حدثنا هشيم بن بشير ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن سليمان بن يسار ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ان سبيعة ابنة الحارث وضعت بعد وفاة زوجها بعشرين ليلة، او نحو ذلك، وارادت التزويج، فقال لها ابو السنابل: ليس لك ذلك حتى ياتي عليك آخر الاجلين، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " تزوج إذا شاءت" .حَدَّثَنَا هُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ سُبَيْعَةَ ابْنَةَ الْحَارِثِ وَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِعِشْرِينَ لَيْلَةً، أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ، وَأَرَادَتْ التَّزْوِيجَ، فَقَالَ لَهَا أَبُو السَّنَابِلِ: لَيْسَ لَكِ ذَلِكَ حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيْكِ آخِرُ الْأَجَلَيْنِ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " تَزَوَّجُ إِذَا شَاءَتْ" .
حضرت ابوالسنابل سے مروی ہے کہ سبیعہ کے یہاں اپنے شوہر کی وفات کے صرف ٢٣ یا ٢٥ دن بعد ہی بچے کی ولادت ہوگئی اور وہ دوسرے رشتے کے لئے تیار ہونے لگیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی نے آکر اس کی خبردی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ ایسا کرتی ہے تو (ٹھیک ہے کیونکہ) اس کی عدت گزر چکی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، سليمان بن يسار لم يسمع هذا الحديث من ام سلمة
حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابن ابي نجيح ، عن ابيه ، عن عبيد بن عمير ، عن ام سلمة ، قالت: لما مات ابو سلمة , قلت: غريب ومات بارض غربة، فافضت بكاء، فجاءت امراة تريد ان تسعدني من الصعيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تريدين ان تدخلي الشيطان بيتا قد اخرجه الله عز وجل منه؟" قالت: فلم ابك عليه .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: لَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ , قُلْتُ: غَرِيبٌ وَمَاتَ بِأَرْضِ غُرْبَةٍ، فَأَفَضْتُ بُكَاءً، فَجَاءَتْ امْرَأَةٌ تُرِيدُ أَنْ تُسْعِدَنِي مِنَ الصَّعِيدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تُرِيدِينَ أَنْ تُدْخِلِي الشَّيْطَانَ بَيْتًا قَدْ أَخْرَجَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ؟" قَالَتْ: فَلَمْ أَبْكِ عَلَيْهِ .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب میرے شوہر حضرت ابوسلمہ فوت ہوگئے تو یہ سوچ کر کہ وہ مسافر تھے اور ایک اجنبی علاقے میں فوت ہوگئے میں نے خواب آہ وبکاء کی اسی دوران ایک عورت میرے پاس مدینہ منورہ کے بالائی علاقے سے میرے ساتھ رونے کے لئے آگئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کیا تم اپنے گھر میں شیطان کو داخل کرنا چاہتی ہو جسے اللہ نے یہاں سے نکال دیا تھا حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ پھر میں اپنے شوہر پر نہیں روئی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم خواتین میں سے کسی کا کوئی غلام مکاتب ہو اور اس کے پاس اتنا بدل کتابت ہو کہ وہ اسے اپنے مالک کے حوالے کر کے خود آزادی حاصل کرسکتے تو اس عورت کو اپنے غلام سے پردہ کرنا چاہئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة نبهان، ومما يدل على ضعف هذا الحديث عمل السيدة عائشة بخلافه
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہوجائے اور کسی شخص کا قربانی کا ارادہ ہو تو اسے اپنے (سرکے) بال یا جسم کے کسی حصے (کے بالوں) کو ہاتھ نہیں لگانا (کاٹنا اور تراشنا) چاہئے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکرکا تذکرہ کیا جسے زمین میں دھنسا دیا جائے گا تو حضرت ام سلمہ نے عرض کیا کہ ہوسکتا ہے اس لشکر میں ایسے لوگ بھی ہوں جنہیں زبردستی اس میں شامل کرلیا گیا ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف على ابن سوقة فيه
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ میں ایسی عورت ہوں کہ اپنے سر کے بال (زیادہ لمبے ہونے سے) چوٹی بنا کر رکھنے پڑتے ہیں (تو کیا غسل کرتے وقت انہیں ضرور کھولا کروں؟) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ اس پر تین مرتبہ اچھی طرح پانی بہا لو۔
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی نسبت ظہر کی نماز جلدی پڑھ لیا کرتے تھے اور تم لوگ ان کی نسبت عصر کی نماز زیادہ جلدی پڑھ لیتے ہو۔
حكم دارالسلام: تعجيل النبى ﷺ صلاة الظهر صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لعنعنة ابن جريج، وهو مدلس
حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کون سا تھا انہوں نے فرمایا جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، أبو صالح وإن كان قد أدرك عائشة وأم سلمة إلا أنه لم يذكر ما يفيد السماع منهما
ہنیدہ کی والدہ کہتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت ام سلمہ کے پاس حاضر ہوئی اور ان سے روزے کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کا حکم دیتے تھے جن میں سے پہلا روزہ پیر کے دن ہوتا تھا پھر جمعرات اور جمعہ۔
حكم دارالسلام: ضعيف لاضطرابه، والحديث عند مسلم عن عائشة: أن النبى ﷺ كان يصوم من كل شهر ثلاثة ايام، ولم يكن يبالي من اي ايام الشهر يصوم
ابوبکر بن عبدالرحمن بن عتاب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان دونوں نے فرمایا کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھے بغیر اختیاری طور پر صبح کے وقت حالت جنابت میں ہوتے اور اپنا روزہ مکمل کرلیتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1930، م: 1109 عن عائشة فقط
حدثنا ابن ابي عدي ، عن ابن عون ، عن الحسن ، عن امه ، عن ام سلمة ، قالت: ما نسيت قوله يوم الخندق وهو يعاطيهم اللبن، وقد اغبر شعر صدره، وهو يقول: " اللهم إن الخير خير الآخره فاغفر للانصار والمهاجره" قال: فراى عمارا، فقال:" ويحه ابن سمية تقتله الفئة الباغية" , قال: فذكرته لمحمد يعني ابن سيرين , فقال: عن امه؟ قلت: نعم، اما إنها كانت تخالطها، تلج عليها.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: مَا نَسِيتُ قَوْلَهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهُوَ يُعَاطِيهِمُ اللَّبَنَ، وَقَدْ اغْبَرَّ شَعْرُ صَدْرِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الْآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ" قَالَ: فَرَأَى عَمَّارًا، فَقَالَ:" وَيْحَهُ ابْنُ سُمَيَّةَ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ" , قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لِمُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ سِيرِينَ , فَقَالَ: عَنْ أُمِّهِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، أَمَا إِنَّهَا كَانَتْ تُخَالِطُهَا، تَلِجُ عَلَيْهَا.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بات نہیں بھولتی جو غزوہ خندق کے موقع پر جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سینہ مبارک پر موجود بال غبارآلود ہوگئے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اینٹیں پکڑاتے ہوئے کہتے جارہے تھے کہ اے اللہ اصل خیر تو آخرت کی خیر ہے پس تو انصار اور مہاجرین کو معاف فرمادے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار کو دیکھا تو فرمایا ابن سمیہ افسوس تمہیں ایک باغی گروہ قتل کردے گا۔
حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن سفينة مولى ام سلمة، عن ام سلمة ، قالت: كان من آخر وصية رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصلاة الصلاة، وما ملكت ايمانكم" , حتى جعل نبي الله صلى الله عليه وسلم يلجلجها في صدره، وما يفيص بها لسانه .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَفِينَةَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: كَانَ مِنْ آخِرِ وَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ" , حَتَّى جَعَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَجْلِجُهَا فِي صَدْرِهِ، وَمَا يَفِيصُ بِهَا لِسَانُهُ .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا یہی کہتے کہتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک کھڑکھڑانے اور زبان رکنے لگی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، قتادة لم يسمعه من سفينة
ابوبکربن عبدالرحمن بن عتاب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں والد کے ساتھ حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان دونوں نے فرمایا کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھے بغیر اختیاری طور پر صبح کے وقت حالت جنابت میں ہوتے اور اپنا روزہ مکمل کرلیتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1930، م: 1109 عن عائشة فقط
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ مکہ مکرمہ پہنچیں تو بیمار تھیں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے رہتے ہوئے طواف کر لوحضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کے قریب سورت طور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سات یا پانچ رکعتوں پر وتر پڑھتے تھے اور ان کے درمیان سلام یا کلام کسی طرح بھی فصل نہیں فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، مقسم لم يسمع من أم سلمة ، وقد اختلف فى إسناده
حدثنا جرير ، عن عبد العزيز بن رفيع ، عن عبيد الله ابن القبطية ، قال: دخل الحارث بن ابي ربيعة وعبد الله بن صفوان وانا معهما على ام سلمة، فسالاها عن الجيش الذي يخسف به، وكان ذلك في ايام ابن الزبير، فقالت ام سلمة : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يعوذ عائذ بالحجر، فيبعث الله جيشا، فإذا كانوا ببيداء من الارض، خسف بهم" , فقلت: يا رسول الله، فكيف بمن اخرج كارها؟ قال:" يخسف به معهم، ولكنه يبعث على نيته يوم القيامة" , فذكرت ذلك لابي جعفر، فقال: هي بيداء المدينة.حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ابْنِ الْقِبْطِيَّةِ ، قَالَ: دَخَلَ الْحَارِثُ بْنُ أَبِي رَبِيعَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ وَأَنَا مَعَهُمَا عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَسَأَلَاهَا عَنِ الْجَيْشِ الَّذِي يُخْسَفُ بِهِ، وَكَانَ ذَلِكَ فِي أَيَّامِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَعُوذُ عَائِذٌ بِالْحِجْرِ، فَيَبْعَثُ اللَّهُ جَيْشًا، فَإِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ، خُسِفَ بِهِمْ" , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَيْفَ بِمَنْ أُخْرِجَ كَارِهًا؟ قَالَ:" يُخْسَفُ بِهِ مَعَهُمْ، وَلَكِنَّهُ يُبْعَثُ عَلَى نِيَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" , فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي جَعْفَرٍ، فَقَالَ: هِيَ بَيْدَاءُ الْمَدِينَةِ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک پناہ گزین حطیم میں پناہ لے گا اللہ ایک لشکر بھیجے گا جب وہ لوگ مقام بیداء میں پہنچیں گے تو اسے زمین میں دھنسا دیا جائے گا تو حضرت ام سلمہ نے عرض کیا کہ ہوسکتا ہے اس لشکر میں ایسے لوگ بھی ہوں جنہیں زبردستی اس میں شامل کرلیا گیا ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔
ابراہیم بن عبدالرحمن کی ام ولدہ کہتی ہیں کہ میں اپنے کپڑوں کے دامن کو زمین پر گھسیٹ کر چلتی تھی اس دوران میں ایسی جگہوں سے بھی گزرتی تھی جہاں گندگی پڑی ہوتی اور ایسی جگہوں سے بھی جو صاف ستھری ہوتیں ایک مرتبہ میں حضرت ام سلمہ کے یہاں گئی تو ان سے یہ مسئلہ پوچھا انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بعد والی جگہ اسے صاف کردیتی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام أم ولد إبراهيم بن عبدالرحمن
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن ام سلمة ، قالت: دخل عليها عبد الرحمن بن عوف، قال: فقال: يا امه، قد خفت ان يهلكني كثرة مالي، انا اكثر قريش مالا، قالت: يا بني، فانفق، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن من اصحابي من لا يراني بعد ان افارقه" , فخرج، فلقي عمر، فاخبره، فجاء عمر، فدخل عليها، فقال لها: بالله منهم انا؟ فقالت: لا، ولن ابلي احدا بعدك .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، قَالَ: فَقَالَ: يَا أُمَّهْ، قَدْ خِفْتُ أَنْ يُهْلِكَنِي كَثْرَةُ مَالِي، أَنَا أَكْثَرُ قُرَيْشٍ مَالًا، قَالَتْ: يَا بُنَيَّ، فَأَنْفِقْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ مِنْ أَصْحَابِي مَنْ لَا يَرَانِي بَعْدَ أَنْ أُفَارِقَهُ" , فَخَرَجَ، فَلَقِيَ عُمَرَ، فَأَخْبَرَهُ، فَجَاءَ عُمَرُ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَ لَهَا: بِاللَّهِ مِنْهُمْ أَنَا؟ فَقَالَتْ: لَا، وَلَنْ أُبْلِيَ أَحَدًا بَعْدَكَ .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ان کے پاس آئے اور کہنے لگے اماں جان مجھے اندیشہ ہے کہ مال کی کثرت مجھے ہلاک نہ کردے۔ کیونکہ میں قریش میں سب سے زیادہ مالدار ہوں انہوں نے جواب دیا کہ بیٹا اسے خرچ کرو کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعض ساتھی ایسے بھی ہوں گے کہ میری ان سے جدائی ہونے کے بعد وہ مجھے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکیں گے، حضرت عبدالرحمن بن عوف جب باہر نکلے تو راستے میں حضرت عمر سے ملاقات ہوگئی انہوں نے حضرت عمر کو یہ بات بتائی حضرت عمر خود حضرت ام سلمہ کے پاس پہنچے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا اللہ کی قسم کھا کر بتائیے کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن آپ کے بعد میں کسی کے متعلق یہ بات نہیں کہہ سکتی۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن زينب بنت ابي سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: دخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعندها مخنث، وعندها اخوها عبد الله بن ابي امية، والمخنث يقول لعبد الله: يا عبد الله بن ابي امية، إن فتح الله عليكم الطائف غدا، فعليك بابنة غيلان، فإنها تقبل باربع، وتدبر بثمان , قال: فسمعه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لام سلمة:" لا يدخلن هذا عليك" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهَا مُخَنَّثٌ، وَعِنْدَهَا أَخُوهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، وَالْمُخَنَّثُ يَقُولُ لِعَبْدِ اللَّهِ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ، إِنْ فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ الطَّائِفَ غَدًا، فَعَلَيْكَ بِابْنَةِ غَيْلَانَ، فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ، وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ , قَالَ: فَسَمِعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِأُمِّ سَلَمَةَ:" لَا يَدْخُلَنَّ هَذَا عَلَيْكِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو وہاں ایک مخنث اور عبداللہ بن ابی امیہ جو حضرت ام سلمہ کے بھائی تھے بھی موجود تھے وہ ہیجڑا عبداللہ سے کہہ رہا تھا کہ اے عبداللہ بن ابی امیہ اگر کل کو اللہ تمہیں طائف پر فتح عطاء فرمائے تو تم بنت غیلان کو ضرور حاصل کرنا کیونکہ وہ چار کے ساتھ آتی ہے اور آٹھ کے ساتھ واپس جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ بات سن لی اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا آئندہ یہ تمہارے گھر میں نہیں آنا چاہئے۔
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن زينب بنت ابي سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم تختصمون إلي، ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض، وإنما انا بشر، اقضي له على نحو ما اسمع منه، فمن قضيت له من حق اخيه شيئا، فإنما هو نار، فلا ياخذه" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، أَقْضِي لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، فَإِنَّمَا هُوَ نَارٌ، فَلَا يَأْخُذْهُ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لے کرتے ہو، ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی نسبت اپنی دلیل ایسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ پیش کردے کہ میں اس کی دلیل کی روشنی میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں (اس لئے یاد رکھو) میں جس شخص کی بات تسلیم کرکے اس کے بھائی کے کسی حق کا اس کے لئے فیصلہ کرتا ہوں تو سمجھ لو کہ میں اس کے لئے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر اسے دے رہاہوں لہذا اسے چاہئے کہ اسے نہ لے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ قربانی کے دن (دس ذی الحجہ کو) فجر کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ میں پڑھیں۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وقد اختلف فى وصله و ارساله، وارساله اصح، ابو معاوية اضطرب فى متنة
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن زينب بنت ابي سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: جاءت ام حبيبة النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، هل لك في اختي؟ قال:" فاصنع بها ماذا؟" , قالت: تزوجها، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وتحبين ذلك؟" فقالت: نعم، لست لك بمخلية، واحق من شركني في خير اختي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنها لا تحل لي"، قالت: فوالله لقد بلغني انك تخطب درة ابنة ام سلمة بنت ابي سلمة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو كانت تحل لي لما تزوجتها، قد ارضعتني واباها ثويبة مولاة بني هاشم، فلا تعرضن علي اخواتكن ولا بناتكن" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ فِي أُخْتِي؟ قَالَ:" فَأَصْنَعُ بِهَا مَاذَا؟" , قَالَتْ: تَزَوَّجُهَا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَتُحِبِّينَ ذَلِكَ؟" فَقَالَتْ: نَعَمْ، لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ، وَأَحَقُّ مَنْ شَرِكَنِي فِي خَيْرٍ أُخْتِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِي"، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ لَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَخْطُبُ دُرَّةَ ابْنَةَ أُمِّ سَلَمَةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كَانَتْ تَحِلُّ لِي لَمَا تَزَوَّجْتُهَا، قَدْ أَرْضَعَتْنِي وَأَبَاهَا ثُوَيْبَةُ مَوْلَاةُ بَنِي هَاشِمٍ، فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ أَخَوَاتِكُنَّ وَلَا بَنَاتِكُنَّ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ام حبیبہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ کو میری بہن میں کوئی دلچسپی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا مطلب انہوں نے عرض کیا کہ آپ اس سے نکاح کرلیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں یہ بات پسند ہے انہوں نے عرض کیا جی ہاں میں آپ کی اکیلی بیوی تو ہوں نہیں اس لئے اس خیر میں میرے ساتھ جو لوگ شریک ہوسکتے ہیں میرے نزدیک ان میں سے میری بہن سب سے زیادہ حقدار ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لئے وہ حلال نہیں ہے (کیونکہ تم میرے نکاح میں ہو) انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ درہ بنت ام سلمہ کے لئے پیغام نکاح بھیجنے والے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ میرے لئے حلال ہوتی تب بھی میں اس سے نکاح نہ کرتا کیونکہ مجھے اور اس کے باپ (ابوسلمہ) کو بنوہاشم کی آزاد کردہ باندی ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا بہرحال تم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو میرے سامنے پیش نہ کیا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح من حديث أم حبيبة زوج النبى ﷺ، وحديث أم سلمة ، هذا مما أخطا فيه هشام بن عروة بالعراق
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن ام سلمة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا حضرتم الميت او المريض فقولوا خيرا، فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون" , قالت: فلما مات ابو سلمة، اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن ابا سلمة قد مات، فقال:" قولي اللهم اغفر لي وله، واعقبني منه عقبى حسنة" , قالت: فقلت، فاعقبني الله عز وجل من هو خير لي منه، محمدا صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا حَضَرْتُمْ الْمَيِّتَ أَوْ الْمَرِيضَ فَقُولُوا خَيْرًا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ" , قَالَتْ: فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سَلَمَةَ قَدْ مَاتَ، فَقَالَ:" قُولِي اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُ، وَأَعْقِبْنِي مِنْهُ عُقْبَى حَسَنَةً" , قَالَتْ: فَقُلْتُ، فَأَعْقَبَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ هُوَ خَيْرٌ لِي مِنْهُ، مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم کسی قریب المرگ یا بیمار آدمی کے پاس جایا کرو تو اس کے حق میں دعائے خیر کیا کرو کیونکہ ملائکہ تمہاری دعاء پر آمین کہتے ہیں جب حضرت ابوسلمہ کا انتقال ہوا تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ابوسلمہ فوت ہوگئے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یہ دعاء کرو کہ اے اللہ مجھے اور انہیں معاف فرما اور مجھے ان کا نعم البدل عطاء فرما میں نے یہ دعاء مانگی تو اللہ نے مجھے ان سے زیادہ بہترین بدل خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں عطاء فرمادیا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرلیا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں انہیں بوسہ دیدیا کرتے تھے۔
ایک عورت نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میرا شوہر روزے کی حالت میں مجھے بوسہ دیدیتا ہے جبکہ میرا بھی روزہ ہوتا ہے اس میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھے روزے کی حالت میں بوسہ دیدیتے تھے جب کہ میں بھی روزے سے ہوتی تھی۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، قال: حدثني حميد بن نافع ، عن زينب بنت ام سلمة ، عن امها ، ان امراة توفي زوجها، فاشتكت عينها، فذكروها للنبي صلى الله عليه وسلم، وذكروا الكحل، قالوا: نخاف على عينها؟ قال: " قد كانت إحداكن تمكث في بيتها في شر احلاسها او في احلاسها، في ستر بيتها حولا، فإذا مر بها كلب , رمت ببعرة , افلا اربعة اشهر وعشرا؟" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّهَا ، أَنَّ امْرَأَةً تُوُفِّيَ زَوْجُهَا، فَاشْتَكَتْ عَيْنَهَا، فَذَكَرُوهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرُوا الْكُحْلَ، قَالُوا: نَخَافُ عَلَى عَيْنِهَا؟ قَالَ: " قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَمْكُثُ فِي بَيْتِهَا فِي شَرِّ أَحْلَاسِهَا أَوْ فِي أَحْلَاسِهَا، فِي سِتْرِ بَيْتِهَا حَوْلًا، فَإِذَا مَرَّ بِهَا كَلْبٌ , رَمَتْ بِبَعْرَةٍ , أَفَلَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا؟" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت جس کا خاوند فوت ہوگیا تھا کی آنکھوں میں شکایت پیدا ہوگئی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا اور اس کی آنکھوں میں سرمہ لگانے کی اجازت چاہی اور کہنے لگے کہ ہمیں اس کی آنکھوں کے متعلق ضائع ہونے کا اندیشہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (زمانہ جاہلیت میں) تم میں سے ایک عورت ایک سال تک اپنے گھر میں گھٹیاترین کپڑے پہن کر رہتی تھی پھر اس کے پاس سے ایک کتا گزرا جاتا تھا اور وہ مینگنیاں پھینکتی ہوئی باہر نکلتی تھی تو کیا اب چار مہینے دس دن نہیں گزار سکتی؟
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شانے کا گوشت تناول فرمایا اسی دوران حضرت بلال آگئے اور نبی علیہ السلا پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز کے لئے تشریف لے گئے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن هشام ، قال: اخبرني ابي ، عن زينب ابنة ام سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: قالت ام سليم يا رسول الله، إن الله لا يستحيي من الحق، هل على المراة من غسل إذا احتلمت؟ قال: " نعم، إذا رات الماء" , فضحكت ام سلمة , قالت: اتحتلم المراة؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" فبم يشبه الولد؟" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، هَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا احْتَلَمَتْ؟ قَالَ: " نَعَمْ، إِذَا رَأَتْ الْمَاءَ" , فَضَحِكَتْ أُمُّ سَلَمَةَ , قَالَتْ: أَتَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَبِمَ يُشْبِهُ الْوَلَدُ؟" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ام سلیم نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا یہ بتائے کہ اگر عورت کو احتلام ہوجائے تو کیا اس پر بھی غسل واجب ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جب کہ وہ پانی دیکھے اس پر حضرت ام سلمہ ہنسنے لگیں اور کہنے لگیں کہ کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر بچہ اپنی ماں کے مشابہ کیوں ہوتا ہے؟
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے نکاح کیا تو تین دن ان کے پاس قیام فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تمہارے اہل خانہ کے سامنے اس میں کمی کا کوئی پہلو نہیں ہونا چاہئے اگر تم چاہو تو میں سات دن تک تمہارے پاس رہتا ہوں لیکن اس صورت میں دیگر ازواج مطہرات کے پاس بھی سات سات دن گزاروں گا۔
کبشہ بنت ابی مریم کہتی ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ بتائیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ کو کس چیز سے منع کیا تھا انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کھجور کو اتنا پکانے سے منع فرمایا تھا کہ اس کی گٹھلی بھی پگھل جائے نیز اس بات سے کہ ہم کشمس اور کھجور ملاکرنبیذ بتائیں۔
حكم دارالسلام: قولها: "ان نخلط الزبيب والتمر" صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لجهالة ريطة ولجهالة كبشة بنت ابي مريم
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی مؤمن تم سے نفرت نہیں کرسکتا اور کوئی منافق تم سے محبت نہیں کرسکتا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مساور الحميري وأمه
حدثنا عبد الله بن نمير ، قال: حدثنا عبد الملك يعني ابن ابي سليمان ، عن عطاء بن ابي رباح ، قال: حدثني من سمع ام سلمة , تذكر ان النبي صلى الله عليه وسلم كان في بيتها، فاتته فاطمة ببرمة، فيها خزيرة، فدخلت بها عليه، فقال لها:" ادعي زوجك وابنيك" , قالت: فجاء علي , والحسين , والحسن، فدخلوا عليه، فجلسوا ياكلون من تلك الخزيرة، وهو على منامة له على دكان تحته كساء له خيبري , قالت: وانا اصلي في الحجرة، فانزل الله عز وجل هذه الآية إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت ويطهركم تطهيرا سورة الاحزاب آية 33 , قالت: فاخذ فضل الكساء، فغشاهم به، ثم اخرج يده، فالوى بها إلى السماء، ثم قال: " اللهم هؤلاء اهل بيتي وخاصتي، فاذهب عنهم الرجس، وطهرهم تطهيرا , اللهم هؤلاء اهل بيتي وخاصتي، فاذهب عنهم الرجس، وطهرهم تطهيرا" , قالت: فادخلت راسي البيت، فقلت: وانا معكم يا رسول الله، قال:" إنك إلى خير، إنك إلى خير" , قال عبد الملك : وحدثني ابو ليلى ، عن ام سلمة ، مثل حديث عطاء سواء , قال عبد الملك : وحدثني داود بن ابي عوف ابو الحجاف ، عن شهر بن حوشب ، عن ام سلمة بمثله سواء.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ أُمَّ سَلَمَةَ , تَذْكُرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي بَيْتِهَا، فَأَتَتْهُ فَاطِمَةُ بِبُرْمَةٍ، فِيهَا خَزِيرَةٌ، فَدَخَلَتْ بِهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهَا:" ادْعِي زَوْجَكِ وَابْنَيْكِ" , قَالَتْ: فَجَاءَ عَلِيٌّ , وَالْحُسَيْنُ , وَالْحَسَنُ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ، فَجَلَسُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تِلْكَ الْخَزِيرَةِ، وَهُوَ عَلَى مَنَامَةٍ لَهُ عَلَى دُكَّانٍ تَحْتَهُ كِسَاءٌ لَهُ خَيْبَرِيٌّ , قَالَتْ: وَأَنَا أُصَلِّي فِي الْحُجْرَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا سورة الأحزاب آية 33 , قَالَتْ: فَأَخَذَ فَضْلَ الْكِسَاءِ، فَغَشَّاهُمْ بِهِ، ثُمَّ أَخْرَجَ يَدَهُ، فَأَلْوَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي وَخَاصَّتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمْ الرِّجْسَ، وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا , اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي وَخَاصَّتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمْ الرِّجْسَ، وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا" , قَالَتْ: فَأَدْخَلْتُ رَأْسِي الْبَيْتَ، فَقُلْتُ: وَأَنَا مَعَكُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ، إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ" , قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ : وَحَدَّثَنِي أَبُو لَيْلَى ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، مِثْلَ حَدِيثِ عَطَاءٍ سَوَاءً , قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ : وَحَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَوْفٍ أَبُو الْحَجَّافِ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ بِمِثْلِهِ سَوَاءً.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں تھے کہ حضرت فاطمہ ایک ہنڈیا لے کر آگئیں جس میں خزیرہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے شوہر اور بچوں کو بھی بلالاؤ چنانچہ حضرت علی اور حضرات حسنین بھی آگئے اور بیٹھ کر وہ خزیرہ کھانے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک چبوترے پر نیند کی حالت میں تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے نیچے خیبر کی ایک چادر تھی اور میں حجرے میں نماز پڑھ رہی تھی کہ اسی دوران اللہ نے یہ آیت نازل فرمادی اے اہل بیت اللہ تو تم سے گندگی کو دور کر کے تمہیں خوب صاف ستھرا بنانا چاہتا ہے۔
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چادرکا بقیہ حصہ لے کر ان سب پر ڈال دیا اور اپنا ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اے اللہ یہ لوگ میرے اہل بیت اور میرا خام مال ہیں تو ان سے گندگی کو دور کر کے انہیں خوب صاف ستھرا کردے، دو مرتبہ یہ دعا کی اس پر میں نے اس کمرے میں اپنا سرداخل کرکے عرض کیا یا رسول اللہ میں بھی تو آپ کے ساتھ ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بھی خیر پر ہو، تم بھی خیر پر ہو۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وله أسانيد ثلاثة: أولها ضعيف لإبهام الراوي عن أم سلمة ، وثانيها صحيح، وثالثها ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حدثنا ابو اسامة ، قال: حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن زينب ابنة ابي سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: قلت: يا رسول الله، هل لي من اجر في بني ابي سلمة ان انفق عليهم، ولست بتاركتهم هكذا وهكذا وهكذا، إنما هم بني؟ قال: " نعم، لك فيهم اجر ما انفقت عليهم" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لِي مِنْ أَجْرٍ فِي بَنِي أَبِي سَلَمَةَ أَنْ أُنْفِقَ عَلَيْهِمْ، وَلَسْتُ بِتَارِكَتِهِمْ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، إِنَّمَا هُمْ بَنِيَّ؟ قَالَ: " نَعَمْ، لَكِ فِيهِمْ أَجْرٌ مَا أَنْفَقْتِ عَلَيْهِمْ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ اگر میں ابوسلمہ کے بچوں پر کچھ خرچ کردوں تو کیا مجھے اس پر اجرملے گا کیونکہ میں انہیں اس حال میں چھوڑ نہیں سکتی کہ وہ میرے بھی بچے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تم ان پر جو کچھ خرچ کرو گی تمہیں اس کا اجرملے گا۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن سليمان بن يسار ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها استفتت رسول الله صلى الله عليه وسلم في امراة تهراق الدم، فقال: " تنتظر قدر الليالي والايام التي كانت تحيضهن وقدرهن من الشهر، فتدع الصلاة، ثم لتغتسل، ولتستثفر، ثم تصلي" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا اسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَةٍ تُهَرَاقُ الدَّمَ، فَقَالَ: " تَنْتَظِرُ قَدْرَ اللَّيَالِي وَالْأَيَّامِ الَّتِي كَانَتْ تَحِيضُهُنَّ وَقَدْرَهُنَّ مِنَ الشَّهْرِ، فَتَدَعُ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لِتَغْتَسِلْ، وَلْتَسْتَثْفِرْ، ثُمَّ تُصَلِّي" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کا حکم دریافت کیا جس کا خون مسلسل جاری رہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اتنے دن رات تک انتظار کرے جتنے دن تک اسے پہلے ناپاکی کا سامنا ہوتا تھا اور مہینے میں اتنے دنوں کا اندازہ کرلے اور اتنے دن تک نماز چھوڑے رکھے، اس کے بعد غسل کرکے کپڑا باندھ لے اور نماز پڑھنے لگے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ عورتیں اپنا دامن کتنا لٹکائیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ ایک بالشت کے برابر اسے لٹکا سکتی ہو میں نے عرض کیا کہ اس طرح تو ان کی پنڈلیاں کھل جائیں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ایک گز لٹکا لو اس سے زیادہ نہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على نافع
حدثنا ابو اسامة ، قال: اخبرنا هشام يعني ابن عروة ، عن عوف بن الحارث بن الطفيل ، عن رميثة ام عبد الله بن محمد بن ابي عتيق ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: كلمني صواحبي ان اكلم رسول الله ان يامر الناس، فيهدون له حيث كان، فإنهم يتحرون بهديته يوم عائشة، وإنا نحب الخير كما تحبه عائشة، فقلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، إن صواحبي كلمنني ان اكلمك لتامر الناس ان يهدوا لك حيث كنت، فإن الناس يتحرون بهداياهم يوم عائشة، وإنما نحب الخير كما تحب عائشة , قالت: فسكت النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يراجعني، فجاءني صواحبي، فاخبرتهن انه لم يكلمني، فقلن: لا تدعيه، وما هذا حين تدعينه , قالت: ثم دار، فكلمته، فقلت: إن صواحبي قد امرنني ان اكلمك تامر الناس، فليهدوا لك حيث كنت، فقالت له مثل تلك المقالة مرتين او ثلاثا، كل ذلك يسكت عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" يا ام سلمة، لا تؤذيني في عائشة، فإنه والله ما نزل علي الوحي وانا في بيت امراة من نسائي غير عائشة" , فقالت اعوذ بالله ان اسوءك في عائشة .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ عُرْوَةَ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الطُّفَيْلِ ، عَنْ رُمَيْثَةَ أُمِّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَلَّمَنِي صَوَاحِبِي أَنْ أُكَلِّمَ رَسُولَ اللَّهِ أَنْ يَأْمُرَ النَّاسَ، فَيُهْدُونَ لَهُ حَيْثُ كَانَ، فَإِنَّهُمْ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدِيَّتِهِ يَوْمَ عَائِشَةَ، وَإِنَّا نُحِبُّ الْخَيْرَ كَمَا تُحِبُّهُ عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ صَوَاحِبِي كَلَّمْنَنِي أَنْ أُكَلِّمَكَ لِتَأْمُرَ النَّاسَ أَنْ يُهْدُوا لَكَ حَيْثُ كُنْتَ، فَإِنَّ النَّاسَ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ، وَإِنَّمَا نُحِبُّ الْخَيْرَ كَمَا تُحِبُّ عَائِشَةُ , قَالَتْ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُرَاجِعْنِي، فَجَاءَنِي صَوَاحِبِي، فَأَخْبَرْتُهُنَّ أَنَّهُ لَمْ يُكَلِّمْنِي، فَقُلْنَ: لَا تَدَعِيهِ، وَمَا هَذَا حِينَ تَدَعِينَهُ , قَالَتْ: ثُمَّ دَارَ، فَكَلَّمْتُهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ صَوَاحِبِي قَدْ أَمَرْنَنِي أَنْ أُكَلِّمَكَ تَأْمُرُ النَّاسَ، فَلْيُهْدُوا لَكَ حَيْثُ كُنْتَ، فَقَالَتْ لَهُ مِثْلَ تِلْكَ الْمَقَالَةِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، كُلُّ ذَلِكَ يَسْكُتُ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" يَا أُمَّ سَلَمَةَ، لَا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ، فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا نَزَلَ عَلَيَّ الْوَحْيُ وَأَنَا فِي بَيْتِ امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِي غَيْرَ عَائِشَةَ" , فَقَالَتْ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَسُوءَكَ فِي عَائِشَةَ .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ (نبی علیہ السلام کی ازواج مطہرات) میری سہیلیوں نے مجھ سے کہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موضوع پر بات کروں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو یہ حکم دیدیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہاں بھی ہوں وہ انہیں ہدیہ بھیج سکتے ہیں دراصل لوگ ہدایا پیش کرنے کے لئے حضرت عائشہ کی باری کا انتظار کرتے تھے کیونکہ ہم بھی خیر کے اتنے ہی متمنی ہیں جتنی عائشہ ہیں چنانچہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ مجھ سے میری سہیلیوں نے آپ کی خدمت میں یہ درخواست پیش کرنے کے لئے بات کی کہ آپ لوگوں کو یہ حکم دیدیں کہ آپ جہاں بھی ہوں وہ آپ کو ہدیہ بھیج سکتے ہیں کیونکہ لوگ اپنے ہدایاپیش کرنے کے لئے عائشہ کی باری کا خیال رکھتے ہیں اور ہم بھی خیر کے اتنے ہی متمنی ہیں جتنی عائشہ ہیں اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ میری سہلیاں آئیں تو میں نے انہیں بتادیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے مجھ سے کوئی بات نہیں کی انہوں نے کہا کہ تم یہ بات ان سے کہتی رہنا اسے چھوڑنا نہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دوبارہ آئے تو میں نے گزشتہ درخواست دوبارہ دوہرادی، دو تین مرتبہ ایسا ہی ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر مرتبہ خاموش رہے بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمادیا کہ اے ام سلمہ عائشہ کے حوالے سے مجھے ایذاء نہ پہنچاؤ واللہ عائشہ کے علاوہ کسی بیوی کے گھر میں مجھ پر وحی نہیں ہوتی انہوں نے عرض کیا کہ میں اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ عائشہ کے حوالے سے آپ کو ایذاء پہنچاؤں
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد محتمل للتحسين
حدثنا ابو الوليد ، حدثنا ابو عوانة ، عن عبد الملك يعني ابن عمير ، عن ربعي بن حراش ، عن ام سلمة ، قالت دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ساهم الوجه , قالت: فحسبت ان ذلك من وجع، فقلت: يا نبي الله، ما لك ساهم الوجه؟ قال: " من اجل الدنانير السبعة التي اتتنا امس، امسينا وهي في خصم الفراش" .حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ عُمَيْرٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ سَاهِمُ الْوَجْهِ , قَالَتْ: فَحَسِبْتُ أَنَّ ذَلِكَ مِنْ وَجَعٍ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَا لَكَ سَاهِمُ الْوَجْهِ؟ قَالَ: " مِنْ أَجْلِ الدَّنَانِيرِ السَّبْعَةِ الَّتِي أَتَتْنَا أَمْسِ، أَمْسَيْنَا وَهِيَ فِي خُصْمِ الْفِرَاشِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا میں سمجھی کہ شاید کوئی تکلیف ہے سو میں نے پوچھا اے اللہ کے نبی کیا بات ہے آپ کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دراصل میرے پاس سات دینار رہ گئے ہیں جو کل ہمارے پاس آئے تھے شام ہوگئی اور اب تک وہ ہمارے بستر پر پڑے ہیں۔
حدثنا يعلى ، قال: حدثنا محمد بن عمرو ، عن ابي سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد العصر، فصلى ركعتين، فقلت: يا رسول الله، ما هذه الصلاة، ما كنت تصليها؟ قال: " قدم وفد بني تميم، فحبسوني عن ركعتين كنت اركعهما بعد الظهر" .حَدَّثَنَا يَعْلَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ، مَا كُنْتَ تُصَلِّيهَا؟ قَالَ: " قَدِمَ وَفْدُ بَنِي تَمِيمٍ، فَحَبَسُونِي عَنْ رَكْعَتَيْنِ كُنْتُ أَرْكَعُهُمَا بَعْدَ الظُّهْرِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے بعد میرے پاس آئے تو دو رکعتیں پڑھیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس سے پہلے تو آپ یہ نماز نہیں پڑھتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دراصل بنوتمیم کا وفد آگیا تھا جس کی وجہ سے ظہر کے بعد کی جو دو رکعتیں میں پڑھتا تھا وہ رہ گئی تھیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1233، م: 834، قوله: "وفد بني تميم" وهم، صوابه: "وفد من بني عبد القيس"، وقد اختلف فى هذا الاسناد على ابي سلمة
حدثنا قران بن تمام ابو تمام الاسدي ، قال: حدثنا محمد بن ابي حميد ، عن المطلب بن عبد الله المخزومي ، قال: دخلت على ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا بني , الا احدثك بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: قلت: بلى يا امه، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من انفق على ابنتين، او اختين، او ذواتي قرابة، يحتسب النفقة عليهما، حتى يغنيهما الله من فضله عز وجل، او يكفيهما، كانتا له سترا من النار" .حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ أَبُو تَمَّامٍ الْأَسَدِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَخْزُومِيِّ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّ , أَلَا أُحَدِّثُكَ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى يَا أُمَّهْ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ أَنْفَقَ عَلَى ابْنَتَيْنِ، أَوْ أُخْتَيْنِ، أَوْ ذَوَاتَيْ قَرَابَةٍ، يَحْتَسِبُ النَّفَقَةَ عَلَيْهِمَا، حَتَّى يُغْنِيَهُمَا اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَوْ يَكْفِيَهُمَا، كَانَتَا لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ" .
