حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن عاصم ، عن زر ، قال: قلت لابي ، إن عبد الله، يقول: في المعوذتين، فقال: سالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عنهما، فقال:" قيل لي، فقلت: فانا اقول كما قال" ..حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ لِأُبَيٍّ ، إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ، يَقُولُ: فِي الْمُعَوِّذَتَيْنِ، فَقَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمَا، فَقَالَ:" قِيلَ لِي، فَقُلْتُ: فَأَنَا أَقُولُ كَمَا قَالَ" ..
زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کے متعلق کہتے ہیں (کہ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہیں اسی لئے وہ انہیں اپنے نسخے میں نہیں لکھتے؟) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سورتوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے کہنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ ("" قل "" کہہ دیجئے) لہٰذا میں کہہ دیتا ہوں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز کہی ہے وہ میں بھی کہتا ہوں۔ زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے معوذتین کے متعلق پوچھا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سورتوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے کہنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ ("" قل "" کہہ دیجئے) لہٰذا میں کہہ دیتا ہوں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز کہی ہے وہ ہم بھی کہتے ہیں۔ زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے معوذتین کے متعلق پوچھا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سورتوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے کہنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ ("" قل "" کہہ دیجئے) لہٰذا میں کہہ دیتا ہوں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز کہی ہے وہ ہم بھی کہتے ہیں۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند بھی مروی ہے۔ زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے معوذتین کے متعلق پوچھا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سورتوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے کہنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ ("" قل "" کہہ دیجئے) لہٰذا میں کہہ دیتا ہوں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز کہی ہے وہ ہم بھی کہتے ہیں۔ زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کے متعلق کہتے ہیں (کہ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہیں اسی لئے وہ انہیں اپنے نسخے میں نہیں لکھتے؟) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سورتوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے کہنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ ( «قل» کہہ دیجئے) لہٰذا میں کہہ دیتا ہوں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز کہی ہے وہ ہم بھی کہتے ہیں۔
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن عاصم ، عن زر ، قال: سالت ابي بن كعب عن المعوذتين، فقال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم عنهما، فقال:" قيل لي، فقلت لكم، فقولوا"، قال ابي، فقال لنا النبي صلى الله عليه وسلم، فنحن نقول..حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ عَنِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ، فَقَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمَا، فَقَالَ:" قِيلَ لِي، فَقُلْتُ لَكُمْ، فَقُولُوا"، قَالَ أُبَيٌّ، فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَحْنُ نَقُولُ..
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا سفيان ، عن عاصم ، عن زر ، قال: حدثني ابي بن كعب ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم على المعوذتين، فقال:" قيل لي، فقلت" قال ابي، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنحن نقول..حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُعَوِّذَتَيْنِ، فَقَالَ:" قِيلَ لِي، فَقُلْتُ" قَالَ أُبَيٌّ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَحْنُ نَقُولُ..
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن بهدلة ، عن زر ، قال: سالت ابيا عن المعوذتين، فقال: إني سالت عنهما رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" فقيل لي، فقلت" فامرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنحن نقول..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: سَأَلْتُ أُبَيًّا عَنِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ، فَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ عَنْهُمَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فَقِيلَ لِي، فَقُلْتُ" فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَحْنُ نَقُولُ..
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، قال: قلت لابي بن كعب ، إن ابن مسعود كان لا يكتب المعوذتين في مصحفه، فقال: اشهد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبرني ان جبريل، قال له:" قل اعوذ برب الفلق سورة الفلق آية 1، فقلتها، فقال: قل اعوذ برب الناس سورة الناس آية 1، فقلتها، فنحن نقول: ما قال النبي صلى الله عليه وسلم..حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ لَا يَكْتُبُ الْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي مُصْحَفِهِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَنِي أَنَّ جِبْرِيلَ، قَالَ لَهُ:" قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ سورة الفلق آية 1، فَقُلْتُهَا، فَقَالَ: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ سورة الناس آية 1، فَقُلْتُهَا، فَنَحْنُ نَقُولُ: مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ..
زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کے متعلق کہتے ہیں (کہ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہیں اسی لئے وہ انہیں اپنے نسخے میں نہیں لکھتے؟) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سورتوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے کہنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ (" قل " کہہ دیجئے) لہٰذا میں کہہ دیتا ہوں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز کہی ہے وہ ہم بھی کہتے ہیں۔
حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عبدة ، وعاصم ، عن زر ، قال: قلت لابي ، إن اخاك يحكهما من المصحف، قيل لسفيان ابن مسعود؟ فلم ينكر، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " قيل لي، فقلت" فنحن نقول كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال سفيان يحكهما المعوذتين، وليسا في مصحف ابن مسعود، كان يرى رسول الله صلى الله عليه وسلم يعوذ بهما الحسن والحسين، ولم يسمعه يقرؤهما في شيء من صلاته، فظن انهما عوذتان، واصر على ظنه، وتحقق الباقون كونهما من القرآن، فاودعوهما إياه .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدةَ ، وَعَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ لِأُبَيٍّ ، إِنَّ أَخَاكَ يَحُكُّهُمَا مِنَ الْمُصْحَفِ، قِيلَ لِسُفْيَانَ ابْنِ مَسْعُودٍ؟ فَلَمْ يُنْكِرْ، قَالَ: سَألتُ رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " قِيلَ لِي، فَقُلْتُ" فَنحن نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ سُفْيَان يُحُكُّهُمَا المَعُوذِّتين، وَلَيْسَا فِي مُصْحَفِ ابْنِ مَسْعُودٍ، كَانَ يَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ بِهِمَا الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ، وَلَمْ يَسْمَعْهُ يَقْرَؤُهُمَا فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ، فَظَنَّ أَنَّهُمَا عُوذَتَانِ، وَأَصَرَّ عَلَى ظَنِّهِ، وَتَحَقَّقَ الْبَاقُونَ كَوْنَهُمَا مِنَ الْقُرْآنِ، فَأَوْدَعُوهُمَا إِيَّاهُ .
زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کے متعلق کہتے ہیں (کہ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہیں اسی لئے وہ انہیں اپنے نسخے میں نہیں لکھتے؟) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سورتوں کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے کہنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔ (" قل " کہہ دیجئے) لہٰذا میں کہہ دیتا ہوں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز کہی ہے وہ ہم بھی کہتے ہیں۔
حدثنا مصعب بن سلام ، حدثنا الاجلح ، عن الشعبي ، عن زر بن حبيش ، عن ابي بن كعب ، قال: تذاكر اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة القدر، فقال ابي: " انا والذي لا إله غيره اعلم اي ليلة هي، هي الليلة التي اخبرنا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ليلة سبع وعشرين تمضي من رمضان، وآية ذلك ان الشمس تصبح الغد من تلك الليلة ترقرق ليس لها شعاع، فزعم سلمة بن كهيل ان زرا اخبره انه رصدها ثلاث سنين، من اول يوم يدخل رمضان إلى آخره، فرآها تطلع صبيحة سبع وعشرين، ترقرق، ليس لها شعاع" .حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سَلَّامٍ ، حَدَّثَنَا الْأَجْلَحُ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: تَذَاكَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، فَقَالَ أُبَيٌّ: " أَنَا وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ أَعْلَمُ أَيُّ لَيْلَةٍ هِيَ، هِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَخْبَرَنَا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ تَمْضِي مِنْ رَمَضَانَ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ الشَّمْسَ تُصْبِحُ الْغَدَ مِنْ تِلْكَ اللَّيْلَةِ تَرَقْرَقُ لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ، فَزَعَمَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ أَنَّ زِرًّا أَخْبَرَهُ أَنَّهُ رَصَدَهَا ثَلَاثَ سِنِينَ، مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ يَدْخُلُ رَمَضَانُ إِلَى آخِرِهِ، فَرَآهَا تَطْلُعُ صَبِيحَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، تَرَقْرَقُ، لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ" .
