من كتاب الصللاة نماز کے مسائل 61. باب في صَلاَةِ الرَّجُلِ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ: صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز کا حکم و بیان
ہلال بن یساف نے کہا: زیاد بن ابی الجعد نے میرا ہاتھ پکڑا اور بنو اسد کے ایک شیخ کے پاس مجھے کھڑا کر دیا جن کو وابصۃ بن معبد کہا جاتا تھا، پھر کہا کہ انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کی اور وہ شخ (وابصہ) سن رہے تھے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جس نے (تنہا) آپ کے پیچھے نماز پڑھی اور صف میں نہیں ملا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز لوٹانے کا حکم دیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: سند کے اعتبار سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ عمرو بن مرة کی حدیث کو زیادہ صحیح کہتے تھے اور میرے نزدیک یزید بن زیاد بن ابی الجعد کی حدیث زیادہ صحیح ہے (مفہوم دونوں حدیث کا ایک ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1322]»
اس حدیث کی سند جید اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 230]، [أبويعلی 1588]، [ابن حبان 2198] و [حديث عمرو بن مرة: ابن حبان 2199]، [موارد الظمآن 403، 404] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد والحديث صحيح
وابصۃ بن معبد سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے صفوں کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی تو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس (نماز) کو لوٹائے (یعنی دوبارہ پڑھے)، امام ابومحمد رحمہ اللہ نے کہا: میں یہی کہتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1323]»
تخریج اس روایت کی تخریج گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 2201] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ ان کی نانی ملیکہ نے کھانا بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا تناول فرمایا پھر فرمایا: ”آؤ تمہیں نماز پڑھا دوں“، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اپنا ایک بوریا اٹھایا جو کثرث استعمال سے کالا ہو گیا تھا، میں نے اس پر پانی چھڑکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لئے) اس بوریے پر کھڑے ہوئے، میں اور ایک یتیم لڑکے (ضمیر ة) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی اور نانی ماں ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی، پھر واپس ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1324]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 380]، [مسلم 658]، [أبوداؤد 608]، [ترمذي 234]، [نسائي 800]، [أبويعلی 4206]، [ابن حبان 2205]، [الحميدي 1228] وضاحت:
(تشریح احادیث 1319 سے 1322) اوپر کی دو حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی اور اس کو نماز لوٹانی ہوگی، اور تیسری حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی نانی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی گویا کہ کوئی حرج نہیں، ان احادیث کے پیشِ نظر بعض ائمۂ کرام نے کہا کہ اکیلے نماز پڑھنا درست نہیں اور نماز لوٹانی ہوگی، بعض ائمہ نے کہا کہ صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا مکروہ ہے لیکن نماز ہو جائے گی۔ نیز اس حدیث سے دن میں بھی نفلی نماز جماعت سے ادا کرنے کا ثبوت ملا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ سلوک کہ ایک بڑھیا دعوت دے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا تردد دعوت قبول کر لیتے ہیں، پھر برکت یا تعلیم کے لئے انہیں نماز پڑھاتے ہیں، «صلى اللّٰه على نبي الرحمة والإنسانية و على آله و صحبه و سلم تسليما كثيرا» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|