من كتاب الصللاة نماز کے مسائل 37. باب في السَّكْتَتَيْنِ: قیام کے دوران دو بار خاموش رہنے کا بیان
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز میں) دو جگہ خاموش رہتے (یعنی سکتہ کرتے) تھے، جس وقت نماز میں داخل ہوتے (یعنی دعائے استفتاح کے وقت)، دوسرا سکتہ قراءت سے فراغت کے وقت (یعنی رکوع سے پہلے)، سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے اس بات پر ان کا انکار کیا تو لوگوں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس (یہ مسئلہ) لکھ کر بھیجا تو انہوں نے جواب دیا کہ سمرة نے صحیح کہا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: قتادہ رحمہ اللہ تین مرتبہ سکتہ کرنے کو کہتے تھے (یعنی تکبیر تحریمہ کے بعد، پھر فاتحہ کے بعد، پھر قرأت کے اختتام پر رکوع سے پہلے)۔ (سفر السعادات میں بھی ایسا ہی ہے، اس لئے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سکتے کے دوران مقتدی سورۂ فاتحہ پڑھ لیں) لیکن مرفوع حدیث میں دو بار ہی سکتے کا بیان ہے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن سماع الحسن من سمرة لم يقطع به والله أعلم. وقد ترجح عندنا أنه لم يسمع منه، [مكتبه الشامله نمبر: 1279]»
اس روایت کے راوی ثقات ہیں، لیکن حسن کا سماع سمرہ سے محل نظر ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 777]، [ترمذي 251]، [نسائي 898]، [ابن ماجه 844]، [ابن حبان 1807] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن سماع الحسن من سمرة لم يقطع به والله أعلم. وقد ترجح عندنا أنه لم يسمع منه
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر (تحریمہ) اور قرأت کے درمیان تھوڑی دیر چپ رہتے۔ ابوزرعہ نے کہا میں سمجھتا ہوں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے «اسكاتة» کے ساتھ «هنية» کہا۔ میں (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ فدا، آپ تکبیر اور قرأت کے درمیان کی خاموشی میں کیا پڑھتے ہیں؟ فرمایا: ”میں پڑھتا ہوں: «اللهم باعد ........ والماء البارد» یعنی: ”اے اللہ میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی دوری تو نے مشرق و مغرب میں کی ہے، اے اللہ مجھے میرے گناہوں سے اس طرح پاک و صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ میرے گناہوں کو برف اور ٹھنڈے پانی سے دھو ڈال۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1280]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 744]، [مسلم 598]، [أبوداؤد 781]، [نسائي 333]، [ابن ماجه 805]، [مسند أبى يعلی 6097/6081]، [أبويعلی 6081]، [ابن حبان 1776 وغيرهم] وضاحت:
(تشریح احادیث 1276 سے 1278) دعائے استفتاح کئی طرح سے وارد ہے لیکن سب میں صحیح دعا یہی ہے: «اَللّٰهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ ....... إلخ»، اور اہلِ حدیث اسی کوترجیح دیتے ہیں، نیز یہ کہ مذکورہ بالا روایت میں دعا کے آخر میں «بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ الْبَارِدِ» مذکور ہے جب کہ صحیحین اور سنن میں «بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ» آیا ہے جو زیادہ ہے، مطلب یہ کہ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو ڈال، اور یہ تینوں چیزیں مبالغے کے طور پر ذکر کی گئی ہیں، یعنی ایسی دھلائی ہو کہ ذرہ برابر میل کچیل باقی نہ رہ سکے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|