سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
184. باب في صَلاَةِ الْخَوْفِ:
صلاۃ الخوف کا بیان
حدیث نمبر: 1562
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ بْنُ مُحَمَّدُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
دوسری سند سے بھی سہل بن ابی حثمہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل بیان کیا ہے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1564]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4129]، [مسلم 841]
وضاحت: (تشریح احادیث 1559 سے 1562)
صلاة الخوف یا ڈر کے وقت کی نماز جب دشمن سامنے ہو اور ہمہ وقت حملے کا خطرہ ہو۔
احادیثِ شریفہ میں اس کی کئی صورتیں مذکور ہیں، مذکورہ بالا طریقۂ نماز اس وقت کے لئے ہے جب دشمن قبلہ کی جہت میں نہ ہو، دشمن کے قبلہ کی جہت میں ہونے کی صورت میں جو نماز پڑھی جائے گی اس میں تمام نمازی ایک ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے اور سجدے میں صرف اگلی صفوف امام کے ساتھ سجدہ کریں گی۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: بخاری و مسلم، نیل الأوطار و سبل السلام باب صلاة الخوف في کتاب الصلاة۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حالتِ جنگ اور انتہائی خوف کے عالم میں بھی نماز معاف نہیں بلکہ نماز کو اس کے وقت میں پڑھنا چاہیے، نیز یہ کہ نماز میں آنا جانا، صف سے نکلنا، یہ سب داخلِ نماز اور مصلحتِ نماز میں سے ہے اس لئے کثرتِ حرکت سے نماز باطل نہیں ہو گی، اور یہ کہنا کہ صلاةِ خوف صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھی اب جائز نہیں، صحیح نہیں ہے، بلکہ اس کا حکم قیامت تک کے لئے ہے۔
عصرِ حاضر میں دو بدو جنگ بھی نہیں ہوتی بآسانی اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
والله اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح