حدثنا عبد الله , حدثني ابى , في سنة ثمان وعشرين ومائتين , حدثنا وكيع , حدثنا الاعمش , عن ابي ظبيان , عن معاذ بن جبل , انه لما رجع من اليمن , قال: يا رسول الله , رايت رجالا باليمن يسجد بعضهم لبعضهم , افلا نسجد لك؟ قال: " لو كنت آمرا بشرا يسجد لبشر , لامرت المراة ان تسجد لزوجها" ..حدثنا عبد الله , حدثني أبى , فِي سَنَةِ ثَمَانٍ وَعِشْرِينَ وَمِائَتَيْنِ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , أَنَّهُ لَمَّا رَجَعَ مِنَ الْيَمَنِ , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , رَأَيْتُ رِجَالًا بِالْيَمَنِ يَسْجُدُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضِهِمْ , أَفَلَا نَسْجُدُ لَكَ؟ قَالَ: " لَوْ كُنْتُ آمِرًا بَشَرًا يَسْجُدُ لِبَشَرٍ , لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا" ..
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یمن سے واپس آکر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے عیسائیوں کو اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے دیکھا ہے میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اس سے زیادہ تعظیم کے مستحق تو آپ ہیں تو کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کیا کریں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، أبو ظبيان لم يدرك معاذا
حدثنا وكيع , حدثنا سفيان , عن حبيب بن ابي ثابت , عن ميمون بن ابي شبيب , عن معاذ , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له:" يا معاذ , اتبع السيئة بالحسنة تمحها , وخالق الناس بخلق حسن" , فقال: وقال وكيع: وجدته في كتابي , عن ابي ذر , وهو السماع الاول , قال ابي: وقال وكيع: قال سفيان مرة: عن معاذ.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ , عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ , عَنْ مُعَاذٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:" يَا مُعَاذُ , أَتْبِعْ السَّيِّئَةَ بِالْحَسَنَةِ تَمْحُهَا , وَخَالِقْ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ" , فَقَالَ: وَقَالَ وَكِيعٌ: وَجَدْتُهُ فِي كِتَابِي , عَنْ أَبِي ذَرٍّ , وَهُوَ السَّمَاعُ الْأَوَّلُ , قَالَ أَبِي: وَقَالَ وَكِيعٌ: قَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: عَنْ مُعَاذٍ.
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا معاذ! گناہ ہوجائے تو اس کے بعد نیکی کرلیا کرو جو اسے مٹا دے اور لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد منقطع، ميمون بن أبى شبيب لم يسمع من معاذ، ثم قد اختلف على سفيان فى إسناده
موسیٰ بن طلحہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا ایک خط ہے جس میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گندم، جو کشمش اور کھجور میں سے بھی زکوٰۃ وصول فرماتے تھے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عرب کی کسی بستی میں بھیجا اور حکم دیا کہ زمین کا حصہ وصول کرکے لاؤں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، جابر الجعفي ضعيف، ورواية محمد بن زيد عن معاذ منقطعة
حدثنا وكيع , عن إسرائيل , عن ابي إسحاق , عن عمرو بن ميمون , عن معاذ , قال: كنت ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" يا معاذ , اتدري ما حق الله على العباد؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" ان تعبدوه ولا تشركوا به شيئا" , قال:" فهل تدري ما حق العباد على الله إذا هم فعلوا ذلك؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" لا يعذبهم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ إِسْرَائِيلَ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ , أَتَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" , قَالَ:" فَهَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا هُمْ فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" لَا يُعَذِّبُهُمْ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ (گدھے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔
حدثنا وكيع , عن النهاس بن قهم , حدثني شداد ابو عمار , عن معاذ بن جبل , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ست من اشراط الساعة: موتي , وفتح بيت المقدس , وموت ياخذ في الناس كقعاص الغنم , وفتنة يدخل حربها بيت كل مسلم , وان يعطى الرجل الف دينار فيتسخطها , وان تغدر الروم , فيسيرون في ثمانين بندا تحت كل بند اثنا عشر الفا" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنِ النَّهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ , حَدَّثَنِي شَدَّادٌ أَبُو عَمَّارٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سِتٌّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ: مَوْتِي , وَفَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ , وَمَوْتٌ يَأْخُذُ فِي النَّاسِ كَقُعَاصِ الْغَنَمِ , وَفِتْنَةٌ يَدْخُلُ حَرْبُهَا بَيْتَ كُلِّ مُسْلِمٍ , وَأَنْ يُعْطَى الرَّجُلُ أَلْفَ دِينَارٍ فَيَتَسَخَّطَهَا , وَأَنْ تَغْدِرَ الرُّومُ , فَيَسِيرُونَ فِي ثَمَانِينَ بَنْدًا تَحْتَ كُلِّ بَنْدٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چھ چیزیں علامات قیامت میں سے ہیں میری وفات بیت المقذس کی فتح، موت کی وباء پھیل جانا جیسے بکریوں میں پھیل جاتی ہے ایک ایسی آزمائش جس کی جنگ ہر مسلمان کے گھر میں داخل ہوجائے گی نیزیہ کہ کسی شخص کو ایک ہزار بھی دے دیئے جائیں تو وہ ناراض ہی رہے اور رومی لوگ مسلمانوں کے ساتھ دھوکے بازی کریں اور اسی جھنڈوں کے تحت مسلمانوں کی طرف پیش قدمی کریں جن میں سے ہر ایک جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار سپاہی ہوں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، النهاس بن قهم ضعيف، وشداد لم يدرك معاذا
حدثنا وكيع , عن الاعمش , عن ابي سفيان , عن انس بن مالك , قال: اتينا معاذ بن جبل , فقلنا: حدثنا من غرائب حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: نعم , كنت ردفه على حمار , قال: فقال:" يا معاذ بن جبل" , قلت: لبيك يا رسول الله , قال: " هل تدري ما حق الله على العباد؟" , قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" إن حق الله على العباد ان يعبدوه ولا يشركوا به شيئا" , قال: ثم قال:" يا معاذ" , قلت: لبيك يا رسول الله , قال:" هل تدري ما حق العباد على الله إذا هم فعلوا ذلك؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" ان لا يعذبهم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: أَتَيْنَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ , فَقُلْنَا: حَدِّثْنَا مِنْ غَرَائِبِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: نَعَمْ , كُنْتُ رِدْفَهُ عَلَى حِمَارٍ , قَالَ: فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ" , قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: " هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" إِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" , قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" يَا مُعَاذُ" , قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا هُمْ فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ" .
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عجیب واقعہ ہمیں سنائیے انہوں نے فرمایا اچھا ایک مرتبہ میں (گدھے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2856، م: 30، وهذا إسناد قوي
حدثناه عبد الرحمن , حدثنا سفيان . وعبد الرزاق , قال: حدثنا معمر , عن ابي إسحاق , عن عمرو بن ميمون , عن معاذ بن جبل , قال: كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم فقال: " هل تدري ما حق الله عز وجل على عباده؟" , قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" ان يعبدوه , ولا يشركوا به شيئا" , قال:" هل تدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك؟ ان يغفر لهم ولا يعذبهم" , قال معمر في حديثه: قال: قلت: يا رسول الله , الا ابشر الناس؟ قال:" دعهم يعملوا"..حدثناه عبدُ الرحمن , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حدثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى عِبَادِهِ؟" , قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" أَنْ يَعْبُدُوهُ , وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" , قَالَ:" هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟ أَنْ يَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا يُعَذِّبَهُمْ" , قَالَ مَعْمَرٌ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ:" دَعْهُمْ يَعْمَلُوا"..
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ (گدھے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کیا میں جنت کے ایک دروازے کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کروں؟ انہوں نے عرض کیا وہ کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " لاحول ولاقوۃ الا باللہ "
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو رزين لم يدرك معاذا
حدثنا عبد الرحمن , حدثنا قرة بن خالد , عن ابي الزبير , حدثنا ابو الطفيل , حدثنا معاذ بن جبل , قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفرة سافرها , وذلك في غزوة تبوك , " فجمع بين الظهر والعصر , والمغرب والعشاء , قلت: ما حمله على ذلك؟ قال: اراد ان لا تحرج امته" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ , حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ , قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرَهَا , وَذَلِكَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ , " فَجَمَعَ بَيْنَ الظُّهْر وَالْعَصْرِ , وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ , قُلْتُ: مَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لَا تحْرِجَ أُمَّتَهُ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر پر روانہ ہوئے یہ غزوہ تبوک کا واقعہ ہے اور اس سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کو اکٹھا کر کے پڑھا، راوی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ان کی امت کو تکلیف نہ ہو۔
حدثنا إسماعيل , حدثنا يونس , عن حميد بن هلال , عن هصان بن الكاهن , قال: دخلت المسجد الجامع بالبصرة , فجلست إلى شيخ ابيض الراس واللحية , فقال: حدثني معاذ بن جبل , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: " ما من نفس تموت وهي تشهد ان لا إله إلا الله , واني رسول الله يرجع ذاك إلى قلب موقن , إلا غفر الله لها" , قلت له: انت سمعته من معاذ؟ فكان القوم عنفوني , قال: لا تعنفوه , ولا تؤنبوه دعوه , نعم انا سمعت ذاك من معاذ , يدبره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , وقال إسماعيل مرة: ياثره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: قلت لبعضهم: من هذا؟ قال: هذا عبد الرحمن بن سمرة..حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنَا يُونُسُ , عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ , عَنْ هِصَّانَ بْنِ الْكَاهِنِ , قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ الْجَامِعَ بِالْبَصْرَةِ , فَجَلَسْتُ إِلَى شَيْخٍ أَبْيَضِ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ , فَقَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ وَهِيَ تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ يَرْجِعُ ذَاكْ إِلَى قَلْبٍ مُوقِنٍ , إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهَا" , قُلْتُ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ مُعَاذٍ؟ فَكَأَنَّ الْقَوْمَ عَنَّفُونِي , قَالَ: لَا تُعَنِّفُوهُ , وَلَا تُؤَنِّبُوهُ دَعُوهُ , نَعَمْ أَنَا سَمِعْتُ ذَاكَ مِنْ مُعَاذٍ , يُدَبِّرُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً: يَأْثُرُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: قُلْتُ لِبَعْضِهِمْ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ..
ھصان بن کاہل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں جامع بصرہ میں داخل ہوا اور ایک بزرگ کی مجلس میں شامل ہوگیا جن کے سر اور ڈاڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے وہ کہنے لگے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ لا الہ الا اللہ کی اور میرے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو اور یہ گواہی دل کے یقین سے ہو تو اس کے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے میں نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی ہے؟ لوگ اس پر مجھے ملامت کرنے لگے لیکن انہوں نے کہا کہ اسے ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو، اسے چھوڑ دو، میں نے یہ حدیث حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے ہی سنی ہے جسے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں، بعد میں میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ عبدالرحمن بن سمرہ ہیں۔
حدثنا عبد الاعلى , عن يونس , عن حميد بن هلال , عن هصان بن الكاهن , قال: وكان ابوه كاهنا في الجاهلية , قال: دخلت المسجد في إمارة عثمان بن عفان , فإذا شيخ ابيض الراس واللحية , يحدث عن معاذ , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , فذكر الحديث.حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى , عَنْ يُونُسَ , عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ , عَنْ هِصَّانَ بْنِ الْكَاهِنِ , قَالَ: وَكَانَ أَبُوهُ كَاهِنًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ , قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فِي إِمَارَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , فَإِذَا شَيْخٌ أَبْيَضُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ , يُحَدِّثُ عَنْ مُعَاذٍ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
حدثنا محمد بن ابي عدي , عن الحجاج يعني ابن ابي عثمان , حدثني حميد بن هلال , حدثنا هصان بن الكاهن العدوي , قال: جلست مجلسا فيه عبد الرحمن بن سمرة ولا اعرفه , قال: حدثنا معاذ بن جبل , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما على الارض نفس تموت لا تشرك بالله شيئا , تشهد اني رسول الله صلى الله عليه وسلم يرجع ذاكم إلى قلب موقن , إلا غفر لها" , قال: قلت: انت سمعت هذا من معاذ بن جبل؟ قال: فعنفني القوم , فقال: دعوه فإنه لم يسئ القول , نعم انا سمعته من معاذ , زعم انه سمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنِ الْحَجَّاجِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي عُثْمَانَ , حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ , حَدَّثَنَا هِصَّانُ بْنُ الْكَاهِنِ الْعَدَوِيُّ , قَالَ: جَلَسْتُ مَجْلِسًا فِيهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ وَلَا أَعْرِفُهُ , قَالَ: حدثَنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا عَلَى الْأَرْضِ نَفْسٌ تَمُوتُ لَا تُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا , تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجِعُ ذَاكُمْ إِلَى قَلْبٍ مُوقِنٍ , إِلَّا غُفِرَ لَهَا" , قَالَ: قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ؟ قَالَ: فَعَنَّفَنِي الْقَوْمُ , فَقَالَ: دَعُوهُ فَإِنَّهُ لَمْ يُسِئْ الْقَوْلَ , نَعَمْ أَنَا سَمِعْتُهُ مِنْ مُعَاذٍ , زَعَمَ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ..
ھصان بن کاہل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عبدالرحمن بن سمرہ رحمہ اللہ کی مجلس میں شامل ہوگیا جن کے سر اور ڈاڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے وہ کہنے لگے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ لا الہ الا اللہ کی اور میرے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو اور یہ گواہی دل کے یقین سے ہو تو اس کے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے میں نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی ہے؟ لوگ اس پر مجھے ملامت کرنے لگے لیکن انہوں نے کہا کہ اسے ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو، اسے چھوڑ دو، میں نے یہ حدیث حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے ہی سنی ہے جسے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں، بعد میں میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ ہیں۔
حدثنا حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن يعلى بن عطاء , عن الوليد بن عبد الرحمن , عن ابي إدريس العيذي او الخولاني , قال: جلست مجلسا فيه عشرون من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم , وإذا فيهم شاب حديث السن , حسن الوجه , ادعج العينين , اغر الثنايا , فإذا اختلفوا في شيء , فقال قولا انتهوا إلى قوله , فإذا هو معاذ بن جبل , فلما كان من الغد , جئت فإذا هو يصلي إلى سارية , قال: فحذف من صلاته , ثم احتبى فسكت , قال: فقلت: والله إني لاحبك من جلال الله , قال: الله؟ قال: قلت: الله , قال: فإن من المتحابين في الله , فيما احسب انه قال: في ظل الله يوم لا ظل إلا ظله , ثم ليس في بقيته شك يعني: في بقية الحديث , يوضع لهم كراس من نور يغبطهم بمجلسهم من الرب عز وجل , النبيون , والصديقون , والشهداء , قال: فحدثته عبادة بن الصامت , فقال: لا احدثك إلا ما سمعت عن لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حقت محبتي للمتحابين في , وحقت محبتي للمتزاورين في , وحقت محبتي للمتباذلين في , وحقت محبتي للمتصادقين في , والمتواصلين" , شك شعبة: في المتواصلين , او المتزاورين.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءِ , عنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْعَيْذِيِّ أَوْ الْخَوْلَانِيِّ , قَالَ: جَلَسْتُ مَجْلِسًا فِيهِ عِشْرُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِذَا فِيهِمْ شَابٌّ حَدِيثُ السِّنِّ , حَسَنُ الْوَجْهِ , أَدْعَجُ الْعَيْنَيْنِ , أَغَرُّ الثَّنَايَا , فَإِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ , فَقَال قَوْلًا انْتَهَوْا إِلَى قَوْلِهِ , فَإِذَا هُوَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ , فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ , جِئْتُ فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي إِلَى سَارِيَةٍ , قَالَ: فَحَذَفَ مِنْ صَلَاتِهِ , ثُمَّ احْتَبَى فَسَكَتَ , قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ مِنْ جَلَالِ اللَّهِ , قَالَ: أَللَّهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: أَللَّهِ , قَالَ: فَإِنَّ مِنَ الْمُتَحَابِّينَ فِي اللَّهِ , فِيمَا أَحْسَبُ أَنَّهُ قَالَ: فِي ظِلِّ اللَّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ , ثُمَّ لَيْسَ فِي بَقِيَّتِهِ شَكٌّ يَعْنِي: فِي بَقِيَّةِ الْحَدِيثِ , يُوضَعُ لَهُمْ كَرَاسٍ مِنْ نُورٍ يَغْبِطُهُمْ بِمَجْلِسِهِمْ مِنَ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ , النَّبِيُّونَ , وَالصِّدِّيقُونَ , وَالشُّهَدَاءُ , قَالَ: فَحَدَّثْتُهُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ , فَقَالَ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا سَمِعْتُ عَنْ لِسَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّينَ فِيَّ , وحَقَّتْ محبتي للمتزاورينَ في , وَحَقَّتْ محبتي لِلْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ , وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَصَادِقِينَ فِيَّ , وَالْمُتَوَاصِلِينَ" , شَكَّ شُعْبَةُ: فِي الْمُتَوَاصِلِينَ , أَوْ الْمُتَزَاوِرِينَ.
ابو ادریس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک ایسی مجلس میں شریک ہوا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف فرما تھے ان میں ایک نوجوان اور کم عمر صحابی بھی تھے ان کا رنگ کھلتا ہوا، بڑی اور سیاہ آنکھیں اور چمکدار دانت تھے، جب لوگوں میں کوئی اختلاف ہوتا اور وہ کوئی بات کہہ دیتے تو لوگ ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔
اگلے دن میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ ایک ستون کی آڑ میں نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے نماز کو مختصر کیا اور گوٹ مار کر خاموشی سے بیٹھ گئے میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا بخدا! میں اللہ کے جلال کی وجہ سے آپ سے محبت کرتا ہوں انہوں نے قسم دے کر پوچھا واقعی؟ میں نے بھی قسم کھا کر جواب دیا انہوں نے غالباً یہ فرمایا کہ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اس دن عرش الہٰی کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا، (اس کے بعد بقیہ حدیث میں کوئی شک نہیں) ان کے لئے نور کی کرسیاں رکھی جائیں گی اور ان کی نشست گاہ پروردگار عالم کے قریب ہونے کی وجہ سے انبیاء کرام (علیہم السلام) اور صدیقین وشہداء بھی ان پر رشک کریں گے۔
بعد میں یہ حدیث میں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو سنائی تو انہوں نے فرمایا میں بھی تم سے صرف وہی حدیث بیان کروں گا جو میں نے خود لسان نبوت سے سنی ہے اور وہ یہ کہ " میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں اور میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے جڑتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فى سماع أبى إدريس الخولاني من معاذ، وقد توبع
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن قتادة , عن انس , عن معاذ , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من مات وهو يشهد ان لا إله إلا الله , وان محمدا رسول الله صادقا من قلبه دخل الجنة" , قال شعبة: لم اسال قتادة انه سمعه عن انس.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَادِقًا مِنْ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ" , قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ أَسْأَلْ قَتَادَةَ أَنَّهُ سَمِعَهُ عَنْ أَنَسٍ.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی صدق دل سے دیتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن ابي حصين , والاشعث بن سليم , انهما سمعا الاسود بن هلال يحدث , عن معاذ بن جبل , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا معاذ , اتدري ما حق الله على العباد؟" , فقال: الله ورسوله اعلم , قال:" يعبدونه ولا يشركون به شيئا" , قال:" اتدري ما حقهم عليه إذا فعلوا ذلك؟" , قال: الله ورسوله اعلم , قال:" ان لا يعذبهم" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي حَصِينٍ , وَالْأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ , أَنَّهُمَا سَمِعَا الْأَسْوَدَ بْنَ هِلَالٍ يُحَدِّثُ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا مُعَاذُ , أَتَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , فَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" يَعْبُدُونَهُ وَلَا يُشْرِكُونَ بِهِ شَيْئًا" , قَالَ:" أَتَدْرِي مَا حَقُّهُمْ عَلَيْهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ (گدھے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔
ابو الاسود دیلی کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جس وقت یمن میں تھے تو ان کے سامنے ایک یہودی کی وراثت کا مقدمہ پیش ہوا جو فوت ہوگیا تھا اور اپنے پیچھے ایک مسلمان بھائی چھوڑ گیا تھا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اسلام اضافہ کرتا ہے کمی نہیں کرتا اور اس حدیث سے استدلال کر کے انہوں نے اسے وارث قرار دے دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، أبو الأسود لا يعرف له سماع من معاذ، وقد اختلف فيه على عمرو بن أبى حكيم
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن عبد الملك بن عمير , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , عن معاذ بن جبل , قال: كنت رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " اتدري ما حق الله على العباد؟" , قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" ان يعبدوه ولا يشركوا به شيئا" , قال:" وهل تدري ما حقهم عليه إذا فعلوا ذلك؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" ان لا يعذبهم" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: كُنْتُ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " أَتَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" , قَالَ:" وَهَلْ تَدْرِي مَا حَقُّهُمْ عَلَيْهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ (گدھے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن ابي عون , عن الحارث بن عمرو بن اخي المغيرة بن شعبة , عن ناس من اصحاب معاذ من اهل حمص , عن معاذ , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بعثه إلى اليمن , فقال: " كيف تصنع إن عرض لك قضاء؟" , قال: اقضي بما في كتاب الله , قال:" فإن لم يكن في كتاب الله" , قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" فإن لم يكن في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟" , قال: اجتهد رايي لا آلو , قال: فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدري , ثم قال:" الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم لما يرضي رسول الله صلى الله عليه وسلم" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي عَوْنٍ , عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أَخِي الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ , عَنْ نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ , عَنْ مُعَاذٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ , فَقَالَ: " كَيْفَ تَصْنَعُ إِنْ عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ؟" , قَالَ: أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ , قَالَ:" فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ" , قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟" , قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي لَا آلُو , قَالَ: فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرِي , ثُمَّ قَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن کی طرف بھیجا تو ان سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس کوئی فیصلہ آیا تو تم اسے کیسے حل کرو گے؟ عرض کیا کہ کتاب اللہ کی روشنی میں اس کا فیصلہ کروں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو کیا کرو گے؟ عرض کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اگر اس کا حکم میری سنت میں بھی نہ ملا تو کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کروں گا، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مار کر فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے پیغمبر کے قاصد کی اس چیز کی طرف رہنمائی فرما دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لابهام أصحاب معاذ وجهالة الحارث، لكن مال إلى القول بصحته غير واحد من المحققين
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے حق میں تین آدمی گواہی دیں اس کے لئے جنت واجب ہوگئی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اگر دو ہوں تو؟ فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو رملة مجهول، وعبيد الله بن مسلم لايعرف، وفي إثبات صحبته نظر
حدثنا بهز , حدثنا همام , حدثنا قتادة , عن انس , ان معاذ بن جبل حدثه , ان النبي صلى الله عليه وسلم قال له:" يا معاذ بن جبل" , قال: لبيك يا رسول الله , وسعديك , قال: " لا يشهد عبد ان لا إله إلا الله , ثم يموت على ذلك إلا دخل الجنة" , قال: قلت: افلا احدث الناس , قال:" لا , إني اخشى ان يتكلوا عليه" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ , حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , حَدَّثَنَا قَتَادَةُ , عَنْ أَنَسٍ , أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ حَدَّثَهُ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:" يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ" , قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَسَعْدَيْكَ , قَالَ: " لَا يَشْهَدُ عَبْدٌ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , ثُمَّ يَمُوتُ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ" , قَالَ: قُلْتُ: أَفَلَا أُحَدِّثُ النَّاسَ , قَالَ:" لَا , إِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلُوا عَلَيْهِ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے معاذ بن جبل! انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ وسعدیک، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ لا الہ الا اللہ کی گواہی صدق دل سے دیتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا میں نے عرض کیا کہ میں لوگوں کو یہ بات نہ بتادوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا نہیں مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (اگر گائے تعداد میں تیس سے کم ہوں تو میں ان کی زکوٰۃ نہیں لوں گا تاآنکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں کیونکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس سے کم گائے ہونے کی صورت میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وهذا إسناد منقطع، طاووس لم يدرك معاذا
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا سفيان , عن الاعمش , عن ابي وائل , عن مسروق , عن معاذ بن جبل , قال: بعثه النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن " فامره ان ياخذ من كل ثلاثين من البقر تبيعا او تبيعة , ومن كل اربعين مسنة , ومن كل حالم دينارا او عدله معافر" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخبرنَا سُفْيَانُ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: بَعَثَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ " فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً , وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً , وَمِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مَعَافِرَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھیجا تو انہیں حکم دیا کہ ہر تیس گائے میں زکوٰۃ کے طور پر ایک سالہ گائے لینا اور ہر چالیس پر دو سالہ ایک گائے لینا اور ہر بالغ ایک دینار یا اس کے برابر یمنی کپڑا جس کا نام " معافر " ہے وصول کرنا۔
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا ابن جريج , قال سليمان بن موسى : حدثنا مالك بن يخامر , ان معاذ بن جبل حدثهم , انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من قاتل في سبيل الله من رجل مسلم فواق ناقته , وجبت له الجنة , ومن سال الله القتل من عند نفسه صادقا , ثم مات , او قتل , فله اجر شهيد , ومن جرح جرحا في سبيل الله او نكب نكبة , فإنها تجيء يوم القيامة كاغذ ما كانت , لونها كالزعفران , وريحها كالمسك , ومن جرح جرحا في سبيل الله فعليه طابع الشهداء" , قال ابي: وقال حجاج , وروح : كاعز , وقال عبد الرزاق: كاغر , وهذا الصواب إن شاء الله.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخبرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى : حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ يَخَامِرَ , أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ حَدَّثَهُمْ , أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ فُوَاقَ نَاقَتِهِ , وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ , وَمَنْ سَأَلَ اللَّهَ الْقَتْلَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِهِ صَادِقًا , ثُمَّ مَاتَ , أَوْ قُتِلَ , فَلَهُ أَجْرُ شَهِيدٍ , وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ نُكِبَ نَكْبَةً , فَإِنَّهَا تَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغَذِّ مَا كَانَتْ , لَوْنُهَا كَالزَّعْفَرَانِ , وَرِيحُهَا كَالْمِسْكِ , وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَعَلَيْهِ طَابَعُ الشُّهَدَاءِ" , قَالَ أَبِي: وقَالَ حَجَّاجٌ , وَرَوْحٌ : كَأعَزِّ , وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: كَأَغَرِّ , وَهَذَا الصَّوَابُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو مسلمان آدمی اللہ کے راستہ میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ اترنے کے وقفے برابر بھی قتال کرے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے اور جو شخص اپنے متعلق اللہ سے صدق دل کے ساتھ شہادت کی دعاء کرے اور پھر طبعی موت پا کر دنیا سے رخصت ہو تو اسے شہید کا ثواب ملے گا اور جس شخص کو اللہ کے راستہ میں کوئی زخم لگ جائے یا تکلیف پہنچ جائے تو وہ قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ رستا ہوا آئے گا لیکن اس دن اس کا رنگ زعفران جیسا اور مہک مشک جیسی ہوگی اور جس شخص کو اللہ کے راستہ میں کوئی زخم لگ جائے تو اس پر شہداء کی مہر لگ جاتی ہے۔
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن ايوب , عن حميد بن هلال العدوي , عن ابي بردة , قال: قدم على ابي موسى معاذ بن جبل باليمن , فإذا رجل عنده , قال: ما هذا؟ قال: رجل كان يهوديا فاسلم , ثم تهود , ونحن نريده على الإسلام , منذ قال: احسبه شهرين , فقال: والله لا اقعد حتى تضربوا عنقه , فضربت عنقه , فقال: قضى الله ورسوله " ان من رجع عن دينه فاقتلوه" , او قال:" من بدل دينه فاقتلوه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أخبرَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ الْعَدَوِيِّ , عَنْ أَبِي بُرْدَةَ , قَالَ: قَدِمَ عَلَى أَبِي مُوسَى مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ بِالْيَمَنِ , فَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ , قَالَ: مَا هَذَا؟ قَالَ: رَجُلٌ كَانَ يَهُودِيًّا فَأَسْلَمَ , ثُمَّ تَهَوَّدَ , وَنَحْنُ نُرِيدُهُ عَلَى الْإِسْلَامِ , مُنْذُ قَالَ: أَحْسَبُهُ شَهْرَيْنِ , فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَقْعُدُ حَتَّى تَضْرِبُوا عُنُقَهُ , فَضُرِبَتْ عُنُقُهُ , فَقَالَ: قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ " أَنَّ مَنْ رَجَعَ عَنْ دَيْنِهِ فَاقْتُلُوهُ" , أَوْ قَالَ:" مَنْ بَدَّلَ دَيْنَهُ فَاقْتُلُوهُ" .
حضرت بردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یمن میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے وہاں ایک آدمی رسیوں سے بندھا ہوا نظر آیا تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس کا کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ ایک یہودی تھا اس نے اسلام قبول کرلیا بعد میں اپنے ناپسندیدہ دین کی طرف لوٹ گیا اور دوبارہ یہودی ہوگیا ہم غالباً دو ماہ سے اسے اسلام کی طرف لانے کی کوشش کر رہے ہیں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک تم اسے قتل نہیں کردیتے چنانچہ میں نے اسے قتل کردیا پھر انہوں نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ یہی ہے کہ جو شخص اپنے دین سے پھر سے جائے اسے قتل کردو۔
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن عاصم بن ابي النجود , عن ابي وائل , عن معاذ بن جبل , قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر , فاصبحت يوما قريبا منه ونحن نسير , فقلت: يا نبي الله , اخبرني بعمل يدخلني الجنة , ويباعدني من النار , قال: " لقد سالت عن عظيم , وإنه ليسير على من يسره الله عليه , تعبد الله ولا تشرك به شيئا , وتقيم الصلاة , وتؤتي الزكاة , وتصوم رمضان , وتحج البيت" , ثم قال:" الا ادلك على ابواب الخير؟ الصوم جنة , والصدقة تطفئ الخطيئة , وصلاة الرجل في جوف الليل" , ثم قرا قوله تعالى: تتجافى جنوبهم عن المضاجع سورة السجدة آية 16 حتى بلغ يعملون سورة البقرة آية 96 , ثم قال:" الا اخبرك براس الامر , وعموده وذروة سنامه؟" , فقلت: بلى يا رسول الله , قال:" راس الامر الإسلام , وعموده الصلاة , وذروة سنامه الجهاد" , ثم قال:" الا اخبرك بملاك ذلك كله؟" , فقلت له: بلى يا نبي الله , فاخذ بلسانه , فقال:" كف عليك هذا" , فقلت: يا رسول الله , وإنا لمؤاخذون بما نتكلم به , فقال:" ثكلتك امك يا معاذ , وهل يكب الناس على وجوههم في النار" , او قال:" على مناخرهم إلا حصائد السنتهم؟!" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ , فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِيرُ , فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ , وَيُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ , قَالَ: " لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ عَظِيمٍ , وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ , تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا , وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ , وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ , وَتَصُومُ رَمَضَانَ , وَتَحُجُّ الْبَيْتَ" , ثُمَّ قَالَ:" أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ؟ الصَّوْمُ جُنَّةٌ , وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ , وَصَلَاةُ الرَّجُلِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ" , ثُمَّ قَرَأَ قَوْلَهُ تَعَالَى: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ سورة السجدة آية 16 حَتَّى بَلَغَ يَعْمَلُونَ سورة البقرة آية 96 , ثُمَّ قَالَ:" أَلَا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ , وَعَمُودِهِ وَذُرْوَةِ سَنَامِهِ؟" , فَقُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" رَأْسُ الْأَمْرِ الإسلامُ , وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ , وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ" , ثُمَّ قَالَ:" أَلَا أُخْبِرُكَ بِمِلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ؟" , فَقُلْتُ لَهُ: بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ , فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ , فَقَالَ:" كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا" , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ , فَقَالَ:" ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ , وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ عَلَى وُجُوهِهِمْ فِي النَّارِ" , أَوْ قَالَ:" عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ؟!" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی سفر میں تھا دوران سفر ایک دن مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل ہوگیا میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور جہنم سے دور کر دے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بہت بڑی بات پوچھی البتہ جس کے لئے اللہ آسان کر دے اس کے لئے بہت آسان ہے، اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، ماہ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔
پھر فرمایا کیا میں تمہیں خیر کے دروازے نہ بتادوں؟ روزہ ڈھال ہے صدقہ گناہوں کو بجھا دیتا ہے اور آدھی رات کو انسان کا نماز پڑھنا باب خیر میں سے ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت سجدہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی " تتجافی جنوبہم عنی المضاجع حتی بلغ یعملون " پھر فرمایا کیا میں تمہیں دین کی بنیاد، اس کا ستون اور اس کے کوہان کی بلندی کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیوں نہیں فرمایا اس دین و مذہب کی بنیاد اسلام ہے اس کا ستون نماز ہے اور اس کے کوہان کی بلندی جہاد ہے پھر فرمایا کیا میں تمہیں ان چیزوں کا مجموعہ نہ بتادوں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے نبی! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا اس کو روک کر رکھو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم جو کچھ بولتے ہیں کیا اس پر بھی ہمارا مؤاخذہ کیا جائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (پیار سے ڈانٹتے ہوئے) فرمایا معاذ! تمہاری ماں تمہیں روئے لوگوں کو ان کے چہروں کے بل جہنم میں ان کی دوسروں کے متعلق کہی ہوئی باتوں کے علاوہ بھی کوئی چیز اوندھا گرائے گی؟
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد منقطع، أبو وائل لم يسمع من معاذ
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا سفيان , عن سعيد الجريري , عن ابي الورد يعني ابن ثمامة . ح ويزيد بن هارون , اخبرنا الجريري , عن ابي الورد بن ثمامة , جميعا عن اللجلاج , عن معاذ بن جبل , قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم برجل , وهو يقول: اللهم إني اسالك الصبر , فقال: " قد سالت البلاء فسل الله العافية" , قال: ومر برجل يقول: يا ذا الجلال والإكرام , قال:" قد استجيب لك فسل" , قال: ومر برجل يقول: اللهم إني اسالك تمام النعمة , قال:" يا ابن آدم اتدري ما تمام النعمة؟" , قال: دعوة دعوت بها ارجو بها الخير , قال:" فإن تمام النعمة فوز من النار , ودخول الجنة" , قال ابي: لو لم يرو الجريري إلا هذا الحديث كان.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ , عَنْ أَبِي الْوَرْدِ يَعْنِي ابْنَ ثُمَامَةَ . ح وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أخبرَنَا الْجُرَيْرِيُّ , عَنْ أَبِي الْوَرْدِ بْنِ ثُمَامَةَ , جَمِيعًا عَنِ اللَّجْلَاجِ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ , وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصَّبْرَ , فَقَالَ: " قَدْ سَأَلْتَ الْبَلَاءَ فَسَلْ اللَّهَ الْعَافِيَةَ" , قال: ومر برجل يقول: يا ذا الجلال والإكرامِ , قال:" قد أستُجيبَ لك فسَل" , قَالَ: وَمَرَّ بِرَجُلٍ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تَمَامَ النِّعْمَةِ , قَالَ:" يَا ابْنَ آدَمَ أَتَدْرِي مَا تَمَامُ النِّعْمَةِ؟" , قَالَ: دَعْوَةٌ دَعَوْتُ بِهَا أَرْجُو بِهَا الْخَيْرَ , قَالَ:" فَإِنَّ تَمَامَ النِّعْمَةِ فَوْزٌ مِنَ النَّارِ , وَدُخُولُ الْجَنَّةِ" , قَالَ أَبِي: لَوْ لَمْ يَرْوِ الْجُرَيْرِيُّ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ كَانَ.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو یہ دعاء کر رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تو اللہ سے مصیبت کی دعاء مانگ رہے ہو اللہ سے عافیت مانگا کرو (پھر ایک آدمی کے پاس سے گذر ہوا تو وہ " یاذا الجلال والا کر ام " کہہ کر دعاء کر رہا تھا، اس سے فرمایا کہ تمہاری دعاء قبول ہوگی اس لئے مانگو) ایک اور آدمی کے پاس سے گذر ہوا تو وہ یہ دعاء کر رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے تمام نعمت کی درخواست کرتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن آدم! کیا تمہیں معلوم ہے کہ " تمام نعمت " سے کیا مراد ہے؟ اس نے عرض کیا کہ وہ دعاء جو میں نے مانگی تھی اس کی خیر کا امیدوار ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام نعمت یہ ہے کہ انسان جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہوجائے۔
حدثنا حدثنا عبد الرزاق , وابن بكر , قالا: اخبرنا ابن جريج , قال: اخبرني عمرو بن دينار , ان طاوسا اخبره , ان معاذ بن جبل , قال: " لست آخذ في اوقاص البقر شيئا , حتى آتي رسول الله صلى الله عليه وسلم , فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يامرني فيها بشيء" , قال ابن بكر: لست بآخذ في الاوقاص.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , وَابْنُ بَكْرٍ , قَالَا: أخبرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ , أَنَّ طَاوُسًا أَخْبَرَهُ , أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ , قَالَ: " لَسْتُ آخُذُ فِي أَوْقَاصِ الْبَقَرِ شَيْئًا , حَتَّى آتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَأْمُرْنِي فِيهَا بِشَيْءٍ" , قَالَ ابْنُ بَكْرٍ: لَسْتُ بِآخِذٍ فِي الْأَوْقَاصِ.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (اگر گائے تعداد میں تیس سے کم ہوں تو میں ان کی زکوٰۃ نہیں لوں گا تاآنکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں کیونکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس سے کم گائے ہونے کی صورت میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا،
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وهذا إسناد منقطع، طاووس لم يدرك معاذا
حدثنا حدثنا سفيان , عن عمرو , عن طاوس , اتي معاذ بوقص البقر , والعسل , فقال: " لم يامرني النبي صلى الله عليه وسلم فيهما بشيء" , قال سفيان: الاوقاص ما دون الثلاثين.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَمْرٍو , عَنْ طَاوُسٍ , أُتِيَ مُعَاذٌ بِوَقَصِ الْبَقَرِ , وَالْعَسَلِ , فَقَالَ: " لَمْ يَأْمُرْنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمَا بِشَيْءٍ" , قَالَ سُفْيَانُ: الْأَوْقَاصُ مَا دُونَ الثَّلَاثِينَ.
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے پاس تیس سے کم گائیں اور شہد لایا گیا انہوں نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس سے کم گائے ہونے کی صورت میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وهذا إسناد منقطع، طاووس لم يدرك معاذا
حدثنا الوليد بن مسلم , حدثنا الاوزاعي , عن حسان بن عطية , حدثني عبد الرحمن بن سابط , عن عمرو بن ميمون الاودي , قال: قدم علينا معاذ بن جبل اليمن رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم من السحر , رافعا صوته بالتكبير , اجش الصوت , فالقيت عليه محبتي فما فارقته , حتى حثوت عليه التراب بالشام ميتا رحمه الله , ثم نظرت إلى افقه الناس بعده , فاتيت عبد الله بن مسعود , فقال لي: كيف انت إذا اتت عليكم امراء يصلون الصلاة لغير وقتها؟ قال: فقلت: ما تامرني إن ادركني ذلك؟ قال: " صل الصلاة لوقتها , واجعل ذلك معهم سبحة" .حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ , عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ , حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَابِطٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ , قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ الْيَمَنَ رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ السَّحَرِ , رَافِعًا صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ , أَجَشَّ الصَّوْتِ , فَأُلْقِيَتْ عَلَيْهِ مَحَبَّتِي فَمَا فَارَقْتُهُ , حَتَّى حَثَوْتُ عَلَيْهِ التُّرَابَ بِالشَّامِ مَيِّتًا رَحِمَهُ اللَّهُ , ثُمَّ نَظَرْتُ إِلَى أَفْقَهِ النَّاسِ بَعْدَهُ , فَأَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ , فَقَالَ لِي: كَيْفَ أَنْتَ إِذَا أَتَتْ عَلَيْكُمْ أُمَرَاءُ يُصَلُّونَ الصَّلَاةَ لِغَيْرِ وَقْتِهَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ: مَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: " صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا , وَاجْعَلْ ذَلِكَ مَعَهُمْ سُبْحَةً" .
عمرو بن میمون اودی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں یمن میں جب تشریف لائے تو وہ سحری کا وقت تھا وہ بلند اور بارعب آواز کے ساتھ تکبیر کہتے جا رہے تھے میرے دل میں ان کی محبت رچ بس گئی چنانچہ میں ان سے اس وقت تک جدا نہ ہوا جب تک شام میں ان کی وفات کے بعد ان کی قبر پر مٹی نہ ڈال لی، اللہ کی رحمتیں ان پر نازل ہوں، پھر میں نے ان کے بعد سب سے زیادہ فقیہہ آدمی کے لئے اپنی نظریں دوڑائیں اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوگیا، انہوں نے مجھ سے فرمایا اس وقت تم کیا کرو گے جب تم پر ایسے حکمران آجائیں گے جو نماز کو اس کا وقت نکال کر پڑھا کریں گے؟ میں نے عرض کیا کہ اگر میں اس زمانے کو پاؤں تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا تم اپنے وقت مقررہ پر نماز پڑھ لینا اور حکمرانوں کے ساتھ نفل کی نیت سے شریک ہوجانا۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک مرتبہ فرمایا اس لالچ سے اللہ کی پناہ مانگا کرو جو دلوں پر مہر لگنے کی کیفیت تک پہنچا دے، اس لالچ سے بھی پناہ مانگا کرو جو کسی بےمقصد چیز تک پہنچا دے اور ایسی لالچ سے بھی اللہ کی پناہ مانگا کرو جہاں کوئی لالچ نہ ہو۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ان کے پہلو اپنے بستروں سے جدا رہتے ہیں " سے مراد رات کے وقت انسان کا تہجد کے لئے اٹھنا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، ثم هو لم يسمع من معاذ
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیت المقدس کا آباد ہوجانا مدینہ منورہ کے بےآباد ہوجانے کی علامت ہے اور مدینہ منورہ کا بےآباد ہونا جنگوں کے آغاز کی علامت ہے اور جنگوں کا آغاز فتح قسطنطنیہ کی علامت ہے اور قسطنطنیہ کی فتح خروج دجال کا پیش خیمہ ہوگی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ران یا کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا یہ ساری چیزیں اسی طرح برحق اور یقینی ہیں جیسے تمہارا یہاں بیٹھا ہونا یقینی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وهذا الحديث من منكرات عبدالرحمن بن ثابت ، ومكحول لم يسمع من معاذ
حدثنا يونس في تفسير شيبان , عن قتادة , قال: وحدث شهر بن حوشب , عن معاذ بن جبل , قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " يبعث المؤمنون يوم القيامة جردا , مردا , مكحلين بني ثلاثين سنة" .حَدَّثَنَا يُونُسُ فِي تَفْسِيرِ شَيْبَانَ , عَنْ قَتَادَةَ , قَالَ: وَحَدَّثَ شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُبْعَثُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُرْدًا , مُرْدًا , مُكَحَّلِينَ بَنِي ثَلَاثِينَ سَنَةً" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن مسلمانوں کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ ان کے جسم پر کوئی بال نہیں ہوگا، وہ بےریش ہوں گے، ان کی آنکھیں سرمگیں ہوں گی اور وہ تیس سال کی عمر کے لوگ ہوں گے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، ثم هو لم يسمع من معاذ
حدثنا اسود بن عامر , اخبرني ابو بكر بن عياش , عن عاصم , عن ابي بردة , عن ابي مليح الهذلي , عن معاذ بن جبل , وعن ابي موسى , قالا: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نزل منزلا كان الذي يليه المهاجرين , قال: فنزلنا منزلا , فقام النبي صلى الله عليه وسلم ونحن حوله , قال: فتعاررت من الليل انا ومعاذ , فنظرنا قال: فخرجنا نطلبه , إذ سمعنا هزيزا كهزيز الارحاء , إذ اقبل , فلما اقبل نظر , قال:" ما شانكم؟" , قالوا: انتبهنا فلم نرك حيث كنت خشينا ان يكون اصابك شيء , جئنا نطلبك , قال: " اتاني آت في منامي , فخيرني بين ان يدخل الجنة نصف امتي , او شفاعة , فاخترت لهم الشفاعة" , فقلنا: فإنا نسالك بحق الإسلام , وبحق الصحبة , لما ادخلتنا الجنة , قال: فاجتمع عليه الناس , فقالوا له مثل مقالتنا , وكثر الناس , فقال:" إني اجعل شفاعتي لمن مات لا يشرك بالله شيئا" . حدثنا روح , حدثنا حماد يعني ابن سلمة , حدثنا عاصم بن بهدلة , عن ابي بردة , عن ابي موسى , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحرسه اصحابه , فذكر نحوه.حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ , أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ عَاصِمٍ , عَنْ أَبِي بُرْدَةَ , عَنْ أَبِي مَلِيحٍ الْهُذَلِيِّ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , وَعَنْ أَبِي مُوسَى , قَالَا: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ مَنْزِلًا كَانَ الَّذِي يَلِيهِ الْمُهَاجِرينَ , قَالَ: فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا , فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ حَوْلَهُ , قَالَ: فَتَعَارَرْتُ مِنَ اللَّيْلِ أَنَا وَمُعَاذٌ , فَنَظَرْنَا قَالَ: فَخَرَجْنَا نَطْلُبُهُ , إِذْ سَمِعْنَا هَزِيزًا كَهَزِيزِ الْأَرْحَاءِ , إِذْ أَقْبَلَ , فَلَمَّا أَقْبَلَ نَظَرَ , قَالَ:" مَا شَأْنُكُمْ؟" , قَالُوا: انْتَبَهْنَا فَلَمْ نَرَكَ حَيْثُ كُنْتَ خَشِينَا أَنْ يَكُونَ أَصَابَكَ شَيْءٌ , جِئْنَا نَطْلُبُكَ , قَالَ: " أَتَانِي آتٍ فِي مَنَامِي , فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ نِصْفُ أُمَّتِي , أَوْ شَفَاعَةً , فَاخْتَرْتُ لَهُمْ الشَّفَاعَةَ" , فَقُلْنَا: فَإِنَّا نَسْأَلُكَ بِحَقِّ الْإِسْلَامِ , وَبِحَقِّ الصُّحْبَةِ , لَمَا أَدْخَلْتَنَا الْجَنَّةَ , قَالَ: فَاجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ , فَقَالُوا لَهُ مِثْلَ مَقَالَتِنَا , وَكَثُرَ النَّاسُ , فَقَالَ:" إِنِّي أَجْعَلُ شَفَاعَتِي لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا" . حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ , حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ , عَنْ أَبِي بُرْدَةَ , عَنْ أَبِي مُوسَى , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَحْرُسُهُ أَصْحَابُهُ , فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مقام پر پڑاؤ کرتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجر صحابہ رضی اللہ عنہ آپ کے قریب ہوتے تھے، ایک مرتبہ ہم نے کسی جگہ پڑاؤ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز کے لئے کھڑے ہوئے ہم آس پاس سو رہے تھے، اچانک حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اور میں رات کو اٹھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خواب گاہ میں نہ پایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے تو ہم نے ایسی آواز سنی جو چکی کے چلنے سے پیدا ہوتی ہے اور اپنی جگہ پر ٹھٹک کر رک گئے اس آواز کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آ رہے تھے۔ قریب آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہوا؟ عرض کیا کہ جب ہماری آنکھ کھلی اور ہمیں آپ اپنی جگہ نظر نہ آئے تو ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے، اس لئے ہم آپ کو تلاش کرنے کے لئے نکلے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا تھا اور اس نے مجھے ان دو میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیا کہ میری نصف امت جنت میں داخل ہوجائے یا مجھے شفاعت کا اختیار مل جائے تو میں نے شفاعت والے پہلو کو ترجیح دے لی، ہم دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ سے اسلام اور حق صحابیت کے واسطے سے درخواست کرتے ہیں کہ اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ آپ کی شفاعت میں ہمیں بھی شامل کر دے، دیگر حضرات بھی آگئے اور وہ بھی یہی درخواست کرنے لگے اور ان کی تعداد بڑھنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ شخص بھی جو اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو میری شفاعت میں شامل ہے۔
حدثنا روح حدثنا حماد يعني ابن سلمة حدثنا عاصم بن بهدلة عن ابي بردة عن ابي موسى ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحرسه اصحابه فذكر نحوهحَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَحْرُسُهُ أَصْحَابُهُ فَذَكَرَ نَحْوَهُ
حدثنا اسود بن عامر , انبانا ابو بكر يعني ابن عياش , عن الاعمش , عن عمرو بن مرة , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , عن معاذ بن جبل , قال: جاء رجل من الانصار إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إني رايت في النوم كاني مستيقظ ارى رجلا نزل من السماء عليه بردان اخضران , نزل على جذم حائط من المدينة , فاذن مثنى مثنى , ثم جلس , ثم اقام , فقال: مثنى مثنى , قال: " نعم ما رايت , علمها بلالا" , قال: قال عمر: قد رايت مثل ذلك , ولكنه سبقني .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ , أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ فِي النَّوْمِ كَأَنِّي مُسْتَيْقِظٌ أَرَى رَجُلًا نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ عَلَيْهِ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ , نَزَلَ عَلَى جِذْمِ حَائِطٍ مِنَ الْمَدِينَةِ , فَأَذَّنَ مَثْنَى مَثْنَى , ثُمَّ جَلَسَ , ثُمَّ أَقَامَ , فَقَالَ: مَثْنَى مَثْنَى , قَالَ: " نِعْمَ مَا رَأَيْتَ , عَلِّمْهَا بِلَالًا" , قَالَ: قَالَ عُمَرُ: قَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ ذَلِكَ , وَلَكِنَّهُ سَبَقَنِي .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے " جو مجھے بیداری کے واقعے کی طرح یاد ہے " میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو آسمان سے اترا اس نے دو سبز چادریں زیب تن کر رکھی تھیں وہ مدینہ منورہ کے کسی باغ کے ایک درخت پر اترا اور اس نے اذان کے کلمات دو دو مرتبہ دہرائے پھر وہ بیٹھ گیا کچھ دیر بعد اس نے اقامت کہی اور اس میں بھی یہی کلمات دو دو مرتبہ دہرائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بہت اچھا خواب دیکھا یہ کلمات بلال کو سکھا دو، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا ہے، لیکن وہ مجھ پر سبقت لے گیا۔
حكم دارالسلام: إسناده منقطع، ابن أبى ليلى لم يسمع من معاذ، وقد اختلف على أبن أبى ليلى فيه
حدثنا روح , حدثنا زهير بن محمد , حدثنا زيد بن اسلم , عن عطاء بن يسار , عن معاذ بن جبل , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من لقي الله لا يشرك به شيئا , يصلي الخمس , ويصوم رمضان , غفر له" , قلت: افلا ابشرهم يا رسول الله؟ قال:" دعهم يعملوا" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا , يُصَلِّي الْخَمْسَ , وَيَصُومُ رَمَضَانَ , غُفِرَ لَهُ" , قُلْتُ: أَفَلَا أُبَشِّرُهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" دَعْهُمْ يَعْمَلُوا" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو پنجگانہ نماز ادا کرتا ہو اور ماہ رمضان کے روزے رکھتا ہو تو اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں لوگوں کو یہ خوشخبری نہ سنادوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں عمل کرتے رہنے دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، عطاء بن يسار لم يسمع من معاذ
حدثنا روح , حدثنا سعيد , عن قتادة , حدثنا العلاء بن زياد , عن معاذ بن جبل , ان نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الشيطان ذئب الإنسان كذئب الغنم ياخذ الشاة القاصية والناحية , فإياكم والشعاب , وعليكم بالجماعة , والعامة , والمسجد" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا سَعِيدٌ , عَنْ قَتَادَةَ , حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ زِيَادٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ ذِئْبُ الْإِنْسَانِ كَذِئْبِ الْغَنَمِ يَأْخُذُ الشَّاةَ الْقَاصِيَةَ وَالنَّاحِيَةَ , فَإِيَّاكُمْ وَالشِّعَابَ , وَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ , وَالْعَامَّةِ , وَالْمَسْجِدِ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس طرح بکریوں کے لئے بھیڑیا ہوتا ہے اسی طرح انسان کے لئے شیطان بھیڑیا ہے جو اکیلی رہ جانے والی اور سب سے الگ تھلگ رہنے والی بکری کو پکڑ لیتا ہے اس لئے تم گھاٹیوں میں تنہا رہنے سے اپنے آپ کو بچاؤ اور جماعت مسلمین کو، عوام کو اور مسجد کو اپنے اوپر لازم کرلو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، العلاء بن زياد لم يسمع من معاذ
حدثنا حدثنا روح , حدثنا مالك , وإسحاق يعني ابن عيسى , اخبرني مالك , عن ابي حازم بن دينار , عن ابي إدريس الخولاني , قال: دخلت مسجد دمشق الشام , فإذا انا بفتى براق الثنايا , وإذا الناس حوله , إذا اختلفوا في شيء اسندوه إليه , وصدروا عن رايه , فسالت عنه , فقيل: هذا معاذ بن جبل , فلما كان الغد هجرت , فوجدت قد سبقني بالهجير , وقال إسحاق: بالتهجير , ووجدته يصلي , فانتظرته حتى إذا قضى صلاته جئته من قبل وجهه , فسلمت عليه فقلت له: والله إني لاحبك لله عز وجل , فقال: الله؟ فقلت: الله , فقال: الله؟ فقلت: الله , فاخذ بحبوة ردائي فجبذني إليه , وقال: ابشر فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" قال الله عز وجل: وجبت محبتي للمتحابين في , والمتجالسين في , والمتزاورين في , والمتباذلين في" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا مَالِكٌ , وَإِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ عِيسَى , أَخْبَرَنِي مَالِكٌ , عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ , عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ , قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ دِمَشْقِ الشَّامِ , فَإِذَا أَنَا بِفَتًى بَرَّاقِ الثَّنَايَا , وَإِذَا النَّاسُ حَوْلَهُ , إِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ أَسْنَدُوهُ إِلَيْهِ , وَصَدَرُوا عَنْ رَأْيِهِ , فَسَأَلْتُ عَنْهُ , فَقِيلَ: هَذَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ , فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ هَجَّرْتُ , فَوَجَدْتُ قَدْ سَبَقَنِي بِالْهَجِيرِ , وَقَالَ إِسْحَاقُ: بِالتَّهْجِيرِ , وَوَجَدْتُهُ يُصَلِّي , فَانْتَظَرْتُهُ حَتَّى إِذَا قَضَى صَلَاتَهُ جِئْتُهُ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ , فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , فَقَالَ: أَللَّهِ؟ فَقُلْتُ: أَللَّهِ , فَقَالَ: أَللَّهِ؟ فَقُلْتُ: أَللَّهِ , فَأَخَذَ بِحُبْوَةِ رِدَائِي فَجَبَذَنِي إِلَيْهِ , وَقَالَ: أَبْشِرْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّينَ فِيَّ , وَالْمُتَجَالِسِينَ فِيَّ , وَالْمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ , وَالْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ" .
ابوادریس کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ دمشق کی جامع مسجد میں داخل ہوا وہاں ایک نوجوان اور کم عمر صحابی بھی تھے ان کا رنگ کھلتا ہوا، بڑی اور سیاہ آنکھیں اور چمکدار دانت تھے، جب لوگوں میں کوئی اختلاف ہوتا اور وہ کوئی بات کہہ دیتے تو لوگ ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔
اگلے دن میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ ایک ستون کی آڑ میں نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے نماز کو مختصر کیا اور گوٹ مار کر خاموشی سے بیٹھ گئے میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا بخدا! میں اللہ کے جلال کی وجہ سے آپ سے محبت کرتا ہوں انہوں نے قسم دے کر پوچھا واقعی؟ میں نے بھی قسم کھا کر جواب دیا انہوں نے میری چادر کا پلو پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا اور فرمایا تمہیں خوشخبری ہو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں میری وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وفي سماع أبى إدريس من معاذ خلاف
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے قیامت کے دن عرش الہٰی کے سائے میں ہوں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب ، وهو لم يدرك معاذا
حدثنا روح , حدثنا شعبة , عن الحكم , قال: سمعت عروة بن النزال او النزال بن عروة يحدث , عن معاذ بن جبل , قال شعبة: فقلت له: سمعه من معاذ , قال: لم يسمعه منه , وقد ادركه انه قال: يا رسول الله , اخبرني بعمل يدخلني الجنة , فذكر مثل حديث معمر , عن عاصم , انه قال الحكم: وسمعته من ميمون بن ابي شبيب.حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنِ الْحَكَمِ , قَالَ: سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ النَّزَّالِ أَوْ النَّزَّالَ بْنَ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ لَهُ: سَمِعَهُ مِنْ مُعَاذٍ , قَالَ: لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْهُ , وَقَدْ أَدْرَكَهُ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ , فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ مَعْمَرٍ , عَنْ عَاصِمٍ , أَنَّهُ قَالَ الْحَكَمُ: وَسَمِعْتُهُ مِنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، عروة بن النزال مجهول ولم يسمعه من معاذ، ومتابع عروة ميمون بن أبى شبيب لم يسمع من معاذ أيضا
حدثنا عبد الصمد , حدثنا عبد العزيز بن مسلم , حدثنا الحصين , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , عن معاذ , قال: كان الناس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سبق الرجل ببعض صلاته سالهم , فاومئوا إليه بالذي سبق به من الصلاة , فيبدا فيقضي ما سبق , ثم يدخل مع القوم في صلاتهم , فجاء معاذ بن جبل والقوم قعود في صلاتهم , فقعد , فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم قام فقضى ما كان سبق به , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اصنعوا كما صنع معاذ" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا الْحُصَيْنُ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: كَانَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُبِقَ الرَّجُلُ بِبَعْضِ صَلَاتِهِ سَأَلَهُمْ , فَأَوْمئوا إِلَيْهِ بِالَّذِي سُبِقَ بِهِ مِنَ الصَّلَاةِ , فَيَبْدَأُ فَيَقْضِي مَا سُبِقَ , ثُمَّ يَدْخُلُ مَعَ الْقَوْمِ فِي صَلَاتِهِمْ , فَجَاءَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَالْقَوْمُ قُعُودٌ فِي صَلَاتِهِمْ , فَقَعَدَ , فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فَقَضَى مَا كَانَ سُبِقَ بِهِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اصْنَعُوا كَمَا صَنَعَ مُعَاذٌ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دور باسعادت میں یہ معمول تھا کہ اگر کسی آدمی کی کچھ رکعتیں چھوٹ جاتیں تو وہ نمازیوں سے پوچھ لیتا وہ اسے اشارے سے بتا دیتے کہ اس کی کتنی رکعتیں چھوٹی ہیں، چنانچہ پہلے وہ اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں پڑھتا اور پھر لوگوں کی نماز میں شریک ہوجاتا ایک دن حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نماز میں کچھ تاخیر سے آئے لوگ اس وقت قعدے میں تھے وہ بھی بیٹھ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوگئے تو انہوں نے کھڑے ہو کر اپنی چھوٹی ہوئی نماز مکمل کرلی، یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا تم بھی اسی طرح کیا کرو جیسے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن أبى ليلى لم يسمع من معاذ، واختلف على ابن أبى ليلى فيه
کثیرہ بن مرہ کہتے ہیں کہ کہ اپنے مرض الوفات میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ہم سے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سن رکھی ہے جو میں اب تک تم سے چھپاتا رہا ہوں (اب بیان کر رہا ہوں) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دنیا سے رخصتی کے وقت جس شخص کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔
حدثنا وهب بن جرير , حدثنا ابي , قال: سمعت الاعمش يحدث , عن عبد الملك بن ميسرة , عن مصعب بن سعد , ان معاذا قال: " والله إن عمر في الجنة , وما احب ان لي حمر النعم , وانكم تفرقتم قبل ان اخبركم لم قلت ذاك؟ ثم حدثهم الرؤيا التي راى النبي صلى الله عليه وسلم في شان عمر , قال: ورؤيا النبي صلى الله عليه وسلم حق" .حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ , حَدَّثَنَا أَبِي , قَالَ: سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ يُحَدِّثُ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ , عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ , أَنَّ مُعَاذًا قَالَ: " وَاللَّهِ إِنَّ عُمَرَ فِي الْجَنَّةِ , وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِي حُمْرَ النَّعَمِ , وَأَنَّكُمْ تَفَرَّقْتُمْ قَبْلَ أَنْ أُخْبِرَكُمْ لِمَ قُلْتُ ذَاكَ؟ ثُمَّ حَدَّثَهُمْ الرُّؤْيَا الَّتِي رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَأْنِ عُمَرَ , قَالَ: وَرُؤْيَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بخدا! حضرت عمر رضی اللہ عنہ جنت میں ہوں گے اور مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ لینا بھی پسند نہیں ہے اور قبل اس کے کہ میں تمہیں اپنی اس بات کی وجہ بتاؤں تم لوگ منتشر ہو رہے ہو، پھر انہوں نے وہ خواب بیان کیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق دیکھا تھا اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب برحق ہے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مرتبہ خواب میں میں جنت کے اندر تھا تو میں نے وہاں ایک محل دیکھا لوگوں سے پوچھا کہ یہ کس کا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہے)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا إسناد منقطع، مصعب بن سعد لم يسمع من معاذ
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عزوہ تبوک میں ٹھنڈے وقت روانہ ہوئے تھے اور اس سفر میں ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کو اکٹھا کر کے پڑھتے رہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 706، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل هشام
حدثنا سليمان بن داود الهاشمي , حدثنا ابو بكر يعني ابن عياش , حدثنا عاصم , عن ابي وائل , عن معاذ , قال: بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن " وامرني ان آخذ من كل حالم دينارا او عدله معافر , وامرني ان آخذ من كل اربعين بقرة مسنة , ومن كل ثلاثين بقرة تبيعا حوليا , وامرني فيما سقت السماء العشر , وما سقي بالدوالي نصف العشر" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ , حَدَّثَنَا عَاصِمٌ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ " وَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مَعَافِرَ , وَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ بَقَرَةً مُسِنَّةً , وَمِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ بَقَرَةً تَبِيعًا حَوْلِيًّا , وَأَمَرَنِي فِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ الْعُشْرَ , وَمَا سُقِيَ بِالدَّوَالِي نِصْفَ الْعُشْرِ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا تو مجھے حکم دیا کہ ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر یمنی کپڑا جس کا نام " معافر " ہے وصول کرنا ہر تیس گائے میں زکوٰۃ کے طور پر ایک سالہ گائے لینا اور ہر چالیس پر دو سالہ ایک گائے لینا نیز مجھے بارانی زمینوں میں عشر لینے اور چاہی زمینوں میں نصف عشر لینے کا حکم دیا۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی مجاہد کے لئے سامان جہاد مہیا کرے یا اس کے پیچھے اس کے اہل خانہ کا اچھی طرح خیال رکھے وہ ہمارے ساتھ شمار ہوگا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن معاذ وضعف أبى بكر
حدثنا علي بن عاصم , عن خالد الحذاء , عن ابي عثمان النهدي , عن معاذ بن جبل , قال: كنت رديف النبي صلى الله عليه وسلم فقال لي:" يا معاذ , اتدري ما حق الله على العباد؟" , قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" يعبدوه ولا يشركوا به شيئا , اتدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" يدخلهم الجنة" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ , عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: كُنْتُ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي:" يَا مُعَاذُ , أَتَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا , أَتَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" يُدْخِلُهُمْ الْجَنَّةَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ (گدھے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں جنت میں داخل کر دے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2856، م: 30، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن عاصم، وخالد الحذاء لم يسمع من أبى عثمان النهدي
حدثنا عفان , وحسن بن موسى , قالا: حدثنا حماد بن سلمة , عن علي بن زيد , قال حسن في حديثه: اخبرنا علي بن زيد , عن ابي المليح , قال الحسن: الهذلي , عن روح بن عابد , عن ابي العوام , عن معاذ بن جبل , قال: كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم على جمل احمر , فقال:" يا معاذ" , قلت: لبيك , قال: " هل تدري ما حق الله على العباد؟" , قال: فقلت: الله ورسوله اعلم , قالها ثلاثا , فقلت ذلك ثلاثا , ثم قال:" حقه عز وجل , ان يعبدوه ولا يشركوا به شيئا" , ثم قال:" هل تدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك؟" , فقلت: الله ورسوله اعلم , قالها ثلاثا , وقلت ذلك ثلاثا , فقال:" حقهم عليه إذا هم فعلوا ذلك؟ ان يغفر لهم وان يدخلهم الجنة" ..حَدَّثَنَا عَفَّانُ , وَحَسَنُ بْنُ مُوسَى , قَالَا: حدثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ حَسَنٌ فِي حَدِيثِهِ: أَخبرنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ , قَالَ الْحَسَنُ: الْهُذَلِيِّ , عَنْ رَوْحِ بْنِ عَابِدٍ , عَنْ أَبِي الْعَوَّامِ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ , فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ" , قُلْتُ: لَبَّيْكَ , قَالَ: " هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , قَالَ: فَقُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَهَا ثَلَاثًا , فَقُلْتُ ذَلِكَ ثَلَاثًا , ثُمَّ قَالَ:" حَقُّهُ عَزَّ وَجَلَّ , أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" , ثُمَّ قَالَ:" هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , فَقُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَهَا ثَلَاثًا , وَقُلْتُ ذَلِكَ ثَلَاثًا , فَقَالَ:" حَقُّهُمْ عَلَيْهِ إِذَا هُمْ فَعَلُوا ذَلِكَ؟ أَنْ يَغْفِرَ لَهُمْ وَأَنْ يُدْخِلَهُمْ الْجَنَّةَ" ..
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں سرخ گدھے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، تین مرتبہ یہ سوال جواب ہوئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں جنت میں داخل فرما دے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2856، م: 30، وهذا إسناد ضعيف لجهالة روح وأبي العوام، وضعف على بن زيد
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاد دو طرح کا ہوتا ہے، جو شخص رضاء الہٰی کے حصول کے لئے جہاد کرتا ہے اپنے امیر کی اطاعت کرتا ہے، اپنی جان خرچ کرتا ہے شریک سفر کے لئے آسانی کا سبب بنتا ہے اور فتنہ و فساد سے بچتا ہے تو اس کا سونا اور جاگنا بھی باعث اجروثواب ہے اور جو شخص فخر، ریاکاری اور شہرت کے لئے جہاد کرتا ہے امام کی نافرمانی کرتا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتا ہے تو وہ اتنا بھی ثواب لے کر واپس نہیں آتا جو بقدر کفایت ہی ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، بقية بن الوليد ضعيف و مدلس، ولا يقبل منه إلا أن يصرح بالسماع فى جميع طبقات السند
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ آخری دس دنوں میں ہوتی ہے یا آخری تین یا پانچ دنوں میں ہوتی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، بقية بن الوليد لم يصرح بالسماع فى جميع طبقات السند
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تقدیر کے آگے تدبیر و احتیاط کچھ فائدہ نہیں دے سکتی البتہ دعاء ان چیزوں میں بھی فائدہ مند ہوتی ہے جو نازل ہوں یا جو نازل نہ ہوں لہٰذا بندگان خدا! دعاء کو اپنے اوپر لازم کرلو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شهر، ولم يسمع من معاذ، ورواية ابن عياش عن غير أهل بلده ضعيفة، وهذه منها
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جہاد اسلام کا ستون اور اس کے کوہان کی بلندی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة، عطية ابن قيس لم يسمع من معاذ، وأبو بكر ضعيف، وقد أخطأ فى متنه ، وصوابه:الصلاة عمود الإسلام، والجهاد ذروة سنامه، وهو صحيح بطرقه وشواهده
حدثنا روح , وحسن بن موسى , قالا: حدثنا حماد بن سلمة , عن عاصم بن بهدلة , عن شهر بن حوشب , عن ابي ظبية , عن معاذ بن جبل , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ما من مسلم يبيت على ذكر الله طاهرا , فيتعار من الليل , فيسال الله عز وجل خيرا من امر الدنيا والآخرة , إلا اعطاه إياه" , قال حسن في حديثه: قال ثابت البناني : فقدم علينا هاهنا فحدث بهذا الحديث , عن معاذ , قال ابو سلمة: اظنه اعني ابا ظبية..حَدَّثَنَا رَوْحٌ , وَحَسَنُ بْنُ مُوسَى , قَالَا: حدثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أَبِي ظَبْيَةَ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَبِيتُ عَلَى ذِكْرِ اللَّهِ طَاهِرًا , فَيَتَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ , فَيَسْأَلُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرًا مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ , إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ" , قَالَ حَسَنٌ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ : فَقَدِمَ عَلَيْنَا هَاهُنَا فَحَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: أَظُنُّهُ أَعْنِي أَبَا ظَبْيَةَ..
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان باوضو ہو کر اللہ کا ذکر کرتے ہوئے رات کو سوتا ہے پھر رات کے کسی حصے میں بیدار ہو کر اللہ سے دنیا و آخرت کی جس خیر کا بھی سوال کرتا ہے اللہ اسے وہ ضرورع طاء فرماتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده من جهة ثابت صحيح، ومن جهة عاصم بن بهدلة ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مسلمان آدمی اللہ کے راستہ میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ اترنے کے وقفے برابر بھی قتال کرے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا صفوان , حدثني راشد بن سعد , عن عاصم بن حميد , عن معاذ بن جبل , قال: لما بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن , خرج معه رسول الله صلى الله عليه وسلم يوصيه , ومعاذ راكب ورسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي تحت راحلته , فلما فرغ , قال:" يا معاذ , إنك عسى ان لا تلقاني بعد عامي هذا , او لعلك ان تمر بمسجدي هذا , او قبري" , فبكى معاذ جشعا لفراق رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم التفت فاقبل بوجهه نحو المدينة , فقال: " إن اولى الناس بي المتقون , من كانوا وحيث كانوا" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا صَفْوَانُ , حَدَّثَنِي رَاشِدُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ , خَرَجَ مَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِيهِ , وَمُعَاذٌ رَاكِبٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي تَحْتَ رَاحِلَتِهِ , فَلَمَّا فَرَغَ , قَالَ:" يَا مُعَاذُ , إِنَّكَ عَسَى أَنْ لَا تَلْقَانِي بَعْدَ عَامِي هَذَا , أَوْ لَعَلَّكَ أَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِي هَذَا , أَوْ قَبْرِي" , فَبَكَى مُعَاذٌ جَشَعًا لِفِرَاقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ الْتَفَتَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ نَحْوَ الْمَدِينَةِ , فَقَالَ: " إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي الْمُتَّقُونَ , مَنْ كَانُوا وَحَيْثُ كَانُوا" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن روانہ فرمایا تو خود انہیں چھوڑنے کے لئے نکلے راستہ بھر انہیں وصیت فرماتے رہے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سوار تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وصیتیں کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا معاذ! ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال تم مجھ سے نہ مل سکو یا ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال تم میری مسجد اور میری قبر پر سے گذرو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کے غم میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ رونے لگے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنارخ پھیر کر مدینہ منورہ کی جانب کرلیا اور فرمایا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب متقی ہیں خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں۔
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا صفوان , حدثني ابو زياد يحيى بن عبيد الغساني , عن يزيد بن قطيب , عن معاذ , انه كان يقول: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن , فقال: " لعلك ان تمر بقبري ومسجدي , وقد بعثتك إلى قوم رقيقة قلوبهم , يقاتلون على الحق مرتين , فقاتل بمن اطاعك منهم من عصاك , ثم يعودون إلى الإسلام حتى تبادر المراة زوجها , والولد والده , والاخ اخاه , فانزل بين الحيين السكون والسكاسك" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا صَفْوَانُ , حَدَّثَنِي أَبُو زِيَادٍ يَحْيَى بْنُ عُبَيْدٍ الْغَسَّانِيُّ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ قُطَيْبٍ , عَنْ مُعَاذٍ , أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ , فَقَالَ: " لَعَلَّكَ أَنْ تَمُرَّ بِقَبْرِي وَمَسْجِدِي , وَقَدْ بَعَثْتُكَ إِلَى قَوْمٍ رَقِيقَةٍ قُلُوبُهُمْ , يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ مَرَّتَيْنِ , فَقَاتِلْ بِمَنْ أَطَاعَكَ مِنْهُمْ مَنْ عَصَاكَ , ثُمَّ يَعُودُونَ إِلَى الْإِسْلَامِ حَتَّى تُبَادِرَ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا , وَالْوَلَدُ وَالِدَهُ , وَالْأَخُ أَخَاهُ , فَانْزِلْ بَيْنَ الْحَيَّيْنِ السَّكُونَ وَالسَّكَاسِكَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجتے ہوئے فرمایا آئندہ تمہارا گذر میری قبر اور مسجد پر ہی ہوگا میں تمہیں ایک ایسی قوم کے پاس بھیج رہا ہوں جو رقیق القلب ہیں اور وہ حق کی خاطر دو مرتبہ قتال کریں گے لہٰذا جو لوگ تمہاری اطاعت کرلیں، انہیں ساتھ لے کر اپنی نافرمانی کرنے والوں سے قتال کرنا، پھر وہ لوگ اسلام کی طرف لوٹ آئیں گے حتیٰ کہ عورت اپنے شوہر پر، بیٹا اپنے باپ پر اور بھائی اپنے بھائی پر سبقت لے جائے گا اور تم " سکون " اور سکاسک " نامی قبیلوں میں جاکر پڑاؤ کرنا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال يزيد، ثم هو منقطع، يزيد لم يدرك معاذا
حدثنا الحكم بن نافع ابو اليمان , حدثنا صفوان بن عمرو , عن راشد بن سعد , عن عاصم بن حميد السكوني , ان معاذا لما بعثه النبي صلى الله عليه وسلم , خرج إلى اليمن معه النبي صلى الله عليه وسلم يوصيه , ومعاذ راكب ورسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي تحت راحلته , فلما فرغ , قال:" يا معاذ , إنك عسى ان لا تلقاني بعد عامي هذا , ولعلك ان تمر بمسجدي وقبري" , فبكى معاذ بن جبل جشعا لفراق رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تبك يا معاذ للبكاء , او إن البكاء من الشيطان" .حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو الْيَمَانِ , حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ السَّكُونِيِّ , أَنَّ مُعَاذًا لَمَّا بَعَثَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , خَرَجَ إِلَى الْيَمَنِ مَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِيهِ , وَمُعَاذٌ رَاكِبٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي تَحْتَ رَاحِلَتِهِ , فَلَمَّا فَرَغَ , قَالَ:" يَا مُعَاذُ , إِنَّكَ عَسَى أَنْ لَا تَلْقَانِي بَعْدَ عَامِي هَذَا , وَلَعَلَّكَ أَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِي وَقَبْرِي" , فَبَكَى مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ جَشَعًا لِفِرَاقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَبْكِ يَا مُعَاذُ لَلْبُكَاءُ , أَوْ إِنَّ الْبُكَاءَ مِنَ الشَّيْطَانِ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن روانہ فرمایا تو خود انہیں چھوڑنے کے لئے نکلے راستہ بھر انہیں وصیت فرماتے رہے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سوار تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وصیتیں کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا معاذ! ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال تم مجھ سے نہ مل سکو یا ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال تم میری مسجد اور میری قبر پر سے گذرو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کے غم میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ رونے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاذ! مت روؤ، کیونکہ رونا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آخر زمانے میں کچھ قومیں ایسی آئیں گی جو سامنے بھائیوں کی طرح ہوں گی اور پیٹھ پیچھے دشمنوں کی طرح کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ کیسے ہوگا؟ فرمایا کسی سے لالچ کی وجہ سے اور کسی کے خوف کی وجہ سے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى بكر، وحبيب بن عبيد لم يدرك معاذا
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم , حدثنا الجريري , عن ابي الورد , عن اللجلاج , حدثني معاذ , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتى على رجل وهو يصلي , وهو يقول في دعائه: اللهم إني اسالك الصبر , قال: " سالت البلاء فسل الله العافية" , قال: واتى على رجل وهو يقول: اللهم إني اسالك تمام نعمتك , فقال:" ابن آدم هل تدري ما تمام النعمة؟" , قال: يا رسول الله , دعوة دعوت بها ارجو بها الخير , قال:" فإن تمام النعمة فوز من النار , ودخول الجنة" , واتى على رجل وهو يقول: يا ذا الجلال والإكرام , فقال:" قد استجيب لك فسل" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ , عَنْ أَبِي الْوَرْدِ , عَنِ اللَّجْلَاجِ , حَدَّثَنِي مُعَاذٌ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى عَلَى رَجُلٍ وَهُوَ يُصَلِّي , وَهُوَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصَّبْرَ , قَالَ: " سَأَلْتَ الْبَلَاءَ فَسَلْ اللَّهَ الْعَافِيَةَ" , قَالَ: وَأَتَى عَلَى رَجُلٍ وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تَمَامَ نِعْمَتِكَ , فَقَالَ:" ابْنَ آدَمَ هَلْ تَدْرِي مَا تَمَامُ النِّعْمَةِ؟" , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , دَعْوَةٌ دَعَوْتُ بِهَا أَرْجُو بِهَا الْخَيْرَ , قَالَ:" فَإِنَّ تَمَامَ النِّعْمَةِ فَوْزٌ مِنَ النَّارِ , وَدُخُولُ الْجَنَّةِ" , وَأَتَى عَلَى رَجُلٍ وَهُوَ يَقُولُ: يَا ذَا الْجِلَالِ وَالْإِكْرَامِ , فَقَالَ:" قَدْ اسْتُجِيبَ لَكَ فَسَلْ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو یہ دعاء کر رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تو اللہ سے مصیبت کی دعاء مانگ رہے ہو اللہ سے عافیت مانگا کرو ایک اور آدمی کے پاس سے گذر ہوا تو وہ یہ دعاء کر رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے تمام نعمت کی درخواست کرتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن آدم! کیا تمہیں معلوم ہے کہ " تمام نعمت " سے کیا مراد ہے؟ اس نے عرض کیا کہ وہ دعاء جو میں نے مانگی تھی اس کی خیر کا امیدوار ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام نعمت یہ ہے کہ انسان جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہوجائے۔ پھر ایک آدمی کے پاس سے گذر ہوا تو وہ " یاذا الجلال والا کرام " کہہ کر دعاء کر رہا تھا، اس سے فرمایا کہ تمہاری دعاء قبول ہوگی اس لئے مانگو۔
ابو الاسود دیلی کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جس وقت یمن میں تھے تو ان کے سامنے ایک یہودی کی وراثت کا مقدمہ پیش ہوا جو فوت ہوگیا تھا اور اپنے پیچھے ایک مسلمان بھائی چھوڑ گیا تھا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اسلام اضافہ کرتا ہے کمی نہیں کرتا اور اس حدیث سے استدلال کر کے انہوں نے اسے وارث قرار دے دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو الأسود لا يعرف له سماع من معاذ، وقد اختلف فيه على عمرو بن أبى حكيم
حدثنا ابو معاوية وهو الضرير , حدثنا الاعمش , عن ابي سفيان , عن انس , قال: اتينا معاذا , فقلنا: حدثنا من غرائب حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فقال: كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم على حمار , فقال:" يا معاذ" , فقلت: لبيك يا رسول الله , قال: " اتدري ما حق الله على العباد؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" فإن حق الله على العباد ان يعبدوه , ولا يشركوا به شيئا , فهل تدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" فإن حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك , ان لا يعذبهم" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَهُوَ الضَّرِيرُ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: أَتَيْنَا مُعَاذًا , فَقُلْنَا: حَدِّثْنَا مِنْ غَرَائِبِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَقَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ , فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ" , فَقُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: " أَتَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ , وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا , فَهَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَإِنَّ حَقَّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ , أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ" .
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عجیب واقعہ ہمیں سنائیے انہوں نے فرمایا اچھا ایک مرتبہ میں (گدھے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2856، م: 30، وهذا إسناد قوي
حدثنا إسماعيل , عن ليث , عن حبيب بن ابي ثابت , عن ميمون بن ابي شبيب , عن معاذ , انه قال: يا رسول الله , اوصني , قال: " اتق الله حيثما كنت , او اينما كنت" , قال: زدني , قال:" اتبع السيئة الحسنة تمحها" , قال: زدني , قال:" خالق الناس بخلق حسن" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ , عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ , عَنْ مُعَاذٍ , أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَوْصِنِي , قَالَ: " اتَّقِ اللَّهَ حَيْثُمَا كُنْتَ , أَوْ أَيْنَمَا كُنْتَ" , قَالَ: زِدْنِي , قَالَ:" أَتْبِعْ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا" , قَالَ: زِدْنِي , قَالَ:" خَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ" .
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو میں نے مزید کی درخواست کی تو فرمایا گناہ ہوجائے تو اس کے بعد نیکی کرلیا کرو جو اسے مٹا دے میں نے مزید کی درخواست کی تو فرمایا لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، ميمون بن أبى شبيب لم يدرك معاذا، وليث ضعيف، لكنهما توبعا
حدثنا سفيان بن عيينة , عن عمرو يعني ابن دينار , قال: سمعت جابر بن عبد الله , يقول: انا من شهد معاذا حين حضرته الوفاة , يقول: اكشفوا عني سجف القبة احدثكم حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم , وقال مرة: اخبركم بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم , لم يمنعني ان احدثكموه إلا ان تتكلوا , سمعته يقول: " من شهد ان لا إله إلا الله مخلصا من قلبه , او يقينا من قلبه , لم يدخل النار او دخل الجنة" , وقال مرة:" دخل الجنة ولم تمسه النار" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ , قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , يَقُولُ: أَنَا مَنْ شَهِدَ مُعَاذًا حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ , يَقُولُ: اكْشِفُوا عَنِّي سَجْفَ الْقُبَّةِ أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَالَ مَرَّةً: أُخْبِرُكُمْ بِشَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ إِلَّا أَنْ تَتَّكِلُوا , سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِهِ , أَوْ يَقِينًا مِنْ قَلْبِهِ , لَمْ يَدْخُلْ النَّارَ أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ" , وَقَالَ مَرَّةً:" دَخَلَ الْجَنَّةَ وَلَمْ تَمَسَّهُ النَّارُ" .
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اپنے مرض الوفات میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے حاضرین سے فرمایا اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سن رکھی ہے جو میں اب تک تم سے چھپاتا رہا ہوں (اب بیان کر رہا ہوں) لہٰذاخیمے کے پردے ہٹا دو اور اب تک میں نے یہ حدیث صرف اس لئے نہیں بیان کی تھی کہ تم اس پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جاؤ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دنیا سے رخصتی کے وقت جس شخص کا آخری کلام یقین قلب کے ساتھ " لا الہ الا اللہ " ہو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، رجاله ثقات غير الواسطة المبهمة التى روى عنها جابر ابن عبدالله الصحابي
حدثنا وكيع , حدثنا شعبة , عن ابي عون الثقفي , عن الحارث بن عمرو , عن رجال من اصحاب معاذ , ان النبي صلى الله عليه وسلم لما بعثه إلى اليمن , فقال: " كيف تقضي؟" , قال: اقضي بكتاب الله , قال:" فإن لم يكن في كتاب الله؟" , قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" فإن لم يكن في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟" , قال اجتهد رايي , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي عَوْنٍ الثَّقَفِيِّ , عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ , فَقَالَ: " كَيْفَ تَقْضِي؟" , قَالَ: أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ , قَالَ:" فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟" , قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟" , قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن کی طرف بھیجا تو ان سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس کوئی فیصلہ آیا تو تم اسے کیسے حل کرو گے؟ عرض کیا کہ کتاب اللہ کی روشنی میں اس کا فیصلہ کروں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اگر اس کا حکم میری سنت میں بھی نہ ملا تو کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے پیغمبر کے قاصد کو اس چیز کی توفیق عطاء فرما دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لابهام أصحاب معاذ، وجهالة الحارث، ثم هو مرسل
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (پیار سے ڈانٹتے ہوئے) فرمایا معاذ! تمہاری ماں تمہیں روئے لوگوں کو ان کے چہروں کے بل جہنم میں ان کی دوسروں کے متعلق کہی ہوئی باتوں کے علاوہ بھی کوئی چیز اوندھا گرائے گی؟
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حدثنا حدثنا وكيع , حدثنا جعفر بن برقان , عن حبيب بن ابي مرزوق , عن عطاء بن ابي رباح , عن ابي مسلم الخولاني , قال: اتيت مسجد اهل دمشق , فإذا حلقة فيها كهول من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم , وإذا شاب فيهم اكحل العين , براق الثنايا , كلما اختلفوا في شيء ردوه إلى الفتى , فتى شاب , قال: قلت لجليس لي: من هذا؟ قال: هذا معاذ بن جبل , قال: فجئت من العشي فلم يحضروا , قال: فغدوت من الغد , قال: فلم يجيئوا , فرحت فإذا انا بالشاب يصلي إلى سارية , فركعت ثم تحولت إليه , قال: فسلم , فدنوت منه , فقلت: إني لاحبك في الله , قال: فمدني إليه , قال: كيف قلت؟ قلت: إني لاحبك في الله , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يحكي عن ربه , يقول: " المتحابون في الله , على منابر من نور في ظل العرش يوم لا ظل إلا ظله" , قال: فخرجت حتى لقيت عبادة بن الصامت , فذكرت له حديث معاذ بن جبل , فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يحكي عن ربه عز وجل , يقول:" حقت محبتي للمتحابين في , وحقت محبتي للمتباذلين في , وحقت محبتي للمتزاورين في , والمتحابون في الله على منابر من نور في ظل العرش يوم لا ظل إلا ظله" ..حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي مَرْزُوقٍ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ , عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ , قَالَ: أَتَيْتُ مَسْجِدَ أَهْلِ دِمَشْقَ , فَإِذَا حَلْقَةٌ فِيهَا كُهُولٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِذَا شَابٌّ فِيهِمْ أَكْحَلُ الْعَيْنِ , بَرَّاقُ الثَّنَايَا , كُلَّمَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ رَدُّوهُ إِلَى الْفَتَى , فَتًى شَابٌّ , قَالَ: قُلْتُ لِجَلِيسٍ لِي: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ , قَالَ: فَجِئْتُ مِنَ الْعَشِيِّ فَلَمْ يَحْضُرُوا , قَالَ: فَغَدَوْتُ مِنَ الْغَدِ , قَالَ: فَلَمْ يَجِيئُوا , فَرُحْتُ فَإِذَا أَنَا بِالشَّابِّ يُصَلِّي إِلَى سَارِيَةٍ , فَرَكَعْتُ ثُمَّ تَحَوَّلْتُ إِلَيْهِ , قَالَ: فَسَلَّمَ , فَدَنَوْتُ مِنْهُ , فَقُلْتُ: إِنِّي لَأُحِبُّكَ فِي اللَّهِ , قَالَ: فَمَدَّنِي إِلَيْهِ , قَالَ: كَيْفَ قُلْتَ؟ قُلْتُ: إِنِّي لَأُحِبُّكَ فِي اللَّهِ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْكِي عَنْ رَبِّهِ , يَقُولُ: " الْمُتَحَابُّونَ فِي اللَّهِ , عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ فِي ظِلِّ الْعَرْشِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ" , قَالَ: فَخَرَجْتُ حَتَّى لَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ , فَذَكَرْتُ لَهُ حَدِيثَ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْكِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ , يَقُولُ:" حَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّينَ فِيَّ , وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ , وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ , وَالْمُتَحَابُّونَ فِي اللَّهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ فِي ظِلِّ الْعَرْشِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ" ..
ابو ادریس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک ایسی مجلس میں شریک ہوا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف فرما تھے ان میں ایک نوجوان اور کم عمر صحابی بھی تھے ان کا رنگ کھلتا ہوا، بڑی اور سیاہ آنکھیں اور چمکدار دانت تھے، جب لوگوں میں کوئی اختلاف ہوتا اور وہ کوئی بات کہہ دیتے تو لوگ ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ اگلے دن میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ ایک ستون کی آڑ میں نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے نماز کو مختصر کیا اور گوٹ مار کر خاموشی سے بیٹھ گئے میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا بخدا! میں اللہ کے جلال کی وجہ سے آپ سے محبت کرتا ہوں انہوں نے قسم دے کر پوچھا واقعی؟ میں نے بھی قسم کھا کر جواب دیا انہوں نے غالباً یہ فرمایا کہ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اس دن عرش الہٰی کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا، (اس کے بعد بقیہ حدیث میں کوئی شک نہیں) ان کے لئے نور کی کرسیاں رکھی جائیں گی اور ان کی نشست گاہ پروردگار عالم کے قریب ہونے کی وجہ سے انبیاء کرام (علیہم السلام) اور صدیقین وشہداء بھی ان پر رشک کریں گے۔ بعد میں یہ حدیث میں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو سنائی تو انہوں نے فرمایا میں بھی تم سے صرف وہی حدیث بیان کروں گا جو میں نے خود لسان نبوت سے سنی ہے اور وہ یہ کہ "" میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں اور اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے عرش کے سائے تلے نور کے منبروں پر رونق افروز ہوں گے جبکہ عرش کے سائے کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا۔
حدثنا يزيد بن هارون , اخبرنا حريز يعني ابن عثمان , حدثنا راشد بن سعد , عن عاصم بن حميد السكوني , وكان من اصحاب معاذ بن جبل , عن معاذ , قال: رقبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة العشاء , فاحتبس حتى ظننا ان لن يخرج , والقائل منا يقول: قد صلى ولن يخرج , فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلنا: يا رسول الله , ظننا انك لن تخرج , والقائل منا يقول: قد صلى ولن يخرج , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعتموا بهذه الصلاة , فقد فضلتم بها على سائر الامم , ولم يصلها امة قبلكم" ..حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أخبرَنَا حَرِيزٌ يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ , حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ السَّكُونِيِّ , وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: رَقَبْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْعِشَاءِ , فَاحْتَبَسَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ لَنْ يَخْرُجَ , وَالْقَائِلُ مِنَّا يَقُولُ: قَدْ صَلَّى وَلَنْ يَخْرُجَ , فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ظَنَنَّا أَنَّكَ لَنْ تَخْرُجَ , وَالْقَائِلُ مِنَّا يَقُولُ: قَدْ صَلَّى وَلَنْ يَخْرُجَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعْتِمُوا بِهَذِهِ الصَّلَاةِ , فَقَدْ فُضِّلْتُمْ بِهَا عَلَى سَائِرِ الْأُمَمِ , وَلَمْ يُصَلِّهَا أُمَّةٌ قَبْلَكُمْ" ..
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نماز عشاء کے وقت ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافی دیر تک نہ آئے یہاں تک کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ شاید اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئیں گے اور بعض لوگوں نے یہ بھی کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے ہیں اس لئے وہ اب نہیں آئیں گے تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب آپ تشریف نہیں لائیں گے اور ہم میں سے کچھ لوگوں نے تو یہ بھی کہا کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں اس لئے باہر نہیں آئیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ نماز پڑھو کیونکہ تمام امتوں پر اس نماز میں تمہیں فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔
ابو ادریس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک ایسی مجلس میں شریک ہوا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف فرما تھے ان میں ایک نوجوان اور کم عمر صحابی بھی تھے ان کا رنگ کھلتا ہوا، بڑی اور سیاہ آنکھیں اور چمکدار دانت تھے، جب لوگوں میں کوئی اختلاف ہوتا اور وہ کوئی بات کہہ دیتے تو لوگ ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ اگلے دن میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ ایک ستون کی آڑ میں نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے نماز کو مختصر کیا اور گوٹ مار کر خاموشی سے بیٹھ گئے میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا بخدا! میں اللہ کے جلال کی وجہ سے آپ سے محبت کرتا ہوں انہوں نے قسم دے کر پوچھا واقعی؟ میں نے بھی قسم کھا کر جواب دیا انہوں نے غالباً یہ فرمایا کہ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اس دن عرش الہٰی کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا، (اس کے بعد بقیہ حدیث میں کوئی شک نہیں) ان کے لئے نور کی کرسیاں رکھی جائیں گی اور ان کی نشست گاہ پروردگار عالم کے قریب ہونے کی وجہ سے انبیاء کرام (علیہم السلام) اور صدیقین وشہداء بھی ان پر رشک کریں گے۔ بعد میں یہ حدیث میں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو سنائی تو انہوں نے فرمایا میں بھی تم سے صرف وہی حدیث بیان کروں گا جو میں نے خود لسان نبوت سے سنی ہے اور وہ یہ کہ "" میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں اور اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے عرش کے سائے تلے نور کے منبروں پر رونق افروز ہوں گے جبکہ عرش کے سائے کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن الحكم , قال: سمعت عروة بن النزال يحدث , عن معاذ بن جبل , قال: اقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من غزوة تبوك , فلما رايته خليا , قلت: يا رسول الله , اخبرني بعمل يدخلني الجنة , قال: " بخ , لقد سالت عن عظيم , وهو يسير على من يسره الله عليه , تقيم الصلاة المكتوبة , وتؤدي الزكاة المفروضة , وتلقى الله عز وجل لا تشرك به شيئا , اولا ادلك على راس الامر , وعموده , وذروة سنامه؟ اما راس الامر فالإسلام فمن اسلم سلم , واما عموده فالصلاة , واما ذروة سنامه فالجهاد في سبيل الله , اولا ادلك على ابواب الخير؟ الصوم جنة , والصدقة , وقيام العبد في جوف الليل يكفر الخطايا , وتلا هذه الآية: تتجافى جنوبهم عن المضاجع يدعون ربهم خوفا وطمعا ومما رزقناهم ينفقون سورة السجدة آية 16 اولا ادلك على املك ذلك لك كله؟" , قال: فاقبل نفر , قال: فخشيت ان يشغلوا عني رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال شعبة: او كلمة نحوها , قال: فقلت: يا رسول الله , قولك: اولا ادلك على املك ذلك لك كله؟ قال: فاشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده إلى لسانه , قال: قلت: يا رسول الله؟ وإنا لنؤاخذ بما نتكلم به؟ قال:" ثكلتك امك معاذ , وهل يكب الناس على مناخرهم إلا حصائد السنتهم" . قال شعبة : قال لي الحكم : وحدثني به ميمون بن ابي شبيب , وقال الحكم: سمعته منه منذ اربعين سنة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنِ الْحَكَمِ , قَالَ: سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ النَّزَّالِ يُحَدِّثُ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ , فَلَمَّا رَأَيْتُهُ خَلِيًّا , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ , قَالَ: " بَخٍ , لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ عَظِيمٍ , وَهُوَ يَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ , تُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ , وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ , وَتَلْقَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا , أَوَلَا أَدُلُّكَ عَلَى رَأْسِ الْأَمْرِ , وَعَمُودِهِ , وَذُرْوَةِ سَنَامِهِ؟ أَمَّا رَأْسُ الْأَمْرِ فَالْإِسْلَامُ فَمَنْ أَسْلَمَ سَلِمَ , وَأَمَّا عَمُودُهُ فَالصَّلَاةُ , وَأَمَّا ذُرْوَةُ سَنَامِهِ فَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , أَوَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ؟ الصَّوْمُ جُنَّةٌ , وَالصَّدَقَةُ , وَقِيَامُ الْعَبْدِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ يُكَفِّرُ الْخَطَايَا , وَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ سورة السجدة آية 16 أَوَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَمْلَكِ ذَلِكَ لَكَ كُلِّهِ؟" , قَالَ: فَأَقْبَلَ نَفَرٌ , قَالَ: فَخَشِيتُ أَنْ يَشْغَلُوا عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ شُعْبَةُ: أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا , قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَوْلُكَ: أَوَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَمْلَكِ ذَلِكَ لَكَ كُلِّهِ؟ قَالَ: فَأَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلَى لِسَانِهِ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ وَإِنَّا لَنُؤَاخَذُ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ قَالَ:" ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ مُعَاذُ , وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ" . قَالَ شُعْبَةُ : قَالَ لِي الْحَكَمُ : وَحَدَّثَنِي بِهِ مَيْمُونُ بْنُ أَبِي شَبِيبٍ , وقَالَ الْحَكَمُ: سَمِعْتُهُ مِنْهُ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے دوران سفر ایک دن مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل ہوگیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کر دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بہت بڑی بات پوچھی البتہ جس کے لئے اللہ آسان کر دے اس کے لئے بہت آسان ہے نماز قائم کرو اور اللہ سے اس حال میں ملو کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہو۔
پھر فرمایا کیا میں تمہیں دین کی بنیاد، اس کا ستون اور اس کے کوہان کی بلندی کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیوں نہیں فرمایا اس دین و مذہب کی بنیاد اسلام ہے اس کا ستون نماز ہے اور اس کے کوہان کی بلندی جہاد ہے پھر فرمایا کیا میں تمہیں خیر کے دروازے نہ بتادوں؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو بجھا دیتا ہے اور آدھی رات کو انسان کا نماز پڑھنا باب خیر میں سے ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت سجدہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی " تتجافی جنوبہم عن المضاجع۔۔۔۔۔ یعلمون " پھر فرمایا کیا میں تمہیں ان چیزوں کا مجموعہ نہ بتادوں؟ اسی دوران سامنے سے کچھ لوگ آگئے مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ نہ کرلیں اس لئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی بات یاد دلائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا اس کو روک کر رکھو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم جو کچھ بولتے ہیں کیا اس پر بھی ہمارا مؤاخذہ کیا جائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (پیار سے ڈانٹتے ہوئے) فرمایا معاذ! تمہاری ماں تمہیں روئے لوگوں کو ان کے چہروں کے بل جہنم میں ان کی دوسروں کے متعلق کہی ہوئی باتوں کے علاوہ بھی کوئی چیز اوندھا گرائے گی؟
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، عروة بن النزال مجهول، ولم يسمعه من معاذ، ومتابع عروة ميمون لم يسمع من معاذ أيضا،لكنهما توبعا
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے حق میں تین آدمی گواہی دیں اس کے لئے جنت واجب ہوگئی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر دو ہوں تو؟ فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو رملة مجهول، وعبيد الله بن مسلم لا يعرف ، وفي إثبات صحبته نظر
قال: قرات على عبد الرحمن بن مهدي , حدثنا مالك , عن ابي الزبير المكي , عن ابي الطفيل عامر بن واثلة , ان معاذا اخبره , انهم خرجوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام تبوك , فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجمع بين الظهر والعصر , والمغرب والعشاء , قال واخر الصلاة , ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعا , , ثم دخل , ثم خرج فصلى المغرب والعشاء جميعا , ثم قال: " إنكم ستاتون غدا إن شاء الله عين تبوك , وإنكم لن تاتوا بها حتى يضحى النهار , فمن جاء فلا يمس من مائها شيئا حتى آتي" , فجئنا وقد سبقنا إليها رجلان , والعين مثل الشراك تبض بشيء من ماء , فسالهما رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل مسستما من مائها شيئا؟" , فقالا: نعم , فسبهما رسول الله صلى الله عليه وسلم , وقال لهما ما شاء الله ان يقول , ثم غرفوا بايديهم من العين قليلا قليلا , حتى اجتمع في شيء , ثم غسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه وجهه ثم اعاده فيها , فجرت العين بماء كثير , فاستقى الناس , ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يوشك يا معاذ إن طالت بك حياة ان ترى ماء هاهنا قد ملئ جنانا" ..قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا مَالِكٌ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ , عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ , أَنَّ مُعَاذًا أَخْبَرَهُ , أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ تَبُوكَ , فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ , وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ , قَالَ وَأَخَّرَ الصَّلَاةَ , ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا , , ثُمَّ دَخَلَ , ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا , ثُمَّ قَالَ: " إِنَّكُمْ سَتَأْتُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَيْنَ تَبُوكَ , وَإِنَّكُمْ لَنْ تَأْتُوا بِهَا حَتَّى يَضْحَى النَّهَارُ , فَمَنْ جَاءَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ مَائِهَا شَيْئًا حَتَّى آتِيَ" , فَجِئْنَا وَقَدْ سَبَقَنَا إِلَيْهَا رَجُلَانِ , وَالْعَيْنُ مِثْلُ الشِّرَاكِ تَبِضُّ بِشَيْءٍ مِنْ مَاءٍ , فَسَأَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ مَسِسْتُمَا مِنْ مَائِهَا شَيْئًا؟" , فَقَالَا: نَعَمْ , فَسَبَّهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَالَ لَهُمَا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ , ثُمَّ غَرَفُوا بِأَيْدِيهِمْ مِنَ الْعَيْنِ قَلِيلًا قَلِيلًا , حَتَّى اجْتَمَعَ فِي شَيْءٍ , ثُمَّ غَسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ وَجْهَهُ ثُمَّ أَعَادَهُ فِيهَا , فَجَرَتْ الْعَيْنُ بِمَاءٍ كَثِيرٍ , فَاسْتَقَى النَّاسُ , ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُوشِكُ يَا مُعَاذُ إِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ أَنْ تَرَى مَاءً هَاهُنَا قَدْ ملئَ جِنَانًا" ..
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء اکٹھی پڑھا دیتے تھے اور واپس پہنچ جاتے پھر اسی طرح مغرب اور عشاء کی نماز بھی پڑھا دیتے ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان شاء اللہ کل تم چشمہ تبوک پر پہنچ جاؤ گے اور جس وقت تم وہاں پہنچو گے تو دن نکلا ہوا ہوگا جو شخص اس چشمے پر پہنچے وہ میرے آنے تک اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ چنانچہ جب ہم وہاں پہنچے تو دو آدمی ہم سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے اس چشمے میں تسمے کی مانند تھوڑا سا پانی رس رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا کیا تم دونوں نے اس پانی کو چھوا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سخت سست کہا اور جو اللہ کو منظور ہوا، وہ کہا پھر لوگوں نے ہاتھوں کے چلو بنا کر تھوڑا تھوڑا کر کے اس میں سے اتنا پانی نکالا کہ وہ ایک برتن میں اکٹھا ہوگیا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناچہرہ اور مبارک ہاتھ دھوئے، پھر وہ پانی اسی چشمے میں ڈال دیا دیکھتے ہی دیکھتے چشمے میں پانی بھر گیا اور سب لوگ اس سے سیراب ہوگئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے معاذ! ہوسکتا ہے کہ تمہاری زندگی لمبی ہو اور تم اس جگہ کو باغات سے بھرا ہوا دیکھو۔
حدثنا حدثنا حدثنا حدثنا علي بن إسحاق , اخبرنا عبد الله , اخبرنا يحيى بن ايوب , ان عبيد الله بن زحر حدثه , عن خالد بن ابي عمران , عن ابي عياش , قال: قال معاذ بن جبل : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن شئتم انباتكم ما اول ما يقول الله عز وجل للمؤمنين يوم القيامة , وما اول ما يقولون له؟" , قلنا: نعم يا رسول الله , قال:" إن الله عز وجل يقول للمؤمنين: هل احببتم لقائي؟ فيقولون: نعم يا ربنا , فيقول: لم؟ فيقولون: رجونا عفوك , ومغفرتك , فيقول: قد وجبت لكم مغفرتي" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ , أخبرَنَا عَبْدُ اللَّهِ , أخبرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ , أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زَحْرٍ حَدَّثَهُ , عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ , عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ , قَالَ: قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ شِئْتُمْ أَنْبَأْتُكُمْ مَا أَوَّلُ مَا يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَمَا أَوَّلُ مَا يَقُولُونَ لَهُ؟" , قُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ: هَلْ أَحْبَبْتُمْ لِقَائِي؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ يَا رَبَّنَا , فَيَقُولُ: لِمَ؟ فَيَقُولُونَ: رَجَوْنَا عَفْوَكَ , وَمَغْفِرَتَكَ , فَيَقُولُ: قَدْ وَجَبَتْ لَكُمْ مَغْفِرَتِي" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں تمہیں یہ بھی بتاسکتا ہوں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مؤمنین سے سب سے پہلے کیا کہے گا اور وہ سب سے پہلے اسے کیا جواب دیں گے؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! فرمایا اللہ تعالیٰ مؤمنین سے فرمائے گا کہ کیا تم مجھ سے ملنے کو پسند کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے جی پروردگار! وہ پوچھے گا کیوں؟ مؤمنین عرض کریں گے کہ ہمیں آپ سے درگذر اور معافی کی امید تھی وہ فرمائے گا کہ میں نے تمہارے لئے اپنی مغفرت واجب کردی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبيدالله بن زحر ضعيف، أبو عياش لم يسمع من معاذ
حدثنا ابو اليمان , اخبرنا شعيب , حدثني عبد الله بن ابي حسين , حدثني شهر بن حوشب , عن عبد الرحمن بن غنم وهو الذي بعثه عمر بن الخطاب إلى الشام يفقه الناس , ان معاذ بن جبل حدثه , عن النبي صلى الله عليه وسلم , انه ركب يوما على حمار له , يقال له: يعفور , رسنه من ليف , ثم قال النبي صلى الله علية وسلم:" اركب يا معاذ" , فقلت: سر يا رسول الله , فقال:" اركب" , فردفته , فصرع الحمار بنا , فقام النبي صلى الله عليه وسلم يضحك , وقمت اذكر من نفسي اسفا , ثم فعل ذلك الثانية , ثم الثالثة , فركب وسار بنا الحمار , فاخلف يده فضرب ظهري بسوط معه , او عصا , ثم قال:" يا معاذ , هل تدري ما حق الله على العباد؟" , فقلت: الله ورسوله اعلم , قال:" فإن حق الله على العباد ان يعبدوه , ولا يشركوا به شيئا" , قال: ثم سار ما شاء الله , ثم اخلف يده فضرب ظهري , فقال:" يا معاذ يا ابن ام معاذ , هل تدري ما حق العباد على الله إذا هم فعلوا ذلك؟" , قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" فإن حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك ان يدخلهم الجنة" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , أخبرَنَا شُعَيْبٌ , حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي حُسَيْنٍ , حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ وَهُوَ الَّذِي بعثه عمر بن الخطاب إلى الشام يفقه الناس , أن معاذ بن جبل حَدَّثَهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ رَكِبَ يَوْمًا عَلَى حِمَارٍ لَهُ , يُقَالُ لَهُ: يَعْفُورٌ , رَسَنُهُ مِنْ لِيفٍ , ثُمَّ قَالَ النبي صلَّى الله عَليَة وسلم:" ارْكَبْ يَا مُعَاذُ" , فَقُلْتُ: سِرْ يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ:" ارْكَبْ" , فَرَدَفْتُهُ , فَصُرِعَ الْحِمَارُ بِنَا , فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ , وَقُمْتُ أَذْكُرُ مِنْ نَفْسِي أَسَفًا , ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ الثَّانِيَةَ , ثُمَّ الثَّالِثَةَ , فَرَكِبَ وَسَارَ بِنَا الْحِمَارُ , فَأَخْلَفَ يَدَهُ فَضَرَبَ ظَهْرِي بِسَوْطٍ مَعَهُ , أَوْ عَصًا , ثُمَّ قَالَ:" يَا مُعَاذُ , هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , فَقُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ , وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" , قَالَ: ثُمَّ سَارَ مَا شَاءَ اللَّهُ , ثُمَّ أَخْلَفَ يَدَهُ فَضَرَبَ ظَهْرِي , فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ يَا ابْنَ أُمِّ مُعَاذٍ , هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا هُمْ فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَإِنَّ حَقَّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ أَنْ يُدْخِلَهُمْ الْجَنَّةَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک گدھے پر " جس کا نام یعفور تھا اور جس کی رسی کھجور کی چھال کی تھی " سوار ہوئے اور فرمایا معاذ! اس پر سوار ہوجاؤ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ چلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا تم بھی اس پر سوار ہوجاؤ جونہی میں پیچھے بیٹھا تو گدھے نے ہمیں گرا دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنستے ہوئے کھڑے ہوگئے اور مجھے اپنے اوپر افسوس ہونے لگا، تین مرتبہ اسی طرح ہوا بالآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوگئے اور چل پڑے تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پیچھے کر کے میری کمر پر کوڑے کی ہلکی سے ضرب لگائی اور میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں پھر تھوڑی دور چل کر میری پیٹھ پر ضرب لگائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں جنت میں داخل کر دے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، دون قصة فى أوله، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے معاذ! اگر کسی مشرک آدمی کو اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں ہدایت عطاء فرما دے تو یہ تمہارے حق میں سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، بقية لم يصرح بالسماع فى جميع طبقات السند، وضبارة مجهول، ودويد ليس بذاك القوي
حدثنا ابو اليمان , اخبرنا إسماعيل بن عياش , عن صفوان بن عمرو , عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير الحضرمي , عن معاذ , قال: اوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات , قال: " لا تشرك بالله شيئا , وإن قتلت وحرقت , ولا تعقن والديك , وإن امراك ان تخرج من اهلك ومالك , ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمدا , فإن من ترك صلاة مكتوبة متعمدا , فقد برئت منه ذمة الله , ولا تشربن خمرا , فإنه راس كل فاحشة , وإياك والمعصية , فإن بالمعصية حل سخط الله عز وجل , وإياك والفرار من الزحف , وإن هلك الناس , وإذا اصاب الناس موتان وانت فيهم فاثبت , وانفق على عيالك من طولك , ولا ترفع عنهم عصاك ادبا , واخفهم في الله" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , أخبرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: أَوْصَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشْرِ كَلِمَاتٍ , قَالَ: " لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا , وَإِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ , وَلَا تَعُقَّنَّ وَالِدَيْكَ , وَإِنْ أَمَرَاكَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ أَهْلِكَ وَمَالِكَ , وَلَا تَتْرُكَنَّ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا , فَإِنَّ مَنْ تَرَكَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا , فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ ذِمَّةُ اللَّهِ , وَلَا تَشْرَبَنَّ خَمْرًا , فَإِنَّهُ رَأْسُ كُلِّ فَاحِشَةٍ , وَإِيَّاكَ وَالْمَعْصِيَةَ , فَإِنَّ بِالْمَعْصِيَةِ حَلَّ سَخَطُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَإِيَّاكَ وَالْفِرَارَ مِنَ الزَّحْفِ , وَإِنْ هَلَكَ النَّاسُ , وَإِذَا أَصَابَ النَّاسَ مُوتَانٌ وَأَنْتَ فِيهِمْ فَاثْبُتْ , وَأَنْفِقْ عَلَى عِيَالِكَ مِنْ طَوْلِكَ , وَلَا تَرْفَعْ عَنْهُمْ عَصَاكَ أَدَبًا , وَأَخِفْهُمْ فِي اللَّهِ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دس چیزوں کی وصیت فرمائی ہے۔
(١) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا خواہ تمہیں قتل کردیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے۔
(٢) والدین کی نافرمانی نہ کرنا خواہ وہ تمہیں تمہارے اہل خانہ اور مال میں سے نکل جانے کا حکم دے دیں۔
(٣) فرض نماز جان بوجھ کر مت چھوڑنا کیونکہ جو شخص جان بوجھ کر فرض نماز کو ترک کردیتا ہے اس سے اللہ کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔
(٤) شراب نوشی مت کرنا کیونکہ یہ ہر بےحیائی کی جڑ ہے۔
(٥) گناہوں سے بچنا کیونکہ گناہوں کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی اترتی ہے۔
(٦) میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنے سے بچنا خواہ تمام لوگ مارے جائیں۔
(٧) کسی علاقے میں موت کی وباء پھیل پڑے اور تم وہاں پہلے سے موجود ہو تو وہیں ثابت قدم رہنا۔
(٨) اپنے اہل خانہ پر اپنا مال خرچ کرتے رہنا۔
(٩) انہیں ادب سکھانے سے غافل ہو کر لاٹھی اٹھا نہ رکھنا۔
(١٠) اور ان کے دلوں میں خوف اللہ پیدا کرتے رہنا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، عبدالرحمن بن جبير لم يدرك معاذا
حدثنا حسين بن محمد , حدثنا شريك , عن ابي حصين , عن الوالبي صديق لمعاذ بن جبل , عن معاذ , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ولي من امر الناس شيئا , فاحتجب عن اولي الضعفة والحاجة , احتجب الله عنه يوم القيامة" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ أَبِي حَصِينٍ , عَنِ الْوَالِبِيِّ صَدِيقٌ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ شَيْئًا , فَاحْتَجَبَ عَنْ أُولِي الضَّعَفَةِ وَالْحَاجَةِ , احْتَجَبَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی بھی شعبے میں لوگوں کا حکمران بنے اور کمزور اور ضرورت مندوں سے پردے میں رہے قیامت کے دن اللہ اس سے پردہ فرمائے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لسوء حفظ شريك
حدثنا محمد بن عبد الله بن المثنى , حدثنا البراء الغنوي , حدثنا الحسن , عن معاذ بن جبل , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم تلا هذه الآية: اصحاب اليمين سورة الواقعة آية 27 , واصحاب الشمال سورة الواقعة آية 41 فقبض بيديه قبضتين , فقال: " هذه في الجنة ولا ابالي , وهذه في النار ولا ابالي" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى , حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ الْغَنَوِيُّ , حَدَّثَنَا الْحَسَنُ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: أَصْحَابُ الْيَمِينِ سورة الواقعة آية 27 , وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ سورة الواقعة آية 41 فَقَبَضَ بِيَدَيْهِ قَبْضَتَيْنِ , فَقَالَ: " هَذِهِ فِي الْجَنَّةِ وَلَا أُبَالِي , وَهَذِهِ فِي النَّارِ وَلَا أُبَالِي" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت " اصحاب الیمین " اور " اصحاب الشمال " تلاوت فرمائی اور دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بنا کر فرمایا (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) یہ مٹھی اہل جنت کی ہے اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اور یہ مٹھی اہل جہنم کی ہے اور مجھے ان کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف البراء الغنوي ولانقطاعه ، فالحسن لم يدرك معاذا
حدثنا هاشم , حدثنا عبد الحميد , حدثنا شهر بن حوشب , حدثنا عائذ الله بن عبد الله , ان معاذا قدم على اليمن , فلقيته امراة من خولان معها بنون لها اثنا عشر , فتركت اباهم في بيتها , اصغرهم الذي قد اجتمعت لحيته , فقامت فسلمت على معاذ , ورجلان من بنيها يمسكان بضبعيها , فقالت: من ارسلك ايها الرجل؟ قال لها معاذ: ارسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت المراة: ارسلك رسول الله صلى الله عليه وسلم , وانت رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ افلا تخبرني يا رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال لها معاذ: سليني عما شئت , قالت: حدثني ما حق المرء على زوجته؟ قال لها معاذ : " تتقي الله ما استطاعت , وتسمع , وتطيع , قالت: اقسمت بالله عليك لتحدثني ما حق الرجل على زوجته؟ قال لها معاذ: اوما رضيت ان تسمعي , وتطيعي , وتتقي الله , قالت: بلى ولكن حدثني ما حق المرء على زوجته؟ فإني تركت ابا هؤلاء شيخا كبيرا في البيت , فقال لها معاذ: والذي نفس معاذ في يده , لو انك ترجعين , إذا رجعت إليه , فوجدت الجذام قد خرق لحمه , وخرق منخريه , فوجدت منخريه يسيلان قيحا ودما , ثم القمتيهما فاك لكيما ما تبلغي حقه ما بلغت ذلك ابدا" .حَدَّثَنَا هَاشِمٌ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ , حَدَّثَنَا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ , حَدَّثَنَا عَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّ مُعَاذًا قَدِمَ عَلَى الْيَمَنِ , فَلَقِيَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَوْلَانَ مَعَهَا بَنُونَ لَهَا اثْنَا عَشَرَ , فَتَرَكَتْ أَبَاهُمْ فِي بَيْتِهَا , أَصْغَرُهُمْ الَّذِي قَدْ اجْتَمَعَتْ لِحْيَتُهُ , فَقَامَتْ فَسَلَّمَتْ عَلَى مُعَاذٍ , وَرَجُلَانِ مِنْ بَنِيهَا يُمْسِكَانِ بِضَبْعَيْهَا , فَقَالَتْ: مَنْ أَرْسَلَكَ أَيُّهَا الرَّجُلُ؟ قَالَ لَهَا مُعَاذٌ: أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ الْمَرْأَةُ: أَرْسَلَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَنْتَ رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَفَلَا تُخْبِرُنِي يَا رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ لَهَا مُعَاذٌ: سَلِينِي عَمَّا شِئْتِ , قَالَتْ: حَدِّثْنِي مَا حَقُّ الْمَرْءِ عَلَى زَوْجَتِهِ؟ قَالَ لَهَا مُعَاذٌ : " تَتَّقِي اللَّهَ مَا اسْتَطَاعَتْ , وَتَسْمَعُ , وَتُطِيعُ , قَالَتْ: أَقْسَمْتُ بِاللَّهِ عَلَيْكَ لَتُحَدِّثَنِّي مَا حَقُّ الرَّجُلِ عَلَى زَوْجَتِهِ؟ قَالَ لَهَا مُعَاذٌ: أَوَمَا رَضِيتِ أَنْ تَسْمَعِي , وَتُطِيعِي , وَتَتَّقِي اللَّهَ , قَالَتْ: بَلَى وَلَكِنْ حَدِّثْنِي مَا حَقُّ الْمَرْءِ عَلَى زَوْجَتِهِ؟ فَإِنِّي تَرَكْتُ أَبَا هَؤُلَاءِ شَيْخًا كَبِيرًا فِي الْبَيْتِ , فَقَالَ لَهَا مُعَاذٌ: وَالَّذِي نَفْسُ مُعَاذٍ فِي يَدِهِ , لَوْ أَنَّكِ تَرْجِعِينَ , إِذَا رَجَعْتِ إِلَيْهِ , فَوَجَدْتِ الْجُذَامَ قَدْ خَرَقَ لَحْمَهُ , وَخَرَقَ مَنْخِرَيْهِ , فَوَجَدْتِ مَنْخِرَيْهِ يَسِيلَانِ قَيْحًا وَدَمًا , ثُمَّ أَلْقَمْتِيهِمَا فَاكِ لِكَيماْ مَا تَبْلُغِي حَقَّهُ مَا بَلَغْتِ ذَلِكَ أَبَدًا" .
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یمن تشریف لائے تو " خولان " قبیلے کی ایک عورت ان سے ملنے کے لئے آئی جس کے ساتھ اس کے بارہ بچے بھی تھے اس نے ان کے باپ کو گھر میں ہی چھوڑ دیا تھا اس کے بچوں میں سب سے چھوٹا وہ تھا جس کی ڈاڑھی پوری آچکی تھی، وہ عورت کھڑی ہوئی اور اس نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو سلام کیا اس کے دو بیٹوں نے اسے اس کے پہلوؤں سے تھام رکھا تھا اس نے پوچھا اے مرد! تمہیں کس نے بھیجا ہے؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے اس عورت نے کہا کہ اچھا تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے اور تم ان کے قاصد ہو تو کیا اے قاصد! تم مجھے کچھ بتاؤ گے نہیں؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم جو کچھ پوچھنا چاہتی ہو، پوچھ لو اس نے کہا یہ بتائیے کہ بیوی پر شوہر کا کیا حق ہے؟ انہوں نے فرمایا جہاں تک ممکن ہو اللہ سے ڈرتی رہے اس کی بات سنتی اور مانتی رہے۔
اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتی ہوں کہ آپ ضرور بتائیے اور صحیح بتائیے کہ بیوی پر شوہر کا کیا حق ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم اس کی بات سنو اور مانو اور اللہ سے ڈرتی رہو؟ اس نے کہ کیوں نہیں لیکن آپ پھر بھی مجھے اس کی تفصیل بتائیے کیونکہ میں ان کا بوڑھا باپ گھر میں چھوڑ کر آئی ہوں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں معاذ کی جان ہے جب تم گھر واپس پہنچو اور یہ دیکھو کہ جذام نے اس کے گوشت کو چیر دیا ہے اور اس کے نتھنوں میں سوراخ کردیئے ہیں جن سے پیپ اور خون بہہ رہا ہو اور تم اس کا حق ادا کرنے کے لئے اس پیپ اور خون کو منہ لگا کر پینا شروع کردو تب بھی اس کا حق ادانہ کرسکو گی۔
حدثنا حجين بن المثنى , حدثنا عبد العزيز يعني ابن ابي سلمة , عن زياد بن ابي زياد مولى عبد الله بن عياش بن ابي ربيعة انه بلغه , عن معاذ بن جبل , انه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما عمل آدمي عملا قط انجى له من عذاب الله من ذكر الله" . وقال معاذ : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا اخبركم بخير اعمالكم , وازكاها عند مليككم , وارفعها في درجاتكم , وخير لكم من تعاطي الذهب والفضة , ومن ان تلقوا عدوكم غدا , فتضربوا اعناقهم ويضربوا اعناقكم" , قالوا: بلى يا رسول الله , قال:" ذكر الله عز وجل" .حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ أَنَّهُ بَلَغَهُ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ عَمَلًا قَطُّ أَنْجَى لَهُ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ" . وقَالَ مُعَاذٌ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ , وَأَزْكَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ , وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ , وَخَيْرٍ لَكُمْ مِنْ تَعَاطِي الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ , وَمِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ غَدًا , فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ" , قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" ذِكْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انسان ذکر اللہ سے بڑھ کر کوئی عمل ایسا نہیں کرتا جو اسے عذاب الہٰی سے نجات دے سکے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں تمہارے مالک کی نگاہوں میں سب سے بہتر عمل " جو درجات میں سب سے زیادہ بلندی کا سبب ہو تمہارے لئے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہو اور اس سے بہتر ہو کہ میدان جنگ میں دشمن سے تمہارا آمنا سامنا ہو اور تم ان کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمہاری گردنیں اڑائیں " نہ بتادوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! کیوں نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ذکر۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الانقطاعه بين زياد بن أبى زياد و معاذ. وقد صح الشطر الثاني منه موقوفا على أبى الدرداء، وأما الشطر الأول منه موقوف على معاذ
حدثنا حدثنا حدثنا حدثنا كثير بن هشام , حدثنا جعفر يعني ابن برقان , حدثنا حبيب بن ابي مرزوق , عن عطاء بن ابي رباح , عن ابي مسلم الخولاني , قال: دخلت مسجد حمص , فإذا فيه نحو من ثلاثين كهلا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم , فإذا فيهم شاب اكحل العينين , براق الثنايا , ساكت , فإذا امترى القوم في شيء اقبلوا عليه فسالوه , فقلت لجليس لي: من هذا؟ قال: هذا معاذ بن جبل , فوقع له في نفسي حب , فكنت معهم حتى تفرقوا , ثم هجرت إلى المسجد , فإذا معاذ بن جبل قائم يصلي إلى سارية , فسكت لا يكلمني , فصليت , ثم جلست فاحتبيت بردائي , ثم جلس فسكت لا يكلمني , وسكت لا اكلمه , ثم قلت: والله إني لاحبك , قال: فيم تحبني؟ قال: قلت: في الله تبارك وتعالى , فاخذ بحبوتي فجرني إليه هنية , ثم قال: ابشر إن كنت صادقا , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " المتحابون في جلالي لهم منابر من نور يغبطهم النبيون والشهداء" , قال: فخرجت فلقيت عبادة بن الصامت , فقلت: يا ابا الوليد لا احدثك بما حدثني معاذ بن جبل في المتحابين , قال: فانا احدثك عن النبي صلى الله عليه وسلم يرفعه إلى الرب عز وجل , قال:" حقت محبتي للمتحابين في , وحقت محبتي للمتزاورين في , وحقت محبتي للمتباذلين في , وحقت محبتي للمتواصلين في" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ , حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ يَعْنِي ابْنَ بُرْقَانَ , حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي مَرْزُوقٍ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ , عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ , قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ حِمْصَ , فَإِذَا فِيهِ نَحْوٌ مِنْ ثَلَاثِينَ كَهْلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَإِذَا فِيهِمْ شَابٌّ أَكْحَلُ الْعَيْنَيْنِ , بَرَّاقُ الثَّنَايَا , سَاكِتٌ , فَإِذَا امْتَرَى الْقَوْمُ فِي شَيْءٍ أَقْبَلُوا عَلَيْهِ فَسَأَلُوهُ , فَقُلْتُ لِجَلِيسٍ لِي: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ , فَوَقَعَ لَهُ فِي نَفْسِي حُبٌّ , فَكُنْتُ مَعَهُمْ حَتَّى تَفَرَّقُوا , ثُمَّ هَجَّرْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ , فَإِذَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ قَائِمٌ يُصَلِّي إِلَى سَارِيَةٍ , فَسَكَتَ لَا يُكَلِّمُنِي , فَصَلَّيْتُ , ثُمَّ جَلَسْتُ فَاحْتَبَيْتُ بِرِدَائي , ثُمَّ جَلَسَ فَسَكَتَ لَا يُكَلِّمُنِي , وَسَكَتُّ لَا أُكَلِّمُهُ , ثُمَّ قُلْتُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ , قَالَ: فِيمَ تُحِبُّنِي؟ قَالَ: قُلْتُ: فِي اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى , فَأَخَذَ بِحُبْوَتِي فَجَرَّنِي إِلَيْهِ هُنَيَّةً , ثُمَّ قَالَ: أَبْشِرْ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْمُتَحَابُّونَ فِي جَلَالِي لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ يَغْبِطُهُمْ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاءُ" , قَالَ: فَخَرَجْتُ فَلَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ , فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْوَلِيدِ لَا أُحَدِّثُكَ بِمَا حَدَّثَنِي مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ فِي الْمُتَحَابِّينَ , قَالَ: فَأَنَا أُحَدِّثُكَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُهُ إِلَى الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ , قَالَ:" حَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّينَ فِيَّ , وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ , وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ , وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَوَاصِلِينَ فِيَّ" .
ابوادریس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک ایسی مجلس میں شریک ہوا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف فرما تھے ان میں ایک نوجوان اور کم عمر صحابی بھی تھے ان کا رنگ کھلتا ہوا، بڑی اور سیاہ آنکھیں اور چمکدار دانت تھے، جب لوگوں میں کوئی اختلاف ہوتا اور وہ کوئی بات کہہ دیتے تو لوگ ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ اگلے دن میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ ایک ستون کی آڑ میں نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے نماز کو مختصر کیا اور گوٹ مار کر خاموشی سے بیٹھ گئے میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا بخدا! میں اللہ کے جلال کی وجہ سے آپ سے محبت کرتا ہوں انہوں نے قسم دے کر پوچھا واقعی؟ میں نے بھی قسم کھا کر جواب دیا انہوں نے غالباً یہ فرمایا کہ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اس دن عرش الہٰی کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا، (اس کے بعد بقیہ حدیث میں کوئی شک نہیں) ان کے لئے نور کی کرسیاں رکھی جائیں گی اور ان کی نشست گاہ پروردگار عالم کے قریب ہونے کی وجہ سے انبیاء کرام (علیہم السلام) اور صدیقین وشہداء بھی ان پر رشک کریں گے۔ بعد میں یہ حدیث میں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو سنائی تو انہوں نے فرمایا میں بھی تم سے صرف وہی حدیث بیان کروں گا جو میں نے خود لسان نبوت سے سنی ہے اور وہ یہ کہ "" میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں اور میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے جڑتے ہیں۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن مسلمانوں کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ ان کے جسم پر کوئی بال نہیں ہوگا وہ بےریش ہوں گے ان کی آنکھیں سرمگیں ہوں گی اور وہ تیس سال کی عمر کے لوگ ہوں گے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، ولم يسمع من معاذ
حدثنا عبيدة بن حميد , حدثني سليمان الاعمش , عن رجاء الانصاري , عن عبد الله بن شداد , عن معاذ بن جبل , قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم اطلبه , فقيل لي: خرج قبل , قال: فجعلت لا امر باحد إلا قال: مر قبل , حتى مررت , فوجدته قائما يصلي , قال: فجئت حتى قمت خلفه , قال: فاطال الصلاة فلما قضى الصلاة , قلت: يا رسول الله , لقد صليت صلاة طويلة , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني صليت صلاة رغبة ورهبة , سالت الله عز وجل ثلاثا , فاعطاني اثنتين ومنعني واحدة , سالته ان لا يهلك امتي غرقا , فاعطانيها , وسالته ان لا يظهر عليهم عدوا ليس منهم , فاعطانيها , وسالته ان لا يجعل باسهم بينهم فردها علي" .حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ , حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ , عَنْ رَجَاءٍ الْأَنْصَارِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْلُبُهُ , فَقِيلَ لِي: خَرَجَ قَبْلُ , قَالَ: فَجَعَلْتُ لَا أَمُرُّ بِأَحَدٍ إِلَّا قَالَ: مَرَّ قَبْلُ , حَتَّى مَرَرْتُ , فَوَجَدْتُهُ قَائِمًا يُصَلِّي , قَالَ: فَجِئْتُ حَتَّى قُمْتُ خَلْفَهُ , قَالَ: فَأَطَالَ الصَّلَاةَ فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , لَقَدْ صَلَّيْتَ صَلَاةً طَوِيلَةً , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي صَلَّيْتُ صَلَاةَ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ , سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثًا , فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً , سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي غَرَقًا , فَأَعْطَانِيهَا , وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُظْهِرَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا لَيْسَ مِنْهُمْ , فَأَعْطَانِيهَا , وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَرَدَّهَا عَلَيَّ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلا مجھے بتایا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے ہیں جس کے پاس سے بھی گذرتا وہ یہی کہتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی ابھی گذرے ہیں یہاں تک کہ میں نے انہیں ایک جگہ کھڑے نماز پڑھتے ہوئے پالیا میں بھی پیچھے کھڑا ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی تو لمبی پڑھتے رہے حتیٰ کہ جب اپنی نماز سے سلام پھیرا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آج رات تو آپ نے بڑی لمبی نماز پڑھی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! یہ ترغیب و ترہیب والی نماز تھی، میں نے اس نماز میں اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا تھا جن میں سے دو چیزیں اس نے مجھے دے دیں اور ایک سے انکار کردیا میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ میری امت کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک نہ کرے اس نے میری یہ درخواست قبول کرلی پھر میں نے اس سے یہ درخواست کی کہ وہ ان پر بیرونی دشمن کو مسلط نہ کرے چنانچہ میری یہ درخواست بھی اس نے قبول کرلی، پھر میں نے اپنے پروردگار سے درخواست کی کہ وہ ہمیں مختلف فرقوں میں تقسیم نہ کرے لیکن اس نے میری یہ درخواست قبول نہیں کی۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة رجاء الأنصاري
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے معاذ! جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
حدثنا معاوية بن عمرو , وهارون بن معروف , قالا: حدثنا عبد الله بن وهب , قال هارون في حديثه: قال: وقال حيوة , عن ابن ابي حبيب , وقال معاوية: عن حيوة , عن يزيد , عن سلمة بن اسامة , عن يحيى بن الحكم , ان معاذا قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم اصدق اهل اليمن , وامرني ان آخذ من البقر من كل ثلاثين تبيعا , قال هارون: والتبيع الجذع او الجذعة , ومن كل اربعين مسنة , قال: فعرضوا علي ان آخذ من الاربعين , قال هارون: ما بين الاربعين والخمسين , وبين الستين والسبعين , وما بين الثمانين والتسعين , فابيت ذاك , وقلت لهم: حتى اسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك , فقدمت فاخبرت النبي صلى الله عليه وسلم " فامرني ان آخذ من كل ثلاثين تبيعا , ومن كل اربعين مسنة , ومن الستين تبيعين , ومن السبعين مسنة , وتبيعا ومن الثمانين مسنتين , ومن التسعين ثلاثة اتباع , ومن المائة مسنة وتبيعين , ومن العشرة والمائة مسنتين وتبيعا , ومن العشرين ومائة ثلاث مسنات , او اربعة اتباع , قال: وامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا آخذ فيما بين ذلك" , وقال هارون: فيما بين ذلك شيئا إلا ان يبلغ مسنة او جذعا , وزعم ان الاوقاص لا فريضة فيها.حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو , وَهَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ , قَالَا: حدثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ , قَالَ هَارُونُ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: وَقَالَ حَيْوَةُ , عَنِ ابْنِ أَبِي حَبِيبٍ , وَقَالَ مُعَاوِيَةُ: عَنْ حَيْوَةَ , عَنْ يَزِيدَ , عَنْ سَلَمَةَ بْنِ أُسَامَةَ , عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَكَمِ , أَنَّ مُعَاذًا قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُصَدِّقُ أَهْلَ الْيَمَنِ , وَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنَ الْبَقَرِ مِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ تَبِيعًا , قَالَ هَارُونُ: وَالتَّبِيعُ الْجَذَعُ أَوْ الْجَذَعَةُ , وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً , قَالَ: فَعَرَضُوا عَلَيَّ أَنْ آخُذَ مِنَ الْأَرْبَعِينَ , قَالَ هَارُونُ: مَا بَيْنَ الْأَرْبَعِينَ َوْالْخَمْسِينَ , وَبَيْنَ السِّتِّينَ وَالسَّبْعِينَ , وَمَا بَيْنَ الثَّمَانِينَ وَالتِّسْعِينَ , فَأَبَيْتُ ذَاكَ , وَقُلْتُ لَهُمْ: حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ , فَقَدِمْتُ فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ تَبِيعًا , وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً , وَمِنْ السِّتِّينَ تَبِيعَيْنِ , وَمِنْ السَّبْعِينَ مُسِنَّةً , وَتَبِيعًا وَمِنْ الثَّمَانِينَ مُسِنَّتَيْنِ , وَمِنْ التِّسْعِينَ ثَلَاثَةَ أَتْبَاعٍ , وَمِنْ الْمِائَةِ مُسِنَّةً وَتَبِيعَيْنِ , وَمِنْ الْعَشْرَةِ وَالْمِائَةِ مُسِنَّتَيْنِ وَتَبِيعًا , وَمِنْ الْعِشْرِينَ وَمِائَةٍ ثَلَاثَ مُسِنَّاتٍ , أَوْ أَرْبَعَةَ أَتْبَاعٍ , قَالَ: وَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا آخُذَ فِيمَا بَيْنَ ذَلِكَ" , وَقَالَ هَارُونُ: فِيمَا بَيْنَ ذَلِكَ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَبْلُغَ مُسِنَّةً أَوْ جَذَعًا , وَزَعَمَ أَنَّ الْأَوْقَاصَ لَا فَرِيضَةَ فِيهَا.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کے پاس زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا اور مجھے حکم دیا کہ ہر تیس گائے پر ایک سالہ گائے وصول کروں اور ہر چالیس پر دو سالہ ایک گائے وصول کرلو، ان لوگوں نے مجھے چالیس اور پچاس کے درمیان، ساٹھ اور ستر کے درمیان، اسی اور نوے کے درمیان کی تعداد میں بھی زکوٰۃ وصول کرنے کی پیشکش کی، لیکن میں نے انکار کردیا اور کہہ دیا کہ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں گا۔
چنانچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ بتایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ہر تیس گائے پر ایک سالہ گائے ہر چالیس پر دو سالہ گائے، ساٹھ پر ایک سالہ دو عدد گائے، ستر پر ایک دو سالہ اور ایک ایک سالہ گائے، اسی پر دو سالہ گائے، نوے پر تین ایک سالہ گائے سو پر دو سالہ ایک اور ایک سالہ دو گائے ایک سو دس پر دو سالہ دو اور ایک سالہ ایک گائے ایک سو بیس پر تین دو سالہ گائے یا چار ایک سالہ گائے وصول کروں اور یہ حکم بھی دیا کہ ان اعداد کے درمیان اس وقت تک زکوٰۃ وصول نہ کروں جب تک وہ سال بھر کا یا چھ ماہ کا جانور نہ ہوجائے اور بتایا کہ (" کسر " یا) تیس سے کم میں زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لجهالة سلمة بن أسامة، ويحيي بن الحكم مجهول الحال. معاذ لم يقدم المدينة بعد ما أرسله النبى ﷺ إلى اليمن حتى توفي رسول الله ﷺ
حدثنا حدثنا عبد الله , حدثني ابي , حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم , حدثنا ثابت بن يزيد , حدثنا عاصم , عن ابي منيب الاحدب , قال: خطب معاذ بالشام فذكر الطاعون , فقال: " إنها رحمة ربكم , ودعوة نبيكم , وقبض الصالحين قبلكم , اللهم ادخل على آل معاذ نصيبهم من هذه الرحمة , ثم نزل من مقامه ذلك , فدخل على عبد الرحمن بن معاذ , فقال عبد الرحمن: الحق من ربك فلا تكونن من الممترين سورة البقرة آية 147 , فقال معاذ: ستجدني إن شاء الله من الصابرين سورة الصافات آية 102" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ , حَدَّثَنِي أَبِي , حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ , حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ , حَدَّثَنَا عَاصِمٌ , عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْأَحْدَبِ , قَالَ: خَطَبَ مُعَاذٌ بِالشَّامِ فَذَكَرَ الطَّاعُونَ , فَقَالَ: " إِنَّهَا رَحْمَةُ رَبِّكُمْ , وَدَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ , وَقَبْضُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ , اللَّهُمَّ أَدْخِلْ عَلَى آلِ مُعَاذٍ نَصِيبَهُمْ مِنْ هَذِهِ الرَّحْمَةِ , ثُمَّ نَزَلَ مِنْ مَقَامِهِ ذَلِكَ , فَدَخَلَ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُعَاذٍ , فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ سورة البقرة آية 147 , فَقَالَ مُعَاذٌ: سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ سورة الصافات آية 102" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے شام میں خطبہ کے دوران طاعون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمہارے رب کی رحمت انبیاء کی دعاء اور تم سے پہلے نیکوں کی وفات کا طریقہ رہا ہے اے اللہ! آل معاذ کو بھی اس رحمت کا حصہ عطاء فرما پھر جب وہ منبر سے اترے اور گھر پہنچے اور اپنے صاحبزادے عبدالرحمن کو دیکھا تو (وہ طاعون کی لپیٹ میں آچکا تھا) اس نے کہا کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے برحق ہے لہٰذا آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں " حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ان شاء اللہ تم مجھے صبر کرنے والوں میں سے پاؤ گے۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد منقطع، أبو المنيب لم يسمع من معاذ
حدثنا ابو سعيد , حدثنا زائدة , حدثنا عبد الملك , عن ابن ابي ليلى , عن معاذ , قال: استب رجلان عند النبي صلى الله عليه وسلم , فغضب احدهما حتى انه ليتخيل إلي ان انفه ليتمزع من الغضب , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني لاعلم كلمة لو يقولها هذا الغضبان لذهب عنه الغضب: اللهم إني اعوذ بك من الشيطان الرجيم" .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا زَائِدَةُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ , عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَغَضِبَ أَحَدُهُمَا حَتَّى أَنَّهُ لَيُتَخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّ أَنْفَهُ لَيَتَمَزَّعُ مِنَ الْغَضَبِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ يَقُولُهَا هَذَا الْغَضْبَانُ لَذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دو آدمیوں کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی اور ان میں سے ایک آدمی کو اتنا غصہ آیا کہ اب تک خیالی تصورات میں میں اس کی ناک کو دیکھ رہا ہوں جو غصے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں جو اگر یہ غصے میں مبتلا آدمی کہہ لے تو اس کا غصہ دور ہوجائے اور وہ کلمہ یہ ہے " اللہم انی اعوذبک میں الشیطان الرجیم "۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، ابن أبى ليلى لم يسمع من معاذ، وقد اختلف فيه على عبدالملك بن عمير
حدثنا سريج بن النعمان , حدثنا عبد العزيز يعني الدراوردي , عن زيد بن اسلم , عن عطاء بن يسار , عن معاذ بن جبل , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى الصلوات الخمس , وحج البيت الحرام , وصام رمضان , ولا ادري اذكر الزكاة ام لا؟ كان حقا على الله ان يغفر له إن هاجر في سبيله , او مكث بارضه التي ولد بها" , فقال معاذ: يا رسول الله , افاخبر الناس , قال:" ذر الناس يا معاذ , في الجنة مائة درجة , ما بين كل درجتين مائة سنة , والفردوس اعلى الجنة واوسطها , ومنها تفجر انهار الجنة , فإذا سالتم الله فاسالوه الفردوس" .حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ , وَحَجَّ الْبَيْتَ الْحَرَامَ , وَصَامَ رَمَضَانَ , وَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ الزَّكَاةَ أَمْ لَا؟ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ إِنْ هَاجَرَ فِي سَبِيلِهِ , أَوْ مَكَثَ بِأَرْضِهِ الَّتِي وُلِدَ بِهَا" , فَقَالَ مُعَاذٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَفَأُخْبِرُ النَّاسَ , قَالَ:" ذَرْ النَّاسَ يَا مُعَاذُ , فِي الْجَنَّةِ مِائَةُ دَرَجَةٍ , مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ مِائَةُ سَنَةٍ , وَالْفِرْدَوْسُ أَعْلَى الْجَنَّةِ وَأَوْسَطُهَا , وَمِنْهَا تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ , فَإِذَا سَأَلْتُمْ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص پنج گانہ نماز ادا کرتا ہو بیت اللہ کا حج کرتا ہو اور ماہ رمضان کے روزے رکھتا ہو تو اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور اللہ پر حق ہے خواہ وہ ہجرت کرے یا اسی علاقے میں رہے جہاں وہ پیدا ہوا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں لوگوں کو یہ خوشخبری نہ سنادوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاذ! انہیں عمل کرتے رہنے دو جنت میں سو درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہے اور فردوس جنت کا سب سے اعلیٰ اور بہترین درجہ ہے اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں اس لئے تم جب اللہ سے سوال کیا کرو تو جنت الفردوس ہی کا سوال کیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، عطاء لم يسمع من معاذ، وقد اختلف فيه على زيد بن أسلم وعلى عطاء بن يسار
حدثنا ابو احمد الزبيري , حدثنا مسرة بن معبد , عن إسماعيل بن عبيد الله , قال: قال معاذ بن جبل : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ستهاجرون إلى الشام , فيفتح لكم , ويكون فيكم داء كالدمل , او كالحرة , ياخذ بمراق الرجل , يستشهد الله به انفسهم , ويزكي به اعمالهم" , اللهم إن كنت تعلم ان معاذ بن جبل , سمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطه هو واهل بيته الحظ الاوفر منه , فاصابهم الطاعون فلم يبق منهم احد , فطعن في اصبعه السبابة , فكان يقول ما يسرني ان لي بها حمر النعم.حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ , حَدَّثَنَا مَسَرَّةُ بْنُ مَعْبَدٍ , عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , قَالَ: قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " سَتُهَاجِرُونَ إِلَى الشَّامِ , فَيُفْتَحُ لَكُمْ , وَيَكُونُ فِيكُمْ دَاءٌ كَالدُّمَّلِ , أَوْ كَالْحَرَّةِ , يَأْخُذُ بِمَرَاقِ الرَّجُلِ , يَسْتَشْهِدُ اللَّهُ بِهِ أَنْفُسَهُمْ , وَيُزَكِّي بِهَ أَعْمَالَهُمْ" , اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ , سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطِهِ هُوَ وَأَهْلَ بَيْتِهِ الْحَظَّ الْأَوْفَرَ مِنْهُ , فَأَصَابَهُمْ الطَّاعُونُ فَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ أَحَدٌ , فَطُعِنَ فِي أُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ , فَكَانَ يَقُولُ مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا حُمْرَ النَّعَمِ.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب تم شام کی طرف ہجرت کرو گے اور وہ تمہارے ہاتھوں فتح ہوجائے گا لیکن وہاں پھوڑے پھنسیوں کی ایک بیماری تم پر مسلط ہوجائے گی جو آدمی کو سیڑھی کے پائے سے پکڑ لے گا اللہ اس کے ذریعے انہیں شہادت عطاء فرمائے گا اور ان کے اعمال کا تزکیہ فرمائے گا اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ معاذ بن جبل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے تو اسے اور اس کے اہل خانہ کو اس کا وافر حصہ عطاء فرماء چنانچہ وہ سب طاعون میں مبتلا ہوگئے اور ان میں سے ایک بھی زندہ باقی نہ بچاجب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی شہادت والی انگلی میں طاعون کی گلٹی نمودار ہوئی تو وہ اسے دیکھ دیکھ کر فرماتے تھے کہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ ملنا بھی پسند نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، إسماعيل بن عبيد الله لم يدرك معاذا
حدثنا احمد بن عبد الملك الحراني , حدثنا عبيد الله يعني ابن عمرو , عن عبد الملك بن عمير , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , عن معاذ بن جبل , قال: انتسب رجلان من بني إسرائيل على عهد موسى عليه السلام , احدهما مسلم والآخر مشرك , فانتسب المشرك , فقال: انا فلان بن فلان , حتى بلغ تسعة آباء , ثم قال لصاحبه: انتسب لا ام لك , قال: انا فلان بن فلان , وانا بريء مما وراء ذلك , فنادى موسى عليه السلام الناس فجمعهم , ثم قال: " قد قضي بينكما , اما الذي انتسب إلى تسعة آباء , فانت فوقهم العاشر في النار , واما الذي انتسب إلى ابويه , فانت امرؤ من اهل الإسلام" .حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْحَرَّانِيُّ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: انْتَسَبَ رَجُلَانِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى عَهْدِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام , أَحَدُهُمَا مُسْلِمٌ وَالْآخَرُ مُشْرِكٌ , فَانْتَسَبَ الْمُشْرِكُ , فَقَالَ: أَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ , حَتَّى بَلَغَ تِسْعَةَ آبَاءٍ , ثُمَّ قَالَ لِصَاحِبِهِ: انْتَسِبْ لَا أُمَّ لَكَ , قَالَ: أَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ , وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا وَرَاءَ ذَلِكَ , فَنَادَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام النَّاسَ فَجَمَعَهُمْ , ثُمَّ قَالَ: " قَدْ قُضِيَ بَيْنَكُمَا , أَمَّا الَّذِي انْتَسَبَ إِلَى تِسْعَةِ آبَاءٍ , فَأَنْتَ فَوْقَهُمْ الْعَاشِرُ فِي النَّارِ , وَأَمَّا الَّذِي انْتَسَبَ إِلَى أَبَوَيْهِ , فَأَنْتَ امْرُؤٌ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ" .
