حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو زبیر گھر میں لاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔
حدثنا سفيان ، عن هشام ، عن ابيه ، عن امه ، , قالت: اتتني امي راغبة في عهد قريش، وهي مشركة، فسالت رسول الله صلى الله عليه وسلم اصلها؟ قال:" نعم" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أُمِّهِ ، , قَالَتْ: أَتَتْنِي أُمِّي رَاغِبَةً فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ، وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصِلُهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی اس وقت وہ مشرک تھیں۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حدثنا حسن ، قال: حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثنا ابو الاسود ، انه سمع عروة يحدث، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: قدمت امي وهي مشركة في عهد قريش إذ عاهدوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستفتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: امي قدمت وهي راغبة، افاصلها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نعم، صلي امك" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: قَدِمَتْ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أُمِّي قَدِمَتْ وَهِيَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ، صِلِي أُمَّكِ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2620، م: 1003، وهذا إسناد ضعيف، ابن لهيعة سيء الحفظ، وقد توبع
حدثنا عبد الله بن إدريس ، قال: حدثنا ابن إسحاق ، عن يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن ابيه , ان اسماء بنت ابي بكر، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حجاجا، حتى إذا كنا بالعرج، نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجلست عائشة إلى جنب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجلست إلى جنب ابي، وكانت زمالة رسول الله صلى الله عليه وسلم وزمالة ابي بكر واحدة مع غلام ابي بكر، فجلس ابو بكر ينتظره ان يطلع عليه، فطلع، وليس معه بعيره، فقال , اين بعيرك؟ قال: قد اضللته البارحة، فقال ابو بكر: بعير واحد تضله، فطفق يضربه ورسول الله صلى الله عليه وسلم يتبسم، ويقول: " انظروا إلى هذا المحرم وما يصنع" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجَّاجًا، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعَرْجِ، نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَتْ عَائِشَةُ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَلَسْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي، وَكَانَتْ زِمَالَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزِمَالَةُ أَبِي بَكْرٍ وَاحِدَةً مَعَ غُلَامِ أَبِي بَكْرٍ، فَجَلَسَ أَبُو بَكْرٍ يَنْتَظِرُهُ أَنْ يَطْلُعَ عَلَيْهِ، فَطَلَعَ، وَلَيْسَ مَعَهُ بَعِيرُهُ، فَقَالَ , أَيْنَ بَعِيرُكَ؟ قَالَ: قَدْ أَضْلَلْتُهُ الْبَارِحَةَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَعِيرٌ وَاحِدٌ تُضِلُّهُ، فَطَفِقَ يَضْرِبُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَسَّمُ، وَيَقُولُ: " انْظُرُوا إِلَى هَذَا الْمُحْرِمِ وَمَا يَصْنَعُ" .
حضرت اسماء بنت ابی بکر سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے ارادے سے روانہ ہوئے مقام عروج پر پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ ڈال دیا، حضرت عائشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئیں اور میں اپنی والد کے پہلو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کی سواری ایک ہی تھی اور وہ حضرت صدیق اکبر کے غلام کے پاس تھی حضرت ابوبکر اپنے غلام کے آنے کا انتظار کر رہے تھے، لیکن جب وہ آیا تو اس کے ساتھ اونٹ نہیں تھا، حضرت ابوبکر نے اس سے پوچھا کہ تمہارا اونٹ کہاں گیا؟ اس نے کہا کہ وہ مجھ سے رات کو گم ہوگیا ہے، حضرت صدیق اکبرنے فرمایا ایک اونٹ تھا اور وہ بھی تم نے گم کردیا؟ اور اسے مارنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر مسکراتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اس محرم کو دیکھو یہ کیا کر رہا ہے؟۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، وهو مدلس
حدثنا محمد بن فضيل ، قال: حدثنا يزيد يعني ابن ابي زياد ، عن مجاهد ، قال: قال عبد الله بن الزبير: افردوا بالحج، ودعوا قول هذا يعني ابن عباس، فقال ابن العباس: الا تسال امك عن هذا؟ فارسل إليها، فقالت: صدق ابن عباس ، خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حجاجا، فامرنا، فجعلناها عمرة، فحل لنا الحلال، حتى سطعت المجامر بين النساء والرجال" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ: أَفْرِدُوا بِالْحَجِّ، وَدَعُوا قَوْلَ هَذَا يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ الْعَبَّاسِ: أَلَا تَسْأَلُ أُمَّكَ عَنْ هَذَا؟ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ: صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجَّاجًا، فَأَمَرَنَا، فَجَعَلْنَاهَا عُمْرَةً، فَحَلَّ لَنَا الْحَلَالُ، حَتَّى سَطَعَتْ الْمَجَامِرُ بَيْنَ النِّسَاءِ وَالرِّجَالِ" .
مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں حج افراد کیا کرو اور ابن عباس کی بات چھوڑ دو، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آپ اپنی والدہ سے کیوں نہیں پوچھ لیتے چنانچہ انہوں نے ایک قاصد حضرت اسماء کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا ابن عباس سچ کہتے ہیں، ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تو ہم نے اسے عمرے کا احرام بنا لیا اور ہمارے لئے تمام چیزیں حسب سابق حلال ہوگئیں حتی کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان انگیٹھیاں بھی دہکائی گئیں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا هشام بن عروة ، عن فاطمة بنت المنذر ، عن اسماء ، قالت: اتت النبي صلى الله عليه وسلم امراة، فقالت: يا رسول الله، إن لي ابنة عريسا، وإنه اصابتها حصبة، فتمرق شعرها، افاصله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لعن الله الواصلة والمستوصلة" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي ابْنَةً عَرِيسًا، وَإِنَّهُ أَصَابَتْهَا حَصْبَةٌ، فَتَمَرَّقَ شَعْرُهَا، أَفَأَصِلُهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یہ بیمار ہوگئی ہے اور اس کے سرکے بال جھڑ رہے ہیں کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگوا سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا هشام بن عروة ، عن فاطمة بنت المنذر ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: اتت النبي صلى الله عليه وسلم امراة، فقالت: يا رسول الله، المراة يصيبها من دم حيضها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لتحته، ثم لتقرضه بماء، ثم لتصلي فيه" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْمَرْأَةُ يُصِيبُهَا مِنْ دَمِ حَيْضِهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِتَحُتَّهُ، ثُمَّ لِتَقْرِضْهُ بِمَاءٍ، ثُمَّ لِتُصَلِّي فِيهِ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ اگر کسی عورت کے جسم (یاکپڑوں) پر دم حیض لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کھرچ دے پھر پانی سے بہادے اور اسی میں نماز پڑھ لے۔
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا هشام بن عروة ، عن فاطمة بنت المنذر ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: جاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم امراة، فقالت: يا رسول الله، إني على ضرة، فهل علي جناح ان اتشبع من زوجي بما لم يعطني؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المتشبع بما لم يعط، كلابس ثوبي زور" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي عَلَى ضَرَّةٍ، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ أَتَشَبَّعَ مِنْ زَوْجِي بِمَا لَمْ يُعْطِنِي؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ، كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میری ایک سوکن ہے اگر مجھے میرے خاوند نے کوئی چیز نہ دی ہو لیکن میں یہ ظاہر کروں کہ اس نے مجھے فلاں چیز سے سیراب کردیا ہے، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے آپ کو ایسی چیز سے سیراب ہونیوالا ظاہر کرنا جو اسے نہیں ملی وہ ایسے ہے جیسے جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والا۔
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کر دینا شروع کردے گا۔
حدثنا ابن نمير ، قال: حدثنا هشام ، عن فاطمة ، عن اسماء ، قالت: خسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم , فدخلت على عائشة، فقلت: ما شان الناس يصلون؟ فاشارت براسها إلى السماء، فقلت: آية؟ قالت: نعم، فاطال رسول الله صلى الله عليه وسلم القيام جدا حتى تجلاني الغشي، فاخذت قربة إلى جنبي، فاخذت اصب على راسي الماء، فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد تجلت الشمس، فخطب رسول الله صلى الله عليه وسلم فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال:" اما بعد، ما من شيء لم اكن رايته , إلا قد رايته في مقامي هذا، حتى الجنة والنار، إنه قد اوحي إلي انكم تفتنون في القبور قريبا او مثل فتنة المسيح الدجال لا ادري اي ذلك قالت اسماء يؤتى احدكم، فيقال: ما علمك بهذا الرجل؟ فاما المؤمن او الموقن، لا ادري اي ذلك قالت اسماء , فيقول: هو محمد , هو رسول الله، جاءنا بالبينات والهدى، فاجبنا واتبعنا ثلاث مرار , فيقال له: قد كنا نعلم ان كنت لتؤمن به، فنم صالحا، واما المنافق او المرتاب، لا يدري اي ذلك قالت اسماء , فيقول: ما ادري، سمعت الناس يقولون شيئا فقلت" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: خَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ يُصَلُّونَ؟ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَطَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِيَامَ جِدًّا حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ، فَأَخَذْتُ قِرْبَةً إِلَى جَنْبِي، فَأَخَذْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي الْمَاءَ، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ رَأَيْتُهُ , إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا، حَتَّى الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، إِنَّهُ قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا أَوْ مِثْلَ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ يُؤْتَى أَحَدُكُمْ، فَيُقَالُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوْ الْمُوقِنُ، لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ , فَيَقُولُ: هُوَ مُحَمَّدٌ , هُوَ رَسُولُ اللَّهِ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى، فَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا ثَلَاثَ مِرَارٍ , فَيُقَالُ لَهُ: قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنْ كُنْتَ لَتُؤْمِنُ بِهِ، فَنَمْ صَالِحًا، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوْ الْمُرْتَابُ، لَا يَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ , فَيَقُولُ: مَا أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوگیا، اس دن میں حضرت عائشہ کے یہاں گئی، تو ان سے پوچھا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس وقت نماز پڑھ رہے ہیں؟ انہوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کردیا میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا حتی کہ مجھ پر غشی طاری ہوگئی، میں نے اپنے پہلو میں رکھے ہوئے ایک مشکیزے کو پکڑا اور اس سے اپنے سر پر پانی بہانے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے جب سلام پھیرا تو سورج گرہن ختم ہوچکا تھا۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اللہ کی حمد وثناء کرنے کے بعد فرمایا حمد وصلوۃ کے بعد! اب تک میں نے جو چیزیں نہیں دیکھی تھیں وہ اپنے اس مقام پر آج دیکھ لیں حتی کہ جنت اور جہنم کو بھی دیکھ لیا مجھے یہ وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو اپنی قبروں میں مسح دجال کے برابریا اس کے قریب قریب فتنے میں مبتلا کیا جائے گا تمہارے پاس فرشتے آئیں گے اور پوچھیں گے کہ اس آدمی کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ تو جو مؤمن ہوگا وہ جواب دے گا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ہمارے پاس واضح معجزات اور ہدایت لے کر آئے ہم نے ان کی پکار پر لبک کہا اور ان کی اتباع کی (تین مرتبہ) اس سے کہا جائے گا ہم جانتے تھے کہ تو اس پر ایمان رکھتا ہے لہذا سکون کے ساتھ سو جاؤ! اور جو منافق ہوگا تو وہ کہے گا میں نہیں جانتا میں لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنتا تھا وہی میں بھی کہہ دیتا تھا۔
حدثنا ابن نمير , عن هشام , عن فاطمة بنت المنذر ، عن اسماء ، قالت: إنها كانت إذا اتيت بالمراة لتدعو لها، صبت الماء بينها وبين جيبها، وقالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم: " امرنا ان نبردها بالماء، وقال:" إنها من فيح جهنم" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , عَنْ هِشَامٍ , عَنْ فَاطِمَةَ بنت المنذر ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: إِنَّهَا كَانَتْ إِذَا أُتِيَتْ بِالْمَرْأَةِ لِتَدْعُوَ لَهَا، صَبَّتْ الْمَاءَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ جَيْبِهَا، وَقَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَنَا أَنْ نُبْرِدَهَا بِالْمَاءِ، وَقَالَ:" إِنَّهَا مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ" .