مطلب بن عبداللہ مخزومی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا بیٹا میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ میں نے عرض کیا اماں جان کیوں نہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنی دو بیٹیوں یا بہنوں یا قریبی رشتہ دار عورتوں پر ثواب کی نیت سے اس وقت تک خرچ کرتا رہے کہ فضل الٰہی سے وہ دونوں بےنیاز ہوجائیں یا وہ ان کی کفایت کرتا رہے تو وہ دونوں اس کے لئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائیں گی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے کہ اے دلوں کو ثابت قدم رکھنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطا فرما۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن موسى بن ابي عائشة ، عن مولى لام سلمة، عن ام سلمة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم , كان يقول في دبر الفجر: " اللهم إني اسالك علما نافعا، وعملا متقبلا، ورزقا طيبا" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ مَوْلًى لِأُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ الْفَجْرِ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے بعد یہ دعا فرماتے تھے اے اللہ میں تجھ سے علم نافع، عمل مقبول اور رزق حلال کا سوال کرتا ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام مولى أم سلمة، ثم إنه قد اختلف فيه على سفيان
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو وہ دوپٹہ اوڑھ رہی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے ایک ہی مرتبہ لپیٹنا دو مرتبہ نہیں (تاکہ مردوں کے عمامے کے ساتھ مشابہت نہ ہوجائے)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة وهب مولى أبى أحمد
حدثنا وكيع ، قال: حدثنا اسامة بن زيد ، عن محمد بن قيس ، عن امه ، عن ام سلمة ، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم , يصلي في حجرة ام سلمة، فمر بين يديه عبد الله او عمر، فقال:" بيده هكذا"، قال: فرجع، قال: فمرت ابنة ام سلمة، فقال:" بيده هكذا"، قال: فمضت , فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" هن اغلب" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يُصَلِّي فِي حُجْرَةِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَمَرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ أَوْ عُمَرُ، فَقَالَ:" بِيَدِهِ هَكَذَا"، قَالَ: فَرَجَعَ، قَالَ: فَمَرَّتْ ابْنَةُ أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَ:" بِيَدِهِ هَكَذَا"، قَالَ: فَمَضَتْ , فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" هُنَّ أَغْلَبُ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حجرے میں نماز پڑھ رہے تھے کہ سامنے سے عبداللہ بن عمر گزرنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے انہیں اشارہ کیا تو وہ پیچھے ہٹ گئے، پھر حضرت ام سلمہ کی بیٹی گزرنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی روکا لیکن وہ آگے سے گزرگئی، نماز سے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتیں غالب آجاتی ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة والدة محمد بن قيس
حدثنا وكيع ، قال: حدثني عبد الله بن سعيد ، عن ابيه ، عن عائشة ، او ام سلمة ، قال وكيع شك هو، يعني عبد الله بن سعيد، ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال لإحداهما: " لقد دخل علي البيت ملك، لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا حسين مقتول، وإن شئت اريتك من تربة الارض التي يقتل بها , قال: فاخرج تربة حمراء" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَوْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَ وَكِيعٌ شَكَّ هُوَ، يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَعِيدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ لِإِحْدَاهُمَا: " لَقَدْ دَخَلَ عَلَيَّ الْبَيْتَ مَلَكٌ، لَمْ يَدْخُلْ عَلَيَّ قَبْلَهَا، فَقَالَ لِي: إِنَّ ابْنَكَ هَذَا حُسَيْنٌ مَقْتُولٌ، وَإِنْ شِئْتَ أَرَيْتُكَ مِنْ تُرْبَةِ الْأَرْضِ الَّتِي يُقْتَلُ بِهَا , قَالَ: فَأَخْرَجَ تُرْبَةً حَمْرَاءَ" .
حضرت عائشہ یا ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا میرے گھر میں ایک ایسا فرشتہ آیا جو اس سے پہلے میرے پاس کبھی نہیں آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ آپ کا یہ بیٹا حسین شہید ہوجائے گا، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس زمین کی مٹی دکھا سکتا ہوں جہاں اسے شہید کیا جائے گا، پھر اس نے سرخ رنگ کی مٹی نکال کر دکھائی۔
حكم دارالسلام: حسن بطرقه وشاهده، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، سعيد لم يذكروا له سماعا من عائشة ولا من ام سلمة
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا محمد يعني ابن عمرو ، عن ابي سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: حضت وانا مع النبي صلى الله عليه وسلم في ثوبه , قالت: فانسللت، فقال:" انفست؟" , قلت: يا رسول الله، وجدت ما تجد النساء، قال: " ذاك ما كتب على بنات آدم" , قالت: فانطلقت، فاصلحت من شاني، فاستثفرت بثوب، ثم جئت، فدخلت معه في لحافه.حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: حِضْتُ وَأَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَوْبه , قَالَتْ: فَانْسَلَلْتُ، فَقَالَ:" أَنُفِسْتِ؟" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَجَدْتُ مَا تَجِدُ النِّسَاءُ، قَالَ: " ذَاكَ مَا كُتِبَ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ" , قَالَتْ: فَانْطَلَقْتُ، فَأَصْلَحْتُ مِنْ شَأْنِي، فَاسْتَثْفَرْتُ بِثَوْبٍ، ثُمَّ جِئْتُ، فَدَخَلْتُ مَعَهُ فِي لِحَافِهِ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لحاف میں تھی کہ مجھے ایام شروع ہوگئے، میں کھسکنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں ایام آنے لگے، میں نے کہا یا رسول اللہ مجھے بھی وہی کیفیت پیش آرہی ہے جو دوسری عورتوں کو پیش آتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہی چیز ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کی تمام بیٹیوں کے لئے لکھ دی گئی ہے پھر میں وہاں سے چلی گئی اپنی حالت درست کی اور کپڑا باندھ لیا پھر آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لحاف میں گھس گئی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى سلمة
یعلی بن مملک کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز اور قرأت کے متعلق حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا تم کہاں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور قرأت کہاں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جتنی دیرسوتے تھے اتنی دیر نماز پڑھتے تھے اور جتنی دیر نماز پڑھتے تھے اتنی دیرسوتے تھے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کی جو کیفیت انہوں نے بیان فرمائی وہ ایک ایک حرف کی وضاحت کے ساتھ تھی۔
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا شريك بن عبد الله ، عن جامع بن ابي راشد ، عن منذر الثوري ، عن الحسن بن محمد ، قال: حدثتني امراة من الانصار هي حية اليوم، إن شئت ادخلتك عليها، قلت: لا، حدثني , قالت: دخلت على ام سلمة ، فدخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم كانه غضبان، فاستترت منه بكم ذراعي، فتكلم بكلام لم افهمه، فقلت: يا ام المؤمنين، كاني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل وهو غضبان؟ فقالت: نعم، اوما سمعت ما قال؟ قلت: وما قال؟ قالت: قال: " إن الشر إذا فشا في الارض، فلم يتناه عنه، ارسل الله عز وجل باسه على اهل الارض" , قالت: قلت: يا رسول الله، وفيهم الصالحون؟! قالت: قال:" نعم، وفيهم الصالحون، يصيبهم ما اصاب الناس، ثم يقبضهم الله عز وجل إلى مغفرته ورضوانه او: إلى رضوانه ومغفرته" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ ، عَنْ مُنْذِرٍ الثَّوْرِيِّ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ هِيَ حَيَّةٌ الْيَوْمَ، إِنْ شِئْتَ أَدْخَلْتُكَ عَلَيْهَا، قُلْتُ: لَا، حَدِّثْنِي , قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّهُ غَضْبَانُ، فَاسْتَتَرْتُ مِنْهُ بِكُمِّ ذراعي، فَتَكَلَّمَ بِكَلَامٍ لَمْ أَفْهَمْهُ، فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، كَأَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ وَهُوَ غَضْبَانُ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، أَوَمَا سَمِعْتِ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: وَمَا قَالَ؟ قَالَتْ: قَالَ: " إِنَّ الشَّرَّ إِذَا فَشَا فِي الْأَرْضِ، فَلَمْ يُتَنَاهَ عَنْهُ، أَرْسَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَأْسَهُ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ" , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفِيهِمْ الصَّالِحُونَ؟! قَالَتْ: قَالَ:" نَعَمْ، وَفِيهِمْ الصَّالِحُونَ، يُصِيبُهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ، ثُمَّ يَقْبِضُهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى مَغْفِرَتِهِ وَرِضْوَانِهِ أَوْ: إِلَى رِضْوَانِهِ وَمَغْفِرَتِهِ" .
حسن بن محمد کہتے ہیں کہ مجھے انصار کی ایک عورت نے بتایا ہے وہ اب بھی زندہ ہیں اگر تم چاہو تو ان سے پوچھ سکتے ہو اور میں تمہیں ان کے پاس لے چلتاہوں راوی نے کہا نہیں آپ خود ہی بیان کردیجئے کہ میں ایک مرتبہ حضرت ام سلمہ کے پاس گئی تو اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے یہاں تشریف لے آئے اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں ہیں، میں نے اپنی قمیص کی آستین سے پردہ کرلیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کی جو مجھے سمجھ نہ آئی میں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ام المؤمنین میں دیکھ رہی ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں تشریف لائے ہیں انہوں نے فرمایا ہاں کیا تم نے ان کی بات سنی ہے میں نے پوچھا کہ انہوں نے کیا فرمایا ہے انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جب زمین میں شرپھیل جائے گا تو اسے روکانہ جاسکے گا اور پھر اللہ اہل زمین پر اپنا عذاب بھیج دے گا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس میں نیک لوگ بھی شامل ہوں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس میں نیک لوگ بھی شامل ہوں گے اور ان پر بھی وہی آفت آئے گی جو عام لوگوں پر آئے گی پھر اللہ تعالیٰ انہیں کھینچ کر اپنی مغفرت اور خوشنودی کی طرف لے جائے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك بن عبدالله ولاضطرابه
حدثنا يزيد ، حدثنا هشام بن حسان ، عن الحسن ، عن ضبة بن محصن ، عن ام سلمة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنه ستكون امراء تعرفون وتنكرون، فمن انكر، فقد برئ، ومن كره، فقد سلم، ولكن من رضي وتابع" , قالوا: يا رسول الله، افلا نقاتلهم؟ قال:" لا، ما صلوا لكم الخمس" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مُحْصِنٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ سَتَكُونُ أُمَرَاءُ تَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ أَنْكَرَ، فَقَدْ بَرِئَ، وَمَنْ كَرِهَ، فَقَدْ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ:" لَا، مَا صَلَّوْا لَكُمْ الْخَمْسَ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب چھ حکمران ایسے آئیں گے جن کی عادات میں سے بعض کو تم اچھا سمجھو گے اور بعض پر نکیر کروگے سو جو نکیر کرے گا وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہوجائگا اور جو ناپسندیدگی کا اظہار کردے گا وہ محفوظ رہے گا، البتہ جو راضی ہو کر اس کے تابع ہوجائے (تو اس کا حکم دوسرا ہے) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک وہ تمہیں پانچ نمازیں پڑھاتے رہیں۔
حدثنا يزيد ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، قال: حدثني ابن عمر بن ابي سلمة ، عن ابيه ، عن ام سلمة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب ام سلمة، فقالت: يا رسول الله، إنه ليس احد من اوليائي تعني شاهدا، فقال: " إنه ليس احد من اوليائك شاهد ولا غائب يكره ذلك" , فقالت: يا عمر زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فتزوجها النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إني لا انقصك مما اعطيت اخواتك رحيين، وجرة، ومرفقة من ادم، حشوها ليف" . فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ياتيها ليدخل بها، فإذا راته، اخذت زينب ابنتها، فجعلتها في حجرها، فينصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعلم ذلك عمار بن ياسر، وكان اخاها من الرضاعة، فاتاها، فقال: اين هذه المشقوحة المقبوحة التي قد آذيت بها رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فاخذها، فذهب بها، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل عليها، فجعل يضرب ببصره في نواحي البيت، فقال: ما فعلت زناب؟ فقالت: جاء عمار، فاخذها، فذهب بها، فدخل بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال لها: " إن شئت سبعت لك، سبعت وإن سبعت لك سبعت لنسائي" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ أُمَّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِي تَعْنِي شَاهِدًا، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِكِ شَاهِدٌ وَلَا غَائِبٌ يَكْرَهُ ذَلِكَ" , فَقَالَتْ: يَا عُمَرُ زَوِّجْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَزَوَّجَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنِّي لَا أَنْقُصُكِ مِمَّا أَعْطَيْتُ أَخَوَاتِكِ رَحْيَيْنِ، وَجَرَّةً، وَمِرْفَقَةً مِنْ أَدَمٍ، حَشْوُهَا لِيفٌ" . فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِيهَا لِيَدْخُلَ بِهَا، فَإِذَا رَأَتْهُ، أَخَذَتْ زَيْنَبَ ابْنَتَهَا، فَجَعَلَتْهَا فِي حِجْرِهَا، فَيَنْصَرِفُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَلِمَ ذَلِكَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ، وَكَانَ أَخَاهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَأَتَاهَا، فَقَالَ: أَيْنَ هَذِهِ الْمَشْقُوحَةُ الْمَقْبُوحَةُ الَّتِي قَدْ آذَيْتِ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَخَذَهَا، فَذَهَبَ بِهَا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا، فَجَعَلَ يَضْرِبُ بِبَصَرِهِ فِي نَوَاحِي الْبَيْتِ، فَقَالَ: مَا فَعَلَتْ زَنَابُ؟ فَقَالَتْ: جَاءَ عَمَّارٌ، فَأَخَذَهَا، فَذَهَبَ بِهَا، فَدَخَلَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لَهَا: " إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَكِ، سَبَّعْتُ وَإِنْ سَبَّعْتُ لَكِ سَبَّعْتُ لِنِسَائِي" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیغام نکاح بھیجا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرا تو کوئی ولی یہاں موجود نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے اولیاء میں سے کوئی بھی خواہ وہ غائب ہو یا حاضر اسے ناپسند نہیں کرے گا، انہوں نے اپنے بیٹے عمربن ابی سلمہ سے کہا کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح کرا دو چنانچہ انہوں نے حضرت ام سلمہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دیدیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ میں نے تمہاری بہنوں (اپنی بیویوں) کو جو کچھ دیا ہے تمہیں بھی اس سے کم نہیں دوں گا، دو چکیاں، ایک مشکیزہ اور چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کے پاس خلوت کے لئے آتے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی اپنی بیٹی زینب کو پکڑ کر اسے اپنی گود میں بٹھالیتی تھیں اور بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں ہی واپس چلے جاتے تھے، حضرت عماربن یاسر جو کہ حضرت ام سلمہ کے رضاعی بھائی تھے، کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ حضرت ام سلمہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ یہ گندی بچی کہاں ہے جس کے ذریعے تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دے رکھی ہے اور اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور گھر میں داخل ہوئے تو اس کمرے کے چاروں کونوں میں نظریں دوڑا کر دیکھنے لگے پھر بچی کے متعلق پوچھا کہ زناب (زینب) کہاں گئی؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمار آئے تھے وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے ہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ خلوت کی اور فرمایا اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات دن گزارتا ہوں لیکن پھر اپنی دوسری بیویوں میں سے ہر ایک کے پاس بھی سات سات دن گزاروں گا۔
حكم دارالسلام: قوله: "ان شئت سبعت لك، وان سبعت لك سبعت لنسائي" صحيح، وهذا اسناد ضعيف لجهالة ابن عمر بن ابي سلمة
حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: حدثني ابو عبيدة بن عبد الله بن زمعة ، عن ابيه ، وعن امه زينب بنت ابي سلمة ، عن ام سلمة ، يحدثانه ذلك جميعا عنها، قالت: كانت ليلتي التي يصير إلي فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم مساء يوم النحر، قالت: فصار إلي، قالت: فدخل علي وهب بن زمعة ومعه رجل من آل ابي امية متقمصين , قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لوهب:" هل افضت بعد ابا عبد الله؟" قال: لا , والله يا رسول الله، قال:" انزع عنك القميص" , قال: فنزعه من راسه، ونزع صاحبه قميصه من راسه، ثم قالوا: ولم يا رسول الله؟ قال: " إن هذا يوم رخص لكم إذا انتم رميتم الجمرة ان تحلوا يعني من كل ما حرمتم منه إلا من النساء إذا انتم امسيتم قبل ان تطوفوا بهذا البيت، عدتم حرما، كهيئتكم قبل ان ترموا الجمرة حتى تطوفوا به" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، وَعَنْ أُمِّهِ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، يُحَدِّثَانِهِ ذَلِكَ جَمِيعًا عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي يَصِيرُ إِلَيَّ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَاءَ يَوْمِ النَّحْرِ، قَالَتْ: فَصَارَ إِلَيَّ، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَيَّ وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ وَمَعَهُ رَجُلٌ مِنْ آلِ أَبِي أُمَيَّةَ مُتَقَمِّصَيْنِ , قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَهْبٍ:" هَلْ أَفَضْتَ بَعْدُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ؟" قَالَ: لَا , وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" انْزِعْ عَنْكَ الْقَمِيصَ" , قَالَ: فَنَزَعَهُ مِنْ رَأْسِهِ، وَنَزَعَ صَاحِبُهُ قَمِيصَهُ مِنْ رَأْسِهِ، ثُمَّ قَالُوا: وَلِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " إِنَّ هَذَا يَوْمٌ رُخِّصَ لَكُمْ إِذَا أَنْتُمْ رَمَيْتُمْ الْجَمْرَةَ أَنْ تَحِلُّوا يَعْنِي مِنْ كُلِّ مَا حُرِمْتُمْ مِنْهُ إِلَّا مِنَ النِّسَاءِ إِذَا أَنْتُمْ أَمْسَيْتُمْ قَبْلَ أَنْ تَطُوفُوا بِهَذَا الْبَيْتِ، عُدْتُمْ حُرُمًا، كَهَيْئَتِكُمْ قَبْلَ أَنْ تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطُوفُوا بِهِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر جس رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس آنا تھا وہ یوم النحر (دس ذی الحجہ) کی رات تھی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آگئے، اسی دوران میرے یہاں وہب بن زمعہ بھی آگئے جن کے ساتھ آل ابی امیہ کا ایک اور آدمی بھی تھا اور ان دونوں نے قمیصیں پہن رکھی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہب سے پوچھا کہ اے ابو عبداللہ کیا تم نے طواف زیارت کرلیا ہے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ابھی تو نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اپنی قمیص اتاردو، چنانچہ ان دونوں نے اپنے سر سے کھینچ کر قمیص اتادری، پھر کہنے لگے یا رسول اللہ اس کی کیا وجہ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس دن جب تم جمرات کی رمی کر چکو تو عورتوں کے علاوہ ہر وہ چیز جو تم پر حرام کی گئی تھی حلال ہوجاتی ہے لیکن اگر شام تک تم طواف زیارت نہ کرسکو تو تم اسی طرح محرم بن جاتے ہو جیسے رمی جمرات سے پہلے تھے تاآنکہ تم طواف زیارت کرلو۔ ام قیس کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عکاشہ بنواسد کے کچھ لوگوں کے ہمراہ میرے یہاں سے نکلے انہوں نے دس ذی الحجہ کی شام کو قمیصیں پہن رکھی تھیں، پھر رات کو وہ میرے پاس واپس آئے تو انہوں نے اپنی قمیص اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھی تھیں، میں نے عکاشہ سے پوچھا کہ اے عکاشہ جب تم یہاں سے گئے تھے تو قمیصیں پہن رکھی تھیں اور جب واپس آئے تو ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس دن ہمیں یہ رخصت دی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس دن جب تم جمرات کی رمی کر چکو تو عورتوں کے علاوہ ہر وہ چیز جو تم پر حرام کی گئی تھی حلال ہوجاتی ہے لیکن اگر شام تک تم طواف زیارت نہ کرسکو تو تم اسی طرح محرم بن جاتے ہو جیسے رمی جمرات سے پہلے تھے تاآنکہ تم طواف زیارت کرلو ہم نے چونکہ طواف نہیں کیا تھا اس لئے تم ہماری قمیصیں اس طرح دیکھ رہی ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف من أجل أبى عبيدة بن عبدالله، وقد اضطرب فيه
قال قال محمد : قال ابو عبيدة : وحدثتني ام قيس ابنة محصن , وكانت جارة لهم، قالت: خرج من عندي عكاشة بن محصن في نفر من بني اسد متقمصين عشية يوم النحر، ثم رجعوا إلي عشاء، قمصهم على ايديهم، يحملونها , قالت: فقلت: اي عكاشة، ما لكم خرجتم متقمصين، ثم رجعتم وقمصكم على ايديكم تحملونها؟ فقال: اخبرتنا ام قيس، كان هذا يوما قد " رخص لنا فيه إذا نحن رمينا الجمرة، حللنا من كل ما حرمنا منه , إلا ما كان من النساء حتى نطوف بالبيت، فإذا امسينا ولم نطف به، صرنا حرما، كهيئتنا قبل ان نرمي الجمرة، حتى نطوف به، ولم نطف، فجعلنا قمصنا كما ترين" .قَالَ قَالَ مُحَمَّدٌ : قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ : وَحَدَّثَتْنِي أُمُّ قَيْسٍ ابْنَةُ مِحْصَنٍ , وَكَانَتْ جَارَةً لَهُمْ، قَالَتْ: خَرَجَ مِنْ عِنْدِي عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فِي نَفَرٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مُتَقَمِّصِينَ عَشِيَّةَ يَوْمِ النَّحْرِ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَيَّ عِشَاءً، قُمُصُهُمْ عَلَى أَيْدِيهِمْ، يَحْمِلُونَهَا , قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَيْ عُكَّاشَةُ، مَا لَكُمْ خَرَجْتُمْ مُتَقَمِّصِينَ، ثُمَّ رَجَعْتُمْ وَقُمُصُكُمْ عَلَى أَيْدِيكُمْ تَحْمِلُونَهَا؟ فَقَالَ: أَخْبَرَتْنَا أُمُّ قَيْسٍ، كَانَ هَذَا يَوْمًا قَدْ " رُخِّصَ لَنَا فِيهِ إِذَا نَحْنُ رَمَيْنَا الْجَمْرَةَ، حَلَلْنَا مِنْ كُلِّ مَا حُرِمْنَا مِنْهُ , إِلَّا مَا كَانَ مِنَ النِّسَاءِ حَتَّى نَطُوفَ بِالْبَيْتِ، فَإِذَا أَمْسَيْنَا وَلَمْ نَطُفْ بِهِ، صِرْنَا حُرُمًا، كَهَيْئَتِنَا قَبْلَ أَنْ نَرْمِيَ الْجَمْرَةَ، حَتَّى نَطُوفَ بِهِ، وَلَمْ نَطُفْ، فَجَعَلْنَا قُمُصَنَا كَمَا تَرَيْنَ" .
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف من أجل أبى عبيدة بن عبدالله، وقد اضطرب فيه
حدثنا يزيد ، قال: حدثنا محمد بن إسحاق ، عن نافع ، عن صفية بنت ابي عبيد ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ذيول النساء شبر" , قلت: إذن تبدو اقدامهن يا رسول الله؟ قال:" فذراع، لا تزدن عليه" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ذُيُولُ النِّسَاءِ شِبْرٌ" , قُلْتُ: إِذَنْ تَبْدُوَ أَقْدَامُهُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" فَذِرَاعٌ، لَا تَزِدْنَ عَلَيْهِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ عورتیں اپنا دامن کتنالٹکائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ ایک بالشت کے برابر اسے لٹکا سکتی ہو میں نے عرض کیا کہ اس طرح تو ان کی پنڈلیاں کھل جائیں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایک گزلٹکا لو اس سے زیادہ نہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، وهو مدلس، لكنه توبع
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، قال: حدثنا موسى يعني ابن علي ، عن ابيه ، عن ابي قيس ، قال: ارسلني عبد الله بن عمرو إلى ام سلمة اسالها: هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل وهو صائم؟ فإن قالت: لا، فقل لها: إن عائشة تخبر الناس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقبل وهو صائم؟ قال: فسالها اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل وهو صائم؟ قالت: لا، قلت: إن عائشة تخبر الناس , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقبل وهو صائم؟ قالت: لعله إياها كان لا يتمالك عنها حبا، اما إياي , فلا .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى يَعْنِي ابْنَ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ ، قَالَ: أَرْسَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ أَسْأَلُهَا: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ؟ فَإِنْ قَالَتْ: لَا، فَقُلْ لَهَا: إِنَّ عَائِشَةَ تُخْبِرُ النَّاسَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ؟ قَالَ: فَسَأَلَهَا أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ؟ قَالَتْ: لَا، قُلْتُ: إِنَّ عَائِشَةَ تُخْبِرُ النَّاسَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ؟ قَالَتْ: لَعَلَّهُ إِيَّاهَا كَانَ لَا يَتَمَالَكُ عَنْهَا حُبًّا، أَمَّا إِيَّايَ , فَلَا .
ابوقیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے حضرت عبداللہ بن عمرو نے حضرت ام سلمہ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ دیتے تھے؟ اگر وہ نفی میں جواب دیں تو ان سے کہنا کہ حضرت عائشہ تو لوگوں کو بتاتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں انہیں بوسہ دیا کرتے تھے؟ چنانچہ ابوقیس نے یہ سوال ان سے پوچھا تو انہوں نے نفی میں جواب دیا ابوقیس نے حضرت عائشہ کا حوالہ دیا تو حضرت ام سلمہ نے فرمایا ہوسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بوسہ دیا ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت جذباتی محبت فرمایا کرتے تھے البتہ میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، تفرد به موسي بن عُلَيِّ، وهو ليس بحجة إذا انفرد
عثمان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت ام سلمہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال نکال کر دکھایا جو کہ مہندی اور وسمہ سے رنگا ہوا ہونے کی وجہ سے سرخ ہوچکا تھا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہماری بیٹھک کو خوب صاف ستھرا کرلو کیونکہ آج زمین پر ایک ایسا فرشتہ اترنے والا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں اترا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الشيخ الذى روى عن أم سلمة
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا عبد الله بن المبارك ، عن يونس بن يزيد ، عن الزهري ، ان نبهان حدثه، ان ام سلمة حدثته، قالت: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وميمونة، فاقبل ابن ام مكتوم حتى دخل عليه، وذلك بعد ان امرنا بالحجاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " احتجبا منه" , فقلنا: يا رسول الله، اليس اعمى، لا يبصرنا ولا يعرفنا؟ قال:" افعمياوان انتما، لستما تبصرانه؟!" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَنَّ نَبْهَانَ حَدَّثَهُ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ، قَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَيْمُونَةُ، فَأَقْبَلَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهِ، وَذَلِكَ بَعْدَ أَنْ أَمَرَنَا بِالْحِجَابِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْتَجِبَا مِنْهُ" , فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ أَعْمَى، لَا يُبْصِرُنَا وَلَا يَعْرِفُنَا؟ قَالَ:" أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا، لَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ؟!" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اور حضرت میمونہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ اسی اثناء میں حضرت ابن ام مکتوم آگئے، یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ حجاب کا حکم نازل ہوچکا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے پردہ کرو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ یہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی پہچان سکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کیا تم دونوں بھی نابیناہو؟ کیا تم دونوں انہیں نہیں دیکھ رہی ہو؟
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو وہ دوپٹہ اوڑھ رہی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے ایک ہی مرتبہ لپیٹنا دو مرتبہ نہیں (تاکہ مردوں کے عمامے کے ساتھ مشابہت نہ ہوجائے)
عثمان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت ام سلمہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال نکال کر دکھایا جو کہ مہندی اور وسمہ سے رنگا ہوا ہونے کیوجہ سے سرخ ہوچکا تھا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا عوف ، عن ابي المعذل عطية الطفاوي ، عن ابيه ، ان ام سلمة حدثته، قالت: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي يوما، إذ قالت الخادم: إن عليا وفاطمة بالسدة، قالت: قال لي:" قومي فتنحي لي عن اهل بيتي" , قالت: فقمت فتنحيت في البيت قريبا، فدخل علي وفاطمة، ومعهما الحسن والحسين، وهما صبيان صغيران، فاخذ الصبيين، فوضعهما في حجره، فقبلهما , قال: واعتنق عليا بإحدى يديه، وفاطمة باليد الاخرى، فقبل فاطمة وقبل عليا، فاغدف عليهم خميصة سوداء، فقال: " اللهم إليك، لا إلى النار، انا واهل بيتي" قالت: فقلت: وانا يا رسول الله؟ فقال:" وانت" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ أَبِي الْمُعَذِّلِ عَطِيَّةَ الطُّفَاوِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ، قَالَتْ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي يَوْمًا، إِذْ قَالَتْ الْخَادِمُ: إِنَّ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ بِالسُّدَّةِ، قَالَتْ: قَالَ لِي:" قُومِي فَتَنَحَّيْ لِي عَنْ أَهْلِ بَيْتِي" , قَالَتْ: فَقُمْتُ فَتَنَحَّيْتُ فِي الْبَيْتِ قَرِيبًا، فَدَخَلَ عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ، وَمَعَهُمَا الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، وَهُمَا صَبِيَّانِ صَغِيرَانِ، فَأَخَذَ الصَّبِيَّيْنِ، فَوَضَعَهُمَا فِي حِجْرِهِ، فَقَبَّلَهُمَا , قَالَ: وَاعْتَنَقَ عَلِيًّا بِإِحْدَى يَدَيْهِ، وَفَاطِمَةَ بِالْيَدِ الْأُخْرَى، فَقَبَّلَ فَاطِمَةَ وَقَبَّلَ عَلِيًّا، فَأَغْدَفَ عَلَيْهِمْ خَمِيصَةً سَوْدَاءَ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ إِلَيْكَ، لَا إِلَى النَّارِ، أَنَا وَأَهْلُ بَيْتِي" قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَأَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ:" وَأَنْت" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں تھے کہ خادم نے آکر بتایا کہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ دروازے پر ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھوڑی دیر کے لئے میرے اہل بیت کو میرے پاس تنہا چھوڑ دو، میں وہاں سے اٹھ کر قریب ہی جا کر بیٹھ گئی، اتنی دیر میں حضرت فاطمہ حضرت علی اور حضرات حسنین بھی آگئے وہ دونوں چھوٹے بچے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکڑ کر اپنی گود میں بٹھالیا اور انہیں چومنے لگے پھر ایک ہاتھ سے حضرت علی کو اور دوسرے سے حضرت فاطمہ کو اپنے قریب کرکے دونوں کو بوسہ دیا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کا بقیہ حصہ لے کر ان سب پر ڈال دیا اور اپنا ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا اے اللہ تیرے حوالے نہ کہ جہنم کے میں اور میرے اہل بیت، اس پر میں نے اس کمرے میں اپنا سر داخل کرکے عرض کیا یا رسول اللہ میں بھی تو آپ کے ساتھ ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو المعذِّل ضعيف وأبوه مجهول
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام ختم ہوتے ہی خواتین اٹھنے لگتی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہونے سے پہلے کچھ دیر اپنی جگہ پر ہی رک جاتے تھے۔
حدثنا معاوية بن عمرو ، قال: حدثنا ابو إسحاق يعني الفزاري ، عن خالد الحذاء ، عن ابي قلابة ، عن قبيصة بن ذؤيب ، عن ام سلمة ، قالت: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم على ابي سلمة وقد شق بصره، فاغمضه، ثم قال: " إن الروح إذا قبض تبعه البصر" , فضج ناس من اهله، فقال:" لا تدعوا على انفسكم إلا بخير، فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون" , ثم قال:" اللهم اغفر لابي سلمة، وارفع درجته في المهديين، واخلفه في عقبه في الغابرين، واغفر لنا وله يا رب العالمين، اللهم افسح في قبره ونور له فيه" .حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ يَعْنِي الْفَزَارِيَّ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي سَلَمَةَ وَقَدْ شَقَّ بَصَرُهُ، فَأَغْمَضَهُ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الرُّوحَ إِذَا قُبِضَ تَبِعَهُ الْبَصَرُ" , فَضَجَّ نَاسٌ مِنْ أَهْلِهِ، فَقَالَ:" لَا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ" , ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِي سَلَمَةَ، وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ، وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِينَ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ افْسَحْ فِي قَبْرِهِ وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوسلمہ کی میت پر تشریف لائے، ان کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بند کیا اور فرمایا جب روح قبض ہوجاتی ہے تو آنکھیں اس کا تعاقب کرتی ہیں، اسی دوران گھرکے کچھ لوگ رونے چیخنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے متعلق خیر کی ہی دعا مانگا کرو، کیونکہ ملائکہ تمہاری دعا پر آمین کہتے ہیں، پھر فرمایا اے اللہ ابوسلمہ کی بخشش فرما، ہدایت یافتہ لوگوں میں ان کا درجہ بلند فرما، پیچھے رہ جانیوالوں میں اس کا کوئی جانشین پیدا فرما اور اے تمام جہانوں کو پالنے والے ہماری اور اس کی بخشش فرما، اے اللہ اس کی قبر کو کشادہ فرما اور اسے اس کے لئے منور فرما۔
حدثنا عبد الرزاق ، قال: حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن هند بنت الحارث ، قال الزهري: وكان لهند ازرار في كمها، عن ام سلمة ، قالت: استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة وهو يقول: " لا إله إلا الله، ما فتح الليلة من الخزائن، لا إله إلا الله، ما انزل الليلة من الفتنة، من يوقظ صواحب الحجر، يا رب كاسيات في الدنيا عاريات في الآخرة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ هِنْدِ بِنْتِ الْحَارِثِ ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَانَ لِهِنْدٍ أَزْرَارٌ فِي كُمِّهَا، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَهُوَ يَقُولُ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَا فُتِحَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْخَزَائِنِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتْنَةِ، مَنْ يُوقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجَرِ، يَا رُبَّ كَاسِيَاتٍ فِي الدُّنْيَا عَارِيَاتٍ فِي الْآخِرَةِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نیند سے بیدار ہوئے تو یہ فرما رہے تھے لا الہ الا اللہ آج رات کتنے خزانے کھولے گئے ہیں لا الہ الا اللہ آج رات کتنے فتنے نازل ہوئے ہیں، ان حجرے والیوں کو کون جگائے گا ہائے دنیا میں کتنی ہی کپڑے پہننے والی عورتیں ہیں جو آخرت میں برہنہ ہوں گی۔
حدثنا ابو عامر ، حدثنا افلح بن سعيد ، قال: حدثنا عبد الله بن رافع ، قال: كانت ام سلمة تحدث , انها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول على المنبر وهي تمتشط:" ايها الناس" , فقالت: لماشطتها لفي راسي، قالت: فقالت: فديتك إنما يقول:" ايها الناس" , قلت: ويحك، اولسنا من الناس؟! فلفت راسها، وقامت في حجرتها، فسمعته يقول: " ايها الناس، بينما انا على الحوض، جيء بكم زمرا، فتفرقت بكم الطرق، فناديتكم الا هلموا إلى الطريق، فناداني مناد من بعدي، فقال: إنهم قد بدلوا بعدك، فقلت الا سحقا، الا سحقا" .حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا أَفْلَحُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَافِعٍ ، قَالَ: كَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ تُحَدِّثُ , أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهِيَ تَمْتَشِطُ:" أَيُّهَا النَّاسُ" , فَقَالَتْ: لِمَاشِطَتِهَا لُفِّي رَأْسِي، قَالَتْ: فَقَالَتْ: فَدَيْتُكِ إِنَّمَا يَقُولُ:" أَيُّهَا النَّاسُ" , قُلْتُ: وَيْحَكِ، أَوَلَسْنَا مِنَ النَّاسِ؟! فَلَفَّتْ رَأْسَهَا، وَقَامَتْ فِي حُجْرَتِهَا، فَسَمِعَتْهُ يَقُولُ: " أَيُّهَا النَّاسُ، بَيْنَمَا أَنَا عَلَى الْحَوْضِ، جِيءَ بِكُمْ زُمَرًا، فَتَفَرَّقَتْ بِكُمْ الطُّرُقُ، فَنَادَيْتُكُمْ أَلَا هَلُمُّوا إِلَى الطَّرِيقِ، فَنَادَانِي مُنَادٍ مِنْ بَعْدِي، فَقَالَ: إِنَّهُمْ قَدْ بَدَّلُوا بَعْدَكَ، فَقُلْتُ أَلَا سُحْقًا، أَلَا سُحْقًا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برسرمنبریہ فرماتے ہوئے سنا اے لوگو اس وقت وہ کنگھی کر رہی تھیں انہوں نے اپنی کنگھی کرنیوالی سے فرمایا میرے سرکے بال لپیٹ دو اس نے کہا کہ میں آپ پر قربان ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو لوگوں سے خطاب کر رہے ہیں، حضرت ام سلمہ نے فرمایا اری کیا ہم لوگوں میں شامل نہیں ہیں؟ اس نے ان کے بال سمیٹے اور وہ اپنے حجرے میں جا کر کھڑی ہوگئیں، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا اے لوگو جس وقت میں حوض پر تمہارا منتظر ہوں گا اور تمہیں گروہ درگروہ لایا جائے گا اور تم راستوں میں بھٹک جاؤگے، میں تمہیں آواز دے کر کہوں گا کہ راستے کی طرف آجاؤ تو میرے پیچھے سے ایک منادی پکار کر کہے گا انہوں نے آپ کے بعد دین کو تبدیل کردیا تھا، میں کہوں گا کہ یہ لوگ دور ہوجائیں یہ لوگ دور ہوجائیں۔
یعلی بن مملک کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز اور قرأت کے متعلق حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز اور نوافل پڑھ کر جتنی دیرسوتے تھے اتنی دیر نماز پڑھتے تھے اور جتنی دیر نماز پڑھتے تھے اتنی دیرسوتے تھے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اختتام صبح پر ہوتا تھا۔
حدثنا حجاج ، حدثنا ليث بن سعد المصري ، قال: حدثني يزيد بن ابي حبيب ، عن ابي عمران اسلم , انه قال: حججت مع موالي، فدخلت على ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: اعتمر قبل ان احج؟ قالت: إن شئت اعتمر قبل ان تحج، وإن شئت بعد ان تحج، قال: فقلت: إنهم يقولون: من كان صرورة، فلا يصلح ان يعتمر قبل ان يحج؟ قال: فسالت امهات المؤمنين، فقلن مثل ما قالت، فرجعت إليها، فاخبرتها بقولهن، قال: فقالت: نعم واشفيك، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اهلوا يا آل محمد بعمرة في حج" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ الْمِصْرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ أَسْلَمَ , أَنَّهُ قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ مَوَالِيَّ، فَدَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَعْتَمِرُ قَبْلَ أَنْ أَحُجَّ؟ قَالَتْ: إِنْ شِئْتَ اعْتَمِرْ قَبْلَ أَنْ تَحُجَّ، وَإِنْ شِئْتَ بَعْدَ أَنْ تَحُجَّ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّهُمْ يَقُولُونَ: مَنْ كَانَ صَرُورَةً، فَلَا يَصْلُحُ أَنْ يَعْتَمِرَ قَبْلَ أَنْ يَحُجَّ؟ قَالَ: فَسَأَلْتُ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ، فَرَجَعْتُ إِلَيْهَا، فَأَخْبَرْتُهَا بِقَوْلِهِنَّ، قَالَ: فَقَالَتْ: نَعَمْ وَأَشْفِيكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَهِلُّوا يَا آلَ مُحَمَّدٍ بِعُمْرَةٍ فِي حَجٍّ" .