حضرت ابن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور باسعادت میں دو آدمیوں نے اپنا نسب نامہ بیان کیا، ان میں سے ایک مسلمان تھا اور دوسرا مشرک، مشرک نے دوسرے سے کہا کہ میں تو فلاں بن فلاں ہوں اور اس نے اپنے آباؤ اجداد میں سے نو افراد کے نام گنوائے اور کہا کہ تو کون ہے؟ تیری ماں نہ رہے اس نے کہا میں فلاں بن فلاں ہوں اور اس سے آگے کے لوگوں سے میں بری ہوں حضرت موسٰی علیہ السلام نے منادی کر کے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا تم دونوں کے درمیان فیصلہ کردیا گیا ہے اے نو آدمیوں کی طرف نسبت کرنے والے! وہ سب جہنم میں ہیں اور دسواں تو خود ان کے ساتھ جہنم میں ہوگا اور اے اپنے والدین کی طرف اپنے نسب کو منسوب کرنے والے! تو اہل اسلام میں کا ایک فرد ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن أبى ليلى لم يسمع من معاذ
حدثنا حدثنا عفان , حدثنا خالد يعني الطحان , حدثنا يحيى التيمي , عن عبيد الله بن مسلم , عن معاذ , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من مسلمين يتوفى لهما ثلاثة , إلا ادخلهما الله الجنة بفضل رحمته إياهما" , فقالوا: يا رسول الله , او اثنان , قال:" او اثنان" , قالوا: او واحد , قال:" او واحد" , ثم قال:" والذي نفسي بيده إن السقط ليجر امه بسرره إلى الجنة إذا احتسبته" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي الطَّحَّانَ , حدثَنَا يَحْيَى التَّيْمِيُّ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يُتَوَفَّى لَهُمَا ثَلَاثَةٌ , إِلَّا أَدْخَلَهُمَا اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ إِيَّاهُمَا" , فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَوْ اثْنَانِ , قَالَ:" أَوْ اثْنَانِ" , قَالُوا: أَوْ وَاحِدٌ , قَالَ:" أَوْ وَاحِدٌ" , ثُمَّ قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ السِّقْطَ لَيَجُرُّ أُمَّهُ بِسَرَرِهِ إِلَى الْجَنَّةِ إِذَا احْتَسَبَتْهُ" .
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جن دو مسلمان میاں بیوی کے تین بچے فوت ہوجائیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل فرما دے گا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر دو بچے ہوں تو؟ فرمایا ان کا بھی یہی حکم ہے انہوں نے پوچھا اگر ایک ہو تو؟ فرمایا اس کا بھی یہی حکم ہے پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، نامکمل حمل بھی اپنی ماں کو کھینچ کر جنت میں لے جائے گا بشرطیکہ اس نے اس پر صبر کیا ہو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قصة السقط فى آخره وهذا إسناد ضعيف لضعف يحيى التيمي
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
حدثنا عفان , حدثنا حماد يعني ابن سلمة , قال: كنت انا وعاصم بن بهدلة , وثابت , فحدث عاصم , عن شهر بن حوشب , عن ابي ظبية , عن معاذ بن جبل , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ما من مسلم يبيت على ذكر الله طاهرا فيتعار من الليل , فيسال الله خيرا من الدنيا والآخرة , إلا اعطاه" , فقال ثابت: قدم علينا , فحدثنا هذا الحديث , ولا اعلمه إلا يعني ابا ظبية , قلت لحماد: عن معاذ؟ قال: عن معاذ.حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ , قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَعَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ , وَثَابِتٌ , فَحَدَّثَ عَاصِمٌ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أَبِي ظَبْيَةَ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَبِيتُ عَلَى ذِكْرِ اللَّهِ طَاهِرًا فَيَتَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ , فَيَسْأَلُ اللَّهَ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ , إِلَّا أَعْطَاهُ" , فَقَالَ ثَابِتٌ: قَدِمَ عَلَيْنَا , فَحَدَّثَنَا هَذَا الْحَدِيثَ , وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا يَعْنِي أَبَا ظَبْيَةَ , قُلْتُ لِحَمَّادٍ: عَنْ مُعَاذٍ؟ قَالَ: عَنْ مُعَاذٍ.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان باوضو ہو کر اللہ کا ذکر کرتے ہوئے رات کو سوتا ہے پھر رات کے کسی حصے میں بیدار ہو کر اللہ سے دنیا و آخرت کی جس خیر کا بھی سوال کرتا ہے اللہ اسے وہ ضرور عطاء فرماتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح من جهة ثابت، ومن جهة عاصم ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ چیزوں کے متعلق ہم سے وعدہ کیا ہے کہ جو شخص وہ کام کرے گا وہ اللہ کی حفاظت میں ہوگا، مریض کی تیماداری کرنے والا، جنازے میں شریک ہونے والا، اللہ کے راستہ میں جہاد کے لئے جانے والا، امام کے پاس جا کر اس کی عزت و احترام کرنے والا، یا وہ آدمی جو اپنے گھر میں بیٹھ جائے کہ لوگ اس کی ایذاء سے محفوظ رہیں اور وہ لوگوں کی ایذاء سے محفوظ رہے۔
حدثنا قتيبة بن سعيد , حدثنا ليث , عن يزيد بن ابي حبيب , عن ابي الطفيل عامر بن واثلة , عن معاذ , ان النبي صلى الله عليه وسلم " كان في غزوة تبوك , إذا ارتحل قبل زيغ الشمس , اخر الظهر حتى يجمعها إلى العصر , يصليهما جميعا , وإذا ارتحل بعد زيغ الشمس صلى الظهر والعصر جميعا ثم سار , وكان إذا ارتحل قبل المغرب اخر المغرب حتى يصليها مع العشاء , وإذا ارتحل بعد المغرب , عجل العشاء فصلاها مع المغرب" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا لَيْثٌ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ , عَنْ مُعَاذٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ , إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ زَيْغِ الشَّمْسِ , أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَجْمَعَهَا إِلَى الْعَصْرِ , يُصَلِّيهِمَا جَمِيعًا , وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ زَيْغِ الشَّمْسِ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ سَارَ , وَكَانَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْعِشَاءِ , وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ , عَجَّلَ الْعِشَاءَ فَصَلَّاهَا مَعَ الْمَغْرِبِ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زوال سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو مؤخر کردیتے اور عصر کے وقت دونوں نمازیں ملا کر اکٹھی ادا کرلیتے اور اگر زوال کے بعد کوچ فرماتے تو پہلے ظہر اور عصر دونوں پڑھ لیتے اور اگر مغرب کے بعد روانہ ہوتے تو نماز عشاء کو پہلے ہی مغرب کے ساتھ پڑھ لیتے پھر روانہ ہوتے۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات،لكن أشار بعض أهل العلم إلى تفرد قتيبة به
حدثنا هارون بن معروف , قال عبد الله: وسمعته انا من هارون , حدثنا ابن وهب , اخبرني يحيى بن ايوب , عن عبيد الله بن زحر , عن عبد الرحمن بن رافع التنوخي قاضي إفريقية , ان معاذ بن جبل قدم الشام , واهل الشام لا يوترون , فقال لمعاوية: ما لي ارى اهل الشام لا يوترون؟! فقال معاوية: وواجب ذلك عليهم؟ قال: نعم , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " زادني ربي عز وجل صلاة وهي الوتر , وقتها ما بين العشاء إلى طلوع الفجر" .حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ , قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ هَارُونَ , حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ , أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ التَّنُوخِيِّ قَاضِي إِفْرِيقِيَّةَ , أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَدِمَ الشَّامَ , وَأَهْلُ الشَّامِ لَا يُوتِرُونَ , فَقَالَ لِمُعَاوِيَةَ: مَا لِي أَرَى أَهْلَ الشَّامِ لَا يُوتِرُونَ؟! فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: وَوَاجِبٌ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ: نَعَمْ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " زَادَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ صَلَاةً وَهِيَ الْوِتْرُ , وَقْتُهَا مَا بَيْنَ الْعِشَاءِ إِلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ" .
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جب ملک شام تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ اہل شام وتر نہیں پڑھتے انہوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا بات ہے کہ میں اہل شام کو وتر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھتا؟ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا یہ ان پر واجب ہے؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جی ہاں! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے رب نے مجھ پر ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے اور وہ وتر ہے جس کا وقت نماز عشاء اور طلوع فجر کے درمیان ہے۔
حدثنا عفان , حدثنا همام , حدثنا قتادة , عن انس , ان معاذ بن جبل حدثه , قال: بينما انا رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس بيني وبينه إلا آخرة الرحل , فقال:" يا معاذ" , قلت: لبيك رسول الله وسعديك , قال: ثم سار ساعة , ثم قال:" يا معاذ بن جبل" , قلت: لبيك رسول الله , وسعديك , قال: ثم سار ساعة , ثم قال:" يا معاذ بن جبل" , قلت: لبيك رسول الله وسعديك , قال: " هل تدري ما حق الله على العباد؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" فإن حق الله على العباد ان يعبدوه , ولا يشركوا به شيئا" , قال: ثم سار ساعة , ثم قال:" يا معاذ بن جبل" قلت: لبيك رسول الله وسعديك , قال:" فهل تدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك؟" , قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" فإن حق العباد على الله ان لا يعذبهم" ..حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , حَدَّثَنَا قَتَادَةُ , عَنْ أَنَسٍ , أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ حَدَّثَهُ , قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا رَدِيفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا آخِرَةُ الرَّحْلِ , فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ" , قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ , قَالَ: ثُمَّ سَارَ سَاعَةً , ثُمَّ قَالَ:" يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ" , قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ , وَسَعْدَيْكَ , قَالَ: ثُمَّ سَارَ سَاعَةً , ثُمَّ قَالَ:" يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ" , قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ , قَالَ: " هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ , وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" , قَالَ: ثُمَّ سَارَ سَاعَةً , ثُمَّ قَالَ:" يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ" قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ , قَالَ:" فَهَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَإِنَّ حَقَّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ" ..
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ (گدھے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا میرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف کجاوے کا پچھلا حصہ حائل تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کیا میں جنت کے ایک دروازے کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کروں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لاحول ولاقوۃ الاباللہ
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 2856، م: 30، وهذا إسناد ضعيف، أبو رزين لم يدرك معاذ بن جبل
حدثنا عفان , حدثنا شعبة , اخبرني ابو عون , قال: سمعت الحارث بن عمرو ابن اخي المغيرة بن شعبة يحدث , عن ناس من اصحاب معاذ من اهل حمص , عن معاذ , ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لمعاذ بن جبل حين بعثه إلى اليمن فذكر: " كيف تقضي إن عرض لك قضاء؟" , قال: اقضي بكتاب الله , قال:" فإن لم يكن في كتاب الله" , قال: فسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" فإن لم يكن في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم" , قال: اجتهد رايي ولا آلو , قال: فضرب صدري , فقال:" الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم لما يرضي رسوله" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , أَخْبَرَنِي أَبُو عَوْنٍ , قَالَ: سَمِعْتُ الْحَارِثَ بْنَ عَمْرٍو ابْنَ أَخِي الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ , عَنْ مُعَاذٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ فَذَكَرَ: " كَيْفَ تَقْضِي إِنْ عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ؟" , قَالَ: أَقْضِي بِكِتَابِ اللَّهِ , قَالَ:" فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ" , قَالَ: فَسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سَنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" , قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو , قَالَ: فَضَرَبَ صَدْرِي , فَقَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا يُرْضِي رَسُولَهُ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن کی طرف بھیجا تو ان سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس کوئی فیصلہ آیا تو تم اسے کیسے حل کرو گے؟ عرض کیا کہ کتاب اللہ کی روشنی میں اس کا فیصلہ کروں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو کیا کرو گے؟ عرض کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اگر اس کا حکم میری سنت میں بھی نہ ملا تو کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کروں گا، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مار کر فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے پیغمبر کے قاصد کی اس چیز کی طرف رہنمائی فرمادی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الإبهام أصحاب معاذ، وجهالة الحارث بن عمرو
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی عورت دنیا میں اپنے شوہر کو تکلیف پہنچاتی ہے تو جنت میں اس شخص کی حور عین میں سے جو بیوی ہوتی ہے وہ اس عورت سے کہتی ہے کہ اسے مت ستاؤ، اللہ تمہارا ستیاناس کرے یہ تو تمہارے پاس چند دن کا مہمان ہے عنقریب یہ تم سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجائے گا۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ان کے پہلو اپنے بستروں سے جدا رہتے ہیں " سے مراد رات کے وقت انسان کا تہجد کے لئے اٹھنا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، ثم هو لم يسمع من معاذ
حدثنا قتيبة بن سعيد , حدثنا ليث بن سعد , عن معاوية بن صالح , عن ربيعة بن يزيد , عن ابي إدريس الخولاني , عن يزيد بن عميرة , قال: لما حضر معاذ بن جبل الموت , قيل له: يا ابا عبد الرحمن , اوصنا , قال: اجلسوني , فقال: إن العلم والإيمان مكانهما من ابتغاهما , وجدهما يقول ثلاث مرات , فالتمسوا العلم عند اربعة رهط: عند عويمر ابي الدرداء , وعند سلمان الفارسي , وعند عبد الله بن مسعود , وعند عبد الله بن سلام , الذي كان يهوديا ثم اسلم , فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إنه عاشر عشرة في الجنة" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ , عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ , عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمِيرَةَ , قَالَ: لَمَّا حَضَرَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ الْمَوْتُ , قِيلَ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَوْصِنَا , قَالَ: أَجْلِسُونِي , فَقَالَ: إِنَّ الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ مَكَانَهُمَا مَنْ ابْتَغَاهُمَا , وَجَدَهُمَا يَقُولُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , فَالْتَمِسُوا الْعِلْمَ عِنْدَ أَرْبَعَةِ رَهْطٍ: عِنْدَ عُوَيْمِرٍ أَبِي الدَّرْدَاءِ , وَعِنْدَ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ , وَعِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَعِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ , الَّذِي كَانَ يَهُودِيًّا ثُمَّ أَسْلَمَ , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّهُ عَاشِرُ عَشَرَةٍ فِي الْجَنَّةِ" .
یزید بن عمیرہ کہتے ہیں کہ جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو کسی نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمن! ہمیں کوئی وصیت فرما دیجئے انہوں نے فرمایا مجھے بٹھا دو اور فرمایا علم اور ایمان اپنی اپنی جگہ رہتے ہیں جو ان کی تلاش میں نکلتا ہے وہی انہیں پاتا ہے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا چار آدمیوں سے علم حاصل کرو، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جو پہلے یہودی تھے بعد میں مسلمان ہوگئے تھے اور ان کے متعلق میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ جنت میں دس افراد میں سے دسویں ہوں گے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھیجا تو فرمایا ناز و نعم کی زندگی سے بچنا کیونکہ اللہ کے بندے ناز و نعم کی زندگی نہیں گذارا کرتے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف بقية ، وهو مدلس يدلس تدليس التسوية، وقد عنعن
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اہل جنت اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان کے جسم پر کوئی بال نہیں ہوگا وہ بےریش ہوں گے ان کی آنکھیں سرمگیں ہوں گی اور وہ تیس یا تینتیس سال کی عمر کے لوگ ہوں گے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس طرح بکریوں کے لئے بھیڑیا ہوتا ہے اسی طرح انسان کے لئے شیطان بھیڑیا ہے جو اکیلی رہ جانے والی اور سب سے الگ تھلگ رہنے والی بکری کو پکڑ لیتا ہے اس لئے تم گھاٹیوں میں تنہا رہنے سے اپنے آپ کو بچاؤ اور جماعت مسلمین کو اور عوام کو اپنے اوپر لازم کرلو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف الإبهام الراوي عن معاذ، وعمر بن إبراهيم فى حديثه عن قتادة ضعف
حدثنا اسود بن عامر , حدثنا شريك , عن ابن عمير عبد الملك , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , عن معاذ , قال: صلى النبي صلى الله عليه وسلم صلاة , فاحسن فيها الركوع والسجود والقيام , فذكرت ذلك له , فقال: " هذه صلاة رغبة ورهبة , سالت ربي فيها ثلاثا , فاعطاني اثنين , ولم يعطني واحدة سالته ان لا يقتل امتي بسنة جوع فيهلكوا فاعطاني , وسالته ان لا يسلط عليهم عدوا من غيرهم فاعطاني , وسالته ان لا يجعل باسهم بينهم فمنعني" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنِ ابْنِ عُمَيْرٍ عَبْدِ الْمَلِكِ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم صَلَاةً , فَأَحْسَنَ فِيهَا الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ وَالْقِيَامَ , فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ , فَقَالَ: " هَذِهِ صَلَاةُ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ , سَأَلْتُ رَبِّي فِيهَا ثَلَاثًا , فَأَعْطَانِي اثْنَيْنِ , وَلَمْ يُعْطِنِي وَاحِدَةً سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَقْتُلَ أُمَّتِي بِسَنَةِ جُوعٍ فَيَهْلَكُوا فَأَعْطَانِي , وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَعْطَانِي , وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَمَنَعَنِي" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ رات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی تو اس میں نہایت عمدگی کے ساتھ رکوع و سجود اور قیام کیا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو فرمایا ہاں! یہ ترغیب و ترہیب والی نماز تھی، میں نے اس نماز میں اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا تھا جن میں سے دو چیزیں اس نے مجھے دے دیں اور ایک سے انکار کردیا میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ میری امت کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک نہ کرے اس نے میری یہ درخواست قبول کرلی پھر میں نے اس سے یہ درخواست کی کہ وہ ان پر بیرونی دشمن کو مسلط نہ کرے چنانچہ میری یہ درخواست بھی اس نے قبول کرلی، پھر میں نے اپنے پروردگار سے درخواست کی کہ وہ ہمیں مختلف فرقوں میں تقسیم نہ کرے لیکن اس نے میری یہ درخواست قبول نہیں کی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، ابن أبى ليلى لم يسمع من معاذ، وشريك سيئ الحفظ، لكنه توبع
حدثنا حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم , حدثنا جهضم يعني اليمامي , حدثنا يحيى يعني ابن ابي كثير , حدثنا زيد يعني ابن ابي سلام , عن ابي سلام وهو زيد بن سلام بن ابي سلام نسبه إلى جده , انه حدثه عبد الرحمن بن عائش الحضرمي , عن مالك بن يخامر , ان معاذ بن جبل , قال: احتبس علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداة عن صلاة الصبح , حتى كدنا نتراءى قرن الشمس , فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم سريعا , فثوب بالصلاة , وصلى وتجوز في صلاته , فلما سلم , قال:" كما انتم على مصافكم كما انتم" , ثم اقبل إلينا , فقال:" إني ساحدثكم ما حبسني عنكم الغداة , إني قمت من الليل , فصليت ما قدر لي , فنعست في صلاتي حتى استيقظت , فإذا انا بربي عز وجل في احسن صورة , فقال: يا محمد , اتدري فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت: لا ادري يا رب , قال: يا محمد , فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت: لا ادري رب , فرايته وضع كفه بين كتفي حتى وجدت برد انامله بين صدري , فتجلى لي كل شيء وعرفت , فقال: يا محمد , فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت: في الكفارات , قال: وما الكفارات؟ قلت: نقل الاقدام إلى الجمعات , وجلوس في المساجد بعد الصلاة , وإسباغ الوضوء عند الكريهات , قال: وما الدرجات؟ قلت: إطعام الطعام , ولين الكلام , والصلاة والناس نيام , قال: سل , قلت: اللهم إني اسالك فعل الخيرات , وترك المنكرات , وحب المساكين , وان تغفر لي وترحمني , وإذا اردت فتنة في قوم فتوفني غير مفتون , واسالك حبك وحب من يحبك , وحب عمل يقربني إلى حبك" , وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنها حق فادرسوها وتعلموها" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ , حَدَّثَنَا جَهْضَمٌ يَعْنِي الْيَمَامِيَّ , حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ , حَدَّثَنَا زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَّامٍ , عَنْ أَبِي سَلَّامٍ وَهُوَ زَيْدُ بْنُ سَلَّامِ بْنِ أَبِي سَلَّامٍ نَسَبُهُ إِلَى جَدِّهِ , أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَائِشٍ الْحَضْرَمِيُّ , عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ , أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ , قَالَ: احْتَبَسَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ , حَتَّى كِدْنَا نَتَرَاءَى قَرْنَ الشَّمْسِ , فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيعًا , فَثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ , وَصَلَّى وَتَجَوَّزَ فِي صَلَاتِهِ , فَلَمَّا سَلَّمَ , قَالَ:" كَمَا أَنْتُمْ عَلَى مَصَافِّكُمْ كما أنتُم" , ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَيْنَا , فَقَالَ:" إِنِّي سَأُحَدِّثُكُمْ مَا حَبَسَنِي عَنْكُمْ الْغَدَاةَ , إِنِّي قُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ , فَصَلَّيْتُ مَا قُدِّرَ لِي , فَنَعَسْتُ فِي صَلَاتِي حَتَّى اسْتَيْقَظْتُ , فَإِذَا أَنَا بِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ , فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ , أَتَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي يَا رَبِّ , قَالَ: يَا مُحَمَّدُ , فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي رَبِّ , فَرَأَيْتُهُ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَيْنَ صَدْرِي , فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ وَعَرَفْتُ , فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ , فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: فِي الْكَفَّارَاتِ , قَالَ: وَمَا الْكَفَّارَاتُ؟ قُلْتُ: نَقْلُ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجُمُعَاتِ , وَجُلُوسٌ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَاةِ , وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عِنْدَ الْكَرِيهَاتِ , قَالَ: وَمَا الدَّرَجَاتُ؟ قُلْتُ: إِطْعَامُ الطَّعَامِ , وَلِينُ الْكَلَامِ , وَالصَّلَاةُ وَالنَّاسُ نِيَامٌ , قَالَ: سَلْ , قُلْتُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ , وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ , وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ , وَأَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي , وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةً فِي قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ , وَأَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ , وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ" , وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوهَا وَتَعَلَّمُوهَا" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت تشریف لانے میں اتنی تاخیر کردی کہ سورج طلوع ہونے کے قریب ہوگیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے باہر نکلے اور مختصر نماز پڑھائی سلام پھیر کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہو پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا میں تمہیں اپنے تاخیر سے آنے کی وجہ بتاتا ہوں آج رات میں تہجد کے لئے کھڑا ہوا اور جتنا اللہ کو منظور ہوا میں نے نماز پڑھی دوران نماز مجھے اونگھ آگئی میں ہوشیار ہوا تو اچانک میرے پاس میرا رب انتہائی حسین صورت میں آیا اور فرمایا اے محمد! ملا اعلیٰ کے فرشتے کس وجہ سے جھگڑ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا پروردگار! میں نہیں جانتا (دو تین مرتبہ یہ سوال جواب ہوا) پھر پروردگار نے اپنی ہتھیلیاں میرے کندھوں کے درمیان رکھ دیں جن کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے اور چھاتی میں محسوس کی حتٰی کہ میرے سامنے آسمان و زمین کی ساری چیزیں نمایاں ہوگئیں اور میں نے انہیں پہچان لیا،
اس کے بعد اللہ نے پھر پوچھا کہ اے محمد! ملا اعلیٰ کے فرشتے کس چیز کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کفارات کے بارے میں فرمایا کفارات سے کیا مراد ہے؟ میں نے عرض کیا جمعہ کے لئے اپنے پاؤں سے چل کر جانا، نماز کے بعد بھی مسجد میں بیٹھے رہنا، مشقت کے باوجود وضو مکمل کرنا، پھر پوچھا کہ " درجات " سے کیا مراد ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جو چیزیں بلند درجات کا سبب بنتی ہیں، وہ بہترین کلام، سلام کی اشاعت، کھانا کھلانا اور رات کو " جب لوگ سو رہے ہوں " نماز پڑھتے ہے پھر فرمایا اے محمد! سوال کرو میں نے عرض کیا اے اللہ! میں تجھ سے پاکیزہ چیزوں کا سوال کرتا ہوں، منکرات سے بچنے کا، مسکینوں سے محبت کرنے کا اور یہ کہ تو مجھے معاف فرما اور میری طرف خصوصی توجہ فرما اور جب لوگوں میں سے کسی قوم کی آزمائش کا ارادہ کرے تو مجھے فتنے میں مبتلا ہونے سے پہلے موت عطاء فرما دے اور میں تجھ سے تیری محبت، تجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت اور تیری محبت کے قریب کرنے والے اعمال کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ واقعہ برحق ہے، اسے سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ۔
حكم دارالسلام: ضعيف لاضطرابه ، ومداره على عبدالرحمن بن عائش
حدثنا زيد بن يحيى الدمشقي , حدثنا ابن ثوبان , عن ابيه , عن مكحول , عن كثير بن مرة , عن مالك بن يخامر السكسكي , قال: سمعت معاذا , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من جرح جرحا في سبيل الله , جاء يوم القيامة لونه لون الزعفران , وريحه ريح المسك , عليه طابع الشهداء , ومن سال الله الشهادة مخلصا , اعطاه الله اجر شهيد , وإن مات على فراشه , ومن قاتل في سبيل الله فواق ناقة , وجبت له الجنة" .حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ يَحْيَى الدِّمَشْقِيُّ , حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ مَكْحُولٍ , عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ , عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ السَّكْسَكِيِّ , قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاذًا , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ , جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَوْنُهُ لَوْنُ الزَّعْفَرَانِ , وَرِيحُهُ رِيحُ الْمِسْكِ , عَلَيْهِ طَابَعُ الشُّهَدَاءِ , وَمَنْ سَأَلَ اللَّهَ الشَّهَادَةَ مُخْلِصًا , أَعْطَاهُ اللَّهُ أَجْرَ شَهِيدٍ , وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ , وَمَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فُوَاقَ نَاقَةٍ , وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص کو اللہ کے راستہ میں کوئی زخم لگ جائے یا تکلیف پہنچ جائے تو وہ قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ رستا ہوا آئے گا لیکن اس دن اس کا رنگ زعفران جیسا اور مہک مشک جیسی ہوگی اور جس شخص کو اللہ کے راستہ میں کوئی زخم لگ جائے تو اس پر شہداء کی مہر لگ جاتی ہے۔ جو شخص اپنے متعلق اللہ سے صدق دل کے ساتھ شہادت کی دعاء کرے اور پھر طبعی موت پا کر دنیا سے رخصت ہو تو اسے شہید کا ثواب ملے گا اور جو مسلمان آدمی اللہ کے راستہ میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ اترنے کے وقفے برابر بھی قتال کرے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دو آدمیوں کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی اور ان میں سے ایک آدمی کو شدید غصہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں جو اگر یہ غصے میں مبتلا آدمی کہہ لے تو اس کا غصہ دور ہوجائے اور وہ کلمہ یہ ہے " اعوذباللہ من الشیطان الرجیم "
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، ابن أبى ليلى لم يسمع من معاذ، وقد اختلف فيه على عبدالملك
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي , وابو سعيد , قالا: حدثنا زائدة , عن عبد الملك بن عمير , وقال ابو سعيد: حدثنا عبد الملك بن عمير , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , عن معاذ بن جبل , قال: اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل , فقال: يا رسول الله , ما تقول في رجل لقي امراة لا يعرفها , فليس ياتي الرجل من امراته شيئا إلا قد اتاه منها , غير انه لم يجامعها؟ قال: فانزل الله عز وجل هذه الآية: اقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات سورة هود آية 114 الآية , قال: فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " توضا ثم صل" , قال معاذ: فقلت: يا رسول الله , اله خاصة ام للمؤمنين عامة , قال:" بل للمؤمنين عامة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , وَأَبُو سَعِيدٍ , قَالَا: حدثَنَا زَائِدَةُ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ , وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا تَقُولُ فِي رَجُلٍ لَقِيَ امْرَأَةً لَا يَعْرِفُهَا , فَلَيْسَ يَأْتِي الرَّجُلُ مِنَ امْرَأَتِهِ شَيْئًا إِلَّا قَدْ أَتَاهُ مِنْهَا , غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يُجَامِعْهَا؟ قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَذِهِ الْآيَةَ: أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ سورة هود آية 114 الْآيَةَ , قَالَ: فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَوَضَّأْ ثُمَّ صَلِّ" , قَالَ مُعَاذٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَلَهُ خَاصَّةً أَمْ لِلْمُؤْمِنِينَ عَامَّةً , قَالَ:" بَلْ لِلْمُؤْمِنِينَ عَامَّةً" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! اس آدمی کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں جو کسی اجنبی عورت سے ملے اور اس کے ساتھ وہ سب کچھ کرے جو ایک مرد اپنی بیوی سے کرتا ہے لیکن مجامعت نہ کرے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی " دن کے دونوں حصوں میں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کیا کرو بیشک نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا وضو کر کے نماز پڑھو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا یہ حکم اس کے ساتھ خاص ہے؟ یا تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، عبدالرحمن بن أبى ليلى لم يسمع معاذا