حضرت اسماء کے حوالے سے مروی ہے کہ جب ان کے پاس کسی عورت کو دعا کے لئے لایا جاتا تو وہ اس کے گریبان میں (دم کرکے) پانی ڈالتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ بخار کو پانی سے ٹھنڈا کیا کریں اور فرمایا ہے کہ بخار جہنم کی تپش کا اثرہوتا ہے
حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن فاطمة ، عن اسماء ، قالت: " افطرنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم غيم في رمضان، ثم طلعت الشمس" , قلت لهشام: امروا بالقضاء؟ قال: وبد من ذاك.حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: " أَفْطَرْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ غَيْمٍ فِي رَمَضَانَ، ثُمَّ طَلَعَتْ الشَّمْسُ" , قُلْتُ لِهِشَامٍ: أُمِرُوا بِالْقَضَاءِ؟ قَالَ: وَبُدٌّ مِنْ ذَاكَ.
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے ماہ رمضان کے ایک ابرآلود دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں روزہ ختم کردیا تھا پھر سورج روشن ہوگیا (بعد میں جس کی قضاء کرلی گئی تھی)
حدثنا حدثنا ابو اسامة ، قال: حدثنا هشام ، عن ابيه , وفاطمة بنت المنذر , عن اسماء ، قالت: صنعت سفرة رسول الله صلى الله عليه وسلم , في بيت ابي بكر حين اراد ان يهاجر , قالت: فلم نجد لسفرته ولا لسقائه ما نربطهما به , قالت: فقلت لابي بكر: والله ما اجد شيئا اربطه به إلا نطاقي , قال: فقال شقيه باثنين، فاربطي بواحد السقاء، والآخر السفرة، فلذلك سميت: ذات النطاقين" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ , وَفَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ , عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: صَنَعْتُ سُفْرَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ حِينَ أَرَادَ أَنْ يُهَاجِرَ , قَالَتْ: فَلَمْ نَجِدْ لِسُفْرَتِهِ وَلَا لِسِقَائِهِ مَا نَرْبِطُهُمَا بِهِ , قَالَتْ: فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ: وَاللَّهِ مَا أَجِدُ شَيْئًا أَرْبِطُهُ بِهِ إِلَّا نِطَاقِي , قَالَ: فَقَالَ شُقِّيهِ بِاثْنَيْنِ، فَارْبِطِي بِوَاحِدٍ السِّقَاءَ، وَالْآخَرِ السُّفْرَةَ، فَلِذَلِكَ سُمِّيَتْ: ذَاتَ النِّطَاقَيْنِ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا ارادہ کیا تو حضرت صدیق اکبر کے گھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سامان سفر میں نے تیار کیا تھا، مجھے سامان سفر اور مشکیزے کا منہ باندھنا تھا لیکن اس کے لئے مجھے کوئی چیز نہ مل سکی، میں نے حضرت صدیق اکبر سے عرض کیا کہ مجھے اپنے کمربند کے علاوہ کوئی چیز سامان سفرباندھنے کے لئے نہیں مل رہی، انہوں نے فرمایا اسے دو ٹکڑے کردو اور ایک ٹکڑے سے مشکیزے کا منہ باندھ دو اور دوسرے سے سامان سفر، اسی وجہ سے میرا نام " ذات النطاقین " پڑگیا۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن هشام ، قال: حدثتني فاطمة ، عن اسماء , ان امراة , قالت: يا رسول الله، إن لي ضرة، فهل علي جناح إن تشبعت من زوجي بغير الذي يعطيني؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المتشبع بما لم يعط، كلابس ثوبي زور" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ ، عَنْ أَسْمَاءَ , أَنَّ امْرَأَةً , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي ضَرَّةً، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ إِنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِي بِغَيْرِ الَّذِي يُعْطِينِي؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ، كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میری ایک سوکن ہے اگر مجھے میرے خاوند نے کوئی چیز نہ دی ہو لیکن میں یہ ظاہر کروں کہ اس نے مجھے فلاں چیز سے سیراب کردیا ہے، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے آپ کو ایسی چیز سے سیراب ہونیوالا ظاہر کرنا جو اسے نہیں ملی وہ ایسے ہے جیسے جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والا۔
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یہ بیمار ہوگئی ہے اور اس کے سرکے بال جھڑ رہے ہیں، کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگواسکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ اگر کسی عورت کے جسم (یاکپڑوں) پر دم حیض لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کھرچ دے پھر پانی سے بہادے اور اسی میں نماز پڑھ لے۔
حدثنا ابن نمير ، عن هشام ، عن فاطمة ، عن اسماء , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لها: " انفقي او ارضخي ولا تحصي، فيحصي الله عليك، ولا توعي، فيوعي الله عليك" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا: " أَنْفِقِي أَوْ ارْضَخِي وَلَا تُحْصِي، فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ، وَلَا تُوعِي، فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کر دینا شروع کردے گا۔
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کر دینا شروع کردے گا۔
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں گندم کے دو مد صدقہ فطر کے طور پر ادا کرتے تھے اس مد کی پیمائش کے مطابق جس سے تم پیمائش کرتے ہو۔
حدثنا ابو اسامة ، قال: حدثنا هشام بن عروة ، قال: اخبرني ابي ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: تزوجني الزبير، وما له في الارض من مال ولا مملوك، ولا شيء غير فرسه , قالت: فكنت اعلف فرسه، واكفيه مئونته، واسوسه، وادق النوى لناضحه، اعلب، واستقي الماء، واخرز غربه، واعجن، ولم اكن احسن اخبز، فكان يخبز لي جارات من الانصار، وكن نسوة صدق، وكنت انقل النوى من ارض الزبير التي اقطعه رسول الله صلى الله عليه وسلم على راسي، وهي مني على ثلثي فرسخ , قالت: فجئت يوما والنوى على راسي، فلقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه نفر من اصحابه، فدعاني , ثم قال:" إخ إخ"، ليحملني خلفه , قالت: فاستحيت ان اسير مع الرجال، وذكرت الزبير وغيرته، قالت: وكان اغير الناس، فعرف رسول الله صلى الله عليه وسلم اني قد استحيت، فمضى، وجئت الزبير، فقلت: لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلى راسي النوى، ومعه نفر من اصحابه، فاناخ لاركب معه، فاستحيت، وعرفت غيرتك، فقال: والله لحملك النوى اشد علي من ركوبك معه , قالت: حتى ارسل إلي ابو بكر بعد ذلك بخادم، فكفتني سياسة الفرس، فكانما اعتقني .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي الزُّبَيْرُ، وَمَا لَهُ فِي الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلَا مَمْلُوكٍ، وَلَا شَيْءٍ غَيْرَ فَرَسِهِ , قَالَتْ: فَكُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَهُ، وَأَكْفِيهِ مَئُونَتَهُ، وَأَسُوسُهُ، وَأَدُقُّ النَّوَى لِنَاضِحِهِ، أَعْلِبُ، وَأَسْتَقِي الْمَاءَ، وَأَخْرُزُ غَرْبَهُ، وَأَعْجِنُ، وَلَمْ أَكُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ، فَكَانَ يَخْبِزُ لِي جَارَاتٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَكُنَّ نِسْوَةَ صِدْقٍ، وَكُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَى مِنْ أَرْضِ الزُّبَيْرِ الَّتِي أَقْطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِي، وَهِيَ مِنِّي عَلَى ثُلُثَيْ فَرْسَخٍ , قَالَتْ: فَجِئْتُ يَوْمًا وَالنَّوَى عَلَى رَأْسِي، فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَدَعَانِي , ثُمَّ قَالَ:" إِخْ إِخْ"، لِيَحْمِلَنِي خَلْفَهُ , قَالَتْ: فَاسْتَحَيْتُ أَنْ أَسِيرَ مَعَ الرِّجَالِ، وَذَكَرْتُ الزُّبَيْرَ وَغَيْرَتَهُ، قَالَتْ: وَكَانَ أَغْيَرَ النَّاسِ، فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي قَدْ اسْتَحَيْتُ، فَمَضَى، وَجِئْتُ الزُّبَيْرَ، فَقُلْتُ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى رَأْسِي النَّوَى، وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأَنَاخَ لِأَرْكَبَ مَعَهُ، فَاسْتَحَيْتُ، وَعَرَفْتُ غَيْرَتَكَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَحَمْلُكِ النَّوَى أَشَدُّ عَلَيَّ مِنْ رُكُوبِكِ مَعَهُ , قَالَتْ: حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ بِخَادِمٍ، فَكَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ، فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَنِي .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس وقت حضرت زبیر سے میرا نکاح ہوا روئے زمین پر ان کے گھوڑے کے علاوہ کوئی مال یا غلام یا کوئی اور چیز ان کی ملکیت میں نہ تھی میں ان کے گھوڑے کا چارہ تیار کرتی تھی اس کی ضروریات مہیا کرتی تھی اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھی اسی طرح ان کے اونٹ کے لئے گٹھلیاں کو ٹتی تھی اس کا چارہ بناتی تھی، اسے پانی پلاتی تھی، ان کے ڈول کو سیتی تھی، آٹاگوندھتی تھی، میں روٹی اچھی طرح نہیں پکا سکتی تھی، اس لئے میری کچھ انصاری پڑوسی خواتین مجھے روٹی پکا دیتی تھیں، وہ سچی سہیلیاں تھیں، یاد رہے کہ میں گٹھلیاں حضرت زبیر کی اس زمین سے لایا کرتی تھی جو بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطور جاگیر کے دیدی تھی، میں نے انہیں اپنے سر پر رکھا ہوتا تھا اور وہ زمین ہمارے گھر سے ایک فرسخ کے دوتہائی کے قریب بنتی تھی۔ ایک دن میں وہاں سے آرہی تھی اور گٹھلیوں کی گٹھڑی میرے سر پر تھی کہ راستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوگئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ صحابہ بھی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارا اور مجھے اپنے پیچھے سوار کرنے کے لئے اونٹ کو بٹھانے لگے لیکن مجھے مردوں کے ساتھ جاتے ہوئے شرم آئی اور مجھے زبیر اور ان کی غیرت یاد آگئی کیونکہ وہ بڑے باغیرت آدمی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھانپ گئے کہ مجھے شرم آرہی ہے لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے چل پڑے، میں گھر پہنچی تو زبیر سے ذکر کیا کہ آج مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ملے تھے، میرے سر پر کھجوروں کی گٹھلیاں تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ صحابہ بھی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ کو بٹھایا تاکہ میں اس پر سوار ہوجاؤں لیکن مجھے حیاء آئی اور آپ کی غیرت کا بھی خیال آیا، انہوں نے فرمایا واللہ تمہارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہونے کی نسبت گٹھلیاں لاد کر لانا مجھ پر اس سے زیادہ شاق گزرتا ہے بالآخر حضرت صدیق اکبر نے اس کے کچھ ہی عرصے بعد میرے پاس ایک خادم بھیج دیا اور گھوڑے کی دیکھ بھال سے میں بری الذمہ ہوگئی اور ایسا لگا کہ جیسے انہوں نے مجھے آزاد کردیا ہو۔
حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن ابيه ، عن اسماء ، انها حملت بعبد الله بن الزبير بمكة، قالت: فخرجت وانا متم، فاتيت المدينة، فنزلت بقباء، فولدته بقباء، ثم اتيت به النبي صلى الله عليه وسلم،" فوضعته في حجره، ثم دعا بتمرة، فمضغها، ثم تفل في فيه، فكان اول ما دخل في جوفه ريق رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: ثم حنكه بتمرة، ثم دعا له، وبرك عليه، وكان اول مولود ولد في الإسلام" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بِمَكَّةَ، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَنَزَلْتُ بِقُبَاءَ، فَوَلَدْتُهُ بِقُبَاءَ، ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَوَضَعْتُهُ فِي حِجْرِهِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ، فَمَضَغَهَا، ثُمَّ تَفَلَ فِي فِيهِ، فَكَانَ أَوَّلَ مَا دَخَلَ فِي جَوْفِهِ رِيقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: ثُمَّ حَنَّكَهُ بِتَمْرَةٍ، ثُمَّ دَعَا لَهُ، وَبَرَّكَ عَلَيْهِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الْإِسْلَامِ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ انہیں مکہ مکرمہ میں عبداللہ بن زبیر کی ولادت کی امید ہوگئی تھی، وہ کہتی ہیں کہ جب میں مکہ مکرمہ سے نکلی تو پورے دنوں سے تھی، مدینہ منورہ پہنچ کر میں نے قباء میں قیام کیا تو وہیں عبداللہ کو جنم دیا، پھر انہیں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان کی گود میں انہیں ڈال دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور منگوا کر اسے چبایا اور اپنا لعاب ان کے منہ میں ڈال دیا اس طرح ان کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز داخل ہوئی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھجور سے گھٹی دی اور ان کے لئے برکت کی دعاء فرمائی اور یہ پہلا بچہ تھا جو مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے یہاں پیدا ہوا۔
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک اور ضرورت مند تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔
حدثنا ابن نمير ، قال: حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: قدمت علي امي وهي مشركة في عهد قريش إذ عاهدوا، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن امي قدمت وهي راغبة، افاصلها؟ قال: " نعم، صلي امك" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ إِذْ عَاهَدُوا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ وَهِيَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ: " نَعَمْ، صِلِي أُمَّكِ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک اور ضرورت مند تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج ، قال: اخبرنا عبد الله مولى اسماء، عن اسماء , انها نزلت عند دار المزدلفة، فقالت: اي بني، هل غاب القمر ليلة جمع وهي تصلي؟ قلت: لا، فصلت ساعة، ثم قالت: اي بني، هل غاب القمر؟ قال: وقد غاب القمر، قلت: نعم , قالت: فارتحلوا , فارتحلنا، ثم مضينا بها حتى رمينا الجمرة، ثم رجعت، فصلت الصبح في منزلها، فقلت لها اي هنتاه، لقد غلسنا , قالت: كلا يا بني، إن نبي الله صلى الله عليه وسلم: " اذن للظعن" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِا عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ، عَنْ أَسْمَاءَ , أَنَّهَا نَزَلَتْ عِنْدَ دَارِ الْمُزْدَلِفَةِ، فَقَالَتْ: أَيْ بُنَيَّ، هَلْ غَابَ الْقَمَرُ لَيْلَةَ جَمْعٍ وَهِيَ تُصَلِّي؟ قُلْتُ: لَا، فَصَلَّتْ سَاعَةً، ثُمّ قَالَتْ: أَيْ بُنَيَّ، هَلْ غَابَ الْقَمَرُ؟ قَالَ: وَقَدْ غَابَ الْقَمَرُ، قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَتْ: فَارْتَحِلُوا , فَارْتَحَلْنَا، ثُمَّ مَضَيْنَا بِهَا حَتَّى رَمَيْنَا الْجَمْرَةَ، ثُمَّ رَجَعَتْ، فَصَلَّتْ الصُّبْحَ فِي مَنْزِلِهَا، فَقُلْتُ لَهَا أَيْ هَنْتَاهُ، لَقَدْ غَلَّسْنَا , قَالَتْ: كَلَّا يَا بُنَيَّ، إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَذِنَ لِلظُّعُنِ" .
عبداللہ جو حضرت اسماء کے آزاد کردہ غلام ہیں سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے دار مزدلفہ کے قریب پڑاؤ کیا اور پوچھا کہ بیٹا کیا چاند غروب ہوگیا یہ مزدلفہ کی رات تھی اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے کہا ابھی نہیں وہ کچھ دیرتک مزید نماز پڑھتی رہیں پھر پوچھا بیٹاچاند چھپ گیا؟ اس وقت تک چاند غائب ہوچکا تھا لہذا میں نے کہہ دیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا پھر کوچ کرو چنانچہ ہم لوگ وہاں سے روانہ ہوگئے اور منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ کی رمی کی اور اپنے خیمے میں پہنچ کر فجر کی نماز ادا کی میں نے ان سے عرض کیا کہ ہم تو منہ اندھیرے ہی مزدلفہ سے نکل آئے، انہوں نے فرمایا ہرگز نہیں بیٹے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو جلدی چلے جانے کی اجازت دی ہے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عبد الملك ، قال: حدثنا عبد الله مولى اسماء، عن اسماء ، قال: اخرجت إلي جبة طيالسة، عليها لبنة شبر من ديباج كسرواني، وفرجاها مكفوفان به، قالت: " هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يلبسها، كانت عند عائشة، فلما قبضت عائشة، قبضتها إلي، فنحن نغسلها للمريض منا، يستشفي بها" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَ: أَخْرَجَتْ إِلَيَّ جُبَّةً طَيَالِسَةً، عَلَيْهَا لَبِنَةُ شَبْرٍ مِنْ دِيبَاجٍ كِسْرَوَانِيٍّ، وَفَرْجَاهَا مَكْفُوفَانِ بِهِ، قَالَتْ: " هَذِهِ جُبَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَلْبَسُهَا، كَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَلَمَّا قُبِضَتْ عَائِشَةُ، قَبَضْتُهَا إِلَيَّ، فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرِيضِ مِنَّا، يَسْتَشْفِي بِهَا" .
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں اور اس کے دونوں کف ریشم کے بنے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیب تن فرمایا کرتے تھے اور یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا حضرت عائشہ کے وصال کے بعد یہ میرے پاس آگیا اور ہم لوگ اپنے میں سے کسی کے بیمار ہونے پر اسے دھو کر اس کے ذریعے شفاء حاصل کرتے ہیں۔
حدثنا يزيد بن هارون ، عن حجاج ، عن ابي عمر مولى اسماء , قال: " اخرجت إلينا اسماء جبة مزرورة بالديباج، فقالت: في هذه كان يلقى رسول الله صلى الله عليه وسلم العدو" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِي عُمَرَ مَوْلَى أَسْمَاءَ , قَالَ: " أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا أَسْمَاءُ جُبَّةً مَزْرُورَةً بِالدِّيبَاجِ، فَقَالَتْ: فِي هَذِهِ كَانَ يَلْقَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَدُوَّ" .
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دشمن سے سامنا ہونے پر زیب تن فرمایا کرتے تھے۔
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیب تن فرمایا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على عبدالملك بن أبى سليمان
حدثنا روح ، حدثنا شعبة ، عن مسلم القري ، قال: سالت ابن عباس , عن متعة الحج، فرخص فيها، وكان ابن الزبير ينهى عنها، فقال: هذه ام ابن الزبير تحدث , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رخص فيها، فادخلوا عليها فاسالوها , قال: فدخلنا عليها، فإذا امراة ضخمة عمياء، فقالت:" قد رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْقُرِّيِّ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ , عَنْ مُتْعَةِ الْحَجِّ، فَرَخَّصَ فِيهَا، وَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَنْهَى عَنْهَا، فَقَالَ: هَذِهِ أُمُّ ابْنِ الزُّبَيْرِ تُحَدِّثُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِيهَا، فَادْخُلُوا عَلَيْهَا فَاسْأَلُوهَا , قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا، فَإِذَا امْرَأَةٌ ضَخْمَةٌ عَمْيَاءُ، فَقَالَتْ:" قَدْ رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا" .
مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حج تمتع کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی اجازت دی جبکہ حضرت ابن زبیر اس سے منع فرماتے تھے جضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ابن زبیر کی والدہ ہی بتاتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے تم جا کر ان سے پوچھ لو ہم ان کے پاس چلے گئے، وہ بھاری جسم کی نابینا عورت تھیں اور انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے۔
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدے سے اپنا سر اس وقت تک نہ اٹھایا کرے جب تک ہم مرد اپنا سر نہ اٹھالیں، دراصل مردوں کے تہبند چھوٹے ہوتے تھے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ خواتین کی نگاہ مردوں کی شرمگاہ پر نہ پڑیں اور اس زمانے میں لوگوں کا تہبند یہ چادریں ہوتی تھیں۔ (شلواریں نہیں ہوتی تھیں)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لابهام مولاة أسماء، وقد اختلف على عبدالله بن مسلم فيه
حدثنا إبراهيم بن خالد ، قال: حدثنا رباح ، عن معمر ، عن الزهري ، عن بعضهم ، عن مولاة لاسماء ، عن اسماء , انها قالت: كان المسلمون ذوي حاجة ياتزرون بهذه النمرة، فكانت إنما تبلغ انصاف سوقهم، او نحو ذلك، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر يعني النساء فلا ترفع راسها حتى نرفع رءوسنا" , كراهية ان تنظر إلى عورات الرجال من صغر ازرهم.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَبَاحٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ بَعْضِهِمْ ، عَنْ مَوْلَاةٍ لِأَسْمَاءَ ، عَنْ أَسْمَاءَ , أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ الْمُسْلِمُونَ ذَوِي حَاجَةٍ يَأْتَزِرُونَ بِهَذِهِ النَّمِرَةِ، فَكَانَتْ إِنَّمَا تَبْلُغُ أَنْصَافَ سُوقِهِمْ، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يَعْنِي النِّسَاءَ فَلَا تَرْفَعْ رَأْسَهَا حَتَّى نَرْفَعَ رُءُوسَنَا" , كَرَاهِيَةَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى عَوْرَاتِ الرِّجَالِ مِنْ صِغَرِ أُزُرِهِمْ.
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدے سے اپنا سر اس وقت تک نہ اٹھایا کرے جب تک ہم مرد اپنا سر نہ اٹھالیں، دراصل مردوں کے تہبند چھوٹے ہوتے تھے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ خواتین کی نگاہ مردوں کی شرمگاہ پر نہ پڑیں اور اس زمانے میں لوگوں کا تہبند یہ چادریں ہوتی تھیں۔ (شلواریں نہیں ہوتی تھیں)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام مولاة أسماء
حدثنا عفان ، قال: حدثنا وهيب ، قال: حدثني النعمان بن راشد ، عن ابن اخي الزهري ، عن مولى لاسماء بنت ابي بكر، عن اسماء ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا معشر النساء، من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فلا ترفع راسها حتى يرفع الرجال رءوسهم" , قالت: وذلك ان ازرهم كانت قصيرة، مخافة ان تنكشف عوراتهم إذا سجدوا.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَخِي الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَوْلًى لِأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا تَرْفَعْ رَأْسَهَا حَتَّى يَرْفَعَ الرِّجَالُ رُءُوسَهُمْ" , قَالَتْ: وَذَلِكَ أَنَّ أُزُرَهُمْ كَانَتْ قَصِيرَةً، مَخَافَةَ أَنْ تَنْكَشِفَ عَوْرَاتُهُمْ إِذَا سَجَدُوا.
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدے سے اپنا سر اس وقت تک نہ اٹھایا کرے جب تک ہم مرد اپنا سر نہ اٹھالیں، دراصل مردوں کے تہبند چھوٹے ہوتے تھے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ خواتین کی نگاہ مردوں کی شرمگاہ پر نہ پڑیں اور اس زمانے میں لوگوں کا تہبند یہ چادریں ہوتی تھیں۔ (شلواریں نہیں ہوتی تھیں)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام مولاة أسماء، وقد اختلف على عبدالله بن مسلم فيه
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ سجدے سے اپنا سر اس وقت تک نہ اٹھایا کرے جب تک ہم مرد اپنا سر نہ اٹھا لیں دراصل مردوں کے تہبند چھوٹے ہوتے تھے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ خواتین کی نگاہ مردوں کی شرمگاہ پر پڑے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد أخطأ فيه سريج بن النعمان
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تو ہم نے اسے عمرے کا احرام بنا لیا اور ہمارے لئے تمام چیزیں حسب سابق حلال ہوگئیں حتی کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان انگیٹھیاں بھی دہکائی گئیں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ضباعہ بنت زبیربن عبد المطلب کے پاس آئے، وہ بیمار تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا تم اس سفر میں ہمارے ساتھ نہیں چلو گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ حجۃ الوداع کا تھا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں بیمار ہوں مجھے خطرہ ہے کہ میری بیماری آپ کو روک نہ دے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم حج کا احرام باندھ لو اور یہ نیت کرلو کہ اے اللہ! جہاں تو مجھے روک دے گا، وہی جگہ میرے احرام کھل جانے کی ہوگی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال أبى بكر بن عبدالله
حدثنا عبد الرزاق ، قال: اخبرنا ابن جريج ، قال: حدثت عن اسماء بنت ابي بكر , انها قالت:" فزع النبي صلى الله عليه وسلم يوم كسفت الشمس، فاخذ درعا حتى ادرك بردائه، فقام بالناس قياما طويلا، يقوم ثم يركع، قالت: فجعلت انظر إلى المراة التي هي اكبر مني قائمة، وإلى المراة التي هي اسقم مني قائمة، فقلت: إني احق ان اصبر على طول القيام منك" , وقال ابن جريج: حدثني منصور بن عبد الرحمن ، عن امه صفية بنت شيبة ، عن اسماء بنت ابي بكر , ان النبي صلى الله عليه وسلم فزع.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ , أَنَّهَا قَالَتْ:" فَزِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ كَسَفَتْ الشَّمْسُ، فَأَخَذَ دِرْعًا حَتَّى أَدْرَكَ بِرِدَائِهِ، فَقَامَ بِالنَّاسِ قِيَامًا طَوِيلًا، يَقُومُ ثُمَّ يَرْكَعُ، قَالَتْ: فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَرْأَةِ الَّتِي هِيَ أَكْبَرُ مِنِّي قَائِمَةً، وَإِلَى الْمَرْأَةِ الَّتِي هِيَ أَسْقَمُ مِنِّي قَائِمَةً، فَقُلْتُ: إِنِّي أَحَقُّ أَنْ أَصْبِرَ عَلَى طُولِ الْقِيَامِ مِنْكِ" , وقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: حَدَّثَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزِعَ.
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس دن سورج گرہن ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بےچین ہوگئے اور اپنی قمیص لے کر اس پر چادر اوڑھی اور لوگوں کو لے کر طویل قیام کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دوران قیام اور رکوع کرتے رہے میں نے ایک عورت کو دیکھا جو مجھ سے زیادہ بڑی عمر کی تھی لیکن وہ کھڑی تھی، پھر میں نے ایک عورت کو دیکھا جو مجھ سے زیادہ بیمار تھی لیکن پھر بھی کھڑی تھی یہ دیکھ کر میں نے سوچا کہ تم سے زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہونے کی حقدار تو میں ہوں
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک دن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجر اسود کے سامنے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا یہ اس وقت کی بات ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل مشرکین کے سامنے دعوت پیش کرنے کا حکم نہیں ہوا تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نماز میں جبکہ مشرکین بھی سن رہے تھے،، یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا فبای آلاء ربکما تکذبن۔
حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن ابيه ، عن جدته اسماء بنت ابي بكر ، قالت: لما وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بذي طوى، قال ابو قحافة لابنة له من اصغر ولده اي بنية: اظهري بي على ابي قبيس , قالت: وقد كف بصره , قالت: فاشرفت به عليه، فقال: يا بنية، ماذا ترين؟ قالت: ارى سوادا مجتمعا، قال: تلك الخيل، قالت: وارى رجلا يسعى بين ذلك السواد مقبلا ومدبرا، قال: يا بنية، ذلك الوازع يعني الذي يامر الخيل ويتقدم إليها، ثم قالت: قد والله انتشر السواد، فقال: قد والله إذا دفعت الخيل، فاسرعي بي إلى بيتي، فانحطت به، وتلقاه الخيل قبل ان يصل إلى بيته، وفي عنق الجارية طوق لها من ورق، فتلقاها رجل، فاقتلعه من عنقها , قالت: فلما دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة، ودخل المسجد، اتاه ابو بكر بابيه، يعوده فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " هلا تركت الشيخ في بيته حتى اكون انا آتيه فيه". قال ابو بكر: يا رسول الله، هو احق ان يمشي إليك من ان تمشي انت إليه، قال: فاجلسه بين يديه، ثم مسح صدره، ثم قال له:" اسلم" , فاسلم، ودخل به ابو بكر رضي الله عنه , على رسول الله صلى الله عليه وسلم وراسه كانه ثغامة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" غيروا هذا من شعره" , ثم قام ابو بكر، فاخذ بيد اخته، فقال: انشد بالله وبالإسلام طوق اختي، فلم يجبه احد، فقال: يا اخية، احتسبي طوقك .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدَّتِهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: لَمَّا وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي طُوًى، قَالَ أَبُو قُحَافَةَ لِابْنَةٍ لَهُ مِنْ أَصْغَرِ وَلَدِهِ أَيْ بُنَيَّةُ: اظْهَرِي بِي عَلَى أَبِي قَبِيسٍ , قَالَتْ: وَقَدْ كُفَّ بَصَرُهُ , قَالَتْ: فَأَشْرَفْتُ بِهِ عَلَيْهِ، فَقَالَ: يَا بُنَيَّةُ، مَاذَا تَرَيْنَ؟ قَالَتْ: أَرَى سَوَادًا مُجْتَمِعًا، قَالَ: تِلْكَ الْخَيْلُ، قَالَتْ: وَأَرَى رَجُلًا يَسْعَى بَيْنَ ذَلِكَ السَّوَادِ مُقْبِلًا وَمُدْبِرًا، قَالَ: يَا بُنَيَّةُ، ذَلِكَ الْوَازِعُ يَعْنِي الَّذِي يَأْمُرُ الْخَيْلَ وَيَتَقَدَّمُ إِلَيْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: قَدْ وَاللَّهِ انْتَشَرَ السَّوَادُ، فَقَالَ: قَدْ وَاللَّهِ إِذَا دَفَعَتْ الْخَيْلُ، فَأَسْرِعِي بِي إِلَى بَيْتِي، فَانْحَطَّتْ بِهِ، وَتَلَقَّاهُ الْخَيْلُ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ إِلَى بَيْتِهِ، وَفِي عُنُقِ الْجَارِيَةِ طَوْقٌ لَهَا مِنْ وَرِقٍ، فَتَلَقَّاها رَّجُلُ، فَاقْتَلَعَهُ مِنْ عُنُقِهَا , قَالَتْ: فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، وَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، أَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ بِأَبِيهِ، يَعُودُهُ فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " هَلَّا تَرَكْتَ الشَّيْخَ فِي بَيْتِهِ حَتَّى أَكُونَ أَنَا آتِيهِ فِيهِ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هُوَ أَحَقُّ أَنْ يَمْشِيَ إِلَيْكَ مِنْ أَنْ تَمْشِيَ أَنْتَ إِلَيْهِ، قَالَ: فَأَجْلَسَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ مَسَحَ صَدْرَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ:" أَسْلِمْ" , فَأَسْلَمَ، وَدَخَلَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأْسُهُ كَأَنَّهُ ثَغَامَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" غَيِّرُوا هَذَا مِنْ شَعْرِهِ" , ثُمَّ قَامَ أَبُو بَكْرٍ، فَأَخَذَ بِيَدِ أُخْتِهِ، فَقَالَ: أَنْشُدُ بِاللَّهِ وَبِالْإِسْلَامِ طَوْقَ أُخْتِي، فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، فَقَالَ: يَا أُخَيَّةُ، احْتَسِبِي طَوْقَكِ .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقم ذی طوی پر پہنچ کر رکے تو ابوقحافہ نے اپنے چھوٹے بیٹے کی لڑکی سے کہا بیٹی! مجھے ابوقبیس پر لے کر چڑھو! اس وقت تک ان کی بینائی زائل ہوچکی تھی، وہ انہیں اس پہاڑ پر لے کر چڑھ گئی تو ابوقحافہ نے پوچھا بیٹی! تمہیں کیا نظر آرہا ہے؟ اس نے کہا کہ ایک بہت بڑا لشکر جو اکٹھا ہو کر آیا ہوا ہے ابوقحافہ نے کہا کہ وہ گھڑ سوار لوگ ہیں ان کی پوتی کا کہنا ہے کہ میں نے اس لشکر کے آگے آگے ایک آدمی کو دوڑتے ہوئے دیکھا جو کبھی آگے آجاتا تھا اور کبھی پیچھے ابوقحافہ نے بتایا کہ وہ واضح ہوگیا یعنی وہ آدمی جو شہسواروں کو حکم دیتا اور ان سے آگے رہتا ہے، وہ کہتی ہے کہ پھر وہ لشکرپھیلنا شروع ہوگیا، اس پر ابوقحافہ نے کہا واللہ پھر تو گھڑ سوار لوگ روانہ ہوگئے ہیں، تم مجھے جلدی سے گھرلے چلو، وہ انہیں لے کرنیچے اترنے لگی لیکن قبل اس کے کہ وہ اپنے گھرتک پہنچتے لشکر وہاں تک پہنچ چکا تھا، اس بچی کی گردن میں چاندی کا ایک ہار تھا جو ایک آدمی نے اس کی گردن میں سے اتار لیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور مسجد میں تشریف لے گئے تو حضرت صدیق اکبر بارگاہ نبوت میں اپنے والد کو لے کر حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا آپ انہیں گھر میں ہی رہنے دیتے، میں خود ہی وہاں چلا جاتا، حضرت صدیق اکبر نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ ان کا زیادہ حق بنتا ہے کہ یہ آپ کے پاس چل کر آئیں بہ نسبت اس کے کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جائیں پھر انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بٹھادیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیر کر انہیں قبول اسلام کی دعوت دی چنانچہ وہ مسلمان ہوگئے، جس وقت حضرت ابوبکر انہیں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو ان کا سر ثغامہ نامی بوٹی کی طرح (سفید) ہوچکا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کے بالوں کو رنگ کردو پھر حضرت صدیق اکبر کھڑے ہوئے اور اپنی بہن کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر کہتاہوں کہ میری بہن کا ہار واپس لوٹا دو، لیکن کسی نے اس کا جواب نہ دیا، تو حضرت صدیق اکبرنے فرمایا پیاری بہن اپنے ہار پر ثواب کی امید رکھو۔
حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير ، ان اباه حدثه، عن جدته اسماء بنت ابي بكر ، قالت: لما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، وخرج معه ابو بكر، احتمل ابو بكر ماله كله معه خمسة آلاف درهم، او ستة آلاف درهم , قالت: وانطلق بها معه , قالت: فدخل علينا جدي ابو قحافة وقد ذهب بصره، فقال: والله إني لاراه قد فجعكم بماله مع نفسه، قالت: قلت كلا يا ابت، إنه قد ترك لنا خيرا كثيرا , قالت: فاخذت احجارا، فتركتها فوضعتها في كوة البيت، كان ابي يضع فيها ماله، ثم وضعت عليها ثوبا، ثم اخذت بيده، فقلت: يا ابت، ضع يدك على هذا المال , قالت: فوضع يده عليه، فقال: لا باس، إن كان قد ترك لكم هذا، فقد احسن، وفي هذا لكم بلاغ , قالت: لا , والله ما ترك لنا شيئا، ولكني قد اردت ان اسكن الشيخ بذلك" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، عَنْ جَدَّتِهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَرَجَ مَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، احْتَمَلَ أَبُو بَكْرٍ مَالَهُ كُلَّهُ مَعَهُ خَمْسَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ، أَوْ سِتَّةَ آلَافِ دِرْهَمٍ , قَالَتْ: وَانْطَلَقَ بِهَا مَعَهُ , قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَيْنَا جَدِّي أَبُو قُحَافَةَ وَقَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ قَدْ فَجَعَكُمْ بِمَالِهِ مَعَ نَفْسِهِ، قَالَتْ: قُلْتُ كَلَّا يَا أَبَتِ، إِنَّهُ قَدْ تَرَكَ لَنَا خَيْرًا كَثِيرًا , قَالَتْ: فَأَخَذْتُ أَحْجَارًا، فَتَرَكْتُهَا فَوَضَعْتُهَا فِي كُوَّةِ الْبَيْتِ، كَانَ أَبِي يَضَعُ فِيهَا مَالَهُ، ثُمَّ وَضَعْتُ عَلَيْهَا ثَوْبًا، ثُمَّ أَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ، ضَعْ يَدَكَ عَلَى هَذَا الْمَالِ , قَالَتْ: فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: لَا بَأْسَ، إِنْ كَانَ قَدْ تَرَكَ لَكُمْ هَذَا، فَقَدْ أَحْسَنَ، وَفِي هَذَا لَكُمْ بَلَاغٌ , قَالَتْ: لَا , وَاللَّهِ مَا تَرَكَ لَنَا شَيْئًا، وَلَكِنِّي قَدْ أَرَدْتُ أَنْ أُسْكِنَ الشَّيْخَ بِذَلِكَ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ہمراہ حضرت صدیق اکبر بھی مکہ مکرمہ سے نکلے تو حضرت صدیق اکبر نے اپنا سارا مال جو پانچ چھ ہزار درہم بنتا تھا بھی ساتھ لے لیا اور روانہ ہوگئے تھوڑی دیر بعد ہمارے دادا ابوقحافہ آگئے، ان کی بینائی زائل ہوچکی تھی، وہ کہنے لگے میرا خیال ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہی اپنا سارا مال بھی لے گیا ہے، میں نے کہا ابا جان! نہیں وہ تو ہمارے لئے بہت سا مال چھوڑ گئے ہیں یہ کہہ کر میں نے کچھ پتھر لئے اور انہیں گھر کے ایک طاقچے میں جہاں میرے والد اپنا مال رکھتے تھے، رکھ دیا اور ان پر ایک کپڑا ڈھانپ لیا پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا ابا جان! اس مال پر اپنا ہاتھ رکھ کر دیکھ لیجئے! انہوں نے اس پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ اگر وہ تمہارے لئے یہ چھوڑ گیا ہے تو کوئی حرج نہیں اور اس نے بہت اچھا کیا اور تم اس سے اپنی ضروریات کی تکمیل کرسکو گے، حالانکہ والد صاحب کچھ بھی چھوڑ کر نہیں گئے تھے، میں نے اس طریقے سے صرف بزرگوں کو اطمینان دلانا تھا۔
