حدثنا عبد الرزاق , قال: حدثنا معمر , عن الزهري ، عن عروة , عن عائشة , قالت: جاءت هند إلى النبي صلى الله عليه وسلم , فقالت: يا رسول الله , ما كان على ظهر الارض خباء احب إلي ان يذلهم الله عز وجل من اهل خبائك , وما على ظهر الارض اليوم اهل خباء احب إلي ان يعزهم الله عز وجل من اهل خبائك , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وايضا والذي نفسي بيده" , ثم قالت: يا رسول الله، وإن ابا سفيان رجل ممسك , فهل علي حرج ان انفق على عياله من ماله بغير إذنه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا حرج عليك ان تنفقي عليهم بالمعروف" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: جَاءَتْ هِنْدٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ خِبَاءٌ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُذِلَّهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ , وَمَا عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ الْيَوْمَ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُعِزَّهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ" , ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وإِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مُمْسِكٌ , فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أُنْفِقَ عَلَى عِيَالِهِ مِنْ مَالِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَرَجَ عَلَيْكِ أَنْ تُنْفِقِي عَلَيْهِمْ بِالْمَعْرُوفِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہند بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! قبول اسلام سے پہلے روئے زمین پر آپ کے خیموں والوں سے زیادہ کسی کو ذلیل کرنا مجھے پسند نہ تھا اور اب آپ کے خیمے والوں سے زیادہ کسی کو عزت دینا مجھے پسند نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، بات اسی طرح ہے، پھر ہند نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابوسفیان مال خرچ کرنے میں ہاتھ تنگ رکھتے ہیں، اگر میں ان کے مال سے ان ہی کے بچوں پر ان کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ کرلیا کروں تو کیا مجھ پر گناہ ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھلے طریقے سے ان پر خرچ کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