من كتاب الصللاة نماز کے مسائل 149. باب: «إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ» : جب جماعت کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کی اقامت کہی جائے تو سوائے فرض نماز کے کوئی نماز نہیں۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1488]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 710]، [أبوداؤد 1266]، [ترمذي 421]، [نسائي 864]، [ابن ماجه 1151] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
اس سند سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی روایت کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1489]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [أبويعلی 6379]، [ابن حبان 2190] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نماز کی اقامت ہو چکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایسے شخص پر پڑی جو دو رکعت سنت پڑھ رہا تھا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے اسے گھیر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو (فجر)، صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1490]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 663]، [مسلم 711]، [نسائي 866]، [ابن ماجه 1153]، [أحمد 345/5]، [ابن ابي شيبه 253/2]، [شرح معاني الآثار 372/1] وضاحت:
(تشریح احادیث 1485 سے 1488) یعنی اقامت (تکبیر) کے بعد کوئی نماز فرض نماز کے علاوہ پڑھنا حیرت انگیز اور غیر معروف تھا، اسی لئے صحابہ کرام انہیں گھیر کر بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیر کرتے ہوئے فرمایا: کیا صبح کی نماز چار رکعت پڑھتے ہو؟ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے (یعنی تکبیر)، تو پھر سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر گھر میں نماز پڑھ رہا ہو اور مسجد میں اقامت کہی جائے تو یہ نسبتاً آسان ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وقد اختلف على عمرو بن دينار في رفعه ووقفه ولكن من رفعه ثقة والرفع زيادة وزيادة الثقة مقبولة، [مكتبه الشامله نمبر: 1491]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور حوالہ گذر چکا ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 1488) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے تو پھر سنتیں نہ پڑ ھے بلکہ جماعت میں شریک ہو جائے، یہ حکم عام اور سب سنتوں کو شامل ہے چاہے وہ فجر کی ہی سنیں کیوں نہ ہوں۔ اکثر علماء کا یہی قول ہے، اور بعد نمازِ فجر کے اختیار ہے چاہے تو اس وقت سنتیں پڑھ لے چاہے آفتاب نکلنے کے بعد پڑھے، جو لوگ اقامت کے بعد بھی سنتیں پڑھنے لگ جاتے ہیں وہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح مخالفت کرتے ہیں، انہیں یہ مخالفت ترک کر دینی چاہیے ورنہ انجام برا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وقد اختلف على عمرو بن دينار في رفعه ووقفه ولكن من رفعه ثقة والرفع زيادة وزيادة الثقة مقبولة
|