حضرت اسماء کے حوالے سے مروی ہے کہ جب وہ کھانا بناتی تھیں تو کچھ دیر کے لئے اسے ڈھانپ دیتی تھیں تاکہ اس کی حرارت کی شدت کم ہوجائے اور فرماتی تھیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس سے کھانے میں خوب برکت ہوتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، رواية حسن عن ابن لهيعة بعد احتراق كتبه ، لكنه توبع، وقد توبع ابن لهيعة ايضاً
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یہ بیمار ہوگئی ہے اور اس کے سرکے بال جھڑ رہے ہیں، کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگوا سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 5935، م: 2122، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمران بن يزيد، وقد توبع
حدثنا يونس ، قال: حدثنا عمران بن يزيد ، حدثنا منصور ، عن امه ، عن اسماء ، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مهلين بالحج، فقالت: فقال لنا: " من كان معه هدي، فليقم على إحرامه، ومن لم يكن معه هدي، فليحلل" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنِ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، فَقَالَتْ: فَقَالَ لَنَا: " مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلْيَقُمْ عَلَى إِحْرَامِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلْيَحْلِلْ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جس شخص کے ساتھ ہدی کا جانور ہو اسے اپنا احرام باقی رکھنا چاہئے اور جس کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو اسے احرام کھول لینا چاہئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1236، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمران بن يزيد، وقد توبع
حدثنا يحيى بن إسحاق ، قال: اخبرنا ابن لهيعة ، عن ابي الاسود ، قال: سمعت عبادة بن المهاجر ، يقول: سمعت ابن العباس , يقول لابن الزبير: الا تسال امك؟ قال: فدخلنا على امه اسماء بنت ابي بكر ، فقالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم , حتى إذا كنا بذي الحليفة، قال: " من اراد منكم ان يهل بالحج، فليهل، ومن اراد منكم ان يهل بعمرة، فليهل" , قالت اسماء: وكنت انا وعائشة والمقداد والزبير ممن اهل بعمرة.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَادَةَ بْنَ الْمُهَاجِرِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ الْعَبَّاسِ , يَقُولُ لِابْنِ الزُّبَيْرِ: أَلَا تَسْأَلُ أُمَّكَ؟ قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَى أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، فَقَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , حَتَّى إِذَا كُنَّا بِذِي الْحُلَيْفَةِ، قَالَ: " مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِالْحَجِّ، فَلْيُهِلَّ، وَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ، فَلْيُهِلَّ" , قَالَتْ أَسْمَاءُ: وَكُنْتُ أَنَا وَعَائِشَةُ وَالْمِقْدَادُ وَالزُّبَيْرُ مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ.
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جس شخص کے ساتھ ہدی کا جانور ہوا سے اپنا احرام باقی رکھنا چاہئے اور جس کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو اسے احرام کھول لینا چاہئے، حضرت اسماء کہتی ہیں کہ میں اور عائشہ مقداد اور زبیر عمرہ کا احرام باندھنے والوں میں سے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة من حديث أسماء لجهالة عبادة بن المهاجر، وابن لهيعة سيئ الحفظ، وقد خولف
حدثنا موسى بن داود ، قال: حدثنا نافع يعني ابن عمر ، عن ابن ابي مليكة ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في الكسوف , قالت: فاطال القيام، ثم ركع، فاطال الركوع، ثم قام، فاطال القيام، ثم ركع، فاطال الركوع، ثم رفع، فاطال القيام، ثم سجد، فاطال السجود، ثم رفع، ثم سجد، فاطال السجود، ثم قام، فاطال القيام، ثم ركع، فاطال الركوع، ثم رفع، فاطال القيام، ثم ركع، فاطال الركوع، ثم رفع، ثم سجد، فاطال السجود، ثم رفع، ثم سجد، فاطال السجود، ثم انصرف، فقال: " دنت مني الجنة حتى لو اجترات، لجئتكم بقطاف من قطافها، ودنت مني النار حتى قلت: يا رب، وانا معهم؟ وإذا امراة قال نافع: حسبت انه قال تخدشها هرة , قلت: ما شان هذه؟ قيل لي: حبستها حتى ماتت، لا هي اطعمتها ولا هي ارسلتها تاكل من خشاش الارض" .حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعٌ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكُسُوفِ , قَالَتْ: فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ قَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ قَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَأَطَالَ الْقَيَّامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ: " دَنَتْ مِنِّي الْجَنَّةُ حَتَّى لَوْ اجْتَرَأْتُ، لَجِئْتُكُمْ بِقِطَافٍ مِنْ قِطَافِهَا، وَدَنَتْ مِنِّي النَّارُ حَتَّى قُلْتُ: يَا رَبُّ، وَأَنَا مَعَهُمْ؟ وَإِذَا امْرَأَةٌ قَالَ نَافِعٌ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ تَخْدِشُهَا هِرَّةٌ , قُلْتُ: مَا شَأْنُ هَذِهِ؟ قِيلَ لِي: حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ، لَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خِشَاشِ الْأَرْضِ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ سوج گرہن کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز پڑھائی اس میں طویل قیام فرمایا: پھر رکوع کیا اور وہ بھی طویل کیا، پھر سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا: پھر دوسری مرتبہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا، پھر کھڑے ہو کر طویل قیام فرمایا پھر دو مرتبہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھالیا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا پھر سر اٹھا کر دوسرا طویل سجدہ کیا پھر نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ دوران نماز جنت میرے اتنے قریب کردی گئی تھی کہ اگر میں ہاتھ بڑھاتا تو اس کا کوئی خوشہ توڑ لاتا، پھر جہنم کو اتنا قریب کردیا گیا کہ میں کہنے لگا پروردگار! کیا میں بھی ان میں ہوں؟ میں نے اس میں ایک عورت کو دیکھا جسے ایک بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا کہ اس کا کیا ماجرا ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ اس عورت نے اس بلی کو باندھ دیا تھا اور اسی حال میں یہ بلی مرگئی تھی، اس نے اسے خود ہی کچھ کھلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔
حدثنا وكيع , عن نافع بن عمر الجمحي ، عن ابن ابي مليكة ، عن اسماء ، قالت: انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام فصلى، فاطال القيام، ثم ركع، فاطال الركوع، ثم رفع، فاطال القيام، ثم ركع، فاطال الركوع، ثم رفع، فاطال القيام، ثم سجد سجدتين، ثم فعل في الثانية مثل ذلك، ثم قال: " لقد ادنيت مني الجنة حتى لو اجترات عليها، لاتيتكم بقطف من اقطافها، ولقد ادنيت مني النار حتى قلت: يا رب، وانا معهم؟ فرايت فيها هرة قال: حسبت انها تخدش امراة حبستها، فلم تطعمها، ولم تدعها تاكل من خشاش الارض حتى ماتت" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ الْجُمَحِيِّ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ فَصَلَّى، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: " لَقَدْ أُدْنِيَتْ مِنِّي الْجَنَّةُ حَتَّى لَوْ اجْتَرَأْتُ عَلَيْهَا، لَأَتَيْتُكُمْ بِقِطْفٍ مِنْ أَقْطَافِهَا، وَلَقَدْ أُدْنِيَتْ مِنِّي النَّارُ حَتَّى قُلْتُ: يَا رَبُّ، وَأَنَا مَعَهُمْ؟ فَرَأَيْتُ فِيهَا هِرَّةً قَالَ: حَسِبْتُ أَنَّهَا تَخْدِشُ امْرَأَةً حَبَسَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا، وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خِشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ سوج گرہن کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز پڑھائی اس میں طویل قیام فرمایا: پھر رکوع کیا اور وہ بھی طویل کیا، پھر سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا: پھر دوسری مرتبہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا، پھر کھڑے ہو کر طویل قیام فرمایا پھر دو مرتبہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھالیا اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا پھر سر اٹھا کر دوسرا طویل سجدہ کیا پھر نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ دوران نماز جنت میرے اتنے قریب کردی گئی تھی کہ اگر میں ہاتھ بڑھاتا تو اس کا کوئی خوشہ توڑ لاتا، پھر جہنم کو اتنا قریب کردیا گیا کہ میں کہنے لگا پروردگار! کیا میں بھی ان میں ہوں؟ میں نے اس میں ایک عورت کو دیکھا جسے ایک بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا کہ اس کا کیا ماجرا ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ اس عورت نے اس بلی کو باندھ دیا تھا اور اسی حال میں یہ بلی مرگئی تھی، اس نے اسے خود ہی کچھ کھلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 745، غير أن قولها: فأطال القيام، ثم سجد سجدتين لم يرد فى طرق حديث أسماء، وهذا من حديث جابر عند مسلم
حدثنا محمد بن بكر ، قال: اخبرنا ابن جريج , وروح ، قال: حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني منصور بن عبد الرحمن ، عن صفية بنت شيبة وهي امه، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: خرجنا محرمين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " من كان معه هدي، فليتم وقال روح: فليقم على إحرامه , ومن لم يكن معه هدي، فليحلل" , قالت: فلم يكن معي هدي، فحللت، وكان مع الزبير زوجها هدي فلم يحل، قالت: فلبست ثيابي وحللت، فجئت إلى الزبير، فقال: قومي عني , قالت: فقلت: اتخشى ان اثب عليك؟.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , وَرَوْحٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ وَهِيَ أُمُّهُ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مُحْرِمِينَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلْيُتِمَّ وَقَالَ رَوْحٌ: فَلْيَقُمْ عَلَى إِحْرَامِهِ , وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلْيَحْلِلْ" , قَالَتْ: فَلَمْ يَكُنْ مَعِي هَدْيٌ، فَحَلَلْتُ، وَكَانَ مَعَ الزُّبَيْرِ زَوْجِهَا هَدْيٌ فَلَمْ يَحِلَّ، قَالَتْ: فَلَبِسْتُ ثِيَابِي وَحَلَلْتُ، فَجِئْتُ إِلَى الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: قُومِي عَنِّي , قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَتَخْشَى أَنْ أَثِبَ عَلَيْكَ؟.