زر سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شب قدر کا ذکر کرنے لگے تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اس رات کے متعلق سب سے زیادہ مجھے معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس حوالے سے جس رات کی خبر دی ہے وہ رمضان کی ستائیسویں شب ہے اور اس کی نشانی یہ ہے کہ اس رات کے گذرنے کے بعد اگلے دن جب سورج طلوع ہوتا ہے تو وہ گھومتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اس کی شعاع نہیں ہوتی۔
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ زر کے بقول وہ تین سال سے مسلسل ماہ رمضان کے آغاز سے لے کر اختتام تک اسے تلاش کر رہے ہیں انہوں نے ہمیشہ سورج کو اس کیفیت کے ساتھ ستائیسویں شب کی صبح کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 792، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل مصعب والأجلح، فهما ضعيفان يعتبر بهما، لكنهما قد توبعا
زر سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس حوالے سے جس رات کی خبر دی ہے وہ رمضان کی ستائیسویں شب ہے اور اس کی نشانی یہ ہے کہ اس رات کے گذرنے کے بعد اگلے دن سورج طلوع ہوتا ہے تو وہ گھومتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اس کی شعاع نہیں ہوتی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 792، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل الأجلح لكنه توبع
حدثنا عبد الله وحدثناه عثمان بن ابي شيبة حدثنا ابن إدريس بإسناده عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله وزاد فيه ليس لها شعاعحَدَّثَنَا عَبْدُ الله وحَدَّثَنَاه عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ بِإِسْنَادِهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ وَزَادَ فِيهِ لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 792، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل الأجلح، لكنه توبع
حدثنا سفيان ، قال: سمعته من عبدة ، وعاصم ، عن زر ، قال: سالت ابيا ، قلت: ابا المنذر، إن اخاك ابن مسعود يقول: من يقم الحول، يصب ليلة القدر! فقال: يرحمه الله، لقد علم انها في شهر رمضان، وانها ليلة سبع وعشرين، قال: وحلف، قلت: وكيف تعلمون ذلك؟ قال: بالعلامة او بالآية التي اخبرنا بها ان الشمس تطلع ذلك اليوم لا شعاع لها .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ مِنْ عَبْدَةَ ، وَعَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: سَأَلْتُ أُبَيًّا ، قُلْتُ: أَبَا الْمُنْذِرِ، إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ: مَنْ يَقُمْ الْحَوْلَ، يُصِبْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ! فَقَالَ: يَرْحَمُهُ اللَّهُ، لَقَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، قَالَ: وَحَلَفَ، قُلْتُ: وَكَيْفَ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالَ: بِالْعَلَامَةِ أَوْ بِالْآيَةِ الَّتِي أُخْبِرْنَا بِهَا أَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ ذَلِكَ الْيَوْمَ لَا شُعَاعَ لَهَا .
زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص سارا سال قیام کرے وہ شب قدر پاسکتا ہے؟ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوں وہ جانتے ہیں کہ شب قدر ماہ رمضان میں ہوتی ہے اور اس کی بھی ستائیسویں شب ہوتی ہے (لیکن وہ لوگوں سے اسے مخفی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں) پھر انہوں نے اس بات پر قسم کھائی (کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی شب قدر ماہ رمضان کی ستائیسویں شب ہوتی ہے) میں نے عرض کیا (اے ابو المنذر!) آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟ فرمایا اس علامت سے جو ہمیں بتائی گئی ہے کہ اس رات کی صبح کو جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن سفيان ، حدثني عاصم ، عن زر ، قال: قلت لابي : اخبرني عن ليلة القدر، فإن ابن ام عبد كان يقول: من يقم الحول، يصبها! قال: يرحم الله ابا عبد الرحمن، قد علم انها في رمضان، وانها لسبع وعشرين، ولكنه عمى على الناس لكي لا يتكلوا، فوالله الذي انزل الكتاب على محمد، إنها في رمضان ليلة سبع وعشرين، قال: قلت: يا ابا المنذر، وانى علمتها؟ قال: بالآية التي انبانا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعددنا وحفظنا، فوالله إنها لهي ما يستثنى، قلت لزر ما الآية؟ قال: " إن الشمس تطلع غداة إذ كانها طست، ليس لها شعاع" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ لِأُبَيٍّ : أَخْبِرْنِي عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَإِنَّ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ كَانَ يَقُولُ: مَنْ يَقُمْ الْحَوْلَ، يُصِبْهَا! قَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ، وَأَنَّهَا لِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَلَكِنَّهُ عَمَّى عَلَى النَّاسِ لِكَيْ لَا يَتَّكِلُوا، فَوَاللَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ عَلَى مُحَمَّدٍ، إِنَّهَا فِي رَمَضَانَ لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، وَأَنَّى عَلِمْتَهَا؟ قَالَ: بِالْآيَةِ الَّتِي أَنْبَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَدَدْنَا وَحَفِظْنَا، فَوَاللَّهِ إِنَّهَا لَهِيَ مَا يُسْتَثْنَى، قُلْتُ لِزِرٍّ مَا الْآيَةُ؟ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ غَدَاةَ إِذٍ كَأَنَّهَا طَسْتٌ، لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ" .
زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے شب قدر کے متعلق بتائیے کیونکہ آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص سارا سال قیام کرے وہ شب قدر پاسکتا ہے؟ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوں وہ جانتے ہیں کہ شب قدر ماہ رمضان میں ہوتی ہے اور اس کی بھی ستائیسویں شب ہوتی ہے لیکن وہ لوگوں سے اسے مخفی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں پھر انہوں نے اس بات پر قسم کھائی کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی شب قدر ماہ رمضان کی ستائیسویں شب ہوتی ہے میں نے عرض کیا اے ابوالمنذر! آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟ فرمایا اس علامت سے جو ہمیں بتائی گئی ہے کہ اس رات کی صبح کو جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت عبدة بن ابي لبابة يحدث، عن زر بن حبيش ، قال: قال ابي ليلة القدر والله إني لاعلمها، قال شعبة: واكثر علمي هي الليلة التي امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بقيامها، هي ليلة سبع وعشرين، وإنما شك شعبة في هذا الحرف هي الليلة التي امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وحدثني صاحب لي بها عنه .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَةَ بْنَ أَبِي لُبَابَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، قَالَ: قَالَ أُبَيٌّ لَيْلَةُ الْقَدْرِ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُهَا، قَالَ شُعْبَةُ: وَأَكْثَرُ عِلْمِي هِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقِيَامِهَا، هِيَ لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَإِنَّمَا شَكَّ شُعْبَةُ فِي هَذَا الْحَرْفِ هِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي صَاحِبٌ لِي بِهَا عَنْهُ .
زر سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ واللہ شب قدر کے متعلق سب سے زیادہ مجھے معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس حوالے سے جس رات کی خبر دی ہے وہ رمضان کی ستائیسویں شب ہے۔
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا سفيان بن سعيد ، عن عاصم ، عن زر ، قال: قال لي: ابي ، إنها ليلة سبع وعشرين، وإنها لهي هي ما يستثنى بالآية التي حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحسبنا وعددنا، فإنها لهي هي ما يستثنى .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي: أُبَيٌّ ، إِنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَإِنَّهَا لَهِيَ هِيَ مَا يُسْتَثْنَى بِالْآيَةِ الَّتِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَسَبْنَا وَعَدَدْنَا، فَإِنَّهَا لَهِيَ هِيَ مَا يُسْتَثْنَى .
زر کہتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شب قدر ماہ رمضان کی ستائیسویں شب ہوتی ہے اس علامت سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائی ہے ہم نے اس کا حساب لگایا اور اسے شمار کیا تو یہ وہی رات تھی۔
حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن ابي بكر المقدمي ، وخلف بن هشام البزار ، وعبيد الله بن عمر القواريري ، قالوا: حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا عاصم ، عن زر ، قال: قلت لابي بن كعب : ابا المنذر اخبرني عن ليلة القدر، فإن صاحبنا يعني ابن مسعود، كان إذا سئل عنها، قال: من يقم الحول، يصبها، فقال: يرحم الله ابا عبد الرحمن، اما والله لقد علم انها في رمضان، ولكن احب ان لا يتكلوا، وإنها ليلة سبع وعشرين لم يستثن، قلت ابا المنذر، انى علمت ذلك؟ قال: بالآية التي قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صبيحة ليلة القدر تطلع الشمس لا شعاع لها كانها طست حتى ترتفع"، وهذا لفظ حديث المقدمي، حدثنا عفان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا عاصم، عن زر، قال: قلت لابي بن كعب: ابا المنذر، اخبرني عن ليلة القدر، فذكر الحديث، قال: فقلت: يا ابا المنذر، انى علمت ذلك؟ قال: بالآية التي اخبرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا عَبْدُ الله، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، وَخَلَفُ بْنُ هِشَامٍ الْبَزَّارُ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ : أَبَا الْمُنْذِرِ أَخْبِرْنِي عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَإِنَّ صَاحِبَنَا يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ، كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْهَا، قَالَ: مَنْ يَقُمْ الْحَوْلَ، يُصِبْهَا، فَقَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ، وَلَكِنْ أَحَبَّ أَنْ لَا يَتَّكِلُوا، وَإِنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ لَمْ يَسْتَثْنِ، قُلْتُ أَبَا الْمُنْذِرِ، أَنَّى عَلِمْتَ ذَلِكَ؟ قَالَ: بِالْآيَةِ الَّتِي قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صُبِيْحَةَ لَيْلَةِ الْقَدْرِ تَطْلُعُ الشَّمْسُ لَا شُعَاعَ لَهَا كَأَنَّهَا طَسْتٌ حَتَّى تَرْتَفِعَ"، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ الْمُقَدَّمِيِّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ زِرٍّ، قَالَ: قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: أَبَا الْمُنْذِرِ، أَخْبِرْنِي عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، أَنَّى عَلِمْتَ ذَلِكَ؟ قَالَ: بِالْآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
