نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کرکے ان دونوں بچیوں میں اسے تقسیم کردیا (اور خود کچھ نہ کھایا (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعے کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کی ان بچیوں سے آزمائش کی جائے اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو یہ اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح رواه الزهري أيضا بواسطه عبدالله بن أبى بكر عن عروة وهو أشبه، خ: 1418، م: 2629
حدثنا عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ان نبي الله صلى الله عليه وسلم " كان يترك العمل وهو يحب ان يعمله كراهية ان يستن الناس به، فيفرض عليهم، فكان يحب ما خفف عليهم من الفرائض" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَتْرُكُ الْعَمَلَ وَهُوَ يُحِبُّ أَنْ يَعْمَلَهُ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَسْتَنَّ النَّاسُ بِهِ، فَيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ، فَكَانَ يُحِبُّ مَا خُفِّفَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْفَرَائِضِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی عمل کو محبوب رکھنے کے باوجود صرف اس وجہ سے اسے ترک فرما دیتے تھے کہ کہیں لوگ اس پر عمل نہ کرنے لگیں جس کے نتیجے میں وہ عمل ان پر فرض ہوجائے (اور پھر وہ نہ کرسکیں) اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ لوگوں پر فرائض میں تخفیف ہونا زیادہ بہتر ہے۔
حدثنا عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بعد العشاء إحدى عشرة ركعة، فإذا اصبح صلى ركعتين خفيفتين، ثم اضطجع على شقه الايمن حتى ياتيه المؤذن، فيؤذنه بالصلاة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بَعْدَ الْعِشَاءِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، فَإِذَا أَصْبَحَ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَيُؤْذِنَهُ بِالصَّلَاةِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے بعد گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے اور جب صبح ہوجاتی تو دو مختصر رکعتیں پڑھتے، پھر دائیں پہلو پر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ مؤذن آجاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دیتا۔
حدثنا عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: دخلت امراة رفاعة القرظي وانا وابو بكر عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: إن رفاعة طلقني البتة، وإن عبد الرحمن بن الزبير تزوجني، وإنما عنده مثل هدبتي، واخذت هدبة من جلبابها، وخالد بن سعيد بن العاص بالباب، لم يؤذن له، فقال: يا ابا بكر، الا تنهى هذه عما تجهر به بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم؟! فما زاد رسول الله صلى الله عليه وسلم على التبسم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كانك تريدين ان ترجعي إلى رفاعة، لا، حتى تذوقي عسيلته، ويذوق عسيلتك" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: دَخَلَتْ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ وَأَنَا وَأَبُو بَكْرٍ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَنِي الْبَتَّةَ، وَإِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ تَزَوَّجَنِي، وَإِنَّمَا عِنْدَهُ مِثْلُ هُدْبَتِي، وَأَخَذَتْ هُدْبَةً مِنْ جِلْبَابِهَا، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِالْبَابِ، لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَا تَنْهَى هَذِهِ عَمَّا تَجْهَرُ بِهِ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! فَمَا زَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى التَّبَسُّمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَأَنَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ، لَا، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ، وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رفاعہ قرظی کی بیوی آئی، میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے، اس نے کہا کہ مجھے رفاعہ نے طلاق بتہ دے دی ہے، جس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر نے مجھ سے نکاح کرلیا، پھر اس نے اپنی چادر کا ایک کونا پکڑ کر کہا کہ اس کے پاس تو صرف اس طرح کا ایک کونا ہے، اس وقت گھر کے دروازے پر خالد بن سعید بن عاص موجود تھے، انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں ملی تھی اس لئے انہوں نے باہر سے ہی کہا کہ ابوبکر! آپ اس عورت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح کی باتیں بڑھ چڑھ کر بیان کرنے سے کیوں نہیں روکتے؟ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مسکرانے پر ہی اکتفاء کیا اور پھر فرمایا شاید تم رفاعہ کے پاس واپس جانے کی خواہش رکھتی ہو؟ لیکن یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم اس کا شہد نہ چکھ لو اور وہ تمہارا شہد نہ چکھ لے۔
حدثنا عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: اعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعشاء حتى ناداه عمر بن الخطاب رضي الله عنه قد نام النساء والصبيان، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " إنه ليس احد من اهل الارض يصلي هذه الصلاة غيركم"، ولم يكن احد يصلي يومئذ غير اهل المدينة .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعِشَاءِ حَتَّى نَادَاهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدْ نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ يُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ غَيْرَكُمْ"، وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ يُصَلِّي يَوْمَئِذٍ غَيْرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء میں تاخیر کردی، حتیٰ کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا کہ عورتیں اور بچے سوگئے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے اور فرمایا اہل زمین میں سے اس وقت کوئی بھی آدمی ایسا نہیں جو تمہارے علاوہ یہ نماز پڑھ رہاہو اور اس وقت اہل مدینہ کے علاوہ یہ نماز کوئی نہیں پڑھ رہا۔
حدثنا عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن عبد الله بن عباس ، وعن عائشة ، انهما قالا: لما نزل برسول الله صلى الله عليه وسلم طفق يلقي خميصته على وجهه، فإذا اغتم رفعناها عنه، وهو يقول: " لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور انبيائهم مساجد" ، تقول عائشة: يحذرهم مثل الذي صنعوا.حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، وَعَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهُمَا قَالَا: لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يُلْقِي خَمِيصَتَهُ عَلَى وَجْهِهِ، فَإِذَا اغْتَمَّ رَفَعْنَاهَا عَنْهُ، وَهُوَ يَقُولُ: " لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ" ، تَقُولُ عَائِشَةُ: يُحَذِّرُهُمْ مِثْلَ الَّذِي صَنَعُوا.
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو بار بار اپنے رخ انور پر چادر ڈال لیتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ ہوتی تو ہم وہ چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے ہٹا دیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس عمل سے لوگوں کو تنبیہ فرما رہے تھے تاکہ وہ اس میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح وهو مكرر 1884 سندا ومتنا، خ: 435، م: 531
حدثنا عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن عائشة ، قالت: لما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيت ميمونة، فاستاذن نساءه ان يمرض في بيتي، فاذن له، فخرج رسول صلى الله عليه وسلم معتمدا على العباس وعلى رجل آخر، ورجلاه تخطان في الارض، وقال عبيد الله: فقال ابن عباس: اتدري من ذلك الرجل؟ هو علي بن ابي طالب، ولكن عائشة لا تطيب لها نفسا، قال الزهري: فقال النبي صلى الله عليه وسلم وهو في بيت ميمونة لعبد الله بن زمعة: " مر الناس فليصلوا" فلقي عمر بن الخطاب، فقال: يا عمر، صل بالناس، فصلى بهم، فسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم صوته فعرفه، وكان جهير الصوت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اليس هذا صوت عمر؟"، قالوا: بلى، قال:" يابى الله جل وعز ذلك والمؤمنون، مروا ابا بكر فليصل بالناس"، قالت عائشة: يا رسول الله، إن ابا بكر رجل رقيق لا يملك دمعه، وإنه إذا قرا القرآن بكى، قالت: وما قلت ذلك إلا كراهية ان يتشاءم الناس بابي بكر ان يكون اول من قام مقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" مروا ابا بكر، فليصل بالناس"، فراجعته، فقال:" مروا ابا بكر فليصل بالناس، إنكن صواحب يوسف" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ، فَاسْتَأْذَنَ نِسَاءَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي، فَأَذِنَّ لَهُ، فَخَرَجَ رَسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَمِدًا عَلَى الْعَبَّاسِ وَعَلَى رَجُلٍ آخَرَ، وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ، وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاس: أَتَدْرِي مَنْ ذَلِكَ الرَّجُلُ؟ هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَلَكِنَّ عَائِشَةَ لَا تَطِيبُ لَهَا نَفْسًا، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ: " مُرْ النَّاسَ فَلْيُصَلُّوا" فَلَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: يَا عُمَرُ، صَلِّ بِالنَّاسِ، فَصَلَّى بِهِمْ، فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ فَعَرَفَهُ، وَكَانَ جَهِيرَ الصَّوْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَيْسَ هَذَا صَوْتَ عُمَرَ؟"، قَالُوا: بَلَى، قَالَ:" يَأْبَى اللَّهُ جَلَّ وَعَزَّ ذَلِكَ وَالْمُؤْمِنُونَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ لَا يَمْلِكُ دَمْعَهُ، وَإِنَّهُ إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ بَكَى، قَالَتْ: وَمَا قُلْتِ ذَلِكَ إِلَّا كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَشاءم النَّاسُ بِأَبِي بَكْرٍ أَنْ يَكُونَ أَوَّلَ مَنْ قَامَ مَقَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، فَرَاجَعَتْهُ، فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا آغاز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے بیماری کے ایام میرے گھر میں گذارنے کی اجازت طلب کی تو سب نے اجازت دے دی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے آدمی (بقول راوی وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کا نام ذکر کرنا ضروری نہ سمجھا) کے سہارے پر وہاں سے نکلے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک زمین پر گھستے ہوئے جا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں ہی حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے فرما دیا تھا کہ لوگوں سے کہہ دو، وہ نماز پڑھ لیں، عبداللہ واپس جا رہے تھے کہ راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہہ دیا کہ اے عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، چنانچہ وہ نماز پڑھانے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو فوراً پہچان گئے کیونکہ ان کی آواز بلند تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ عمر کی آواز نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اور مومنین اس سے انکار کرتے ہیں، ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابوبکر رقیق القلب آدمی ہیں، وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکیں گے، کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب بھی قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو رونے لگتے تھے اور میں نے یہ بات صرف اس لئے کہی تھی کہ کہیں لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ نہ کہنا شروع کردیں کہ یہ ہے وہ پہلا آدمی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑا ہوا تھا اور گنہگار بن جائیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، جب میں نے تکرار کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا اور فرمایا تم تو یوسف علیہ السلام پر فریفتہ ہونے والی عورتوں کی طرح ہو (جو دل میں کچھ رکھتی تھیں اور زبان سے کچھ ظاہر کرتی تھیں)
حكم دارالسلام: إسناده صحيح دون قول الزهري: فقال النبى صلى الله عليه وسلم وهو فى بيت ميمونة... فهو ضعيف لانقطاعه، تفرد بوصله محمد بن إسحاق كما فى الرواية السالفة: 18906، ولم يثبت تصريح سماعه من وجه صحيح، خ: 665، م: 418، دون قول الزهري
ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو ان دونوں نے فرمایا بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت وجوب غسل کی کیفیت میں ہوتے اور پھر روزہ بھی رکھ لیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں سے آب حیات کو کھرچ دیا کرتی تھی، اس لئے جب تم اسے دیکھا کرو تو کپڑے کو دھولیا کرو، ورنہ پانی چھڑک دیا کرو۔
حدثنا محمد بن عدي ، عن داود ، وربعي بن إبراهيم ، قال: حدثنا داود ، عن الشعبي ، عن مسروق ، قال: قالت عائشة : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكثر في آخر امره من قول: " سبحان الله وبحمده، استغفر الله واتوب إليه"، قالت: فقلت: يا رسول الله، ما لي اراك تكثر من قول سبحان الله وبحمده، استغفر الله واتوب إليه؟ قال:" إن ربي عز وجل كان اخبرني اني سارى علامة في امتي، وامرني إذا رايتها ان اسبح بحمده، واستغفره إنه كان توابا، فقد رايتها إذا جاء نصر الله والفتح ورايت الناس يدخلون في دين الله افواجا فسبح بحمد ربك واستغفره إنه كان توابا سورة النصر آية 1 - 3" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، وَرِبْعِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ فِي آخِرِ أَمْرِهِ مِنْ قَوْلِ: " سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ"، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لِي أَرَاكَ تُكْثِرُ مِنْ قَوْلِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ؟ قَالَ:" إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ كَانَ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَأَرَى عَلَامَةً فِي أُمَّتِي، وَأَمَرَنِي إِذَا رَأَيْتُهَا أَنْ أُسَبِّحَ بِحَمْدِهِ، وَأَسْتَغْفِرَهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا، فَقَدْ رَأَيْتُهَا إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا سورة النصر آية 1 - 3" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عمر میں کثرت کے ساتھ سبحانَ اللہِ وَ بِحَمدِہِ اَ ستَغفِر اللہ وَ اَ تُو بُ اِ لَیک کہتے تھے، ایک مرتبہ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میں آپ کو یہ کلمات کثرت کے ساتھ کہتے ہوئے سنتی ہوں، اس کی کیا وجہ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرے رب نے بتایا تھا کہ میں اپنی امت کی ایک علامت دیکھوں گا اور مجھے حکم دیا تھا کہ جب میں وہ علامت دیکھ لوں تو اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کروں اور استغفار کروں کہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے اور میں وہ علامت دیکھ چکا ہوں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِذَا جَاءَ نَصر اللہِ وَ الفَتحُ پوری سورت تلاوت فرمائی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب میری برأت کی آیات نازل ہوئیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور یہ واقعہ ذکر کرکے قرآن کریم کی تلاوت فرمائی اور جب نیچے اترے تو دو آدمیوں اور ایک عورت کے متعلق حکم دیا چنانچہ انہیں سزا دی گئی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، محمد بن إسحاق مدلس ولكن صرح بالتحديث عند البيهقي فى «الدلائل»
حدثنا ابن ابي عدي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: حدثني نافع وكانت امراته ام ولد لعبد الله بن عمر، حدثته، ان عبد الله بن عمر ابتاع جارية بطريق مكة، فاعتقها، وامرها ان تحج معه، فابتغى لها نعلين، فلم يجدهما، فقطع لها خفين اسفل من الكعبين، قال: ابن إسحاق فذكرت ذلك لابن شهاب ، فقال: حدثني سالم ، ان عبد الله كان يصنع ذلك، ثم حدثته صفية بنت ابي عبيد ، ان عائشة حدثتها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يرخص للنساء في الخفين" ، فترك ذلك.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ وَكَانَتْ امْرَأَتُهُ أُمَّ وَلَدٍ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، حَدَّثَتْهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ابْتَاعَ جَارِيَةً بِطَرِيقِ مَكَّةَ، فَأَعْتَقَهَا، وَأَمَرَهَا أَنْ تَحُجَّ مَعَهُ، فَابْتَغَى لَهَا نَعْلَيْنِ، فَلَمْ يَجِدْهُمَا، فَقَطَعَ لَهَا خُفَّيْنِ أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، قَالَ: ابْنُ إِسْحَاقَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ شِهَابٍ ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ كَانَ يَصْنَعُ ذَلِكَ، ثُمَّ حَدَّثَتْهُ صَفِيَّةُ بِنْتُ أَبِي عُبَيْدٍ ، أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُرَخِّصُ لِلنِّسَاءِ فِي الْخُفَّيْنِ" ، فَتَرَكَ ذَلِكَ.
نافع " جن کی بیوی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ام ولدہ تھی، ان کی بیوی کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک باندی خریدی اور اسے آزاد کر کے اپنے ساتھ حج پر چلنے کا حکم دیا، اس کے لئے جو تیاں تلاش کی گئیں لیکن وہ نہیں ملیں تو انہوں نے ٹخنوں سے نیچے سے موزوں کو کاٹ کر وہی اسے پہنا دیئے، بعد میں صفیہ بنت ابی عبید نے انہیں بتایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو موزے پہننے کی اجازت دیتے تھے چنانچہ انہوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن من أجل محمد بن إسحاق وامرأة نافع قد توبعت
حدثنا ابن ابي عدي ، عن داود ، عن عامر ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يبعث بالبدن من المدينة إلى مكة، وافتل قلائد البدن بيدي، ثم ياتي ما ياتي الحلال قبل ان تبلغ البدن مكة" .حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْعَثُ بِالْبُدْنِ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ، وَأَفْتِلُ قَلَائِدَ الْبُدْنِ بِيَدَيَّ، ثُمَّ يَأْتِي مَا يَأْتِي الْحَلَالُ قَبْلَ أَنْ تَبْلُغَ الْبُدْنُ مَكَّةَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف قربانی کے جانور بھیج دیتے تھے اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانوروں کا قلادہ اپنے ہاتھ سے بٹا کرتی تھی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان غیر محرم ہو کر مقیم رہتے تھے، جب تک کہ جانور مکہ مکرمہ نہ پہنچ جاتے۔
حدثنا ابن ابي عدي ، عن داود ، عن الشعبي ، عن مسروق ، قال: قالت عائشة : انا اول الناس سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن هذه الآية يوم تبدل الارض غير الارض والسموات وبرزوا لله الواحد القهار سورة إبراهيم آية 48، قالت: فقلت: اين الناس يومئذ يا رسول الله؟ قال:" على الصراط" .حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ سورة إبراهيم آية 48، قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَيْنَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" عَلَى الصِّرَاطِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اس آیت یَومَ تُبدَلُ ا لا رضُ غَیرَ الارضِ۔۔۔۔۔۔۔ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے پہلے پوچھنے والی میں ہی تھی، میں نے عرض کیا تھا یارسول اللہ! (جب زمین بدل دی جائے گی تو) اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پل صراط پر۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن مالك ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" كان يصلي من الليل إحدى عشرة ركعة يوتر منها بواحدة، فإذا فرغ من صلاته، اضطجع على شقه الايمن" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْهَا بِوَاحِدَةٍ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ، اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو عشاء کے بعد گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے اور نماز سے فارغ ہو کر دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔
حدثنا حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة " ان اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذين اهلوا بالعمرة طافوا بالبيت وبالصفا والمروة، ثم طافوا بعد ان رجعوا من منى لحجهم، والذين قرنوا طافوا طوافا واحدا" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِالْعُمْرَةِ طَافُوا بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ طَافُوا بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى لِحَجِّهِمْ، وَالَّذِينَ قَرَنُوا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ رضی اللہ عنہ جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا ہوا تھا، انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی، پھر جب منیٰ سے واپس آئے تو حج کا طواف اور سعی کی اور جن لوگوں نے حج قران کیا تھا انہوں نے صرف ایک ہی مرتبہ طواف و سعی کی۔
حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن سالم ابي النضر ، عن ابي سلمة ، عن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم " كان يصلي من الليل، فإذا فرغ من صلاته، اضطجع، فإن كنت يقظانة تحدث معي، وإن كنت نائمة نام حتى ياتيه المؤذن" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ، اضْطَجَعَ، فَإِنْ كُنْتُ يَقْظَانَةً تَحَدَّثَ مَعِي، وَإِنْ كُنْتُ نَائِمَةً نَامَ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ" .
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز تہجد پڑھ کر جب فارغ ہوتے تو لیٹ جاتے تھے، اگر میں جاگ رہی ہوتی تو میرے ساتھ باتیں کرتے اور اگر میں سو رہی ہوتی تو خود بھی سوجاتے یہاں تک کہ مؤذن آجاتا۔
حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا مالك ، عن سعيد بن ابي سعيد ، عن ابي سلمة ، قال: سالت عائشة عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ فقالت: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي اربعا فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي اربعا فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، قالت: قلت: يا رسول الله، تنام قبل ان توتر؟ قال:" يا عائشة، إنه، او إني، تنام عيناي ولا ينام قلبي" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ قَالَ:" يَا عَائِشَةُ، إِنَّهُ، أَوْ إِنِّي، تَنَامُ عَيْنَايَ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي" .
ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ماہ رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں پڑھتے جن کی عمدگی اور طوالت کا تم کچھ نہ پوچھو، اس کے بعد دوبارہ چار رکعتیں پڑھتے تھے، ان کی عمدگی اور طوالت کا بھی کچھ نہ پوچھو، پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے، ایک مرتبہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! میری آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت اختیاری طور پر وجوب غسل کی کیفیت میں ہوتے اور پھر روزہ بھی رکھ لیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کسی کام کی منت مانی ہو، اسے اللہ کی اطاعت کرنی چاہیے اور جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی منت مانی ہو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔
حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن ابي الاسود ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: " خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمنا من اهل بالحج، ومنا من اهل بالعمرة، ومنا من اهل بالحج والعمرة، واهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج، فاما من اهل بالعمرة، فاحلوا حين طافوا بالبيت وبالصفا والمروة، واما من اهل بالحج او بالحج والعمرة فلم يحلوا إلى يوم النحر" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، وَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ، فَأَحَلُّوا حِينَ طَافُوا بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ أَوْ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَلَمْ يُحِلُّوا إِلَى يَوْمِ النَّحْرِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے ہم میں سے کچھ لوگوں نے حج کا احرام باندھا تھا اور کچھ لوگوں نے عمرے کا اور بعض لوگوں نے حج اور عمرے دونوں کا احرام باندھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کا احرام باندھا تھا، پھر جن لوگوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا، انہوں نے تو بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کر کے احرام کھول لیا اور جن لوگوں نے حج کا یا حج اور عمرے کا احرام باندھا ہوا تھا وہ دس ذی الحجہ سے پہلے حلال نہیں ہوئے۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عمرة ، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " دخلت الجنة، فسمعت فيها قراءة، قلت من هذا؟ قالوا: حارثة بن النعمان، كذاكم البر، كذاكم البر" ، وقال مرة عن عائشة إن شاء الله.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، فَسَمِعْتُ فِيهَا قِرَاءَةً، قُلْتُ مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: حَارِثَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، كَذَاكُمْ الْبِرُّ، كَذَاكُمْ الْبِرُّ" ، وَقَالَ مَرَّةً عَنْ عَائِشَةَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنائی دی، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں، تمہارے نیک لوگ اسی طرح کے ہوتے ہیں، نیک لوگ اسی طرح ہوتے ہیں۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد استترت بقرام فيه تماثيل، فلما رآه، تلون وجهه، وقال مرة: تغير وجهه، وهتكه بيده، وقال: " اشد الناس عذابا عند الله عز وجل يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله جل وعز، او يشبهون" ، قال سفيان سواء.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ دَخَلَ عَلَيّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ اسْتَتَرْتُ بِقِرَامٍ فِيهِ تَمَاثِيلُ، فَلَمَّا رَآهُ، تَلَوَّنَ وَجْهُهُ، وَقَالَ مَرَّةً: تَغَيَّرَ وَجْهُهُ، وَهَتَكَهُ بِيَدِهِ، وَقَالَ: " أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ جَلَّ وَعَزَّ، أَوْ يُشَبِّهُونَ" ، قَالَ سُفْيَانُ سَوَاءٌ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے گھر کے دروازے پر ایک پردہ لٹکا لیا جس پر کچھ تصویریں بھی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو اسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور اپنے ہاتھ سے اس پردے کے ٹکڑے کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی طرح تخلیق کرنے میں مشابہت اختیار کرتے ہیں۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة " كنت افتل قلائد هدي رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدي، ثم لا يجتنب شيئا مما يجتنب المحرم" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ " كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ، ثُمَّ لَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے جانوروں کا قلادہ اپنے ہاتھ سے بٹا کرتی تھی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں سے اجتناب نہیں فرماتے تھے جن سے محرم اجتناب کرتے ہیں۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة جاء عمي بعد ما ضرب الحجاب، فابيت ان آذن له، فسالته فقال: " ائذني له، فإنه عمك"، قلت: إنما ارضعتني المراة، ولم يرضعني الرجل، قال" تربت يمينك، ائذني له، فإنما هو عمك" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ جَاءَ عَمِّي بَعْدَ مَا ضُرِبَ الْحِجَابُ، فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: " ائْذَنِي لَهُ، فَإِنَّهُ عَمُّكِ"، قُلْتُ: إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ، وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، قَالَ" تَرِبَتْ يَمِينُكِ، ائْذَنِي لَهُ، فَإِنَّمَا هُوَ عَمُّكِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میرے چچا نے میرے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نامحرم سمجھ کر اجازت دینے سے انکار کردیا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو ان سے ذکر کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اجازت دے دیا کرو، وہ تمہارے چچا ہیں، انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے تو دودھ نہیں پلایا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں، وہ تمہارے چچا ہیں، انہیں اجازت دے دیا کرو۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة اختصم عبد بن زمعة، وسعد بن ابي وقاص، عند النبي صلى الله عليه وسلم في ابن امة زمعة، قال عبد: يا رسول الله، اخي ابن امة ابي، ولد على فراشه، وقال سعد: اوصاني اخي إذا قدمت مكة، فانظر ابن امة زمعة، فاقبضه فإنه ابني، فراى النبي صلى الله عليه وسلم شبها بينا بعتبة، قال: " هو لك يا عبد، الولد للفراش، واحتجبي منه يا سودة" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ اخْتَصَمَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ، قَالَ عَبْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخِي ابْنُ أَمَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، وَقَالَ سَعْدٌ: أَوْصَانِي أَخِي إِذَا قَدِمْتَ مَكَّةَ، فَانْظُرْ ابْنَ أَمَةِ زَمْعَةَ، فَاقْبِضْهُ فَإِنَّهُ ابْنِي، فَرَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ، قَالَ: " هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ زمعہ کی باندی کے بیٹے کے سلسلے میں عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنا جھگڑا لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبد ابن زمعہ رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ یارسول اللہ! یہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ یہ کہہ رہے تھے کہ میرے بھائی نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب تم مکہ مکرمہ پہنچو تو زمعہ کی باندی کے بیٹے کو اپنے قبضے میں لے لینا کیونکہ وہ میرا بیٹا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو دیکھا تو اس میں عتبہ کے ساتھ واضح شباہت نظر آئی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبد! یہ بچہ تمہارا ہے، بدکار کے لئے پتھر ہیں اور اے سودہ! تم اس سے پردہ کرنا۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى في خميصة لها اعلام، فلما قضى صلاته، قال: " شغلني اعلامها، اذهبوا بها إلى ابي جهم، واتوني بانبجانية" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلَامٌ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ: " شَغَلَنِي أَعْلَامُهَا، اذْهَبُوا بِهَا إِلَى أَبِي جَهْمٍ، وَأْتُونِي بأنبجانية" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی جس پر نقش و نگار بنے ہوئے تھے، نماز سے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس کے نقش و نگار نے اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا، اس لئے یہ چادر ابوجہم کے پاس لے جاؤ اور میرے پاس ایک سادہ چادر لے آؤ۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي صلاته من الليل وانا معترضة بينه وبين القبلة، كاعتراض الجنازة" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاتَهُ مِنَ اللَّيْلِ وَأَنَا مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، كَاعْتِرَاضِ الْجِنَازَةِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو میں ان کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھی۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة " كنت اغتسل انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد، وكان يغتسل من القدح، وهو الفرق" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ " كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، وَكَانَ يَغْتَسِلُ مِنَ الْقَدَحِ، وَهُوَ الْفَرَقُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن کے پانی سے " جو ایک فرق کے برابر ہوتا تھا " غسل جنابت کرلیا کرتے تھے۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة استاذن رهط من اليهود على النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: السام عليك، فقالت عائشة: بل السام عليكم واللعنة، قال:" يا عائشة، إن الله عز وجل يحب الرفق في الامر كله"، قالت: الم تسمع ما قالوا؟ قال:" فقد قلت وعليكم" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ اسْتَأْذَنَ رَهْطٌ مِنْ الْيَهُودِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: بَلْ السَّامُ عَلَيْكُمْ وَاللَّعْنَةُ، قَالَ:" يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ"، قَالَتْ: أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ:" فَقَدْ قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ یہودیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں آنے کی اجازت چاہی اور السامُ عَلیکَ کہا، (جس کا مطلب یہ ہے کہ تم پر موت طاری ہو) یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ تم پر ہی موت اور لعنت طاری ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ رضی اللہ عنہا! اللہ تعالیٰ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے، انہوں نے عرض کیا کہ کیا آپ نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے انہیں جواب دیدیا ہے، وَ عَلیکمُ (تم پر ہی موت طاری ہو)۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله عز وجل يحب الرفق في الامر كله" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔
حدثنا سفيان ، حدثنا الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث إلا على زوج" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو عورت اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، شوہر کے علاوہ کسی اور میت پر اس کیلئے تین دن سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: " اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج، واهل ناس بالحج والعمرة، واهل ناس بالعمرة" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، وَأَهَلَّ نَاسٌ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، وَأَهَلَّ نَاسٌ بِالْعُمْرَةِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، ہم میں سے کچھ لوگوں نے حج کا احرام باندھا تھا اور کچھ لوگوں نے عمرے کا اور بعض لوگوں نے حج اور عمرے دونوں کا احرام باندھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کا احرام باندھا تھا۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم " كان يصلي العصر والشمس طالعة في حجرتي، لم يظهر الفيء بعد" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ طَالِعَةٌ فِي حُجْرَتِي، لَمْ يَظْهَرْ الْفَيْءُ بَعْدُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جبکہ سورج کی روشنی میرے حجرے میں چمک رہی ہوتی تھی اور اس وقت تک سایہ نمایاں نہیں ہوتا تھا۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة " ان نساء من المؤمنات كن يصلين مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح متلفعات بمروطهن، ثم يرجعن إلى اهلهن، وما يعرفهن احد من الغلس" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ نِسَاءً مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ كُنَّ يُصَلِّينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَرْجِعْنَ إِلَى أَهْلِهِنَّ، وَمَا يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْغَلَسِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز فجر میں خواتین بھی شریک ہوتی تھیں، پھر اپنی چادروں میں اس طرح لپٹ کر نکلتی تھیں کہ اندھیرے کی وجہ سے انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة سمع النبي صلى الله عليه وسلم قراءة ابي موسى، فقال: " لقد اوتي هذا من مزامير آل داود" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةَ أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: " لَقَدْ أُوتِيَ هَذَا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی قراءت سنی تو فرمایا انہیں آل داؤد کی خوش الحانی کا ایک حصہ دیا گیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على الزهري، فالرواة عن الزهري جعلوا بعضهم من مسند عائشة وبعضهم من مسند أبى هريرة
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة جاءت امراة رفاعة القرظي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: إني كنت عند رفاعة، فطلقني، فبت طلاقي، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير، وإنما معه مثل هدبة الثوب، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: " تريدين ان ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك" ، وابو بكر عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، وخالد بن سعيد بن العاص على الباب ينتظر ان يؤذن له، فسمع كلامها، فقال: يا ابا بكر، الا تسمع هذه ما تجهر به عند رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ وقال مرة: ما ترى هذه ترفث عند رسول الله صلى الله عليه وسلم؟!.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنِّي كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ، فَطَلَّقَنِي، فَبَتَّ طَلَاقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَإِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: " تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لَا، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ" ، وَأَبُو بَكْرٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ عَلَى الْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَسَمِعَ كَلَامَهَا، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَا تَسْمَعُ هَذِهِ مَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ وَقَالَ مَرَّةً: مَا تَرَى هَذِهِ تَرْفُثُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟!.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رفاعہ قرظی کی بیوی آئی، میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے، اس نے کہا کہ مجھے رفاعہ نے طلاق بتہ دے دی ہے، جس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر نے مجھ سے نکاح کرلیا، پھر اس نے اپنی چادر کا ایک کونا پکڑ کر کہا کہ اس کے پاس تو صرف اس طرح کا ایک کونا ہے، اس وقت گھر کے دروازے پر خالد بن سعید بن عاص موجود تھے، انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں ملی تھی اس لئے انہوں نے باہر سے ہی کہا کہ ابوبکر! آپ اس عورت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح کی باتیں بڑھ چڑھ کر بیان کرنے سے کیوں نہیں روکتے؟ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مسکرانے پر ہی اکتفاء کیا اور پھر فرمایا شاید تم رفاعہ کے پاس واپس جانے کی خواہش رکھتی ہو؟ لیکن یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم اس کا شہد نہ چکھ لو اور وہ تمہارا شہد نہ چکھ لے۔
حدثنا حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة " دخل مجزز المدلجي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فراى اسامة وزيدا وعليهما قطيفة وقد غطيا رءوسهما، وبدت اقدامهما، فقال: إن هذه الاقدام بعضها من بعض"، وقال مرة:" دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم مسرورا" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ " دَخَلَ مُجَزِّزٌ الْمُدْلِجِيُّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَى أُسَامَةَ وَزَيْدًا وَعَلَيْهِمَا قَطِيفَةٌ وَقَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا، وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ"، وَقَالَ مَرَّةً:" دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسْرُورًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مجزز مدلجی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے دیکھا کہ حضرت زید اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ ایک چادر اوڑھے ہوئے ہیں، ان کے سر ڈھکے ہوئے ہیں اور پاؤں کھلے ہوئے ہیں تو اس نے کہا کہ ان پاؤں والوں کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی رشتہ ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش و خرم میرے یہاں تشریف لائے۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة رضي الله عنها حاضت صفية بعدما افاضت، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " احابستنا هي؟"، قلت: حاضت بعد ما افاضت، قال:" فلتنفر إذا"، او قال:" فلا إذا" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حَاضَتْ صَفِيَّةُ بَعْدَمَا أَفَاضَتْ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " أَحَابِسَتُنَا هِيَ؟"، قُلْتُ: حَاضَتْ بَعْدَ مَا أَفَاضَتْ، قَالَ:" فَلْتَنْفِرْ إِذًا"، أَوْ قَالَ:" فَلَا إِذًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ طوافِ زیارت کے بعد حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کو ایام آنا شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ ہمیں روک دے گی؟ میں نے عرض کیا انہیں طوافِ زیارت کے بعد " ایام " آنے لگے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو اسے کوچ کرنا چاہیے یا یہ فرمایا کہ پھر نہیں۔
حدثنا سفيان ، حدثنا هشام والزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: جاءني افلح بن ابي القعيس يستاذن علي بعدما ضرب الحجاب، والذي ارضعت عائشة من لبنه هو اخوه، فجاء يستاذن علي، فابيت ان آذن له، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ائذني له، فإنما هو عمك"، قلت: إنما ارضعتني المراة، ولم يرضعني الرجل، قال:" تربت يمينك، هو عمك" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ وَالزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: جَاءَنِي أَفْلَحُ بْنُ أَبِي الْقُعَيْسِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ بَعْدَمَا ضُرِبَ الْحِجَابُ، وَالَّذِي أُرْضِعَتْ عَائِشَةُ مِنْ لَبَنِهِ هُوَ أَخُوهُ، فَجَاءَ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ، فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " ائْذَنِي لَهُ، فَإِنَّمَا هُوَ عَمُّكِ"، قُلْتُ: إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ، وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، قَالَ:" تَرِبَتْ يَمِينُكِ، هُوَ عَمُّكِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابوقیس کے بھائی " افلح " نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نامحرم سمجھ کر اجازت دینے سے انکار کردیا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو ان سے ذکر کردیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اجازت دے دیا کرو، انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے تو دودھ نہیں پلایا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں، وہ تمہارے چچا ہیں، انہیں اجازت دے دیا کرو۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عبيد الله ، عن عائشة ، قال سفيان سمعت منه حديثا طويلا ليس احفظه من اوله إلا قليلا دخلنا على عائشة، فقلنا: يا ام المؤمنين، اخبرينا عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: " اشتكى، فجعل ينفث، فجعلنا نشبه نفثه نفث آكل الزبيب، وكان يدور على نسائه، فلما اشتكى شكواه، استاذنهن ان يكون في بيت عائشة ويدرن عليه، فاذن له، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم بين رجلين متكئا عليهما احدهما عباس، ورجلاه تخطان في الارض . قال ابن عباس افما اخبرتك من الآخر؟ قال: لا، قال: هو علي".حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَ سُفْيَانُ سَمِعْتُ مِنْهُ حَدِيثًا طَوِيلًا لَيْسَ أَحْفَظُهُ مِنْ أَوَّلِهِ إِلَّا قَلِيلًا دَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْنَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَخْبِرِينَا عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " اشْتَكَى، فَجَعَلَ يَنْفُثُ، فَجَعَلْنَا نُشَبِّهُ نَفْثَهُ نَفْثَ آكِلِ الزَّبِيبِ، وَكَانَ يَدُورُ عَلَى نِسَائِه، فَلَمَّا اشْتَكَى شَكْوَاهُ، اسْتَأْذَنَهُنَّ أَنَّ يَكُونَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ وَيَدُرْنَ عَلَيْهِ، فَأَذِنَّ لَهُ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ مُتَّكِئًا عَلَيْهِمَا أَحَدُهُمَا عَبَّاسٌ، وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَفَمَا أَخْبَرَتْكَ مَنْ الْآخَرُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: هُوَ عَلِي".
عبیداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا کہ اے ام المومنین! ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کے متعلق بتایئے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سانس آنے لگا، ہم نے اسے اس شخص کے سانس سے تشبیہ دی جو کشمش کھاتا ہے اور نبی کا معمول ازواجِ مطہرات کے پاس جانے کا تھا، جب بیماری بڑھنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے بیماری کے ایام میرے گھر میں گذارنے کی اجازت طلب کی تو سب نے اجازت دے دی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے آدمی کے سہارے پر وہاں سے نکلے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک زمین پر گھستے ہوئے جا رہے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عبیداللہ سے پوچھا کہ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو دوسرے آدمی کے متعلق نہیں بتایا کہ وہ کون تھا؟ انہوں نے کہا نہیں تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پو چھا کہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کون سی خوشبو لگائی ہے؟ انہوں نے فرمایا سب سے بہترین اور عمدہ خوشبو۔
حدثنا سفيان ، اخبرنا ابن المنكدر ، قال: اخبرني عروة بن الزبير ، ان عائشة اخبرته، ان رجلا استاذن على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ائذنوا له، فبئس ابن العشيرة، او بئس اخو العشيرة"، وقال مرة:" رجل"، فلما دخل عليه، الان له القول، فلما خرج، قالت عائشة: قلت له الذي قلت، ثم النت له القول! فقال:" اي عائشة، شر الناس منزلة عند الله يوم القيامة من ودعه الناس، او تركه الناس اتقاء فحشه" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُنْكَدِرِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَجُلًا اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" ائْذَنُوا لَهُ، فَبِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ، أَوْ بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ"، وَقَالَ مَرَّةً:" رَجُلٌ"، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، أَلَانَ لَهُ الْقَوْلَ، فَلَمَّا خَرَجَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتَ لَهُ الَّذِي قُلْتَ، ثُمَّ أَلَنْتَ لَهُ الْقَوْلَ! فَقَالَ:" أَيْ عَائِشَةُ، شَرُّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ وَدَعَهُ النَّاسُ، أَوْ تَرَكَهُ النَّاسُ اتِّقَاءَ فُحْشِهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اندر آنے کی اجازت چاہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اندر آنے کی اجازت دیدو، یہ اپنے قبیلے کا بہت برا آدمی ہے، جب وہ اندر آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی، جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ پہلے تو آپ نے اس کے متعلق اس طرح فرمایا: پھر اس سے نرمی کے ساتھ گفتگو بھی فرمائی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بد ترین آدمی وہ ہوگا جسے لوگوں نے اس کی فحش گوئی سے بچنے کیلئے چھوڑ دیا ہوگا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ (میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور گو یا وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ میں حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
عن سفيان ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن القاسم ، عن عائشة جاءت سهلة بنت سهيل، فقالت: يا رسول، إني ارى في وجه ابي حذيفة شيئا من دخول سالم علي؟ فقال: " ارضعيه"، فقالت: كيف ارضعه وهو رجل كبير؟ فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" الست اعلم انه رجل كبير؟"، ثم جاءت، فقالت ما رايت في وجه ابي حذيفة شيئا اكرهه .عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ، إِنِّي أَرَى فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ شَيْئًا مِنْ دُخُولِ سَالِمٍ عَلَيَّ؟ فَقَالَ: " أَرْضِعِيهِ"، فَقَالَتْ: كَيْفَ أُرْضِعُهُ وَهُوَ رَجُلٌ كَبِيرٌ؟ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَلَسْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ رَجُلٌ كَبِيرٌ؟"، ثُمَّ جَاءَتْ، فَقَالَتْ مَا رَأَيْتُ فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ شَيْئًا أَكْرَهُهُ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یارسول اللہ! میں اپنے یہاں سالم کے آنے جانے سے (اپنے شوہر) حذیفہ کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھتی ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے دودھ پلا دو، انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو بڑی عمر کا آدمی ہے، میں اسے کیسے دودھ پلا سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر ہنس پڑے اور فرمایا کیا مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ بڑی عمر کا آدمی ہے؟ تھوڑے عرصے بعد وہ دوبارہ آئیں اور عرض کیا کہ اب مجھے حذیفہ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
حدثنا سفيان ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، عن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لها وحاضت بسرف قبل ان تدخل مكة، قال لها: " اقضي ما يقضي الحاج غير ان لا تطوفي بالبيت"، قالت: فلما كنا بمنى اتيت بلحم بقر، قلت: ما هذا؟ قالوا: ضحى النبي صلى الله عليه وسلم عن ازواجه بالبقر .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا وَحَاضَتْ بِسَرِفٍ قَبْلَ أَنْ تَدْخُلَ مَكَّةَ، قَالَ لَهَا: " اقْضِي مَا يَقْضِي الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ"، قَالَتْ: فَلَمَّا كُنَّا بِمِنًى أُتِيتُ بِلَحْمِ بَقَرٍ، قُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: ضَحَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ بِالْبَقَرِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی مقام سرف میں انہیں " ایام " شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تم وہی کام کرتی رہو جو حاجی کریں، وہ کہتی ہیں کہ جب ہم منیٰ میں تھے تو میرے پاس کہیں سے گائے کا گوشت آیا، میں نے پوچھا کہ یہ کیسا گوشت ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔
سفیان کہتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن بن قاسم سے پوچھا کیا آپ نے اپنے والد کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں انہیں بوسہ دیدیا کرتے تھے؟ کچھ دیر تک تو وہ خاموش رہے، پھر کہنے لگے ہاں! بیان کی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے اپنے ان دونوں ہاتھوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام پر خوشبو لگائی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھتے تھے اور طوافِ زیارت سے قبل حلال ہونے کے بعد بھی خوشبو لگائی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے تو ہماری نیت صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے کی تھی۔
حدثنا سفيان ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، عن عائشة ، انها قالت: حاضت صفية، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " احابستنا هي؟"، قلت: إنها قد افاضت قبل ذلك، قال:" فلا" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: حَاضَتْ صَفِيَّةُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " أَحَابِسَتُنَا هِيَ؟"، قُلْتُ: إِنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ قَبْلَ ذَلِكَ، قَالَ:" فَلَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ طوافِ زیارت کے بعد حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کو ایام آنا شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ ہمیں روک دے گی؟ میں نے عرض کیا انہیں طوافِ زیارت کے بعد " ایام " آنے لگے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر نہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بھی کم درجے کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے بدلے اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
حدثنا سفيان ، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن ابيه ، سمع ابن عمر حين مات رافع بن خديج ان بكاء الحي على الميت عذاب للميت، فاتيت عمرة فذكرت ذلك لها، فقالت: قالت عائشة : إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليهودية: " إنكم لتبكون عليها، وإنها لتعذب"، وقرات ولا تزر وازرة وزر اخرى سورة الانعام آية 164 .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ حِينَ مَاتَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ أَنَّ بُكَاءَ الْحَيِّ عَلَى الْمَيِّتِ عَذَابٌ لِلْمَيِّتِ، فَأَتَيْتُ عَمْرَةَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَت: قالت عائشة : إِنَّما قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَهُودِيَّةٍ: " إِنَّكُمْ لَتَبْكُونَ عَلَيْهَا، وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ"، وَقَرَأَتْ وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164 .
ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میت پر اہل محلہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، میں عمرہ رحمہ اللہ کے پاس آیا اور ان سے اس کا ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودیہ عورت کے متعلق فرمائی تھی کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے عذاب ہو رہا ہے، پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ آیت تلاوت فرمائی " کوئی بوجھ اٹھا نے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا "۔
حدثنا سفيان ، عن ابن ابي لبيد ، عن ابي سلمة ، قلت لعائشة : اي امه، اخبريني عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: " كانت صلاته في رمضان وغيره سواء ثلاث عشرة ركعة منها ركعتا الفجر"، قلت: فاخبريني عن صيامه؟ قالت:" كان يصوم حتى نقول قد صام، ويفطر حتى نقول قد افطر، وما رايته صام شهرا اكثر من صيامه في شعبان، كان يصومه إلا قليلا" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَبِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قُلْتُ لِعَائِشَةَ : أَيْ أُمَّهْ، أَخْبِرِينِي عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: " كَانَتْ صَلَاتُهُ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ سَوَاءً ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً منهَا رَكْعَتَا الْفَجْرِ"، قُلْتُ: فَأَخْبِرِينِي عَنْ صِيَامِهِ؟ قَالَتْ:" كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ صَامَ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ أَفْطَرَ، وَمَا رَأَيْتُهُ صَامَ شَهْرًا أَكْثَرَ مِنْ صِيَامِهِ فِي شَعْبَانَ، كَانَ يَصُومُهُ إِلَّا قَلِيلًا" .
ابو سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پو چھا اماں جان! مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے حوالے سے کچھ بتایئے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی (تہجد کی) نماز رمضان اور غیر رمضان سب میں یکساں تھی، یعنی تیرہ رکعتیں جن میں فجر کی دو سنتیں بھی شامل ہوتی تھیں، میں نے عرض کیا کہ اب مجھے ان کے نفلی روزوں کے متعلق بتایئے، انہوں نے فرمایا کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے روزے رکھتے تھے کہ ہم کہتے تھے اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے ہی رہیں گے اور بعض اواقت اتنے ناغے کرتے کہ ہم کہتے تھے اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناغے ہی کرتے رہیں گے اور میں نے جس کثرت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان میں روزے رکھتے ہوئے دیکھا ہے، کسی اور مہینے میں نہیں دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے صرف چند دن کو چھوڑ کر تقریباً پورا مہینہ ہی روزہ رکھتے تھے۔
حدثنا سفيان ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ان هندا قالت: يا رسول الله، إن ابا سفيان رجل شحيح، وليس لي إلا ما يدخل بيتي؟ قال: " خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ هِنْدًَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ، وَلَيْسَ لِي إِلَّا مَا يَدْخُلُ بَيْتِي؟ قَالَ: " خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہند نے آکر بار گاہ رسالت میں عرض کیا یارسول اللہ! ابوسفیان ایک ایسے آدمی ہیں جن میں کفایت شعاری کا مادہ کچھ زیادہ ہی ہے اور میرے پاس صرف وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ گھر میں لاتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان کے مال میں سے اتنا لے لیا کرو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہوجائے لیکن یہ ہو بھلے طریقے سے۔
حدثنا سفيان ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: سابقني النبي صلى الله عليه وسلم فسبقته، فلبثنا حتى إذا رهقني اللحم سابقني فسبقني، فقال:" هذه بتيك" ..حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: سَابَقَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَبَقْتُهُ، فَلَبِثْنَا حَتَّى إِذَا رَهِقَنِي اللَّحْمُ سَابَقَنِي فَسَبَقَنِي، فَقَالَ:" هَذِهِ بِتِيكِ" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا، اس مقابلے میں میں آگے نکل گئی، کچھ عرصے بعد جب میرے جسم پر گوشت چڑھ گیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ دوڑ کا مقابلہ کیا، اس مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور فرمایا یہ اس مرتبہ کے مقابلے کا بدلہ ہے۔
حدثنا سفيان ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، تبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا وضع العشاء، واقيمت الصلاة، فابدءوا بالعشاء" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، تَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا وُضِعَ الْعَشَاءُ، وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ" .
حضرت عائشہ صدیقہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کھانا پیش کردیا جائے اور نماز بھی کھڑی ہوجائے تو پہلے کھانا کھالیا کرو۔
حدثنا سفيان ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " دخل مكة من اعلى مكة، وخرج من اسفلها" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " دَخَل مَكَّةَ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ، وَخَرَجَ مِنْ أَسْفَلِهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں بالائی حصے سے داخل ہوئے تھے اور نشیبی حصے سے باہر نکلے تھے۔
حدثنا سفيان ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " كفن في ثلاثة اثواب سحولية بيض" ، وقال ابو بكر: في اي شيء كفن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلت:" في ثلاثة اثواب"، قال:" كفنوني في ثوبي هذين، واشتروا ثوبا آخر".حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كُفِّنَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ سُحُولِيَّةٍ بِيضٍ" ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي أَيِّ شَيْءٍ كُفِّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ:" فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ"، قَالَ:" كَفِّنُونِي فِي ثَوْبَيَّ هَذَيْنِ، وَاشْتَرُوا ثَوْبًا آخَرَ".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید سحولی کپڑوں میں دفن کیا گیا تھا، حضرت صدیق اکبر صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے مرض الوفات میں) مجھ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں میں دفن دیا گیا تھا؟ میں نے بتایا تین کپڑوں میں، انہوں نے فرمایا مجھے بھی ان دو کپڑوں میں کفن دینا اور تیسرا کپڑا خرید لینا۔
ابو سلمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں وضو کیا تو انہوں نے فرمایا عبدالرحمن! اچھی طرح اور مکمل وضو کرو، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایڑیوں کیلئے جہنم کی آگ سے ہلاکت ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد حسن من أجل ابن عجلان
حدثنا سفيان ، عن ابن عجلان ، عن سعيد ، عن ابي سلمة ، عن عائشة ، قالت: كانت لنا حصيرة نبسطها بالنهار ونتحجرها بالليل، خفي علي شيء لم افهمه من سفيان، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال المسلمون يصلون بصلاته، فقال: " اكلفوا من العمل ما تطيقون، فإن الله عز وجل لا يمل حتى تملوا"، وكان إذا صلى صلاة اثبتها، وكان احب العمل إليه ادومه .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَتْ لَنَا حَصِيرَةٌ نَبْسُطُهَا بِالنَّهَارِ وَنَتَحَجَّرُهَا بِاللَّيْلِ، خَفِيَ عَلَيَّ شَيْءٌ لَمْ أَفْهَمْهُ مِنْ سُفْيَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُسْلِمُونَ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، فَقَالَ: " اكْلَفُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا"، وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَثْبَتَهَا، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ أَدْوَمَهُ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمارے پاس ایک چٹائی تھی جسے دن کو ہم لوگ بچھا لیا کرتے تھے اور رات کے وقت اسی کو اوڑھ لیتے تھے (اس سے آگے ایک جملہ مجھ پر مخفی رہ گیا جو میں سفیان سے اچھی طرح سن نہ سکا) مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں شریک ہوجاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا اپنے آپ کو اتنے اعمال کا مکلف بناؤ جتنے کی تم طاقت رکھتے ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو نہیں اکتاتا مگر تم اکتا جاؤ گے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم معمول تھا کہ جب کسی وقت نماز شروع کرتے تو اس پر ثابت قدم رہتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ وہ تا تھا جو دائمی ہوتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد حسن، ابن عجلان توبع
حدثنا سفيان ، حدثنا يحيى ، عن ابن اخي عمرة يعني هذا محمد بن عبد الرحمن، عن عمرة ، عن عائشة ، قالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يخف الركعتين حتى اقول قرا بفاتحة الكتاب ام لا؟" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ أَخِي عَمْرَةَ يَعْنِي هَذَا مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخِفُّ الرَّكْعَتَيْنِ حَتَّى أَقُولَ قَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ أَمْ لَا؟" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (فجر کی سنتیں) اتنی مختصر پڑھتے تھے کہ میں کہتی " نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت فاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں۔ "
حدثنا حدثنا سفيان ، حدثنا يحيى ، عن ابن اخي عمرة ولا ادري هذا او غيره، عن عمرة ، قالت:" اشتكت عائشة ، فطال شكواها، فقدم إنسان المدينة يتطبب، فذهب بنو اخيها يسالونه عن وجعها، فقال: والله إنكم تنعتون نعت امراة مطبوبة، قال: هذه امراة مسحورة سحرتها جارية لها، قالت: نعم، اردت ان تموتي فاعتق، قال: وكانت مدبرة، قالت: بيعوها في اشد العرب ملكة، واجعلوا ثمنها في مثلها" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ أَخِي عَمْرَةَ وَلَا أَدْرِي هَذَا أَوْ غَيْرَهُ، عَنْ عَمْرَةَ ، قَالَتْ:" اشْتَكَتْ عَائِشَةُ ، فَطَالَ شَكْوَاهَا، فَقَدِمَ إِنْسَانٌ الْمَدِينَةَ يَتَطَبَّبُ، فَذَهَبَ بَنُو أَخِيهَا يَسْأَلُونَهُ عَنْ وَجَعِهَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنَّكُمْ تَنْعَتُونَ نَعْتَ امْرَأَةٍ مَطْبُوبَةٍ، قَالَ: هَذِهِ امْرَأَةٌ مَسْحُورَةٌ سَحَرَتْهَا جَارِيَةٌ لَهَا، قَالَتْ: نَعَمْ، أَرَدْتُ أَنْ تَمُوتِي فَأُعْتَقَ، قَالَ: وَكَانَتْ مُدَبَّرَةً، قَالَتْ: بِيعُوهَا فِي أَشَدِّ الْعَرَبِ مَلَكَةً، وَاجْعَلُوا ثَمَنَهَا فِي مِثْلِهَا" .
عمرہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوگئیں اور ان کی بیماری کا دورانیہ بہت زیادہ لمبا ہوگیا، اسی دوران مدینہ منورہ میں ایک طبیب آیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے اس کے پاس گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیماری کے متعلق اس سے پوچھا، اس نے کہا کہ تم جس عورت کی یہ کیفیت بتا رہے ہو، اس عورت پر تو جادو کیا گیا ہے اور اس پر اس کی باندی نے جادو کروایا ہے، تحقیق پر اس باندی نے اقرار کرلیا کہ ہاں! میں نے آپ پر سحر کر وایا ہے، میں چاہتی تھی کہ آپ فوت ہوں تو میں آزاد ہو سکوں، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس باندی سے کہہ رکھا تھا کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہوگی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حقیقت سامنے آنے پر فرمایا اس باندی کو عرب میں سب سے طاقتور لوگوں کے ہاتھ بیچ دو اور اس کی قیمت اس جیسی ایک باندی پر خرچ کردو۔
حدثنا سفيان ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن عبد الله بن يزيد رضيع عائشة، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم " ما من ميت يصلي عليه امة من الناس يبلغون ان يكونوا مئة فيشفعون فيه إلا شفعوا فيه" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ رَضِيعِ عَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَا مِنْ مَيِّتٍ يُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ النَّاسِ يَبْلُغُونَ أَنْ يَكُونُوا مِئَةً فَيَشْفَعُونَ فِيهِ إِلَّا شُفِّعُوا فِيهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جس مسلمان میت پر سو کے قریب مسلمانوں کی ایک جماعت نماز جنازہ پڑھ لے اور اس کے حق میں سفارش کردے، اس کے حق میں ان لوگوں کی سفارش قبول کرلی جاتی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہرن کے گو شت کی بوٹیاں پیش کی گئیں، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں تھے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کردیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح إن ثبت سماع الحسن بن محمد من عائشة وعبدالكريم - هو ابن أبى المخارق إن كان ضعيفا- تابعه سفيان الثوري كما فى الرواية: 25882
حدثنا سفيان ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن علقمة خرج علقمة واصحابه حجاجا، فذكر بعضهم الصائم يقبل ويباشر، فقام رجل منهم قد قام سنتين وصامهما هممت ان آخذ قوسي، فاضربك بها، قال: فكفوا حتى تاتوا عائشة، فدخلوا على عائشة، فسالوها عن ذلك؟ فقالت عائشة :" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل ويباشر، وكان املككم لإربه"، قالوا: يا ابا شبل، سلها؟ قال: لا ارفث عندها اليوم، فسالوها، فقالت:" كان يقبل ويباشر وهو صائم" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ خَرَجَ عَلْقَمَةُ وَأَصْحَابُهُ حُجَّاجًا، فَذَكَرَ بَعْضُهُمْ الصَّائِمَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَدْ قَامَ سَنَتَيْنِ وَصَامَهُمَا هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ قَوْسِي، فَأَضْرِبَكَ بِهَا، قَالَ: فَكُفُّوا حَتَّى تَأْتُوا عَائِشَةَ، فَدَخَلُوا عَلَى عَائِشَةَ، فَسَأَلُوهَا عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَتْ عَائِشَةُ :" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ"، قَالُوا: يَا أَبَا شِبْلٍ، سَلْهَا؟ قَالَ: لَا أَرْفُثُ عِنْدَهَا الْيَوْمَ، فَسَأَلُوهَا، فَقَالَتْ:" كَانَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ" .
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ اور ان کے کچھ ساتھی حج کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ ان میں سے کسی نے یہ کہ دیا کہ روزہ دار آدمی اپنی بیوی کو بوسہ دے سکتا ہے اور اس کے جسم سے اپنا جسم لگا سکتا ہے۔ تو ان میں سے ایک آدمی جس نے دو سال تک شب بیداری کی تھی اور دن کو روزہ رکھا تھا، کہنے لگا میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی کمان اٹھا کر تجھے دے ماروں، اس نے کہا کہ تھوڑا سا انتظار کرلو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ کر ان سے یہ مسئلہ پوچھ لینا، چنانچہ جب وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا باجودیکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش پر تم سے زیادہ قابو رکھتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بوسہ دیدیا کرتے تھے اور اپنی ازواج کے جسم سے اپنا جسم لگا لیتے تھے، لوگوں نے کہا اے ابوشبل! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کی مزید وضاحت پوچھو، انہوں نے کہا کہ آج میں ان کے یہاں بےتکلف کھلی گفتگو نہیں کرسکتا، چنانچہ لوگوں نے خود ہی پوچھ لیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی ازواج کو بوسہ دیدیا کرتے تھے اور ان کے جسم سے اپنا جسم ملا لیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب ماہ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رَت جگا فرماتے اپنے اہل خانہ کو جگاتے اور کمر بند کس لیتے تھے۔
حدثنا سفيان ، حدثنا طلحة بن يحيى ، عن عائشة بنت طلحة ، عن عائشة ، قالت: قلت: يا رسول الله، إن صبيا للانصار لم يبلغ السن عصفور من عصافير الجنة؟ قال: " او غير ذلك يا عائشة، خلق الله الجنة، وخلق لها اهلا، وخلق النار، وخلق لها اهلا، وهم في اصلاب آبائهم" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ صَبِيًّا لِلْأَنْصَارِ لَمْ يَبْلُغْ السِّنَّ عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: " أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ يَا عَائِشَةُ، خَلَقَ اللَّهُ الْجَنَّةَ، وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا، وَخَلَقَ النَّارَ، وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا، وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ (ایک انصاری بچہ فوت ہوگیا تو) میں عرض کیا یا رسول اللہ! انصار کا یہ نابالغ بچہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! کیا اس کے علاوہ بھی تمہیں کوئی اور بات کہنا ہے، اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا تو اس میں رہنے والوں کو بھی پیدا فرمایا اور جہنم کو پیدا کیا تو اس میں رہنے والوں کو بھی پیدا فرمایا اور یہ اسی وقت ہوگیا تھا جب وہ اپنے آباؤ اجداد کی پشتوں میں تھے۔
حدثنا سفيان ، عن جامع بن ابي راشد ، عن منذر ، عن حسن بن محمد ، عن امراته ، عن عائشة ، تبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا ظهر السوء في الارض انزل الله باهل الارض باسه"، قالت: وفيهم اهل طاعة الله عز وجل؟ قال:" نعم، ثم يصيرون إلى رحمة الله تعالى" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ ، عَنْ مُنْذِرٍ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنِ امْرَأَتِهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، تَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا ظَهَرَ السُّوءُ فِي الْأَرْضِ أَنْزَلَ اللَّهُ بِأَهْلِ الْأَرْضِ بَأْسَهُ"، قَالَتْ: وَفِيهِمْ أَهْلُ طَاعَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ:" نَعَمْ، ثُمَّ يَصِيرُونَ إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ تَعَالَى" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب زمین میں گناہوں کا غلبہ ہوجائے تو اللہ اہل زمین پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا اللہ کی اطاعت کرنے والے لوگوں کے ان میں ہونے کے باوجود؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! پھر وہ اہل اطاعت اللہ کی رحمت کی طرف منتقل ہوجائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام المرأة التى روى عنها الحسن ابن محمد ولاضطرابه
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ (میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس موجود سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی اور) گویا وہ منظراب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ میں حالت احرام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن من أجل عطاء بن السائب وقد روي سفيان عنه قبل الاختلاط وسلف بإسناد صحيح دون قوله: ثلاث برقم: 24107
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انسان سب سے پاکیزہ چیز کو کھاتا ہے، وہ اس کی اپنی کمائی ہوتی ہے اور انسان کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے، لہٰذا تم اپنی اولاد کی کمائی کھا سکتے ہو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن لغيره وسلف الكلام على الإسناد فى الرواية: 24032
حدثنا سفيان ، حدثنا عمرو ، عن عطاء ، عن عائشة ، قالت " ما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى احل له النساء" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت " مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أُحِلَّ لَهُ النِّسَاءُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے اس وقت تک رخصت نہیں ہوئے جب تک کہ عورتیں ان کیلئے حلال نہ کردی گئیں۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف، وهو، وإن كان رجاله ثقات، قد اختلف فيه على عطاء
حدثنا سفيان ، عن ايوب بن موسى ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي بسارق، فامر به فقطع، فقالوا: يا رسول الله، ما كنا نرى ان يبلغ منه هذا؟ قال: " لو كانت فاطمة، لقطعتها" ، ثم قال سفيان: لا ادري كيف هو؟.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِسَارِقٍ، فَأَمَرَ بِهِ فَقُطِعَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كُنَّا نَرَى أَنْ يَبْلُغَ مِنْهُ هَذَا؟ قَالَ: " لَوْ كَانَتْ فَاطِمَةُ، لَقَطَعْتُهَا" ، ثُمَّ قَالَ سُفْيَانُ: لَا أَدْرِي كَيْفَ هُوَ؟.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک چور کو لایا گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم دیا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، کچھ لوگوں نے کہا یارسول اللہ! ہم نہیں سمجھتے تھے کہ بات یہاں تک جا پہنچے گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس کی جگہ ہوتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اپنے شوہر کے گھر کے علاوہ کسی اور جگہ پر اپنے کپڑے اتارتی ہے وہ اپنے اور اپنے رب کے درمیان حائل پردے کو چاک کردیتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن وهذا إسناد فيه انقطاع، سالم ابن أبى الجعد لم يسمع من عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کسی کام کی منت مانی ہو، اسے اللہ کی اطاعت کرنی چاہیے اور جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی منت مانی ہو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔
حدثنا ابن إدريس ، قال: سمعت هشاما ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: قال: لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اريتك في المنام مرتين، ورجل يحملك في سرقة من حرير، فيقول: هذه امراتك، فاقول: إن يك هذا من عند الله عز وجل يمضه" .حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامًا ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ: لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُرِيتُكِ فِي الْمَنَامِ مَرَّتَيْنِ، وَرَجُلٌ يَحْمِلُكِ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ، فَيَقُولُ: هَذِهِ امْرَأَتُكَ، فَأَقُولُ: إِنْ يَكُ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يُمْضِهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم مجھے خواب میں دو مرتبہ دکھائی گئی تھیں اور وہ اس طرح کہ ایک آدمی نے ریشم کے ایک کپڑے میں تمہاری تصویر اٹھا رکھی تھی اور وہ کہہ رہا تھا کہ یہ آپ کی بیوی ہے، میں نے سوچا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو اللہ ایسا کرکے رہے گا۔
حدثنا عبدة بن سليمان ، قال: حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: " إن نزول الابطح ليس بسنة، إنما نزله رسول الله صلى الله عليه وسلم لانه كان اسمح لخروجه" .حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " إِنَّ نُزُولَ الْأَبْطَحِ لَيْسَ بِسُنَّةٍ، إِنَّمَا نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَنَّهُ كَانَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مقام " ابطح " میں پڑاؤ کرنا سنت نہیں ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں صرف اس لئے پڑاؤ کیا تھا کہ اس طرف سے نکلنا زیادہ آسان تھا۔
حدثنا عبدة ، حدثنا مسعر ، عن المقدام بن شريح ، عن ابيه ، عن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا راى المطر، قال: " اللهم صيبا نافعا" . قال: وسالت عائشة باي شيء كان يبدا النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل بيته؟ قالت:" بالسواك" .حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْمَطَرَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا" . قَالَ: وَسَأَلْتُ عَائِشَةَ بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يَبْدَأُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ؟ قَالَتْ:" بِالسِّوَاكِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بارش ہوتے ہوئے دیکھتے تو فرماتے اے اللہ! موسلادھار ہو اور نفع بخش . شریح کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا مسواک۔
حدثنا علي بن هاشم ، حدثنا الاعمش ، عن حبيب ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: اتت فاطمة بنت ابي حبيش النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: إني استحضت، فقال: " دعي الصلاة ايام حيضك، ثم اغتسلي، وتوضئي عند كل صلاة، وإن قطر على الحصير" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: أَتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنِّي اسْتَحَضْتُ، فَقَالَ: " دَعِي الصَّلَاةَ أَيَّامَ حَيْضِكِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، وَتَوَضَّئِي عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ، وَإِنْ قَطَرَ عَلَى الْحَصِيرِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میرا دم حیض ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایام حیض تک تو نماز چھوڑ دیا کرو، اس کے بعد غسل کرکے ہر نماز کے وقت وضو کرلیا کرو اور نماز پڑھا کرو خواہ چٹائی پر خون کے قطرے ٹپکنے لگیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انسان سب سے پاکیزہ چیز کو کھاتا ہے، وہ اس کی اپنی کمائی ہوتی ہے اور انسان کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن لغيره، وهذا إسناد اختلف فيه على إبراهيم
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عائشة ، قالت: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابي: ولم يرفعه يعلى، عن رجل طلق امراته، فتزوجت زوجا غيره، فدخل بها، ثم طلقها قبل ان يواقعها اتحل لزوجها الاول؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تحل للاول حتى يذوق الآخر عسيلتها وتذوق عسيلته" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبِي: وَلَمْ يَرْفَعْهُ يَعْلَى، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ، فَدَخَل بِهَا، ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يُوَاقِعَهَا أَتَحِلُّ لِزَوْجِهَا الْأَوَّلِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَحِلُّ لِلْأَوَّلِ حَتَّى يَذُوقَ الْآخَرُ عُسَيْلَتَهَا وَتَذُوقَ عُسَيْلَتَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ سوال پیش کیا گیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اس نے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلیا، اس شخص نے اس کے ساتھ خلوت تو کی لیکن مباشرت سے قبل ہی اسے طلاق دے دی تو کیا وہ اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ پہلے شخص کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک دوسرا شوہر اس کا شہد اور وہ اس کا شہد نہ چکھ لے۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عائشة ، قالت: كان زوج بريرة حرا، فلما اعتقت، وقال مرة: عتقت، خيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاختارت نفسها، قالت: واراد اهلها ان يبيعوها، ويشترطوا الولاء، قالت: فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: " اشتريها فاعتقيها، فالولاء لمن اعتق" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ حُرًّا، فَلَمَّا أُعْتِقَتْ، وَقَالَ مَرَّةً: عُتِقَتْ، خَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، قَالَتْ: وَأَرَادَ أَهْلُهَا أَنْ يَبِيعُوهَا، وَيَشْتَرِطُوا الْوَلَاءَ، قَالَتْ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " اشْتَرِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، فَالْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بریرہ کا خاوند آزاد آدمی تھا، جب بریرہ آزاد ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خیار عتق دے دیا، اس نے اپنے آپ کو اختیار کرلیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مزید کہتی ہیں کہ اس کے مالک اسے بیچنا چاہتے تھے لیکن ولاء کی شرط نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تم اسے خرید کر آزاد کردو، کیونکہ ولاء یعنی غلام کی وراثت تو اسی کا حق ہے جو غلام کو آزاد کرے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جس وقت نکاح کیا تو ان کی عمر نوے سال تھی اور جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عائشة بلغها ان ناسا يقولون: إن الصلاة يقطعها الكلب والحمار والمراة، قالت: الا اراهم قد عدلونا بالكلاب والحمر!! ربما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي بالليل وانا على السرير بينه وبين القبلة، فتكون لي الحاجة، فانسل من قبل رجل السرير كراهية ان استقبله بوجهي" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ بَلَغَهَا أَنَّ نَاسًا يَقُولُونَ: إِنَّ الصَّلَاةَ يَقْطَعُهَا الْكَلْبُ وَالْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ، قَالَتْ: أَلَا أَرَاهُمْ قَدْ عَدَلُونَا بِالْكِلَابِ وَالْحُمُرِ!! رُبَّمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي بِاللَّيْلِ وَأَنَا عَلَى السَّرِيرِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَتَكُونُ لِي الْحَاجَةُ، فَأَنْسَلُّ مِنْ قِبَلِ رِجْلِ السَّرِيرِ كَرَاهِيَةَ أَنْ أَسْتَقْبِلَهُ بِوَجْهِي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک مرتبہ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کتا، گدھا اور عورت کے آگے سے گذرنے کی وجہ سے نمازی کی نماز ٹوٹ جاتی ہے تو انہوں نے فرمایا میرا خیال تو یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کردیا ہے، حالانکہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو میں ان کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھی، مجھے کوئی کام ہوتا تو چارپائی کی پائنتی کی جانب سے کھسک جاتی تھی، کیونکہ میں سامنے سے جانا اچھا نہ سمجھتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ با جو دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش پر تم سے زیادہ قابو رکھتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بھی بوسہ دیدیا کرتے تھے اور اپنی ازواج کے جسم سے اپنا جسم لگا لیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری کو بھی ہدی کے جانور کے طور پر بیت اللہ کی طرف روانہ کیا تھا اور اس کے گلے میں قلادہ باندھ دیا تھا۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عائشة ، قالت: قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يصيب المؤمن شوكة فما فوقها، إلا رفعه الله عز وجل بها درجة، وحط عنه بها خطيئة" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا، إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْه بِهَا خَطِيئَةً" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بھی کم درجے کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے بدلے ایک درجہ بلند اور ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔
حدثنا حسين ، حدثنا شيبان ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عائشة ، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما من مؤمن يشاك بشوكة فما فوقها، إلا كتب له بها درجة، وكفر عنه بها خطيئة" .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يُشَاكُ بِشَوْكَةٍ فَمَا فَوْقَهَا، إِلَّا كُتِبَ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ، وَكُفِّرَ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بھی کم درجے کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے بدلے ایک درجہ بلند اور ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔
حدثنا حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن همام ، قال: نزل بعائشة ضيف، فامرت له بملحفة لها صفراء، فنام فيها فاحتلم، فاستحى ان يرسل بها وفيها اثر الاحتلام، قال: فغمسها في الماء، ثم ارسل بها، فقالت عائشة " لم افسد علينا ثوبنا؟ إنما كان يكفيه ان يفركه باصابعه، لربما فركته من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم باصابعي" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هَمَّامٍ ، قَالَ: نَزَلَ بِعَائِشَةَ ضَيْفٌ، فَأَمَرَتْ لَهُ بِمِلْحَفَةٍ لَهَا صَفْرَاءَ، فَنَامَ فِيهَا فَاحْتَلَمَ، فَاسْتَحَى أَنْ يُرْسِلَ بِهَا وَفِيهَا أَثَرُ الِاحْتِلَامِ، قَالَ: فَغَمَسَهَا فِي الْمَاءِ، ثُمَّ أَرْسَلَ بِهَا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ " لِمَ أَفْسَدَ عَلَيْنَا ثَوْبَنَا؟ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَفْرُكَهُ بِأَصَابِعِهِ، لَرُبَّمَا فَرَكْتُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصَابِعِي" .
ہمام کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں ایک مہمان قیام پذیر ہوا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنا زرد رنگ کا لحاف اسے دینے کا حکم دیا، وہ اسے اوڑھ کر سوگیا، خواب میں اس پر غسل واجب ہوگیا، اسے اس بات سے شرم آئی کہ اس لحاف کو گندگی کے نشان کے ساتھ ہی واپس بھیجے اس لئے اس نے اسے پانی سے دھو دیا اور پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس بھیج دیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اس نے ہمارا لحاف کیوں خراب کیا؟ اس کیلئے تو اتنا ہی کافی تھا کہ اسے انگلیوں سے کھرچ دیتا، کئی مرتبہ میں نے بھی اپنی انگلیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں سے اسے کھرچا ہے۔
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ابن عون ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن ام المؤمنين ، وعن القاسم بن محمد ، يحدثان ذاك، عن ام المؤمنين، لا احفظ حديث هذا من حديث هذا، قال: قالت عائشة يا رسول الله، يصدر الناس بنسكين واصدر بنسك واحد؟ قال: " انتظري، فإذا طهرت، فاخرجي إلى التنعيم، فاهلي منه، ثم القينا" ، وقال مرة:" ثم وافينا بجبل كذا وكذا"، قال: اظنه قال:" كذا، ولكنها على قدر نصبك او قدر نفقتك"، او كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ، وَعَنِ الْقَاسِمِ بن محمد ، يحدثان ذاك، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، لَا أَحْفَظُ حَدِيثَ هَذَا مِنْ حَدِيثِ هَذَا، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَصْدُرُ النَّاسُ بِنُسُكَيْنِ وَأَصْدُرُ بِنُسُكٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: " انْتَظِرِي، فَإِذَا طَهُرْتِ، فَاخْرُجِي إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَهِلِّي مِنْهُ، ثُمَّ الْقَيْنَا" ، وَقَالَ مَرَّةً:" ثُمَّ وَافِينَا بِجَبَلِ كَذَا وَكَذَا"، قَالَ: أَظُنُّهُ قَالَ:" كَذَا، وَلَكِنَّهَا عَلَى قَدْرِ نَصَبِكِ أَوْ قَدْرِ نَفَقَتِكِ"، أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے حجۃ الوداع کے موقع پر بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! لوگ دو عبادتیں (حج اور عمرہ) کر کے جا رہے ہیں اور میں ایک ہی عبادت (حج) کر کے جا رہی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم انتظار کرلو، جب پاک ہوجاؤ تو تنعیم جا کر وہاں سے عمرے کا احرام باندھ لینا، پھر عمرہ کر کے فلاں فلاں پہاڑ پر ہم سے آملنا، لیکن یہ تمہارے حصے یا خرچ کے مطابق ہوگا، یا جیسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن ابي الزبير ، عن عبيد بن عمير ، قال: بلغ عائشة ان عبد الله بن عمرو يامر النساء إذا اغتسلن ان ينقضن رءوسهن، فقالت: يا عجبا لابن عمرو، وهو يامر النساء إذا اغتسلن ان ينقضن رءوسهن، افلا يامرهن ان يحلقن؟! " لقد كنت انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم نغتسل من إناء واحد، فما ازيد على ان افرغ على راسي ثلاث إفراغات" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ: بَلَغَ عَائِشَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يَأْمُرُ النِّسَاءَ إِذَا اغْتَسَلْنَ أَنْ يَنْقُضْنَ رُءُوسَهُنَّ، فَقَالَتْ: يَا عَجَبًا لِابْنِ عَمْرٍو، وَهُوَ يَأْمُرُ النِّسَاءَ إِذَا اغْتَسَلْنَ أَنْ يَنْقُضْنَ رُءُوسَهُنَّ، أَفَلَا يَأْمُرُهُنَّ أَنْ يَحْلِقْنَ؟! " لَقَدْ كُنْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَغْتَسِلُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، فَمَا أَزِيدُ عَلَى أَنْ أُفْرِغَ عَلَى رَأْسِي ثَلَاثَ إِفْرَاغَاتٍ" .
عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات معلوم ہوئی کہ حضرت عبدللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ عورتوں کو حکم دیتے ہیں کہ جب وہ غسل کریں تو سر کے بال کھول لیا کریں، انہوں نے فرمایا عبداللہ بن عمرو پر تعجب ہے کہ وہ عورتوں کو غسل کرتے وقت سر کے بال کھولنے کا حکم دیتے ہیں، وہ انہیں سر منڈوا دینے کا حکم کیوں نہیں دیتے؟ میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن کے پانی سے غسل کرتے تھے، میں اپنے سر پر تین مرتبہ سے زیادہ پانی نہیں ڈالتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غسل واجب ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پانی کو ہاتھ لگائے بغیر سو جاتے تھے، پھر جب سونے کے بعد بیدار ہوتے تب غسل فرماتے۔
حدثنا جرير ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: سالت عائشة كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: " وايكم يستطيع ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يستطيع؟ كان عمله ديمة" .حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: " وَأَيُّكُمْ يَسْتَطِيعُ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَطِيعُ؟ كَانَ عَمَلُهُ دِيمَةً" .
علقمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نفلی نمازوں کے متعلق پوچھا انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو طاقت تھی۔ وہ تم میں سے کس میں ہوسکتی ہے؟ البتہ یہ یاد رکھو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل دائمی ہوتا تھا۔
حدثنا جرير ، عن منصور ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكثر ان يقول في ركوعه وسجوده: " سبحانك اللهم ربنا وبحمدك، اللهم اغفر لي"، يتاول القرآن .حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ: " سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي"، يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع و سجود میں بکثر ت، سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي کہتے تھے اور قرآن کریم پر عمل فرماتے تھے۔
حدثنا جرير ، عن قابوس ، عن ابيه ، قال: ارسل ابي امراة إلى عائشة يسالها اي الصلاة كانت احب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يواظب عليها؟ قالت: " كان يصلي قبل الظهر اربعا يطيل فيهن القيام، ويحسن فيهن الركوع والسجود، فاما ما لم يكن يدع صحيحا، ولا مريضا، ولا غائبا، ولا شاهدا، فركعتين قبل الفجر" .حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَرْسَلَ أَبِي امْرَأَةً إِلَى عَائِشَةَ يَسْأَلُهَا أَيُّ الصَّلَاةِ كَانَتْ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوَاظِبَ عَلَيْهَا؟ قَالَتْ: " كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا يُطِيلُ فِيهِنَّ الْقِيَامَ، وَيُحْسِنُ فِيهِنَّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، فَأَمَّا مَا لَمْ يَكُنْ يَدَعُ صَحِيحًا، وَلَا مَرِيضًا، وَلَا غَائِبًا، وَلَا شَاهِدًا، فَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْر" .
قابوس اپنے والد کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ میرے والد نے ایک عورت کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ پوچھنے کیلئے بھیجا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نماز کی پابندی کرنا زیادہ محبوب تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے اور ان میں طویل قیام فرماتے تھے اور خوب اچھی طرح رکوع و سجود کرتے تھے اور وہ نماز جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں چھوڑتے تھے خواہ تندرست ہوں یا بیمار، غائب ہوں یا حاضر تو وہ فجر سے پہلے کی دو رکعتیں ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة المرأة التى أرسلها والد قابوس - وقابوس فيه لين
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی نعش کو بسہ دیا اور میں نے دیکھا کہ آنسو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بہہ رہے ہیں۔
حدثنا يحيى ، عن ابي حزرة ، قال: حدثني عبد الله بن محمد ، قال: سمعت عائشة ، تقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا يصلى بحضرة الطعام، ولا وهو يدافعه الاخبثان" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ أَبِي حَزْرَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يُصَلَّى بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ، وَلَا وَهُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی شخص کھانا سامنے آجانے پر بول و براز کے تقاضے کو دبا کر نماز نہ پڑھے۔
حدثنا يحيى ، حدثنا ابن جريج ، حدثني عطاء ، عن عبيد بن عمير ، عن عائشة ، قالت: " لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم على شيء من النوافل اشد معاهدة من الركعتين قبل الصبح" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مُعَاهَدَةً مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوافل کے معاملے میں فجر سے پہلے کی دو رکعتوں سے زیادہ کسی نفلی نماز کی اتنی پابندی نہیں فرماتے تھے۔
حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، قال: سمعت القاسم ، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن ام مكتوم" ، قالت: فلا اعلمه إلا كان قدر ما ينزل هذا ويرقى هذا.حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ" ، قَالَتْ: فَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا كَانَ قَدْرَ مَا يَنْزِلُ هَذَا وَيَرْقَى هَذَا.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال اس وقت اذان دیتے ہیں جب رات باقی ہوتی ہے اس لئے اس کے بعد تم کھاپی سکتے ہو، یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دے دیں، وہ کہتی ہیں کہ میرے علم کے مطابق وہ اتنی ہی مقدار بنتی تھی کہ جس میں کوئی اتر آئے اور کوئی چڑھ جائے۔
حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، قال: سمعت القاسم يحدث، عن عائشة ، قالت: بئسما عدلتمونا بالكلب والحمار، قد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم " يصلي وانا معترضة بين يديه، فإذا اراد ان يسجد، غمز، يعني رجلي، فضممتها إلي، ثم يسجد" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: بِئْسَمَا عَدَلْتُمُونَا بِالْكَلْبِ وَالْحِمَارِ، قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي وَأَنَا مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ، غَمَزَ، يَعْنِي رِجْلِي، فَضَمَمْتُهَا إِلَيَّ، ثُمَّ يَسْجُدُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ یہ بہت بری بات ہے کہ تم نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کردیا، حالانکہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو میں ان کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جانا چاہتے تو میرے پاؤں میں چٹکی کاٹ دیتے، میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی اور وہ سجدہ کرلیتے۔
حدثنا ابو معاوية ، وابن نمير ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا انفقت"، وقال ابن نمير:" إذا اطعمت المراة من بيت زوجها"، وقال ابو معاوية: " إذا انفقت المراة من بيت زوجها غير مفسدة، كان لها اجرها، وله مثل ذلك بما كسب، ولها بما انفقت، وللخازن مثل ذلك"، قال ابو معاوية:" من غير ان ينقص من اجورهم شيء" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَنْفَقَتْ"، وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ:" إِذَا أَطْعَمَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا"، وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيةَ: " إِذَا أَنْفَقَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ، كَانَ لَهَا أَجْرُهَا، وَلَهُ مِثْلُ ذَلِكَ بِمَا كَسَبَ، وَلَهَا بِمَا أَنْفَقَتْ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ"، قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ:" مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے کوئی چیز خرچ کرتی ہے اور فساد کی نیت نہیں رکھتی تو اس عورت کو بھی اس کا ثواب ملے گا اور اس کے شوہر کو بھی اس کی کمائی کا ثواب ملے گا، عورت کو خرچ کرنے کا ثواب ملے گا اور خزانچی کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن زكريا ، قال: حدثني عامر ، قال: حدثني شريح بن هانئ ، قال: حدثتني عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من احب لقاء الله عز وجل، احب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله، كره الله لقاءه، والموت قبل لقاء الله" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ زَكَرِيَّا ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُرَيْحُ بْنُ هَانِئٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ، كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَالْمَوْتُ قَبْلَ لِقَاءِ اللَّهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اور جو اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ سے ملاقات ہونے سے پہلے موت ہوتی ہے۔
حدثنا يحيى ، عن جابر بن صبح ، قال: سمعت خلاسا ، قال: سمعت عائشة ، قالت: " كنت ابيت انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم في الشعار الواحد، وانا طامث حائض، قالت: فإن اصابه مني شيء غسله لم يعد مكانه، وصلى فيه" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ جَابِرِ بْنِ صُبْحٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ خِلَاسًا ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَبِيتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشِّعَارِ الْوَاحِدِ، وَأَنَا طَامِثٌ حَائِضٌ، قَالَتْ: فَإِنْ أَصَابَهُ مِنِّي شَيْءٌ غَسَلَهُ لَمْ يَعْدُ مَكَانَهُ، وَصَلَّى فِيهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی چادر میں لیٹ جایا کرتے تھے باوجودیکہ میں ایام سے ہوتی تھی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر مجھ سے کچھ لگ جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف اسی جگہ کو دھولیتے تھے، اس سے زیادہ نہیں اور پھر اسی میں نماز پڑھ لیتے تھے۔
حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، قال: سمعت القاسم يحدث، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " كان يقبل، او يقبلني وهو صائم، وايكم كان املك لإربه من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يُقَبِّلُ، أَوْ يُقَبِّلُنِي وَهُوَ صَائِمٌ، وَأَيُّكُمْ كَانَ أَمْلَكَ لِإِرْبِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ باجودیکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش پر تم سے زیادہ قابو رکھتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھے یا اپنی ازواج کو بوسہ دیدیا کرتے تھے۔
حدثنا يحيى ، حدثنا سفيان ، حدثنا سليمان ، عن مسلم ، عن مسروق ، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعوذ بعض اهله، يمسحه بيمينه، فيقول: " اذهب الباس رب الناس، واشف إنك انت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما" ، قال: فذكرته لمنصور ، فحدثني عن إبراهيم ، عن مسروق ، عن عائشة ، نحوه.حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَوِّذُ بَعْضَ أَهْلِهِ، يَمْسَحُهُ بِيَمِينِهِ، فَيَقُولُ: " أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ إِنَّكَ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا" ، قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لِمَنْصُورٍ ، فَحَدَّثَنِي عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، نَحْوَهُ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ میں سے کسی پر دم فرماتے تو اس پر داہنا ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے " اے لوگوں کے رب! اس کی تکلیف کو دور فرما۔ اسے شفاء عطا فرما کیونکہ تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے علاوہ کہیں سے شفاء نہیں مل سکتی، ایسی شفاء دے دے کہ جو بیماری کا نام و نشان بھی نہ چھوڑے۔
حدثنا عبد الرزاق ، قال: اخبرنا سفيان ، عن الاعمش ، عن شقيق ، عن مسروق ، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا انفقت المراة من طعام زوجها"، فذكر معناه، وقال" لا ينقص واحد منهما صاحبه شيئا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا أَنْفَقَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ زَوْجِهَا"، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، وَقَالَ" لَا يَنْقُصُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ شَيْئًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکے میں کوئی دینار، کوئی درہم، کوئی بکری اور اونٹ چھوڑا اور نہ ہی کسی چیز کی وصیت فرمائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے کوئی چیز خرچ کرتی ہے۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: دخلت عليها يهودية استوهبتها طيبا، فوهبت لها عائشة، فقالت: اجارك الله من عذاب القبر، قالت: فوقع في نفسي من ذلك حتى جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: فذكرت ذلك له، قلت: يا رسول الله، إن للقبر عذابا؟! قال: " نعم، إنهم ليعذبون في قبورهم عذابا تسمعه البهائم" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: دَخَلَتْ عَلَيْهَا يَهُودِيَّةٌ اسْتَوْهَبَتْهَا طِيبًا، فَوَهَبَتْ لَهَا عَائِشَةُ، فَقَالَتْ: أَجَارَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَتْ: فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِلْقَبْرِ عَذَابًا؟! قَالَ: " نَعَمْ، إِنَّهُمْ لَيُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہمارے یہاں ایک یہودیہ آئی، اس نے مجھ سے خوشبو مانگی، میں نے اسے دے دی، وہ کہنے لگی اللہ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے، وہ کہتی ہیں کہ میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو میں نے ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا قبر میں بھی عذاب ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! لوگوں کو قبروں میں عذاب ہوتا ہے جنہیں درندے اور چوپائے سنتے ہیں۔
حدثنا ابو معاوية ، وابن نمير المعنى، قالا: حدثنا الاعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: دخل على النبي صلى الله عليه وسلم رجلان، فاغلظ لهما، وسبهما، قالت: فقلت: يا رسول الله، لمن اصاب منك خيرا ما اصاب هذان منك خيرا؟ قالت: فقال: " اوما علمت ما عاهدت عليه ربي عز وجل؟"، قال:" قلت: اللهم ايما مؤمن سببته، او جلدته، او لعنته، فاجعلها له مغفرة وعافية، وكذا وكذا" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ، فَأَغْلَظَ لَهُمَا، وَسَبَّهُمَا، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمَنْ أَصَابَ مِنْكَ خَيْرًا مَا أَصَابَ هَذَانِ مِنْكَ خَيْرًا؟ قَالَتْ: فَقَالَ: " أَوَمَا عَلِمْتِ مَا عَاهَدْتُ عَلَيْهِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ؟"، قَالَ:" قُلْتُ: اللَّهُمَّ أَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ، أَوْ جَلَدْتُهُ، أَوْ لَعَنْتُهُ، فَاجْعَلْهَا لَهُ مَغْفِرَةً وَعَافِيَةً، وَكَذَا وَكَذَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ترشی کے ساتھ انہیں سخت سست کہا، میں نے عرض کیا یارسول اللہ! جس کو بھی آپ کی جانب سے خیر پہنچی ہو، لیکن ان دونوں کو خیر نہیں پہنچی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں نے اپنے رب سے عہد کیا ہے کہ کہ اگر میں کسی مومن کو لعنت ملامت کروں تو تو ان کلمات کو اس کے لئے مغفرت اور عافیت وغیرہ کا ذریعہ بنا دے۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم في امر، فتنزه عنه ناس من الناس، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فغضب حتى بان الغضب في وجهه، ثم قال: " ما بال قوم يرغبون عما رخص لي فيه، فوالله لانا اعلمهم بالله عز وجل، واشدهم له خشية" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَمْرٍ، فَتَنَزَّهَ عَنْهُ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَضِبَ حَتَّى بَانَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: " مَا بَالُ قَوْمٍ يَرْغَبُونَ عَمَّا رُخِّصَ لِي فِيهِ، فَوَاللَّهِ لَأَنَا أَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کسی کام میں رخصت عطا فرمائی تو کچھ لوگ اس رخصت کو قبول کرنے سے کنارہ کش رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا غصہ آیا کہ چہرہ مبارک پر غصے کے آثار نمایاں ہوگئے، پھر فرمایا لوگوں کا کیا مسئلہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے اعراض کرتے ہیں جن میں مجھے رخصت دی گئی ہے، واللہ میں ان سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا اور ان سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے پاس رہنے یا دنیا لینے کا اختیار دیا، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرلیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم پر کوئی طلاق شمار نہیں کیا۔
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا الاعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ح وابن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعوذ بهذه الكلمات: " اذهب الباس رب الناس، اشف وانت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما"، قالت: فلما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه، اخذت بيده، فجعلت امسحه بها واقولها، قالت: فنزع يده مني، ثم قال:" رب اغفر لي، والحقني بالرفيق" ، قال ابو معاوية قالت: فكان هذا آخر ما سمعت من كلامه، قال ابن جعفر: إن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا عاد مريضا، مسحه بيده، وقال:" اذهب".حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ح وَابْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ بِهَذِهِ الْكَلِمَاتِ: " أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا"، قَالَتْ: فَلَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، أَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَجَعَلْتُ أَمْسَحُهُ بِهَا وَأَقُولُهَا، قَالَتْ: فَنَزَعَ يَدَهُ مِنِّي، ثُمَّ قَالَ:" رَبِّ اغْفِرْ لِي، وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ" ، قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَتْ: فَكَانَ هَذَا آخِرَ مَا سَمِعْتُ مِنْ كَلَامِهِ، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا عَادَ مَرِيضًا، مَسَحَهُ بِيَدِهِ، وَقَالَ:" أَذْهِبْ".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ میں سے کسی پر دم فرماتے تو اس پر داہنا ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے " اے لوگوں کے رب! اس کی تکلیف کو دور فرما۔ اسے شفاء عطا فرما کیونکہ تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے علاوہ کہیں سے شفاء نہیں مل سکتی، ایسی شفاء دے دے کہ جو بیماری کا نام و نشان بھی نہ چھوڑے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو میں ان کا دست مبارک پکڑتی اور یہ کلمات پڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ان کے جسم پر پھیر دیتی، میں یوں ہی کرتی رہی یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مجھ سے چھڑا لیا اور کہنے لگے پروردگار! مجھے معاف فرما دے اور میرے رفیق سے ملا دے، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلام تھا جو میں نے سنا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کے گھر میں کسی چور نے چوری کی، انہوں نے اسے بددعائیں دیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تم اس کا گناہ ہلکا نہ کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لأن حديث حبيب عن عطاء ليس بمحفوظ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ مسجد سے چٹائی اٹھا کر مجھے دینا، میں نے عرض کیا کہ میں تو ایام سے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رشتوں کے مسئلے میں عورتوں سے بھی اجازت لے لیا کرو، کسی نے عرض کیا کہ کنواری لڑکیاں اس موضوع پر بولنے میں شرماتی ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی خاموشی ہی ان کی اجازت ہے۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت:" لما ثقل ابو بكر، قال: اي يوم هذا؟ قلنا: يوم الاثنين، قال: فاي يوم قبض فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: قلنا قبض يوم الاثنين ، قال: فإني ارجو ما بيني وبين الليل، قالت: وكان عليه ثوب فيه ردع من مشق، فقال: إذا انا مت، فاغسلوا ثوبي هذا، وضموا إليه ثوبين جديدين، فكفنوني في ثلاثة اثواب، فقلنا: افلا نجعلها جددا كلها؟ قال: فقال: لا، إنما هو للمهلة، قالت: فمات ليلة الثلاثاء".حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" لَمَّا ثَقُلَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ قُلْنَا: يَوْمُ الِاثْنَيْنِ، قَالَ: فَأَيُّ يَوْمٍ قُبِضَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْنَا قُبِضَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ ، قَالَ: فَإِنِّي أَرْجُو مَا بَيْنِي وَبَيْنَ اللَّيْلِ، قَالَتْ: وَكَانَ عَلَيْهِ ثَوْبٌ فِيهِ رَدْعٌ مِنْ مِشْقٍ، فَقَالَ: إِذَا أَنَا مِتُّ، فَاغْسِلُوا ثَوْبِي هَذَا، وَضُمُّوا إِلَيْهِ ثَوْبَيْنِ جَدِيدَيْنِ، فَكَفِّنُونِي فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ، فَقُلْنَا: أَفَلَا نَجْعَلُهَا جُدُدًا كُلَّهَا؟ قَالَ: فَقَالَ: لَا، إِنَّمَا هُوَ لِلْمُهْلَةِ، قَالَتْ: فَمَاتَ لَيْلَةَ الثُّلَاثَاءِ".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طبیعت بوجھل ہونے لگی تو انہوں نے پوچھا کہ آج کون سا دن ہے؟ ہم نے بتایا پیر کا دن ہے، انہوں نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال کس دن ہوا تھا؟ ہم نے بتایا پیر کے دن، انہوں نے فرمایا پھر مجھے بھی آج رات تک یہی امید ہے، وہ کہتی ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے جسم پر ایک کپڑا تھا جس پر گیروے رنگ کے چھینٹے پڑے ہوئے تھے، انہوں نے فرمایا جب میں مرجاؤں تو میرے اس کپڑے کو دھو دینا اور اس کے ساتھ دو نئے کپڑے ملا کر مجھے تین کپڑوں میں کفن دینا، ہم نے عرض کیا کہ ہم سارے کپڑے ہی نئے کیوں نہ لے لیں؟ انہوں نے فرمایا نہیں، یہ تو کچھ دیر کے لئے ہوتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ پیر کا دن ختم ہو کر منگل کی رات شروع ہوئی تو وہ فوت ہوگئے۔
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا هشام بن عروة ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان في بريرة ثلاث قضيات، اراد اهلها ان يبيعوها ويشترطوا الولاء، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: " اشتريها فاعتقيها، فإنما الولاء لمن اعتق"، قالت: وعتقت، فخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم فاختارت نفسها، قالت: وكان الناس يتصدقون عليها، فتهدي لنا، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال:" هو عليها صدقة، وهو لكم هدية، فكلوه" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ قَضِيَّاتٍ، أَرَادَ أَهْلُهَا أَنْ يَبِيعُوهَا وَيَشْتَرِطُوا الْوَلَاءَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " اشْتَرِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، قَالَت: وَعُتِقَتْ، فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، قَالَتْ: وَكَانَ النَّاسُ يَتَصَدَّقُونَ عَلَيْهَا، فَتُهْدِي لَنَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَكُمْ هَدِيَّةٌ، فَكُلُوهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بریرہ کے حوالے سے تین قضیے سامنے آئے، اس کے مالک چاہتے تھے کہ اسے بیچ دیں اور وراثت کو اپنے لئے مشروط کرلیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے خرید کر آزاد کردو، کیونکہ غلام کی وراثت اسی کو ملتی ہے جو اسے آزاد کرتا ہے، وہ آزاد ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکاح باقی رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار دے دیا اور اس نے اپنے آپ کو اختیار کرلیا (اپنے خاوند سے نکاح ختم کردیا) نیز لوگ اسے صدقات کی مد میں کچھ دیتے تھے تو وہ ہمیں بھی اس میں سے کچھ ہدیہ کردیتی تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اس پر صدقہ ہوتا ہے اور اس کی طرف سے تمہارے لئے ہدیہ ہوتا ہے لہٰذا تم اسے کھا سکتے ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھے ہیں اور سحری تک بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پہنچتے ہیں۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كانت امراة تدخل عليها تذكر من اجتهادها، قال: فذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: " إن احب الدين إلى الله عز وجل ما دووم عليه، وإن قل" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَتْ امْرَأَةٌ تَدْخُلُ عَلَيْهَا تَذْكُرُ مِنَ اجْتِهَادِهَا، قَالَ: فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " إِنَّ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مَا دُووِمَ عَلَيْهِ، وَإِنْ قَلَّ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک عورت آتی تھی جو عبادات میں محنت و مشقت برداشت کرنے کے لئے حوالے سے مشہور تھی، لوگوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے نزدیک دین کا سب سے زیادہ پسند یدہ عمل وہ ہے جو دائمی ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان للنبي صلى الله عليه وسلم خميصة فاعطاها ابا جهمة، واخذ انبجانية له، فقالوا: يا رسول الله، إن الخميصة هي خير من الانبجانية، قال: فقال: " إني كنت انظر إلى علمها في الصلاة" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمِيصَةٌ فَأَعْطَاهَا أَبَا جَهْمَةَ، وَأَخَذَ أَنْبِجَانِيَّةً لَهُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْخَمِيصَةَ هِيَ خَيْرٌ مِنَ الْأَنْبِجَانِيَّةِ، قَالَ: فَقَالَ: " إِنِّي كُنْتُ أَنْظُرُ إِلَى عَلَمِهَا فِي الصَّلَاةِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی جس پر نقش و نگار بنے ہوئے تھے، نماز سے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس کے نقش و نگار نے اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا، اس لئے یہ چادر ابوجہم کے پاس لے جاؤ اور میرے پاس ایک سادہ چادر لے آؤ۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: بعد حديث: 373 معلقا بصيغة الجزم
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بدن وثقل يقرا ما شاء الله عز وجل وهو جالس، فإذا غبر من السورة ثلاثون او اربعون آية قام، فقراها، ثم سجد" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَدَّنَ وَثَقُلَ يَقْرَأُ مَا شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا غَبَرَ مِنَ السُّورَةِ ثَلَاثُونَ أَوْ أَرْبَعُونَ آيَةً قَامَ، فَقَرَأَهَا، ثُمَّ سَجَدَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن مبارک جب بھاری ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر ہی " جتنی اللہ کو منظور ہوتی " نماز پڑھ لیتے تھے اور جب اس سورت کی تیس یا چالیس آیات رہ جاتیں تو کھڑے ہوجاتے، پھر ان کی تلاوت کرکے سجدے میں جاتے تھے۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤتى بالصبيان، فيدعو لهم، وإنه اتي بصبي، فبال عليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صبوا عليه الماء صبا" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْتَى بِالصِّبْيَانَ، فَيَدْعُو لَهُمْ، وَإِنَّهُ أُتِيَ بِصَبِيٍّ، فَبَالَ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صُبُّوا عَلَيْهِ الْمَاءَ صَبًّا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوگ اپنے اپنے بچوں کو لاتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے دعا فرماتے تھے، ایک مرتبہ ایک بچے کو لایا گیا تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاب کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر پانی بہا دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح من فعله صلى الله عليه وسلم كما فى البخاري، 222، ومسلم: 286
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: " لما نزلت الآيات من آخر البقرة في الربا، خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المسجد، وحرم التجارة في الخمر" ..حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَاتُ مِنْ آخِرِ الْبَقَرَةِ فِي الرِّبَا، خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ، وَحَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب سورت بقرہ کی آخری آیات " جو سود سے متعلق ہیں " نازل ہوئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف روانہ ہوئے اور شراب کی تجارت کو بھی حرام قرار دے دیا۔
حدثنا حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن تميم بن سلمة ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: الحمد لله الذي وسع سمعه الاصوات، لقد جاءت المجادلة إلى النبي صلى الله عليه وسلم تكلمه، وانا في ناحية البيت ما اسمع ما تقول، فانزل الله عز وجل قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها سورة المجادلة آية 1، إلى آخر الآية .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ الْأَصْوَاتَ، لَقَدْ جَاءَتْ الْمُجَادِلَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُكَلِّمُهُ، وَأَنَا فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ مَا أَسْمَعُ مَا تَقُولُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا سورة المجادلة آية 1، إِلَى آخِرِ الْآيَةِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس کی سماعت تمام آوازوں کو گھیرے ہوئے ہے، ایک جھگڑنے والی عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہی تھی، میں گھر کے ایک کونے میں ہونے کے باوجود اس کی بات نہیں سن پا رہی تھی لیکن اللہ نے یہ آیت نازل فرمادی: " اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے متعلق جھگڑا کر رہی تھی۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: جاء حمزة الاسلمي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني رجل اسرد الصوم، افاصوم في السفر؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن شئت فصم، وإن شئت فافطر" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: جَاءَ حَمْزَةُ الْأَسْلَمِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَجُلٌ أَسْرُدُ الصَّوْمَ، أَفَأَصُومُ فِي السَّفَرِ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ شِئْتَ فَصُمْ، وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں مستقل روزے رکھنے والا آدمی ہوں، کیا میں سفر میں روزے رکھ سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاہو تو رکھ لو اور چاہو تو نہ رکھو۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا عاصم ، عن تبالة بنت يزيد العبشمية ، عن عائشة ، قالت " كنا ننبذ للنبي صلى الله عليه وسلم في سقاء، فناخذ قبضة من زبيب، او قبضة من تمر، فنطرحها في السقاء، ثم نصب عليها الماء ليلا، فيشربه نهارا، او نهارا فيشربه ليلا" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ تُبَالَةَ بِنْتِ يَزِيدَ الْعَبْشَمِيَّةِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت " كُنَّا نَنْبِذُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سِقَاءٍ، فَنَأْخُذُ قَبْضَةً مِنْ زَبِيبٍ، أَوْ قَبْضَةً مِنْ تَمْرٍ، فَنَطْرَحُهَا فِي السِّقَاءِ، ثُمَّ نَصُبُّ عَلَيْهَا الْمَاءَ لَيْلًا، فَيَشْرَبُهُ نَهَارًا، أَوْ نَهَارًا فَيَشْرَبُهُ لَيْلًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مشکیزے میں نبیذ بنایا کرتے تھے اور وہ اس طرح کہ ہم لوگ ایک مٹھی کشمش یا کھجور لے کر اسے مشکیزے میں ڈال دیتے اور اوپر سے پانی ڈالتے تھے، رات بھر وہ یوں ہی پڑا رہتا اور صبح ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نوش فرمالیتے، اگر دن کے وقت ایسا کیا جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اسے نوش فرمالیتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة تبالة
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا عبد الرحمن بن ابي بكر القرشي ، عن ابن ابي مليكة ، عن عائشة ، قالت: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعبد الرحمن بن ابي بكر: " ائتني بكتف او لوح حتى اكتب لابي بكر كتابا لا يختلف عليه"، فلما ذهب عبد الرحمن ليقوم، قال:" ابى الله والمؤمنون ان يختلف عليك يا ابا بكر" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْقُرَشِيُّ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ: " ائْتِنِي بِكَتِفٍ أَوْ لَوْحٍ حَتَّى أَكْتُبَ لِأَبِي بَكْرٍ كِتَابًا لَا يُخْتَلَفُ عَلَيْهِ"، فَلَمَّا ذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَقُومَ، قَالَ:" أَبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ أَنْ يُخْتَلَفَ عَلَيْكَ يَا أَبَا بَكْرٍ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بوجھل ہوئی تو حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے پاس شانے کی کوئی ہڈی یا تختی لے کر آؤ کہ میں ابوبکر کے لئے ایک تحریر لکھوا دوں جس میں ان سے اختلاف نہ کیا جاسکے، جب عبدالرحمن کھڑے ہونے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر! اللہ اور مومنین اس بات سے انکار کردیں گے کہ آپ کے معاملے میں اختلاف کیا جائے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالرحمن بن أبى بكر
حدثنا إسماعيل ، قال: اخبرنا ايوب ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، عن عائشة ، قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من حوسب يوم القيامة عذب"، قالت: فقلت: اليس قال الله عز وجل: فسوف يحاسب حسابا يسيرا سورة الانشقاق آية 8، قال:" ليس ذلك بالحساب، ولكن ذلك العرض، من نوقش الحساب يوم القيامة، عذب" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حُوسِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عُذِّبَ"، قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَلَيْسَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا سورة الانشقاق آية 8، قَالَ:" لَيْسَ ذَلِكَ بِالْحِسَابِ، وَلَكِنَّ ذَلِكَ الْعَرْضُ، مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، عُذِّبَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن جس سے حساب لیا جائے گا وہ عذاب میں مبتلا ہوجائے گا، میں نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا " عنقریب آسان حساب لیا جائے گا " نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حساب تھوڑی ہوگا وہ تو سر سری پیشی ہوگی اور جس شخص سے قیامت کے دن حساب کتاب میں مباحثہ کیا گیا، وہ تو عذاب میں گرفتار ہوجائے گا۔
حدثنا إسماعيل ، قال: اخبرنا برد بن سنان ، عن عبادة بن نسي ، عن غضيف بن الحارث ، قال: قلت: لعائشة ارايت رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغتسل من الجنابة في اول الليل، او في آخره؟ قالت: " ربما اغتسل في اول الليل، وربما اغتسل في آخره"، قلت: الله اكبر، الحمد لله الذي جعل في الامر سعة، قلت: ارايت رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر في اول الليل، او في آخره؟ قالت:" ربما اوتر في اول الليل، وربما اوتر في آخره"، قلت: الله اكبر، الحمد لله الذي جعل في الامر سعة، قلت: ارايت رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجهر بالقرآن، او يخافت به؟ قالت:" ربما جهر به، وربما خافت"، قلت: الله اكبر، الحمد لله الذي جعل في الامر سعة .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا بُرْدُ بْنُ سِنَانٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: قُلْتُ: لِعَائِشَةَ أَرَأَيْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، أَوْ فِي آخِرِهِ؟ قَالَتْ: " رُبَّمَا اغْتَسَلَ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، وَرُبَّمَا اغْتَسَلَ فِي آخِرِهِ"، قُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً، قُلْتُ: أَرَأَيْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، أَوْ فِي آخِرِهِ؟ قَالَتْ:" رُبَّمَا أَوْتَرَ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، وَرُبَّمَا أَوْتَرَ فِي آخِرِهِ"، قُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً، قُلْتُ: أَرَأَيْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْهَرُ بِالْقُرْآنِ، أَوْ يُخَافِتُ بِهِ؟ قَالَتْ:" رُبَّمَا جَهَرَ بِهِ، وَرُبَّمَا خَافَتَ"، قُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً .
غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا یہ بتایئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت رات کے ابتدائی حصے میں کرتے تھے یا آخری حصے میں؟ انہوں نے فرمایا کبھی رات کے ابتدائی حصے میں غسل فرمالیتے تھے اور کبھی رات کے آخری حصے میں، اس پر میں نے اللہ اکبر کہہ کر عرض کیا شکر ہے، اس اللہ کا جس نے اس معاملے میں وسعت رکھی ہے، پھر میں نے پوچھا یہ بتایئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے اول حصے میں وتر پڑھتے یا آخر میں؟ انہوں نے فرمایا کبھی رات کے ابتدائی حصے میں وتر پڑھ لیتے تھے اور کبھی آخری حصے میں، میں نے پھر اللہ اکبر کہہ کر عرض کیا شکر ہے اس اللہ کا جس نے اس معاملے میں وسعت رکھی، پھر میں پوچھا یہ بتایئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہری قرأت فرماتے تھے یا سری؟ انہوں نے فرمایا کبھی جہری اور کبھی سری، میں نے پھر اللہ اکبر کہہ کر عرض کیا اس اللہ کا شکر ہے جس نے اس معاملے میں بھی وسعت رکھی ہے۔
حدثنا إسماعيل ، حدثنا خالد الحذاء ، عن ابي قلابة ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن من اكمل المؤمنين إيمانا، احسنهم خلقا، والطفهم باهله" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ أَكْمَلِ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا، أَحْسَنَهُمْ خُلُقًا، وَأَلْطَفَهُمْ بِأَهْلِهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کامل ترین ایمان والا وہ آدمی ہوتا ہے جس کے اخلاق سب سے زیادہ عمدہ ہوں اور وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سب سے زیادہ مہربان ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو قلابة لم يدرك عائشة
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني سليمان بن موسى ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا نكحت المراة بغير امر مولاها، فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فإن اصابها، فلها مهرها بما اصاب منها، فإن اشتجروا، فالسلطان ولي من لا ولي له" ، قال ابن جريج فلقيت الزهري، فسالته عن هذا الحديث، فلم يعرفه، قال: وكان سليمان بن موسى وكان، فاثنى عليه، قال عبد الله: قال ابي: السلطان: القاضي، لان إليه امر الفروج والاحكام.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا نُكِحَتْ الْمَرْأَةُ بِغَيْرِ أَمْرِ مَوْلَاهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ أَصَابَهَا، فَلَهَا مَهْرُهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا، فَإِنْ اشْتَجَرُوا، فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ" ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ فَلَقِيتُ الزُّهْرِيَّ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَلَمْ يَعْرِفْهُ، قَالَ: وَكَانَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى وَكَانَ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ، قَالَ عَبد اللَّه: قَالَ أَبِي: السُّلْطَانُ: الْقَاضِي، لِأَنَّ إِلَيْهِ أَمْرَ الْفُرُوجِ وَالْأَحْكَامِ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر کوئی عورت اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے، اگر وہ اس کے ساتھ مباشرت بھی کرلے تو اس بناء پر اس کے ذمے مہر واجب ہوجائے گا اور اگر اس میں لوگ اختلاف کرنے لگیں تو بادشاہ اس کا ولی ہوگا جس کا کوئی ولی نہ ہو۔
اخبرنا إسماعيل ، قال: اخبرنا علي بن زيد ، عن سعيد بن المسيب ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا قعد بين الشعب الاربع، ثم الزق الختان بالختان، فقد وجب الغسل" .أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قَعَدَ بَيْنَ الشُّعَبِ الْأَرْبَعِ، ثُمَّ أَلْزَقَ الْخِتَانَ بِالْخِتَانِ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص عورت کے چاروں کونوں کے درمیان بیٹھ جائے اور شرمگاہ، شرمگاہ سے مل جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے پاس رہنے یا دنیا لینے کا اختیار دیا، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرلیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم پر کوئی طلاق شمار نہیں کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سوتے تھے، چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔
حدثنا إسماعيل ، قال: اخبرنا ايوب ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، عن عائشة ، قالت: قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم هو الذي انزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن ام الكتاب واخر متشابهات فاما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تاويله وما يعلم تاويله إلا الله والراسخون في العلم يقولون آمنا به كل من عند ربنا وما يذكر إلا اولو الالباب سورة آل عمران آية 7،" فإذا رايتم الذين يجادلون فيه، فهم الذين عنى الله عز وجل، فاحذروهم" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُو الأَلْبَابِ سورة آل عمران آية 7،" فَإِذَا رَأَيْتُمْ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِيهِ، فَهُمْ الَّذِينَ عَنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَاحْذَرُوهُمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی اللہ وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی ہے جس کی بعض آیتیں محکم ہیں، ایسی آیات ہی اس کتاب کی اصل ہیں اور کچھ آیات متشابہات میں سے بھی ہیں، جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہوتی ہے، وہ تو متشابہات کے پیچھے چل پڑتے ہیں تاکہ فتنہ پھیلائیں اور اس کی تاویل حاصل کرنے کی کوشش کریں، حالانکہ ان کی تاویل اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور علمی مضبوطی رکھنے والے لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت تو عقلمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔ اور فرمایا کہ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو قرآنی آیات میں جھگڑ رہے ہیں تو یہ وہی لوگ ہوں گے جو اللہ کی مراد ہیں، لہٰذا ان سے بچو۔
حدثنا إسماعيل ، قال: اخبرنا هشام ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن سعد بن هشام ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الذي يقرا القرآن وهو ماهر به مع السفرة الكرام البررة، والذي يقرؤه وهو عليه شاق، فله اجران" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ مَاهِرٌ بِهِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَؤُهُ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، فَلَهُ أَجْرَانِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص قرآن کریم مہارت کے ساتھ پڑھتا ہے، وہ نیک اور معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص مشقت اور برداشت کر کے تلاوت کرے اسے دہرا اجر ملے گا۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عمارة ، عن ابي عطية ، قال: دخلت انا ومسروق على عائشة ، فقلنا لها: يا ام المؤمنين، رجلان من اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم احدهما يعجل الإفطار ويعجل الصلاة، والآخر يؤخر الإفطار ويؤخر الصلاة؟ قال: فقالت: " ايهما يعجل الإفطار ويعجل الصلاة؟"، قال: قلنا: عبد الله بن مسعود، قالت:" كذاك كان يصنع رسول الله صلى الله عليه وسلم" ، والآخر ابو موسى..حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ عَلَى عَائِشَةَ ، فَقُلْنَا لَهَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدُهُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ، وَالْآخَرُ يُؤَخِّرُ الْإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: فَقَالَتْ: " أَيُّهُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ؟"، قَالَ: قُلْنَا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَتْ:" كَذَاكَ كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ، وَالْآخَرُ أَبُو مُوسَى..
ابو عطیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور مسروق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا کہ اے ام المومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابی ہیں، ان میں سے ایک صحابی افطار میں بھی جلدی کرتے ہیں اور نماز میں بھی، جبکہ دوسرے صحابی افطار میں بھی تاخیر کرتے ہیں اور نماز میں بھی، انہوں نے فرمایا کہ افطار اور نماز میں عجلت کون کرتے ہیں؟ ہم نے بتایا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے اور دوسرے صحابی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نماز میں یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! میرا حساب آسان کر دیجئے، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! آسان حساب سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا نامہ اعمال دیکھا جائے اور اس سے درگذر کیا جائے، عائشہ! اس دن جس شخص سے حساب کتاب میں مباحثہ ہوا، وہ ہلاک ہوجائے گا اور مسلمان کو جو تکلیف حتیٰ کہ کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کا کفارہ فرما دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول فى بعض صلاته: اللهم حاسبني .... فهذه الزيادة تفرد بها محمد بن إسحاق
حدثنا إسماعيل ، قال: اخبرنا ايوب ، عن ابن ابي مليكة ، قال: قالت عائشة : مات رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي ويومي وبين سحري ونحري، فدخل عبد الرحمن بن ابي بكر ومعه سواك رطب، فنظر إليه، فظننت ان له فيه حاجة، قالت: فاخذته، فمضغته ونفضته وطيبته، ثم دفعته إليه، فاستن كاحسن ما رايته مستنا قط، ثم ذهب يرفعه إلي، فسقط من يده، فاخذت ادعو الله عز وجل بدعاء كان يدعو له به جبريل عليه السلام، وكان هو يدعو به إذا مرض، فلم يدع به في مرضه ذلك، فرفع بصره إلى السماء، وقال: " الرفيق الاعلى، الرفيق الاعلى"، يعني وفاضت نفسه ، فالحمد لله الذي جمع بين ريقي وريقه في آخر يوم من ايام الدنيا.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي وَيَوْمِي وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي، فَدَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَهُ سِوَاكٌ رَطْبٌ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ، فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ فِيهِ حَاجَةً، قَالَتْ: فَأَخَذْتُهُ، فَمَضَغْتُهُ وَنَفَضْتُهُ وَطَيَّبْتُهُ، ثُمَّ دَفَعْتُهُ إِلَيْهِ، فَاسْتَنَّ كَأَحْسَنِ مَا رَأَيْتُهُ مُسْتَنًّا قَطُّ، ثُمَّ ذَهَبَ يَرْفَعُهُ إِلَيَّ، فَسَقَطَ مِنْ يَدِه، فَأَخَذْتُ أَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بِدُعَاءٍ كَانَ يَدْعُو لَهُ بِهِ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، وَكَانَ هُوَ يَدْعُو بِهِ إِذَا مَرِضَ، فَلَمْ يَدْعُ بِهِ فِي مَرَضِهِ ذَلِكَ، فَرَفَعَ بَصَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ، وَقَالَ: " الرَّفِيقُ الْأَعْلَى، الرَّفِيقُ الْأَعْلَى"، يَعْنِي وَفَاضَتْ نَفْسُهُ ، فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَمَعَ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے رخصتی میرے گھر میں میری باری کے دن، میرے سینے اور حلق کے درمیان ہوئی اس دن عبدالرحمن بن ابی بکر آئے تو ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی عمدگی کے ساتھ مسواک فرمائی کہ اس سے پہلے میں نے اس طرح مسواک کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اوپر کر کے وہ مجھے دینے لگے تو وہ مسواک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے گرگئی، یہ دیکھ کر میں وہ دعائیں پڑھنے لگیں جو حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے موقع پر پڑھتے تھے لیکن اس موقع پر انہوں نے وہ دعائیں نہیں پڑھی تھیں، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا رفیق اعلیٰ، رفیق اعلیٰ اور اسی دم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک پرواز کرگئی، ہر حال میں اللہ کا شکر ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دن میرے اور ان کے لعاب کو جمع فرمایا۔
حدثنا إسماعيل ، حدثنا داود بن ابي هند ، عن عزرة ، عن حميد بن عبد الرحمن ، عن سعد بن هشام ، عن عائشة ، قالت: كان لنا ستر فيه تمثال طائر، فكان الداخل إذا دخل، استقبله، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا عائشة، حولي هذا، فإني كلما دخلت فرايته، ذكرت الدنيا" ، وكانت لنا قطيفة، كنا نقول علمها من حرير، فكنا نلبسها.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ عَزْرَةَ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ لَنَا سِتْرٌ فِيهِ تِمْثَالُ طَائِرٍ، فَكَانَ الدَّاخِلُ إِذَا دَخَلَ، اسْتَقْبَلَهُ، فَقَال لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشَةُ، حَوِّلِي هَذَا، فَإِنِّي كُلَّمَا دَخَلْتُ فَرَأَيْتُهُ، ذَكَرْتُ الدُّنْيَا" ، وَكَانَتْ لَنا قَطِيفَةٌ، كُنَّا نَقُولُ عَلَمُهَا مِنْ حَرِيرٍ، فَكُنَّا نَلْبَسُهَا.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمارے پاس ایک پردہ تھا جس پر کسی پرندے کی تصویر بنی ہوئی تھی، جب کوئی آدمی گھر میں داخل ہوتا تو سب سے پہلے اس کی نظر اسی پر پڑتی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا عائشہ! اس پردے کو بدل دو، میں جب بھی گھر میں آتا ہوں اور اس پر میری نظر پڑتی ہے تو مجھے دنیا یاد آجاتی ہے، اسی طرح ہمارے پاس ایک چادر تھی جس کے متعلق ہم یہ کہتے تھے کہ اس کے نقش و نگار ریشم کے ہیں، ہم اسے اوڑھ لیا کرتے تھے۔
حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، ومحمد بن عبيد ، حدثنا عبيد الله ، قال: اخبرني نافع ، عن سائبة ، عن عائشة " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل الحيات"، قال محمد بن عبيد التي تكون في البيوت،" وامرنا بقتل الابتر وذي الطفيتين"، قال" إنهما يلتمسان البصر، ويسقطان ما في بطون النساء، ومن تركهما فليس مني" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنْ سَائِبَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ الْحَيَّاتِ"، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الَّتِي تَكُونُ فِي الْبُيُوتِ،" وَأَمَرَنَا بِقَتْلِ الْأَبْتَرِ وَذِي الطُّفْيَتَيْنِ"، قَالَ" إِنَّهُمَا يَلْتَمِسَانِ الْبَصَرَ، وَيُسْقِطَانِ مَا فِي بُطُونِ النِّسَاءِ، وَمَنْ تَرَكَهُمَا فَلَيْسَ مِنِّي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے سانپوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، سوائے ان سانپوں کے جو دم کٹے ہوں یا دو دھاری ہوں کیونکہ ایسے سانپ بینائی کو زائل کردیتے ہیں اور عورتوں کے پیٹ سے حمل ضائع کردیتے ہیں اور جو شخص ان سانپوں کو چھوڑ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
حدثنا يحيى ، عن طلحة بن يحيى ، قال: حدثتني عائشة بنت طلحة ، عن عائشة ام المؤمنين ان النبي صلى الله عليه وسلم كان ياتيها وهو صائم فيقول: " اصبح عندكم شيء تطعمونيه؟"، فتقول: لا، ما اصبح عندنا شيء كذاك، فيقول:" إني صائم"، ثم جاءها بعد ذلك، فقالت: اهديت لنا هدية، فخباناها لك، قال:" ما هي؟"، قالت: حيس، قال:" قد اصبحت صائما"، فاكل .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِيهَا وَهُوَ صَائِمٌ فَيَقُولُ: " أَصْبَحَ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ تُطْعِمُونِيهِ؟"، فَتَقُولُ: لَا، مَا أَصْبَحَ عِنْدَنَا شَيْءٌ كَذَاكَ، فَيَقُولُ:" إِنِّي صَائِمٌ"، ثُمَّ جَاءَهَا بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ، فَخَبَأْنَاهَا لَكَ، قَالَ:" مَا هِيَ؟"، قَالَتْ: حَيْسٌ، قَالَ:" قَدْ أَصْبَحْتُ صَائِمًا"، فَأَكَلَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لاتے اور روزے سے ہوتے، پھر پوچھتے کہ آج صبح تمہارے پاس کچھ ہے جو تم مجھے کھلا سکو؟ وہ جواب دیتیں کہ نہیں، آج ہمارے پاس صبح کے اس وقت کچھ نہیں ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ پھر میں روزے سے ہی ہوں اور کبھی آتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہہ دیتیں کہ ہمارے پاس کہیں سے ہدیہ ہے جو ہم نے آپ کے لئے رکھا ہوا ہے جیسا کہ ایک موقع پر ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ حیس (ایک قسم کا حلوہ) ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے صبح تو روزے کی نیت کی تھی، پھر اسے تناول فرما لیا۔
حدثنا يحيى ، عن محمد بن عمرو ، قال: حدثني ابو سلمة ، قال: قالت عائشة : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه: " يا عائشة، ما فعلت الذهب"، فجاءت ما بين الخمسة إلى السبعة او الثمانية او التسعة، فجعل يقلبها بيده، ويقول" ما ظن محمد بالله عز وجل لو لقيه وهذه عنده! انفقيها" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: " يَا عَائِشَةُ، مَا فَعَلَتْ الذَّهَبُ"، فَجَاءَتْ مَا بَيْنَ الْخَمْسَةِ إِلَى السَّبْعَةِ أَوْ الثَّمَانِيَةِ أَوْ التِّسْعَةِ، فَجَعَلَ يُقَلِّبُهَا بِيَدِهِ، وَيَقُولُ" مَا ظَنُّ مُحَمَّدٍ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَوْ لَقِيَهُ وَهَذِهِ عِنْدَهُ! أَنْفِقِيهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الوفات میں مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! وہ سونا کیا ہوا؟ وہ پانچ سے نو کے درمیان کچھ اشرفیاں لے کر آئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے ہاتھ سے پلٹنے اور فرمانے لگے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے کس گمان کے ساتھ ملے گا جبکہ اس کے پاس یہ اشرفیاں موجود ہوں؟ انہیں خرچ کردو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل محمد بن عمرو
حدثنا يحيى ، عن سفيان ، قال: حدثني منصور ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، عن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يكثر ان يقول في ركوعه: " سبحانك اللهم ربنا وبحمدك، رب اغفر لي"، يتاول القرآن .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ فِي رُكُوعِهِ: " سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، رَبِّ اغْفِرْ لِي"، يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع و سجود میں بکثر ت، سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ رَبِّ اغْفِرْ لِي کہتے تھے اور قرآن پر عمل فرماتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتیں اتنی مختصر پڑھتے تھے کہ میں کہتی " نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت فاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں "۔
حدثنا يحيى ، عن شعبة ، قال: حدثنا الحكم ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، قال: قلت لعائشة : ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع في اهله؟ قالت: " كان في مهنة اهله، فإذا حضرت الصلاة، خرج إلى الصلاة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ : مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ فِي أَهْلِهِ؟ قَالَتْ: " كَانَ فِي مِهْنَةِ أَهْلِهِ، فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ، خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ" .
اسود کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں لگے رہتے تھے اور جب نماز کا وقت آتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔
حدثنا يحيى ، عن إسماعيل ، حدثنا عامر ، قال: اتى مسروق عائشة ، فقال: يا ام المؤمنين، هل راى محمد صلى الله عليه وسلم ربه؟ قالت: " سبحان الله! لقد قف شعري لما قلت، اين انت من ثلاث، من حدثكهن، فقد كذب من حدثك ان محمدا صلى الله عليه وسلم راى ربه، فقد كذب، ثم قرات: لا تدركه الابصار وهو يدرك الابصار سورة الانعام آية 103، وما كان لبشر ان يكلمه الله إلا وحيا او من وراء حجاب سورة الشورى آية 51، ومن اخبرك بما في غد، فقد كذب، ثم قرات: إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام سورة لقمان آية 34، ومن اخبرك ان محمدا صلى الله عليه وسلم كتم، فقد كذب، ثم قرات: يايها الرسول بلغ ما انزل إليك من ربك سورة المائدة آية 67، ولكنه راى جبريل في صورته مرتين" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ ، قَالَ: أَتَى مَسْرُوقٌ عَائِشَةَ ، فَقَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ؟ قَالَتْ: " سُبْحَانَ اللَّهِ! لَقَدْ قَفَّ شَعْرِي لِمَا قُلْتَ، أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلَاثٍ، مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ، فَقَدْ كَذَبَ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ، فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ سورة الأنعام آية 103، وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ سورة الشورى آية 51، وَمَنْ أَخْبَرَكَ بِمَا فِي غَدٍ، فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ سورة لقمان آية 34، وَمَنْ أَخْبَرَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَمَ، فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ سورة المائدة آية 67، وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ فِي صُورَتِهِ مَرَّتَيْنِ" .
مسروق کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور عرض کیا اے ام المومنین! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا: سبحان اللہ! تمہاری بات سن کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں، تم ان تین باتوں سے کیوں غافل ہو؟ جو شخص بھی تمہارے سامنے یہ باتیں بیان کرے، وہ جھوٹ بولتا ہے، جو شخص تم سے یہ بیان کرے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی " نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک رکھتا ہے، نیز یہ آیت کہ کسی انسان کی یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ سے اس باتیں کرے، سوائے اس کے کہ وہ وحی کے ذریعے ہو یا پردہ کے پیچھے سے ہو۔ " اور جو شخص تمہیں آئندہ کل کی خبریں دے، وہ جھوٹ بولتا ہے پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی " اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے؟ اور جو شخص تمہیں یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چھپایا ہے، تو وہ بھی جھوٹ بولتا ہے، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی " اے رسول! وہ تمام چیزیں پہنچا دیجئے جو آپ پر نازل کی گئی ہیں۔ " البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل امین کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل و صورت میں دیکھا ہے۔
حدثنا يحيى ، عن هشام ، قال: اخبرني ابي ، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " إن الحمى، او شدة الحمى من فيح جهنم، فابردوها بالماء" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْحُمَّى، أَوْ شِدَّةَ الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَأَبْرِدُوهَا بِالْمَاءِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بخار یا اس کی شدت جہنم کی تپش کا اثر ہوتی ہے اس لئے اسے پانی سے ٹھنڈا کیا کرو۔
حدثنا ابن نمير ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الحمى من فيح جهنم، فابردوها بالماء" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَأَبْرِدُوهَا بِالْمَاءِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بخار یا اس کی شدت جہنم کی تپش کا اثر ہوتی ہے اس لئے اسے پانی سے ٹھنڈا کیا کرو۔
حدثنا يحيى ، عن هشام ، قال: اخبرني ابي ، عن عائشة ، قالت: " كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش في الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه، فلما قدم المدينة صامه وامر بصيامه، فلما نزل صوم رمضان، كان رمضان هو الفريضة، وترك عاشوراء، فكان من شاء صامه، ومن شاء لم يصمه" .حَدَّثَنَا يحْيَى ، عن هِشَام ، قال: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا نَزَلَ صَوْمُ رَمَضَانَ، كَانَ رَمَضَانُ هُوَ الْفَرِيضَةَ، وَتَرَكَ عَاشُورَاءَ، فَكَانَ مَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَصُمْهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ دور جاہلیت میں قریش کے لوگ دس محرم کا روزہ رکھتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے، مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ روزہ رکھتے رہے اور صحابہ رضی اللہ عنہ کو یہ روزہ رکھنے کا حکم دیتے رہے، پھر جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان ہی کے روزے رکھنے لگے اور عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا، اب جو چاہے وہ روزہ رکھ لے اور جو چاہے نہ رکھے۔
حدثنا يحيى ، ووكيع ، عن هشام ، عن ابيه ، قال: يحيى قال: اخبرني ابي عن عائشة ان هند بنت عتبة، قالت: يا رسول الله، إن ابا سفيان رجل شحيح، وإنه لا يعطيني وولدي ما يكفينا إلا ما اخذت من ماله وهو لا يعلم؟ قال: " خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، وَوَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: يَحْيَى قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ هِنْدَ بِنْتَ عُتْبَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ، وَإِنَّهُ لَا يُعْطِينِي وَوَلَدِي مَا يَكْفِينَا إِلَّا مَا أَخَذْتُ مِنْ مَالِهِ وَهُوَ لَا يَعْلَمُ؟ قَالَ: " خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہند نے آکر بارگاہ رسالت میں عرض کیا یارسول اللہ! ابوسفیان ایک ایسے آدمی ہیں جن میں کفایت شعاری کا مادہ کچھ زیادہ ہی ہے اور میرے پاس صرف وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ گھر میں لاتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان کے مال میں سے اتنا لے لیا کرو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہوجائے لیکن یہ ہو بھلے طریقے سے۔
حدثنا حدثنا يحيى ، حدثنا هشام ، قال: اخبرني ابي ، عن عائشة ، قالت: " كان ياتي على آل محمد صلى الله عليه وسلم الشهر ما يوقدون فيه نارا، ليس إلا التمر والماء إلا ان نؤتى باللحم" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " كَانَ يَأْتِي عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهْرُ مَا يُوقِدُونَ فِيهِ نَارًا، لَيْسَ إِلَّا التَّمْرُ وَالْمَاءُ إِلَّا أَنْ نُؤْتَى بِاللَّحْمِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مہینہ مہینہ ایسا گذر جاتا تھا جس میں وہ آگ تک نہیں جلاتے تھے اور ان کے پاس کھجور اور پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا، الاّ یہ کہیں سے گوشت آجائے۔
حدثنا يحيى ، حدثنا هشام ، قال: حدثني ابي ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف في العشر الاواخر، ويقول: " التمسوها في العشر الاواخر"، يعني ليلة القدر .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، وَيَقُولُ: " الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ"، يَعْنِي لَيْلَةَ الْقَدْرِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ شب قدر کو ماہ رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کیا کرو۔
حدثنا يحيى ، عن هشام ، قال: حدثني ابي ، عن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يرقي يقول: " امسح الباس رب الناس، بيدك الشفاء، لا يكشف الكرب إلا انت" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْقِي يَقُولُ: " امْسَحْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، بِيَدِكَ الشِّفَاءُ، لَا يَكْشِفُ الْكَرْبَ إِلَّا أَنْتَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ میں سے کسی پر دم فرماتے تو اس پر داہنا ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے " اے لوگوں کے رب! اس کی تکلیف کو دور فرما، اسے شفاء عطا فرما کیونکہ تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے علاوہ کہیں سے شفاء نہیں مل سکتی۔
حدثنا يحيى ، عن هشام ، قال: اخبرني ابي ، قال: قالت: لي عائشة يا ابن اختي، " ما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم السجدتين بعد العصر عندي قط" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، قَالَ: قَالَتْ: لِي عَائِشَةُ يَا ابْنَ أُخْتِي، " مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّجْدَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ عِنْدِي قَطُّ" .
عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا بھانجے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے یہاں کبھی بھی عصر کے بعد دو رکعتیں ترک نہیں فرمائیں۔
حدثنا يحيى ، عن هشام ، قال: حدثني ابي ، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يصلي من الليل وانا معترضة فيما بينه وبين القبلة على الفراش، فإذا اراد ان يوتر ايقظني" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ وَأَنَا مُعْتَرِضَةٌ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ عَلَى الْفِرَاشِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ أَيْقَظَنِي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو میں ان کے اور قبلے کے درمیان بستر پر لیٹی ہوتی تھی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھنے لگتے تو مجھے جگا دیتے تھے۔
حدثنا يحيى ، حدثنا هشام ، قال: حدثني ابي ، عن عائشة ، قالت: " سحر النبي صلى الله عليه وسلم، فيخيل إليه انه قد صنع شيئا ولم يصنعه" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ صَنَعَ شَيْئًا وَلَمْ يَصْنَعْهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی نے جادو کردیا، جس کے اثر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے فلاں کام کرلیا ہے، حالانکہ وہ نہیں کیا ہوتا تھا۔
حدثنا يحيى ، حدثنا هشام ، حدثني ابي ، عن عائشة ، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاور في المسجد، فيصغي إلي راسه صلى الله عليه وسلم، فارجله وانا حائض" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْمَسْجِدِ، فَيُصْغِي إِلَيَّ رَأْسَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُرَجِّلُهُ وَأَنَا حَائِضٌ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معتکف ہوتے اور مسجد سے اپنا سر باہر نکال دیتے، میں اسے کنگھی کردیتی حالانکہ میں ایام سے ہوتی تھی۔
حدثنا يحيى ، عن هشام ، قال: حدثني ابي ، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة، يوتر بخمس، لا يجلس إلا في الخامسة، فيسلم" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُوتِرُ بِخَمْسٍ، لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي الْخَامِسَةِ، فَيُسَلِّمُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے اور پانچویں جوڑے پر وتر بناتے تھے اور اسی پر بیٹھ کر سلام پھیرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے ایک بکری ذبح کی، پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اب اس کا صرف شانہ باقی بچا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں سمجھو کہ اس شانے کے علاوہ سب کچھ بچ گیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر سے پہلے کی دو رکعتوں کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ دو رکعتیں مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں۔
حدثنا يحيى ، حدثنا هشام ، حدثني ابي ، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يقولن احدكم خبثت نفسي، ولكن ليقل لقست" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ خَبُثَتْ نَفْسِي، وَلَكِنْ لِيَقُلْ لَقِسَتْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میرا نفس خبیث ہوگیا ہے، البتہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا دل سخت ہوگیا ہے۔
حدثنا يحيى ، حدثنا هشام ، قال: اخبرني ابي ، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها، وعندها فلانة، لامراة، فذكرت من صلاتها، فقال: " مه، عليكم بما تطيقون، فوالله لا يمل الله عز وجل حتى تملوا، إن احب الدين إلى الله ما داوم عليه صاحبه" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا، وَعِنْدَهَا فُلَانَةُ، لِامْرَأَةٍ، فَذَكَرَتْ مِنْ صَلَاتِهَا، فَقَالَ: " مَهْ، عَلَيْكُمْ بِمَا تُطِيقُونَ، فَوَاللَّهِ لَا يَمَلُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى تَمَلُّوا، إِنَّ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَى اللَّهِ مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک عورت آتی تھی جو عبادات میں محنت و مشقت برداشت کرنے کے حوالے سے مشہور تھی، انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رک جاؤ اور اپنے اوپر ان چیزوں کو لازم کیا کرو جن کی تم میں طاقت بھی ہو، واللہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتائے گا بلکہ تم ہی اکتا جاؤ گے، اللہ کے نزدیک دین کا سب سے زیادہ پسند یدہ عمل وہ ہے جو دائمی ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مہینہ ٢٩ کا ہوتا ہے، لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمن کی بخشش فرمائے، انہیں وہم ہوگیا ہے، دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا بعض اوقات مہینہ ٢٩ دن کا بھی ہوتا ہے۔
حدثنا يحيى ، عن موسى الجهني ، قال: جاءوا بعس في رمضان، فحزرته ثمانية او تسعة او عشرة ارطال، فقال مجاهد حدثتني عائشة " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغتسل بمثل هذا" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ مُوسَى الْجُهَنِيِّ ، قَالَ: جَاءُوا بِعُسٍّ فِي رَمَضَانَ، فَحَزَرْتُهُ ثَمَانِيَةَ أَوْ تِسْعَةَ أَوْ عَشْرَةَ أَرْطَالٍ، فَقَالَ مُجَاهِدٌ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ بِمِثْلِ هَذَا" .
موسیٰ جہنی کہتے ہیں کہ لوگ ماہ رمضان میں ایک بڑا پیالہ لے کر آئے، میں نے اندازہ لگایا کہ اس میں آٹھ نو یا دس رطل پانی ہوگا، تو مجاہد نے بتایا کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث سنائی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے پانی سے غسل فرمالیا کرتے تھے۔
حدثنا يحيى ، عن مالك ، قال: حدثني عبد الله بن ابي بكر ، عن عمرة ، عن عائشة ، قالت: دفت دافة من اهل البادية حضرة الاضحى، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" كلوا وادخروا لثلاث"، فلما كان بعد ذلك، قالوا: يا رسول الله، كان الناس ينتفعون من اضاحيهم يجملون منها الودك، ويتخذون منها الاسقية، قال:" وما ذاك؟"، قالوا: الذي نهيت عنه من إمساك لحوم الاضاحي، قال: " إنما نهيت عنه للدافة التي دفت، فكلوا، وتصدقوا، وادخروا" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ مَالِكٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالت: دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ حَضْرَةَ الْأَضْحَى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُوا وَادَّخِرُوا لِثَلَاثٍ"، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَانَ النَّاسُ يَنْتَفِعُونَ مِنْ أَضَاحِيِّهِمْ يَجْمِلُونَ مِنْهَا الْوَدَكَ، وَيَتَّخِذُونَ مِنْهَا الْأَسْقِيَةَ، قَالَ:" وَمَا ذَاكَ؟"، قَالُوا: الَّذِي نَهَيْتَ عَنْهُ مِنْ إِمْسَاكِ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ، قَالَ: " إِنَّمَا نَهَيْتُ عَنْهُ لِلدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ، فَكُلُوا، وَتَصَدَّقُوا، وَادَّخِرُوا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دفعہ بقر عید کے قریب اہل دیہات میں غونیا کی بیماری پھیل گئی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قربانی کا گوشت کھاؤ اور صرف تین دن تک ذخیرہ کرکے رکھو، اس واقعے کے بعد کچھ لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ! لوگ اپنی قربانی کے جانوروں سے فائدہ اٹھاتے تھے اور ان کی چربی پگھلا لیا کرتے تھے اور اس کے مشکیزے بنا لیا کرتے تھے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اب کیا ہوا؟ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تو اس بیماری کی وجہ سے منع کیا تھا جو پھیل رہی تھی، اب تم اسے کھاؤ صدقہ کرو یا ذخیرہ کرو۔
حدثنا يحيى ، عن هشام بن عروة ، قال: اخبرني ابي ، قال: اخبرتني عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليه الناس في مرضه يعودونه، فصلى بهم جالسا، فجعلوا يصلون قياما، فاشار إليهم ان اجلسوا، فلما فرغ، قال: " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا صلى جالسا، فصلوا جلوسا" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ النَّاسُ فِي مَرَضِهِ يَعُودُونَهُ، فَصَلَّى بِهِمْ جَالِسًا، فَجَعَلُوا يُصَلُّونَ قِيَامًا، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ اجْلِسُوا، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: " إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا، فَصَلُّوا جُلُوسًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں کچھ لوگوں کی عیادت کے لئے بارگاہ نبوت میں حاضری ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کردیا اور نماز سے فارغ ہو کر فرمایا امام اسی لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
حدثنا يحيى ، قال: اخبرنا هشام ، قال: اخبرني ابي ، قال: اخبرتني عائشة ان رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن امي افتلتت نفسها، واظنها لو تكلمت تصدقت، فهل لها اجر ان اتصدق عنها؟ قال:" نعم" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ أنْ أَتَصَدَّقْ عَنْهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری والدہ کی روح قبض ہوگئی ہے، میرا گمان یہ ہے کہ اگر وہ کچھ بول سکتیں تو کچھ صدقہ کرنے کا حکم دیتیں، اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا انہیں اس کا اجر ملے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں!
حدثنا يحيى ، عن هشام ، قال ابي: ح ووكيع ، حدثنا هشام المعنى، قال: حدثني ابي ، عن عائشة ان ام حبيبة، وام سلمة، ذكرتا كنيسة راينها بالحبشة، فيها تصاوير، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن اولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح، فمات، بنوا على قبره مسجدا، وصوروا فيه تلك الصور، اولئك شرار الخلق عند الله عز وجل يوم القيامة" ، قال ابي: قال وكيع: إنهم تذاكروا عند النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه، فذكرت ام سلمة وام حبيبة كنيسة راينها في ارض الحبشة.حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ أَبِي: ح وَوَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ، ذَكَرَتَا كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالْحَبَشَةِ، فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمْ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" ، قَالَ أَبِي: قَالَ وَكِيعٌ: إِنَّهُمْ تَذَاكَرُوا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ، فَذَكَرَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَأُمُّ حَبِيبَةَ كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا فِي أَرْضِ الْحَبَشَةِ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک کنیسے کا تذکرہ کیا جو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اور جس میں تصاویر بھی تھیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تھا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنالیتے تھے اور وہاں یہ تصویریں بنا لیتے تھے، وہ لوگ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین مخلوق ہوں گے۔
حدثنا يحيى ، عن إسماعيل ، قال: حدثنا قيس ، عن ابي سهلة ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ادعوا لي بعض اصحابي"، قلت: ابو بكر؟ قال:" لا"، قلت: عمر؟ قال:" لا"، قلت: ابن عمك علي؟ قال:" لا"، قالت: قلت: عثمان؟ قال:" نعم"، فلما جاء قال:" تنحي"، فجعل يساره، ولون عثمان يتغير، فلما كان يوم الدار وحصر فيها، قلنا يا امير المؤمنين، الا تقاتل؟ قال: لا، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلي عهدا، وإني صابر نفسي عليه .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَيْسٌ ، عَنْ أَبِي سَهْلَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ادْعُوا لِي بَعْضَ أَصْحَابِي"، قُلْتُ: أَبُو بَكْرٍ؟ قَالَ:" لَا"، قُلْتُ: عُمَرُ؟ قَالَ:" لَا"، قُلْتُ: ابْنُ عَمِّكَ عَلِيٌّ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَت: قُلْتُ: عُثْمَانُ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، فَلَمَّا جَاءَ قَالَ:" تَنَحَّيْ"، فجَعَلَ يُسَارُّهُ، وَلَوْنُ عُثْمَانَ يَتَغَيَّرُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الدَّارِ وَحُصِرَ فِيهَا، قُلْنَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَلَا تُقَاتِلُ؟ قَالَ: لَا، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا، وَإِنِّي صَابِرٌ نَفْسِي عَلَيْهِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مرض الوفات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے کچھ ساتھیوں کو میرے پاس بلاؤ، میں نے عرض کیا ابوبکر کو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، میں نے عرض کیا عمر کو، فرمایا نہیں، میں عرض کیا عمر کو؟ فرمایا نہیں، میں عرض کیا عثمان کو بلاؤں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! جب وہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہاں سے ہٹ جانے کے لئے فرمایا اور ان کے ساتھ سرگوشی میں باتیں کرنے لگے اس دوران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے چہرے کا رنگ بدلتا رہا، پھر جب یوم الدار کے موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا گیا تو ہم نے ان سے کہا امیر المومنین! آپ قتال کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا، میں اس پر ثابت قدم رہوں گا۔
حدثنا يحيى ، عن إسماعيل ، حدثنا قيس ، قال: لما اقبلت عائشة بلغت مياه بني عامر ليلا، نبحت الكلاب، قالت: اي ماء هذا؟ قالوا: ماء الحوءب، قالت: ما اظنني إلا اني راجعة، فقال بعض من كان معها: بل تقدمين، فيراك المسلمون، فيصلح الله عز وجل ذات بينهم، قالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا ذات يوم: " كيف بإحداكن تنبح عليها كلاب الحوءب؟" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ ، قَالَ: لَمَّا أَقْبَلَتْ عَائِشَةُ بَلَغَتْ مِيَاهَ بَنِي عَامِرٍ لَيْلًا، نَبَحَتْ الْكِلَابُ، قَالَتْ: أَيُّ مَاءٍ هَذَا؟ قَالُوا: مَاءُ الْحَوْءَبِ، قَالَتْ: مَا أَظُنُّنِي إِلَّا أَنِّي رَاجِعَةٌ، فَقَالَ بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهَا: بَلْ تَقْدَمِينَ، فَيَرَاكِ الْمُسْلِمُونَ، فَيُصْلِحُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ذَاتَ بَيْنِهِمْ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا ذَاتَ يَوْمٍ: " كَيْفَ بِإِحْدَاكُنَّ تَنْبَحُ عَلَيْهَا كِلَابُ الْحَوْءَبِ؟" .
قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رات کے وقت بنو عامر کے چشموں کے قریب پہنچیں تو وہاں کتے بھونکنے لگے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا یہ کون سا چشمہ ہے؟ لوگوں نے بتایا مقام حوأب کا چشمہ، اس کا نام سنتے ہی انہوں نے فرمایا میرا خیال ہے کہ اب میں یہیں سے واپس جاؤں گی، ان کے کسی ہمراہی نے کہا کہ آپ چلتی رہیں، مسلمان آپ کو دیکھیں گے تو ہوسکتا ہے کہ اللہ ان کے درمیان صلح کروادے، انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا تم میں سے ایک عورت کی اس وقت کیا کیفیت ہوگی جس پر مقام حوأب کے کتے بھونکیں گے۔
حدثنا يحيى ووكيع ، حدثنا هشام ، قال: اخبرني ابي ، عن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يامر بقتل ذي الطفيتين يقول:" إنه يصيب الحبل، ويلتمس البصر" .حَدَّثَنَا يَحْيَى وَوَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِقَتْلِ ذِي الطُّفْيَتَيْنِ يَقُولُ:" إِنَّهُ يُصِيبُ الْحَبَلَ، وَيَلْتَمِسُ الْبَصَرَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سانپوں کو جو دم کٹے ہوں یا دودھاری ہوں مارنے کا حکم دیتے تھے کیونکہ ایسے سانپ بینائی کو زائل کردیتے ہیں اور عورتوں کے پیٹ سے حمل ضائع کردیتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3308، 3309، م: 2232
حدثنا يحيى ووكيع ، حدثنا هشام ، قال: اخبرني ابي ، عن عائشة " ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي بصبي ليحنكه، فاجلسه في حجره، فبال عليه، فدعا بماء، فاتبعه إياه" ، قال وكيع: فاتبعه إياه ولم يغسله.حَدَّثَنَا يَحْيَى وَوَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِصَبِيٍّ لِيُحَنِّكَهُ، فَأَجْلَسَهُ فِي حَجْرِهِ، فَبَالَ عَلَيْهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ، فَأَتْبَعَهُ إِيَّاهُ" ، قَالَ وَكِيعٌ: فَأُتْبِعَهُ إِيَّاهُ وَلَمْ يَغْسِلْهُ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوگ اپنے اپنے بچوں کو لاتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے دعا فرماتے تھے، ایک مرتبہ ایک بچے کو لایا گیا تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاب کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر پانی بہادو۔
حدثنا يحيى ووكيع ، عن هشام المعنى، قال: يحيى، اخبرني ابي ، قال: اخبرتني عائشة ، عن غسل رسول الله صلى الله عليه وسلم من الجنابة، قالت: " كان يبدا بيديه فيغسلهما"، قال وكيع: يغسل كفيه ثلاثا،" ثم يتوضا وضوءه للصلاة، ثم يخلل اصول شعر راسه، حتى إذا ظن انه قد استبرا البشرة، اغترف ثلاث غرفات، فصبهن على راسه، ثم افاض على سائر جسده" ، قال ابن نمير: غرف بيديه ملء كفيه ثلاثا.حَدَّثَنَا يَحْيَى وَوَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامٍ الْمَعْنَى، قَالَ: يَحْيَى، أَخْبَرَنِي أَبِي ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ ، عَنْ غُسْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجَنَابَةِ، قَالَتْ: " كَانَ يَبْدَأُ بِيَدَيْهِ فَيَغْسِلُهُمَا"، قَالَ وَكِيعٌ: يَغْسِلُ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا،" ثُمَّ يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يُخَلِّلُ أُصُولَ شَعَرِ رَأْسِهِ، حَتَّى إِذَا ظَنَّ أَنَّهُ قَدْ اسْتَبْرَأَ الْبَشَرَةَ، اغْتَرَفَ ثَلَاثَ غَرَفَاتٍ، فَصَبَّهُنَّ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ" ، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: غَرَفَ بِيَدَيْهِ مِلْءَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کی تفصیل یوں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوتے تھے، پھر نماز جیسا وضو فرماتے تھے، پھر سر کے بالوں کی جڑوں کا خلال فرماتے تھے اور جب یقین ہوجاتا کہ کھال تک ہاتھ پہنچ گیا ہے، تو تین مرتبہ پانی بہاتے، پھر باقی جسم پر پانی ڈالتے تھے۔
حدثنا يحيى ، عن هشام ، قال: اخبرني ابي ، عن عائشة ، قالت: " ما رايت النبي صلى الله عليه وسلم يقرا في شيء من صلاة الليل جالسا، حتى إذا كبر، قرا جالسا، حتى إذا بقي عليه من السورة ثلاثون او اربعون آية، قام فقراهن، ثم ركع" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ جَالِسًا، حَتَّى إِذَا كَبِرَ، قَرَأَ جَالِسًا، حَتَّى إِذَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنَ السُّورَةِ ثَلَاثُونَ أَوْ أَرْبَعُونَ آيَةً، قَامَ فَقَرَأَهُنَّ، ثُمَّ رَكَعَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی رات کی نماز بیٹھ کر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن مبارک جب بھاری ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر ہی " جتنی اللہ کو منظور ہوتی " نماز پڑھ لیتے تھے اور جب اس سورت کی تیس یا چالیس آیات رہ جاتیں تو کھڑے ہوجاتے، پھر ان کی تلاوت کرکے سجدے میں جاتے تھے۔
حدثنا يحيى ، عن ابن ابى ذئب ، قال: حدثني محمد بن عمرو بن عطاء ، عن ذكوان مولى عائشة، عن عائشة ، قالت: دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم باسير، فلهوت عنه، فذهب، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" ما فعل الاسير"، قالت: لهوت عنه مع النسوة، فخرج، فقال:" ما لك؟ قطع الله يدك، او يديك"، فخرج فآذن به الناس، فطلبوه، فجاءوا به، فدخل علي وانا اقلب يدي، فقال:" ما لك، اجننت؟"، قلت: دعوت علي، فانا اقلب يدي انظر ايهما يقطعان، فحمد الله، واثنى عليه، ورفع يديه مدا، وقال: " اللهم إني بشر اغضب كما يغضب البشر، فايما مؤمن او مؤمنة دعوت عليه، فاجعله له زكاة وطهورا" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ أَبِى ذِئْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ ذَكْوَانَ مَوْلَى عَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَسِيرٍ، فَلَهَوْتُ عَنْهُ، فَذَهَبَ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مَا فَعَلَ الْأَسِيرُ"، قَالَتْ: لَهَوْتُ عَنْهُ مَعَ النِّسْوَةِ، فَخَرَجَ، فَقَالَ:" مَا لَكِ؟ قَطَعَ اللَّهُ يَدَكِ، أَوْ يَدَيْكِ"، فَخَرَجَ فَآذَنَ بِهِ النَّاسَ، فَطَلَبُوهُ، فَجَاءوا بِهِ، فَدَخَلَ عَلَيَّ وَأَنَا أُقَلِّبُ يَدَيَّ، فَقَالَ:" مَا لَكِ، أَجُنِنْتِ؟"، قُلْتُ: دَعَوْتَ عَلَيَّ، فَأَنَا أُقَلِّبُ يَدَيَّ أَنْظُرُ أَيُّهُمَا يُقْطَعَانِ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْه، وَرَفَعَ يَدَيْهِ مَدًّا، وَقَالَ: " اللَّهُمَّ إِنِّي بَشَرٌ أَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ، فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ أَوْ مُؤْمِنَةٍ دَعَوْتُ عَلَيْهِ، فَاجْعَلْهُ لَهُ زَكَاةً وَطُهُورًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں ایک قیدی کو لے کر آئے، میں عورتوں کے ساتھ لگ کر اس سے غافل ہوگئی اور وہ بھا گ گیا، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو فرمایا وہ قیدی کہاں گیا؟ میں نے عرض کیا کہ میں عورتوں کے ساتھ لگ کر غافل ہوگئی تھی، اسی دوران وہ بھاگ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کرے تمہارے ہاتھ ٹوٹیں، یہ تم نے کیا کیا؟ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر جا کر لوگوں میں اس کی منادی کرا دی، لوگ اس کی تلاش میں نکلے اور اسے پکڑ لائے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے تو میں اپنے ہاتھوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہوا؟ تم دیوانی تو نہیں ہوگئیں؟ میں نے عرض کیا کہ آپ نے مجھے بددعادی تھی، اس لئے میں اپنے ہاتھ پلٹ کر دیکھ رہی ہوں کہ ان میں سے کون سا ہاتھ ٹوٹے گا؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور اللہ کی حمد وثناء کرنے کے بعد فرمایا اے اللہ! میں بھی ایک انسان ہوں اور دوسرے انسانوں کی طرح مجھے بھی غصہ آتا ہے، سو میں نے جس مومن مرد و عورت کو بددعا دی ہو تو اسے اس کے حق میں تزکیہ اور طہارت کا سبب بنادے۔
حدثنا يحيى ، عن يحيى ، عن رجل ، عن عمرة ، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ما زال جبريل عليه السلام يوصيني بالجار حتى ظننت انه سيورثه" ، قال يحيى: اراه سمى لي ابا بكر بن محمد، ولكن نسيت اسمه.حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا زَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ" ، قَالَ يَحْيَى: أُرَاهُ سَمَّى لِي أَبَا بَكْرِ بْنَ مُحَمَّدٍ، وَلَكِنْ نَسِيتُ اسْمَهُ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے مسلسل پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتے رہے، حتیٰ کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کوئی ایسا کپڑا نہیں چھوڑتے تھے جس میں صلیب کا نشان بنا ہوا ہو، یہاں تک کہ اسے ختم کردیتے۔
حدثنا يحيى ، عن هشام ، قال: حدثنا يحيى ، عن ابي سلمة ، قال: حدثتني عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يصلي الركعتين بين النداء وصلاة الصبح" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَصَلَاةِ الصُّبْحِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی اذان اور نماز کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثني موسى بن ابي عائشة ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن عائشة لددنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه، فاشار ان لا تلدوني، قلت: كراهية المريض الدواء، فلما افاق، قال: " الم انهكم ان تلدوني"، قال:" لا يبقى منكم احد إلا لد غير العباس، فإنه لم يشهدكن" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ لَدَدْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ، فَأَشَارَ أَنْ لَا تَلُدُّونِي، قُلْتُ: كَرَاهِيَةُ الْمَرِيضِ الدَّوَاءَ، فَلَمَّا أَفَاقَ، قَالَ: " أَلَمْ أَنْهَكُمْ أَنْ تَلُدُّونِي"، قَالَ:" لَا يَبْقَى مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا لُدَّ غَيْرُ الْعَبَّاسِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَشْهَدْكُنَّ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں، ان کے منہ میں دوا ٹپکا دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اشارہ سے منع کرتے رہ گئے کہ میرے منہ میں دوا نہ ڈالو، ہم سمجھے کہ یہ اسی طرح ہے جیسے ہر بیمار دوائی کو ناپسند کرتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب افاقہ ہوا تو فرمایا کیا میں نے تمہیں اس بات سے منع نہیں کیا تھا کہ میرے منہ میں دوا نہ ڈالو، اب عباس کے علاوہ اس گھر میں کوئی بھی ایسا نہ رہے جس کے منہ میں دوا نہ ڈالی جائے، کیونکہ وہ تمہارے ساتھ موجود نہیں تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس کے لئے باعث اجر اور کفارہ بن جاتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد حسن من أجل حمزة
حدثنا يحيى ، عن حاتم يعني ابن ابي صغيرة ، قال: حدثنا ابن ابي مليكة ، ان القاسم بن محمد اخبره، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إنكم تحشرون يوم القيامة حفاة عراة غرلا"، قالت عائشة: يا رسول الله، الرجال والنساء ينظر بعضهم إلى بعض؟! قال:" يا عائشة، إن الامر اشد من ان يهمهم ذلك" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ حَاتِمٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِي صَغِيرَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّكُمْ تُحْشَرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا"، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ؟! قَالَ:" يَا عَائِشَةُ، إِنَّ الْأَمْرَ أَشَدُّ مِنْ أَنْ يُهِمَّهُمْ ذَلِكَ" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن تم لوگ ننگے پاؤں، ننگے جسم اور غیر مختون حالت میں جمع کئے جاؤ گے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مرد و عورت ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہونگے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! اس وقت کا معاملہ اس سے بہت سخت ہوگا کہ لوگ اس طرف توجہ کرسکیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمارے پاس ایک پردہ تھا جس پر کسی پرندے کی تصویر بنی ہوئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا عائشہ! اس پردے کو بدل دو، میں جب بھی گھر میں آتا ہوں اور اس پر میری نظر پڑتی ہے تو مجھے دنیا یاد آجاتی ہے، اسی طرح ہمارے پاس ایک چادر تھی جس کے متعلق ہم یہ کہتے تھے کہ اس کے نقش و نگار ریشم کے ہیں، ہم اسے اوڑھ لیا کرتے تھے۔
حدثنا يحيى ، عن يحيى بن سعيد ، قال: حدثتني عمرة ، قالت: سمعت عائشة ، تقول: جاءتني يهودية تسالني، فقالت: اعاذك الله من عذاب القبر، فلما جاء النبي صلى الله عليه وسلم، قلت: يا رسول الله، انعذب في القبور؟ قال: " عائذ بالله"، فركب مركبا، فخسفت الشمس، فخرجت، فكنت بين الحجر مع النسوة، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم من مركبه، فاتى مصلاه، فصلى الناس وراءه، فقام، فاطال القيام، ثم ركع، فاطال الركوع، ثم رفع راسه، فاطال القيام، ثم ركع، فاطال الركوع، ثم رفع راسه، فاطال القيام، ثم سجد، فاطال السجود، ثم قام ايسر من قيامه الاول، ثم ركع ايسر من ركوعه الاول، ثم قام ايسر من قيامه الاول، ثم ركع ايسر من ركوعه الاول، ثم سجد ايسر من سجوده الاول، فكانت اربع ركعات، واربع سجدات، فتجلت الشمس، فقال:" إنكم تفتنون في القبور كفتنة الدجال"، قالت: فسمعته بعد ذلك يستعيذ بالله من عذاب القبر .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَمْرَةُ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: جَاءَتْنِي يَهُودِيَّةٌ تَسْأَلُنِي، فَقَالَتْ: أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنُعَذَّبُ فِي الْقُبُورِ؟ قَالَ: " عَائِذٌ بِاللَّهِ"، فَرَكِبَ مَرْكَبًا، فَخَسَفَتْ الشَّمْسُ، فَخَرَجْتُ، فَكُنْتُ بَيْنَ الْحُجَرِ مَعَ النِّسْوَةِ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَرْكَبِهِ، فَأَتَى مُصَلَّاهُ، فَصَلَّى النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَقَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ قَامَ أَيْسَرَ مِنْ قِيَامِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ أَيْسَرَ مِنْ رُكُوعِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَامَ أَيْسَرَ مِنْ قِيَامِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ أَيْسَرَ مِنْ رُكُوعِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ أَيْسَرَ مِنْ سُجُودِهِ الْأَوَّلِ، فَكَانَتْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، فَتَجَلَّتْ الشَّمْسُ، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ كَفِتْنَةِ الدَّجَّال"، قَالَتْ: فَسَمِعْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَسْتَعِيذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میرے پاس ایک یہودی عورت کچھ مانگنے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تمہیں عذاب قبر سے بچائے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہمیں قبروں میں عذاب ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی پناہ! اور سواری پر سوار ہوگئے، اسی دوران سورج گرہن ہوگیا، میں بھی نکلی اور دیگر ازواج مطہرات کے ساتھ ابھی حجروں کے درمیان ہی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگئے، وہ اپنے مصلیٰ پر تشریف لے گئے، لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز کی نیت باندھ لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا، پھر طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھا کر کافی دیر تک کھڑے رہے، پھر دوبارہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھا کر طویل قیام کیا، پھر لمبا سجدہ کیا، پھر کھڑے ہوئے لیکن اس مرتبہ کا قیام پہلی رکعت کی نسبت مختصر تھا، اسی طرح پہلا رکوع پہلی رکعت کے پہلے رکوع، قیام پہلے قیام سے، دوسرا رکوع پہلے رکوع سے اور سجدہ پہلے سجدہ کی نسبت مختصر تھا، اس طرح چار رکوع اور چار سجدے ہوئے، اسی دوران سورج بھی روپوش ہوگیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبروں میں تمہاری آزمائش اس طرح ہوگی جیسے دجال کے ذریعے آزمائش ہوگی، اس کے بعد میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے سنا۔
حدثنا يحيى ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن سعد بن هشام انه طلق امراته، ثم ارتحل إلى المدينة ليبيع عقارا له بها، ويجعله في السلاح والكراع، ثم يجاهد الروم حتى يموت، فلقي رهطا من قومه، فحدثوه ان رهطا من قومه ستة ارادوا ذلك على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" اليس لكم في اسوة حسنة؟" فنهاهم عن ذلك، فاشهدهم على رجعتها، ثم رجع إلينا، فاخبرنا انه اتى ابن عباس، فساله عن الوتر؟ فقال: الا انبئك باعلم اهل الارض بوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قال: ائت عائشة فاسالها، ثم ارجع إلي فاخبرني بردها عليك، قال: فاتيت على حكيم بن افلح، فاستلحقته إليها، فقال: ما انا بقاربها، إني نهيتها ان تقول في هاتين الشيعتين شيئا، فابت فيهما إلا مضيا، فاقسمت عليه، فجاء معي، فدخلنا عليها، فقالت: حكيم؟ وعرفته، قال: نعم، او بلى، قالت: من هذا معك؟ قال: سعد بن هشام، قالت: من هشام؟ قال: ابن عامر، قال: فترحمت عليه، وقالت: نعم المرء كان عامر، قلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: الست تقرا القرآن؟ قلت: بلى، قالت: " فإن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم كان القرآن"، فهممت ان اقوم، ثم بدا لي قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: الست تقرا هذه السورة يا ايها المزمل، قلت: بلى، قالت:" فإن الله عز وجل افترض قيام الليل في اول هذه السورة، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه حولا حتى انتفخت اقدامهم، وامسك الله عز وجل خاتمتها في السماء اثني عشر شهرا، ثم انزل الله عز وجل التخفيف في آخر هذه السورة، فصار قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم تطوعا من بعد فريضته"، فهممت ان اقوم، ثم بدا لي وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت:" كنا نعد له سواكه وطهوره، فيبعثه الله عز وجل لما شاء ان يبعثه من الليل، فيتسوك، ثم يتوضا، ثم يصلي ثماني ركعات لا يجلس فيهن إلا عند الثامنة، فيجلس ويذكر ربه عز وجل، ويدعو ويستغفر، ثم ينهض ولا يسلم، ثم يصلي التاسعة، فيقعد، فيحمد ربه ويذكره ويدعو، ثم يسلم تسليما يسمعنا، ثم يصلي ركعتين وهو جالس بعدما يسلم، فتلك إحدى عشرة ركعة، يا بني، فلما اسن رسول الله صلى الله عليه وسلم واخذ اللحم، اوتر بسبع، ثم صلى ركعتين وهو جالس بعدما يسلم، فتلك تسع يا بني، وكان نبي الله صلى الله عليه وسلم، إذا صلى صلاة احب ان يداوم عليها، وكان إذا شغله عن قيام الليل نوم او وجع او مرض صلى من النهار اثنتي عشرة ركعة، ولا اعلم نبي الله صلى الله عليه وسلم قرا القرآن كله في ليلة، ولا قام ليلة حتى اصبح، ولا صام شهرا كاملا غير رمضان" ، فاتيت ابن عباس، فحدثته بحديثها، فقال: صدقت، اما لو كنت ادخل عليها لاتيتها حتى تشافهني مشافهة.حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، ثُمَّ ارْتَحَلَ إِلَى الْمَدِينَةِ لِيَبِيعَ عَقَارًا لَهُ بِهَا، وَيَجْعَلَهُ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ، ثُمَّ يُجَاهِدَ الرُّومَ حَتَّى يَمُوتَ، فَلَقِيَ رَهْطًا مِنْ قَوْمِهِ، فَحَدَّثُوهُ أَنَّ رَهْطًا مِنْ قَوْمِهِ سِتَّةً أَرَادُوا ذَلِكَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَلَيْسَ لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ؟" فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ، فَأَشْهَدَهُمْ عَلَى رَجْعَتِهَا، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْنَا، فَأَخْبَرَنَا أَنَّهُ أَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ، فَسَأَلَهُ عَنِ الْوَتْر؟ فَقَالَ: أَلَا أُنَبِّئُكَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ائْتِ عَائِشَةَ فَاسْأَلْهَا، ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ، قَالَ: فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ، فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا، فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِهَا، إِنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا، فَأَبَتْ فِيهِمَا إِلَّا مُضِيًّا، فَأَقْسَمْتُ عَلَيْه، فَجَاءَ مَعِي، فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: حَكِيمٌ؟ وَعَرَفَتْهُ، قَالَ: نَعَمْ، أَوْ بَلَى، قَالَتْ: مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قَالَ: ابْنُ عَامِرٍ، قَالَ: فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرٌ، قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: " فَإِنَّ خُلُقَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ"، فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ، ثُمَّ بَدَا لِي قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ هَذِهِ السُّورَةَ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ:" فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَاتِمَتَهَا فِي السَّمَاءِ اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التَّخْفِيفَ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَصَارَ قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَطَوُّعًا مِنْ بَعْدِ فَرِيضَتِهِ"، فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ، ثُمَّ بَدَا لِي وَتْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ وَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ:" كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَمَانِي رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ، فَيَجْلِسُ وَيَذْكُرُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَيَدْعُو وَيَسْتَغْفِرُ، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ، فَيَقْعُدُ، فَيَحْمَدُ رَبَّهُ وَيَذْكُرُهُ وَيَدْعُو، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ، فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُخِذَ اللَّحْمُ، أَوْتَرَ بِسَبْعٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ، فَتِلْكَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ، وَكَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ نَوْمٌ أَوْ وَجَعٌ أَوْ مَرَضٌ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا قَامَ لَيْلَةً حَتَّى أَصْبَحَ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ" ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا، فَقَالَ: صَدَقْتَ، أَمَا لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي مُشَافَهَةً.