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جس شخص کے ساتھ ہدی کا جانور ہوا سے اپنا احرام باقی رکھنا چاہئے اور جس کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو اسے احرام کھول لینا چاہئے، میرے ساتھ چونکہ ہدی کا جانور نہیں تھا، لہذا میں حلال ہوگئی اور میرے شوہر حضرت زبیر کے پاس ہدی کا جانور تھا لہذا وہ حلال نہیں ہوئے، میں اپنے کپڑے پہن کر اور احرام کھول کر حضرت زبیر کے پاس آئی تو وہ کہنے لگے کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ میں نے کہا کیا آپ کو اندیشہ ہے کہ میں آپ پر کو دوں گی۔
حدثنا محمد بن بكر ، قال: اخبرنا ابن جريج وروح ، قال: حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرنا عبد الله مولى اسماء بنت ابي بكر، عن اسماء بنت ابي بكر ، انها قالت: اي بني، هل غاب القمر؟ ليلة جمع , قلت: لا , ثم قالت: اي بني، هل غاب القمر؟ قلت: نعم , قالت: فارتحلوا , فارتحلنا، ثم مضينا حتى رمت الجمرة، ثم رجعت، فصلت الصبح في منزلها، فقلت لها: لقد غلسنا قال روح: اي هنتاه , قالت: كلا يا بني، إن نبي الله صلى الله عليه وسلم: " اذن للظعن" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ وَرَوْحٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَيْ بُنَيَّ، هَلْ غَابَ الْقَمَرُ؟ لَيْلَةَ جَمْعٍ , قُلْتُ: لَا , ثُمَّ قَالَتْ: أَيْ بُنَيَّ، هَلْ غَابَ الْقَمَرُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَتْ: فَارْتَحِلُوا , فَارْتَحَلْنَا، ثُمَّ مَضَيْنَا حَتَّى رَمَتْ الْجَمْرَةَ، ثُمَّ رَجَعَتْ، فَصَلَّتْ الصُّبْحَ فِي مَنْزِلِهَا، فَقُلْتُ لَهَا: لَقَدْ غَلَّسْنَا قَالَ رَوْحٌ: أَيْ هَنْتَاهُ , قَالَتْ: كَلَّا يَا بُنَيَّ، إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَذِنَ لِلظُّعُنِ" .
عبداللہ جو حضرت اسماء کے آزاد کردہ غلام ہی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء دار مزدلفہ کے قریب پڑاؤ کیا اور پوچھا کہ بیٹا کیا چاند غروب ہوگیا یہ مزدلفہ کی رات تھی اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے کہا ابھی نہیں وہ کچھ دیرتک مزید نماز پڑھتی رہیں پھر پوچھا بیٹاچاند چھپ گیا؟ اس وقت تک چاند غائب ہوچکا تھا لہذا میں نے کہہ دیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا پھر کوچ کرو چنانچہ ہم لوگ وہاں سے روانہ ہوگئے اور منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ کی رمی کی اور اپنے خیمے میں پہنچ کر فجر کی نماز ادا کی میں نے ان سے عرض کیا کہ ہم تو منہ اندھیرے ہی مزدلفہ سے نکل آئے، انہوں نے فرمایا ہرگز نہیں بیٹے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو جلدی چلے جانے کی اجازت دی ہے۔
حدثنا إسحاق بن يوسف ، قال: حدثنا عوف ، عن ابي الصديق الناجي ، ان الحجاج بن يوسف دخل على اسماء بنت ابي بكر بعدما قتل ابنها عبد الله بن الزبير، فقال: إن ابنك الحد في هذا البيت، وإن الله عز وجل اذاقه من عذاب اليم، وفعل به ما فعل، فقالت: كذبت، كان برا بالوالدين، صواما قواما، والله لقد اخبرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم": انه سيخرج من ثقيف كذابان، الآخر منهما شر من الاول، وهو مبير" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ ، أَنَّ الْحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ دَخَلَ عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ بَعْدَمَا قُتِلَ ابْنُهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: إِنَّ ابْنَكِ أَلْحَدَ فِي هَذَا الْبَيْتِ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَذَاقَهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ، وَفَعَلَ بِهِ مَا فَعَلَ، فَقَالَتْ: كَذَبْتَ، كَانَ بَرًّا بِالْوَالِدَيْنِ، صَوَّامًا قَوَّامًا، وَاللَّهِ لَقَدْ أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ": أَنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ثَقِيفٍ كَذَّابَانِ، الْآخِرُ مِنْهُمَا شَرٌّ مِنَ الْأَوَّلِ، وَهُوَ مُبِيرٌ" .
ابو الصدیق ناجی کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کرچکا تو حضرت اسماء کے پاس آکر کہنے لگا کہ آپ کے بیٹے نے حرم شریف میں کجی کی راہ اختیار کی تھی، اس لئے اللہ نے اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھا دیا اور اس کے ساتھ جو کرنا تھا سو کرلیا، انہوں نے فرمایا تو جھوٹ بولتا ہے، وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنیوالا تھا، صائم النہار اور قائم اللیل تھا، واللہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ بنوثقیف میں سے دو کذاب آدمیوں خروج عنقریب ہوگا، جن میں سے دوسرا پہلے کی نبست زیادہ بڑا شر اور فتنہ ہوگا اور وہ مبیر ہوگا۔
حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، قال: حدثنا منصور بن عبد الرحمن ، عن امه صفية بنت شيبة ، عن اسماء بنت ابي بكر , انها قالت: فزع يوم كسفت الشمس رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخذ درعا حتى ادرك بردائه، فقام بالناس قياما طويلا، يقوم ثم يركع، فلو جاء إنسان بعدما ركع النبي صلى الله عليه وسلم , لم يعلم انه ركع، ما حدث نفسه انه ركع، من طول القيام , قالت: فجعلت انظر إلى المراة التي هي اكبر مني، وإلى المراة التي هي اسقم مني قائمة، وانا احق ان اصبر على طول القيام منها" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ , أنها قَالَتْ: فَزِعَ يَوْمَ كَسَفَتْ الشَّمْسُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ دِرْعًا حَتَّى أَدْرَكَ بِرِدَائِهِ، فَقَامَ بِالنَّاسِ قِيَامًا طَوِيلًا، يَقُومُ ثُمَّ يَرْكَعُ، فَلَوْ جَاءَ إِنْسَانٌ بَعْدَمَا رَكَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ رَكَعَ، مَا حَدَّثَ نَفْسَهُ أَنَّهُ رَكَعَ، مِنْ طُولِ الْقِيَامِ , قَالَتْ: فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَرْأَةِ الَّتِي هِيَ أَكْبَرُ مِنِّي، وَإِلَى الْمَرْأَةِ الَّتِي هِيَ أَسْقَمُ مِنِّي قَائِمَةً، وَأَنَا أَحَقُّ أَنْ أَصْبِرَ عَلَى طُولِ الْقِيَامِ مِنْهَا" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس دن سورج گرہن ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بےچین ہوگئے اور اپنی قمیص لے کر اس پر چادر اوڑھی اور لوگوں کو لے کر طویل قیام کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دوران قیام اور رکوع کرتے رہے میں نے ایک عورت کو دیکھا جو مجھ سے زیادہ بڑی عمر کی تھی لیکن وہ کھڑی تھی، پھر میں نے ایک عورت کو دیکھا جو مجھ سے زیادہ بیمار تھی لیکن پھر بھی کھڑی تھی، یہ دیکھ کر میں نے سوچا کہ تم سے زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہونے کی حقدار تو میں ہوں۔
حدثنا ابو بكر الحنفي ، قال: حدثنا الضحاك بن عثمان ، قال: حدثني وهب بن كيسان ، قال: سمعت اسماء بنت ابي بكر ، قالت: مر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا احصي شيئا واكيله، قال:" يا اسماء , لا تحصي، فيحصي الله عليك" , قالت: فما احصيت شيئا بعد قول رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من عندي، ولا دخل علي، وما نفد عندي من رزق الله إلا اخلفه الله عز وجل.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُحْصِي شَيْئًا وَأَكِيلُهُ، قَالَ:" يَا أَسْمَاءُ , لَا تُحْصِي، فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ" , قَالَتْ: فَمَا أَحْصَيْتُ شَيْئًا بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِي، وَلَا دَخَلَ عَلَيَّ، وَمَا نَفِدَ عِنْدِي مِنْ رِزْقِ اللَّهِ إِلَّا أَخْلَفَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اس وقت میں کچھ گن رہی تھی اور اسے ناپ رہی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اسماء گن گن کر نہ رکھ ورنہ اللہ بھی تمہیں گن گن کردے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد میں نے اپنے پاس سے کچھ جانیوالے کو یا آنے والے کو کبھی شمار نہیں کیا اور جب بھی میرے پاس اللہ کا کوئی زرق ختم ہوا، اللہ نے اس کا بدل مجھے عطاء فرمادیا۔
حدثنا حدثنا عفان ، قال: حدثنا حماد بن زيد ، عن ايوب ، عن ابن ابي مليكة , ان اسماء , قالت: كنت اخدم الزبير زوجها , وكان له فرس كنت اسوسه، ولم يكن شيء من الخدمة اشد علي من سياسة الفرس، فكنت احتش له، واقوم عليه، واسوسه، وارضخ له النوى , قال: ثم إنها اصابت خادما، اعطاها رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: فكفتني سياسة الفرس، فالقت عني مئونته" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ َزِيدَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , أَنَّ أَسْمَاءَ , قَالَتْ: كُنْتُ أَخْدُمُ الزُّبَيْرَ زَوْجَهَا , وَكَانَ لَهُ فَرَسٌ كُنْتُ أَسُوسُهُ، وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ مِنَ الْخِدْمَةِ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ سِيَاسَةِ الْفَرَسِ، فَكُنْتُ أَحْتَشُّ لَهُ، وَأَقُومُ عَلَيْهِ، وَأَسُوسُهُ، وَأَرْضَخُ لَهُ النَّوَى , قَالَ: ثُمَّ إِنَّهَا أَصَابَتْ خَادِمًا، أَعْطَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: فَكَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ، فَأَلْقَتْ عَنِّي مَئُونَتَهُ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ جس وقت حضرت زبیر سے میرا نکاح ہوا میں ان کے گھوڑے کا چارہ تیار کرتی تھی اس کی ضروریات مہیا کرتی تھی اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھی اسی طرح ان کے اونٹ کے لئے گٹھلیاں کو ٹتی تھی اس کا چارہ بناتی تھی، اسے پانی پلاتی تھی، ان کے ڈول کو سیتی تھی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کچھ ہی عرصے بعد میرے پاس ایک خادم بھیج دیا اور گھوڑے کی دیکھ بھال سے میں بری الذمہ ہوگئی اور ایسا لگا کہ جیسے انہوں نے مجھے آزاد کردیا ہو۔
وجدت في كتاب ابي هذا الحديث بخط يده، حدثنا سعيد يعني ابن سليمان سعدويه ، قال: حدثنا عباد يعني ابن العوام ، عن هارون بن عنترة , عن ابيه ، قال: لما قتل الحجاج ابن الزبير وصلبه منكوسا، فبينا هو على المنبر، إذ جاءت اسماء ، ومعها امة تقودها، وقد ذهب بصرها، فقالت: اين اميركم؟ فذكر قصة، فقالت: كذبت، ولكني احدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يخرج من ثقيف كذابان، الآخر منهما اشر من الاول، وهو مبير" .وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي هَذَا الْحَدِيثَ بِخَطِّ يَدِهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ سَعْدَوَيْهِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادٌ يَعْنِي ابْنَ الْعَوَّامِ ، عَنْ هَارُونَ بْنِ عنترة , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: لَمَّا قَتَلَ الْحَجَّاجُ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَصَلَبَهُ مَنْكُوسًا، فَبَيْنَا هُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، إِذْ جَاءَتْ أَسْمَاءُ ، وَمَعَهَا أَمَةٌ تَقُودُهَا، وَقَدْ ذَهَبَ بَصَرُهَا، فَقَالَتْ: أَيْنَ أَمِيرُكُمْ؟ فَذَكَرَ قِصَّةً، فَقَالَتْ: كَذَبْتَ، وَلَكِنِّي أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَخْرُجُ مِنْ ثَقِيفٍ كَذَّابَانِ، الْآخِرُ مِنْهُمَا أَشَرُّ مِنَ الْأَوَّلِ، وَهُوَ مُبِيرٌ" .
