حدثنا عبد الرزاق ، قال: حدثنا معمر ، عن ابن طاوس ، عن المطلب بن عبد الله بن حنطب ، عن ام هانئ ، قالت: نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح باعلى مكة، فاتيته، فجاء ابو ذر بجفنة فيها ماء , قالت: إني لارى فيها اثر العجين. قالت: فستره يعني ابا ذر " فاغتسل، ثم صلى النبي صلى الله عليه وسلم ثمان ركعات، وذلك في الضحى" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ ، قَالَتْ: نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ بِأَعْلَى مَكَّةَ، فَأَتَيْتُهُ، فَجَاءَ أَبُو ذَرٍّ بِجَفْنَةٍ فِيهَا مَاءٌ , قَالَتْ: إِنِّي لَأَرَى فِيهَا أَثَرَ الْعَجِينِ. قَالَتْ: فَسَتَرَهُ يَعْنِي أَبَا ذَرٍّ " فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، وَذَلِكَ فِي الضُّحَى" .
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالائی حصے میں پڑاؤ ڈالا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اسی دوران حضرت ابوذر ایک پیالہ لے کر آئے جس میں پانی تھا اور اس پر آٹے کے اثرات لگے ہوئے مجھے نظر آرہے تھے حضرت ابوذر نے آڑ کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمالیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں پڑھیں یہ چاشت کا وقت تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قصة أبى ذر مع النبى ، والثابت أن فاطمة هي التى كانت تستر النبى ، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الملطب بن عبدالله لم يلق أم هاني
حدثنا عبد الرزاق , وابن بكر , قالا: حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني عطاء ، عن ام هانئ بنت ابي طالب , قالت: دخلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم يوم الفتح، وهو في قبة له، فوجدته قد " اغتسل بماء كان في صحفة، إني لارى فيها اثر العجين، فوجدته يصلي ضحى" , قلت: إخال خبر ام هانئ هذا ثبت؟ قال: نعم , قال: ابن بكر: الضحى.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , وَابْنُ بَكْرٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ , قَالَتْ: دَخَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ، وَهُوَ فِي قُبَّةٍ لَهُ، فَوَجَدْتُهُ قَدْ " اغْتَسَلَ بِمَاءٍ كَانَ فِي صَحْفَةٍ، إِنِّي لَأَرَى فِيهَا أَثَرَ الْعَجِينِ، فَوَجَدْتُهُ يُصَلِّي ضُحًى" , قُلْتُ: إِخَالُ خَبَرَ أُمِّ هَانِئٍ هَذَا ثَبَتَ؟ قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: ابْنُ بَكْرٍ: الضُّحَى.
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالائی حصے میں پڑاؤ ڈالا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اسی دوران حضرت ابوذر ایک پیالہ لے کر آئے جس میں پانی تھا اور اس پر آٹے کے اثرات لگے ہوئے مجھے نظر آرہے تھے حضرت ابوذرنے آڑ کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمالیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں پڑھیں یہ چاشت کا وقت تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، عطاء لم يسمع من أم هاني
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، قال: حدثني ابن شهاب ، عن عبد الله بن الحارث ، عن ام هانئ وكان نازلا عليها , ان النبي صلى الله عليه وسلم يوم الفتح " ستر عليه، فاغتسل في الضحى، فصلى ثمان ركعات، لا يدرى، اقيامها اطول ام سجودها؟" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ وَكَانَ نَازِلًا عَلَيْهَا , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ " سُتِرَ عَلَيْهِ، فَاغْتَسَلَ فِي الضُّحَى، فَصَلَّى ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، لَا يُدْرَى، أَقِيَامُهَا أَطْوَلُ أَمْ سُجُودُهَا؟" .