حضرت زرارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھر اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کا ارادہ کیا تو وہ مدینہ منورہ آگئے اور اپنی زمین وغیرہ بیچنے کا ارادہ کیا تاکہ اس کے ذریعہ سے اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ خرید سکیں اور مرتے دم تک روم والوں سے جہاد کریں تو جب وہ مدینہ منورہ میں آگئے اور مدینہ والوں میں سے کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس طرح کرنے سے منع کیا اور ان کو بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاۃ طیبہ میں چھ آدمیوں نے بھی اسی طرح کا ارادہ کیا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اس طرح کرنے سے روک دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے میری زندگی میں نمونہ نہیں ہے؟ جب مدینہ والوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنی اس بیوی سے رجوع کیا جس کو وہ طلاق دے چکے تھے اور اپنے اس رجوع کرنے پر لوگوں کو گواہ بنا لیا۔ پھر وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف آئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ کیا میں تجھے وہ آدمی نہ بتاؤں جو زمین والوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں جانتا ہے؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ کون ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو ان کی طرف جا اور ان سے پو چھ پھر اس کے بعد میرے پاس آ اور وہ جو جواب دیں مجھے بھی اس سے باخبر کرنا۔ (حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا) کہ میں پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف چلا (اور پہلے میں) حکیم بن افلح کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لے کر چلو۔ وہ کہنے لگے کہ میں تجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لے کر نہیں جاسکتا کیونکہ میں نے انہیں اس بات سے روکا تھا کہ وہ ان دو گروہوں (علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ نہ کہیں تو انہوں نے نہ مانا اور چلی گئیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان پر قسم ڈالی تو وہ ہمارے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف آنے کے لئے چل پڑے اور ہم نے اجازت طلب کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں اجازت دی اور ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکیم بن افلح کو پہچان لیا اور فرمایا کیا یہ حکیم ہیں؟ حکیم کہنے لگے کہ جی ہاں! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تیرے ساتھ کون ہے؟ حکیم نے کہا کہ سعد بن ہشام ہیں، آپ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہشام کون ہے؟ حکیم نے کہا کہ عامر کا بیٹا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عامر پر رحم کی دعا فرمائی اور اچھے کلمات کہے۔ میں نے عرض کیا اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتایئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا پڑھتا ہوں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تو تھا، حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں اٹھ کھڑا ہو کر جاؤں اور مرتے دم تک کسی سے کچھ نہ پوچھوں۔ پھر مجھے خیال آیا تو میں نے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی نماز) کے قیام کے بارے میں بتائیے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تم نے یا ایھا المزمل نہیں پڑھی؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتداء ہی میں رات کا قیام فرض کردیا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک سال رات کو قیام فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصہ کو بارہ مہینوں تک آسمان میں روک دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی تو پھر رات کا قیام (تہجد) فرض ہونے کے بعد نفل ہوگیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم آپ کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ آپ کو رات کو جب چاہتا بیدار کردیتا تو آپ مسواک فرماتے اور وضو فرماتے اور نو رکعات نماز پڑھتے۔ ان رکعتوں میں نہ بیٹھتے سوائے آٹھویں رکعت کے بعد اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد کرتے اور اس سے دعا مانگتے پھر آپ اٹھتے اور سلام نہ پھیرتے پھر کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے پھر آپ بیٹھتے، اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد بیان فرماتے اور اس سے دعا مانگتے۔ پھر آپ سلام پھیرتے اور سلام پھیرنا ہمیں سنا دیتے۔ پھر آپ سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعات نماز پڑھتے تو یہ گیارہ رکعتیں ہوگئیں۔ اے میرے بیٹے! پھر جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک زیادہ ہوگئی اور آپ کے جسم مبارک پر گوشت آگیا تو سات رکعتیں وتر پڑھنے لگے اور دو رکعتیں اسی طرح پڑھتے جس طرح پہلے بیان کیا تو یہ نور رکعتی
حدثنا يحيى ، عن ابي حزرة ، قال: حدثني عبد الله بن محمد ، قال: سمعت عائشة ، تقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا يصلى بحضرة الطعام، ولا وهو يدافعه الاخبثان" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ أَبِي حَزْرَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يُصَلَّى بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ، وَلَا وَهُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی شخص کھانا سامنے آجانے پر اور بول و براز کے تقاضے کو دبا کر نماز نہ پڑھے۔
حدثنا يحيى ، حدثنا ابن جريج ، قال: حدثني عطاء ، عن عبيد بن عمير ، عن عائشة ، قالت: " لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم على شيء من النوافل اشد معاهدة منه على الركعتين قبل الصبح" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مُعَاهَدَةً مِنْهُ عَلَى الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوافل کے معاملے میں فجر سے پہلے کی دو رکعتوں سے زیادہ کسی نفلی نماز کی اتنی پابندی نہیں فرماتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال کے مہینے میں مجھ سے نکاح فرمایا اور شوال ہی میں مجھے ان کے یہاں رخصت کیا گیا، اب یہ بتاؤ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مجھ سے زیادہ کس بیوی کا حصہ تھا؟ (لہٰذا یہ کہنا کہ شوال کا مہینہ منحوس ہے، غلط ہے) اسی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کو پسند فرماتی تھیں کہ عورتوں کی رخصتی ماہ شوال ہی میں ہو۔
حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، قال: سمعت القاسم ، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم " إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن ام مكتوم" ، قال: ولا اعلمه إلا كان قدر ما ينزل هذا ويرقى هذا.حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ" ، قَالَ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا كَانَ قَدْرَ مَا يَنْزِلُ هَذَا وَيَرْقَى هَذَا.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال اس وقت اذان دیتے ہیں جب رات باقی ہوتی ہے اس لئے اس کے بعد تم کھا پی سکتے ہو، یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دے دیں، وہ کہتی ہیں کہ میرے علم کے مطابق وہ اتنی ہی مقدار بنتی تھی کہ جس میں کوئی اتر آئے اور کوئی چڑھ جائے۔
حدثنا يحيى ، عن عبيد الله ، قال: سمعت القاسم يحدث، عن عائشة ، قالت: بئسما عدلتمونا بالكلب والحمار، قد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي وانا معترضة بين يديه، فإذا اراد ان يسجد، غمز، يعني رجلي، فقبضتهما إلي، ثم سجد" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمِ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: بِئْسَمَا عَدَلْتُمُونَا بِالْكَلْبِ وَالْحِمَارِ، قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي وَأَنَا مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ، غَمَزَ، يَعْنِي رِجْلَيَّ، فَقَبَضْتُهُمَا إِلَيَّ، ثُمَّ سَجَدَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو میں ان کے اور قبلے کے درمیان لیٹی ہوتی تھی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرنا چاہتے تو میرے پاؤں میں چٹکی بھر دیتے، میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی اور وہ سجدہ کرلیتے۔
حدثنا يحيى ، عن محمد بن عمرو ، قال: حدثني ابو سلمة ، قال: قلت لعائشة : اي امتاه، كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد العشاء الآخرة؟ قالت: " تسعا قائما، وثنتين جالسا، وثنتين بعد النداءين" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ : أَيْ أُمَّتَاهُ، كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ؟ قَالَتْ: " تِسْعًا قَائِمًا، وَثِنْتَيْنِ جَالِسًا، وَثِنْتَيْنِ بَعْدَ النِّدَاءَيْنِ" .
ابو سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پو چھا اماں جان! نماز عشأ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا نور کعتیں کھڑے ہو کر، دو رکعتیں بیٹھ کر اور دو رکعتیں فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان پڑھتے تھے۔
حدثنا يحيى ، عن مجالد ، قال: حدثني عامر ، عن مسروق ، قال: قلت لعائشة هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول شيئا إذا دخل البيت؟ قالت: كان إذا دخل البيت تمثل: " لو كان لابن آدم واديان من مال، لابتغى واديا ثالثا، ولا يملا فمه إلا التراب، وما جعلنا المال إلا لإقام الصلاة وإيتاء الزكاة، ويتوب الله على من تاب" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ مُجَالِدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرٌ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ شَيْئًا إِذَا دَخَلَ الْبَيْتَ؟ قَالَتْ: كَانَ إِذَا دَخَلَ الْبَيْتَ تَمَثَّلَ: " لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ، لَابْتَغَى وَادِيًا ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ فَمَهُ إِلَّا التُّرَابُ، وَمَا جَعَلْنَا الْمَالَ إِلَّا لِإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ" .
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے وقت کچھ پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے وقت یوں کہتے تھے کہ اگر ابن آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی تلاش میں رہے گا اور اس کا منہ مٹی کے علاوہ کسی چیز سے نہیں بھر سکتا، ہم نے تو مال بنایا ہی اس لئے تھا کہ نماز قائم کی جائے اور زکوٰۃ ادا کی جائے اور جو تو بہ کرتا ہے، اللہ اس کی تو بہ کو قبول فرمالیتا ہے۔
حدثنا حدثنا يحيى ، عن ابن جريج ، قال: سمعت عطاء ، يقول: اخبرني عروة بن الزبير ، قال: كنت انا وابن عمر مستندين إلى حجرة عائشة ، إنا لنسمعها تستن، قلت: يا ابا عبد الرحمن، اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم في رجب؟ قال: نعم، قلت: يا امتاه، ما تسمعين ما يقول ابو عبد الرحمن؟ قالت: ما يقول؟ قلت: يقول:" اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم في رجب، قالت: يغفر الله لابي عبد الرحمن، نسي، " ما اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم في رجب" ، قال: وابن عمر يسمع، فما قال: لا، ولا نعم، سكت.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وابْنُ عُمَرَ مُسْتَنِدَيْنِ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ ، إِنَّا لَنَسْمَعُهَا تَسْتَنُّ، قُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجَبٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: يَا أُمَّتَاهُ، مَا تَسْمَعِينَ مَا يَقُولُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟ قَالَتْ: مَا يَقُولُ؟ قُلْتُ: يَقُولُ:" اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجَبٍ، قَالَتْ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، نَسِيَ، " مَا اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجَبٍ" ، قَالَ: وَابْنُ عُمَرَ يَسْمَعُ، فَمَا قَالَ: لَا، وَلَا نَعَمْ، سَكَتَ.
عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رجب میں عمرہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں! عروہ نے یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتائی تو انہوں نے فرمایا اللہ ابوعبدالرحمن پر رحم فرمائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمرہ بھی کیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس میں شریک رہے ہیں (لیکن یہ بھول گئے کہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں کبھی عمرہ نہیں کیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کی تائید کی اور نہ تردید، بلکہ خاموش رہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم دیتے تو میں ازار باندھ لیتی حالانکہ میں ایام سے ہوتی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے جسم کے ساتھ اپنا جسم لگا لیتے تھے اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک ایام سے ہونے کے باوجود دھو دیتی تھی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں ہوتے تھے۔
حدثنا يحيى ، عن زكريا ، عن عامر ، عن ابي سلمة ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن جبريل عليه السلام يقرا عليك السلام"، قالت: وعليه ورحمة الله .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ زَكَرِيَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ"، قَالَتْ: وَعَلَيْهِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک مرتبہ فرمایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، انہوں نے جواب دیا وَ عَلَیہِ وَ رَحمَۃُ اللَہِ۔
حدثنا يحيى ، عن سفيان ، قال: حدثني منصور ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: سالت عائشة اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخص شيئا من الايام؟ قالت: " لا، كان عمله ديمة، وايكم يطيق ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يطيق؟!" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخُصُّ شَيْئًا مِنَ الْأَيَّامِ؟ قَالَتْ: " لَا، كَانَ عَمَلُهُ دِيمَةً، وَأَيُّكُمْ يُطِيقُ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطِيقُ؟!" .
علقمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی ایام میں خصوصی اعمال کے متعلق پوچھا انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو طاقت تھی۔ وہ تم میں سے کس میں ہوسکتی ہے؟ البتہ یہ یاد رکھو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل دائمی ہوتا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قبر کو ایک مرتبہ بھینچا جاتا ہے، اگر کوئی شخص اس عمل سے بچ سکتا تو وہ سعد بن معاذ ہوتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد اختلف فيه على شعبة
حدثنا يحيى ، عن زكريا ، قال: حدثني عامر ، قال: حدثني شريح بن هانئ ، قال: حدثتني عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من احب لقاء الله عز وجل، احب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله، كره الله لقاءه، والموت قبل لقاء الله عز وجل" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ زَكَرِيَّا ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُرَيْحُ بْنُ هَانِئ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ، كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَالْمَوْتُ قَبْلَ لِقَاءِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اور جو اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ سے ملاقات ہونے سے پہلے موت ہوتی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلی امتوں میں کچھ لوگ محدث (جنہیں اللہ کی طرف سے الہام ہوتا ہو) ہوئے تھے، اگر میری امت میں ایسا کوئی شخص ہوسکتا ہے تو وہ عمر ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی نعش کو بوسہ دیا اور میں نے دیکھا کہ آنسو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بہہ رہے ہیں۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا نعس احدكم، فليرقد حتى يذهب عنه النوم، فإنه إذا صلى وهو ينعس لعله يذهب يستغفر، فيسب نفسه" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَرْقُدْ حَتَّى يَذْهَبَ عَنْهُ النَّوْمُ، فَإِنَّهُ إِذَا صَلَّى وَهُوَ يَنْعَسُ لَعَلَّهُ يَذْهَبُ يَسْتَغْفِرُ، فَيَسُبُّ نَفْسَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو اونگھ آئے تو اسے سو جانا چاہیے، یہاں تک کہ اس کی نیند پوری ہوجائے، کیونکہ اگر وہ اسی اونگھ کی حالت میں نماز پڑھنے لگے تو ہوسکتا ہے کہ وہ استغفار کرنے لگے اور بیخبر ی میں اپنے آپ کو گالیاں دینے لگے۔
حدثنا ابن نمير ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وهي اوبا ارض الله عز وجل، فاشتكى ابو بكر، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة، او اشد، وصححها وبارك لنا في مدها وصاعها، وانقل حماها، فاجعلها في الجحفة" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهِيَ أَوْبَأُ أَرْضِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَاشْتَكَى أَبُو بَكْرٍ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ، أَوْ أَشَدَّ، وَصَحِّحْهَا وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّهَا وَصَاعِهَا، وَانْقُلْ حُمَّاهَا، فَاجْعَلْهَا فِي الْجُحْفَةِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وبائی علاقہ تھا، جس کی بناء پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی اے اللہ! ہمیں مدینہ کی ویسی ہی بلکہ اس سے زیادہ محبت عطاء فرما جیسے ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں، اسے ہمارے موافق فرما، اس کے مد اور صاع میں ہمارے لئے برکتیں پیدا فرما اور یہاں کا بخار جحفہ کی طرف منتقل فرما دے۔
حدثنا ابن نمير ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان إذا امرهم بما يطيقون من العمل يقولون: يا رسول الله، إنا لسنا كهيئتك، إن الله عز وجل قد غفر لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر، قالت: فيغضب حتى يعرف الغضب في وجهه" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا أَمَرَهُمْ بِمَا يُطِيقُونَ مِنَ الْعَمَلِ يَقُولُونَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَتْ: فَيَغْضَبُ حَتَّى يُعْرَفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی ایسے کام کا حکم دیتے جس کی وہ طاقت رکھتے ہوں اور وہ کہتے یا رسول اللہ! ہم آپ کی طرح نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرمادیئے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوجاتے اور غصے کے آثار چہرہ مبارک پر نظر آنے لگتے تھے۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: خرجت سودة لحاجتها ليلا بعد ما ضرب عليهن الحجاب، قالت: وكانت امراة تفرع النساء، جسيمة، فوافقها عمر فابصرها، فناداها يا سودة، إنك والله ما تخفين علينا، إذا خرجت فانظري كيف تخرجين، او كيف تصنعين؟ فانكفات، فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وإنه ليتعشى، فاخبرته بما قال لها عمر، وإن في يده لعرقا، فاوحي إليه، ثم رفع عنه وإن العرق لفي يده، فقال: " لقد اذن لكن ان تخرجن لحاجتكن" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: خَرَجَتْ سَوْدَةُ لِحَاجَتِهَا لَيْلًا بَعْدَ مَا ضُرِبَ عَلَيْهِنَّ الْحِجَابُ، قَالَتْ: وَكَانَتْ امْرَأَةً تَفْرَعُ النِّسَاءَ، جَسِيمَةً، فَوَافَقَهَا عُمَرُ فَأَبْصَرَهَا، فَنَادَاهَا يَا سَوْدَةُ، إِنَّكِ وَاللَّهِ مَا تَخْفَيْنَ عَلَيْنَا، إِذَا خَرَجْتِ فَانْظُرِي كَيْفَ تَخْرُجِينَ، أَوْ كَيْفَ تَصْنَعِينَ؟ فَانْكَفَأَتْ، فَرَجَعَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ لَيَتَعَشَّى، فَأَخْبَرَتْهُ بِمَا قَالَ لَهَا عُمَرُ، وَإِنَّ فِي يَدِهِ لَعَرْقًا، فَأُوحِيَ إِلَيْهِ، ثُمَّ رُفِعَ عَنْهُ وَإِنَّ الْعَرْقَ لَفِي يَدِهِ، فَقَالَ: " لَقَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد ایک مرتبہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہ قضاء حاجت کے لئے نکلیں، چونکہ ان کا قد لمبا اور جسم بھاری تھا (اس لئے لوگ انہیں پہچان لیتے تھے) راستے میں انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر دور سے ہی پکارا سودہ! واللہ جب تم نکلتی ہو تو ہم سے پوشیدہ نہیں رہتیں اس لئے دیکھ لیا کرو کہ کس کیفیت میں باہر نکل رہی ہو، حضرت سودہ رضی اللہ عنہ الٹے قدموں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آگئیں، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات ذکر کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی، اسی لمحے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی، جب وہ کیفیت دور ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں وہ ہڈی اسی طرح تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں اپنی ضروریات کے لئے نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: اتى النبي صلى الله عليه وسلم اعرابي، فقال: يا رسول الله، اتقبل الصبيان؟! فوالله ما نقبلهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما املك ان الله عز وجل نزع من قلبك الرحمة؟! .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُقَبِّلُ الصِّبْيَانَ؟! فَوَاللَّهِ مَا نُقَبِّلُهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَمْلِكُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ نَزَعَ مِنْ قَلْبِكَ الرَّحْمَةَ؟! .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ بچوں کو چومتے ہیں؟ واللہ ہم تو انہیں بوسہ نہیں دیتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تو اس بات پر قدرت نہیں ہے کہ جب اللہ ہی نے تیرے دل سے رحمت کو کھینچ لیا ہے (تو میں کیسے ڈال دوں؟)۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: " كان ضجاع رسول الله صلى الله عليه وسلم من ادم حشوه من ليف" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " كَانَ ضِجَاعُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهُ مِنْ لِيفٍ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سوتے تھے، چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت:" اصيب سعد يوم الخندق، رماه رجل من قريش يقال له حبان بن العرقة في الاكحل، فضرب عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم خيمة في المسجد ليعوده من قريب" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" أُصِيبَ سَعْدٌ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُقَالُ لَهُ حِبَّانُ بْنُ الْعَرِقَةِ فِي الْأَكْحَلِ، فَضَرَبَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ لِيَعُودَهُ مِنْ قَرِيبٍ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے بازو کی ایک رگ میں ایک تیر آکر لگا جو قریش کے " حبان بن عرقہ " نامی ایک آدمی نے انہیں مارا تھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں ہی ان کا خیمہ لگوا دیا تاکہ قریب ہی سے ان کی عیادت کرلیا کریں۔
حدثنا ابن نمير ، عن هشام ، قال: اخبرني ابي ، عن عائشة ، قالت: لما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من الخندق، ووضع السلاح واغتسل، فاتاه جبريل عليه السلام وعلى راسه الغبار، قال: قد وضعت السلاح، فوالله ما وضعتها، اخرج إليهم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فاين؟"، قال: هاهنا، فاشار إلى بني قريظة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم، قال هشام: فاخبرني ابي انهم نزلوا على حكم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرد الحكم فيهم إلى سعد. قال: فإني احكم ان تقتل المقاتلة، وتسبى النساء والذرية، وتقسم اموالهم، قال هشام: قال ابي: فاخبرت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لقد حكمت فيهم بحكم الله عز وجل" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْخَنْدَقِ، وَوَضَعَ السِّلَاحَ وَاغْتَسَلَ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام وَعَلَى رَأْسِهِ الْغُبَارُ، قَالَ: قَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ، فَوَاللَّهِ مَا وَضَعْتُهَا، اخْرُجْ إِلَيْهِمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَأَيْنَ؟"، قَالَ: هَاهُنَا، فَأَشَارَ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ، قَالَ هِشَامٌ: فَأَخْبَرَنِي أَبِي أَنَّهُمْ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَدَّ الْحُكْمَ فِيهِمْ إِلَى سَعْدٍ. قَالَ: فَإِنِّي أَحْكُمُ أَنْ تُقَتَّلَ الْمُقَاتِلَةُ، وَتُسْبَى النِّسَاءُ وَالذُّرِّيَّةُ، وَتُقَسَّمَ أَمْوَالُهُمْ، قَالَ هِشَامٌ: قَالَ أَبِي: فَأُخْبِرْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے واپس آئے اور اسلحہ اتار کر غسل فرمانے لگے تو حضرت جبرائیل اس حال میں حاضر ہوئے کہ ان کے سر پر گردوغبار پڑا ہوا تھا اور عرض کیا کہ آپ نے اسلحہ رکھ بھی دیا؟ واللہ میں نے تو ابھی تک اسلحہ نہیں اتارا، آپ ان کی طرف روانہ ہوجائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کس طرف؟ انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہاں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوگئے اور وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر اپنے قلعوں سے اتر نے کے لئے تیار ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا فیصلہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے سپرد کردیا، انہوں نے فرمایا میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جنگجو لوگ قتل کردیئے جائیں، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیا جائے اور ان کا مال و دولت تقسیم کرلیا جائے۔
حدثنا ابن نمير ، قال: حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة " ان الحبشة كانوا يلعبون عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم عيد، قالت: فاطلعت من فوق عاتقه، فطاطا لي رسول الله صلى الله عليه وسلم منكبيه، فجعلت انظر إليهم من فوق عاتقه، حتى شبعت، ثم انصرفت" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ الْحَبَشَةَ كَانُوا يَلْعَبُونَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، قَالَتْ: فَاطَّلَعْتُ مِنْ فَوْقِ عَاتِقِهِ، فَطَأْطَأَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْكِبَيْهِ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ مِنْ فَوْقِ عَاتِقِهِ، حَتَّى شَبِعْتُ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عید کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ حبشی کرتب دکھا رہے تھے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سر رکھ کر انہیں جھانک کر دیکھنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کندھے میرے لئے جھکا دیئے، میں انہیں دیکھتی رہی اور جب دل بھر گیا تو واپس آگئی۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، وابو اسامة ، قال: اخبرنا هشام المعنى، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لولا حداثة عهد قومك بالكفر، لنقضت الكعبة، ثم جعلتها على اس إبراهيم عليه السلام، فإن قريشا يوم بنتها استقصرت، ولجعلت لها خلفا" ، قال ابو اسامة" خلفا".حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ الْمَعْنَى، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ، لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، ثُمَّ جَعَلْتُهَا عَلَى أُسِّ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّ قُرَيْشًا يَوْمَ بَنَتْهَا اسْتَقْصَرَتْ، وَلَجَعَلْتُ لَهَا خَلْفًا" ، قَالَ أَبُو أُسَامَةَ" خِلْفًا".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر کے قریب نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو شہید کرکے اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر تعمیر کرتا کیونکہ قریش نے جب اسے تعمیر کیا تھا تو اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیا تھا اور میں اس کا ایک دروازہ پیچھے سے بھی نکالتا۔
حدثنا ابن نمير ، قال: حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: " كنت العب بالبنات، ويجيء صواحبي فيلعبن معي، فإذا راين رسول الله صلى الله عليه وسلم تقمعن منه، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلهن علي، فيلعبن معي" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ، وَيَجِيءُ صَوَاحِبِي فَيَلْعَبْنَ مَعِي، فَإِذَا رَأَيْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقَمَّعْنَ مِنْهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُدْخِلُهُنَّ عَلَيَّ، فَيَلْعَبْنَ مَعِي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مری ہے کہ کہ میں گڑیوں کے ساتھ کھیلتی تھی، میری سہیلیاں آجاتیں اور میرے ساتھ کھیل کود میں شریک ہوجاتیں اور جوں ہی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے ہوئے دیکھتیں تو چھپ جاتیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پھر میرے پاس بھیج دیتے اور وہ میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة " انها استعارت من اسماء قلادة، فهلكت، فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم رجالا في طلبها، فوجدوها، فادركتهم الصلاة وليس معهم ماء، فصلوا بغير وضوء، فشكوا ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فانزل الله عز وجل التيمم"، فقال اسيد بن حضير لعائشة:" جزاك الله خيرا، فوالله ما نزل بك امر تكرهينه إلا جعل الله لك وللمسلمين فيه خيرا" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّهَا اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلَادَةً، فَهَلَكَتْ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجَالًا فِي طَلَبِهَا، فَوَجَدُوهَا، فَأَدْرَكَتْهُمْ الصَّلَاةُ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَصَلَّوْا بِغَيْرِ وُضُوءٍ، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التَّيَمُّمَ"، فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ لِعَائِشَةَ:" جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا، فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ تَكْرَهِينَهُ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ لَكِ وَلِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ خَيْرًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہ سے عاریۃً ایک ہار لیا تھا، دوران سفر وہ کہیں گر کر گم ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو وہ ہار تلاش کرنے کے لئے بھیجا، ہار تو انہیں مل گیا لیکن نماز کا وقت ہوگیا تھا اور لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا، لوگ بغیر وضو کے نماز پڑھنے کا ارادہ کرنے لگے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرما دیا، اس پر حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، واللہ آپ پر جب بھی کوئی مشکل پیش آئی ہے جسے آپ ناگوار سمجھتی ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے اسی میں آپ کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے خیر رکھ دیا۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم يهودي من يهود بني زريق، يقال له لبيد بن الاعصم، حتى كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخيل إليه ان يفعل الشيء وما يفعله، قالت: حتى إذا كان ذات يوم، او ذات ليلة، دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم دعا، ثم قال:" يا عائشة، شعرت ان الله عز وجل قد افتاني فيما استفتيته فيه، جاءني رجلان، فجلس احدهما عند راسي، والآخر عند رجلي، فقال الذي عند راسي للذي عند رجلي، او الذي عند رجلي للذي عند راسي: ما وجع الرجل؟ قال: مطبوب، قال: من طبه؟ قال: لبيد بن الاعصم، قال: في اي شيء؟ قال: في مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر، قال: واين هو؟ قال: في بئر اروان"، قالت: فاتاها رسول الله صلى الله عليه وسلم في ناس من اصحابه، ثم جاء، فقال:" يا عائشة، كان ماءها نقاعة الحناء، ولكان نخلها رءوس الشياطين"، قلت: يا رسول الله، فهلا احرقته؟ قال:" لا، اما انا فقد عافاني الله عز وجل، وكرهت ان اثير على الناس منه شرا"، قالت: فامر بها، فدفنت .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: سَحَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهُودِيٌّ مِنْ يَهُودِ بَنِي زُرَيْقٍ، يُقَالُ لَهُ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ، حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنْ يَفْعَلَ الشَّيْءَ وَمَا يَفْعَلُهُ، قَالَتْ: حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ، أَوْ ذَاتَ لَيْلَةٍ، دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ دَعَا، ثُمَّ قَالَ:" يَا عَائِشَةُ، شَعَرْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ، جَاءَنِي رَجُلَانِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رَأْسِي لِلَّذِي عِنْدَ رِجْلَيَّ، أَوْ الَّذِي عِنْدَ رِجْلَيَّ لِلَّذِي عِنْدَ رَأْسِي: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ، قَالَ: فِي أَيِّ شَيْءٍ؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةِ ذَكَرٍ، قَالَ: وَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ أَرْوَانَ"، قَالَتْ: فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ:" يَا عَائِشَةُ، كَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَهَلَّا أَحْرَقْتَهُ؟ قَالَ:" لَا، أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَكَرِهْتُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا"، قَالَتْ: فَأَمَرَ بِهَا، فَدُفِنَتْ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بنو زریق کے ایک یہودی " جس کا نام لبید بن اعصم تھا " نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کردیا تھا، جس کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ انہوں نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کافی دیر تک دعائیں کیں، پھر فرمایا عائشہ! میں نے اللہ سے جو کچھ پوچھا تھا، اس نے مجھے اس کے متعلق بتادیا ہے، میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سرہانے کی جانب بیٹھا اور دوسرا پائنتی کی جانب، پھر سرہانے کی جانب بیٹھنے والے نے پائنتی کی جانب بیٹھنے والے سے یا علی العکس کہا کہ اس آدمی کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے؟ اس نے پوچھا کہ یہ جادو کس نے کیا ہے؟ دوسرے نے بتایا لبید بن اعصم نے اس نے پوچھا کہ کن چیزوں میں جادو کیا گیا ہے؟ دوسرے نے بتایا ایک کنگھی میں اور جو بال اس سے گرتے ہیں اور نر کھجور کے خوشہ غلاف میں، اس نے پوچھا کہ اس وقت یہ چیزیں کہاں ہیں؟ دوسرے نے بتایا کہ " اروان " نامی کنوئیں میں۔ چنانچہ یہ خواب دیکھنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کنوئیں پر پہنچے اور واپس آکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ اے عائشہ! اس کنوئیں کا پانی تو یوں لگ رہا تھا جیسے مہندی کا رنگ ہوتا ہے اور اس کے قریب جو درخت تھے وہ شیطان کے سر معلوم ہو رہے تھے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے اسے آگ کیوں نہیں لگا دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، اللہ نے مجھے عافیت دے دی ہے، اب میں لوگوں میں شر اور فتنہ پھیلانے کو اچھا نہیں سمجھتا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان سب چیزوں کو دفن کردیا گیا۔
حدثنا ابن نمير ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو بهؤلاء الدعوات: " اللهم فإني اعوذ بك من فتنة النار، وعذاب النار، وفتنة القبر، وعذاب القبر، ومن شر فتنة الغنى، ومن شر فتنة الفقر، واعوذ بك من فتنة المسيح الدجال، اللهم اغسل خطاياي بماء الثلج والبرد، ونق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الابيض من الدنس، وباعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم، فإني اعوذ بك من الكسل والهرم والماثم والمغرم" .حَدَّثَنَا ابنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو بِهَؤُلَاءِ الدَّعَوَاتِ: " اللَّهُمَّ فَإِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ، فَإِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَالْهَرَمِ وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں جہنم کے فتنے سے اور عذاب جہنم سے، قبر کے فتنے سے اور عذاب قبر سے، مالداری کے فتنے اور تنگدستی کے فتنے کے شر سے اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اے اللہ! میرے گناہوں کو برف اور اولوں کے پانی سے دھو دے، میرے دل کو گناہوں سے اس طرح پاک صاف کر دے، جیسے تو سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کردیتا ہے اور میرے گناہوں کے درمیان مشرق و مغرب جتنا فاصلہ پیدا فرما دے، اے اللہ! میں سستی، بڑھاپے، گناہوں اور تاوان سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: قيل لها إن ابن عمر يرفع إلى النبي صلى الله عليه وسلم" إن الميت يعذب ببكاء الحي"، قالت: وهل ابو عبد الرحمن، إنما قال: " إن اهل الميت يبكون عليه، وإنه ليعذب بجرمه" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قِيلَ لَهَا إِنَّ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ"، قَالَتْ: وَهِل أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنَّمَا قَالَ: " إِنَّ أَهْلَ الْمَيِّتِ يَبْكُونَ عَلَيْهِ، وَإِنَّهُ لَيُعَذَّبُ بِجُرْمِهِ" .
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس بات کا ذکر کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں کہ انہیں وہم ہوگیا ہے، دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ میت والے اس پر رو رہے ہوتے ہیں اور اسے اس کے گناہوں کی وجہ سے عذاب ہورہا ہوتا ہے۔
حدثنا ابن نمير ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى في مرضه وهو جالس، فصلى وخلفه قوم قياما، فاشار إليهم ان اجلسوا، فلما قضى صلاته قال: " إنما الإمام ليؤتم به، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي مَرَضِهِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَصَلَّى وَخَلْفَهُ قَوْمٌ قِيَامًا، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ اجْلِسُوا، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ قَالَ: " إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں کچھ لوگوں کی عیادت کے لئے بارگاہ نبوت میں حاضری ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کردیا اور نماز سے فارغ ہو کر فرمایا امام اسی لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا يونس بن ابي إسحاق ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن غالب ، قال: انتهيت إلى عائشة انا وعمار والاشتر، فقال عمار: السلام عليك يا امتاه، فقالت: السلام على من اتبع الهدى، حتى اعادها عليها مرتين، او ثلاثا، ثم قال: اما والله إنك لامي وإن كرهت، قالت: من هذا معك؟ قال: هذا الاشتر، قالت: انت الذي اردت ان تقتل ابن اختي، قال: نعم، قد اردت ذلك واراده، قالت: اما لو فعلت، ما افلحت، اما انت يا عمار، فقد سمعت، او سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا يحل دم امرئ مسلم إلا من ثلاثة إلا من زنى بعدما احصن، او كفر بعدما اسلم، او قتل نفسا فقتل بها" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ غَالِبٍ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى عَائِشَةَ أَنَا وَعَمَّارٌ وَالْأَشْتَرُ، فقال عمار: السلام عليك يا أمتاه، فقالت: السلام على من اتبع الهدى، حتى أعادها عليها مرتين، أو ثلاثا، ثم قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ إِنَّكِ لَأُمِّي وَإِنْ كَرِهْتِ، قَالَتْ: مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ قَالَ: هَذَا الْأَشْتَرُ، قَالَتْ: أَنْتَ الَّذِي أَرَدْتَ أَنْ تَقْتُلَ ابْنَ أُخْتِي، قَالَ: نَعَمْ، قَدْ أَرَدْتُ ذَلِكَ وَأَرَادَهُ، قَالَتْ: أَمَا لَوْ فَعَلْتَ، مَا أَفْلَحْتَ، أَمَّا أَنْتَ يَا عَمَّارُ، فَقَدْ سَمِعْتَ، أَوْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مَنْ زَنَى بَعْدَمَا أُحْصِنَ، أَوْ كَفَرَ بَعْدَمَا أَسْلَم، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا فَقُتِلَ بِهَا" .
عمرو بن غلاب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں، عمار اور اشتر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عمار نے کہا اماں جان! السلام علیک انہوں نے جواب میں فرمایا: السلام علی من اتبع الھدی " (اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے) عمار نے دو تین مرتبہ انہیں سلام کیا اور پھر کہا کہ واللہ آپ میری ماں ہیں اگرچہ آپ کو یہ بات پسند نہ ہو، انہوں نے پوچھا یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ عمار نے بتایا کہ یہ اشتر ہے، انہوں نے فرمایا تم وہی ہو جس نے میرے بھانجے کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی، اشتر نے کہا جی ہاں! میں نے ہی اس کا ارادہ کیا تھا اور اس نے بھی یہی ارادہ کر رکھا تھا، انہوں نے فرمایا اگر تم ایسا کرتے تو تم کبھی کامیاب نہ ہوتے اور اے عمار! تم نے یا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں ہے، الاّ یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ ہو، شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرنا، اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہوجانا، یا کسی شخض کو قتل کرنا جس بدلے میں اسے قتل کردیا جائے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد فيه عمرو بن غالب تفرد بالرواية عنه أبو إسحاق
حدثنا ابن نمير ، حدثنا مالك يعني ابن مغول ، عن مقاتل بن بشير ، عن شريح بن هانئ ، قال: سالت عائشة عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: " لم تكن صلاة احرى ان يؤخرها إذا كان على حديث من صلاة العشاء الآخرة، وما صلاها قط، فدخل علي إلا صلى بعدها اربعا او ستا، وما رايته يتقي على الارض بشيء قط إلا اني اذكر ان يوم مطر القينا تحته بتا، فكاني انظر إلى خرق فيه ينبع منه الماء" ..حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ مِغْوَلٍ ، عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ بَشِيرٍ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: " لَمْ تَكُنْ صَلَاةٌ أَحْرَى أَنْ يُؤَخِّرَهَا إِذَا كَانَ عَلَى حَدِيثٍ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ، وَمَا صَلَّاهَا قَطُّ، فَدَخَلَ عَلَيَّ إِلَّا صَلَّى بَعْدَهَا أَرْبَعًا أَوْ سِتًّا، وَمَا رَأَيْتُهُ يَتَّقِي عَلَى الْأَرْضِ بِشَيْءٍ قَطُّ إِلَّا أَنِّي أَذْكُرُ أَنَّ يَوْمَ مَطَرٍ أَلْقَيْنَا تَحْتَهُ بَتًّا، فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى خَرْقٍ فِيهِ يَنْبُعُ مِنْهُ الْمَاءُ" ..
