سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
2. باب في مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ:
نماز کے اوقات کا بیان
حدیث نمبر: 1218
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم قال: سمعت محمد بن عمرو بن الحسن بن علي رضوان الله عليهما قال: سالنا جابر بن عبد الله رضي الله عنهما في زمن الحجاج وكان يؤخر الصلاة عن وقت الصلاة، فقال جابر: كان النبي صلى الله عليه وسلم "يصلي الظهر حين تزول الشمس، والعصر وهي حية او نقية، والمغرب حين تجب الشمس، والعشاء ربما عجل وربما اخر: إذا اجتمع الناس عجل، وإذا تاخروا، اخر، والصبح ربما كانوا او كان يصليها بغلس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهِ عَنْهُمَا فِي زَمَنِ الْحَجَّاجِ وَكَانَ يُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ جَابِرٌ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَالْعَصْرَ وَهِيَ حَيَّةٌ أَوْ نَقِيَّةٌ، وَالْمَغْرِبَ حِينَ تَجِبُ الشَّمْسُ، وَالْعِشَاءَ رُبَّمَا عَجَّلَ وَرُبَّمَا أَخَّرَ: إِذَا اجْتَمَعَ النَّاسُ عَجَّلَ، وَإِذَا تَأَخَّرُوا، أَخَّرَ، وَالصُّبْحَ رُبَّمَا كَانُوا أَوْ كَانَ يُصَلِّيهَا بِغَلَسٍ".
محمد بن حسن بن علی نے کہا: ہم نے سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما سے حجاج کے زمانے میں پوچھا جو کہ نماز تاخیر سے پڑھتے تھے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا، اور عصر کی نماز (اس وقت پڑھتے) جب سورج صاف ہو جاتا، اور نماز مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا اور عشاء کی نماز کبھی جلدی اور کبھی دیر سے پڑھتے تھے، جب لوگ جمع ہو جاتے تو جلدی پڑھ لیتے اور جب لوگ تاخیر کرتے تو آپ تاخیر سے نماز پڑھتے، اور صبح کی نماز وہ سب (یا یہ کہا) یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1222]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 560]، [مسلم 646]، [مسند أبى يعلی 2029]، و [ابن حبان 1728]۔ واضح رہے کہ ان تمام مصادر میں ( «رُبَّمَا» ) کا لفظ موجو نہیں ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1219
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، ان عمر بن عبد العزيز اخر الصلاة يوما، فدخل عليه عروة بن الزبير، فاخبره ان المغيرة بن شعبة اخر الصلاة يوما، فدخل عليه ابو مسعود الانصاري، فقال: ما هذا يا مغيرة؟ اليس قد علمت ان جبريل نزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:"بهذا امرت". قال: اعلم ما تحدث يا عروة، او ان جبريل اقام وقت الصلاة لرسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: كذلك كان بشير بن ابي مسعود يحدث، عن ابيه. قال عروة: ولقد حدثتني عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان "يصلي العصر والشمس في حجرتها قبل ان تظهر"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا، فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: مَا هَذَا يَا مُغِيرَةُ؟ أَلَيْسَ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ جِبْرِيلَ نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:"بِهَذَا أُمِرْتَ". قَالَ: اعْلَمْ مَا تُحَدِّثُ يَا عُرْوَةُ، أَوَ أَنَّ جِبْرِيلَ أَقَامَ وَقْتَ الصَّلَاةِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: كَذَلِكَ كَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ. قَالَ عُرْوَةُ: وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ"..
ابن شہاب سے مروی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک دن (عصر کی) نماز میں دیر کی تو عروہ بن زبیر ان کے پاس آئے اور عرض کیا کہ (اسی طرح) مغیرہ بن شعبہ نے ایک دن نماز میں تاخیر کی تو سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا: مغیرہ یہ کیا ہے؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو انھوں نے نماز پڑھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبریل علیہ السلام نے نماز پڑھی تو آپ نے بھی نماز پڑھی، پھر انھوں نے نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر انھوں نے نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر (جبریل علیہ السلام) نے نماز پڑھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اسی طرح کا حکم دیا گیا ہے، (اس پر) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: عروہ تمہیں معلوم ہے کیا بیان کر رہے ہو، کیا جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات عمل کر کے بتائے تھے؟ عروہ نے کہا: بشیر بن ابی مسعود بھی اپنے والد کے طریق سے ایسے ہی بیان کرتے تھے۔ عروہ نے کہا: مجھ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھ لیتے تھے جب دھوپ ابھی ان کے حجرے میں موجود ہوتی تھی، اس سے بھی پہلے کہ وہ دیوار پر چڑھے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1223]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 521]، [مسلم 610] و [أصحاب السنن، أحمد 274/5]، [ابن حبان 1449]، [الحميدي 456]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1218 سے 1219)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اوقاتِ نماز کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ جبریل علیہ السلام نے الله تعالیٰ کی طرف سے اس کی قولاً و عملاً تعلیم دی، نیز یہ کہ ہر نماز کی ادائیگی اوّل وقت میں الله کو بہت محبوب ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا الله تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کونسا عمل ہے؟ فرمایا: اوّل وقت میں نماز پڑھنا «(أو كما قال عليه الصلاة والسلام)» دیکھئے: رقم (1259) و [بخاري 527] ۔
اس حدیث میں پانچوں نمازوں کے وقت کی تحدید کے علاوہ اور بھی کتنے ہی فوائد ہیں، ایک یہ کہ سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کو دور کرنے کے لئے علماء کا امراء کے دربار میں جانا صحیح ہے، نیز یہ کہ اوّل وقت میں نماز پڑھنے کی اس حدیث میں فضیلت ہے اور صحیح بات مان لینا بھی اس سے ثابت ہوتا ہے۔
والله اعلم

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.