مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
1117. حَدِيثُ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حدیث نمبر: 23808
Save to word اعراب
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن المقداد بن الاسود ، قال: قال لي علي: سل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل يلاعب اهله، فيخرج منه المذي من غير ماء الحياة، فلولا ان ابنته تحتي، لسالته، فقلت يا رسول الله، الرجل يلاعب اهله، فيخرج منه المذي من غير ماء الحياة؟ قال: " يغسل فرجه ويتوضا وضوءه للصلاة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أخبرنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: قَالَ لِي عَلِيٌّ: سَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يُلَاعِبُ أَهْلَهُ، فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَذْيُ مِنْ غَيْرِ مَاءِ الْحَيَاةِ، فَلَوْلَا أَنَّ ابْنَتَهُ تَحْتِي، لَسَأَلْتُهُ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يُلَاعِبُ أَهْلَهُ، فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَذْيُ مِنْ غَيْرِ مَاءِ الْحَيَاةِ؟ قَالَ: " يَغْسِلُ فَرْجَهُ وَيَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ" .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کا حکم پوچھو جو اپنی بیوی سے " کھیلتا " ہے اور اس کی شرمگاہ سے مذی کا خروج ہوتا ہے جو " آب حیات " نہیں ہوتی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا وہ اپنی شرمگاہ کو دھوئے اور نماز والا وضو کرلے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة محمد بن إسحاق، وهو مدلس
حدیث نمبر: 23809
Save to word اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن المقداد بن الاسود ، قال: قدمت انا وصاحبان لي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاصابنا جوع شديد، فتعرضنا للناس فلم يضفنا احد، فانطلق بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى منزله وعنده اربع اعنز، فقال لي: يا مقداد، " جزئ البانها بيننا ارباعا"، فكنت اجزئه بيننا ارباعا فاحتبس رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فحدثت نفسي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد اتى بعض الانصار، فاكل حتى شبع، وشرب حتى روي، فلو شربت نصيبه، فلم ازل كذلك حتى قمت إلى نصيبه فشربته، ثم غطيت القدح، فلما فرغت اخذني ما قدم وما حدث، فقلت: يجيء رسول الله صلى الله عليه وسلم جائعا ولا يجد شيئا! فتسجيت، وجعلت احدث نفسي، فبينا انا كذلك، إذ دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم تسليمة يسمع اليقظان ولا يوقظ النائم، ثم اتى القدح فكشفه فلم ير شيئا، فقال:" اللهم اطعم من اطعمني، واسق من سقاني"، واغتنمت الدعوة، فقمت إلى الشفرة فاخذتها، ثم اتيت الاعنز فجعلت اجتسها ايها اسمن، فلا تمر يدي على ضرع واحدة إلا وجدتها حافلا، فحلبت حتى ملات القدح، ثم اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: اشرب يا رسول الله، فرفع راسه إلي، فقال:" بعض سوآتك يا مقداد، ما الخبر؟" قلت: اشرب ثم الخبر، فشرب حتى روي، ثم ناولني فشربت، فقال:" ما الخبر؟" فاخبرته، فقال:" هذه بركة نزلت من السماء، فهلا اعلمتني حتى نسقي صاحبينا"، فقلت: إذا اصابتني وإياك البركة فما ابالي من اخطات .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أخبرنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: قَدِمْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ، فَتَعَرَّضْنَا لِلنَّاسِ فَلَمْ يُضِفْنَا أَحَدٌ، فَانْطَلَقَ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَنْزِلِهِ وَعِنْدَهُ أَرْبَعُ أَعْنُزٍ، فَقَالَ لِي: يَا مِقْدَادُ، " جَزِّئْ أَلْبَانَهَا بَيْنَنَا أَرْبَاعًا"، فَكُنْتُ أُجَزِّئُهُ بَيْنَنَا أَرْبَاعًا فَاحْتَبَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَحَدَّثْتُ نَفْسِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَتَى بَعْضَ الْأَنْصَارِ، فَأَكَلَ حَتَّى شَبِعَ، وَشَرِبَ حَتَّى رَوِيَ، فَلَوْ شَرِبْتُ نَصِيبَهُ، فَلَمْ أَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى قُمْتُ إِلَى نَصِيبِهِ فَشَرِبْتُهُ، ثُمَّ غَطَّيْتُ الْقَدَحَ، فَلَمَّا فَرَغْتُ أَخَذَنِي مَا قَدُمَ وَمَا حَدُثَ، فَقُلْتُ: يَجِيءُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائِعًا وَلَا يَجِدُ شَيْئًا! فَتَسَجَّيْتُ، وَجَعَلْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي، فَبَيْنَا أَنَا كَذَلِكَ، إِذْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُ الْيَقْظَانَ وَلَا يُوقِظُ النَّائِمَ، ثُمَّ أَتَى الْقَدَحَ فَكَشَفَهُ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي، وَاسْقِ مَنْ سَقَانِي"، وَاغْتَنَمْتُ الدَّعْوَةَ، فَقُمْتُ إِلَى الشَّفْرَةِ فَأَخَذْتُهَا، ثُمَّ أَتَيْتُ الْأَعْنُزَ فَجَعَلْتُ أَجْتَسُّهَا أَيُّهَا أَسْمَنُ، فَلَا تَمُرُّ يَدَيَّ عَلَى ضَرْعِ وَاحِدَةٍ إِلَّا وَجَدْتُهَا حَافِلًا، فَحَلَبْتُ حَتَّى مَلَأْتُ الْقَدَحَ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ، فَقَالَ:" بَعْضُ سَوْآتِكَ يَا مِقْدَادُ، مَا الْخَبَرُ؟" قُلْتُ: اشْرَبْ ثُمَّ الْخَبَرَ، فَشَرِبَ حَتَّى رَوِيَ، ثُمَّ نَاوَلَنِي فَشَرِبْتُ، فَقَالَ:" مَا الْخَبَرُ؟" فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:" هَذِهِ بَرَكَةٌ نَزَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ، فَهَلَّا أَعْلَمْتَنِي حَتَّى نَسْقِيَ صَاحِبَيْنَا"، فَقُلْتُ: إِذَا أَصَابَتْنِي وَإِيَّاكَ الْبَرَكَةُ فَمَا أُبَالِي مَنْ أَخْطَأَتْ .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اور میرے دو ساتھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہمیں سخت بھوک لگ رہی تھی، ہم نے اپنے آپ کو صحابہ رضی اللہ عنہ پر پیش کیا تو ان میں سے کسی نے بھی ہمیں قبول نہیں کیا پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر کی طرف لے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں) چار بکریاں تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا مقداد! ان بکریوں کا دودھ نکالو، اسے چار حصوں میں تقسیم کرلو چناچہ میں نے ایسا ہی کیا ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رات واپسی میں تاخیر ہوگئی میرے دل میں خیال آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی انصاری کے پاس جا کر کھا، پی لیا ہوگا اور سیراب ہوگئے ہوں گے اگر میں نے ان کے حصے کا دودھ پی لیا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میں اسی طرح سوچتا رہا حتٰی کہ کھڑے ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کا دودھ پی گیا اور پیالہ ڈھک دیا جب میں دودھ پی چکا تو میرے دل میں طرح طرح کے خیالات ابھرنے لگے اور میں سوچنے لگا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کی حالت میں تشریف لائے اور انہیں کچھ نہ ملا تو کیا ہوگا؟ میں نے اپنی چادر اوڑھ لی اور اپنے ذہن میں یہ خیالات سوچنے لگا ابھی میں انہی خیالات میں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آہستہ سے سلام کیا جو جاگنے والا تو سن لے لیکن سونے والا نہ جاگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دودھ کی طرف آئے برتن کھولا تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! تو اسے کھلا جو مجھے کھلائے اور تو اسے پلا جو مجھے پلائے (میں نے اس دعاء کو غنیمت سمجھا اور چھری پکڑ کر بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ان بکریوں میں سے جو موٹی بکری ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ذبح کر ڈالوں میں نے دیکھا کہ سب بکریوں کے تھن دودھ سے بھرے پڑے تھے پھر میں نے ایک برتن میں دودھ نکالا یہاں تک کہ وہ بھر گیا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے رات کو اپنے حصہ کا دودھ پی لیا تھا؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ دودھ پئیں پھر آپ کو واقعہ بتاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا پھر آپ نے مجھے دیا پھر جب مجھے معلوم ہوگیا کہ آپ سیر ہوگئے ہیں تو میں نے بھی اسے پی لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب وہ واقعہ بتاؤ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہ واقعہ ذکر کردیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت کا دودھ سوائے رحمت کے اور کچھ نہ تھا تم نے مجھے پہلے ہی کیوں نہ بتادیا تاکہ ہم اپنے ساتھیوں کو بھی جگا دیتے وہ بھی اس میں سے دودھ پی لیتے میں نے عرض کیا جب آپ کو اور مجھے یہ برکت حاصل ہوگئی ہے اب مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کسے اس کا حصہ نہیں ملا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 23810
Save to word اعراب
حدثنا يعمر بن بشر ، حدثنا عبد الله يعني ابن المبارك ، اخبرنا صفوان بن عمرو ، حدثني عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، عن ابيه ، قال: جلسنا إلى المقداد بن الاسود يوما، فمر به رجل، فقال: طوبى لهاتين العينين اللتين راتا رسول الله صلى الله عليه وسلم، والله لوددنا انا راينا ما رايت، وشهدنا ما شهدت، فاستغضب، فجعلت اعجب، ما قال إلا خيرا، ثم اقبل إليه، فقال:" ما يحمل الرجل على ان يتمنى محضرا غيبه الله عنه، لا يدري لو شهده كيف كان يكون فيه، والله لقد حضر رسول الله صلى الله عليه وسلم اقوام اكبهم الله على مناخرهم في جهنم لم يجيبوه ولم يصدقوه، اولا تحمدون الله إذ اخرجكم لا تعرفون إلا ربكم، مصدقين لما جاء به نبيكم، قد كفيتم البلاء بغيركم، والله لقد بعث الله النبي صلى الله عليه وسلم على اشد حال بعث عليها نبي من الانبياء في فترة وجاهلية، ما يرون ان دينا افضل من عبادة الاوثان، فجاء بفرقان فرق به بين الحق والباطل، وفرق بين الوالد وولده حتى إن كان الرجل ليرى والده وولده او اخاه كافرا، وقد فتح الله قفل قلبه للإيمان، يعلم انه إن هلك دخل النار، فلا تقر عينه وهو يعلم ان حبيبه في النار، وانها للتي قال عز وجل: الذين يقولون ربنا هب لنا من ازواجنا وذرياتنا قرة اعين سورة الفرقان آية 74" .حَدَّثَنَا يَعْمَرُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ ، أخبرنا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: جَلَسْنَا إِلَى الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ يَوْمًا، فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: طُوبَى لِهَاتَيْنِ الْعَيْنَيْنِ اللَّتَيْنِ رَأَتَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهِ لَوَدِدْنَا أَنَّا رَأَيْنَا مَا رَأَيْتَ، وَشَهِدْنَا مَا شَهِدْتَ، فَاسْتُغْضِبَ، فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ، مَا قَالَ إِلَّا خَيْرًا، ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ:" مَا يَحْمِلُ الرَّجُلُ عَلَى أَنْ يَتَمَنَّى مَحْضَرًا غَيَّبَهُ اللَّهُ عَنْهُ، لَا يَدْرِي لَوْ شَهِدَهُ كَيْفَ كَانَ يَكُونُ فِيهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ حَضَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْوَامٌ أَكَبَّهُمْ اللَّهُ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ فِي جَهَنَّمَ لَمْ يُجِيبُوهُ وَلَمْ يُصَدِّقُوهُ، أَوَلَا تَحْمَدُونَ اللَّهَ إِذْ أَخْرَجَكُمْ لَا تَعْرِفُونَ إِلَّا رَبَّكُمْ، مُصَدِّقِينَ لِمَا جَاءَ بِهِ نَبِيُّكُمْ، قَدْ كُفِيتُمْ الْبَلَاءَ بِغَيْرِكُمْ، وَاللَّهِ لَقَدْ بَعَثَ اللَّهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَشَدِّ حَالٍ بُعِثَ عَلَيْهَا نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فِي فَتْرَةٍ وَجَاهِلِيَّةٍ، مَا يَرَوْنَ أَنَّ دِينًا أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ، فَجَاءَ بِفُرْقَانٍ فَرَقَ بِهِ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، وَفَرَّقَ بَيْنَ الْوَالِدِ وَوَلَدِهِ حَتَّى إِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيَرَى وَالِدَهُ وَوَلَدَهُ أَوْ أَخَاهُ كَافِرًا، وَقَدْ فَتَحَ اللَّهُ قُفْلَ قَلْبِهِ لِلْإِيمَانِ، يَعْلَمُ أَنَّهُ إِنْ هَلَكَ دَخَلَ النَّارَ، فَلَا تَقَرُّ عَيْنُهُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ حَبِيبَهُ فِي النَّارِ، وَأَنَّهَا لَلَّتِي قَالَ عَزَّ وَجَلَّ: الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ سورة الفرقان آية 74" .
جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی وہاں سے گذرا اور کہنے لگا یہ آنکھیں کیسی خوش نصیب ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے واللہ ہماری تو یہ تمنا ہی رہی کہ جو آپ نے دیکھا ہم نے بھی وہی دیکھا ہوتا اور جن چیزوں کا مشاہدہ آپ نے کیا ہم نے بھی ان کا مشاہدہ کیا ہوتا اس پر وہ غضبناک ہوگئے مجھے اس پر تعجب ہوا کہ اس نے تو ایک اچھی بات کہی ہے پھر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ انسان کو اس خواہش پر کون سی چیز آمادہ کرتی ہے کہ وہ ان مواقع پر حاضر ہونے کی تمنا کرتا ہے جن سے اللہ نے اسے غائب رکھا اسے معلوم نہیں کہ اگر وہ اس موقع پر موجود ہوتا تو اس کا رویہ کیا ہوتا واللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جنہیں اللہ ان کے سینوں کے بل جہنم میں اوندھا دھکیل دے گا یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور نہ ہی ان کی تصدیق کی۔ نبی کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق کرتے ہو دوسروں کے ذریعے آزمائشوں سے تمہیں بچا لیا گیا ہے واللہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانہ فترت وحی اور جاہلیت میں بھیجا جو کسی بھی نبی کی بعثت کے زمانے سے سب سے زیادہ سخت زمانہ تھا لوگ اس زمانے میں بتوں کی پوجا سے زیادہ افضل دین کوئی دین نہیں سمجھتے تھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرقان لے کر تشریف لائے جس کے ذریعے انہوں نے حق اور باطل میں فرق واضح کردیا اور والد اور اس کی اولاد کے درمیان فرق نمایاں کردیا حتیٰ کہ ایک آدمی اپنے باپ بیٹے یا بھائی کو کافر سمجھتا تھا اور اللہ نے اس کے دل کا تالا ایمان کے لئے کھول دیا تھا وہ جانتا تھا کہ اگر وہ کفر کی حالت میں ہی مرگیا تو جہنم میں داخل ہوگا، اس لئے جب اسے یہ معلوم ہوتا کہ اس کا محبوب جہنم میں رہے گا تو اس کی آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوتیں اور یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے " وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔ "

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 23811
Save to word اعراب
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن عبد الرحمن بن إسحاق ، عن الزهري ، عن عطاء بن يزيد ، عن عبيد الله بن عدي بن الخيار ، عن المقداد بن عمرو ، قال: قلت: يا رسول الله، ارايت رجلا ضربني بالسيف فقطع يدي، ثم لاذ مني بشجرة، ثم قال: لا إله إلا الله، ااقتله؟ قال: " لا"، فعدت مرتين او ثلاثا، فقال:" لا، إلا ان تكون مثله قبل ان يقول ما قال، ويكون مثلك قبل ان تفعل ما فعلت" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا ضَرَبَنِي بِالسَّيْفِ فَقَطَعَ يَدِي، ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، ثُمَّ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَأَقْتُلُهُ؟ قَالَ: " لَا"، فَعُدْتُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَقَالَ:" لَا، إِلَّا أَنْ تَكُونَ مِثْلَهُ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ، وَيَكُونَ مِثْلَكَ قَبْلَ أَنْ تَفْعَلَ مَا فَعَلْتَ" .
حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی مجھ پر تلوار سے حملہ کرے اور میرا ہاتھ کاٹ دے پھر مجھ سے بچنے کے لئے ایک درخت کی آڑ حاصل کرلے اور اسی وقت " لا الہ الا اللہ " پڑھ لے تو کیا میں اسے قتل کرسکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں میں نے دو تین مرتبہ اپنا سوال دہرایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ورنہ کلمہ پڑھنے سے پہلے وہ جیسا تھا تم اس کی طرح ہوجاؤ گے اور اس واقعے سے پہلے تم جس طرح تھے وہ اس طرح ہوجائے گا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 6865، م: 95، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 23812
Save to word اعراب
حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن المقداد ، قال: اقبلت انا وصاحبان لي قد ذهبت اسماعنا وابصارنا من الجهد، قال: فجعلنا نعرض انفسنا على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس احد يقبلنا، قال: فانطلقنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلق بنا إلى اهله، فإذا ثلاث اعنز، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " احتلبوا هذا اللبن بيننا"، قال: فكنا نحتلب فيشرب كل إنسان نصيبه، ونرفع لرسول الله صلى الله عليه وسلم نصيبه، فيجيء من الليل فيسلم تسليما لا يوقظ نائما، ويسمع اليقظان، ثم ياتي المسجد فيصلي، ثم ياتي شرابه فيشربه، قال: فاتاني الشيطان ذات ليلة، فقال: محمد ياتي الانصار فيتحفونه، ويصيب عندهم، ما به حاجة إلى هذه الجرعة، فاشربها، قال: ما زال يزين لي حتى شربتها، فلما وغلت في بطني، وعرف انه ليس إليها سبيل، قال: ندمني، فقال: ويحك ما صنعت، شربت شراب محمد، فيجيء ولا يراه، فيدعو عليك فتهلك، فتذهب دنياك وآخرتك؟! قال: وعلي شملة من صوف كلما رفعتها على راسي خرجت قدماي وإذا ارسلت على قدمي، خرج راسي، وجعل لا يجيء لي نوم، قال: واما صاحباي فناما، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم كما كان يسلم، ثم اتى المسجد فصلى، فاتى شرابه فكشف عنه فلم يجد فيه شيئا، فرفع راسه إلى السماء، قال: قلت: الآن يدعو علي فاهلك، فقال:" اللهم اطعم من اطعمني، واسق من سقاني"، قال: فعمدت إلى الشملة، فشددتها علي، فاخذت الشفرة فانطلقت إلى الاعنز اجسهن ايهن اسمن، فاذبح لرسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا هن حفل كلهن، فعمدت إلى إناء لآل محمد ما كانوا يطمعون ان يحلبوا فيه، وقال ابو النضر مرة اخرى: ان يحتلبوا فيه فحلبت فيه حتى علته الرغوة، ثم جئت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" اما شربتم شرابكم الليلة يا مقداد؟" قال: قلت: اشرب يا رسول الله، فشرب ثم ناولني، فقلت: يا رسول الله، اشرب، فشرب ثم ناولني، فاخذت ما بقي فشربت، فلما عرفت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد روي فاصابتني دعوته، ضحكت حتى القيت إلى الارض، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إحدى سوآتك يا مقداد"، قال: قلت: يا رسول الله، كان من امري كذا، صنعت كذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما كانت هذه إلا رحمة من الله، الا كنت آذنتني نوقظ صاحبيك هذين فيصيبان منها"، قال: قلت: والذي بعثك بالحق، ما ابالي إذا اصبتها واصبتها معك من اصابها من الناس .حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ الْمِقْدَادِ ، قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِي قَدْ ذَهَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنَ الْجَهْدِ، قَالَ: فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ أَحَدٌ يَقْبَلُنَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ بِنَا إِلَى أَهْلِهِ، فَإِذَا ثَلَاثُ أَعْنُزٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْتَلِبُوا هَذَا اللَّبَنَ بَيْنَنَا"، قَالَ: فَكُنَّا نَحْتَلِبُ فَيَشْرَبُ كُلُّ إِنْسَانٍ نَصِيبَهُ، وَنَرْفَعُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبَهُ، فَيَجِيءُ مِنَ اللَّيْلِ فَيُسَلِّمُ تَسْلِيمًا لَا يُوقِظُ نَائِمًا، وَيُسْمِعُ الْيَقْظَانَ، ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ فَيُصَلِّي، ثُمَّ يَأْتِي شَرَابَهُ فَيَشْرَبُهُ، قَالَ: فَأَتَانِي الشَّيْطَانُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ: مُحَمَّدٌ يَأْتِي الْأَنْصَارَ فَيُتْحِفُونَهُ، وَيُصِيبُ عِنْدَهُمْ، مَا بِهِ حَاجَةٌ إِلَى هَذِهِ الْجُرْعَةِ، فَاشْرَبْهَا، قَالَ: مَا زَالَ يُزَيِّنُ لِي حَتَّى شَرِبْتُهَا، فَلَمَّا وَغَلَتْ فِي بَطْنِي، وَعَرَفَ أَنَّهُ لَيْسَ إِلَيْهَا سَبِيلٌ، قَالَ: نَدَّمَنِي، فَقَالَ: وَيْحَكَ مَا صَنَعْتَ، شَرِبْتَ شَرَابَ مُحَمَّدٍ، فَيَجِيءُ وَلَا يَرَاهُ، فَيَدْعُو عَلَيْكَ فَتَهْلِكَ، فَتَذْهَبُ دُنْيَاكَ وَآخِرَتُكَ؟! قَالَ: وَعَلَيَّ شَمْلَةٌ مِنْ صُوفٍ كُلَّمَا رَفَعْتُهَا عَلَى رَأْسِي خَرَجَتْ قَدَمَايَ وَإِذَا أَرْسَلْتُ عَلَى قَدَمَيَّ، خَرَجَ رَأْسِي، وَجَعَلَ لَا يَجِيءُ لِي نَوْمٌ، قَالَ: وَأَمَّا صَاحِبَايَ فَنَامَا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ كَمَا كَانَ يُسَلِّمُ، ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى، فَأَتَى شَرَابَهُ فَكَشَفَ عَنْهُ فَلَمْ يَجِدْ فِيهِ شَيْئًا، فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، قَالَ: قُلْتُ: الْآنَ يَدْعُو عَلَيَّ فَأَهْلِكُ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي، وَاسْقِ مَنْ سَقَانِي"، قَالَ: فَعَمَدْتُ إِلَى الشَّمْلَةِ، فَشَدَدْتُهَا عليَّ، فَأَخَذْتُ الشَّفْرَةَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْأَعْنُزِ أَجُسُّهُنَّ أَيُّهُنَّ أَسْمَنُ، فَأَذْبَحُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُنَّ حُفَّلٌ كُلُّهُنَّ، فَعَمَدْتُ إِلَى إِنَاءٍ لِآلِ مُحَمَّدٍ مَا كَانُوا يَطْمَعُونَ أَنْ يَحْلِبُوا فِيهِ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ مَرَّةً أُخْرَى: أَنْ يَحْتَلِبُوا فِيهِ فَحَلَبْتُ فِيهِ حَتَّى عَلَتْهُ الرَّغْوَةُ، ثُمَّ جِئْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَمَا شَرِبْتُمْ شَرَابَكُمْ اللَّيْلَةَ يَا مِقْدَادُ؟" قَالَ: قُلْتُ: اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اشْرَبْ، فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَنِي، فَأَخَذْتُ مَا بَقِيَ فَشَرِبْتُ، فَلَمَّا عَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَوِيَ فَأَصَابَتْنِي دَعْوَتُهُ، ضَحِكْتُ حَتَّى أُلْقِيتُ إِلَى الْأَرْضِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِحْدَى سَوْآتِكَ يَا مِقْدَادُ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَانَ مِنْ أَمْرِي كَذَا، صَنَعْتُ كَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا كَانَتْ هَذِهِ إِلَّا رَحْمَةً مِنَ اللَّهِ، أَلَا كُنْتَ آذَنْتَنِي نُوقِظُ صَاحِبَيْكَ هَذَيْنِ فَيُصِيبَانِ مِنْهَا"، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا أُبَالِي إِذَا أَصَبْتَهَا وَأَصَبْتُهَا مَعَكَ مَنْ أَصَابَهَا مِنَ النَّاسِ .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اور میرے دو ساتھی آئے اور تکلیف کی وجہ سے ہماری قوت سماعت اور قوت بصارت چلی گئی تھی ہم نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ پر پیش کیا تو ان میں سے کسی نے بھی ہمیں قبول نہیں کیا پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر کی طرف لے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں) تین بکریاں تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان بکریوں کا دودھ نکالو پھر ہم ان کا دودھ نکالتے تھے اور ہم میں سے ہر ایک آدمی اپنے حصے کا دودھ پیتا اور ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اٹھا کر رکھ دیتے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ رات کے وقت تشریف لاتے (تو ایسے انداز میں) سلام کرتے کہ سونے والا بیدار نہ ہوتا اور جاگنے والا (آپ کا سلام) سن لیتا پھر آپ مسجد میں تشریف لاتے اور نماز پڑھتے پھر آپ اپنے دودھ کے پاس آتے اور اسے پیتے ایک رات شیطان آیا جبکہ میں اپنے حصے کا دودھ پی چکا تھا شیطان کہنے لگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے پاس آتے ہیں اور آپ کو تحفے دیتے ہیں او آپ کو جس کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ مل جاتی ہے آپ کو اس ایک گھونٹ دودھ کی کیا ضرورت ہوگی (شیطان کے اس ورغلانے کے نتیجہ میں) پھر میں آیا اور میں نے وہ دودھ پی لیا جب وہ دودھ میرے پیٹ میں چلا گیا اور مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب آپ کو دودھ ملنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو شیطان نے مجھے ندامت دلائی اور کہنے لگا تیری خرابی ہو تو نے یہ کیا کیا؟ تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کا بھی دودھ پی لیا آپ آئیں گے اور وہ دودھ نہیں پائیں گے تو تجھے بددعا دیں گے تو تو ہلاک ہوجائے گا اور تیری دنیا آخرت برباد ہوجائے گی میرے پاس ایک چادر تھی جب میں اسے اپنے پاؤں پر ڈالتا تو میرا سر کھل جاتا اور جب میں اسے اپنے سر پر ڈالتا تو میرے پاؤں کھل جاتے اور مجھے نیند بھی آرہی تھی جبکہ میرے دونوں ساتھی سو رہے تھے انہوں نے وہ کام نہیں کیا جو میں نے کیا تھا بالآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دودھ کی طرف آئے برتن کھولا تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا میں نے (دل) میں کہا کہ اب آپ میرے لئے بددعا فرمائیں گے پھر میں ہلاک ہوجاؤں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! تو اسے کھلا جو مجھے کھلائے اور تو اسے پلا جو مجھے پلائے (میں نے یہ سن کر) اپنی چادر مضبوط کر کے باندھ لی پھر میں چھری پکڑ کر بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ان بکریوں میں سے جو موٹی بکری ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ذبح کر ڈالوں میں نے دیکھا کہ اس کا ایک تھن دودھ سے بھرا پڑا ہے بلکہ سب بکریوں کے تھن دودھ سے بھرے پڑے تھے پھر میں نے اس گھر کے برتنوں میں سے وہ برتن لیا جس میں دودھ نہیں دوہا جاتا تھا پھر میں نے اس برتن میں دودھ نکالا یہاں تک کہ دودھ کی جھاگ اوپر تک آگئی پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے رات کو اپنے حصہ کا دودھ پی لیا تھا؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ دودھ پئیں پھر آپ کو واقعہ بتاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیا پھر جب مجھے معلوم ہوگیا کہ آپ سیر ہوگئے ہیں اور آپ کی دعا میں نے لے لی ہے تو میں ہنس پڑا یہاں تک کہ مارے خوشی کے زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے مقداد! یہ تیری ایک بری عادت ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میرے ساتھ تو اس طرح کا معاملہ ہوا ہے اور میں نے اس طرح کرلیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت کا دودھ سوائے رحمت کے اور کچھ نہ تھا تم نے مجھے پہلے ہی کیوں نہ بتادیا تاکہ ہم اپنے ساتھیوں کو بھی جگا دیتے وہ بھی اس میں سے دودھ پی لیتے میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے جب آپ نے یہ دودھ پی لیا ہے اور میں نے بھی یہ دودھ پی لیا ہے تو اب مجھے اور کوئی پرواہ نہیں (یعنی میں نے اللہ کی رحمت حاصل کرلی ہے تو اب مجھے کیا پرواہ (بوجہ خوشی) کہ لوگوں میں سے کوئی اور بھی یہ رحمت حاصل کرے یا نہ کرے)

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2055
حدیث نمبر: 23813
Save to word اعراب
حدثنا إبراهيم بن إسحاق ، حدثنا ابن المبارك ، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، حدثني سليم بن عامر ، حدثني المقداد صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا كان يوم القيامة ادنيت الشمس من العباد حتى تكون قيد ميل او ميلين، قال: فتصهرهم الشمس، فيكونون في العرق كقدر اعمالهم، منهم من ياخذه إلى عقبيه، ومنهم من ياخذه إلى ركبته، ومنهم من ياخذه إلى حقويه، ومنهم من يلجمه إلجاما" .حَدَّثَنَا إبراهيمُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنِي الْمِقْدَادُ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أُدْنِيَتْ الشَّمْسُ مِنَ الْعِبَادِ حَتَّى تَكُونَ قِيدَ مِيلٍ أَوْ مِيلَيْنِ، قَالَ: فَتَصْهَرُهُمْ الشَّمْسُ، فَيَكُونُونَ فِي الْعَرَقِ كَقَدْرِ أَعْمَالِهِمْ، مِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى عَقِبَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى رُكْبَتِهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى حَقْوَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا" .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے قیامت کے دن سورج بندوں کے اتنا قریب کردیا جائے گا کہ وہ ایک دو میل کے فاصلے پر رہ جائے گا گرمی کی شدت سے وہ لوگ اپنے اپنے اعمال کے بقدر پسینے میں ڈوبے ہوں گے کسی کا پسینہ اس کی ایڑیوں تک ہوگا، کسی کا پسینہ اس کے گھٹنوں تک ہوگا کسی کا پسینہ اس کی پسلیوں تک ہوگا اور کسی کا پسینہ اس کے منہ میں لگام کی طرح ہوگا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2864
حدیث نمبر: 23814
Save to word اعراب
حدثنا يزيد بن عبد ربه ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثني ابن جابر ، قال: سمعت سليم بن عامر ، قال: سمعت المقداد بن الاسود، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا يبقى على ظهر الارض بيت مدر ولا وبر إلا ادخله الله كلمة الإسلام، بعز عزيز او ذل ذليل، إما يعزهم الله عز وجل فيجعلهم من اهلها، او يذلهم فيدينون لها" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يَبْقَى عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ كَلِمَةَ الْإِسْلَامِ، بِعِزِّ عَزِيزٍ أَوْ ذُلِّ ذَلِيلٍ، إِمَّا يُعِزُّهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَيَجْعَلُهُمْ مِنْ أَهْلِهَا، أَوْ يُذِلُّهُمْ فَيَدِينُونَ لَهَا" .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روئے زمین پر کوئی کچا پکا گھر ایسا نہیں رہے گا جس میں اللہ اسلام کا کلمہ داخل نہ کر دے خواہ لوگ اسے عزت کے ساتھ قبول کر کے معزز ہوجائیں یا ذلت اختیار کرلیں جنہیں اللہ عزت عطا فرمائے گا انہیں تو کلمہ والوں میں شامل کر دے گا اور جنہیں ذلت دے گا وہ اس کے سامنے جھک جائیں گے (اور اس کے تابع فرمان ہوں گے ٹیکس ادا کریں گے)

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 23815
Save to word اعراب
حدثنا يزيد بن عبد ربه ، حدثنا بقية بن الوليد ، حدثني إسماعيل بن عياش ، عن ضمضم بن زرعة ، عن شريح بن عبيد ، عن جبير بن نفير ، وعمرو بن الاسود ، عن المقداد بن الاسود ، قالا: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الامير إذا ابتغى الريبة في الناس افسدهم" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ زُرْعَةَ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، وَعَمْرِو بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الْأَمِيرَ إِذَا ابْتَغَى الرِّيبَةَ فِي النَّاسِ أَفْسَدَهُمْ" .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب حکمران لوگوں میں شک تلاش کرے گا تو انہیں فساد میں مبتلا کر دے گا۔

حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف من أجل بقية بن الوليد، وقد توبع
حدیث نمبر: 23816
Save to word اعراب
حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا الفرج ، حدثنا سليمان بن سليم ، قال: قال المقداد بن الاسود : لا اقول في رجل خيرا ولا شرا حتى انظر ما يختم له يعني بعد شيء سمعته من النبي صلى الله عليه وسلم، قيل: وما سمعت؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لقلب ابن آدم اشد انقلابا من القدر إذا اجتمعت غليا" .حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا الْفَرَجُ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُلَيْمٍ ، قَالَ: قَالَ الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ : لَا أَقُولُ فِي رَجُلٍ خَيْرًا وَلَا شَرًّا حَتَّى أَنْظُرَ مَا يُخْتَمُ لَهُ يَعْنِي بَعَدَ شَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَمَا سَمِعْتَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَقَلْبُ ابْنِ آدَمَ أَشَدُّ انْقِلَابًا مِنَ الْقِدْرِ إِذَا اجْتَمَعَتْ غَلْيًا" .
