حدثنا سفيان ، عن الزهري ، سمع عروة ، يقول: انا ابو حميد الساعدي ، قال: استعمل النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من الازد، يقال له: ابن اللتبية على صدقة، فجاء، فقال: هذا لكم وهذا اهدي لي، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، فقال: " ما بال العامل نبعثه فيجيء، فيقول: هذا لكم وهذا اهدي لي! افلا جلس في بيت ابيه وامه فينظر ايهدى إليه ام لا؟! والذي نفس محمد بيده، لا ياتي احد منكم منها بشيء إلا جاء به يوم القيامة على رقبته، إن كان بعيرا له رغاء، او بقرة لها خوار، او شاة تيعر"، ثم رفع يديه حتى راينا عفرة يديه، ثم قال:" اللهم هل بلغت" ثلاثا ، وزاد هشام بن عروة، قال ابو حميد: سمع اذني، وابصر عيني، وسلوا زيد بن ثابت.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، سَمِعَ عُرْوَةَ ، يَقُولُ: أَنَا أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ ، قَالَ: اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الْأَزْدِ، يُقَالُ لَهُ: ابْنُ اللُّتْبِيَّةِ عَلَى صَدَقَةٍ، فَجَاءَ، فَقَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: " مَا بَالُ الْعَامِلِ نَبْعَثُهُ فَيَجِيءُ، فَيَقُولُ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي! أَفَلَا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَيَنْظُرَ أَيُهْدَى إِلَيْهِ أَمْ لَا؟! وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَأْتِي أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا بِشَيْءٍ إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ"، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَةَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ" ثَلَاثًا ، وَزَادَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: سَمِعَ أُذُنِي، وَأَبْصَرَ عَيْنِي، وَسَلُوا زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ.
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صدقات وصول کرنے کے لئے قبیلہ ازد کے ایک آدمی " جس کا نام ابن لتبیہ تھا " کو مقرر کیا وہ صدقات وصول کر کے لایا تو کہنے لگا کہ یہ آپ کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ ان عمال کا کیا معاملہ ہے؟ ہم انہیں بھیجتے ہیں تو وہ آکر کہتے ہیں کہ یہ آپ کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہیں بیٹھ جاتا کہ دیکھے اب اسے کوئی ہدیہ ملتا ہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تم میں سے جو شخص بھی کوئی چیز لے کر آتا ہے تو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ وہ چیز اس کی گر دن پر سوار ہوگی، اگر اونٹ ہوا تو اس کی آواز نکل رہی ہوگی گائے ہوئی تو وہ اپنی آواز نکال رہی ہوگی بکری ہوئی تو وہ ممنا رہی ہوگی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے یہاں تک کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک بغلوں کی سفیدی دیکھی پھر تین مرتبہ فرمایا اے اللہ! کیا میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا؟۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عبد الحميد بن جعفر ، قال: حدثني محمد بن عطاء ، عن ابي حميد الساعدي ، قال: سمعته وهو في عشرة من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، احدهم ابو قتادة بن ربعي ، يقول: انا اعلمكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا له: ما كنت اقدمنا صحبة، ولا اكثرنا له تباعة! قال: بلى، قالوا: فاعرض، قال: كان " إذا قام إلى الصلاة اعتدل قائما، ورفع يديه حتى حاذى بهما منكبيه، فإذا اراد ان يركع رفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه، ثم قال:" الله اكبر" فركع ثم اعتدل فلم يصب راسه ولم يقنعه، ووضع يديه على ركبتيه، ثم قال:" سمع الله لمن حمده" ثم رفع واعتدل حتى رجع كل عظم في موضعه معتدلا، ثم هوى ساجدا، وقال:" الله اكبر" ثم جافى وفتح عضديه عن بطنه، وفتح اصابع رجليه، ثم ثنى رجله اليسرى وقعد عليها، واعتدل حتى رجع كل عظم في موضعه، ثم هوى ساجدا، وقال:" الله اكبر" ثم ثنى رجله وقعد عليها حتى يرجع كل عضو إلى موضعه، ثم نهض فصنع في الركعة الثانية مثل ذلك، حتى إذا قام من السجدتين كبر ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه كما صنع حين افتتح الصلاة، ثم صنع كذلك حتى إذا كانت الركعة التي تنقضي فيها الصلاة، اخر رجله اليسرى، وقعد على شقه متوركا، ثم سلم .