مسند احمد
مسند النساء
0
1172. تتمة مسند عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
0
حدیث نمبر: 25855
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ , أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي؟ , فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ , قال: قَالَتْ عَائِشَةُ : أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى , قَالَ: قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي , انْقَلَبَ , فَوَضَعَ رِدَاءَهُ , وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ , فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ , وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ , فَاضْطَجَعَ , فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ , فَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا , وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا , وَفَتَحَ الْبَابَ , فَخَرَجَ , ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا , فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي , وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي , ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَى أَثَرِهِ , حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ , فَقَامَ , فَأَطَالَ الْقِيَامَ , ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , ثُمَّ انْحَرَفَ , فَأَسْرَعَ , فَأَسْرَعْتُ فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ , فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ , فَسَبَقْتُهُ , فَدَخَلْتُ , فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ , فَدَخَلَ , فَقَالَ: " مَا لَكِ يَا عَائِشُ حَشْيَاءَ رَائِبَةً" قَالَتْ: قُلْتُ: لَا شَيْءَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" لَتُخْبِرِنَّنِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ" , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي , فَأَخْبَرَتْهُ , قَالَ:" فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي؟" قُلْتُ: نَعَمْ فَلَهَزَنِي فِي ظَهْرِي لَهْزَةً فَأَوْجَعَتْنِي , وَقَالَ:" أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ عَلَيْكِ اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟" قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ , قَالَ:" نَعَمْ , فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ , فَنَادَانِي , فَأَخْفَاهُ مِنْكِ , فَأَجَبْتُهُ , فأخُفْيَتَهُ مِنْكِ , وَلَمْ يَكُنْ لِيَدْخُلَ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ , وَظَنَنْتُ أَنَّكِ قَدْ رَقَدْتِ , فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ , وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي , فَقَالَ: إِنَّ رَبَّكَ عزَّ وجلَّ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ , فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ" , قَالَتْ: فَكَيْفَ أَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ:" قُولِي السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ , وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ , وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَلَاحِقُونَ" .
حضرت محمد بن قیس بن مخرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن کہا: کیا میں آپ کو اپنی اور اپنی ماں کے ساتھ بیتی ہوئی بات نہ سناؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں۔ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس میری باری کی رات میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کروٹ لی اور اپنی چادر اوڑھ لی اور جوتے اتارے اور ان کو اپنے پاؤں کے پاس رکھ دیا اور اپنی چادر کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا اور لیٹ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر ٹھہرے کہ آپ نے گمان کرلیا کہ میں سو چکی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے جوتا پہنا اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکلے پھر اس کو اہستہ سے بند کردیا۔ میں نے اپنی چادر اپنے سر پر اوڑھی اور اپنا ازار پہنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہونے کو طویل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار اٹھایا۔ پھر واپس لوٹے اور میں بھی لوٹی آپ تیز چلے تو میں بھی تیز چلنے لگی۔ آپ دوڑے تو میں بھی دوڑی۔ آپ پہنچے تو میں بھی پہنچی۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سبقت لے گئی اور داخل ہوتے ہی لیٹ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا: اے عائشہ! تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تمہارا سانس پھول رہا ہے۔ میں نے کہا کچھ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بتادو ورنہ مجھے باریک بین خبردار یعنی اللہ تعالیٰ خبر دے دے گا۔ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ پھر پورے قصہ کی خبر میں نے آپ کو دے دی۔ فرمایا میں اپنے آگے جو سیاہ سی چیز دیکھ رہا تھا وہ تو تھی۔ میں نے عرض کیا جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ پر (از راہ محبت) مارا جس کی مجھے تکلیف ہوئی پھر فرمایا تو نے خیال کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تیرا حق دبا لے گا۔ فرماتی ہیں جب لوگ کوئی چیز چھپاتے ہیں تو اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے جب تو نے دیکھا تو مجھے پکارا اور تجھ سے چھپایا تو میں نے بھی تم سے چھپانے ہی کو پسند کیا اور وہ تمہارے پاس لئے نہیں آئے کہ تو نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھے اور میں نے گمان کیا کہ تو سو چکی ہے اور میں نے تجھے بیدار کرنا پسند نہ کیا میں نے یہ بھی خوف کیا کہ تم گھبرا جاؤ گی۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ بقیع تشریف لے جائیں اور ان کے لئے مغفرت مانگیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو: " اللہ ہم سے جانے والوں پر رحمت فرمائے اور پیچھے جانے والوں پر، ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں "۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه فى السلام على أهل البقيع صحيح، وهذا إسناد ضعيف، م: 974