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالائی حصے میں پڑاؤ ڈالا، حضرت ابوذر نے آڑ کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمالیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں پڑھیں یہ چاشت کا وقت تھا، یہ معلوم نہیں کہ ان کا قیام لمبا تھا یا سجدہ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على الزهري
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کے چار حصے چار مینڈھیوں کی طرح تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، مجاهد لم يسمع من أم هانئ
حدثنا حماد بن اسامة ، قال: اخبرني حاتم بن ابي صغيرة . ح وروح قال: حدثنا حاتم بن ابي صغيرة ، قال: حدثنا سماك بن حرب ، عن ابي صالح مولى ام هانئ، قال روح في حديثه , حدثتني ام هانئ ، قالت لي: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قوله تعالى: وتاتون في ناديكم المنكر سورة العنكبوت آية 29 , قال: " كانوا يخذفون اهل الطريق ويسخرون منهم، فذاك المنكر الذي كانوا ياتون" , قال روح: فذلك قوله تعالى وتاتون في ناديكم المنكر سورة العنكبوت آية 29.حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ . ح وَرَوْحٌ قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ، قَالَ رَوْحٌ فِي حَدِيثِهِ , حَدَّثَتْنِي أُمُّ هَانِئٍ ، قَالَتْ لِي: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ سورة العنكبوت آية 29 , قَالَ: " كَانُوا يَخْذِفُونَ أَهْلَ الطَّرِيقِ وَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ، فَذَاكَ الْمُنْكَرُ الَّذِي كَانُوا يَأْتُونَ" , قَالَ رَوْحٌ: فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ سورة العنكبوت آية 29.
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اس ارشاد باری تعالیٰ وتاتو ن فی نادیکم المنکر سے کیا مراد ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قوم لوط کا یہ کام تھا کہ وہ راستے میں چلنے والوں پر کنکریاں اچھالتے تھے اور ان کی ہنسی اڑاتے تھے، یہ ہے وہ ناپسندیدہ کام جو وہ کیا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى صالح مولى أم هانئ
حدثنا زيد بن الحباب ، عن ابن ابي ذئب ، عن المقبري ، عن ابي مرة مولى عقيل بن ابي طالب، عن فاختة ام هانئ ، قالت: لما كان يوم فتح مكة، اجرت حموين لي من المشركين، إذ طلع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعليه رهجة الغبار في ملحفة متوشحا بها، فلما رآني، قال:" مرحبا بفاختة ام هانئ" , قلت: يا رسول الله، اجرت حموين لي من المشركين، فقال: " قد اجرنا من اجرت، وامنا من امنت" , ثم امر فاطمة، فسكبت له ماء، فتغسل به، فصلى ثمان ركعات في الثوب متلببا به، وذلك يوم فتح مكة ضحى .حَدَّثَنَا زيدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ فَاخِتَةَ أُمِّ هَانِئٍ ، قَالَتْ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ، أَجَرْتُ حَمْوَيْنِ لِي مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِذْ طَلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَيْهِ رَهْجَةُ الْغُبَارِ فِي مِلْحَفَةٍ مُتَوَشِّحًا بِهَا، فَلَمَّا رَآنِي، قَالَ:" مَرْحَبًا بِفَاخِتَةَ أُمِّ هَانِئٍ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَجَرْتُ حَمْوَيْنِ لِي مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ: " قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ، وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ" , ثُمَّ أَمَرَ فَاطِمَةَ، فَسَكَبَتْ لَهُ مَاءً، فَتَغَسَّلَ بِهِ، فَصَلَّى ثَمَانِ رَكَعَاتٍ فِي الثَّوْبِ مُتَلَبِّبًا بِهِ، وَذَلِكَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ ضُحًى .
