من كتاب الصللاة نماز کے مسائل 68. باب الْعَمَلِ في الرُّكُوعِ: رکوع میں عمل کا بیان
مصعب بن سعد نے بیان کیا کہ بنو عبدالله بن مسعود جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھ رانوں کے درمیان رکھتے تھے، لہٰذا میں نے (اپنے والد) سعد (بن ابی وقاص) کے پہلو میں نماز پڑھی تو میں نے ایسا ہی کیا، لیکن انہوں نے میرے ہاتھ پر مارا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو کہا: بیٹے اپنے ہاتھوں کو (رکوع میں) گھٹنوں پر رکھو، میں نے ایک دن بعد پھر ان کے پہلو میں نماز پڑھی تو ویسے ہی کیا، انہوں نے پھر میرے ہاتھ کو مارا، اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو کہا: ہم اسی طرح (ہاتھ ملا کر رانوں کے بیچ) رکھتے تھے، ہم کو حکم دیا گیا کہ ہم ہتھیلیوں کو گھٹنوں پر رکھیں۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1341]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 790]، [مسلم 535]، [أبويعلی 812]، [ابن حبان 1882] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
محمد بن یوسف نے خبر دی کہ روایت کیا اسرائیل نے ابواسحاق سے، انہوں نے مصعب سے اسی طرح۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1342]»
تخریج گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [أبوداؤد 858]، [ترمذي 259]، [ابن ماجه 873] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھاؤں؟ (سالم البراد نے) کہا: چنانچہ انہوں نے تکبیر کہی، رکوع کیا اور اپنے دونوں ہاتھ (ہتھیلیاں) اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھے، اور اپنی انگلیاں کھلی رکھیں یہاں تک کہ ہر جوڑ سیدھا ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف همام متأخر السماع من عطاء. ولكن الحديث صحيح كما تبين من مصادر التخريج، [مكتبه الشامله نمبر: 1343]»
ہمام کا لقاء عطاء سے متاخر تھا اس لئے مذکورہ بالا سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 863]، [نسائي 1035]، [مسند أحمد 119/4] و [الحاكم 224/1] وضاحت:
(تشریح احادیث 1338 سے 1341) ان احادیث کو ذکر کرنے سے امام دارمی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ رکوع میں پہلے دونوں ہاتھ رانوں کے بیچ رکھے جاتے تھے جو بعد میں منسوخ ہو گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ہاتھ کی ہتھیلیاں دونوں گھٹنوں پر رکھتے تھے اور انگلیاں کھلی رکھتے تھے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف همام متأخر السماع من عطاء. ولكن الحديث صحيح كما تبين من مصادر التخريج
|