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ وَهُوَ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَدُهُمْ أَبُو قَتَادَةَ بْنُ رِبْعِيٍّ ، يَقُولُ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا لَهُ: مَا كُنْتَ أَقْدَمَنَا صُحْبَةً، وَلَا أَكْثَرَنَا لَهُ تَبَاعَةً! قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، قَالَ: كَانَ " إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَى بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُ أَكْبَرُ" فَرَكَعَ ثُمَّ اعْتَدَلَ فَلَمْ يَصُبَّ رَأْسَهُ وَلَمْ يَقْنَعْهُ، وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" ثُمَّ رَفَعَ وَاعْتَدَلَ حَتَّى رَجَعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ هَوَى سَاجِدًا، وَقَالَ:" اللَّهُ أَكْبَرُ" ثُمَّ جَافَى وَفَتَحَ عَضُدَيْهِ عَنْ بَطْنِهِ، وَفَتَحَ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ عَلَيْهَا، وَاعْتَدَلَ حَتَّى رَجَعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ، ثُمَّ هَوَى سَاجِدًا، وَقَالَ:" اللَّهُ أَكْبَرُ" ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ وَقَعَدَ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عُضْوٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ نَهَضَ فَصَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ، حَتَّى إِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا صَنَعَ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ صَنَعَ كَذَلِكَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ الرَّكْعَةُ الَّتِي تَنْقَضِي فِيهَا الصَّلَاةُ، أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَقَعَدَ عَلَى شِقِّهِ مُتَوَرِّكًا، ثُمَّ سَلَّمَ .
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں " جن میں حضرت ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ شامل تھے " یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز آپ سب لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے فرمایا کہ آپ ہم سے زیادہ قدیم صحبت نہیں رکھتے اور نہ ہی ہم سے زیادہ ان کے ساتھ رہے انہوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہوجاتے اپنے ہاتھ کندھوں تک بلند کرتے جب رکوع کرنا چاہتے تو کندھوں تک ہاتھ بلند کر کے رفع الیدین کرتے تھے پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع کرتے اور اعتدال کے ساتھ رکوع کرتے نہ سر زیادہ جھکاتے اور نہ زیادہ اونچا رکھتے اور اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھتے پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور سر اٹھا کر اعتدال کے ساتھ کھڑے ہوجاتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ قائم ہوجاتی۔
پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے میں گرجاتے اپنے بازوؤں کو جدا اور کھلا رکھتے تھے پیٹ سے لگنے نہیں دیتے تھے اپنے پاؤں کی انگلیاں کشادہ رکھتے پھر بائیں پاؤں کو موڑ کر اس پر بیٹھ جاتے اور اس طرح اعتدال کے ساتھ بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنی اپنی جگہ قائم ہوجاتی پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے دوسرا سجدہ کرتے پھر باؤں پاؤں موڑ کر بیٹھ جاتے اور اس طرح اعتدال کے ساتھ بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنی اپنی جگہ قائم ہوجاتی پھر کھڑے ہو کر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے تھے حتیٰ کہ جب آخری رکعت آتی جس میں نماز ختم ہوجاتی ہے تو اپنے بائیں پاؤں کو پیچھے رکھ کر اپنے ایک پہلو پر سرین کے بل بیٹھ جاتے اور پھر اختتام پر سلام پھیر دیتے۔
قرات على عبد الرحمن : مالك ، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن ابيه ، عن عمرو بن سليم ، انه قال: اخبرني ابو حميد الساعدي، انهم قالوا: يا رسول الله، كيف نصلي عليك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قولوا: اللهم صل على محمد وازواجه وذريته، كما صليت على آل إبراهيم، وبارك على محمد وازواجه وذريته، كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد" .قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ، أَنَّهُمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ" .