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے تو وہ اس کے لئے جہنم سے فدیہ بن جائے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع ، قتادة لم يسمع من قيس
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان باوضو ہو کر اللہ کا ذکر کرتے ہوئے رات کو سوتا ہے پھر رات کے کسی حصے میں بیدار ہو کر اللہ سے دنیا و آخرت کی جس خیر کا بھی سوال کرتا ہے اللہ اسے وہ ضرور عطاء فرماتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، وقد توبع
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کیا میں جنت کے ایک دروازے کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کروں؟ انہوں نے عرض کیا وہ کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " لاحول ولاقوۃ الا باللہ "
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو رزين لم يدرك معاذا
حدثنا محمد بن بكر , اخبرنا ابن جريج . ح وروح , حدثنا ابن جريج , قال: قال سليمان بن موسى , حدثنا مالك بن يخامر , ان معاذ بن جبل حدثه , وقال روح: حدثهم انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من جاهد في سبيل الله وقال روح: قاتل في سبيل الله , من رجل مسلم , فواق ناقة فقد وجبت له الجنة , ومن سال الله القتل من عند نفسه صادقا , ثم مات او قتل , فله اجر الشهداء , ومن جرح جرحا في سبيل الله , او نكب نكبة , فإنها تجيء يوم القيامة كاغزر ما كانت , وقال عبد الرزاق: كاغز , وروح: كاغزر , وحجاج: كاعز ما كانت , لونها كالزعفران , وريحها كالمسك , ومن جرح في سبيل الله فعليه طابع الشهداء" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ , أخبرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . ح وَرَوْحٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى , حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ يَخَامِرَ , أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ حَدَّثَهُ , وَقَالَ رَوْحٌ: حَدَّثَهُمْ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ جَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالَ رَوْحٌ: قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ , فُوَاقَ نَاقَةٍ فَقَدْ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ , وَمَنْ سَأَلَ اللَّهَ الْقَتْلَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِهِ صَادِقًا , ثُمَّ مَاتَ أَوْ قُتِلَ , فَلَهُ أَجْرُ الشُّهَدَاءِ , وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ , أَوْ نُكِبَ نَكْبَةً , فَإِنَّهَا تَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغْزَرِ مَا كَانَتْ , وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: كَأَغَزِّ , وَرَوْحٌ: كَأَغْزَرِ , وَحَجَّاجٌ: كَأَعَزِّ مَا كَانَتْ , لَوْنُهَا كَالزَّعْفَرَانِ , وَرِيحُهَا كَالْمِسْكِ , وَمَنْ جُرِحَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَعَلَيْهِ طَابَعُ الشُّهَدَاءِ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو مسلمان آدمی اللہ کے راستہ میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ اترنے کے وقفے برابر بھی قتال کرے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ جو شخص اپنے متعلق اللہ سے صدق دل کے ساتھ شہادت کی دعاء کرے اور پھر طبعی موت پا کر دنیا سے رخصت ہو تو اسے شہید کا ثواب ملے گا اور جس شخص کو اللہ کے راستہ میں کوئی زخم لگ جائے یا تکلیف پہنچ جائے تو وہ قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ رستا ہوا آئے گا لیکن اس دن اس کا رنگ زعفران جیسا اور مہک مشک جیسی ہوگی اور جس شخص کو اللہ کے راستہ میں کوئی زخم لگ جائے تو اس پر شہداء کی مہر لگ جاتی ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عرب کی کسی بستی میں بھیجا اور حکم دیا کہ زمین کا حصہ وصول کر کے لاؤں، سفیان کہتے ہیں کہ زمین کے حصے سے تہائی یا چوتھائی حصہ مراد ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، جابر الجعفي ضعيف، ورواية محمد بن زيد عن معاذ مرسلة
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھیجا تو فرمایا نازونعم کی زندگی سے بچنا کیونکہ اللہ کے بندے نازونعم کی زندگی نہیں گذارا کرتے۔
حدثنا المقري , حدثنا حيوة , قال: سمعت عقبة بن مسلم التجيبي , يقول: حدثني ابو عبد الرحمن الحبلي , عن الصنابحي , عن معاذ بن جبل , ان النبي صلى الله عليه وسلم اخذ بيده يوما , ثم قال:" يا معاذ , إني لاحبك" , فقال له معاذ: بابي انت وامي يا رسول الله , وانا احبك , قال: " اوصيك يا معاذ , لا تدعن في دبر كل صلاة ان تقول: اللهم اعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك" , قال: واوصى بذلك معاذ الصنابحي , واوصى الصنابحي ابا عبد الرحمن , واوصى ابو عبد الرحمن عقبة بن مسلم.حَدَّثَنَا الْمُقْرِيُّ , حَدَّثَنَا حَيْوَةُ , قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ مُسْلِمٍ التُّجِيبِيَّ , يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ , عَنِ الصُّنَابِحِيِّ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِهِ يَوْمًا , ثُمَّ قَالَ:" يَا مُعَاذُ , إِنِّي لَأُحِبُّكَ" , فَقَالَ لَهُ مُعَاذٌ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَأَنَا أُحِبُّكَ , قَالَ: " أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ , لَا تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ أَنْ تَقُولَ: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ" , قَالَ: وَأَوْصَى بِذَلِكَ مُعَاذٌ الصُّنَابِحِيَّ , وَأَوْصَى الصُّنَابِحِيُّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ , وَأَوْصَى أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عُقْبَةَ بْنَ مُسْلِمٍ.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اے معاذ! میں تم سے محبت کرتا ہوں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ جناب پر قربان ہوں، میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاذ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی فرض نماز کے بعد اس دعاء کو مت چھوڑنا " اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین عبادت پر میری مدد فرما " حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہی وصیت اپنے شاگردوں صنابحی سے کی انہوں نے اپنے شاگرد ابو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی اور انہوں نے یہی وصیت اپنے شاگرد عقبہ بن مسلم سے کی۔
حدثنا محمد بن بشر , حدثنا مسعر , عن عبد الملك بن ميسرة , عن مصعب بن سعد , عن معاذ , قال: إن كان عمر لمن اهل الجنة إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ما راى في يقظته , او نومه فهو حق , وإنه قال: " بينما انا في الجنة إذ رايت فيها دارا , فقلت: لمن هذه؟ فقيل: لعمر بن الخطاب رضي الله عنه" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ , عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: إِنْ كَانَ عُمَرُ لَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مَا رَأَى فِي يَقَظَتِهِ , أَوْ نَوْمِهِ فَهُوَ حَقٌّ , وَإِنَّهُ قَالَ: " بَيْنَمَا أَنَا فِي الْجَنَّةِ إِذْ رَأَيْتُ فِيهَا دَارًا , فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذِهِ؟ فَقِيلَ: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بخدا! حضرت عمر رضی اللہ عنہ جنت میں ہوں گے اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب اور بیداری سب برحق ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مرتبہ خواب میں میں جنت کے اندر تھا تو میں نے وہاں ایک محل دیکھا لوگوں سے پوچھا کہ یہ کس کا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، مصعب بن سعد لم يسمع من معاذ
حدثنا ابو النضر , حدثنا عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان , عن ابيه , عن مكحول , عن جبير بن نفير , عن مالك بن يخامر , عن معاذ , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عمران بيت المقدس خراب يثرب , وخراب يثرب خروج الملحمة , وخروج الملحمة فتح القسطنطينية , وفتح القسطنطينية خروج الدجال" , ثم ضرب بيده على فخذ الذي حدثه , او منكبه , ثم قال:" إن هذا لحق , كما انك هاهنا" , او" كما انك قاعد" يعني معاذا.حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ مَكْحُولٍ , عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ , عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ , وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ , وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ , وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ" , ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِ الَّذِي حَدَّثَهُ , أَوْ مَنْكِبِهِ , ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ هَذَا لَحَقٌّ , كَمَا أَنَّكَ هَاهُنَا" , أَوْ" كَمَا أَنَّكَ قَاعِدٌ" يَعْنِي مُعَاذًا.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیت المقدس کا آباد ہوجانا مدینہ منورہ کے بےآباد ہوجانے کی علامت ہے اور مدینہ منورہ کا بےآباد ہونا جنگوں کے آغاز کی علامت ہے اور جنگوں کا آغاز فتح قسطنطنیہ کی علامت ہے اور قسطنطنیہ کی فتح خروج دجال کا پیش خیمہ ہوگی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ران یا کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا یہ ساری چیزیں اسی طرح برحق اور یقینی ہیں جیسے تمہارا یہاں بیٹھا ہونا یقینی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالرحمن بن ثوبان، وهذا الحديث من جملة مناكيره
حدثنا ابو النضر , حدثنا عبد الحميد يعني ابن بهرام , حدثنا شهر , حدثنا ابن غنم , عن حديث معاذ بن جبل , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج بالناس قبل غزوة تبوك , فلما ان اصبح صلى بالناس صلاة الصبح , ثم إن الناس ركبوا , فلما ان طلعت الشمس نعس الناس على اثر الدلجة , ولزم معاذ رسول الله صلى الله عليه وسلم يتلو اثره , والناس تفرقت بهم ركابهم على جواد الطريق , تاكل وتسير , فبينما معاذ على اثر رسول الله صلى الله عليه وسلم وناقته تاكل مرة , وتسير اخرى , عثرت ناقة معاذ فكبحها بالزمام , فهبت حتى نفرت منها ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كشف عنه قناعه , فالتفت , فإذا ليس من الجيش رجل ادنى إليه من معاذ , فناداه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" يا معاذ" , قال: لبيك يا نبي الله , قال:" ادن دونك" , فدنا منه حتى لصقت راحلتاهما إحداهما بالاخرى , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما كنت احسب الناس منا كمكانهم من البعد" , فقال معاذ: يا نبي الله , نعس الناس فتفرقت بهم ركابهم ترتع وتسير , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وانا كنت ناعسا" , فلما راى معاذ بشرى رسول الله صلى الله عليه وسلم إليه وخلوته له , قال: يا رسول الله , ائذن لي اسالك عن كلمة قد امرضتني , واسقمتني , واحزنتني , فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم:" سلني عم شئت" , قال: يا نبي الله , حدثني بعمل يدخلني الجنة , لا اسالك عن شيء غيرها , قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " بخ بخ , لقد سالت بعظيم ثلاثا , وإنه ليسير على من اراد الله به الخير , وإنه ليسير على من اراد الله به الخير , وإنه ليسير على من اراد الله به الخير" , فلم يحدثه بشيء إلا قاله له ثلاث مرات , يعني: اعاده عليه ثلاث مرات , حرصا لكي ما يتقنه عنه , فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم:" تؤمن بالله , واليوم الآخر , وتقيم الصلاة , وتعبد الله وحده لا تشرك به شيئا حتى تموت , وانت على ذلك" , فقال: يا نبي الله , اعد لي , فاعادها له ثلاث مرات , ثم قال نبي الله صلى الله عليه وسلم:" إن شئت حدثتك يا معاذ براس هذا الامر , وقوام هذا الامر , وذروة السنام" , فقال معاذ: بلى بابي وامي انت يا نبي الله فحدثني , فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم:" إن راس هذا الامر ان تشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له , وان محمدا عبده ورسوله , وإن قوام هذا الامر إقام الصلاة , وإيتاء الزكاة , وإن ذروة السنام منه الجهاد في سبيل الله , إنما امرت ان اقاتل الناس حتى يقيموا الصلاة , ويؤتوا الزكاة , ويشهدوا ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له , وان محمدا عبده ورسوله , فإذا فعلوا ذلك فقد اعتصموا وعصموا دماءهم واموالهم إلا بحقها , وحسابهم على الله عز وجل" , وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي نفس محمد بيده , ما شحب وجه ولا اغبرت قدم في عمل تبتغى فيه درجات الجنة بعد الصلاة المفروضة , كجهاد في سبيل الله , ولا ثقل ميزان عبد كدابة تنفق له في سبيل الله , او يحمل عليها في سبيل الله" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ بَهْرَامَ , حَدَّثَنَا شَهْرٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ غَنْمٍ , عَنْ حَدِيثِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ بِالنَّاسِ قِبَلَ غَزْوَةِ تَبُوكَ , فَلَمَّا أَنْ أَصْبَحَ صَلَّى بِالنَّاسِ صَلَاةَ الصُّبْحِ , ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَكِبُوا , فَلَمَّا أَنْ طَلَعَتْ الشَّمْسُ نَعَسَ النَّاسُ عَلَى أَثَرِ الدُّلْجَةِ , وَلَزِمَ مُعَاذٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتْلُو أَثَرَهُ , وَالنَّاسُ تَفَرَّقَتْ بِهِمْ رِكَابُهُمْ عَلَى جَوَادِّ الطَّرِيقِ , تَأْكُلُ وَتَسِيرُ , فَبَيْنَمَا مُعَاذٌ عَلَى أَثَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَاقَتُهُ تَأْكُلُ مَرَّةً , وَتَسِيرُ أُخْرَى , عَثَرَتْ نَاقَةُ مُعَاذٍ فَكَبَحَهَا بِالزِّمَامِ , فَهَبَّتْ حَتَّى نَفَرَتْ مِنْهَا نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَشْفَ عَنْهُ قِنَاعَهُ , فَالْتَفَتَ , فَإِذَا لَيْسَ مِنَ الْجَيْشِ رَجُلٌ أَدْنَى إِلَيْهِ مِنْ مُعَاذٍ , فَنَادَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ" , قَالَ: لَبَّيْكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , قَالَ:" ادْنُ دُونَكَ" , فَدَنَا مِنْهُ حَتَّى لَصِقَتْ رَاحِلَتَاهُمَا إِحْدَاهُمَا بِالْأُخْرَى , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا كُنْتُ أَحْسِبُ النَّاسَ مِنَّا كَمَكَانِهِمْ مِنَ الْبُعْدِ" , فَقَالَ مُعَاذٌ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , نَعَسَ النَّاسُ فَتَفَرَّقَتْ بِهِمْ رِكَابُهُمْ تَرْتَعُ وَتَسِيرُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَأَنَا كُنْتُ نَاعِسًا" , فَلَمَّا رَأَى مُعَاذٌ بُشْرَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ وَخَلْوَتَهُ لَهُ , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ائْذَنْ لِي أَسْأَلْكَ عَنْ كَلِمَةٍ قَدْ أَمْرَضَتْنِي , وَأَسْقَمَتْنِي , وَأَحْزَنَتْنِي , فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَلْنِي عَمَّ شِئْتَ" , قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , حَدِّثْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ , لَا أَسْأَلُكَ عَنْ شَيْءٍ غَيْرِهَا , قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَخٍ بَخٍ , لَقَدْ سَأَلْتَ بِعَظِيمٍ ثَلَاثًا , وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ أَرَادَ اللَّهُ بِهِ الْخَيْرَ , وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ أَرَادَ اللَّهُ بِهِ الْخَيْرَ , وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ أَرَادَ اللَّهُ بِهِ الْخَيْرَ" , فَلَمْ يُحَدِّثْهُ بِشَيْءٍ إِلَّا قَالَهُ لَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , يَعْنِي: أَعَادَهُ عَلَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , حِرْصًا لِكَيْ مَا يُتْقِنَهُ عَنْهُ , فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تُؤْمِنُ بِاللَّهِ , وَالْيَوْمِ الْآخِرِ , وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ , وَتَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا حَتَّى تَمُوتَ , وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ" , فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , أَعِدْ لِي , فَأَعَادَهَا لَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , ثُمَّ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُكَ يَا مُعَاذُ بِرَأْسِ هَذَا الْأَمْرِ , وَقَوَامِ هَذَا الْأَمْرِ , وَذُرْوَةِ السَّنَامِ" , فَقَالَ مُعَاذٌ: بَلَى بِأَبِي وَأُمِّي أَنْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَحَدِّثْنِي , فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ رَأْسَ هَذَا الْأَمْرِ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ , وَإِنَّ قَوَامَ هَذَا الْأَمْرِ إِقَامُ الصَّلَاةِ , وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ , وَإِنَّ ذُرْوَةَ السَّنَامِ مِنْهُ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يُقِيمُوا الصَّلَاةَ , وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ , وَيَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ , فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ فَقَدْ اعْتَصَمُوا وَعَصَمُوا دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا , وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" , وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ , مَا شَحَبَ وَجْهٌ وَلَا اغْبَرَّتْ قَدَمٌ فِي عَمَلٍ تُبْتَغَى فِيهِ دَرَجَاتُ الْجَنَّةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْمَفْرُوضَةِ , كَجِهَادٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَلَا ثَقُلَ مِيزَانُ عَبْدٍ كَدَابَّةٍ تَنْفُقُ لَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , أَوْ يَحْمِلُ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ" .
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو لے کر غزوہ تبوک کے لئے روانہ ہوئے صبح ہوئی تو لوگوں کو نماز فجر پڑھائی اور لوگ اپنی سواریوں پر سوار ہونے لگے جب سورج نکل آیا تو لوگ رات بھر چلنے کی وجہ سے اونگھنے لگے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلتے ہوئے ان کے ساتھ چمٹے رہے جبکہ لوگ اپنی اپنی سواریوں کو چھوڑ چکے تھے جس کی وجہ سے وہ راستوں میں منتشر ہوگئی تھی اور ادھر ادھر چرتی جا رہی تھی اچانک وہ بدک گئی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اسے لگام سے پکڑ کر کھینچا تو وہ تیزی سے بھاگ پڑی جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بھی بدک گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر ہٹائی اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو لشکر میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہ تھا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کو آواز دے کر پکارا معاذ! انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور قریب ہوجاؤ، چنانچہ وہ مزید قریب ہوگئے یہاں تک کہ دونوں کی سواریاں ایک دوسرے سے مل گئیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا خیال نہیں تھا کہ لوگ ہم سے اتنے دور ہوں گے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! لوگ اونگھ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی سواریاں انہیں لے کر منتشر ہوگئی ہیں اور ادھر ادھر چرتے ہوئے چل رہی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اونگھ تو مجھے بھی آگئی تھی جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر بشاشت اور خلوت کا یہ موقع دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ! اگر اجازت ہو تو میں ایک سوال پوچھ لوں جس نے مجھے بیمار اور غمزدہ کردیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو چاہو پوچھ سکتے ہو، عرض کیا اے اللہ کے نبی! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرا دے؟ اس کے علاوہ میں آپ سے کچھ نہیں پوچھوں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت خوب (تین مرتبہ) تم نے بہت بڑی بات پوچھی (تین مرتبہ) البتہ جس کے ساتھ اللہ خیر کا ارادہ فرمالے اس کے لئے بہت آسان ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جو بات بھی فرمائی اسے تین مرتبہ دہرایا ان کی حرص کی وجہ سے اور اس بناء پر کہ انہیں وہ پختہ ہوجائے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ پر ایمان لاؤ، آخرت کے دن پر ایمان لاؤ نماز قائم کرو، ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ حتیٰ کہ اسی حال پر تم دنیا سے رخصت ہوجاؤ، معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! اس بات کو دوبارہ دہرا دیجئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اس بات کو دہرایا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ! اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں اس مذہب کی بنیاد، اسے قائم رکھنے والی چیز اور اس کے کوہانوں کی بلندی کے متعلق بتادوں؟ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! کیوں نہیں، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، ضرور بتائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس مذہب کی بنیاد یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور اس دین کو قائم رکھنے والی چیز نماز ادا کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور اس کے کوہان کی بلندی جہاد فی سبیل اللہ ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے قتال کرتا رہوں تاوقتیکہ وہ نماز قائم کرلیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں اور توحید و رسالت کی گواہی دیں جب وہ ایسا کرلیں تو انہوں نے اپنی جان مال کو مجھ سے محفوظ کرلیا اور بچا لیا سوائے اس کے کہ اس کلمے کا کوئی حق ہو اور ان کا حساب کتاب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہوگا۔
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کسی ایسے عمل میں " سوائے فرض نماز کے " جس سے جنت کے درجات کی خواہش کی جاتی ہو، کسی انسان کا چہرہ نہیں کمزور ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے قدم غبارآلود ہوتے ہیں جیسے جہاد فی سبیل اللہ میں ہوتے ہیں اور کسی انسان کا نامہ اعمال اس طرح بھاری نہیں ہوتا جیسے اس جانور سے ہوتا ہے جسے اللہ کے راستے میں استعمال کیا جائے یا کسی کو اس پر اللہ کے راستہ میں سوار کردیا جائے۔
حكم دارالسلام: الحديث من سؤال معاذ إلى آخره صحيح بطرقه وشواهده دون قوله:ما شحب وجهه . . .. فإنه حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب
حدثنا ابو النضر , حدثنا المسعودي . ويزيد بن هارون , اخبرنا المسعودي , قال ابو النضر في حديثه: حدثني عمرو بن مرة , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , عن معاذ بن جبل , قال: احيلت الصلاة ثلاثة احوال , واحيل الصيام ثلاثة احوال , فاما احوال الصلاة , فإن النبي صلى الله عليه وسلم قدم المدينة وهو يصلي سبعة عشر شهرا إلى بيت المقدس , ثم إن الله انزل عليه: قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره سورة البقرة آية 144 , قال: فوجهه الله إلى مكة , قال: فهذا حول , قال: وكانوا يجتمعون للصلاة , ويؤذن بها بعضهم بعضا , حتى نقسوا , او كادوا ينقسون , قال: ثم إن رجلا من الانصار يقال له: عبد الله بن زيد , اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: يا رسول الله , إني رايت فيما يرى النائم , ولو قلت إني لم اكن نائما لصدقت , إني بينا انا بين النائم واليقظان إذ رايت شخصا عليه ثوبان اخضران , فاستقبل القبلة , فقال: الله اكبر الله اكبر , اشهد ان لا إله إلا الله , اشهد ان لا إله إلا الله , مثنى مثنى , حتى فرغ من الاذان , ثم امهل ساعة , قال: ثم قال مثل الذي قال , غير انه يزيد في ذلك , قد قامت الصلاة , قد قامت الصلاة , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " علمها بلالا فليؤذن بها" , فكان بلال اول من اذن بها , قال: وجاء عمر بن الخطاب , فقال: يا رسول الله , إنه قد طاف بي مثل الذي اطاف به , غير انه سبقني , فهذان حولان , قال: وكانوا ياتون الصلاة وقد سبقهم ببعضها النبي صلى الله عليه وسلم , قال: فكان الرجل يشير إلى الرجل إن جاء كم صلى , فيقول: واحدة , او اثنتين , فيصليها , ثم يدخل مع القوم في صلاتهم , قال: فجاء معاذ , فقال: لا اجده على حال ابدا إلا كنت عليها , ثم قضيت ما سبقني , قال: فجاء وقد سبقه النبي صلى الله عليه وسلم ببعضها , قال: فثبت معه , فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاته , قام فقضى , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنه قد سن لكم معاذ , فهكذا فاصنعوا" , فهذه ثلاثة احوال , واما احوال الصيام: فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم المدينة , فجعل يصوم من كل شهر ثلاثة ايام , وقال يزيد: فصام سبعة عشر شهرا من ربيع الاول إلى رمضان , من كل شهر ثلاثة ايام , وصام يوم عاشوراء , ثم إن الله عز وجل فرض عليه الصيام , فانزل الله عز وجل: يايها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم إلى هذه الآية وعلى الذين يطيقونه فدية طعام مسكين سورة البقرة آية 183 - 184 , قال: فكان من شاء صام , ومن شاء اطعم مسكينا فاجزا ذلك عنه , قال: ثم إن الله عز وجل انزل الآية الاخرى: شهر رمضان الذي انزل فيه القرآن إلى قوله فمن شهد منكم الشهر فليصمه سورة البقرة آية 185 , قال: فاثبت الله صيامه على المقيم الصحيح , ورخص فيه للمريض والمسافر , وثبت الإطعام للكبير , الذي لا يستطيع الصيام , فهذان حولان , قال: وكانوا ياكلون , ويشربون , وياتون النساء ما لم يناموا , فإذا ناموا امتنعوا , قال: ثم إن رجلا من الانصار يقال له: صرمة , ظل يعمل صائما حتى امسى , فجاء إلى اهله فصلى العشاء ثم نام , فلم ياكل , ولم يشرب حتى اصبح فاصبح صائما , قال: فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد جهد جهدا شديدا , قال:" ما لي اراك قد جهدت جهدا شديدا" , قال: يا رسول الله , إني عملت امس فجئت حين جئت , فالقيت نفسي فنمت , واصبحت حين اصبحت صائما , قال: وكان عمر قد اصاب من النساء من جارية , او من حرة بعد ما نام , واتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له , فانزل الله عز وجل: احل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم إلى قوله ثم اتموا الصيام إلى الليل سورة البقرة آية 187 , وقال يزيد: فصام تسعة عشر شهرا من ربيع الاول إلى رمضان.حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ . وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ , قَالَ أَبُو النَّضْرِ فِي حَدِيثِهِ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: أُحِيلَتْ الصَّلَاةُ ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ , وَأُحِيلَ الصِّيَامُ ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ , فَأَمَّا أَحْوَالُ الصَّلَاةِ , فَإِنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَهُوَ يُصَلِّي سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ , ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ عَلَيْهِ: قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ سورة البقرة آية 144 , قَالَ: فَوَجَّهَهُ اللَّهُ إِلَى مَكَّةَ , قَالَ: فَهَذَا حَوْلٌ , قَالَ: وَكَانُوا يَجْتَمِعُونَ لِلصَّلَاةِ , وَيُؤْذِنُ بِهَا بَعْضُهُمْ بَعْضًا , حَتَّى نَقَسُوا , أَوْ كَادُوا يَنْقُسُونَ , قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ , أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي رَأَيْتُ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ , وَلَوْ قُلْتُ إِنِّي لَمْ أَكُنْ نَائِمًا لَصَدَقْتُ , إِنِّي بَيْنَا أَنَا بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ إِذْ رَأَيْتُ شَخْصًا عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ , فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ , فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ , أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , مَثْنَى مَثْنَى , حَتَّى فَرَغَ مِنَ الْأَذَانِ , ثُمَّ أَمْهَلَ سَاعَةً , قَالَ: ثُمَّ قَالَ مِثْلَ الَّذِي قَالَ , غَيْرَ أَنَّهُ يَزِيدُ فِي ذَلِكَ , قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ , قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلِّمْهَا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ بِهَا" , فَكَانَ بِلَالٌ أَوَّلَ مَنْ أَذَّنَ بِهَا , قَالَ: وَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّهُ قَدْ طَافَ بِي مِثْلُ الَّذِي أَطَافَ بِهِ , غَيْرَ أَنَّهُ سَبَقَنِي , فَهَذَانِ حَوْلَانِ , قَالَ: وَكَانُوا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ وَقَدْ سَبَقَهُمْ بِبَعْضِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَكَانَ الرَّجُلُ يُشِيرُ إِلَى الرَّجُلِ إِنْ جَاءَ كَمْ صَلَّى , فَيَقُولُ: وَاحِدَةً , أَوْ اثْنَتَيْنِ , فَيُصَلِّيهَا , ثُمَّ يَدْخُلُ مَعَ الْقَوْمِ فِي صَلَاتِهِمْ , قَالَ: فَجَاءَ مُعَاذٌ , فَقَالَ: لَا أَجِدُهُ عَلَى حَالٍ أَبَدًا إِلَّا كُنْتُ عَلَيْهَا , ثُمَّ قَضَيْتُ مَا سَبَقَنِي , قَالَ: فَجَاءَ وَقَدْ سَبَقَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِهَا , قَالَ: فَثَبَتَ مَعَهُ , فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ , قَامَ فَقَضَى , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ قَدْ سَنَّ لَكُمْ مُعَاذٌ , فَهَكَذَا فَاصْنَعُوا" , فَهَذِهِ ثَلَاثَةُ أَحْوَالٍ , وَأَمَّا أَحْوَالُ الصِّيَامِ: فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ , فَجَعَلَ يَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ , وَقَالَ يَزِيدُ: فَصَامَ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا مِنْ رَبِيعِ الْأَوَّلِ إِلَى رَمَضَانَ , مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ , وَصَامَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ , ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ عَلَيْهِ الصِّيَامَ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلَى هَذِهِ الْآيَةِ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ سورة البقرة آية 183 - 184 , قَالَ: فَكَانَ مَنْ شَاءَ صَامَ , وَمَنْ شَاءَ أَطْعَمَ مِسْكِينًا فَأَجْزَأَ ذَلِكَ عَنْهُ , قَالَ: ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْزَلَ الْآيَةَ الْأُخْرَى: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ إِلَى قَوْلِهِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ سورة البقرة آية 185 , قَالَ: فَأَثْبَتَ اللَّهُ صِيَامَهُ عَلَى الْمُقِيمِ الصَّحِيحِ , وَرَخَّصَ فِيهِ لِلْمَرِيضِ وَالْمُسَافِرِ , وَثَبَّتَ الْإِطْعَامَ لِلْكَبِيرِ , الَّذِي لَا يَسْتَطِيعُ الصِّيَامَ , فَهَذَانِ حَوْلَانِ , قَالَ: وَكَانُوا يَأْكُلُونَ , وَيَشْرَبُونَ , وَيَأْتُونَ النِّسَاءَ مَا لَمْ يَنَامُوا , فَإِذَا نَامُوا امْتَنَعُوا , قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ: صِرْمَةُ , ظَلَّ يَعْمَلُ صَائِمًا حَتَّى أَمْسَى , فَجَاءَ إِلَى أَهْلِهِ فَصَلَّى الْعِشَاءَ ثُمَّ نَامَ , فَلَمْ يَأْكُلْ , وَلَمْ يَشْرَبْ حَتَّى أَصْبَحَ فَأَصْبَحَ صَائِمًا , قَالَ: فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ جَهَدَ جَهْدًا شَدِيدًا , قَالَ:" مَا لِي أَرَاكَ قَدْ جَهَدْتَ جَهْدًا شَدِيدًا" , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي عَمِلْتُ أَمْسِ فَجِئْتُ حِينَ جِئْتُ , فَأَلْقَيْتُ نَفْسِي فَنِمْتُ , وَأَصْبَحْتُ حِينَ أَصْبَحْتُ صَائِمًا , قَالَ: وَكَانَ عُمَرُ قَدْ أَصَابَ مِنَ النِّسَاءِ مِنْ جَارِيَةٍ , أَوْ مِنْ حُرَّةٍ بَعْدَ مَا نَامَ , وَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ إِلَى قَوْلِهِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ سورة البقرة آية 187 , وَقَالَ يَزِيدُ: فَصَامَ تِسْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا مِنْ رَبِيعِ الْأَوَّلِ إِلَى رَمَضَانَ.
