حدثنا زكريا بن عدي , حدثنا عبيد الله بن عمرو يعني الرقي , عن زيد بن ابي انيسة , حدثنا جبلة بن سحيم , عن ابي المثنى العبدي , قال: سمعت السدوسي يعني ابن الخصاصية , قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم لابايعه , قال: فاشترط علي شهادة ان لا إله إلا الله , وان محمدا عبده ورسوله , وان اقيم الصلاة , وان اؤدي الزكاة , وان احج حجة الإسلام , وان اصوم شهر رمضان , وان اجاهد في سبيل الله , فقلت: يا رسول الله , اما اثنتان فوالله ما اطيقهما الجهاد , والصدقة , فإنهم زعموا انه من ولى الدبر فقد باء بغضب من الله , فاخاف إن حضرت تلك , جشعت نفسي , وكرهت الموت , والصدقة , فوالله ما لي إلا غنيمة وعشر ذود , هن رسل اهلي وحمولتهم , قال: فقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم يده , ثم حرك يده , ثم قال: " فلا جهاد , ولا صدقة , فيم تدخل الجنة إذا؟" , قال: قلت: يا رسول الله , انا ابايعك , قال: فبايعت عليهن كلهن .حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يَعْنِي الرَّقِّيَّ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ , حَدَّثَنَا جَبَلَةُ بْنُ سُحَيْمٍ , عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى الْعَبْدِيِّ , قَالَ: سَمِعْتُ السَّدُوسِيَّ يَعْنِي ابْنَ الْخَصَاصِيَّةِ , قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَايِعَهُ , قَالَ: فَاشْتَرَطَ عَلَيَّ شَهَادَةَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ , وَأَنْ أُقِيمَ الصَّلَاةَ , وَأَنْ أُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ , وَأَنْ أَحُجَّ حَجَّةَ الْإِسْلَامِ , وَأَنْ أَصُومَ شَهْرَ رَمَضَانَ , وَأَنْ أُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَمَّا اثْنَتَانِ فَوَاللَّهِ مَا أُطِيقُهُمَا الْجِهَادُ , وَالصَّدَقَةُ , فَإِنَّهُمْ زَعَمُوا أَنَّهُ مَنْ وَلَّى الدُّبُرَ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ , فَأَخَافُ إِنْ حَضَرْتُ تِلْكَ , جَشِعَتْ نَفْسِي , وَكَرِهَتْ الْمَوْتَ , وَالصَّدَقَةُ , فَوَاللَّهِ مَا لِي إِلَّا غُنَيْمَةٌ وَعَشْرُ ذَوْدٍ , هُنَّ رَسَلُ أَهْلِي وَحَمُولَتُهُمْ , قَالَ: فَقَبَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ , ثُمَّ حَرَّكَ يَدَهُ , ثُمَّ قَالَ: " فَلَا جِهَادَ , وَلَا صَدَقَةَ , فيِمَ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِذًا؟" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَنَا أُبَايِعُكَ , قَالَ: فَبَايَعْتُ عَلَيْهِنَّ كُلِّهِنَّ .
حضرت بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں بیعت اسلام کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سامنے شرائط بیعت بیان فرمائیں یعنی اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ میں نماز قائم کروں، زکوٰۃ ادا کروں فرض حج کروں، ماہ رمضان کے روزے رکھوں اور اللہ کے راستہ میں جہاد کروں۔
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! دو چیزوں کی تو واللہ مجھ میں طاقت نہیں ہے ایک جہاد اور دوسرا صدقہ، کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص میدان جنگ سے پشت پھیرتا ہے، وہ اللہ کے غضب کے ساتھ واپس آتا ہے مجھے ڈر لگتا ہے کہ اگر میں کسی جنگ میں حاضر ہوں اور میرا نفس ڈر جائے اور میں موت کو ناپسند کرنے لگوں (تو اللہ کی ناراضگی میرے حصے میں آئے گی) اور جہاں تک صدقہ (زکوٰۃ) کا تعلق ہے تو واللہ میرے پاس تو صرف چند بکریاں اور دس اونٹ ہیں جو میرے گھر والوں کی سواری اور بار برداری کے کام آتے ہیں، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا اور تھوڑی دیر بعد اپنے ہاتھ کو ہلا کر فرمایا نہ جہاد اور نہ صدقہ؟ تو پھر جنت میں کیسے داخل ہوگے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں بیعت کرتا ہوں، چنانچہ میں نے ان تمام شرائط پر بیعت کرلی۔
حضرت بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو قبرستان میں جوتیاں پہن کر چلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا اے سبتی جوتیوں والے! انہیں اتار دے۔
حدثنا ابو الوليد , وعفان , قالا: حدثنا عبيد الله بن إياد بن لقيط , سمعت إياد بن لقيط , يقول: سمعت ليلى امراة بشير , تقول: انه سال النبي صلى الله عليه وسلم: اصوم يوم الجمعة , ولا اكلم ذلك اليوم احدا؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تصم يوم الجمعة إلا في ايام هو احدها , او في شهر , واما ان لا تكلم احدا , فلعمري لان تكلم بمعروف , وتنهى عن منكر , خير من ان تسكت" .حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ , وَعَفَّانُ , قَالَا: حدثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ , سَمِعْتُ إِيَادَ بْنَ لَقِيطٍ , يَقُولُ: سَمِعْتُ لَيْلَى امْرَأَةَ بَشِيرٍ , تَقُولُ: أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصُومُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ , ولا أُكَلِّمُ ذَلِكَ الْيَوْمَ أَحَدًا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَصُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا فِي أَيَّامٍ هُوَ أَحَدُهَا , أَوْ فِي شَهْرٍ , وَأَمَّا أَنْ لَا تُكَلِّمَ أَحَدًا , فَلَعَمْرِي لَأَنْ تَكَلَّمَ بِمَعْرُوفٍ , وَتَنْهَى عَنْ مُنْكَرٍ , خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَسْكُتَ" .
حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ " لیلیٰ " کہتی ہیں کہ حضرت بشیر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ میں جمعہ کا روزہ رکھ سکتا ہوں اور یہ کہ اس دن کسی سے بات نہ کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ نہ رکھا کرو الاّ یہ کہ وہ ان دنوں یا مہینوں میں آرہا ہو جن میں تم روزہ رکھ رہے ہو اور باقی رہی یہ بات کہ کسی سے بات نہ کرو تو میری زندگی کی قسم! تمہارا کسی اچھی بات کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمہارے خاموش رہنے سے بہتر ہے۔
حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ " لیلیٰ " کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دو دن لگاتار روزے رکھنا چاہے تو حضرت بشیر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس سے روک دیا اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ اس طرح عیسائی کرتے ہیں البتہ تم اس طرح روزہ رکھو جیسے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ روزہ رات تک رکھو " اور جب رات ہوجائے تو روزہ افطار کرلیا کرو "۔
حضرت بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کا نام زحم تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدل کر ان کا نام بشیر رکھ دیا۔