من كتاب الصللاة نماز کے مسائل 151. باب صَلاَةِ الضُّحَى: صلاۃ الضحیٰ کا بیان
ابن ابی لیلی کہتے ہیں: ہمیں سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے سوا کسی نے یہ اطلاع نہیں دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز پڑھی، چنانچہ انہوں نے (سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے) ذکر کیا کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں غسل کیا، پھر آٹھ رکعت نماز پڑھی اور کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اتنی ہلکی نماز پڑھتے نہیں دیکھا، ہاں اس نماز میں بھی رکوع و سجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے اطمینان سے اچھی طرح کرتے رہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1493]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1176]، [مسلم 336/80]، [أبوداؤد 1291]، [ترمذي 474] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل کرتے ہوئے پایا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پردہ کئے ہوئے تھیں، سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے سلام کیا اور یہ چاشت کا وقت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: کہ میں ام ہانی ہوں، انہوں نے کہا: پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر آٹھ رکعت نماز ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے ادا کیں، پھر نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں جائے بھائی کا خیال ہے کہ وہ اس شخص کو قتل کر ڈالے گا جس کو میں نے پناہ دی ہے، وہ فلاں بن ہبیرہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ام ہانی جس کو تم نے پناہ دی ہم نے اس کو پناہ دے دی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1494]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 357]، [مسلم 336/82]، [الموطأ 31]، [ترمذي 1579]، [نسائي 225]، [ابن ماجه 465]، [ابن حبان 1188، 2537]، [موارد الظمآن 631]، [الحميدي 333] وضاحت:
(تشریح احادیث 1490 سے 1492) سیدہ اُم ہانی رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سگی بہن تھیں۔ اس حدیث میں محل شاہد جاشت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آٹھ رکعت نماز پڑھنا ہے جس کے بارے میں بعض علماء نے کہا کہ یہ چاشت کی نماز ہے اور بعض نے کہا فتح مکہ کی نمازِ شکرانہ تھی۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے میرے جانی دوست (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے جنہیں میں موت سے پہلے نہیں چھوڑ سکتا۔ سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی، ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنے کی، اور دو رکعت چاشت کی نماز پڑھنے کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1495]»
اس روایت کی یہ سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1178]، [مسلم 721]، [نسائي 1676]، [أبويعلی 6226]، [ابن حبان 2536]، [أحمد 229/2] وضاحت:
(تشریح حدیث 1492) اشراق اور ضحیٰ (چاشت) کے بارے میں سلف و خلف میں اختلاف ہے۔ آیا یہ ایک ہی ہیں یا دونوں نمازیں الگ الگ ہیں، ان روایات کی روشنی میں واضح یہی ہوتا ہے کہ دونوں الگ الگ ہیں۔ اشراق سورج نکلنے کے بعد اور چاشت جب سورج بلندی پر آجائے زوال سے پہلے تک، مذکورہ بالا حدیث میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی کہ اس کو کبھی نہ چھوڑیں، عبدالرحمٰن بن ابی یعلیٰ کا یہ کہنا کہ سیدہ اُم ہانی رضی اللہ عنہا کے سوا کسی نے ضحیٰ کی نماز کا ذکر نہیں کیا، تو ثبوت کے لئے ایک راوی کی ہی روایت و شہادت کافی ہے، اور جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کے نوافل پڑھتے نہیں دیکھا تو علماء نے اس کو ان کے عدم علم پر محمول کیا ہے، نیز یہ کہ اشراق کی نماز دو یا چار رکعت اور چاشت دو رکعت سے آٹھ رکعت تک ہیں۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|