شریح بن ہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی گفتگو میں مشغول ہوتے تو نماز عشاء سے زیادہ کسی نماز کو موخر کرنے والے نہ تھے اور نماز عشاء پڑھ کر جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے تو اس کے بعد چار یا چھ رکعتیں ضرور پڑھتے تھے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین پر کسی چیز سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے نہیں دیکھا، البتہ ایک دن کا واقعہ مجھے یاد ہے کہ بارش ہورہی تھی، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے موٹا کپڑا بچھا دیا، تو میں نے دیکھا کہ اس میں ایک سوراخ ہے جس سے پانی اندر آرہا تھا۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا شريك ، عن المقدام بن شريح الحارثي ، عن ابيه ، قال: قلت لعائشة هل كان النبي صلى الله عليه وسلم يبدو؟ قالت: نعم، كان يبدو إلى هذه التلاع، فاراد البداوة مرة، فارسل إلى نعم من إبل الصدقة، فاعطاني منها ناقة محرمة، ثم قال لي:" يا عائشة، عليك بتقوى الله عز وجل والرفق، فإن الرفق لم يك في شيء قط إلا زانه، ولم ينزع من شيء قط إلا شانه" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ الْحَارِثِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ هَلْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْدُو؟ قَالَتْ: نَعَمْ، كَانَ يَبْدُو إِلَى هَذِهِ التِّلَاعِ، فَأَرَادَ الْبَدَاوَةَ مَرَّةً، فَأَرْسَلَ إِلَى نَعَمٍ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ، فَأَعْطَانِي مِنْهَا نَاقَةً مُحَرَّمَةً، ثُمَّ قَالَ لِي:" يَا عَائِشَةُ، عَلَيْكِ بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالرِّفْقِ، فَإِنَّ الرِّفْقَ لَمْ يَكُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا زَانَهُ، وَلَمْ يُنْزَعْ مِنْ شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا شَانَهُ" .
شریح حارثی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیہات میں جاتے تھے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان ٹیلوں تک جاتے تھے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دیہات (جنگل) میں جانے کا ارادہ کیا تو صدقہ کے جانوروں میں ایک قاصد کو بھیجا اور اس میں سے مجھے ایک ایسی اونٹنی عطا فرمائی جس پر ابھی تک کسی نے سواری نہ کی تھی، پھر مجھ سے فرمایا عائشہ! اللہ سے ڈرنا اور نرمی کرنا اپنے اوپر لازم کرلو، کیونکہ نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے باعث زینت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے بھی کھینچی جاتی ہے، اسے بدنما اور عیب دار کردیتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد فيه شريك وهو إن كان سيئ الحفظ ولكن توبع
حدثنا ابن نمير ، حدثنا سعد بن سعيد ، قال: اخبرتني عمرة ، قالت: سمعت عائشة ، تقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن كسر عظم المؤمن ميتا مثل كسره حيا" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ كَسْرَ عَظْمِ الْمُؤْمِنِ مَيْتًا مِثْلُ كَسْرِهِ حَيًّا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی فوت شدہ مسلمان کی ہڈی تو ڑنا ایسے ہی ہے جیسے کسی زندہ آدمی کی ہڈی توڑنا۔
حدثنا ابو اسامة ، قال: اخبرنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت:" إن كان لينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم في الغداة الباردة، ثم تفيض جبهته عرقا" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" إِنْ كَانَ لَيَنْزِلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ، ثُمَّ تَفِيضُ جَبْهَتُهُ عَرَقًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض اوقات سردی کی صبح میں وحی نازل ہوتی تھی اور ان کی پیشانی پسینے سے تر ہوجاتی۔
حدثنا ابو اسامة ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت:" ما غرت على امراة ما غرت على خديجة، ولقد هلكت قبل ان يتزوجني بثلاث سنين، لما كنت اسمعه يذكرها، ولقد امره ربه عز وجل ان يبشرها ببيت من قصب في الجنة، وإن كان ليذبح الشاة، ثم يهدي في خلتها منها" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ، وَلَقَدْ هَلَكَتْ قَبْلَ أَنْ يَتَزَوَّجَنِي بِثَلَاثِ سِنِينَ، لِمَا كُنْتُ أَسْمَعُهُ يَذْكُرُهَا، وَلَقَدْ أَمَرَهُ رَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ فِي الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ، ثُمَّ يُهْدِي فِي خُلَّتِهَا مِنْهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مجھے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں آیا جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ پر آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مجھ سے نکاح فرمانے سے تین سال قبل ہی وہ فوت ہوگئی تھیں اور اس رشک کی وجہ یہ تھی کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا بکثرت ذکر کرتے ہوئے سنتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے رب نے یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کو جنت میں لکڑی کے ایک عظیم الشان مکان کی خوشخبری دے دیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات کوئی بکری ذبح کرتے تو اسے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی سہیلیوں کے پاس ہدیہ میں بھیجتے تھے۔
حدثنا ابو اسامة ، قال: اخبرنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة " دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح من كداء من اعلى مكة، ودخل في العمرة من كدى" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ " دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ مِنْ كَدَاءٍ مِنْ أَعَلَى مَكَّةَ، وَدَخَلَ فِي الْعُمْرَةِ مِنْ كُدًى" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں بالائی حصے سے داخل ہوئے تھے اور عمرے میں نشیبی حصے سے داخل ہوئے تھے۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا عبيد الله ، عن محمد بن يحيى ، عن عبد الرحمن الاعرج ، عن عائشة ، قالت: فزعت ذات ليلة، وفقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمددت يدي، فوقعت على قدمي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهما منتصبان وهو ساجد، وهو يقول: " اعوذ برضاك من سخطك، واعوذ بمعافاتك من عقوبتك، واعوذ بك منك، لا احصي ثناء عليك انت كما اثنيت على نفسك" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: فَزِعْتُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، وَفَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَدَدْتُ يَدِي، فَوَقَعَتْ عَلَى قَدَمَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمَا مُنْتَصِبَانِ وَهُوَ سَاجِدٌ، وَهُوَ يَقُولُ: " أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات میں سخت خوفزدہ ہوگئی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، میں نے ہاتھ بڑھا کر محسوس کرنے کی کوشش کی تو میرے ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں سے ٹکرا گئے جو کھڑے تھے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کی حالت میں تھے اور یہ دعا فرما رہے تھے کہ اے اللہ! میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضگی سے، تیری درگذر کے ذریعے تیری سزا سے اور تیری ذات کے ذریعے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری تعریف کا احاطہ نہیں کرسکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا يحيى ، عن عمرة ، عن عائشة ، قالت: لما جاء نعي جعفر بن ابي طالب، وزيد ابن حارثة، وعبد الله بن رواحة، جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرف في وجهه الحزن، قالت عائشة: وانا اطلع من شق الباب، فاتاه رجل، فقال: يا رسول الله، إن نساء جعفر، فذكر من بكائهن، فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ينهاهن، فذهب الرجل، ثم جاء، فقال: قد نهيتهن، وإنهن لم يطعنه، حتى كان في الثالثة، فزعمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" احثوا في وجوههن التراب"، فقالت عائشة: قلت: ارغم الله بانفك، والله ما انت بفاعل ما قال لك، ولا تركت رسول الله صلى الله عليه وسلم! .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَزَيْدِ ابْنِ حَارِثَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ الْحُزْنُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَأَنَا أَطَّلِعُ مِنْ شَقِّ الْبَابِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ، فَذَكَرَ مِنْ بُكَائِهِنَّ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْهَاهُنَّ، فَذَهَبَ الرَّجُلُ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: قَدْ نَهَيْتُهُنَّ، وَإِنَّهُنَّ لَمْ يُطِعْنَهُ، حَتَّى كَانَ فِي الثَّالِثَةِ، فَزَعَمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" احْثُوا فِي وُجُوهِهِنَّ التُّرَابَ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتُ: أَرْغَمَ اللَّهُ بِأَنْفِكَ، وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ مَا قَالَ لَكَ، وَلَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آئی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے اور روئے انور سے غم کے آثار ہویدا تھے، میں دروازے کے سوراخ سے جھانک رہی تھی کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! جعفر کی عورتیں رو رہی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ انہیں منع کردو، وہ آدمی چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آکر کہنے لگا کہ میں نے انہیں منع کیا ہے لیکن وہ میری بات نہیں مانتیں، تین مرتبہ اس طرح ہوا، بالآ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ جا کر ان کے منہ میں مٹی بھر دو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے فرمایا اللہ تجھے خاک آلود کرے، واللہ تو وہ کرتا ہے جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجھے حکم دیتے ہیں اور نہ ہی ان کی جان چھوڑتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں ان کے جسم کے ساتھ اپنا جسم ملا لیتے تھے اور اپنے اور ان کے درمیان کپڑا حائل رکھتے تھے۔
حدثنا ابو اسامة ، قال: اخبرنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب الحلوى ويحب العسل، وكان إذا صلى العصر دار على نسائه فيدنو منهن، فدخل على حفصة، فاحتبس عندها اكثر مما كان يحتبس، فسالت عن ذلك، فقيل لي: اهدت لها امراة من قومها عكة عسل، فسقت رسول الله صلى الله عليه وسلم منه، فقلت: اما والله لنحتالن له، فذكرت ذلك لسودة، وقلت: إذا دخل عليك فإنه سيدنو منك، فقولي له: يا رسول الله، اكلت مغافر؟ فإنه سيقول لك لا، فقولي له: ما هذه الريح، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يشتد عليه ان يوجد منه ريح، فإنه سيقول لك: سقتني حفصة شربة عسل، فقولي له: جرست نحله العرفط، وساقول له ذلك، فقولي له: انت يا صفية، فلما دخل على سودة، قالت سودة: والذي لا إله إلا هو لقد كدت ان ابادئه بالذي قلت لي: وإنه لعلى الباب فرقا منك، فلما دنا رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت: يا رسول الله، اكلت مغافر؟ قال:" لا"، قلت: فما هذه الريح؟ قال:" سقتني حفصة شربة عسل"، قلت: جرست نحله العرفط، فلما دخل علي، قلت له مثل ذلك، ثم دخل على صفية فقالت له مثل ذلك، فلما دخل على حفصة، قالت: يا رسول الله، الا اسقيك منه؟ قال:" لا حاجة لي به"، قال: تقول سودة: سبحان الله، والله لقد حرمناه، قلت لها: اسكتي .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَى وَيُحِبُّ الْعَسَلَ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ دَارَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَاحْتَبَسَ عِنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ، فَقِيلَ لِي: أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةَ عَسَلٍ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ، وَقُلْتُ: إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ، فَقُولِي لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلْتَ مَغَافِرَ؟ فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ لَا، فَقُولِي لَهُ: مَا هَذِهِ الرِّيحُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ يُوجَدَ مِنْهُ رِيحٌ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقُولِي لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، وَسَأَقُولُ لَهُ ذَلِكَ، فَقُولِي لَهُ: أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ، قَالَتْ سَوْدَةُ: وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِئَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي: وَإِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلْتَ مَغَافِرَ؟ قَالَ:" لَا"، قُلْتُ: فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ؟ قَالَ:" سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ"، قُلْتُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيَّ، قُلْتُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ فَقَالَتْ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَسْقِيكَ مِنْهُ؟ قَالَ:" لَا حَاجَةَ لِي بِهِ"، قَالَ: تَقُولُ سَوْدَةُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ، قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِي .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھی چیزیں اور شہد محبوب تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ نماز عصر کے بعد اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس چکر لگاتے تھے اور انہیں اپنا قرب عطا فرماتے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو معمول سے زیادہ وقت تک ان کے پاس رکے رہے، میں نے اس کے متعلق پوچھ گچھ کی تو مجھے معلوم ہوا کہ حفصہ کو ان کی قوم کی ایک عورت نے شہد کا ایک برتن ہدیہ میں بھیجا ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ شہد پلایا ہے (جس کی وجہ سے انہیں تاخیر ہوئی) میں نے دل میں سوچا کہ واللہ میں ایک تدبیر کروں گی، چنانچہ میں نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ سے اس واقعے کا تذکرہ کیا اور ان سے کہلایا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں اور تمہارے قریب ہوں تو تم ان سے کہہ دینا یا رسول اللہ! کیا آپ نے مغافیر (ایک خاص قسم کا گوند جس میں بدبو ہوتی ہے) کھایا ہے؟ وہ کہیں گے کہ نہیں، تم ان سے کہنا کہ پھر یہ بدبو آپ کے منہ سے کیسی آرہی ہے؟ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدبو سے بہت سخت نفرت ہے، اس لئے وہ کہہ دیں گے کہ مجھے حفصہ نے شہد پلایا ہے، تم ان سے کہہ دینا کہ شاید شہد کی مکھی اس کے درخت پر بیٹھ گئی ہوگی، میں بھی ان سے یہی کہوں گی اور صفیہ! تم بھی ان سے یہی کہنا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لائے تو وہ کہتی ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، تمہارے خوف سے میں یہ بات اسی وقت کہنے لگی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دروازے پر ہی تھے، بہر حال! جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریب آئے تو میں نے حسب پروگرام وہی بات کہہ دی اور وہی سوال جواب ہوئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں نے بھی یہیں کہا، پھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے بھی یہی کہا، پھر جب حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں آپ کو شہد نہ پلاؤں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس کی طلب نہیں ہورہی، اس پر حضرت سودہ رضی اللہ عنہ نے کہا سبحان اللہ! اللہ کی قسم! ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شہد کو چھڑادیا، میں نے ان سے کہا کہ تم تو خاموش رہو۔
حدثنا ابو اسامة ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: لما ذكر من شاني الذي ذكر وما علمت به، قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في خطيبا وما علمت به، فتشهد، فحمد الله عز وجل، واثنى عليه بما هو اهله، ثم قال: " اما بعد، اشيروا علي في ناس ابنوا اهلي، وايم الله ما علمت على اهلي سوءا قط، وابنوهم بمن؟ والله ما علمت عليه من سوء قط، ولا دخل بيتي قط إلا وانا حاضر، ولا غبت في سفر إلا غاب معي"، فقام سعد بن معاذ، فقال: نرى يا رسول الله ان تضرب اعناقهم، فقام رجل من الخزرج، وكانت ام حسان بن ثابت من رهط ذلك الرجل، فقال: كذبت، اما والله لو كانوا من الاوس ما احببت ان تضرب اعناقهم، حتى كادوا ان يكون بين الاوس والخزرج في المسجد شر، وما علمت به، فلما كان مساء ذلك اليوم خرجت لبعض حاجتي ومعي ام مسطح، فعثرت، فقالت: تعس مسطح، فقلت: علام تسبين ابنك؟ فسكتت، فعثرت الثانية، فقالت: تعس مسطح، فقلت: علام تسبين ابنك؟ ثم عثرت الثالثة، فقالت: تعس مسطح، فانتهرتها، فقلت: علام تسبين ابنك؟ فقالت: والله ما اسبه إلا فيك، فقلت: في اي شاني؟ فذكرت لي الحديث، فقلت: وقد كان هذا؟ قالت: نعم والله، فرجعت إلى بيتي، فكان الذي خرجت له لم اخرج له لا اجد منه قليلا ولا كثيرا، ووعكت، فقلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ارسلني إلى بيت ابي، فارسل معي الغلام، فدخلت الدار، فإذا انا بام رومان، فقالت: ما جاء بك يا ابنته؟ فاخبرتها، فقالت: خفضي عليك الشان، فإنه والله لقلما كانت امراة جميلة تكون عند رجل يحبها ولها ضرائر إلا حسدنها وقلن فيها، قلت: وقد علم به ابي؟ قالت: نعم، قلت: ورسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: ورسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستعبرت، فبكيت، فسمع ابو بكر صوتي وهو فوق البيت يقرا، فنزل، فقال لامي: ما شانها؟ فقالت: بلغها الذي ذكر من امرها، ففاضت عيناه، فقال: اقسمت عليك يا ابنته إلا رجعت إلى بيتك، فرجعت واصبح ابواي عندي، فلم يزالا عندي حتى دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد العصر، وقد اكتنفني ابواي عن يميني وعن شمالي، فتشهد النبي صلى الله عليه وسلم، فحمد الله، واثنى عليه بما هو اهله، ثم قال:" اما بعد، يا عائشة، إن كنت قارفت سوءا وظلمت توبي إلى الله عز وجل، فإن الله عز وجل يقبل التوبة عن عباده"، وقد جاءت امراة من الانصار، فهي جالسة بالباب، فقلت: الا تستحيي من هذه المراة ان تقول شيئا؟ فقلت لابي: اجبه، فقال: اقول ماذا؟ فقلت لامي: اجيبيه، فقالت: اقول ماذا؟ فلما لم يجيباه، تشهدت، فحمدت الله عز وجل، واثنيت عليه بما هو اهله، ثم قلت: اما بعد، فوالله لئن قلت لكم إني لم افعل، والله جل جلاله يشهد إني لصادقة، ما ذاك بنافعي عندكم، لقد تكلمتم به واشربته قلوبكم، ولئن قلت لكم إني قد فعلت، والله عز وجل يعلم اني لم افعل، لتقولن قد باءت به على نفسها، فإني والله ما اجد لي ولكم مثلا إلا ابا يوسف وما احفظ اسمه صبر جميل والله المستعان على ما تصفون، فانزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم ساعتئذ، فرفع عنه، وإني لاستبين السرور في وجهه، وهو يمسح جبينه، وهو يقول:" ابشري يا عائشة، فقد انزل الله عز وجل براءتك"، فكنت اشد ما كنت غضبا، فقال لي ابواي: قومي إليه، قلت: والله لا اقوم إليه ولا احمده ولا احمدكما، لقد سمعتموه فما انكرتموه ولا غيرتموه، ولكن احمد الله الذي انزل براءتي، ولقد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيتي، فسال الجارية عني؟ فقالت: لا والله، ما اعلم عليها عيبا إلا انها كانت تنام حتى تدخل الشاة فتاكل خميرتها او عجينتها، شك هشام، فانتهرها بعض اصحابه، وقال: اصدقي رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى اسقطوا لها به، قال عروة: فعيب ذلك على من قاله، فقالت: لا والله، ما اعلم عليها إلا ما يعلم الصائغ على تبر الذهب الاحمر، وبلغ ذلك الرجل الذي قيل له، فقال: سبحان الله، والله ما كشفت كنف انثى قط، فقتل شهيدا في سبيل الله، قالت عائشة فاما زينب بنت جحش فعصمها الله عز وجل بدينها، فلم تقل إلا خيرا، واما اختها حمنة فهلكت فيمن هلك، وكان الذين تكلموا فيه المنافق عبد الله بن ابي، كان يستوشيه ويجمعه، وهو الذي تولى كبره منهم، ومسطح، وحسان بن ثابت، فحلف ابو بكر ان لا ينفع مسطحا بنافعة ابدا، فانزل الله عز وجل ولا ياتل اولو الفضل منكم والسعة سورة النور آية 22، يعني ابا بكر، ان يؤتوا اولي القربى والمساكين سورة النور آية 22، يعني مسطحا، الا تحبون ان يغفر الله لكم والله غفور رحيم سورة النور آية 22، فقال ابو بكر: بلى والله، إنا لنحب ان تغفر لنا، وعاد ابو بكر لمسطح بما كان يصنع به .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، فَتَشَهَّدَ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ، أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي نَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي، وَايْمُ اللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي سُوءًا قَطُّ، وَأَبَنُوهُمْ بِمَنْ؟ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ، وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي"، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَقَالَ: نَرَى يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ تَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْخَزْرَجِ، وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ، فَقَالَ: كَذَبْتَ، أَمَا وَاللَّهِ لَوْ كَانُوا مِنَ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، حَتَّى كَادُوا أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ فِي الْمَسْجِدِ شَرٌّ، وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ، فَعَثَرَتْ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ: عَلَامَ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؟ فَسَكَتَتْ، فَعَثَرَتْ الثَّانِيَةَ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ: عَلَامَ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؟ ثُمَّ عَثَرَتْ الثَّالِثَةَ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَانْتَهَرْتُهَا، فَقُلْتُ: عَلَامَ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؟ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيكِ، فَقُلْتُ: فِي أَيِّ شَأْنِي؟ فَذَكَرَتْ لِي الْحَدِيثَ، فَقُلْتُ: وَقَدْ كَانَ هَذَا؟ قَالَتْ: نَعَمْ وَاللَّهِ، فَرَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي، فَكَأنَ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَمْ أَخْرُجْ لَهُ لَا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، وَوَعَكْتُ، فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسِلْنِي إِلَى بَيْتِ أَبِي، فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ، فَدَخَلْتُ الدَّارَ، فَإِذَا أَنَا بِأُمِّ رُومَانَ، فَقَالَتْ: مَا جَاءَ بِكِ يَا ابْنَتَهْ؟ فَأَخْبَرْتُهَا، فَقَالَتْ: خَفِّضِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ، فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتْ امْرَأَةٌ جَمِيلَةٌ تَكُونُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا وَقُلْنَ فِيهَا، قُلْتُ: وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم؟ قَالَتْ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَعْبَرْتُ، فَبَكَيْتُ، فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ، فَنَزَلَ، فَقَالَ لِأُمِّي: مَا شَأْنُهَا؟ فَقَالَتْ: بَلَغَهَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ أَمْرِهَا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكِ يَا ابْنَتَهْ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَى بَيْتِكِ، فَرَجَعْتُ وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي، فَلَمْ يَزَالَا عِنْدِي حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقَدْ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَتَشَهَّدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، يَا عَائِشَةُ، إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوءًا وَظَلَمْتِ تُوبِي إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ"، وَقَدْ جَاءَتْ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ، فَقُلْتُ: أَلَا تَسْتَحْيِي مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَقُولَ شَيْئًا؟ فَقُلْتُ لِأَبِي: أَجِبْهُ، فَقَالَ: أَقُولُ مَاذَا؟ فَقُلْتُ لِأُمِّي: أَجِيبِيهِ، فَقَالَتْ: أَقُولُ مَاذَا؟ فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَاهُ، تَشَهَّدْتُ، فَحَمِدْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَّا بَعْدُ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ، وَاللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ، مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ، لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ بِهِ وَأُشْرِبَتْهُ قُلُوبُكُمْ، وَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ، لَتَقُولُنَّ قَدْ بَاءَتْ بِهِ عَلَى نَفْسِهَا، فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا إِلَّا أَبَا يُوسُفَ وَمَا أَحْفَظُ اسْمَهُ صَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ، فَأُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَتَئِذٍ، فَرُفِعَ عَنْهُ، وَإِنِّي لَأَسْتَبِينُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ، وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ، وَهُوَ يَقُولُ:" أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ، فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَرَاءَتَك"، فَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا، فَقَالَ لِي أَبَوَايَ: قُومِي إِلَيْهِ، قُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُهُ وَلَا أَحْمَدُكُمَا، لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْكَرْتُمُوهُ وَلَا غَيَّرْتُمُوهُ، وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي، وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، فَسَأَلَ الْجَارِيَةَ عَنِّي؟ فَقَالَتْ: لَا وَاللَّه، مَا أَعْلَمُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا كَانَتْ تَنَامُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْكُلَ خَمِيرَتَهَا أَوْ عَجِينَتَهَا، شَكَّ هِشَامٌ، فَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ، وَقَالَ: اصْدُقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ، قَالَ عُرْوَةُ: فَعِيبَ ذَلِكَ عَلَى مَنْ قَالَهُ، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ، مَا أَعْلَمُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ، وَبَلَغَ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَى قَطُّ، فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَمَّا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَعَصَمَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِدِينِهَا، فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا، وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِينَ تَكَلَّمُوا فِيهِ الْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، كَانَ يَسْتَوْشِيهِ وَيَجْمَعُهُ، وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ، ومِسْطَحٌ، وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ سورة النور آية 22، يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ، أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ سورة النور آية 22، يَعْنِي مِسْطَحًا، أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى وَاللَّهِ، إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفَرَ لَنَا، وَعَادَ أَبُو بَكْرٍ لمِسْطَحٍ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ بِهِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب میرے متعلق لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے اور جن کا مجھے علم نہیں تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے، شہادتین کا اقرار کیا اور اللہ کی حمد وثناء بیان کی جو اس کے شایان شان ہو اور امابعد کہہ کر فرمایا کہ مجھے ان لوگوں کے متعلق مشورہ دو جنہوں نے میرے گھر والوں پر الزام لگایا ہے، واللہ میں اپنے گھر والوں پر اور جس شخص کے ساتھ لوگوں نے انہیں متہم کیا ہے، کوئی برائی نہیں جانتا واللہ وہ جب بھی میرے گھر آیا ہے، میری موجودگی میں ہی آیا ہے اور میں جب بھی سفر پر گیا ہوں وہ میرے ساتھ رہا ہے، یہ سن کر حضرت سعد بن معا ذرضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! ہماری رائے یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کی گردنیں اڑا دیں پھر قبیلہ خزرج کا ایک آدمی کھڑا ہوا، ام حسان بن ثابت اسی شخص کے گروہ میں تھی اور کہنے لگا کہ آپ غلط کہتے ہیں، اگر ان لوگوں کا تعلق قبیلہ اوس سے ہوتا تو آپ ان کی گردنیں اڑائے جانے کو کبھی اچھا نہ سمجھتے، قریب تھا کہ مسجد میں ان دونوں گروہوں کے درمیان لڑائی ہوجاتی۔
بہر حال! اسی دن کی شام کو میں قضاء حاجت کے لئے نکلی، میرے ساتھ ام مسطح تھیں، راستے میں ان کا پاؤں چادر میں الجھا اور وہ گرپڑیں، ان کے منہ سے نکلا مسطح ہلاک ہو، میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے بیٹے کو کیوں برا بھلا کہہ رہی ہیں؟ وہ خاموش ہوگئیں، تین مرتبہ اسی طرح ہوا، بالآخر انہوں نے کہا کہ میں تو اسے تمہاری وجہ سے ہی برا بھلا کہہ رہی ہوں، میں نے ان سے تفصیل پوچھی تو انہوں نے مجھے ساری بات بتائی، میں نے ان سے پوچھا کیا واقعی اس طرح ہوچکا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! جب میں اپنے گھر آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کرکے حال دریافت کیا تو میں نے کہا اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اپنے والدین کے گھر چلی جاؤں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں وہاں جانے سے میری غرض یہ تھی کہ والدین سے یقینی خبر مجھے معلوم ہوجائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے اپنی والدہ سے جاکر پوچھا اماں لوگ کیا چرچا کررہے ہیں۔ والدہ نے کہا بیٹی تم کو گھبرانا نہ چاہیے اللہ کی قسم اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو عورت خوبصورت ہوتی ہے اور اپنے شوہر کی چہیتی ہوتی ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوتی ہیں تو سوکنیں ہمیشہ اس میں عیب نکالتی رہتی ہیں۔ سبحان اللہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا والد صاحب کو اس کا علم ہوگیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! میں نے پوچھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی؟ انہوں نے کہا ہاں! اس پر میرے آنسو نکل آئے اور میں رونے لگی، والد صاحب جو گھر کے اوپر تلاوت کر رہے تھے، انہوں نے میری آواز سنی تو نیچے آکر والدہ سے پوچھا اسے کیا ہوا؟ انہوں نے بتایا کہ اسے بھی وہ واقعہ معلوم ہوگیا ہے اس لئے رو رہی ہے، انہوں نے فرمایا بیٹا! میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اپنے گھر واپس چلی جاؤ، چنانچہ میں چلی گئی، تھوڑی دیر بعد وہ دونوں میرے یہاں آگئے اور میرے پاس ہی رہے یہاں تک کہ عصر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عصر کے بعد تشریف لے آئے، میرے دائیں بائیں میرے والدین تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر کلمہ شہادت پڑھا اور حمدوثناء کے بعد فرمایا: عائشہ! میں نے تیرے حق میں اس قسم کی باتیں سنی ہیں اگر تو گناہ سے پاک ہے تو عنقریب اللہ تعالیٰ تیری پاک دامنی بیان کردے گا اور اگر تو گناہ میں آلودہ ہوچکی ہے تو اللہ تعالیٰ سے معافی کی طالب ہو اور اسی سے توبہ کر کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر کے توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہ معاف کردیتا ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ کلام کرچکے تو میرے آنسو بالکل تھم گئے اور ایک قطرہ بھی نہ نکلا اور میں نے اپنے والد سے کہا کہ میری طرف سے حضرت کو جواب دیجئے۔ والد نے کہا اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ کیا جواب دوں۔ میں نے والدہ سے کہا تم جواب دو انہوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کی قسم میں نہیں جانتی کیا جواب دوں۔ میں اگرچہ کم عمر لڑکی تھی اور بہت قرآن بھی پڑھی نہ تھی لیکن میں نے کہا اللہ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ یہ بات آپ نے سنی ہے اور یہ آپ کے دل میں جم گئی ہے اور آپ نے اس کو سچ سمجھ لیا ہے۔ اس لئے اگر میں آپ کے سامنے اپنے آپ کو عیب سے پاک کہوں گی تو آپ کو یقین نہیں آسکتا اور اگر میں ناکردہ گناہ کا آپ کے سامنے اقرار کروں (اور اللہ گواہ ہے کہ میں اس سے پاک ہوں) تو آپ مجھ کو سچا جان لیں گے اللہ کی قسم مجھے اپنی اور آپ کی مثال سوائے حضرت یعقوب علیہ السلام کے کوئی نہیں ملتی انہوں نے کہا تھا فَصَبرُ جَمِیلُ وَاللَہُ المُستَعَا نُ عَلَی ماَ تَصِفُونَ۔
اسی وقت آپ پر اپنی کیفیت کے ساتھ وحی نازل ہوئی یہاں تک کہ چہرہ مبارک سے موتیوں
حدثنا ابو اسامة ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لاعلم إذا كنت عني راضية، وإذا كنت علي غضبى"، قالت: فقلت: من اين تعلم ذاك؟ قال:" إذا كنت عني راضية، فإنك تقولين لا ورب محمد، وإذا كنت علي غضبى، تقولين لا ورب إبراهيم عليه السلام"، قلت: اجل، والله ما اهجر إلا اسمك .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى"، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مِنْ أَيْنَ تَعْلَمُ ذَاكَ؟ قَالَ:" إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، فَإِنَّكِ تَقُولِينَ لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى، تَقُولِينَ لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام"، قُلْتُ: أَجَلْ، وَاللَّهِ مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَكَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمایا کرتے تھے جب تم ناراض ہوتی ہو تو مجھے تمہاری ناراضگی کا پتہ چل جاتا ہے اور جب تم راضی ہوتی ہو تو مجھے اس کا بھی پتہ چل جاتا ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کو اس کا کیسے پتہ چل جاتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم ناراض ہوتی ہو تو تم لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ کہتی ہو اور جب تم راضی ہو تو تم لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام کہتی ہو، میں نے عرض کی آپ صحیح فرماتے ہیں لیکن واللہ میں صرف آپ کا نام لینا چھوڑتی ہوں (دل میں کوئی بات نہیں ہوتی)۔
حدثنا ابو اسامة ، قال: اخبرنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يامرهم بما يطيقون، فيقولون: إنا لسنا كهيئتك، قد غفر الله عز وجل لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر، فيغضب حتى يرى ذلك في وجهه، قال: ثم يقول: " والله إني لاعلمكم بالله عز وجل، واتقاكم له قلبا" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُهُمْ بِمَا يُطِيقُونَ، فَيَقُولُونَ: إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ، قَدْ غَفَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، فَيَغْضَبُ حَتَّى يُرَى ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، قَالَ: ثُمَّ يَقُولُ: " وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُكُمْ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَتْقَاكُمْ لَهُ قَلْبًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی ایسے کام کا حکم دیتے جس کی وہ طاقت رکھتے ہوں اور وہ کہتے یا رسول اللہ! ہم آپ کی طرح نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرمادیئے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوجاتے اور غصے کے آثار چہرہ مبارک پر نظر آنے لگتے تھے اور فرماتے کہ میں اللہ تعالیٰ کے متعلق سب سے زیادہ جانتا اور تم سب سے زیادہ ڈرتا ہوں۔
حدثنا ابو اسامة ، قال: اخبرنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت " كان يوم بعاث يوما قدمه الله عز وجل لرسوله صلى الله عليه وسلم، فقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وقد افترق ملؤهم، وقتلت سرواتهم، ورفقوا لله عز وجل ولرسوله في دخولهم في الإسلام" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت " كَانَ يَوْمُ بُعَاثٍ يَوْمًا قَدَّمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَقَدْ افْتَرَقَ مَلَؤُهُمْ، وَقُتِلَتْ سَرَوَاتُهُمْ، وَرَفَقُوا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِهِ فِي دُخُولِهِمْ فِي الْإِسْلَامِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جنگ بعاث ایک ایسا دن تھا جو اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پہلے رونما کردیا تھا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس سے قبل اہل مدینہ متفرق ہوچکے تھے، ان کے سردار قتل ہوچکے تھے اور اسلام میں داخل ہونے کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے سامنے نرم ہوچکے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب میری برائت کی آیات نازل ہوئیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور یہ واقعہ ذکر کر کے قرآن کریم کی تلاوت فرمائی اور جب نیچے اترے تو دو آمیوں اور ایک عورت کے متعلق حکم دیا چنانچہ انہیں سزا دی گئی۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا محمد . ويزيد ، قال: اخبرنا محمد ، عن ابي سلمة ، عن عائشة ، قالت: كانت لنا حصيرة نبسطها بالنهار ونتحجرها علينا بالليل، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة، فسمع اهل المسجد صلاته، فاصبحوا، فذكروا ذلك للناس، فكثر الناس الليلة الثانية، فاطلع عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " اكلفوا من الاعمال ما تطيقون، فإن الله عز وجل لا يمل حتى تملوا" ، وقالت عائشة: كان احب الاعمال إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ادومها وإن قل، وكان إذا صلى صلاة اثبتها، وقال يزيد حصيرة نبسطها بالنهار، ونحتجرها بالليل.حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ . وَيَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَتْ لَنَا حَصِيرَةٌ نَبْسُطُهَا بِالنَّهَارِ وَنَتَحَجَّرُهَا عَلَيْنَا بِاللَّيْلِ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَسَمِعَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ صَلَاتَهُ، فَأَصْبَحُوا، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّاسِ، فَكَثُرَ النَّاسُ اللَّيْلَةَ الثَّانِيَةَ، فَاطَّلَعَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " اكْلَفُوا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا" ، وَقَالَتْ عَائِشَةُ: كَانَ أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْوَمَهَا وَإِنْ قَلَّ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَثْبَتَهَا، وَقَالَ يَزِيدُ حَصِيرَةٌ نَبْسُطُهَا بِالنَّهَارِ، وَنَحْتَجِرُهَا بِاللَّيْلِ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمارے پاس ایک چٹائی تھی جسے دن کو ہم لوگ بچھا لیا کرتے تھے اور رات کے وقت اسی کو اوڑھ لیتے تھے، ایک مرتبہ رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، مسجد والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے اگلے دن لوگوں سے اس کا ذکر کردیا، چنانچہ اگلی رات کو بہت سے لوگ جمع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا اپنے آپ کو اتنے اعمال کا مکلف بناؤ جتنے کی تم طاقت رکھتے ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو اس پر ثابت قدم رہتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہوتا تھا جو دائمی ہوتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل محمد وقد توبع
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے چاند دکھایا جو طلوع ہو رہا تھا اور فرمایا اس اندھیری رات کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو جب وہ چھا جایا کرے۔
حدثنا يعلى ، حدثنا قدامة يعني ابن عبد الله العامري ، عن جسرة ، قالت: حدثتني عائشة ، قالت: دخلت علي امراة من اليهود، فقالت: إن عذاب القبر من البول، فقلت: كذبت، قالت: بلى، إنا لنقرض منه الثوب والجلد، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الصلاة، وقد ارتفعت اصواتنا، فقال:" ما هذه؟"، فاخبرته بما قالت، فقال:" صدقت"، قالت: فما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من يومئذ إلا قال في دبر الصلاة: " اللهم رب جبريل وميكائيل وإسرافيل اعذني من حر النار، وعذاب القبر" .حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا قُدَامَةُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْعَامِرِيَّ ، عَنْ جَسْرَةَ ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَتْ: إِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ مِنَ الْبَوْلِ، فَقُلْتُ: كَذَبْتِ، قَالَتْ: بَلَى، إِنَّا لَنَقْرِضُ مِنْهُ الثَّوْبَ وَالْجِلْدَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ، وَقَدْ ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا، فَقَالَ:" مَا هَذِهِ؟"، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَتْ، فَقَالَ:" صَدَقَتْ"، قَالَتْ: فَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَوْمِئِذٍ إِلَّا قَالَ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ: " اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ أَعِذْنِي مِنْ حَرِّ النَّارِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ عذاب قبر پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے، اس نے اس کی تکذیب کی، اس نے اپنی بات پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو کپڑے یا جسم کی کھال پر پیشاب لگ جا نے سے اس کو کھرچ ڈالتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے جاچکے تھے، جبکہ دوران گفتگو ہماری آوازیں اونچی ہوگئی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا ماجرا ہے؟ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس یہودیہ کی بات بتائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا ہے، پھر اس دن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز بھی پڑھائی، اس کے بعد بلند آواز سے یہ دعاء ضرور کی کہ اے جبرائیل و میکا ئیل اور اسرافیل کے رب اللہ! مجھے جہنم کی گرمی اور عذاب قبر سے محفوظ فرما۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة، جسرة، قال البخاري عنها: عندها عجائب، وقدامة ، قال ابن حجر عنه: مقبول
حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا مسعر ، عن المقدام بن شريح ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت:" إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليؤتى بالإناء، فاشرب منه وانا حائض، ثم ياخذه، فيضع فاه على موضع في، وإن كنت لآخذ العرق، فآكل منه، ثم ياخذه، فيضع فاه على موضع في" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُؤْتَى بِالْإِنَاءِ، فَأَشْرَبُ مِنْهُ وَأَنَا حَائِضٌ، ثُمَّ يَأْخُذُهُ، فَيَضَعُ فَاهُ عَلَى مَوْضِعِ فِيَّ، وَإِنْ كُنْتُ لَآخُذُ الْعَرْقَ، فَآكُلُ مِنْهُ، ثُمَّ يَأْخُذُهُ، فَيَضَعُ فَاهُ عَلَى مَوْضِعِ فِيَّ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن پیش کیا جاتا، میں ایام سے ہوتی اور اس کا پانی پی لیتی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے پکڑ کر اپنا منہ وہیں رکھتے جہاں سے میں نے منہ لگا کر پیا ہوتا تھا، اسی طرح میں ایک ہڈی پکڑ کر اس کا گوشت کھاتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے پکڑ کر اپنا منہ وہیں رکھتے جہاں سے میں نے منہ لگا کر کھایا ہوتا تھا۔
حدثنا مروان ، قال: اخبرنا عبيد الله بن سيار ، قال: سمعت عائشة بنت طلحة تذكر، عن عائشة ام المؤمنين ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان جالسا كاشفا عن فخذه، فاستاذن ابو بكر، فاذن له وهو على حاله، ثم استاذن عمر، فاذن له وهو على حاله، ثم استاذن عثمان، فارخى عليه ثيابه، فلما قاموا، قلت: يا رسول الله، استاذن عليك ابو بكر وعمر، فاذنت لهما وانت على حالك، فلما استاذن عثمان، ارخيت عليك ثيابك! فقال:" يا عائشة، الا استحيي من رجل والله إن الملائكة تستحيي منه" .حَدَّثَنَا مَرْوَانُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَيَّارٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ طَلْحَةَ تَذْكُرُ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ جَالِسًا كَاشِفًا عَنْ فَخِذِهِ، فَاسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ، فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَى حَالِهِ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ، فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَى حَالِهِ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ، فَأَرْخَى عَلَيْهِ ثِيَابَهُ، فَلَمَّا قَامُوا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَأْذَنَ عَلَيْكَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَأَذِنْتَ لَهُمَا وَأَنْتَ عَلَى حَالِكَ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ، أَرْخَيْتَ عَلَيْكَ ثِيَابَكَ! فَقَالَ:" يَا عَائِشَةُ، أَلَا أَسْتَحْيِي مِنْ رَجُلٍ وَاللَّهِ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَسْتَحْيِي مِنْهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ ران مبارک سے کپڑا ہٹ گیا تھا، اسی اثناء میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی اور خود اسی حال پر بیٹھے رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی اور خود اسی حال پر بیٹھے رہے، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر کپڑا ڈھانپ لیا، جب وہ لوگ چلے گئے تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ سے ابوبکروعمر نے اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور اسی کیفیت پر بیٹھے رہے اور جب عثمان نے اجازت چاہی تو آپ نے اپنے اوپر کپڑا ڈھانپ لیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں واللہ جس سے فرشتے حیاء کرتے ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عبيدالله بن سيار
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم عورتوں کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کس جگہ عمل میں آئے گی، یہاں تک کہ ہم نے منگل کی رات شروع ہونے کے بعد رات کے آخری پہر میں لوگوں کے گزرنے کی آوازیں سنیں۔
حدثنا وكيع ، حدثنا كهمس ، عن عبد الله بن شقيق ، قال: سالت عائشة عن صوم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: " ما علمته صام شهرا حتى يفطر منه، ولا افطره حتى يصوم منه، حتى مضى لسبيله" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: " مَا عَلِمْتُهُ صَامَ شَهْرًا حَتَّى يُفْطِرَ مِنْهُ، وَلَا أَفْطَرَهُ حَتَّى يَصُومَ مِنْهُ، حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ" .
