سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
41. باب في رَفْعِ الْيَدَيْنِ في الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ:
رکوع اور سجود کے وقت رفع الیدین کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1284
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن عمر، اخبرنا مالك، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان "إذا دخل الصلاة، كبر ورفع يديه حذو منكبيه، وإذا ركع كبر ورفع يديه، وإذا رفع راسه من الركوع، فعل مثل ذلك، ولا يرفع بين السجدتين او في السجود".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "إِذَا دَخَلَ الصَّلَاةَ، كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ، فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ أَوْ فِي السُّجُودِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو «الله اكبر» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے (یعنی رفع الیدین کرتے)، اور جب رکوع میں جاتے تو تکبیر کہتے اور رفع یدین کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو ایسے ہی رفع یدین کرتے، اور سجدتین یا سجود کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1285]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 735]، [مسلم 390]، [أبوداؤد 721]، [ترمذي 255]، [نسائي 1024]، [ابن ماجه 858]، [مسند أبى يعلی 5420، 5481] و [ابن حبان 1861، 1864 وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1285
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن نصر بن عاصم، عن مالك بن الحويرث، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان "إذا كبر، رفع يديه حتى يحاذي اذنيه، وإذا اراد ان يركع، وإذا رفع راسه من الركوع".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "إِذَا كَبَّرَ، رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ أُذُنَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ".
مالک بن الحویرث نے روایت کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ کہتے تو کانوں تک ہاتھ اٹھاتے، اور اسی طرح رکوع میں جاتے ہوئے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1286]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 737]، [مسلم 391]، [ابن حبان 1863]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1286
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، حدثني ابو البختري، عن عبد الرحمن اليحصبي، عن وائل الحضرمي، انه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكان "يكبر إذا خفض وإذا رفع، ويرفع يديه عند التكبير، ويسلم عن يمينه، وعن يساره". قال: قلت: حتى يبدو وضح وجهه؟ قال: نعم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، حَدَّثَنِي أَبُو الْبَخْتَرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْيَحْصُبِيِّ، عَنْ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ "يُكَبِّرُ إِذَا خَفَضَ وَإِذَا رَفَعَ، وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ التَّكْبِيرِ، وَيُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ يَسَارِهِ". قَالَ: قُلْتُ: حَتَّى يَبْدُوَ وَضَحُ وَجْهِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا وائل حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ تکبیر کے وقت اٹھاتے تھے، اور دائیں و بائیں طرف سلام پھیرتے تھے،کہا گیا: یہاں تک کہ چہرے کی سفیدی دکھنے لگتی۔ کہا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1287]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 997] و [البيهقي 26/2]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1283 سے 1286)
ان روایات سے تین مقامات پر رفع یدین کا ثبوت ملا۔
یعنی تکبیرِ تحریمہ، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت، چوتھا مقام تیسری رکعت کے لئے جب کھڑے ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین کرتے تھے۔
یہ ہی سنّت ہے، اور عربی کا قاعدہ ہے کہ «كَانَ» کی خبر فعل مضارع ہو تو اس سے استمرار ثابت ہوتا ہے، مذکورہ بالا روایت اور دیگر روایات میں ہے «كَانَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ.» اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ بالا مقامات پر نماز میں ہمیشہ رفع یدین کرتے تھے۔
اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ رفع یدین کرنا ثابت ہوا، اور یہ کہنا کہ صرف ابتدائے اسلام میں رفع یدین اس وجہ سے کی جاتی تھی کہ لوگ بغل میں بت چھپائے رہتے تھے، یہ کہانی بالکل لغو اور باطل ہے، اگر بت چھپا کر لانے والے مسلمان تھے تو یہ صحابہ کرام پر بڑا عظیم بہتان ہے، اور کافر و منافق بھی ایسا نہیں کر سکتے تھے۔
بعض لوگ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کرتے ہیں اور ان مقامات پر رفع یدین کرنے کو منسوخ گردانتے ہیں، یہ غلط ہے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول اگر صحیح سند سے ثابت بھی ہو تو وہ شاذ ہے کیونکہ اکثر صحابہ کرام نے رفع یدین کا ذکر کیا ہے، جیسا کہ دس صحابہ نے رفع الیدین کی تائید کی۔
دیکھئے: حدیث رقم (1394)، نیز (1345) میں بھی رفع الیدین کا ذکر ہے۔
صرف اکیلے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
اس لئے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول و فعل شاذ ہونے کے سبب نا قابلِ حجت و نا قابلِ عمل ہوگا۔
واللہ اعلم۔
ہمارے احناف بھائی رفع الیدین کے سلسلے میں ان کے فعل کو حجت مانتے ہیں لیکن بہت سے مسائل میں ان کی مخالفت کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
1- سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک سورة الفاتحۃ قرآن میں سے نہیں ہے۔
2- قرآن پاک کی سورتوں کی ترتیب ان کے نزدیک اس طرح تھی: بقرہ، نساء، آل عمران۔
٣- وہ ہر نماز کو اوّل وقت میں پڑھنے کے قائل تھے، احناف آخر وقت میں پڑھتے ہیں۔
دیکھئے: حدیث (1219، 1259) و [بخاري 527] ۔
4- سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: اللہ حلالہ کرنے والے پر اور کروانے والے پر لعنت کرے۔
دیکھئے: [سنن دارمي 2300] لیکن احناف خوب حلالہ کرتے اور کراتے ہیں۔
5- نماز میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایک طرف سلام پھیرنے کو ترجیح دیتے تھے۔
دیکھئے: حدیث نمبر (1384)۔
6- رکوع میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اہل و عیال دونوں ہاتھ گھٹنوں کے درمیان رکھتے تھے، حالانکہ یہ حکم منسوخ ہو گیا تھا اور ایسا کرنے پر سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے لڑکے کو مارا بھی تھا۔
دیکھئے: [نسائي 1033]، احناف کیوں رکوع میں گھٹنوں کے درمیان ہاتھ نہیں رکھتے؟
7- تسبیح کے دانوں پر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے تسبيح و تہلیل پڑھنے کو سخت ناپسند کیا۔
دیکھئے: حدیث نمبر (210)، لیکن احناف ہاتھ میں مالا لئے خوب بازاروں میں گھومتے ہیں۔
8- سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ فرشتے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تک درود پہنچاتے ہیں۔
ص: 289، پھر احناف کیوں حجاج سے سلام کہلواتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ دیگر انسانوں کی طرح سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی بتقاضۂ بشریت کچھ چوک ہوئی، اس لئے جو بات ان کی دیگر صحابہ کرام کے اقوال کے مطابق ہے مانی جائے گی، اور جو خلافِ سنّت یا خلافِ اجماعِ صحابہ ہے وہ بات قابلِ عمل اور حجت نہ ہوگی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.