من كتاب الصللاة نماز کے مسائل 92. باب صِفَةِ صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ
سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ کے ساتھ تھے، ان میں سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تم سب سے زیادہ علم ہے۔ انہوں نے کہا: ایسا کیوں؟ تم ہم سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کرنے والے اور ہم سے زیادہ آپ کے ساتھ رہنے والے نہیں ہو؟ کہا: ہاں، ایسا ہی ہے، انہوں نے کہا: تو پھر پیش کیجئیے؟ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے، پھر اللہ اکبر کہتے یہاں تک کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے، پھر آپ قرأت کرتے، پھر اللہ اکبر کہتے اور دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے پھر رکوع میں جاتے اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی اصلی حالت پر آ جاتی اور (رکوع میں) نہ سر کو اٹھاتے تھے اور نہ جھکاتے تھے (پیٹھ کے برابر رکھتے)، پھر اپنا سر (رکوع سے) اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده» کہتے اور اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے۔ ابوعاصم کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے اس وقت بھی انہوں نے کہا: (رکوع سے اٹھ کر کھڑے رہتے) یہاں تک کہ ہر ہڈی (جوڑ) اپنی جگہ (اصلی حالت) پر آ جاتی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم الله اکبر کہتے اور سجدے میں چلے جاتے اور سجدے میں اپنے دونوں ہاتھ (بازو) پہلو سے دور رکھتے، پھر سجدے سے سر اٹھاتے اور بایاں قدم موڑ کر اس پر بیٹھتے، اور جب سجدہ کرتے پیروں کی انگلیاں کھلی رکھتے، پھر دوسرا سجدہ کرتے، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے سے سر اٹھاتے اور بایاں پیر موڑ کر اس پر اچھی طرح بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی (جوڑ) اپنی اصلی حالت پر آ جاتی (یعنی باطمینان جلسہ استراحت فرماتے)، پھر کھڑے ہوتے اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے، اور جب تیسری رکعت کے لئے قیام فرماتے تو پھر رفع یدین کندھوں تک کرتے جیسا کہ نماز شروع کرتے وقت کیا تھا، پھر اپنی نماز اسی طرح پوری فرماتے تھے حتی کہ جب آخری تشہد یا قعدہ جس میں سلام پھیرنا ہوتا ہے بیٹھتے تو بایاں قدم کو (دایاں پیر کے نیچے سے) نکالتے اور بائیں جانب پر تورک کرتے ہوئے بیٹھتے۔ راوی نے کہا: ان دسوں صحابہ نے کہا: تم نے بالکل سچ کہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا بالکل یہی طریقہ تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1396]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 828]، [أبوداؤد 730]، [ترمذي 304]، [نسائي 1180]، [ابن ماجه 803]، [ابن حبان 1865، 1866]، [موارد الظمآن 491، 492] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے دل میں ٹھانی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں؟ چنانچہ میں نے آپ کو دیکھا: کھڑے ہوئے اللہ اکبر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے (یعنی رفع یدین کیا)، اور اپنا دایاں ہاتھ بایاں پنجے کے اوپر رکھا، پھر جب آپ نے رکوع کا ارادہ فرمایا تو اپنے ہاتھ اسی طرح اٹھائے (رفع یدین کیا) اور (رکوع میں) اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھے، پھر رکوع سے سر اٹھایا تو رفع یدین کیا، پھر سجدہ کیا تو اپنے ہاتھ کو کانوں کے برابر رکھا، پھر (سجدے سے اٹھ کر) بیٹھے تو بایاں پیر (قدم) کو بچھا دیا اور اپنا بایاں ہاتھ بائیں ران اور بائیں گھٹنے پر رکھا اور دائیں کہنی کو دائیں ران پر رکھا، پھر دو انگلیوں (یعنی انگوٹھا اور بیچ کی انگلی) کو موڑ کر حلقہ بنایا اور شہادت کی انگلی کو کھڑا رکھا۔ میں نے دیکھا آپ اسے حرکت دے رہے تھے گویا کہ اشارے سے دعا کر رہے ہیں۔ سیدنا وائل رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں کافی عرصے کے بعد سردیوں میں آیا تو دیکھا لوگ چادر میں (ملبوس) ہیں اور (رفع یدین کے لئے) چادر کے اندر اپنے ہاتھوں کو حرکت دے رہے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1397]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 957]، [نسائي 1262]، [ابن ماجه 867]، [ابن حبان 1860]، [موارد الظمآن 485]، [الحميدي 909] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حطان بن عبداللہ رقاشی نے کہا: سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے ہم کو دو عشاء میں سے ایک نماز (یعنی مغرب یا عشاء) پڑھائی تو جماعت میں سے ایک آدمی نے کہا: نماز نیکی اور زکاة کے ساتھ فرض کی گئی ہے، جب سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا: یہ بات کس نے کہی ہے؟ سب لوگ خاموش رہے تو سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے حطان! یہ بات شاید تم نے ہی کہی ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، میں نے یہ (نماز نیکی کے ساتھ فرض کی گئی ہے) نہیں کہا، اور میں کیسے کہتا مجھے تو خوف لاحق تھا کہ آپ (میری سرزنش کریں گے) مجھ سے ناراض ہو جائیں گے، ایک آدمی نے کہا: یہ کلمہ میں نے کہا تھا اور میرا ارادہ خیر کا ہی تھا یعنی آدمی نماز پڑھے تو نیکی بھی کرے زکاۃ بھی دے (واللہ اعلم)، پھر سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہیں پتہ نہیں ہے تم اپنی نماز میں کیا کہہ جاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ہم کو نماز سکھلائی اور اپنی سنت بیان فرمائی۔ راوی نے کہا: میرا خیال ہے انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کی اقامت ہو تو تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، پس جب وہ امام «الله اكبر» کہے تم بھی «الله اكبر» کہو، اور جب وہ «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم آمین کہو الله قبول کرے گا، پھر جب وہ «الله اكبر» کہے اور رکوع کرے تم بھی «الله اكبر» کہو اور رکوع میں چلے جاؤ، دھیان رہے کہ امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا اورتم امام کی اتباع میں بعد میں رکوع میں جاؤ گے اور رکوع سے سر اٹھاؤ گے، امام تم سے پہلے (رکوع سے) سر اٹھائے گا۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا ایسا کرنا امام کے رکوع وغیرہ ہی کے مطابق ہے، پس جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا ولك الحمد» کہو“ یا یہ کہا کہ ” «ربنا لك الحمد» کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان میں کہا ہے «سمع الله لمن حمده» (یعنی اللہ نے اس کی دعا سن لی یا قبول کر لی جس نے اس کی تعریف کی)، پھر جب امام «الله اكبر» کہہ کر سجدے میں جائے تو تم بھی (اس کے بعد) «الله اكبر» کہو اور سجدے میں چلے جاؤ، امام تم سے پہلے سجدے میں جائے گا اور تم سے پہلے سجدے سے سر اٹھائے گا“، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام ایسا کرے تو تم بھی ویسا ہی کرو، پھر جب امام (تشہد) قعدہ میں بیٹھے تو تم سب سے پہلے «اَلتَّحِيَّاتُ اَلطَّيِّبَاتُ اَلصَّلَوَاتُ لِلّٰھِ السَّلَامُ»، یا: «سَلَامٌ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ»، یا: «سَلَامٌ عَلَيْنَا وَعَلَىٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْنَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ» کہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف سعيد بن عامر متأخر السماع من ابن أبي عروبة ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1398]»
اس روایت کی سند میں کلام ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 404]، [نسائي 829، 1279]، [ابن ماجه 901]، [ابن حبان 2167] وضاحت:
(تشریح احادیث 1393 سے 1396) ان تینوں احادیثِ مبارکہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا صحیح طریقہ معلوم ہوا۔ پہلی حدیث اس باب میں کافی و وافی ہے، یہاں چند امور کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اتباعِ سنّت کی توفیق دے اور صلاة نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کی اسی طرح توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ 1- پہلی حدیث میں جو دس صحابہ کا ذکر ہے ان میں سے سیدنا سہل بن سعد، سیدنا محمد بن مسلمہ، سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہم ہیں جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ میں ہے۔ 2- ان احادیث سے تاکیداً یہ معلوم ہوا کہ رفع یدین رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّتِ موکدہ ہے، اور یہ کہنا کہ لوگ بغلوں میں بت چھپا لیتے تھے اس لئے شروع میں رفع یدین کرنے کو کہا گیا یہ سراسر غلط بیانی اور من گھڑت بات ہے کہ کسی صحابی سے ایسی توقع کی جاسکتی ہے، صحابی کیا منافق بھی ایسا نہیں کر سکتے اور نہ تاریخ نے ایسا کوئی واقعہ نقل کیا ہے۔ رفع الیدین احادیثِ صحیحہ کے مطابق تکبیرِ تحریمہ میں، رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھانے پر، نیز تیسری رکعت پر کھڑے ہونے پر کی جانی چاہیے۔ 3- ایک اور اہم مسئلہ اس حدیث میں اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، وہ ہے نماز میں اطمینان و سکون سے تمام ارکان کو ادا کرنا۔ اطمینان نماز کا رکن ہے، بغیر اطمینان کے نماز درست نہیں، اسی لئے ان احادیث میں بتایا گیا کہ رکوع، قومہ، سجدہ اور قعدہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنا وقفہ ٹھہرے رہتے کہ ہر جوڑ اور ہڈی اپنی جگہ پر آ جائے۔ 4- رکوع اور سجدے کی کیفیت کو بھی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ رکوع اور سجدے میں ہاتھ (بازو) پسلیوں اور پہلو سے دور رہیں۔ 5- پہلی حدیث میں تورک کا مسئلہ بھی وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔ تفصیل حدیث کے ترجمہ میں ذکر کر دی گئی ہے۔ 6- ان احادیث میں تشہد اوّل اور ثانی دونوں میں انگلی کے اشارے کا بھی واضح ثبوت ہے۔ 7- آمین کہنے کا ثبوت اور اس کی فضیلت بھی ان احادیث سے معلوم ہوئی کہ جو آمین کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کر لیتا ہے۔ 8- ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی «الله اكبر» کہیں گے اور امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو سب کا «ربنا لك الحمد» یا «ولك الحمد» کہنا بھی لازم ہے، دیگر اذکار بھی اس سلسلہ میں صحیح اسانید سے ثابت ہیں وہ بھی پڑھنے چاہئے جن کا ذکر حدیث نمبر (1357) میں گذر چکا ہے۔ 9- اس سے التحیات کا صیغہ بھی معلوم ہوا۔ 10- اور ایک اہم چیز امام کی متابعت ہے، کسی بھی رکن میں امام سے پہل نہ کی جائے ورنہ نماز باطل ہو جائے گی۔ «إِذَا كَبِّرْ فَكَبِّرُوْا» اور دیگر جملوں میں ظرف تعقیب کے لئے ہے، یعنی امام کر چکے تب وہ رکن ادا کیا جائے، جب تکبیر کہہ چکے تو تکبیر کہی جائے، رکوع میں جا چکے تو رکوع میں جائیں، رکوع سے کھڑا ہو جائے تب مقتدی کھڑے ہوں، جب سجدے میں امام چلا جائے اس کے بعد مقتدی سجدے میں جائیں، اور اسی طرح جب سجدے سے سر اٹھائے تب سجده پورا کریں، اور جب دونوں طرف سلام پھیر چکے تب سلام پھیریں، یہی صحیح متابعت ہے اور اسی کے لئے کہا گیا «جعل الإمام ليؤتم به» کہ امام اتباع کے لئے بنایا گیا ہے۔ واللہ علم قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف سعيد بن عامر متأخر السماع من ابن أبي عروبة ولكن الحديث صحيح
|