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن میں نے اپنے دو دیوروں کو جو مشرکین میں سے تھے پناہ دیدی اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم گرد و غبار میں اٹے ہوئے ایک لحاف میں لپٹے ہوئے تشریف لائے مجھے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاختہ ام ہانی کو خوش آمدید کہو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے اپنے دو دیوروں کو جو مشرکین میں سے ہیں پناہ دیدی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے تم نے پناہ دیدی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں جسے تم نے امن دیا اسے ہم بھی امن دیتے ہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو حکم دیا انہوں نے پانی رکھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے غسل فرمایا پھر ایک کپڑے میں اچھی طرح لپٹ کر آٹھ رکعتیں پڑھیں یہ فتح مکہ کے دن چاشت کے وقت کی بات ہے۔
حدثنا ابو داود الطيالسي ، قال: حدثنا شعبة ، عن جعدة ، عن ام هانئ , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها، فدعا بشراب، فشرب، ثم ناولها فشربت، فقالت: يا رسول الله , اما إني كنت صائمة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصائم المتطوع امير نفسه، إن شاء صام، وإن شاء افطر" , قال: قلت له: سمعته انت من ام هانئ؟ قال: لا، حدثنيه ابو صالح واهلنا، عن ام هانئ , حدثنا سليمان، قال: حدثنا شعبة، قال: كنت اسمع سماكا , يقول: حدثنا ابن ام هانئ، فاتيت انا خيرهما وافضلهما، فسالته، وكان يقال له: جعدة.حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَعْدَةَ ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا، فَدَعَا بِشَرَابٍ، فَشَرِبَ، ثُمَّ نَاوَلَهَا فَشَرِبَتْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَمَا إِنِّي كُنْتُ صَائِمَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصَّائِمُ الْمُتَطَوِّعُ أَمِيرُ نَفْسِهِ، إِنْ شَاءَ صَامَ، وَإِنْ شَاءَ أَفْطَرَ" , قَالَ: قُلْتُ لَهُ: سَمِعْتَهُ أَنْتَ مِنْ أُمِّ هَانِئٍ؟ قَالَ: لَا، حَدَّثَنِيهِ أَبُو صَالِحٍ وَأَهْلُنَا، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ , حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: كُنْتُ أَسْمَعُ سِمَاكًا , يَقُولُ: حَدَّثَنَا ابْنَ أُمِّ هَانِئٍ، فَأَتَيْتُ أَنَا خَيْرَهُمَا وَأَفْضَلَهُمَا، فسألته، وكان يقال له: جعدة.
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے پانی منگوا کر اسے نوش فرمایا پھر وہ برتن انہیں پکڑا دیا انہوں نے بھی اس کا پانی پی لیا پھر یاد آیا تو کہنے لگیں یا رسول اللہ! میں تو روزے سے تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نفلی روزہ رکھنے والا اپنی ذات پر خود امیر ہوتا ہے چاہے تو روزہ برقرار رکھے اور چاہے تو روزہ ختم کردے۔ ابن ام ہانی کہتے ہیں کہ میں ان دونوں میں سے بہترین اور سب سے افضل کے پاس گیا اور ان سے مذکورہ حدیث کی تصدیق کی ان کا نام جعدہ تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة جعدة، وأبو صالح ضعيف
ابن خباب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور مجاہد یحییٰ بن جعدہ کے پاس گئے تو انہوں نے حضرت ام ہانی کے حوالے سے ہمیں یہ حدیث سنائی کہ میں رات کے آدھے حصے میں نبی علیہ السلا کی قرأت سن رہی تھی اس وقت میں اپنے اسی گھر کی چھت پر تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے قریب تھے۔
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت میمونہ نے ایک ہی برتن سے غسل فرمایا وہ ایک پیالہ تھا جس میں آٹے کے اثرات واضح تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهو فى الحقيقة حديثان جمعا معا، أما الأول - وهو قصة اغتساله ﷺ و ميمونة من إناء واحد - فثابت من حديث ميمونة، وأما الثاني - وهو قصة اغتساله ﷺ... فهو ثابت من حديث ام هاني
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا محمد يعني ابن عمرو ، عن إبراهيم بن عبد الله بن حنين ، عن ابي مرة مولى ام هانئ، قال محمد: وقد رايت ابا مرة وكان شيخا قد ادرك ام هانئ، عن ام هانئ ، قالت: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح، فقلت: يا رسول الله، قد اجرت حموين لي، فزعم ابن امي انه قاتله تعني عليا، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد اجرنا من اجرت يا ام هانئ" , وصب لرسول الله صلى الله عليه وسلم ماء، فاغتسل، ثم التحف بثوب عليه، وخالف بين طرفيه على عاتقه، فصلى الضحى، ثماني ركعات" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُرَّةَ وَكَانَ شَيْخًا قَدْ أَدْرَكَ أُمَّ هَانِئٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ ، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ أَجَرْتُ حَمْوَيْنِ لِي، فَزَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتَلَهُ تَعْنِي عَلِيًّا، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ" , وَصُبَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاءٌ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبٍ عَلَيْهِ، وَخَالَفَ بَيْنَ طَرَفَيْهِ عَلَى عَاتِقِهِ، فَصَلَّى الضُّحَى، ثَمَانِي رَكَعَاتٍ" .
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن میں نے اپنے دو دیوروں کو جو مشرکین میں سے تھے،، پناہ دیدی اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم گرد و غبار میں اٹے ہوئے ایک لحاف میں لپٹے ہوئے تشریف لائے مجھے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاختہ ام ہانی کو خوش آمدید، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے اپنے دودیوروں کو جو مشرکین میں سے ہیں پناہ دیدی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے تم نے پناہ دیدی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں، جسے تم نے امن دیا اسے ہم بھی امن دیتے ہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو حکم دیا انہوں نے پانی رکھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے غسل فرمایا پھر ایک کپڑے میں اچھی طرح لپٹ کر آٹھ رکعتیں پڑھیں یہ فتح مکہ کے دن چاشت کے وقت کی بات ہے۔
حدثنا اسود بن عامر ، قال: حدثنا إسرائيل ، عن سماك ، عن رجل ، عن ام هانئ ، قالت: لما كان يوم فتح مكة، جاءت فاطمة حتى قعدت عن يساره , وجاءت ام هانئ، وقعدت عن يمينه , وجاءت الوليدة بشراب، فتناوله النبي صلى الله عليه وسلم، فشرب، ثم ناوله ام هانئ عن يمينه، فقالت: لقد كنت صائمة، فقال لها:" اشيء تقضينه عليك؟" , قالت: لا، قال:" لا يضرك إذا" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ ، قَالَتْ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ، جَاءَتْ فَاطِمَةُ حَتَّى قَعَدَتْ عَنْ يَسَارِهِ , وَجَاءَتْ أُمُّ هَانِئٍ، وَقَعَدَتْ عَنْ يَمِينِهِ , وَجَاءَتْ الْوَلِيدَةُ بشراب، فتناوله النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَرِبَ، ثُمَّ نَاوَلَهُ أُمَّ هَانِئٍ عَنْ يَمِينِهِ، فَقَالَتْ: لَقَدْ كُنْتُ صَائِمَةً، فَقَالَ لَهَا:" أَشَيْءٌ تَقْضِينَهُ عَلَيْكِ؟" , قَالَتْ: لَا، قَالَ:" لَا يَضُرُّكِ إِذًا" .
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن حضرت فاطمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب بیٹھ گئیں پھر ام ہانی آکر دائیں جانب بیٹھ گئیں، ایک بچی پانی لے کر آئی نبی علیہ السلا نے اس سے پانی لے کر پی لیا پھر اپنی دائیں جانب بیٹھی ہوئی ام ہانی کو دیدیا، انہوں نے (پانی پینے کے بعد یاد آنے پر) عرض کیا کہ میں تو روزے سے تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم کسی روزے کی قضاء کر رہی تھی؟ انہوں نے عرض کیا نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الاضطراب سنده و نكارة متنه، فقد اضطرب فيه سماك بن حرب
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالائی حصے میں پڑاؤ ڈالا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اسی دوران حضرت ابوذر ایک پیالہ لے کر آئے جس میں پانی تھا اور اس پر آٹے کے اثرات لگے ہوئے مجھے نظر آرہے تھے حضرت ابوذرنے آڑ کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمالیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں پڑھیں یہ چاشت کا وقت تھا، جو اس کے بعد میں نے انہیں کبھی پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى صالح
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے بالائی حصے میں پڑاؤ ڈالا، حضرت ابوذرنے آڑ کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمالیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں پڑھیں یہ چاشت کا وقت تھا، اب یہ یاد نہیں کہ اس میں قیام لمبا یا رکوع سجدہ، تقریبا سب ہی برابر تھے اور اس کے بعد یہ اس سے پہلے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی یہ نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن ابن ابي ليلى ، قال: ما اخبرني احد انه راى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى غير ام هانئ ، فإنها حدثت " ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل بيتها يوم فتح مكة، فاغتسل وصلى ثماني ركعات، ما راته صلى صلاة قط اخف منها، غير انه كان يتم الركوع والسجود" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: مَا أَخْبَرَنِي أَحَدٌ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى غَيْرَ أُمِّ هَانِئٍ ، فَإِنَّهَا حَدَّثَتْ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ بَيْتَهَا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، فَاغْتَسَلَ وَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، مَا رَأَتْهُ صَلَّى صَلَاةً قَطُّ أَخَفَّ مِنْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ" .
