حدثنا يزيد , قال: اخبرنا عبد العزيز بن عبد الله بن ابي سلمة , عن عبد الرحمن بن الحارث بن عبد الله بن عياش بن ابي ربيعة , عن عائشة , قالت: قدمنا المدينة , وهي انجال وغرقد , فاشتكى آل ابي بكر , فاستاذنت النبي صلى الله عليه وسلم في عيادة ابي , فاذن لي , فاتيته , فقلت: يا ابت , كيف تجدك؟ قال: كل امرئ مصبح في اهله , والموت ادنى من شراك نعله , قالت: قلت: هجر والله ابي , ثم اتيت عامر بن فهيرة , فقلت: اي عامر , كيف تجدك؟ قال: إني وجدت الموت قبل ذوقه , إن الجبان حتفه من فوقه , قالت: فاتيت بلالا , فقلت: يا بلال , كيف تجدك؟ فقال: الا ليت شعري هل ابيتن ليلة , بفخ وحولي إذخر وجليل , قال: فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته , قال: " اللهم بارك لنا في صاعنا , وبارك لنا في مدنا , وحبب إلينا المدينة , كما حببت إلينا مكة , وانقل وباءها إلى خم، ومهيعة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ , وَهِيَ أَنْجَالٌ وَغَرْقَدٌ , فَاشْتَكَى آلُ أَبِي بَكْرٍ , فَاسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عِيَادَةِ أَبِي , فَأَذِنَ لِي , فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ , كَيْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَ: كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ , وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ , قَالَتْ: قُلْتُ: هَجَرَ وَاللَّهِ أَبِي , ثُمَّ أَتَيْتُ عَامِرَ بْنَ فُهَيْرَةَ , فَقُلْتُ: أَيْ عَامِرُ , كَيْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَ: إِنِّي وَجَدْتُ الْمَوْتَ قَبْلَ ذَوْقِهِ , إِنَّ الْجَبَانَ حَتْفُهُ مِنْ فُوقِهِ , قَالَتْ: فَأَتَيْتُ بِلَالًا , فَقُلْتُ: يَا بِلَالُ , كَيْفَ تَجِدُكَ؟ فَقَالَ: أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً , بِفَخٍّ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ , قَالَ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ , قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا , وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا , وَحَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ , كَمَا حَبَّبْتَ إِلَيْنَا مَكَّةَ , وَانْقُلْ وَبَاءَهَا إِلَى خُمٍّ، وَمَهْيَعَةَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ اور بلال رضی اللہ عنہ بھی بیمار ہوگئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان لوگوں کی عیادت کے لئے جانے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، انہوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ اپنی صحت کیسی محسوس کر رہے ہیں؟ انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " ہر شخص اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے جبکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتی ہے "۔ پھر میں نے عامر سے پوچھا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " کہ موت کا مزہ چکھنے سے پہلے موت کو محسوس کر رہا ہوں اور قبرستان منہ کے قریب آگیا ہے۔ " پھر میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے ان کی طبیعت پوچھی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ " ہائے مجھے کیا خبر کہ میں دوبارہ " فخ " میں رات گذار سکوں گا اور میرے آس پاس " اذخر " اور " جلیل " نامی گھاس ہوگی "۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئیں اور ان لوگوں کی باتیں بتائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا اے اللہ! مدینہ منورہ ہماری نگاہوں میں اسی طرح محبوب رکھ جیسے مکہ کو بنایا تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اس سے بھی زیادہ، اے اللہ! مدینہ کے صاع اور مد میں برکتیں عطاء فرما اور اس کی وباء کو حجفہ کی طرف منتقل فرما۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد فيه ضعف وانقطاع لان عبدالرحمن بن الحارث ضعيف ولم يدرك عائشة