ابوعمران اسلم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے مالکوں کے ساتھ حج کے لئے گیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کیا میں حج سے پہلے عمرہ کرسکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا حج سے پہلے عمرہ کرنا چاہو تو حج سے پہلے کرلو اور بعد میں کرنا چاہو تو بعد میں کرلو، میں نے عرض کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس شخص نے حج نہ کیا ہو اس کے لئے حج سے پہلے عمرہ کرنا صحیح نہیں ہے پھر میں نے دیگر امہات المؤمنین سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا، چنانچہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس واپس آیا اور انہیں ان کا جواب بتایا، انہوں نے فرمایا اچھا میں تمہاری تشفی کردیتی ہوں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم حج کے ساتھ عمرے کا احرام باندھ لو۔
حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا شريك ، عن عاصم ، عن ابي وائل ، عن مسروق ، عن ام سلمة ، قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " من اصحابي من لا اراه ولا يراني بعد ان اموت ابدا" , قال: فبلغ ذلك عمر، قال: فاتاها يشتد، او يسرع شك شاذان، قال: فقال لها: انشدك بالله، انا منهم؟ قالت: لا، ولن ابرئ احدا بعدك ابدا.حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنْ أَصْحَابِي مَنْ لَا أَرَاهُ وَلَا يَرَانِي بَعْدَ أَنْ أَمُوتَ أَبَدًا" , قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ، قَالَ: فَأَتَاهَا يَشْتَدُّ، أَوْ يُسْرِعُ شَكَّ شَاذَانُ، قَالَ: فَقَالَ لَهَا: أَنْشُدُكِ بِاللَّهِ، أَنَا مِنْهُمْ؟ قَالَتْ: لَا، وَلَنْ أُبَرِّئَ أَحَدًا بَعْدَكَ أَبَدًا.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعض ساتھی ایسے بھی ہونگے کہ میری ان سے جدائی ہونے کے بعد وہ مجھے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکیں گے، حضرت عمر خود حضرت ام سلمہ کے پاس تیزی سے پہنچے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا اللہ کی قسم کھا کر بتائیے کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن آپ کے بعد میں کسی کے متعلق یہ بات نہیں کہہ سکتی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد خالف فيه عاصم، وشريك سييء الحفظ، وقد توبع
حدثنا ابو النضر هاشم بن القاسم ، حدثنا عبد الحميد يعني ابن بهرام ، قال: حدثني شهر بن حوشب ، قال: سمعت ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم حين جاء نعي الحسين بن علي، لعنت اهل العراق، فقالت: قتلوه، قتلهم الله، غروه وذلوه، لعنهم الله، فإني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءته فاطمة غدية ببرمة، قد صنعت له فيها عصيدة تحمله في طبق لها، حتى وضعتها بين يديه، فقال لها:" اين ابن عمك؟" قالت: هو في البيت , قال:" فاذهبي، فادعيه، وائتني بابنيه" , قالت: فجاءت تقود ابنيها، كل واحد منهما بيد، وعلي يمشي في إثرهما، حتى دخلوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاجلسهما في حجره، وجلس علي عن يمينه، وجلست فاطمة عن يساره , قالت ام سلمة فاجتبذ من تحتي كساء خيبريا، كان بساطا لنا على المنامة في المدينة، فلفه النبي صلى الله عليه وسلم عليهم جميعا، فاخذ بشماله طرفي الكساء، والوى بيده اليمنى إلى ربه عز وجل، قال: " اللهم اهلي، اذهب عنهم الرجس، وطهرهم تطهيرا، اللهم اهل بيتي، اذهب عنهم الرجس، وطهرهم تطهيرا، اللهم اهل بيتي اذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا" , قلت: يا رسول الله، الست من اهلك؟ قال:" بلى، فادخلي في الكساء" , قالت: فدخلت في الكساء بعدما قضى دعاءه لابن عمه علي وابنيه وابنته فاطمة رضي الله عنهم.حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ بَهْرَامَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَاءَ نَعْيُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، لَعَنَتْ أَهْلَ الْعِرَاقِ، فَقَالَتْ: قَتَلُوهُ، قَتَلَهُمْ اللَّهُ، غَرُّوهُ وَذَلُّوهُ، لعنهم اللَّهُ، فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَتْهُ فَاطِمَةُ غَدِيَّةً بِبُرْمَةٍ، قَدْ صَنَعَتْ لَهُ فِيهَا عَصِيدَةً تَحْمِلُهُ فِي طَبَقٍ لَهَا، حَتَّى وَضَعَتْهَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ لَهَا:" أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟" قَالَتْ: هُوَ فِي الْبَيْتِ , قَالَ:" فَاذْهَبِي، فَادْعِيهِ، وَائْتِنِي بِابْنَيْهِ" , قَالَتْ: فَجَاءَتْ تَقُودُ ابْنَيْهَا، كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِيَدٍ، وَعَلِيٌّ يَمْشِي فِي إِثْرِهِمَا، حَتَّى دَخَلُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَجْلَسَهُمَا فِي حِجْرِهِ، وَجَلَسَ عَلِيٌّ عَنْ يَمِينِهِ، وَجَلَسَتْ فَاطِمَةُ عَنْ يَسَارِهِ , قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ فَاجْتَبَذَ مِنْ تَحْتِي كِسَاءً خَيْبَرِيًّا، كَانَ بِسَاطًا لَنَا عَلَى الْمَنَامَةِ فِي الْمَدِينَةِ، فَلَفَّهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا، فَأَخَذَ بِشِمَالِهِ طَرَفَيْ الْكِسَاءِ، وَأَلْوَى بِيَدِهِ الْيُمْنَى إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: " اللَّهُمَّ أَهْلِي، أَذْهِبْ عَنْهُمْ الرِّجْسَ، وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا، اللَّهُمَّ أَهْلُ بَيْتِي، أَذْهِبْ عَنْهُمْ الرِّجْسَ، وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا، اللَّهُمَّ أَهْلُ بَيْتِي أَذْهِبْ عَنْهُمْ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَسْتُ مِنْ أَهْلِكَ؟ قَالَ:" بَلَى، فَادْخُلِي فِي الْكِسَاءِ" , قَالَتْ: فَدَخَلْتُ فِي الْكِسَاءِ بَعْدَمَا قَضَى دُعَاءَهُ لِابْنِ عَمِّهِ عَلِيٍّ وَابْنَيْهِ وَابْنَتِهِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب انہیں حضرت امام حسین کی شہادت کا علم ہوا تو انہوں نے اہل عراق پر لعنت بھیجتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے حسین کو شہید کردیا ان پر اللہ کی مار ہو انہوں نے حسین کو دھوکہ دے کر تنگ کیا ان پر اللہ کی مار ہو، میں نے وہ وقت دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں تھے کہ حضرت فاطمہ ایک ہنڈیا لے کر آگئیں جس میں خزیرہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے شوہر اور بچوں کو بھی بلالاؤ چنانچہ حضرت علی اور حضرات حسنین بھی آگئے اور بیٹھ کر وہ خزیرہ کھانے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک چبوترے پر نیند کی حالت میں تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے نیچے خیبر کی ایک چادر تھی اور میں حجرے میں نماز پڑھ رہی تھی کہ اسی دوران اللہ نے یہ آیت نازل فرمادی اے اہل بیت اللہ تو تم سے گندگی کو دور کر کے تمہیں خوب صاف ستھرا بنانا چاہتا ہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کا بقیہ حصہ لے کر ان سب پر ڈال دیا اور اپنا ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اے اللہ یہ لوگ میرے اہل بیت اور میرا خام مال ہیں تو ان سے گندگی کو دور کر کے انہیں خوب صاف ستھرا کردے، دو مرتبہ یہ دعا کی اس پر میں نے اس کمرے میں اپنا سر داخل کر کے عرض کیا یا رسول اللہ کیا میں آپ کے اہل خانہ میں سے نہیں ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں تم بھی چادر میں آجاؤ چنانچہ میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء کے بعد اس میں داخل ہوگئی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر بن حوشب ، وعابوا على عبدالحميد بن بهرام كثرة روايته عن شهر بن حوشب
حدثنا ابو النضر ، حدثنا عبد الحميد ، حدثني شهر ، قال: سمعت ام سلمة تحدث، زعمت ان فاطمة جاءت إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم تشتكي إليه الخدمة، فقالت: يا رسول الله، والله لقد مجلت يدي من الرحى، اطحن مرة، واعجن مرة، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن يرزقك الله شيئا ياتك، وسادلك على خير من ذلك إذا لزمت مضجعك، فسبحي الله ثلاثا وثلاثين، وكبري ثلاثا وثلاثين، واحمدي اربعا وثلاثين، فذلك مائة، فهو خير لك من الخادم، وإذا صليت صلاة الصبح، فقولي لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، يحيي ويميت، بيده الخير، وهو على كل شيء قدير , عشر مرات بعد صلاة الصبح , وعشر مرات بعد صلاة المغرب، فإن كل واحدة منهن تكتب عشر حسنات، وتحط عشر سيئات، وكل واحدة منهن كعتق رقبة من ولد إسماعيل، ولا يحل لذنب كسب ذلك اليوم ان يدركه , إلا ان يكون الشرك، لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وهو حرسك ما بين ان تقوليه غدوة إلى ان تقوليه عشية من كل شيطان، ومن كل سوء" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ ، حَدَّثَنِي شَهْرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ تُحَدِّثُ، زَعَمَتْ أَنَّ فَاطِمَةَ جَاءَتْ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشْتَكِي إِلَيْهِ الْخِدْمَةَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ مَجِلَتْ يَدَيَّ مِنَ الرَّحَى، أَطْحَنُ مَرَّةً، وَأَعْجِنُ مَرَّةً، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ يَرْزُقْكِ اللَّهُ شَيْئًا يَأْتِكِ، وَسَأَدُلُّكِ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ إِذَا لَزِمْتِ مَضْجَعَكِ، فَسَبِّحِي اللَّهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبِّرِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدِي أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، فَذَلِكَ مِائَةٌ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكِ مِنَ الْخَادِمِ، وَإِذَا صَلَّيْتِ صَلَاةَ الصُّبْحِ، فَقُولِي لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ , عَشْرَ مَرَّاتٍ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ , وَعَشْرَ مَرَّاتٍ بَعْدَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، فَإِنَّ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ تُكْتَبُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ، وَتَحُطُّ عَشْرَ سَيِّئَاتٍ، وَكُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ كَعِتْقِ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَلَا يَحِلُّ لِذَنْبٍ كُسِبَ ذَلِكَ الْيَوْمَ أَنْ يُدْرِكَهُ , إِلَّا أَنْ يَكُونَ الشِّرْكُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَهُوَ حَرَسُكِ مَا بَيْنَ أَنْ تَقُولِيهِ غُدْوَةً إِلَى أَنْ تَقُولِيهِ عَشِيَّةً مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ، وَمِنْ كُلِّ سُوءٍ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خادمہ کی درخواست لے کر آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ چکی پر آٹا پیس پیس کر اور اسے گوندھ گوندھ کر ہاتھوں میں گٹے پڑگئے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ نے تمہیں کچھ دینا ہوا تو وہ تمہیں مل کر رہے گا، البتہ اس وقت میں تمہیں اس سے بہترین چیز بتاتا ہوں جب تم اپنے بستر پر لیٹا کرو تو ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ، ٣٣ مرتبہ اللہ اکبر اور ٣٤ مرتبہ الحمد للہ کہہ لیا کرو یہ کل سو ہوگئے یہ کلمات تمہارے حق میں خادم سے بھی بہتر ہیں اور جب فجر کی نماز پڑھا کرو تو دس مرتبہ نماز فجر کے بعد اور دس مرتبہ نماز مغرب کے بعد یہ کہہ لیا کرو لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحی ویمیت بیدہ الخیروہوعلی کل چیز قدیر تو ان میں سے ہر کلمے کے بدلے تمہارے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، دس گناہ مٹادیئے جائیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا ثواب اولاد اسماعیل میں سے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہوگا اور شرک کے علاوہ اس دن کا کوئی گناہ تمہیں پکڑ نہ سکے گا اور صبح جس وقت تم یہ کلمات کہوگی تو شام تک ہر شیطان اور برائی سے تمہاری حفاظت کا ذریعہ بن جائیں گے۔
حكم دارالسلام: طلب فاطمة الخادم، وما دلها عليه - من الذكر إذا لزمت مضجعها صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، وعاب المحدثون على عبدالحميد بن بهرام كثرة رواته عن شهر بن حوشب
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اختیاری طور پر غسل واجب ہوتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں ہی سوجاتے پھر آنکھ کھلتی اور پھر سوجاتے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بیت المقدس سے احرام باندھ کر آئے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أم حكيم، وابن لهيعة سيء الحفظ، وهو مضطرب
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بیت المقدس سے حج یا عمرے کا احرام باندھ کر آئے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف ہوجائیں گے، اسی حدیث کی بناء پر ام حکیم نے بیت المقدس جا کر عمرے کا احرام باندھا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أم حكيم، و يحيى بن أبى سفيان مستور
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعد تم پر جو شخص مہربانی کرے گا وہ یقینا سچا اور نیک آدمی ہوگا، اے اللہ عبدا لرحمن بن عوف کو جنت کی سلسبیل کے پانی سے سیراب فرما۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، وهو مدلس، ومحمد بن _x000D_
عبدالرحمن فيه جهالة
حدثنا محمد بن عبد الله ابو احمد الزبيري ، قال: حدثنا عبيد الله بن عبد الرحمن بن موهب ، قال: حدثني عمي يعني عبيد الله بن عبد الله بن موهب ، قال: حدثني ابو بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، قال: اجمع ابي على العمرة، فلما حضر خروجه، قال: اي بني، لو دخلنا على الامير، فودعناه، قلت: ما شئت , قال: فدخلنا على مروان، وعنده نفر، فيهم عبد الله بن الزبير، فذكروا الركعتين التي يصليهما ابن الزبير بعد العصر، فقال له مروان: ممن اخذتهما يا ابن الزبير؟ قال: اخبرني بهما ابو هريرة، عن عائشة , فارسل مروان إلى عائشة ما ركعتان يذكرهما الزبير , ان ابا هريرة اخبره عنك , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصليهما بعد العصر؟ فارسلت إليه اخبرتني ام سلمة، فارسل إلى ام سلمة ما ركعتان زعمت عائشة انك اخبرتيها , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصليهما بعد العصر؟ فقالت: يغفر الله لعائشة، لقد وضعت امري على غير موضعه، صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر، وقد اتي بمال، فقعد يقسمه حتى اتاه المؤذن بالعصر، فصلى العصر، ثم انصرف إلي، وكان يومي، فركع ركعتين خفيفتين، فقلت: ما هاتان الركعتان يا رسول الله، امرت بهما؟ قال: " لا، ولكنهما ركعتان كنت اركعهما بعد الظهر، فشغلني قسم هذا المال حتى جاءني المؤذن بالعصر، فكرهت ان ادعهما" , فقال ابن الزبير: الله اكبر، اليس قد صلاهما مرة واحدة؟ والله , لا ادعهما ابدا، وقالت ام سلمة: ما رايته صلاهما قبلها ولا بعدها.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي يَعْنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، قَالَ: أَجْمَعَ أَبِي عَلَى الْعُمْرَةِ، فَلَمَّا حَضَرَ خُرُوجُهُ، قَالَ: أَيْ بُنَيَّ، لَوْ دَخَلْنَا عَلَى الْأَمِيرِ، فَوَدَّعْنَاهُ، قُلْتُ: مَا شِئْتَ , قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَى مَرْوَانَ، وَعِنْدَهُ نَفَرٌ، فِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَذَكَرُوا الرَّكْعَتَيْنِ الَّتِي يُصَلِّيهِمَا ابْنُ الزُّبَيْرِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ لَهُ مَرْوَانُ: مِمَّنْ أَخَذْتَهُمَا يَا ابْنَ الزُّبَيْرِ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي بِهِمَا أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ , فَأَرْسَلَ مَرْوَانُ إِلَى عَائِشَةَ مَا رَكْعَتَانِ يَذْكُرُهُمَا الزُّبَيْرِ , أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ عَنْكِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ؟ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ أَخْبَرَتْنِي أُمُّ سَلَمَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ مَا رَكْعَتَانِ زَعَمَتْ عَائِشَةُ أَنَّكِ أَخْبَرْتِيهَا , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ؟ فَقَالَتْ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِعَائِشَةَ، لَقَدْ وَضَعَتْ أَمْرِي عَلَى غَيْرِ مَوْضِعِهِ، صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ، وَقَدْ أُتِيَ بِمَالٍ، فَقَعَدَ يَقْسِمُهُ حَتَّى أَتَاهُ الْمُؤَذِّنُ بِالْعَصْرِ، فَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيَّ، وَكَانَ يَوْمِي، فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، فَقُلْتُ: مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُمِرْتَ بِهِمَا؟ قَالَ: " لَا، وَلَكِنَّهُمَا رَكْعَتَانِ كُنْتُ أَرْكَعُهُمَا بَعْدَ الظُّهْرِ، فَشَغَلَنِي قَسْمُ هَذَا الْمَالِ حَتَّى جَاءَنِي الْمُؤَذِّنُ بِالْعَصْرِ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَهُمَا" , فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: اللَّهُ أَكْبَرُ، أَلَيْسَ قَدْ صَلَّاهُمَا مَرَّةً وَاحِدَةً؟ وَاللَّهِ , لَا أَدَعُهُمَا أَبَدًا، وَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: مَا رَأَيْتُهُ صَلَّاهُمَا قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا.
ابوبکربن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میرے والد نے عمرے کا ارادہ کیا جب روانگی کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا بیٹا آؤ امیر کے پاس چل کر ان سے رخصت لیتے ہیں، میں نے کہا جیسے آپ کی مرضی چنانچہ ہم مروان کے پاس پہنچے اس کے پاس کچھ اور لوگ بھی تھے جن میں حضرت عبداللہ بن زیر بھی موجود تھے اور ان دو رکعتوں کا تذکرہ ہو رہا تھا جو حضرت عبداللہ بن زیبر نماز عصر کے بعد پڑھا کرتے تھے مروان نے ان سے پوچھا کہ اے ابن زبیر آپ نے یہ دو رکعتیں کس سے اخذ کی ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ ان کے متعلق مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ کے حوالے سے بتایا ہے۔ مروان نے حضرت عائشہ کے پاس ایک قاصد بھیج کر پوچھا کہ ابن زیبر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے یہ کیسی دو رکعتیں ہیں؟ انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ اس کے متعلق مجھے حضرت ام سلمہ نے بتایا تھا مروان نے حضرت ام سلمہ کے پاس قاصد کو بھیج دیا کہ حضرت عائشہ کے مطابق آپ نے انہیں بتایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے، یہ کیسی رکعتیں ہیں؟ حضرت ام سلمہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ عائشہ کی مغفرت فرمائے، انہوں نے میری بات کو اس کے صحیح محمل پر محمول نہیں کیا، بات دراصل یہ ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی اس دن کہیں سے مال آیا ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے تقسیم کرنے کے لئے بیٹھ گئے حتی کہ مؤذن عصر کی اذان دینے لگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی اور میرے ہاں تشریف لے آئے کیونکہ اس دن میری باری تھی اور میرے یہاں دو مختصر رکعتیں پڑھیں اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ دو رکعتیں کیسی ہیں جن کا آپ کو حکم دیا گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ یہ وہ رکعتیں ہیں جو میں ظہر کے بعد پڑھا کرتا تھا لیکن مال کی تقسم میں ایسا مشغول ہوا کہ مؤذن میرے پاس عصر کی نماز کی اطلاع لے کر آگیا، میں نے انہیں چھوڑنا مناسب نہ سمجھا (اس لئے اب پڑھ لیا) یہ سن کر حضرت ابن زبیر نے اللہ اکبر کہہ کر فرمایا کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک مرتبہ تو پڑھا ہے؟ واللہ میں نہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا اور حضرت ام سلمہ نے فرمایا کہ اس واقعے سے پہلے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور نہ اس کے بعد۔
حكم دارالسلام: صلاة النبى ﷺ بعد العصر صحيح، وهذا إسناد ضعيف على قلب فيه، فأبو أحمد الزبيري إنما يروي عن عبيد الله بن عبدالرحمن بن موهب، عن عمه عبيدالله بن عبدالله بن موهب، عبيدالله بن عبدالرحمن ضعيف، وعبيد الله بن عبدالله مجهول
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں عورتیں بچوں کی پیدائش کے بعد چالیس دن تک نفاس شمار کر کے بیٹھتی تھیں اور ہم لوگ چہروں پر چھائیاں پڑجانے کی وجہ سے اپنے چہروں پر ورس ملا کرتی تھیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مُسّة
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کو رمضان کے روزے سے ملا دیتے تھے۔
حدثنا يحيى بن إسحاق ، قال: حدثني ليث بن سعد ، حدثنا عبد الله بن ابي مليكة ، عن يعلى بن مملك ، قال: سالت ام سلمة عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل وقراءته , قالت: ما لكم ولصلاته ولقراءته؟ قد كان: " يصلي قدر ما ينام، وينام قدر ما يصلي، وإذا هي تنعت قراءته، فإذا قراءة مفسرة حرفا حرفا .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ أُمَّ سَلَمَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ وَقِرَاءَتِهِ , قَالَتْ: مَا لَكُمْ وَلِصَلَاتِهِ وَلِقِرَاءَتِهِ؟ قَدْ كَانَ: " يُصَلِّي قَدْرَ مَا يَنَامُ، وَيَنَامُ قَدْرَ مَا يُصَلِّي، وَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَتَهُ، فَإِذَا قِرَاءَةٌ مُفَسَّرَةٌ حَرْفًا حَرْفًا .
یعلی بن مملک کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز اور قرأت کے متعلق حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا تم کہاں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور قرأت کہاں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جتنی دیرسوتے تھے اتنی دیر نماز پڑھتے تھے اور جتنی دیر نماز پڑھتے تھے اتنی دیرسوتے تھے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کی جو کیفیت انہوں نے بیان فرمائی وہ ایک ایک حرف کی وضاحت کے ساتھ تھی۔
حدثنا عبد الله بن محمد , وسمعته انا من عبد الله بن محمد بن ابي شيبة , قال: حدثنا جرير بن عبد الحميد ، عن مغيرة ، عن ام موسى ، عن ام سلمة ، قالت: والذي احلف به , إن كان علي لاقرب الناس عهدا برسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: عدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غداة بعد غداة يقول:" جاء علي؟" مرارا، قالت: واظنه كان بعثه في حاجة , قالت: فجاء بعد , فظننت ان له إليه حاجة، فخرجنا من البيت، فقعدنا عند الباب، فكنت من ادناهم إلى الباب، فاكب عليه علي، فجعل يساره ويناجيه، ثم قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم من يومه ذلك، فكان اقرب الناس به عهدا .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ , وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ أُمِّ مُوسَى ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ , إِنْ كَانَ عَلِيٌّ لَأَقْرَبَ النَّاسِ عَهْدًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: عُدْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً بَعْدَ غَدَاةٍ يَقُولُ:" جَاءَ عَلِيٌّ؟" مِرَارًا، قَالَتْ: وَأَظُنُّهُ كَانَ بَعَثَهُ فِي حَاجَةٍ , قَالَتْ: فَجَاءَ بَعْدُ , فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ إِلَيْهِ حَاجَةً، فَخَرَجْنَا مِنَ الْبَيْتِ، فَقَعَدْنَا عِنْدَ الْبَابِ، فَكُنْتُ مِنْ أَدْنَاهُمْ إِلَى الْبَابِ، فَأَكَبَّ عَلَيْهِ عَلِيٌّ، فَجَعَلَ يُسَارُّهُ وَيُنَاجِيهِ، ثُمَّ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَوْمِهِ ذَلِكَ، فَكَانَ أَقْرَبَ النَّاسِ بِهِ عَهْدًا .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس ذات کی قسم کھائی جاسکتی ہے میں اس کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ دوسرے لوگوں کی نسبت حضرت علی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت میں زیادہ قرب رہا ہے، ہم لوگ روزانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لئے حاضر ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بارباریہی پوچھتے کہ علی آگئے؟ غالبا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی کام سے بھیج دیا تھا تھوڑی دیر بعد حضرت علی آگئے، میں سمجھ گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے خلوت میں کچھ بات کرنا چاہتے ہیں چنانچہ ہم لوگ گھر سے باہر آکر دروازے میں بیٹھ گئے اور ان میں سے دروازے کے سب سے زیادہ قریب میں ہی تھی، حضرت علی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھک گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی بائیں جانب بٹھالیا اور ان سے سرگوشی میں باتیں کرنے لگے اور اسی دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا، اس اعتبار سے آخری لمحات میں حضرت علی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے زیادہ قرب حاصل رہا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف تفرد به مغيرة عن أم موسي
حدثنا عفان ، قال: اخبرنا همام ، قال: سمعنا من يحيى بن ابي كثير ، قال: حدثني ابو سلمة بن عبد الرحمن ، ان زينب بنت ام سلمة حدثته، قالت: حدثتني امي ، قالت: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الخميلة فحضت، فانسللت من الخميلة، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انفست؟" فقلت: نعم، فلبست ثياب حيضتي، فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم معه في الخميلة , قالت: وكنت اغتسل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد , قالت: وكان يقبل وهو صائم" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ ، قَالَ: سَمِعْنَا مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أُمِّي ، قَالَتْ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمِيلَةِ فَحِضْتُ، فَانْسَلَلْتُ مِنَ الْخَمِيلَةِ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنُفِسْتِ؟" فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَلَبِسْتُ ثِيَابَ حَيْضَتِي، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ فِي الْخَمِيلَةِ , قَالَتْ: وَكُنْتُ أَغْتَسِلُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ , قَالَتْ: وَكَانَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لحاف میں تھی کہ مجھے ایام شروع ہوگئے میں کھسکنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں ایام آنے لگے میں نے کہا جی یا رسول اللہ پھر میں وہاں سے چلی گئی اپنی حالت درست کی اور کپڑا باندھا پھر آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لحاف میں گھس گئی اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن میں غسل کرلیا کرتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ بھی دیدیتے تھے۔
حدثنا عفان ، حدثنا ابان ، بنحوه في هذا الإسناد، إلا انه قال: من إناء واحد من الجنابة.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، بِنَحْوِهِ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنَ الْجَنَابَةِ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص چاندی کے برتن میں پانی پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔
حدثنا حسن الاشيب ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا دراج ، عن السائب مولى ام سلمة، ان نسوة دخلن على ام سلمة من اهل حمص، فسالتهن ممن انتن؟ فقلن: من اهل حمص، فقالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ايما امراة نزعت ثيابها في غير بيتها، خرق الله عنها سترا" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْأَشْيَبُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا دَرَّاجٌ ، عَنِ السَّائِبِ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ نِسْوَةً دَخَلْنَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ، فَسَأَلَتْهُنَّ مِمَّنْ أَنْتُنَّ؟ فقُلْنَ: مِنْ أَهْلِ حِمْصَ، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَزَعَتْ ثِيَابَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِهَا، خَرَقَ اللَّهُ عَنْهَا سِتْرًا" .
سائب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حمص کی کچھ عورتیں حضرت ام سلمہ کے پاس آئیں انہوں نے پوچھا کہ تم لوگ کہاں سے آئی ہو انہوں نے بتایا کہ شہرحمص سے حضرت ام سلمہ نے فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اپنے گھرکے علاوہ کسی اور جگہ اپنے کپڑے اتارتی ہے اللہ اس کا پردہ چاک کردیتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره وهذا اسناد ضعيف لضعف أبن لهيعة، ولجهالة السائب مولى أم سلمة
حدثنا حسن ، قال: حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا دراج ، عن السائب مولى ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، حدث عن ام سلمة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " خير صلاة النساء في قعر بيوتهن" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا دَرَّاجٌ ، عَنِ السَّائِبِ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خَيْرُ صَلَاةِ النِّسَاءِ فِي قَعْرِ بُيُوتِهِنَّ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عورتوں کی سب سے بہترین نماز ان کے گھرکے آخری کمرے میں ہوتی ہے۔
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبن لهيعة، وقد توبع
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہوجائے اور کسی شخص کا قربانی کا ارادہ ہو تو اسے اپنے (سرکے) بال یا جسم کے کسی حصے (کے بالوں) کو ہاتھ نہیں لگانا (کاٹنا اور تراشنا) چاہئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1977، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبن لهيعة، وقد توبع
حدثنا طلق بن غنام بن طلق ، حدثنا سعيد بن عثمان الوراق ، عن ابي صالح ، قال: دخلت على ام سلمة، فدخل عليها ابن اخ لها، فصلى في بيتها ركعتين، فلما سجد، نفخ التراب، فقالت له ام سلمة : ابن اخي، لا تنفخ، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول لغلام له , يقال له: يسار ونفخ: " ترب وجهك لله" .حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامِ بْنِ طَلْقٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُثْمَانَ الْوَرَّاقُ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا ابْنُ أَخٍ لَهَا، فَصَلَّى فِي بَيْتِهَا رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا سَجَدَ، نَفَخَ التُّرَابَ، فَقَالَتْ لَهُ أُمُّ سَلَمَةَ : ابْنَ أَخِي، لَا تَنْفُخْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ لِغُلَامٍ لَهُ , يُقَالُ لَهُ: يَسَارٌ وَنَفَخَ: " تَرِّبْ وَجْهَكَ لِلَّهِ" .