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درود بھیجنے کا طریقہ پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہا کرو اے اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اہل بیت یعنی ازواج مطہرات اور اولاد پر اپنی رحمتیں اسی طرح نازل فرما جیسے آل ابراہیم پر نازل فرمائیں بیشک تو قابل تعریف بزرگی والا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اہل بیت یعنی ازواج مطہرات اور اولاد پر اپنی برکتیں اسی طرح نازل فرما جیسے آل ابراہیم پر نازل فرمائیں بیشک تو قابل تعریف و بزرگی والا ہے۔
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے پاس پیغام نکاح بھیجتا ہے تو اس عورت کو دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ نکاح کا ارادہ بھی ہو اگرچہ اس عورت کو پتہ نہ چلے۔
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے پاس پیغام نکاح بھیجتا ہے تو اس عورت کو دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ نکاح کا ارادہ بھی ہو اگرچہ اس عورت کو پتہ نہ چلے۔
حدثنا عفان ، حدثنا وهيب بن خالد ، حدثنا عمرو بن يحيى ، عن العباس بن سهل بن سعد الساعدي ، عن ابي حميد الساعدي ، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام تبوك حتى جئنا وادي القرى، فإذا امراة في حديقة لها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحابه: " اخرصوا" فخرص القوم، وخرص رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة اوسق، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للمراة:" احصي ما يخرج منها حتى ارجع إليك إن شاء الله"، قال: فخرج حتى قدم تبوك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنها ستبيت عليكم الليلة ريح شديدة، فلا يقوم منكم فيها رجل، فمن كان له بعير فليوثق عقاله"، قال: قال ابو حميد: فعقلناها، فلما كان من الليل هبت علينا ريح شديدة، فقام فيها رجل، فالقته في جبل طيئ، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ملك ايلة، فاهدى لرسول الله صلى الله عليه وسلم بغلة بيضاء، فكساه رسول الله صلى الله عليه وسلم بردا، وكتب له رسول الله صلى الله عليه وسلم ببحره، قال: ثم اقبل واقبلنا معه حتى جئنا وادي القرى، فقال للمراة:" كم حديقتك؟" قالت: عشرة اوسق، خرص رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني متعجل، فمن احب منكم ان يتعجل فليفعل" . قال: قال: فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وخرجنا معه حتى إذا اوفى على المدينة، قال: " هي هذه طابة" فلما راى احدا، قال:" هذا احد يحبنا ونحبه . " الا اخبركم بخير دور الانصار؟" قال: قلنا: بلى يا رسول الله، قال:" خير دور الانصار بنو النجار، ثم دار بني عبد الاشهل، ثم دار بني ساعدة، ثم في كل دور الانصار خير" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ تَبُوكَ حَتَّى جِئْنَا وَادِيَ الْقُرَى، فَإِذَا امْرَأَةٌ فِي حَدِيقَةٍ لَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: " اخْرُصُوا" فَخَرَصَ الْقَوْمُ، وَخَرَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ أَوْسُقٍ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمَرْأَةِ:" أَحْصِي مَا يَخْرُجُ مِنْهَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ"، قَالَ: فَخَرَجَ حَتَّى قَدِمَ تَبُوكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا سَتَبِيتُ عَلَيْكُمْ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ، فَلَا يَقُومُ مِنْكُمْ فِيهَا رَجُلٌ، فَمَنْ كَانَ لَهُ بَعِيرٌ فَلْيُوثِقْ عِقَالَهُ"، قَالَ: قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: فَعَقَلْنَاهَا، فَلَمَّا كَانَ مِنَ اللَّيْلِ هَبَّتْ عَلَيْنَا رِيحٌ شَدِيدَةٌ، فَقَامَ فِيهَا رَجُلٌ، فَأَلْقَتْهُ فِي جَبَلِ طَيِّئٍ، ثُمَّ جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَلِكُ أَيْلَةَ، فَأَهْدَى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَغْلَةً بَيْضَاءَ، فَكَسَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُرْدًا، وَكَتَبَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَحْرِهِ، قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ وَأَقْبَلْنَا مَعَهُ حَتَّى جِئْنَا وَادِيَ الْقُرَى، فَقَالَ لِلْمَرْأَةِ:" كَمْ حَدِيقَتُكِ؟" قَالَتْ: عَشَرَةُ أَوْسُقٍ، خَرْصُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي مُتَعَجِّلٌ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَتَعَجَّلَ فَلْيَفْعَلْ" . قَالَ: قَالَ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى إِذَا أَوْفَى عَلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: " هِيَ هَذِهِ طَابَةُ" فَلَمَّا رَأَى أُحُدًا، قَالَ:" هَذَا أُحُدٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ . " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ؟" قَالَ: قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" خَيْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ بَنُو النَّجَّارِ، ثُمَّ دَارُ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، ثُمَّ دَارُ بَنِي سَاعِدَةَ، ثُمَّ فِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَيْرٌ" .