عنترہ کہتے ہیں کہ جب حجاج بن یوسف حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کرچکا ان کا جسم پھانسی سے لٹکا ہوا تھا اور حجاج منبر پر تھا کہ تو حضرت اسما آگئیں ان کے ساتھ ایک باندی تھی جو انہیں لے کر آرہی تھی کیونکہ ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی، انہوں نے فرمایا تمہارا امیر کہاں ہے؟ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا تو جھوٹ بولتا ہے واللہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ بنوثقیف میں سے دو کذاب آدمیوں کا خروج عنقریب ہوگا جن میں سے دوسرا پہلے کی نسبت زیادہ بڑا شر اور فتنہ ہوگا اور وہ مبیر ہوگا۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لكن بلفظ: "ان فى ثقيف كذابا و مبيرا" وهذا اسناد فيه هارون بن عنترة، وفيه كلام، وقد انفرد بسياق هذه القصة. وقوله: "منكوسا" تفرد له، وان الحجاج هو الذى دخل على اسماء
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ میرے پاس حضرت زبیر کی قمص کے دو بازو موجود ہیں جو ریشمی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بوقت جنگ پہننے کے لئے عطا فرمائے تھے۔
حدثنا حجين بن المثنى ، قال: حدثنا عبد العزيز يعني ابن ابي سلمة الماجشون ، عن محمد يعني ابن المنكدر ، قال: كانت اسماء تحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: قال: " إذا دخل الإنسان قبره، فإن كان مؤمنا، احف به عمله، الصلاة والصيام" , قال:" فياتيه الملك من نحو الصلاة، فترده، ومن نحو الصيام، فيرده" , قال:" فيناديه اجلس" , قال:" فيجلس، فيقول له: ماذا تقول في هذا الرجل يعني النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: من؟ قال: محمد , قال: انا اشهد انه رسول الله صلى الله عليه وسلم ," قال:" يقول وما يدريك؟ ادركته؟ قال: اشهد انه رسول الله" , قال:" يقول على ذلك عشت، وعليه مت، وعليه تبعث" , قال:" وإن كان فاجرا، او كافرا" , قال:" جاء الملك وليس بينه وبينه شيء يرده" , قال:" فاجلسه" , قال:" يقول: اجلس، ماذا تقول في هذا الرجل؟ قال: اي رجل؟ قال: محمد , قال: يقول والله ما ادري، سمعت الناس يقولون شيئا، فقلته" , قال:" فيقول له الملك على ذلك عشت، وعليه مت، وعليه تبعث" , قال:" وتسلط عليه دابة في قبره، معها سوط، تمرته جمرة مثل غرب البعير، تضربه ما شاء الله، صماء لا تسمع صوته فترحمه" .حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ الْمُنْكَدِرِ ، قَالَ: كَانَتْ أَسْمَاءُ تُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ: " إِذَا دَخَلَ الْإِنْسَانُ قَبْرَهُ، فَإِنْ كَانَ مُؤْمِنًا، أَحَفَّ بِهِ عَمَلُهُ، الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ" , قَالَ:" فَيَأْتِيهِ الْمَلَكُ مِنْ نَحْوِ الصَّلَاةِ، فَتَرُدُّهُ، وَمِنْ نَحْوِ الصِّيَامِ، فَيَرُدُّهُ" , قَالَ:" فَيُنَادِيهِ اجْلِسْ" , قَالَ:" فَيَجْلِسُ، فَيَقُولُ لَهُ: مَاذَا تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مَنْ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ , قَالَ: أَنَا أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ," قَالَ:" يَقُولُ وَمَا يُدْرِيكَ؟ أَدْرَكْتَهُ؟ قال: أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ" , قَالَ:" يَقُولُ عَلَى ذَلِكَ عِشْتَ، وَعَلَيْهِ مِتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ" , قَالَ:" وَإِنْ كَانَ فَاجِرًا، أَوْ كَافِرًا" , قَالَ:" جَاءَ الْمَلَكُ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ يَرُدُّهُ" , قَالَ:" فَأَجْلَسَهُ" , قَالَ:" يَقُولُ: اجْلِسْ، مَاذَا تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ قَالَ: أَيُّ رَجُلٍ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ , قَالَ: يَقُولُ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا، فَقُلْتُهُ" , قَالَ:" فَيَقُولُ لَهُ الْمَلَكُ عَلَى ذَلِكَ عِشْتَ، وَعَلَيْهِ مِتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ" , قَالَ:" وَتُسَلَّطُ عَلَيْهِ دَابَّةٌ فِي قَبْرِهِ، مَعَهَا سَوْطٌ، تَمْرَتُهُ جَمْرَةٌ مِثْلُ غَرْبِ الْبَعِيرِ، تَضْرِبُهُ مَا شَاءَ اللَّهُ، صَمَّاءُ لَا تَسْمَعُ صَوْتَهُ فَتَرْحَمَهُ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب انسان کو اس کی قبر میں داخل کردیا جاتا ہے اور وہ مؤمن ہو تو اس کے اعمال مثلا نماز، روزہ اسے گھیرے میں لے لیتے ہیں، فرشتہ عذاب نماز کی طرف سے آنا چاہتا ہے تو نماز اسے روکی دیتی ہے، روزے کی طرف سے آنا چاہے تو روزہ روک دیتا ہے، وہ اسے پکار کر بیٹھنے کے لئے کہتا ہے چنانچہ انسان بیٹھ جاتا ہے، فرشتہ اس سے پوچھتا ہے کہ تو اس آدمی یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہتا ہے؟ وہ پوچھتا ہے کون آدمی؟ فرشتہ کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ کہتا ہے میں گواہی دیتاہوں کہ وہ اللہ کے پیغمبر ہیں، فرشتہ کہتا ہے کہ تو اسی پر زندہ رہا اور اسی پر تجھے موت آگئی اور اسی پر تجھے اٹھایا جائے گا۔ اور اگر مردہ فاجریا کافر ہو تو جب فرشتہ اس کے پاس آتا ہے تو درمیان میں اسے واپس لوٹا دینے والی کوئی چیز نہیں ہوتی، وہ اسے بٹھاکرپوچھتا ہے کہ تو اس آدمی کے متعلق کیا کہتا ہے؟ مردہ پوچھتا ہے کون آدمی وہ کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، مردہ کہتا ہے کہ واللہ میں کچھ نہیں جانتا، میں لوگوں کو جو کہتے ہوئے سنتا تھا، وہی کہہ دیتا تھا، فرشتہ کہتا ہے کہ تو اسی پر زندہ رہا، اسی پر مرا اور اسی پر تجھے اٹھایا جائے گا، پھر اس پر قبر میں ایک جانور کو مسلط کردیا جاتا ہے اس کے پاس ایک کوڑا ہوتا ہے جس کے سرے پر چنگاری ہوتی ہے جیسے اونٹ کی نوک ہو جب تک اللہ کو منظور ہوگا وہ اسے مارتا رہے گا، وہ جانور بہرا ہے جو آواز سن ہی نہیں سکتا کہ اس پر رحم کھالے۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، لم يذكر سماع محمد بن المنكدر من اسماء، وهو قد ادركها
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن هشام ، قال: حدثتني فاطمة ، عن اسماء , ان امراة، قالت: يا رسول الله، إن لي ضرة، فهل علي جناح إن تشبعت من زوجي بغير الذي يعطيني؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المتشبع بما لم يعطه، كلابس ثوبي زور" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ ، عَنْ أَسْمَاءَ , أَنَّ امْرَأَةً، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي ضَرَّةً، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ إِنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِي بِغَيْرِ الَّذِي يُعْطِينِي؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَهُ، كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میری ایک سوکن ہے اگر مجھے میرے خاوند نے کوئی چیز نہ دی ہو لیکن میں یہ ظاہر کروں کہ اس نے مجھے فلاں چیز سے سیراب کردیا ہے، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے آپ کو ایسی چیز سے سیراب ہونیوالا ظاہر کرنا جو اسے نہیں ملی وہ ایسے ہے جیسے جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والا۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن هشام ، قال: حدثتني فاطمة بنت المنذر ، عن اسماء بنت ابي بكر ، ان امراة من الانصار، قالت: لرسول الله صلى الله عليه وسلم , إن لي بنية عريسا وإنه تمرق شعرها، فهل علي من جناح إن وصلت راسها؟ وقال وكيع: تمرط شعرها , قال: " لعن الله الواصلة والمستوصلة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَتْ: لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِنّ لِي بُنَيَّةً عَرِيسًا وَإِنَّهُ تَمَرَّقَ شَعَرُهَا، فَهَلْ عَلَيَّ مِنْ جُنَاحٍ إِنْ وَصَلْتُ رَأْسَهَا؟ وَقَالَ وَكِيعٌ: تَمَرَّطَ شَعْرُهَا , قَالَ: " لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یہ بیمار ہوگئی ہے اور اس کے سرکے بال جھڑ رہے ہیں، کیا میں اس کے سر پر دوسرے بال لگوا سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
حدثنا يحيى ، عن ابن جريج ، عن ابن ابي مليكة ، عن اسماء , انها قالت: يا رسول الله، ليس لي إلا ما ادخل علي الزبير، افارضخ منه؟ قال: " ارضخي، ولا توعي، فيوعي الله عليك" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ , أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَيْسَ لِي إِلَّا مَا أَدْخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ، أَفَأَرْضَخُ مِنْهُ؟ قَالَ: " ارْضَخِي، وَلَا تُوعِي، فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو زبیر گھر میں لاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن هشام ، قال: حدثتني فاطمة , ح وابو معاوية , قال: حدثني هشام ، عن فاطمة ، عن اسماء , ان امراة اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: إحدانا يصيب ثوبها من دم الحيضة؟ قال: " تحته، ثم لتقرضه بالماء، ثم تنضحه، ثم تصلي فيه" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ , ح وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , قَالَ: حَدَّثَنِي هِشَامٌ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ , أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِحْدَانَا يُصِيبُ ثَوْبُهَا مِنْ دَمِ الْحَيْضَةِ؟ قَالَ: " تَحُتُّهُ، ثُمَّ لِتَقْرِضْهُ بِالْمَاءِ، ثُمَّ تَنْضَحْهُ، ثُمَّ تُصَلِّي فِيهِ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! اگر کسی عورت کے جسم (یاکپڑوں) پر دم حیض لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کھرچ دے، پھر پانی سے بہادے اور اسی میں نماز پڑھ لے۔
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو زبیرگھر میں لاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں اور اس کے دونوں کف ریشم کے بنے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیب تن فرمایا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون ذكر لقاء رسول الله ﷺ بهذه الجبة ، وهذا إسناد ضعيف لضعف حجاج بن أرطاة