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نماز تین مراحل سے گذری ہے اور روزے بھی تین مراحل سے گذرے ہیں، نماز کے احوال تو یہ ہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد سترہ ماہ تک بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے رہے حتیٰ کہ تحویل قبلہ کا حکم اللہ تعالیٰ نے نازل فرما دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ مکہ مکرمہ کی طرف کردیا، ایک مرحلہ تو یہ ہوا لوگ نماز کے لئے جمع ہوتے تھے اور دوسروں کو اطلاع دیتے تھے اور اس کے لئے وہ لوگ ناقوس بجانے لگے یا ناقوس بجانے کے قریب ہوگئے پھر ایک انصاری صحابی آئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے ایک شخص کو خواب میں دیکھا "" جبکہ میں نیند اور بیداری کے درمیان تھا "" اور جو سبز لباس زیب تن کئے ہوئے تھا اس نے قبلہ رخ کھڑے ہو کر اذان دی، اس کے بعد کچھ وقت بیٹھ کر پھر وہ کھڑا ہوگیا اور اذان کے جو کلمات کہے تھے وہی کلمات کہے البتہ اس میں قد قامت الصلوٰۃ کا اضافہ کیا اور اگر لوگ میری تکذیب نہ کریں تو اچھی طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ میں اس وقت جاگ رہا تھا سویا ہوا نہیں تھا یہ سن کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم (حضرت) بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کے لئے یہ کلمات سکھادو چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ یہ اذان دینے والے پہلے آدمی تھے اتنے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے بھی بالکل یہی خواب دیکھا ہے لیکن انصاری آدمی اپنا خواب مجھ سے پہلے بیان کرچکے تھے یہ دو مرحلے ہوئے راوی کہتے ہیں کہ پہلے جب کوئی مسجد میں اور جماعت ہوتے ہوئے دیکھتا تو وہ یہ معلوم کرتا کہ اب تک کتنی رکعات ہوچکی ہیں اسے اشارے سے بتادیا جاتا، وہ پہلے ان رکعتوں کو پڑھتا، پھر وہ بقیہ نماز میں شرکت کرتا، ایک دن حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس حالت میں دیکھوں گا اسی حالت اور کیفیت کو بہر صورت اختیار کروں گا بعد میں اپنی چھوٹی ہوئی نماز مکمل کرلوں گا، کیونکہ جس وقت وہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نماز پڑھا چکے تھے چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کرلی تو انہوں نے بھی کھڑے ہو کر اپنی نماز مکمل کرلی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں کے لئے معاذ رضی اللہ عنہ نے ایک طریقہ مقرر کردیا ہے اس لئے تم ایساہی کیا کرو یہ تین مرحلے ہوگئے۔ روزوں کے مراحل یہ ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو اس وقت ہر مہینے تین روزے اور یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا اس کے بعد رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے یہ آیت کریمہ نازل ہوگئی اے اہل ایمان! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔ سو جو چاہتا وہ روزے رکھ لیتا اور جو چاہتا مسکینوں کو کھانا کھلا دیتا اور یہ بھی کافی ہوجاتا، پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت نازل فرما دی کہ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ تم میں سے جس کو ماہ رمضان المبارک نصیب ہو وہ بہرحال روزہ رکھے اس کے بعد سوائے مریض اور مسافر کے رخصت ختم ہوگئی اور دوسرے کے لئے روزہ رکھنے کا حکم ہوا البتہ وہ عمر رسیدہ آدمی جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا اس کے حق میں کھانا کھلانے کی اجازت باقی رہی یہ دو مرحلے ہوئے، ابتداء اسلام میں سونے سے پہلے تک کھانے پینے اور عورتوں کے پاس جانے کی اجازت ہوتی تھی اور سونے کے بعد، دوسرے دن کے روزے کے روزے کھولنے کے وقت تک کھانا پیناجائز نہ ہوتا چنانچہ ایک روز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اہلیہ سے ہمبستری کا ارادہ کیا تو آپ کی اہلیہ مطہرہ نے فرمایا کہ مجھے نیند آگئی تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ گمان ہوا کہ اہلیہ ہمبستری سے بچنے کے لئے کوئی بہانہ بنا رہی ہے بہرحال حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہلیہ سے صحبت کرلی اسی طرح ایک انصاری صحابی نے ایک مرتبہ افطار کے بعد کھانے پینے کا ارادہ کرلیا لوگوں نے کہا کہ ٹھہر جاؤ ذرا ہم تمہارے لئے کھانا گرم کردیں وہ انصاری صحابی سوگئے جب صبح ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ احل لکم لیلۃ الصیام الرفث (الایۃ البقرہ، ١٨٧) نازل فرما دی یعنی روزہ کی رات میں بیویوں سے جماع کرنا جائز ہے "" اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول سے رمضان تک ١٩ ماہ میں ہر ماہ تین روزے رکھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، المسعودي مختلط ، وابن أبى ليلى لم يسمع من معاذ، وقد اختلف فيه على بن أبى ليلى، ولبعضه شواهد صحيحة
حدثنا حسين بن علي , عن زائدة , عن عبد الملك بن عمير , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , عن معاذ قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة , فاحسن فيها القيام , والخشوع , والركوع , والسجود , قال: " إنها صلاة رغب ورهب , سالت الله فيها ثلاثا , فاعطاني اثنتين , وزوى عني واحدة , سالته ان لا يبعث على امتي عدوا من غيرهم فيجتاحهم , فاعطانيه , وسالته ان لا يبعث عليهم سنة تقتلهم جوعا , فاعطانيه , وسالته ان لا يجعل باسهم بينهم , فردها علي" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ , عَنْ زَائِدَةَ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ مُعَاذٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم صَلَاةً , فَأَحْسَنَ فِيهَا الْقِيَامَ , وَالْخُشُوعَ , وَالرُّكُوعَ , وَالسُّجُودَ , قَالَ: " إِنَّهَا صَلَاةُ رَغَبٍ وَرَهَبٍ , سَأَلْتُ اللَّهَ فِيهَا ثَلَاثًا , فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ , وَزَوَى عَنِّي وَاحِدَةً , سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَبْعَثَ عَلَى أُمَّتِي عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَيَجْتَاحَهُمْ , فَأَعْطَانِيهِ , وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَبْعَثَ عَلَيْهِمْ سَنَةً تَقْتُلُهُمْ جُوعًا , فَأَعْطَانِيهِ , وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ , فَرَدَّهَا عَلَيَّ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ رات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی تو اس میں نہایت عمدگی کے ساتھ رکوع و سجود اور قیام کیا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو فرمایا ہاں! یہ ترغیب وترہیب والی نماز تھی، میں نے اس نماز میں اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا تھا جن میں سے دو چیزیں اس نے مجھے دے دیں اور ایک سے انکار کردیا میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ میری امت کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک نہ کرے اس نے میری یہ درخواست قبول کرلی پھر میں نے اس سے یہ درخواست کی کہ وہ ان پر بیرونی دشمن کو مسلط نہ کرے چنانچہ میری یہ درخواست بھی اس نے قبول کرلی، پھر میں نے اپنے پروردگار سے درخواست کی کہ وہ ہمیں مختلف فرقوں میں تقسیم نہ کرے لیکن اس نے میری یہ درخواست قبول نہیں کی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، ابن أبى ليلى لم يسمع من معاذ
حدثنا ابو عاصم , حدثنا حيوة , حدثني عقبة بن مسلم , حدثنا ابو عبد الرحمن الحبلي , عن الصنابحي , عن معاذ , قال: لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" يا معاذ , إني لاحبك" , فقلت: يا رسول الله , وانا والله احبك , قال: " فإني اوصيك بكلمات تقولهن في كل صلاة: اللهم اعني على ذكرك , وشكرك , وحسن عبادتك" .حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ , حَدَّثَنَا حَيْوَةُ , حَدَّثَنِي عُقْبَةُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ , عَنِ الصُّنَابِحِيِّ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ , إِنِّي لَأُحِبُّكَ" , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَأَنَا وَاللَّهِ أُحِبُّكَ , قَالَ: " فَإِنِّي أُوصِيكَ بِكَلِمَاتٍ تَقُولُهُنَّ فِي كُلِّ صَلَاةٍ: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ , وَشُكْرِكَ , وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے فرمایا اے معاذ! میں تم سے محبت کرتا ہوں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاذ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی فرض نماز کے بعد اس دعاء کو مت چھوڑنا " اے اللہ! اپنے ذکر شکر اور بہترین عبادت پر میری مدد فرما "۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا سے رخصتی کے وقت جس شخص کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا اس لالچ سے اللہ کی پناہ مانگا کرو جو دلوں پر مہر لگنے کی کیفیت تک پہنچا دے، اس لالچ سے بھی پناہ مانگا کرو جو کسی بےمقصد چیز تک پہنچا دے اور ایسی لالچ سے بھی اللہ کی پناہ مانگا کرو جہاں کوئی لالچ نہ ہو۔
حدثنا عبد الله , حدثني ابي , حدثنا حسين بن محمد , حدثنا شريك , عن عاصم , عن ابي وائل , عن معاذ , انه قال: بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن " ان آخذ من كل ثلاثين من البقر بقرة تبيعا او تبيعة , او قال: جذعا او جذعة , ومن كل اربعين بقرة بقرة مسنة , ومن كل حالم دينارا , او عدله معافر" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ , حَدَّثَنِي أَبِي , حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ عَاصِمٍ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , عَنْ مُعَاذٍ , أَنَّهُ قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ " أَنْ آخُذَ مِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ بَقَرَةً تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً , أَوْ قَالَ: جَذَعًا أَوْ جَذَعَةً , وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ بَقَرَةً بَقَرَةً مُسِنَّةً , وَمِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا , أَوْ عَدْلَهُ مَعَافِرَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھیجا تو انہیں حکم دیا کہ ہر تیس گائے میں زکوٰۃ کے طور پر ایک سالہ گائے لینا اور ہر چالیس پر دو سالہ ایک گائے لینا اور ہر بالغ ایک دینار یا اس کے برابر یمنی کپڑا جس کا نام " معافر " ہے وصول کرنا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لسوء حفظ شريك، لكنه توبع
حدثنا عبد الله , حدثني ابي , حدثنا يحيى بن غيلان , حدثنا رشدين , عن زبان , عن سهل , عن ابيه , عن معاذ , انه سال النبي صلى الله عليه وسلم عن افضل الإيمان , قال: " ان تحب لله وتبغض لله , وتعمل لسانك في ذكر الله" , قال: وماذا يا رسول الله؟ قال:" وان تحب للناس ما تحب لنفسك , وتكره لهم ما تكره لنفسك" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ , حَدَّثَنِي أَبِي , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا رِشْدِينُ , عَنْ زَبَّانَ , عَنْ سَهْلٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ مُعَاذٍ , أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَفْضَلِ الْإِيمَانِ , قَالَ: " أَنْ تُحِبَّ لِلَّهَ وَتُبْغِضَ لِلَّهِ , وَتُعْمِلَ لِسَانَكَ فِي ذِكْرِ اللَّهِ" , قَالَ: وَمَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" وَأَنْ تُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ , وَتَكْرَهَ لَهُمْ مَا تَكْرَهُ لِنَفْسِكَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے افضل ایمان کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے لئے محبت اور نفرت کرو اور اپنی زبان کو ذکر الہٰی میں مصروف رکھو، انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اس کے علاوہ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کے لئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور ان کے بھی اسی چیز کو ناپسند کرو جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف رشدين وزبان، وقد وقع فى هذا الإسناد خطأ، والصواب: أن هذا الحديث من مسند معاذ بن أنس الجهني، وليس من مسند معاذ بن جبل
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد ربانی منقول ہے میری محبت ان لوگوں کے لئے طے شدہ ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى معشر، وفي سماع أبى إدريس من معاذ خلاف
حدثنا عبد الله , حدثني ابي , حدثنا حسن , حدثنا ابن لهيعة , حدثنا زبان بن فائد , عن سهل بن معاذ , عن ابيه عن معاذ , انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن افضل الإيمان , قال: " افضل الإيمان ان تحب لله وتبغض في الله , وتعمل لسانك في ذكر الله" , قال: وماذا يا رسول الله؟ قال:" وان تحب للناس ما تحب لنفسك , وتكره لهم ما تكره لنفسك , وان تقول خيرا , او تصمت" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ , حَدَّثَنِي أَبِي , حَدَّثَنَا حَسَنٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , حَدَّثَنَا زَبَّانُ بْنُ فَائِدٍ , عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ , عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُعَاذٍ , أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَفْضَلِ الْإِيمَانِ , قَالَ: " أَفْضَلُ الْإِيمَانِ أَنْ تُحِبَّ لِلَّهِ وَتُبْغِضَ فِي اللَّهِ , وَتُعْمِلَ لِسَانَكَ فِي ذِكْرِ اللَّهِ" , قَالَ: وَمَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" وَأَنْ تُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ , وَتَكْرَهَ لَهُمْ مَا تَكْرَهُ لِنَفْسِكَ , وَأَنْ تَقُولَ خَيْرًا , أَوْ تَصْمُتَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے افضل ایمان کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے لئے محبت اور نفرت کرو اور اپنی زبان کو ذکر الہٰی میں مصروف رکھو، انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اس کے علاوہ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کے لئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور ان کے بھی اسی چیز کو ناپسند کرو جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہو اور اچھی بات کہو یا خاموش رہو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لسوء حفظ ابن لهيعة وضعف زبان بن فائد، وهذا الحديث من مسند معاذ بن أنس الجهني، وليس من مسند معاذ بن جبل
حدثنا عبد الله , حدثني ابي , حدثنا سريج , حدثنا حماد يعني ابن سلمة , عن عاصم بن بهدلة , عن شهر بن حوشب , عن معاذ , ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سانبئك بابواب من الخير: الصوم جنة , والصدقة تطفئ الخطيئة كما يطفئ الماء النار , وقيام العبد من الليل" , ثم قرا: تتجافى جنوبهم عن المضاجع سورة السجدة آية 16 إلى آخر الآية .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ , حَدَّثَنِي أَبِي , حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ مُعَاذٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " سَأُنَبِّئُكَ بِأَبْوَابٍ مِنَ الْخَيْرِ: الصَّوْمُ جُنَّةٌ , وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ , وَقِيَامُ الْعَبْدِ مِنَ اللَّيْلِ" , ثُمَّ قَرَأَ: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ سورة السجدة آية 16 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں خیر کے دروازے بتاتا ہوں؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو اسی طرح بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور آدھی رات کو انسان کا نماز پڑھنا باب خیر میں سے ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت سجدہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی " تتجافی جنوبہم عن المضاجع۔۔۔۔۔ یعلمون ''
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب، ولم يدرك معاذا
حدثنا عبد الله , حدثني ابي , حدثنا سريج , حدثنا الحكم بن عبد الملك , عن عمار بن ياسر , عن عبد الرحمن بن ابي ليلى , عن معاذ , قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره إذ سمع مناديا يقول: الله اكبر الله اكبر , فقال: " على الفطرة" , فقال: اشهد ان لا إله إلا الله , فقال:" شهد بشهادة الحق" , قال: اشهد ان محمدا رسول الله , قال:" خرج من النار , انظروا فستجدونه إما راعيا معزبا , وإما مكلبا" , فنظروه فوجدوه راعيا حضرته الصلاة , فنادى بها .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ , حَدَّثَنِي أَبِي , حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ , حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ , عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ إِذْ سَمِعَ مُنَادِيًا يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ , فَقَالَ: " عَلَى الْفِطْرَةِ" , فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , فَقَالَ:" شَهِدَ بِشَهَادَةِ الْحَقِّ" , قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ , قَالَ:" خَرَجَ مِنَ النَّارِ , انْظُرُوا فَسَتَجِدُونَهُ إِمَّا رَاعِيًا مُعْزِبًا , وَإِمَّا مُكَلِّبًا" , فَنَظَرُوهُ فَوَجَدُوهُ رَاعِيًا حَضَرَتْهُ الصَّلَاةُ , فَنَادَى بِهَا .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک سفر کے دوران ایک منادی کو یہ کہتے ہوئے سنا اللہ اکبر اللہ اکبر " تو فرمایا یہ فطرت صحیحہ پر ہے پھر اس نے اشہدان لا الہ الا اللہ " کہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حق کی گواہی دی اس نے اشہد ان محمد الرسول اللہ کہا تو فرمایا جہنم سے نکل گیا جا کر دیکھو یا تو تم اسے کوئی چرواہا پاؤ گے جو الگ ہوگیا یا قیدی ہوگا لوگوں نے دیکھا تو وہ ایک چرواہا تھا اور نماز کا وقت آجانے پر اس نے اذان دی تھی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ابن أبى ليلى لم يسمع من معاذ، والحكم بن عبدالملك ضعيف
حدثنا عبد الله , حدثني ابي , حدثنا إسماعيل , عن ايوب , عن ابي قلابة , ان الطاعون وقع بالشام , فقال عمرو بن العاص: إن هذا الرجز قد وقع , ففروا منه في الشعاب والاودية , فبلغ ذلك معاذا , فلم يصدقه بالذي قال , فقال: بل هو شهادة ورحمة , ودعوة نبيكم صلى الله عليه وسلم: اللهم اعط معاذا , واهله نصيبهم من رحمتك , قال ابو قلابة: فعرفت الشهادة , وعرفت الرحمة , ولم ادر ما دعوة نبيكم حتى انبئت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , بينما هو ذات ليلة يصلي إذ قال في دعائه:" فحمى إذا او طاعون , فحمى إذا او طاعون" , ثلاث مرات , فلما اصبح , قال له إنسان من اهله: يا رسول الله , لقد سمعتك الليلة تدعو بدعاء , قال:" وسمعته؟" , قال: نعم , قال: " إني سالت ربي عز وجل ان لا يهلك امتي بسنة , فاعطانيها , وسالته ان لا يسلط عليهم عدوا من غيرهم فيستبيحهم , فاعطانيها , وسالته ان لا يلبسهم شيعا ويذيق بعضهم باس بعض , فابى علي , او قال: فمنعنيها , فقلت: حمى إذا او طاعونا , حمى إذا او طاعونا , حمى إذا او طاعونا" , ثلاث مرات .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ , حَدَّثَنِي أَبِي , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ أَبِي قِلَابَةَ , أَنَّ الطَّاعُونَ وَقَعَ بِالشَّامِ , فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ: إِنَّ هَذَا الرِّجْزَ قَدْ وَقَعَ , فَفِرُّوا مِنْهُ فِي الشِّعَابِ وَالْأَوْدِيَةِ , فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاذًا , فَلَمْ يُصَدِّقْهُ بِالَّذِي قَالَ , فَقَالَ: بَلْ هُوَ شَهَادَةٌ وَرَحْمَةٌ , وَدَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُعَاذًا , وَأَهْلَهُ نَصِيبَهُمْ مِنْ رَحْمَتِكَ , قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: فَعَرَفْتُ الشَّهَادَةَ , وَعَرَفْتُ الرَّحْمَةَ , وَلَمْ أَدْرِ مَا دَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ حَتَّى أُنْبِئْتُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , بَيْنَمَا هُوَ ذَاتَ لَيْلَةٍ يُصَلِّي إِذْ قَالَ فِي دُعَائِهِ:" فَحُمَّى إِذًا أَوْ طَاعُونٌ , فَحُمَّى إِذًا أَوْ طَاعُونٌ" , ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , فَلَمَّا أَصْبَحَ , قَالَ لَهُ إِنْسَانٌ مِنْ أَهْلِهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , لَقَدْ سَمِعْتُكَ اللَّيْلَةَ تَدْعُو بِدُعَاءٍ , قَالَ:" وَسَمِعْتَهُ؟" , قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: " إِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِسَنَةٍ , فَأَعْطَانِيهَا , وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَيَسْتَبِيحَهُمْ , فَأَعْطَانِيهَا , وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُلْبِسَهُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ , فَأَبَى عَلَيَّ , أَوْ قَالَ: فَمَنَعَنِيهَا , فَقُلْتُ: حُمَّى إِذًا أَوْ طَاعُونًا , حُمَّى إِذًا أَوْ طَاعُونًا , حُمَّى إِذًا أَوْ طَاعُونًا" , ثَلَاثَ مَرَّاتٍ .
ابو قلابہ کہتے ہیں کہ شام میں طاعون کی وباء پھیلی تو حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے لشکریوں سے فرمایا کہ یہ عذاب نازل ہوگیا ہے اس سے بچنے کے لئے گھاٹیوں اور وادیوں میں چلے جاؤ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے ان کی بات کی تصدیق نہیں کی اور فرمایا کہ بلکہ یہ تو شہادت اور رحمت اور تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء ہے اے اللہ! معاذ اور اس کی اہل خانہ کو اپنی رحمت کا حصہ عطاء فرما۔
ابو قلابہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے شہادت اور رحمت کا مطلب تو سمجھ آگیا لیکن یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء سے کیا مراد ہے؟ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت نماز پڑھ رہے تھے دعاء کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پھر بخار یا طاعون " تین مرتبہ یہ جملہ دہرایا صبح ہوئی تو اہل خانہ میں سے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! میں نے رات کو آپ سے یہ دعاء کرتے ہوئے سنا تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا واقعی تم نے وہ دعاء سنی تھی؟ اس نے کہا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب سے درخواست کی تھی کہ وہ میری امت کو قحط سالی کی وجہ سے ہلاک نہ کرے چنانچہ پروردگار نے میری یہ دعاء قبول کرلی، پھر میں نے درخواست کی تھی کہ ان پر کسی بیرونی دشمن کو مسلط نہ کرے جو ان کا خون ارزاں کر دے چنانچہ پروردگار نے میری یہ دعاء بھی قبول کرلی پھر میں نے درخواست کی کہ انہیں مختلف فرقوں میں تقسیم نہ کیا جائے کہ یہ ایک دوسرے کا مزہ چکھتے رہیں لیکن اس نے یہ درخواست قبول نہیں کی، اس پر میں نے کہا کہ پھر بخار یا طاعون تین مرتبہ فرمایا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو قلابة لم يدرك زمن الطاعون، لكن ما ساقه فى قصة الطاعون صحيح، والشطر الثاني منه مرسل أيضا، وقد صح منه دعاء النبى ﷺ أن لا يهلك أمته دون قوله: حمى إذا أو طاعونا