حدثنا إسماعيل , قال: اخبرنا ابن عون , عن إبراهيم , عن الاسود ، ومسروق ، قال: اتينا عائشة لنسالها عن المباشرة للصائم , فاستحينا فقمنا قبل ان نسالها فمشينا لا ادري كم , ثم قلنا: جئنا لنسالها عن حاجة , ثم نرجع قبل ان نسالها , فرجعنا , فقلنا: يا ام المؤمنين إنا جئنا لنسالك عن شيء , فاستحينا فقمنا , فقالت: ما هو؟ سلا عما بدا لكما , قلنا: اكان النبي صلى الله عليه وسلم يباشر وهو صائم؟ قالت: " قد كان يفعل ذلك ولكنه كان املك لإربه منكم" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَال: َأَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ ، وَمَسْرُوق ، قَال: أَتَيْنَا عَائِشَةَ لِنَسْأَلَهَا عَنِ الْمُبَاشَرَةِ لِلصَّائِم , فَاسْتَحَيْنَا فَقُمْنَا قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهَا فَمَشَيْنَا لَا أَدْرِي كَمْ , ثُمَّ قُلْنَا: جِئْنَا لِنَسْأَلَهَا عَنْ حَاجَةٍ , ثُمَّ نَرْجِعُ قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهَا , فَرَجَعْنَا , فَقُلْنَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّا جِئْنَا لِنَسْأَلَكِ عَنْ شَيْءٍ , فَاسْتَحَيْنَا فَقُمْنَا , فَقَالَتْ: مَا هُوَ؟ سَلَا عَمَّا بَدَا لَكُمَا , قُلْنَا: أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ؟ قَالَت: " قَدْ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ وَلَكِنَّهُ كَانَ أَمْلَكَ لِإِرْبِهِ مِنْكُمْ" .
اسود اور مسروق کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے " مباشرتِ صائم " کا حکم پوچھنے لگے، لیکن ان سے پوچھتے ہوئے شرم آئی اس لئے ان سے پوچھے بغیر ہی کھڑے ہوگئے، تھوڑی دور ہی چل کر گئے تھے " جس کی مسافت مجھے یاد نہیں " کہ ہمارے دل میں خیال آیا کہ ہم ان سے ایک ضروری بات پوچھنے کے لئے گئے تھے اور بغیر پوچھے واپس آگئے، یہ سوچ کر ہم واپس آگئے اور عرض کیا ام المومنین! ہم آپ کے پاس ایک مسئلہ پوچھنے کے لئے آئے تھے لیکن شرم کی وجہ سے پوچھے بغیر ہی چلے گئے تھے، انہوں نے فرمایا جو چاہو پوچھ سکتے ہو، ہم نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا باجودیکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش پر تم سے زیادہ قابو رکھتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے جسم سے اپنا جسم لگا لیتے تھے۔