Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
184. باب في صَلاَةِ الْخَوْفِ:
صلاۃ الخوف کا بیان
حدیث نمبر: 1560
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ:"غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةً قِبَلَ نَجْدٍ، فَوَازَيْنَا الْعَدُوَّ وَصَافَفْنَاهُمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَنَا، فَقَامَ طَائِفَةٌ مِنَّا مَعَهُ، وَأَقْبَلَ طَائِفَةٌ عَلَى الْعَدُوِّ، فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْ مَعَهُ رَكْعَةً، وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفُوا، فَكَانُوا مَكَانَ الطَّائِفَةِ الَّتِي لَمْ تُصَلِّ، وَجَاءَتْ الطَّائِفَةُ الَّتِي لَمْ تُصَلِّ فَرَكَعَ بِهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً وسَجَدَ َسَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَرَكَعَ لِنَفْسِهِ رَكْعَةً وسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی جانب غزوہ (ذات الرقاع) میں شریک تھا، پس دشمن سے مقابلے کے وقت ہم نے صفیں باندھیں اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (خوف کی) نماز پڑھائی، چنانچہ ہم میں سے ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا رہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اقتداء میں نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ایک رکوع کیا اور دو سجدے کئے، پھر یہ لوگ لوٹ کر اس جماعت کی جگہ آ گئے جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی، اب یہ جماعت آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا اور اس گروہ میں سے ہر شخص کھڑا ہوا اور اس نے اکیلے اکیلے ایک رکوع اور دو سجدے ادا کئے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1562]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 942، 4133]، [مسلم 839]، [أبوداؤد 1243]، [ترمذي 564]، [نسائي 1537]، [ابن حبان 2879]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح