حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن الزهري , فذكر حديثا ثم، قال , قال: الزهري ، فاخبرني عروة , عن عائشة , انها قالت: اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم , وكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح , ثم حبب إليه الخلاء , فكان ياتي حراء , فيتحنث فيه , وهو التعبد الليالي ذوات العدد , ويتزود لذلك , ثم يرجع إلى خديجة فتزوده لمثلها , حتى فجئه الحق وهو في غار حراء , فجاءه الملك فيه , فقال: " اقرا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت:" ما انا بقارئ" قال:" فاخذني , فغطني حتى بلغ مني الجهد , ثم ارسلني , فقال: اقرا , فقلت:" ما انا بقارئ" فاخذني , فغطني الثانية , حتى بلغ مني الجهد , ثم ارسلني , فقال: اقرا , فقلت:" ما انا بقارئ" , فاخذني , فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد , ثم ارسلني , فقال: اقرا باسم ربك الذي خلق سورة العلق آية 1 , حتى بلغ ما لم يعلم سورة العلق آية 5 , قال: فرجع بها ترجف بوادره , حتى دخل على خديجة , فقال:" زملوني زملوني" , فزملوه حتى ذهب عنه الروع , فقال:" يا خديجة مالي؟" فاخبرها الخبر , قال:" وقد خشيت علي" , فقالت: له كلا ابشر , فوالله لا يخزيك الله ابدا , إنك لتصل الرحم , وتصدق الحديث , وتحمل الكل , وتقري الضيف , وتعين على نوائب الحق , ثم انطلقت به خديجة حتى اتت به ورقة بن نوفل بن اسد بن عبد العزى بن قصي , وهو ابن عم خديجة اخي ابيها , وكان امرا تنصر في الجاهلية , وكان يكتب الكتاب العربي , فكتب بالعربية من الإنجيل ما شاء الله ان يكتب , وكان شيخا كبيرا قد عمي , فقالت خديجة: اي ابن عم , اسمع من ابن اخيك , فقال ورقة ابن اخي , ما ترى؟ فاخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم ما راى , فقال ورقة: هذا الناموس الذي انزل على موسى عليه السلام , يا ليتني فيها جذعا , اكون حيا حين يخرجك قومك , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" او مخرجي هم" , فقال ورقة: نعم , لم يات رجل قط بما جئت به إلا عودي , وإن يدركني يومك , انصرك نصرا مؤزرا , ثم لم ينشب ورقة ان توفي , وفتر الوحي فترة حتى حزن رسول الله صلى الله عليه وسلم , فيما بلغنا حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رءوس شواهق الجبال , فكلما اوفى بذروة جبل لكي يلقي نفسه منه , تبدى له جبريل عليه السلام , فقال له: يا محمد إنك رسول الله حقا , فيسكن ذلك جاشه , وتقر نفسه عليه الصلاة والسلام , فيرجع , فإذا طالت عليه , وفتر الوحي , غدا لمثل ذلك , فإذا اوفى بذروة جبل , تبدى له جبريل عليه السلام , فقال له: مثل ذلك .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , فَذَكَرَ حَدِيثًا ثُمَّ، قَالَ , قَالَ: الزُّهْرِيُّ ، فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ , وَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ , ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ , فَكَانَ يَأْتِي حِرَاءَ , فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ , وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ , وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ , ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَتُزَوِّدُهُ لِمِثْلِهَا , حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءَ , فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فِيهِ , فَقَالَ: " اقْرَأْ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فقلت:" مَا أَنَا بِقَارِئٍ" قَالَ:" فَأَخَذَنِي , فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ , ثُمَّ أَرْسَلَنِي , فَقَالَ: اقْرَأْ , فَقُلْتُ:" مَا أَنَا بِقَارِئ" فَأَخَذَنِي , فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ , حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ , ثُمَّ أَرْسَلَنِي , فَقَالَ: اقْرَأْ , فَقُلْتُ:" مَا أَنَا بِقَارِئٍ" , فَأَخَذَنِي , فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ , ثُمَّ أَرْسَلَنِي , فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1 , حَتَّى بَلَغَ مَا لَمْ يَعْلَمْ سورة العلق آية 5 , قَالَ: فَرَجَعَ بِهَا تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ , حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ , فَقَالَ:" زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي" , فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ , فَقَالَ:" يَا خَدِيجَةُ مَالِي؟" فَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ , قَالَ:" وَقَدْ خَشِيتُ عَلَيَّ" , فَقَالَتْ: لَهُ كَلَّا أَبْشِرْ , فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا , إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ , وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ , وَتَحْمِلُ الْكَلَّ , وَتَقْرِي الضَّيْفَ , وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ , ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ , وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا , وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ , فَكَتَبَ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الْإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ , وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ , فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: أَيْ ابْنَ عَمِّ , اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ , فَقَالَ وَرَقَةُ ابْنَ أَخِي , مَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى , فَقَالَ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام , يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا , أَكُونَ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ" , فَقَالَ وَرَقَةُ: نَعَمْ , لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ , وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ , أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا , ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ , وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ , فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ نَفْسَهُ مِنْهُ , تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , فَقَالَ لَهُ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا , فَيُسْكِنُ ذَلِكَ جَأْشَهُ , وَتَقَرُّ نَفْسُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ , فَيَرْجِعُ , فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ , وَفَتَرَ الْوَحْيُ , غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ , فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ , تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , فَقَالَ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ .
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اول سچی خوابوں سے وحی کا نزول شروع ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب دیکھتے وہ بالکل صبح روشن کی طرح ٹھیک پڑتا تھا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم خلوت پسند ہوگئے تھے اور غار حرا میں جا کر گوشہ گیری اختیار کرلی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی روز تک وہیں پر عبادت میں مشغول رہتے تھے، اسی اثناء میں گھر پر بالکل نہ آتے تھے لیکن جس وقت کھانے پینے کا سامان ختم ہوجاتا تھا تو پھر اتنے ہی دنوں کا کھانا لے کر چلتے تھے، آخر کار اسی غار حرا میں نزول وحی ہوا۔ ایک فرشتہ نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا پڑھئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں) یہ سن کر اس فرشتہ نے مجھ کو پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں بےطاقت ہوگیا، پھر اس فرشتہ نے مجھ کو چھوڑ کر کہا پڑھئے! میں نے کہا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس نے دوبارہ مجھ کو پکڑ کر اس قدر دبوچا کہ مجھ میں طاقت نہیں رہی اور پھر چھوڑ کر مجھ سے کہا پڑھئے میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ تیسری بار اس نے مجھ کو اس قدر زور سے دبایا کہ میں بےبس ہوگیا اور آخر کار مجھ کو چھوڑ کر کہا! کہ " پڑھ " اپنے رب کے نام کی برکت سے جس نے (ہر شئ کو) پیدا کیا (اور) انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا پڑھ اور تیرا رب بڑے کرم والا ہے "۔ (ام المومنین فرماتی ہیں) آپ یہ بات پڑھتے ہوئے گھر تشریف لائے تو اس وقت آپ کا دل دھڑک رہا تھا، چنانچہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر آپ نے فرمایا مجھے کمبل اڑھاؤ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو کپڑا اوڑھایا، جب آپ کی بےقراری دور ہوئی اور دل ٹھکانے ہوا تو ساری کیفیت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے بیان فرمائی اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ کی قسم! یہ ہرگز نہیں ہوسکتا، آپ کو بالکل فکر نہ کرنی چاہیے، خدائے تعالیٰ آپ کو ضائع نہ کرے گا کیونکہ آپ تو برادر پرور ہیں محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، کمزوروں کا کام کرتے ہیں، مہمان نوازی فرماتے ہیں اور جائز ضرورتوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ نے دور جاہلیت میں عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا اور انجیل کا (سریانی زبان سے) عبرانی میں ترجمہ کر کے لکھا کرتے تھے، بہت ضعیف العمر اور نابینا بھی تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے اس کے پاس پہنچ کر کہا ابن عم ذرا اپنے بھتیجے کی حالت تو سنئے! ورقہ بولا کیوں بھتیجے کیا کیفیت ہے؟ آپ نے جو کچھ دیکھا تھا ورقہ سے بیان کردیا جب ورقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سب حال سن چکے تو بولے یہ فرشتہ وہی ناموس ہے، جس کو خدائے تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا کاش! میں عہد نبوت میں جوان ہوتا کاش! میں اس زمانہ میں زندہ ہوتا جب کہ آپ کو قوم والے (وطن سے) نکالیں گے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ بولے جی ہاں! جو شخص بھی آپ کی طرح دین الٰہی لایا ہے اس سے عداوت کی گئی ہے، اگر میں آپ کے عہد نبوت میں موجود ہوا تو کافی امداد کروں گا، لیکن اس کے کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا اور سلسلہ وحی بند گیا، فترتِ وحی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ کئی مرتبہ پہاڑ کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو نیچے گرانے کا ارادہ کیا، لیکن جب بھی وہ اس ارادے سے کسی پہاڑی کی چوٹی پر پہنچتے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سامنے آجاتے اور عرض کرتے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ کے برحق رسول ہیں، اسے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جوش ٹھنڈا اور دل پر سکون ہوجاتا تھا اور وہ واپس آجاتے، پھر جب زیادہ عرصہ گذر جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر اسی طرح کرتے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام انہیں تسلی دیتے تھے۔