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفلی روزوں کے متعلق پو چھا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے کوئی ایسا مہینہ معلوم نہیں ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا ہو، ناغہ نہ کیا ہو یا ناغہ کیا ہو تو روزہ نہ رکھا ہو، تاآنکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوگئے۔
حدثنا وكيع ، قال: حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يقرا آية فقال: " رحمه الله، لقد اذكرني آية كنت نسيتها" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقْرَأُ آيَةً فَقَالَ: " رَحِمَهُ اللَّهُ، لَقَدْ أَذْكَرَنِي آيَةً كُنْتُ نُسِّيتُهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو قرآن کریم کی ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ اس پر اپنی رحمت نازل کرے، اس نے مجھے فلاں آیت یاد دلادی جو میں بھول گیا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رشتہ جوڑتا ہے اللہ اسے جوڑتا ہے اور جو شخص رشتہ توڑتا ہے اللہ اسے توڑتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! جو شخص میری امت پر نرمی کرے تو اس پر نرمی فرما اور جو ان پر سختی کرے تو اس پر سختی فرما۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على جعفر بن برقان
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو یوں کہتے تھے اے اللہ! تو ہی سلامتی والا ہے، تجھ سے سلامتی ملتی ہے۔ اے بزرگی اور عزت والے! تو بہت بابرکت ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ لوگ اپنے کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے اور اسی حال میں جمعہ کیلئے آجاتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کاش! تم غسل ہی کرلیتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رات کے کسی حصے میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہو اور سو جاتا ہو تو اس کے لئے نماز کا اجر تو لکھا جاتا ہی ہے اس کی نیند بھی صدقہ ہوتی ہے جس کا ثواب اسے ملتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو جعفر الرازي سيئ الحفظ واضطرب فيه، وسعيد بن جبير لم يسمع من عائشة
اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کے متعلق سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی حصے میں سوتے تھے اور آخری حصے میں قیام فرماتے تھے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا ابو العميس ، عن ابن ابي مليكة ، عن عائشة ، قالت: " قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يستخلف احدا، ولو كان مستخلفا احدا، لاستخلف ابا بكر، او عمر" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَسْتَخْلِفْ أَحَدًا، وَلَوْ كَانَ مُسْتَخْلِفًا أَحَدًا، لَاسْتَخْلَفَ أَبَا بَكْرٍ، أَوْ عُمَرَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال اس حال میں ہوا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃً کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد فرماتے۔
حدثنا إبراهيم بن خالد ، عن رباح ، عن معمر ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: لبث رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة اشهر يرى انه ياتي ولا ياتي، فاتاه ملكان، فجلس احدهما عند راسه، والآخر عند رجليه، فقال احدهما للآخر: ما باله؟ قال: مطبوب، قال: من طبه؟ قال: لبيد بن الاعصم، قال: فيم؟ قال: في مشط ومشاطة في جف طلعة ذكر في بئر ذروان تحت رعوفة، فاستيقظ النبي صلى الله عليه وسلم من نومه، فقال: " اي عائشة، الم ترين ان الله افتاني فيم استفتيته"، فاتى البئر، فامر به، فاخرج، فقال:" هذه البئر التي اريتها، والله كان ماءها نقاعة الحناء، وكان رؤوس نخلها رؤوس الشياطين"، فقالت عائشة: لو انك؟ كانها تعني ان ينتشر، قال:" اما والله قد عافاني الله، وانا اكره ان اثير على الناس منه شرا" .حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ رَبَاحٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَبِثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ يَرَى أَنَّهُ يَأْتِي وَلَا يَأْتِي، فَأَتَاهُ مَلَكَانِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِهِ، وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ: مَا بَالُهُ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ، قَالَ: فِيمَ؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ فِي جُفِّ طَلْعَةِ ذَكَرٍ فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ تَحْتَ رعُوفَةٍ، فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَوْمِهِ، فَقَالَ: " أَيْ عَائِشَةُ، أَلَمْ تَرَيْنَ أَنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِيمَ اسْتَفْتَيْتُهُ"، فَأَتَى الْبِئْرَ، فَأَمَرَ بِهِ، فَأُخْرِجَ، فَقَالَ:" هَذِهِ الْبِئْرُ الَّتِي أُرِيتُهَا، وَاللَّهِ كَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ، وَكَأَنَّ رُؤوسَ نَخْلِهَا رُؤوسُ الشَّيَاطِينِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لَوْ أَنَّكَ؟ كَأَنَّهَا تَعْنِي أَنْ يَنْتَشِرَ، قَالَ:" أَمَا وَاللَّهِ قَدْ عَافَانِي اللَّهُ، وَأَنَا أَكْرَهُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بنو زریق کے ایک یہودی " جس کا نام لبید بن اعصم تھا " نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادوکر دیا تھا، جس کے نتیجے میں چھ ماہ تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ انہوں نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کافی دیر تک دعائیں کیں، پھر فرمایا عائشہ! میں نے اللہ سے جو کچھ پوچھا تھا، اس نے مجھے اس کے متعلق بتادیا ہے، میرے پاس دو آدمی آئے، ان میں سے ایک میرے سرہانے کی جانب بیٹھا اور دوسرا پائنتی کی جانب، پھر سرہانے کی جانب بیٹھنے والے نے پائنتی کی جانب بیٹھنے والے سے یا علی العکس کہا کہ اس آدمی کی کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے؟ اس نے پوچھا کہ یہ جادو کس نے کیا ہے؟ دوسرے نے بتایا لبید بن اعصم نے، اس نے پوچھا کہ کن چیزوں میں جادو کیا گیا ہے؟ دوسرے نے بتایا کہ ایک کنگھی میں اور جو بال اس سے گرتے ہیں اور نر کھجور کے خوشہ غلاف میں اس نے پوچھا کہ اس وقت یہ چیزیں کہاں ہیں؟ دوسرے نے بتایا کہ " اروان " نامی کنوئیں میں۔ چنانچہ یہ خواب دیکھنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کنوئیں پر پہنچے اور واپس آکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ اے عائشہ! اس کنوئیں کا پانی تو یوں لگ رہا تھا جیسے مہندی کا رنگ ہوتا ہے اور اس کے قریب جو درخت تھے وہ شیطان کے سر معلوم ہو رہے تھے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے اسے آگ کیوں نہیں لگا دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، اللہ نے مجھے عافیت دے دی ہے، اب میں لوگوں میں شر اور فتنہ پھیلانے کو اچھا نہیں سمجھتا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان سب چیزوں کو دفن کردیا گیا۔
حدثنا حماد بن اسامة ، قال: اخبرنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى انه ليخيل له انه يفعل الشيء وما يفعله، حتى إذا كان ذات يوم وهو عندها دعا الله عز وجل ودعاه، ثم قال: " اشعرت ان الله افتاني فيما استفتيته فيه"، قلت: وما ذاك يا رسول الله؟ قال صلى الله عليه وسلم:" جاءني رجلان، فجلس احدهما عند راسي، والآخر عند رجلي، ثم قال احدهما لصاحبه: ما وجع الرجل؟ قال: مطبوب، قال: من طبه؟ قال: لبيد بن الاعصم اليهودي، قال: في ماذا؟ قال: في مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر، قال: فاين هو؟ قال: في بئر ذروان"، فذهب النبي صلى الله عليه وسلم إلى البئر، فنظر إليها وعليها نخل، ثم رجع إلى عائشة، فقال:" والله لكان ماءها نقاعة الحناء، ولكان نخلها رؤوس الشياطين"، قلت: يا رسول الله، فاحرقه، قال:" لا، اما انا فقد عافاني الله عز وجل، وخشيت ان اثور على الناس منه شرا" .حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: سُحِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَنَّهُ لَيُخَيَّلُ لَهُ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا يَفْعَلُهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ عِنْدَهَا دَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَدَعَاهُ، ثُمَّ قَالَ: " أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ"، قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" جَاءَنِي رَجُلَانِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ الْيَهُودِيُّ، قَالَ: فِي مَاذَا؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةِ ذَكَرٍ، قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ"، فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْبِئْرِ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَعَلَيْهَا نَخْلٌ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُؤوسُ الشَّيَاطِينِ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَحْرِقْهُ، قَالَ:" لَا، أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَخَشِيتُ أَنْ أُثَوِّرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بنو زریق کے ایک یہودی " جس کا نام لبید بن اعصم تھا " نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کردیا تھا، جس کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ انہوں نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کافی دیر تک دعائیں کیں، پھر فرمایا عائشہ! میں نے اللہ سے جو کچھ پوچھا تھا، اس نے مجھے اس کے متعلق بتادیا ہے، میرے پاس دو آدمی آئے، ان میں سے ایک میرے سرہانے کی جانب بیٹھا اور دوسرا پائنتی کی جانب، پھر سرہانے کی جانب بیٹھنے والے نے پائنتی کی جانب بیٹھنے والے سے یا علی العکس کہا کہ اس آدمی کی کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے؟ اس نے پوچھا کہ یہ جادو کس نے کیا ہے؟ دوسرے نے بتایا لبید بن اعصم نے، اس نے پوچھا کہ کن چیزوں میں جادو کیا گیا ہے؟ دوسرے نے بتایا کہ ایک کنگھی میں اور جو بال اس سے گرتے ہیں اور نر کھجور کے خوشہ غلاف میں اس نے پوچھا کہ اس وقت یہ چیزیں کہاں ہیں؟ دوسرے نے بتایا کہ " اروان " نامی کنوئیں میں۔ چنانچہ یہ خواب دیکھنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کنوئیں پر پہنچے اور واپس آکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ اے عائشہ! اس کنوئیں کا پانی تو یوں لگ رہا تھا جیسے مہندی کا رنگ ہوتا ہے اور اس کے قریب جو درخت تھے وہ شیطان کے سر معلوم ہو رہے تھے، میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ نے اسے آگ کیوں نہیں لگا دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، اللہ نے مجھے عافیت دے دی ہے، اب میں لوگوں میں شر اور فتنہ پھیلانے کو اچھا نہیں سمجھتا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان سب چیزوں کو دفن کردیا گیا۔
حدثنا سفيان ، عن مسعر ، عن المقدام بن شريح ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطيني العرق فاتعرقه، ثم ياخذه فيضع فاه على موضع في، ويعطيني الإناء فاشرب، ثم ياخذه فيضع فاه على موضع في" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَرْقَ فَأَتَعَرَّقُهُ، ثُمَّ يَأْخُذُهُ فَيَضَعُ فَاهُ عَلَى مَوْضِعِ فِيَّ، وَيُعْطِينِي الْإِنَاءَ فَأَشْرَبُ، ثُمَّ يَأْخُذُهُ فَيَضَعُ فَاهُ عَلَى مَوْضِعِ فِيَّ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن پیش کیا جاتا، میں ایام سے ہوتی اور اس کا پانی پی لیتی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے پکڑ کر اپنا منہ وہیں رکھتے جہاں سے میں نے منہ لگا کر پیا ہوتا تھا، اسی طرح میں ایک ہڈی پکڑ کر اس کا گوشت کھاتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے پکڑ کر اپنا منہ وہیں رکھتے جہاں سے میں نے منہ لگا کر کھایا ہوتا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بیت اللہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور رمی جمار کا حکم صرف اس لئے دیا گیا ہے کہ تاکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر قائم کیا جائے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبيدالله بن أبى زياد فيه ضعف وقد خالف الثقات
حدثنا يونس ، حدثنا ابان ، عن يحيى ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن انه دخل على عائشة وهو يخاصم في ارض، فقالت عائشة: يا ابا سلمة، اجتنب الارض، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من ظلم قيد شبر من الارض، طوقه يوم القيامة من سبع ارضين" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ وَهُوَ يُخَاصِمُ فِي أَرْضٍ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا أَبَا سَلَمَةَ، اجْتَنِبْ الْأَرْضَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ ظَلَمَ قِيدَ شِبْرٍ مِنَ الْأَرْضِ، طُوِّقَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ" .
ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس زمین کا ایک جھگڑا لے کر حاضر ہوئے، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا: اے ابوسلمہ! زمین چھوڑ دو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص ایک بالشت بھر زمین بھی کسی سے ظلماً لیتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گلے میں سات زمینوں کا وہ حصہ طوق بنا کر ڈالے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع لأن يحيى لم يسمع هذا الحديث من أبى سلمة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو وہ میرے سینے اور ٹھوڑی کے درمیان تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے بعد میں کسی پر بھی موت کی شدت کو دیکھ کر اسے ناپسند نہیں کروں گی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مومن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے قائم اللیل اور صائم النہار لوگوں کے درجات پالیتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، المطلب لم يدرك عائشة
حدثنا يونس ، قال: حدثنا ليث ، عن يزيد ، عن موسى بن سرجس ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة ، قالت: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يموت، وعنده قدح فيه ماء، فيدخل يده في القدح، ثم يمسح وجهه بالماء، ثم يقول: " اللهم اعني على سكرات الموت" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَرْجِسَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَمُوتُ، وَعِنْدَهُ قَدَحٌ فِيهِ مَاءٌ، فَيُدْخِلُ يَدَهُ فِي الْقَدَحِ، ثُمَّ يَمْسَحُ وَجْهَهُ بِالْمَاءِ، ثُمَّ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى سَكَرَاتِ الْمَوْتِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نزع کے وقت میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ان کے پاس ایک پیالے میں پانی رکھا ہوا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پیالے میں ہاتھ ڈالتے جارہے ہیں اور اپنے چہرے پر اسے ملتے جا رہے ہیں اور یہ دعا فرماتے جا رہے ہیں کہ اے اللہ! موت کی بےہوشیوں میں میری مدد فرما۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال موسي بن سرجس
حدثنا يونس ، قال: حدثنا الليث ، عن هشام ، عن عروة ، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" كان يوتر بخمس سجدات لا يجلس بينهن حتى يجلس في الخامسة، ثم يسلم" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُوتِرُ بِخَمْسِ سَجَدَاتٍ لَا يَجْلِسُ بَيْنَهُنَّ حَتَّى يَجْلِسَ فِي الْخَامِسَةِ، ثُمَّ يُسَلِّمَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو پانچویں جوڑے پر وتر بناتے تھے، درمیان میں نہیں بیٹھتے تھے اور اسی پر بیٹھ کر سلام پھیرتے تھے۔
حدثنا يونس بن محمد ، قال: حدثنا داود يعني ابن ابي الفرات ، عن عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها اخبرته انها سالت نبي الله صلى الله عليه وسلم عن الطاعون، فاخبرها نبي الله صلى الله عليه وسلم: " انه كان عذابا يبعثه الله عز وجل على من يشاء، فجعله الله عز وجل رحمة للمؤمنين، فليس من عبد يقع الطاعون فيه، فيمكث في بلده صابرا محتسبا يعلم انه لم يصبه إلا ما كتب الله عز وجل له، إلا كان له مثل اجر الشهيد" .حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْفُرَاتِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَأَلَتْ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ، فَأَخْبَرَهَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ كَانَ عَذَابًا يَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ، فَجَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ، فَلَيْسَ مِنْ عَبْدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ فِيهِ، فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَمْ يُصِبْهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ، إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الشَّهِيدِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے " طاعون " کے متعلق دریافت کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ یہ ایک عذاب تھا جو اللہ جس پر چاہتا تھا بھیج دیتا تھا، لیکن اس امت کے مسلمانوں پر اللہ نے اسے رحمت بنادیا ہے، اب جو شخص طاعون کی بیماری میں مبتلا ہو اور اس شہر میں ثواب کی نیت سے صبر کرتے ہوئے رکا رہے اور یقین رکھتا ہو کہ اسے صرف وہی مصیبت آسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دی ہے، تو اسے شہید کے برابر اجر ملے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور وہ ان کے سامنے عرض میں لیٹی ہوتی تھیں اور فرماتے تھے کہ جن عورتوں کے سامنے تم نماز پڑھتے ہو، کیا وہ تمہاری مائیں، بہنیں اور پھوپھیاں نہیں ہوتیں؟
حكم دارالسلام: إسناده حسن من أجل إبراهيم بن ميمون الصائغ وجملة: صلى وهى معترضة بين يديه صحيحة
حدثنا يونس ، حدثنا ليث ، عن يزيد يعني ابن ابي حبيب ، عن ابي بكر بن إسحاق بن يسار ، عن عبد الله بن عروة ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، اشتكى اصحابه، واشتكى ابو بكر وعامر بن فهيرة مولى ابي بكر، وبلال، فاستاذنت عائشة النبي صلى الله عليه وسلم في عيادتهم، فاذن لها، فقالت لابي بكر: كيف تجدك؟ فقال: كل امرئ مصبح في اهله، والموت ادنى من شراك نعله، وسالت عامرا، فقال: إني وجدت الموت قبل ذوقه، إن الجبان حتفه من فوقه، وسالت بلالا، فقال: يا ليت شعري هل ابيتن ليلة بفخ وحولي إذخر وجليل، فاتت النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بقولهم، فنظر إلى السماء، وقال: " اللهم حبب إلينا المدينة، كما حببت إلينا مكة، او اشد، اللهم بارك لنا في صاعها، وفي مدها، وانقل وباءها إلى مهيعة" ، وهي الجحفة كما زعموا.حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، اشْتَكَى أَصْحَابُهُ، وَاشْتَكَى أَبُو بَكْرٍ وَعَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، وَبِلَالٌ، فَاسْتَأْذَنَتْ عَائِشَةُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عِيَادَتِهِمْ، فَأَذِنَ لَهَا، فَقَالَتْ لِأَبِي بَكْرٍ: كَيْفَ تَجِدُكَ؟ فَقَالَ: كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ، وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ، وَسَأَلَتْ عَامِرًا، فَقَالَ: إِنِّي وَجَدْتُ الْمَوْتَ قَبْلَ ذَوْقِهِ، إِنَّ الْجَبَانَ حَتْفُهُ مِنْ فَوْقِهِ، وَسَأَلَتْ بِلَالًا، فَقَالَ: يَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بفَخًًًّ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ، فَأَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْهُ بِقَوْلِهِمْ، فَنَظَرَ إِلَى السَّمَاءِ، وَقَالَ: " اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ، كَمَا حَبَّبْتَ إِلَيْنَا مَكَّةَ، أو َأَشَدَّ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا، وَفِي مُدِّهَا، وَانْقُلْ وَبَاءَهَا إِلَى مَهْيَعَةَ" ، وَهِيَ الْجُحْفَةُ كَمَا زَعَمُوا.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ اور بلال رضی اللہ عنہ بھی بیمار ہوگئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان لوگوں کی عیادت کے لئے جانے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، انہوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ اپنی صحت کیسی محسوس کررہے ہیں؟ انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " شخص اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے جبکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتی ہے۔ " پھر میں نے عامر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " کہ موت کا مزہ چکھنے سے پہلے موت کو محسوس کررہا ہوں اور قبرستان منہ کے قریب آگیا ہے۔ " پھر میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے ان کی طبیعت پوچھی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " ہائے! مجھے کیا خبر کہ میں دوبارہ " فخ " میں رات گذار سکوں گا اور میرے آس پاس " اذخر " اور " جلیل " نامی گھاس ہوگی۔ " حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئیں اور ان لوگوں کی باتیں بتائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا اے اللہ! مدینہ منورہ کو ہماری نگاہوں میں اسی طرح محبوب بنا جیسے مکہ کو بنایا تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اس سے بھی زیادہ، اے اللہ! مدینہ کے صاع اور مد میں برکتیں عطاء فرما اور اس کی وباء کو حجفہ کی طرف منتقل فرما۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى بكر بن إسحاق بن يسار
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کی باندی زنا کرے اور اس کا جرم ثابت ہوجائے تو اسے کوڑوں کی سزا دے، پھر تیسری یا چوتھی مرتبہ یہی گناہ سر زد ہونے پر فرمایا کہ اسے بیچ دے خواہ اس کی قیمت صرف بالوں سے گندھی ہوئی ایک رسی ہی ملے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عمار بن أبى فروة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امام ضامن ہوتا ہے اور مؤذن امانت دار ہوتا ہے، اس لئے اللہ امام کو ہدایت دے اور مؤذن کو معاف فرمائے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن أبى الصالح إما ضعيف أو مجهول
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت مجھے اچانک ایام شروع ہوگئے، اس وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں لیٹی ہوئی تھی، سو میں پیچھے ہٹ گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہوا؟ کیا تمہارے نفاس کے ایام شروع ہوگئے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، بلکہ حیض کے ایام شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ازار اچھی طرح لپیٹ کر پھر واپس آجاؤ۔
حكم دارالسلام: حديث حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن الهيعة
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثنا ابو الاسود ، عن عروة ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: " اجعلوا من صلاتكم في بيوتكم، ولا تجعلوها عليكم قبورا" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: " اجْعَلُوا مِنْ صَلَاتِكُمْ فِي بُيُوتِكُمْ، وَلَا تَجْعَلُوهَا عَلَيْكُمْ قُبُورًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھروں کے لئے بھی رکھا کرو اور انہیں اپنے لئے قبرستان نہ بنایا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا ابو الاسود ، عن عروة ، عن عائشة ان خديجة سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ورقة بن نوفل؟ فقال: " قد رايته في المنام، فرايت عليه ثياب بياض، فاحسبه لو كان من اهل النار لم يكن عليه ثياب بياض" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ خَدِيجَةَ سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَل؟ فَقَالَ: " قَدْ رَأَيْتُهُ فِي الْمَنَامِ، فَرَأَيْتُ عَلَيْهِ ثِيَابُ بَيَاضٍ، فَأَحْسِبُهُ لَوْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ ثِيَابَ بَيَاضٍ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ بن نوفل کے انجام کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے انہیں خواب میں سفید کپڑے پہنے ہوئے دیکھا ہے، اس لئے میرا خیال یہ ہے کہ اگر وہ جہنمی ہوتے تو ان کے اوپر سفید کپڑے نہ ہوتے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة ، وقد روى من بلاغات الزهري وهو الصواب
حدثنا هارون بن معروف ، قال: حدثنا ابن وهب ، قال: اخبرني عمرو ، ان بكر بن سوادة حدثه، ان يزيد بن ابي يزيد حدثه، عن عبيد بن عمير ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم ان رجلا تلا هذه الآية من يعمل سوءا يجز به سورة النساء آية 123، قال: إنا لنجزى بكل عملنا؟! هلكنا إذا، فبلغ ذاك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " نعم، يجزى به المؤمنون في الدنيا في مصيبة في جسده فيما يؤذيه" .حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، أَنَّ بَكْرَ بْنَ سَوَادَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ أَبِي يَزِيدَ حَدَّثَهُ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ سورة النساء آية 123، قَالَ: إِنَّا لَنُجْزَى بِكُلِّ عَمَلِنَا؟! هَلَكْنَا إِذًا، فَبَلَغَ ذَاكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " نَعَمْ، يُجْزَى بِهِ الْمُؤْمِنُونَ فِي الدُّنْيَا فِي مُصِيبَةٍ فِي جَسَدِهِ فِيمَا يُؤْذِيهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے یہ آیت تلاوت کی " جو شخص برا کام کرے گا، اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا، تو وہ کہنے لگا کہ اگر ہمیں ہمارے عمل کا بدلہ دیا جائے گا تو ہم تو ہلاک ہوجائیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا ہاں! البتہ مومن کو اس کا بدلہ دنیا ہی میں جسمانی ایذاء اور مصیبت کی شکل میں دے دیا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لأجل يزيد بن أبى زياد
حدثنا هارون بن معروف ، ومعاوية بن عمرو ، قالا: حدثنا ابن وهب ، قال: اخبرنا عمرو ، ان ابا النضر حدثه، عن سليمان بن يسار ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم قط مستجمعا ضاحكا، قال معاوية: ضحكا، حتى ارى منه لهواته، إنما كان يتبسم، وقالت: كان إذا راى غيما، او ريحا، عرف ذلك في وجهه، قالت: يا رسول الله، الناس إذا راوا الغيم، فرحوا رجاء ان يكون فيه المطر، واراك إذا رايته عرفت في وجهك الكراهية! قالت: فقال: " يا عائشة، ما يؤمني ان يكون فيه عذاب، قد عذب قوم بالريح، وقد راى قوم العذاب، فقالوا: هذا عارض ممطرنا" .حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرٌو ، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ مُسْتَجْمِعًا ضَاحِكًا، قَالَ مُعَاوِيَةُ: ضَحِكًا، حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ، وَقَالَتْ: كَانَ إِذَا رَأَى غَيْمًا، أَوْ رِيحًا، عُرِفَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، النَّاسُ إِذَا رَأَوْا الْغَيْمَ، فَرِحُوا رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ فِيهِ الْمَطَرُ، وَأَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عَرَفْتُ فِي وَجْهِكَ الْكَرَاهِيَةَ! قَالَتْ: فَقَالَ: " يَا عَائِشَةُ، مَا يُؤْمِنِّي أَنْ يَكُونَ فِيهِ عَذَابٌ، قَدْ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيحِ، وَقَدْ رَأَى قَوْمٌ الْعَذَابَ، فَقَالُوا: هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے کبھی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ کھول کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ حلق کا کوا نظر آنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف تبسم فرماتے تھے اور جب بادل یا آندھی نظر آتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے مبارک پر تفکرات کے آثار نظر آنے لگتے تھے، ایک مرتبہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! لوگ بادل کو دیکھ کر خوش ہوئے ہیں اور انہیں یہ امید ہوتی ہے کہ اب بارش ہوگی اور میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ بادلوں کو دیکھ کر آپ کے چہرے پر تفکرات کے آثار نظر آنے لگتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! مجھے اس چیز سے اطمینان نہیں ہو تاکہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو، کیونکہ اس سے پہلے ایک قوم پر آندھی کا عذاب ہوچکا ہے، جب ان لوگوں نے عذاب کو دیکھا تھا تو اسے بادل سمجھ کر یہ کہہ رہے تھے کہ یہ بادل ہم پر بارش برسائے گا۔
حدثنا حسن ، قال: حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثنا حيي بن عبد الله ، ان ابا عبد الرحمن الحبلي حدثه، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم" انها طرقتها الحيضة من الليل ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي، فاشارت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بثوب وفيه دم، فاشار إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة اغسليه، فغسلت موضع الدم، ثم اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك الثوب، فصلى فيه" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنَّهَا طَرَقَتْهَا الْحَيْضَةُ مِنَ اللَّيْلِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، فَأَشَارَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَوْبٍ وَفِيهِ دَمٌ، فَأَشَارَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ اغْسِلِيهِ، فَغَسَلَتْ مَوْضِعَ الدَّمِ، ثُمَّ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ الثَّوْبَ، فَصَلَّى فِيهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت مجھے ایام شروع ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارے سے کپڑا دکھایا جس پر خون لگا ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز ہی اشارے سے انہیں وہ کپڑا دھونے کا حکم دیا، انہوں نے خون کی جگہ سے اسے دھویا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکڑ کر اس میں نماز پڑھ لی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة وحيي بن عبدالله
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا جعفر بن ربيعة ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ايما امراة نكحت بغير إذن وليها، فنكاحها باطل، فإن اصابها، فلها مهرها بما اصاب من فرجها، وإن اشتجروا، فالسلطان ولي من لا ولي له" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ أَصَابَهَا، فَلَهَا مَهْرُهَا بِمَا أَصَابَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ اشْتَجَرُوا، فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر کوئی عورت اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے، اگر وہ اس کے ساتھ مباشرت بھی کرلے تو اس بناء پر اس کے ذمے مہر واجب ہوجائے گا اور اگر اس میں لوگ اختلاف کرنے لگیں تو بادشاہ اس کا ولی ہوگا جس کا کوئی ولی نہ ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثنا ابو الاسود ، انه سمع عروة بن الزبير يحدث، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كان الكافر من كفار قريش يموت، فيبكيه اهله فيقولون: المطعم الجفان المقاتل الذي...، فيزيده الله عذابا بما يقولون" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ الْكَافِرُ مِنْ كُفَّارِ قُرَيْشٍ يَمُوتُ، فَيَبْكِيهِ أَهْلُهُ فَيَقُولُونَ: الْمُطْعِمُ الْجِفَانَ الْمُقَاتِلُ الَّذِي...، فَيَزِيدُهُ اللَّهُ عَذَابًا بِمَا يَقُولُونَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کفار قریش میں سے ایک آدمی مر رہا تھا اور اس کے اہل خانہ اس پر روتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ دیگیں بھر کر کھلانے والا اور جنگجو آدمی تھا اور ان کے اس کہنے کے اوپر اللہ تعالیٰ اس کے عذاب میں مزید اضافہ کردیتا تھا۔
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثني ابو الاسود ، انه سمع عروة يحدث، عن عائشة ، قالت: ذكر رجل عند رسول الله صلى الله عليه وسلم بخير، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اولم تروه يتعلم القرآن؟" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْأَسْوَدِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: ذُكِرَ رَجُلٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَيْرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَوَلَمْ تَرَوْهُ يَتَعَلَّمُ الْقُرْآنَ؟" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اچھائی کے ساتھ تذکرہ ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اسے دیکھا نہیں کہ وہ قرآن کریم سیکھ رہا ہے۔
حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثنا ابو الاسود ، انه سمع عروة يحدث، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يقولن احدكم نفسي خبيثة، ولكن يقول نفسي لقسة" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ نَفْسِي خَبِيثَةٌ، وَلَكِنْ يَقُولُ نَفْسِي لَقِسَةٌ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میرا نفس خبیث ہوگیا ہے، البتہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا دل سخت ہوگیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عورتوں کی جماعت میں کوئی خیر نہیں ہے، الاّ یہ کہ وہ مسجد میں ہو یا کسی شہید کے جنازے میں۔
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة ولجهالة الوليد
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب ماہ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رَت جگا فرماتے اپنے اہل خانہ کو جگاتے اور کمر بند کس لیتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: واعتزل أهله ، فحسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى معشر
حدثنا حسن ، ويحيى بن إسحاق ، قالا: حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثنا خالد بن ابي عمران ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: " اتدرون من السابقون إلى ظل الله عز وجل يوم القيامة؟" قالوا: الله ورسوله اعلم، قال:" الذين إذا اعطوا الحق قبلوه، وإذا سئلوه بذلوه، وحكموا للناس كحكمهم لانفسهم" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، وَيَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " أَتَدْرُونَ مَنْ السَّابِقُونَ إِلَى ظِلِّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" الَّذِينَ إِذَا أُعْطُوا الْحَقَّ قَبِلُوهُ، وَإِذَا سُئِلُوهُ بَذَلُوهُ، وَحَكَمُوا لِلنَّاسِ كَحُكْمِهِمْ لِأَنْفُسِهِمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ قیامت کے دن عرش الہٰی کی طرف سبقت لے جانے والے لوگ کون ہوں گے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور رسول زیادہ جانتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے کہ اگر انہیں ان کا حق مل جائے تو قبول کرلیتے ہیں، جب مانگا جائے تو دیدیتے ہیں اور لوگوں کے لئے وہی فیصلہ کرتے ہیں جو اپنے لئے کرتے ہیں۔
حدثنا حدثنا ابو معاوية عبد الله بن معاوية الزبيري قدم علينا مكة، حدثنا هشام بن عروة ، قال: كان عروة يقول لعائشة : يا امتاه، لا اعجب من فهمك، اقول: زوجة رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت ابي بكر، ولا اعجب من علمك بالشعر وايام الناس، اقول: ابنة ابي بكر، وكان اعلم الناس او ومن اعلم الناس، ولكن اعجب من علمك بالطب، كيف هو؟ ومن اين هو؟ قال: فضربت على منكبه، وقالت:" اي عرية، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسقم عند آخر عمره، او في آخر عمره، فكانت تقدم عليه وفود العرب من كل وجه، فتنعت له الانعات، وكنت اعالجها له، فمن ثم" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الزُّبَيْرِيُّ قَدِمَ عَلَيْنَا مَكَّةَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، قَالَ: كَانَ عُرْوَةُ يَقُولُ لِعَائِشَةَ : يَا أُمَّتَاهُ، لَا أَعْجَبُ مِنْ فَهْمِكِ، أَقُولُ: زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِنْتُ أَبِي بَكْرٍ، وَلَا أَعْجَبُ مِنْ عِلْمِكِ بِالشِّعْرِ وَأَيَّامِ النَّاسِ، أَقُولُ: ابْنَةُ أَبِي بَكْرٍ، وَكَانَ أَعْلَمَ النَّاسِ أَوْ وَمِنْ أَعْلَمِ النَّاسِ، وَلَكِنْ أَعْجَبُ مِنْ عِلْمِكِ بِالطِّبِّ، كَيْفَ هُوَ؟ وَمِنْ أَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فَضَرَبَتْ عَلَى مَنْكِبِهِ، وَقَالَتْ:" أَيْ عُرَيَّةُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْقَمُ عِنْدَ آخِرِ عُمْرِه، أَوْ فِي آخِرِ عُمْرِهِ، فَكَانَتْ تَقْدَمُ عَلَيْهِ وُفُودُ الْعَرَبِ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ، فَتَنْعَتُ لَهُ الْأَنْعَاتَ، وَكُنْتُ أُعَالِجُهَا لَهُ، فَمِنْ ثَمَّ" .
عروہ رحمہ اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہتے تھے کہ اماں جان! مجھے آپ کی فقاہت پر تعجب نہیں ہوتا کیونکہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں، مجھے آپ کے شعر اور ایام ناس کے علم پر بھی تعجب نہیں ہوتا کیونکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں جو کہ تمام لوگوں میں سب سے بڑے عالم تھے، مجھے جو تعجب ہوتا ہے وہ آپ کے علم طب پر ہوتا ہے کہ وہ آپ کو کیسے، کہاں سے اور کیونکر حاصل ہوا؟ انہوں نے ان کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا اے عروہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے آخری ایام میں بیمار ہوگئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہر طرف سے وفود عرب آتے تھے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مختلف قسم کی چیزیں تشخیص کرتے تھے اور میں ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کرتی تھی، بس وہیں سے یہ چیزیں میں نے حاصل کرلیں۔
حكم دارالسلام: خبر صحيح، وهذا إسناد فيه أبو معاوية ضعفه البخاري والنسائي
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ان لوگوں پر رحمت بھیجتے ہیں جو صفوں کو ملاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد اختلف فيه على أسامة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بیدار ہو کر نماز پڑھتے تو لحاف کا ایک کونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ہوتا اور دوسرا کونا مجھ پر ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے رہتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا جہاد حج ہی ہے۔
حدثنا حسن ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن عطاء بن السائب ، عن سعيد بن جبير ، عن عائشة ، انها قالت: يا رسول الله، كل اهلك قد دخل البيت غيري؟ فقال:" ارسلي إلى شيبة فيفتح لك الباب"، فارسلت إليه، فقال شيبة ما استطعنا فتحه في جاهلية ولا إسلام بليل، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " صلي في الحجر، فإن قومك استقصروا عن بناء البيت حين بنوه" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّها قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُلُّ أَهْلِكَ قَدْ دَخَلَ الْبَيْتَ غَيْرِي؟ فَقَالَ:" أَرْسِلِي إِلَى شَيْبَةَ فَيَفْتَحَ لَكِ الْبَابَ"، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ، فَقَالَ شَيْبَةُ مَا اسْتَطَعْنَا فَتْحَهُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ بِلَيْلٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلِّي فِي الْحِجْرِ، فَإِنَّ قَوْمَكَ اسْتَقْصَرُوا عَنْ بِنَاءِ الْبَيْتِ حِينَ بَنَوْهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یارسول اللہ! میرے علاوہ آپ کی تمام ازواج بیت اللہ میں داخل ہوچکی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم شیبہ کے پاس پیغام بھیج دو، وہ تمہارے لئے بیت اللہ کا دروازہ کھول دیں گے، چنانچہ انہوں نے شیبہ کے پاس پیغام بھیج دیا، شیبہ نے جواب دیا کہ ہم لوگ تو زمانہ جاہلیت میں بھی اسے رات کے وقت کھولنے کی جرأت نہیں کرسکے اور نہ ہی اسلام میں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تم حطیم میں نماز پڑھ لو، کیونکہ تمہاری قوم نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے بیت اللہ سے باہر چھوڑ دیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه دون قوله صلى فى الحجر فهو حسن لغيره، ودون قوله: فإن قوما استقصروا ..... فصحيح
حدثنا ابو المنذر إسماعيل بن عمر ، قال: حدثنا مالك يعني ابن انس ، عن عبد الله بن عبد الرحمن بن معمر ، عن ابي يونس مولى عائشة، عن عائشة ان رجلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، تدركني الصلاة وانا جنب وانا اريد الصيام؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وانا تدركني الصلاة وانا جنب، وانا اريد الصيام، فاغتسل، ثم اصوم"، فقال الرجل: إنا لسنا مثلك، فقد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال:" والله، إني لارجو ان اكون اخشاكم لله عز وجل، واعلمكم بما اتقي" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُنْذِرِ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ أَنَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُدْرِكُنِي الصَّلَاةُ وَأَنَا جُنُبٌ وَأَنَا أُرِيدُ الصِّيَامَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَأَنَا تُدْرِكُنِي الصَّلَاةُ وَأَنَا جُنُبٌ، وَأَنَا أُرِيدُ الصِّيَامَ، فَأَغْتَسِلُ، ثُمَّ أَصُومُ"، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّا لَسْنَا مِثْلَكَ، فَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" وَاللَّهِ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَخْشَاكُمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَعْلَمَكُمْ بِمَا أَتَّقِي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پو چھا یارسول اللہ! اگر نماز کا وقت آجائے، مجھ پر غسل واجب ہو اور میں روزہ بھی رکھنا چاہتا ہوں تو کیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے ساتھ ایسی کیفیت پیش آجائے تو میں غسل کر کے روزہ رکھ لیتا ہوں، وہ کہنے لگا ہم آپ کی طرح نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرمادیئے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نا راض ہوگئے اور غصے کے آثار چہرہ مبارک پر نظر آنے لگے اور فرمایا واللہ مجھے امید ہے کہ تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کے متعلق جاننے والا میں ہی ہوں۔
حدثنا ابو المنذر ، حدثنا مالك ، عن الفضيل بن ابي عبد الله ، عن عبد الله بن نيار الاسلمي ، عن عروة ، عن عائشة ان رجلا اتبع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اتبعك لاصيب معك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تؤمن بالله ورسوله؟"، قال: لا، قال:" فإنا لا نستعين بمشرك"، قال: فقال له في المرة الثانية:" تؤمن بالله ورسوله"، قال: نعم، فانطلق فتبعه .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنِ الْفُضَيْلِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نِيَارٍ الْأَسْلَمِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلًا اتَّبَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَتَّبِعُكَ لِأُصِيبَ مَعَكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ؟"، قَالَ: لَا، قَالَ:" فَإِنَّا لَا نَسْتَعِينُ بِمُشْرِكٍ"، قَالَ: فَقَالَ لَهُ فِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ:" تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ"، قَالَ: نَعَمْ، فَانْطَلَقَ فَتَبِعَهُ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل رہا تھا، وہ کہنے لگا کہ میں آپ کے ساتھ لڑائی میں شریک ہونے کے لئے جارہا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟ اس نے کہا نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے، اس نے دوبارہ یہی بات دہرائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہی سوال پوچھا، اس مرتبہ اس نے اثبات میں جواب دیا اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوگیا۔
حدثنا اسود بن عامر ، قال: اخبرنا شريك ، عن سماك ، عن عبد الله بن عميرة ، عن درة بنت ابي لهب ، قالت: كنت عند عائشة، فدخل النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" ائتوني بوضوء"، فقالت: فابتدرت انا وعائشة الكوز، قالت: فبدرتها فاخذته انا، فتوضا فرفع طرفه او عينه او بصره إلي، فقال:" انت مني وانا منك"، قالت: فاتي برجل، فقال:" ما انا فعلته ولكن قيل لي"، قالت: وكان ساله على المنبر من خير الناس؟ فقال: " افقههم في دين الله عز وجل، واوصلهم لرحمه" ، وذكر فيه شريك شيئين آخرين لم احفظهما.حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ سِمَاك ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمِيرَةَ ، عَنْ دُرَّةَ بِنْتِ أَبِي لَهَبٍ ، قَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" ائْتُونِي بِوَضُوءٍ"، فَقاَلْتُ: فَابْتَدَرْتُ أَنَا وَعَائِشَةُ الْكُوزَ، قَالَتْ: فَبَدَرْتُهَا فَأَخَذْتُهُ أَنَا، فَتَوَضَّأَ فَرَفَعَ طَرْفَهُ أَوْ عَيْنَهُ أَوْ بَصَرَهُ إِلَيَّ، فَقَالَ:" أَنْتِ مِنِّي وَأَنَا مِنْكِ"، قَالَتْ: فَأُتِيَ بِرَجُلٍ، فَقَالَ:" مَا أَنَا فَعَلْتُهُ وَلَكِنْ قِيلَ لِي"، قَالَتْ: وَكَانَ سَأَلَهُ عَلَى الْمِنْبَرِ مَنْ خَيْرُ النَّاس؟ فَقَالَ: " أَفْقَهُهُمْ فِي دِينِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَوْصَلُهُمْ لِرَحِمِهِ" ، وَذَكَرَ فِيهِ شَرِيكٌ شَيْئَيْنِ آخَرَيْنِ لَمْ أَحْفَظْهُمَا.