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنی ہے میں کسی آدمی کے متعلق اچھائی یا برائی کا فیصلہ نہیں کرتا کسی نے پوچھا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ابن آدم کا دل اس ہنڈیا سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ بدلتا ہے جو خوب کھول رہی ہو۔

حكم دارالسلام: حديث حسن ، وهذا إسناد ضعيف لضعف فرج، وسليمان بن سليم لم يدرك المقداد ابن الأسود
حدیث نمبر: 23817
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، اخبرني عطاء بن يزيد الليثي ثم الجندعي، ان عبيد الله بن عدي بن الخيار اخبره، ان المقداد بن عمرو الكندي وكان حليفا لبني زهرة وكان ممن شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبره، انه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ارايت إن لقيت رجلا من الكفار فاقتتلنا، فضرب إحدى يدي بالسيف فقطعها، ثم لاذ مني بشجرة، فقال: اسلمت لله، ااقتله يا رسول الله بعد ان قالها؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تقتله"، قال: يا رسول الله، إنه قطع إحدى يدي، ثم قال ذلك بعد ما قطعها! قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تقتله، فإنه بمنزلتك قبل ان تقتله، وإنك بمنزلته قبل ان يقول كلمته التي قال" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ ثُمَّ الْجُنْدُعِيُّ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ الْمِقْدَادَ بْنَ عَمْرٍو الْكِنْدِيَّ وَكَانَ حَلِيفًا لِبَنِي زُهْرَةَ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلًا مِنَ الْكُفَّارِ فَاقْتَتَلْنَا، فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَيَّ بِالسَّيْفِ فَقَطَعَهَا، ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، فَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلَّهِ، أَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقْتُلْهُ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَطَعَ إِحْدَى يَدَيَّ، ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ بَعْدَ مَا قَطَعَهَا! قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقْتُلْهُ، فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَإِنَّكَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ" .
حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی مجھ پر تلوار سے حملہ کرے اور میرا ہاتھ کاٹ دے پھر مجھ سے بچنے کے لئے ایک درخت کی آڑ حاصل کرلے اور اسی وقت " لا الہ الا اللہ " پڑھ لے تو کیا میں اسے قتل کرسکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں میں نے دو تین مرتبہ اپنا سوال دہرایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ورنہ کلمہ پڑھنے سے پہلے وہ جیسا تھا تم اس کی طرح ہوجاؤ گے اور اس واقعے سے پہلے تم جس طرح تھے وہ اس طرح ہوجائے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4019، م: 95
حدیث نمبر: 23818
Save to word اعراب
حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا ابو بكر ، عن الاعمش ، عن سليمان بن ميسرة ، عن طارق بن شهاب ، عن المقداد بن الاسود ، قال: لما نزلنا المدينة عشرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة عشرة يعني: في كل بيت، قال: فكنت في العشرة التي كان النبي صلى الله عليه وسلم فيهم، قال: ولم يكن لنا إلا شاة نتحرى لبنها، قال: فكنا إذا ابطا علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شربنا وبقينا للنبي صلى الله عليه وسلم نصيبه، فلما كان ذات ليلة ابطا علينا، قال: ونمنا، فقال المقداد بن الاسود: لقد اطال النبي صلى الله عليه وسلم، ما اراه يجيء الليلة، لعل إنسانا دعاه، قال: فشربته، فلما ذهب من الليل جاء فدخل البيت، قال: فلما شربته لم انم انا، قال: فلما دخل سلم ولم يشد، ثم مال إلى القدح، فلما لم ير شيئا اسكت، ثم قال: " اللهم اطعم من اطعمنا الليلة"، قال: وثبت واخذت السكين، وقمت إلى الشاة، قال:" ما لك؟" قلت: اذبح، قال:" لا، ائتني بالشاة" فاتيته بها، فمسح ضرعها فخرج شيئا، ثم شرب ونام .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلْنَا الْمَدِينَةَ عَشَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةً عَشَرَةً يَعْنِي: فِي كُلِّ بَيْتٍ، قَالَ: فَكُنْتُ فِي الْعَشَرَةِ الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ، قَالَ: وَلَمْ يَكُنْ لَنَا إِلَّا شَاةٌ نَتَحَرَّى لَبَنَهَا، قَالَ: فَكُنَّا إِذَا أَبْطَأَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبْنَا وَبَقَّيْنَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبَهُ، فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ أَبْطَأَ عَلَيْنَا، قَالَ: وَنِمْنَا، فَقَالَ الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ: لَقَدْ أَطَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أُرَاهُ يَجِيءُ اللَّيْلَةَ، لَعَلَّ إِنْسَانًا دَعَاهُ، قَالَ: فَشَرِبْتُهُ، فَلَمَّا ذَهَبَ مِنَ اللَّيْلِ جَاءَ فَدَخَلَ الْبَيْتَ، قَالَ: فَلَمَّا شَرِبْتُهُ لَمْ أَنَمْ أَنَا، قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَ سَلَّمَ وَلَمْ يَشُدَّ، ثُمَّ مَالَ إِلَى الْقَدَحِ، فَلَمَّا لَمْ يَرَ شَيْئًا أَسْكَتَ، ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنَا اللَّيْلَةَ"، قَالَ: وَثَبْتُ وَأَخَذْتُ السِّكِّينَ، وَقُمْتُ إِلَى الشَّاةِ، قَالَ:" مَا لَكَ؟" قُلْتُ: أَذْبَحُ، قَالَ:" لَا، ائْتِنِي بِالشَّاةِ" فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَمَسَحَ ضَرْعَهَا فَخَرَجَ شَيْئًا، ثُمَّ شَرِبَ وَنَامَ .
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم لوگ مدینہ منورہ میں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایک گھر میں دس دس آدمیوں میں تقسیم کردیا میں ان دس لوگوں میں شامل تھا جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے ہمارے پاس صرف ایک ہی بکری تھی جس سے ہم دودھ حاصل کرتے تھے اگر کسی دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس آنے پر تاخیر ہوجاتی تو ہم اس کا دودھ پی لیتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بچا کر رکھ لیتے۔ ایک مرتبہ رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تاخیر سے واپس تشریف لائے ہم اس وقت تک سو چکے تھے چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تاخیر زیادہ ہوگئی تھی اور میرا خیال نہیں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئیں گے ہوسکتا ہے کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت پر بلا لیا ہو یہ سوچ کر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے رکھا ہوا دودھ بھی پی لیا لیکن رات کا کچھ حصہ گذرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ادھر مجھے بھی نیند نہیں آرہی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آ کر آہستہ سے سلام کیا اور پیالے کی طرف بڑھے لیکن جب اس میں کچھ نظر نہ آیا تو خاموش ہوگئے پھر فرمایا اے اللہ! جو شخص آج رات ہمیں کھلائے تو اسے کھلا یہ سن کر میں اٹھا چھری پکڑی اور بکری کی طرف بڑھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ہوا میں نے عرض کیا کہ اسے ذبح کرنے جا رہا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے ذبح نہ کرو بلکہ اسے میرے پاس لاؤ میں اسے لے کر آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا تھوڑا سا دودھ نکلا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نوش فرما کر لیٹ گئے اور سوگئے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 23819
Save to word اعراب
حدثنا عثمان بن عمر ، اخبرنا مالك ، عن سالم ابي النضر ، عن سليمان بن يسار ، عن المقداد بن الاسود ، انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل يدنو من امراته فيمذي، قال: " إذا وجد ذلك احدكم، فلينضح فرجه" قال: يعني: يغسله" وليتوضا وضوءه للصلاة" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، أخبرنا مَالِكٌ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَدْنُو مِنَ امْرَأَتِهِ فَيُمْذِي، قَالَ: " إِذَا وَجَدَ ذَلِكَ أحَدُكم، فَلْيَنْضَحْ فَرْجَهُ" قَالَ: يَعْنِي: يَغْسِلُهُ" وَلْيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ" .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کا حکم پوچھو جو اپنی بیوی سے " کھیلتا ہے " اور اس کی شرمگاہ سے مذی کا خروج ہوتا ہے جو " آب حیات " نہیں ہوتی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا وہ اپنی شرمگاہ کو دھوئے اور نماز والا وضو کرلے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، سليمان بن يسار لم يدرك المقداد
حدیث نمبر: 23820
Save to word اعراب
حدثنا علي بن عياش ، حدثنا ابو عبيدة الوليد بن كامل من اهل حمص البجلي، حدثني المهلب بن حجر البهراني ، عن ضباعة بنت المقداد بن الاسود ، عن ابيها ، انه قال: " ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى إلى عمود ولا عود ولا شجرة إلا جعله على حاجبه الايمن والايسر، ولا يصمد له صمدا" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ الْوَلِيدُ بْنُ كَامِلٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ الْبَجَلِيُّ، حَدَّثَنِي الْمُهَلَّبُ بْنُ حُجْرٍ الْبَهْرَانِيُّ ، عَنْ ضُبَاعَةَ بِنْتِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِيهَا ، أَنَّهُ قَالَ: " مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى إِلَى عَمُودٍ وَلَا عُودٍ وَلَا شَجَرَةٍ إِلَّا جَعَلَهُ عَلَى حَاجِبِهِ الْأَيْمَنِ وَالْأَيْسَرِ، وَلَا يَصْمُدُ لَهُ صَمْدًا" .