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے بالائی حصے میں پڑاؤ ڈالا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمالیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں پڑھیں یہ چاشت کا وقت تھا، میں نے انہیں اس سے زیادہ ہلکی نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا بس وہ رکوع سجود مکمل کر رہے تھے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن يزيد بن ابي زياد ، قال: سالت عبد الله بن الحارث عن صلاة الضحى، فقال: ادركت اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وهم متوافرون، فما حدثني احد منهم , انه راى رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي الضحى غير ام هانئ ، فإنها قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح يوم جمعة، فاغتسل، ثم صلى ثماني ركعات" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ عَنْ صَلَاةِ الضُّحَى، فَقَالَ: أَدْرَكْتُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ مُتَوَافِرُونَ، فَمَا حَدَّثَنِي أَحَدٌ مِنْهُمْ , أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى غَيْرَ أُمِّ هَانِئٍ ، فَإِنَّهَا قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ يَوْمَ جُمُعَةٍ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ صَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ" .
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے بالائی حصے میں پڑاؤ ڈالا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں پڑھیں یہ چاشت کا وقت تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: يوم جمعة، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ام ہانی (چاشت کی نماز کو) غنیمت سمجھو، کیونکہ یہ شام کو بھی خیر لاتی ہے اور دن کو بھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى عثمان، وموسي بن عبدالرحمن، وقد اختلف فيه على معمر
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے ایک کپڑے میں اچھی طرح لپٹ کر آٹھ رکعتیں پڑھیں اور کپڑے کے دونوں کنارے مخالف سمت سے کندھے پر ڈال لئے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، قال: لم يخبرنا احد ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى الضحى إلا ام هانئ ، فإنها قالت:" دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم بيتي، " فاغتسل يوم فتح مكة، ثم صلى ثماني ركعات يخف فيهن الركوع والسجود" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: لَمْ يُخْبِرْنَا أَحَدٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الضُّحَى إِلَّا أُمَّ هَانِئٍ ، فَإِنَّهَا قَالَتْ:" دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، " فَاغْتَسَلَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، ثُمَّ صَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ يُخِفُّ فِيهِنَّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ" .
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں آئے، غسل فرمایا پھر مختصر رکوع و سجود کے ساتھ آٹھ رکعتیں پڑھیں۔
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ میں رات کے آدھے حصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت سن رہی تھی، اس وقت میں اپنے اسی گھر کی چھت پر تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے قریب تھے۔
حدثنا وكيع ، قال: حدثنا ابن ابي ذئب ، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري ، عن ابي مرة مولى فاختة ام هانئ، عن فاختة ام هانئ بنت ابي طالب ، قالت: لما كان يوم فتح مكة، اجرت رجلين من احمائي، فادخلتهما بيتا، واغلقت عليهما بابا، فجاء ابن امي علي بن ابي طالب، فتفلت عليهما بالسيف، قالت: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فلم اجده، ووجدت فاطمة، فكانت اشد علي من زوجها , قالت: فجاء النبي صلى الله عليه وسلم وعليه اثر الغبار، فاخبرته، فقال:" يا ام هانئ، قد اجرنا من اجرت، وامنا من امنت" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى فَاخِتَةَ أُمِّ هَانِئٍ، عَنْ فَاخِتَةَ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَتْ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ، أَجَرْتُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَحْمَائِي، فَأَدْخَلْتُهُمَا بَيْتًا، وَأَغْلَقْتُ عَلَيْهِمَا بَابًا، فَجَاءَ ابْنُ أُمِّي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَتَفَلَّتَ عَلَيْهِمَا بِالسَّيْفِ، قَالَتْ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ أَجِدْهُ، وَوَجَدْتُ فَاطِمَةَ، فَكَانَتْ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ زَوْجِهَا , قَالَتْ: فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ أَثَرُ الْغُبَارِ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:" يَا أُمَّ هَانِئٍ، قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ، وَأَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ" .
