من كتاب الصللاة نماز کے مسائل 184. باب في صَلاَةِ الْخَوْفِ: صلاۃ الخوف کا بیان
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی جانب غزوہ (ذات الرقاع) میں شریک تھا، پس دشمن سے مقابلے کے وقت ہم نے صفیں باندھیں اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (خوف کی) نماز پڑھائی، چنانچہ ہم میں سے ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا رہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اقتداء میں نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ایک رکوع کیا اور دو سجدے کئے، پھر یہ لوگ لوٹ کر اس جماعت کی جگہ آ گئے جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی، اب یہ جماعت آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا اور اس گروہ میں سے ہر شخص کھڑا ہوا اور اس نے اکیلے اکیلے ایک رکوع اور دو سجدے ادا کئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1562]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 942، 4133]، [مسلم 839]، [أبوداؤد 1243]، [ترمذي 564]، [نسائي 1537]، [ابن حبان 2879] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سہل بن ابی حثمہ نے صلاة الخوف کے بارے میں کہا کہ امام ایک جماعت کے ساتھ نماز پڑھے اور ایک جماعت دشمن کے مقابلے میں ڈٹی رہے، پس امام اپنے ساتھ شریک جماعت کو ایک رکعت نماز پڑھائے، پھر یہ جماعت اس گروہ کی جگہ چلی جائے جو دشمن کے مقابلے میں ہے، اور وہ آ کر امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے، پھر ہر جماعت ایک ایک رکعت خود سے اپنے آپ پوری کر لے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1563]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4131]، [مسلم 841]، [ترمذي 567]، [نسائي 1536]، [ابن حبان 2885]۔ اس سند میں پہلے راوی یحییٰ بن سعید (ابن فروخ القطان) ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
دوسری سند سے بھی سہل بن ابی حثمہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل بیان کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1564]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4129]، [مسلم 841] وضاحت:
(تشریح احادیث 1559 سے 1562) صلاة الخوف یا ڈر کے وقت کی نماز جب دشمن سامنے ہو اور ہمہ وقت حملے کا خطرہ ہو۔ احادیثِ شریفہ میں اس کی کئی صورتیں مذکور ہیں، مذکورہ بالا طریقۂ نماز اس وقت کے لئے ہے جب دشمن قبلہ کی جہت میں نہ ہو، دشمن کے قبلہ کی جہت میں ہونے کی صورت میں جو نماز پڑھی جائے گی اس میں تمام نمازی ایک ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے اور سجدے میں صرف اگلی صفوف امام کے ساتھ سجدہ کریں گی۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: بخاری و مسلم، نیل الأوطار و سبل السلام باب صلاة الخوف في کتاب الصلاة۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حالتِ جنگ اور انتہائی خوف کے عالم میں بھی نماز معاف نہیں بلکہ نماز کو اس کے وقت میں پڑھنا چاہیے، نیز یہ کہ نماز میں آنا جانا، صف سے نکلنا، یہ سب داخلِ نماز اور مصلحتِ نماز میں سے ہے اس لئے کثرتِ حرکت سے نماز باطل نہیں ہو گی، اور یہ کہنا کہ صلاةِ خوف صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھی اب جائز نہیں، صحیح نہیں ہے، بلکہ اس کا حکم قیامت تک کے لئے ہے۔ عصرِ حاضر میں دو بدو جنگ بھی نہیں ہوتی بآسانی اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ والله اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|