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ تبوک کے لئے روانہ ہوئے جب ہم وادی قری میں پہنچے تو وہاں ایک عورت اپنے باغ میں نظر آئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس باغ کا پھل کاٹو لوگ پھل کاٹنے لگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پھل کاٹے جو دس وسق بنے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا اس نکلنے والے پھل شمار کرو تاآنکہ میں تمہارے پاس واپس آجاؤں۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے یہاں تک کہ تبوک پہنچ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج رات تیز آندھی آئے گی لہٰذا تم میں سے کوئی شخص کھڑا نہ رہے اور جس کے پاس اونٹ ہو وہ اس کی رسی کو باندھ دے چناچہ ہم نے اپنے اونٹوں کو رسی باندھ لی اور رات ہوئی تو واقعی تیز آندھی آئی اور ایک آدمی اس میں کھڑا رہا تو اسے ہوا نے اٹھا کر جبل طی میں لے جا پھینکا۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایلہ کا بادشاہ آیا اور ایک سفید خچر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک قیمتی چادر پہنائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے پوچھا کہ تمہارے باغ میں کتنا پھل نکلا؟ اس نے بتایا کہ دس وسق جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاٹے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب میں جلد روانہ ہو رہا ہوں تم میں سے جو شخص جلدی جانا چاہتا ہے وہ ایسا کرلے یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوگئے ہم بھی چل پڑے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو فرمایا یہ طابہ ہے جب احد پہاڑ کو دیکھا تو فرمایا یہ احد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں کیا میں تمہیں انصار کے بہترین خاندانوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کے بہترین خاندان بنو نجار ہیں پھر بنو عبدالاشہل کا خاندان ہے پھر بنوساعدہ کا خاندان ہے پھر انصار کے ہر خاندان میں خیر ہے۔
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے لئے اپنے کسی بھائی کا مال ناحق لینا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال حرام قرار دیا ہے۔ حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے لئے اپنے کسی بھائی کی لاٹھی بھی اس کی دلی رضا مندی کے بغیر لیناجائز نہیں ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال حرام قرار دیا ہے۔
حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ اور ابو اسید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میرے حوالے سے کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمہارے دل شناسا ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم ہوجائے اور تم اس سے قرب محسوس کرو تو میں اس بات کا تم سے زیادہ حقدار ہوں اور اگر کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل نامانوس ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم نہ ہو اور تم اس سے دوری محسوس کرو تو میں تمہاری نسبت اس سے بہت زیادہ دور ہوں۔
حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ اور ابو اسید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو یوں کہے " اللہم افتح لی ابواب رحمتک " اور جب نکلے تو یوں کہے " اللہم انی اسالک میں فضلک "
حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، وزكريا بن إسحاق ، قالا: حدثنا ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله ، يقول: اخبرني ابو حميد، انه اتى النبي صلى الله عليه وسلم بقدح لبن من النقيع، ليس بمخمر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لولا خمرته ولو بعود تعرضه" ، قال ابو حميد: إنما امر النبي صلى الله عليه وسلم بالاسقية ان توكا، وبالابواب ان تغلق ليلا، ولم يذكر زكريا قول ابي حميد بالليل.حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، وزَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أَبُو حُمَيْدٍ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحِ لَبَنٍ مِنَ النَّقِيعِ، لَيْسَ بِمُخَمَّرٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا خَمَّرْتَهُ وَلَوْ بِعُودٍ تَعْرُضُهُ" ، قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: إِنَّمَا أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَسْقِيَةِ أَنْ تُوكَأَ، وَبِالْأَبْوَابِ أَنْ تُغْلَقَ لَيْلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ زَكَرِيَّا قَوْلَ أَبِي حُمَيْدٍ بِاللَّيْلِ.
حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ مقام نقیع سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ لے کر حاضر ہوئے جو ڈھکا ہوا نہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اسے ڈھانپ کیوں نہ لیا اگرچہ لکڑی سے ہی ڈھانپتے، حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکیزوں کا منہ باندھنے کا اور رات کو دروازوں کو بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