ابوصالح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا اسی دوارن وہاں ان کا ایک بھتیجا بھی آگیا اور اس نے ان کے گھر میں دو رکعتیں پڑھیں، دوران نماز جب وہ سجدہ میں جانے لگا تو اس نے مٹی اڑانے کے لئے پھونک ماری تو حضرت ام سلمہ نے اس سے فرمایا بھتیجے پھونکیں نہ مارو کیونکہ میں نے نبی علیہ السلا کو بھی ایک مرتبہ اپنے غلام جس کا نام یسار تھا اور اس نے بھی پھونک ماری تھی سے فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اپنے چہرے کو اللہ کے لئے خاک آلود ہونے دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ولم يوجد ترجمة سعيد بن عثمان، وأبو صالح أختلف فى تعيينه
حدثنا زكريا بن عدي ، قال: اخبرنا عبيد الله بن عمرو ، عن زيد بن ابي انيسة ، عن القاسم بن عوف الشيباني ، عن علي بن حسين ، قال: حدثتنا ام سلمة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي، فجاء رجل، فقال: يا رسول الله، ما صدقة كذا وكذا؟ قال: كذا وكذا , قال: فإن فلانا تعدى علي , قال: فنظروه، فوجدوه قد تعدى عليه بصاع، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " فكيف بكم إذا سعى من يتعدى عليكم اشد من هذا التعدي؟" .حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْفٍ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنَا أُمُّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، فَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا صَدَقَةُ كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ: كَذَا وَكَذَا , قَالَ: فَإِنَّ فُلَانًا تَعَدَّى عَلَيَّ , قَالَ: فَنَظَرُوهُ، فَوَجَدُوهُ قَدْ تَعَدَّى عَلَيْهِ بِصَاعٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَكَيْفَ بِكُمْ إِذَا سَعَى مَنْ يَتَعَدَّى عَلَيْكُمْ أَشَدَّ مِنْ هَذَا التَّعَدِّي؟" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ اتنے مال پر کتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مقداربتا دی اس نے کہا کہ فلاں آدمی نے مجھ پر زیادتی کی ہے، دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس پر ایک صاع کے برابر زیادتی ہوئی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا بنے گا جب کہ تم پر اس سے زیادہ زیادتی کی جائے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين، صححه ابن خزيمة، وابن حبان، والحاكم
حدثنا يونس , وعفان , قالا: حدثنا عبد الواحد يعني ابن زياد ، قال: حدثنا عثمان بن حكيم ، عن عبد الله بن رافع ، عن ام سلمة، قال عفان في حديثه: قال: حدثنا عبد الرحمن بن شيبة ، قال: سمعت ام سلمة , قالت: قلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما لنا لا نذكر في القرآن كما يذكر الرجال؟ قالت: فلم يرعني منه يوما إلا ونداؤه على المنبر:" يا ايها الناس" قالت: وانا اسرح راسي، فلففت شعري، ثم دنوت من الباب، فجعلت سمعي عند الجريد، فسمعته يقول: " إن الله عز وجل يقول: إن المسلمين والمسلمات والمؤمنين والمؤمنات هذه الآية , قال عفان اعد الله لهم مغفرة واجرا عظيما سورة الاحزاب آية 35" .حَدَّثَنَا يُونُسُ , وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَيْبَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا لَنَا لَا نُذْكَرُ فِي الْقُرْآنِ كَمَا يُذْكَرُ الرِّجَالُ؟ قَالَتْ: فَلَمْ يَرُعْنِي مِنْهُ يَوْمًا إِلَّا وَنِدَاؤُهُ عَلَى الْمِنْبَرِ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ" قَالَتْ: وَأَنَا أُسَرِّحُ رَأْسِي، فَلَفَفْتُ شَعْرِي، ثُمَّ دَنَوْتُ مِنَ الْبَابِ، فَجَعَلْتُ سَمْعِي عِنْدَ الْجَرِيدِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ هَذِهِ الْآيَةَ , قَالَ عَفَّانُ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 35" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ جس طرح مردوں کا ذکر قرآن میں ہوتا ہے ہم عورتوں کا ذکر کیوں نہیں ہوتا ابھی اس بات کو ایک ہی دن گزرا تھا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر اے لوگو کا اعلان کرتے ہوئے سنا میں اپنے بالوں میں کنگھی کررہی تھی میں نے اپنے بال لپیٹے اور دروازے کے قریب ہو کر سننے لگی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان المسلمون والمسلمات والمؤمنین و المؤمنات ہذہ الآیۃ قال عفان اعد اللہ لہم مغفرۃ واجراعظیما۔
حدثنا هاشم ، حدثنا عبد الحميد ، قال: حدثني شهر بن حوشب ، قال: سمعت ام سلمة تحدث , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يكثر في دعائه , ان يقول: " اللهم مقلب القلوب، ثبت قلبي على دينك" , قالت: قلت: يا رسول الله، اوإن القلوب لتتقلب؟! قال:" نعم، ما من خلق الله من بني آدم من بشر , إلا ان قلبه بين اصبعين من اصابع الله، فإن شاء الله عز وجل اقامه، وإن شاء الله ازاغه، فنسال الله ربنا ان لا يزيغ قلوبنا بعد إذ هدانا، ونساله ان يهب لنا من لدنه رحمة، إنه هو الوهاب" , قالت: قلت: يا رسول الله، الا تعلمني دعوة ادعو بها لنفسي؟ قال:" بلى، قولي اللهم رب محمد النبي، اغفر لي ذنبي، واذهب غيظ قلبي، واجرني من مضلات الفتن ما احييتنا" .حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ تُحَدِّثُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُكْثِرُ فِي دُعَائِهِ , أَنْ يَقُولَ: " اللَّهُمَّ مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ" , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَإِنَّ الْقُلُوبَ لَتَتَقَلَّبُ؟! قَالَ:" نَعَمْ، مَا مِنْ خَلْقِ اللَّهِ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ بَشَرٍ , إِلَّا أَنَّ قَلْبَهُ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّهِ، فَإِنْ شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَقَامَهُ، وَإِنْ شَاءَ اللَّهُ أَزَاغَهُ، فَنَسْأَلُ اللَّهَ رَبَّنَا أَنْ لَا يُزِيغَ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا، وَنَسْأَلُهُ أَنْ يَهَبَ لَنَا مِنْ لَدُنْهُ رَحْمَةً، إِنَّهُ هُوَ الْوَهَّابُ" , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تُعَلِّمُنِي دَعْوَةً أَدْعُو بِهَا لِنَفْسِي؟ قَالَ:" بَلَى، قُولِي اللَّهُمَّ رَبَّ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ، اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، وَأَذْهِبْ غَيْظَ قَلْبِي، وَأَجِرْنِي مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِ مَا أَحْيَيْتَنَا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثریہ دعاء فرمایا کرتے تھے، اے دلوں کو پھیرنے والے اللہ میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطاء فرما میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا دلوں کو بھی پھیرا جاتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، اللہ نے جس انسان کو بھی پیدا فرمایا اس کا دل اللہ کی دوانگلیوں کے درمیان ہوتا ہے پھر اگر اس کی مشیت ہوتی ہے تو وہ اسے سیدھا رکھتا ہے اور اگر اس کی مشیت ہوتی ہے تو اسے ٹیڑھا کردیتا ہے اس لئے ہم اللہ سے دعاء کرتے ہیں کہ پروردگار ہمیں ہدایت عطا فرمانے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کیجئے گا اور ہم اس سے دعا کرتے ہیں کہ اپنی جان سے ہمیں رحمت عطاء فرمائیے، بیشک وہ رحمت عطا فرمانیوالا ہے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا آپ مجھے کوئی ایسی دعا نہیں سکھائیں گے جو میں اپنے لئے مانگ لیا کروں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں تم یوں کہا کرو کہ اے اللہ اے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب میرے گناہوں کو معاف فرما میرے دل کے غصے کو دور فرما اور جب تک زندگی عطاء فرما ہر گمراہ کن فتنے سے حفاظت فرما۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر
حدثنا عبد الصمد , وعفان , وبهز , قالوا: حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن الحسن ، عن ضبة بن محصن ، قال: عفان , وبهز العنزي , عن ام سلمة , انها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إنها ستكون امراء، تعرفون وتنكرون، فمن انكر، سلم، ومن كره، برئ، ولكن من رضي وتابع" , فقال: الا نقتلهم؟ فقال:" لا، ما صلوا" , وقال بهز: فمن عرف، برئ , وقال بهز: الا نقتلهم , وقال بهز في حديثه: قال: اخبرنا قتادة، وقال عفان وبهز: إن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إنها ستكون".حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , وَعَفَّانُ , وَبَهْزٌ , قَالُوا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مُحْصِنٍ ، قَالَ: عَفَّانُ , وَبَهْزٌ الْعَنَزِيِّ , عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّهَا سَتَكُونُ أُمَرَاءُ، تَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ أَنْكَرَ، سَلِمَ، وَمَنْ كَرِهَ، بَرِئَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ" , فَقَالَ: أَلَا نَقْتُلُهُمْ؟ فَقَالَ:" لَا، مَا صَلَّوْا" , وَقَالَ بَهْزٌ: فَمَنْ عَرَفَ، بَرِئَ , وَقَالَ بَهْزٌ: أَلَا نَقْتُلُهُمْ , وَقَالَ بَهْزٌ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ، وَقَالَ عَفَّانُ وَبَهْزٌ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّهَا سَتَكُونُ".
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب کچھ حکمران ایسے آئیں گے جن کی عادات میں بعض کو تم اچھا سمجھو گے اور بعض پر نکیر کرو گے سو جو نکیر کرے گا وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہوجائے گا اور جو ناپسندیدگی کا اظہار کردے گا وہ محفوظ رہے گا البتہ جو راضی ہو کر اس کے تابع ہوجائے (تو اس کا حکم دوسرا ہے) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک وہ تمہیں پانچ نمازیں پڑھاتے رہیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ام سلیم نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا یہ بتائیے کہ اگر عورت کو احتلام ہوجائے تو کیا اس پر بھی غسل واجب ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جب کہ وہ پانی دیکھے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعد تم پر جو شخص مہربانی کرے گا وہ یقینا سچا اور نیک آدمی ہوگا اے اللہ عبدا لرحمن بن عوف کو جنت کی سلسبیل کے پانی سے سیراب فرما۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، وجهالة محمد بن عبدالرحمن
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے وہ عصفریا گہرا رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے نہ ہی کوئی زیور پہنے، خضاب لگائے اور نہ ہی سرمہ لگائے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص چاندی کے برتن میں پانی پیتا ہے وہ اسے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔
حدثنا يحيى بن سعيد الاموي ، قال: حدثنا ابن جريج ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، عن ام سلمة انها سئلت عن قراءة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: كان : يقطع قراءته آية آية بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1 , الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2، الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1، مالك يوم الدين سورة الفاتحة آية 4 .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّهَا سُئِلَتْ عَنْ قِرَاءَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كَانَ : يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ آيَةً آيَةً بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1 , الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1، مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4 .
ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کے متعلق کسی نے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت کو توڑ توڑ کر پڑھتے تھے، پھر انہوں نے سورت فاتحہ کی پہلی تین آیات کو توڑتوڑ کر پڑھ کر (ہر آیت پر وقف کر کے) دکھایا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وقد اختلف فى هذا الإسناد على أبن أبى مليكة
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورباسعات میں عورتیں بچوں کی پیدائش کے بعد چالیس دن تک نفاس شمار کر کے بیٹھتی تھیں اور ہم لوگ چہروں پر چھائیاں پڑجانے کی وجہ سے اپنے چہروں پر ورس ملا کرتی تھیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مُسّة
حدثنا عبيدة ، قال: حدثني يزيد بن ابي زياد ، عن عبد الله بن الحارث ، قال: سالته عن الركعتين بعد العصر؟ فقال: دخلت انا وعبد الله بن عباس على معاوية، فقال معاوية: يا ابن عباس، لقد ذكرت ركعتين بعد العصر، وقد بلغني ان اناسا يصلونها، ولم نر رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاهما، ولا امر بهما , قال: فقال ابن عباس: ذاك ما يقضي الناس به ابن الزبير قال: فجاء ابن الزبير , فقال: ما ركعتان قضى بهما الناس؟ فقال ابن الزبير: حدثتني عائشة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: فارسل إلى عائشة رجلين ان امير المؤمنين يقرا عليك السلام، ويقول ما ركعتان زعم ابن الزبير انك امرتيه بهما بعد العصر؟ قال: فقالت عائشة: ذاك ما اخبرته ام سلمة , قال: فدخلنا على ام سلمة، فاخبرناها ما قالت عائشة , فقالت: يرحمها الله، اولم اخبرها ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد نهى عنهما .حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ؟ فَقَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، لَقَدْ ذَكَرْتَ رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ أُنَاسًا يُصَلُّونَهَا، وَلَمْ نَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّاهُمَا، وَلَا أَمَرَ بِهِمَا , قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ذَاكَ مَا يَقْضِي النَّاسَ بِهِ ابْنُ الزُّبَيْرِ قَالَ: فَجَاءَ ابْنُ الزُّبَيْرِ , فَقَالَ: مَا رَكْعَتَانِ قَضَى بِهِمَا النَّاسُ؟ فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَى عَائِشَةَ رَجُلَيْنِ أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ، وَيَقُولُ مَا رَكْعَتَانِ زَعَمَ ابْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّكِ أَمَرْتِيهِ بِهِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ؟ قَالَ: فَقَالَتْ عَائِشَةُ: ذَاكَ مَا أَخْبَرَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ , قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَأَخْبَرْنَاهَا مَا قَالَتْ عَائِشَةُ , فَقَالَتْ: يَرْحَمُهَا اللَّهُ، أَوَلَمْ أُخْبِرْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ نَهَى عَنْهُمَا .
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور حضرت ابن عباس حضرت امیر معاویہ کے یہاں گئے تو وہ کہنے لگے اے ابن عباس! آپ نے عصر کے بعد کی دو رکعتوں کا ذکر کیا تھا مجھے پتہ چلا ہے کہ کچھ لوگ یہ دو رکعتیں پڑھتے ہیں حالانکہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پڑھتے ہوئے دیکھا اور نہ اس کا حکم دیتے ہوئے سنا، انہوں نے فرمایا کہ لوگوں کو یہ فتوی حضرت ابن زبیر دیتے ہیں، تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابن زبیر بھی آگئے انہوں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے حضرت عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات بتائی ہے، حضرت معاویہ نے حضرت عائشہ کے پاس دو قاصد بھیج کر پوچھا کہ ابن زبیر آپ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے، یہ کیسی دو رکعتیں ہیں؟ انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ اس کے متعلق مجھے حضرت ام سلمہ نے بتایا تھا حضرت معاویہ نے حضرت ام سلمہ کے پاس قاصد کو بھیج دیا کہ حضرت عائشہ کے مطابق آپ نے انہیں بتایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے، یہ کیسی رکعتیں ہیں؟ حضرت ام سلمہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ عائشہ پر رحم فرمائے کیا میں نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکعتوں کی ممانعت فرمادی تھی۔
حكم دارالسلام: صلاة النبى ﷺ ركعتين بعد العصر صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني عبد الله بن رافع مولى ام سلمة، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قال: سمعتها تقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا حضرت الصلاة، وحضر العشاء، فابدءوا بالعشاء" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُهَا تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ، وَحَضَرَ الْعَشَاءُ، فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رات کا کھانا اور نماز کا وقت جمع ہوجائیں تو پہلے کھانا کھالیا کرو۔
حدثنا يعقوب ، قال: حدثني ابي ، قال: فزعم ابن إسحاق ، عن ابي بكر بن محمد بن عمرو ، عن ابي سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم ضباعة بنت الزبير بن عبد المطلب، وهي شاكية، فقال: " الا تخرجين معنا في سفرنا هذا؟" وهو يريد حجة الوداع , قالت: يا رسول الله، إني شاكية، واخشى ان تحبسني شكواي , قال:" فاهلي بالحج، وقولي اللهم محلي حيث تحبسني" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: فَزَعَمَ ابْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُبَاعَةَ بِنْتَ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَهِيَ شَاكِيَةٌ، فَقَالَ: " أَلَا تَخْرُجِينَ مَعَنَا فِي سَفَرِنَا هَذَا؟" وَهُوَ يُرِيدُ حَجَّةَ الْوَدَاعِ , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي شَاكِيَةٌ، وَأَخْشَى أَنْ تَحْبِسَنِي شَكْوَايَ , قَالَ:" فَأَهِلِّي بِالْحَجِّ، وَقُولِي اللَّهُمَّ مَحِلِّي حَيْثُ تَحْبِسُنِي" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ضباعہ بنت زبیربن عبد المطلب کے پاس آئے، وہ بیمار تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا تم اس سفر میں ہمارے ساتھ نہیں چلو گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ حجۃ الوداع کا تھا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں بیمار ہوں مجھے خطرہ ہے کہ میری بیماری آپ کو روک نہ دے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم حج کا احرام باندھ لو اور یہ نیت کرلو کہ اے اللہ! جہاں تو مجھے روک دے گا، وہی جگہ میرے احرام کھل جانے کی ہوگی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، وهو مدلس، ثم إنه اختلف عليه فيه
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ پروردگار! مجھے معاف فرما مجھ پر رحم فرما اور سیدھے راستے کی طرف میری راہنمائی فرما۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على بن زيد ولانقطاعه، فإن الحسن البصري لم يسمع من أم سلمة
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں عورتیں بچوں کی پیدائش کے بعد چالیس دن تک نفاس شمار کر کے بیٹھتی تھیں اور ہم لوگ چہروں پر چھائیاں پڑجانے کی وجہ سے اپنے چہروں پر ورس ملا کرتی تھیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة مُسّة
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ بنت حبیش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میرا خون ہمیشہ جاری رہتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حیض نہیں ہے وہ تو کسی رگ کا خون ہوگا تمہیں چاہئے کہ اپنے ایام کا اندازہ کرکے بیٹھ جایا کرو پھر غسل کر کے کپڑا باندھ لیا کرو اور نماز پڑھ لیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن عمر العمري
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صبح کے وقت اختیاری طور پر غسل واجب ہوتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھ لیتے تھے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص چاندی کے برتن میں پانی پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 5634، م: 2065، لكن اختلف فيه على جرير بن حازم
حدثنا حسين ، قال: حدثنا خلف يعني ابن خليفة ، عن ليث ، عن علقمة بن مرثد ، عن المعرور بن سويد ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا ظهرت المعاصي في امتي، عمهم الله عز وجل بعذاب من عنده" , فقلت: يا رسول الله، اما فيهم يومئذ اناس صالحون؟! قال:" بلى" , قالت: فكيف يصنع اولئك؟ قال:" يصيبهم ما اصاب الناس، ثم يصيرون إلى مغفرة من الله ورضوان" .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفٌ يَعْنِي ابْنَ خَلِيفَةَ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا ظَهَرَتْ الْمَعَاصِي فِي أُمَّتِي، عَمَّهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِهِ" , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَا فِيهِمْ يَوْمَئِذٍ أُنَاسٌ صَالِحُونَ؟! قَالَ:" بَلَى" , قَالَتْ: فَكَيْفَ يَصْنَعُ أُولَئِكَ؟ قَالَ:" يُصِيبُهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ، ثُمَّ يَصِيرُونَ إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب زمین میں شرپھیل جائے گا تو اسے روکا نہ جاسکے گا اور پھر اللہ اہل زمین پر اپنا عذاب بھیج دے گا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس میں نیک لوگ بھی شامل ہوں گے اور ان پر بھی وہی آفت آئیگی جو عام لوگوں پر آئے گی پھر اللہ تعالیٰ انہیں کھینچ کر اپنی مغفرت اور خوشنودی کی طرف لے جائے گا۔
حدثنا ابو احمد الزبيري ، حدثنا سفيان ، عن زبيد ، عن شهر بن حوشب ، عن ام سلمة ان النبي صلى الله عليه وسلم " جلل على علي وحسن وحسين وفاطمة كساء، ثم قال:" اللهم هؤلاء اهل بيتي وخاصتي، اللهم اذهب عنهم الرجس، وطهرهم تطهيرا" , فقالت ام سلمة: يا رسول الله، انا منهم؟ قال:" إنك إلى خير" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زُبَيْدٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " جَلَّلَ عَلَى عَلِيٍّ وَحَسَنٍ وَحُسَيْنٍ وَفَاطِمَةَ كِسَاءً، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي وَخَاصَّتِي، اللَّهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُمْ الرِّجْسَ، وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا" , فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا مِنْهُمْ؟ قَالَ:" إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی حضرات حسنین اور حضرت فاطمہ کو ایک چادر میں ڈھانپ کر فرمایا اے اللہ! یہ میرے اہل بیت اور میرے خاص لوگ ہیں اے اللہ ان سے گندگی کو دور فرما اور انہیں خوب پاک کردے حضرت ام سلمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا میں بھی ان میں شامل ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بھی خیر پر ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے، ایک مرتبہ بنوتمیم کا وفد آگیا تھا جس کی وجہ سے ظہر کے بعد کی جو دو رکعتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے وہ رہ گئی تھیں اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پڑھ لیا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فى هذا الاسناد على أبى سلمة
حدثنا عبد الرزاق ، قال: حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن ام سلمة ، قالت: " والذي توفى نفسه تعني النبي صلى الله عليه وسلم ما توفي حتى كانت اكثر صلاته قاعدا إلا المكتوبة، وكان اعجب العمل إليه الذي يدوم عليه العبد، وإن كان يسيرا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: " وَالَّذِي تَوَفَّى نَفْسَهُ تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تُوُفِّيَ حَتَّى كَانَتْ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ قَاعِدًا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ، وَكَانَ أَعْجَبُ الْعَمَلِ إِلَيْهِ الَّذِي يَدُومُ عَلَيْهِ الْعَبْدُ، وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جس وقت وصال ہوا تو فرائض کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر نمازیں بیٹھ کر ہوتی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ تھا جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔
حدثنا عبد الوهاب بن عطاء ، حدثنا عوف ، عن ابي المعدل عطية الطفاوي ، قال: حدثني ابي ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم , قالت: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي، إذ قالت الخادم: إن عليا وفاطمة بالسدة , قال:" قومي عن اهل بيتي" , قالت: فقمت، فتنحيت في ناحية البيت قريبا، فدخل علي و فاطمة ومعهم الحسن والحسين، صبيان صغيران، فاخذ الصبيين فقبلهما، ووضعهما في حجره، واعتنق عليا و فاطمة، ثم اغدف عليهما ببردة له، وقال: " اللهم إليك لا إلى النار، انا واهل بيتي" , قالت: فقلت: يا رسول الله، وانا؟ فقال:" وانت" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ أَبِي الْمُعَدِّلِ عَطِيَّةَ الطُّفَاوِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، إِذْ قَالَتْ الْخَادِمُ: إِنَّ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ بِالسُّدَّةِ , قَالَ:" قُومِي عَنْ أَهْلِ بَيْتِي" , قَالَتْ: فَقُمْتُ، فَتَنَحَّيْتُ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ قَرِيبًا، فَدَخَلَ عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ وَمَعَهُمْ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، صَبِيَّانِ صَغِيرَانِ، فَأَخَذَ الصَّبِيَّيْنِ فَقَبَّلَهُمَا، وَوَضَعَهُمَا فِي حِجْرِهِ، وَاعْتَنَقَ عَلِيًّا وَ فَاطِمَةَ، ثُمَّ أَغْدَفَ عَلَيْهِمَا بِبُرْدَةٍ لَهُ، وَقَالَ: " اللَّهُمَّ إِلَيْكَ لَا إِلَى النَّارِ، أَنَا وَأَهْلُ بَيْتِي" , قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَنَا؟ فَقَالَ:" وَأَنْتِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں تھے کہ خادم نے آکر بتایا کہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ دروازے پر ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھوڑی دیر کے لئے میرے اہل بیت کو میرے پاس تنہا چھوڑ دو، میں وہاں سے اٹھ کر قریب ہی جا کر بیٹھ گئی، اتنی دیر میں حضرت فاطمہ حضرت علی اور حضرات حسنین بھی آگئے وہ دونوں چھوٹے بچے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکڑ کر اپنی گود میں بٹھالیا اور انہیں چومنے لگے پھر ایک ہاتھ سے حضرت علی کو اور دوسرے سے حضرت فاطمہ کو اپنے قریب کرکے دونوں کو بوسہ دیا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چادرکا بقیہ حصہ لے کر ان سب پر ڈال دیا اور اپنا ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اے اللہ تیرے حوالے نہ کہ جہنم کے میں اور میرے اہل بیت، اس پر میں نے اس کمرے میں اپنا سر داخل کرکے عرض کیا یا رسول اللہ میں بھی تو آپ کے ساتھ ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو المعذّل ضعيف وأبوه مجهول
حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن عبد الرحمن بن سابط ، قال: دخلت على حفصة ابنة عبد الرحمن ، فقلت: إني سائلك عن امر , وانا استحيي ان اسالك عنه، فقالت: لا تستحيي يا ابن اخي، قال: عن إتيان النساء في ادبارهن؟ قالت: حدثتني ام سلمة ان الانصار كانوا لا يجبون النساء، وكانت اليهود تقول: إنه من جبى امراته، كان ولده احول، فلما قدم المهاجرون المدينة، نكحوا في نساء الانصار، فجبوهن، فابت امراة ان تطيع زوجها، فقالت لزوجها: لن تفعل ذلك حتى آتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخلت على ام سلمة، فذكرت ذلك لها، فقالت: اجلسي حتى ياتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم استحت الانصارية ان تساله، فخرجت، فحدثت ام سلمة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ادعي الانصارية"، فدعيت، فتلا عليها هذه الآية: نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم سورة البقرة آية 223 صماما واحدا.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ ابْنَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، فَقُلْتُ: إِنِّي سَائِلُكِ عَنْ أَمْرٍ , وَأَنَا أَسْتَحْيِي أَنْ أَسْأَلَكِ عَنْهُ، فَقَالَتْ: لَا تَسْتَحْيِي يَا ابْنَ أَخِي، قَالَ: عَنْ إِتْيَانِ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِهِنَّ؟ قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ سَلَمَةَ أَنَّ الْأَنْصَارَ كَانُوا لَا يُجِبُّونَ النِّسَاءَ، وَكَانَتْ الْيَهُودُ تَقُولُ: إِنَّهُ مَنْ جَبَّى امْرَأَتَهُ، كَانَ وَلَدُهُ أَحْوَلَ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ، نَكَحُوا فِي نِسَاءِ الْأَنْصَارِ، فَجَبُّوهُنَّ، فَأَبَتْ امْرَأَةٌ أَنْ تُطِيعَ زَوْجَهَا، فَقَالَتْ لِزَوْجِهَا: لَنْ تَفْعَلَ ذَلِكَ حَتَّى آتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَتْ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ: اجْلِسِي حَتَّى يَأْتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَحَتْ الْأَنْصَارِيَّةُ أَنْ تَسْأَلَهُ، فَخَرَجَتْ، فَحَدَّثَتْ أُمُّ سَلَمَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " ادْعِي الْأَنْصَارِيَّةَ"، فَدُعِيَتْ، فَتَلَا عَلَيْهَا هَذِهِ الْآيَةَ: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223 صِمَامًا وَاحِدًا.
عبد الرحمن بن سابط کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے یہاں حفصہ بنت عبدالرحمن آئی ہوئی تھیں میں نے ان سے کہا میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں لیکن پوچھتے ہوئے شرم آرہی ہے، انہوں نے کہا بھتیجے شرم نہ کرو میں نے کہا کہ عورتوں کے پاس پچھلے حصے میں آنے کا کیا حکم ہے، انہوں نے بتایا کہ مجھے حضرت ام سلمہ نے بتایا ہے کہ انصار کے مرد اپنی عورتوں کے پاس پچھلے حصے سے نہیں آتے تھے، کیونکہ یہودی کہا کرتے تھے کہ جو شخص اپنی بیوی کے پاس پچھلی جانب سے آتا ہے اس کی اولاد بھینگی ہوتی ہے، جب مہاجرین مدینہ منورہ آئے تو انہوں نے انصاری عورتوں سے بھی نکاح کیا اور پچھلی جانب سے ان کے پاس آتے، لیکن ایک عورت نے اس معاملے میں اپنے شوہر کی بات ماننے سے انکار کردیا اور کہنے لگی کہ جب تک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم نہ پوچھ لوں اس وقت تک تم یہ کام نہیں کرسکتے۔ چنانچہ وہ عورت حضرت ام سلمہ کے پاس آئی اور ان سے اس کا ذکر کیا، حضرت ام سلمہ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہی ہوں گے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس عورت کو یہ سوال پوچھتے ہوئے شرم آئی لہذا وہ یوں ہی واپس چلی گئی، بعد میں حضرت ام سلمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس انصاریہ کو بلاؤ! چنانچہ اسے بلایا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی " تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں سو تم اپنے کھیت میں جس طرح آنا چاہو، آسکتے ہو " اور فرمایا کہ اگلے سوراخ میں ہو (خواہ مرد پیچھے سے آئے یا آگے سے)۔
حدثنا روح ، حدثنا شعبة ، عن موسى بن ابي عائشة ، قال: سمعت مولى لابي سلمة يحدث انه , سمع ام سلمة ، تقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول إذا صلى الصبح حين سلم:" اللهم إني اسالك علما نافعا، ورزقا واسعا، وعملا متقبلا" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَوْلًى لِأَبِي سَلَمَةَ يُحَدِّثُ أَنَّهُ , سَمِعَ أُمَّ سَلَمَةَ ، تَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ إِذَا صَلَّى الصُّبْحَ حِينَ سَلَّمَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا وَاسِعًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے بعد یہ دعاء فرماتے تھے اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع، عمل مقبول اور رزق حلال کا سوال کرتا ہوں۔
حدثنا عفان ، قال: حدثنا عبد الواحد بن زياد ، قال: حدثنا عثمان بن حكيم ، قال: حدثنا عبد الرحمن بن شيبة ، قال: سمعت ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم , تقول: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم: ما لنا لا نذكر في القرآن كما يذكر الرجال؟ قالت: فلم يرعني منه يومئذ إلا ونداؤه على المنبر، قالت: وانا اسرح شعري، فلففت شعري، ثم خرجت إلى حجرة من حجر بيتي، فجعلت سمعي عند الجريد، فإذا هو يقول عند المنبر:" يا ايها الناس، إن الله يقول في كتابه: إن المسلمين والمسلمات والمؤمنين والمؤمنات إلى آخر الآية اعد الله لهم مغفرة واجرا عظيما سورة الاحزاب آية 35 .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، قَالَ: حدثنا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَيْبَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , تَقُولُ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَنَا لَا نُذْكَرُ فِي الْقُرْآنِ كَمَا يُذْكَرُ الرِّجَالُ؟ قَالَتْ: فَلَمْ يَرُعْنِي مِنْهُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا وَنِدَاؤُهُ عَلَى الْمِنْبَرِ، قَالَتْ: وَأَنَا أُسَرِّحُ شَعْرِي، فَلَفَفْتُ شَعْرِي، ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى حُجْرَةٍ مِنْ حُجَرِ بَيْتِي، فَجَعَلْتُ سَمْعِي عِنْدَ الْجَرِيدِ، فَإِذَا هُوَ يَقُولُ عِنْدَ الْمِنْبَرِ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ: إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 35 .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! جس طرح مردوں کا ذکر قرآن میں ہوتا ہے ہم عورتوں کا ذکر کیوں نہیں ہوتا؟ ابھی اس بات کو ایک ہی دن گزرا تھا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر اے لوگو! کا اعلان کرتے ہوئے سنا میں اپنے بالوں میں کنگھی کررہی تھی میں نے اپنے بال لپیٹے اور دروازے کے قریب ہو کر سننے لگی میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان المسلمین والمسلمت والمؤمنین والمؤمنت الی آخر الآیۃ اعد اللہ لہم مغفرۃ واجراعظیما۔
حدثنا حسين بن محمد ، قال: حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي سلمة ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم , قالت: قلت: " والذي توفى نفسه ما مات النبي صلى الله عليه وسلم حتى كانت" اكثر صلاته قاعدا إلا الصلاة المكتوبة، وكان احب العمل إليه الذي يدوم عليه العبد، وإن كان يسيرا" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: قُلْتُ: " وَالَّذِي تَوَفَّى نَفْسَهُ مَا مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَتْ" أَكْثَرُ صَلَاتِهِ قَاعِدًا إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ الَّذِي يَدُومُ عَلَيْهِ الْعَبْدُ، وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جس وقت وصال ہوا تو فرائض کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر نمازیں بیٹھ کر ہوتی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ تھا جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن هشام ، قال: حدثنا الحسن ، عن ضبة بن محصن ، عن ام سلمة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " سيكون امراء تعرفون وتنكرون، فمن انكر، فقد برئ، ومن كره، فقد سلم، ولكن من رغب وتابع" , قالوا: يا رسول الله , الا نقاتلهم؟ قال:" لا، ما صلوا الصلاة". .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مُحْصِنٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " سَيَكُونُ أُمَرَاءُ تَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ أَنْكَرَ، فَقَدْ بَرِئَ، وَمَنْ كَرِهَ، فَقَدْ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَغِبَ وَتَابَعَ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ:" لَا، مَا صَلَّوْا الصَّلَاةَ". .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب چھ حکمران ایسے آئیں گے جن کی عادات میں سے بعض کو تم اچھا سمجھوگے اور بعض پر نکیر کرو گے سو جو نکیر کرے گا وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہوجائگا اور جو ناپسندیدگی کا اظہار کردے گا وہ محفوظ رہے گا، البتہ جو راضی ہو کر اس کے تابع ہوجائے (تو اس کا حکم دوسرا ہے) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک وہ تمہیں پانچ نمازیں پڑھاتے رہیں
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن الاعمش ، قال: حدثني شقيق , وابن نمير , قال: حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن ام سلمة ، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا حضرتم المريض او الميت فقولوا خيرا، فإن الملائكة تؤمن على ما تقولون" , قالت: فلما مات ابو سلمة , قلت: يا رسول الله، كيف اقول؟ قال:" قولي اللهم اغفر لنا وله، واعقبني منه عقبى حسنة" , وقال ابن نمير:" صالحة" , قالت: فاعقبني الله عز وجل منه محمدا صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَقِيقٌ , وَابْنُ نُمَيْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا حَضَرْتُمْ الْمَرِيضَ أَوْ الْمَيِّتَ فَقُولُوا خَيْرًا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُؤَمِّنُ عَلَى مَا تَقُولُونَ" , قَالَتْ: فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَقُولُ؟ قَالَ:" قُولِي اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَلَهُ، وَأَعْقِبْنِي مِنْهُ عُقْبَى حَسَنَةً" , وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ:" صَالِحَةً" , قَالَتْ: فَأَعْقَبَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم کسی قریب المرگ یا بیمار آدمی کے پاس جایا کرو تو اس کے حق میں دعائے خیر کیا کرو کیونکہ ملائکہ تمہاری دعاء پر آمین کہتے ہیں جب حضرت ابوسلمہ کا انتقال ہوا تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ابوسلمہ فوت ہوگئے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یہ دعاء کرو کہ اے اللہ مجھے اور انہیں معاف فرما اور مجھے ان کا نعم البدل عطاء فرما میں نے یہ دعاء مانگی تو اللہ نے مجھے ان سے زیادہ بہترین بدل خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں عطاء فرمادیا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صبح کے وقت اختیاری طور پر غسل واجب ہوتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھ لیتے تھے، یہ حدیث سن کر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے فتوی سے رجوع کرلیا تھا۔
حدثنا يحيى , ووكيع , قالا: حدثنا اسامة بن زيد ، قال: حدثنا سليمان بن يسار , انه سمع ام سلمة ، تقول: قال وكيع في حديثه: قال سمعت سليمان بن يسار، عن ام سلمة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يمس اهله من الليل، فيصبح جنبا من غير احتلام، فيغتسل، ويصوم" .حَدَّثَنَا يَحْيَى , وَوَكِيعٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ , أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ سَلَمَةَ ، تَقُولُ: قَالَ وَكِيعٌ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَمَسُّ أَهْلَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَيْرِ احْتِلَامٍ، فَيَغْتَسِلُ، وَيَصُومُ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صبح کے وقت اختیاری طور پر غسل واجب ہوتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھ لیتے تھے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص چاندی کے برتن میں پانی پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، حدثنا ابو عون محمد بن عبيد الله الثقفي ، عن عبد الله بن شداد ، قال: سمعت ابا هريرة، يحدث مروان، قال: توضئوا مما مست النار , قال: فارسل مروان إلى ام سلمة ، فسالها، فقالت: " نهس النبي صلى الله عليه وسلم عندي كتفا، ثم خرج إلى الصلاة، ولم يمس ماء" , وقال ابي: لم يسمع سفيان من ابي عون إلا هذا الحديث.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوْنٍ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يُحَدِّثُ مَرْوَانَ، قَالَ: تَوَضَّئُوا مِمَّا مَسَّتْ النَّارُ , قَالَ: فَأَرْسَلَ مَرْوَانُ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ ، فَسَأَلَهَا، فَقَالَتْ: " نَهَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدِي كَتِفًا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَمَسَّ مَاءً" , وقَالَ أَبِي: لَمْ يَسْمَعْ سُفْيَانُ مِنْ أَبِي عَوْنٍ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شانے کا گوشت تناول فرمایا اسی دوران حضرت بلال آگئے اور نبی علیہ السلا پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز کے لئے تشریف لے گئے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا هشام , وابن نمير , قال: اخبرنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن زينب ابنة ام سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: جاءت ام سليم إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فسالته عن المراة ترى في منامها ما يرى الرجل؟ فقال: " إذا رات الماء فلتغتسل" , قالت: قلت: فضحت النساء، وهل تحتلم المراة؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" تربت يمينك، فبم يشبهها ولدها إذا" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ , وَابْنُ نُمَيْرٍ , قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَتْهُ عَنِ الْمَرْأَةِ تَرَى فِي مَنَامِهَا مَا يَرَى الرَّجُلُ؟ فَقَالَ: " إِذَا رَأَتْ الْمَاءَ فَلْتَغْتَسِلْ" , قَالَتْ: قُلْتُ: فَضَحْتِ النِّسَاءَ، وَهَلْ تَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ؟ فَقَال النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَرِبَتْ يَمِينُكِ، فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا إِذًا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ام سلیم نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا یہ بتائے کہ اگر عورت کو احتلام ہوجائے تو کیا اس پر بھی غسل واجب ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جب کہ وہ پانی دیکھے اس پر حضرت ام سلمہ ہنسنے لگیں اور کہنے لگیں کہ کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر بچہ اپنی ماں کے مشابہ کیوں ہوتا ہے؟
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے بعد کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکے تھے، سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ عصر کے بعد پڑھ لی تھیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس سے پہلے تو آپ یہ نماز نہیں پڑھتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دراصل بنوتمیم کا وفد آگیا تھا جس کی وجہ سے ظہر کے بعد کی جو دو رکعتیں میں پڑھتا تھا وہ رہ گئی تھیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف على بن يحيى، وهو حسن الحديث
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو وہ دوپٹہ اوڑھ رہی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے ایک ہی مرتبہ لپیٹنا دو مرتبہ نہیں (تاکہ مردوں کے عمامے کے ساتھ مشابہت نہ ہوجائے)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة وهب مولى أبى أحمد
حدثنا وكيع ، قال: حدثنا سفيان ، عن منصور ، عن الشعبي ، عن ام سلمة , ان النبي صلى الله عليه وسلم كان: إذا خرج من بيته، قال:" بسم الله، توكلت على الله، اللهم إني اعوذ بك من ان نزل او نضل، او نظلم او نظلم، او نجهل، او يجهل علينا" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ: إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ، قَالَ:" بِسْمِ اللَّهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ أَوْ نَضِلَّ، أَوْ نَظْلِمَ أَوْ نُظْلَمَ، أَوْ نَجْهَلَ، أَوْ يُجْهَلَ عَلَيْنَا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے، اللہ کے نام سے میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں اے اللہ! ہم اس بات سے آپ کی پناہ میں آتے ہیں کہ پھسل جائیں یا گمراہ ہوجائیں یا ظلم کریں یا کوئی ہم پر ظلم کرے یا ہم کسی سے جہالت کا مظاہرہ کریں یا کوئی ہم سے جہالت کا مظاہرہ کرے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، الشعبي لم يسمع من أم سلمة
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو وہ دوپٹہ اوڑھ رہی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے ایک ہی مرتبہ لپیٹنا دو مرتبہ نہیں (تاکہ مردوں کے عمامے کے ساتھ مشابہت نہ ہوجائے)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة وهب مولى أبى أحمد
حدثنا وكيع ، قال: حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن زينب بنت ام سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم تحتكمون إلي، وإنما انا بشر، ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض، وإنما اقضي بينكم على نحو ما اسمع، فمن قضيت له من حق اخيه شيئا، فلا ياخذه، فإنما اقطع له قطعة من النار ياتي بها يوم القيامة" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ تَحْتَكِمُونَ إِلَيَّ، وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، وَإِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمْ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، فَلَا يَأْخُذْهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ يَأْتِي بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو، ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی نسبت اپنی دلیل ایسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ پیش کردے کہ میں اس کی دلیل کی روشنی میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں (اس لئے یاد رکھو) میں جس شخص کی بات تسلیم کر کے اس کے بھائی کے کسی حق کا اس کے لئے فیصلہ کرتا ہوں تو سمجھ لو کہ میں اس کے لئے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر اسے دے رہا ہوں لہذا اسے چاہئے کہ اسے نہ لے۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، قال: اخبرني إياي حبيب بن ابي ثابت ، ان عبد الحميد بن عبد الله بن ابي عمرو , والقاسم اخبراه , انهما سمعا ابا بكر بن عبد الرحمن يخبر , ان ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته , انها لما قدمت المدينة اخبرتهم انها ابنة ابي امية بن المغيرة، فكذبوها، ويقولون: ما اكذب الغرائب، حتى انشا ناس منهم إلى الحج، فقالوا: ما تكتبين إلى اهلك؟ فكتبت معهم، فرجعوا إلى المدينة يصدقونها، فازدادت عليهم كرامة , قالت: فلما وضعت زينب، جاءني النبي صلى الله عليه وسلم، فخطبني، فقلت: ما مثلي نكح، اما انا، فلا ولد في، وانا غيور، وذات عيال، فقال:" انا اكبر منك، واما الغيرة، فيذهبها الله عز وجل، واما العيال، فإلى الله ورسوله" , فتزوجها، فجعل ياتيها فيقول:" اين زناب؟" حتى جاء عمار بن ياسر يوما، فاختلجها، وقال: هذه تمنع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكانت ترضعها، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" اين زناب؟" , فقالت: قريبة ابنة ابي امية ووافقها عندها اخذها عمار بن ياسر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني آتيكم الليلة" , قالت: فقمت، فاخرجت حبات من شعير كانت في جر، واخرجت شحما فعصدته له. قالت: فبات النبي صلى الله عليه وسلم ثم اصبح، فقال حين اصبح: " إن لك على اهلك كرامة، فإن شئت سبعت لك، فإن اسبع لك، اسبع لنسائي" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي إِيّاَيِ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، أَنَّ عَبْدَ الْحَمِيدِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي عَمْرٍو , وَالْقَاسِمَ أَخْبَرَاهُ , أَنَّهُمَا سَمِعَا أَبَا بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُخْبِرُ , أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ , أَنَّها لَمَّا قَدِمَتْ الْمَدِينَةَ أَخْبَرَتْهُمْ أَنَّهَا ابْنَةُ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، فَكَذَّبُوهَا، وَيَقُولُونَ: مَا أَكْذَبَ الْغَرَائِبَ، حَتَّى أَنْشَأَ نَاسٌ مِنْهُمْ إِلَى الْحَجِّ، فَقَالُوا: مَا تَكْتُبِينَ إِلَى أَهْلِكِ؟ فَكَتَبَتْ مَعَهُمْ، فَرَجَعُوا إِلَى الْمَدِينَةِ يُصَدِّقُونَهَا، فَازْدَادَتْ عَلَيْهِمْ كَرَامَةً , قَالَتْ: فَلَمَّا وَضَعْتُ زَيْنَبَ، جَاءَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَنِي، فَقُلْتُ: مَا مِثْلِي نُكِحَ، أَمَّا أَنَا، فَلَا وَلَدَ فِيَّ، وَأَنَا غَيُورٌ، وَذَاتُ عِيَالٍ، فَقَالَ:" أَنَا أَكْبَرُ مِنْكِ، وَأَمَّا الْغَيْرَةُ، فَيُذْهِبُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَّا الْعِيَالُ، فَإِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ" , فَتَزَوَّجَهَا، فَجَعَلَ يَأْتِيهَا فَيَقُولُ:" أَيْنَ زُنَابُ؟" حَتَّى جَاءَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ يَوْمًا، فَاخْتَلَجَهَا، وَقَالَ: هَذِهِ تَمْنَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ تُرْضِعُهَا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَيْنَ زُنَابُ؟" , فَقَالَتْ: قَرِيبَةُ ابْنَةِ أَبِي أُمَيَّةَ وَوَافَقَهَا عِنْدَهَا أَخَذَهَا عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي آتِيكُمْ اللَّيْلَةَ" , قَالَتْ: فَقُمْتُ، فَأَخْرَجْتُ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِيرٍ كَانَتْ فِي جَرٍّ، وَأَخْرَجْتُ شَحْمًا فَعَصَدْتُهُ لَهُ. قَالَتْ: فَبَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَصْبَحَ، فَقَالَ حِينَ أَصْبَحَ: " إِنَّ لَكِ عَلَى أَهْلِكِ كَرَامَةً، فَإِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَكِ، فَإِنْ أُسَبِّعْ لَكِ، أُسَبِّعْ لِنِسَائِي" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ مدینہ منورہ آئیں تو انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ وہ ابوامیہ بن مغیرہ کی بیٹی ہیں لیکن لوگوں نے ان کی بات تسلیم نہ کی اور کہنے لگے کہ یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے پھر کچھ لوگ حج کے لئے روانہ ہونے لگے تو ان سے کہا کہ تم اپنے گھر والوں کو کچھ لکھنا چاہتی ہو؟ انہوں نے ایک خط لکھ کر ان کے ذریعے بھجوادیا وہ لوگ جب مدینہ واپس آئے تو حضرت ام سلمہ کی تصدیق کرنے لگے اور ان کی عزت میں اضافہ ہوگیا وہ کہتی ہیں کہ جب میرے یہاں زینب پیدا ہوچکی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں آئے اور مجھے پیغام نکاح دیا، میں نے عرض کیا کہ میری جیسی عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے؟ میری عمر زیادہ ہوگئی ہے میں غیور بہت ہوں اور صاحب عیال بھی ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم سے عمر میں بڑا ہوں رہی غیرت تو اللہ اسے دور کردے گا اور رہے بچے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری میں ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کرلیا۔
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کے پاس خلوت کے لئے آتے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی اپنی بیٹی زینب کو پکڑ کر اسے اپنی گود میں بٹھالیتی تھیں اور بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں ہی واپس چلے جاتے تھے، حضرت عماربن یاسر جو کہ حضرت ام سلمہ کے رضاعی بھائی تھے، کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ حضرت ام سلمہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ یہ گندی بچی کہاں ہے جس کے ذریعے تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دے رکھی ہے اور اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور گھر میں داخل ہوئے تو اس کمرے کے چاروں کونوں میں نظریں دوڑا کر دیکھنے لگے پھر بچی کے متعلق پوچھا کہ زناب (زینب) کہاں گئی؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمار آئے تھے وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے ہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ خلوت کی اور فرمایا اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات دن گزارتا ہوں لیکن پھر اپنی دوسری بیویوں میں سے ہر ایک کے پاس بھی سات سات دن گزاروں گا۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالحميد بن عبدالله والقاسم بن محمد
حدثنا عبد الرزاق ، قال: اخبرنا سفيان ، عن الاعمش ، عن ابي وائل ، قال: دخل عبد الرحمن بن عوف على ام سلمة فقالت له: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن من اصحابي من لا يراني بعد ان يفارقني" , قال: فاتى عمر، فذكر ذلك له، قال: فاتاها عمر، فقال: اذكرك الله، امنهم انا؟ قالت: اللهم لا، ولن ابلي احدا بعدك.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لَهُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ مِنْ أَصْحَابِي مَنْ لَا يَرَانِي بَعْدَ أَنْ يُفَارِقَنِي" , قَالَ: فَأَتَى عُمَرَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: فَأَتَاهَا عُمَرُ، فَقَالَ: أُذَكِّرُكِ اللَّهَ، أَمِنْهُمْ أَنَا؟ قَالَتْ: اللَّهُمَّ لَا، وَلَنْ أُبْلِيَ أَحَدًا بَعْدَكَ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعض ساتھی ایسے بھی ہوں گے کہ میری ان سے جدائی ہونے کے بعد وہ مجھے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکیں گے، حضرت عبدالرحمن بن عوف جب باہر نکلے تو راستے میں حضرت عمر سے ملاقات ہوگئی انہوں نے حضرت عمر کو یہ بات بتائی حضرت عمر خود حضرت ام سلمہ کے پاس پہنچے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا اللہ کی قسم کھا کر بتائیے کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن آپ کے بعد میں کسی کے متعلق یہ بات نہیں کہہ سکتی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شانے کا گوشت تناول فرمایا اسی دوران حضرت بلال آگئے اور نبی علیہ السلا پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز کے لئے تشریف لے گئے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے نکاح کیا تو فرمایا اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات دن گزارتا ہوں لیکن پھر اپنی دوسری بیویوں میں سے ہر ایک کے پاس بھی سات سات دن گزاروں گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1460، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالحميد بن عبدالله والقاسم
حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھے بغیر اختیاری طور پر صبح کے وقت حالت جنابت میں ہوتے اور اپنا روزہ مکمل کرلیتے تھے۔
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا ابن جريج ، قال: قال عبد الله بن ابي مليكة ، اخبرني يعلى بن مملك , انه سال ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، عن صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم: " يصلي العشاء الآخرة، ثم يسبح، ثم يصلي بعدها ما شاء الله عز وجل من الليل، ثم ينصرف، فيرقد مثل ما يصلي، ثم يستيقظ من نومته تلك، فيصلي مثل ما نام، وصلاته تلك الآخرة تكون إلى الصبح" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مَمْلَكٍ , أَنَّهُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُصَلِّي الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، ثُمَّ يُسَبِّحُ، ثُمَّ يُصَلِّي بَعْدَهَا مَا شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ اللَّيْلِ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَيَرْقُدُ مِثْلَ مَا يُصَلِّي، ثُمَّ يَسْتَيْقِظُ مِنْ نَوْمَتِهِ تِلْكَ، فَيُصَلِّي مِثْلَ مَا نَامَ، وَصَلَاتُهُ تِلْكَ الْآخِرَةُ تَكُونُ إِلَى الصُّبْحِ" .
یعلی بن مملک کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز اور قرأت کے متعلق حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء اور اس کے بعد نوافل پڑھ کر سو جاتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جتنی دیرسوتے تھے اتنی دیر نماز پڑھتے تھے اور جتنی دیر نماز پڑھتے تھے اتنی دیرسوتے تھے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اختتام صبح کے وقت ہوتا تھا۔
حدثنا عبد الرزاق ، قال: حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن زينب ابنة ابي سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم لجبة خصم عند باب ام سلمة، قالت: فخرج إليهم، فقال: " إنكم تختصمون، وإنما انا بشر، ولعل بعضكم ان يكون اعلم بحجته من بعض، فاقضي له بما اسمع منه، فاظنه صادقا، فمن قضيت له بشيء من حق اخيه، فإنها قطعة من النار، فلياخذها، او ليدعها" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَجَبَةَ خَصْمٍ عِنْدَ بَابِ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: " إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ، وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَعْلَمَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِيَ لَهُ بِمَا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَأَظُنُّهُ صَادِقًا، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِشَيْءٍ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ، فَإِنَّهَا قِطْعَةٌ مِنَ النَّارِ، فَلْيَأْخُذْهَا، أَوْ لِيَدَعْهَا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو، ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی نسبت اپنی دلیل ایسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ پیش کردے کہ میں اس کی دلیل کی روشنی میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں (اس لئے یاد رکھو) میں جس شخص کی بات تسلیم کر کے اس کے بھائی کے کسی حق کا اس کے لئے فیصلہ کرتا ہوں تو سمجھ لو کہ میں اس کے لئے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر اسے دے رہا ہوں، اب اس کی مرضی ہے کہ لے لے یا چھوڑ دے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے انہیں بکری کی ایک ران ہدیہ کے طور پر بھیجی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسے قبول کرلینے کی اجازت دی۔
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، حدثني نبهان مكاتب ام سلمة ، قال: إني لاقود بها بالبيداء او قال: بالابواء، فقالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا كان عند المكاتب ما يؤدي، فاحتجبي منه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنِي نَبْهَانُ مُكَاتَبُ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَ: إِنِّي لَأَقُودُ بِهَا بِالْبَيْدَاءِ أَو قَالَ: بِالْأَبْوَاءِ، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا كَانَ عِنْدَ الْمُكَاتَبِ مَا يُؤَدِّي، فَاحْتَجِبِي مِنْهُ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم خواتین میں سے کسی کا کوئی غلام مکاتب ہو اور اس کے پاس اتنا بدل کتابت ہو کہ وہ اسے اپنے مالک کے حوالے کر کے خود آزادی حاصل کرسکے، تو اس عورت کو اپنے اس غلام سے پردہ کرنا چاہئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة نبهان، وقد تفرد بهذا الحديث، ومما يدل على ضعف هذا الحديث عمل السيدة عائشة بخلافه
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، قال: سمعت ابا هريرة , يقول: قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من ادركه الصبح جنبا، فلا صوم له" , قال: فانطلقت انا وابي، فدخلنا على ام سلمة وعائشة , فسالناهما عن ذلك فاخبرتانا , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان: " يصبح جنبا من غير حلم، ثم يصوم" ، فلقينا ابا هريرة، فحدثه ابي، فتلون وجه ابي هريرة، ثم قال: هكذا حدثني الفضل بن عباس، وهن اعلم.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ , يَقُولُ: قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَدْرَكَهُ الصُّبْحُ جُنُبًا، فَلَا صَوْمَ لَهُ" , قَالَ: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأَبِي، فَدَخَلْنَا عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَعَائِشَةَ , فَسَأَلْنَاهُمَا عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرَتَانَا , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ: " يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَيْرِ حُلُمٍ، ثُمَّ يَصُومُ" ، فَلَقِينَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَحَدَّثَهُ أَبِي، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ أَبِي هُرَيْرَةَ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا حَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ، وَهُنَّ أَعْلَمُ.
ابوبکر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جس شخص کی صبح وجوب غسل کی حالت میں ہو، اس کا روزہ نہیں ہوتا، کچھ عرصہ بعد میں اپنے والد کے ساتھ حضرت ام سلمہ اور حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے بتایا کہ نبی علیہ لسلام اختیاری طور پر وجوب غسل کی حالت میں صبح کرلیتے اور روزہ رکھ لیتے پھر ہم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ملے تو میرے والد صاحب نے ان سے یہ حدیث بیان کی ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ کہنے لگے کہ مجھے یہ حدیث فضل بن عباس نے بتائی تھی، البتہ ازواج مطہرات اسے زیادہ جانتی ہیں۔
حدثنا يزيد بن هارون ، وحدثني حجاج ، قال: اخبرنا ابن ابي ذئب ، عن المقبري ، عن عبد الله بن رافع مولى ام سلمة، عن ام سلمة ، ان ام سليم، قال حجاج: امراة ابي طلحة، قالت: يا رسول الله، المراة ترى زوجها في المنام يقع عليها، اعليها غسل؟ قال: " نعم، إذا رات بللا" , فقالت ام سلمة: اوتفعل ذلك؟ فقال:" تربت يمينك، انى ياتي شبه الخئولة إلا من ذلك؟ اي النطفتين سبقت إلى الرحم، غلبت على الشبه" , وقال حجاج في حديثه: ترب جبينك.حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، وَحَدَّثَنِي حَجَّاجٌ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ، قَالَ حَجَّاجٌ: امْرَأَةَ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْمَرْأَةُ تَرَى زَوْجَهَا فِي الْمَنَامِ يَقَعُ عَلَيْهَا، أَعَلَيْهَا غُسْلٌ؟ قَالَ: " نَعَمْ، إِذَا رَأَتْ بَلَلًا" , فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: أَوَتَفْعَلُ ذَلِكَ؟ فَقَالَ:" تَرِبَتْ يَمِينُكِ، أَنَّى يَأْتِي شَبَهُ الْخُئُولَةِ إِلَّا مِنْ ذَلِكِ؟ أَيُّ النُّطْفَتَيْنِ سَبَقَتْ إِلَى الرَّحِمِ، غَلَبَتْ عَلَى الشَّبَهِ" , وَقَالَ حَجَّاجٌ فِي حَدِيثِهِ: تَرِبَ جَبِينُكِ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ام سلیم نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا یہ بتائے کہ اگر عورت کو احتلام ہوجائے تو کیا اس پر بھی غسل واجب ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جب کہ وہ پانی دیکھے اس پر حضرت ام سلمہ ہنسنے لگیں اور کہنے لگیں کہ کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر بچہ اپنی ماں کے مشابہ کیوں ہوتا ہے؟ جو نطفہ رحم پر غالب آجاتا ہے مشابہت اسی کی غالب آجاتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف على ابن ابي ذئب
حدثنا ابن نمير ، عن هشام ، عن ابيه ، عن زينب ابنة ام سلمة ، عن ام سلمة ، ان ام حبيبة، قالت: يا رسول الله، هل لك في اختي ابنة ابي سفيان؟ قال: فافعل ماذا؟" , قالت: تنكحها، قال:" وذاك احب إليك؟" , قالت: نعم، لست لك بمخلية، واحب من شركني في الخير اختي، قال:" إنها لا تحل لي" , قلت: فإنه بلغني انك تخطب درة ابنة ابي سلمة , قال:" ابنة ام سلمة؟" , قالت: نعم، قال: " فوالله لو لم تكن ربيبتي في حجري لما حلت لي، إنها ابنة اخي من الرضاعة، ارضعتني واباها ثويبة، فلا تعرضن علي بناتكن، ولا اخواتكن" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ فِي أُخْتِي ابْنَةِ أَبِي سُفْيَانَ؟ قَالَ: فَأَفْعَلُ مَاذَا؟" , قَالَتْ: تَنْكِحُهَا، قَالَ:" وَذَاكَ أَحَبُّ إِلَيْكِ؟" , قَالَتْ: نَعَمْ، لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ، وَأَحَبُّ مَنْ شَرِكَنِي فِي الْخَيْرِ أُخْتِي، قَالَ:" إِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِي" , قُلْتُ: فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَخْطُبُ دُرَّةَ ابْنَةَ أَبِي سَلَمَةَ , قَالَ:" ابْنَةُ أُمِّ سَلَمَةَ؟" , قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: " فَوَاللَّهِ لَوْ لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي فِي حِجْرِي لَمَا حَلَّتْ لِي، إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، أَرْضَعَتْنِي وَأَبَاهَا ثُوَيْبَةُ، فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ، وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ام حبیبہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ کو میری بہن میں کوئی دلچسپی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا مطلب انہوں نے عرض کیا کہ آپ اس سے نکاح کرلیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں یہ بات پسند ہے انہوں نے عرض کیا جی ہاں میں آپ کی اکیلی بیوی تو ہوں نہیں اس لئے اس خیر میں میرے ساتھ جو لوگ شریک ہوسکتے ہیں میرے نزدیک ان میں سے میری بہن سب سے زیادہ حقدار ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لئے وہ حلال نہیں ہے (کیونکہ تم میرے نکاح میں ہو) انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ درہ بنت ام سلمہ کے لئے پیغام نکاح بھیجنے والے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ میرے لئے حلال ہوتی تب بھی میں اس سے نکاح نہ کرتا کیونکہ مجھے اور اس کے باپ (ابوسلمہ) کو بنو ہاشم کی آزاد کردہ باندی ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا بہرحال تم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو میرے سامنے پیش نہ کیا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح من حديث أم حبيبة زوج النبى ﷺ، وحديث أم سلمة، هذا مما أخطأ فيه هشام بن عروة بالعراق
حدثنا ابن نمير ، قال: حدثنا طلحة بن يحيى ، قال: زعم لي عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، ان معاوية ارسل إلى عائشة يسالها: هل صلى النبي صلى الله عليه وسلم بعد العصر شيئا؟ قالت: اما عندي , فلا، ولكن ام سلمة اخبرتني انه فعل ذلك، فارسل إليها فاسالها، فارسل إلى ام سلمة ، فقالت: نعم، دخل علي بعد العصر، فصلى سجدتين، قلت يا نبي الله، انزل عليك في هاتين السجدتين؟ قال: " لا، ولكن صليت الظهر، فشغلت، فاستدركتها بعد العصر" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: زَعَمَ لِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ أَرْسَلَ إِلَى عَائِشَةَ يَسْأَلُهَا: هَلْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعَصْرِ شَيْئًا؟ قَالَتْ: أَمَّا عِنْدِي , فَلَا، وَلَكِنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْنِي أَنَّهُ فَعَلَ ذَلِكَ، فَأَرْسِلْ إِلَيْهَا فَاسْأَلْهَا، فَأَرْسَلَ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ ، فَقَالَتْ: نَعَمْ، دَخَلَ عَلَيَّ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَصَلَّى سَجْدَتَيْنِ، قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أُنْزِلَ عَلَيْكَ فِي هَاتَيْنِ السَّجْدَتَيْنِ؟ قَالَ: " لَا، وَلَكِنْ صَلَّيْتُ الظُّهْرَ، فَشُغِلْتُ، فَاسْتَدْرَكْتُهَا بَعْدَ الْعَصْرِ" .
حضرت امیر معاویہ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے پاس قاصد بھیج کر دریافت کیا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کوئی نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے فرمایا میرے پاس تو نہیں، البتہ حضرت ام سلمہ نے مجھے بتایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کیا ہے اس لئے آپ ان سے دریافت کرلیجئے! چنانچہ انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے یہ سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا ہاں ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی اور میرے یہاں تشریف لے آئے کیونکہ اس دن میری باری تھی اور میرے یہاں دو رکعتیں پڑھیں اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ دو رکعتیں کیسی ہیں جن کا آپ کو حکم دیا گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ یہ وہ رکعتیں ہیں جو میں ظہر کے بعد پڑھا کرتا تھا لیکن مال کی تقسم میں ایسا مشغول ہوا کہ مؤذن میرے پاس عصر کی نماز کی اطلاع لے کر آگیا، میں نے انہیں چھوڑنا مناسب نہ سمجھا (اس لئے اب پڑھ لیا)۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف على بن يحيي، وهو حسن الحديث
حدثنا ابن نمير ، قال: حدثنا سعد بن سعيد ، قال: اخبرني عمر بن كثير ، عن ابن سفينة مولى ام سلمة، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما من عبد تصيبه مصيبة، فيقول: إنا لله وإنا إليه راجعون، اللهم اجرني في مصيبتي، واخلفني خيرا منها، إلا اجره الله في مصيبته، وخلف له خيرا منها" , قالت: فلما توفي ابو سلمة، قلت: من خير من ابي سلمة صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: ثم عزم الله عز وجل لي، فقلتها، اللهم اجرني في مصيبتي، واخلف لي خيرا منها، قالت: فتزوجت رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ كَثِيرٍ ، عَنِ ابْنِ سَفِينَةَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ عَبْدٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ، فَيَقُولُ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَاخْلُفْنِي خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَجَرَهُ اللَّهُ فِي مُصِيبَتِهِ، وَخَلَفَ لَهُ خَيْرًا مِنْهَا" , قَالَتْ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو سَلَمَةَ، قُلْتُ: مَنْ خَيْرٌ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: ثُمَّ عَزَمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِي، فَقُلْتُهَا، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَاخْلُفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا، قَالَتْ: فَتَزَوَّجْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ اناللہ وانا الیہ راجعون کہہ کر یہ دعا کرلے کہ اے اللہ! مجھے اس مصیبت پر اجر عطا فرما اور مجھے اس کا بہترین نعم البدل عطاء فرما تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی مصیبت پر اجر فرمائے گا اور اسے اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا جب میرے شوہر ابوسلمہ فوت ہوئے تو میں نے سوچا کہ ابوسلمہ سے بہتر کون ہوسکتا ہے پھر بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت دی قوت دی اور میں نے یہ دعاء پڑھ لی چنانچہ میری شادی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگئی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ عورتیں اپنا دامن کتنا لٹکائیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ ایک بالشت کے برابر اسے لٹکا سکتی ہو میں نے عرض کیا کہ اس طرح تو ان کی پنڈلیاں کھل جائیں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ایک گز لٹکا لو، اس سے زیادہ نہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، وهو مدلس، وقد توبع
حدثنا محمد بن عبيد ، قال: حدثنا الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن يحيى بن الجزار ، قال: دخل ناس من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم على ام سلمة ، فقالوا: يا ام المؤمنين، حدثينا عن سر رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: كان سره وعلانيته سواء، ثم ندمت، فقلت: افشيت سر رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: فلما دخل اخبرته، فقال:" احسنت" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ ، قَالَ: دَخَلَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ ، فَقَالُوا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، حَدِّثِينَا عَنْ سِرِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: كَانَ سِرُّهُ وَعَلَانِيَتُهُ سَوَاءً، ثُمَّ نَدِمْتُ، فَقُلْتُ: أَفْشَيْتُ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: فَلَمَّا دَخَلَ أَخْبَرَتْهُ، فَقَالَ:" أَحْسَنْتِ" .
یحی بن جزار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ صحابہ حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے ام المومنین ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اندرونی معاملے کے متعلق بتایئے انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پوشدیہ اور ظاہری معاملہ دونوں برابر ہوتے تھے، پھر انہیں ندامت ہوئی اور سوچا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کردیا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ان سے عرض کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ٹھیک کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده جيد إن صح سماع يحيى بن الجزار من الصحابة الذين أبهمهم
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں عورتیں بچوں کی پیدائش کے بعد چالیس دن تک نفاس شمار کر کے بیٹھتی تھیں اور ہم لوگ چہروں پر چھائیاں پڑجانے کی وجہ سے اپنے چہروں پر ورس ملا کرتی تھیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره وهذا اسناد ضعيف لجهالة مُسّة
حدثنا معمر بن سليمان الرقي ، حدثنا خصيف ، عن عطاء ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الذهب يربط به او يربط به المسك , قال: " اجعليه فضة وصفريه بشيء من زعفران" .حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا خُصَيْفٌ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الذَّهَبِ يُرْبَطُ بِهِ أَوْ يُرْبَطُ بِهِ الْمِسْكُ , قَالَ: " اجْعَلِيهِ فِضَّةً وَصَفِّرِيهِ بِشَيْءٍ مِنْ زَعْفَرَانٍ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! کیا ہم تھوڑا ساسونا لے کر اس میں مشک نہ ملا لیا کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے چاندی کے ساتھ کیوں نہیں ملاتیں، پھر اسے زعفران کے ساتھ خلط ملط کرلیا کرو، جس سے وہ چاندی بھی سونے کی طرح ہو جائیگی۔
ہنیدہ کی والدہ کہتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت ام سلمہ کے پاس حاضر ہوئی اور ان سے روزے کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کا حکم دیتے تھے جن میں سے پہلا روزہ پیر کے دن ہوتا تھا پھر جمعرات اور جمعہ۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سات یا پانچ رکعتوں پر وتر پڑھتے تھے اور ان کے درمیان سلام یا کلام کسی طرح بھی فصل نہیں فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، مقسم لم يسمع من أم سلمة، وقد اختلف فى إسناده
حدثنا عبد الرزاق ، قال: حدثنا معمر ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن زينب ابنة ابي سلمة ، عن ام سلمة ، انها قالت: يا رسول الله , إن بني ابي سلمة في حجري، وليس لهم شيء إلا ما انفقت عليهم، ولست بتاركتهم كذا ولا كذا، افلي اجر إن انفقت عليهم؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " انفقي عليهم، فإن لك اجر ما انفقت عليهم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ بَنِي أَبِي سَلَمَةَ فِي حِجْرِي، وَلَيْسَ لَهُمْ شَيْءٌ إِلَّا مَا أَنْفَقْتُ عَلَيْهِمْ، وَلَسْتُ بِتَارِكَتِهِمْ كَذَا وَلَا كَذَا، أَفَلِي أَجْرٌ إِنْ أَنْفَقْتُ عَلَيْهِمْ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْفِقِي عَلَيْهِمْ، فَإِنَّ لَكِ أَجْرَ مَا أَنْفَقْتِ عَلَيْهِمْ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ اگر میں ابوسلمہ کے بچوں پر کچھ خرچ کر دوں تو کیا مجھے اس پر اجر ملے گا کیونکہ میں انہیں اس حال میں چھوڑ نہیں سکتی کہ وہ میرے بھی بچے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تم ان پر جو کچھ خرچ کرو گی تمہیں اس کا اجر ملے گا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے ایک عورت نے پوچھا کہ عورتوں کے پاس پچھلے حصے میں آنے کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی " تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں سو تم اپنے کھیت میں جس طرح آنا چاہو آسکتے ہو اور فرمایا کہ اگلے سوراخ میں ہو (خواہ مرد پیچھے سے آئے یا آگے سے)۔
حكم دارالسلام: للحديث إسنادان: أولهما حسن، وثانيهما خالف فيه معمر الراوة عن ابن خيثم، فقال:عن صفيه بنت شيبه بدل حفصة بنت عبدالرحمن
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام ختم ہوتے ہی خواتین اٹھنے لگتی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہونے سے پہلے کچھ دیر اپنی جگہ پر ہی رک جاتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 837، وقوله: وكانوا يرون أن ذلك.. هو مدرج من كلام الزهري
حدثنا عبد الرزاق ، قال: حدثنا معمر ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: " لم ار رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى بعد العصر قط إلا مرة واحدة، جاءه ناس بعد الظهر، فشغلوه في شيء، فلم يصل بعد الظهر شيئا حتى صلى العصر , قالت: فلما صلى العصر دخل بيتي، فصلى ركعتين" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ قَطُّ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً، جَاءَهُ نَاسٌ بَعْدَ الظُّهْرِ، فَشَغَلُوهُ فِي شَيْءٍ، فَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَ الظُّهْرِ شَيْئًا حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ , قَالَتْ: فَلَمَّا صَلَّى الْعَصْرَ دَخَلَ بَيْتِي، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے بعد میرے پاس آئے تو دو رکعتیں پڑھیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس سے پہلے تو آپ یہ نماز نہیں پڑھتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دراصل بنوتمیم کا وفد آگیا تھا جس کی وجہ سے ظہر کے بعد کی جو دو رکعتیں میں پڑھتا تھا وہ رہ گئی تھیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فى هذا الإسناد على أبى سلمة
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرلیا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں انہیں بوسہ دیدیا کرتے تھے۔
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی نسبت ظہر کی نماز جلدی پڑھ لیا کرتے تھے اور تم لوگ ان کی نسبت عصر کی نماز زیادہ جلدی پڑھ لیتے ہو۔
حكم دارالسلام: تعجيل النبى - صلاة الظهر صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة ابن جريج، وهو مدلس
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اختیاری طور پر غسل واجب ہوتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھ لیتے تھے اس پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے فتوی سے رجوع کرلیا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن يزيد بن ابي زياد ، قال سالت عبد الله بن الحارث ، عن الركعتين بعد العصر، فقال: كنا عند معاوية فحدث , عن ابن الزبير، عن عائشة , ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يصليهما، فارسل معاوية إلى عائشة وانا فيهم، فسالناها، فقالت: لم اسمعه من النبي صلى الله عليه وسلم , ولكن حدثتني ام سلمة , فسالتها، فحدثت ام سلمة , ان النبي صلى الله عليه وسلم:" صلى الظهر، ثم اتي بشيء، فجعل يقسمه حتى حضرت صلاة العصر، فقام فصلى العصر، ثم صلى بعدها ركعتين، فلما صلاها، قال: " هاتان الركعتان كنت اصليهما بعد الظهر" , فقالت ام سلمة: ولقد حدثتها ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنهما , قال: فاتيت معاوية، فاخبرته بذلك، فقال ابن الزبير: اليس قد صلاهما، لا ازال اصليهما، فقال له معاوية: إنك لمخالف، لا تزال تحب الخلاف ما بقيت.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، قَالَ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ ، عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ: كُنَّا عِنْدَ مُعَاوِيَةَ فَحَدَّثَ , عَنْ ابْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّيهِمَا، فَأَرْسَلَ مُعَاوِيَةُ إِلَى عَائِشَةَ وَأَنَا فِيهِمْ، فَسَأَلْنَاهَا، فَقَالَتْ: لَمْ أَسْمَعْهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَلَكِنْ حَدَّثَتْنِي أُمُّ سَلَمَةَ , فَسَأَلْتُهَا، فَحَدَّثَتْ أُمُّ سَلَمَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أُتِيَ بِشَيْءٍ، فَجَعَلَ يَقْسِمُهُ حَتَّى حَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا صَلَّاهَا، قَالَ: " هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ كُنْتُ أُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الظُّهْرِ" , فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَلَقَدْ حَدَّثْتُهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُمَا , قَالَ: فَأَتَيْتُ مُعَاوِيَةَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: أَلَيْسَ قَدْ صَلَّاهُمَا، لَا أَزَالُ أُصَلِّيهِمَا، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: إِنَّكَ لَمُخَالِفٌ، لَا تَزَالُ تُحِبُّ الْخِلَافَ مَا بَقِيتَ.
