من كتاب الصللاة نماز کے مسائل 174. باب في سَجْدَتَيِ السَّهْوِ مِنَ الزِّيَادَةِ: نماز میں زیادتی پر سجدہ سہو کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوپہر کی دو نمازوں میں سے کوئی ایک نماز پڑھائی اور دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں رکھی ایک لکڑی کے پاس کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ سے اس کا سہارا لیا، یزید بن ہارون نے کہا: ابن عون نے ہمیں اس طرح ہاتھ رکھ کر بتایا کہ ایک ہاتھ کو دوسرے کی پشت پر رکھا اور اوپر والے ہاتھ کی انگلیاں نیچے والے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ غصے میں ہیں، جو لوگ جلدی نکلنے والے تھے نکل گئے اور کہنے لگے کہ نماز کم کر دی گئی، نماز کم کر دی گئی، حاضرین میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے لیکن انہیں بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی، انہیں لوگوں میں سے ایک شخص تھے جنہیں ذوالیدین (لمبے ہاتھ والا) کہا جاتا تھا، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کر دی گئی ہے؟ فرمایا: ”نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم کی گئی ہے“، اور آپ نے حاضرین سے پوچھا: ”کیا ایسا ہوا ہے؟“ (یعنی نماز میں کوئی کمی رہ گئی ہے)، عرض کیا: جی ہاں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹے اور نماز پوری کی، پھر سلام پھیرا اور پھر الله اکبر کہا اور لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، اس کے بعد پھر تکبیر کہی اور پہلے سجدے کی طرح دوسرا سجدہ کیا، پھر اپنا سر مبارک سجدے سے اٹھایا اور مڑ گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1537]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 482]، [مسلم 573]، [أبوداؤد 1008]، [ترمذي 399]، [أبويعلی 5860]، [ابن حبان 2249]، [الحميدي 1013] وضاحت:
(تشریح حدیث 1534) بخاری شریف کی روایت میں ہے: عمران بن حصین نے کہا: پھر سلام پھیرا۔ یعنی سلام کی تصریح ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھی اور ان میں سے کسی ایک نماز میں دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو ذوالشمالین بن عبد بن عمرو بن نضلۃ خزاعی جو کہ بنوزہرہ کے حلیف تھے، نے کہا: اے اللہ کے رسول! نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم ہوئی ہے۔“ ذوالشمالین نے عرض کیا: کچھ تو ہے اے اللہ کے رسول، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”کیا ذوالیدین صحیح کہتے ہیں؟“ عرض کیا: جی ہاں، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پوری کی، اور کسی راوی نے مجھے نہیں بتایا کہ اسی حالت میں بیٹھے ہوئے اس نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کئے (یہ ان کے خیال میں واللہ اعلم) اس لئے کہ لوگوں نے آپ کو یقین دلایا اور آپ نے یقین کر لیا کہ نماز میں کمی رہ گئی (اور صرف دو رکعت پڑھی) ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل عبد الله بن صالح كاتب الليث، [مكتبه الشامله نمبر: 1538]»
اس حدیث کا حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل عبد الله بن صالح كاتب الليث
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی پانچ رکعت نماز پڑھی، آپ کو جب آگاه کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے (سہو کے) کر لئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1539]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 404]، [مسلم 572]، [أبوداؤد 1019]، [ترمذي 392]، [نسائي 1253، 1254]، [ابن ماجه 1205]، [أبويعلی 5002]، [ابن حبان 2656]، [مسند الحميدي 96] وضاحت:
(تشریح احادیث 1535 سے 1537) مذکورہ بالا تینوں احادیث سے ثابت ہوا کہ نبیوں سے بھی بھول چوک ہو سکتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں اگر اس گمان پر کہ نماز پوری ہو چکی ہے کوئی بات کر لے تو نماز کا نئے سرے سے لوٹانا واجب نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہ نئے سرے سے نماز کو لوٹایا اور نہ لوگوں کو نماز لوٹانے کا حکم دیا۔ نیز سجدۂ سہو بھی ان احادیث سے ثابت ہوا، اب یہ کہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدۂ سہو کرنا چاہئے یا سلام کے بعد، تو اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ یہ حدیث ذواليدین یا ذوالشمالین سے مشہور ہے جن کا نام خرباق تھا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|