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کسی ستون، لکڑی یا درخت کو سترہ بنا کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی دائیں یا بائیں بھوؤں کی جانب رکھا ہوتا تھا عین سامنے نہیں رکھتے تھے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، الوليد بن كامل لين الحديث، والمهلب بن حجر وضباعة مجهولان
حدیث نمبر: 23821
Save to word اعراب
حدثنا يزيد بن عبد ربه ، حدثنا بقية ، حدثني الوليد بن كامل ، عن الحجر او ابي الحجر بن المهلب البهراني ، قال: حدثتني ضبيعة بنت المقدام بن معدي كرب ، عن ابيها ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان " إذا صلى إلى عمود او خشبة او شبه ذلك، لا يجعله نصب عينيه، ولكنه يجعله على حاجبه الايسر" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ كَامِلٍ ، عَنِ الْحُجْرِ أَوْ أَبِي الْحُجْرِ بْنِ الْمُهَلَّبِ الْبَهْرَانِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي ضُبَيْعَةُ بِنْتُ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ ، عَنْ أَبِيهَا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " إِذَا صَلَّى إِلَى عَمُودٍ أَوْ خَشَبَةٍ أَوْ شِبْهِ ذَلِكَ، لَا يَجْعَلُهُ نُصْبَ عَيْنَيْهِ، وَلَكِنَّهُ يَجْعَلُهُ عَلَى حَاجِبِهِ الْأَيْسَرِ" .
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کسی ستون، لکڑی یا درخت کو سترہ بنا کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی دائیں یا بائیں بھوؤں کی جانب رکھا ہوتا تھا عین سامنے نہیں رکھتے تھے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الوليد بن كامل، والمهلب بن حجر وضباعة مجهولان
حدیث نمبر: 23822
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن المقداد بن الاسود ، قال: قدمت المدينة انا وصاحب لي، فتعرضنا للناس فلم يضفنا احد، فاتينا النبي صلى الله عليه وسلم فذكرنا له، فذهب بنا إلى منزله وعنده اربع اعنز، فقال: " احتلبهن يا مقداد وجزئهن اربعة اجزاء، واعط كل إنسان جزاه"، فكنت افعل ذلك، فرفعت للنبي صلى الله عليه وسلم جزاه ذات ليلة، فاحتبس واضطجعت على فراشي، فقالت لي نفسي: إن النبي صلى الله عليه وسلم قد اتى اهل بيت من الانصار، فلو قمت فشربت هذه الشربة، فلم تزل بي حتى قمت فشربت جزاه، فلما دخل في بطني وتقار اخذني ما قدم وما حدث، فقلت: يجيء النبي صلى الله عليه وسلم جائعا ظمآنا ولا يرى في القدح شيئا، فتسجيت ثوبا على وجهي، وجاء النبي صلى الله عليه وسلم فسلم تسليما يسمع اليقظان، ولا يوقظ النائم، فكشف عنه فلم ير شيئا، فرفع راسه إلى السماء، فقال:" اللهم اسق من سقاني، واطعم من اطعمني" فاغتنمت دعوته، وقمت فاخذت الشفرة، فدنوت من الاعنز، فجعلت اجسهن ايهن اسمن لاذبحها، فوقعت يدي على ضرع إحداهن، فإذا هي حافل، ونظرت إلى الاخرى فإذا هي حافل، ونظرت كلهن فإذا هن حفل، فحلبت في الإناء فاتيته به، فقلت: اشرب، فقال:" الخبر يا مقداد"، فقلت: اشرب ثم الخبر، فقال:" بعض سوآتك يا مقداد"، فشرب ثم قال:" اشرب"، فقلت: اشرب يا نبي الله، فشرب حتى تضلع، ثم اخذته فشربته، ثم اخبرته الخبر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هيه"، فقلت: كان كذا وكذا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هذه بركة نزلت من السماء، افلا اخبرتني حتى اسقي صاحبيك"، فقلت: إذا شربت البركة انا وانت، فلا ابالي من اخطات .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي، فَتَعَرَّضْنَا لِلنَّاسِ فَلَمْ يُضِفْنَا أَحَدٌ، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَا لَهُ، فَذَهَبَ بِنَا إِلَى مَنْزِلِهِ وَعِنْدَهُ أَرْبَعُ أَعْنُزٍ، فَقَالَ: " احْتَلِبْهُنَّ يَا مِقْدَادُ وَجَزِّئْهُنَّ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ، وَأَعْطِ كُلَّ إِنْسَانٍ جُزْأَهُ"، فَكُنْتُ أَفْعَلُ ذَلِكَ، فَرَفَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُزْأَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَاحْتَبَسَ وَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي، فَقَالَتْ لِي نَفْسِي: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَتَى أَهْلَ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَلَوْ قُمْتَ فَشَرِبْتَ هَذِهِ الشَّرْبَةَ، فَلَمْ تَزَلْ بِي حَتَّى قُمْتُ فَشَرِبْتُ جُزْأَهُ، فَلَمَّا دَخَلَ فِي بَطْنِي وَتَقَارَّ أَخَذَنِي مَا قَدُمَ وَمَا حَدُثَ، فَقُلْتُ: يَجِيءُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائِعًا ظَمْآنًا وَلَا يَرَى فِي الْقَدَحِ شَيْئًا، فَتَسَجَّيْتُ ثَوْبًا عَلَى وَجْهِي، وَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ تَسْلِيمًا يُسْمِعُ الْيَقْظَانَ، وَلَا يُوقِظُ النَّائِمَ، فَكَشَفَ عَنْهُ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَال:" اللَّهُمَّ اسْقِ مَنْ سَقَانِي، وَأَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي" فَاغْتَنَمْتُ دَعْوَتَهُ، وَقُمْتُ فَأَخَذْتُ الشَّفْرَةَ، فَدَنَوْتُ مِنَ الْأَعْنُزِ، فَجَعَلْتُ أَجُسُّهُنَّ أَيُّهُنَّ أَسْمَنُ لِأَذْبَحَهَا، فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى ضَرْعِ إِحْدَاهُنَّ، فَإِذَا هِيَ حَافِلٌ، ونَظَرْتُ إِلَى الْأُخْرَى فَإِذَا هِيَ حَافِلٌ، ونَظَرْتُ كُلَّهُنَّ فَإِذَا هُنَّ حُفَّلٌ، فَحَلَبْتُ فِي الْإِنَاءِ فَأَتَيْتُهُ بِهِ، فَقُلْتُ: اشْرَبْ، فَقَالَ:" الْخَبَرَ يَا مِقْدَادُ"، فَقُلْتُ: اشْرَبْ ثُمَّ الْخَبَرَ، فَقَالَ:" بَعْضُ سَوْآتِكَ يَا مِقْدَادُ"، فَشَرِبَ ثُمَّ قَالَ:" اشْرَبْ"، فَقُلْتُ: اشْرَبْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، فَشَرِبَ حَتَّى تَضَلَّعَ، ثُمَّ أَخَذْتُهُ فَشَرِبْتُه، ثُمَّ أَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هِيهْ"، فَقُلْتُ: كَانَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذِهِ بَرَكَةٌ نَزَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ، أَفَلَا أَخْبَرْتَنِي حَتَّى أَسْقِيَ صَاحِبَيْكَ"، فَقُلْتُ: إِذَا شَرِبْتُ الْبَرَكَةَ أَنَا وَأَنْتَ، فَلَا أُبَالِي مَنْ أَخْطَأَتْ .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اور میرے دو ساتھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہمیں سخت بھوک لگ رہی تھی، ہم نے اپنے آپ کو صحابہ رضی اللہ عنہ پر پیش کیا تو ان میں سے کسی نے بھی ہمیں قبول نہیں کیا پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر کی طرف لے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں) چار بکریاں تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا مقداد! ان بکریوں کا دودھ نکالو، اسے چار حصوں میں تقسیم کرلو چناچہ میں نے ایسا ہی کیا ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رات واپسی میں تاخیر ہوگئی میرے دل میں خیال آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی انصاری کے پاس جا کر کھا پی لیا ہوگا اور سیراب ہوگئے ہوں گے اگر میں نے ان کے حصے کا دودھ پی لیا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میں اسی طرح سوچتا رہا حتٰی کہ کھڑے ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کا دودھ پی گیا اور پیالہ ڈھک دیا جب میں دودھ پی چکا تو میرے دل میں طرح طرح کے خیالات ابھرنے لگے اور میں سوچنے لگا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کی حالت میں تشریف لائے اور انہیں کچھ نہ ملا تو کیا ہوگا؟ میں نے اپنی چادر اوڑھ لی اور اپنے ذہن میں یہ خیالات سوچنے لگا ابھی میں انہی خیالات میں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آہستہ سے سلام کیا جو جاگنے والا تو سن لے لیکن سونے والا نہ جاگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دودھ کی طرف آئے برتن کھولا تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! تو اسے کھلا جو مجھے کھلائے اور تو اسے پلا جو مجھے پلائے (میں نے اس دعاء کو غنیمت سمجھا اور چھری پکڑ کر بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ان بکریوں میں سے جو موٹی بکری ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ذبح کر ڈالوں میں نے دیکھا کہ سب بکریوں کے تھن دودھ سے بھرے پڑے تھے پھر میں نے ایک برتن میں دودھ نکالا یہاں تک کہ وہ بھر گیا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے رات کو اپنے حصہ کا دودھ پی لیا تھا؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ دودھ پئیں پھر آپ کو واقعہ بتاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا پھر آپ نے مجھے دیا پھر جب مجھے معلوم ہوگیا کہ آپ سیر ہوگئے ہیں تو میں نے بھی اسے پی لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب وہ واقعہ بتاؤ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہ واقعہ ذکر کردیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت کا دودھ سوائے رحمت کے اور کچھ نہ تھا تم نے مجھے پہلے ہی کیوں نہ بتادیا تاکہ ہم اپنے ساتھیوں کو بھی جگا دیتے وہ بھی اس میں سے دودھ پی لیتے میں نے عرض کیا جب آپ کو اور مجھے یہ برکت حاصل ہوگئی ہے اب مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کسے اس کا حصہ نہیں ملا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 23823
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن ميمون بن ابي شبيب ، قال: جعل رجل يمدح عاملا لعثمان، فعمد المقداد ، فجعل يحثو التراب في وجهه، فقال له عثمان: ما هذا؟ قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا رايتم المداحين، فاحثوا في وجوههم التراب" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ ، قَالَ: جَعَلَ رجلُ يَمْدَحُ عَامِلًا لِعُثْمَانَ، فَعَمَدَ الْمِقْدَادُ ، فَجَعَلَ يَحْثُو التُّرَابَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: مَا هَذَا؟ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا رَأَيْتُمْ الْمَدَّاحِينَ، فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمْ التُّرَابَ" .
میمون بن ابی شبیب کہتے ہیں کہ ایک عامل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف کرنے لگا تو حضرت مقداد رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور اس کے منہ پر مٹی پھینکنے لگے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا یہ کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جب تم کسی کو تعریف کرتے ہوئے دیکھا کرو تو اس کے چہرے پر مٹی پھینکا کرو۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، و يغلب على الظن أن ميمون بن أبى شبيب لم يدرك عثمان، ولم يحضر هذه القصة، لكنه متابع
حدیث نمبر: 23824
Save to word اعراب
حدثنا سفيان ، عن ابن ابي نجيح ، عن مجاهد ، ان سعيد بن العاص بعث وفدا من العراق إلى عثمان، فجاءوا يثنون عليه، فجعل المقداد يحثو في وجوههم التراب، وقال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نحثو في وجوه المداحين التراب، وقال سفيان مرة: فقام المقداد ، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " احثوا في وجوه المداحين التراب" ، قال الزبير: اما المقداد فقد قضى ما عليه.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ بَعَثَ وَفْدًا مِنَ الْعِرَاقِ إِلَى عُثْمَانَ، فَجَاءُوا يُثْنُونَ عَلَيْهِ، فَجَعَلَ الْمِقْدَادُ يَحْثُو فِي وُجُوهِهِمْ التُّرَابَ، وَقَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحْثُوَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: فَقَامَ الْمِقْدَادُ ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " احْثُوا فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ" ، قَالَ الزُّبَيْرُ: أَمَّا الْمِقْدَادُ فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ.
میمون بن ابی شبیب کہتے ہیں کہ ایک عامل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف کرنے لگا تو حضرت مقداد رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور اس کے منہ پر مٹی پھینکنے لگے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا یہ کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جب تم کسی کو تعریف کرتے ہوئے دیکھا کرو تو اس کے چہرے پر مٹی پھینکا کرو۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، إسناده مرسل، مجاهد ابن جبر لم يسمع من المقداد بن الأسود
حدیث نمبر: 23825
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريح ، حدثنا عطاء ، عن عائش بن انس البكري ، قال: تذاكر علي ، وعمار ، والمقداد المذي، فقال علي: إني رجل مذاء، وإني استحي ان اساله من اجل ابنته تحتي، فقال لاحدهما لعمار او للمقداد، قال عطاء: سماه لي عائش فنسيته: سل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالته، فقال: " ذاك المذي، ليغسل ذاك منه"، قلت: ما ذاك منه؟ قال: ذكره" ويتوضا فيحسن وضوءه او يتوضا مثل وضوئه للصلاة وينضح في فرجه" او" فرجه" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْحٍ ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ ، عَنْ عَائِشِ بْنِ أَنَسٍ الْبَكْرِيِّ ، قَالَ: تَذَاكَرَ عَلِيٌّ ، وَعَمَّارٌ ، وَالْمِقْدَادُ الْمَذْيَ، فقال علي: إني رجل مذاء، وإني أستحي أن أسأله من أجل ابنته تحتي، فقال لأحدهما لعمار أو للمقداد، قَالَ عَطَاءٌ: سَمَّاهُ لِي عَائِشٌ فَنَسِيتُهُ: سَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " ذَاكَ الْمَذْيُ، لِيَغْسِلْ ذَاكَ مِنْهُ"، قُلْتُ: مَا ذَاكَ مِنْهُ؟ قَالَ: ذَكَرَهُ" وَيَتَوَضَّأْ فَيُحْسِنْ وُضُوءَهُ أَوْ يَتَوَضَّأْ مِثْلَ وُضُوئِهِ لِلصَّلَاةِ وَيَنْضَحْ فِي فَرْجِهِ" أَوْ" فَرْجَهُ" .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کا حکم پوچھو جو اپنی بیوی سے " کھیلتا " ہے اور اس کی شرمگاہ سے مذی کا خروج ہوتا ہے جو " آب حیات " نہیں ہوتی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا وہ اپنی شرمگاہ کو دھوئے اور نماز والا وضو کرلے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عائش بن أنس
حدیث نمبر: 23826
Save to word اعراب
حدثنا يحيى ، عن وائل بن داود ، قال: سمعت عبد الله البهي ، ان ركبا وقفوا على عثمان بن عفان، فمدحوه واثنوا عليه، وثم المقداد بن الاسود ، فاخذ قبضة من الارض، فحثاها في وجوه الركب، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " إذا سمعتم المداحين، فاحثوا في وجوههم التراب" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ الْبَهِيَّ ، أَنَّ رَكْبًا وَقَفُوا عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَمَدَحُوهُ وَأَثْنَوْا عَلَيْهِ، وَثَمَّ الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ ، فَأَخَذَ قَبْضَةً مِنَ الْأَرْضِ، فَحَثَاهَا فِي وُجُوهِ الرَّكْبِ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا سَمِعْتُمْ الْمَدَّاحِينَ، فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمْ التُّرَابَ" .