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک مرتبہ حضرت معاویہ کے پاس تھے کہ حضرت ابن زبیر نے حضرت عائشہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے، حضرت معاویہ نے حضرت عائشہ کے پاس کچھ لوگوں کو بھیج دیا جن میں، میں بھی شامل تھا، ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے خود تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نہیں سنی البتہ اس کے متعلق مجھے حضرت ام سلمہ نے بتایا تھا، حضرت معاویہ نے حضرت ام سلمہ کے پاس قاصد کو بھیج دیا، حضرت ام سلمہ نے فرمایا دراصل بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی اس دن کہیں سے مال آیا ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے تقسیم کرنے کے لئے بیٹھ گئے حتی کہ مؤذن عصر کی اذان دینے لگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی اور میرے ہاں تشریف لے آئے کیونکہ اس دن میری باری تھی اور میرے یہاں دومختصر رکعتیں پڑھیں اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ دو رکعتیں کیسی ہیں جن کا آپ کو حکم دیا گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ یہ وہ رکعتیں ہیں جو میں ظہر کے بعد پڑھا کرتا تھا لیکن مال کی تقسم میں ایسا مشغول ہوا کہ مؤذن میرے پاس عصر کی نماز کی اطلاع لے کر آگیا، میں نے انہیں چھوڑنا مناسب نہ سمجھا (اس لئے اب پڑھ لیا) یہ سن کر حضرت ابن زبیر نے اللہ اکبر کہہ کر فرمایا کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک مرتبہ تو پڑھا ہے؟ واللہ میں نہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا، حضرت معاویہ نے فرمایا آپ ہمیشہ مخالفت کرتے ہیں اور جب تک زندہ رہیں گے مخالفت ہی کو پسند کریں گے۔
حكم دارالسلام: صلاة النبى ﷺ ركعتين بعد العصر صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة , وحجاج , قال: حدثني شعبة ، عن حميد بن نافع ، قال: سمعت زينب ابنة ابي سلمة تحدث، عن امها , ان امراة توفي زوجها، فخافوا على عينها، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فاستاذنوه في الكحل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد كانت إحداكن تكون في بيتها في احلاسها او في شر احلاسها في بيتها حولا، فإذا مر كلب , رمت ببعرة، فخرجت، افلا اربعة اشهر وعشرا؟" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , وَحَجَّاجٌ , قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْنَبَ ابْنَةَ أَبِي سَلَمَةَ تُحَدِّثُ، عَنْ أُمِّهَا , أَنَّ امْرَأَةً تُوُفِّيَ زَوْجُهَا، فَخَافُوا عَلَى عَيْنِهَا، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنُوهُ فِي الْكُحْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَكُونُ فِي بَيْتِهَا فِي أَحْلَاسِهَا أَوْ فِي شَرِّ أَحْلَاسِهَا فِي بَيْتِهَا حَوْلًا، فَإِذَا مَرَّ كَلْبٌ , رَمَتْ بِبَعْرَةٍ، فَخَرَجَتْ، أفَلَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا؟" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت جس کا خاوند فوت ہوگیا تھا کی آنکھوں میں شکایت پیدا ہوگئی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا اور اس کی آنکھوں میں سرمہ لگانے کی اجازت چاہی اور کہنے لگے کہ ہمیں اس کی آنکھوں کے متعلق ضائع ہونے کا اندیشہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (زمانہ جاہلیت میں) تم میں سے ایک عورت ایک سال تک اپنے گھر میں گھٹیا ترین کپڑے پہن کر رہتی تھی پھر اس کے پاس سے ایک کتا گزرا جاتا تھا اور وہ مینگنیاں پھینکتی ہوئی باہر نکلتی تھی تو کیا اب چار مہینے دس دن نہیں گزار سکتی؟
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان کو رمضان کے روزے سے ملادیتے تھے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہوجائے اور کسی شخص کا قربانی کا ارادہ ہو تو اسے اپنے (سر کے) بال یا جسم کے کسی حصے (کے بالوں) کو ہاتھ نہیں لگانا (کاٹنا اور تراشنا) چاہئے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم خواتین میں سے کسی کا کوئی غلام مکاتب ہو اور اس کے پاس اتنا بدل کتابت ہو کہ وہ اسے اپنے مالک کے حوالے کرکے خود آزادی حاصل کرسکتے تو اس عورت کو اپنے غلام سے پردہ کرنا چاہئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة نبهان، ومما يدل على ضعف هذا الحديث عمل السيدة عائشة بخلافه
حدثنا بهز ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي الخليل ، عن سفينة مولى ام سلمة، عن ام سلمة , ان النبي صلى الله عليه وسلم حين حضر، جعل يقول: " الصلاة الصلاة، وما ملكت ايمانكم" , فجعل يتكلم بها، وما يكاد يفيض بها لسانه .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ سَفِينَةَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حُضِرَ، جَعَلَ يَقُولُ: " الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ" , فَجَعَلَ يَتَكَلَّمُ بِهَا، وَمَا يَكَادُ يَفِيضُ بِهَا لِسَانُهُ .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا یہی کہتے کہتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک کھڑکھڑانے اور زبان رکنے لگی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، أبو الخليل لم يسمع من سفينة
حدثنا محمد بن جعفر , وحجاج , قالا: حدثنا شعبة ، قال: سمعت عبد ربه بن سعيد ، قال حجاج: وعبد ربه بن سعيد، اخا يحيى بن سعيد، قال: سمعت ابا سلمة بن عبد الرحمن ، قال: اختلف ابو هريرة، وابن عباس في المتوفى عنها زوجها إذا وضعت حملها، فقال ابو هريرة: تزوج، وقال ابن عباس: ابعد الاجلين , قال: فبعثوا إلى ام سلمة ، فقالت: توفي زوج سبيعة بنت الحارث، فولدت بعد وفاته بخمس عشرة ليلة , فخطبها رجلان، قال: فحطت بنفسها إلى احدهما، فلما خشوا ان تفتات بنفسها إلى احدهما، قالوا: إنك لم تحلي، فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " قد حللت، فانكحي من شئت" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , وَحَجَّاجٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ رَبِّهِ بْنَ سَعِيدٍ ، قَالَ حَجَّاجٌ: وَعَبْدَ رَبِّهِ بْنَ سَعِيدٍ، أَخَا يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: اخْتَلَفَ أَبُو هُرَيْرَةَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ فِي الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا إِذَا وَضَعَتْ حَمْلَهَا، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: تُزَوَّجُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَبْعَدَ الْأَجَلَيْنِ , قَالَ: فَبَعَثُوا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ ، فَقَالَتْ: تُوُفِّيَ زَوْجُ سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، فَوَلَدَتْ بَعْدَ وَفَاتِهِ بِخَمْسَ عَشْرَةَ لَيْلَةً , فَخَطَبَهَا رَجُلَانِ، قَالَ: فَحَطَّتْ بِنَفْسِهَا إِلَى أَحَدِهِمَا، فَلَمَّا خَشُوا أَنْ تَفْتَاتَ بِنَفْسِهَا إِلَى أَحَدِهِمَا، قَالُوا: إِنَّكِ لَمْ تَحِلِّي، فَانْطَلَقَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَدْ حَلَلْتِ، فَانْكِحِي مَنْ شِئْتِ" .
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ اور ابن عباس کے درمیان اس عورت کے متعلق اختلاف رائے ہوگیا جس کا شوہر فوت ہوجائے اور اس کے یہاں بچہ پیدا ہوجائے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ وضع حمل کے بعد وہ نکاح کرسکتی ہے، حضرت ابن عباس کا کہنا تھا کہ وہ دو میں سے ایک طویل مدت کی عدت گزارے گی، پھر انہوں نے حضرت ام سلمہ کے پاس ایک قاصد بھیجا تو انہوں نے فرمایا کہ سبیعہ بنت حارث کے شوہر فوت ہوگئے تھے، ان کی وفات کے صرف پندرہ دن یعنی آدھ مہینہ بعد ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہوگیا پھر دو آدمیوں نے سبیعہ کے پاس پیغام نکاح بھیجا اور ایک آدمی کی طرف ان کا جھکاؤ بھی ہوگیا، جب لوگوں کو محسوس ہوا کہ وہ ان میں سے کسی ایک کی طرف متوجہ ہوجائے گی تو وہ کہنے لگے کہ ابھی تم حلال نہیں ہوئیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم حلال ہوچکی ہو اس لئے جس سے چاہو نکاح کرسکتی ہو۔
حدثنا حجاج ، قال: حدثنا شريك ، عن عاصم ، عن ابي وائل ، عن مسروق ، قال: دخل عبد الرحمن على ام سلمة ، فقالت: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إن من اصحابي لمن لا يراني بعد ان اموت ابدا" , قال: فخرج عبد الرحمن من عندها مذعورا حتى دخل على عمر، فقال له: اسمع ما تقول امك، فقام عمر حتى اتاها، فدخل عليها، فسالها، ثم قال: انشدك بالله، امنهم انا؟ فقالت: لا، ولن ابرئ بعدك احدا.حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ ، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ مِنْ أَصْحَابِي لَمَنْ لَا يَرَانِي بَعْدَ أَنْ أَمُوتَ أَبَدًا" , قَالَ: فَخَرَجَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ مِنْ عِنْدِهَا مَذْعُورًا حَتَّى دَخَلَ عَلَى عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ: اسْمَعْ مَا تَقُولُ أُمُّكَ، فَقَامَ عُمَرُ حَتَّى أَتَاهَا، فَدَخَلَ عَلَيْهَا، فَسَأَلَهَا، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكِ بِاللَّهِ، أَمِنْهُمْ أَنَا؟ فَقَالَتْ: لَا، وَلَنْ أُبَرِّئَ بَعْدَكَ أَحَدًا.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ان کے پاس آئے اور کہنے لگے اماں جان مجھے اندیشہ ہے کہ مال کی کثرت مجھے ہلاک نہ کردے۔ کیونکہ میں قریش میں سب سے زیادہ مالدار ہوں انہوں نے جواب دیا کہ بیٹا اسے خرچ کرو کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعض ساتھی ایسے بھی ہوں گے کہ میری ان سے جدائی ہونے کے بعد وہ مجھے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکیں گے، حضرت عبدالرحمن بن عوف جب باہر نکلے تو راستے میں حضرت عمر سے ملاقات ہوگئی انہوں نے حضرت عمر کو یہ بات بتائی حضرت عمر خود حضرت ام سلمہ کے پاس پہنچے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا اللہ کی قسم کھا کر بتائیے کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن آپ کے بعد میں کسی کے متعلق یہ بات نہیں کہہ سکتی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد خالف فيه عاصم الأعمش، وشريك سييء الحفظ، وقد توبع
حدثنا حجاج ، حدثنا ليث ، قال: حدثنا عقيل ، عن ابن شهاب , انه قال: اخبرني ابو عبيدة بن عبد الله بن زمعة ، ان امه زينب ابنة ابي سلمة اخبرته , ان امها ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم كانت تقول: " ابى سائر ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ان يدخلن عليهن احدا بتلك الرضاعة، وقلن لعائشة: والله ما نرى هذا إلا رخصة ارخصها رسول الله صلى الله عليه وسلم لسالم خاصة، فما هو بداخل علينا احد بهذه الرضاعة، ولا رائينا" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُقَيْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ ، أَنَّ أُمَّهُ زَيْنَبَ ابْنَةَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ , أَنَّ أُمَّهَا أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ تَقُولُ: " أَبَى سَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُدْخِلْنَ عَلَيْهِنَّ أَحَدًا بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ، وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ: وَاللَّهِ مَا نُرَى هَذَا إِلَّا رُخْصَةً أَرْخَصَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسَالِمٍ خَاصَّةً، فَمَا هُوَ بِدَاخِلٍ عَلَيْنَا أَحَدٌ بِهَذِهِ الرَّضَاعَةِ، وَلَا رَائِينَا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات اس بات سے انکار کرتی ہیں کہ بڑی عمر کے کسی آدمی کو دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے اور ایسا کوئی آدمی ان کے پاس آسکتا ہے، ان سب نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کہا تھا کہ ہمارے خیال میں یہ رخصت تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف سالم کو خصوصیت کے ساتھ دی تھی لہذا اس رضاعت کی بنیاد پر ہمارے پاس کوئی آسکتا ہے اور نہ ہی ہمیں دیکھ سکتا ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، عن قتادة ، ان ابا عياض حدث، ان مروان , بعث إلى ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فارسل إليها مولاها، فقالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يصبح جنبا، فيصوم، ولا يفطر" ، قال: فرجع إليه فاخبره، قال: فبعث إلى عائشة، فبعث إليها مولاها او غلامها ذكوان، فقالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يصبح جنبا من جماع غير حلم، فيصوم ولا يفطر"، فقال له: ائت ابا هريرة فاخبره، فانطلق إلى ابي هريرة، فاخبره، عن ام سلمة، وعن عائشة، فقال: هما اعلم.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، أَنَّ أَبَا عِيَاضٍ حَدَّثَ، أَنَّ مَرْوَانَ , بَعَثَ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا مَوْلَاهَا، فَقَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصْبِحُ جُنُبًا، فَيَصُومُ، وَلَا يُفْطِرُ" ، قَالَ: فَرَجَعَ إِلَيْهِ فَأَخْبَرَهُ، قَالَ: فَبَعَثَ إِلَى عَائِشَةَ، فَبَعَثَ إِلَيْهَا مَوْلَاهَا أَوْ غُلَامَهَا ذَكْوَانَ، فَقَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ جِمَاعٍ غَيْرِ حُلُمٍ، فَيَصُومُ وَلَا يُفْطِرُ"، فَقَالَ لَهُ: ائْتِ أَبَا هُرَيْرَةَ فَأَخْبِرْهُ، فَانْطَلَقَ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَأَخْبَرَهُ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَعَنْ عَائِشَةَ، فَقَالَ: هُمَا أَعْلَمُ.
ابوعیاض کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مروان نے حضرت ام سلمہ کے پاس ایک مسئلہ معلوم کرنے کے لئے ایک قاصد کو بھیجا، اس نے حضرت ام سلمہ کے پاس ان کا آزاد کردہ غلام بھیج دیا، انہوں نے فرمایا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اختیاری طور پر وجوب غسل ہوتا تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے، ناغہ نہیں کرتے تھے غلام نے واپس آکر یہ بات بتادی پھر مروان نے حضرت عائشہ کے پاس اپنا قاصد بھیج دیا، اس نے بھی حضرت عائشہ کے پاس ان کے غلام کو بھیجا، انہوں نے بھی وہی جواب دیا، تو مروان نے قاصد سے کہا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں یہ بتادو چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور انہیں حضرت ام سلمہ اور حضرت عائشہ کے حوالے سے یہ حدیث بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ وہ دونوں زیادہ جانتی ہیں۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى عياض
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن عبد ربه ، عن ابي عياض ، عن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، ان مروان بن الحكم , بعثه إلى ام سلمة وعائشة ، قال: فلقيت غلامها نافعا ، فارسلته إليها، فسالها , قال: فرجع إلي، فاخبرني انها قالت: إن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان " يصبح جنبا من جماع غير احتلام، ثم يصبح صائما" , قال: فاتيت مروان، فاخبرته، فقال: اقسمت عليك لتاتين ابا هريرة فلتخبرنه به، فاتيته فاخبرته، فقال: هن اعلم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ , بَعَثَهُ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَعَائِشَةَ ، قَالَ: فَلَقِيتُ غُلَامَهَا نَافِعًا ، فَأَرْسَلْتُهُ إِلَيْهَا، فَسَأَلَهَا , قَالَ: فَرَجَعَ إِلَيَّ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ جِمَاعٍ غَيْرِ احْتِلَام، ثُمَّ يُصْبِحُ صَائِمًا" , قَالَ: فَأَتَيْتُ مَرْوَانَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ لَتَأْتِيَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ فَلَتُخْبِرَنَّهُ بِهِ، فَأَتَيْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: هُنَّ أَعْلَمُ.
ابوعیاض کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مروان نے حضرت ام سلمہ کے پاس ایک مسئلہ معلوم کرنے کے لئے ایک قاصد کو بھیجا، اس نے حضرت ام سلمہ کے پاس ان کا آزاد کردہ غلام بھیج دیا، انہوں نے فرمایا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اختیاری طور پر وجوب غسل ہوتا تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے، ناغہ نہیں کرتے تھے غلام نے واپس آکر یہ بات بتادی پھر مروان نے حضرت عائشہ کے پاس اپنا قاصد بھیج دیا، اس نے بھی حضرت عائشہ کے پاس ان کے غلام کو بھیجا، انہوں نے بھی وہی جواب دیا، تو مروان نے قاصد سے کہا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں یہ بتادو چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور انہیں حضرت ام سلمہ اور حضرت عائشہ کے حوالے سے یہ حدیث بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ وہ دونوں زیادہ جانتی ہیں۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عند ربه وأبى عياض
حدثنا روح، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن عبد ربه، عن ابي عياض، عن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، ان مروان بن الحكم , بعثه إلى ام سلمة وعائشة ، فذكر معناه، إلا انه قال: ثم لقي غلام عائشة ذكوان ابا عمرو , وقال: لقيت نافعا غلام ام سلمة.حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ , بَعَثَهُ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَعَائِشَةَ ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: ثُمَّ لَقِيَ غُلَامَ عَائِشَةَ ذَكْوَانَ أَبَا عَمْرٍو , وَقَالَ: لَقِيتُ نَافِعًا غُلَامَ أُمِّ سَلَمَةَ.
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عند ربه وأبى عياض
حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم خواب دیکھے بغیر اختیاری طور پر صبح کے وقت حالت جنابت میں ہوتے اور اپنا روزہ مکمل کرلیتے تھے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج ، قال: حدثني عبد الملك بن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، عن ابيه ، انه سمع ابا هريرة، يقول: من اصبح جنبا من غير احتلام، فلا يصوم , فانطلق ابو بكر , وابوه عبد الرحمن حتى دخلا على ام سلمة وعائشة فكلتاهما , قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يصبح جنبا من غير احتلام، ثم يصوم" ، فانطلق ابو بكر وابوه عبد الرحمن، فاتيا مروان، فحدثاه، ثم قال: عزمت عليكما لما انطلقتما إلى ابي هريرة، فحدثتماه، فانطلقا إلى ابي هريرة، فاخبراه، قال: هما قالتاه لكما؟ فقالا: نعم، قال: هما اعلم، إنما انبانيه الفضل بن عباس.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا مِنْ غَيْرِ احْتِلَامٍ، فَلَا يَصُومُ , فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ , وَأَبُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَتَّى دَخَلَا عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَعَائِشَةَ فَكِلْتَاهُمَا , قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَيْرِ احْتِلَامٍ، ثُمَّ يَصُومُ" ، فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ وَأَبُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَتَيَا مَرْوَانَ، فَحَدَّثَاهُ، ثُمَّ قَالَ: عَزَمْتُ عَلَيْكُمَا لَمَا انْطَلَقْتُمَا إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَحَدَّثْتُمَاهُ، فَانْطَلَقَا إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَأَخْبَرَاهُ، قَالَ: هما قَالَتَاهُ لَكُمَا؟ فَقَالَا: نَعَمْ، قَالَ: هُمَا أَعْلَمُ، إِنَّمَا أَنَبَأَنِيهِ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں صبح کے وقت حالت جنابت میں ہوتے پھر غسل کرلیتے اور بقیہ دن کا روزہ مکمل کرلیتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف صالح، وقد اختلف عليه فيه
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج ، قال: حدثني عبد الملك بن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، عن ابيه ، انه سمع ابا هريرة، يقول: من اصبح جنبا، فلا يصوم , فانطلق ابو بكر وابوه عبد الرحمن , حتى دخلا على ام سلمة , وعائشة ، فكلتاهما قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يصبح جنبا من غير احتلام، ثم يصوم" ، فانطلق ابو بكر وابوه عبد الرحمن، فاتيا مروان، فحدثاه، ثم قال: عزمت عليكما لما انطلقتما إلى ابي هريرة، فحدثتماه، فانطلقا إلى ابي هريرة، فاخبراه , قال: هما قالتاه لكما؟ فقالا: نعم، قال: هما اعلم، إنما انبانيه الفضل بن عباس.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا، فَلَا يَصُومُ , فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ وَأَبُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ , حَتَّى دَخَلَا عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ , وَعَائِشَةَ ، فَكِلْتَاهُمَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَيْرِ احْتِلَامٍ، ثُمَّ يَصُومُ" ، فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ وَأَبُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَتَيَا مَرْوَانَ، فَحَدَّثَاهُ، ثُمَّ قَالَ: عَزَمْتُ عَلَيْكُمَا لَمَا انْطَلَقْتُمَا إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَحَدَّثْتُمَاهُ، فَانْطَلَقَا إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَأَخْبَرَاهُ , قَالَ: هُمَا قَالَتَاهُ لَكُمَا؟ فَقَالَا: نَعَمْ، قَالَ: هُمَا أَعْلَمُ، إِنَّمَا أَنَبَأَنِيهِ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ.
عروہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ جو آدمی صبح کے وقت جنبی ہو اس کا روزہ نہیں ہے، ایک مرتبہ مروان بن حکم نے ایک آدمی کے ساتھ مجھے حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ اگر کوئی آدمی رمضان کے مہینے میں اس حال میں صبح کرے کہ وہ جنبی ہو اور اس نے اب تک غسل نہ کیا ہو تو کیا حکم ہے؟ دونوں نے جواب دیا کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم بغیر اختیاری طور پر صبح کے وقت حالت جنابت میں ہوتے اور اپنا روزہ مکمل کرلیتے تھے، ہم دونوں نے واپس آکر مروان کو یہ بات بتائی، مروان نے مجھ سے کہا کہ یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بتادو، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے تو یہ بات فضل بن عباس نے بتائی تھی البتہ وہ دونوں زیادہ جانتی ہیں۔
حدثنا عفان ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، قال: حدثني ابن عمر بن ابي سلمة بمنى، عن ابيه ، ان ام سلمة ، قالت: قال: ابو سلمة : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اصاب احدكم مصيبة، فليقل إنا لله وإنا إليه راجعون، عندك احتسبت مصيبتي واجرني فيها، وابدلني ما هو خير منها" , فلما احتضر ابو سلمة، قال: اللهم اخلفني في اهلي بخير، فلما قبض، قلت: إنا لله وإنا إليه راجعون، اللهم عندك احتسب مصيبتي، فاجرني فيها , قالت: واردت ان اقول: وابدلني خيرا منها، فقلت: ومن خير من ابي سلمة، فما زلت حتى قلتها، فلما انقضت عدتها خطبها ابو بكر فردته، ثم خطبها عمر فردته، فبعث إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: مرحبا برسول الله صلى الله عليه وسلم، وبرسوله، اخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم اني امراة غيرى، واني مصبية، وانه ليس احد من اوليائي شاهدا، فبعث إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما قولك: إني مصبية، فإن الله سيكفيك صبيانك، واما قولك: إني غيرى، فسادعو الله ان يذهب غيرتك، واما الاولياء: فليس احد منهم شاهد ولا غائب إلا سيرضاني" , قلت: يا عمر، قم فزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إني لا انقصك شيئا مما اعطيت اختك فلانة رحيين وجرتين، ووسادة من ادم، حشوها ليف" . قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ياتيها، فإذا جاء اخذت زينب، فوضعتها في حجرها لترضعها، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم حييا كريما، يستحيي، فرجع، ففعل ذلك مرارا، ففطن عمار بن ياسر لما تصنع، فاقبل ذات يوم وجاء عمار، وكان اخاها لامها، فدخل عليها، فانتشطها من حجرها، وقال: دعي هذه المقبوحة المشقوحة التي آذيت بها رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل، فجعل يقلب بصره في البيت , ويقول:" اين زناب؟ ما فعلت زناب؟" , قالت: جاء عمار، فذهب بها، قال: فبنى باهله، ثم قال: " إن شئت ان اسبع لك، سبعت للنساء" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ بِمِنًى، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ: أَبُو سَلَمَةَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ، فَلْيَقُلْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي وَأْجُرْنِي فِيهَا، وَأَبْدِلْنِي مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْهَا" , فَلَمَّا احْتُضِرَ أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: اللَّهُمَّ اخْلُفْنِي فِي أَهْلِي بِخَيْرٍ، فَلَمَّا قُبِضَ، قُلْتُ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ عِنْدَكَ أَحْتَسِبُ مُصِيبَتِي، فَأْجُرْنِي فِيهَا , قَالَتْ: وَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ: وَأَبْدِلْنِي خَيْرًا مِنْهَا، فَقُلْتُ: وَمَنْ خَيْرٌ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ، فَمَا زِلْتُ حَتَّى قُلْتُهَا، فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا خَطَبَهَا أَبُو بَكْرٍ فَرَدَّتْهُ، ثُمَّ خَطَبَهَا عُمَرُ فَرَدَّتْهُ، فَبَعَثَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِرَسُولِهِ، أَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي امْرَأَةٌ غَيْرَى، وَأَنِّي مُصْبِيَةٌ، وَأَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِي شَاهِدًا، فَبَعَثَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا قَوْلُكِ: إِنِّي مُصْبِيَةٌ، فَإِنَّ اللَّهَ سَيَكْفِيكِ صِبْيَانَكِ، وَأَمَّا قَوْلُكِ: إِنِّي غَيْرَى، فَسَأَدْعُو اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَ غَيْرَتَكِ، وَأَمَّا الْأَوْلِيَاءُ: فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ شَاهِدٌ وَلَا غَائِبٌ إِلَّا سَيَرْضَانِي" , قُلْتُ: يَا عُمَرُ، قُمْ فَزَوِّجْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنِّي لَا أَنْقُصُكِ شَيْئًا مِمَّا أَعْطَيْتُ أُخْتَكِ فُلَانَةَ رَحَيَيْنِ وَجَرَّتَيْنِ، وَوِسَادَةً مِنْ أَدَمٍ، حَشْوُهَا لِيفٌ" . قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِيهَا، فَإِذَا جَاءَ أَخَذَتْ زَيْنَبَ، فَوَضَعَتْهَا فِي حِجْرِهَا لِتُرْضِعَهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيِيًّا كَرِيمًا، يَسْتَحْيِي، فَرَجَعَ، فَفَعَلَ ذَلِكَ مِرَارًا، فَفَطِنَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ لِمَا تَصْنَعُ، فَأَقْبَلَ ذَاتَ يَوْمٍ وَجَاءَ عَمَّارٌ، وَكَانَ أَخَاهَا لِأُمِّهَا، فَدَخَلَ عَلَيْهَا، فَانْتَشَطَهَا مِنْ حِجْرِهَا، وَقَالَ: دَعِي هَذِهِ الْمَقْبُوحَةَ الْمَشْقُوحَةَ الَّتِي آذَيْتِ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ، فَجَعَلَ يُقَلِّبُ بَصَرَهُ فِي الْبَيْتِ , وَيَقُولُ:" أَيْنَ زَنَابُ؟ مَا فَعَلَتْ زَنَابُ؟" , قَالَتْ: جَاءَ عَمَّارٌ، فَذَهَبَ بِهَا، قَالَ: فَبَنَى بِأَهْلِهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنْ شِئْتِ أَنْ أُسَبِّعَ لَكِ، سَبَّعْتُ لِلنِّسَاءِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابوسلمہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت پہنچے تو اسے انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ کریوں کہنا چاہئے اے اللہ میں تیرے سامنے اس مصیبت پر ثواب کی نیت کرتا ہوں تو مجھے اس پر اجرعطاء فرما اور اس کا نعم البدل عطاء فرمایا جب حضرت ابوسلمہ مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو میں نے دعاء کی کہ اے اللہ میرے شوہر کے ساتھ خیر کا فیصلہ فرما جب وہ فوت ہوگئے تو میں نے مذکورہ دعاء پڑھی اور جب میں نے یہ کہنا چاہا کہ مجھے اس کا نعم البدل عطاء فرما تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ ابوسلمہ سے بہتر کون ہوسکتا ہے؟ لیکن پھر بھی میں یہ کہتی رہی، جب عدت گزر گئی تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے پے درپے پیغام نکاح بھیجے لیکن انہوں نے اسے رد کردیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیغام نکاح بھیجا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرا تو کوئی والی یہاں موجود نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے اولیاء میں سے کوئی بھی خواہ وہ غائب ہو یا حاضر اسے ناپسند نہیں کرے گا انہوں نے اپنے بیٹے عمربن ابی سلمہ سے کہا کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح کرادو چنانچہ انہوں نے حضرت ام سلمہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دیدیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ میں نے تمہاری بہنوں (اپنی بیویوں) کو جو کچھ دیا ہے تمہیں بھی اس سے کم نہیں دوں گا، دو چکیاں، ایک مشکیزہ اور چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کے پاس خلوت کے لئے آتے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی اپنی بیٹی زینب کو پکڑ کر اسے اپنی گود میں بٹھالیتی تھیں اور بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں ہی واپس چلے جاتے تھے، حضرت عماربن یاسر جو کہ حضرت ام سلمہ کے رضاعی بھائی تھے، کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ حضرت ام سلمہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ یہ گندی بچی کہاں ہے جس کے ذریعے تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دے رکھی ہے اور اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور گھر میں داخل ہوئے تو اس کمرے کے چاروں کونوں میں نظریں دوڑا کر دیکھنے لگے پھر بچی کے متعلق پوچھا کہ زناب (زینب) کہاں گئی؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمار آئے تھے وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے ہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ خلوت کی اور فرمایا اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات دن گزارتا ہوں لیکن پھر اپنی دوسری بیویوں میں سے ہر ایک کے پاس بھی سات سات دن گزاروں گا۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال ابن عمر بن أبى سلمة
حدثنا حماد بن اسامة ، قال: حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن زينب ابنة ابي سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: قلت: يا رسول الله، هل لي من اجر في بني ابي سلمة ان انفق عليهم؟ ولست بتاركتهم هكذا وهكذا، إنما هم بني؟ قال: " نعم، لك فيهم اجر ما انفقت عليهم" .حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لِي مِنْ أَجْرٍ فِي بَنِي أَبِي سَلَمَةَ أَنْ أُنْفِقَ عَلَيْهِمْ؟ وَلَسْتُ بِتَارِكَتِهِمْ هَكَذَا وَهَكَذَا، إِنَّمَا هُمْ بَنِيَّ؟ قَالَ: " نَعَمْ، لَكِ فِيهِمْ أَجْرٌ مَا أَنْفَقْتِ عَلَيْهِمْ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ اگر میں ابوسلمہ کے بچوں پر کچھ خرچ کردوں تو کیا مجھے اس پر اجر ملے گا کیونکہ میں انہیں اس حال میں چھوڑ نہیں سکتی کہ وہ میرے بھی بچے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تم ان پر جو کچھ خرچ کرو گی تمہیں اس کا اجر ملے گا۔
حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن عبد الملك بن عمير ، قال: حدثني ربعي بن حراش ، عن ام سلمة ، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ساهم الوجه، قالت: فحسبت ذلك من وجع، فقلت: يا رسول الله، اراك ساهم الوجه، افمن وجع؟ فقال: " لا، ولكن الدنانير السبعة التي اتينا بها امس، امسينا ولم ننفقها، نسيتها في خصم الفراش" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ سَاهِمُ الْوَجْهِ، قَالَتْ: فَحَسِبْتُ ذَلِكَ مِنْ وَجَعٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَاكَ سَاهِمَ الْوَجْهِ، أَفَمِنْ وَجَعٍ؟ فَقَالَ: " لَا، وَلَكِنَّ الدَّنَانِيرَ السَّبْعَةَ الَّتِي أُتِينَا بِهَا أَمْسِ، أَمْسَيْنَا وَلَمْ نُنْفِقْهَا، نَسِيتُهَا فِي خُصْمِ الْفِرَاشِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا میں سمجھی کہ شاید کوئی تکلیف ہے سو میں نے پوچھا اے اللہ کے نبی کیا بات ہے آپ کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دراصل میرے پاس سات دینار رہ گئے ہیں جو کل ہمارے پاس آئے تھے شام ہوگئی اور اب تک وہ ہمارے بستر پر پڑے ہیں۔
ایک خاتون نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے نبیذ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزفت دباء اور حنتم سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام المرأة التى روت عن أم سلمة
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا يحيى بن سعيد ، ان سليمان بن يسار اخبره , ان ابا سلمة اخبره، انه اجتمع هو وابن عباس عند ابي هريرة، فبعثوا كريبا مولى ابن عباس إلى ام سلمة يسالها , فذكرت ام سلمة : ان سبيعة الاسلمية توفي عنها زوجها، فنفست بعده بليال، فذكرت سبيعة ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، " فامرها ان تتزوج" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ اجْتَمَعَ هُوَ وَابْنُ عَبَّاسٍ عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَبَعَثُوا كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ يَسْأَلُهَا , فَذَكَرَتْ أُمُّ سَلَمَةَ : أَنَّ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةَ تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَنُفِسَتْ بَعْدَهُ بِلَيَالٍ، فَذَكَرَتْ سُبَيْعَةُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ" .
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ اور ابن عباس کے درمیان اس عورت کے متعلق اختلاف رائے ہوگیا جس کا شوہر فوت ہوجائے اور اس کے یہاں بچہ پیدا ہوجائے، انہوں نے حضرت ام سلمہ کے پاس ایک قاصد بھیجا تو انہوں نے فرمایا کہ سبیعہ بنت حارث کے شوہر فوت ہوگئے تھے، ان کی وفات کے صرف پندرہ دن یعنی آدھ مہینہ بعد ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہوگیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم حلال ہوچکی ہو اس لئے جس سے چاہو نکاح کرسکتی ہو۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ میں ایسی عورت ہوں کہ اپنے سر کے بال (زیادہ لمبے ہونے سے) چوٹی بنا کر رکھنے پڑتے ہیں (تو کیا غسل کرتے وقت انہیں ضرور کھولا کروں؟) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ اس پر تین مرتبہ اچھی طرح پانی بہا لو۔
حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا حماد بن سلمة ، عن الازرق بن قيس ، عن ذكوان ، عن ام سلمة ، قالت: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العصر، ثم دخل بيتي، فصلى ركعتين، فقلت: يا رسول الله، صليت صلاة لم تكن تصليها، فقال: " قدم علي مال، فشغلني عن الركعتين كنت اركعهما بعد الظهر، فصليتهما الآن" , فقلت: يا رسول الله، افنقضيهما إذا فاتتا، قال:" لا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ الْأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ ذَكْوَانَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ بَيْتِي، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَلَّيْتَ صَلَاةً لَمْ تَكُنْ تُصَلِّيهَا، فَقَالَ: " قَدِمَ عَلَيَّ مَالٌ، فَشَغَلَنِي عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ كُنْتُ أَرْكَعُهُمَا بَعْدَ الظُّهْرِ، فَصَلَّيْتُهُمَا الْآنَ" , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَنَقْضِيهِمَا إِذَا فَاتَتَا، قَالَ:" لَا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی اس دن کہیں سے مال آیا ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے تقسیم کرنے کے لئے بیٹھ گئے حتی کہ مؤذن عصر کی اذان دینے لگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی اور میرے ہاں تشریف لے آئے کیونکہ اس دن میری باری تھی اور میرے یہاں دو مختصر رکعتیں پڑھیں اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ دو رکعتیں کیسی ہیں جن کا آپ کو حکم دیا گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ یہ وہ رکعتیں ہیں جو میں ظہر کے بعد پڑھا کرتا تھا لیکن مال کی تقسم میں ایسا مشغول ہوا کہ مؤذن میرے پاس عصر کی نماز کی اطلاع لے کر آگیا، میں نے انہیں چھوڑنا مناسب نہ سمجھا (اس لئے اب پڑھ لیا) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم بھی ان کی قضاء کرسکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔
حكم دارالسلام: صلاة النبى ﷺ بعد العصر ركعتين صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه
حدثنا معاذ بن معاذ ، قال: حدثنا ابو كعب صاحب الحرير، قال: حدثني شهر بن حوشب ، قال: قلت لام سلمة : يا ام المؤمنين، ما كان اكثر دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان عندك؟ قالت: كان اكثر دعائه: " يا مقلب القلوب، ثبت قلبي على دينك" , قالت: فقلت له: يا رسول الله، ما اكثر دعاءك يا مقلب القلوب، ثبت قلبي على دينك؟ قال:" يا ام سلمة، ما من آدمي، إلا وقلبه بين اصبعين من اصابع الله عز وجل، ما شاء اقام، وما شاء ازاغ" , قال عبد الله: سالت ابي عن ابي كعب؟ فقال: ثقة، واسمه: عبد ربه بن عبيد.حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو كَعْبٍ صَاحِبُ الْحَرِيرِ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِأُمِّ سَلَمَةَ : يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، مَا كَانَ أَكْثَرَ دُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ عِنْدَكِ؟ قَالَتْ: كَانَ أَكْثَرُ دُعَائِهِ: " يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ" , قَالَتْ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَكْثَرَ دُعَاءَكَ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ؟ قَالَ:" يَا أُمَّ سَلَمَةَ، مَا مِنْ آدَمِيٍّ، إِلَّا وَقَلْبُهُ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، مَا شَاءَ أَقَامَ، وَمَا شَاءَ أَزَاغَ" , قَالَ عَبْد اللَّهِ: سَأَلْتُ أَبِي عَنْ أَبِي كَعْبٍ؟ فَقَالَ: ثِقَةٌ، وَاسْمُهُ: عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ عُبَيْدٍ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثریہ دعاء فرمایا کرتے تھے، اے دلوں کو پھیرنے والے اللہ میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطاء فرما میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا دلوں کو بھی پھیرا جاتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اللہ نے جس انسان کو بھی پیدا فرمایا اس کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے پھر اگر اس کی مشیت ہوتی ہے تو وہ اسے سیدھا رکھتا ہے اور اگر اس کی مشیت ہوتی ہے تو اسے ٹیڑھا کردیتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حدثنا معاذ ، حدثنا ابن عون ، عن الحسن ، عن امه ، عن ام سلمة ، قالت: ما نسيته يوم الخندق وقد اغبر صدره وهو يعاطيهم اللبن، ويقول: " اللهم إن الخير خير الآخره فاغفر للانصار والمهاجره" , قال: فاقبل عمار، فلما رآه , قال:" ويحك ابن سمية، تقتلك الفئة الباغية" , قال: فحدثته محمدا، فقال: عن امه؟ اما إنها قد كانت تلج على ام المؤمنين.حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: مَا نَسِيتُهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَقَدْ اغْبَرَّ صَدْرُهُ وَهُوَ يُعَاطِيهِمُ اللَّبِنَ، وَيَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الْآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ" , قَالَ: فَأَقْبَلَ عَمَّارٌ، فَلَمَّا رَآهُ , قَالَ:" وَيْحَكَ ابْنَ سُمَيَّةَ، تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ" , قَالَ: فَحَدَّثْتُهُ مُحَمَّدًا، فَقَالَ: عَنْ أُمِّهِ؟ أَمَا إِنَّهَا قَدْ كَانَتْ تَلِجُ عَلَى أَمِّ الْمُؤْمِنِينَ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بات نہیں بھولتی جو غزوہ خندق کے موقع پر جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سینہ مبارک پر موجود بال غبارآلود ہوگئے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اینٹیں پکڑاتے ہوئے کہتے جارہے تھے کہ اے اللہ اصل خیر تو آخرت کی خیر ہے پس تو انصار اور مہاجرین کو معاف فرمادے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار کو دیکھا تو فرمایا ابن سمیہ افسوس تمہیں ایک باغی گروہ قتل کردے گا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ عورتیں اپنا دامن کتنا لٹکائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ ایک بالشت کے برابر اسے لٹکا سکتی ہو میں نے عرض کیا کہ اس طرح تو ان کی پنڈلیاں کھل جائیں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایک گز لٹکا لو اس سے زیادہ نہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على نافع
حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرنا عطاء ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: جعلت شعائر من ذهب في رقبتها، فدخل النبي صلى الله عليه وسلم، فاعرض عنها، فقلت: الا تنظر إلى زينتها؟ فقال: " عن زينتك اعرض" , قال: زعموا , انه قال" ما ضر إحداكن لو جعلت خرصا من ورق، ثم جعلته بزعفران" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَطَاءٌ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: جَعَلَتْ شَعَائِرَ مِنْ ذَهَبٍ فِي رَقَبَتِهَا، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا، فَقُلْتُ: أَلَا تَنْظُرُ إِلَى زِينَتِهَا؟ فَقَالَ: " عَنْ زِينَتِكِ أُعْرِضُ" , قَالَ: زَعَمُوا , أَنَّهُ قَالَ" مَا ضَرَّ إِحْدَاكُنَّ لَوْ جَعَلَتْ خُرْصًا مِنْ وَرِقٍ، ثُمَّ جَعَلَتْهُ بِزَعْفَرَانٍ" .
حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے گلے میں سونے کا ہارلٹکالیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں گئے تو ان سے اعراض فرمایا: انہوں نے عرض کیا کہ آپ اس زیب وزینت کو نہیں دیکھ رہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہاری زینت ہی سے تو اعراض کر رہا ہوں پھر فرمایا تم اسے چاندی کے ساتھ کیوں نہیں ملاتیں، پھر اسے زعفران کے ساتھ خلط ملط کرلیا کرو جس سے وہ چاندی بھی سونے کی طرح ہوجائیگی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، عطاء بن أبى رباح لم يسمع من أم سلمة
حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني يحيى بن عبد الله بن محمد بن صيفي ، ان عكرمة بن عبد الرحمن اخبره , ان ام سلمة اخبرته: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: حلف ان لا يدخل على بعض اهله شهرا، فلما مضى تسعة وعشرون يوما غدا عليهم او راح , فقيل له: حلفت يا نبي الله لا تدخل عليهم شهرا؟ فقال: " إن الشهر تسعة وعشرون يوما" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ صَيْفِيٍّ ، أَنَّ عِكْرِمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ , أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرْتُهُ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حَلَفَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى بَعْضِ أَهْلِهِ شَهْرًا، فَلَمَّا مَضَى تِسْعَةٌ وَعِشْرُونَ يَوْمًا غَدَا عَلَيْهِمْ أَوْ رَاحَ , فَقِيلَ لَهُ: حَلَفْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهِمْ شَهْرًا؟ فَقَالَ: " إِنَّ الشَّهْرَ تِسْعَةٌ وَعِشْرُونَ يَوْمًا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قسم کھالی کہ اپنی ازواج کے پاس ایک مہینے تک نہیں جائیں گے، جب ٢٩ دن گزر گئے تو صبح یا شام کے کسی وقت ان کے پاس چلے گئے کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ ایک مہیے تک ان کے پاس نہ جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہینہ بعض اوقات ٢٩ دن کا بھی ہوتا ہے۔
حدثنا روح ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، قال: حدث سفينة مولى ام سلمة، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم , انه كان عامة وصية نبي الله صلى الله عليه وسلم عند موته: " الصلاة الصلاة، وما ملكت ايمانكم" , حتى جعل نبي الله صلى الله عليه وسلم يلجلجها في صدره، وما يفيض بها لسانه .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: حَدَّثَ سَفِينَةُ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ كَانَ عَامَّةُ وَصِيَّةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِهِ: " الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ" , حَتَّى جَعَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَجْلِجُهَا فِي صَدْرِهِ، وَمَا يَفِيضُ بِهَا لِسَانُهُ .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا یہی کہتے کہتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک کھڑکھڑانے اور زبان رکنے لگی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، قتادة لم يسمعه من سفينة
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء کیا کرتے تھے، کہ پروردگا مجھے معاف فرما مجھ پر رحم فرما اور سیدھے راستے کی طرف میری راہنمائی فرما۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على بن زيد، والحسن البصري لم يسمع من أم سلمة
حدثنا صفوان بن عيسى ، قال: اخبرنا محمد بن عمارة ، عن محمد بن إبراهيم التيمي ، قال: حدثتني ام ولد لابن عبد الرحمن بن عوف , قالت: كنت امراة لي ذيل طويل، وكنت آتي المسجد، وكنت اسحبه، فسالت ام سلمة ، قلت: إني امراة ذيلي طويل، وإني آتي المسجد، وإني اسحبه على المكان القذر، ثم اسحبه على المكان الطيب، فقالت ام سلمة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا مرت على المكان القذر، ثم مرت على المكان الطيب، فإن ذلك طهور" .حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ وَلَدٍ لِابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ , قَالَتْ: كُنْتُ امْرَأَةً لِي ذَيْلٌ طَوِيلٌ، وَكُنْتُ آتِي الْمَسْجِدَ، وَكُنْتُ أَسْحَبُهُ، فَسَأَلْتُ أُمَّ سَلَمَةَ ، قُلْتُ: إِنِّي امْرَأَةٌ ذَيْلِي طَوِيلٌ، وَإِنِّي آتِي الْمَسْجِدَ، وَإِنِّي أَسْحَبُهُ عَلَى الْمَكَانِ الْقَذِرِ، ثُمَّ أَسْحَبُهُ عَلَى الْمَكَانِ الطَّيِّبِ، فَقَالَتْ أُمَّ سَلَمَةَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا مَرَّتْ عَلَى الْمَكَانِ الْقَذِرِ، ثُمَّ مَرَّتْ عَلَى الْمَكَانِ الطَّيِّبِ، فَإِنَّ ذَلِكَ طَهُورٌ" .
ابراہیم بن عبد الرحمن کی ام ولدہ کہتی ہیں کہ میں اپنے کپڑوں کے دامن کو زمین پر گھسیٹ کر چلتی تھی، اس دوران میں ایسی جگہوں سے بھی گزرتی تھی جہاں گندگی پڑی ہوتی اور ایسی جگہوں سے بھی جو صاف ستھری ہوتیں ایک مرتبہ میں حضرت ام سلمہ کے یہاں گئی تو ان سے یہ مسئلہ پوچھا انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بعد والی جگہ اسے صاف کردیتی ہے۔ (کوئی حرج نہیں)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام أم ولد إبراهيم بن عبدالرحمن بن عوف
حدثنا روح ، حدثنا زمعة بن صالح ، قال: سمعت ابن شهاب يحدث، عن عبد الله بن وهب بن زمعة ، عن ام سلمة ، ان ابا بكر خرج تاجرا إلى بصرى ومعه نعيمان وسويبط بن حرملة، وكلاهما بدري، وكان سويبط على الزاد، فجاءه نعيمان، فقال: اطعمني، فقال: لا، حتى ياتي ابو بكر، وكان نعيمان رجلا مضحاكا مزاحا، فقال: لاغيظنك، فذهب إلى اناس جلبوا ظهرا، فقال: ابتاعوا مني غلاما عربيا فارها، وهو ذو لسان، ولعله يقول: انا حر، فإن كنتم تاركيه لذلك، فدعوني لا تفسدوا علي غلامي، فقالوا: بل نبتاعه منك بعشر قلائص , فاقبل بها يسوقها، واقبل بالقوم حتى عقلها، ثم قال للقوم: دونكم هو هذا، فجاء القوم، فقالوا: قد اشتريناك , قال سويبط: هو كاذب، انا رجل حر، فقالوا: قد اخبرنا خبرك , وطرحوا الحبل في رقبته، فذهبوا به، فجاء ابو بكر فاخبر، فذهب هو واصحاب له، فردوا القلائص واخذوه، فضحك منها النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه حولا .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ شِهَابٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبِ بْنِ زَمْعَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَرَجَ تَاجِرًا إِلَى بُصْرَى وَمَعَهُ نُعَيْمَانُ وَسُوَيْبِطُ بْنُ حَرْمَلَةَ، وَكِلَاهُمَا بَدْرِيٌّ، وَكَانَ سُوَيْبِطٌ عَلَى الزَّادِ، فَجَاءَهُ نُعَيْمَانُ، فَقَالَ: أَطْعِمْنِي، فَقَالَ: لَا، حَتَّى يَأْتِيَ أَبُو بَكْرٍ، وَكَانَ نُعَيْمَانُ رَجُلًا مِضْحَاكًا مَزَّاحًا، فَقَالَ: لَأَغِيظَنَّكَ، فَذَهَبَ إِلَى أُنَاسٍ جَلَبُوا ظَهْرًا، فَقَالَ: ابْتَاعُوا مِنِّي غُلَامًا عَرَبِيًّا فَارِهًا، وَهُوَ ذُو لِسَانٍ، وَلَعَلَّهُ يَقُولُ: أَنَا حُرٌّ، فَإِنْ كُنْتُمْ تَارِكِيهِ لِذَلِكَ، فَدَعُونِي لَا تُفْسِدُوا عَلَيَّ غُلَامِي، فَقَالُوا: بَلْ نَبْتَاعُهُ مِنْكَ بِعَشْرِ قَلَائِصَ , فَأَقْبَلَ بِهَا يَسُوقُهَا، وَأَقْبَلَ بِالْقَوْمِ حَتَّى عَقَلَهَا، ثُمّ قَالَ لِلْقَوْمِ: دُونَكُمْ هُوَ هَذَا، فَجَاءَ الْقَوْمُ، فَقَالُوا: قَدْ اشْتَرَيْنَاكَ , قَالَ سُوَيْبِطٌ: هُوَ كَاذِبٌ، أَنَا رَجُلٌ حُرٌّ، فَقَالُوا: قَدْ أَخْبَرَنَا خَبَرَكَ , وَطَرَحُوا الْحَبْلَ في رقبته، فذهبوا به، فجاء أبو بكر فأخبر، فذهب هو وأصحاب له، فردوا القلائص وأخذوه، فضحك منها النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر تجارت کے سلسلے میں بصری کی طرف روانہ ہوئے ان کے ساتھ دو بدری صحابہ نعیمان اور سویبط بن حرملہ بھی تھے، زادراہ کے نگران سویبط تھے ایک موقع پر ان کے پاس نعیمان آئے اور کہنے لگے کہ مجھے کچھ کھانے کے لئے دیدو سویبط نے کہا کہ نہیں جب تک حضرت صدیق اکبر نہ آجائیں نعیمان بہت ہنس مکھ اور بہت حس مزاح رکھنے والے تھے، انہوں نے کہا کہ میں بھی تمہیں غصہ دلا کر چھوڑوں گا۔ پھر وہ کچھ لوگوں کے پاس گئے جو سواریوں پر بیرون ملک سے سامان لاد کر لا رہے تھے اور ان سے کہا کہ مجھ سے غلام خریدو گے جو عربی ہے، خوب ہوشیار ہے، بڑا زبان دان ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ یہ بھی کہے کہ میں آزاد ہوں اگر اس بنیاد پر تم اسے چھوڑنا چاہو تو مجھے ابھی سے بتادو میرے غلام کو میرے خلاف نہ کر دینا، انہوں نے کہا ہم آپ سے دس اونٹوں کے عوض اسے خریدتے ہیں، وہ ان اونٹوں کو ہانکتے ہوئے لے آئے اور لوگوں کو بھی اپنے ساتھ لے آئے، جب اونٹوں کو رسیوں سے باندھ لیا تو نعیمان کہنے لگے یہ رہا وہ غلام لوگوں نے آگے بڑھ کر سویبط سے کہا کہ ہم نے انہیں خرید لیا ہے سویبط نے کہا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے، میں تو آزاد ہوں ان لوگوں نے کہا کہ تمہارے آقا نے ہمیں پہلے ہی تمہارے متعلق بتادیا تھا اور یہ کہہ کر ان کی گردن میں رسی ڈال دی اور انہیں لے گئے۔ ادھر حضرت ابوبکر واپس آئے تو انہیں اس واقعے کی خبر ہوئی وہ اپنے ساتھ کچھ ساتھیوں کو لے کر ان لوگوں کے پاس گئے اور ان کے اونٹ واپس لوٹاکر سویبط کو چھڑا لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اس واقعے کے یاد آنے پر ایک سال تک ہنستے رہے۔
حدثنا عثمان بن عمر ، اخبرنا يونس ، عن الزهري ، قال: حدثتني هند ابنة الحارث القرشية , ان ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرتها , " ان النساء في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سلم من الصلاة المكتوبة قمن، وثبت رسول الله صلى الله عليه وسلم وثبت من صلى من الرجال ما شاء الله، فإذا قام رسول الله صلى الله عليه وسلم، قام الرجال" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي هِنْدُ ابْنَةُ الْحَارِثِ الْقُرَشِيَّةُ , أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا , " أَنَّ النِّسَاءَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ مِنَ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ قُمْنَ، وَثَبَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبَتَ مَنْ صَلَّى مِنَ الرِّجَالِ مَا شَاءَ اللَّهُ، فَإِذَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَامَ الرِّجَالُ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام ختم ہوتے ہی خواتین اٹھنے لگتی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہونے سے پہلے کچھ دیر اپنی جگہ پر ہی رک جاتے تھے۔
حدثنا عبد الصمد , وحرمي المعنى , قالا: حدثنا هشام ، عن قتادة ، عن ابي الخليل ، عن صاحب له ، عن ام سلمة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " يكون اختلاف عند موت خليفة، فيخرج رجل من المدينة هارب إلى مكة، فياتيه ناس من اهل مكة، فيخرجونه وهو كاره، فيبايعونه بين الركن والمقام، فيبعث إليهم جيش من الشام، فيخسف بهم بالبيداء، فإذا راى الناس ذلك، اتته ابدال الشام وعصائب العراق، فيبايعونه، ثم ينشا رجل من قريش اخواله كلب، فيبعث إليه المكي بعثا، فيظهرون عليهم، وذلك بعث كلب، والخيبة لمن لم يشهد غنيمة كلب، فيقسم المال، ويعمل في الناس سنة نبيهم صلى الله عليه وسلم , ويلقي الإسلام بجرانه إلى الارض، يمكث تسع سنين" , قال حرمي:" او سبع".حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , وَحَرَمِيٌّ الْمَعْنَى , قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ صَاحِبٍ لَهُ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ، فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنَ الْمَدِينَةِ هَارِبٌ إِلَى مَكَّةَ، فَيَأْتِيهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، فَيُخْرِجُونَهُ وَهُوَ كَارِهٌ، فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، فَيُبْعَثُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنَ الشَّامِ، فَيُخْسَفُ بِهِمْ بِالْبَيْدَاءِ، فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ، أَتَتْهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ الْعِرَاقِ، فَيُبَايِعُونَهُ، ثُمَّ يَنْشَأُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَخْوَالُهُ كَلْبٌ، فَيَبْعَثُ إِلَيْهِ الْمَكِّيُّ بَعْثًا، فَيَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ، وَذَلِكَ بَعْثُ كَلْبٍ، وَالْخَيْبَةُ لِمَنْ لَمْ يَشْهَدْ غَنِيمَةَ كَلْبٍ، فَيَقْسِمُ الْمَالَ، وَيُعْمِلُ فِي النَّاسِ سُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَيُلْقِي الْإِسْلَامُ بِجِرَانِهِ إِلَى الْأَرْضِ، يَمْكُثُ تِسْعَ سِنِينَ" , قَالَ حَرَمِيٌّ:" أَوْ سَبْعَ".
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایک خلیفہ کی موت کے وقت لوگوں میں نئے خلیفہ کے متعلق اختلاف پیدا ہوجائے گا اس موقع پر ایک آدمی مدینہ منورہ سے بھاگ کر مکہ مکرمہ چلا جائے گا، اہل مکہ میں سے کچھ لوگ اس کے پاس آئیں گے اور اسے اس کی خواہش کے بر خلاف اسے باہر نکال کر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس سے بیعت کرلیں گے، پھر ان سے لڑنے کے لئے شام سے ایک لشکر روانہ ہوگا جسے مقام بیداء میں دھنسا دیا جائے گا جب لوگ یہ دیکھیں گے تو ان کے پاس شام کے ابدال اور اعراض کے عصائب (اولیاء کا ایک درجہ) آ کر ان سے بیعت کرلیں گے۔ پھر قریش میں سے ایک آدمی نکل کر سامنے آئے گا جس کے اخوال بنوکلب ہوں گے، وہ مکی اس قریشی کی طرف ایک لشکر بھیجے گا جو اس قریشی پر غالب آجائے گا اس لشکر یا جنگ کو بعث کلب کہا جائے گا اور وہ شخص محرم ہوگا جو اس غزوے کے مال غنیمت کی تقسم کے موقع پر موجود نہ ہوگا وہ مالت و دولت تقسم کرے گا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق عمل کرے گا اور اسلام زمین پر اپنی گردن ڈال دے گا اور وہ آدمی نوسال تک زمین میں رہے گا۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف لابهام صاحب أبى خليل، ولاضطراب قتادة فيه
حدثنا عبد الصمد ، قال: حدثنا ابي , حدثنا علي بن زيد ، عن الحسن ، عن امه ، عن ام سلمة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم استيقظ من منامه وهو يسترجع , قالت: قلت: يا رسول الله، ما شانك؟ قال: " طائفة من امتي يخسف بهم , ثم يبعثون إلى رجل، فياتي مكة، فيمنعه الله منهم، ويخسف بهم، مصرعهم واحد، ومصادرهم شتى" , قالت: قلت: يا رسول الله، كيف يكون مصرعهم واحدا , ومصادرهم شتى؟ قال:" إن منهم من يكره، فيجيء مكرها" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَيْقَظَ مِنْ مَنَامِهِ وَهُوَ يَسْتَرْجِعُ , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: " طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُخْسَفُ بِهِمْ , ثُمَّ يُبْعَثُونَ إِلَى رَجُلٍ، فَيَأْتِي مَكَّةَ، فَيَمْنَعُهُ اللَّهُ مِنْهُمْ، وَيُخْسَفُ بِهِمْ، مَصْرَعُهُمْ وَاحِدٌ، وَمَصَادِرُهُمْ شَتَّى" , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ يَكُونُ مَصْرَعُهُمْ وَاحِدًا , وَمَصَادِرُهُمْ شَتَّى؟ قَالَ:" إِنَّ مِنْهُمْ مَنْ يُكْرَهُ، فَيَجِيءُ مُكْرَهًا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نیند سے بیدار ہوئے تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ رہے تھے، میں نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے ایک گروہ کو زمین میں دھنسادیا جائے گا پھر وہ لوگ ایک لشکر مکہ مکرمہ میں ایک آدمی کی طرف بھیجیں گے، اللہ اس آدمی کی ان سے حفاظت فرمائے گا اور انہیں زمین میں دھنسا دے گا، وہ سب ایک ہی جگہ پچھاڑے جائیں گے، لیکن ان کے اٹھائے جانے کی جگہیں مختلف ہوں گی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیسے ہوگا؟ فرمایا ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جنہیں زبردستی لشکر میں شامل کیا گیا ہوگا تو اسی حال میں آئیں گے۔
حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا موسى بن علي ، عن ابيه ، عن ابي قيس مولى عمرو بن العاص، قال: قلت لام سلمة :" اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل وهو صائم؟ قالت: لا , قلت: فإن عائشة تخبر الناس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , كان يقبل وهو صائم؟ قالت: قلت: لعله ان كان لا يتمالك عنها حبا، اما انا، فلا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قُلْتُ لِأُمِّ سَلَمَةَ :" أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ؟ قَالَتْ: لَا , قُلْتُ: فَإِنَّ عَائِشَةَ تُخْبِرُ النَّاسَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , كَانَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: لَعَلَّهُ أَنْ كَانَ لَا يَتَمَالَكُ عَنْهَا حُبًّا، أَمَّا أَنَا، فَلَا" .
ابوقیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے حضرت عبداللہ بن عمرو نے حضرت ام سلمہ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ دیتے تھے؟ اگر وہ نفی میں جواب دیں تو ان سے کہنا کہ حضرت عائشہ تو لوگوں کو بتاتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں انہیں بوسہ دیا کرتے تھے؟ چنانچہ ابوقیس نے یہ سوال ان سے پوچھا تو انہوں نے نفی میں جواب دیا ابوقیس نے حضرت عائشہ کا حوالہ دیا تو حضرت ام سلمہ نے فرمایا ہوسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بوسہ دیا ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت جذباتی محبت فرمایا کرتے تھے البتہ میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تم میں سے جس نے حج کرنا ہو وہ حج کا احرام باندھ لے۔
حدثنا محمد بن عبيد ، قال: حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، قال: دخل عبد الرحمن بن عوف على ام سلمة ، فقال: يا ام المؤمنين، إني اخشى ان اكون قد هلكت، إني من اكثر قريش مالا، بعت ارضا لي باربعين الف دينار، فقالت: انفق يا بني، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن من اصحابي من لا يراني بعد ان افارقه" ، فاتيت عمر فاخبرته، فاتاها، فقال: بالله انا منهم؟ قالت: اللهم لا، ولن ابرئ احدا بعدك.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ ، فَقَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، إِنِّي أَخْشَى أَنْ أَكُونَ قَدْ هَلَكْتُ، إِنِّي مِنْ أَكْثَرِ قُرَيْشٍ مَالًا، بِعْتُ أَرْضًا لِي بِأَرْبَعِينَ أَلْفَ دِينَارٍ، فَقَالَتْ: أَنْفِقْ يَا بُنَيَّ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ مِنْ أَصْحَابِي مَنْ لَا يَرَانِي بَعْدَ أَنْ أُفَارِقَهُ" ، فَأَتَيْتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَأَتَاهَا، فَقَالَ: بِاللَّهِ أَنَا مِنْهُمْ؟ قَالَتْ: اللَّهُمَّ لَا، وَلَنْ أُبَرِّئَ أَحَدًا بَعْدَكَ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ان کے پاس آئے اور کہنے لگے اماں جان مجھے اندیشہ ہے کہ مال کی کثرت مجھے ہلاک نہ کردے۔ کیونکہ میں قریش میں سب سے زیادہ مالدار ہوں انہوں نے جواب دیا کہ بیٹا اسے خرچ کرو کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعض ساتھی ایسے بھی ہوں گے کہ میری ان سے جدائی ہونے کے بعد وہ مجھے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکیں گے، حضرت عبدالرحمن بن عوف جب باہر نکلے تو راستے میں حضرت عمر سے ملاقات ہوگئی انہوں نے حضرت عمر کو یہ بات بتائی حضرت عمر خود حضرت ام سلمہ کے پاس پہنچے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا اللہ کی قسم کھا کر بتائیے کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ انہوں نے فرمایا نہیں لیکن آپ کے بعد میں کسی کے متعلق یہ بات نہیں کہہ سکتی۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي عون ، عن عبد الله بن شداد ، قال: قال مروان: كيف نسال احدا وفينا ازواج النبي صلى الله عليه وسلم؟ فبعث إلى ام سلمة فاخبرته , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خرج إلى الصلاة، فنشلت له كتفا من قدر، فاكلها، ثم خرج، فصلى" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ: قَالَ مَرْوَانُ: كَيْفَ نَسْأَلُ أَحَدًا وَفِينَا أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَبَعَثَ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَأَخْبَرَتْهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَنَشَلَتْ لَهُ كَتِفًا مِنْ قِدْرٍ، فَأَكَلَهَا، ثُمَّ خَرَجَ، فَصَلَّى" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شانے کا گوشت تناول فرمایا: اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز کے لئے تشریف لے گئے۔
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، قال: حدثني ابن عمر بن ابي سلمة بمنى، عن ابيه ، عن ام سلمة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اصابته مصيبة، فليقل: إنا لله وإنا إليه راجعون، اللهم عندك احتسب مصيبتي، فاجرني فيها وابدلني بها خيرا منها" , فلما مات ابو سلمة قلتها، فجعلت كلما بلغت وابدلني بها خيرا منها، قلت في نفسي ومن خير من ابي سلمة، ثم قلتها , فلما انقضت عدتها، بعث إليها ابو بكر يخطبها، فلم تزوجه، فبعث إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم عمر بن الخطاب يخطبها عليه، فقالت: اخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم اني امراة غيرى، واني امراة مصبية، وليس احد من اوليائي شاهدا , فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر له ذلك، فقال:" ارجع إليها، فقل لها: اما قولك إني امراة غيرى، فادعو الله عز وجل، فيذهب غيرتك، واما قولك: إني امراة مصبية، فستكفين صبيانك، واما قولك: إنه ليس احد من اوليائك شاهدا، فليس احد من اوليائك شاهد ولا غائب يكره ذلك" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ بِمِنًى، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ، فَلْيَقُلْ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ عِنْدَكَ أَحْتَسِبُ مُصِيبَتِي، فَأْجُرْنِي فِيهَا وَأَبْدِلْنِي بِهَا خَيْرًا مِنْهَا" , فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ قُلْتُهَا، فَجَعَلْتُ كُلَّمَا بَلَغْتُ وَأَبْدِلْنِي بِهَا خَيْرًا مِنْهَا، قُلْتُ فِي نَفْسِي وَمَنْ خَيْرٌ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ، ثُمَّ قُلْتُهَا , فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا، بَعَثَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ يَخْطُبُهَا، فَلَمْ تَزَوَّجْهُ، فَبَعَثَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَخْطُبُهَا عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: أَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي امْرَأَةٌ غَيْرَى، وَأَنِّي امْرَأَةٌ مُصْبِيَةٌ، وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِي شَاهِدًا , فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ:" ارْجِعْ إِلَيْهَا، فَقُلْ لَهَا: أَمَّا قَوْلُكِ إِنِّي امْرَأَةٌ غَيْرَى، فَأَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَيُذْهِبُ غَيْرَتَكِ، وَأَمَّا قَوْلُكِ: إِنِّي امْرَأَةٌ مُصْبِيَةٌ، فَسَتُكْفَيْنَ صِبْيَانَكِ، وَأَمَّا قَوْلُكِ: إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِكِ شَاهِدًا، فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِكِ شَاهِدٌ وَلَا غَائِبٌ يَكْرَهُ ذَلِكَ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ اناللہ وانا الیہ راجعون کہہ کر یہ دعا کرلے کہ اے اللہ! مجھے اس مصیبت پر اجرعطا فرما اور مجھے اس کا بہترین نعم البدل عطاء فرما تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی مصیبت پر اجر فرمائے گا اور اسے اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا جب میرے شوہر ابوسلمہ فوت ہوئے تو میں نے سوچا کہ ابوسلمہ سے بہتر کون ہوسکتا ہے پھر بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت کی قوت دی اور میں نے یہ دعاء پڑھ لی، عدت گزرنے کے بعد حضرات ابوبکر اور عمر نے باری باری پیغام نکاح بھیجا لیکن انہوں نے حامی نہ بھری، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو ان کے پاس اپنے لئے پیغام نکاح دے کر بھیجا انہوں نے عرض کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیجئے کہ میں بہت غیور عورت ہوں، میرے بچے بھی ہیں اور میرا تو کوئی ولی بھی یہاں موجود نہیں ہے، حضرت عمر نے آ کر یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے جا کر کہہ دو کہ میں اللہ سے دعا کردوں گا اور تمہاری غیرت دور ہو جائیگی باقی رہے بچے تو تم ان کی کفایت کرتی رہنا اور باقی رہا ولی تو تمہارے اولیاء میں سے کوئی بھی خواہ وہ غائب ہو یا حاضر اسے ناپسند نہیں کرے گا۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة ابن عمر بن أبى سلمة، وقد اختلف فيه على حماد بن سلمة
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن سابط ، عن حفصة بنت عبد الرحمن ، عن ام سلمة ، قالت: لما قدم المهاجرون المدينة على الانصار تزوجوا من نسائهم، وكان المهاجرون يجبون، وكانت الانصار لا تجبي، فاراد رجل من المهاجرين امراته على ذلك، فابت عليه حتى تسال رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: فاتته، فاستحيت ان تساله، فسالته ام سلمة، فنزلت: نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم سورة البقرة آية 223 , وقال:" لا، إلا في صمام واحد" ، وقال وكيع: ابن سابط رجل من قريش.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَابِطٍ ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ عَلَى الْأَنْصَارِ تَزَوَّجُوا مِنْ نِسَائِهِمْ، وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ يُجَبُّونَ، وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ لَا تُجَبِّي، فَأَرَادَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ امْرَأَتَهُ عَلَى ذَلِكَ، فَأَبَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: فَأَتَتْهُ، فَاسْتَحْيَتْ أَنْ تَسْأَلَهُ، فَسَأَلَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ، فَنَزَلَتْ: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223 , وَقَالَ:" لَا، إِلَّا فِي صِمَامٍ وَاحِدٍ" ، وقَالَ وَكِيعٌ: ابْنُ سَابِطٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انصار کے مرد اپنی عورتوں کے پاس پچھلے حصے سے نہیں آتے تھے، کیونکہ یہودی کہا کرتے تھے کہ جو شخص اپنی بیوی کے پاس پچھلی جانب سے آتا ہے اس کی اولاد بھینگی ہوتی ہے، جب مہاجرین مدینہ منورہ آئے تو انہوں نے انصاری عورتوں سے بھی نکاح کیا اور پچھلی جانب سے ان کے پاس آتے، لیکن ایک عورت نے اس معاملے میں اپنے شوہر کی بات ماننے سے انکار کردیا اور کہنے لگی کہ جب تک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم نہ پوچھ لوں اس وقت تک تم یہ کام نہیں کرسکتے۔ چنانچہ وہ عورت حضرت ام سلمہ کے پاس آئی اور ان سے اس کا ذکر کیا، حضرت ام سلمہ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہی ہوں گے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس عورت کو یہ سوال پوچھتے ہوئے شرم آئی لہذا وہ یوں ہی واپس چلی گئی، بعد میں حضرت ام سلمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس انصاریہ کو بلاؤ! چنانچہ اسے بلایا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی " تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں سو تم اپنے کھیت میں جس طرح آنا چاہو، آسکتے ہو " اور فرمایا کہ اگلے سوراخ میں ہو (خواہ مرد پیچھے سے آئے یا آگے سے)
حدثنا وكيع ، حدثنا هشام , وابن نمير , قال: حدثنا هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن زينب بنت ام سلمة ، عن امها ، قالت: قال مخنث لاخيها عبد الله بن ابي امية: إن فتح الله عليكم الطائف غدا، دللتك على بنت غيلان، فإنها تقبل باربع، وتدبر بثمان، فسمعه النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " اخرجوا هؤلاء من بيوتكم، فلا يدخلوا عليكم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ , وَابْنُ نُمَيْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّهَا ، قَالَتْ: قَالَ مُخَنَّثٌ لَأَخِيهَا عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ: إِنْ فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ الطَّائِفَ غَدًا، دَلَلْتُكَ عَلَى بِنْتِ غَيْلَانَ، فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ، وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ، فَسَمِعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَخْرِجُوا هَؤُلَاءِ مِنْ بُيُوتِكُمْ، فَلَا يَدْخُلُوا عَلَيْكُمْ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو وہاں ایک مخنث اور عبداللہ بن ابی امیہ جو حضرت ام سلمہ کے بھائی تھے بھی موجود تھے وہ ہیجڑا عبداللہ سے کہہ رہا تھا کہ اے عبداللہ بن ابی امیہ اگر کل کو اللہ تمہیں طائف پر فتح عطاء فرمائے تو تم بنت غیلان کو ضرور حاصل کرنا کیونکہ وہ چار کے ساتھ آتی ہے اور آٹھ کے ساتھ واپس جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ بات سن لی اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا آئندہ یہ تمہارے گھر میں نہیں آنا چاہئے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے بعد یہ دعاء فرماتے تھے، اے للہ میں تجھ سے علم نافع عمل مقبول اور اور رزق حلال کا سوال کرتا ہوں۔
حدثنا وكيع ، عن شعبة ، عن ابي يونس الباهلي ، قال: سمعت مهاجرا المكي ، عن ام سلمة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يغزو جيش البيت حتى إذا كانوا ببيداء من الارض، خسف بهم" , قالت: قلت يا رسول الله، ارايت المكره منهم؟ قال:" يبعث على نيته" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي يُونُسَ الْبَاهِلِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُهَاجِرًا الْمَكِّيَّ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَغْزُو جَيْشٌ البَيْتَ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ، خُسِفَ بِهِمْ" , قَالَتْ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ الْمُكْرَهَ مِنْهُمْ؟ قَالَ:" يُبْعَثُ عَلَى نِيَّتِهِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کا تذکرہ کیا جسے زمین میں دھنسا دیا جائے گا تو حضرت ام سلمہ نے عرض کیا کہ ہوسکتا ہے اس لشکر میں ایسے لوگ بھی ہوں جنہیں زبردستی اس میں شامل کرلیا گیا ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔
حدثنا عبد الملك بن عمرو , وعبد الصمد , قالا: حدثنا هشام ، عن يحيى ، عن ابي سلمة ، عن زينب بنت ام سلمة ، عن ام سلمة ، قالت: بينا انا مضطجعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الخميلة , إذ حضت فانسللت، فاخذت ثياب حيضتي، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انفست؟" , قلت: نعم , فدعاني فاضطجعت معه في الخميلة، وكانت هي ورسول الله صلى الله عليه وسلم: " يغتسلان من الإناء الواحد من الجنابة , وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلها وهو صائم" , قال ابو عبد الرحمن: حدثناه هدبة ، قال: حدثنا ابان بن يزيد العطار ، عن يحيى بن ابي كثير ، بإسناد هذا الحديث ومعناه.حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو , وَعَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: بَيْنَا أَنَا مُضْطَجِعَةٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمِيلَةِ , إِذْ حِضْتُ فَانْسَلَلْتُ، فَأَخَذْتُ ثِيَابَ حَيْضَتِي، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنُفِسْتِ؟" , قُلْتُ: نَعَمْ , فَدَعَانِي فَاضْطَجَعْتُ مَعَهُ فِي الْخَمِيلَةِ، وَكَانَتْ هِيَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَغْتَسِلَانِ مِنَ الْإِنَاءِ الْوَاحِدِ مِنَ الْجَنَابَةِ , وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُهَا وَهُوَ صَائِمٌ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: حَدَّثَنَاه هُدْبَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، بِإِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثِ وَمَعْنَاهُ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لحاف میں تھی کہ مجھے ایام شروع ہوگئے، میں کھسکنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں ایام آنے لگے، میں نے کہا جی یا رسول اللہ پھر میں وہاں سے چلی گئی اپنی حالت درست کی اور کپڑا باندھ لیا پھر آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لحاف میں گھس گئی اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرلیا کرتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ بھی دیدیتے تھے۔
حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن منصور ، عن الشعبي ، عن ام سلمة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان: " إذا خرج من بيته , قال:" باسمك ربي، إني اعوذ بك ان ازل او اضل، او اظلم او اظلم، او اجهل او يجهل علي" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ: " إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ , قَالَ:" بِاسْمِكَ رَبِّي، إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَزِلَّ أَوْ أَضِلَّ، أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ، أَوْ أَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے، اللہ کے نام سے میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں اے اللہ! ہم اس بات سے آپ کی پناہ میں آتے ہیں کہ پھسل جائیں یا گمراہ ہوجائیں یا ظلم کریں یا کوئی ہم پر ظلم کرے یا ہم کسی سے جہالت کا مظاہرہ کریں یا کوئی ہم سے جہالت کا مظاہرہ کرے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، الشعبي لم يسمع من أم سلمة
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں سو تم اپنے کھیت میں جس طرح آنا چاہو آسکتے ہو، فرمایا کہ اگلے سوراخ میں ہو (خواہ مرد پیچھے سے آئے یا آگے سے)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جس وقت وصال ہوا تو فرائض کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر نمازیں بیٹھ کر ہوتی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ تھا جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔
حدثنا عبد الرحمن ، قال: سمعت سفيان ، قال: سمعت ابا عون , يقول: سمعت عبد الله بن شداد , يقول: سمعت ابا هريرة , يقول: الوضوء مما مست النار، فذكرت ذلك او ذكر ذلك لمروان، فقال: ما ادري من نسال، كيف وفينا ازواج النبي صلى الله عليه وسلم؟ فبعثني إلى ام سلمة فحدثتني , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خرج إلى الصلاة، فتناول عرقا، فانتهس عظما، ثم صلى، ولم يتوضا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَوْنٍ , يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ , يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ , يَقُولُ: الْوُضُوءُ مِمَّا مَسَّتْ النَّارُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ أَوْ ذَكَرَ ذَلِكَ لِمَرْوَانَ، فَقَالَ: مَا أَدْرِي مَنْ نَسْأَلُ، كَيْفَ وَفِينَا أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَبَعَثَنِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَحَدَّثَتْنِي , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَتَنَاوَلَ عَرْقًا، فَانْتَهَسَ عَظْمًا، ثُمَّ صَلَّى، وَلَمْ يَتَوَضَّأْ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شانے کا گوشت تناول فرمایا اسی دوران حضرت بلال آگئے اور نبی علیہ السلا پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز کے لئے تشریف لے گئے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرلیا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 298، م: 296، وهذا إسناد خولف فيه عمار بن أبى معاوية، والإسناد الصواب هكذا: عن أبى سلمة، عن زينب، عن أم سلمة، أي: بواسطة زينب
عثمان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت ام سلمہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال نکال کر دکھایا جو کہ مہندی اور وسمہ سے رنگا ہوا ہونے کی وجہ سے سرخ ہوچکا تھا۔
حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن ابي الاسود ، عن عروة ، عن زينب بنت ام سلمة ، عن ام سلمة , انها قدمت وهي مريضة، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: " طوفي من وراء الناس وانت راكبة" , قالت: فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , وهو عند الكعبة يقرا بالطور , قال ابي: وقراته على عبد الرحمن , قالت: فطفت ورسول الله صلى الله عليه وسلم حينئذ يصلي بجنب البيت وهو يقرا بالطور، وكتاب مسطور.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّهَا قَدِمَتْ وَهِيَ مَرِيضَةٌ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " طُوفِي مِنْ وَرَاءِ النَّاسِ وَأَنْتِ رَاكِبَةٌ" , قَالَتْ: فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهُوَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ يَقْرَأُ بِالطُّورِ , قَالَ أَبِي: وَقَرَأْتُهُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَتْ: فَطُفْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَئِذٍ يُصَلِّي بِجَنْبِ الْبَيْتِ وَهُوَ يَقْرَأُ بِالطُّورِ، وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ مکہ مکرمہ پہنچیں تو بیمار تھیں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے رہتے ہوئے طواف کر لوحضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کے قریب سورت طور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔
قرات على عبد الرحمن : مالك ، عن عبد ربه بن سعيد بن قيس ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن , انه قال: سئل عبد الله بن عباس وابو هريرة عن المتوفى عنها زوجها، فقال: ابن عباس: آخر الاجلين، وقال ابو هريرة: إذا ولدت، فقد حلت، فدخل ابو سلمة بن عبد الرحمن على ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فسالها عن ذلك، فقالت: ولدت سبيعة الاسلمية بعد وفاة زوجها بنصف شهر، فخطبها رجلان، احدهما شاب والآخر كهل، فحطت إلى الشاب، فقال الكهل: لم تحل، وكان اهلها غيبا، ورجا إذا جاء اهلها ان يؤثروه، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " قد حللت، فانكحي من شئت" .قُرَّأتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَنَّهُ قَالَ: سُئِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ وَأَبُو هُرَيْرَةَ عَنِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، فَقَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ: آخِرَ الْأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِذَا وَلَدَتْ، فَقَدْ حَلَّتْ، فَدَخَلَ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: وَلَدَتْ سُبَيْعَةُ الْأَسْلَمِيَّةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِنِصْفِ شَهْرٍ، فَخَطَبَهَا رَجُلَانِ، أَحَدُهُمَا شَابٌّ وَالْآخَرُ كَهْلٌ، فَحَطَّتْ إِلَى الشَّابِّ، فَقَالَ الْكَهْلُ: لَمْ تَحِلَّ، وَكَانَ أَهْلُهَا غُيَّبًا، وَرَجَا إِذَا جَاءَ أَهْلُهَا أَنْ يُؤْثِرُوهُ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " قَدْ حَلَلْتِ، فَانْكِحِي مَنْ شِئْتِ" .
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ اور ابن عباس کے درمیان اس عورت کے متعلق اختلاف رائے ہوگیا جس کا شوہر فوت ہوجائے اور اس کے یہاں بچہ پیدا ہوجائے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ وضع حمل کے بعد وہ نکاح کرسکتی ہے، حضرت ابن عباس کا کہنا تھا کہ وہ دو میں سے ایک طویل مدت کی عدت گزارے گی، پھر انہوں نے حضرت ام سلمہ کے پاس ایک قاصد بھیجا تو انہوں نے فرمایا کہ سبیعہ بنت حارث کے شوہر فوت ہوگئے تھے، ان کی وفات کے صرف پندرہ دن یعنی آدھ مہینہ بعد ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہوگیا پھر دو آدمیوں نے سبیعہ کے پاس پیغام نکاح بھیجا اور ایک آدمی کی طرف ان کا جھکاؤ بھی ہوگیا، جب لوگوں کو محسوس ہوا کہ وہ ان میں سے کسی ایک کی طرف متوجہ ہوجائے گی تو وہ کہنے لگے کہ ابھی تم حلال نہیں ہوئیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم حلال ہوچکی ہو اس لئے جس سے چاہونکاح کرسکتی ہو۔
قرات على عبد الرحمن : مالك ، عن نافع ، عن سليمان بن يسار ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم , ان امراة كانت تهراق الدم على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستفتت لها ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " لتنظر عدة الليالي والايام التي كانت تحيضهن من الشهر قبل ان يصيبها الذي اصابها، فلتترك الصلاة قدر ذلك من الشهر، فإذا بلغت ذلك، فلتغتسل، ثم تستثفر بثوب، ثم تصلي" .قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تُهَرَاقُ الدَّمَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَتْ لَهَا أُمُّ سَلَمَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لِتَنْظُرْ عِدَّةَ اللَّيَالِي وَالْأَيَّامِ الَّتِي كَانَتْ تَحِيضُهُنَّ مِنَ الشَّهْرِ قَبْلَ أَنْ يُصِيبَهَا الَّذِي أَصَابَهَا، فَلْتَتْرُكْ الصَّلَاةَ قَدْرَ ذَلِكَ مِنَ الشَّهْرِ، فَإِذَا بَلَغَتْ ذَلِكَ، فَلْتَغْتَسِلْ، ثُمَّ تَسْتَثْفِرْ بِثَوْبٍ، ثُمَّ تُصَلِّي" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ بنت حبیش رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میرا خون ہمیشہ جاری رہتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حیض نہیں ہے، وہ تو کسی رگ کا خون ہوگا، تمہیں چاہئے کہ اپنے ایام کا اندازہ کر کے بیٹھ جایا کرو، پھر غسل کر کے کپڑا باندھ لیا کرو اور نماز پڑھا کرو۔
حدثنا وكيع ، قال: حدثنا اسامة بن زيد ، عن عبد الله بن رافع ، عن ام سلمة ، قالت: جاء رجلان من الانصار يختصمان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في مواريث بينهما قد درست، ليس بينهما بينة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم تختصمون إلي، وإنما انا بشر، ولعل بعضكم الحن بحجته او قد قال لحجته من بعض , فإني اقضي بينكم على نحو ما اسمع، فمن قضيت له من حق اخيه شيئا، فلا ياخذه، فإنما اقطع له قطعة من النار ياتي بها إسطاما في عنقه يوم القيامة" , فبكى الرجلان، وقال كل واحد منهما: حقي لاخي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إذ قلتما، فاذهبا فاقتسما، ثم توخيا الحق، ثم استهما، ثم ليحلل كل واحد منكما صاحبه" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: جَاءَ رَجُلَانِ مِنَ الْأَنْصَارِ يَخْتَصِمَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوَارِيثَ بَيْنَهُمَا قَدْ دُرِسَتْ، لَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ أَوْ قَدْ قَالَ لِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ , فَإِنِّي أَقْضِي بَيْنَكُمْ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، فَلَا يَأْخُذْهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ يَأْتِي بِهَا إِسْطَامًا فِي عُنُقِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" , فَبَكَى الرَّجُلَانِ، وَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: حَقِّي لِأَخِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِذْ قُلْتُمَا، فَاذْهَبَا فَاقْتَسِمَا، ثُمَّ تَوَخَّيَا الْحَقَّ، ثُمَّ اسْتَهِمَا، ثُمَّ لِيَحْلِلْ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا صَاحِبَهُ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ دوانصاری میراث کے مسئلے میں اپنا مقدمہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس پر ان کے پاس گواہ بھی نہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ارشاد فرمایا تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو، ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی نسبت اپنی دلیل ایسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ پیش کردے کہ میں اس کی دلیل کی روشنی میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں (اس لئے یاد رکھو) میں جس شخص کی بات تسلیم کر کے اس کے بھائی کے کسی حق کا اس کے لئے فیصلہ کرتا ہوں تو سمجھ لو کہ میں اس کے لئے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر اسے دے رہا ہوں، جسے وہ قیامت کے دن اپنے گلے میں لٹکا کر لائے گا، یہ سن کر وہ دونوں رونے لگے اور ہر ایک کہنے لگا کہ یہ میرے بھائی کا حق ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو جا کر اسے تقسیم کرلو اور حق طریقے سے قرعہ اندازی کرلو اور ہر ایک دوسرے سے اپنے لئے حلال کروالو۔
حكم دارالسلام: قوله انكم تختصمون إلى... إلى قوله: فإنما أقطع له قطعة من النار صحيح، وهذا إسناد حسن
حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کونسا تھا انہوں نے فرمایا جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولا یعصینک فی معروف سے مراد یہ ہے عورتیں اس شرط پر بیعت کریں کہ وہ نوحہ نہیں کریں گی۔
حدثنا وكيع ، حدثنا إسماعيل بن عبد الملك بن ابي الصفيرا ، قال: حدثني عبد العزيز ابن بنت ام سلمة ، عن ام سلمة , ان ابا سلمة لما توفي عنها، وانقضت عدتها، خطبها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن في ثلاث خصال: انا امراة كبيرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انا اكبر منك"، قالت: وانا امراة غيور , قال:" ادعو الله عز وجل، فيذهب عنك غيرتك" , قالت: يا رسول الله , وانا امراة مصبية , قال:" هم إلى الله وإلى رسوله" , قال: فتزوجها رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: فاتاها، فوجدها ترضع، فانصرف، ثم اتاها، فوجدها ترضع، فانصرف , قال: فبلغ ذلك عمار بن ياسر، فاتاها، فقال: حلت بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين حاجته، هلم الصبية، قال: فاخذها، فاسترضع لها، فاتاها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" اين زناب؟" يعني زينب , قالت: يا رسول الله، اخذها عمار , فدخل بها، وقال:" إن بك على اهلك كرامة" , قال: فاقام عندها إلى العشي، ثم قال:" إن شئت سبعت لك، وإن سبعت لك، سبعت لسائر نسائي، وإن شئت، قسمت لك" , قالت: لا، بل اقسم لي .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الصُّفَيْرَا ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ ابْنُ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ لَمَّا تُوُفِّيَ عَنْهَا، وَانْقَضَتْ عِدَّتُهَا، خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فِيَّ ثَلَاثَ خِصَالٍ: أَنَا امْرَأَةٌ كَبِيرَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا أَكْبَرُ مِنْكِ"، قَالَتْ: وَأَنَا امْرَأَةٌ غَيُورٌ , قَالَ:" أَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَيُذْهِبُ عَنْكِ غَيْرَتَكِ" , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَأَنَا امْرَأَةٌ مُصْبِيَةٌ , قَالَ:" هُمْ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ" , قَالَ: فَتَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَأَتَاهَا، فَوَجَدَهَا تُرْضِعُ، فَانْصَرَفَ، ثُمَّ أَتَاهَا، فَوَجَدَهَا تُرْضِعُ، فَانْصَرَفَ , قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ، فَأَتَاهَا، فَقَالَ: حُلْتِ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ حَاجَتِهِ، هَلُمَّ الصَّبِيَّةَ، قَالَ: فَأَخَذَهَا، فَاسْتَرْضَعَ لَهَا، فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَيْنَ زُنَابُ؟" يَعْنِي زَيْنَبَ , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخَذَهَا عَمَّارٌ , فَدَخَلَ بِهَا، وَقَالَ:" إِنَّ بِكِ عَلَى أَهْلِكِ كَرَامَةً" , قَالَ: فَأَقَامَ عِنْدَهَا إِلَى الْعَشِيِّ، ثُمَّ قَالَ:" إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَكِ، وَإِنْ سَبَّعْتُ لَكِ، سَبَّعْتُ لِسَائِرِ نِسَائِي، وَإِنْ شِئْتِ، قَسَمْتُ لَكِ" , قَالَتْ: لَا، بَلْ اقْسِمْ لِي .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابوسلمہ کی وفات اور ان کی عدت گزرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیغام نکاح بھیجا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھ میں تین خصلتیں ہیں، میں عمر میں بڑی ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم سے بھی بڑا ہوں انہوں نے کہا کہ میں غیور عورت ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ سے دعا کردوں گا وہ تمہاری غیرت دور کردے گا، انہوں نے کہا میرے بچے بھی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری میں ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمالیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کے پاس خلوت کے لئے آتے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی اپنی بیٹی زینب کو پکڑ کر اسے اپنی گود میں بٹھالیتی تھیں اور بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں ہی واپس چلے جاتے تھے، حضرت عماربن یاسر جو کہ حضرت ام سلمہ کے رضاعی بھائی تھے، کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ حضرت ام سلمہ کے پاس آئے اور ان سے کہا یہ گندی بچی کہاں ہے جس کے ذریعے تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دے رکھی ہے اور اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور گھر میں داخل ہوئے تو اس کمرے کے چاروں کونوں میں نظریں دوڑا کر دیکھنے لگے پھر بچی کے متعلق پوچھا کہ زناب (زینب) کہاں گئی؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمار آئے تھے وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے ہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ خلوت کی اور فرمایا اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات دن گزارتا ہوں لیکن پھر اپنی دوسری بیویوں میں سے ہر ایک کے پاس بھی سات سات دن گزاروں گا۔ انہوں نے عرض کیا نہیں آپ باری مقرر کرلیجئے۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالعزيز بن بنت أم سلمة
حدثنا وكيع ، حدثنا إسماعيل بن عبد الملك بن ابي الصفيرا ، قال: حدثني عبد العزيز ابن بنت ام سلمة ، عن ام سلمة ، ان ابا سلمة لما توفي عنها، وانقضت عدتها، خطبها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن في ثلاث خصال: انا امراة كبيرة , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انا اكبر منك" , قالت: وانا امراة غيور , قال:" ادعو الله عز وجل، فيذهب غيرتك" , قالت: يا رسول الله , وإني امراة مصبية , قال:" هم إلى الله ورسوله" , قال: فتزوجها رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: فاتاها، فوجدها ترضع، فانصرف، ثم اتاها، فوجدها ترضع، فانصرف، قال: فبلغ ذلك عمار بن ياسر، فاتاها، فقال: حلت بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين حاجته، هلم الصبية، قال: فاخذها، فاسترضع لها، فاتاها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" اين زناب؟" يعني زينب , قالت: يا رسول الله، اخذها عمار , فدخل بها، فقال:" إن بك على اهلك كرامة" , قال: فاقام عندها إلى العشي، ثم قال:" إن شئت سبعت لك، وإن سبعت لك، سبعت لسائر نسائي، وإن شئت، قسمت لك" , قالت: لا، بل اقسم لي .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الصُّفَيْرَا ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ ابْنُ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ لَمَّا تُوُفِّيَ عَنْهَا، وَانْقَضَتْ عِدَّتُهَا، خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فِيَّ ثَلَاثَ خِصَالٍ: أَنَا امْرَأَةٌ كَبِيرَةٌ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَا أَكْبَرُ مِنْكِ" , قَالَتْ: وَأَنَا امْرَأَةٌ غَيُورٌ , قَالَ:" أَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَيُذْهِبُ غَيْرَتَكِ" , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَإِنِّي امْرَأَةٌ مُصْبِيَةٌ , قَالَ:" هُمْ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ" , قَالَ: فَتَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَأَتَاهَا، فَوَجَدَهَا تُرْضِعُ، فَانْصَرَفَ، ثُمَّ أَتَاهَا، فَوَجَدَهَا تُرْضِعُ، فَانْصَرَفَ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ، فَأَتَاهَا، فَقَالَ: حُلْتِ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ حَاجَتِهِ، هَلُمَّ الصَّبِيَّةَ، قَالَ: فَأَخَذَهَا، فَاسْتَرْضَعَ لَهَا، فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَيْنَ زُنَابُ؟" يَعْنِي زَيْنَبَ , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخَذَهَا عَمَّارٌ , فَدَخَلَ بِهَا، فَقَالَ:" إِنَّ بِكِ عَلَى أَهْلِكِ كَرَامَةً" , قَالَ: فَأَقَامَ عِنْدَهَا إِلَى الْعَشِيِّ، ثُمَّ قَالَ:" إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَكِ، وَإِنْ سَبَّعْتُ لَكِ، سَبَّعْتُ لِسَائِرِ نِسَائِي، وَإِنْ شِئْتِ، قَسَمْتُ لَكِ" , قَالَتْ: لَا، بَلْ اقْسِمْ لِي .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابوسلمہ کی وفات اور ان کی عدت گزرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیغام نکاح بھیجا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھ میں تین خصلتیں ہیں، میں عمر میں بڑی ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم سے بھی بڑا ہوں انہوں نے کہا کہ میں غیور عورت ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ سے دعا کردوں گا وہ تمہاری غیرت دور کردے گا، انہوں نے کہا میرے بچے بھی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری میں ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمالیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کے پاس خلوت کے لئے آتے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی اپنی بیٹی زینب کو پکڑ کر اسے اپنی گود میں بٹھالیتی تھیں اور بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں ہی واپس چلے جاتے تھے، حضرت عماربن یاسر جو کہ حضرت ام سلمہ کے رضاعی بھائی تھے، کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ حضرت ام سلمہ کے پاس آئے اور ان سے کہا یہ گندی بچی کہاں ہے جس کے ذریعے تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دے رکھی ہے اور اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور گھر میں داخل ہوئے تو اس کمرے کے چاروں کونوں میں نظریں دوڑا کر دیکھنے لگے پھر بچی کے متعلق پوچھا کہ زناب (زینب) کہاں گئی؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمار آئے تھے وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے ہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ خلوت کی اور فرمایا اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات دن گزارتا ہوں لیکن پھر اپنی دوسری بیویوں میں سے ہر ایک کے پاس بھی سات سات دن گزاروں گا۔ انہوں نے عرض کیا نہیں آپ باری مقرر کرلیجئے۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالعزيز بن بنت أم سلمة
حدثنا وكيع ، حدثنا إسماعيل بن عبد الملك ، عن عبد العزيز ابن ابنة ام سلمة ، عن ام سلمة , انه بلغها ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ما من احد من المسلمين يصاب بمصيبة، فيقول إنا لله، وإنا إليه راجعون، اللهم اجرني في مصيبتي، واخلف علي بخير منها، إلا فعل به ذلك" , قالت: فقلت: هذا، فآجرني الله في مصيبتي، فمن يخلف علي مكان ابي سلمة؟ فلما انقضت عدتها، خطبها رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ ابْنِ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّهُ بَلَغَهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُصَابُ بِمُصِيبَةٍ، فَيَقُولُ إِنَّا لِلَّهِ، وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَاخْلُفْ عَلَيَّ بِخَيْرٍ مِنْهَا، إِلَّا فُعِلَ بِهِ ذَلِكَ" , قَالَتْ: فَقُلْتُ: هَذَا، فَآجَرَنِي اللَّهُ فِي مُصِيبَتِي، فَمَنْ يَخْلُفُ عَلَيَّ مَكَانَ أَبِي سَلَمَةَ؟ فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا، خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ اناللہ وانا الیہ راجعون کہہ کر یہ دعا کرلے کہ اے اللہ! مجھے اس مصیبت پر اجرعطا فرما اور مجھے اس کا بہترین نعم البدل عطاء فرما تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی مصیبت پر اجر فرمائے گا اور اسے اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا جب میرے شوہر ابوسلمہ فوت ہوئے تو میں نے سوچا کہ ابوسلمہ سے بہتر کون ہوسکتا ہے پھر بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت کی قوت دی اور میں نے یہ دعاء پڑھ لی اور عدت گزرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس پیغام نکاح بھیج دیا۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالعزيز بن بنت أم سلمة
محمد بن طحلاء کہتے ہیں کہ میں نے ابوسلمہ سے کہا کہ آپ کی دائی کا شوہر سلیم آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد نیا وضو نہیں کرتا، تو انہوں نے سلیم کے سینے پر ہاتھ مار کر کہا کہ میں حضرت ام سلمہ جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ تھیں کے متعلق شہادت دیتا ہوں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنے کی شہادت دیتی تھیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سات یا پانچ رکعتوں پر وتر پڑھتے تھے اور ان کے درمیان سلام یا کلام کسی طرح بھی فصل نہیں فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، مقسم لم يسمع من أم سلمة ، وقد اختلف فى إسناده
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جس وقت وصال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر نمازیں بیٹھ کر ہوتی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ تھا جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، أبو إسحاق مختلط ولم يتبين لنا أمر أبى الأحوص أسمع قبل اختلاط أبى إسحاق أم بعده، وقد توبع
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي الخليل ، عن سفينة مولى ام سلمة، عن ام سلمة , ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال وهو في الموت: " الصلاة الصلاة وما ملكت ايمانكم" , فجعل يتكلم بها، وما يفيض .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ سَفِينَةَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ: " الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ" , فَجَعَلَ يَتَكَلَّمُ بِهَا، وَمَا يَفِيضُ .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا یہی کہتے کہتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک کھڑکھڑانے اور زبان رکنے لگی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو الخليل لم يسمع من سفينة
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن الحسن ، عن ضبة بن محصن ، عن ام سلمة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " سيكون امراء، يعرفون وينكرون، فمن عرف برئ، ومن انكر سلم، ولكن من رضي وتابع" , قالوا: يا رسول الله، افلا نقاتل فجارهم؟ قال:" لا، ما صلوا" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مُحْصِنٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " سَيَكُونُ أُمَرَاءُ، يَعْرِفُونَ وَيُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نُقَاتِلُ فُجَّارَهُمْ؟ قَالَ:" لَا، مَا صَلَّوْا" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب چھ حکمران ایسے آئیں گے جن کی عادات میں سے بعض کو تم اچھا سمجھو گے اور بعض پر نکیر کروگے سو جو نکیر کرے گا وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہوجائگا اور جو ناپسندیدگی کا اظہار کردے گا وہ محفوظ رہے گا، البتہ جو راضی ہو کر اس کے تابع ہوجائے (تو اس کا حکم دوسرا ہے) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک وہ تمہیں پانچ نمازیں پڑھاتے رہیں۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن الشعبي ، عن ام سلمة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا خرج من بيته , قال:" بسم الله قال شعبة: اكبر علمي انه قد قالها , قال: وقد ذكره سفيان عنه، وليس في بقيته شك , اللهم إني اعوذ بك ان اضل او ازل، او اظلم او اظلم، او اجهل او يجهل علي" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ , قَالَ:" بِسْمِ اللَّهِ قَالَ شُعْبَةُ: أَكْبَرُ عِلْمِي أَنَّهُ قَدْ قَالَهَا , قَالَ: وَقَدْ ذَكَرَهُ سُفْيَانُ عَنْهُ، وَلَيْسَ فِي بَقِيَّتِهِ شَكٌّ , اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَضِلَّ أَوْ أَزِلَّ، أَوْ أَظْلِمَ أو أُظْلَم، أَوْ أَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے، اللہ کے نام سے میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں اے اللہ! ہم اس بات سے آپ کی پناہ میں آتے ہیں کہ پھسل جائیں یا گمراہ ہوجائیں یا ظلم کریں یا کوئی ہم پر ظلم کرے یا ہم کسی سے جہالت کا مظاہرہ کریں یا کوئی ہم سے جہالت کا مظاہرہ کرے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، الشعبي لم يسمع من أم سلمة
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، قال: سمعت ابا إسحاق ، انه سمع ابا سلمة يحدث، عن ام سلمة ، قالت:" ما مات النبي صلى الله عليه وسلم حتى: كان اكثر صلاته قاعدا غير الفريضة، وكان احب العمل إليه ادومه وإن قل" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَمَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ:" مَا مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى: كَانَ أَكْثَرَ صَلَاتِهِ قَاعِدًا غَيْرَ الْفَرِيضَةِ، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ أَدْوَمَهُ وَإِنْ قَلَّ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جس وقت وصال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر نمازیں بیٹھ کر ہوتی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ تھا جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے بعد یہ دعاء فرماتے تھے اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع، عمل مقبول اور رزق حلال کا سوال کرتا ہوں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرا بستر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلی کے بالکل سامنے بچھا ہوتا تھا اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے تھے۔
حدثنا معمر بن سليمان الرقي ، قال: حدثنا خصيف ، عن عطاء ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم , انها سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الذهب يربط به المسك او تربط، قال: " اجعليه فضة، وصفريه بشيء من زعفران" .حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا خُصَيْفٌ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الذَّهَبِ يُرْبَطُ بِهِ الْمِسْكُ أَوْ تُرْبَطُ، قَالَ: " اجْعَلِيهِ فِضَّةً، وَصَفِّرِيهِ بِشَيْءٍ مِنْ زَعْفَرَانٍ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! کیا ہم تھوڑا سا سونا لے کر اس میں مشک نہ ملا لیا کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے چاندی کے ساتھ کیوں نہیں ملاتیں، پھر اسے زعفران کے ساتھ خلط ملط کرلیا کرو، جس سے وہ چاندی بھی سونے کی طرح ہوجائیگی۔
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا ليث ، عن عطاء ، عن ام سلمة ، قالت: لبست قلادة فيها شعرات من ذهب، قالت: فرآها رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعرض عني، فقال: " ما يؤمنك ان يقلدك الله مكانها يوم القيامة شعرات من نار" , قالت: فنزعتها.حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: لَبِسْتُ قِلَادَةً فِيهَا شَعَرَاتٌ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَتْ: فَرَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْرَضَ عَنِّي، فَقَالَ: " مَا يُؤَمِّنُكِ أَنْ يُقَلِّدَكِ اللَّهُ مَكَانَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَعَرَاتٍ مِنْ نَارٍ" , قَالَتْ: فَنَزَعْتُهَا.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے ایک ہار پہن لیا جس میں سونے کی دھاریاں بنی ہوئی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر مجھ سے اعراض کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں اس بات سے کس نے بےخوف کردیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن اس کی جگہ آگ کی دھاریاں پہنائے گا؟ چنانچہ میں نے اسے اتاردیا۔
حكم دارالسلام: إسناده فيه ضعف وانقطاع، ليث ضعيف وعطاء لم يسمع من أم سلمة
حدثنا سفيان ، حدثنا ابن ابي نجيح ، عن مجاهد ، قال: قالت ام سلمة : يا رسول الله، يغزو الرجال، ولا نغزو، ولنا نصف الميراث؟ فانزل الله: ولا تتمنوا ما فضل الله به بعضكم على بعض سورة النساء آية 32 .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَغْزُو الرِّجَالُ، وَلَا نَغْزُو، وَلَنَا نِصْفُ الْمِيرَاثِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَلا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ سورة النساء آية 32 .
مجاہد سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ام سلمہ نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یا رسول اللہ مرد جہاد میں شرکت کرتے ہیں لیکن ہم اس میں شرکت نہیں کرسکتے، پھر ہمیں میراث بھی نصف ملتی ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اس چیز کی تمنا مت کیا کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دے رکھی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، فيه انقطاع بين مجاهد و أم سلمة
عثمان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت ام سلمہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال نکال کر دکھایا جو کہ مہندی اور وسمہ سے رنگا ہوا ہونے کی وجہ سے سرخ ہوچکا تھا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعتوں پر وتر بناتے تھے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمربڑھ گئی اور کمزوری ہوگئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سات رکعتوں پر وتر بنانے لگے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على الاعمش
حدثنا عبد الرزاق ، قال: حدثنا سفيان ، عن الاعمش ، عن ابي وائل ، عن ام سلمة ، قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا حضرتم الميت او المريض فقولوا خيرا، فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا حَضَرْتُمْ الْمَيِّتَ أَوْ الْمَرِيضَ فَقُولُوا خَيْرًا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم کسی قریب المرگ یا بیمار آدمی کے پاس جایا کرو تو اس کے حق میں دعائے خیر کیا کرو کیونکہ ملائکہ تمہاری دعاء پر آمین کہتے ہیں۔
حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، قال: حدثنا ايوب ، عن سليمان بن يسار ، عن ام سلمة , ان فاطمة استحيضت، وكانت تغتسل في مركن لها، فتخرج وهي عالية الصفرة والكدرة، فاستفتت لها ام سلمة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " تنتظر ايام قرئها او ايام حيضها فتدع فيه الصلاة، وتغتسل فيما سوى ذلك، وتستثفر بثوب، وتصلي" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّ فَاطِمَةَ اسْتُحِيضَتْ، وَكَانَتْ تَغْتَسِلُ فِي مِرْكَنٍ لَهَا، فَتَخْرُجُ وَهِيَ عَالِيَةُ الصُّفْرَةِ وَالْكُدْرَةِ، فَاسْتَفْتَتْ لَهَا أُمُّ سَلَمَةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " تَنْتَظِرُ أَيَّامَ قُرْئِهَا أَوْ أَيَّامَ حَيْضِهَا فَتَدَعُ فِيهِ الصَّلَاةَ، وَتَغْتَسِلُ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ، وَتَسْتَثْفِرُ بِثَوْبٍ، وَتُصَلِّي" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش کا دم استحاضہ جاری رہتا تھا، وہ اپنے ٹب میں غسل کرکے جب نکلتیں تو اس کی سطح پر زردی اور مٹیالاپن غالب ہوتا تھا حضرت ام سلمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم دریافت کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اتنے دن رات تک انتظار کرے جتنے دن تک اسے پہلے ناپاکی کا سامنا ہوتا تھا اور مہینے میں اتنے دنوں کا اندازہ کرلے اور اتنے دن تک نماز چھوڑے رکھے اس کے بعد غسل کر کے کپڑا باندھ لے اور نماز پڑھنے لگے۔
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: اخبرني ابو عون ، قال: سمعت عبد الله بن شداد بن الهاد يحدث، قال: قال مروان: كيف نسال احدا عن شيء وفينا ازواج النبي صلى الله عليه وسلم؟ فارسل إلى ام سلمة فسالها، فقالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم " فنشلت له كتفا من قدر، فاكل منها، ثم خرج إلى الصلاة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عَوْنٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ يُحَدِّثُ، قَالَ: قَالَ مَرْوَانُ: كَيْفَ نَسْأَلُ أَحَدًا عَنْ شَيْءٍ وَفِينَا أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَرْسَلَ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَسَأَلَهَا، فَقَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَنَشَلْتُ لَهُ كَتِفًا مِنْ قِدْرٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شانے کا گوشت تناول فرمایا اسی دوران حضرت بلال آگئے اور نبی علیہ السلا پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز کے لئے تشریف لے گئے۔
حدثنا عفان ، قال: حدثنا همام ، حدثنا ابن جريج ، عن ابن ابي مليكة ، عن ام سلمة , " ان قراءة النبي صلى الله عليه وسلم كانت فوصفت، بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1، حرفا حرفا، قراءة بطيئة , قطع عفان قراءته.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , " أَنَّ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ فَوَصَفَتْ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1، حَرْفًا حَرْفًا، قِرَاءَةً بَطِيئَةً , قَطَّعَ عَفَّانُ قِرَاءَتَهُ.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے سورت فاتحہ کی پہلی تین آیات کو توڑتوڑ کر پڑھ کر (ہر آیت پر وقف کر کے) دکھایا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لحاف میں تھی کہ مجھے ایام شروع ہوگئے میں کھسکنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا کر ازارباندھو اور واپس آجاؤ!
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، عكرمة لم يسمع من أم سلمة، وقد اختلف عليه فيه
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، قال: حدثنا ابو حمزة ، عن ابي صالح ، ان ام سلمة , رات نسيبا لها ينفخ إذا اراد ان يسجد، فقالت: لا تنفخ، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لغلام لنا يقال: له رباح:" ترب وجهك يا رباح" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَمْزَةَ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ , رَأَتْ نَسِيبًا لَهَا يَنْفُخُ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ، فَقَالَتْ: لَا تَنْفُخْ، فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِغُلَامٍ لَنَا يُقَالُ: لَهُ رَبَاحٌ:" تَرِّبْ وَجْهَكَ يَا رَبَاحُ" .
ابوصالح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا اسی دوارن وہاں ان کا ایک بھتیجا بھی آگیا اور اس نے ان کے گھر میں دو رکعتیں پڑھیں، دوران نماز جب وہ سجدہ میں جانے لگا تو اس نے مٹی اڑانے کے لئے پھونک ماری تو حضرت ام سلمہ نے اس سے فرمایا بھتیجے پھونکیں نہ مارو کیونکہ میں نے نبی علیہ السلا کو بھی ایک مرتبہ اپنے غلام جس کا نام یسار تھا اور اس نے بھی پھونک ماری تھی سے فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اپنے چہرے کو اللہ کے لئے خاک آلود ہونے دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى حمزة، وقد اختلف فى تعيين أبى صالح
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صبح کے وقت اختیاری طور پر غسل واجب ہوتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھ لیتے تھے اور ناغہ نہ کرتے تھے۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، قال: حدثنا علي بن زيد ، عن شهر بن حوشب ، عن ام سلمة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال لفاطمة:" ائتيني بزوجك وابنيك" , فجاءت بهم، فالقى عليهم كساء فدكيا، قال: ثم وضع يده عليهم، ثم قال: " اللهم إن هؤلاء آل محمد، فاجعل صلواتك وبركاتك على محمد وعلى آل محمد، إنك حميد مجيد" , قالت ام سلمة فرفعت الكساء لادخل معهم، فجذبه من يدي، وقال:" إنك على خير" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ لِفَاطِمَةَ:" ائْتِينِي بِزَوْجِكِ وَابْنَيْكِ" , فَجَاءَتْ بِهِمْ، فَأَلْقَى عَلَيْهِمْ كِسَاءً فَدَكِيًّا، قَالَ: ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُمَّ إِنَّ هَؤُلَاءِ آلُ مُحَمَّدٍ، فَاجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَبَرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ" , قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ فَرَفَعْتُ الْكِسَاءَ لِأَدْخُلَ مَعَهُمْ، فَجَذَبَهُ مِنْ يَدِي، وَقَالَ:" إِنَّكِ عَلَى خَيْرٍ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ اپنے شوہر اور بچوں کو بھی بلال اؤ چنانچہ حضرت علی اور حضرات حسنین بھی آگئے۔
نبی علیہ السلام نے فدک کی چادرلے کر ان سب پر ڈال دی اور اپنا ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اے اللہ یہ لوگ میرے اہل بیت ہیں تو محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرما بیشک تو قابل تعریف بزرگی والا ہے، اس پر میں نے اس کمرے میں اپنا سر داخل کرکے عرض کیا یا رسول اللہ میں بھی تو آپ کے ساتھ ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بھی خیر پر ہو، تم بھی خیر پر ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد وشهر بن حوشب
حدثنا عبد الله بن بكر ، قال: حدثنا حاتم بن ابي صغيرة ، عن المهاجر ابن القبطية ، عن ام سلمة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , انه قال: " ليخسفن بقوم يغزون هذا البيت ببيداء من الارض" , فقال رجل من القوم: يا رسول الله، وإن كان فيهم الكاره؟ قال:" يبعث كل رجل منهم على نيته" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ ، عَنْ الْمُهَاجِرِ ابْنِ الْقِبْطِيَّةِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ قَالَ: " لَيُخْسَفَنَّ بِقَوْمٍ يَغْزُونَ هَذَا الْبَيْتَ بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ" , فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنْ كَانَ فِيهِمْ الْكَارِهُ؟ قَالَ:" يُبْعَثُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ عَلَى نِيَّتِهِ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکرکا تذکرہ کیا جسے زمین میں دھنسا دیا جائے گا تو حضرت ام سلمہ نے عرض کیا کہ ہوسکتا ہے اس لشکر میں ایسے لوگ بھی ہوں جنہیں زبردستی اس میں شامل کرلیا گیا ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔
حدثنا يحيى بن ابي بكير , قال: حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي عبد الله الجدلي ، قال: دخلت على ام سلمة ، فقالت لي: ايسب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيكم؟ قلت: معاذ الله، او سبحان الله، او كلمة نحوها، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من سب عليا، فقد سبني" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ ، فَقَالَتْ لِي: أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ اللَّهِ، أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ سَبَّ عَلِيًّا، فَقَدْ سَبَّنِي" .
ابو عبداللہ جدلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کیا تمہاری موجودگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برابھلا کہا جارہا ہے؟ میں نے کہا معاذ اللہ! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو علی کو برا بھلا کہتا ہے وہ مجھے برا بھلا کہتا ہے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال پوچھا کہ کیا عورت مرد کے ساتھ غسل کرسکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں جبکہ وہ باشعور ہو (مراد بیوی ہونا ہے) میں نے وہ وقت دیکھا ہے کہ میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی ٹب سے غسل کرلیا کرتے تھے، پہلے ہم اپنے ہاتھوں پر پانی بہا کر انہیں اچھی طرح صاف کرتے تھے پھر اپنے جسم پر پانی بہا لیتے تھے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عام دنوں کی نسبت ہفتہ اور اتوار کے دن کثرت کے ساتھ روزے رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ مشرکین کی عید کے دن ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ان کے خلاف کروں۔