حدثنا إسماعيل ، قال: حدثنا ايوب ، عن ابن ابي مليكة ، قال: حدثتني اسماء بنت ابي بكر ، قالت: قلت: يا رسول الله، ما لي شيء إلا ما ادخل الزبير على بيتي، فاعطي منه؟ قال: " اعطي، ولا توكي، فيوكي الله عليك" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لِي شَيْءٌ إِلَّا مَا أَدْخَلَ الزُّبَيْرُ عَلَى بَيْتِي، فَأُعْطِي مِنْهُ؟ قَالَ: " أَعْطِي، وَلَا تُوكِي، فَيُوكِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جو زبیر گھر میں لاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ رکھا کرو کہ تمہیں بھی گن گن کردیا جائے۔
حدثنا ابن نمير ، عن هشام ، عن فاطمة بنت المنذر ، عن اسماء , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لها: " انفقي او انضحي , ولا تحصي، فيحصي الله عليك، او لا توعي، فيوعي الله عليك" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهَا: " أَنْفِقِي أَوْ انْضَحِي , وَلَا تُحْصِي، فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ، أَوْ لَا تُوعِي، فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ" .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کر دینا شروع کردے گا۔
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا سخاوت اور فیاضی کیا کرو اور خرچ کیا کرو جمع مت کیا کرو ورنہ اللہ بھی تم پر جمع کرنے لگے گا اور گن گن کر نہ خرچ کیا کرو کہ تمہیں بھی اللہ گن گن کر دینا شروع کردے گا۔
حدثنا سريج بن النعمان ، حدثنا فليح ، عن محمد بن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: خسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسمعت رجة الناس وهم يقولون: آية، ونحن يومئذ في فازع، فخرجت متلفعة بقطيفة للزبير، حتى دخلت على عائشة، ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يصلي للناس، فقلت لعائشة: ما للناس؟ فاشارت بيدها إلى السماء , قالت: فصليت معهم، وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم فرغ من سجدته الاولى، قالت: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم قياما طويلا , حتى رايت بعض من يصلي ينتضح بالماء، ثم ركع، فركع ركوعا طويلا، ثم قام ولم يسجد قياما طويلا، وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا، وهو دون ركوعه الاول، ثم سجد، ثم سلم وقد تجلت الشمس، ثم رقي المنبر، ثم قال:" ايها الناس، إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا يخسفان لموت احد، ولا لحياته، فإذا رايتم ذلك، فافزعوا إلى الصلاة، وإلى الصدقة، وإلى ذكر الله، ايها الناس، إنه لم يبق شيء لم اكن رايته إلا وقد رايته في مقامي هذا، وقد اريتكم تفتنون في قبوركم، يسال احدكم ما كنت تقول؟ وما كنت تعبد؟ فإن قال: لا ادري، رايت الناس يقولون شيئا، فقلته، ويصنعون شيئا، فصنعته، قيل له: اجل، على الشك عشت، وعليه مت، هذا مقعدك من النار، وإن قال: اشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، قيل على اليقين عشت، وعليه مت، هذا مقعدك من الجنة , وقد رايت خمسين او سبعين الفا يدخلون الجنة في مثل صورة القمر ليلة البدر" , فقام إليه رجل، فقال: ادع الله ان يجعلني منهم , قال:" اللهم اجعله منهم، ايها الناس، إنكم لن تسالوني عن شيء حتى انزل إلا اخبرتكم به" , فقام رجل، فقال: من ابي؟ قال:" ابوك فلان" الذي كان ينسب إليه .حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: خَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُ رَجَّةَ النَّاسِ وَهُمْ يَقُولُونَ: آيَةٌ، وَنَحْنُ يَوْمَئِذٍ فِي فَازِعٍ، فَخَرَجْتُ مُتَلَفِّعَةً بِقَطِيفَةٍ لِلزُّبَيْرِ، حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يُصَلِّي لِلنَّاسِ، فَقُلْتُ لِعَائِشَةَ: مَا لِلنَّاسِ؟ فَأَشَارَتْ بِيَدِهَا إِلَى السَّمَاءِ , قَالَتْ: فَصَلَّيْتُ مَعَهُمْ، وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَغَ مِنْ سَجْدَتِهِ الْأُولَى، قَالَتْ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيَامًا طَوِيلًا , حَتَّى رَأَيْتُ بَعْضَ مَنْ يُصَلِّي يَنْتَضِحُ بِالْمَاءِ، ثُمَّ رَكَعَ، فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ قَامَ وَلَمْ يَسْجُدْ قِيَاما طَوِيلًا، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، وَهُوَ دُونَ رُكُوعِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ سَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ، ثُمَّ رَقِيَ الْمِنْبَرَ، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ، فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ، وَإِلَى الصَّدَقَةِ، وَإِلَى ذِكْرِ اللَّهِ، أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ شَيْءٌ لَمْ أَكُنْ رَأَيْتُهُ إِلَّا وَقَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا، وَقَدْ أُرِيتُكُمْ تُفْتَنُونَ فِي قُبُورِكُمْ، يُسْأَلُ أَحَدُكُمْ مَا كُنْتَ تَقُولُ؟ وَمَا كُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَإِنْ قَالَ: لَا أَدْرِي، رَأَيْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا، فَقُلْتُهُ، وَيَصْنَعُونَ شَيْئًا، فَصَنَعْتُهُ، قِيلَ لَهُ: أَجَلْ، عَلَى الشَّكِّ عِشْتَ، وَعَلَيْهِ مِتَّ، هَذَا مَقْعَدُكَ مِنَ النَّارِ، وَإِنْ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قِيلَ عَلَى الْيَقِينِ عِشْتَ، وعليه مِتَّ، هَذَا مَقْعَدُكَ مِنَ الْجَنَّةِ , وَقَدْ رَأَيْتُ خَمْسِينَ أَوْ سَبْعِينَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ فِي مِثْلِ صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ" , فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ , قَالَ:" اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ، أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ لَنْ تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَنْزِلَ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ بِهِ" , فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ:" أَبُوكَ فُلَانٌ" الَّذِي كَانَ يُنْسَبُ إِلَيْهِ .
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوگیا، اس دن میں حضرت عائشہ کے یہاں گئی، تو ان سے پوچھا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس وقت نماز پڑھ رہے ہیں؟ انہوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کردیا میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا حتی کہ مجھ پر غشی طاری ہوگئی، میں نے اپنے پہلو میں رکھے ہوئے ایک مشکیزے کو پکڑا اور اس سے اپنے سر پر پانی بہانے لگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے جب سلام پھیرا تو سورج گرہن ختم ہوچکا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اللہ کی حمد وثناء کرنے کے بعد فرمایا حمد وصلوۃ کے بعد! اب تک میں نے جو چیزیں نہیں دیکھی تھیں وہ اپنے اس مقام پر آج دیکھ لیں حتی کہ جنت اور جہنم کو بھی دیکھ لیا مجھے یہ وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو اپنی قبروں میں مسیح دجال کے برابریا اس کے قریب قریب فتنے میں مبتلا کیا جائے گا تمہارے پاس فرشتے آئیں گے اور پوچھیں گے کہ اس آدمی کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ تو جو مؤمن ہوگا وہ جواب دے گا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ہمارے پاس واضح معجزات اور ہدایت لے کر آئے ہم نے ان کی پکار پر لبک کہا اور ان کی اتباع کی (تین مرتبہ) اس سے کہا جائے گا ہم جانتے تھے کہ تو اس پر ایمان رکھتا ہے لہذا سکون کے ساتھ سوجاؤ! اور جو منافق ہوگا تو وہ کہے گا میں نہیں جانتا میں لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنتا تھا وہی میں بھی کہہ دیتا تھا اور میں نے پچاس یا ستر ہزار ایسے آدمی دیکھے جو جنت میں چودھویں رات کے چاند کی طرح داخل ہوں گے، ایک آدمی نے اٹھ کر عرض کیا اللہ سے دعاء کردیجئے کہ وہ مجھ کو بھی ان میں شامل کردے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ اسے بھی ان میں شامل فرمادے، اے لوگوں اس وقت تم میرے منبر سے اترنے سے پہلے جو سوال بھی کرو گے میں تمہیں اس کا جواب ضروردوں گا، ایک آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ میرا باپ کون ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا باپ فلاں آدمی ہے جس کی طرف اس کی نسبت کی جاتی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة، فقد انفرد به فليح، وهو ممن لا يحتمل تفرده، ولم يذكر سماع محمد بن عباد من أسماء
حدثنا نصر بن باب ، عن حجاج ، عن ابي عمر ختن كان لعطاء , قال: اخرجت لنا اسماء جبة مزرورة بديباج، قالت: قد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا لقي الحرب، لبس هذه" .حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِي عُمَرَ خَتَنٌ كَانَ لِعَطَاءٍ , قال: أَخْرَجَتْ لَنَا أَسْمَاءُ جُبَّةً مَزْرُورَةً بِدِيبَاجٍ، قَالَتْ: قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا لَقِيَ الْحَرْبَ، لَبِسَ هَذِهِ" .
عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء نے مجھے سبز رنگ کا ایک جبہ نکال کر دکھایا جس میں بالشت بھر کسروانی ریشم کی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں اور اس کے دونوں کف ریشم کے بنے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ جبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیب تن فرمایا کرتے تھے۔
حدثنا عفان ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، قال: حدثنا هشام بن عروة ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: قدمت علي امي وهي راغبة، وهي مشركة في عهد قريش ومدتهم التي كانت بينهم وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن امي قدمت علي وهي راغبة، وهي مشركة، افاصلها؟ قال:" صليها" , قال: واظنها ظئرها.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ رَاغِبَةٌ، وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ وَمُدَّتِهِمْ الَّتِي كَانَتْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ، وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ:" صِلِيهَا" , قَالَ: وَأَظُنُّهَا ظِئْرَهَا.
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ قریش سے معاہدے کے زمانے میں آئی، اس وقت وہ مشرک اور ضرورت مند تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔
حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں گندم کے دو مد صدقہ فطر کے طور پر ادا کرتے تھے، اس مد کی پیمائش کے مطابق جس سے تم پیمائش کرتے ہو۔