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن میں نے اپنے دو دیوروں کو جو مشرکین میں سے تھے پناہ دیدی اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم گرد و غبار میں اٹے ہوئے ایک لحاف میں لپٹے ہوئے تشریف لائے مجھے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاختہ ام ہانی کو خوش آمدید میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے اپنے دو دیوروں کو جو مشرکین میں سے ہیں پناہ دیدی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے تم نے پناہ دیدی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن مالك ، عن ابي النضر ، عن ابي مرة مولى عقيل بن ابي طالب، عن ام هانئ انها ذهبت إلى النبي صلى الله عليه وسلم يوم الفتح، قالت: فوجدته يغتسل، و فاطمة تستره بثوب، فسلمت، وذلك ضحى، فقال:" من هذا؟" , فقلت: انا ام هانئ , قلت: يا رسول الله , زعم ابن امي انه قاتل رجلا اجرته، فلان بن هبيرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد اجرنا من اجرت يا. ام هانئ" , فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من غسله، قام، فصلى ثماني ركعات ملتحفا في ثوب .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ أَنَّهَا ذَهَبَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ، قَالَتْ: فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ، وَ فَاطِمَةُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ، فَسَلَّمْتُ، وَذَلِكَ ضُحًى، فَقَالَ:" مَنْ هَذَا؟" , فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , زَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا أَجَرْتُهُ، فُلَانَ بْنَ هُبَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا. أُمَّ هَانِئٍ" , فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غُسْلِهِ، قَامَ، فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ .
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن میں نے اپنے دو دیوروں کو جو مشرکین میں سے تھے پناہ دیدی اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم گرد و غبار میں اٹے ہوئے ایک لحاف میں لپٹے ہوئے تشریف لائے مجھے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاختہ ام ہانی کو خوش آمدید، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے اپنے دو دیوروں کو جو مشرکین میں سے ہیں پناہ دیدی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے تم نے پناہ دیدی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں جسے تم نے امن دیا اسے ہم بھی امن دیتے ہیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو حکم دیا انہوں نے پانی رکھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے غسل فرمایا پھر ایک کپڑے میں اچھی طرح لپٹ کر آٹھ رکعتیں پڑھیں یہ فتح مکہ کے دن چاشت کے وقت کی بات ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن جعدة ، عن ام هانئ وهي جدته , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها يوم الفتح، فاتي بشراب، فشرب، ثم ناولني، فقلت: إني صائمة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن المتطوع امير على نفسه، فإن شئت فصومي، وإن شئت فافطري" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَعْدَةَ ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ وَهِيَ جَدَّتُهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمَ الْفَتْحِ، فَأُتِيَ بِشَرَابٍ، فَشَرِبَ، ثُمَّ نَاوَلَنِي، فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمُتَطَوِّعَ أَمِيرٌ عَلَى نَفْسِهِ، فَإِنْ شِئْتِ فَصُومِي، وَإِنْ شِئْتِ فَأَفْطِرِي" .