میمون بن ابی شبیب کہتے ہیں کہ ایک عامل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف کرنے لگا تو حضرت مقداد رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور اس کے منہ پر مٹی پھینکنے لگے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا یہ کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جب تم کسی کو تعریف کرتے ہوئے دیکھا کرو تو اس کے چہرے پر مٹی پھینکا کرو۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد مرسل، عبدالله البهي لم يدرك عثمان ولا المقداد
حدیث نمبر: 23827
Save to word اعراب
حدثنا وكيع ، وعبد الرحمن ، قالا: حدثنا سفيان ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن همام بن الحارث ، قال: جاء رجل إلى عثمان فاثنى عليه في وجهه، قال: فجعل المقداد بن الاسود يحثو في وجهه التراب، ويقول:" امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا لقينا المداحين ان نحثو في وجوههم التراب" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُثْمَانَ فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي وَجْهِهِ، قَالَ: فَجَعَلَ الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ يَحْثُو فِي وَجْهِهِ التُّرَابَ، ويَقُولُ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَقِينَا الْمَدَّاحِينَ أَنْ نَحْثُوَ فِي وُجُوهِهِمْ التُّرَابَ" .
میمون بن ابی شبیب کہتے ہیں کہ ایک عامل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف کرنے لگا تو حضرت مقداد رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور اس کے منہ پر مٹی پھینکنے لگے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا یہ کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جب تم کسی کو تعریف کرتے ہوئے دیکھا کرو تو اس کے چہرے پر مٹی پھینکا کرو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 3002
حدیث نمبر: 23828
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن حبيب ، عن مجاهد ، عن ابي معمر ، قال: قام رجل يثني على امير من الامراء، فجعل المقداد يحثي في وجهه التراب، وقال:" امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نحثي في وجوه المداحين التراب" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ يُثْنِي عَلَى أَمِيرٍ مِنَ الْأُمَرَاءِ، فَجَعَلَ الْمِقْدَادُ يَحْثِي فِي وَجْهِهِ التُّرَابَ، وَقَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحْثِيَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ" .
میمون بن ابی شبیب کہتے ہیں کہ ایک عامل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف کرنے لگا تو حضرت مقداد رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور اس کے منہ پر مٹی پھینکنے لگے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا یہ کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جب تم کسی کو تعریف کرتے ہوئے دیکھا کرو تو اس کے چہرے پر مٹی پھینکا کرو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 3002
حدیث نمبر: 23829
Save to word اعراب
قرات على عبد الرحمن : مالك ، وحدثنا إسحاق ، اخبرنا مالك ، عن ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله، عن سليمان بن يسار ، عن المقداد بن الاسود ، ان علي بن ابي طالب امره ان يسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل إذا دنا من اهله، فخرج منه المذي، ماذا عليه؟ قال علي: فإن عندي ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانا استحيي ان اساله، قال المقداد: فسالت رسول الله عن ذلك، فقال: " إذا وجد احدكم ذلك، فلينضح فرجه، وليتوضا وضوءه للصلاة" 23124 حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، وحجاج ، اخبرنا شعبة ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن همام بن الحارث ، ان رجلا جعل يمدح عثمان، فذكر مثل معنى حديث سفيان .قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، وَحَدَّثَنَا إسحاق ، أخبرنا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سُليمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَمَرَهُ أَنْ يَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ إِذَا دَنَا مِنْ أَهْلِهِ، فَخَرَجَ مِنْهُ الْمَذْيُ، مَاذَا عَلَيْهِ؟ قَالَ عَلِيٌّ: فَإِنَّ عِنْدِي ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا أَسْتَحْيِي أَنْ أَسْأَلَهُ، قَالَ الْمِقْدَادُ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ، فَلْيَنْضَحْ فَرْجَهُ، وَلْيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ" 23124 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، وَحَجَّاجٌ ، أخبرنا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّ رَجُلًا جَعَلَ يَمْدَحُ عُثْمَانَ، فَذَكَرَ مِثْلَ مَعْنَى حَدِيثِ سُفْيَانَ .
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کا حکم پوچھو جو اپنی بیوی سے " کھیلتا " ہے اور اس کی شرمگاہ سے مذی کا خروج ہوتا ہے جو " آب حیات " نہیں ہوتی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا وہ اپنی شرمگاہ کو دھوئے اور نماز والا وضو کرلے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، سليمان بن يسار لم يدرك المقداد
حدیث نمبر: 23830
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة، وحجاج اخبرنا شعبة عن منصور عن إبراهيم عن همام بن الحارث ان رجلا جعل يمدح عثمان فذكر مثل معنى حديث سفيانحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَحَجَّاجٌ أخبرنا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنِ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ رَجُلًا جَعَلَ يَمْدَحُ عُثْمَانَ فَذَكَرَ مِثْلَ مَعْنَى حَدِيثِ سُفْيَانَ

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 3002
حدیث نمبر: 23831
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني ابن شهاب ، عن عطاء بن يزيد الليثي ، عن عبيد الله بن عدي بن الخيار ، انه قال: اخبرني ان المقداد اخبره، انه قال: يا رسول الله، ارايت إن لقيت رجلا من الكفار فقاتلني فاختلفنا ضربتين، فضرب إحدى يدي بالسيف، فقطعها ثم لاذ مني بشجرة، فقال: اسلمت لله، اقاتله يا رسول الله بعد ان قالها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تقتله"، قلت: يا رسول الله، إنه قطع إحدى يدي، ثم قال ذلك بعد ما قطعها، اقاتله؟ فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم:" لا تقتله، فإن قتلته فإنه بمنزلتك قبل ان تقتله، وانت بمنزلته قبل ان يقول كلمته التي قال" ، حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عطاء بن يزيد الليثي ، عن عبيد الله بن عدي بن الخيار ، ان المقداد بن الاسود حدثه، قال: قلت: يا رسول الله، ارايت إن اختلفت انا ورجل، فذكر الحديث، إلا انه قال: اقتله ام ادعه؟.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أخبرنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَّ الْمِقْدَادَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلًا مِنَ الْكُفَّارِ فَقَاتَلَنِي فَاخْتَلَفْنَا ضَرْبَتَيْنِ، فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَيَّ بِالسَّيْفِ، فَقَطَعَهَا ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، فَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلَّهِ، أُقَاتِلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقْتُلْهُ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَطَعَ إِحْدَى يَدَيَّ، ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ بَعْدَ مَا قَطَعَهَا، أُقَاتِلُهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي الله عَلَيْه وَسَلَّمَ:" لَا تَقْتُلْهُ، فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَأَنْتَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ" ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ ، أَنَّ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ حَدَّثَه، ُقَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ اخْتَلَفْتُ أَنَا وَرَجُلٌ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: أَقْتُلُهُ أَمْ أَدَعُهُ؟.
حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی مجھ پر تلوار سے حملہ کرے اور میرا ہاتھ کاٹ دے پھر مجھ سے بچنے کے لئے ایک درخت کی آڑ حاصل کرلے اور اسی وقت " لا الہ الا اللہ " پڑھ لے تو کیا میں اسے قتل کرسکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں میں نے دو تین مرتبہ اپنا سوال دہرایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ورنہ کلمہ پڑھنے سے پہلے وہ جیسا تھا تم اس کی طرح ہوجاؤ گے اور اس واقعے سے پہلے تم جس طرح تھے وہ اس طرح ہوجائے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4019، م: 95
حدیث نمبر: 23832
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرزاق حدثنا معمر عن الزهري عن عطاء بن يزيد الليثي عن عبيد الله بن عدي بن الخيار ان المقداد بن الاسود حدثه قال: قلت: يا رسول الله ارايت إن اختلفت انا ورجل فذكر الحديث إلا انه قال: اقتله ام ادعه؟حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ أَنَّ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ حَدَّثَه ُقَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ اخْتَلَفْتُ أَنَا وَرَجُلٌ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: أَقْتُلُهُ أَمْ أَدَعُهُ؟

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4019، م: 95

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.