حدثنا عبد الصمد , قال: حدثتني فاطمة بنت عبد الرحمن , قالت: حدثتني امي , انها قالت: سالت عائشة , وارسلها عمها , فقال: إن احد بنيك يقرئك السلام , ويسالك عن عثمان بن عفان , فإن الناس قد شتموه؟ فقالت: لعن الله من لعنه , فوالله لقد كان قاعدا عند نبي الله صلى الله عليه وسلم , وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لمسند ظهره إلي , وإن جبريل ليوحي إليه القرآن , وإنه ليقول له: " اكتب يا عثيم" , فما كان الله لينزله تلك المنزلة إلا كريما على الله ورسوله .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أُمِّي , أَنَّهَا قَالَتْ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ , وَأَرْسَلَهَا عَمُّهَا , فَقَالَ: إِنَّ أَحَدَ بَنِيكِ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ , وَيَسْأَلُكِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ شَتَمُوهُ؟ فَقَالَتْ: لَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَهُ , فَوَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ قَاعِدًا عِنْدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَيَّ , وَإِنَّ جِبْرِيلَ لَيُوحِي إِلَيْهِ الْقُرْآنَ , وَإِنَّهُ لَيَقُولُ لَهُ: " اكْتُبْ يَا عُثَيْمُ" , فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُنْزِلَهُ تِلْكَ الْمَنْزِلَةَ إِلَّا كَرِيمًا عَلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ .
فاطمہ بنت عبدالرحمن اپنی والدہ کے حوالے سے نقل کرتی ہیں کہ انہیں ان کے چچا نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ کا ایک بیٹا آپ کو سلام کہہ رہا ہے اور آپ سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھ رہا ہے، کیونکہ لوگ ان کی شان میں گستاخی کرنے لگے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ جو ان پر لعنت کرے، اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو، واللہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پشت مبارک میرے ساتھ لگائے ہوتے تھے اور اسی دوران حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آجاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے تھے اے عثیم! لکھو اللہ یہ مرتبہ اسی کو دے سکتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی نگاہوں میں معزز ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة فاطمة بنت عبدالرحمن وأمها