حدثنا روح ، حدثنا الاوزاعي ، عن حسان بن عطية ، عن خالد بن معدان ، عن ذي مخمر رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " سيصالحكم الروم صلحا آمنا، ثم تغزوهم غزوا، فتنصرون، وتسلمون، وتغنمون، ثم تنصرفون حتى تنزلوا بمرج ذي تلول، فيرفع رجل من النصرانية صليبا فيقول: غلب الصليب، فيغضب رجل من المسلمين فيقوم إليه فيدقه، فعند ذلك يغدر الروم ويجتمعون للملحمة" ، وقال روح مرة: وتسلمون، وتغنمون، وتقيمون، ثم تنصرفون.حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ حَسَّانَ بنِ عَطِيَّةَ ، عَنْ خَالِدِ بنِ مَعْدَانَ ، عَنْ ذِي مِخْمَرٍ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَاب النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " سَيُصَالِحُكُمْ الرُّومُ صُلْحًا آمِنًا، ثُمَّ تَغْزُوهُمْ غَزْوًا، فَتُنْصَرُونَ، وَتَسْلَمُونَ، وَتَغْنَمُونَ، ثُمَّ تَنْصَرِفُونَ حَتَّى تَنْزِلُواَ بمَرْجٍ ذِي تُلُولٍ، فَيَرْفَعُ رَجُلٌ مِنْ النَّصْرَانِيَّةِ صَلِيبا فَيَقُولُ: غَلَب الصَّلِيب، فَيَغْضَب رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَيَقُومُ إِلَيْهِ فَيَدُقُّهُ، فَعِنْدَ ذَلِكَ يَغْدُرُ الرُّومُ وَيَجْتَمِعُونَ لِلْمَلْحَمَةِ" ، وَقَالَ رَوْحٌ مَرَّةً: وَتَسْلَمُونَ، وَتَغْنَمُونَ، وَتُقِيمُونَ، ثُمَّ تَنْصَرِفُونَ.
حضرت ذومخمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب رومی تم سے امن وامان کی صلح کرلیں گے پھر تم ان کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ دشمن سے جنگ کرو گے تم اس میں کامیاب ہو کر صحیح سالم، مال غنیمت کے ساتھ واپس آؤ گے جب تم " ذی تلول " نامی جگہ پر پہنچو گے تو ایک عیسائی صلیب بلند کر کے کہے گا کہ صلیب غالب آگئی اس پر ایک مسلمان کو غصہ آئے گا اور وہ کھڑا ہو کر اسے جواب دے گا وہیں سے رومی اسے جواب دے گا وہیں سے رومی عہد شکنی کر کے جنگ کی تیاری کرنے لگیں گے۔
حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا مجالد بن سعيد ، حدثني الشعبي ، قال: سالت ابن عمر قلت: الجزور والبقرة تجزئ عن سبعة؟ قال: يا شعبي، ولها سبعة انفس، قال: قلت: إن اصحاب محمد يزعمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " سن الجزور والبقرة عن سبعة!" , قال: فقال ابن عمر لرجل: اكذاك يا فلان؟ قال: نعم، قال: ما شعرت بهذا.حَدَّثَنَا يُونُسُ بنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبدُ الْوَاحِدِ بنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنِي الشَّعْبيُّ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابنَ عُمَرَ قُلْتُ: الْجَزُورُ وَالْبقَرَةُ تُجْزِئُ عَنْ سَبعَةٍ؟ قَالَ: يَا شَعْبيُّ، وَلَهَا سَبعَةُ أَنْفُسٍ، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّ أَصْحَاب مُحَمَّدٍ يَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " سَنَّ الْجَزُورَ وَالْبقَرَةَ عَنْ سَبعَةٍ!" , قَالَ: فَقَالَ ابنُ عُمَرَ لِرَجُلٍ: أَكَذَاكَ يَا فُلَانُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَا شَعَرْتَ بهَذَا.
امام شعبی (رح) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک مرتبہ پوچھا کہ کیا ایک اونٹ اور ایک گائے سات آدمیوں کی طرف سے کافی ہوسکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا شعبی! کیا اس کی سات جانیں ہوتی ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو یہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات آدمیوں کی طرف سے ایک گائے اور ایک اونٹ مقرر فرمایا ہے اس پر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی سے پوچھا اے فلاں! کیا بات اسی طرح ہے؟ اس نے کہا جی ہاں! تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا مجھے اس کا پتہ نہیں چل سکا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، والحديث صحيح عن جابر