زر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے شب قدر کے متعلق بتائیے کیونکہ آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص سارا سال قیام کرے وہ شب قدر پاسکتا ہے؟ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوں وہ جانتے ہیں کہ شب قدر ماہ رمضان میں ہوتی ہے اور اس کی بھی ستائیسویں شب ہوتی ہے لیکن وہ لوگوں سے اسے مخفی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں پھر انہوں نے اس بات پر قسم کھائی کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی شب قدر ماہ رمضان کی ستائیسویں شب ہوتی ہے میں نے عرض کیا اے ابو المنذر! آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟ فرمایا اس علامت سے جو ہمیں بتائی گئی ہے کہ اس رات کی صبح کو جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی۔
زر کہتے ہیں کہ اگر بیوقوف لوگ نہ ہوتے تو میں اپنے ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ یہ منادی کردیتا کہ شب قدر ماہ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے آخری سات راتوں میں خواہ پہلی تین راتیں ہوں یا بعد کی یہ اس شخص کی خبر ہے جس نے مجھ سے جھوٹ نہیں بولا اس شخص کے حوالے سے ہے جس سے بیان کرنے والے نے جھوٹ نہیں بولا (مراد حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال يزيد بن أبى سليمان
حدثنا عبد الله، حدثني العباس بن الوليد النرسي ، حدثنا حماد بن شعيب ، عن عاصم ، عن زر بن حبيش ، عن عبد الله، انه قال في ليلة القدر من يقم الحول يصبها، فانطلقت حتى قدمت على عثمان بن عفان، واردت لقي اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من المهاجرين والانصار، قال عاصم فحدثني انه لزم ابي بن كعب وعبد الرحمن بن عوف، فزعم انهما كانا يقومان حتى تغرب الشمس، فيركعان ركعتين قبل المغرب، قال: فقلت لابي : وكانت فيه شراسة اخفض لنا جناحك رحمك الله، فإني إنما اتمتع منك تمتعا، فقال: تريد ان لا تدع آية في القرآن إلا سالتني عنها!، قال: وكان لي صاحب صدق، فقلت: يا ابا المنذر، اخبرني عن ليلة القدر فإن ابن مسعود، يقول: من يقم الحول يصبها، فقال: والله لقد علم عبد الله انها في رمضان، ولكنه عمى على الناس لكيلا يتكلوا، والله الذي انزل الكتاب على محمد إنها لفي رمضان، وإنها ليلة سبع وعشرين، فقلت: يا ابا المنذر، انى علمت ذلك؟ قال: بالآية التي انبانا بها محمد صلى الله عليه وسلم، فعددنا وحفظنا، فوالله إنها لهي ما يستثنى، قال: فقلت: وما الآية؟ فقال: " إنها تطلع حين تطلع ليس لها شعاع حتى ترتفع"، وكان عاصم ليلتئذ من السحر لا يطعم طعاما، حتى إذا صلى الفجر، صعد على الصومعة، فنظر إلى الشمس حين تطلع لا شعاع لها، حتى تبيض وترتفع .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ النَّرْسِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّه، أَنَّهُ قَالَ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ مَنْ يَقُمْ الْحَوْلَ يُصِبْهَا، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى قَدِمْتُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَأَرَدْتُ لُقِيَّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ، قَالَ عَاصِمٌ فَحَدَّثَنِي أَنَّهُ لَزِمَ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، فَزَعَمَ أَنَّهُمَا كَانَا يَقُومَانِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَيَرْكَعَانِ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِأُبَيٍّ : وَكَانَتْ فِيهِ شَرَاسَةٌ اخْفِضْ لَنَا جَنَاحَكَ رَحِمَكَ اللَّهُ، فَإِنِّي إِنَّمَا أَتَمَتَّعُ مِنْكَ تَمَتُّعًا، فَقَالَ: تُرِيدُ أَنْ لَا تَدَعَ آيَةً فِي الْقُرْآنِ إِلَّا سَأَلْتَنِي عَنْهَا!، قَالَ: وَكَانَ لِي صَاحِبَ صِدْقٍ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، أَخْبِرْنِي عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ فَإِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ: مَنْ يَقُمْ الْحَوْلَ يُصِبْهَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمَ عَبْدُ اللَّهِ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ، وَلَكِنَّهُ عَمَّى عَلَى النَّاسِ لِكَيْلَا يَتَّكِلُوا، وَاللَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ عَلَى مُحَمَّدٍ إِنَّهَا لَفِي رَمَضَانَ، وَإِنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، أَنَّى عَلِمْتَ ذَلِكَ؟ قَالَ: بِالْآيَةِ الَّتِي أَنْبَأَنَا بِهَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَدَدْنَا وَحَفِظْنَا، فَوَاللَّهِ إِنَّهَا لَهِيَ مَا يُسْتَثْنَى، قَالَ: فَقُلْتُ: وَمَا الْآيَةُ؟ فَقَالَ: " إِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ حَتَّى تَرْتَفِعَ"، وَكَانَ عَاصِمٌ لَيْلَتَئِذٍ مِنَ السَّحَرِ لَا يَطْعَمُ طَعَامًا، حَتَّى إِذَا صَلَّى الْفَجْرَ، صَعِدَ عَلَى الصَّوْمَعَةِ، فَنَظَرَ إِلَى الشَّمْسِ حِينَ تَطْلُعُ لَا شُعَاعَ لَهَا، حَتَّى تَبْيَضَّ وَتَرْتَفِعَ .