حضرت درہ بنت ابی لہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور فرمایا میرے پاس وضو کا پانی لاؤ، میں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک برتن کی طرف تیزی سے بڑھے، میں پہلے پہنچ گئی اور اسے لے آئی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور نگاہیں اٹھا کر مجھ سے فرمایا تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں، پھر ایک آدمی کو لایا گیا، اس نے کہا کہ میں نے یہ کام نہیں کیا بلکہ لوگوں نے مجھ سے کہا تھا، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے برسر منبر یہ سوال کیا تھا کہ لوگوں میں سب سے بہترین کون ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے دین کی سب سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھتا ہو اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہو۔
حدثنا حسن ، حدثنا حماد يعني ابن زيد ، عن ابي لبابة العقيلي ، قال: سمعت عائشة ، تقول:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول: ما يريد ان يفطر، ويفطر حتى نقول: ما يريد ان يصوم، وكان يقرا في كل ليلة ببني إسرائيل والزمر" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي لُبَابَةَ الْعُقَيْلِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: مَا يُرِيدُ أَنْ يُفْطِرَ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: مَا يُرِيدُ أَنْ يَصُومَ، وَكَانَ يَقْرَأُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ بِبَنِي إِسْرَائِيلَ وَالزُّمَرِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے روزے رکھتے تھے کہ ہم کہتے تھے اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے ہی رہیں گے اور بعض اوقات اتنے ناغے کرتے کہ ہم کہتے تھے اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناغے ہی کرتے رہیں گے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات سورت بنی اسرائیل اور سورت زمر کی تلاوت فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: وكان يقرأ فى كل ليلة ... وهذا إسناد فيه أبو لبابة فيه كلام
حدثنا اسود ، حدثنا شريك ، عن جابر ، عن يزيد بن مرة ، عن لميس ، عن عائشة ، قالت:" كان يخلط في العشرين الاولى النبي صلى الله عليه وسلم من نوم وصلاة، فإذا دخلت العشر جد وشد المئزر" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ لَمِيسَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" كَانَ يَخْلِطُ فِي الْعِشْرِينَ الْأُولَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَوْمٍ وَصَلَاةٍ، فَإِذَا دَخَلَتْ الْعَشْرُ جَدَّ وَشَدَّ الْمِئْزَرَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ماہ رمضان کے پہلے بیس دنوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نیند اور نماز دونوں کام کرتے تھے اور جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوب محنت کرتے اور تہبند کس لیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے ایسا کیا تو غسل کیا تھا، مراد یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے مجامعت کرے اور انزال نہ ہو (تو غسل کرے)۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، أشعث بن سوار إن كان ضعيفا ولكن توبع
حدثنا اسود ، حدثنا شريك ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هذه الدنيا خضرة حلوة، فمن آتيناه منها شيئا بطيب نفس منا وطيب طعمة ولا إشراه منه، بورك له فيه، ومن آتيناه منها شيئا بغير طيب نفس منا وغير طيب طعمة وإشراه منه، لم يبارك له فيه" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَذِهِ الدُّنْيَا خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ آتَيْنَاهُ مِنْهَا شَيْئًا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنَّا وَطِيبِ طُعْمَةٍ وَلَا إِشْرَاهٍ مِنْهُ، بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ آتَيْنَاهُ مِنْهَا شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ مِنَّا وَغَيْرِ طِيبِ طُعْمَةٍ وَإِشْرَاهٍ مِنْهُ، لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ دنیا سرسبز اور شیریں ہے، سو جسے ہم کوئی چیز اپنی خوش اور اچھے کھانے کی دے دیں جس میں اس کی صبری شامل نہ ہو تو اس کے لئے اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور جس شخص کو ہم اس میں سے کوئی چیز اپنی خوشی کے بغیر اور اچھے کھانے کے علاوہ دیدیں جس میں اس کی بےصبری بھی شامل ہو تو اس کے لئے اس میں برکت نہیں ڈالی جاتی۔
حدثنا اسود ، حدثنا شريك ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: " لما كبرت سودة، وهبت يومها لي، فكان النبي صلى الله عليه وسلم يقسم لي بيومها مع نسائه، قالت: وكانت اول امراة تزوجها بعدي" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " لَمَّا كَبِرَتْ سَوْدَةُ، وَهَبَتْ يَوْمَهَا لِي، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ لِي بِيَوْمِهَا مَعَ نِسَائِهِ، قَالَتْ: وَكَانَتْ أَوَّلَ امْرَأَةٍ تَزَوَّجَهَا بَعْدَي" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہ جب بوڑھی ہوگئیں تو انہوں نے اپنی باری کا دن مجھے دے دیا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی باری کا دن مجھے دیتے تھے اور وہ پہلی خاتون تھیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بعد نکاح فرمایا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قولها وكانت أول امرأة تزوجها بعدي فقد تفرد به شريك، خ: 5212، م: 1463، بغير سياق شريك
حدثنا اسود ، حدثنا حماد بن زيد ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: لما مرض النبي صلى الله عليه وسلم، دخل عليه اصحابه يعودونه، فقاموا، فاوما إليهم ان اقعدوا، فلما قضى صلاته قال: " الإمام يؤتم به، فإذا كبر، فكبروا، وإذا ركع، فاركعوا، وإذا صلى قاعدا، فصلوا قعودا، وإذا صلى قائما، فصلوا قياما" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلَ عَلَيْهِ أَصْحَابُهُ يَعُودُونَهُ، فَقَامُوا، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِمْ أَنْ اقْعُدُوا، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ قَالَ: " الْإِمَامُ يُؤْتَمُّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ، فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ، فَارْكَعُوا، وَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا، فَصَلُّوا قُعُودًا، وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا، فَصَلُّوا قِيَامًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں کچھ لوگوں کی عیادت کے لئے بارگاہ نبوت میں حاضری ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کردیا اور نماز سے فارغ ہو کر فرمایا امام اسی لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ قیامت کے دن عرش الہٰی کی طرف سبقت لے جانے والے لوگ کون ہوں گے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے کہ اگر انہیں ان کا حق مل جائے تو قبول کرلیتے ہیں، جب مانگا جائے تو دیدیتے ہیں اور لوگوں کے لئے وہی فیصلہ کرتے ہیں جو اپنے لئے کرتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد ابن لهيعة عن خالد
حدثنا يحيى ، قال: اخبرنا ابن لهيعة ، وقتيبة بن سعيد ، قال: حدثنا ابن لهيعة ، عن ابي الاسود ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: جاء بلال إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ماتت فلانة واستراحت، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: " إنما يستريح من دخل الجنة" ، قال قتيبة:" من غفر له".حَدَّثَنَا يَحْيَى ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: جَاءَ بِلَالٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَاتَتْ فُلَانَةُ وَاسْتَرَاحَتْ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: " إِنَّمَا يَسْتَرِيحُ مَنْ دَخَلَ الْجَنَّةَ" ، قَالَ قُتَيْبَةُ:" مَنْ غُفِرَ لَهُ".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! فلاں عورت فوت ہوگئی اور اسے راحت نصیب ہوگئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی سے فرمایا اصل راحت تو اسے ملتی ہے جو جنت میں داخل ہوجائے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لأن ابن لهيعة تفرد برفعه وغيره رواه مرسلا وهو الصحيح
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی آدمی فوت ہوجائے اور اس کے ذمے کچھ روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی جانب سے روزے رکھ لے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ابن لهيعة توبع، خ: 1952، م: 1147
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی آدمی فوت ہوجائے اور اس کے ذمے کچھ روزے ہوں تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا ولی اس کی جانب سے روزے رکھ لے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوس کو نہ ستائے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے اپنے مہمان کا اکرام کرنا چاہیے۔
حدثنا الحكم بن موسى ، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الرجال ، قال ابي يذكره عن امه ، عن عائشة ، قالت: دخلت امراة على النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: اي بابي وامي، إني ابتعت انا وابني من فلان ثمر ماله، فاحصيناه وحشدناه، لا والذي اكرمك بما اكرمك به، ما اصبنا منه شيئا إلا شيئا ناكله في بطوننا، او نطعمه مسكينا رجاء البركة، فنقصنا عليه، فجئنا نستوضعه ما نقصنا، فحلف بالله لا يضع لنا شيئا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تالى لا اصنع خيرا!"، ثلاث مرار، قال: فبلغ ذلك صاحب الثمر، فجاءه، فقال: اي بابي وامي، إن شئت وضعت ما نقصوا، وإن شئت من راس المال ما شئت؟ فوضع ما نقصوا . قال ابو عبد الرحمن وسمعته انا من الحكم.حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ ، قَالَ أَبِي يَذْكُرُهُ عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: دَخَلَتْ امْرَأَةٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: أَيْ بِأَبِي وَأُمِّي، إِنِّي ابْتَعْتُ أَنَا وَابْنِي مِنْ فُلَانٍ ثَمَرَ مَالِهِ، فَأَحْصَيْنَاهُ وَحَشَدْنَاهُ، لَا وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِمَا أَكْرَمَكَ بِهِ، مَا أَصَبْنَا مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا شَيْئًا نَأْكُلُهُ فِي بُطُونِنَا، أَوْ نُطْعِمُهُ مِسْكِينًا رَجَاءَ الْبَرَكَةِ، فَنَقَصْنَا عَلَيْهِ، فَجِئْنَا نَسْتَوْضِعُهُ مَا نَقَصْنَا، فَحَلَفَ بِاللَّهِ لَا يَضَعُ لَنَا شَيْئًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَأَلَّى لَا أَصْنَعُ خَيْرًا!"، ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ صَاحِبَ الثَّمْرِ، فَجَاءَهُ، فَقَالَ: أَيْ بِأَبِي وَأُمِّي، إِنْ شِئْتَ وَضَعْتُ مَا نَقَصُوا، وَإِنْ شِئْتَ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ مَا شِئْتَ؟ فَوَضَعَ مَا نَقَصُوا . قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنَ الْحَكَمِ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ میرے باپ، آپ پر قربان ہوں، میں نے اور میرے بیٹے نے فلاں آدمی سے اس کی زمین کے پھل خریدے، ہم نے اس فصل کو کاٹا اور پھلوں کو الگ کیا تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو معزز کیا، ہمیں اس میں سے صرف اتنا ہی حاصل ہوسکا جو ہم خود اپنے پیٹ میں کھا سکے یا برکت کی امید سے کسی مسکین کو کھلا دیں، اس طرح ہمیں نقصان ہوگیا، ہم مالک کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمارے اس نقصان کی تلافی کردے تو اس نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ وہ ہمارے نقصان کی کوئی تلافی نہیں کرے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کیا اس نے نیکی نہ کرنے کی قسم کھالی؟ اس آدمی کو پتہ چلا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اگر آپ چاہیں تو میں ان کے نقصان کی تلافی کردوں (اور مزید پھل دے دوں) اور اگر آپ چاہیں تو میں انہیں پیسے دے دیتا ہوں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش پر اس نے ان کے نقصان کی تلافی کردی۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن لأجل عبدالرحمن بن أبى الرحال
حدثنا الحكم ، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الرجال ، فقال ابي يذكره عن امه ، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا تمنعوا إماء الله مساجد الله، وليخرجن تفلات" ، قالت عائشة ولو راى حالهن اليوم، منعهن.حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ ، فَقَالَ أَبِي يَذْكُرُهُ عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ، وَلْيَخْرُجْنَ تَفِلَاتٍ" ، قَالَتْ عَائِشَةُ وَلَوْ رَأَى حَالَهُنَّ الْيَوْمَ، مَنَعَهُنَّ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی بندیوں کو مسجدوں میں آنے سے نہ روکا کرو اور انہیں چاہیے کہ پر اگندہ حالت میں آیا کریں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر آج کی عورتوں کے حالات دیکھ لیتے تو انہیں ضرور مسجدوں میں آنے سے منع فرما دیتے۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وقول عائشة وارد بأسانيد صحيحة وهذا إسناد حسن
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم اپنے پھلوں کو اس وقت تک نہ بیچا کرو جب تک کہ وہ خوب پک نہ جائیں اور آفتوں سے محفوظ نہ ہوجائیں۔
حدثنا اسود ، قال: حدثنا هريم بن سفيان البجلي ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: جاء اعرابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اتقبلون الصبيان؟ قال: والله ما نقبلهم، قال: " لا املك ان كان الله عز وجل نزع منك الرحمة" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُرَيْمُ بْنُ سُفْيَانَ البَجَلِيُّ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَتُقَبِّلُونَ الصِّبْيَانَ؟ قَالَ: وَاللَّهِ مَا نُقَبِّلُهُمْ، قَالَ: " لَا أَمْلِكُ أَنْ كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَزَعَ مِنْكَ الرَّحْمَةَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ بچوں کو چومتے ہیں؟ واللہ ہم تو انہیں بوسہ نہیں دیتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تو اس بات پر قدرت نہیں ہے کہ جب اللہ ہی نے تیرے دل سے رحمت کو کھینچ لیا ہے (تو میں کیسے ڈال دوں؟)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیریں کہتے تھے، جو رکوع کی تکبیروں کے علاوہ ہوتی تھیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لتفرد ابن لهيعة ولاضطرابه فيه
حدثنا حسين ، حدثنا شريك ، عن قيس بن وهب ، عن شيخ من بني سواءة، قال: سالت عائشة ، قلت: اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اجنب، فغسل راسه بغسل، اجتزا بذلك، ام يفيض الماء على راسه؟ قالت:" بل كان يفيض على راسه الماء" .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ شَيْخٍ مِنْ بَنِي سُوَاءَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ ، قُلْتُ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَجْنَبَ، فَغَسَلَ رَأْسَهُ بِغُسْلٍ، اجْتَزَأَ بِذَلِكَ، أَمْ يُفِيضُ الْمَاءَ عَلَى رَأْسِهِ؟ قَالَتْ:" بَلْ كَانَ يُفِيضُ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ" .
بنو سواء کے ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اختیاری طور پر ناپاکی سے غسل فرماتے تھے، تو جسم پر پانی ڈالتے وقت سر پر جو پانی پڑتا تھا اسے کافی سمجھتے تھے یا سر پر نئے سرے سے پانی ڈالتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں بلکہ نئے سرے سے سر پر پانی ڈالتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لابهام الشيخ من بني سواءة ولضعف شريك
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دوران نماز دائیں بائیں دیکھنے کا حکم پو چھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اچک لینے والا حملہ ہوتا ہے جو شیطان انسان کی نماز سے اچک لیتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد اختلف فيه على أشعث والصحيح أشعث عن أبيه عن مسروق
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بیدار ہو کر نماز پڑھتے تو لحاف کا ایک کونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ہوتا اور دوسرا کونا مجھ پر ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے رہتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ امور مسلمین میں سے کسی چیز کی ذمہ داری عطاء فرمائے اور اس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمالے تو اسے ایک سچا وزیر عطا فرما دیتا ہے جو بادشاہ کو بھول جانے پر یاد دلاتا ہے اور یاد رہنے پر اعانت کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح وهذا إسناد ضعيف لضعف مسلم بن خالد الزنجي
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! معمولی گناہوں سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ اللہ کے یہاں ان کی تفتیش بھی ہوسکتی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نزع کے وقت میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ان کے پاس ایک پیالے میں پانی رکھا ہوا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پیالے میں ہاتھ ڈالتے جارہے ہیں اور اپنے چہرے پر اسے ملتے ہیں اور یہ دعا فرماتے جا رہے ہیں کہ اے اللہ! موت کی بےہوشیوں میں مدد فرما۔
حدثنا الخزاعي ، حدثنا ليث ، عن نافع ، عن القاسم ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن اصحاب هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: احيوا ما خلقتم" .حَدَّثَنَا الْخُزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ أَصْحَابَ هَذِهِ الصُّوَرِ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُقَالُ لَهُمْ: أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان تصویروں والوں کو قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو چیزیں تم نے تخلیق کی تھیں، انہیں زندگی بھی دو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان سے کسی سائل نے سوال کیا، انہوں نے خادم سے کہا تو وہ کچھ لے کر آیا، اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ اے عائشہ! گن گن کر نہ دینا ورنہ اللہ بھی تمہیں گن گن کر دے گا۔
حدثنا حسين بن محمد ، قال: حدثنا دويد ، عن ابي إسحاق ، عن زرعة ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الدنيا دار من لا دار له، ومال من لا مال له، ولها يجمع من لا عقل له" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا دُوَيْدٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ زُرْعَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدُّنْيَا دَارُ مَنْ لَا دَارَ لَهُ، وَمَالُ مَنْ لَا مَالَ لَهُ، وَلَهَا يَجْمَعُ مَنْ لَا عَقْلَ لَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا گھر ہے اس شخص کا جس کا کوئی گھر نہ ہو اور مال ہے اس شخص کا جس کا کوئی مال نہ ہو اور دنیا کے لئے وہی جمع کرتا ہے جس کے پاس عقل نہ ہو۔
حدثنا حدثنا حسين ، حدثنا محمد بن مطرف ، عن ابي حازم ، عن عروة بن الزبير ، انه سمع عائشة ، تقول: " كان يمر بنا هلال وهلال ما يوقد في بيت من بيوت رسول الله صلى الله عليه وسلم نار، قال: قلت: يا خالة، فعلى اي شيء كنتم تعيشون؟ قالت: على الاسودين التمر والماء" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: " كَانَ يَمُرُّ بِنَا هِلَالٌ وَهِلَالٌ مَا يُوقَدُ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَارٌ، قَالَ: قُلْتُ: يَا خَالَةُ، فَعَلَى أَيِّ شَيْءٍ كُنْتُمْ تَعِيشُونَ؟ قَالَتْ: عَلَى الْأَسْوَدَيْنِ التَّمْرِ وَالْمَاءِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بعض اوقات ہم پر کئی کئی مہینے اس حال میں گذر جاتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی گھر میں آگے نہیں چلتی تھی، عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا خالہ جان! پھر آپ لوگ کس طرح گذارہ کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا دو سیاہ چیزوں یعنی کھجور اور پانی پر۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2567، م: 2972، بزيادة يزيد بن رومان بين أبى حازم وعروة
حدثنا حسين ، حدثنا دويد ، عن ابي سهل ، عن سليمان بن رومان مولى عروة، عن عروة ، عن عائشة ، انها قالت:" والذي بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق ما راى منخلا ولا اكل خبزا منخولا منذ بعثه الله عز وجل إلى ان قبض" ، قلت: كيف تاكلون الشعير؟ قالت:" كنا نقول اف".حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا دُوَيْدٌ ، عَنْ أَبِي سَهْلٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ رُومَانَ مَوْلَى عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ:" وَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ مَا رَأَى مُنْخُلًا وَلَا أَكَلَ خُبْزًا مَنْخُولًا مُنْذُ بَعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى أَنْ قُبِضَ" ، قُلْتُ: كَيْفَ تَأْكُلُونَ الشَّعِيرَ؟ قَالَتْ:" كُنَّا نَقُولُ أُفٍّ".
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چھلنی نہیں دیکھی اور کبھی چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائی، بعثت سے لے کر وصال تک یہی حالت رہی، عروہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا آپ لوگ جو کی روٹی چھانے بغیر کس طرح کھالیتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ " اف " کہتے جاتے تھے (تکلیف کے ساتھ حلق سے اتارتے تھے، یا صرف منہ سے پھونک مار لیا کرتے تھے)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف مسلسل بالمجاهيل ورواية سهل بن سعد السالف 332/5 يغني عنه
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، تمہارا جہاد حج مبرور ہی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، يزيد بن عطاء فيه لين ولكن تويع، خ: 1520
حدثنا خلف بن الوليد ، حدثنا الربيع ، عن ابي عثمان الانصاري ، قال: واحسن الثناء عليه، قال: حدثني القاسم بن محمد بن ابي بكر ، ان عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما اسكر الفرق منه إذا شربته، فملء الكف منه حرام" . حدثنا ابو تميلة يحيى بن واضح، قال: اخبرني ابي، قال: رايت ابا عثمان عمرو بن سليم يقضي على بابه، قال ابي وهو الذي روى عنه مهدي بن ميمون، وروى عنه مطرف بن طريف، وربيع بن صبيح، وليث بن ابي سليم.حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: وَأَحْسَنَ الثَّنَاءَ عَلَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَسْكَرَ الْفَرْقُ مِنْهُ إِذَا شَرِبْتَهُ، فَمِلْءُ الْكَفِّ مِنْهُ حَرَامٌ" . حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ، قَالَ: أَخْبَرنِي أَبِي، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا عُثْمَانَ عَمْرَو بْنَ سُلَيْمٍ يَقْضِي عَلَى بَابِهِ، قَالَ أَبِي وَهُوَ الَّذِي رَوَى عَنْهُ مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، وَرَوَى عَنْه مُطَرِّفُ بْنُ طَرِيفٍ، وَرَبِيعُ بْنُ صَبِيحٍ، وَلَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس چیز کی ایک بڑی مقدار پینے سے نشہ چڑھتا ہو، اسے ایک چلو بھر پینا بھی حرام ہے۔ یحییٰ بن واضح کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے بتایا کہ میں نے ابوعثمان عمرو بن سلیم کو دیکھا کہ ان کے دروازے پر فیصلہ کیا جا رہا ہے، امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ وہی ہیں جن سے مہدی بن میمون، مطرف بن طریف، ربیع بن صبیح اور لیث بن ابی سلیم روایات نقل کرتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہیں پایا، پتہ چلا کہ وہ جنت البقیع میں ہیں، وہاں پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " السلام علیکم دار قوم مومنین " تم لوگ ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم بھی تم سے آکر ملنے والے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے اجر سے محروم نہ فرما اور ان کے بعد کسی آزمائش میں مبتلا نہ فرما۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی گھرانے کے لوگوں سے خیر کا ارادہ فرمالیتا ہے تو ان میں نرمی پیدا فرما دیتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے متعلق فرمایا " جو ایام سے پاکیزگی حاصل ہونے کے بعد کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے شک میں مبتلا کردے " کہ یہ رگ کا خون ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات صبح کے وقت اختیاری طور پر ناپاک ہوتے تو غسل فرماتے اور نماز کے لئے چلے جاتے اور میں ان کی قرأت سنتی تھی اور اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على الشعبي
حدثنا عبد الصمد ، قال: حدثنا شعبة ، قال: حدثنا ابو بكر ابن حفص ، قال: سمعت ابا سلمة ، يقول:" دخلت انا واخو عائشة من الرضاعة على عائشة ، فسالها اخوها عن غسل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدعت بإناء نحوا من صاع، فاغتسلت، وافرغت على راسها ثلاثا، وبيننا وبينها الحجاب" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ حَفْصٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ ، يَقُولُ:" دَخَلْتُ أَنَا وَأَخُو عَائِشَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ عَلَى عَائِشَةَ ، فَسَأَلَهَا أَخُوهَا عَنْ غُسْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَتْ بِإِنَاءٍ نَحْوًا مِنْ صَاعٍ، فَاغْتَسَلَتْ، وَأَفْرَغَتْ عَلَى رَأْسِهَا ثَلَاثًا، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَهَا الْحِجَابُ" .
ابوسلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک رضاعی بھائی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے بھائی نے ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ایک برتن منگوایا جو ایک صاع کے برابر تھا اور غسل کرنے لگیں، انہوں نے اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالا اور اس وقت ہمارے اور ان کے درمیان پردہ حائل تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس چیز کی ایک بڑی مقدار پینے سے نشہ چڑھتا ہو، اسے ایک چلو بھر پینا بھی حرام ہے۔
حدثنا عارم ، حدثنا سعيد بن زيد ، عن عمرو بن مالك ، عن ابي الجوزاء ، عن عائشة انها كانت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فلعنت بعيرا لها، فامر به النبي صلى الله عليه وسلم ان يرد، وقال: " لا يصحبني شيء ملعون" .حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا كَانَتْ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَلَعَنَتْ بَعِيرًا لَهَا، فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَدَّ، وَقَالَ: " لَا يَصْحَبُنِي شَيْءٌ مَلْعُونٌ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھیں، اس دوران انہوں نے اپنے اونٹ پر لعنت بھیجی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس بھیج دینے کا حکم دیا اور فرمایا میرے ساتھ کوئی ملعون چیز نہیں جانی چاہیے۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن لأجل سعيد ابن زيد
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے متعلق پوچھا جو ایام کی حالت میں اپنی بیوی کے جسم سے جسم لگا تا ہے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تہبند باندھنے کی جگہ سے اوپر کے جسم سے وہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، المبارك وهو ابن فضالة مدلس ويسوي وقد عنعن
حدثنا موسى بن داود ، حدثنا ابن ابي الزناد ، عن ابيه ، عن عروة ، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم وضع لحسان منبرا في المسجد ينافح عنه بالشعر، ثم يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله عز وجل ليؤيد حسان بروح القدس ينافح عن رسوله صلى الله عليه وسلم" ..حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ يُنَافِحُ عَنْهُ بِالشِّعْر، ثُمَّ يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيُؤَيِّدُ حَسَّانَ بِرُوحِ الْقُدُسِ يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد نبوی میں منبر لگوایا تاکہ وہ اشعار کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کریں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ روح القدس سے حسان کی تائید کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے رسول کا دفاع کرتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره دون قوله: وضع لحسان منبرا فى المسجد وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن أبى الزناد وتفرده
حدثنا موسى بن داود ، حدثنا القاسم يعني ابن الفضل ، حدثنا محمد بن علي ، قال: كانت عائشة تدان، فقيل لها: ما لك وللدين؟ قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما من عبد كانت له نية في اداء دينه، إلا كان له من الله عز وجل عون فانا التمس ذلك العون" .حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ ، قَالَ: كَانَتْ عَائِشَةُ تَدَّانُ، فَقِيلَ لَهَا: مَا لَكِ وَلِلدَّيْنِ؟ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ عَبْدٍ كَانَتْ لَهُ نِيَّةٌ فِي أَدَاءِ دَيْنِهِ، إِلَّا كَانَ لَهُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَوْنٌ فَأَنَا أَلْتَمِسُ ذَلِكَ الْعَوْنَ" .
محمد بن علی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں سے قرض لیتی رہتی تھیں، کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ قرض کیوں لیتی ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص کی نیت قرض ادا کرنے کی ہو تو اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال رہتی ہے، میں وہی مدد حاصل کرنا چاہتی ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه لأن محمد بن على لم يسمع من عائشة
حدثنا محمد بن عبد الله ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن رجل حدثه، عن عائشة ، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه من الدنيا ثلاثة: الطعام، والنساء، والطيب، فاصاب ثنتين، ولم يصب واحدة، اصاب النساء والطيب، ولم يصب الطعام" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ مِنَ الدُّنْيَا ثَلَاثَةٌ: الطَّعَامُ، وَالنِّسَاءُ، وَالطِّيبُ، فَأَصَابَ ثِنْتَيْنِ، وَلَمْ يُصِبْ وَاحِدَةً، أَصَابَ النِّسَاءَ وَالطِّيبَ، وَلَمْ يُصِبْ الطَّعَامَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی تین چیزیں اچھی معلوم ہوتی تھیں کھانا، عورتیں اور خوشبو، دو چیزیں تو انہیں کسی درجے میں حاصل ہوگئیں لیکن ایک چیز نہ مل سکی، عورتیں اور خوشبو آپ کو مل گئی لیکن کھانا نہیں ملا۔
حدثنا حسين ، حدثنا ابو اويس ، قال: حدثنا محمد بن المنكدر ، عن سعيد بن جبير ، عن عائشة ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ما من امرئ تكون له صلاة بالليل، فيغلبه عليها نوم، إلا كتب الله عز وجل له اجر صلاته، وكان نومه ذلك صدقة" .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُوَيْسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنَ امْرِئٍ تَكُونُ لَهُ صَلَاةٌ بِاللَّيْلِ، فَيَغْلِبُهُ عَلَيْهَا نَوْمٌ، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ أَجْرَ صَلَاتِهِ، وَكَانَ نَوْمُهُ ذَلِكَ صَدَقَةً" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رات کے کسی حصے میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہو اور سوجاتا ہو تو اس کے لئے نماز کا اجر تو لکھا جاتا ہی ہے اس کی نیند بھی صدقہ ہوتی ہے جس کا ثواب اسے ملتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه لأن سعيد بن جبير لم يسمع من عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو ایک بچے کے رونے کی آواز سنی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بچہ کیوں رورہا ہے؟ تم اس کی نظر کیوں نہیں اتارتے؟
حدثنا حسين ، قال: حدثنا ابن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله، قال ابو عبد الرحمن: وهذا ارى ان فيه عن ابيه، عن الاعرج، ولكن كذا كان في الكتاب، فلا ادري اغفله ابي او كذا هو مرسل؟.حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَهَذَا أَرَى أَنَّ فِيهِ عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، وَلَكِنْ كَذَا كَانَ فِي الْكِتَابِ، فَلَا أَدْرِي أَغْفَلَهُ أَبِي أَوْ كَذَا هُوَ مُرْسَلٌ؟.
گزشتہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس دوسری سند سے مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن أبى الزناد
حدثنا إسحاق بن عيسى ، قال: حدثني مالك ، عن سعيد ابن ابي سعيد المقبري ، ان ابا سلمة بن عبد الرحمن اخبره، قال: سالت عائشة كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ فقالت: ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي اربعا فلا تسال عن طولهن وحسنهن، ثم يصلي اربعا فلا تسال عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، فقالت عائشة: قلت: يا رسول الله، اتنام قبل ان توتر؟ قال:" يا عائشة، إن عيني تنام، ولا ينام قلبي" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ طُولِهِنَّ وَحُسْنِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ قَالَ:" يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنِي تَنَامُ، وَلَا يَنَامُ قَلْبِي" .
ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ماہ رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق پو چھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں پڑھتے جن کی عمدگی اور طوالت کا تم کچھ نہ پوچھو، اس کے بعد دوبارہ چار رکعتیں پڑھتے تھے، ان کی عمدگی اور طوالت کا بھی کچھ نہ پوچھو، پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے، ایک مرتبہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سوجاتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! میری آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
حدثنا إسحاق ، قال: اخبرني مالك ، عن زيد بن اسلم ، عن القعقاع بن حكيم ، عن ابي يونس مولى عائشة، قال: امرتني عائشة ان اكتب لها مصحفا، قالت: إذا بلغت إلى هذه الآية حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى سورة البقرة آية 238، فآذني، فلما بلغتها آذنتها، فاملت علي: " حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين"، قالت: سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ، قَالَ: أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا، قَالَتْ: إِذَا بَلَغْتَ إِلَى هَذِهِ الْآيَةِ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى سورة البقرة آية 238، فَآذِنِّي، فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا، فَأَمْلَتْ عَلَيَّ: " حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ"، قَالَتْ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
ابویونس " جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں " کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا کہ ان کے لئے قرآن کریم کا ایک نسخہ لکھ دوں اور فرمایا جب تم اس آیت حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى پر پہنچو تو مجھے بتانا، چنانچہ میں جب وہاں پہنچا تو انہیں بتادیا، انہوں نے مجھے یہ آیت یوں لکھوائی حَا فِظُوا عَلَی الصَلاۃِ الوُسطَی وَصَلَاۃِ العَصرِ وَ قُو مُوالِلَہِ قَا نِتِینَ اور فرمایا کہ میں نے یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ہمارے اس طریقے کے علاوہ کوئی اور طریقہ ایجاد کرتا ہے تو وہ مردود ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سوتے تھے، چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے اس وقت رخصت ہوئے جب لوگ دو سیاہ چیزوں یعنی پانی اور کھجور سے اپنا پیٹ بھر تے تھے۔
حدثنا إسحاق ، قال: حدثني ليث بن سعد ، قال: حدثني معاوية بن صالح الحضرمي ، عن عبد الله بن قيس ، قال: سالت عائشة اكان النبي صلى الله عليه وسلم يوتر من اول الليل، او من آخره؟ فقالت: " كل ذلك كان يفعل، ربما اوتر اول الليل، وربما اوتر آخره"، قلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة، قلت: كيف كانت قراءته، يسر او يجهر؟ قالت:" كل ذلك كان يفعل، ربما اسر، وربما جهر"، قال: قلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة، قال: قلت: كيف كان يصنع في الجنابة، اكان يغتسل قبل ان ينام، او ينام قبل ان يغتسل؟ قالت:" كل ذلك كان يفعل، ربما اغتسل، فنام، وربما توضا، ونام"، قال: قلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ الْحَضْرَمِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ، أَوْ مِنْ آخِرِهِ؟ فَقَالَتْ: " كُلُّ ذَلِكَ كَانَ يَفْعَلُ، رُبَّمَا أَوْتَرَ أَوَّلَ اللَّيْلِ، وَرُبَّمَا أَوْتَرَ آخِرَهُ"، قُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً، قُلْتُ: كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَتُهُ، يُسِرُّ أَوْ يَجْهَرُ؟ قَالَتْ:" كُلُّ ذَلِكَ كَانَ يَفْعَل، رُبَّمَا أَسَرَّ، وَرُبَّمَا جَهَرَ"، قَالَ: قُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِي الْجَنَابَةِ، أَكَانَ يَغْتَسِلُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ، أَوْ يَنَامُ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ؟ قَالَتْ:" كُلُّ ذَلِكَ كَانَ يَفْعَلُ، رُبَّمَا اغْتَسَلَ، فَنَامَ، وَرُبَّمَا تَوَضَّأَ، وَنَامَ"، قَالَ: قُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً .
عبداللہ بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا یہ بتایئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت رات کے ابتدائی حصے میں کرتے تھے یا آخری حصے میں؟ انہوں نے فرمایا کبھی رات کے ابتدائی حصے میں غسل فرما لیتے تھے اور کبھی رات کے آخری حصے میں، اس پر میں نے اللہ اکبر کہہ کر عرض کیا شکر ہے، اس اللہ کا جس نے اس معاملے میں وسعت رکھی ہے، پھر میں نے پو چھا یہ بتایئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے اول حصے میں وتر پڑھتے یا آخر میں؟ انہوں نے فرمایا کبھی رات کے ابتدائی حصے میں وتر پڑھ لیتے تھے اور کبھی آخری حصے میں، میں نے پھر اللہ اکبر کہہ کر عرض کیا شکر ہے اس اللہ کا جس نے اس معاملے میں وسعت رکھی، پھر میں نے پوچھا یہ بتایئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہری قرأت فرماتے تھے یا سری؟ انہوں نے فرمایا کبھی جہری اور کبھی سری، میں نے پھر اللہ اکبر کہہ کر عرض کیا اس اللہ کا شکر ہے جس نے اس معاملے میں بھی وسعت رکھی ہے۔
حدثنا محمد بن عبد الله بن الزبير ، حدثنا كثير بن زيد ، عن المطلب بن عبد الله ، قال: قالت عائشة كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما من نبي إلا تقبض نفسه ثم يرى الثواب، ثم ترد إليه، فيخير بين ان ترد إليه إلى ان يلحق"، فكنت قد حفظت ذلك منه، فإني لمسندته إلى صدري، فنظرت إليه حتى مالت عنقه، فقلت: قد قضى، قالت: فعرفت الذي قال، فنظرت إليه حتى ارتفع، فنظر، قالت: قلت: إذن والله لا يختارنا، فقال:" مع الرفيق الاعلى في الجنة، مع الذين انعم الله عليهم من النبيين والصديقين سورة النساء آية 69"، إلى آخر الآية .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا تُقْبَضُ نَفْسُهُ ثُمَّ يَرَى الثَّوَابَ، ثُمَّ تُرَدُّ إِلَيْهِ، فَيُخَيَّرُ بَيْنَ أَنْ تُرَدَّ إِلَيْهِ إِلَى أَنْ يَلْحَقَ"، فَكُنْتُ قَدْ حَفِظْتُ ذَلِكَ مِنْهُ، فَإِنِّي لَمُسْنِدَتُهُ إِلَى صَدْرِي، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ حَتَّى مَالَتْ عُنُقُهُ، فَقُلْتُ: قَدْ قَضَى، قَالَتْ: فَعَرَفْتُ الَّذِي قَالَ، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ حَتَّى ارْتَفَعَ، فَنَظَرَ، قَالَتْ: قُلْتُ: إِذَنْ وَاللَّهِ لَا يَخْتَارُنَا، فَقَالَ:" مَعَ الرَّفِيقِ الْأَعْلَى فِي الْجَنَّةِ، مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ سورة النساء آية 69"، إِلَى آخِرِ الْآيَةِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے جس نبی کی روح قبض ہونے کا وقت آتا تھا، ان کی روح قبض ہونے کے بعد انہیں ان کا ثواب دکھایا جاتا تھا پھر واپس لوٹا کر انہیں اس بات کا اختیار دیا جاتا تھا کہ انہیں اس ثواب کی طرف لوٹا کر اس سے ملا دیا جائے (یا دنیا میں بھیج دیا جائے) میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو اچھی طرح اپنے ذہن میں محفوظ کرلیا تھا، مرض الوفات میں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے سہارا دیا ہوا تھا کہ اچانک میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کی گردن ڈھلک گئی ہے، میں نے سوچا کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، پھر مجھے وہ بات یاد آگئی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی، چنانچہ اب جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو انہوں نے اپنی گردن اٹھا کر اوپر کو دیکھا، میں سمجھ گئی کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی صورت ہمیں ترجیح نہ دیں گے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " رفیق اعلیٰ کے ساتھ جنت میں " ارشاد ربانی ہے " ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام فرمایا مثلاً انبیاء کرام علیم السلام اور صدیقین "۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، المطلب بن عبدالله لم يدرك عائشة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت میں سے جو شخص قرض کا بوجھ اٹھائے اور اسے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے فوت ہوجائے لیکن وہ قرض ادا نہ کرسکا ہو تو میں اس کا ولی ہوں۔
حدثنا موسى بن داود ، قال: حدثنا عبد الله بن المؤمل ، عن ابن ابي مليكة ، عن عائشة ، قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا عائشة، إن اول من يهلك من الناس قومك"، قالت: قلت: جعلني الله فداءك، ابني تيم؟ قال:" لا، ولكن هذا الحي من قريش، تستحليهم المنايا، وتنفس عنهم اول الناس هلاكا"، قلت: فما بقاء الناس بعدهم؟ قال:" هم صلب الناس، فإذا هلكوا هلك الناس" .حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُؤَمَّلِ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَائِشَةُ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ يَهْلِكُ مِنَ النَّاسِ قَوْمُكِ"، قَالَتْ: قُلْتُ: جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، أَبَنِي تَيْمٍ؟ قَالَ:" لَا، وَلَكِنْ هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ، تَسْتَحْلِيهِمْ الْمَنَايَا، وَتَنَفَّسُ عَنْهُمْ أَوَّلَ النَّاسِ هَلَاكًا"، قُلْتُ: فَمَا بَقَاءُ النَّاسِ بَعْدَهُمْ؟ قَالَ:" هُمْ صُلْبُ النَّاسِ، فَإِذَا هَلَكُوا هَلَكَ النَّاسُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے عائشہ! لوگوں میں سب سے پہلے ہلاک ہونے والے تمہاری قوم کے لوگ ہوں گے، میں نے عرض کیا اللہ مجھے آپ پر فداء کرے کیا بنو تیم کے لوگ مراد ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، بلکہ قریش کا یہ قبیلہ، ان کے سامنے خواہشات مزین ہوجائیں گی اور لوگ ان سے پیچھے ہٹ جائیں گے اور یہی سب سے پہلے ہلاک ہونے والے ہوں گے، میں نے عرض کیا کہ پھر ان کے بعد لوگوں کی بقاء کیا رہ جائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریش لوگوں کی پشت ہوں گے اس لئے جب وہ ہلاک ہوجائیں گے تو عام بھی لوگ ہلاک ہونے لگیں گے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے ایسا کیا تو غسل کیا تھا، (مراد یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے مجامعت کرے اور انزال نہ ہو تو غسل کرے)۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ابن لهيعة وإن كان ضعيفا قد توبع