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے پانی منگوا کر اسے نوش فرمایا پھر وہ برتن انہیں پکڑا دیا انہوں نے بھی اس کا پانی پی لیا پھر یاد آیا تو کہنے لگیں یا رسول اللہ میں تو روزے سے تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ رمضان کا قضاء روزہ تھا تو اس کی جگہ قضاء کرلو اور اگر نفلی روزہ تھا تو تمہاری مرضی ہے چاہے تو قضاء کرلو اور چاہے تو نہ کرو۔
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں بوڑھی اور کمزور ہوگئی ہوں مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جو میں بیٹھے بیٹھے کرلیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سو مرتبہ سبحان اللہ کہا کرو کہ یہ اولاد اسماعیل میں سے سو غلام آزاد کرنے کے برابر ہوگا، سو مرتبہ الحمد للہ کہا کرو کہ یہ اللہ کے راستے میں زین کسے ہوئے اور لگام ڈالے ہوئے سو گھوڑوں پر مجاہدین کو سوار کرانے کے برابر ہے اور سو مرتبہ اللہ اکبر کہا کرو، کہ یہ قلادہ باندھے ہوئے ان سو اونٹوں کے برابر ہوگا جو قبول ہوچکے ہوں اور سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہا کرو کہ یہ زمین و آسمان کے درمیان کی فضاء کو بھر دیتا ہے اور اس دن کی کا کوئی عمل اس سے آگے نہیں بڑھ سکے گا الاّ یہ کہ کوئی شخص تمہاری ہی طرح کا عمل کرے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لاضطراب سنده و نكارة متنه ، فقد اضطرب فيه سماك بن حرب
قال عبد الله: وجدت في كتاب ابي، حدثنا سعيد بن سليمان ، قال: حدثنا موسى بن خلف ، قال: حدثنا عاصم بن بهدلة ، عن ابي صالح ، عن ام هانئ بنت ابي طالب , قال: قالت: مر بي ذات يوم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت: يا رسول الله , إني قد كبرت وضعفت او كما قالت , فمرني بعمل اعمله وانا جالسة، قال: " سبحي الله مائة تسبيحة، فإنها تعدل لك مائة رقبة تعتقينها من ولد إسماعيل، واحمدي الله مائة تحميدة، تعدل لك مائة فرس مسرجة ملجمة، تحملين عليها في سبيل الله، وكبري الله مائة تكبيرة، فإنها تعدل لك مائة بدنة مقلدة متقبلة، وهللي الله مائة تهليلة قال ابن خلف احسبه قال تملا ما بين السماء والارض، ولا يرفع يومئذ لاحد عمل , إلا ان ياتي بمثل ما اتيت به" .قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ خَلَفٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ , قَالَ: قَالَتْ: مَرَّ بِي ذَاتَ يَوْمٍ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي قَدْ كَبِرْتُ وَضَعُفْتُ أَوْ كَمَا قَالَتْ , فَمُرْنِي بِعَمَلٍ أَعْمَلُهُ وَأَنَا جَالِسَةٌ، قَالَ: " سَبِّحِي اللَّهَ مِائَةَ تَسْبِيحَةٍ، فَإِنَّهَا تَعْدِلُ لَكِ مِائَةَ رَقَبَةٍ تُعْتِقِينَهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَاحْمَدِي اللَّهَ مِائَةَ تَحْمِيدَةٍ، تَعْدِلُ لَكِ مِائَةَ فَرَسٍ مُسْرَجَةٍ مُلْجَمَةٍ، تَحْمِلِينَ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَكَبِّرِي اللَّهَ مِائَةَ تَكْبِيرَةٍ، فَإِنَّهَا تَعْدِلُ لَكِ مِائَةَ بَدَنَةٍ مُقَلَّدَةٍ مُتَقَبَّلَةٍ، وَهَلِّلِي اللَّهَ مِائَةَ تَهْلِيلَةٍ قَالَ ابْنُ خَلَفٍ أَحْسِبُهُ قَالَ تَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَلَا يُرْفَعُ يَوْمَئِذٍ لِأَحَدٍ عَمَلٌ , إِلَّا أَنْ يَأْتِيَ بِمِثْلِ مَا أَتَيْتِ بِهِ" .
حضرت ام ہانی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں بوڑھی اور کمزور ہوگئی ہوں مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جو میں بیٹھے بیٹھے کرلیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سو مرتبہ سبحان اللہ کہا کرو، کہ یہ اولاد اسماعیل میں سے سو غلام آزاد کرنے کے برابر ہوگا سو مرتبہ الحمد للہ کہا کرو کہ یہ اللہ کے راستے میں زین کسے ہوئے اور لگام ڈالے ہوئے سو گھوڑوں پر مجاہدین کو سوار کرانے کے برابر ہے اور سو مرتبہ اللہ اکبر کہا کرو، کہ یہ قلادہ باندھے ہوئے ان سو اونٹوں کے برابر ہوگا جو قبول ہوچکے ہوں اور سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہا کرو کہ یہ زمین و آسمان کے درمیان کی فضاء کو بھردیتا ہے اور اس دن کی کا کوئی عمل اس سے آگے نہیں بڑھ سکے گا الاّ یہ کہ کوئی شخص تمہاری ہی طرح کا عمل کرے۔