زر کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ جو شخص سارا سال قیام کرے وہ شب قدر پاسکتا ہے؟ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا میرا ارادہ تھا کہ مہاجرین و انصار میں سے کسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے ملوں چنانچہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ساتھ چمٹا رہا یہ دونوں حضرات غروب آفتاب کے بعد اٹھتے اور مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے حضرت ابی رضی اللہ عنہ کے مزاج میں تھوڑی سی سختی تھی، میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی رحمتیں آپ پر نازل ہوں میرے ساتھ شفقت کیجئے میں آپ سے کچھ فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں انہوں نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ قرآن کریم کی کوئی آیت نہ چھوڑو گے جس کے متعلق مجھ سے پوچھ نہ لو؟ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص سارے سال قیام کرے وہ شب قدر کو پاسکتا ہے؟ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوں وہ جانتے ہیں کہ شب قدر ماہ رمضان میں ہوتی ہے اور اس کی بھی ستائیسویں شب ہوتی ہے لیکن وہ لوگوں سے اسے مخفی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں پھر انہوں نے اس بات پر قسم کھائی کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی شب قدر ماہ رمضان کی ستائیسویں شب ہوتی ہے میں نے عرض کیا اے ابو المنذر! آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟ فرمایا اس علامت سے جو ہمیں بتائی گئی ہے کہ اس رات کی صبح کو جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی، چنانچہ عاصم اس دن کی سحری نہیں کرتے تھے جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو چھت پر چڑھ کر سورج کو دیکھتے اس وقت اس کی شعاع نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ وہ روشن ہوجاتا اور بلند ہوجاتا۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف حماد ابن شعيب، لكنه توبع
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا حجاج بن ارطاة ، عن عدي بن ثابت ، عن زر بن حبيش ، عن ابي ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من تبع جنازة حتى يصلى عليها، ويفرغ منها، فله قيراطان، ومن تبعها حتى يصلى عليها، فله قيراط، والذي نفس محمد بيده لهو اثقل في ميزانه من احد" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ أُبَيٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهَا، وَيُفْرَغَ مِنْهَا، فَلَهُ قِيرَاطَانِ، وَمَنْ تَبِعَهَا حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهَا، فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَهُوَ أَثْقَلُ فِي مِيزَانِهِ مِنْ أُحُدٍ" .
زر سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جنازے کے ساتھ جائے اور نماز جنازہ میں شریک ہو اسے ایک قیراط ثواب ملے گا اور جو شخص دفن ہونے تک جنازے کے ساتھ رہے تو اسے دو قیراط ثواب ملے گا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے وہ ایک قیراط میزان عمل میں احد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہوگا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، حجاج بن أرطاة مدلس، وقد عنعن، لكنه توبع
حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، عن عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، عن ابي بن كعب ، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله امرني ان اقرا عليك القرآن، قال فقرا لم يكن الذين كفروا من اهل الكتاب سورة البينة آية 1"، قال: فقرا فيها" ولو ان ابن آدم سال واديا من مال فاعطيه لسال ثانيا، ولو سال ثانيا فاعطيه لسال ثالثا، ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب، ويتوب الله على من تاب، وإن ذلك الدين عند الله الحنيفية، غير المشركة، ولا اليهودية، ولا النصرانية، ومن يفعل خيرا، فلن يكفره" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ، قَالَ فَقَرَأَ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ سورة البينة آية 1"، قَالَ: فَقَرَأَ فِيهَا" وَلَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ سَأَلَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ فَأُعْطِيَهُ لَسَأَلَ ثَانِيًا، ولو سَأْلَ ثَانيًا فَأُعْطِيَهُ لَسَأَلَ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ، وَإِنَّ ذَلِكَ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ، غَيْرُ الْمُشْرِكَةِ، وَلَا الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ، وَمَنْ يَفْعَلْ خَيْرًا، فَلَنْ يُكْفَرَهُ" .
زر سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت البینہ پڑھ کر سنائی اور اس میں یہ آیات بھی پڑھیں اگر ابن آدم مال کی ایک وادی مانگے اور وہ اسے دے دی جائے تو وہ دوسری کا سوال کرے گا اور اگر دوسری کا سوال کرنے پر وہ بھی مل جائے تو تیسری کا سوال کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ مٹی کا علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو شخص توبہ کرتا ہے اللہ اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور یہ دین اللہ کے نزدیک " حنیفیت " کا نام ہے جس میں شرک، یہودیت یا عیسائیت قطعًا نہیں ہے اور جو شخص نیکی کا کوئی بھی کام کرے گا اس کا انکار ہرگز نہیں کیا جائے گا، (بعد میں یہ آیات منسوخ ہوگئیں)
حدثنا عبد الله، حدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا سلم بن قتيبة ، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن بهدلة ، عن زر ، عن ابي بن كعب ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله امرني ان اقرا عليك"، قال: فقرا علي لم يكن الذين كفروا من اهل الكتاب والمشركين منفكين حتى تاتيهم البينة رسول من الله يتلو صحفا مطهرة فيها كتب قيمة وما تفرق الذين اوتوا الكتاب إلا من بعد ما جاءتهم البينة سورة البينة آية 1 - 4،" إن الدين عند الله الحنيفية، غير المشركة، ولا اليهودية، ولا النصرانية، ومن يفعل خيرا، فلن يكفره"، قال شعبة ثم قرا آيات بعدها، ثم قرا" لو ان لابن آدم واديين من مال، لسال واديا ثالثا، ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب"، قال: ثم ختمها بما بقي منها .حَدَّثَنَا عَبْدُ الله، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا سَلَمُ بْنُ قُتَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ"، قَالَ: فَقَرَأَ عَلَيَّ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ رَسُولٌ مِنَ اللَّهِ يَتْلُو صُحُفًا مُطَهَّرَةً فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ سورة البينة آية 1 - 4،" إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ، غَيْرُ الْمُشْرِكَةِ، وَلَا الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ، وَمَنْ يَفْعَلْ خَيْرًا، فَلَنْ يُكْفَرَهُ"، قَالَ شُعْبَةُ ثُمَّ قَرَأَ آيَاتٍ بَعْدَهَا، ثُمَّ قَرَأَ" لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَيْنِ مِنْ مَالٍ، لَسَأَلَ وَادِيًا ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ"، قَالَ: ثُمَّ خَتَمَهَا بِمَا بَقِيَ مِنْهَا .
زر سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت البینہ پڑھ کر سنائی اور اس میں یہ آیات بھی پڑھیں اگر ابن آدم مال کی ایک وادی مانگے اور وہ اسے دے دی جائے تو وہ دوسری کا سوال کرے گا اور اگر دوسری کا سوال کرنے پر وہ بھی مل جائے تو تیسری کا سوال کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ مٹی کا علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو شخص توبہ کرتا ہے اللہ اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور یہ دین اللہ کے نزدیک " حنیفیت " کا نام ہے جس میں شرک، یہودیت یا عیسائیت قطعًا نہیں ہے اور جو شخص نیکی کا کوئی بھی کام کرے گا اس کا انکار ہرگز نہیں کیا جائے گا، (بعد میں یہ آیات منسوخ ہوگئیں)
حدثنا حسين بن علي الجعفي ، عن زائدة ، عن عاصم ، عن زر ، عن ابي ، قال: لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم جبريل عند احجار المراء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لجبريل: " إني بعثت إلى امة اميين، فيهم الشيخ العاصي، والعجوزة الكبيرة، والغلام" قال: فمرهم، فليقرءوا القرآن على سبعة احرف ، حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم ، حدثنا زائدة ، حدثنا عاصم ، عن زر ، عن ابي ، قال ابو سعيد، وقال حماد بن سلمة: عن حذيفة، قال: لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم جبريل عند احجار المراء، فذكر الحديث.حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ أُبَيٍّ ، قَالَ: لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلُ عِنْدَ أَحْجَارِ الْمِرَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجِبْرِيلَ: " إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أُمَّةٍ أُمِّيِّينَ، فِيهِمْ الشَّيْخُ الْعَاصِي، وَالْعَجُوزَةُ الْكَبِيرَةُ، وَالْغُلَامُ" قَالَ: فَمُرْهُمْ، فَلْيَقْرَءُوا الْقُرْآنَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ أُبَيٍّ ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ، وَقَالَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ: عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلُ عِنْدَ أَحْجَارِ الْمِرَاءِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
زر سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مقام " احجازالمراء " میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ مجھے ایک ایسی امت کی طرف مبعوث کیا گیا ہے جو امی ہے اس میں انتہائی بوڑھے مرد و عورت بھی ہیں اور غلام بھی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ آپ نے انہیں حکم دیجئے کہ وہ قرآن کریم کو سات حروف پر پڑھیں۔
حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم حدثنا زائدة حدثنا عاصم عن زر عن ابي قال ابو سعيد وقال حماد بن سلمة: عن حذيفة قال: لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم جبريل عند احجار المراء فذكر الحديثحَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ عَنْ زِرٍّ عَنْ أُبَيٍّ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ وَقَالَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ: عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلُ عِنْدَ أَحْجَارِ الْمِرَاءِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ
زر سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم لوگ سورت احزاب کی کتنی آیتیں پڑھتے ہو؟ زر نے جواب دیا کہ ستر سے کچھ زائد آیتیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سورت جب پڑھی تھی تو یہ سورت بقرہ کے برابر یا اس سے بھی زیادہ تھی اور اس میں آیت رجم بھی تھی (کہ اگر کوئی شادی شدہ مرد و عورت بدکاری کا ارتکاب کریں تو انہیں لازماً رجم کردو یہ سزا ہے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے)
حدثنا حدثنا عبد الله، حدثنا خلف بن هشام ، حدثنا حماد بن زيد ، عن عاصم بن بهدلة ، عن زر ، قال: قال لي ابي بن كعب : كاين تقرا سورة الاحزاب؟ او كاين تعدها؟ قال: قلت له: ثلاثا وسبعين آية، فقال: قط، لقد رايتها وإنها لتعادل سورة البقرة، ولقد قرانا فيها" الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة نكالا من الله والله عليم حكيم" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ : كَأَيِّنْ تَقْرَأُ سُورَةَ الْأَحْزَابِ؟ أَوْ كَأَيِّنْ تَعُدُّهَا؟ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: ثَلَاثًا وَسَبْعِينَ آيَةً، فَقَالَ: قَطُّ، لَقَدْ رَأَيْتُهَا وَإِنَّهَا لَتُعَادِلُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، وَلَقَدْ قَرَأْنَا فِيهَا" الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ" .
زر سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم لوگ سورت احزاب کی کتنی آیتیں پڑھتے ہو؟ زر نے جواب دیا کہ ستر سے کچھ زائد آیتیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سورت جب پڑھی تھی تو یہ سورت بقرہ کے برابر یا اس سے بھی زیادہ تھی اور اس میں آیت رجم بھی تھی (کہ اگر کوئی شادی شدہ مرد و عورت بدکاری کا ارتکاب کریں تو انہیں لازماً رجم کردو یہ سزا ہے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عاصم بن بهدلة له أوهام بسبب سوء حفظه، فلا يحتمل تفرده بمثل هذا المتن
زیاد انصاری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری ازواج مطہرات کا انتقال ہوجاتا تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دوسری شادی کرنا جائز ہوتا؟ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے حرام کس نے کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آپ کے لئے اس کے بعد کسی عورت سے نکاح حلال نہیں ہے انہوں نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کئی قسم کی عورتیں حلال کی گئی تھیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة زياد الأنصاري، ومحمد بن أبى موسى
حدثنا عبد الله، حدثنا احمد بن محمد بن ايوب ، حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن عاصم ، عن زر ، قال: اتيت المدينة، فدخلت المسجد، فإذا انا بابي بن كعب ، فاتيته، فقلت: يرحمك الله ابا المنذر، اخفض لي جناحك وكان امرا فيه شراسة فسالته عن ليلة القدر، فقال: ليلة سبع وعشرين، قلت ابا المنذر: انى علمت ذلك؟ قال: بالآية التي اخبرنا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعددنا وحفظنا، وآية ذلك ان تطلع الشمس في صبيحتها مثل الطست لا شعاع لها، حتى ترتفع .حَدَّثَنَا عَبْد الله، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا أَنَا بِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ أَبَا الْمُنْذِرِ، اخْفِضْ لِي جَنَاحَكَ وَكَانَ امْرَأً فِيهِ شَرَاسَةٌ فَسَأَلْتُهُ عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَقَالَ: لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، قُلْتُ أَبَا الْمُنْذِرِ: أَنَّى عَلِمْتَ ذَلِكَ؟ قَالَ: بِالْآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَدَدْنَا وَحَفِظْنَا، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فِي صَبِيحَتِهَا مِثْلَ الطَّسْتِ لَا شُعَاعَ لَهَا، حَتَّى تَرْتَفِعَ .
زر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا مسجد نبوی میں داخل ہوا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی میں نے عرض کیا اے ابو المنذر! اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوں مجھ پر شفقت فرمائیے دراصل آپ کے مزاج میں تھوڑی سی سختی تھی، میں نے ان سے شب قدر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ستائیسویں شب کو قرار دیا میں نے عرض کیا کیا (اے ابوالمنذر!) آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟ فرمایا اس علامت سے جو ہمیں بتائی گئی ہے کہ اس رات کی صبح کو جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی۔